Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, January 31, 2018

طوطے کا وطن اور بندروں کا دادا


باغوں اور باغیچوں کے اس شہر میں بحرالکاہل کی طرف خنک ہوا کے جھونکے چلے آئے جارہے ہیں ۔ درجہ حرارت جوکل اس وقت تیس سے اوپر تھا ‘اٹھارہ ہوچلا ہے۔۔سفر کی شام ہے۔ساعتیں بوجھل ہو رہی ہیں ۔شاید ہوا میں پانی کے قطرے ہیں جو وہ سمندر سے اٹھا لائی ہے۔ ایسے میں پروفیسر معظم طاہر منہاس یاد آرہے ہیں ۔

پروفیسر معظم طاہر منہاس ان چند انگلیوں پر گنی جا نے والی شخصیتوں میں سے ہیں جن سے کالم نگار اپنی زندگی میں انسپائر ہوا ہے۔جن کے ہر جملے سے کچھ سیکھا ہے۔ ہر نشست سے ثروت مند ہوکر اٹھے ہیں ۔

ایزرا پاؤنڈ سے لے کر ٹی ایس ایلیٹ تک سب کو پڑھ ڈالا تھا اور اپنی طرف سے خود ہی اپنی دستار بندی کر ڈالی تھی۔۔پھرزندگی کے ایک موڑ پر پروفیسر صاحب ملے ۔انہوں نے شکسپیئر سے لے کر ایلیٹ تک سب کے نئے معانی بتائے نئی پرتیں دکھائیں ۔ اسلام آباد کلب کی لمحہ لمحہ شام میں ‘جب سائے باہر لمبے ہورہے تھے ‘انہوں نے بتایا

I have measured out my life with coffee spoons

تو تب معلوم ہواایلیٹ اصل میں کیا کہنا چاہتا تھا۔!

پروفیسر معظم منہاس نے بیس سال مڈل ایسٹ میں  انگریزی ادب پڑھایا۔ایک گرم صبح ان پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ عربی پڑھے سمجھے  جانے بغیر وہ عربوں کو انگریزی پڑھاتے تو رہیں گے مگر پڑھانے کا حق ادا نہیں ہوگا۔ اس صبح انہوں نے عربی سیکھنے پر کمر  باندھ لی اور پیچھے مُڑ کر اس وقت دیکھا جب وہ کتابی(فصیح ) عربی اور مقامی 
colloquial 
عربی دونوں کے دریا پار کرچکے تھے۔پھر انہوں نے بدوؤں ‘شیخوں شہزادوں سب کو پڑھایا۔ عزم مصمم ان کی زندگی کی وہ کلید ہے جس سے انہوں نے سارے دروازے کھولے۔ جس خاتون سے شادی کرنا چاہتے تھے ‘نہیں ہورہی تھی ۔پروفیسر صاحب انتظار کرتے رہے۔ طویل جانکاہ انتظار! یہاں تک کہ ان کا شباب ڈھل کر چاندی میں تبدیل ہونے لگا مگر گوہر مقصود حاصل کرکے رہے۔ وہ ہماری بھابھی بھی ہیں ،اور بہن بھی۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم حاضر ہوں اور  دستر خوان نہ بچھے ۔فیاضی چاند کی کرنوں کی طرح دونوں کی دلکش شخصیتوں سے چھن چھن کر باہر آتی ہے اور یمین و یسار کو اور بالا و پست کو روشن کرتی جاتی ہے۔

اڑسٹھ سال (نصف جن کے چونتیس سال ہوتے ہیں ) کی عمر میں پروفیسر صاحب نے اعلان کیا کہ وہ قانون کاامتحان پاس کرنے کاارادہ باندھ رہے ہیں ۔ کہاں انگریزی ادب کا بحر ذخار اور کہاں قانون کا لق د دق بے آب و گیاہ چٹیل میدان ۔ساری زندگی تو انہوں نے انگریزی ادبیات میں گزاری تھی۔انگریزی لکھتے تو یوں لگتا جیسے ستارے قطار اندرقطار اتر رہے ہوں ۔ انگریزی ادب میں باقائدہ کالم نگاری کی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایاز میر صاحب اور پروفیسر صاحب کے سوا کسی غیر انگریز  کی انگریزی نے دل اور آنکھوں کو تسخیر ہی نہیں کیا اور کیا اتفاق ہے کہ دونوں  کا تعلق ایک ہی علاقے سے ہے۔

کہاں انگریزی ادب   کہاں قانون!مگر ایک دن معلوم ہوا وہ امتحان پاس بھی کرچکے اور قانون کی پریکٹس بھی شروع کردی ۔جج کے سامنے وہ قانون کی چادر تو لپیٹ کر آتے ہی تھے ‘انگریزی بولتے تو منہ حیرت کے مارے کھل جاتے ۔آنکھیں علم کی دمک سے خیرہ ہوجاتیں ۔مسندِ انصاف پر بیٹھنے والے’دل ہی دل میں ‘زانوئے تلمذ تہہ کر لیتے اور ہر لفظ سے کچھ نہ کچھ سیکھتے۔

پروفیسر صا حب سے پہلا تعارف یار طرح دار   فاروق گیلانی کے توسط سے ہوا ۔کلب میں شام کو بیٹھنے والوں میں  ہم سب اکٹھے تھے۔فاروق گیلانی کی الم ناک وفات نے جہاں اس کالم نگار کو نامکمل کر ڈالا ‘وہاں پروفیسر صاحب بھی بری طر ح متاثر  ہوئے۔ یہ عجیب بات ہے 2010 میں جب میں پہلی بار آسٹریلیا کے لیے رختِ سفر باندھ رہا تھا ‘ تو فاروق گیلانی بار بار منع کررہے تھے۔ اسلام آباد کلب میں شام کی نشست سے وہ مجھے غیر حاضر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ کوئی ایک بھی ایسا دن نہ تھا جب انہوں نے ٹیلی فون کرکے تلقین نہ کی ہو کہ اتنے بجے تم نے کلب پہنچ جانا ہے۔ سفر کا سلسلہ کنفرم ہوا تو انہوں نے الوداعی دعوتیں شروع کردیں ۔ دل ان کا بجھا  بجھا  تھا ۔  فرزانہ  بھابھی نے بتایا کہ کہتے ہیں یوں لگتا ہے ہاتھ سے موتی پھسلا جارہا ہے۔ خود دعوت کی پھر ان کی دختران نیک اختر نے الگ الگ ابو کے دوست کے  لیے دستر خوان سجائے۔

واپس آکر 2011 میں دوبارہ آسٹریلیا چلا گیا ۔ہر ہفتے فون کرکے پوچھتے کب آ رہے ہو۔واپسی کی تاریخ طے ہوئی تو انہیں اطلاع دی مگر موتی تو وہ خود تھے جو ہمارے ہاتھوں سے پھسل کر دور جا رہے  تھے  ۔ ایک  اداس ‘سرد دوپہر تھی جب اسلام آباد سے معاذ کا فون آیا۔ وہ کچھ اکھڑا اکھڑا لگ رہا تھا۔ کچھ بتانا چاہتا تھا اور بتا نہیں رہا تھا۔ پھر اس نے دل کڑا کیا اور کہہ دیا کہ گیلانی انکل چلے گئے۔
بہت مجتمع کرنے کی کوشش کی اپنے آپ کو مگر تھوڑی دیر میں بند ٹوٹ گیا۔ شام کو حالت زیادہ قابل رحم ہوئی تو ڈاکٹر اسرار نے ماں باپ دونوں کو گاڑی میں بٹھایا  اور ایک پُر رونق سیر گاہ میں لے گیا۔ مگر عزیز اعجاز کا لازوال شعر چھلکتے بازاروں اور دمکتی سیر گاہوں میں کہاں چین لینے دیتا ہے
؎ جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے
پروفیسر صاحب کو فون کیا تو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے ۔”اظہار صاحب ! کچھ بھی نہیں بچا،گیلانی صاحب چھوڑ کر چلے گئے”۔
یہ سب تمہید تھی! اصل بات جو لکھنا مقصود ہے اور ہے۔ دوتین سا ل بعد’ ایک بار حسبِ معمول بحرالکاہل کے کناروں سے واپسی ہوئی  تو فرزانہ بھابھی نے’اپنے گھر کی روایت کے مطابق دعوت کی۔ احباب بھی تھے۔ ایک صاحب نے پوچھا۔ اظہار صاحب !کیا آپ آسٹریلیا میں خوش رہتے ہیں ؟ اس سے پہلے کہ جواب دیتا ‘پروفیسر صاحب کا علم حکمت اور دانائی بروئے  کار آئی،انہوں نے کہا خوش  نہیں رہتے ،
آرام سے رہتے ہیں ۔ انہوں نے
 comfortable

 کا لفظ استعمال کیا ۔
یہ ہے لبِ لباب ساری کہانی کا اور یہ ہے وہ فرق جو اس ساری طویل تمہید سے بتانا مقصود تھا۔ خوشی اور کمفرٹ (آرام) میں زمین آسمان کا فرق ہے۔!آج جب وطن واپسی ہے ۔سفر کی شام ہے اور نو ہفتے بعد پلٹنا ہے  تو پروفیسر صاحب کی بات یاد آرہی ہے اور مسلسل یاد آرہی ہے۔

کیا نہیں ہے ان ترقی یافتہ ملکوں میں !ہر طرح کا آرام۔ ہر قبیل کا کمفرٹ ،برقی رو جانے کا تصور ہی ناپید ہے۔ یو پی ایس کا کسی نے نام ہی نہیں سنا۔ اتنے بڑے بڑے مال کہ ہمارے گاؤں کے گاؤں ان میں سما جائیں ۔ سپر سٹور اتنے بڑے کہ انسان کھو جائے اور باہر نکلنے کے لیے راستہ پوچھنا پڑے ۔میڈیکل سسٹم بہترین !ٹریفک کا نظام مثالی! صفائی نصف کیا مکمل ایمان کی علامت۔  وقت کی پابندی روزمرہ کا معمول ‘کسی کو کسی کام کی یاد دہانی کرانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اشیائے خورد و نوش سے لے کر پٹرول تک بنیادی ضرورت کی ہر شئے مناسب اور گوارا نرخوں پر۔ مگر اس سارے آرام ‘اس سارے کمفرٹ کے باوجود ۔خوشی نہیں ہے۔ اس لیے کہ خوشی اور مٹی لازم و ملزوم ہیں ۔ مٹی وہ ہوتی ہے جو اپنی ہو! جس میں اجداد کی اور پُرکھوں کی مٹی شامل ہو۔ جو جسم کے خمیر میں رچی بسی ہو۔ جہاں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ تم غیر ملکی ہو’ جہاں کسی کو یہ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے کہ تمہارا” بیک گراؤنڈ “کیا ہے؟ مڈل ایسٹ کا “بیک گراؤنڈ “ہے؟ یا جنوبی ایشیا کا ؟یا اٹلی یا یونان کا؟

طوطا دیار غیر میں نوکری کرنے گیا تو وہاں دوسرے طوطوں کے ساتھ مل کر رہ رہا تھا، ہر روز کتنی ہی بار’ سرد آہ کھینچتا اور کہتا ‘یہاں سب کچھ ہے مگر آہ! میرے وطن کا جواب نہیں ‘دعوت ہوتی تو کھا پی کر یہ فقرہ ضرور دہراتا ‘سیر و تفریح کے وقت پھر وطن کا ذکر چھیڑ بیٹھتا ‘۔ایک دن  ساتھیوں نے تنگ آکر کہا۔یار بہت ہوچکی، بہت سن لی تمہاری آہ و زاری! بس ہمیں اب دکھاؤ کہ وہ کون سا اور کیسا وطن ہے تمہارا جس کی یاد تمہیں اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے سوتے جاگتے آتی ہے۔
فیصلہ ہوا کہ سب اس کا وطن دیکھنے جائیں گے۔
چنانچہ ڈار کا ڈار اڑ چلا ۔اڑتے اڑتے ‘ایک دن طوطے نے کہا یہا ں اترو! سب اترے۔ سامنے ایک بہت بڑا تالا ب تھا۔ پانی سے بھرا ہوا۔کنارے پر درخت تھا ۔ درخت کی سب سے نچلی ٹہنی کا یہ حال تھا کہ ہوا زورسے چلتی  توپانی میں ڈوب جاتی !پھر اٹھتی۔اسی شاخ پر طوطے کا آبائی گھونسلہ تھا۔ خوشی سے طوطے کے گال تمتما رہے تھے۔ جب اس نے دکھایا کہ یہ ہے میرا وطن! سب حیران کہ یہ تو غیر مستحکم ہے!ذرا ہوا چلے تو خطرات میں گھر جاتا ہے۔ مگر طوطے نے کہا! ہاں ! درست کہتے ہو ۔مگر وطن میرا یہی ہے اور اسی کی یاد میں ہر دم میں مرتا ہوں ۔

یہ پاکستان میرا طوطے والا وطن ہے ۔بجا کہ ہوائیں تیز چلتی ہیں ٹہنی ،پانی میں ڈوب ڈوب جاتی ہے ‘مگر وطن پھر بھی یہی ہے۔ اسی سے میری شناخت ہے۔یہی میری پہچان ہے ۔یہاں مجھ سے کوئی میرا پاسپورٹ نہیں  مانگتا۔ یہاں رہنے کے لیے مجھے ویزا نہیں درکار۔ یہاں میں دوسروں سے مختلف نہیں لگتا۔ یہاں میں ویسا ہی ہوں جیسے میرے کروڑوں ہم وطن ہیں !مجھے اس سے کیا اگر امریکہ چاند پر بستیاں بسانے کا سوچ رہا ہے اور آسٹریلیا یورپ سے آگے نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ میری تو تیسری چوتھی نسل بھی ان ملکوں میں “پاکستانی نژاد” ہی کہلائے گی۔ میرا وطن پاکستان ہے جہاں کوئی “نژاد” کے حوالے سے میرا تعارف نہیں کراسکتا ! اسی کی چاندنی مجھے میٹھی لگتی ہے۔اسی کی دھوپ میرے لیے نشو ونما کا سامان ہے اسی کی ہواؤں نے میری پرورش کی ہے۔ اس کے خس و خاشاک مجھے سرور دیتے ہیں ۔ اس کے خار و خس میرے لیے پھول ہیں ! اس کے نیک بھی میرے ہیں اور بد بھی میرے ہیں
؎ یہ سبھی زمین کا حسن ہیں سبھی اپنے ہیں
یہ گناہ گار!یہ پاکباز !سدا رہیں

اس وطن نے سدا قائم رہنا ہے اس کے مجرموں سے ہم جان چھڑا لیں گے ۔اس کے محنت کشوں کو ہم نے سنبھالنا ہے ۔اس کے کسان اور مزدور اس  کے ماتھے کا جھومر ہیں ۔ اس کے شہر مقدس ہیں ۔ ہم نے تقدیس کے ساتھ ساتھ انہیں ترقی سے بھی آراستہ کرنا ہے۔

کون سی شئے ہے جو تبدیل نہیں  ہوتی! کیا ابر پارے فضا میں دکھائی دینے کے بعد چلے نہیں جاتے؟   کسی سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھیں ایک لمحے میں کیاسے کیا نہیں ہو جاتا !کشتی دور نکل جاتی ہے۔ جہاز قریب آجاتاہے ،پرندہ اُڑ جاتا ہے،لہریں ساکن ہوں تو مرتعش ہوجاتی ہیں ،طلاطم میں ہوں تو قرار پکڑ لیتی ہیں ،!دھوپ سایہ اور سایہ رات بن جاتا ہے ۔پھر صبح پھوٹتی ہے ۔کرنوں اور تتلیوں سے مالا مال صبح ! روشنی سارے میں پھیل جاتی ہے اور زندگی کروٹ بدل کر رواں دواں ہوجاتی ہے ۔
اس ملک کا احوال بھی بدلے گا! اس کی اکثریت نیکو کاروں اور صاف دلوں کی ہے۔ اس کے بیٹوں کے چمکتے ماتھوں پر مستقبل کی روشنی ہے۔ اس کی بیٹیوں کا بخت تابندہ ہے۔ ہم اندھیروں میں گرفتار ضرور ہیں مگر ان اندھیروں کی زندگی نے ختم ہونا ہی ہے ۔اس لیے کہ
؎ رسیدہ مژدہ کہ ایام غم نخواہد ماند
چنان نما ند چنین نیز ہم نخواہد ماند
اچھے دن چلے گئے تو برے بھی گزر جائیں گے خیر کا سورج طلوع ہوگا ۔لوٹ مار کرنے والوں نے اسی وطن میں رہنا ہوتا تو لُوٹا ہوا مال دوسرے ملکوں میں نہ ذخیرہ کرتے۔ یہ اپنے ملکوں اپنے ذخیروں کو لوٹ جائیں گےان کی نسل نے اگر مال باہر اکٹھا کرکے ہم پر حکومت کر لی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی ہر نسل کا داؤ چل جائے گا۔ یہ اگرسیانے ہورہے ہیں تو مظلوم عوام کی نسلیں بھی ان سے نبرد آزما ہونے کا فن سیکھ رہی ہیں ۔ ٹوپیوں کا سودا گر اپنا مال اسباب درخت کی چھاؤں میں اتار کر سو گیا۔جاگا تو ٹوپیاں غائب  تھیں ارد گرد دیکھا تو درختوں پر ہر طرف بندر ہی بندر تھے اور سب نے اس  کی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں ۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد سوداگر نے چالاکی دکھائی اور اپنے سر سے ٹوپی اتار پھینکی ۔اس کی نقالی کرتے ہوئے بندروں نے بھی ٹوپیاں اتار پھینکیں ۔ مال واپس ملا تو گٹھری باندھی اور رخصت ہوگیا۔ مرتے وقت پوتے کو یہ واقعہ بتایا ۔پوتے کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ بندروں نے ٹوپیاں پہن لیں ۔اسے دادا کا بتایا ہوا نسخہ کیمیا یاد تھا ۔ سر سے ٹوپی اتار پھینکی ۔مگر حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔جب ایک بندر نے بھی اس کی نقالی میں ٹوپی نہ اتاری۔ خالی ہاتھ جارہا تھا تو ایک بندر نے قہقہہ لگایا اور کہا “تمہارے دادا نے تمہیں بتایا تھا تو احمق !ہمارے دادا نے ہمیں کچھ نہیں بتا یا تھا ؟؟


Monday, January 29, 2018

تارکین وطن کھائی کے کنارے پر


تارکین وطن ایک عجیب و غریب صورت حال سے دو چار ہیں ۔ایک طرف  پہاڑ کی سر بفلک چوٹی ہے ۔دوسری طرف کھائی ہے۔مہیب گہری کھائی۔
واپس آئیں تو عزت نفس  سلامت ہے نہ مال اور جان کی سلامتی ۔پورا ملک ڈاکوؤ ں کے لیے خوانِ یغما ہے۔ چوریاں ، ڈاکے ،بھتے ،کاروں کی چوری روزمرہ کا معمول ہے۔ دارالحکومت سے ایک اطلاع کے مطابق تین گاڑیاں ہر روز چوری ہوتی ہیں ۔سینکڑوں کے حساب سے الگ الگ ڈاکے ڈالنے والے گروہ ہیں ۔پکڑنے والے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔ بچے گھر سے باہر  نکلیں تو کوئی گارنٹی نہیں کہ سلامت واپس آجائیں ۔ امن و امان،جو کسی بھی حکومت کسی بھی حکمران کے لیے اولیں ترجیح ہونی  چاہیے ،ترجیحات کی فہرست ہی سے غائب ہے ۔لاہور کی امیر ترین آبادی چوروں کے نرغے میں ہے ۔کراچی کا حال بدترہے ۔حکمرانوں کے آگے پیچھے سینکڑوں حاجب،نقیب اور پہریدار ہیں ۔عام آدمی کس حال میں ہے،انہیں  پرواہ ہے نہ اندازہ۔

امن و امان واحد شعبہ نہیں جو تارکین وطن کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ تاجر اور دکاندار گاہکوں کے ساتھ جو سلوک پاکستان میں کرتے ہیں ،اس کا ترقی یافتہ ملکوں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی حال پولیس کا ہے۔ ملازمتوں میں وہاں میرٹ دیکھی جاتی ہے ۔کسی ایم این اے، کسی وزیر کسی شاہ ،کسی مخدوم کی سفارش کا وجود ہے نہ امکان۔پھر تارکین وطن کے وہی حقوق ہیں جو مقامی سفید فام لوگوں کے ہیں ۔آخر بلاوجہ تو چار کروڑ سے زیادہ مسلمان ان ملکوں میں آکر مقیم نہیں ہوگئے۔

ان ملکوں میں سکون ہے اور ایک خاص معیار زندگی۔ مالی   آسودگی ہے اور امن و امان کی طرف سے اطمینان ۔تاجر اور دکاندار گاہک کی عزت کرتے ہیں   خریدا ہوا مال واپس بھی کرتے ہیں اور تبدیل بھی۔ بسیں ٹرینیں جہاز وقت پر چلتے ہیں ۔بچے ،کم و بیش محفوظ ہیں ۔ ایسا نہیں کہ جرائم نہیں ہوتے۔ ہوتے ہیں مگر کرنے والے کیفر کردار کو ضرور پہنچائے جاتے ہیں ۔ آج پاکستان میں سارا ملک چیخ رہا ہے کہ قصور میں بچوں کی پورنو گرافی فلموں کا سکینڈل بریک ہوا  تو مجرم بچ گئے۔ زینب سے پہلے ایک نہیں ،کئی بچیاں موت کے گھاٹ اتاری گئیں ہیں۔ ایسا ان ملکوں میں نہیں ہوتا ۔

کلچر اور مذہب۔دونوں خطرے کی زد میں ہیں۔ اردو لکھنے پڑھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔بولنے کا پہلو بھی خطرے میں ہے۔تارکین وطن کی اس حوالے سے تین اقسام ہیں ۔ایک وہ جو اس معاملے میں حساس نہیں ،وہ بچوں سے انگریزی میں بات کرتے ہیں ۔اپنی زبان ، اپنے ملک ،اپنی اصلیت سے ثقافتی تعلق جوڑنے کے لیے بے قرار بالکل نہیں ۔ ان کا معاملہ آسان ہے۔دوسری قسم وہ ہے جو ازحد حساس ہے۔ یہ کوشش کرتے ہیں  کہ اپنے  بچوں سے اردو میں یا پشتو میں یا سندھی میں یا پنجابی میں بات کریں ۔ مگر بچے ایک دوسرے کے ساتھ پھر بھی انگریزی میں بات چیت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ان کے لیے آسان ہے۔ ماں باپ کی یہ قسم اپنے طور پر کوشش کرتی ہے۔ اردو پڑھاتی ہے ۔لکھوانے کی سعی کرتی ہے ۔ تیسری قسم وہ ہے جو زیادہ فکر اور زیادہ تردد نہیں کرتی۔ اگر آسانی کے ساتھ ممکن ہو ،کوئی سہولت اپنی زبان پڑھنے پڑھانے کی نزدیک میسر آجائے تو فائدہ اٹھا لیں گے  ۔ورنہ نہیں یہ بے حس ہیں نہ از حد حساس۔

مذہبی پہلو زیادہ نازک ہے۔ مسجدیں گھروں سے دور ہیں ۔ بچوں کا وہاں پانچ وقت جانا،یا  انہیں لے کرجانا ممکن نہیں ۔ بعض کے لیے تو اس قدر دور ہیں کہ صرف جمعہ کی نماز کے لیے جاسکتے ہیں ۔عربوں ، ترکوں اور پاکستانیوں  نے اپنے اپنے سکول بنائے ہوئے ہیں ۔  مسلمان بچے وہاں  تعلیم حاصل کرتے ہیں مین  سٹریم کی تعلیم کا معیار یہاں قابل اطمینان نہیں  ۔  پھر ان کا انتظام  و انصرام اس معیار کا نہیں جو عام سرکاری یا پرائیویٹ سکولوں کا ہے۔ اصل دشمن مسلمان بچوں کا وہ معاشرہ ہے جو ان کے گھروں اور مسلمان سکولوں سے باہر ہے اور جس سے ان کا واسطہ پڑتا ہے۔ مسلمان سکولوں  میں پانچ چھ سال لگا کر بھی انہیں  عام مقامی سکولوں کالجوں کی طرف آنا پڑتا ہے۔ یہاں ان کے ہم جماعت اور دوست ایک کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اٹھارہ سال کا ہوجائے تو لڑکا گرل فرینڈ تلاش کرتا ہے ۔لڑکی بوائے فرینڈ کی جستجو کرتی ہے۔ ایک پاکستانی دوست نے بتایا کہ اس کے گھر کے سامنے والے گھر میں دو عورتیں باہمی زندگی گزار رہی ہیں ۔ ایک ان کی بچی ہے۔ پاکستان  کی بیٹی نے باپ سے ایک دن پوچھ ہی لیا کہ اس بچی کی دونوں مائیں ہیں ۔باپ نہیں  ۔ بچہ یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ ان کے فلاں ہم جماعت کی ماں بھی ایک مرد ہے۔ ایسا کیوں ہے ۔ یہ تلخ ہیں مگر حقیقیں ہیں ۔یہ ہے وہ کھائی جس کے کنارے تارکین وطن کھڑے ہیں  ۔ اگر  آپ بچوں کو یہ باور کرا بھی دیں کہ یہ بات بری ہے اور نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود ان کے ذہن میں یہ چیز بیٹھ جاتی ہے کہ ایک امکان یہ بھی ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے۔

ساری کوششیں کامیاب ہو بھی جائیں تو گارنٹی صرف ایک نسل تک کی ہے۔ تیسری نسل کے آتے آتے یہ کوشش غائب ہوجائے گی۔

ایک ریسرچ کی رو سے 1950 میں پانچ سو ترک خاندان مغربی ملکوں میں آن بسے تھے۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی علیحدہ وجود نہیں  ملتا ۔سب کان نمک میں نمک ہوچکے۔

حرف تسلی کچھ حضرات یہ دیتے ہیں کہ وہ زمانہ لد چکا۔ اب قدم قدم پر اسلامی مراکز کام کررہے ہیں۔ مساجد ہیں ،ثقافتی تقاریب ہیں مگر یہ حرف تسلی زیادہ سے زیادہ ایک نفسیاتی تسلی ہے۔ مسلمان ان قصبوں اور دور افتادہ بستیوں میں بھی آباد ہیں ،جہاں مسجدوں اور اسلامی مراکز کا کوئی وجود نہیں ۔بہت کم خو ش  قسمت گھرانے ایسے ہیں جومساجد کے قریب رہ رہے ہیں ۔ اکثریت دور رہتی ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ ہر نماز کے لیے مسجد حاضر ہوسکیں ۔

ہجرت ایک پیکیج ڈیل  ہے ۔  آپ پوراپیکیج لیتے ہیں ۔ یہ ناممکن ہے کہ آپ فوائد سمیٹ لیں اور نقصانات سے بچ جائیں۔ جہاں بہتر معیار زندگی ،مالی آسودگی اور اطمینان بخش امن وامان ہوگا ،وہاں اس معاشرے کی دوسری صفات کا بھی،اچھی ہیں  یا بری،سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی بیرون ملک سے واپس آکر پاکستان میں بسنے یا بسنے کا ارادہ کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ واپسی بھی ایک پیکیج ڈیل ہوگی۔ اپنے معاشرے کی اچھائیاں اور برائیاں سب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تین منٹ کے پیدل راستے پر مسجد ہوگی جہاں بچے نماز بھی پڑھیں گے اور قرآن مجید بھی۔ عزیز و اقارب سے ملنا آسان ہوگا ۔دوست احباب میسر ہوں گے۔ ماں باپ کی قدم بوسی ہر وقت حاصل ہوسکے گی۔ مگر امن و امان کی ابتر صورت حال میں رہنا ہوگا۔ ٹریفک وحشت ناک ہوگی۔ پولیس دوست نہیں ، کچھ اور ہی ہوگی۔ میرٹ کا حق لینے کے لیے پرچی درکار ہوگی ۔ٹرینیں اور جہاز وقت کی پابندی سے آزاد ہوں گے ۔تاجر اور دکاندار رعونت سے پیش آئیں گے اور قانون ،اخلاق ضابطے سے بے نیاز ہوں گے۔ حکمران نےگزرنا ہوگا تو آپ کا راستے کا حق سلب ہوگا۔ حکمران کاپورا خاندان آپ پر حکومت کرے گا۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں گے تو انصاف  ملنے تک آپ اول تو  زندہ نہیں رہیں گے رہے بھی تو کمر خمیدہ ہوچکی ہوگی۔ کسی بھی پاکستانی کو بیرون ملک ہجرت کرتے وقت غالب کی یہ نصیحت ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے

؎ ہاں وہ نہیں  خدا پرست ،جاؤ وہ بے وفاسہی

جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

اب یہاں ایک دکھتی رگ اور بھی ہے ۔امن و امان اور آسودگی کے لیے مسلمان جن ملکوں میں جاکر بسے ہیں  یا بس رہے ہیں وہ سارے غیر مسلم ہیں ۔اس وقت دنیا کے نقشے پر پچپن سے زیادہ مسلمان ملک موجود ہیں ۔ ایک معقول تعداد ان میں مالدار ملکوں کی بھی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک بھی مسلمان ملک وہ آسودگی و معیار زندگی ،وہ قانون کی حکمرانی اور وہ امن و امان مہیا نہیں کرسکتا جو یہ غیر مسلم  ملک مہیا کر رہے ہیں ۔ کہیں بادشاہوں کی آمریت ہے اور کہیں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ڈاکو  ملک کی دولت باہر منتقل کررہے ہیں ۔ یونیورسٹیاں وقت پر امتحان نہیں لے پاتیں ۔ پولیس کے تصور ہی سے عام شہری کو جھر جھری آتی ہے۔ خالص خوراک اور خالص ادویات تک عنقا ہیں ۔کیا اس پر کسی کو سوچنے کی فرصت ہے؟ اور کیا یہ سب دشمنوں کی سازش کا شاخسانہ ہے ؟ہمارا اپنا کوئی قصور نہیں ؟


Sunday, January 28, 2018

مسکراہٹوں اور آنسوؤں کو بھی تولا جائے گا


جنرل کمال اکبر صاحب تشریف لائے،ضروری بات جو کرنا تھی کی  ،پھر کہنے لگے”بیٹھوں گا نہیں “ایک مہم درپیش ہے”۔

جنرل صاحب تھری سٹار جرنیل ہیں ۔مسلح افواج کے “سرجن جنرل”رہے۔مگر مزاج میں خالص درویش!ان کی ساری زندگی کا ماحصل دو لفظوں میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا۔”دوسروں کی خدمت”۔

ایک مکمل بے لوث اور بے غرض انسان .جسے ہر  وقت دوسروں کی فکر رہتی ہے۔ان پر ایک طویل مضمون لکھا جاسکتا ہے مگر پھر کبھی -اس وقت ایک اور معاملہ زیرِ بحث ہے۔پوچھا جنرل صاحب !کیا مہم درپیش ہے؟کہنے لگے یہ ایک خط فلاں سرکاری محکمے نے  غلطی سے میرے گھرکے ایڈریس پر بھیج دیا ہے۔ یہ انٹر ویولٰیٹرہے،اس بات کا امکان موجود ہے کہ امیدوار انٹرویو میں کامیاب ہوجائے۔ دوسری صورت میں اگریہ کال لیٹر نہ ملا تو اس کا بہت نقصان ہوگا۔

عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے مشورہ دیا کہ ڈرائیور کو خط دیجئے ،وہ جاکر امیدوار کے گھر دے آئے۔اس پر انہوں نے بتایا کہ لفافے کے اوپر تو امیدوار کے بجائے ان کا (یعنی جنرل صاحب)کا ایڈریس ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ اندر،کال لیٹر پر،جو ایڈریس ہے ،وہ نامکمل ہے۔ہاؤس نمبر ہے مگر محلہ نہیں درج۔ یا شاید انہوں نے بتایا کہ محلہ ہے مگر ہاؤس نمبر ندارد۔جنرل صاحب ایک چھوٹی سی گاڑی خود چلاتے تھے جو انہیں راجہ بازار جیسے گنجان بازاروں میں بھی لے جاتی تھی اور اندرون شہر کی گلیوں میں بھی۔وہ اسے چلاتے چلے گئے،میں انہیں دیکھتا رہا کہ کتنے پاکستانی ہوں گے جو یہ” دردِ سر” مول لیتے ہیں ۔ہم میں سے اکثریت کا رویہ یہ ہے کہ ایسا”غیر متعلق”خط آیا تو پھاڑ کر پھینک دیا۔زیادہ سے زیادہ  کارنامہ سرانجام دیا بھی تو یہ کہ فون نمبر موجود ہے تو فون کردیا کہ آکر خط لے جائیں ساتھ ہی غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کہ خط لینے کے لیے اگلا کئی چکر لگاتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ صاحب گھر پر نہیں ،کل آئیں،ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ گھرکے ہر فرد کو معلوم ہو  خط فلاں جگہ پڑا ہے اور فلاں شخص آئے  تو اسے دینا ہوگا۔

جنرل صاحب دو دن گاڑی چلاتے رہے۔جہاں جانا پڑا گئے،آخر سراغ لگا کر رہے اور امید وار بچی کو وقت پر کال لیٹر پہنچا دیا۔تصور کیجئے !ان کی اس دو تین دن کی دوڑ دھوپ کے دوررس اثرات۔کیا خبر اس لڑکی کے گھر کے کیا حالات  تھے؟ہوسکتا ہے والد وفات پا چکا ہو یا بیمار ہو اور کمانے کے قابل نہ ہو۔ ہو سکتا ہے لڑکی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہو،اگر اس کو اس کال لیٹر کی وجہ سے ملازمت مل گئی تو اس کی،اس کے بہن بھائیوں کی پوری زندگی کا رخ بدل گیا ہوگا۔ ایک چھوٹی سی نیکی،ایک ذرا سی تکلیف،دو تین دن کی دوڑ دھوپ اور اس کا اثر کتنے انسانوں کی زندگیوں پر۔بلکہ ایک پوری نسل پر۔ پھر اس کے بعد آنے والی نسل پر۔ پھر اس کے بعد۔۔۔ بظاہر ایک حقیر سی خدمت،ایک چھوٹی سی نیکی کا اتنا زیادہ اثر۔سوال یہ ہے کہ یہ اثر کیسے ماپا جائے؟خط پہنچانے کے لیے مشقت،بھاگ دوڑ کرنے والے کا صلہ کیسے طے ہوگا؟غور کرنے پر ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسی لیے تو  داور حشر نے بدلے کا دن مقرر کیا ہے اور ایسی میزان کا بندوبست کیا ہے جس میں مسکراہٹوں اور مسرتوں کا وزن کیا جاسکے گا اور کرب و غم کا بھی۔۔

؎ تلیں گے کس ترازو میں یہ آنسو اور آہیں

اسی خاطر تو میں روزِ جزا کو مانتا ہوں ۔

ایسی ہی نیکی ایک نوجوان نے کی ۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ کتنا بڑا کارنامہ سر انجام دے رہا ہے ۔ایک ٹھٹھرتی ،نیم روشن شام کووہ ٹرین سے اتر کر  ہر روز کے معمول کے مطابق گھر کی طرف جا رہا تھا ۔اسے سامنے سڑک پر پڑا ایک بٹوہ نظر آیا ۔بھورے رنگ کے چمڑے سے بنا بٹوہ ،پرانا،کونے اس کے مُڑے تُڑے تھے ۔ہاں،کناروں پر ایک سرخ رنگ کی سلائی چاروں طرف دکھائی دے رہی تھی ۔اس نے بٹوہ اٹھا لیا ۔بٹوے میں ایک ایک ڈالر کے تین بوسیدہ نوٹ تھے اور کچھ بھی نہ تھا۔کوئی وزیٹنگ کارڈ نہ تھا جس پر کوئی فون نمبر یا کسی دفتر یا کسی گھر کا ایڈریس ہوتا ۔کوئی کریڈٹ کارڈ ،کوئی ڈرائیونگ لائسنس ،کچھ بھی نہ تھا ۔ایک لفافہ ٖضرور پڑا تھا ۔اتنا پرانا اور بوسیدہ کہ مکتوب الیہ کا ایڈریس مٹ چکا تھا ۔لکھنے والے کا ایڈریس پڑھا جا سکتا تھا ،وہ بھی بہت مشکل سے ۔لفافے  کے اندر ایک خط تھا ۔اس پر ساٹھ سال پہلے کی تاریخ تھی ۔اس خستہ پرانے خط پر تین سطریں لکھی تھیں۔ “ ڈئیر جان میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میری ماں نے سختی سے تمہیں  ملنے سے منع کر دیا ہے ۔میں نہیں ملوں گی ۔ہاں !ہمیشہ   تم سے محبت کرتی رہوں گی تمہاری حنا ۔”

ساٹھ سالہ پرانےخط نے نوجوان کو رات بھر نہ سونے دیا ۔صبح اٹھ کر اس نے ٹیلی فون کے محکمے سے رابطہ کیا کہ اس ایڈریس کا کوئی ٹیلی فون نمبر مل سکتا ہے؟کئی دن کے بعد اسے ایک ٹیلی فون آپریٹر نے فون   کیا اور بتایا کہ ہاں ،اس ایڈریس پرفون لگا ہے،نمبر بھی ہے مگر ہم گھر والوں سے پوچھے بغیرنمبر نہیں دے سکتے۔نوجوان نے تجویز پیش کی  کہ  آپ  ان لوگوں سے پوچھ لیجیے کہ کیا وہ بات کرنا پسند کریں گے۔بہرطور ،اس کی وہاں رہنے والی ایک عورت سے بات ہوئی۔اس نے بتایا کہ جس خاندن سے اس نے یہ گھر چند برس پہلے خریدا تھا،ان کی ایک بیٹی کا نام حنا تھا۔مگر یہ تیس برس پرانی بات تھی،گھر  خریدنے والی اس خاتون نےاس کے علاوہ صرف ایک اطلاع مہیا کی ۔کچھ سال پہلے حنا نے اپنی ماں کو ایک نرسنگ ہوم میں داخل کرایا تھا جہاں عمر رسیدہ لوگوں کی  دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ دوسرے دن نوجوان نے  شہر کے نرسنگ ہوم چھاننے شروع کردئیے۔وہ ہر نرسنگ ہوم جاتا،دفتر  والوں سے پوچھتا کیا یہاں حنا نام کی عورت کی ماں داخل ہے؟کلرک کاغذات دیکھتی اور نہیں میں جواب دیتی۔آخری نرسنگ ہوم کی وارڈن نے بتایا کہ ہاں ،حنا کی ماں یہاں داخل تھی۔مگر اس کا انتقال ہوچکا ہےاور یہ کہ حنا خود اب  ایک “ریٹائرمنٹ ہوم”میں زندگی بسر کررہی ہے۔

نوجوان نے جسم میں اور جسم کی رگوں میں ایک عجیب سی لرزش محسوس کی۔کیا  یہ  ساری مشقت یہ ساری دوڑ دھوپ کسی نتیجہ خیز انجام کا راستہ دکھائے گی؟

نوجوان نے ریٹائرمنٹ ہوم تلاش کیا۔اسے فون پر بتایا گیا کہ ہاں حنا نام کی ایک ضعیفہ یہاں رہ رہی ہے۔ اس کی عمر 76 برس ہے۔”کیا میں اس سے  ملنے آ سکتا ہوں ؟”اس نے پوچھا،ہاں !منیجر نے تذبذب سے جواب دیا۔

ریٹائرمنٹ ہوم پہنچا تو اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ حنا ٹیلی ویژن روم میں ٹی وی دیکھ رہی تھی ۔نرس نے اسے بتایا کہ یہ نوجوان آپ کو  ملنے آیا ہے۔چاندی جیسے سفید بالوں والی یہ عمر رسیدہ خاتون اب بھی خوبصورت تھی۔ بہت خوبصورت! یہ اور بات کہ خوبصورتی جھریوں سے یوں چھن چھن کر آرہی تھی جیسے  سورج کی کرنیں پتلے پردے سے چھن کر آتی  ہیں ۔ نوجوان نے بتایا کہ اسے ایک بٹوہ  ملا ہے جس میں حنا کے ہاتھ کا لکھا ہوا ساٹھ سالہ پرانا خط موجود ہے۔ساتھ ہی اس نے لفافہ آگے بڑھا  دیا۔خاتون لفافے کو دیکھتی رہی۔ چند ثانیوں کے لیے نوجوان کو یوں لگا جیسے اب یہ بے ہوش ہوکر گر پڑے گی۔ پھراس کے منہ سے بے اختیار  یہ لفظ نکلے”جان گولڈ سٹین ایک شاندار شخص تھا ۔مجھے اس سے محبت تھی۔بہت محبت، جو آج بھی اسی طرح ہے”۔

حنا کی عمر سولہ سال تھی جب اسے جان گولڈ سٹین سے محبت ہوئی۔وہ روایات سے وابستگی کا زمانہ تھا۔ماں باپ کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کا رواج مغرب میں بھی نہ تھا۔ ماں نے کہا سولہ برس کی عمر شادی کے لیے موزوں نہیں ہے۔تم آئندہ اس سے نہیں ملو گی۔۔۔ حنا نے گولڈ سٹین  کو خط لکھ کر بتا دیا مگر کسی اور سے اس نےشادی نہ کی۔کوئی اسے  گولڈ سٹین جیسا نظر ہی نہ آیا۔

تمہیں اگر کہیں گولڈ سٹین ملے تو اسے بتانا کہ میں اب بھی اسی کے بارے میں سوچتی ہوں ۔”اس نے نوجوان سے کہا۔

حنا کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ نوجوان نے اجازت لی اور گھر کی طرف چلا۔ اسے ایک ادھورا اطمینان تھاکہ کچھ نہیں تو آدھا کام تو ہوگیا۔ وہ گیٹ سے نکلنے لگا تو گارڈ نے دوستانہ انداز میں پوچھا کہ خاتون کو تلاش کرنے کا مقصد پورا ہوگیا؟ اس نے بٹوہ نکال کر گارڈ کو دکھایا کہ یار یہ بٹوہ ہے جس سے تلاش شروع ہوئی۔بٹوے کامالک تو نہیں ملا مگر اس کی محبوبہ سے ملاقات ہوگئی۔

گارڈ نے بٹوہ دیکھا تو جیسے اپنے آپ سے کہا۔”اف خدایا!  مسٹر گولڈ  سٹین نے بٹوہ پھر گم کردیا” ۔ساتھ ہی اس نے نوجوان کو بتایا کہ یہ بٹوہ وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس کے کناروں پر سرخ دھاگے کی سلائی ہے۔یہ گولڈ سٹین کا ہے جو اکثر و بیشتر اس کو کھو دیتے ہیں ۔تقدیر کے کھیل نرالے ہیں ۔گولڈ سٹین اسی ریٹائرمنٹ ہوم کی نویں منزل پر رہ رہا تھا۔ جس کی تیسری منزل پر حنا رہ رہی  تھی۔ گارڈ نوجوان کو گولڈ سٹین کے پاس لے گیا جو لائبریری میں بیٹھا ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس سے پوچھا “سر آپ کا بٹوہ کہاں ہے”؟

گولڈ سٹین نے پتلون کی پچھلی جیب پر ہاتھ لگایا اور کہا ،” جیب میں تو نہیں ہے”۔ نوجوان نے اسے بٹوہ دیا اور بتایا کہ بٹوے کے  مالک کو تلاش کرنے کی خاطر اسے حنا کا خط پڑھنا پڑا۔

کولڈ سٹین پر اس  کے بعد کیا گزری اور جب وہ اپنے ہی  ریٹائرمنٹ ہوم کی تیسری منزل پر حنا کو ساٹھ سال بعد ملا تو حنا کی کیا کیفیت تھی۔ یہ جذبات اور  آنسوؤں کی ایک طویل کہانی ہے۔بٹوے کے  مالک کی تلاش کا پھل اس نوجوان کو دنیا میں یہ ملا کہ چند ہفتوں بعد جب 76 سالہ حنا اور 79 سالہ گولڈ سٹین کی شادی ہوئی تو وہ تقریب کا مہمان خصوصی تھا۔


Friday, January 26, 2018

ڈرامہ


آفریں ہے قصور کے لوگوں پر جنہو ں نے خادم اعلی کی پولیس کے مہیب،مکروہ دیوتا کے چرنوں میں شہریوں کی قربانی دی۔جو سڑکوں پر آئے،جنہوں نے احتجاج کیا ،اتنا احتجاج کہ پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔سوشل میڈیا آندھی کی طرح اٹھا اور اس نے پوری دنیا کے اوپر مظلوم زینب کا دریدہ ڈوپٹہ پھیلا دیا۔یہاں تک کہ وہ بے حس حکمران بھی ایکشن لینے مجبور ہوگیا جسے کسی کی جان کی پرواہ تھی نہ عزت کی۔جس نے ڈیڑھ سو معصوم بچوں کے رسوائے زمانہ پورنوگرافی کے سکینڈل میں ملوث مجرموں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا اور جو کم و بیش ایک درجن بچیوں کے قتل پر بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔اسی حکمران کو پہلے صرف عمران خان ڈرامہ کہتا تھا،اب آزاد میڈیا نے بھی یہی کہنا شروع کردیا ہے۔ایک معروف صحافی نے 15 جنوری کو ایک ٹیلی ویژن چینل پر جو کچھ کہا ،اسے یوٹیوب پر لاکھوں افراد سن چکے ہیں اور سن رہے ہیں ۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔یہ معروف صحافی کیا کہتے ہیں ۔آپ بھی سنیے۔

“ان کا اپنا ایک سٹائل ہے۔میڈیا کے سامنے آتے ہیں تو پانچ سات آدمیوں کو پہلے سے کھڑا کردیتے ہیں کہ یہ سوال کرو،یہ  سوال کرو،کوئی کام کا سوال ہوگا تو اچھا خدا حافظ کہہ کر نکل جاتے ہیں ۔۔۔۔ان کو علم ہی نہیں کہ کیا بات کرنی ہے ؟کس وقت؟ملک کے حالات کیا ہیں ؟صوبے کے حالات کیا ہیں ،جانیں جارہی ہیں لوگوں کی ۔خدا نخواستہ اور انتشار پھیل جائے۔یہ عجیب و غریب  قسم کا آدمی ہے۔چلتا ہوا آتا ہے میڈیا کے سامنے۔جو منہ میں آتا ہے بات کرکے اور کھسک کے خدا حافظ کہہ کر نکل جاتا ہے۔۔۔۔۔یہ آدمی سیاست دان ہے؟۔۔اس سے تو وہ جو سیکرٹری ہوتے ہیں ،پریس سیکرٹری وہ ڈھنگ سے بات کرلیتے ہیں ،میڈیا کےسامنے،سوال کیا جائے تو آگے سے نکل جاتے ہیں ۔یعنی نہ ان سے قصور کا سوال پوچھ سکتے ہیں نہ بچوں کا سوال پوچھا جاسکتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ یہ ڈرامہ کرکے نکل جائیں گے؟آتے ہیں دو منٹ کے لیے بات کرتے ہیں ،ہیٹ پہن کر،پھر وہ کھسک جاتے ہیں ۔ان کو کوئی خدا کا خوف نہیں ۔ رانا ثنا اللہ ہیں کم سے کم ،صحیح یا غلط وہ میڈیا سے بات تو کرتے ہیں۔سعد رفیق بات تو کرتے ہیں ۔پرویز رشید بات تو کرتے ہیں ۔”

پہلے تو لوگوں کا محض خیال تھا مگر اب سپریم کورٹ کے سامنے ان چالیس بینک اکاؤنٹس کی تفصیل پیش کی جاچکی ہے جو گرفتار شدہ ملزم(یا مجرم عمران کے ہیں ایک اعلیٰ شخصیت کا نام بھی کاغذ پر لکھ کر چیف جسٹس کو دیا جاچکا     ہے ۔چنانچہ اب اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ یہ صرف عمران کا کام نہیں ۔وہ تو ایک معمولی فرنٹ مین ہے۔ ایک بہت بڑی مشین کا ایک ادنٰی کارندہ ہے۔ایک پورامافیا ہے جو تشدد سے بھرپور جنسی عمل کی فلمیں بنا کر دنیا بھر میں درآمد کرتا ہے،جنہیں ذہنی مریض شوق سے دیکھتے ہیں ۔مارکیٹ میں اس کی بہت ڈیمانڈ ہے۔کروڑوں اربوں ڈالر کا کاروبار ہے۔ قصور میں جتنے بھی واقعات رونما ہوتے ہیں ،ان پر اس سیاق و سباق میں غور کیجیے تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔

اب سوال پیدا   ہوتاہے کہ زینب سے پہلے جو پے در پے واقعات قصور میں رونما ہوئے ،ان کے ملزمان کیوں نہیں پکڑے گئے؟منطق اس سوال کا جواب یہ دیتی ہے کہ پنجاب حکومت اس مافیا پر ہاتھ نہیں ڈالنا  چاہتی۔کیوں ؟خوف کی وجہ سے؟یا سیاسی مفادات کی وجہ سے؟بہر طور وجہ جو بھی ہو یہ طے ہے کہ ڈیڑھ سو بچو ں کی جنسی فلموں کا سکینڈل  جب کھلا تو کسی کو سزا نہیں دی گئی۔زینب سے پہلے دس بارہ  بچیوں کو اسی شرم ناک طریقے سے بے آبرو کرکے قتل کیا  گیا مگر خادم اعلی کا پاؤں قصور کی طرف نہ بڑھا نہ ان کی آنکھ  سے  کوئی آنسو ہی نکلا۔کوئی اور  حساس  اور ذمہ دار حکمران ہوتا تو آکر قصور میں خیمہ زن ہوجاتا اور پہلی بچی کے قاتل کو پکڑوا کر وہاں سے واپس جاتا ‘مگر بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک نہیں ،ایک درجن بچیاں درندگی کی بھینٹ چڑھ گئیں لیکن پھر بھی”پنجاب سپیڈ”حرکت میں نہ آئی۔یہاں تک کہ زینب کی مسخ شدہ لاش ملی تو ملک بھر میں جیسے آگ لگ گئی ۔پھر بھی پنجاب حکومت نے پوری کوشش کی کہ احتجاج کرنے والے خوف زدہ ہوکر بیٹھ جائیں اور مافیا کا کاروبار چلتا رہے۔ اسی لیے پولیس  نے احتجاج کرنے والے دو معصوم افراد کو قتل بھی کیا ۔تادمِ تحریر”خادم اعلی” نے پولیس میں بیٹھے ہوئے ان افراد کے قاتل (قاتلوں ) کو کوئی سزا نہیں دی۔

پنجاب کے حکمران اعلی کی ترجیحات ‘مائنڈ سیٹ اور ادراک دیکھ کر انسان حیرت میں گم ہوجاتا ہے اور صدمے سے بے حال ہوجا تا ہے۔ صوبے کی سب سے قدیم ،سب سے بڑی یونیورسٹی میں طلبہ کے گروہ ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے ہیں ۔لاٹھیوں اور چھروں سے حملے کررہے ہیں ۔ وائس چانسلر سے لے کر عام استاد تک سب دم بخود ہیں ،درس و تدریس کا سلسلہ معطل ہے کسی اور ملک میں ایسا ہوتا تو حکمران آکر یونیورسٹی میں بیٹھ جاتا اور اس وقت اٹھتا جب ایک ایک مجرم کو ہمیشہ کے لیے یونیورسٹی سے نکال نہ دینا۔مگر یہاں حکمران اعلی کا “زبردست ایکشن” ملاحظہ فرمائیے اور سر دھنیے۔فرماتے ہیں !

“پنجاب یونیورسٹی میں تدریسی سرگرمیاں پُر امن ماحول میں جاری رہنی چاہئیں ۔گڑ بڑ کرنے والے عناصر کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے”۔

جہاں پناہ کوکون بتائے کہ جب یونییورسٹی  میں  مسلح جتھے موجود ہوں ،جن ہوسٹلوں پر مذہبی لسانی اور علاقائی تنظیموں کا ناجائز قبضہ ہو،جب گروہوں کے گروہ آپس میں برسرِ پیکار ہوں ۔جب اساتذہ کو ذود و کوب کیا جائے تو”پُر امن ماحول” کہاں سے آئے گا؟اور تدریسی سرگرمیاں کیسے جاری رہیں گی؟

آپ کو اتناادراک ہی نہیں کہ درس گاہ سے مذہبی ،لسانی اور علاقائی تنظیموں کا خاتمہ کریں اور سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں جو غلبہ تنظیمیں دادا گیری کرتی پھرتی ہیں  ۔انہیں کان سے پکڑ کر یونیورسٹی کی حدود سے کم از کم پانچ سو کوس دور چھوٹا چھوڑ کر آئیں ۔ غضب خدا کا قدیم ترین یونیورسٹی میں پختونوں ،بلوچوں اور سندھیوں اور دوسرے گروہوں کی باقائدہ تنطیمیں ۔ارے ظلِ الٰہی! آپ کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔اور آپ اس کا استیصال نہیں کررہے۔آپ کم از کم یہ تو پوچھتے کہ کیا دوسرے صوبوں کی یونیورسٹیوں میں پنجابی طلبہ تنظیمیں فساد پھیلا رہی ہیں ؟ مگر جس حکومت میں یونیورسٹی کو یہ نادر شاہی حکم دیا جائے کہ اتنی زمین فلاں مذہبی تنظیم کے مدرسہ کے لیے دے دو اور وائس چانسلر اس پر احتجاج کرکے رخصت ہوجائے اور حکمران کے کان پر جوں تک نہ رینگے  وہاں اتنا شعور کیسے آئے گا کہ یونیورسٹی میں مذہبی  اور لسانی جتھے ہونے ہی نہیں چاہئیں ۔تعلیم تو یوں بھی ترجیحات کی فہرست میں جس "قابل رشک"   “مقام پر کھڑی ہے۔اس پر ہنساہی جاسکتا ہے رویا ہی جاسکتا ہے۔

اس بدقسمت یونیورسٹی کے ساتھ ایک اور سنگین مذاق دیکھیے ۔اس کےاندر شاہراہوں اور راستوں پر مارچ کرکے طاقت کا مظاہرہ کیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون

اسے کہتے ہیں مرے ہوئے جانور کا بدستور کنوئیں کےاندر ہونا مگرکنویں سے سینکڑوں گیلن پانی نکال دینا۔ مسلح طلبہ یونیورسٹی میں موجود ہیں ۔ہوسٹلوں پر ان کا قبضہ ہے ،ان کی تنظیموں پر کوئی پابندی نہیں لگائی جارہی،ہاں پر امن طلبہ کو ڈرانے کے لیے یونیورسٹی کو پولیس کے حوالے کیا جارہا ہے۔وائس چانسلر صاحب میں اتنی ہمت ہے نہ سکت کہ یونیورسٹی کوجتھوں ،لشکروں اور سیاسی اور لسانی گروہوں کی مکروہ سرگرمیوں سے پاک کرسکیں ۔ یوں بھی غالباً دنیا میں شاید ہی کوئی اور مثال ہو کہ ایک تعلیمی ادارے میں پولیس پریڈ کراکے اس کے مقدس ماحول کے ساتھ مذاق کیا گیا ہو۔






Thursday, January 25, 2018

تارکین وطن شیر کی سواری کر رہے ہیں


اردو کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ ساری دنیا میں پھیل گئی ہے۔لاس اینجلز ہو یا ناروے ‘جاپان ہو یا بارسلونا’ اردو بولنے والے سمجھنے والے لکھنے والے ہر جگہ موجود ہیں ۔ اردو کی بستیاں کرہ ارض کے ہر گوشے میں پائی جاتی ہیں  ۔ سڈنی بھی انہی گوشوں میں سے ایک ہے۔ جب بھی سڈنی جانا ہوتا ہے۔ ایک تازگی کا ایک نئے پن کا احساس ہوتا ہے۔ نوجوانوں کا ایک ایک گروہ اس سخت مشینی اور خود کار زندگی کے جکڑ دینے والے بندھنوں سے اپنے آپ کو چھڑا کر ‘اردو کے لیے جو بن پڑتا ہے کرتا ہے اور مسلسل کررہا ہے ،شاعر ارشد سعید ان میں نمایاں ہے۔ غزلیں کہتا ہے۔نظمیں لکھتا ہے۔ تقریبات منعقد کرتا ہے۔ گھر اس کا بیک وقت گھر اور مہمان خانہ بھی۔ اب دوسرا شعری مجموعہ زیرِ طبع ہے۔ ڈاکٹر کوثر جمال نے پی ایچ ڈی تو چینی زبان میں کی۔ پھر ترجمے اور ترجمانی کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے مگر اردو کی خدمت پر وہ بھی کمر بستہ ہیں ۔افسانے اور مضامین لکھتی ہیں ۔تقریر خوب کرتی ہیں  اور تقاریب کے اہتمام و انصرام میں پیش پیش رہتی ہیں ۔سعید خان اور نوشی گیلانی کی جوڑی سڈنی کی اس دنیا میں جو اردو کی دنیا ہے ‘ممتاز مقام رکھتی ہے۔ ہمیشہ نوجوان اور شاداب دکھائی دینے والا سعید خان ارشد سعید کی طرح سڈنی میں اس وقت سے اردو کی خدمت کررہا ہے۔ جب بہت سے احباب ابھی وہاں آئے بھی نہیں تھے۔

اردو شاعری میں وہ ایک نیا کام کررہا ہے۔ یہ کام ایک خوشگوار تازہ جھونکے کی طرح ہو گا ۔اس کی مزید تفصیل اس وقت نہیں بتائی جاسکتی کہ اردو شاعری کے دلدادگان کا مزا کرکرا نہ ہو۔!نوشی گیلانی زندگی کی ہم سفر ہونے کے علاوہ اردو دوستی کے پیچیدہ سفر میں بھی سعید خان کی ہمراہی ہے۔شاعری کے حوالے سے پاکستان اور آسٹریلیا سے باہر بھی معروف نوشی گیلانی ‘سڈنی کی ادبی اور ثقافتی تقاریب کی جان ہے۔ نوشی کے ساتھ شاعری کے حوالے سے  تو تعلق ہے ہی’ ایک اور حوالے سے بھی اس کے خانوادے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ بچھڑ جانے والے دوست عزیز فاروق گیلانی  کی وہ خالہ  زاد بہن ہے اور اس کی ادبی تربیت میں فاروق کے والد محترم سید اسعد گیلانی کا بھی ہاتھ ہے۔ کچھ دن پہلے روزنامہ 92 کے صفحات پر نوشی کا کالم دیکھ کر خؤشگوار حیرت ہوئی۔ کیا عجب آئندہ بھی اس کے کالم نظر آتے رہیں ۔

طارق محمود سفر نامہ لکھ  رہے ہیں ڈاکٹر  فصیح الدین اور عباس علوی بھی اردو کے خدمت گار ہیں ۔ازحد مستعد اور بے لوث خدمت گار! عباس علوی نے ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ۔آسٹریلیا میں زبان کے حوالے سے حکومت اعداد وشمار اکٹھا کرتی ہے۔ جس زبان کے بولنے والے تعداد میں ایک خاص حد سے زیادہ ہوجائیں ‘اس زبان کو سرکاری سطح پر تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ اردو کو تسلیم کرانے کے لیے یہ حضرات جدوجہد کرہے ہیں ۔عباس علوی کا اٹھایا ہوا نکتہ یہ تھا کہ بہت سے حضرات اپنی زبان پنجابی سندھی پشتو سندھی یا کشمیری بتا تے ہیں ۔ اگر یہ سب قربانی دیں اور اپنی زبان اردو بتائیں تو تعداد کےحوالے سے اردو کی اپوزیشن مستحکم ہوجائے گی اور تسلیم کرانے میں آسانی ہوگی۔ تاہم یہ مسئلہ اس قدر سہل اور سادہ بھی نہیں ۔اگر حکومتی کارندے مادری زبان یا “پہلی زبان” (فرسٹ لینگوئج) کا پوچھیں تو وہی بتاتا ہوگا اور وہی بتانا چاہیے جو امر واقعہ ہے آسٹریلیا کے اردو دوست حضرات  کو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان اور پاکستانی احباب اس ضمن میں مل بیٹھیں اور اتفاق رائے  سے ایک حکمت عملی ترتیب دے دیں۔  مقصد تو اردو کی ترویج ہے ۔یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ہر جائز طریقہ اپنانا چاہیے۔

جہا ں دو پاکستانی موجود ہوں ، وہاں بدقسمتی سے کم از کم تین گروپ ضرور ہوتے ہیں جو آپس میں ٹھیں پٹھاس کرتے رہتے ہیں ۔ایک بار وینکوور  کی   ایک چھوٹی سی مسجد میں نماز پڑھنے کا موقع  ملا ۔معلوم ہوا کہ کئی پاکستانی گروپ جو باہم متحارب ہیں  ‘مسجد کا منتظم بننے کے دعویدار ہیں ۔سڈنی بھی اس لحاظ سے مستثنٰی نہیں ۔ گروپنگ موجود ہے۔ مگر روشن پہلو یہ ہے کہ کام کرنے والے نوجوان ہیں اور رخنہ ڈالنے والے پیرانِ تسمہ پا۔ یہ عمر رسیدہ حضرات نوجوانوں کو کامیاب ہوتا ‘ پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے ان کے کام میں روڑے اٹکاتے ہیں اور ذاتی رنجشوں میں یہاں تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ تقاریب کو ناکام بنانے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں ۔ مگر ایسا تو ہر زمانے میں ہوتا ہی آیا ہے۔ اس معاملے میں  صرف پاکستانی ہی نہیں  اور بھی بہت سی قومیتیں بدنام ہیں ۔

سڈنی کا موسم دلفریب تھا۔ دن کو گرمی اور شام کو فرحت بخش خنکی ۔اس شہر کی کُل عمر دو سو تین برس سے زیادہ نہیں ، جس سڈنی میں مقامی قبائل پچیس تیس ہزار سال سے  آ باد تھے اسے  کیپٹن ُکک نے  1770 میں “دریافت” کیا ۔1788 میں پہلا برطانوی بحری جہاز قیدی مجرموں کو لے کر لنگر انداز ہوا۔ اس وقت برطانیہ کی نیت اس سے زیادہ نہ تھی کہ اسے “کالا پانی” کے طور پر پیش کرے ۔عجیب وحشت اور بربریت کا اس زمانے کے برطانیہ میں دور دورہ تھا۔انڈا یا کپڑے کا تھان چرانے والے کو سزا دینے کے لیے جہاز میں بٹھا کر سڈنی بھیج دیا جاتا تھا۔ آرتھر فلپ جب یہ پہلا جہاز لے کر پہنچا تو شہر کا نام اس نے ا س وقت کے برطانوی وزیر داخلہ کے نام پر سڈنی رکھا۔ وہ جہاز پینے کا پانی بھی ساتھ لے کر آیا تھا۔ پانی ختم ہوا تو جہاز مزید پانی ہندوستان سے لے کر آیا ۔

انیسویں صدی کے وسط میں سزا یافتگان کی آمد بند ہوئی ۔پھر یہی مجرم آسٹریلیا کےبانی بن گئے۔ 1842 میں سڈنی کو “شہر” قرار دیا گیا۔ پھر سڈنی دن بدن آگے بڑھتا گیا۔ دنیا بھر کی نظریں اس پر تھیں ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہاں تارکین وطن آنا شروع ہوئے جن کی غالب تعداد سفید فارم تھی۔ آج سڈنی میں اڑھائی سو سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں  ۔ چالیس فیصد آبادی انگریزی کے علاوہ کوئی اور زبان بولتی ہے۔ چھتیس فیصد وہ ہیں جو آسٹریلیا سے باہر پیدا ہوئے اور سڈنی آبسے۔

گراں ترین شہروں  میں سڈنی کا بھی شمار ہوتا ہے مگر رہنے کے لیے بہترین شہروں کی فہرست میں اس کا دسواں نمبر ہے ۔سیاحت کے حوالے سے یہ پندرھویں نمبر پر ہے۔ دنیا بھر کے سیاح امڈے چلے آتے ہیں ۔

اردو کی طرف پلٹتے ہیں ۔ کیا سڈنی کے اردو دوستوں کی کوششیں ان کی نئی نسل کو متاثر کرسکیں گی ؟اس سوال کا جواب مشکل ہی نہیں ۔بہت زیادہ مشکل ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں کیا بچے اردو بول سکتے ہیں ؟ اور کیا وہ لکھ پڑھ بھی سکتے ہیں ؟

اس وقت تارکین وطن کے بچوں کی اکثریت اردو سمجھتی ہے مگر بولتی نہیں ۔بولے بھی تو ایسی اردو بولتی ہے جس میں غالب حصہ انگریزی کا ہے۔ ماں باپ آپس میں بولتے ہیں ۔بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں مگر بچے جواب انگریزی میں دیتے ہیں ۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ابتدا ہی سے اردو میں بولنے کی ترغیب دیں ۔ مشکل ترین کام بچوں کو آپس میں اردو بولنے  پر آمادہ کرنا ہے آسٹریلیا کے سکولوں میں پڑھنے والے پاکستانی بچے گھر میں بہن بھائیوں کے ساتھ انگریزی بولتے ہیں ۔ اس لیے کہ اس میں اظہار اور ابلاغ انہیں آسان لگتا ہے۔

سڈنی اور میلبورن ۔دونوں بڑے شہروں میں  اردو بولنے والے حضرات ابھی تک نئی نسل  کے لیے اردو کی تعلیم کا باقاعدہ بندوبست نہیں کرسکے۔ ہفتہ اتوار کےدن کلاسیں ہوسکتی ہیں  ۔ اسی طرح طویل تعطیلات میں یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ مگر  ماں باپ کی مصروفیات اور پھیلے ہوئے دور دراز فاصلے آڑے آجاتے ہیں۔ ایک ترکیب یہ ہے کہ بچوں کو ہر سال کچھ ماہ یا کچھ ہفتے پاکستان رہنے کا موقع ملے۔ یہ بھی آسان کام نہیں  ۔ اکثر تارکین وطن کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان آنے کے بجائے امریکہ ‘یورپ’ نیوزی لینڈ یا جزائر فجی اور بالی کی سیرو سیاحت کریں   اپنی  اپنی  ترجیحات ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ تارکین وطن شیر کی سواری کررہے ہیں ۔ نیچے اترنا مشکل ہے اور جان جوکھوں کا کام ۔ انتہائی مصروف’نپی تُلی اور مقررہ معمولات سے اٹی ہوئی زندگی! گاڑیوں اور مکانوں کی قسطیں ‘ صحت کی  انشورنس الگ’ ملازم’باورچی ‘ڈرائیور’ باغبان ‘عنقا ہیں ۔ گھر کی صٖفائی خود کرنی ہے۔ صحن کی گھاس خود کاٹنی ہے ۔گاڑی بھی خود چلانی ہے۔ کھانا پکانا ہے ۔میاں بیوی دونوں رہٹ کے بیلوں کی طرح دن رات جُتے ہیں ۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ۔وطن کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں مگر واپسی ممکن نہیں ! شیر پر سواری کررہے ہیں ۔ شیر کو پسند بھی نہیں کرتے ۔نیچے اترنے میں خطرات ہیں ۔

تارکین وطن لوٹین تو وطن میں بھی اب زندگی ان کے لیے آسان نہیں ۔ان کی نئی نسل پاکستا ن کی لاقانونیت ‘ٹریفک کی بد تہذیبی ‘ پاکستانی تاجروں اور دکانداروں کے جھوٹ اور بددیانتی ‘اور پاکستانی پولیس کی خون آشامی سے سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ایک طرف کھائی ہے۔ دوسری طرف پہاڑ کی چوٹی ۔اس پہلو پر کچھ اور باتیں کسی آئندہ نشست میں !!


Tuesday, January 23, 2018

وہم کی چار ٹانگیں اور ایک دم


میں آپ کو بیو قوف سمجھتا ہوں ۔
نہ صرف بیوقوف بلکہ گاؤدی!
میرے دائیں ہاتھ میں گلاس ہے۔گلاس میں پانی ہے،میں پانی پیتا ہوں اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں گلاس ہے نہ پانی!
میں نے سویٹر پہنی ہوئی ہے۔سویٹر کےاوپر کوٹ ہے۔سر پر گرم چترالی ٹوپی ہے۔رضائی بھی اوڑھی ہوئی ہے۔ کمرے میں ہیٹر بھی جل رہا ہے تاہم آپ کو یقین دلا رہا ہوں کہ گرمی کا موسم عروج پر ہے۔
وہ جو شاعر نے کہا تھا
؎سنا ہے کہ میرٹھ میں الو کے پٹھے
رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں
تو میں رگِ گل سے بلبل کے بال و پر باندھ رہا ہوں ۔میں شبنم کا پانی اکٹھا کرکے مٹکا بھررہا ہوں ۔آپ کے مسلسل بہتے آنسوؤں کو جمع کرکے ڈیم بنا رہا ہوں ۔پرسوں میں نے تین سالہ پوتی کے لیے پانچ سو میں کار خریدی ہے۔آج میں اس کار میں آپ کو بٹھا کر لاہور سے کراچی لیے جارہا ہوں ۔میں مشرق کی طرف جارہا ہوں اور آپ کو تسلی دے رہا ہوں کہ ہم کعبہ کی طرف سفر کررہے ہیں ۔میں ہنزہ میں راکا پوشی چوٹی کے دامن میں کھڑا ہوں اور آپ کو بحرالکاہل دکھا رہا ہوں ۔میں ویٹی کن کا رُخ کیے ہوئے ہوں ۔تاکہ اسلامی فقہ اور تفسیر کے علوم پوپ سے حاصل کروں !اسرائیل جا رہا ہوں ۔وہاں کی حکومت سے یہ کہنے کہ عالم اسلام کے اتحاد کے لیے کوشش کرے۔
آپ یہ ساری باتیں سن رہے ہیں ،اور خاموشی سے باادب کھڑے ہیں ۔آپ میں سے کچھ دست بستہ ہیں !کچھ میرے ہر جملے پر سر ہلا رہے ہیں ۔کچھ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد “بے شک بے شک”کے طلسمی الفاظ دہرا رہے ہیں ۔میں یہ سارے بے سروپا ،بے ڈھنگے بیانات دے کر ،جن کا سر ہے نہ پیر۔اپنی ٹوپی سیدھی کرتا ہوں ۔واسکٹ پر ہاتھ پھیرتا ہوں اور چل پڑتا ہوں ۔آپ احتراماً راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔کچھ آپ میں سے میرے پیچھے حواری بن کر چلنے لگتے ہیں !آپ ایک دفعہ بھی نہیں کہتے کہ کیا احمقانہ باتیں کر رہے ہو!آپ اس سے کہیں زیادہ مہذب پیرائے میں ٹوک سکتے تھے کہ حضور !جو کچھ آپ فرما رہے ہیں خلافِ حقیقت ہے۔مگر آپ چوں بھی نہیں کرتے۔یہ ہے سبب کہ میں نے آپ کو بیوقوف ‘احمق کہا ہے،نگریزی میں آپ idiotکہلاتے ہیں !

ایک سابق حکمران وفات پا چکے ہیں ان کے پوتے سیاست میں آئے تو ہمارے محترم دوست نے’جو مشہور و معروف کالم نگار ہیں پھبتی کسی کہ تیسری نسل گھس گھس کر اتنی سی ہوگئی ہے ۔لیڈر شپ کی  مسلسل تنزلی کا رونا ان کالموں میں کئی بار رویا جاچکا ہے۔ اور قارئین نے ساتھ مل کر ‘باقائدہ با جماعت آہ و زاری کی ہے۔ ایک بہت بڑے مفکر او رعالم تھے ایک نیم سیاسی نیم مذہبی پارٹی کے رہنما!ان کے جانشینوں کی بھی یہ تیسری نسل ہی سمجھیے۔گھس گھس کر اتنی سی ہوگئی ہے۔عبرت آنکھوں کے سامنے آ کر رقص کرتی ہے اور منہ چڑاتی ہے۔شیر کی شادی تھی۔تقریب  عروج پر تھی۔ہنگامہ دیدنی تھا۔انتظامات سارے چوہے کے سپرد تھے ۔کبھی وہ صوفے لگواتا کبھی دیگوں کا معائنہ کرتا’کبھی مہمانوں کو خوش آمدید کہتا!پوچھا گیا تم کس حساب سے چوہدری بنے ہوئے ہو!مسکرا کر جواب دیا’شیر میرا چھوٹا بھائی ہے۔لوگوں نے کہا کیا بات کررہے ہوخدا کا خو ف کرو!چوہا ہنسا کہ “شادی سے پہلے میں بھی شیر تھا”

فرماتے ہیں “مسلکی تقسیم نے دینی قوتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا”اسی سانس میں مزید فرمایا کہ ایم ایم اے جماعت نہیں ۔سیاسی اتحاد ہے۔ہم سب دینی قوتوں کو متحد کر کے سیاست پر قابض مغربی سامراج کے آلہ کاروں کے مقابلے میں لانا چاہتے ہیں ۔
جس ایم ایم اے کا ذکر فرما رہے ہیں اس کا وجود ہی مسلکی تقسیم سے بنا ہے یعنی حضرت نے مسلکی تقسیم کی چارد اوڑھ رکھی ہے ٹوپی پر سرخاب کا نہیں “مسلکی”تقسیم کا پَر اڑس رکھا ہے۔عینک میں شیشے مسلکی تقسیم کے لگا رکھے ہیں اور وعظ فرما رہے ہیں کہ مسلکی تقسیم نے دینی قوتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا !غور کیجیے۔ایم ایم اے میں کون کون سی جماعتیں ہیں ؟ پہلی جماعت جے یو آئی (ف)ہے یعنی جمعیت علما اسلام (فضل الرحمٰن گروپ)یہ جماعت خالص مسلکی تقسیم کی کھڑاؤں پر کھڑی ہے۔ دیو بند مسلک کی جو تقسیم در تقسیم ہوئی ہے۔یہ اس کا شاخسانہ ہے۔دوسری جماعت ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات میاں اویس نورانی کی ہے۔ آپ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے فرزند ارجمند ہیں ۔مسلک بریلوی ہے۔اس پارٹی میں کوئی دیو بندی ہے نہ شیعہ نہ اہل حدیث!تیسری پارٹی ایم ایم اے میں مولانا ساجد نقوی کی ہے۔آپ شیعہ مسلک کے رہنما ہیں اور پارٹی بھی اسی مسلک کا سیاسی پلیٹ فارم ہے۔چو تھی پارٹی جماعت اہل حدیث ہے۔مولانا ساجد میر اس جماعت کے سرخیل ہیں ۔حکومت کے ساتھی ہیں !ایوان بالا کے رکن ہیں ۔جیسا کہ نام سے واضح ہے”جماعت اہل حدیث “میں کوئی غیر اہل حدیث کیوں آئے گا!پانچویں پارٹی جماعت اسلامی ہے۔
آہ!اے جانِ حیات اور اے مماتوں کی ممات!!
بظاہر لگتا ہے کہ جماعت اسلامی کا مسلک کی تقسیم سے کوئی تعلق نہیں !مگر ذرا ٹھہریے!اتنی سرعت سے فیصلہ مت کیجیے۔اس حقیقت پر غور فرمائیے کہ اگر جماعت اسلامی ملک کی تقسیم سے بالا اور ارفع ہے تو پھر اس میں شیعہ کیوں نہیں شامل اور بریلوی اس میں نہ ہونے کے برابر کیوں ہیں ؟صرف دیو بندی مسلک کے لوگ شریک ہیں !ہاں ہوسکتا ہے کچھ اہل حدیث بھی ہوں!آٹے میں نمک کے برابر!
دوسرا نقطہ آپ کی توجہ کا یہ ہے کہ جہاں ہرمسلک کا اپنے مخصوص مدارس کا نیٹ ورک ہے ’وہاں جماعت اسلامی کے بھی اپنے دمدارس ہیں !دیوبندیوں کے اپنے الگ مدارس اور شیعہ برادری کے اپنے’ اہل حدیث برادری کے اپنے اور بریلوی بھائیوں کے اپنے! جماعت اسلامی مسلکی امتیاز سے بے نیاز ہوتی تو اپنے وابستگان کو ان شیعہ بریلوی دیو بندی اور اہلِ حدیث مدارس میں داخل ہونے اور تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کرتی مگر اس نے اپنے الگ  مدارس قائم کیے جو ماشااللہ چل رہےہیں !یوں جماعت ان سب مسلکوں سے الگ’ایک الگ پکڈنڈی پر چل رہی ہے ۔اب آپ اسے مسلکی تقسیم نہیں کہتے تو بے شک نہ کہیے۔اس لیے کہ بچے نےآکر ماں کو بتایا کہ باہر باغ میں خرگوش دیکھا ہے۔ ماں نے کہا تمہارا وہم ہوگا ۔بچے نے پوچھا کیا وہم کی چار ٹانگیں اور رنگ سفید  ہوتا ہے؟تو یہ اگر مسلکی تقسیم نہیں ہے تو پھر سفید رنگ کا خرگوش ہے یا گردن بلند زرافہ ؟؟ ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ میرا بہتر فرقوں میں سے کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔سننے والے نے اونچا قہقہہ لگایا اور کہا کہ پھر یوں کہیے کہ آپ تہترواں فرقہ بنا رہے ہیں ۔

جس سانس میں مسلکی تقسیم کی اینٹوں سے بنی ہوئی ایم ایم اے بنا رہے ہیں اسی سانس میں مسلکی تقسیم کی مذمت فرما رہے ہیں۔یہ سب حضرات یہ ایم ایم اے کے مسلکی گروہوں کے معزز رہنما جن لوگوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ مسلکی تقسیم نے دینی قوتوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہی لوگ تو ہیں جنہیں میں بتاتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں گلاس ہے نہ پانی جب کہ میں گلاس سے پانی پی رہا ہوں ۔جنہیں میں گرم کپڑوں میں ملبوس ہوکر رضائی اوڑھ کر ہیٹر جلا کر بتاتا ہوں کہ گرمیاں قیامت ڈھا رہی ہیں !جن کے سامنے بلبل کے پر رگِ گل سے باندھتا ہوں شبنم کے پانی سے مٹکا بھرتا ہو ں۔آنسوؤں سے ڈیم بنانا ہوں پانچ سو روپے کی کار میں عازم کراچی ہوتا ہوں ۔ہنزہ میں بحرالکاہل دکھاتا ہوں اور پوپ سے فقہ کا درس لیتا ہوں۔ جس طرح میرے ارشادات عالیہ کو سامعین ادب احترام سے سنتے ہیں ۔دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں ‘میرے لیے راستہ چھوڑتے ہیں اور میرے پیچھے پیچھے سر جھکا کر سعادت مندی اور برخورداری کے ساتھ چلتے ہیں ۔
بالکل اسی طرح یہ مسلکی تقسیم کے علم برداروں کی زبان سے مسلکی تقسیم کی مذمت سنتے ہیں اور آمنا و صدقنا کہتے ہیں !سادہ اور معصوم لوگ۔جنہیں بے وقوف’احمق اور گاؤدی بنایا جارہا ہے!!


Sunday, January 21, 2018

پارسائی کے پیکر


بے لوث،بے غرض،نیکوکاروں کا یہ گروہ ملک ملک پھرا،دیس دیس گھوما،ہر براعظم کی خاک چھانی،تمام بڑے بڑے ملکوں میں گیا مگر گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا۔
پھر ایک دن تھک ہار کر اس گروہ کے ارکان بیٹھ گئے۔مایوس،نامراد۔ان کے سربراہ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ تم اس زمانے میں جس بلند سطح کے اولیا کو ڈھونڈ رہے ہو ان کا ملنا نا ممکنات میں سے ہے۔ تم کہتے ہو ہمیں ایسے پارسا لوگ دیکھنے کی حسرت ہے جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔جو جھوٹ نہ بولتے ہوں،چوری نہ کرتے ہوں،جو فرش خاک پر سوتے ہوں جو دنیا اور دنیا کے مال و اسباب کو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے ہوں ایسے لوگ اس زمانے میں نہیں مل سکتے۔تم ان کی تلاش میں اپنی زندگی کے دن گنوا رہے ہو۔
مگر مستقل مزاج درویشوں کا یہ گروہ اپنی ہٹ پر قائم رہا۔
درویشوں کے اس گروہ کو پوری امید تھی کہ دنیا میں قرون ِ اولیٰ کے نیکوکاروں جیسے لوگ اب بھی موجود ہیں ورنہ دنیا ختم ہوچکی ہوتی ان کا اس بات پر پختہ ایمان تھا کہ جب تک دنیا میں ایک بھی پارسا موجود ہے۔دنیا کا سلسلہ چلتا رہے گا۔انہوں نے تلاش جاری رکھی۔انہوں نے کینیڈا اور سائبیریا کے برف زار چھانے۔برازیل   اور ارجنٹینا کے جنگلات پھرے۔
ڈینوب اور نیل کے دریاؤں کے ساتھ ساتھ چلے۔جاپان کے دور افتادہ جزیروں میں گئےفجی ہوائی اور کک آئی لینڈ تک ہوآئے ۔افریقہ کے وحشی قبائل سے ملے،شرق اوسط کے ریگزاروں میں مارے مارے پھرے۔چین اور منگولیا گئے مگر جن فرشتہ خصلت لوگوں کو دیکھنے کی تمنا دل میں لیے ایک ایک سانس گن رہے تھے وہ فرشتہ خصلت لوگ نہ مل سکے۔

ایک بار پھر اجلاس ہوا’مباحثہ ہوا’لیڈر نے پھر سمجھانے کی کوشش کی مگر نوجوان راہب عزم کے پکے تھے۔پہاڑ جیسے ارادے کے مالک اب کے انہوں نے ایک اور حیلہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے اپنے گروہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور طے کیا کہ ایک گروپ مشورہ کرنے کے لیے اور رہنمائی طلب کرنے کے لیے پوپ کی خدمت میں حاضر ہوگا۔ دوسرا گروہ اسلامی دنیا کی قدیم ترین درسگاہ ازہر یونیورسٹی میں جاکر شیخ الازہرکا دروازہ کھٹکھٹائے گا ۔انہیں امید تھی کہ یہ دونوں بزرگ ان کی مدد کریں گے۔
پہلا گروہ روم پہنچا ویٹیکن گیا۔ پوپ سے ملاقات کے لیے کئی دن انتظار کرنا پڑا ۔وہ جنوبی افریقہ کے دورے پر تھے۔واپس تشریف لائے۔گروہ سے ملے ۔گروہ کے رہنما نے کہا۔
“اے پوپ! آپ مسیحی مذہب کے روحانی رہنما ہیں ‘ یہ ایک آسمانی مذہب ہے۔آپ ہماری مدد کیجیے۔ہم نوجوان اس دنیا میں اس زمانے میں ان لوگوں کو دیکھنااور ملنا چاہتے ہیں جو اگلے وقتوں کے اولیا کی زندہ جاگتی تصویریں ہوں ۔ہمیں ہر ایک نے ناامید کیاہمیں بار بارکہا جاتا ہے کہ تم ناممکن کی تلاش میں ہو۔مگر ہمیں یقین ہے کہ دنیا قائم ہے تو ضرور ایسے لوگ کہیں نہ کہیں موجود ہیں !
پوپ نےان  کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا میرے بچو!خدا تمہاری مراد پوری کرے۔تم سچ کہہ رہے ہو یہ گروہ دنیا میں موجود ہے ۔بالکل موجود ہے۔ ضرور بالضرور موجود ہے۔پھر پوپ نے انہیں اس گروہ کا پتہ بتایا۔

دوسرا گروہ قاہرہ پہنچا۔جامع ازہر گیا۔معلوم ہوا شیخ الازہر کو مصر کے صدر نے ریاستی امور میں مشورہ کرنے کے لیے ایوان صدر میں بلایا ہوا ہے۔ بہر طور کئی روز انتظار کرنے کے بعد شیخ الازہر نے انہیں بیس منٹ کا وقت دیا۔انہوں نے عرض کیا ۔
یا شیخ الازہر!آپ عالم اسلام کی قدیم ترین علمی میراث کے سرخیل ہیں ۔آپ کا فتویٰ بھی چلتا ہے۔آپ اسلامی علوم و فنون کے ماہر ہیں اور ماہرین کے سرپرست و مربی بھی! خدا اور رسول ﷺ کا واسطہ دے کر آپ سے مدد کی درخواست کرتے ہیں۔ہماری رہنمائی فرمائیےاور اس گروہ کا سراغ دیجیے جو اگلے وقتوں کے فقیروں جیسا ہے!ہم اولیا کے اس گروہ کو دیکھے بغیر مرنا نہیں چاہتے!

شیخ الازہر نے تقویٰ کے ان متلاشیوں کی مصری قہوے سے خاطر مدارت کی !پھر کچھ دیر غور فرمایا۔ پھر اپنے  نائبین سے تبادلہ خیالات کیا۔پھر نوجوان راہبوں سے مخاطب ہوئے”ہاں !ایسا گروہ موجود ہے”پھر اس کا نشان پتہ محل وقوع ڈھونڈنے کا طریقہ بتایا۔
دونوں گروہ خوش خوش ‘جائے مقررہ پر ایک دوسرے سے ملے۔اپنی اپنی روداد سنائی ۔جو ارکان پوپ کو مل کر آئے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ پوپ نے یہ کہا ہے۔جو گروپ شیخ الازہر کو مل کر آیا تھا ‘اس نے بتایا کہ شیخ نے یہ پتہ مرحمت فرمایا ہے۔!
ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔پوپ اور شیخ الازہر ۔دونوں نے ایک ہی ملک۔ایک ہی شہر، ایک ہی جگہ اور ایک ہی گروہ کا بتایا تھا! مسیحی اور اسلامی دونوںدنیاؤں کے روحانی لیڈر دونوں بڑے اس بات پر متفق تھے۔

نوجوان راہبوں کا یہ گروہ حیران ہوا۔حیران اس لیے کہ کرہ ارض کا ہر گوشہ چھان چکے تھے مگر اس چھوٹے سے ملک کا جو ایشیا کے ایک کونے میں تھا اور جس کے جنوب میں سمند تھا اور سمندر کے بعد زمین ختم ہوجاتی تھی’انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ان کا دھیان کبھی اس طرف نہ گیا تھا۔ مگر الحمدللہ !پاک ہے وہ ذات جس کے لیے ساری تعریفیں ہیں ۔پوپ اور شیخ الازہر نے ان کا پتہ بتلا دیا ۔
نوجوان راہبوں کا گروہ پاکستان کے دارالحکومت پہنچا۔ائیر پورٹ سے سیدھے پارلیمنٹ بلڈنگ پہنچے۔سکیورٹی والوں کو پوپ اور شیخ الازہر کے حکم نامے دکھائے،جن پر لکھا تھا کہ ان بچوں کو ‘راہِ حق کے ان مسافروں کو ‘اولیا اللہ کے ان متلاشیوں کو پارلیمنٹ کے اندر جانے دیا جائے۔

پوپ اور شیخ الازہر کی دعائیں کام آئیں۔یہ وہ خوش بخت دن تھا جب پاکستانی پارلیما ن کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ہورہا تھا۔ سینٹ اور قومی ا سمبلی کے ممبران ایک ہی ہال میں تشریف فرما تھے۔سٹیج پر سوٹ میں ملبوس سپیکر اور پونی پہنے سینٹ کے چیئرمین دونوں تشریف فرما تھے۔

نوجوان راہبوں کا گروہ برآمدوں سے ہوتا پارلیمنٹ کے اس ہال میں داخل ہوا ۔سامنے اولیا اللہ کا گروہ دیکھا جو اس گئے گزرے زمانے میں پرانے وقتوں کے اللہ والوں کی جیتی جاگتی تصویر تھی!یااللہ !یا پروردیگار!تو نے دست گیری کی ہمیں اتنی عقل دی کہ ہم ویٹی کن اور قاہرہ جا کر رہنمائی مانگیں ! الحمدللہ!ہم نے موت سے پہلے پارساؤں کو دیکھ لیا!

پاکستانی پارلیمان !بے شک ا ن محیرالعقول افرا د کا گروہ ہے جو برائیوں سے پاک اور نیکیوں سے لبریز ہیں ۔ یہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔ان کےاثاثے کیا ہیں ؟بوریا اور چند برتن!یہ فقر کے پیکر ہیں ،یہ سرکاری فنڈز کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔یہ غریبوں کے غم خوار ہیں ۔یہ اور ان کے بچے بیمار ہوں تو عوام کے ساتھ سرکاری شفا خانوں میں قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ان کے بچے پوتے نواسے پوتیاں سرکاری سکولوں میں غریب عوام کے بچوں کے ساتھ ٹاٹوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

یہ لوگ اس قدر پارسا ہیں کہ زبا ن نہیں کھولتے۔ آنکھیں بند رکھتے ہیں۔دلوں پر مہریں لگوا لی ہیں۔وزیراعظم ان کے سامنے تقریر کرتا ہے۔وہ تقریر عدالت میں دلیل کے طور پر پیش ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے وہ سیاسی تقریر تھی۔یعنی جھوٹ تھا۔ پارلیمان کے ان اولیا کی ادنیٰ سی کرامت ہے کہ جھوٹ   سچ ہوجاتا ہے۔ایسے ایسے مذہبی رہنما اس پارلیمان میں تشریف فرما ہیں جن کی ساری زندگیاں مکروہ ترین جوڑ توڑ اور بدترین منافقت میں گزری ہیں مگر پارلیمان ان سب کو دودھ میں نہلا کر اس طرح پاک صاف کردیتی ہے کہ ڈیزل کی بو تک نہیں آتی۔لندن دبئی جدہ پیرس کی جائیدادیں جنت کا حصہ لگتی ہیں ! اگر اس پارلیمان کے ارکان کی جیبوں سے نکلی ہوئی سفارشی پرچیاں  گزشتہ دس سال کی جمع کی جائیں تو ایک ارب ڈالر کی ردی بکے مگر ان میں سے اکثر کے پاس گاڑیاں ہیں نہ کچن زندہ رکھنے کے لیے چند روپے!تو پھر فقیروں کا یہ گروہ ٹیکس کہاں سے دے۔

مذاہب کی تاریخ میں پوپ اور شیخ الازہر پہلی بار ایک بات پر متفق ہوئے ہیں ۔ وہ یہ کہ پاکستانی پارلیمنٹ کے ارکان فقیروں درویشوں پارساؤں نیکوکاروں ‘پہنچے ہوئے اولیا کا وہ گروہ ہے جس کی مثال اگر کہیں ہے تو پرانے زمانے میں ہوگی۔اس زمانے میں ان جیسا نیک سچا ‘حلال کھانے والا’ حرام خؤروں سے نفرت کرنے والا ‘اداروں کو میرٹ پر چلانے والا طائفہ روئے زمین پر کہیں اور نہیں !


Friday, January 19, 2018

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب



میلبورن کے ایک پر رونق بازار برگنڈی سٹریٹ کی ایک دکان سے جنوبی ایشیا کا سودا سلف مل جاتا ہے۔یوں تو آسٹریلیا کے تمام بڑے شہروں میں پاکستانی،بھارتی اور بنگالی بساطی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں مگر کوشش سب خریداروں کی یہی ہوتی ہے کہ گھر کے نزدیک کوئی دکان مل جائے یا دور بھی ہو تو ایسی کہ ہر شے وہاں میسر ہو۔
برگنڈی سٹریٹ کی دکان سے محفوظ شدہ بھنڈی بیسن اور اسی قبیل کی اشیا لے کر کاؤنٹر پر قیمت دے رہا تھا کہ اچانک نظر ساتھ رکھے لڈوؤں پر پڑی جن پر جلی حروف میں لکھا تھا "بوندی لڈو"ایک غیر مرئی طاقت یا شاید شوق نے میرے ہاتھوں کو ان لڈوؤں کی طرف بڑھایا اور ڈبہ اپنے سودے میں شامل کرلیا۔

کچھ عرصہ تک بوندی عام ملتی تھی۔بوندی والے لڈو بھی۔پھر دونوں غائب ہوتے گئے اور اب شاید ہی کہیں نظر آتے ہوں۔ موتی چور اور بیسن کے لڈو عام ہیں۔ پیڑے بھی لڈو کی شکل کے ہیں۔ بدایوں کے پیڑے مشہور تھے۔ مردان میں ایک صاحب نے شروع کیے جو اب پورے ملک میں معروف ہیں۔

یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے کھانے زیادہ تر وسط ایشیائی اصل کے ہیں جب کہ مٹھائیاں مقامی ہیں۔اس کی ایک وجہ تو سامنے صاف نظر آرہی ہے کہ مسلمان گوشت خور تھے۔ ہندو گوشت سے اجتناب کرتے تھے۔چنانچہ مقامی کھانے افغانستان ایران اور  وسط ایشیا سے آنے والوں کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتے تھے،یہ کالم نگار وسط ایشیا کے بہت سے شہروں میں گیا۔ ازبک دوستوں کے گھروں میں بھی کھانے کھائے۔دعوتیں اور شادیوں کے دستر خوان بھی چکھے۔مگر مٹھائیاں عنقا دیکھیں۔سارا زور وہاں پلاؤ پر ہے اور گوشت پر! ہاں خشک میوے اور تازہ پھل افراط سے کھائے جاتے ہیں جو مٹھائی کے قائم مقام ہیں۔

میلبورن میں ہمارے ایک بزرگ دوست ہیں راشد سلطان صاحب!کانپور سے ہیں اور ثقافتی اور ادبی تقریبات کی  روح روا ں! ان کے علم کی رُو سے جن مٹھائیوں میں پنیر استعمال ہوتا ہے ان کی پیدائش بنگال کی ہے۔دودھ والی برصغیر کے شمال سے ہیں۔یعنی لاہور دلی اور لکھنؤ سے جبکہ حلوے ایران سے آئے۔

انہوں نے ایک دلچسپ بات یہ بھی بتائی کہ جو مٹھائیاں (بقلاوا وغیرہ)ہم اربوں کے  کھاتے میں ڈال دیتے ہیں وہ اصلاً ترکی اور یونان سے ہیں۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ عربوں کی شیرینی کھجور سے شروع ہوتی ہے اور کھجور پر ہی ختم ہوتی ہے۔

حلوے،عین ممکن ہے کچھ ایران سے بھی آئے ہوں مگر ابنِ بطوطہ ملتان اور دلی کے درمیان سفر کا ذکر کرتا ہے تو ایک صابونی حلوے کا ذکر کرتا ہے۔ہوسکتا ہے یہ وہی حلوہ ہو جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہمارے ہاں مکھڈی  حلوہ،باغیا(کالا باغ کا)حلوہ، ڈھوڈا اور سوہن حلوہ کے نام سے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ ایک لطیفہ نما واقعہ یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ نادر شاہ دہلی پر حملہ آور ہوا تو انہی دنوں اسے قبض کی شکایت ہوئی۔ حکما نے گل قند پیش کی۔کھا کر کہنے لگا۔۔حلوائے خوب است۔دیگر بیار۔یعنی کیا مزیدار حلوہ ہے اور لاؤ۔نہ جانے یہ روایت کہاں تک درست ہے کیونکہ گلقند،قبض دور کرنے کے لیے یونانی حکما کا پسندیدہ نسخہ تھا۔ اس صورت میں ایرانیوں کے لیے اسے نئی شے نہیں ہونا چاہیے تھا۔

جیسا کہ مستقل قارئین جانتے ہیں یہ کالم نگار حصول تعلیم کے لیے چند برس ڈھاکہ میں رہا۔بنگال مٹھائیوں کا گڑھ ہے اور کچھ مٹھائیوں کی جائے پیدائش بھی! سب سے زیادہ انوکھی مٹھائی ہمارے لیے وہاں میٹھا دہی تھا جسے بنگالی میں "مشٹی دوئی" یعنی مٹھائی والا دہی کہا جاتا ہے ۔یوں تو بھارتی بنگا ل میں بھی یہ دہی تیار کیا جاتا ہے مگر مشہور ترین بوگرہ کا ہے۔ جو بنگلہ دیش کا شمالی شہر ہے۔ میٹھا دہی ہمیشہ مٹی کے برتنوں میں رکھا جاتا ہے اور انہی میں فروخت ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دہی میں جو بچا کچھا پانی ہوتا ہے وہ برتن کے مساموں سے رِس رِس کر باہر جاتا رہتا ہے اور دہی زیادہ سے زیادہ گھنا ہوتا رہتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ دہی کراچی میں بھی  ملنے لگا کئی بار کراچی سے لانا ہوا۔اب اسلام آباد اور روالپنڈی کے کچھ حلوائی تیار کرکے بیچ رہے ہیں۔ مگر اس کی مقبولیت اور کھپت کم ہے اس لیے ضروری نہیں کہ فروخت ہونے والا میٹھا دہی تازہ ہو اور درست حالت میں ہو۔

گلاب جامن،رس گلا، سندیش اور چم چم بنگال کی مشہور مٹھائیاں ہیں ان کا اصل مزا بنگال ہی میں ہے۔
ڈھاکہ کے نواح میں ایک گاؤں "گھوڑا سال "ہے جہاں کے رس گلے مشہور ہیں۔ایک دوست اور ہم جماعت قاضی خلیل الرحمٰن گھوڑا سال کے تھے۔بنگالی زبان میں اس لفظ کا تلفظ کھلیل الرحمٰن ہے۔ وہ ہم مغربی پاکستانی دوستوں کو گھوڑا سال لے گئے وہاں ان کی زمینیں اور باغات تھے۔ ان کی دادی جان ملیں۔تخت پوش پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔خلیل نے ہمارا تعارف یوں کرایا۔کہ یہ بہت دور سے، صدر ایوب خان کے وطن سے آئے ہیں۔انہوں نے دادی جان کو بہت کہا کہ یہ بنگالی زبان نہیں سمجھتے مگر پھر بھی انہوں نے ہم سے طویل گفتگو کی جو زیادہ تر ان کے خاندانی مسائل پر مشتمل تھی۔بہر طور،رس گلوں کا جو مزا وہاں آیا،کم ہی کہیں اور ایسا آیا۔

رس گُلا کی ایجاد پر اڑیسہ اور بنگال کا جھگڑا چلا آرہا ہے۔اُڑیسہ والے کہتے ہیں کہ یہ پہلی بار ان کے شہر"پوری"میں بنا۔اڑیسہ کے باورچی جو بنگال کے گھروں میں ملازمت کرتے تھے،اسے بنگال لے گئے۔بنگالی مورخ کہتے ہیں کہ پنیر تو سترھویں صدی سے پہلے برصغیر میں تھا ہی نہیں ۔اڑیسہ والے کیسے بنا سکتے ہیں۔ ان کے بقول یہ پرتگالی تھے جو ہندوستان میں پنیر لائے۔بنگالیوں کا موقف ہے کہ رس گلا بنانے اور بیچنے کا کام 1868میں کلکتہ سے شروع ہوا۔کچھ بنگالی لکھاری اس سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے بھی دو برس پہلے کلکتہ ہائی کورٹ کے پاس ایک دکان نے اس مٹھائی کو متعارف کرایا۔یہ نزاع اڑیسہ اور بنگال کے درمیان اتنا بڑھا کہ اڑیسہ کی حکومت او رعوام نے 30جولائی 2015کا دن "رس گلا ڈے "کے طور پر منایا۔ مقصد یہ تھا کہ ملکیت کو پکا کیا جائے۔ ایک ماہ بعد مغربی بنگال (بھارتی بنگال)نے ا ڑیسہ کا دعوی چیلنج کردیا۔ اڑیسہ کی حکومت نے اس کے جواب میں تین کمیٹیاں تشکیل دیں جو اڑیسہ کا حق ملکیت قانونی طور پر ثابت کریں گی اور حاصل بھی کریں گی۔ان کمیٹیوں نے اپنی رپورٹ میں تاریخی شواہد سے ثابت کیا کہ رس گلا سب سے پہلے اڑیسہ میں بنا۔ مقابلے میں مغربی بنگال کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے محکمے نے بھی کارروائی شروع کردی ہے۔

شام چار بچے ڈھاکہ یونیورسٹی کے ہوسٹلوں کے برآمدوں میں ہر طرف ایک دھیمی نرم آواز " چم چم "کی آنے لگتی ہے۔بنگالی شام کی چائے کے ساتھ مٹھائی ضرور کھاتے ہیں وہ اسے ناشتہ کہتے ہیں۔ہمیں بھی اس ناشتے کی عادت پر گئی۔خوب چم چم کھائی۔ واپس مغربی پاکستان آئے تو چم چم کا کوئی وجود نہ تھا۔اب مل جاتی ہے
؎ؔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

ڈھاکہ کے قریب ایک قصبہ ہے ٹنگیل   -    بہت مشہور! یہی چم چم کی جنم بھومی ہے۔سندیش بھی خالص بنگالی مٹھائی ہے جو پنیر سے تیار ہوتی ہے۔

اب آئیے مٹھائیوں کے شہنشاہ گلاب جامن کی طرف۔ نیپالیوں نے اس کا کیا ہی خوبصورت نام رکھا ہے۔ لال موہن! یہ لال رنگ کا ہوتا ہے اور کالا بھی!ایک روایت یہ ہے کہ اسے ترک برصغیر میں لائے اور روایت کے مطابق مغل شہنشاہ شاہ جہان کا ایک گمنام باورچی اس کا موجد تھا۔گلاب فارسی لفظ ہے اور جامن خالص ہندی!ظفر اقبال کاایک فتنہ انگیز شعر یاد آرہا ہے
میرے نسخے میں شامل تیرے رخسار کا سیب
اور تیرے ہونٹ کا جامن بھی مجھے چاہیے ہے!

شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا حصہ ہو جہاں گلاب جامن نہ دستیاب ہو۔جہاں بنتے نہیں، وہاں ڈبوں میں بند پاکستان اور بھارت دونوں کے بنے ہوئے مل جاتے ہیں ۔اب یہ آسٹریلیا سے لے کر لندن تک چٹی چمڑی والوں کا بھی پسندیدہ آئٹم ہے۔ امریکیوں کا نہیں پتہ، پسند کرتے ہیں یا نہیں۔ویسے وہ ہر کام اہل برطانیہ کے الٹ کرتے ہیں۔

ڈھاکہ میں مشہور ترین دکان اس زمانے میں مرن چند کی تھی۔دوست بتاتے ہیں کہ اب اس کی نئی نسل شیرینی کا کاروبار چلا رہی ہے۔یہ اور بات کہ اب مقابلے میں اور لوگ بھی میدا ن میں آگئے ہیں۔یوں بھی بانی جب کو چ کرجائے تو پسماندگان سے وہ معیار برقرار نہیں رکھا جاتا۔دکانیں اونچی ہوجاتی ہیں اور پکوان پھیکے۔ جیسے بندو خان کے وہ کباب جو جیکب آباد لائن کراچی کی خستہ حال دکان پر ملتے تھے،اب خواب و خیال ہوگئے۔

کس کس مٹھائی کا تذکرہ کیا جائے!برفی،رس ملائی، امرتی،جلیبی،قلفی،پیٹھا،بالو شاہی،کاجو قتلے، قلاقند،ربڑی،شکر پارے، حلوے اس کے علاوہ ہیں۔بادام سے لے  کر اخروٹ تک،گاجر سےلے کر آلو تک۔مربے بھی مٹھائی ہی کی شکل ہے۔بادشاہوں کے ذاتی طبیب مربوں کو خوشنما بنانے کے لیے ا ن پر چاندی کے ورق رکھتے تھے۔ اب چاندی کے ورق بھی آؤٹ آف فیشن ہوگئے ہیں۔
ساری دنیا کی مٹھائیاں کیک پیسٹری حلوے کھائے ہیں مگر رات کی بچی ہوئی اس کھیر کی لذت نہیں بھولتی جو صبح ناشتے میں دادی جان مٹی کی پلیٹ (صحنکی) میں ڈال کر دیتی تھیں۔ٹھنڈی اور سوہندی!
ہاں!ایک مٹھائی کا ذکر  غالب نے بھی کیا تھا
؎کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا!


Wednesday, January 17, 2018

کیا پنجاب صرف ایک شہر کا نام ہے؟


ضلع اٹک میں داخل ہونے کے چھ بڑے راستے ہیں۔ پہلا ٹیکسلااور حسن آباد کے ذریعے۔دوسرا راولپنڈی سے ترنول کے ذریعے۔تیسرا کے پی سے آتے ہوئے دریائے سندھ پار کرکے۔چوتھا کوہاٹ سے آتے ہوئے خوشحال گڑھ کے ذریعے(یاد رہے کہ خوشحال گڑھ کے مقام پر دریائے سندھ پر بنے ہوئے نئے پل کی تعمیر پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اکتوبر2011میں شروع ہوئی تھی)پانچواں تلہ گنگ اور ڈھوک پٹھان سے ڈھلیاں موڑ کے راستے۔چھٹا ایبٹ آباد سے آتے ہوئے حسن ابدال کے ذریعے۔یوں تو موٹر وے بھی ضلع اٹک کو جھلک دکھاتی ہے مگر صرف چند کلو میٹر کے لیے!

میں تحصیل فتح جنگ اٹک کے ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں۔میں ان چھ راستوں سے اپنے پسماندہ غریب اور مفلوک الحال ضلع میں داخل ہوتا ہوں تو پوری کوشش کرتا ہوں کہ کوئی تبدیلی نظر آئے۔ترقی کا کوئی مظہر دیکھ سکوں۔ضلع میں کوئی نئی شاہراہ،کوئی ہسپتال،کوئی مثالی تعلیمی ادارہ،کوئی آئی ٹی کا تربیتی مرکز کہیں نظر آئے تو اس کی تعریف کروں مگر ایسی کوئی تبدیلی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔وہی شکستہ خاک اڑاتی سڑکیں،وہی دھول سے اٹے کچے راستے ضلع کے اطراف و اکناف میں سسکتے وہی سرکاری سکول، جن میں بیٹھنے کے لیے ٹاٹ تک نہیں،دیواریں ہیں تو استاد نہیں،پینے کا صاف پانی نہیں وہی سوز وکیوں کے پیچھے لٹکتی مخلوق۔وہی سرکاری ہسپتالوں میں ذبح خانوں کاسماں!

پرویز الٰہی کی پنجاب کی حکمرانی کے آخری ایام تھے۔اس دن اٹک کے ضلع ناظم میجر طاہر صادق فتح جنگ میں موجود تھے۔میں گاؤں کے معززین کا وفد لے کر انہیں ملا۔ ہم نے ان کی   خدمت میں دو درخواستیں پیش کیں۔ ایک 1940میں بنے ہوئے پرائمری سکو ل کو مڈل کی سطح تک لے جانے کی۔دوسری گاؤں کے ایک صاحب حیثیت صاحب نے چار کنال کی جگہ بھی حکومت کے نام کرادی تھی۔میجر طاہر صادق نے ہماری دونوں عرضداشتیں منظور کرلیں۔سکول عملی طور پر اپ گریڈ ہوگیا ڈسپنسری کے لیے بجٹ کا معاملہ تھا اس کے فوراً بعد شہباز شریف صاحب کی حکومت آئی اور سب سے بڑا کلہاڑا عوام پر چلایا گیا کہ ضلعی حکومتیں ختم کرکے ایسٹ انڈیا کمپنی کا فرسودہ نظام مسلط کردیا گیا صرف اس لیے کہ اضلاع تخت لاہورکے مسلسل محتاج رہیں۔اٹک کے ڈی سی او نے اس ڈسپنسری کے لیے بجٹ کا تخمینہ لاہور بھیجا جو دس سال سے وہاں پڑا ہے۔اس کالم نگار نے اور اس کے صحافی ساتھیوں نے میڈیا میں شہباز شریف صاحب کی منتیں کیں۔شور مچایا دہائی دی مگر کچھ نہ ہوا سوائے اس کے کہ شہباز شریف صاحب کے ایک محترم معاون نے ٹیلی فون کیا اور صرف اتنا کہا کہ ڈسپنسری کی منظوری ہم نے تو نہیں دی تھی،اسی دن اٹک کے اس وقت کے ڈی سی او نے اپنی طرف سے وضاحت کی کہ اس نے معاملہ لاہور بھجوا دیا تھا اپنے میڈیکل چیک اپ کے لیے سال میں بیسیوں بار لندن جانے والا حکمران ایک دور افتادہ گاؤں کی ڈسپنسری کے لیے چند لاکھ روپے نہیں دے سکا۔

چلیے میرے ضلع کو بھی چھوڑ دیجیے۔ڈسپنسری کو بھی چھوڑ دیجیے۔اگر ضلع ناظم مخالف پارٹی سے تھا تو اس کی منظور کردہ  ڈسپنسری کا بجٹ روک کر اپنی انا کو گنے کا رس ضرور پلائیے آپ راولپنڈی آجائیے۔میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر ایک جدید رہائشی کالونی میں رہتا ہوں۔پیپلز پارٹی کے پانچ سالوں میں اور مسلم لیگ نون کے ان ساڑھے چار برسوں میں اسلام آباد ایک غلیظ بستی کی صورت اختیار کرچکا ہے اس میں اب صرف کروڑ پتی اور ارب پتی افراد عزت سے رہ سکتے ہیں جن کا صفائی کا،پانی کا اور پہریداری کا اپناذاتی انتظام ہے عام آدمی کے لیے یہاں صفائی ہے نہ پانی نہ حفاظت۔ہر سیکٹر کے لیے ڈاکوؤں کے مختلف گینگ ہیں جن افراد کی کاریں چوری ہوتی ہیں ان میں سے کچھ کو بعد میں اغوا کیا جاتا ہے۔اس لیے جس کا بس چلتا ہے وہ اسلام آباد کو چھوڑ کر دوسری جدید رہائشی کالونیوں میں اٹھ آتا ہے جہاں اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کا عمل دخل نہیں۔اس وقت سب سے زیادہ ٹریفک اس سڑک پر ہے جو روات چوک سے فیض آباد کے راستے اسلام آباد جاتی ہے۔اسے ایکسپریس ہائی وے کہتے ہیں۔یہ شاہراہ گوجرخان مندرہ،سوہاوہ،منگلا،جہلم،چکوال اور تمام نواحی علاقوں کے لاکھوں لوگوں کو ہر روز دارالحکومت لاتی اور واپس بھیجتی ہے۔پنڈی اسلام آباد کا سب سے بڑا شاپنگ مال سنٹر(پی ڈبلیو ڈی روڈ)اسی شاہراہ پر ہے جہاں پنجاب کے مذکورہ بالا مقامات سے لاکھوں ضرورت مند روزانہ آتے ہیں۔اس شاہراہ پر گلبرگ سوسائٹی نے اپنے خرچ سے پل تعمیر کرائے ہیں۔مگر گلبرگ سے لے کر روات تک یہ شاہراہ بدترین ٹریفک جام کا ہرروز نمونہ پیش کرتی ہے لوگوں نے میڈیا میں منتیں کر ڈالیں مگر وفاقی حکومت ٹس سے مس ہوئی نہ پنجاب حکومت!مانا یہ شاہراہ کاغذی طور پر وفاق کے پاس ہے مگر اس سے فائدہ پنجاب اٹھا رہا ہے۔دوسرے یہ کہ اگر پنجاب کے وزیرا علی دارالحکومت میں میٹرو بس چلا سکتے ہیں اگر وہ وفاق کی طرف سے قطر سے گیس لاسکتے ہیں اگر وہ ترکی میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنس میں اپنے وزیراعظم کو اپنے پیچھے کھڑا کرسکتے ہیں اگر وہ خواجہ آصف کی وزارت میں اتنا دخل دے سکتے ہیں کہ خواجہ صاحب کابینہ میٹنگ میں پھٹ پڑیں تو چند میل کا یہ ٹکڑا بھی کُھلا سکتے ہیں۔

حاشا وکلا ہمیں شہبا ز شریف صاحب سے کوئی دشمنی نہیں!ہمارا ان کا کیا مقابلہ!وہ بادشاہ ہم رعایا۔وہ حاکم ہم محکوم۔انہوں نے راولپنڈی سلام آباد میں میٹرو بس چلائی۔اس کالم نگار نے اس کی تعریف میں کالم لکھے۔ یہ اور بات کہ پانچ میں سے صرف ایک رُوٹ پر میٹرو چلائی گئی ہے۔لیکن اگر وہ لاہور کو کوئٹہ پشاور اور کراچی کے مقابلے میں آسمان پرلے گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پنجاب میں بہتری آگئی ہے۔پنجاب لاہور نہیں۔نہ ہی لاہور پنجاب ہے۔لاہور تخت لاہور تو ہوسکتا ہے،پنجاب نہیں ہوسکتا۔

رہی یہ حقیقت کہ تعلیم صحت اور صاف پانی کے لیے پنجاب میں کچھ نہیں کیا گیا۔تو یہ با ت سب مانتے ہیں۔مگر پھر پنجاب سپیڈ کا نعرہ بھی نہ لگایا جائے۔کیا اس میں کوئی شک ہے  کہ قصور میں سینکڑوں بچوں کی گندی فلمیں بنانیوالوں کوکوئی سزا نہیں ملی۔بلکہ کل ارشاد عارف صاحب نے اس اڑتی خبر کا ذکر کیا ہے کہ ان میں سے کچھ ملزموں کواستاد کے طور پر بھرتی کرلیا گیا ہے۔
شہباز شریف صاحب پر ایسی کتابیں لکھی جارہی ہیں جن میں انہیں (معاذ اللہ نقل کفر کفر نہ باشد)حضرت عمر فاروقؓ سے تشبیہ دی جارہی ہے۔معلوم نہیں اس درجہ خوشامد کرنے والوں کے منہ میں شہباز شریف صاحب نے مٹی ڈالی ہے یا نہیں۔کیونکہ جن عمر فاروق اعظم ؓ سے انہیں تشبیہ دی جارہی ہے ان کی ایک صاحب نے خوشامد کی تھی تو آپ ؓ نے جھک کر زمین سے مٹھی میں مٹی اٹھائی اور  خوشامد کرنے والے کے منہ میں ڈال دی۔یہ وہی فاروق اعظمؓ ہیں جو فرات کے کنارے مرنے والے کتے کا بھی ذمہ لیتے تھے۔کیا عمر فاروقؓ کے گھر پر بھی ہزاروں پہریدار تھے جو تنخواہیں حکومت سے لیتے تھے اور کیا ان کے گھر کے ارد گرد گلیاں برسوں سے عوام کے لیے بند تھیں؟پہلے شہباز شریف صاحب اس شیر شاہ سوری جیسے تو ہولیں جو حضرت عمر ؓ کی خاک پا کے برابر بھی نہ تھا۔جس کے زمانے میں کسی گاؤں میں قتل ہوتا توقاتل نہ ملنے کی صورت میں نمبردار کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔جس دن قصور میں پہلی بچی آبروریزی کے بعد قتل کی گئی اس دن وزیراعلی قصور میں خیمہ زن ہوجاتے اور قاتل کو پھانسی دینے سے پہلے واپس نہ جاتے تو یہ کالم نگار انہیں سلام کرتا اور ان کی تعریف کرتا اگرچہ وہ ایک غریب شخص کے سلام کے محتاج ہیں نہ تعریف کے۔مگر میں تو عقیدت کے پھول ضرور نچھاور کرتا۔وہ کمیٹی بناتے بھی ہیں تو بارہ بچوں کے قتل کے بعد۔وہ بھی اس لیے کہ ملک میں طوفان آگیا ہے اور کمیٹی میں اسی پولیس کے سربراہ کو رکھتے ہیں جس کا افسر زینب کے چچا سے مبینہ طور پر بدبو کی شکایت کرتا ہے اور زینب کے چچا کو حکم دیتا ہے کہ لاش ڈھونڈنے والے اہلکار کو دس ہزار روپے دے۔"باخبر"وزیراعلی کویقیناً اس کا علم نہیں ورنہ وہ اس پولیس افسر کو ضرور نشان عبرت بناتے!شہباز شریف صاحب غریب عوام کو خونی انقلاب سے اکثر ڈراتے ہیں۔وہ حبیب جالب کی انقلابی شاعری بھی گا کر پڑھتے ہیں۔انہوں نے یہ خبر ضرور پڑھی اور سنی ہوگی کہ دو دن پہلے ان کے صوبے پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں ایک ایم این اے نے صرف اس لیے بس کے ڈرائیور کو گالیاں دیں،بس سے باہر نکا ل کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر پولیس کو "حکم"دے کر اسے حوالات میں بند کرادیا کہ اس نے رش والی ٹریفک میں ایم این اے کی گاڑی کو کراس کرتے وقت ہارن دیا تھا۔ایم این اے نے پولیس کو دھمکی دی کہ ڈرائیور کو چھوڑا تو وردیاں اتروا دوں گا۔بس کے مسافروں کو سامان بھی نہیں دیا گیا کہ "جب تک سردار صاحب حکم نہیں دیتے کسی کو سامان نہیں مل سکتا"!

خونی انقلاب سے ڈرانے والے اور حبیب جالب کی انقلابی نظمیں گانے والے وزیراعلی اس واقعہ کے بعد کیا کریں گے؟کیا وہ ایم این اے کو اس ظلم اور  دھاندلی کی سزا دیں گے؟کیا وہ صوبے کی حکومت کی طرف سے اور خادم اعلی کی حیثیت میں اسے قانون کے حوالے کریں گے؟ اس قسم کے واقعات پہلے بھی پیش آئے مگر کچھ نہیں ہوا۔تھانے پر حملے کرا کر ملزم چھڑا لیے گئے اور تخت لاہور کا کوئی پایہ نہ لرزا۔اگر اب اس واقعہ پر بھی کوئی انصاف نہیں ہوتا،کوئی عبرت ناک سزا نہیں دی جاتی تو پھر کیا خونی انقلاب اور کیا حبیب جالب کی انقلابی شاعری!سب ڈرامہ ہے!


Monday, January 15, 2018

سوالات جن کے جواب شاید کبھی نہ ملیں


عمران خان میں کمزوریاں بہت ہیں اور نادانیاں بھی کم نہیں!غلط کام غلط وقت پر اور صحیح کام بھی غلط وقت پر کرنا اس کا معمول ہے ۔ابھی حضرت نے رومی اور ابنِ عربی کو سمجھنے کے لیے جو استاد چنا ہے ‘اس پر رومی اور ابنِ عربی خود حیران ہوں گے۔ مگر ان سارے منفی پہلوؤں کے باوجود ایک عنوان اس نے زبردست باندھا ہے ۔پنجاب کے حکمران اعلیٰ کو اس نے   ڈرامہ قرار دیا ہے تو اس سے زیادہ برمحل اور مناسب نام شاید فیضی’ابوالفضل ‘نظیری اور صائب بھی اٹھ کر آجاتے تو نہ دے پاتے ۔

ڈرامے کا تازہ ترین ایکٹ دیکھیے

وزیراعلٰی نے بچوں کے تحفظ کے لیے وزیر قانون رانا ثنا اللہ  کی   سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ۔ وزیراعلٰی کی جانب سے تشکیل دی گئی بیس رکنی کمیٹی کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا ۔کمیٹی کے دیگر اراکین میں وزیر تعلیم ‘چیئر پرسن چائلڈ پروٹیکشن اور آئی جی پنجاب بھی شامل ہیں ۔کمیٹی بچوں کے تحفظ،پولیس کے کام کا جائزہ اور آگہی مہم کے لیے سفارشات تیار کرے گی۔”

اب ڈرامے کا دوسرا ایکٹ دیکھیے:

“اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا اب تک کرب اور تکلیف سے گزر رہا ہوں ۔زینب کے اندوہناک قتل کے ملزم جلد گرفتار کیے جائیں گے۔حیلے بہانے نہیں چلیں  گے۔ملزمان پکڑ کر حقائق سامنے لائے جائیں ۔متاثرہ خاندان کو ہر صورت انصاف کی فراہمی یقینی بنائے جائے گی ۔اور درندہ صفت ملزم کو اس کا حساب دینا پڑے گا۔

تیسرا ایکٹ ملاحظہ فرمائیے:

“انہوں نے کہا فائرنگ کے باعث جاں بحق ہونے والے دو افراد کے کیس میں بھی انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا ملے گی ۔میں کیسوں پر ہونے والی پیشرفت کی ذاتی طور پر نگرانی کروں گا ۔

چوتھا ایکٹ بھی کچھ کم مزاحیہ نہیں :

“ وزیراعلٰٰی نے ہدایت کی کہ آئی جی روزانہ قصور جاکر کیسوں پر ہونے والی پیشرفت کا ذاتی طور پر جائزہ لیں ۔اس ضمن میں وہ میرا ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ڈی جی پنجاب فرانزک ایجنسی اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ آج ہی قصور پہنچیں “۔

پانچواں ایکٹ قہقہوں سے بھرپور ہے۔

“شہباز  شریف کے حکم پر قصور کو سیف سٹی بنانے کا آغاز کردیا گیا۔اور “پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی “کی جانب سے اہم مقامات پر کیمرے لگانے کے لیے سروے ٹیم قصور روانہ ہوگئی۔کیمروں میں ایسا سوفٹ وئیر لگایا جائے گا جو انسانی چہرے کو نمایاں کرے گا”۔

اگر شہباز شریف صاحب صوبائی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ان “اقدامات ‘ کا اعلان کرتے تو ان سے اس ضمن میں کچھ سوالات پوچھے جاتے ۔خدا نہ کرے صوبے کے حکمران اعلی اس عارضے کا شکار ہوں جسے  
 paranoiaکہا جاتا ہے 
۔اس میں انسان دوسرے انسانوں سے گریز کرنے لگتا ہے ۔عربی میں اسے جنون اشک اور جنون العظمت بھی کہتے ہیں ۔ وزیراعلٰٰی یا تو صرف یا تو ماتحتوں کے درمیان رہنا پسند کرتے ہیں جو ہر وقت دست بستہ رہ کر آمنا و صدقنا کے علاوہ کوئی اور بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یا ان لوگوں کے ساتھ جو پوری طرح ہم خیال ہوں !وہ ایسے کسی شخص سے ملنا یا اس کی موجودگی نہیں برداشت  کرسکتے جو ان سے اختلاف کرے یا ان کے کسی اقدام کسی رائے یا کسی پالیسی کے بارے میں کوئی سوال اٹھائے۔ 
paranoia
کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ وہ ننھی مقتولہ اور مظلومہ زینب کے گھر منہ اندھیرے “طلوع آفتاب سے پہلے گئے۔ غالباً اس “مناسب “وقت کا انتخاب اس لیےکیا گیا کہ کوئی انہیں وہاں جاتا وہاں سے واپس آتا دیکھ نہ سکے۔ کوئی سوال نہ کربیٹھے کچھ پوچھ نہ لے۔ اس لیے کہ وہ اس زعم میں ہیں کہ ان سے کوئی جواب طلبی نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے کابینہ ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور صوبائی اسمبلی کو وہ اس قابل نہیں گردانتے کہ دیگر وزرائے اعلٰی کی طرح باقائدگی سے وہاں جائیں ۔ کارروائی سنیں ،دیکھیں ،اور حزب اختلاف کی تنقید برداشت کریں ۔

ہم روزنامہ92کی معرفت ان سے چند سوالات ‘بہت ادب کے ساتھ پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں ۔یہ سوالات صوبے کے بلکہ پورے ملک کے ہر باشندے کے ذہن میں بھڑکتی آگ بن کر اٹھ رہے ہیں ۔

بچوں کے تحفظ کے لیے اگر کمیٹی بنانا مفید اور ضروری تھی تو وزیراعلٰی کیا تیرھویں بچے کے قتل کا انتظار کررہے تھے؟ کیا تہمینہ ‘ثنا’ ایمان فاطمہ’نور فاطمہ’فوزیہ بابر’لائبہ اور کائنات کے قتل اس کمیٹی کا محرک بننے کے لیے کافی نہ تھے؟

چائلڈ پروٹیکشن “بچوں کے تحفظ”کا محکمہ پنجاب میں کب سے قائم ہے؟اس پر ہر سال خزانے سے کتنی رقم خرچ کی جارہی ہے ؟یہ جو قصور میں تیرہ قتل ہوچکے ہیں اور یہ جو پنجاب سارے صوبوں میں بچوں کے اغوا اور قتل کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے تو اس ضمن میں اس محکمے نے اب تک کیا کردار اداکیا ہے؟ اگر اس محکمے کی موجودگی میں یہ سب ہورہا ہے اور مسلسل ہورہا ہے تو اس محکمے کا کیا جواز ہے؟

اگر بچوں کے اغوا اور قتل کی سراغ رسانی اور روک تھام پنجاب پولیس کے  ذمہ ہے اور پولیس کروڑوں روپے اس عوض قوم سے وصول کررہی ہے تو پھر کمیٹٰی کا کیا کام؟َ اور اگر یہ کام کمیٹی نے کرنا ہے تو پھر پولیس کا کیا جواز؟ کیوں نہ پولیس کے محکمے کو ختم کردیا جائے اور یہ کام کمیٹی سے ہی لیا جائے۔

یہ کمیٹی پولیس کے کام کا بھی جائزہ لے گی؟ اس میں خود آئی جی پولیس شامل ہیں ۔تو کیا وہ خود اپنی کارکردگی کاجائزہ لیں گے؟

یہ جو وزیراعلٰی نے کہا ہے کہ زینب کے قاتل جلد گرفتار کیے جائیں گےاور حقائق سامنے لائے جائیں گے اور یہ کہ متاثرہ خاندان کو ہر صورت انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی’تو سوال وزیراعلی سے مودبانہ یہ  پوچھنا ہے کہ کیا تہمینہ’فوزیہ’ بابر’لائبہ اور کائنابت کے خاندانوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے ؟ اگر نہیں بنائی گئی تو زینب کے خاندان کو فراہمی کس طرح ہوگی؟اور اگر اب یہ فراہمی ممکن ہے تو تہمینہ’فوزیہ’بابر ‘لائبہ اور ثنا کے خاندانوں  کے ساتھ وزیراعلٰی کی کیا دشمنی تھی؟ یہ فراہمی ان کے لیے کیوں نہ ممکن بنائی گئی؟۔

وزیراعلٰی نے کہا ہے کہ آئی جی کیسوں کی پیش رفت کا ذاتی طور پر جائزہ لیں یا اس کا مطلب ہے کہ وہ اب تک ذاتی طور پر جائزہ نہیں لے رہےتھے۔اگر لے رہے ہوتے تو وزیراعلی کو خصوصی حکم نہ دینا پڑتا۔آئی جی وزیراعلی کے حکم کا کیوں انتظار کررہے تھے؟ کیا انہیں اپنے فرض منصبی سے روگردانی کی سزا نہیں ملنی چاہیے؟ اگر ملنی چاہیے تو کیا وزیراعلی یہ سزا دے کر صوبے کی عوام کو اعتماد میں لیں گے؟

وزیراعلی نے حکم دیا کہ ڈی جی پنجاب فرانزک ایجنسی اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ”آج ہی “قصور پہنچیں۔زینب کو قتل ہوئے آٹھ دس دن سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ڈی جی اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ ابھی تک قصور کیوں نہیں پہنچے؟ اور ایڈیشنل سیکرٹری ؟سیکرٹری داخلہ کس مرض کی دوا ہیں ؟ اب تک قصور نہ پہنچنے کی ان اہلکاروں کو کیا سزا دی جائے گی؟ کیا اس ضمن میں بھی وزیر اعلی عوام کو کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟

قصورکو سیف سیٹی بنانے کا آغاز کردیا گیا ہے اور اہم مقامات پر کیمرے لگانے کے  لیے سروے ٹیم قصور روانہ ہوگئی ہے ۔کیمروں میں ایسا سافٹ وئیر لگایا جائے گا جو انسانی چہرے کو نمایاں کرے گا۔

اس حکم کا مطلب صاف صاف یہ ہے کہ قصور آج سے پہلے سیف سٹی نہیں تھا اور ان سیف غیر محفوظ تھا۔

اہم مقامات پر آج تک کیمرے نہیں لگائے گئے۔

سافٹ وئیر اب تک ایسا تھا کہ انسانی چہرے کو نمایاں نہیں کرسکتا تھا ۔یہ غیر نمایاں چہرہ اور کیمروں کی ناقص اور قابل مذمت کارکردگی ویڈیو کے ذریعے پوری قوم بلکہ پوری دنیا دیکھ چکی ہے۔

کیا وزیر اعلی کیمرے نہ لگانے والوں اور ناقص سافٹ وئیر نصب کرنے کے ذمہ داروں کو سزا دے کر اس کا اعلان کریں گے؟

یہ وہ بارہ سوال ہیں جن کا جواب دینا وزیراعلی کے لیے لازم ہے۔ اس لیے بھی کہ اگر ان سوالوں کے جوابات قوم کو نہ دیے گئے تو عمران خان کی ڈرامہ والی بات باوزن ثابت ہوگی!

دو اضافی سوال وزیراعلی کو خود اپنےآپ  سے پوچھنے چاہئیں،پہلا سوال یہ ہے کہ پنجاب بچوں کے اغوا اور قتل میں دوسرے صوبوں سے آگے ہے۔صوبے کے اندر قصور کا پہلا سرگودھا کا دوسرا لاہور کا تیسرا شیخؤپورہ کا چوتھا رحیم یار خان کا پانچواں اور فیصل آباد کا چھٹا نمبر ہے ۔یہ کم و بیش وسطی پنجاب کے علاقے ہیں جن کے عوام مسلم لیگ نون کو انتخابات میں کامیاب کراتے رہے ہیں۔ کیا اس صورت حال پروزیراعلی کا ضمیر مطمئن ہے؟یا ملامت کرتا ہے؟

‘ دوسرا سوال یہ ہے کہ جس پولیس افسر نے زینب کے چچا کو حکم دیا تھا کہ “زینب” کی لاش دریافت کرنےوالے پولیس اہلکار کو دس ہزار روپے دے اور کہا تھا کہ میں نیچے نہیں اتروں گا کیوں کہ بدبو آرہی ہے۔ اس پولیس افسر کو وزیراعلی نے کیا سزادی؟اگر وہ سزا کا مستحق نہیں تو کیا اُسے اس ضمن میں کوئی تمغہ دیاجائے گا؟


 

powered by worldwanders.com