Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 27, 2010

کون ہے یہ گستاخ ٫ تاخ تراخ

برطانیہ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی سربراہ سعیدہ وارثی پاکستان تشریف لائیں تو بہت سی نئی باتوں کا علم ہوا۔ مثلا یہ کہ ہمارے ہاں شہریوں کو حقوق دینے کا ایک خاص طریق کار ہے اور حکومت اس طریق کار کی پابند ہے۔ وفاقی وزیر نے سعیدہ وارثی کی آمد کے موقع پر انکے گائوں کیلئے گیس کی فراہمی کا اعلان کیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگر کسی گائوں کو گیس چاہیے تو لازم ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والی کوئی شخصیت کسی مغربی ملک میں کسی سیاسی جماعت کی سربراہ ہو اور پھر وہاں سے آ کر اپنے گائوں میں اجتماع سے خطاب کرے۔ یہ حکومت کا طریق کار ہے۔ چنانچہ جس جس گائوں کو گیس درکار ہے، وہ یہ طریق کار اپنائے۔

کسی اور کو اس سے تسکین خاطر حاصل ہوئی ہے یا نہیں، مجھے بہرحال اطمینان قلب نصیب ہوا ہے۔ وہ یوں کہ اس کالم نگار کے گائوں کیلئے ڈسپنسری منظور کی جا چکی ہے۔ ضلع کے موجودہ حاکم نے دو ملین روپے کا بجٹ بھی حکومت پنجاب سے مانگا ہے۔ گائوں کے لوگوں نے چیف منسٹر اور چیف سیکرٹری کو اپیلیں بھی کی ہیں۔ اخبارات میں بھی آہ وزاری کی ہے لیکن تاحال شنوائی نہیں ہوئی۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف اس کالم نگار سے ناراض ہوں اور بدلہ پورے گائوں سے لے رہے ہوں، غلطی یہ ہوئی ہے کہ گائوں والے درست طریق کار نہیں اپنا رہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنے گائوں کی کسی خاتون کو کسی مغربی ملک کی سیاسی جماعت کا سربراہ بنوائیں، اسے بلا کر جلسہ کرائیں اور پھر دیکھیں کہ پنجاب حکومت اپنا فرض منصبی سرانجام دیتی ہے یا نہیں!

دوسرا اصول جو واضح ہوا ہے یہ ہے کہ اگر کوئی بات سعیدہ وارثی جیسی شخصیت کہے تو وہ قابل قبول ہوتی ہے لیکن اگر وہی بات کوئی کالم نگار کہے تو ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ سعیدہ وارثی نے کہا ہے اور برملا کہا ہے کہ اسلام کے اصولوں پر پاکستان میں عمل نہیں ہو رہا لیکن برطانیہ میں ہو رہا ہے۔ وہاں عورت کی عزت محفوظ ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ آپ دیکھیے کہ یہ کہنے کے باوجود سعیدہ وارثی کو کچھ نہیں کہا گیا لیکن یہ سب جملہ معترضہ کے طور پر عرض کیا گیا ہے۔ اصل موضوع اس کالم کا جاوید ہاشمی کی مذمت ہے۔ جاوید ہاشمی اپنے آپ کو کسی اور جہان کی مخلوق سمجھتا ہے اور مجھے یہ نام نہاد انفرادیت ہر گز پسند نہیں۔ ایک متوازن شخص کو وہی کچھ کرنا چاہیے جو سب کر رہے ہیں۔ آخر سکہ رائج الوقت کیوں قابل قبول ہوتا ہے اور اصحاب کہف جب غار سے نکل کر بازار میں جاتے ہیں تو انکا سکہ کیوں رد کر دیا جاتا ہے؟ ہو سکتا ہے آپ دور کی کوڑی لائیں اور یہ کہیں کہ اصحاب کہف کے ہمراہ تو کتا بھی تھا اور جاوید ہاشمی کے ساتھ کوئی کتا نہیں کیونکہ سارے کتے ادھر ادھر مصروف ہیں تو یہ ایک ایسی دور کی کوڑی ہے جسکے میں نزدیک نہیں جا سکتا!

جاوید ہاشمی کا کوئی ایک قصور ہو تو میں بیان کروں۔ پہلے اس نے یہ کیا کہ اسمبلی میں حق بات کہہ دی۔ جنرل مشرف کا زمانہ تھا، اس زمانے میں مجید امجد کی نظم’’سعادت حسن منٹو‘‘ کی آخری دوسطریں بہت مقبول تھیں…ع

کون ہے یہ گستاخ؟ … تاخ تڑاخ

چنانچہ جاوید ہاشمی کے ساتھ تاخ تڑاخ ہوا اور وہ کئی سال قید میں رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نون لیگ کے مالکان سعودی عرب میں تھے اور پس ماندگان قاف لیگ میں۔ جیل میں وہ فروخت ہوا نہ جھکا، اور جو لکڑی فروختنی نہ ہو وہ سوختنی ہوتی ہے چنانچہ وہ جلتا رہا سلگتا رہا لیکن راکھ نہ ہوا۔ جیل سے نکلا تو اس نے جنرل مشرف کے دست راست اور یارِ وفادار شیخ رشید احمد کو راولپنڈی سے فارغ کیا اور دونوں نشستیں نون لیگ کے تھیلے میں ڈال کر خود دامن بھی جھاڑ دیا اور ہاتھ بھی۔ اب چُوری تیار تھی چنانچہ مجنوں آموجود ہوئے۔ جاوید ہاشمی نے گُدڑی کاندھے پر ڈالی اور ایک طرف ہوگیا۔ لیکن اس شخص کی غرابت نے اسے چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ جو قومی اسمبلی میں سب نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر الیکشن کرانے والی شق ختم کر دو، تو اس نے بآواز بلند کہا کہ نہیں، سیاسی جماعتوں کے اندر الیکشن ہونے چاہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسے پھر قید کر دیا جاتا لیکن …ع

اے بسا آرزوکہ خاک شدہ

چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ اس نے ایک اور حرکت کی۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ پیدا ہی اداروں کی بالادستی کیلئے ہوا ہے اور یہ کہ اس کی جدوجہد کا اگلا مرحلہ سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت لانا ہے۔ گویا یہ کہنا جنگل میں آگ لگانے کیلئے کافی نہ تھا۔ اس نے ایک اور ظلم کیا اس نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں میڈیا کیخلاف لائی گئی قرارداد کو شہباز شریف کی حمایت حاصل تھی اور قرار داد کی منظوری کے وقت وزیراعلیٰ اسمبلی میں بنفس نفیس موجود تھے۔ چلیئے یہ گستاخی بھی معاف ہو جاتی لیکن یہ عجیب و غریب شخص اپنے آپ کو معاف نہ کروانے پر تلا ہوا ہے۔ اس نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ زرداری گیلانی اور شریف برادران ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔ اب نکتہ یہ ہے کہ شریف برادران اس جماعت کے مالکان ہیں جس کا ایک رکن جاوید ہاشمی بھی ہے۔ یہاں ایک بار پھر مجید امجد کی وہ نظم بروئے کار آنا چاہیے تھی جو سعادت حسن منٹو پر ہے اور جس کی آخری سطریں ہیں کون ہے یہ گستاخ…؟ تاخ تڑاخ۔ لیکن شاید کارکنان فضاو قدر اس قدر باذوق نہ تھے کہ مجید امجد کی شاعری تک ان کی رسائی ہوتی!

جاوید ہاشمی میں ایک مافوق الفطرت وصف ہے جو مجھے بالکل پسند نہیں۔ اسے موسم گرما کی شدت میں بھی گرمی نہیں لگتی اور یوں لگتا ہے کہ ہ گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر انگیٹھی کے پاس بیٹھا رہتا ہے۔ دوسرے سیاستدان گوشت پوست سے بنے ہوئے ہیں۔ انہیں گرمی تنگ کرتی ہے تو وہ بیچارے ٹھنڈے ملکوں میںچلے جاتے ہیں۔ جب میڈیا کیخلاف قرار داد منظور ہوئی تو نواز شریف لندن میں تھے ۔ وہیں انہوں نے مستی خیل صاحب کو پارٹی سے نکالنے کا حکم دیا جس پر پورا پورا عمل ہوا۔ میاں صاحب کے لندن پہنچنے سے تین ہفتے قبل جناب حمزہ شہباز شریف بھی لندن پہنچ چکے تھے۔ ایم کیو ایم کے جناب فاروق ستار بھی اسی دیار سرد میں تھے۔ غریبوں کے نئے ہمدرد جناب عمران خان بھی ایک مشہور تفریحی مقام سکاٹش ہائٹس میں اپنے صاحبزادوں کے ہمراہ وقت گزار رہے تھے۔ ویسے کچھ لوگوں کا حسن ظن یہ ہے کہ اگر آپ کا گھر تین سو کنال پر مشتمل ہو اور اسلام آباد کے نواح میں ہو تو گرمی نہیں لگنی چاہیے لیکن تین سو کنال کا گھر بہر طور سکاٹ لینڈ کے دلفزا پہاڑ کا مقابلہ تو نہیں کر سکتا، اب حسن اتفاق دیکھیے کہ برمنگھم میں بھی گرمی نہیں پریشان کرتی حالانکہ مولانا فضل الرحمن جب برمنگھم تشریف لے گئے تو انکے پیش نظر صرف علماء کرام کے اجتماع سے خطاب کرنا تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما تو خیر لندن میں موجود ہی تھے یا وہاں تشریف لانے والے تھے۔ میں اہل پاکستان کی طرف سے جاوید ہاشمی سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ تم باہر کیوں نہیں جاتے؟ کیا تمہیں گرمی نہیں لگتی؟ آخر سیاست کا یہ عامیانہ انداز کہ اپنے ملک میں رہ کر سیاست کی جائے، اسے کیوں پسند ہے؟…ع

’’ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟‘‘

اب سنا ہے کہ وہ بیمار ہے اور ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ میرا دل تو کرتا ہے کہ اس کے بارے میں یہ مصرع لاکھوں…ع

ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی!

لیکن نہیں! ایسے عجیب و غریب شخص کے بارے میں میں ایسا مصرع کیوں لکھوں جس میں چنگاری کا لفظ ہے۔ چنگاری تو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ ہمیں چنگاریاں نہیں چاہئیں۔ ہمیں راکھ راس آتی ہے جو ذرا ہوا چلے تو اڑ کر چہروں پر بیٹھ جاتی ہے۔ راکھ کا ڈھیر اور اس میں چنگاری؟ میں جاوید ہاشمی کی مذمت کرتا ہوں!

Tuesday, July 20, 2010

نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں

اگر ہتھیلی پر بال اگ سکتے ہیں اور سوئی کے سوراخ سے اونٹ گذر سکتا ہے تو پھر یہ کہنا بھی درست ہے کہ پاکستان کے چار فوجی آمروں کی پشت پر صرف جرنیل، جج اور پریس تھے اور اگر یہ درست ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سعدی نے غلط کہا تھا…؎

گر نہ بیند بروز شپرہ  چشم

چشمۂ آفتاب را چہ گناہ

یعنی اگر چمگادڑ دن کے وقت نہیں دیکھ سکتی تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے؟

یہ 2004ء کی جنوری تھی‘ حج کے ایام تھے۔میں حرم کے ایک گوشے میں بیٹھا تھا۔ پاس ایک خان صاحب تشریف فرما تھے۔ مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ میں نے پوچھا کہاں سے ہیں؟ ہنس کر کہنے لگے آدھا راولپنڈی کا ہوں اور آدھا خوست کا کیونکہ تعلق خوست سے ہے اور جائیداد پنڈی میں ہے۔ مجھے شرارت سوجھی، پوچھا خان صاحب! خدانخواستہ اگر ایسا وقت آیا کہ آپکی وفاداری کو افغانستان اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو آپ کس کو چنیں گے؟ خان صاحب نے اللہ کے گھر کی طرف دیکھا اور ایک عجیب یقین کے ساتھ کہا کہ ایسا وقت کبھی نہیں آئیگا۔

میں نے انشاء اللہ کہا اور مجھے ان پڑھ افغان کی پاکستان سے محبت پر یقین آ گیا۔ یہ واقعہ پانچ سال کے بعدمجھے آج مسلسل یاد آ رہا ہے اور ساتھ ہی اقبال کی نظم کی یہ سطریں بھی…؎

تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج

عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان

اے غافل افغان

لیکن اگر آپ پڑھے لکھے ہیں اور قانون ساز ادارے کے رکن ہیں اور صحافت کے مرغزار میں بھی سبک خرامی کر رہے ہیں اور ان دونوں میں سے اگر کسی ایک کو چننا پڑے تو عقل مندی اسی میں ہے کہ ان لوگوں کا ساتھ دیں جو قانون ساز ادارے میں آپکے ساتھی ہیں۔ میڈیا اگر حق پر بھی ہے تو اس کا ساتھ دینا گھاٹے کا سودا ہے۔
 اور یہی ہوا ہے۔ ارکان اسمبلی کے معزز رفیق کار نے ’’الا بلا برگردن شما‘‘ سارے کا سارا ملبہ میڈیا پر ڈال دیا ہے۔صحافیوں کو ’’میڈیا جہادیوں کا ٹولہ‘‘ قرار دیا ہے اور جعلی ڈگریوں کے حق میں بہت بڑی دلیل دی ہے کہ کیا جعلی ڈگریاں ٹیکس چوری کرنے سے بھی بدتر ہیں؟ اور اس ’’غیر جانب دارانہ‘‘ صحافت کا سہرا بھی نون لیگ کے سر ہے۔ فراق گورکھپوری بھی کہاں یاد آ گئے…؎

ہر ایک سے کہاں بار نشاط اٹھتا تھا

بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی

نہیں! حضور والا نہیں ! ایسا نہ کہئے کہ صرف جرنیلوں ججوں اور صحافیوں نے فوجی آمروں کو پیٹھ پر سواری کرنے دی۔ اس حقیقت سے ایک بچہ بھی بخوبی آگاہ ہے کہ آمروں کو فیصلہ کن سہارا سیاست دانوں نے دیا۔ کنونشن مسلم لیگ میں کون تھے؟ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کن حضرات سے روشن تھی؟ ان میں سے اچھی خاصی تعداد تو آج بھی پارلیمنٹ میں زینت افروز ہے اور پیشانیوں پر عرقِ انفعال تک نہیں! پرویز مشرف کا زمانہ تو کل کی بات ہے۔ مٹھائیاں کس نے بانٹیں؟ نون لیگ کو چھوڑ کر راتوں رات واسکٹیں کس نے بدلیں؟ کیا قاف لیگ میں سیاست دان نہیں تھے؟ اور کیا پیٹریاٹ سیاستدان نہیں تھے؟ پکے سیاست دان اندر باہر سے سیاست دان، ان اہل سیاست نے آٹھ سال تک آمر کی وردی کو استری کیا اور کفش برداری کی۔ عیش و عشرت کے ہر جھونکے سے تمتع ہوئے اور بگٹی کے قتل سے لے کر امریکہ کو اڈے دینے تک اور پاکستانیوں کو فروخت کرنے سے لے کر لال مسجد کے قتل عام تک ہر مقام پر فوجی آمر کا ساتھ دیا ! حضور والا! اتنا اندھیر بھی مناسب نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بقول غالب…؎

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرہ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

عذر گناہ بدتر از گناہ! جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر پارلیمنٹ میں آنا اور غربت سے ماری ہوئی قوم کے کروڑوں اربوں روپے ہوا میں اڑا دینا ایسی اخلاقی پستی ہے جس سے زیادہ گہرا کوئی پاتال نہیں لیکن اس اخلاقی پستی کا دفاع کرنا تو حد سے گذر جانا ہے اور یہ کہنا کہ ’’جعلی ڈگریوں کا مسئلہ جسے اپنے آپ کو نیک سمجھنے والے میڈیا نے اچھالا ہے، کسی ایک سیاسی پارٹی کیلئے نہیں، پورے سیاسی نظام کیلئے خطرے کا الارم ہے‘‘ ایک ایسی بات ہے جو سچ پوچھئے تو بلیک میلنگ کی حدوں کو چھو رہی ہے تو کیا سیاست دان جو چاہیں کرتے رہیں؟ انہیں کچھ نہ کہا جائے؟ ورنہ پورا سیاسی نظام خطرے میں پڑ جائیگا؟

اٹھارہویں ترمیم پاس ہوئی تو سترھویں ترمیم سے وہ شق رخصت کر دی گئی جس کی رو سے سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات لازمی تھے۔ یہ ایک سانحہ تھا۔ ہر درد مند پاکستانی نے اس پر احتجاج کیا۔ اخبارات کے صفحات گواہ ہیں کہ ہر طبقے کے نمائندوں نے اس ترقی ٔ معکوس کی مذمت کی۔ جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اس کی مخالفت کی ہنسی اسوقت آئی جب احسن اقبال نے ٹیلی ویژن پر آ کر اعلان کیا کہ جاوید ہاشمی اور سعد رفیق نے غلط کیا۔ لیکن لگتا ہے پارٹی کی تسلی نہیں ہوئی۔ آج پھر کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں کون سا آئین ہے جو کہتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات ہونے چاہئیں؟ کیا امریکی آئین اس کا تقاضا کرتا ہے؟‘‘ امریکہ میں تو ایک ہی پارٹی کے اندر ہلیری کلنٹن اور اوبامہ میں مقابلہ ہوتا ہے۔
ہلیری ہار جاتی ہے اور اوبامہ اپنی پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار منتخب ہو جاتا ہے۔ کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے؟ تقابل کرنا ہے تو پھر پورا کیجئے! اور پھر آخر اہل پاکستان نے کیا قصور کیا ہے کہ وہ بلاول زرداری بھٹو، حمزہ شہباز شریف اور چودھری مونس الٰہی کو بھی حکمرانی کرنے دیں اور پھر انکے بچوں کو بھی!آخر چودھری نثار، جاوید ہاشمی، مخدوم امین فہیم، اعتزاز احسن، حافظ حسین احمد اور مشاہد حسین پارٹیوں کے سربراہ کیوں نہیں بن سکتے؟ آسٹریلیا میں جولیا گلرڈ لیبر پارٹی کی سربراہ منتخب ہوئی ہے اور سعیدہ وارثی برطانیہ میں اپنی پارٹی کی قائد بنی ہے تو کیا ان ملکوں میں ’’سیاسی نظام‘‘تباہ ہو جائے گا؟

سارا الزام میڈیا پر اور مڈل کلاس پر؟ کہ ’’یہ صرف مڈل کلاس ہے جو میڈیا کے خبط میں مبتلا ہے اور اس نے سیاست دانوں کی ہوس زر اور نااہلی کو انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے! کہ مڈل کلاس نیکی کے زعم کا شکار ہے۔ خاص طور پر ووٹ نہ ڈالنے والی مڈل کلاس جو فوجی حکومتوں کے استقبال کیلئے تیار بیٹھی ہے‘‘ دوسرے لفظوں میں سب برے ہیں۔ صرف ایک طبقہ اچھا ہے! یہاں عظیم صوفی شاعر ابو سعید ابوالخیر کی مشہور رباعی یاد آ رہی ہے…؎

گفتی کہ فلان زیادِ ما خاموش است

از بادۂ عشقِ دیگران مدہوش است

شرمت بادا! ہنوزِ خاکِ درِ تو

از گرمیٔ خونِ دلِ من در جوش است

تو نے کہا کہ ہم تیری یاد سے غافل ہیں اور کسی اور کے عشق میں گم ہیں! تجھے شرم آنی چاہئے، ہمارے خونِ دل کی گرمی سے تمہارے دروازے کی خاک تو ابھی تک جوش میں ہے!

جس مڈل کلاس کو مطعون کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی مڈل کلاس ہے جس نے 2008ء کے انتخابات میں نون لیگ کو ووٹ دیئے تھے اس لئے کہ میاں نواز شریف کے ہاتھ میں عدلیہ کی آزادی کا پرچم تھا۔ اب اگر سیاست دان یہ چاہتے ہیں کہ مڈل کلاس جمشید دستیوں اور مستی خیلوں کوووٹ دینے گھروں سے نکلے تو یہ ذرا مشکل کام ہے اس لئے کہ مڈل کلاس تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے اور اتفاق سے اصلی ڈگریاں رکھتی ہے!

بات وہ کہنی چاہئے جس میں منطق اور دلیل ہو اور سننے والا متاثر ہو۔ سوال یہ نہیں کہ ’’سیاسی طبقے‘‘ کو کیسے بچایا جائے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اخلاقی معاشی اور سیاسی پستی سے کیسے نکالا جائے۔ کسی ایک طبقے کو خواہ وہ میڈیا ہو یا سیاست دان فرشتہ صفت ثابت کرنا درست رویہ نہیں۔ جعل سازی ایک ناقابل معافی جرم ہے اگر میڈیا اس جرم کا مرتکب ہو گا تو وہ بھی مکافات عمل سے نہیں بچ سکے گا۔ ہم میں سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہنے کی جرأت ہونی چاہئے اور یہ جرأت بھی کہ اگر ہماری انگریزی تحریر میں ساغر کا ذکر ہو تو اسکے اردو ترجمے سے ہم یہ لفظ حذف نہ کریں…؎

کھنچیں میر تجھ ہی سے یہ خواریاں

نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں

نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں

اگر ہتھیلی پر بال اگ سکتے ہیں اور سوئی کے سوراخ سے اونٹ گذر سکتا ہے تو پھر یہ کہنا بھی درست ہے کہ پاکستان کے چار فوجی آمروں کی پشت پر صرف جرنیل، جج اور پریس تھے اور اگر یہ درست ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سعدی نے غلط کہا تھا…؎



گر نہ بیند بروز شپر چشم



چشمۂ آفتاب را چہ گناہ



یعنی اگر چمگادڑ دن کے وقت نہیں دیکھ سکتی تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے؟



یہ 2004ء کی جنوری تھی‘ حج کے ایام تھے۔میں حرم کے ایک گوشے میں بیٹھا تھا۔ پاس ایک خان صاحب تشریف فرما تھے۔ مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ میں نے پوچھا کہاں سے ہیں؟ ہنس کر کہنے لگے آدھا راولپنڈی کا ہوں اور آدھا خوست کا کیونکہ تعلق خوست سے ہے اور جائیداد پنڈی میں ہے۔ مجھے شرارت سوجھی، پوچھا خان صاحب! خدانخواستہ اگر ایسا وقت آیا کہ آپکی وفاداری کو افغانستان اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو آپ کس کو چنیں گے؟ خان صاحب نے اللہ کے گھر کی طرف دیکھا اور ایک عجیب یقین کے ساتھ کہا کہ ایسا وقت کبھی نہیں آئیگا۔



میں نے انشاء اللہ کہا اور مجھے ان پڑھ افغان کی پاکستان سے محبت پر یقین آ گیا۔ یہ واقعہ پانچ سال کے بعدمجھے آج مسلسل یاد آ رہا ہے اور ساتھ ہی اقبال کی نظم کی یہ سطریں بھی…؎



تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج



عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان



اے غافل افغان



لیکن اگر آپ پڑھے لکھے ہیں اور قانون ساز ادارے کے رکن ہیں اور صحافت کے مرغزار میں بھی سبک خرامی کر رہے ہیں اور ان دونوں میں سے اگر کسی ایک کو چننا پڑے تو عقل مندی اسی میں ہے کہ ان لوگوں کا ساتھ دیں جو قانون ساز ادارے میں آپکے ساتھی ہیں۔ میڈیا اگر حق پر بھی ہے تو اس کا ساتھ دینا گھاٹے کا سودا ہے۔ اور یہی ہوا ہے۔ ارکان اسمبلی کے معزز رفیق کار نے ’’الا بلا برگردن شما‘‘ سارے کا سارا ملبہ میڈیا پر ڈال دیا ہے۔



صحافیوں کو ’’میڈیا جہادیوں کا ٹولہ‘‘ قرار دیا ہے اور جعلی ڈگریوں کے حق میں بہت بڑی دلیل دی ہے کہ کیا جعلی ڈگریاں ٹیکس چوری کرنے سے بھی بدتر ہیں؟ اور اس ’’غیر جانب دارانہ‘‘ صحافت کا سہرا بھی نون لیگ کے سر ہے۔ فراق گورکھپوری بھی کہاں یاد آ گئے…؎



ہر ایک سے کہاں بار نشاط اٹھتا تھا



بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی



نہیں! حضور والا نہیں ! ایسا نہ کہئے کہ صرف جرنیلوں ججوں اور صحافیوں نے فوجی آمروں کو پیٹھ پر سواری کرنے دی۔ اس حقیقت سے ایک بچہ بھی بخوبی آگاہ ہے کہ آمروں کو فیصلہ کن سہارا سیاست دانوں نے دیا۔ کنونشن مسلم لیگ میں کون تھے؟



ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کن حضرات سے روشن تھی؟ ان میں سے اچھی خاصی تعداد تو آج بھی پارلیمنٹ میں زینت افروز ہے اور پیشانیوں پر عرقِ انفعال تک نہیں! پرویز مشرف کا زمانہ تو کل کی بات ہے۔ مٹھائیاں کس نے بانٹیں؟ نون لیگ کو چھوڑ کر راتوں رات واسکٹیں کس نے بدلیں؟ کیا قاف لیگ میں سیاست دان نہیں تھے؟ اور کیا پیٹریاٹ سیاستدان نہیں تھے؟ پکے سیاست دان اندر باہر سے سیاست دان، ان اہل سیاست نے آٹھ سال تک آمر کی وردی کو استری کیا اور کفش برداری کی۔ عیش و عشرت کے ہر جھونکے سے تمتع ہوئے اور بگٹی کے قتل سے لے کر امریکہ کو اڈے دینے تک اور پاکستانیوں کو فروخت کرنے سے لے کر لال مسجد کے قتل عام تک ہر مقام پر فوجی آمر کا ساتھ دیا ‘ یانہیں! حضور والا! اتنا اندھیرا بھی مناسب نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بقول غالب…؎



بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا



اگر اس طرہ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے



عذر گناہ بدتر از گناہ! جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر پارلیمنٹ میں آنا اور غربت سے ماری ہوئی قوم کے کروڑوں اربوں روپے ہوا میں اڑا دینا ایسی اخلاقی پستی ہے جس سے زیادہ گہرا کوئی پاتال نہیں لیکن اس اخلاقی پستی کا دفاع کرنا تو حد سے گذر جانا ہے اور یہ کہنا کہ ’’جعلی ڈگریوں کا مسئلہ جسے اپنے آپ کو نیک سمجھنے والے میڈیا نے اچھالا ہے، کسی ایک سیاسی پارٹی کیلئے نہیں، پورے سیاسی نظام کیلئے خطرے کا الارم ہے‘‘ ایک ایسی بات ہے جو سچ پوچھئے تو بلیک میلنگ کی حدوں کو چھو رہی ہے تو کیا سیاست دان جو چاہیں کرتے رہیں؟ انہیں کچھ نہ کہا جائے؟ ورنہ پورا سیاسی نظام خطرے میں پڑ جائیگا؟



اٹھارہویں ترمیم پاس ہوئی تو سترھویں ترمیم سے وہ شق رخصت کر دی گئی جس کی رو سے سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات لازمی تھے۔ یہ ایک سانحہ تھا۔ ہر درد مند پاکستانی نے اس پر احتجاج کیا۔ اخبارات کے صفحات گواہ ہیں کہ ہر طبقے کے نمائندوں نے اس ترقی ٔ معکوس کی مذمت کی۔ جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اس کی مخالفت کی ہنسی اسوقت آئی جب احسن اقبال نے ٹیلی ویژن پر آ کر اعلان کیا کہ جاوید ہاشمی اور سعد رفیق نے غلط کیا۔ لیکن لگتا ہے پارٹی کی تسلی نہیں ہوئی۔ آج پھر کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں کون سا آئین ہے جو کہتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات ہونے چاہئیں؟ کیا امریکی آئین اس کا تقاضا کرتا ہے؟‘‘ امریکہ میں تو ایک ہی پارٹی کے اندر ہلیری کلنٹن اور اوبامہ میں مقابلہ ہوتا ہے۔



ہلیری ہار جاتی ہے اور اوبامہ اپنی پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار منتخب ہو جاتا ہے۔ کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے؟ تقابل کرنا ہے تو پھر پورا کیجئے! اور پھر آخر اہل پاکستان نے کیا قصور کیا ہے کہ وہ بلاول زرداری بھٹو، حمزہ شہباز شریف اور چودھری مونس الٰہی کو بھی حکمرانی کرنے دیں اور پھر انکے بچوں کو بھی!آخر چودھری نثار، جاوید ہاشمی، مخدوم امین فہیم، اعتزاز احسن، حافظ حسین احمد اور مشاہد حسین پارٹیوں کے سربراہ کیوں نہیں بن سکتے؟ آسٹریلیا میں جولیا گلرڈ لیبر پارٹی کی سربراہ منتخب ہوئی ہے اور سعیدہ وارثی برطانیہ میں اپنی پارٹی کی قائد بنی ہے تو کیا ان ملکوں میں ’’سیاسی نظام‘‘تباہ ہو جائے گا؟



سارا الزام میڈیا پر اور مڈل کلاس پر؟ کہ ’’یہ صرف مڈل کلاس ہے جو میڈیا کے خبط میں مبتلا ہے اور اس نے سیاست دانوں کی ہوس زر اور نااہلی کو انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے! کہ مڈل کلاس نیکی کے زعم کا شکار ہے۔ خاص طور پر ووٹ نہ ڈالنے والی مڈل کلاس جو فوجی حکومتوں کے استقبال کیلئے تیار بیٹھی ہے‘‘ دوسرے لفظوں میں سب برے ہیں۔ صرف ایک طبقہ اچھا ہے! یہاں عظیم صوفی شاعر ابو سعید ابوالخیر کی مشہور رباعی یاد آ رہی ہے…؎



گفتی کہ فلان زیادِ ما خاموش است



از بادۂ عشقِ دیگران مدہوش است



شرمت بادا! ہنوزِ خاکِ درِ تو



از گرمیٔ خونِ دلِ من در جوش است



تو نے کہا کہ ہم تیری یاد سے غافل ہیں اور کسی اور کے عشق میں گم ہیں! تجھے شرم آنی چاہئے، ہمارے خونِ دل کی گرمی سے تمہارے دروازے کی خاک تو ابھی تک جوش میں ہے!



جس مڈل کلاس کو مطعون کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی مڈل کلاس ہے جس نے 2008ء کے انتخابات میں نون لیگ کو ووٹ دیئے تھے اس لئے کہ میاں نواز شریف کے ہاتھ میں عدلیہ کی آزادی کا پرچم تھا۔ اب اگر سیاست دان یہ چاہتے ہیں کہ مڈل کلاس جمشید دستیوں اور مستی خیلوں کوووٹ دینے گھروں سے نکلے تو یہ ذرا مشکل کام ہے اس لئے کہ مڈل کلاس تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے اور اتفاق سے اصلی ڈگریاں رکھتی ہے!



بات وہ کہنی چاہئے جس میں منطق اور دلیل ہو اور سننے والا متاثر ہو۔ سوال یہ نہیں کہ ’’سیاسی طبقے‘‘ کو کیسے بچایا جائے۔



سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اخلاقی معاشی اور سیاسی پستی سے کیسے نکالا جائے۔ کسی ایک طبقے کو خواہ وہ میڈیا ہو یا سیاست دان فرشتہ صفت ثابت کرنا درست رویہ نہیں۔ جعل سازی ایک ناقابل معافی جرم ہے اگر میڈیا اس جرم کا مرتکب ہو گا تو وہ بھی مکافات عمل سے نہیں بچ سکے گا۔ ہم میں سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہنے کی جرأت ہونی چاہئے اور یہ جرأت بھی کہ اگر ہماری انگریزی تحریر میں ساغر کا ذکر ہو تو اسکے اردو ترجمے سے ہم یہ لفظ حذف نہ کریں…؎



کھنچیں میر تجھ ہی سے یہ خواریاں



نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں

Tuesday, July 13, 2010

کشف المحجوب

میں بھاگتا پھر رہا ہوں اور مجھ سے کوئی نہیں پوچھتا کہ کیا ہوا ہے؟

اس لئے کہ ہر کوئی بھاگتا پھر رہا ہے۔ میں انارکلی کی طرف دوڑتا ہوں کہ سعود عثمانی کا وہاں دفتر ہے لیکن ایک ہنگامہ ہے اور راستہ نہیں ملتا۔

ٹولنٹن مارکیٹ کے سامنے سے ہو کر میں یونیورسٹی میں داخل ہو جاتا ہوں، میرا رُخ اورینٹل کالج کی سمت ہے۔ فارسی کے شعبے میں معین نظامی کا کمرہ مجھے پناہ گاہ لگتا ہے، لیکن یہاں تو سب کمرے بند ہیں۔ اب میں نابھا روڈ کی طرف چل پڑتا ہوں، جمیل بھٹی ان دنوں اکاؤنٹنٹ جنرل لگا ہوا ہے اسکے پاس بیٹھوں گا لیکن قدم اٹھ ہی نہیں رہے۔ اس لئے کہ میرے اندر بھی عذر برپا ہے پھر ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی یہ دھماکہ میرے اندر ہوا ہے۔ باہر بھی خون ہے، گوشت کے لوتھڑے ہیں، دست و بازو ہوا میں اُڑ رہے ہیں، سب دوڑ رہے ہیں سب چیخ رہے ہیں۔ میرے اندر بھی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، گوشت کے ٹکڑے اُڑ رہے ہیں، ہاتھ اور بازو کٹ کٹ کر گر رہے ہیں جسم ہوا میں اُچھل رہے ہیں۔ میرے اندر بھی چیخیں ہیں، بھاگنے کی آوازیں ہیں۔میں جس کے پاس بھی جاتا ہوں، میری بات کوئی نہیں سنتا۔ میں پیاسا ہوں لیکن مجھے دودھ دیتے ہیں تو اس میں مینگنیاں ڈال دیتے ہیں، پانی دیتے ہیں تو صرف تنکا نہیں، کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔ میں بھوک سے نڈھال ہو کر گر پڑتا ہوں، لوگ آتے ہیں عبائیں اوڑھے، عمامے باندھے، عصا دردست، مجھے بخشش میں کھانا عنایت کرتے ہیں لیکن میں دستر خوان کھولتا ہوں تو روٹیوں کی جگہ ہڈیاں ہیں اور پنیر کے بجائے جما ہوا خون نظر آتا ہے۔

شور، ہنگامہ، چیخیں، خون، گوشت، ہڈیاں، لاشے، ماتم، نوحے باہر بھی اور میرے اندر بھی۔ داتا دربار سے انارکلی تک ٹولنٹن مارکیٹ سے نابھا روڈ تک، اورینٹل کالج سے چیف منسٹر ہاؤس تک، ہاں چیف منسٹر ہاؤس تک کہ وہاں بھی دودھ ہے لیکن مینگنیاں ہیں، پانی ہے لیکن اس میں کیڑے ہیں، روٹی ہے لیکن ہڈیوں سے پکائی ہوئی، پنیر ہے لیکن منجمد انسانی خون کی شکل میں۔ اندر بھی یہی کچھ ہے، دل سے لے کر رُوح تک، رُوح سے لے کر جان تک، دماغ سے لے کر کلیجے تک، ہر طرف ہُوک ہے اور کسک، کرب ہے اور شکست و ریخت۔ میں آنکھ بند کرتا ہوں تو مجھے اپنا کلیجہ اور دل اور دماغ اور جان اور سب کچھ ہوا میں اڑتا نظر آتا ہے! میں پبلک لائبریری میں داخل ہو جاتا ہوں اور فارسی شاعری کے گوشے میں دبک کر بیٹھ جاتا ہوں۔ سفید پوشاک میں ملبوس ایک سایہ نمودار ہوتا ہے۔ میرے کاندھے پر ہاتھ دھرتا ہے سبک، نرم ہاتھ، لمس اندر تک سرایت کر جاتا ہے پھر وہ میری گود میں کوئی شے رکھتا ہے اور ہوا میں اُسی نرماہٹ سے تحلیل ہو جاتا ہے جس طرح نمودار ہوا تھا۔ دیکھتا ہوں تو یہ دیوانِ حافظ ہے میں سمجھ جاتا ہوں کہ فال نکالنے کا حکم ہے۔ فال نکالتا ہوں تو سامنے یہ اشعار آ جاتے ہیں…؎

مشکلِ خویش برِ پیرِمغاں بردم دوش

کو بتائیدِ نظر حلِ معما می کرد

میں اپنی مشکل کل پیرِ مغاں کے پاس لے گیا اس لئے کہ وہ بصیرت کے ساتھ مشکلات حل کرتا تھا۔

دید مش خرم وخنداںِ، قدحِ بادہ بہ دست

واندر آن آئنہ صد گو نہ تماشا می کرد

میں نے دیکھا کہ وہ خوش و خرم، ہاتھ میں جاِم شراب لئے تھا اور اس آئینے میں سو طرح کے مناظر دیکھ رہا تھا…؎

گفتم این جامِ جہان بین بہ تو کی داد حکیم

گفت آن روز کہ این گنبدِ مینا می کرد

میں نے پوچھا کہ اے مردِ دانا! قسّامِ ازل نے یہ پیالہ جس میں دنیا نظر آتی ہے، تجھے کب عطا کیا؟ کہنے لگا اس روز جب وہ اس لاجوردی رنگ کے آسمانی گنبد کو بنا رہا تھا!

میں اشارہ سمجھ گیا، لائبریری سے نکلا اور پیر مغاں کا پتہ پوچھا جس سے بھی پوچھتا تھا ایک ہی بات بتاتا تھا کہ اس شہر میں ایک ہی پیرِ مغاں ہے، سید علی ہجویریؒ جسے داتا گنج بخشؒ کا عوامی لقب ملا ہوا ہے اور وہ استراحت میں ہے۔ گلیوں میں بہتے خون سے گزرتا اور لاشوں میں راستہ بناتا میں وہاں پہنچا جہاں پیرِ مغاں محوِ استراحت تھا۔ ایک سایہ پھر نمودار ہوا اور ایک اور کتاب میری گود میں رکھ کر غائب ہو گیا۔ دیکھا تو کشف المحجوب تھی۔ سید علی ہجویریؒ کی تصنیف کھولی تو اس میں سے سوال نکلے۔ سایہ پھر نمودار ہوا، وہی نرم ہاتھ، وہی خون میں اتر جانے والا لمس، ان سوالوں کا جواب حاصل کرو یہی کلید ہے۔

میں اب ان سوالوں کی پوٹلی سر پر اٹھائے پھر رہا ہوں، دھکے کھا رہا ہوں، جن لوگوں کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالوں کے جواب جانتے ہیں، انکے پاس جاتا ہوں تو وہ منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں۔ میں گلی گلی پھر رہا ہوں، دروازے کھٹکھٹا رہا ہوں آوازے لگا رہا ہوں۔ کوئی ہے جو ان سوالوں کے جواب دے۔

1۔ جو حضرات دھماکہ ہونے کے بعد ایک گھنٹے کے اندر اندر اعلان کرتے ہیں کہ یہ دھماکے بلیک واٹر نے یا ’’را‘‘ نے کرائے ہیں انہیں پکڑا کیوں نہیں جاتا؟ آخر انہیں اطلاع کیسے ہو گئی؟ ان حضرات کا ان تنظیموں سے کیا تعلق ہے؟ اور کب سے ہے؟

2۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ دھماکوں کے بعد بہت سے مظلوم پکڑے جاتے رہے ہیں۔ ان کا تعلق کن تنظیموں سے ہے؟

3۔ یہ تنظیمیں ایک خاص مکتبِ فکر سے وابستگی کا دعویٰ بھی کرتی ہیں اور اعلان بھی۔ اس مکتب فکر کے سرکردہ اصحاب ان ہلاکت آفریں تنظیموں سے لاتعلقی کا اعلان کیوں نہیں کرتے؟

4۔ دسمبر 2009ء میں کراچی کی ہلاکتوں کی ذمہ داری ایک تنظیم نے قبول کی اگر کچھ لوگوں کے بقول یہ کارروائی اس تنظیم کی نہیں تھی، تو تنظیم نے یہ اعلان کیوں نہیں کیا کہ ذمہ داری قبول کرنے والے کا ہم سے کوئی تعلق نہیں؟

5۔ کیا دھماکوں میں شہید ہونے والے لوگ ڈرون حملوں کے ذمہ دار ہیں؟ اگر نہیں تو ایک سیاسی مذہبی جماعت کے رہنما ان دھماکوں کو ڈرون حملوں سے کیوں جوڑتے ہیں؟

6۔ ٹیلی ویژن پر وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے ایک مذہبی سیاسی جماعت کے (بظاہر) ریٹائرڈ لیڈر سے بار بار پوچھا کہ دھماکوں میں پکڑے جانے والے ملزمان کون ہیں؟ اور ان کا کن تنظیموں سے تعلق ہے؟ ریٹائرڈ لیڈر ہر بار ایک ہی جواب دیتے تھے کہ یہ جنگ ہماری نہیں۔ کیا یہ بزرگ اونچا سنتے ہیں؟

7۔ خودکش حملوں میں مارے جانیوالے پاکستانیوں سے امریکہ کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے؟

8۔ اگر غیر مسلم، مسلمانوں کے بچوں اور عورتوں کو قتل کر رہے ہوں تو کیا مسلمانوں کیلئے غیر مسلم بچوں اور عورتوں کا قتل جائز ہو جاتا ہے؟

9۔ اگر مسلمانوں کیلئے غیر مسلموں کے بچوں اور عورتوں کا قتل بھی جائز نہیں تو مسلمان عورتوں اور بچوں کا قتل کس طرح جائز ہو جاتا ہے؟

10۔ اور سب سے بڑا سوال امریکہ کے یہ ’’دشمن‘‘ نہتے پاکستانی شہریوں کو قتل کرنے کے بجائے امریکیوں پر کیوں نہیں حملے کرتے؟

میں ان سوالات کی پوٹلی سر پر اٹھائے پھر رہا ہوں کوئی ہے جو جواب دے؟

Tuesday, July 06, 2010

دوست نوازی اور قطب جنوبی

میں ٹاک شوز سے بیزار ہوگیا تھا!

رات دن کے کسی حصے میں کوئی چینل بھی لگاتا تو ایک ہی منظر ہوتا۔ تین ’’عقل مند‘‘ ایک طرف بیٹھے ہوتے اور ایک ’’حد سے زیادہ عقل مند‘‘ دوسری طرف بیٹھا اُن تینوں کو آپس میں لڑا رہا ہوتا۔ ایک دن جہاز میں بیٹھا اور اس دور افتادہ جزیرے میں منتقل ہوگیا ، یہاں سے آگے کچھ نہیں۔ جنوب میں قطب جنوبی ہے۔ مشرق میں بحرالکاہل اور بحرالکاہل میں ایک اور جزیرہ نیوزی لینڈ۔

جس دن بیوی ڈش لگوا رہی تھی، میرا ماتھا ٹھنکا، ڈش سے تو یہ پاکستانی چینل دیکھے گی تو کیا یہاں بھی ٹاک شو …؟ وہ تو خدا کا شکرہے کہ وہ ڈرامے دیکھتی ہے‘ حالانکہ ہر ڈرامے میں ایک ہی کہانی ہے معاشقہ، شادی اور طلاق‘ جس طرح ہمارے مزاحیہ ’’شاعر‘‘ پڑوسن سے آگے جانے کو تیار نہیں، اسی طرح ہمارے ڈرامہ نگار عورت اور شادی کے سوا کسی موضوع پر نہیں لکھ سکتے۔
 جملہ معترضہ طویل ہوگیا۔ بہرطور ٹاک شوز سے نجات ملی۔ خوبصورت جزیرے میں چین سے گزر رہی تھی لیکن …؎

ٹوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاں پر

لَو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی

لو تھرائی اور تازہ بلا ٹوٹ کرگری۔ میں جزیرے میں چھپتا پھر رہا ہوں۔ کبھی اس شہر میں، کبھی اُس قصبے میں، کبھی کسی دور افتادہ ساحل پر کبھی کسی پہاڑ کے دامن میں واقع گمنام قریے میں اور سرکاری ہرکارے میرے تعاقب میں ہیں۔

اس علاقے میں تین بڑے ملک ہیں۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انڈونیشیا۔کیا آپ یقین کرینگے کہ تینوں کے وزرائے اعظم نے مجھے طلب کیا ہوا ہے۔ کہاں میں کم مایہ بے بضاعت، ایک قالین اور ایک پیالے پر حجرے میں گزر بسر کرتا ہوا، اور کہاں یہ تین عظیم الشان کشور اور اُن کے حکمران لیکن بخت سیاہ ہو اور پیشانی تنگ ہو اور ستارہ بجھا ہوا ہو تو کچھ بھی کام نہیں آتا …؎

میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان تھا

مرے سر پہ بُوم تھا زاغ تھا میرے ہاتھ میں

بالآخر ایک گمنام گاؤں میں، جہاں میں نے ایک آسٹریلوی شاعر کی دیہی قیام گاہ میں پناہ لی ہوئی تھی مجھے گھیرے میں لے لیا گیا اور ایک سرکاری عمارت میں لے جا کر پیش خدمت کر دیا گیا۔ مجھ پر خوف طاری تھا لیکن پھر بھی سچی بات یہ ہے کہ میں متاثر نہیں ہوا۔ تین ملکوں کے حکمران اندر جلوہ افروز… اور باہر نہ پولیس، نہ فوج، نہ ریڈ زون، نہ ناکے، نہ کاروں کے جلوس۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے، قصہ کوتاہ یہ کہ میں پیش ہوا … تینوں وزرائے اعظم سے باری باری گفتگو کچھ اس طرح ہوئی۔

’’ہم تمہیں اس لئے نہیں ڈھونڈ رہے تھے کہ تم سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ ہم تمہارے ذریعے ایک اپنا کام کرانا چاہتے ہیں۔‘‘

حضور! حکم فرمائیں … میں حاضر ہوں… نظم لکھوانی ہے یا مضمون… کیونکہ میں یہی کچھ کر سکتا ہوں …

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔‘‘

’’نہیں، لکھنے لکھانے والے ہمارے ملکوں میں بہت زیادہ ہیں سو فیصد خواندگی والے ملکوں میں تمہارے لکھنے کی چنداں اہمیت نہیں… ہمیں کام یہ ہے کہ تمہارے ہاں سے ایک دو جوہر قابل درکار ہیں۔‘‘

’’میں اس ضمن میں وعدہ تو نہیں کرتا لیکن آپ حکم کریں۔‘‘

’’پہلے تو ہمیں وہ شیر مرد چاہیے جو تمہارے ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے، جس نے کہا ہے کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے وہ اصلی ہو یا جعلی اور یہ کہ جعلی ڈگریوں کا مجھ پر کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ میں اب بھی اپنے گھر میں رہتا ہوں اور حکومت کے بعد بھی اپنے گھر میں رہوں گا۔ وزراء کی ڈگریاں جعلی ثابت ہونے پر بھی میری حکومت کو کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘

ایک لمحے کو مجھے گمان گزرا کہ یہ لوگ مذاق کررہے ہیں لیکن میرا اور ان کا کوئی مذاق تو تھا ہی نہیں، اور پھر لوگ بالکل سنجیدہ تھے۔ میں نے ادب سے پوچھا کہ … وہ شیرمرد آپ حضرات کوکیوں درکار ہے؟ ان میں سے ایک یوں گویا ہوا۔

’’ہم اُسے یہاں بلا کر تعلیم کا قلم دان سونپنا چاہتے ہیں۔ پورے کرۂ ارض پر اس شخص سے زیادہ اس منصب کا کوئی حق دار نہیں۔ ناخواندگی اورجعلی ڈگریاں ہم لوگوں کیلئے ایک رومانی داستان کی طرح ہیں اور ہم اسے پرستان کا قصہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ وزیر اعلیٰ چاہیے تاکہ ہمارے ملکوں کو ناخواندگی اور جعل سازی کے داستانوی ماحول میں لے جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام وہ بخوبی سرانجام دے گا۔‘‘

انہوں نے سلسلہ کلام جاری رکھا،

’’ہمیں اس مرد حق کے علاوہ ایک اور صوبے کا وزیر اعلیٰ بھی چاہیے، ہمارے اس خطے میں انسانی قدریں رُوبہ زوال ہیں … کوئی دوستوں کا خیال رکھتا ہے نہ رشتہ داروں کا اور نہ اُن کا جو جنم جنم کے وفادار ہیں۔ جس وزیراعلیٰ کی ہم اب بات کر رہے ہیں۔ سُنا ہے وہ دوست نوازی میں ثانی نہیں رکھتا۔ اپنے ایک وفادار کو کھپانے کیلئے اس نے تاریخ میں پہلی بار ایک صوبے میں چیف سیکرٹری کی دو اسامیاں پیدا کردی ہیں یہ کام کرۂ ارض پر پہلے نہیں ہوا تھا۔ اس نے یہ تاریخی کارنامہ اس لئے سرانجام دیا ہے کہ ایک صاحب جو پہلے چیف سیکرٹری تھے اور پھر ہٹانے پڑے، اُنہیں وہی منصب دیکر انکی شان میں جو کمی واقع ہوگئی تھی پوری کردی جائے‘ اگر یہ کارنامہ قابل تقلید سمجھا جائے تو ہر صوبے میں دو دو چیف سیکرٹری ہوں گے اور ہو سکتا ہے چیف منسٹر بھی دو دو ہو جائیں ( اگرچہ ایک صوبے میں اس وقت تین چیف منسٹر بھی ہیں چھوٹا بھائی، بڑا بھائی اور چھوٹے بھائی کا صاحب زادہ) اور کیا عجب دو دو گورنر بھی عالم وجود میں آ جائیں پھر یہ رَو اگر مرکز کا رُخ کرے تو ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم بھی دو ہو جائیں اور صدر مملکت بھی دو ہوں۔‘‘

ہمیں یہ وزیر اعلیٰ اس لئے پسند ہے کہ اپنے وفاداروں کو حکومت کے خرچ پر نوازنا بہتر سمجھتا ہے۔ صوبے کے پبلک سروس کمیشن میں وفاداروں کی فوج ظفر فوج مزے اڑا رہی ہے اور طریق کار کیا ہے؟ صرف اتنا کہ جو وفادار ریٹائر ہوتا ہے (بالخصوص پولیس نے) تو ایک کہنہ مشق، ازکار رفتہ بیوروکریٹ جو وزیر اعلیٰ سے بھی بڑی ہستی کا مشیر اعلیٰ ہے اس ریٹائرڈ وفادار کو پیش خدمت کرکے دو بول سفارش کے عرض کرتا ہے اور تخت شاہی سے فرمان جاری ہو جاتا ہے اس سے بڑھ کر دوست نوازی کیا ہوگی کہ جس وزیر کیخلاف شکایات تھیں، اُسے نکالا نہیں گیا صرف محکمہ بدلا گیا اور اس پر بھی پریشانیاں لاحق ہیں اور حیرانیاں آڑے آ رہی ہیں۔

’’ہمیں یہ دوستوں کا دوست اس لئے چاہیے کہ ہم بھی اپنے خطے میں دو چیف سیکرٹری اور ہر شعبے کے دو دو سربراہ اور ہر ملک کے دو دو حکمران بنانا چاہتے ہیں بلکہ اس کا تعاون حاصل ہوگیا تو کیا عجب ہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی دو کروا سکیں۔ وہ جو شیخ سعدیؒ نے کہا تھا کہ ایک گدڑی میں دس فقیر سو جاتے ہیں لیکن ایک اقلیم میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے تو اگر تنخواہ زیادہ ہو اور مراعات بے حد و بے شمار ہوں اور گاڑیوں کا پورا بیڑہ ہو اور سروں پر وزیر اعلیٰ کا ہاتھ ہو اور دلوں میں وفاداری بشرطِ استواری کا جذبہ ہو اور فنڈ، سارے عوام کے ٹیکسوں سے ہوں اور اسمبلی کے ارکان موم کے ہوں اور وزیر مُرغانِ بادنما ہوں تو دو نہیں دو سے زیادہ چیف سیکرٹری بھی بنائے جا سکتے ہیں۔میں نے وعدہ کیا کہ حکم کی تعمیل کروں گا اور جھک کر سلام کرنے کے بعد باہر نکل آیا۔

بھلا میں کہاں اور اتنے بڑے بڑے کام کہاں۔ افسوس! یہ جزیرہ بھی مجھے راس نہ آیا۔ اب میں سامان باندھ رہا ہوں اور سامان بھی کتنا ہے؟ ایک پھٹا ہوا پراناقالین اور ایک پیالہ۔ اب قطب جنوبی ہی میری پناہ گاہ ہے اور اسی طرف جا رہا ہوں۔
 

powered by worldwanders.com