Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, January 31, 2022

بل نے پاس ہونا ہی تھا!



اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی، نون لیگ اور جے یو آئی اپنے اُن سینیٹروں کے خلاف ایکشن لیں گی جو سٹیٹ بینک ترمیمی بل کے خلاف ووٹ دینے کے بجائے منظر ہی سے غائب ہو گئے تو آپ احمق ہیں!

پارٹیوں کی یہ تقسیم مصنوعی ہے اور بے معنی! پارٹی تو ایک ہی ہے جو اصل پارٹی ہے! وہی جس کی بنیاد دو سو پینسٹھ سال پہلے پلاسی کے میدان میں رکھ دی گئی تھی۔ تاریخ کا یہ صفحہ الٹ کر ایک بار پھر پڑھیے۔ پڑھنے کے بعد غور کیجیے۔ پاکستانی سیاست کی حرکیات سمجھنے کے لیے زیادہ سوچ بچار کی ضرورت بھی نہیں۔ پلاسی کے میدان میں کچھ ایک طرف تھے، کچھ دوسری طرف چلے گئے تھے۔ وہ جو دوسری طرف چلے گئے تھے وہی اصل پارٹی ہیں۔ وہی پارٹی چلی آرہی ہے۔ فرق بس اتنا سا ہے کہ اس پارٹی نے آج کے زمانے میں باہمی سہولت کے لیے، اپنے آپ کو مصنوعی طور پر، مختلف جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے تاکہ مفادات کی بندر بانٹ میں آسانی ہو! پلاسی کے بیالیس سال بعد ایک اور میدان سجا۔ یہ سرنگا پٹم تھا۔ اصل پارٹی نے اپنے خدوخال یہاں کچھ اور واضح کر دیے۔ اپنی بنیاد مضبوط تر کر لی۔ کچھ وقت اور گزرا۔ پھر 1857 کے میدانوں میں یہ پارٹی پوری قوت اور پورے قد کے ساتھ ابھری۔ تب سے لے کر آج تک یہی پارٹی حکمران ہے۔ احمق عوام کو مزید احمق بنانے کے لیے یہ اصل پارٹی اپنے آپ کو کبھی مختلف پارٹیوں میں تقسیم کر لیتی ہے اور کبھی حزب مخالف اور حزب اقتدار میں! جو لوگ پاکستانی سیاست کی اصلیت سے واقف ہیں انہیں سٹیٹ بینک ترمیمی بل کے پاس ہونے میں رمق بھر شک بھی نہ تھا۔ ہمارے دوست خالد مسعود خان کا ایک مضمون اِسی اخبار، روزنامہ دنیا میں دس جون 2021 کو چھپا تھا جس میں انہوں نے قدرے تفصیل سے اس اصل پارٹی کی جڑوں کو واضح کیا ہے۔ (اب تو خیر اس موضوع پر کتابیں اور تحقیقی مضامین بھی خاصی تعداد میں سامنے آ چکے ہیں) اس اصل پارٹی کے معزز ارکان نے ملتان کے پُل شوالہ پر پلٹن نمبر69 کے مجاہدین کے قتل عام میں حصہ لیا۔ جلال پور پیروالا، خانیوال موضع جلی ضلع ساہیوال، دریائے چناب کے کنارے واقع شیر شاہ، مردان، ہزارہ، مانسہرہ، سرگودھا، اور واہ، ان مقامات میں سے محض چند کے نام ہیں جہاں اس اصل پارٹی کے معزز ارکان نے وفاداری کا ثبوت دیا اور آنے والے وقتوں میں اپنی اپنی ذُرّیت کے لیے اقتدار کی گارنٹی حاصل کر لی۔
فرض کیجیے ایک گلی میں آپ کے چار گھر ہیں۔ چاروں مناسب فرنیچر سے آراستہ ہیں۔ چاروں میں ملازم ہر وقت دست بستہ کھڑے رہتے ہیں! آپ کچھ دن ایک گھر میں قیام کرتے ہیں، کچھ عرصہ دوسرے میں! دوسرے سے اکتا جاتے ہیں تو تیسرے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ کیا آپ کو کوئی روک سکتا ہے کہ فلاں گھر میں نہ رہو اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایک ہی گھر میں ڈیرہ رکھو؟ جب چاروں گھر آپ کی ملکیت میں ہیں تو شرم کیسی! اور روک ٹوک کہاں کی! بالکل اسی طرح یہ تینوں چاروں پانچوں پارٹیاں سیاست دانوں کے گھر ہیں۔ جب جی چاہے ایک پارٹی سے دوسری میں چلے جائیں۔ جب سب اپنی ہیں تو شرم کیسی اور حیا کون سی؟ کس کی مجال ہے کہ روکے یا شرم دلانے کی کوشش کرے! مناسب موقع ہو تو ضیا صاحب کی شوریٰ میں شامل ہو جائیں! پھر حالات بدلیں تو میاں صاحب کو مائی باپ کہیں۔ جنرل مشرف آئیں تو ان کا نام جب بھی لیں احترام کے ساتھ لیں۔ وردی میں دس بار منتخب کرانے کا اعلان کریں۔ سینیٹر بننا ہے تو نون سے قاف میں آ جائیں۔ ایک بار پھر سینیٹر بننا ہو تو نون میں واپس آ جائیں۔ منع تو کوئی کیا کرے گا، ہاتھوں ہاتھ لیے جائیں گے۔ بقول شہزاد نیّر:
آپ تو مالک و مختار ہیں آئیں جائیں!
جماعت اسلامی سے سیاسی کیریئر شروع کیجیے۔ پھر قاف لیگ میں شامل ہو جائیے۔ ایک وقت آتا ہے کہ جنرل صاحب جلسۂ عام میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو اپنا بھائی کہتے ہیں اور ذاتی ریوالور تحفے میں دیتے ہیں۔ پھر ایک صبح آپ چوہدریوں کے پاس آ کر کہتے ہیں کہ مجھے میری والدہ محترمہ نے کہا ہے کہ مرتے مر جانا، مگر چوہدریوں کا ساتھ نہ چھوڑنا۔ اسی شام کو چوہدری ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ آپ نون لیگ میں شامل ہو رہے ہیں! ایک سیاست دان فرماتے کہ میں پندرہ بار وزیر بنا۔ جب آپ بار بار حکومتی پارٹی میں شامل ہوں گے تو تبھی اتنی زیادہ بار وزیر بنیں گے! یہ کہنا تو اب لا حاصل ہو چکا ہے کہ موجودہ کابینہ کے چہرے پہلے کس کس کابینہ میں دیکھے جا چکے! اس میں اب حیرت کا عنصر ہی ختم ہو چکا ہے۔ پارٹی بدلنا روٹین کا معاملہ ہے۔ کیا کبھی کسی پارٹی نے کسی پارٹیاں بدلنے والے کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے؟ زاہد حامد صاحب جنرل مشرف کی کابینہ کے رکن رہے۔ جنرل صاحب کے سر سے ہما اٹھا تو چند مہینے کیا، ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ میاں صاحب نے انہیں اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ انسان اتنے لباس نہیں بدلتا جتنا یہ حضرات پارٹیاں بدلتے ہیں‘ مگر اب اس محاورے کی تاریخ بھی Expire ہو چکی! لباس تو کچھ دیر بدن پر رہتا ہے۔
اِس وقت سینیٹ میں نام نہاد اپوزیشن کو صرف تین یا چار کی برتری حاصل ہے۔ اس صورت حال میں سٹیٹ بینک ترمیمی بل پاس ہونا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ یاد رکھیے! اگر اپوزیشن کی تعداد تین چوتھائی بھی ہوتی اور فیصلہ کرنے والے پاس کرانے کا فیصلہ کر لیتے تب بھی بل پاس ہو جاتا اور ضرور ہو جاتا۔ یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں! اصل میں یہاں دو ہی پارٹیاں ہیں! ایک اہل ثروت کی! انہیں اہل غرض بھی کہا جا سکتا ہے۔ پلاسی سے لے کر آج تک اس پارٹی کی قوت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ عددی بھی اور معنوی بھی! دوسری پارٹی عوام کی ہے۔ نعرے لگانے اور دریاں بچھانے والے عوام کی۔ لیڈروں کی خاطر ایک دوسرے سے جھگڑنے والے عوام کی! اپنے احباب اور اعزّہ سے لیڈروں کی خاطر تعلقات ختم کرنے والے عوام کی! وہ لیڈر جن کے گھروں کے نزدیک بھی یہ عوام نہیں جا سکتے! جن کی گاڑیوں کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتے! جن کے معیار زندگی کا یہ عوام تصور تک نہیں کر سکتے! مونس الٰہی، بلاول، مریم اور مولانا سعد بچے نہیں بڑے ہیں! لیکن اگر بچے ہوتے تب بھی ان کی اطاعت کی جاتی! اس لیے کہ اطاعت کرنے والے طاقت کے ساتھ منسلک رہنا چاہتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، یہ کلاس کا مسئلہ ہے۔ یہ طبقاتی وفاداری کا مسئلہ ہے۔ ان حضرات کے باہمی اختلافات سطحی اور محض دکھاوے کے ہیں! یقین نہ آئے تو سرداری سسٹم کے خلاف بل پیش کر کے دیکھ لیجیے یا زرعی اصلاحات کا ایک مؤثر اور بامعنی بل! یا ارکانِ پارلیمنٹ کی مراعات میں اضافے کا بل! سب یوں اکٹھے ہو جائیں گے جیسے اسماعیل میرٹھی نے اکٹھا ہونے کا ذکر کیا تھا

یوں تو ہے کوّا حرص کا بندہ
 کچھ بھی نہ چھوڑے پاک اور گندہ

اچھی ہے پر اُس کی عادت 
بھائیوں کی کرتا ہے دعوت

کوئی ذرا سی چیز جو پالے 
کھائے نہ جب تک سب کو بلا لے!!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, January 27, 2022

برداشت؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟



یہ کورس کا پہلا دن تھا۔ اس گروپ میں ہم دس بارہ افراد تھے۔ پہلے دن ہمیں کہا گیا کہ ایک کاغذ پر اپنی شخصیت کا جائزہ لیں‘ اور یہ کہ ہم دس میں سے اپنے آپ کو کتنے نمبر دیں گے۔ ہم میں سے کسی نے اپنے آپ کو دس میں سے نو نمبر دیے، کسی نے آٹھ اور کسی نے دس میں سے دس! آٹھ سے کم نمبر دینے پر کوئی نہ تیار ہوا۔
اس کے بعد کورس شروع ہوا۔ سات دن اور سات راتیں ہمیں خوب رگڑا دیا گیا۔ سونے کے لیے بس چند گھنٹے ملتے۔ ایک مشق، اس کے بعد ایک اور، پھر ایک اور، کبھی ایک کتاب دی جاتی اور کہا جاتا اس کے اتنے صفحات پڑھ کر آؤ۔ پھر مزید مشقیں! ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اصل شخصیت کا روپ دکھایا گیا۔ ایک ایک فرد کو کئی کئی بار اپنے بارے میں اپنے گروپ کی آرا سنوائی گئیں۔ سات دن کی لگاتار بے پناہ مشقت کے بعد ہمیں دوبارہ وہی کہا گیا کہ اپنی شخصیت کا جائزہ لو اور یہ کہ دس میں سے اپنے آپ کو ہم کتنے نمبر دیں گے۔ یقین کیجیے ہم میں سے کسی نے اپنے آپ کو تین نمبر دیے کسی نے چار۔ اپنے آپ کو پانچ یا چھ سے زیادہ نمبر دینے پر کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ گروپ کے ہر ممبر نے اپنی شخصیت کے کمزور پہلو صبر کے ساتھ سنے۔ ایسے پہلو جن پر اس نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔ صرف ایک مشق کی جھلک ملاحظہ کیجیے۔ فرض کیجیے گروپ کے ایک ممبر کا نام مسٹر الف تھا۔ مسٹر الف کو چاک پکڑا کر بلیک بورڈ کے پاس کھڑا کر دیا گیا۔ اس کا کام یہ تھا کہ دوسرے ممبر جو نکات بیان کریں، خاموشی سے لکھتا جائے۔ اس کے بعد گروپ کے ارکان کو کہا گیا کہ مسٹر الف کے بارے میں اپنی رائے، کسی رعایت، کسی جھجک، کے بغیر دیں۔ ہر ممبر نے اپنی رائے دی۔ منفی یا مثبت۔ مسٹر الف چپ کر کے لکھتا گیا۔ اس کے ساتھیوں نے اس کی شخصیت کی ایک ایک پرت کھول کر رکھ دی۔
ایسے کورس، سینئر بیوروکریسی کو، بڑی بڑی کمپنیوں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے سینئر ایگزیکٹوز کو کرائے جاتے ہیں‘ مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ ایسا کوئی کورس ہمارے جیسے ملکوں کے حکمرانوں کو ضرور کرایا جانا چاہیے تاکہ اپنی ذات اور اپنی پالیسیوں کے حوالے سے ان کی خوش فہمیاں یا غلط فہمیاں دور ہو جائیں! جن ملکوں میں اصل جمہوریت رائج ہے وہاں یہ کام پارلیمنٹ میں ہوتا ہے۔ وزرائے اعظم پارلیمنٹ میں باقاعدگی سے جاتے ہیں۔ وہاں وہ حزب مخالف کی تنقید صبر اور حوصلے سے سنتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ہمارے ہاں کی طرح خود تقریر کرکے باہر نکل جائیں۔ یوں حکمرانوں کو اپنی پالیسیوں کے منفی پہلو معلوم ہو جاتے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم ہفتے میں ایک مخصوص دن ارکان کے سوالوں کے جواب دیتا ہے اور بنفس نفیس دیتا ہے۔ امریکہ میں کانگرس صدر کو تیر کی طرح سیدھا رکھتی ہے۔ اگر صدر کانگرس کی طرف سے آیا ہوا بل ویٹو کر دے تو کانگرس دو تہائی اکثریت سے ویٹو کو بے اثر کر دیتی ہے۔ غور کیجیے! کیا ہمارے وزیر اعظم کو حکومتی پالیسیوں کے کمزور پہلو بتائے جا سکتے ہیں؟ نہیں! بالکل نہیں! نواز شریف پارلیمنٹ میں آتے ہی نہیں تھے۔ یہی حال موجودہ وزیر اعظم کا ہے۔ جس دن اسمبلی میں آتے ہیں تو یہ ایک باقاعدہ خبر ہوتی ہے۔ معمول کی کارروائی کا حصہ وہ کبھی نہیں بنتے۔ رہی کابینہ تو بھاری اکثریت کابینہ کے ارکان کی آمنّا و صدّقنا کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی! کچن کابینہ ہو یا اصل کابینہ، لوگ وہی بات کرتے ہیں جو وزیر اعظم سننا چاہتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم، جسٹس وجیہ الدین، اکبر ایس بابر اور احمد جواد جیسے لوگوں کی باتیں تحمل سے سنتے اور پارٹی کے اندر، اور حکومت کے اندر، اوپن ڈائیلاگ کی روایت پنپنے دیتے تو آج انہیں یہ نہ کہنا پڑتا کہ مجھے نکالا گیا تو زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا‘ نہ ہی ان منحرف ہونے والوں کو یہ موقع ملتا کہ وہ سر عام بہت سے راز طشت از بام کریں!
جمہوریت کی بنیاد کیا ہے؟ سوال کا جواب دینا! جوابدہی کا نظام! اعتراض کو برداشت کرنا! اعتراض اگر درست ہے تو اس پر ایکشن لینا! جمہوریت تو آج جوابدہی کے نظام کی بات کر رہی ہے مگر ریاست مدینہ میں جوابدہی کا نظام اُس وقت بھی موجود تھا۔ بھرے مجمع میں حکمران پر اعتراض کیا جا سکتا تھا جس کا وہ تحمل کے ساتھ اور دلیل کے ساتھ جواب دینے کا پابند تھا! سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اندر کے لوگ، جو باتیں آج باہر آکر کر رہے ہیں، کیا یہ باتیں اندر رہ کر کی گئی تھیں؟ اگر ان منحرفین نے اُس وقت نہیں کیں تو آج بھی انہیں حق نہیں پہنچتا لیکن اگر اُس وقت یہ باتیں، لیڈر کے سامنے کی گئیں اور لیڈر نے کوئی ایکشن نہیں لیا تو یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے! اسی طرح احمد جواد جو باتیں کے پی ٹی کے حوالے سے کر رہے ہیں اگر درست ہیں اور اُس وقت احمد جواد صاحب نے واقعی ٹاپ لیڈر شپ کی توجہ اس طرف مبذول کرنے کی کوشش کی اور اس کے باوجود کوئی ایکشن نہ لیا گیا تو یہ تشویش کی بات ہے!
اس ضمن میں اپوزیشن کا کردار بھی مکمل طور پر غیر تعمیری ہے اور ناپختہ! فرض کیجیے وزیر اعظم باقاعدگی سے اسمبلی میں آتے ہیں تو کیا وہاں اپوزیشن کے ارکان کوئی ٹھوس بات کریں گے؟ اپوزیشن کے پاس تو جمہوری روایات کے مطابق شیڈو کابینہ ہی نہیں! اپوزیشن سے پوچھیے ان کا شیڈو وزیر خارجہ کون ہے، شیڈو وزیر تعلیم کون ہے اور شیڈو وزیر خزانہ کون ہے؟ تجارت کے امور کون سا اپوزیشن ممبر دیکھ رہا ہے اور صنعت کا شیڈو قلم دان کس کے پاس ہے؟ ایوان میں ہڑبونگ مچانے کا الزام حزب مخالف اور حزب اقتدار دونوں پر یکساں عائد ہوتا ہے۔ اسی لیے قانون سازی، جو اصل کام ہے، نہ ہونے کے برابر ہے! دونوں طرف کے مقرر طعن و تشنیع سے کام لیتے ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ الزام در الزام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ کوئی سنجیدہ کام ہونے ہی نہیں دیتا!
سوال کرنے، سوال کو برداشت کرنے اور دلیل سے جواب دینے کی روایت ہماری سیاست میں سرے سے موجود ہی نہیں! کیا پیپلز پارٹی، نون لیگ اور جے یو آئی میں ایسے اجلاس ہوتے ہیں جن میں ارکان کو کھل کر تنقید کرنے کی دعوت دی جاتی ہے؟ کیا ہمارے سینئر سیاستدان دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ پارٹی کے اجلاسوں میں پارٹی لیڈر شپ سے کھل کر اختلاف کرتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ سوال کرنے کا سلسلہ ہمارے گھروں ہی میں حوصلہ شکنی کا شکار ہو جاتا ہے! بچے کو تھپڑ پہلے پڑتا ہے اور بات بعد میں پوچھی یا کی جاتی ہے۔ افسر ماتحت کی آزادانہ رائے کو برداشت نہیں کرتا۔ مذہبی اور روحانی رہنماؤں پر تو تنقید کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ عدم برداشت کا کلچر رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہا ہے۔ سیاسی اختلافات کی و جہ سے خاندانی تعلقات میں دراڑیں پڑنا عام ہے۔ مکالمے کا رواج پڑا ہی نہیں! یہی وجہ ہے کہ بحث سیاسی ہو یا مذہبی، اس کا اختتام جھگڑے پر ہوتا ہے اور جھگڑا لڑائی کی صورت اختیار لیتا ہے۔ سارے دعووں کے باوجود تحریک انصاف کی لیڈرشپ آخر اسی قوم کا حصہ ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, January 25, 2022

سلہٹ سے شنکیاری تک



پروفیسر اظہر وحید کے ہاں کھانا مزے کا ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے تک یہ حال تھا کہ اچھا بھلا باعزت کھانا کھاکر چائے سیاہ رنگ کی پیالیوں میں پینا پڑتی تھی۔

پروفیسر اپنے اصولوں کا سخت پابند ہے۔ ہفتے میں سات دن سیر کرتا ہے۔ چھ دن ورزش! ہر کام مقررہ وقت پر۔ مشکل ہی سے کسی دعوت میں جاتا ہے۔ خوشحالی اور مالی آسودگی کے باوجود‘ اپنا لباس خود استری کرتا ہے۔ اپنے کمرے کی صفائی خود کرتا ہے۔ اسےAbnormalityہی کہیے‘ کہ تیس سال سے زائد تعلیمی کیریئر میں شاید ہی کوئی پیریڈ اس نے چھوڑا ہو۔ہمارے ہاں شرفا ایسا نہیں کرتے۔ ایک پروفیسر صاحب تو شاگردوں کو مہینوں شکل نہیں دکھاتے تھے۔ پروفیسر اظہر اس لحا ظ سے انگریز واقع ہوا ہے۔ یہ اور بات کہ یہ انگریز‘ انگریزوں کے جانے کے بعد‘ چونیاں میں پیدا ہوا۔ ایک روایت کی رُو سے راجہ ٹوڈرمل بھی چونیاں ہی سے تھا۔
ایک بہت اچھے ظہرانے کے بعد‘ کالے رنگ کی پیالی میں چائے پینا ناقابلِ برداشت تھا۔ ایک دن میں نے اپنے گھر سے دو سفید رنگ کی پیالیاں اٹھائیں اور اس کے پاس لے گیا۔ شکریہ تو وہ خیر کیا ادا کرتا‘ اس نے عجیب نکتہ نکالا کہ دو پیالیوں کے بجائے پورا سَیٹ ہی لے آتے۔ اس نکتے کا میرے پاس‘ ظاہر ہے‘ کوئی جواب نہ تھا۔ مگر پروفیسر کا ذکر ضمنی طور پر آگیا ہے۔ اصل مسئلہ جو شیئر کرنا ہے اُس زیادتی کے بارے میں ہے جو چائے نوشی کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ کالے یا گیروے رنگ کی پرچ پیالی میں چائے پینا پھر بھی معاف کیا جا سکتا ہے مگر کوپ میں‘ جسے آج کل مَگ کہا جاتا ہے‘ کھردراپن نہیں تو بے دردی ضرور ہے۔ کچھ حضرات مَگ کی حمایت میں یہ دلیل لاتے ہیں کہ اس میں چائے ٹھنڈی نہیں ہوتی۔ کچھ کا خیال ہے کہ پیالی میں چائے کی مقدار کم ہوتی ہے اس لیے مَگ کو ترجیح دی جاتی ہے مگر دونوں دلائل کمزور ہیں۔ اگر گرم چائے کا اتنا ہی شوق ہے تو پتیلے کو یا چینک ہی کو منہ لگا لیا کیجیے۔ رہا معاملہ مقدار کا تو آپ کو دوسری پیالی پینے سے کس نے منع کیا ہے؟ آخر ذوق بھی ایک شے ہے۔ قسم قسم کی خوبصورت پرچ پیالیاں ہی تو چائے پینے کے عمل کو رنگین بناتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے دیدہ زیب لباس انسان کی توقیر بڑھاتا ہے اور پہننے والے کے ذہنی رجحان کا پتا دیتا ہے۔ آپ ایک شخص کا لباس دیکھ کر اس کی ذہنیت‘ اس کی تعلیم اور اس کے مزاج کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ کا میزبان جس طرح کے برتنوں میں آپ کو چائے پیش کرتا ہے‘ اس سے اُس کے ذوق اور مائنڈ سیٹ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ چائے کے برتن قیمتی ہوں۔ اگر آپ خوش ذوق ہیں اور نفیس طبع تو خوبصورت پرچ پیالیاں ارزاں بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ مکان کے باہر بہت سا سنگ مرمر تھوپنے سے یا گیٹ میں سنہری تاریں لگوانے سے دولت کا سراغ ملتا ہے اور ساتھ ہی بد ذوقی اور پھوہڑپن کا! ایک آرٹسٹ‘ ٹوٹے ہوئے گھڑے کو‘ پھلوں کے خالی کریٹ کو‘ شکستہ فرنیچر کو اور بیکارٹائر کو بھی آرائشی سامان ( ڈیکو ریشن پیس ) میں تبدیل کر سکتا ہے !
مَگ میں چائے پینے کے خلاف جو زہر میں نے اُگلا ہے‘ اگر آپ کا پس منظر دیہی ہے تو اس کے جواب میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پچاس سال پہلے تو گاؤں کے لوگ باگ مٹی کے پیالے میں بھی چائے پی لیتے تھے‘ تو پھر مَگ میں کیوں نہیں پی جا سکتی! مگر یہ دلیل بھی ضعیف ہے۔ مٹی کا پیالہ تو ہمارے کلچر اور ثقافتی میراث کا دلکش حصہ ہے۔ ہم فتح جنگ کے لوگ مٹی کے پیالے کو بَٹھل کہتے ہیں۔ پنڈی گھیب‘ تلہ گنگ اور چکوال میں اسے ٹاس کہا جاتا ہے۔ چکوال کے علاقے کو دھَنی کہتے ہیں۔ وہاں کے گھڑے مشہور ہیں۔ اسی سے یہ لوک گیت بنا کہ
دھَنی نا گھڑا‘ مینڈا ماہی‘ تلہ گنگے نی ٹاس ہووے!
مٹی کے اس پیالے میں جو چائے پی جاتی تھی وہ بھی خاص تھی۔ اس میں گڑ ڈالتے تھے اور تھوڑا سا نمک۔ذرا اُس دودھ کا تصور کیجیے جو اُس زمانے میں میسر تھا۔بھینس یا گائے کا خالص تازہ دودھ! جبکہ تب ان معصوم جانوروں کو خاص قسم کے ٹیکے بھی نہیں لگتے تھے جو آج کل چالاک گوالے لگاتے ہیں۔ اب تو گاؤں میں بھی ویسا دودھ کم ہی ملتا ہے! تو جناب ! مٹی کے پیالے کا تو کیا ہی کہنا ! غالب نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے
مٹی کے کورے پیالے سے جو خوشبو آتی ہے اس کا مقابلہ عود اور عنبر بھی نہیں کر سکتے۔یہ خوشبو ہمارے خون میں رچی بسی ہے! بالکل اسی طرح جیسے ہم گاؤں کے لوگ دنیا کے جس کونے میں بھی چلے جائیں‘ اُس کمرے کی خوشبو کو کبھی نہیں بھول سکتے جس میں ہمارے مویشی بندھے ہوتے تھے۔اور اُس خوشبو کو کبھی نہیں بھول سکتے جو بھوسہ ملے ہوئے گارے کی ہوتی تھی اور پسینے کی اُس خوشبو کو جو ہماری قمیص کو پیٹھ سے چپکا دیتی تھی اور اُس خوشبو کو جو پوچہ مِلے ہوئی گندے پانی سے تختی دھوتے ہوئے آتی تھی اور بکرے کے میمنے کی خوشبو کو جو اُسے چومتے وقت محسوس ہوتی تھی اور گھاس کی خوشبو کو جو شام کے وقت قبرستان سے گزرتے ہوئے آتی تھی اور باپ کی خوشبو کو جو اُس کی موت کے بعد ہمیں راتوں کو سوتے وقت اور صبحوں کوجاگتے وقت آتی ہے !
بر صغیر میں چائے انگریزوں کی باقیات میں سے ہے۔ شروع میں چائے فروخت کرنے والی بڑی بڑی کمپنیوں نے عوام کو چائے مفت مہیا کی تا کہ انہیں عادت پڑے۔ لاہور‘ انگریزوں کے زمانے ہی میں چائے کا مرکز بن گیا تھا۔سہ پہر ( آفٹر نون) کی چائے برطانوی کلچر کا خاص حصہ ہے۔ انگریز افسروں کی بیگمات سہ پہر کے وقت ٹی پارٹی منعقد کیا کرتیں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ دودھ والی چائے کا رواج‘ زیادہ تر‘ وہاں ہے جہاں انگریزوں کی حکومت رہی۔ جیسے پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ ہانگ کانگ‘ سنگاپور‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ مصر وغیرہ۔ اس کے علاوہ افغانستان ہے یا ایران‘ ترکی ہے یا عرب دنیا‘ وسطی ایشیا ہے یا یورپ مین لینڈ‘ بغیر دودھ کی چائے پیتے ہیں۔ کچھ ملکوں میں لیموں والی چائے پی جاتی ہے۔ مراکشی چائے میں پودینہ ڈالتے ہیں۔ ترکی کی طرح مراکش میں بھی شیشے کے خوبصورت چھوٹے گلاس میں چائے پی جاتی ہے‘ رہا چینی کا پیالہ‘ تو وہ وسط ایشیائی ملکوں اور افغانستان میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پشاوری قہوہ بھی اسی قسم کے پیالے میں پیتے ہیں۔ بھارت میں چائے اُگانے کے تین مراکز ہیں۔ آسام‘ نیلگری اور دارجیلنگ۔ نیلگری کا علاقہ انتہائی جنوب میں‘ تامل ناڈو کا حصہ ہے۔ دارجیلنگ بنگلہ دیش کے عین شمال میں‘ یعنی نیپال کے مشرق میں اور سکم کے جنوب میں واقع ہے یہاں کی چائے خاص اور خوشبو کے لیے مشہور ہے۔ آسام کا شہر سلہٹ سابق مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش میں ہے۔ یہاں بھی چائے کے باغات ہیں جو میں نے دیکھے ہیں اور یہیں پر چائے کے پودوں سے اوپر کی نرم پتیاں چننے والے اُن خاندانوں کو بھی دیکھا ہے جو نسل در نسل یہی کام کرتے آئے ہیں۔ پاکستان کے علاقے شنکیاری میں چائے اُگانے کی کوشش ہوئی مگر کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ یہ معلوم نہیں کہ قصور زمین کا ہے یا اُس نااہلی کا جوہمارے ہاں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, January 24, 2022

آپ ہنساتے بہت ہیں !



شام کے کھانے میں کھچڑی اور دہی دیا گیا مگر قے ہو گئی۔ مریض کی حالت یہ تھی کہ سادہ سے سادہ خوراک بھی ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ تیماردار خوراک بدل بدل کر دے رہے تھے۔ ناشتے میں کبھی دلیا کبھی ٹوسٹ۔ دوپہر کے کھانے میں چپاتی اور شوربہ۔ یہ بھی ہضم نہ ہوتا تو اُبلے ہوئے چاول اور دال کھلائی جاتی۔ مگر مریض کچھ بھی نہ ہضم کر سکتا۔ تیماردار احمق تھے یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم! سارا زور خوراک بدلنے پر تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مسئلہ کھانے پینے کا ہے۔ ضرور کوئی ایسی غذا ہے جو ہم آزما نہیں رہے! جیسے ہی وہ غذا دریافت ہو گئی‘ مریض تندرست ہو جائے گا۔ دوسرے ملکوں کے کھانے بھی آزمائے گئے۔ کبھی چینی‘ کبھی اطالوی‘ کبھی لبنانی‘ کبھی مراکشی‘ کبھی جنوبی ہند کا دوسہ اور چٹنیاں! مگر بات نہ بنی۔ پھر ایک سیانا آیا! اس نے کہا بے وقوفو! عقل کے اندھو! خوراک کا مسئلہ نہیں! مسئلہ مریض کے معدے میں ہے۔ معدے کا علاج کرو! معدہ ٹھیک ہو گیا تو جو غذا بھی دو گے‘ راس آجائے گی!
یہ جو بحث چل رہی ہے کہ صدارتی نظامِ حکومت بہتر ہے یا پارلیمانی تو یہ بالکل وہی بات ہے کہ خرابی معدے میں ہے اورمعدے کا علاج کرانے کے بجائے خوراک بدل بدل کر دی جا رہی ہے! خدا کے بندو! صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی‘ بادشاہی ہو یا جمہوریت‘ جب تک رُول آف لا نہیں ہو گا‘ جب تک امرا کے غلبے (پلوٹوکریسی) سے جان نہیں چھوٹے گی‘ جب تک قانون ناداروں کے لیے سخت اور مالداروں جاگیرداروں کے لیے نرم رہے گا‘ نظام بدلنے سے کوئی فائدہ نہیں! اور اگر ان نحوستوں کا خاتمہ کر دیا جائے تو ہر نظام کامیابی سے چلے گا!
تین ملکوں کی مثال لے لیجیے۔ برطانیہ میں پارلیمانی نظام ہے۔ امریکہ میں صدارتی نظام ہے اور یو اے ای میں موروثی بادشاہت کا نظام ہے۔ تینوں نظام کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ان ملکوں میں ہر کچھ سال کے بعد یہ بحث نہیں چلائی جاتی کہ نظام بدلا جائے اس لیے کہ تینوں ملکوں میں رُول آف لا ہے‘ قانون کی حکمرانی ہے‘ سفارش کلچر عنقا ہے۔ صدر کلنٹن کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ حبشی غلاموں کا بیٹا ملک کا صدر بن گیا۔ سفید فاموں نے اس کی اطاعت کی۔ افریقی نژاد کونڈولیزا رائس طاقتور وزیر خارجہ بنی۔ کون سی کونڈولیزا رائس؟ جس نے اپنی تصنیف (ڈیموکریسی: سٹوریز فرام دی لانگ روڈ ٹو فریڈم) میں خود لکھا ہے کہ:
My great-great-grandmother Zina on my mother's side bore five children by different slave owners, and my great-grandmother on my father's side, Julia Head, carried the name of the slave owner.
کہ میری پرنانی کی ماں 'زینا‘ کے پانچ بچے تھے اور پانچوں مختلف آقاؤں سے تھے۔ (آقاؤں سے مراد غلاموں کے مالکان ہیں)! اور میری پردادی‘ جُولیا ہیڈ‘ کا نام اپنے مالک کے نام پر تھا۔
تو کیا یہ سب کچھ صدارتی نظام کی برکت ہے؟ نہیں! یہ میرٹ اور صرف میرٹ کا سسٹم ہے جس نے غلام زادوں کو حکمران کر دیا۔ برطانیہ میں جو کچھ ہوتا ہے‘ جس کی ہم صرف حسرت کر سکتے ہیں وہ پارلیمانی نظام کی وجہ سے نہیں! اس کی وجہ یہ ہے کہ چند اُمرا اور ان کے خاندان ملک کو ہائی جیک نہیں کر سکتے۔ بس ڈرائیور کی بیٹی ہاؤس آف لارڈز کی رکن بنتی ہے۔ ایک بس ڈرائیور کا بیٹا لندن کا میئر بن جاتا ہے۔ ایک اور بس ڈرائیور کا بیٹا ملک کا وزیر داخلہ ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان میں نہیں ہوتا۔ کیوں؟ کیا اس کی وجہ پارلیمانی نظام ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر برطانیہ میں یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے؟ وہاں بھی تو پارلیمانی نظام ہے؟ رُول آف لا کا اور میرٹ کا تعلق پارلیمانی یا صدارتی نظام سے نہیں ہے۔ یو اے ای میں بادشاہت ہے مگر رُول آف لا ہے۔ سفارش نہیں چلتی! شاہی خاندان کے افراد کے بھی چالان ہوتے ہیں۔
یہاں صدارتی نظام بھی وہی نتائج دے گا جو پارلیمانی نظام دے رہا ہے۔ متوقع وزیر اعظم بیرون ملک جا رہے ہوتے ہیں تو ان کے ہمراہ جانے والے کا نام ای سی ایل سے فوراً ہٹا دیا جاتا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کا سربراہ کس کو اور کیسے لگایا گیا‘ کوئی راز کی بات نہیں! رِنگ روڈ سکینڈل ہو یا کوئی اور سکینڈل‘ یا پنڈورا پیپرز‘ کابینہ سے کوئی استعفیٰ دیتا ہے نہ حکومت کسی کو ہٹاتی ہے نہ پارٹی! پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے سب کے سامنے ہے‘ ایسے میں صدارتی نظام کیا کر لے گا؟
امریکہ میں صدارتی نظام ہے۔ اس صدارتی نظام میں کسی پارٹی پر کسی خاندان کا قبضہ نہیں۔ پارٹیوں کو ان کی ''نیشنل کمیٹیاں‘‘ چلاتی ہیں۔ ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی اور ری پبلکن نیشنل کمیٹی۔ یہ نیشنل کمیٹیاں فنڈ اکٹھے کرتی ہیں۔ پارٹی کی پالیسی اور حکمت عملی طے کرتی ہیں۔ ہر چار سال کے بعد ملک گیر کنونشن کا انعقاد کرتی ہیں جہاں صدارت کا امیدوار چنا جاتا ہے۔ ان کمیٹیوں کا ڈھانچہ اور نیٹ ورک نچلی سطح تک ہے۔ ہر کاؤنٹی میں اور ہر ریاست میں پارٹی انتخابات ہوتے ہیں۔ گزشتہ بائیس برسوں کے دوران ری پبلکن نیشنل کمیٹی کے گیارہ سربراہ آئے اور گئے۔ یہی حال ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کا ہے۔ ہمارے ہاں کئی دہائیوں سے کسی پارٹی کی لیڈرشپ ہی نہیں بدلی۔ مسلم لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ جے یو آئی‘ کہیں بھی پارٹی کے اندر الیکشن نہیں ہوتے۔ آئندہ بھی بظاہر کوئی امکان نہیں۔ ایم کیو ایم‘ جب ایک تھی تو ایک فرد کے قبضے میں رہی۔ اب تو اس کے یوں بھی حصے بخرے ہو چکے۔ جماعت اسلامی کے اندر الیکشن ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے قومی سطح پر انتخابی سیاست میں آزاد حیثیت سے جماعت کوئی کردار نہیں ادا کر سکتی۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ پارلیمانی نظام کا ہم نے حشر کیا کیا! بیس‘ تیس برسوں میں برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کے درجنوں سربراہ آئے اور گئے۔ ہمارے پارلیمانی نظام میں نواز شریف‘ زرداری صاحب‘ مولانا صاحب اور عمران خان ہی پارٹیوں کی مستقل شناخت ہیں۔ جو پارلیمانی نظام ہمارے ہاں رائج ہے‘ وہ لولا لنگڑا‘ اپاہج پارلیمانی نظام ہے۔ صدارتی نظام لے آئیے۔ ایسا ہی لولا لنگڑا اپاہج ہو گا۔ گھوڑوں کی خرید و فروخت جاری رہے گی۔ موسمی پرندے جھیلوں کے کناروں پر آکر بیٹھیں گے اور اُڈاری مار کر غائب ہوتے رہیں گے۔ پلوٹوکریسی ہی کا غلبہ رہے گا یعنی امرا کی حکومت! پیپلز پارٹی‘ نون لیگ اور قاف لیگ کی نئی نسل جو اسمبلیوں میں پہنچی ہے یا سیاسی پیش منظر پر چھائی ہوئی ہے‘ ارب پتی ہے۔
ایک لاحاصل بحث چھیڑ دی جاتی ہے۔ جو سیاست دان پارلیمانی نظام کی حمایت کر رہے ہیں‘ اصل اور خالص پارلیمانی نظام نافذ کیا جائے تو ان کا اصل روپ بھی سامنے آ جائے گا۔ جن سے ٹریفک کا نظام نہیں درست ہو سکتا‘ تھانوں اور کچہریوں کا نظام دیانت اور امانت سے نہیں چلایا جا سکتا‘ وہ پارلیمانی اور صدارتی نظام کیسے چلا سکتے ہیں؟ ہمارا مسئلہ نظام کا نہیں نیت کا ہے۔ قاتلوں کو جیل خانوں سے ''ہسپتالوں‘‘ میں منتقل کر دیا جاتا ہے‘ مریضوں پر حملہ آور ہونے والے جتھوں کا آپ بال بیکا نہیں کر سکتے‘ چوک پر ڈیوٹی دینے والے ٹریفک کے سپاہی کو سردار کی گاڑی کچل دیتی ہے اور کچھ بھی نہیں ہوتا‘ اور باتیں کرتے ہیں آپ صدارتی اور پارلیمانی نظام کی! سچ پوچھیے تو آپ ہنساتے بہت ہیں!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, January 20, 2022

ریاست مدینہ میں کیا ہوتا تھا؟


تزک و احتشام اس قدر تھا اور شان و شوکت اتنی تھی کہ اہلِ مدینہ کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں! بنو غسّان کا بادشاہ جبلہ بن ایہم مدینہ میں داخل ہوا تو اس کے ہمراہ پانچ سو سوار تھے۔ لباس ان کے ریشمی تھے۔ گَلوں میں سونے کے ہار تھے۔ جبلہ کے سر پر شاہانہ تاج تھا۔ گھوڑے بہترین نسل کے تھے۔ ایسا طمطراق شہر میں کبھی کسی نے دیکھا نہیں تھا!

مسلمانوں نے دمشق کے گرد و نواح پر قبضہ کیا تو جبلہ کے محلات اور جاگیریں اسے داغ مفارقت دے گئیں۔ وہ اس علاقے میں ہرقل کا دست راست تھا مگر وقت اپنا رنگ بدل رہا تھا۔ تاریخ نیا صفحہ الٹ رہی تھی۔ جبلہ کی دُور رس نگاہوں نے دیکھ لیا کہ رومن ایمپائر مسلمانوں کے سامنے ٹھہر نہیں پائے گی؛ چنانچہ اس نے اپنے قبیلے کے ہمراہ اسلام قبول کر لیا۔ پھر اس کے بعد دربارِ خلافت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی اور یوں مدینہ منورہ میں وارد ہوا۔ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ اس سے شفقت سے پیش آئے۔ کچھ دن کے بعد امیرالمومنین اور مسلمانوں کی حج کے لیے روانگی تھی۔ جبلہ بھی ساتھ تھا۔ طواف کے دوران اس کے تہمد پر ایک بَدّو کا پاؤں آ گیا۔ جبلہ غصے سے پاگل ہو گیا۔ اس نے پلٹ کر بدو کو مُکا مارا۔ ایک روایت کے مطابق بدو کے دانت ٹوٹ گئے۔ دوسری روایت کی رُو سے ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مدعی دربارِ خلافت میں پہنچا اور شکایت کر دی۔ امیرالمومنین نے جبلہ کو بلا کر جواب طلبی کی۔ اس نے کِبر و غرور کے ساتھ تصدیق کی۔ امیرالمومنین نے فرمایا کہ تم اپنا جرم تسلیم کر رہے ہو‘ اب مظلوم کو مناؤ ورنہ سزا کے لیے تیار ہو جاؤ۔ جبلہ نے تفاخر سے جواب دیا کہ میں بادشاہ ہوں اور وہ ایک عام، گمنام شخص! اس کا اور میرا کیا مقابلہ؟ آپؓ نے فرمایا: اسلام میں سب برابر ہیں سوائے تقویٰ کے کوئی اور وجۂ امتیاز نہیں ! اس نے کہا: امیرالمومنین! میں سمجھتا تھا کہ اسلام قبول کر کے مجھے پہلے سے بھی زیادہ عزت ملے گی! آپؓ نے فرمایا: یہ خیال دل سے نکال دو‘ اگر مدعی تمہیں معاف نہیں کرے گا تو سزا ضرور دی جائے گی۔ اس نے کہا: تو ٹھیک ہے میں نصرانی بن جاتا ہوں۔ آپؓ نے کہا: اس صورت میں ارتداد کی سزا موت ہے۔ اس نے مہلت مانگی جو آپؓ نے دے دی۔ کچھ لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ اتنی شدت نہیں کرنی چاہیے‘ شروع کے دن ہیں‘ اسلام پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ مگر یہ ریاستِ مدینہ تھی۔ بادشاہ ہو یا وزیر، اور حالات جیسے بھی ہوں، قانون کے سامنے سب برابر تھے۔ جبلہ رات کی تاریکی میں فرار ہو گیا۔

وزیر اعظم نے ریاست مدینہ کے حوالے سے مضمون تحریر کیا ہے جو پرنٹ میڈیا میں شائع ہوا۔ یہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ کم از کم تھیوری کے حوالے سے تو معلوم ہو کہ روڈ میپ کیا ہے؟ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم سنجیدگی سے اُس راستے پر چل رہے ہیں جو ریاستِ مدینہ کی طرف جاتا ہے؟ یا ابھی راستے کی سمت کا تعین ہی نہیں ہو رہا؟ یہ سوال ایک مثال سے واضح ہو گا۔ جب تحریک انصاف کے وابستگان سے پوچھا جاتا ہے کہ جن سیاست دانوں کی ماضی میں کھلم کھلا مذمت کی گئی اور دیانت و امانت کے حوالے سے انہیں واضح طور پر ناپسندیدہ قرار دیا گیا بلکہ ایسے القاب بھی دیئے گئے جو زبان زدِ خاص و عام ہیں تو پھر حکومت تشکیل کرتے وقت انہیں ممتاز مناصب سے کیوں نوازا گیا؟ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ایسا نہ کرتے تو ہماری حکومت نہ بن سکتی! اب یہاں منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست مدینہ میں، کسوٹی پر پورا نہ اترنے والوں کو صرف اس لیے ساتھ ملایا جاتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح حکومت بن جائے؟ اور کیا ایسے لوگوں کو اس لیے نہیں ہٹایا جاتا تھا کہ حکومت ٹوٹ نہ جائے؟ چوراسی‘ چوراسی کروڑ کے قرضے معاف کرانے والے اونچی کرسیوں پر متمکن ہیں! چینی، رنگ روڈ، ادویات، اور کئی دیگر حوالوں سے جن ناموں کے آگے سوالیہ نشان لگے ہیں وہ اقتدار کی پہلی صف میں نظر آتے ہیں!

تو کیا ریاست مدینہ میں ایسا ہوتا تھا؟ کیا حکومت حاصل کرنے کے لیے، یا حکومت برقرار رکھنے کے لیے رطب و یابس میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا؟ اس ضمن میں ریاست مدینہ کے حکمران امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے اپنے طرزِ عمل سے پتھر پر لکیر کھینچ دی اور بتا دیا کہ حکومت رہے یا نہ رہے، اصولوں پر سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ اب جو بھی ریاست مدینہ کی اتباع کا دعویٰ کرے گا، اسے یہی طرزِ عمل اپنانا ہو گا۔ امیرالمومنین علی مرتضیٰؓ سے زیادہ مشکلات کا شکار کون ہوا ہو گا! ایک طرف امیر شام! دوسری طرف خوارج! تیسری طرف اپنے غیر مطمئن حمایتی! اپنے چچا زاد ابن عباسؓ کو آپؓ نے بصرہ کا گورنر مقرر فرمایا کہ فتنوں سے بھرے ہوئے ان نامساعد حالات میں بھروسے کے لوگ چند ہی رہ گئے تھے اور ابن عباسؓ ان میں سے ایک تھے۔ ابن عباسؓ نے بیت المال سے کچھ رقم اپنے استعمال کے لیے لی۔ صوبے کے مالیات کے سربراہ نے کچھ عرصہ بعد رقم کی واپسی کا تقاضا کیا تو ابن عباسؓ نے سختی سے جواب دیا۔ افسر مالیات نے معاملہ امیرالمومنین کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ شدید مشکلات میں گھرے ہوئے امیرالمومنین کو چشم پوشی سے کام لینا چاہیے تھا؟ ان حالات میں ابن عباسؓ جیسی اہم شخصیت کو ناراض کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتا۔ مگر امیرالمومنین کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ اپنے اقتدار کو استحکام بخشنے کے لیے ریاست مدینہ کے اصولوں کو پسِ پشت ڈالیں۔ آپؓ نے ابن عباسؓ کو لکھا: اما بعد‘ مجھے تمہارے بارے میں ایک بات کا پتا چلا ہے۔ اگر وہ سچ ہے تو تم نے اپنے رب کو خفا کیا، اپنی امانت برباد کی، اپنے امام کی نافرمانی کی اور مسلمانوں کے خائن بنے۔ مجھے معلوم ہوا کہ تم نے زمین کو بنجر کر دیا اور جو رقم تمہارے قبضے میں تھی وہ کھا گئے۔ پس میرے سامنے حساب پیش کرو اور جان لو کہ اللہ کا حساب لوگوں کے حساب سے زیادہ سخت ہے۔ حضرت ابن عباسؓ رقم واپس کرنے کے بجائے معاملے کو ٹالتے رہے مگر امیرالمومنین کا احتساب سخت تھا! کسی قسم کی لچک کے بغیر! ابن عباسؓ نے مال سمیٹا۔ اپنے ماموئوں کو اپنی حفاظت کے لیے بلا لیا اور مکہ مکرمہ جا کر عیش و آرام کی زندگی گزارنے لگے۔ امیرالمومنین نے انہیں ایک طویل سرزنش نامہ لکھا جس کی آخری سطور یہ تھیں: کیا قیامت پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ اور کیا بعد میں بری طرح حساب نہیں ہو گا؟ اور کیا تم جانتے نہیں کہ حرام کھاتے ہو اور حرام پیتے ہو؟ اللہ سے ڈرو۔ قوم کا مال واپس کر دو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو بخدا اگر مجھے موقع ملا تو میں تمہارا انصاف کروں گا اور حق حق دار تک پہنچاؤں گا۔ ظالم کو ماروں گا اور مظلوم کا انصاف کروں گا۔ والسلام
یہ ہے ریاست مدینہ! صاف! آئینے کے مانند شفاف! سورج سے زیادہ روشن! چاند سے زیادہ چمک دار! یہ بہت ہی نامناسب بات ہے کہ ہم نام ریاست مدینہ کا لیں! صبح و شام لیں! مگر طرز عمل ہمارا مصلحتوں سے اور چشم پوشیوں سے بھرا ہوا ہو اور ہم اپنی حکومت بچانے کی فکر ہی میں رہیں۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, January 18, 2022

ہم باعزت ملک کب بنیں گے ؟


نوواک جوکو وِچ‘ شہرِ سفید بلغراد میں 1987 ء میں پیدا ہوا۔باپ سربیا کا اور ماں کروشیا کی تھی۔ سربیا اور کروشیا‘ دونوں یوگو سلاویہ مرحوم کے حصے تھے۔ یوگو سلاویہ کیسے ٹوٹا اور کیسے نصف درجن سے زیادہ ریاستوں میں بٹا‘ یہ ایک الگ کہانی ہے‘ دلچسپ بھی اور خونچکاں بھی۔ جوکووچ نے چار سال کی عمر میں ٹینس کھیلنا شروع کر دیا۔بارہ سال کاہوا تو جرمنی کی ایک معروف ٹینس اکادمی میں بھیج دیا گیا جہاں چار سال تک اسے ٹینس کھیلنے کی تربیت دی گئی۔چودہ سال کی عمر میں بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور یورپ کے سنگل‘ ڈبل اور ٹیم مقابلے جیتنے لگا۔ اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔آج وہ ٹینس کی دنیا کا بے تاج بادشاہ ہے اور نمبر ون کھلاڑی۔ کوئی ایسا مقابلہ نہیں جو اس نے جیتا نہ ہو۔ جن لوگوں کو اس کھیل میں دلچسپی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ فرینچ اوپن‘ آسٹریلیا اوپن اور یو ایس اے اوپن کتنے عالی شان مقابلے ہیں جو جوکو وچ مسلسل جیتتا چلا آیا ہے۔
اب ہم اصل قصے کی طرف آتے ہیں۔ جنوری 2022 ء میں‘ یعنی ماہِ رواں میں‘ آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ٹینس کے عالمی مقابلے '' آسٹریلیا اوپن‘‘ ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ٹینس کے شائقین کی نظریں اس شہر کی طرف ہیں۔ میلبورن آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا کا دارالحکومت ہے۔ وکٹوریا کی ریاستی ( یعنی صوبائی) حکومت نے جوکو وچ اور مٹھی بھر دوسرے کھلاڑیوں اور سٹاف کو کورونا کی لازمی ویکسی نیشن سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ یہ استثنیٰ '' میڈیکل استثنیٰ‘‘ کہلاتا ہے؛ تاہم پانچ جنوری کو جب جوکووچ میلبورن کے ہوائی اڈے پر اترا تو آسٹریلیا بارڈر فورس نے ( جو ایک وفاقی محکمہ ہے) اسے ایئر پورٹ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔ وجہ یہ بتائی کہ جوکو وچ استثنیٰ کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اصل میں کچھ ہفتے پہلے‘ سولہ دسمبر کو‘ اس کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ اس کے بعد وہ قرنطینہ میں بھی نہیں گیا۔بہر طور اس کا ویزا کینسل کر دیا گیا اور اسے اس ہوٹل میں نظر بند کر دیا گیا جہاں اس قسم کے دوسرے مسافروں کو رکھا گیا تھا۔ جوکو وچ کے وکیل عدالت میں چلے گئے۔ دس جنوری کو آسٹریلوی عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر حکومت کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ جوکو وچ کو ہوٹل سے باہر جانے دیا جائے، مگر اس کے بعد جوکو وچ نے اعتراف کیا کہ ویزا کی درخواست میں اس نے غلط بیانی کی تھی۔ یہ اور بات کہ اس غلط بیانی کا ذمہ دار اس نے اپنے منیجر کو قرار دیا جس نے ویزا فارم بھرا تھا۔ چودہ جنوری کو وفاقی وزیر برائے امیگریشن نے اپنے قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جوکو وچ کا ویزا حتمی طور پر منسوخ کر دیا‘ اس لیے کہ ایسا کرنا عوامی مفاد میں تھا۔ جوکو وچ کے وکلا نے نظر ثانی اپیل کی مگر تین ججوں کے بنچ نے سولہ جنوری کو ان کی درخواست نا منظور کر دی۔ اسی رات جوکووچ آسٹریلیا سے چلا گیا۔
اس اثنا میں آسٹریلیا کی حکومت پر بے پناہ دباؤ پڑا۔ سربیا کی حکومت نے پُرزور احتجاج کیا۔ کھیلوں کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی کھلاڑی کی حمایت میں نکل آئیں۔ آسٹریلیا میں رہنے والے سربیا نژاد افراد نے بھی زور لگایا مگر آسٹریلیا کے وزیر اعظم اور متعلقہ وفاقی وزیر کا ایک ہی جواب تھا کہ قانون‘ قانون ہے۔ کسی فردِ واحد کو قانون سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا! اب یہاں جو سوال اٹھتا ہے اور جس کے لیے ہم نے یہ سارا قصہ بیان کیا ہے یہ ہے کہ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہوسکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب '' نہیں‘‘ کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے! آپ کو یاد ہو گا جن دنوں امریکی تنظیم بلیک واٹر کا پاکستان میں شہرہ تھا کتنے ہی امریکی شہری ویزے کے بغیر پاکستان آتے جاتے رہے۔ کتنے ہی غیر ملکی پاکستان میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں‘ گاڑیوں کو ٹکریں مارتے ہیں‘ پاکستانیوں کو زخمی کرتے ہیں‘ مار دیتے ہیں مگر قانون کی گرفت میں نہیں لائے جاتے۔ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ تو ایک ہے جو منظر عام پر آگیا‘ نہ جانے کتنے ریمنڈ ڈیوس پاکستانی قانون کا منہ چڑا کر چلے گئے۔ کتنے ہی یہیں رہ رہے ہیں۔
باعزت ملکوں کی بہت سی نشانیاں ہیں مگر دو نشانیاں خاص ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے شہریوں کی پوری دنیا میں حفاظت کرتے ہیں ! ایک ایک شہری کی! قطع نظر اس کے کہ اس کا سٹیٹس کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ بڑے سے بڑے آدمی کے لیے‘ غیر ملکی ہو یا ملکی‘ قانون میں کوئی استثنیٰ نہیں! اس ضمن میں ایک امریکی لڑکے‘ مائیکل پیٹر فے‘ کا مقدمہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ لڑکا سنگا پور کے سکول میں پڑھتا تھا‘ اس کے جرائم کی پاداش میں‘ سنگاپور کے قوانین کی رُو سے‘ اسے چھ کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ امریکہ نے اپنے اس شہری کی حفاظت کے لیے پورا زور لگایا۔ امریکی سفارت خانہ‘ امریکی پارلیمنٹ‘ امریکی ایوانِ صدر‘ سب نے کوشش کی یہاں تک کہ صدر کلنٹن نے سنگاپور کے صدر کو فون کیا مگر سنگا پور کا موقف واضح تھا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ سنگاپور کے وزیر اعظم لی کؤان یئو نے اسی موقع پر کہا تھا کہ امریکہ محفوظ ہے نہ پُرامن کیونکہ مجرموں کو سزا نہیں ملتی۔''بہر طور یہ آپ کا مسئلہ ہے‘ ہمارا طریقہ یہ نہیں‘‘۔ اتنا ضرور ہوا کہ سنگاپور کے صدر نے چھ کوڑوں کی سزا گھٹا کر چار کر دی مگر سزا دی گئی۔ امریکہ نے اپنے ایک عام شہری کے لیے صدارتی سطح تک بھرپور کوشش کی۔ سنگاپور نے اپنے قانون کی حفاظت کا حق ادا کیا۔ یہ ہے طاقتور جدید ریاستوں کا کردار !
غیر ملکیوں کو تو چھوڑیے‘ پاکستان کے تو اندر بھی دو طبقات ہیں۔ ایک وہ جن کا کوئی جرم معاف نہیں ہوتا۔ یہ کمزور طبقہ ہے۔ دوسرا وہ جو قتل کردیں یا اربوں روپے ہڑپ کر جائیں‘ کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا! یہ بااثر طبقہ ہے۔ اخبار پڑھنے والے یا ٹی وی پر خبریں سننے والے بچے بچے کو اس دھاندلی‘ اس لاقانونیت‘ اس ظلم کا اچھی طرح پتا ہے۔ چار پانچ دن ہی تو ہوئے ہیں کہ خبر ملی ہے شاہ رخ جتوئی جیل کے بجائے ہسپتال میں ہے۔ یہ '' ہسپتال‘‘ ایک کوٹھی میں ہے جو بااثر خاندان نے کرایے پر لے رکھی ہے۔ لاہور کے زین کے قتل کا کیا ہوا؟ بااثر خاندان کا چشم و چراغ یوں محفوظ ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان! کل ہی نور مقدم کے والد نے اپیل کی ہے کہ اس کی بیٹی کے قاتل کو موت کی سزا دی جائے۔ کیوں اپیل کی ہے ؟ اس لیے کہ پورا ملک اس سلسلے میں بے یقینی کی اذیت میں مبتلا ہے! آپ اور میں دس ہزار کا قرضہ بینک سے لیں اور‘ نادہند ہو جائیں تو بینک ایف آئی اے سے لے کر پولیس تک ساری مشینری ہمارے دروازے تک لے آئے گا۔ پورے خاندان کو ناکوں چنے چبوا دے گا‘ قبر تک پیچھا کرے گا۔ جائداد تک قرق ہو جائے گی۔ مگر چوراسی کروڑ کی نادہند خاتون کابینہ کی رکن بن کر اُس حکومت میں بیٹھی ہوئی ہے جس نے تبدیلی کے نام پر کروڑوں پاکستانیوں کا دل لبھایا تھا! اور ایسی سینکڑوں مثالیں اور بھی ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ ہم ایک باعزت قوم اُس وقت بن پائیں گے جب کوئی مجرم‘ خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ خواہ غیر ملکی ہو یا ملکی‘ ہمارے قانون سے بچ نہیں سکے گا ! اس ضمن میں ریاستِ مدینہ کا طرزِعمل کیا تھا؟ یہ ہم اگلی نشست میں بتائیں گے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, January 17, 2022

ہم پالکی سے اُتر ہی نہیں رہے



یہ اشتہار امریکی حکومت کی طرف سے ایک کثیر الاشاعت امریکی اخبار میں دیا گیا 

'' امریکہ کے ایک سرکاری ادارے کو خاکروبوں کی ضرورت ہے۔صرف مسلمان یا غیر مسیحی درخواست دیں‘‘۔

ایسا نہیں ہوا۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر فی الواقع ایسا ہو جائے تو آپ پسند کریں گے ؟ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کا کیا ردِ عمل ہو گا؟جو امریکی غیر مسلم ہیں‘ کیا وہ اس پر خاموش رہیں گے ؟ 

ہمارے ہاں تو ایسا ہو رہا ہے۔ جانے کب سے ہو رہا ہے۔ ہماری وزارتیں اور سرکاری محکمے خاکروبوں کی خالی اسامیاں مشتہر کرتے ہیں تو اشتہار میں صراحت اور التزام کے ساتھ بتاتے ہیں کہ درخواست دینے والے غیر مسلم ہونے چاہئیں یا مسیحی! بھلا ہو کہ آخر کار اسلام آباد کی عدالتِ عظمیٰ نے مختلف وزارتوں کو اس ضمن میں نوٹس جاری کئے ہیں اور دو ہفتوں میں جواب طلب کئے ہیں۔ یہ ازخود نوٹس نہیں تھا۔ پاکستان یونائٹڈ کرسچین موومنٹ اور ایک اور تنظیم ''سنٹر فار رُول آف لا‘‘ نے عدالت میں درخواست دائر کی اور فریاد کی کہ اس طرزِعمل سے مذہبی تعصب کی فضا پیدا ہوتی ہے اور مسیحی اور غیر مسلم پاکستانیوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے۔ یہ وزارتیں اور یہ محکمے عدالت کو کیا جواب دیں گے ؟ غالباً ان کا جواب یہ ہو گا کہ ''شروع‘‘ سے ہی ایسا ہو رہا ہے اور ماضی میں دیے جانے والے اشتہار بھی ایسے ہی تھے۔ ظاہر ہے ان کے پاس کوئی اور دلیل نہیں ہو گی۔ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ غیر مسلم کمتر ہیں یا یہ تقاضا آئین کا ہے۔ فرض کیجیے عدالت ان سے پوچھتی ہے کہ کیا ایسا اشتہار اخلاقی‘ قانونی یا آئینی لحاظ سے درست ہے تو ان کا کیا جواب ہو گا؟

ایسا بھی نہیں کہ پاکستانی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ہر تیسرے گھر کا ایک فرد امریکہ میں مقیم ہے یا یورپ میں یا آسٹریلیا میں۔ ان ملکوں میں کسی سے نہیں پوچھا جاتا کہ مسیحی ہو یا غیر مسیحی۔ مسلمانوں کے لیے نہ ہی دوسرے غیر مسیحی مذاہب کے پیرو کاروں کے لیے اقلیت کالفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ منطقی طور پر جو سلوک ہم غیر مسلموں کے ساتھ کرتے ہیں‘ ویسا ہی اگر مغرب میں غیر مسیحیوں کے لیے ہو تو کیا ہم اعتراض کر سکتے ہیں؟ کچھ لوگوں کے لیے ہمارے گھروں میں‘ عام طور‘ پر برتن الگ رکھے جاتے ہیں۔ کیا یہ کوئی مذہبی تقاضا ہے؟ مغربی ملکوں میں انہی لوگوں کے گھروں میں کھانا کھائیں تو ہم میں سے بہت سے اس پر فخر محسوس کریں گے۔ وہاں کے ریستورانوں میں یہی لوگ کھانا پکاتے ہیں‘ پیش کرتے ہیں اور برتن بھی دھوتے ہیں۔ ان ملکوں میں جا کر انہی ریستورانوں میں ہم کھانا کھاتے ہیں۔ تو پھر یہ خودساختہ اصول وہاں کیوں غائب ہو جاتا ہے؟ وہاں الگ برتنوں کا تقاضا کیوں نہیں کیا جاتا؟

اصل مسئلہ ہمارا احساسِ کہتری ہے جس نے مختلف روپ دھار رکھے ہیں۔دامن میں کچھ بھی نہیں ہے۔ للچائی ہوئی نظروں سے ترقی یافتہ ملکوں کا معیارِ زندگی دیکھتے ہیں۔ جو ہمارے لوگ ان ملکوں میں جا کر بس گئے‘ ان پر رشک بھی کرنا ہے اور اعتراض بھی! کاش اعداد و شمار معلوم کیے جا سکتے کہ کتنے لوگوں نے امیگریشن کے لیے درخواستیں دے رکھی ہیں۔کتنے قطار میں لگنے کی تیاری کر رہے ہیں اورکتنے ہی دلوں میں باہر جا بسنے کی خواہش انگڑائیاں لے رہی ہے۔ ہمارے ایک عزیز امریکہ میں ایک اسلامک سنٹر کے انچارج ہیں۔ جب بھی کچھ دنوں کے لیے وطن میں آتے ہیں‘ صالحین انہیں گھیرے رکھتے ہیں کہ کسی اسلامک سنٹر میں وہاں رکھوا دیں۔جتنے بڑے بڑے نام ہمارے ہاں امریکہ اور یورپ کی مخالفت کے حوالے سے مشہور ہیں‘ سب کی اولادیں امریکہ اور یورپ میں پڑھی ہیں اور پڑھ رہی ہیں۔ ایک طرف مدارس کے نظام میں ذرا سی تبدیلی کی بھی مخالفت‘ دوسری طرف اپنے بچے مغربی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوں تو خوشی کے شادیانے! دُہرا معیار! اپنے لیے کچھ اور ! دوسروں کے لیے کچھ اور ! پھر انہی ملکوں پر تنقید! یہ کہ مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی مشکلات اور بربادی کا ذریعہ بن رہی ہے۔ یہ کہ مغربی نظام اب چلنے کے قابل نہیں۔ بالکل درست کہا۔ چلنے کے قابل نہیں کیونکہ یہ لوگ دوسرے ملکوں سے آنے والوں کے لیے شہریت اور ترقی کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ مذہب کا پوچھتے ہیں نہ فرقے کا! یہ بیچارے ہمارا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ ہم نے تو اپنے ہی کچھ ہم وطنوں‘ اپنے ہی کچھ شہریوں کو خاکروبی کے لیے مخصوص کیا ہوا ہے۔

اس احساسِ کہتری کے کئی مظاہر ہیں! کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ ہمارے سرکاری محلات میں خدام کو کون سا لباس پہنایا جاتا ہے ؟ ویٹر‘ دربان‘ چوبدار‘ سب شیروانیوں اور پگڑیوں میں ملبوس ہوتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ انگریزوں نے مفتوح ملک کے باشندوں کو اپنی ہی نظروں میں گرانے کیلئے اپنے خدام کو ان کے اشراف کا لباس پہنا یا تھا۔ ہمارے ہیروز کے ناموں پر اپنے کتوں کے نام رکھے۔ صوبیدار صوبائی گورنر ہوتا تھا۔ اسے اپنے نوجوان لفٹین اور کپتان کا ماتحت کر دیا۔ رسالدار کیولری کا بڑا افسر تھا۔ اس کا مرتبہ بھی چھوٹا کر دیا۔خانِ سامان دربار کا بڑا منصب تھا۔ اسے باورچی بنا دیا۔ آزادی کے بعد سات عشرے گزر چکے‘ ہماری سرکاری ضیافتوں میں خدّام آج بھی شیروانیوں اور دستاروں میں ملبوس‘ غلاموں کی طرح‘ دست بستہ کھڑے ہیں۔ مہمانوں میں غیر ملکی بھی ہوتے ہیں۔ ہماری غیرت والی آنکھ آج تک نہ پھڑک سکی۔ چلیے‘ ان سرکاری محلات میں رہنے والوں کا مطالعہ زیادہ نہیں‘ نہ ہی تاریخ کا شعور ان کا قابلِ رشک ہے۔ان کے پرنسپل سیکرٹری تو مقابلے کے بڑے بڑے امتحان پاس کر کے آئے ہیں۔ ہند و پاک کی تاریخ ان حضرات کو ازبر ہے۔ ان محلات کا انتظام و انصرام انہی بلند مرتبہ افسران کے طاقتور ہاتھوں میں ہے۔ انہوں نے اس وردی کو کیوں نہیں تبدیل کیا ؟

مگر یہ ہمارے افسران تو خود شدید احساسِ کہتری کا شکار ہیں! یہ پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے پیش نہ ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ جہاں خود حاضر ہونا ہو‘ وہاں اپنے ماتحتوں کو بھیج دینے کا حیلہ تراشتے ہیں۔ اس کی بیسیوں نہیں‘ اس سے بھی زیادہ مثالیں موجود ہیں۔ ابھی چار دن پہلے کی بات ہے۔ ایک وفاقی سیکرٹری نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش ہونا تھا۔ رکن پارلیمنٹ‘جناب نوید قمر‘ اس ذیلی کمیٹی کے سربراہ تھے۔ آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا جانا تھا۔ متعلقہ وفاقی سیکرٹری پیش ہی نہ ہوئے۔ کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کر دیا۔ کمیٹی اور کر بھی کیا سکتی تھی ! ہر تیسرے دن اسی قسم کی خبر آتی ہے ! اُدھر الیکشن کمیشن الزام لگا رہا ہے کہ ایک صوبے کے چیف سیکرٹری بہانے بنا بنا کر الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ احساسِ کہتری اور اس کے مختلف مظاہر ! مختلف روپ ! وزیر صاحب معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں تو گریڈ بیس کا افسر ساتھ کھڑا ہے ؟ کیوں؟ تا کہ صفحہ الٹ سکے۔معاہدہ امداد لینے کا ہے۔ ساتھ امداد دینے والا بھی بیٹھا ہے۔وہ صفحے خود الٹ رہا ہے۔ جو بارہ جماعتیں پاس کر لیتا ہے‘ اپنا سامان اٹھاتے ہوئے اسے شرم آتی ہے۔یہ شان و شوکت آج کی بات نہیں۔ یہ ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ غالب ملازمت کے لیے گئے‘ انگریز افسر پذیرائی کے لیے باہر نہ نکلا تو پالکی سے نہ اترے اور واپس چلے آئے ! پھر فخر سے کہا ؎

بندگی میں بھی وہ آزاد ہ و خود بیں ہیں کہ ہم
اُلٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

المیہ یہ ہواکہ ہم پالکی سے اتر ہی نہیں رہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, January 13, 2022

جب تفریح موت بن جائے



مری کے   اندوہناک  معاملے  میں بظاہر تین فریق ہیں۔ سیاح، اہلِ مری اور حکومت۔ مگر ذرا غور کیجیے تو سیاح اور اہلِ مری ایک ہی کیٹیگری سے تعلق  رکھتے ہیں۔ دونوں عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ہر دو  کا تعلق مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے ہے۔  یہ بات ماننا پڑے گی کہ  ہر جگہ اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔مقامی لوگوں نے مدد بھی کی۔مگر انسان کی فطرت اور میڈیا کی فطرت میں جو خاصیت مشترک ہے وہ یہ ہے کہ منفی پہلو کو زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے ۔ اس کی تشہیر خوب ہوتی ہے۔ سن کر اور پڑھ کر  جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے اور متاثرین کی حالت زار کا سن کر ذہن پر غم کے بادل چھا جاتے ہیں۔ 

مری کے کچھ کاروباری حضرات کا رویہ یقینا”  ناقابل رشک رہا۔ کمروں کے کرائے اور اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں   ظلم کی حد تک  بڑھا دیں۔  مجبور مسافروں کا استحصال کیا۔لڑکے بالے گاڑیوں کو دھکا لگانے کے بھی دام لیتے رہے۔ ایک خاندان کو اپنی خاتون  کے زیور دے کر کمرہ حاصل کرنا پڑا۔  ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔تاہم ایک سوال  پیدا ہوتا ہے کہ کیا مری ایک جزیرہ ہے ؟ کیا یہ باقی پاکستان سے کٹا ہؤا ہے ؟ کیا کسی اور پاکستانی  شہر میں ایسا بالکل نہ ہوتا؟کیا خودغرضی کا یہ مظاہرہ ملک بھر میں  صرف اہلِ مری نے کیا ہے؟نہیں! جناب نہیں ! مری کے لوگ اگر دیگ کا چاول ہیں تو ہم سب، بحیثیتِ قوم،  یہ دیگ ہی تو ہیں !دوسروں کی مجبوری سے فائدہ  اٹھانا ہمارا قومی شعار ہے۔ رمضان میں کیا ہوتا ہے ؟ غیر مسلم ملکوں میں رمضان اور عید پر سیل لگتی ہے مگر اسلام کے اس قلعے میں قیمتیں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں ۔ جب لوگوں نے تہوار منانے  اپنے آبائی گھروں کو جانا ہوتا ہے تو بسوں کے کرایوں میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے۔ کیا ہم  لوگوں کی زندگیوں سے نہیں کھیل رہے؟خوراک میں ملاوٹ کا تو ذکر ہی کیا، ادویات جعلی بنا کر ہم لوگوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتار رہے؟کیاجعلی سٹنٹ نہیں بن رہے اور کیا بغیر ضرورت کے لوگوں کے دلوں میں  جعلی سٹنٹ نہیں ٹھونسے جا رہے؟ ایک  معروف اینکر کو راولپنڈی کے ایک مشہور،  بڑے اور پرانے ہسپتال میں بتایا گیا کہ دل کا معاملہ نازک ہو رہا ہے، سٹنٹ ڈالنے پڑیں گے۔ انہیں دوا دی گئی تا کہ  دو دن دوا کھانے کے بعد آکر سٹنٹ ڈلوائیں۔ انہوں نے اس کالم نگار سے رابطہ کیا۔ دو عزیزوں کو ، جو امراضِ قلب کے ماہر ہیں۔ ان کی رپورٹیں بھیجی گئیں ۔ایک بیرون ملک اور دوسرے اندرون ملک ۔  دونوں نے  کہا کہ کسی سٹنٹ کی ضرورت نہیں۔  چار سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا۔ وہ صاحب تندرست اور سلامت ہیں !  یہ فر یب کاری عام  ہے۔  بیمار کے لواحقین کی ہڈیاں تک بھنبھوڑ لی جاتی ہیں۔کون سا موقع ہے جب استحصال نہیں کیا جاتا؟ کون سا شعبہ ہے جہاں مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ؟  کیاہم وہی نہیں جو تیل کا  ٹینکر الٹنے پر گھروں سے دیگچیاں اور پتیلے لے کر لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں ؟ جس ملک میں اغوا شدہ گاڑیوں کے تاوان،  گاڑیوں  کے اصل مالکوں  سے ،نماز ادا کرنے کے بعد، مسجد میں بیٹھ کر، وصول  کیے جاتے ہیں   ، اس ملک کے لوگوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ مَری یا کسی بھی دوسرے شہر کو نشانے پر رکھ لیں!  مصطفی زیدی نے کہا تھا ؎
حدیث ہے کہ اصولا” گناہگار نہ ہوں ر
گناہگار  پہ   پتھر  سنبھالنے  والے 
اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر نظر رکھیں 
کسی کی آنکھ سے کانٹے نکالنے والے 

سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں کوئی حکومت ہے یا نہیں ؟ دنیا  کے مہذب ملکوں میں جب بھی طوفان آنے کی پیشگوئی کی جاتی ہے، خواہ یہ طوفان سمندری ہو یا برف کا ہو  یا آندھی ہو،حکومتیں  اس تواتر  سے وارننگ دیتی ہیں  کہ یہ وارننگ عوام کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے اور عوام ، چاہیں یا نہ چاہیں، اس پر عمل کرتے ہیں۔ پھر ٹریفک کو کنٹرول کرنا، برف کو ہٹانا اور طوفان آنے کی صورت میں ایک ایک سیاح کو محفوظ مقام پر پہنچانا، یہ سب حکومتوں کے اولین فرائض میں شامل ہے۔جو صورت حال پیش آئی، مری کی انتظامیہ کو اس سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے تیار ہونا چاہیے تھا۔کہاں تھی یہ انتظامیہ ؟ کون تھا اس کا سربراہ ؟ کیا اب تک اسے کٹہرے میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ پچیس اموات  کے بعد( کون جانے اصل تعداد کیا ہے ) وزیر اعلیٰ کا ہیلی کوپٹر پر دورہ کرنا ایک مضحکہ خیز عمل کے سوا کچھ نہیں! پھر اس موقع پر  مری کو ضلع بنانے کا اعلان  اور بھی زیادہ مضحکہ خیز  ہے۔  خدا کے بندو ! جب تحصیل نہیں سنبھالی جا رہی تو ضلع کون سنبھالے گا؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے مڈل سکول نہیں چل رہا تو اسے ہائی سکول بنا دیا جائے۔ جس سے کھو کھا نہیں چل رہا اسے سپر سٹور پر بٹھا دیا جائے! مری جانے کے سینکڑوں راستے تو نہیں، کراچی فیصل آباد لاہور گوجرانوالہ  اور کے پی کے اکثرو بیشتر اضلاع سے آنے والے ایک ہی راستے سے  مری میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ مری میں داخل ہونے والی  اور واپس آنے والی  گاڑیوں  کا حساب رکھنا ناممکن نہیں! اسلام آباد ہی میں گاڑیوں کو روک دینا چاہیے تھا تا کہ وہیں سے سیاح متبادل مقامات کا رُخ کر لیتے۔ یہ اعداد و شمار پبلک کے لیے آن لائن میسر ہونے چاہییں تھے۔

معاشرے میں اس قدر گھٹن ہے اور تفریح کا اتنا قحط ہے کہ جہاں ذرا سی فراخی کا امکان ہو، لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں۔  گھر سے باہر ایک ہی تفریح ہے، کسی ریستوران میں جا کر کھانا کھا آئیے۔  بس ! ماحول میں شدت پسندی ہے۔ایک خاص  قسم کا مائینڈ سیٹ عام ہو رہا ہے یا عام کیا جا رہا ہے! کچھ کرتے ہوئے، کچھ کہتے ہوئے،  خوف آتا ہے کہ نہ جانے کیا ہو جائے۔ بات کرتے ہوئے بھی لوگ ڈرتے ہیں۔گھر کے اندر کسی مذہبی یا مسلکی مسئلے پر بحث چھِڑ جائے توماں باپ گڑ گڑا کر بچوں کی   منت کرتے ہیں کہ خدا کے لیے باہر، بازار ، دفتر  یا کارخانے میں کسی قسم کی بحث  کرنی ہے نہ بحث میں حصہ لینا ہے۔ عدم برداشت کا جو بیج پینتیس   چالیس  پہلے بویا گیا تھا آج وہ تناور درخت بن چکا ہے۔سیکورٹی  کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔خواتین کو گھورنے کی مکروہ  بیماری عام ہے۔ بچے اپنی گلی میں بھی نکلیں تو ماں باپ فکر مند ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں جب کوئی شام  خوشگوار موسم کی نوید سنائے یا مری میں برفباری کا امکان دکھائی دے تو لوگ، جوق در جوق،  بالکل اسی طرح باہر نکل  پڑتے ہیں جیسے شدید  قحط کے دوران خبر ملے کہ  کھانے پینے کی چیزیں بٹ رہی ہیں تو بھوکی خلقت ٹوٹ پڑتی ہے۔ 

اژدہام کی صورت حال  مری میں ہر  عید کے موقع پر  پیدا ہوتی ہے۔ بارہ کہو کے تنگ بازار میں گاڑیاں پھنس جاتی ہیں۔ مقامی لوگ الگ عذاب میں پڑتے ہیں۔ شریف حکومت نے اوور ہیڈ پُل کا وعدہ کیا تھا۔ مگر پورا نہ کیا۔ موجودہ حکومت نے بھی اس ضمن میں کوئی قدم نہ اٹھایا۔ وزیر اعظم کے دفتر کی عین  بغل میں واقع یہ آبادی غیر ملکیوں سے اٹی پڑی ہے۔ سیکورٹی صفر ہے۔اور یہی راستہ مری کا ہے۔ بنی گالا بھی، جہاں وزیر اعظم  رہتے ہیں،  اسی راستے میں پڑتا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی مشکل تو آسان کر لی۔ ہیلی کاپٹر پر آتے جاتے ہیں۔ رہے عوام ! تو حالیہ اموات کے بعد وہ اپنا نفع نقصان خود سوچ لیں کہ گھر سے نکلنا چاہیے یا نہیں !!!

بشکریہ روزنامہ دنیا 
……………………………………………………………

Wednesday, January 12, 2022

خود وفاتیے


''تھوڑی دیر بعد مردہ گاڑی میرے دروازے تک آپہنچی۔ایک بھورے رنگ کا گھوڑا جُتا ہوا تھا۔ گھوڑے اور اس کے مالک کو موقع کی سنجیدگی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ کوچوان پان چباتا ہوا آرام سے بیٹھا تھا اور بھیڑ کو دیکھ رہا تھا۔ اندازہ لگا رہا تھا کہ ان میں سے کسی سے بخشش وغیرہ ملنے کی امید ہے کہ نہیں ؟لوگوں کو زیادہ دیر تک رکنا نہیں پڑا۔میری لاش کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر نیچے لایا گیا اور مردہ گاڑی میں رکھ دیا گیا۔کچھ تھوڑے سے پھول بھی ارتھی کے اوپر ڈال دیے گئے۔ اب جلوس کو چ کے لیے تیار تھا‘‘۔
یہ اقتباس خوشونت سنگھ کے اُس مضمون سے ہے جو اس نے اپنی وفات سے پہلے اپنی وفات پر لکھا تھا۔ ایسے مضمون کو '' خود وفاتیہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ عقیل عباس جعفری نے ایسے مضامین‘ یعنی '' خود وفاتیے‘‘ جمع کیے ہیں اور کتاب کی شکل میں شائع کر دیے ہیں۔ کتاب کا عنوان ہے ''اپنی یاد میں‘‘ غالباً اس موضوع پر اردو میں یہ پہلی کتاب ہے۔ عطا الحق قاسمی نے درست کہا ہے کہ عقیل عباس جعفری خاموش طبع ہیں اور زیادہ باتیں نہیں کرتے۔ رئیس امروہی نے شاید ایسے لوگوں کے بارے ہی میں کہا تھا ؎
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
عقیل نے خاموشی سے کام کیا ہے اور بہت کام کیا ہے! ٹھوس‘ اہم اور جاندار کام! مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے لائقِ تحسین! تشہیر سے بے پروا‘ وہ اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ پاکستان کرانیکل کے عنوان سے اس نے جو انسائیکلو پیڈیا تالیف کیا ہے‘ وہ فرد کا نہیں ایک ادارے کا کام تھا مگر اس نے تن تنہا کر دکھایا!
''خود وفاتیے‘‘ جمع کرنے کا کام بھی اس نے انوکھا ہی کیا ہے۔ یہ کتاب دیکھنے اور پڑھنے سے پہلے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس صنف میں (ہاں! یہ ایک الگ صنف ہی تو ہے ) اتنے ادیبوں نے طبع آزمائی کی ہے اور اتنے بڑے بڑے ادیبوں نے! رشید احمد صدیقی‘ انتظار حسین‘ منٹو‘ جوش‘ کنہیا لال کپور‘ اشفاق احمد‘ محمد طفیل‘ جوگندر پال‘ خشونت سنگھ‘ حمید اختر اور بہت سے دوسرے معروف ادیبوں نے اپنی موت کا ماتم خود کیا ہے! یہ اوربات کہ یہ ماتم‘ اکثر و بیشتر‘ طنزیہ ہے یا عبرتناک! بیشتر ادیبوں نے اپنے کارناموں کو گھٹا کر پیش کیا۔ایک بات جو سب مضامین میں‘ کم و بیش‘ مشترکہ ہے مرنے کے بعد احباب کی بے رُخی اور اہلِ دنیا کی بے وفائی ہے۔ جنازہ ہو یا تعزیت‘ کسی کے پاس وقت نہیں۔ سب اپنے اپنے دھندوں میں مصروف ہیں۔ کچھ لکھاریوں نے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ مال و متاع‘ ساز و سامان‘ زمین اور حویلیاں سب یہیں رہ جاتی ہیں۔ اپنی وفات کے پردے میں کچھ اہلِ قلم نے دنیا اور اہلِ دنیا پر طنز بھی کیا ہے مگر کمال ان قلمکاروں نے کیا ہے جنہوں نے اپنی تنقیص کی اور اپنا محاسبہ کیا۔کچھ نے تو اپنے آپ پر نفرین بھی بھیجی۔مجتبیٰ حسین اپنے بارے میں لکھتے ہیں :
'' مجتبی حسین (جنہیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آنا چاہیے مگر جانے کیوں نہیں آرہا) پرسوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ ان کے مرنے کے دن نہیں تھے کیونکہ انہیں تو بہت پہلے نہ صرف مر جانا بلکہ ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس دن وہ پیدا ہوئے تھے تب سے ہی لگاتار مرتے چلے جا رہے تھے۔ گویا انہوں نے مرنے میں پورے اسّی سال لگا دیے۔ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں یہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندہ رہے۔ ان کی زندگی بھی قسطوں میں چل رہی تھی اور مرے بھی قسطوں میں ہی‘‘۔
انتظار حسین اپنی موت کے بعد اپنے بارے میں رقمطراز ہیں : ''اس نے ہوش سنبھالا تھا اور قلم ہاتھ میں پکڑنے لگا تھا کہ ہندوستان کا بٹوارا ہو گیا۔ایک الگ ملک پاکستان بن گیا۔اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سپیشل ٹرین میں بیٹھا اور لاہور جا اترا۔ڈبائی کا روڑا لاہور جا کر ہیرا بن گیا۔نقلی ہیرا ڈبائی کے گلی کوچوں کا حال لکھ لکھ کر سنانے لگااور چھپوانے لگا۔اس دعوے کے ساتھ کہ یہ کہانیاں ہیں۔ان دنوں جو ہندوستان سے لُٹ پٹ کر پاکستان پہنچتا تھااس کے ساتھ مروت ہوتی جاتی تھی۔اسی مروت میں لاہور والوں نے اسے کہانی کار مان لیا،مگر مہاجر اس کی اوقات کو سمجھتے تھے۔وہاں کافی ہاؤس میں ایک دن اس کی مڈ بھیڑ ایک ویٹر سے ہو گئی جو رام پور کا تھا۔یہ سمجھا کہ ویٹر ہی تو ہے‘ میں اپنی کہانیوں کا حوالہ دوں گا تو مرعوب ہو جائے گا۔وہ تھا رامپور کا چھنٹا ہوا‘ اس نے کہیں ان حضرت کی ایک دو کہانیاں پڑھ لی تھیں اور جان لیا تھا کہ یہ کتنے پانی میں ہیں۔ کہنے لگا کہ انتظار صاحب! آپ نے اپنی کہانیوں میں جو زبان لکھی ہے وہ ہمارے رامپور میں کنجڑیاں بولا کرتی ہیں۔ کبھی شریف زادیوں کی زبان اور اشراف کا محاورہ لکھ کر دکھایے۔‘‘
فکر تونسوی کا اصل نام رام لال بھاٹیا تھا۔ تونسہ شریف میں پیدا ہوئے اور بھارت میں آخری سانس لی۔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں ''مرحوم کو برسوں پہلے ایک پامسٹ نے بتا دیا تھا کہ آپ کو مرنے سے پہلے بیش بہا دولت ملے گی مگر افسوس کہ پامسٹ کی صرف ایک بات صحیح نکلی یعنی وہ مر گئے اور دولت والی بات انتہائی بے بنیاد نکلی۔اس پامسٹ کے بارے میں عام مشہور تھا کہ اس کی وہی بات صحیح نکلتی ہے کہ جو واقعی صحیح ہوتی ہے‘‘۔ فکر تونسوی نے اپنے مرنے کے بعد اُس ماتمی جلسے میں بھی شرکت کی جو ان کی یاد میں منعقد کیا گیا تھا۔ اس میں ان کی بیوہ نے بھی شرکت کی۔ فکر تونسوی لکھتے ہیں '' کلائمکس اس وقت پیدا ہوا جب سیاہ ساڑھی میں ملبوس میری بیوہ بیوی کو مائکروفون پر آنسو بہانے کے لیے لایا گیا۔اس نے سہاگ کی آخری چوڑی سٹیج پر توڑی۔ ماتھے کا سیندور اور بندی مٹائی۔آنکھوں کا کاجل پونچھااور پھر ان میں آنسو بھر لائی۔اس ماتمی حالت میں میری بیوی مجھے انتہائی دلکش اور دلربا لگی۔ میں نے جی ہی جی میں کہا ''اے ظالم! تو میرے جیتے جی بیوہ کیوں نہ بنی ؟‘‘میری آنکھوں میں آنسو آگئے مگر یہ خوشی کے آنسو تھے کہ کم از کم میری موت کے بعد تو مجھے بیوی کی محبت ملی ورنہ اس سے پہلے جب بھی اس کی آنکھوں میں آنسو آتے تھے اپنی ماں کی یاد میں ہی آتے تھے‘‘۔
عطا الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ موت کے بعد لوگ کس طرح آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔'' میں نے اپنے ایک دانشور دوست کو فون کیااور کہا یار تھوڑی دیر پہلے میرا انتقال ہو گیا ہے۔ تمہاری بھابی اور بھتیجوں کا رو رو کر برا حال ہے۔ تم ذرا میرے گھر آکر انہیں تسلی دو۔ دوست کا جواب تھا: میں نے ابھی تراویح پڑھنی ہے۔ پھر وظیفہ کرنا ہے۔اس کے بعد مجھے سونا ہے تا کہ سحری کے وقت اٹھنے میں تکلیف نہ ہو۔ تم اور تمہارے بچے مجھے بہت عزیز ہیں لیکن ان کے لیے عبادت تو نہیں چھوڑی جا سکتی‘‘۔
عقیل نے اس کالم نگار کا مضمون '' میری وفات‘‘ بھی کتاب میں شامل کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ہمارے ادب میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ ادبی حوالے سے قطع نظر‘ اس کتاب کی ایک اخلاقی حیثیت بھی ہے۔ بقول میر درد ؎
وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, January 10, 2022

حکومتیں کاروبار کر سکتیں تو ………



یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے۔ کچھ مہمان ایبٹ آباد سے آرہے تھے۔ آمد میں تاخیر ہوئی تو فون کر کے پوچھا کہ کہاں پہنچے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی صدر میں ہیں۔ پوچھا کہ سری نگر ہائی وے سے کیوں نہیں آرہے؟ یہ سری نگر ہائی وے وہی ہے جو پہلے کشمیر ہائی وے کہلاتی تھی۔ موجودہ حکومت مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں آئینی طور پر ضم ہونے سے تو نہ روک سکی، ہاں وہاں کے لوگوں پر احسان کرتے ہوئے اس شاہراہ کا نام سری نگر ہائی وے رکھ دیا۔ بہرطور، مہمانوں نے بتایا کہ سری نگر ہائی وے بند ہے کیونکہ ایک یونیورسٹی کے طلبہ آپس میں برسر پیکار ہیں اور علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
میڈیا نے اس جنگ کی جو تفصیل بتائی اس کے مطابق یہ لڑائی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ کے دو گروہوں میں ہوئی جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ یونیورسٹی کے ریکٹر نے اس لڑائی کی وجہ ایک اور لڑائی کو قرار دیا۔ یہ ''ایک اور‘‘ لڑائی قائد اعظم یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے قائد اعظم یونیورسٹی کا سربراہ اپنے ہاں ہونے والی لڑائی کو پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والی ''ایک اور‘‘ لڑائی کا نتیجہ قرار دیتا! اس سے اُس اعرابی کا قصہ یاد آرہا ہے جسے حجاج بن یوسف نے ایک دور دراز علاقے کا والی بنا دیا۔ ایک عرصہ بعد اس کے آبائی شہر سے ایک شخص آیا اور اس کا مہمان بنا۔ بھوک کی وجہ سے ساری توجہ مہمان کی کھانے پر تھی۔ والی نے اپنے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا: سب خیریت ہے‘ بس ذرا تمہارے کتے کی موت واقع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد جو مکالمہ ہوا وہ اس طرح تھا:
''اسے کیا ہوا تھا؟‘‘
''تمہارے اونٹ کی ہڈی اس کے گلے میں پھنس گئی تھی‘‘
''تو کیا میرا اونٹ بھی مر گیا؟‘‘
''ہاں!‘‘
''مگر کیسے؟‘‘
''تمہاری بیوی کی قبر پر پانی ڈھوتے ڈھوتے، ضعف اور تھکاوٹ سے چل بسا‘‘
''آہ! میری بیوی بھی نہ رہی! وہ کیسے مری؟‘‘
''وہ تمہارے بیٹے کی موت کا صدمہ نہ برداشت کر سکی‘‘
''تو کیا بیٹا بھی نہ رہا‘ اسے کیا ہوا تھا؟‘‘
''مکان کی چھت کے نیچے آ گیا تھا‘‘
''کیا میرا مکان بھی گر گیا؟‘‘
''ہاں!‘‘
ایک سرکاری یونیورسٹی میں ہنگامہ ہوتا ہے۔ طلبہ زخمی ہوتے ہیں۔ ایک دو مار ے جاتے ہیں۔ پھر، گزشتہ سے پیوستہ، یہ فساد دوسری یونیورسٹی میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پھر تیسری میں! یہ طے ہے کہ سرکار سے یونیورسٹیاں نہیں چل پا رہیں! نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ اور انتظامیہ بھی مختلف دھڑوں سے وابستہ ہیں۔ کسی استاد کو برطرف کیا جا سکتا ہے نہ کسی طالبعلم سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ دوسرے شعبوں میں بھی حکومتیں بری طرح ناکام ہیں! سٹیل ملز کو کوئی حکومت حالتِ نزع سے نہیں نکال سکی۔ قومی ایئرلائن شرمندگی کا دوسرا نام ہو کر رہ گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی ایئرلائنوں سے تو کیا مقابلہ ہوگا، ایئر انڈیا کے سامنے بھی کوئی حیثیت نہیں۔ ریلوے بھی سرکار سے نہیں چل پا رہی۔ پاکستان ریلوے کی جو حالت ہے، بچے بچے پر عیاں ہے۔
تو پھر کیا کیا جائے؟ چیست یارانِ طریقت! بعد ازین تدبیرِ ما۔
ان سب سفید ہاتھیوں کا ایک ہی علاج ہے:
وہی دیرینہ بیماری، وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
ساری دنیا میں ایسے نیم مردہ ادارے نجی شعبے کو فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ ہماری حکومتوں سے الیکشن نہیں ہوتے، اسمبلیاں نہیں چلتیں، پولیس کنیز بنی، دوپٹہ ڈھونڈتی پھرتی ہے، ان سے ایئرلائنیں اور یونیورسٹیاں کیا خاک چلیں گی! کسی نجی یونیورسٹی میں کسی مذہبی، مسلکی، لسانی یا علاقائی بنیاد پر طلبہ کی کسی تنظیم کا کوئی وجود نہیں! قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے حال ہی میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بارے میں جو رپورٹ پبلک کی اور ریکٹر پر جو الزامات لگائے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے، کسی نجی یونیورسٹی کے بارے میں ایسی رپورٹ ہوتی تو کیا وہاں بھی رپورٹ کا نتیجہ ایسی بے حسی کی صورت میں سامنے آتا؟ کیا ریکٹر صاحب کی کرسی اس کے بعد بھی بچ جاتی؟ غضب خدا کا! سرکاری یونیورسٹیاں مذہبی لسانی اور علاقائی جماعتوں کی بی ٹیمیں بن کر رہ گئی ہیں! پیسہ سرکار کا اور مفادات پارٹیوں کے! ایئر لائن یونینوں کے ہاتھ میں یر غمال بنی ہوئی ہے۔ ریلوے کو نوچا جا رہا ہے۔ لوہے سے لے کر زمینوں تک سب کچھ لوٹ لیا گیا۔ اب ریلوے اس بے بس نانی کی طرح ہے جس کی مورنی کو مور لے گئے اور جو باقی بچا اسے کالے چور لے گئے۔ یہ بیمار ادارے نجی شعبے کو سونپیے، سیٹھ ایک ایک ہڈ حرام کو نکال باہر کرے گا! ایک ایک پیسے کا حساب لے گا‘ اور یہ جو ریٹائرڈ ریلوے ملازمین اور ان کے خاندان، مفت سفر کے ذریعے، آخری سانسوں تک ادارے کو نچوڑتے ہیں، اس غارت گری کو نجی مالک ہی ختم کر سکے گا۔ قومی ایئر لائن بھی مفت کا دسترخوان ہے۔ جہازوں کی تعداد شرمناک حد تک سکڑ کر دو تین درجن رہ گئی ہے مگر ملازمین اور ان کے خاندانوں کے مفت سفر جاری ہیں!

سفید ہاتھیوں کا ایک اور قبیلہ بھی دندناتا پھر رہا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جولائی 2016 میں سپریم کورٹ نے لاہور کے ترقیاتی ادارے کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دیا تھا۔ اس موقع پر اس خاکسار نے اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کے ذمہ داروں کو غیرت دلائی تھی کہ ہتک عزت کا دعویٰ کریں اور فریاد کریں کہ اس اعزاز کے سزاوار تو وہ خود ہیں۔ یہ جو کرپشن، نااہلی اور یونین بازی کے مراکز ان ترقیاتی اداروں کے نام پر چل رہے ہیں، یہ کب تک ریاست کا خون چوستے رہیں گے؟ اور کب تک عوام کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے؟ وفاقی دارالحکومت کی مصروف ترین شاہراہ، ایکسپریس ہائی وے، بدانتظامی اور نااہلی کا بدترین نمونہ ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا سی ڈی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے سربراہان نے اس کا کبھی معائنہ کیا ہے؟ کبھی اس پر سفر کیا ہے؟ کیا ہوتا تو شاہراہ کی سب لینوں (Lanes) پر ٹرکوں کا قبضہ نہ ہوتا‘ اور عوام سسک نہ رہے ہوتے۔ جس پل کی توسیع گزشتہ دسمبر تک مکمل ہو جانی تھی، اس کی تکمیل کے آثار اب بھی دور دور تک نہیں نظر آرہے! وجہ صرف یہ ہے کہ ان اداروں کے سربراہ عوام کو جواب دہ نہیں اور اپنے آپ کو لارڈ کرزن کی معنوی ذریت سمجھتے ہیں! یہ کسی شریف شہری کا فون تک سننے کے روادار نہیں! کوئی ہے جو حکومت کو سمجھائے کہ کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کے ان نام نہاد ترقیاتی اداروں کو بیچ دے۔ یقین کیجیے ان اداروں کے سرکاری سربراہوں کو نجی شعبہ ایک دن بھی نہ برداشت کرے۔ ان کا تو ذاتی سٹاف چھ چھ آٹھ آٹھ افراد پر مشتمل ہے۔ آپ پانی کی تقسیم، کوڑے کرکٹ کا اتلاف، شاہراہوں کی تعمیرومرمت، مکانوں پر عائد ٹیکس کی وصولیابی اور اس قبیل کے دوسرے کام نجی شعبے کو سونپیے اور نتیجہ دیکھیے۔ نجی شعبہ اور نیم سرکاری نجی شعبہ، اس وقت بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہم سب کے سامنے چلا رہا ہے! یہ سوسائٹیاں کیا ہیں! بڑے بڑے شہر ہیں! یہاں کے مکین، بزنس کمیونٹی سب آرام سے رہ رہے ہیں! اس لیے کہ یہ شہر افسر شاہی کے چنگل سے دور ہیں!
حکومتیں کاروبار کر سکتیں تو سوویت یونین دردناک موت نہ مرتا!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, January 06, 2022

مرا ہاتھ دیکھ برہمنا!



پہلی بات تو یہ ہے اگر نئے سال میں سب کچھ بدل جاتا ہے تو دنیا میں کئی نئے سال شروع ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے شروع ہونے کی تاریخ مختلف ہے۔ پنجابی سال وساکھ سے شروع ہوتا ہے۔ قمری سال محرم سے آغاز ہوتا ہے۔ ایرانی سال کی ابتدا فروردین سے ہوتی ہے۔ ہمارا مالی سال جولائی سے جون تک ہے۔ اسی طرح دنیا میں رائج کئی کیلنڈر اور بھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھے دن سال میں کئی بار، کسی بھی ماہ شروع ہو سکتے ہیں۔
یہ جو ہم امیدیں لگا بیٹھتے ہیں کہ نئے سال کا سورج مسرتیں لائے گا تو یہ ایک عجیب سا غیر منطقی عمل ہے۔ آخر راتوں رات اتنی بڑی تبدیلی کیسے رونما ہو سکتی ہے؟ کون سا ایسا سم سم نئے سال میں کھل جائے گا جو جانے والے سال کے دوران بند تھا؟ ہم، بطور قوم ایسے نہیں ہیں جو راتوں رات سدھر جائیں۔ ارے بھائی! ہم تو صدیوں کا معاملہ ہیں! کیا نئے سال میں ہمارے صوبے کے وزیر اعلیٰ اس منصب کے اہل ہو جائیں گے؟ تحریک انصاف کی حکومت جو سالہا سال آزمائے ہوئے پرانے، زنگ آلود، چہرے لے کر آئی ہے، کیا نئے سال میں ہمیں اُن چہروں سے نجات مل جائے گی؟ ایک اتھارٹی کا سربراہ لگانے میں جو چھ سو درخواست دہندگان اور اٹھارہ شارٹ لسٹڈ امیدواروں کے ساتھ ظلم کیا گیا، کیا نئے سال میں اس ظلم کو کالعدم کر دیا جائے گا؟ بیوروکریسی میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ ختم ہو جائے گا؟ اچھی پوسٹ خالی دیکھ کر پسندیدہ افسر کو ایک سال پہلے ریٹائر کیا جاتا ہے پھر اسے اُس خالی پوسٹ پر فٹ کیا جاتا ہے۔ کیا نئے سال میں اس انصاف کا ازالہ کر دیا جائے گا؟ کیا نئے سال کے دوران ہمارے اپنے سٹیٹ بینک کے اوپر ہمارا اپنا بندہ لگ جائے گا؟ کیا نئے سال میں بجلی کے ہر بل میں اُس پی ٹی وی کے نام پر جگا ٹیکس لینا چھوڑ دیا جائے گا جس کی ہم خبریں سنتے ہیں نہ پروگرام دیکھتے ہیں؟ کیا نئے سال میں ہم پر لگائے جانے والے بے تحاشا ٹیکسوں کے فیصلے ہمارے ملک کے اندر ہونے لگیں گے؟ کیا نئے سال میں ہمارے حکمران، پڑوسی ملکوں کے غم میں گُھلنا چھوڑ کر اپنے لوگوں کی فکر کرنے لگیں گے؟ کیا نئے سال میں یونیورسٹیاں طلبہ کے قبضہ گروپوں سے آزاد ہو جائیں گی اور وائس چانسلروں کے دفتروں کی توڑ پھوڑ کا سلسلہ بند ہو جائے گا؟ کیا سرکاری سکولوں کو نئے سال میں چھتیں، در و دیوار، فرنیچر، اساتذہ اور صاف پانی مہیا کر دیا جائے گا؟ کیا نئے سال میں ہمارے عوام کا مائنڈ سیٹ بدل جائے گا اور سیالکوٹ جیسے سانحے ہونے کا اندیشہ ختم ہو جائے گا؟ اگر یہ سب کچھ، اور بہت کچھ اور بھی، اسی طرح ہوتا رہے گا تو پھر کون سا نیا سال اور کیسی امیدیں؟ نئے سال کے آنے سے فرق صرف یہ پڑتا ہے کہ دسمبر کے بعد جنوری آ جاتا ہے، دن زیادہ لمبے اور راتیں زیادہ چھوٹی ہونے لگتی ہیں! باقی سب کچھ وہی رہتا ہے! ایک دوسرے کو نیا سال مبارک اور ہیپی نیو ایئر کہنے کے بعد ہم سب اپنے اپنے غموں کی طرف لَوٹ آتے ہیں۔ وہی بے روزگاری !وہی گرانی! وہی ٹریفک کی قتل گاہ! وہی وحشی ٹرالیاں! وہی اندھے ڈمپر! وہی کنکشن کے لیے گیس کے دفتر کے چکر! وہی بجلی کے بل کا ہَول! وہی ایف آئی آر نہ کاٹنے کے بہانے! سڑکوں کے وہی گڑھے! وہی دھول اڑاتے کچے راستے! وہی ڈسپنسریوں کو ترستے گاؤں! وہی متمول خاندانوں کی حکمرانی! وہی پلوٹوکریسی! وہی سرداری نظام! جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کا وہی جاگیردارانہ سلسلہ! وہی حویلیوں میں کام کرتی، ہاریوں کی غیر محفوظ بہو بیٹیاں، بیویاں! وہی وڈیرے! وہی پاؤں دباتے مصلّی! وہی تھانے! وہی کچہریاں! وہی مزاروں کی مٹی پھانکتی عورتیں! ان میں سے کیا ہے جو نئے سال کے دوران نہیں ہو گا؟
ہاں! جانے والے سال میں جن کے مزے تھے، نئے سال میں بھی ان کے مزے جاری رہیں گے! ان کے لیے ہر سال خوشی کا سال ہوتا ہے۔ وہ اس سال بھی لندن کے عیش و عشرت میں زندگی کا لطف اٹھائیں گے۔ دبئی کی مال دار فضاؤں میں سانس لیں گے! اس سال بھی گھروں میں ہر شام روکڑا بھری تھیلیاں پہنچیں گی! کرنسی نوٹ گننے والی مشینیں اس سال بھی اُن گھروں میں چلتی رہیں گی جہاں پچھلے سال چلتی رہی تھیں! کوئی تغیر آئے گا نہ کوئی تبدیلی رونما ہو گی! بندہ کوچہ گرد ہی رہے گا! خواجہ بلند بام ہی ہو گا۔ فقیر حال مست رہیں گے! امیر مال مست رہیں گے! جو بَیل سینگوں کے بغیر بھی بیل ہی رہتے ہیں، وہ نئے سال کے دوران بھی بیل ہی رہیں گے! ان کے انسان بننے کا امکان اس سال بھی صفر رہے گا!
ہم وہ لوگ ہیں جن کی قسمت کوئی زائچہ، کوئی ستارہ، کوئی پامسٹری، کوئی پیش گوئی، کوئی نقش کوئی تعویذ نہیں بدل سکتا! کوئی فاختہ ہمارے شیشم پر نہیں بیٹھے گی! کوئی چشمہ ہماری پیاس نہیں بجھائے گا! شہد کا کوئی چھتہ ہماری پُھلاہی پر نہیں لگے گا! ہمارے سبزہ زار تتلیوں سے محروم رہیں گے! جگنو ہمارے باغیچوں سے کترا کر اڑیں گے۔ ہماری جھیلوں پر کُونجیں نہیں اتریں گی! ہمارے تلور ہمیشہ بدیسی شکاریوں کے نشانوں پر رہیں گے! ہمارے بھکاری گاڑیوں کے شیشے اور ہمارے کشکول بدست حکمران دوسرے ملکوں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہیں گے! ہماری وزارتوں کے کچھ فلور عالمی اداروں کے لیے مخصوص رہیں گے! آزادی سے پہلے ہمارے وائسرائے وہ ہوتے تھے جو برطانیہ کی کریم شمار ہوتے تھے۔ اب عالمی اداروں کی نچلی سطح کے اہلکار ہمارے وائسرائے ہیں! یہ نچلی سطح کے غیر ملکی اہلکار ہمارے بجٹ کو منظور یا نامنظور کرتے رہیں گے! نیا سال بھی ہمیں آئی ایم ایف کا دست نگر ہی دیکھے گا!
نیا سال بالکل ایسا ہی ہو گا جیسا پرانا سال تھا! زرداری خاندان، شریف خاندان، چوہدری خاندان، مولانا خاندان ہی سیاسی جماعتوں کے مالک و مختار ہوں گے۔ حکمران پارٹی سے لے کر اپوزیشن جماعتوں تک کسی پارٹی کی قیادت نہیں بدلے گی! آسمان سے پتھر گر سکتے ہیں! زمین دھنس سکتی ہے! مرغی بچے اور بلی انڈے دے سکتی ہے! سب کچھ ہو سکتا ہے مگر ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادتیں نہیں بدل سکتیں! کہیں نصف صدی سے ایک خاندان تو کہیں ربع صدی سے ایک فرد پارٹی پر مسلط ہے! نئے سال میں، اور اس کے بعد والے سال میں بھی منظر نامہ ایسا ہی رہے گا! ہمیں پیش گوئی کرنے والے بزرگوں کی کیا ضرورت ہے! ہمارے عام آدمی کو بھی معلوم ہے کہ ہمارا نیا سال ایسا رہے گا جیسا پرانا سال تھا! ہم تو سب پہنچے ہوئے ہیں! ہم بے وفا نہیں کہ حال یا مستقبل بدل لیں! ہمارا حال ہمارے ماضی کی طرح ہے اور ہمارا مستقبل ہمارے حال جیسا ہو گا! غالب کو ایک برہمن ملا تھا جس نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہو گا! بس وہ برہمن ہم سے ناراض ہے! ہم لاکھ کہیں :
مرا ہاتھ دیکھ برہمنا مرا یار مجھ سے ملے گا کب
ترے منہ سے نکلے خدا کرے اسی سال میں اسی ماہ میں
مگر برہمن کے منہ سے کچھ نہیں نکلے گا! ہمارا ہاتھ دیکھ کر جو کچھ اسے نظر آ رہا ہے وہ بتانے کے لیے اسے ہمت نہیں ہو رہی! اور جو کچھ ہم سننا چاہتے ہیں وہ اسے دکھائی نہیں دے رہا!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, January 03, 2022

ایک سو بتیس برسوں پر پھیلی ہوئی کہانی



جہلم کا دریا پار کیا تو سامنے سرائے عالمگیر کا قصبہ تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں کھاریاں آگیا۔ یہاں سے ہم دائیں طرف مُڑ گئے۔ یہ وہ سڑک ہے جو ڈنگہ کو جاتی ہے۔ معروف مورخ ڈاکٹر صفدر محمود، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، اصلاً ڈنگہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر ہماری منزل ڈنگہ نہیں تھا۔ ہم نے ڈنگہ سے پہلے ایک گاؤں میں جانا تھا۔ پرانے دوست منظور صاحب ساتھ تھے۔ منظور صاحب دینہ کے ہیں۔ وہ ہماری رہبری کر رہے تھے۔ میجر طارق جاوید ملک بھی ہمراہ تھے۔ ہم کھاریاں ڈنگہ روڈ پر واقع اس بستی میں کیوں جا رہے تھے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایک سو بتیس سال پیچھے جانا پڑے گا۔
یہ 1890 کا زمانہ تھا جب اکیس سالہ فتح دین ایک بحری جہاز سے اترا۔ سامنے پرتھ تھا۔ جنوب مغربی آسٹریلیا کا سب سے بڑا شہر! تب برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جنوبی افریقہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک اور آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک ملکہ کی حکمرانی تھی۔ سونے کی چڑیا، ہندوستان پر بھی انہی کا قبضہ تھا۔ آج کا ملائیشیا بھی انہی کے پاس تھا۔ ہانگ کانگ، زنجیبار اور مالٹا پر بھی انہی کا اختیار تھا۔ اس وسیع و عریض انگریزی سلطنت کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہندوستانی کہیں بھی جا سکتے تھے۔ زیادہ رجحان ہندوستانیوں کا جنوبی افریقہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرف تھا۔ آسٹریلیا کے ہولناک صحرا میں ریلوے لائن اور ٹیلیگراف لائن بچھانے کے لیے انگریز سرکار ہندوستان سے دو ہزار اونٹ اور اتنے ہی شتر بان لے گئی تھی۔ یہ شتربان کچھ افغان تھے اور باقی ان علاقوں سے تھے جو آج کے پاکستان میں شامل ہیں‘ مگر سب کو افغان ہی کہا جاتا تھا۔ آج بھی آسٹریلیا کے شمالی کنارے سے جنوبی ساحل تک چلنے والی ٹرین ''غان ایکسپریس‘‘ کہلاتی ہے۔ غان افغان کا مخفف ہے۔ بہت سے ہندوستانی پھیری کا کام بھی کرتے تھے۔ آبادیاں دور دور تھیں۔ پھیری والے، دکانوں سے اشیائے ضرورت خریدتے تھے اور بستی بستی، قریہ قریہ بیچتے تھے۔ اکثر ہندوستانی کچھ عرصہ رہ کر واپس چلے جاتے۔ کچھ آتے جاتے رہتے۔ کچھ نئے وطن ہی میں رہ جاتے۔ آسٹریلیا کے قومی آرکائیوز بتاتے ہیں کہ پہلے بیس برسوں کے دوران فتح دین چار بار ہندوستان واپس گیا اور اتنی ہی بار پھر آسٹریلیا آیا۔
1905 میں جب ایک بار پھر وہ آسٹریلیا کے ساحل پر اترا تو وہ اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ اس کی پندرہ سالہ بیوی فاطمہ بھی تھی۔ آسٹریلیا کے قوانین سخت تھے۔ صرف ایک سال میں تینتیس ہندوستانیوں کو دوبارہ آنے دے روک دیا گیا تھا۔ ہندوستان کے انگریز حکمرانوں نے اس پر اعتراض بھی کیا۔ ان کے نزدیک ہندوستانیوں کا آسٹریلیا آنا جانا اور بیویوں کو لانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ دونوں ملک ملکہ کے تھے مگر آسٹریلیا کے حکام ان سے اتفاق نہ کرتے۔ فتح دین ایک ہوشیار آدمی تھا۔ ضرورت پڑنے پر قوانین کو جُل بھی دے دیتا۔ مقامی لوگوں کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے تھے۔ دوست مشکل وقت میں اس کے کام آتے۔ اسی لیے فتح دین بار بار آنے جانے اور آخرکار بیوی کو لانے میں کامیاب رہا۔ وہ وکیل بھی اچھے اور مشہور کرتا۔ سفید فام وزارت داخلہ کے لیے فتح دین ایک اور دھماکہ بھی کرنے والا تھا۔ ساحل پر اترنے کے چھ ماہ بعد فاطمہ بی بی نے ایک ہندوستانی بچے کو جنم دیا۔ اس کا نام عبدالمجید محمد عیسیٰ رکھا گیا۔ فاطمہ کا کوئی اپنا یہاں نہ تھا مگر فتح دین کے دوستوں کے کنبے فیاض تھے۔ انہوں نے ہر طرح کی مدد کی۔ اٹھارہ ماہ بعد دوسرا بچہ پیدا ہوا۔ یہ عبدالاحمد محمد موسیٰ تھا۔ ہندوستان جانے کی صورت میں دونوں بچے آسٹریلیا واپس آسکتے تھے کیونکہ ان کی پیدائش یہاں کی تھی۔ بڑا بچہ تین سال کا ہوا تو فاطمہ بی بی وطن واپس چلی گئی۔ وہ آسٹریلیا کبھی نہ لوٹی۔ دونوں بیٹوں کو ماں کے پاس چھوڑ کر فتح دین ایک بار پھر بحری جہاز پر سوار ہوا اور آسٹریلیا واپس پہنچ گیا۔
اگلے دس سال میں فتح دین نے اپنی پوزیشن خاصی مستحکم کر لی۔ وہ ایک مستقبل بین شخص تھا۔ انگریزی لباس پہنتا۔ پگڑی اور داڑھی سے احتراز کرتا۔ سرکار سے کام پڑتا تو وکیل کی خدمات حاصل کرتا۔ یوں اس نے اپنے آپ کو ہندوستانی شتربانوں اور پھیری والوں سے الگ، ایک جنٹلمین کے طور پر رکھا اور نسبتاً اونچے طبقے میں شمار ہونے لگا۔ جلد ہی اس نے اپنا بزنس بھی کھڑا کر لیا۔ ایک ''نائٹ واچ کمپنی‘‘ قائم کی۔ اس کے ماتحت چوکیدار پیدل یا سائیکلوں پر سر شام نکلتے، دکانوں میں چراغ جلاتے بجھاتے اور چوروں سے خبردار کرتے۔ یہ ہندوستانی دیہات کا چوکیدارہ نظام تھا جو فتح دین نے آسٹریلیا میں چلا ڈالا۔ وہ اپنے نام کے ساتھ مرزا لکھنے کا اہتمام کرتا۔ مغل تھا اور اس کے ذہن کے ایک گوشے میں یہ احساس ضرور موجود تھا کہ مغلوں کی ہندوستان میں فرماں روائی رہی ہے۔
تیرہ نومبر 1905 کو پرتھ کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہ زبردست حسن اتفاق تھا کہ فتح دین کے بڑے بیٹے عبدالمجید کی تاریخ پیدائش بھی یہی تھی۔ مسجد کی تعمیر کے لیے مالی امداد دینے والوں کے نام جس رجسٹر میں لکھے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح دین نے چھ پونڈ دیے۔ پانچ اپنے اور ایک پونڈ اپنے بیٹے عبدالمجید کے نام سے۔ دس سال میں اتنی رقم جمع ہوئی کہ مسجد مکمل ہو سکی۔ رجسٹر سے پتہ چلتا ہے کہ افغان، پنجابی، سندھی، بنگالی، سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ ایک دو ہندوستانی غیر مسلموں نے بھی فیاضی دکھائی۔ افغان اور ہندوستانی مسلمان جو ایک دوسرے سے جھگڑتے رہتے تھے، مسجد کے معاملے میں یکجان ہو گئے۔ آج پرتھ میں بیس کے قریب مسجدیں اور نماز ادا کرنے کے مقامات ہیں مگر پہلی مسجد یہی تھی جس کی بنا ایک سو سترہ سال پہلے رکھی گئی۔ اس کالم نگار کو اس مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کا مبارک موقع ملا۔ یہ ایک دلکش اور وسیع عمارت ہے۔ بیرونی طرف ایک خوبصورت آنگن (Patio) ہے جہاں ایک بڑا سا درخت کھڑا ہے۔ ایک لمحے کے لیے وہاں مسجد قرطبہ یاد آ گئی جس کے بیرونی اطراف میں ایسے ہی باغ نما آنگن ہیں۔
فاطمہ بی بی اس سارے عرصہ کے دوران ہندوستان ہی میں رہی۔ دونوں بیٹے اس کے پاس تھے۔ 1925 میں بڑا بیٹا عبدالمجید بیس سال کا ہوا تو آسٹریلیا واپس آیا۔ پرتھ پہنچا تو امیگریشن والوں نے اس بات کا ثبوت مانگا کہ یہ وہی بچہ ہے جو بیس سال پہلے پرتھ میں پیدا ہوا تھا۔ یہ ایک جائز سوال تھا اور اس کا جواب مشکل تھا۔ یہاں فتح دین کی کامیاب سوشل لائف کام آئی۔ دو سفید فام عورتوں نے گواہی دی کہ یہ وہی بچہ ہے۔ یہ دونوں پرتھ میں ایک چائے خانہ چلا رہی تھیں۔ ان سے دلیل مانگی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ فتح دین ان کے پاس اٹھتا بیٹھتا ہے اور جب بھی اس کے بیٹے کی تازہ تصویر ہندوستان سے آتی تو وہ انہیں ضرور دکھاتا۔ یوں تصویری لحاظ سے عبدالمجید ان کے سامنے ہی بڑا ہوا ہے۔ یہ گواہی مان لی گئی اور یوں سترہ سال ہندوستان میں گزارنے کے بعد یہ لڑکا ایک بار پھر پرتھ میں آموجود ہوا۔ پرتھ ہی اس کی جنم بھومی تھی۔ اس کی والدہ فاطمہ بی بی، جو آسٹریلیا کبھی واپس نہ آئی، کینسر میں مبتلا ہو کر اپنے گاؤں میں وفات پا گئی۔ فاطمہ کے دوسرے بیٹے کا بھی، جو پرتھ میں پیدا ہوا تھا، گاؤں ہی میں انتقال ہوا۔ تیسرا بیٹا انور تھا۔ بڑا بھائی عبدالمجید آسٹریلیا سے اس کی دیکھ بھال کرتا رہا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ ہم آپ کی خدمت میں کل عرض کریں گے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا
 

powered by worldwanders.com