Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, December 28, 2010

پیش ِ مادر آ

چین کی حکومت نے یہ حکم جاری کیا ہے تو اس لئے کہ وہاں ایک صحت مند معاشرہ ہے۔ مقتدر طبقات قوم کا درد رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون سب کیلئے یکساں ہے جہاں اہل اقتدار اور صرف اہل اقتدار نہیں، سارا بالائی طبقہ، ساری اپر کلاس لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو وہاں زبان پر توجہ کون دیگا؟ قوم کس زبان میں گفتگو کر رہی ہے اور کس زبان میں تعلیم حاصل کر رہی ہے؟ ان سوالوں پر تو وہ حکمران سوچتے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا قوم ہو اور اپنی ذات کو انہوں نے پوٹلی میں بند کر کے ایک کونے میں رکھ دیا ہو!

چین کے حکمران قانون سے ماورا نہیں، انکی دولت غیر ملکی بنکوں میں ہے نہ انکی جائیدادیں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ انکے پاس بس اتنا ہی ہے کہ وہ دو وقت کا کھانا کھا لیں اور باعزت لباس پہن سکیں، ایسے ہی حکمران ہوتے ہیں جو صرف قوم کی اقتصادیات اور دفاع کے بارے میں ہی نہیں قوم کی ثقافت، تہذیب اور زبان کے بارے میں بھی فکر مند ہوتے ہیں اسی لئے تو چین کی حکومت نے یہ حکم جاری کیا۔

چین کی حکومت نے اخباروں، اشاعت گھروں، ویب سائٹوں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو حکم دیا ہے کہ چینی زبان بولتے اور لکھتے وقت غیر ملکی زبانوں کے الفاظ استعمال نہ کئے جائیں خاص طور پر انگریزی زبان کے۔ انگریزی پر یا کسی بھی زبان پر کوئی پابندی نہیں۔ غیر ملکی زبانوں میں لکھا بھی جا سکتا ہے اور بولا بھی جا سکتا ہے لیکن چینی زبان میں دوسری زبانوں کے پیوند لگانے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ چین میں انگریزی زبان سیکھنے اور سکھانے کا چلن عام ہو گیا ہے اس کا اثر چینی زبان پر اس طرح پڑا ہے کہ چینی میں انگریزی الفاظ کی بھرمار ہو گئی اور ایک نئی زبان ’’چنگلش‘‘ ابھرنے لگی ہے ۔ چین کی حکومت نے اس رجحان کے آگے بند باندھ دیا ہے اس کا موقف یہ ہے کہ اس رجحان سے چینی زبان خالص نہیں رہ سکے گی اور ثقافت پر منفی اثرات پڑیں گے۔ چین کی نئی نسل کو تو انگریزی زبان کے استعمال سے کوئی کوفت نہیں ہو رہی تھی لیکن بڑی عمر کے چینی انگریزی زبان کے الفاظ سمجھ ہی نہیں سکتے تھے۔ چینی حکومت یہ صورتحال برداشت نہیں کر سکتی کہ عمر رسیدہ چینی اپنے ہی ملک میں اجنبی بن جائیں اور ہونقوں کی طرح نوجوانوں کے منہ دیکھتے رہیں۔

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اپنے باشندوں کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے حکم دیگی کہ عام شہری کو کسی غیر ملکی زبان میں خط نہ لکھا جائے؟ دکاندار کو انکم ٹیکس کے دفتر سے پنشنرز کو ڈاکخانے سے‘ رقم جمع کرانے والے کو بنک سے مقروض کو ہاؤس بلڈنگ کارپوریشن سے اور انعام یافتہ فنکار کو وزیراعظم کے دفتر سے ملنے والا خط انگریزی زبان میں لکھا جاتا ہے۔ اب وہ ایک ایسے شخص کو ڈھونڈتا ہے جو اسے اسکی زبان میں ترجمہ کر کے سمجھائے کہ متعلقہ ادارے نے کیا لکھا ہے؟ انیسویں صدی میں جب برطانوی استعمار نے فارسی اور اردو کی سرکاری حیثیت ختم کر کے انگریزی زبان نافذ کی تھی تو ہمارے عالم فاضل راتوں رات جاہل ہو گئے تھے اور ذلیل و رسوا کر دیئے گئے تھے۔ برطانوی استعمار رخصت ہوا تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تلافی کی جائے لیکن ذلت اور رسوائی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ اب سائل افسر کے سامنے حاضر ہوتا ہے تو افسر سائل کی موجودگی میں اپنے ماتحت سے فرنگی زبان میں بات کرتا ہے تاکہ معاملے کی اصل نوعیت سائل پر واضح نہ ہو سکے اور وہ سرخ فیتے کے چکر میں الجھا رہے یہ بدتہذیبی وہ سرکاری ملازم کر رہا ہوتا ہے جو اسی سائل کے دیئے ہوئے ٹیکس سے ماہانہ تنخواہ لیتا ہے۔

آپ کا کیا خیال ہے دنیا میں کتنے ملک ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی زبان پس پشت ڈالی دوسروں کی زبان اپنائی اور پھر ترقی بھی کی؟ دس؟ پندرہ یا درجنوں؟ نہیں! کسی ایک ملک نے بھی دوسروں کی زبان کا سہارا لیکر ترقی نہیں کی۔ کی بھی نہیں جا سکتی، ترقی خواندگی سے ہوتی ہے اور خواندگی اپنی زبان سے حاصل ہوتی ہے۔ کل جاپان کی مصنوعات دنیا پر چھائی ہوئی تھیں آج چین نے عالمی منڈی کو مٹھی میں جکڑا ہوا ہے۔ فرانس اور برطانیہ ایٹمی طاقتیں ہیں روس آج بھی عملاً وسط ایشیائی ریاستوں پر حکمرانی کر رہا ہے۔ جرمنی کی اقتصادی طاقت کے سامنے امریکہ لرز رہا ہے اور تو اور مکاؤ اور تائیوان جیسے ننھے منے ملک پوری دنیا کو اپنی برآمدات سے بھر رہے ہیں۔ آخر ان میں سے کس ملک نے اپنی زبان کو چھوڑا؟ کیا فرانس اور جرمنی نے کبھی کہا ہے کہ انگریزی ’’بین الاقوامی‘‘ زبان ہے اور ہمارا اسکے بغیر گزارا نہیں ہوتا؟

کیا جاپان اور چین کے سکولوں میں انگریزی ذریعہ تعلیم ہے؟ ترکی یورپی منڈی کا رکن بننے کی سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے کیا اس نے اس سلسلے میں کسی یورپی زبان کیلئے اپنے دروازے کھولے ہیں؟ تو پھر وہ خزاں رسیدہ دماغ جو ایک عرصہ سے سوچ رہے ہیں اور وہ آبلوں سے بھری ہوئی زبانیں جو باسٹھ برسوں سے کہہ رہی ہیں کہ ترقی کا راز انگریزی میں ہے کس برتے پہ یہ راگ مسلسل الاپے جا رہی ہیں؟

انگریزی کو ذریعہ اظہار اور ذریعہ تعلیم بنا کر آپ نے کون سی ترقی کر لی؟ کتنی سائنسی ایجادات کر لیں؟ معاشیات کے کتنے نظریات آپکے حوالے سے یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں؟ اور سرجری سے لیکر جان بچانے والی ادویات تک کس میدان میں آپ کا جھنڈا گڑا ہوا ہے؟

آپکی تو یہ حالت ہے کہ برقی روشنی ناپید ہے، شہر اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں، کھانے کو آٹا ہے نہ چینی، دودھ اور شہد سے لیکر کار، فریج، گھڑی، موبائل فون، ائرکنڈیشنر، ٹیلی ویژن، ادویات، بال پین اور گھڑی تک سب کچھ دوسرے ملکوں سے خرید رہے ہیں۔ باسٹھ سال سے انگریزی کو آپ نے اس قوم پر مسلط کیا ہوا ہے۔ کیا سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے امتحان اور کیا افسر پیدا کرنیوالے مقابلے کے امتحان! ہر جگہ انگریزی کی حکمرانی ہے اسکے باوجود آپکے حکمران اور آپکے منتخب نمائندے انگریزی زبان ہی نہیں بول سکتے اور بولتے ہیں تو دنیا ہنس ہنس کر دُہری ہو جاتی ہے۔ کیا اس سے زیادہ عبرت ناک حالت کسی قوم کی ہو سکتی ہے؟ اسی لئے تو اس بڑے شاعر نظامی گنجوی نے کہا تھا…؎

کلاغی تگِ کبک را گوش کرد

تگِ خویشتن را فراموش کرد

کوے نے ہنس کی چال اپنائی اور اپنی چال بھی بھول گیا لیکن وہ دیکھیئے اردو اپنی باہیں پھیلائے آپ کو بُلا رہی ہے اور زار زار رو کر کہہ رہی ہے…؎

دستِ ہر نا اہل بیمارت کند

پیش مادر آ  کہ تیمارت کند

غیروں کے ہاتھ میں بیمار ہو رہے ہو، آؤ ماں کے گلے لگ جاؤ وہی تمہاری تیماری کر سکتی ہے۔

Wednesday, December 22, 2010

کہ اپنے آپ کو اس صحن میں بو دوں

مزارع کا لڑکا پڑھ لکھ کر افسر بن گیا تو اس نے اسی چودھری کی بیٹی سے شادی کرنے کی ضد کی جس کی زمین پر اس کا باپ ہل چلاتا تھا۔ مزارع نے جا کر اظہار مدعا کر دیا۔ چودھری نے سنا تو آگ بگولا ہو گیا اور اپنے ’’خاص‘‘ ملازموں کو حکم دیا کہ سائل کا دماغ درست کیا جائے۔ دماغ کی درستی کے دوران مزارع کو جہاں زخم آئے‘ ہڈیاں ٹوٹیں اور کپڑے تار تار ہوئے وہاں اس کی پگڑی بھی کھل گئی۔ وہ اٹھا‘ رہے سہے کپڑے جھاڑے اور کھلی ہوئی پگڑی سر پر باندھنے لگا۔ پگڑی باندھتے ہوئے اس نے چودھری سے فیصلہ کن لہجے میں پوچھا کہ ’’چودھری صاحب! آپ کی طرف سے پھر میں انکار ہی سمجھوں؟‘‘

مشرقی پاکستان چودھری تھا‘ نہ مغربی پاکستان مزارع‘ لیکن یہ لطیفہ اس لئے یاد آیا کہ گذشتہ ہفتے مشرقی پاکستان کی افسوس ناک علیحدگی کی انتالیسویں برسی پر ہمارے ٹیلی ویژن چینل جو پروگرام دکھاتے رہے ان میں سے کچھ کے موضوع اس قسم کے تھے۔ ’’کیا مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان دوبارہ اکٹھے ہو سکتے ہیں؟‘‘ کیا پاکستان اور بنگلہ دیش ایک بار پھر ایک ملک بن سکتے ہیں؟ ’’مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہندوؤں کا کردار‘‘ وغیرہ وغیرہ!

ہمیں نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش کا اپنا ردعمل کیا ہو سکتا ہے۔ غالباً بنگلہ دیش دوبارہ پاکستان سے آملنے کی بات سن کر یہی کہے گا کہ …؎

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کار جہاں دراز ہے‘ اب مرا انتظار کر

لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ جس سانحے کو چار دہائیاں گزر چکی ہیں‘ باقی ماندہ پاکستان ابھی تک اس کے اسباب پر سنجیدگی سے غور کرنے کو تیار نہیں وگرنہ ناقابل عمل قسم کی خواہشات پر گفتگوئیں نہ کی جاتیں! پانی کے دو سو ڈول نکالے جا چکے ہیں لیکن مرا ہوا کتا ابھی تک کنویں ہی میں پڑا ہے۔ وہ اسباب جو مشرقی پاکستان سے علیحدگی کا باعث بنے‘ آج پہلے سے بھی زیادہ پاکستان میں موجود ہیں اور سطحیت کا یہ عالم ہے کہ ان کا ادراک ہی نہیں ہو پا رہا۔ رہا یہ الزام کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں وہاں کی ہندو آبادی نے اہم کردار ادا کیا تو اس سے زیادہ سفاک توہین مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کی نہیں کی جا سکتی۔ ہم سطحی سوچ رکھنے والے مغربی پاکستانی یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی جنگ مشرقی محاذ پرلڑی گئی تھی اور وہیں جیتی بھی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان کے سو فیصد مسلمانوں نے پاکستان کی حمایت کی تھی۔ وہاں احراری تھے نہ خاکسار‘ جماعت اسلامی تھی نہ یونینسٹ پارٹی‘ وہاں ٹوانے تھے نہ نون‘ سکندر حیات جیسے انگریز پرست تھے نہ پنجاب کے گدی نشین اور فیوڈل جن کی وہ تحریری عرضداشتیں آج بھی تاریخ کے صفحات پر دیکھی جا سکتی ہیں جن میں ملکہ برطانیہ سے التجا کی گئی تھی کہ انگریز برصغیر کو آزاد کریں نہ واپس جائیں۔ تعجب ہے کہ جس پاکستان میں آج نوے فیصد شادیوں میں دولہا راجستانی پگڑی پہنتے ہیں اور اب صرف پھیرے ڈالنے رہ گئے ہیں اور جو پاکستان‘ بھارت کے بعد‘ دنیا میں بھارتی فلموں کی سب سے بڑی منڈی ہے‘ وہ پاکستان مشرقی پاکستان کو ہندوؤں کے کردار پر طعنہ دے رہا ہے! ہمیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ کراچی کے علاوہ صرف مشرقی پاکستان سے مادر ملت فاطمہ جناح انتخابات جیتی تھیں۔عظیم صوفی شاعر ابو سعید ابوالخیر کی رباعی یاد آرہی ہے …؎

گفتی کہ فلاں زِ یاد ما خاموش است

از بادہِ عشقِ ِ دیگراں مدہوش است

شرمت بادا ! ہنوز خاکِ درِ تو

از گرمی ِ خونِ ِ دلِ من در جوش است

تو نے طعنہ دیا کہ ’’فلاں‘‘ ہماری یاد سے غافل ہے اور دوسروں کی محبت کا اسیر ہو گیا ہے۔ تجھے شرم آنی چاہئے! میرے دل کے لہو کی گرمی سے تیرے دروازے کی مٹی ابھی تک جوش میں ہے!

یہ کالم نگار 1967ء سے 1970ء تک ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم رہا۔ آج یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم کس قدر گہرا سیاسی ادراک رکھتے تھے۔ وہ ہمیں یعنی اپنے مغربی پاکستانی دوستوں کو اکثر بتایا کرتے کہ یاد رکھو! اگر مشرقی پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں اکثریت حاصل کر بھی گئی تو اسے اسلام آباد میں حکومت کبھی نہیں دی جائیگی اور یہی ہوا۔ عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی۔ دنیا کے کسی قانون کی رو سے عوامی لیگ کو حکومت سے محروم نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن دن دیہاڑے ڈاکہ پڑا۔ ’’ادھر ہم اور ادھر تم‘‘ کا نعرہ لگایا گیا‘ ڈھاکہ میں منعقد ہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنیوالوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان کیا گیا اور یوں بھارت کا دانستہ یا نادانستہ آلہ کار ہونے کا ثبوت دیا گیا۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ پاکستان حاصل کرنے والے مشرقی پاکستانی آخر کیوں الگ ہو گئے؟ (یہ ’’الگ ہونے‘‘ والی بات بھی خوب رہی! کیا اکثریت‘ اقلیت سے الگ ہوتی ہے؟ پچاس فیصد سے زیادہ آبادی تو مشرقی پاکستان کی تھی!) کیا اچانک ان کا دماغ خراب ہو گیا؟ اور وہ اچانک (بقول ہمارے) ہندوؤں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگ گئے؟ کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہ ہے کہ دو عوامل مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کو اکٹھا رہنے کی اجازت دے ہی نہیں سکتے تھے! ایک مغربی پاکستان کا جاگیردارانہ زرعی نظام اور دوسرا‘ مغربی پاکستانی جرنیلوں کی پے در پے تخت نشینیاں! آج چالیس سال بعد بھی ہمارے ہاں ملکیت زمین کا ڈھانچہ اسی طرح ہے اور ہمیں اس پر شرمندگی تک نہیں! وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں گنتی کے چند خان باسٹھ برس عملاً حکمران رہے اور ہر حکومت سے نقد رقوم اور پجارو گاڑیاں لے لےکر ضمیر فروشی کرتے رہے۔ ردعمل میں آج عام قبائلی نے بندوق اٹھا لی ہے! بلوچستان میں چند سردار حکومت کر رہے ہیں۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں اتنی بڑی بڑی جاگیریں ہیں کہ دنیا میں انکی مثال مشکل سے ملے گی! دوسری طرف مشرقی پاکستان میں مڈل کلاس کا راج تھا۔ لوگ پڑھے لکھے تھے۔ سیاسی شعور رکھتے تھے اور جاگیردارانہ نظام سے نفرت کرتے تھے۔ پھر انہیں معلوم تھا کہ جرنیلوں کے منہ کو اقتدار کا خون لگ گیا ہے اور کوئی مشرقی پاکستانی ملک کا سربراہ نہیں بن سکتا۔

رہی سہی کسر 25 مارچ 1971ء کے آرمی ’’ایکشن نے پوری کر دی۔ صرف ایک مثال دیکھے‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے سربراہ پروفیسر جی سی دیو

(G C DEV)

کے گھر کے دروازے پر گھنٹی بجتی ہے۔ وہ باہر نکلتا ہے‘ اسی کے جسم پر کئی گولیاں بیک وقت چلتی ہیں۔ اسکی منہ بولی (مسلمان) بیٹی رقیہ آگے بڑھتی ہے تو اسے بے رحمی سے پیٹا جاتا ہے۔ رقیہ کا شوہر محمد علی آگے بڑھتا ہے تو اسے بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ پروفیسر جی سی دیو ایک مکمل غیر سیاسی اور غیر مذہبی شخصیت تھے اور فلسفے پر اتھارٹی تھے۔ ’’علامہ اقبال بطور فلسفی‘‘ ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ ہوائی چپل پہن کر یونیورسٹی آنیوالا یہ پروفیسر اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ یونیورسٹی کو دے دیا کرتا تھا۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ کئی دانشور اسی طرح قتل ہوئے۔ ایسے اقدامات سے کوئی قطعئہ زمین، کوئی حصئہ وطن‘ کوئی گروہ‘ زبردستی ساتھ نہیں رکھا جا سکتا!

آخر میں ’’ڈھاکہ یونیورسٹی کیلئے ایک نظم‘‘ جو ان سطور کے لکھنے والے نے 1971ء کے دسمبر کے تاریک دنوں کے حوالے سے کہی تھی!

سر پہ کتنے ہی لڑھکتے ہوئے سنگ آہ! گرے

ہم جو چوٹی پہ تھے‘ کس کھائی میں ناگاہ گرے

خلقت شہر ہنسی‘ تو نے بھی دیکھا ہو گا

ہم بہ ایں خلعتِ شاہانہ سر ِ راہ گرے

دل دہکتا ہے ترے درد کے ہالے کی طرح

ایسے لگتا ہے کہ سینے میں شبِ ماہ گرے

قربتیں‘ حوصلے‘ رگ رگ میں مچلتا ہوا خون

ایک اک کرکے زمیں پر مرے بدخواہ گرے

[2]                           



بہت ویران ہے آنگن

ہر اک مٹی کا ذرّہ زخم خوردہ

ہر اک شے ہول سے ٹوٹی ہوئی بوسیدہ اور مردہ

جہاں اک پیڑ تھا سرسبز شاخوں، چہچہاتے طائروں کا گھر

وہاں گہرا گڑھا ہے اور کچھ ٹوٹے ہوئے پر

پھڑپھڑاتے ہیں چلے جب بھی ہوا

چٹختے ہیں چلے جب بھی جھلستی لُو

کوئی کمرہ نہیں کھُلتا مگراندرسے ماضی کی گھنیری سسکیاں آتے دنوں کی اجنبی بے مہر آوازیں سنائی دے رہی ہیں

شگاف ایسے پڑے ہیں قرب کی دیوار میں

چٹیل لق و دق پارکا میداں نظر آنے لگا ہے صاف

کوسوں تک نہیں جس میں کوئی روئیدگی

جس میں سرابوں،ہڈّیوں اورکاسہ ہائےسرسوا کچھ بھی نہیں

ملتا۔

یہاں وہ ساتھ ہوتا تھا

بپا اک جشن سا دن رات ہوتا تھا

یہاں رو دوں

کوئی صورت نہیں باقی بجز اس کے

کہ اپنے آپ کو اس صحن میں بو دوں

































[۱]














































































































                            [1]                               
































Tuesday, December 14, 2010

سب مزے میں ہیں

نہیں میرے دوست! نہیں! پاکستان ترکی نہیں بن سکتا۔
 ترکی نہ ملائیشیا نہ ہی متحدہ عرب امارات! بھلا صومالیہ اور زمبابوے جیسے ملک ترکی اور ملائیشیا کی سطح پر کیسے آ سکتے ہیں؟ آج اگر کوشش شروع بھی کر دی جائے تو کئی دہائیاں لگیں گی اور کوشش شروع ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں!

یہ کسی دور افتادہ پس ماندہ گائوں کا واقعہ نہیں، یہ واقعہ دارالحکومت سے نصف گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک جدید اور ترقی یافتہ ٹائون کا ہے اور یہ برسوں پہلے کا واقعہ نہیں، چند ہفتے پہلے کا ہے۔ مسجد بھری ہوئی تھی، جمعہ کا خطبہ دیا جا رہا تھا ۔ تیس سے چالیس فیصد نمازی پتلونوں میں ملبوس تھے اس لیے کہ وہ دفتروں اور کارخانوں میں ڈیوٹی دیکر سیدھے مسجد آئے تھے۔ خطبہ دینے والے مولانا نے اعلان کیا ’’پتلون پہننا حرام ہے‘‘ ۔ کسی نے چوں تک نہ کی۔
ایک ایسا عالم دین بھی نمازیوں میں بیٹھا تھا جو آٹھ دس سال مغربی ملکوں میں گزار کر آیا تھا۔ نماز کے بعد اس نے حضرت سے پوچھا کہ جو برازیل یا میکسیکو یا امریکہ میں پیدا ہوا اور اس کا لباس ہی پتلون ہے تو کیا مسلمان ہونے سے پہلے وہ پاکستان سے یا سعودی عرب سے لباس منگوائے گا اور پھر کلمہ پڑھے گا؟ عینی شاہد کہتا ہے کہ یہ بات سن کر مولانا کا منہ کھلا رہ گیا اور بات کرنے والے کو کھلے منہ کے ساتھ دیکھتے رہنے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔

یہ ہے مذہب کا تصور جو اہل مذہب پیش کر رہے ہیں۔ آپ یہ کہہ کر اس واقعے سے آگے نہیں گزر سکتے کہ کسی ایک مولانا نے کہہ دیا ہو گا۔ جو مائنڈ سیٹ تیار ہو رہا ہے اور جو ذہنی سطح ایک مخصوص ماحول میں آٹھ دس سال محصور رہ کر پیدا ہوتی ہے، اس کا حاصل اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا!

اب معاملے کا ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیے۔ یہ اسلام آباد کا کاروباری مرکز بلیو ایریا ہے۔ قطار درقطار کرنسی تبدیل کرنیوالوں (منی چینجرز) کی دکانیں ہیں، لوگ آ رہے ہیں، جا رہے ہیں، بیرون ملک سے آنیوالا ایک غیر ملکی صحافی اور اس کی پاکستانی بیوی ایک دکان میں دخل ہوتے ہیں۔ کائونٹر پر ایک لڑکی بیٹھی ہے۔ ساتھ والے کمرے میں باریش مالک ایک چھوٹے سائز کی کتاب پڑھ رہا ہے۔ کائونٹر پر بیٹھی ہوئی لڑکی زر مبادلہ کا نرخ بتاتی ہے۔ بھائو تائو کرنے کے بعد ایک نرخ طے ہو جاتا ہے۔ سودا ہونے لگتا ہے۔ غیر ملکی صحافی اور اسکی بیوی دو منٹ کی اجازت لے کر باہر جاتے ہیں۔ شاید وہ اپنی گاڑی سے کرنسی یا کوئی اور شے نکالنا چاہتے ہیں۔ واپس آ کر کرنسی کائونٹر پر پیش کرتے ہیں لیکن کائونٹر والی لڑکی انہیں بتاتی ہے کہ پہلے مالک کو مل لیں۔ مالک معذرت کرتا ہے کہ میں وظیفہ پڑھ رہا تھا۔ کائونٹر والی لڑکی نے آپ کو نرخ غلط بتایا ہے۔ اس نرخ پر کرنسی کا تبادلہ نہیں ہو گا۔
گاہک میاں بیوی وظیفہ خواں دکاندار کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارا نمائندہ ہمارے ساتھ ایک معاملہ طے کر چکا ہے اور اب اس سے روگردانی کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ کروڑ پتی دکاندار نہیں مانتا۔ تنگ آ کر عورت اسے بتاتی ہے کہ غلام نے جنگ کے دوران کافر کو پناہ دے دی تھی اور مسلمانوں کے کمانڈر اور خلیفہ دونوں نے اس پناہ کا احترام کیا تھا۔ اور یہ تو تمہاری اپنی منیجر ہے لیکن اس نے انکار کر دیا۔

یہ ہے ہمارے معاشرے میں مذہب کا تصور۔ اکثریت کو ہر روز پڑھے جانیوالے وظائف کا مطلب ہی معلوم نہیں۔ انکے نزدیک اسلام کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک خاص لباس پہنیں، وظائف کریں اور پھر وہ سارے کام کریںجن سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔
 وعدہ خلافی، بددیانتی، جھوٹ یہ وہ تین ستون ہیں جن پر پاکستانی معاشرہ قائم ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ وعدہ خلافی کو وعدہ خلافی نہیں سمجھا جاتا، بددیانتی معمول کی کارروائی ہے اور جھوٹ؟ جھوٹ صبح سے شام تک ہوا میں اڑتے ہوئے کروڑوں ذروں سے زیادہ بولا جاتا ہے۔ بچے ماں باپ سے بیوی شوہر سے، شوہر بیوی سے، ماں باپ بچوں سے دکاندار گاہک سے، ماتحت افسر سے، افسر ماتحت سے، مالک نوکر سے، نوکر مالک سے، اعزّہ و اقربا ایک دوسرے سے، سب جھوٹ بول رہے ہیں، مسلسل بول رہے ہیں اور جھوٹ کو جھوٹ کوئی بھی نہیں سمجھ رہا!

اوراد   و    وظائف کو اسلام سمجھنے والے ناخوندہ اور نیم خواندہ عوام کے مقابلے میں دوسرا گروہ دوسری انتہا پر کھڑا ہے۔ اس گروہ کا اسلام سے یا ملک سے ظاہری تعلق ہے نہ باطنی۔ یہ شاعری اور آرٹ سے لیکر تاریخ اور اخبارات تک مغربی ملکوں کے پڑھتے ہیں۔ انکی خوراک بھی مغربی ہے اور رگوں میں دوڑنے والا خون بھی صرف اٹلانٹک کے مغربی یا مشرقی ساحلوں کیلئے جوش میں آتا ہے۔ انکی جائیداد اور خاندان سب باہر ہیں اور ملک کو صرف ہیلی پیڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وکی لیکس نے خبر دی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں، جو اسلام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، سینکڑوں شہزادوں اور جوان لڑکوں اور لڑکیوں نے چھپ کر ہیلو وی کی تقریب برپا کی اور ہر وہ کام کیا جو اس ملک میں رائج قانون کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ اعلانیہ کیا جاتا تو شاید اتنا بُرا نہ لگتا۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ کیا جاتا ہے اسے تسلیم کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟

ہر کوئی رو رہا ہے کہ دہشت گردی کے ہاتھوں مارے گئے، ع

سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں

کتنے ہیں جو سوال اٹھا رہے ہیں کہ باسٹھ سالوں میں وزیرستان، سوات اور قبائلی علاقوں کو کیا دیا گیا؟ کتنی یونیورسٹیاں بنیں؟کتنے کارخانے لگے؟ کتنی لائبریریاں قائم ہوئیں؟ خواندگی کا تناسب باسٹھ سال بعد کتنا زیادہ ہوا؟ چند ملکوں اور خانوں کو سیکرٹ فنڈ سے کتنا کچھ دیا گیا؟ جو سرکاری اہلکار پولیٹیکل ایجنٹ تعینات ہوتے رہے، انکے اثاثے کیا ہیں؟ کوئی تجزیہ نہیں، کوئی نقد و تبصرہ نہیں! مریوں اور بگتیوں کی آبادیاں قبائلی ایجنسیاں، وزیرستان، شمالی اور جنوبی…کیا یہ سارے علاقے آج کے زمانے کے لگتے ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں! یہ سارے علاقے پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ انکے حقوق انہیں نہیں دیئے گئے، ان پر خود غرض سردار اور جرائم پیشہ خان مسلط کیے گئے اور اب بھی لوگ ہوش میں نہیں آ رہے کہ آئندہ کیلئے ہی مطالبہ کریں‘ اگر افغانستان کا بحران نہ ہوتا، اگر جنرل مشرف امریکہ کے سامنے رکوع میں نہ چلا جاتا، تب بھی حالات مختلف نہ ہوتے جن ہاتھوں میں قلم نہیں ہوتا یا ٹریکٹر کا سٹیئرنگ نہیں ہوتا یا کارخانے کے اوزار نہیں ہوتے، ان ہاتھوں میں جلد یا بدیر‘ بندوق ضرور آتی ہے اور آنے کے بعد چلتی بھی ہے! جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان صرف کراچی لاہور/اسلام آباد اور پشاور کا نام ہے، وہ اپنی عقل کا ماتم کریں اور ایسی عینک ڈھونڈیں جو کراچی لاہور اسلام آباد کے پار بھی دیکھ سکے۔
















Tuesday, December 07, 2010

لنڈورے، کبڑے اور اندھے




کیا آپ سامنے وہ اونچا میدان دیکھ رہے ہیں؟
وہاں سے تین بھیڑے اتر کر آئے ان میں سے دو تو لنڈورے تھے، ایک کی دم نہیں تھی! جس بھیڑیے کی دم نہیں تھی وہ تین دریاوں میں تیرتا تھا۔ ان میں سے دو دریا خشک تھے، تیسرے میں پانی ہی نہیں تھا۔ جس دریا میں پانی نہیں تھا اسکے کنارے تین شہر تھے۔ دو شہر اجڑے ہوئے تھے، تیسرا آباد ہی نہیں تھا۔ جو شہر آباد نہیں تھا‘ اس میں تین کمہار رہتے تھے، دو کمہار کبڑے تھے، ایک سیدھا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ جو کمہار سیدھا نہیں کھڑا ہو سکتا تھا، اس نے تین ہانڈیاں بنائیں۔ دو ہانڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، ایک کا پیندا ہی نہیں تھا۔ جس ہنڈیا کا پیندا نہیں تھا، اس میں چاول کے تین دانے پکائے گئے۔ دو دانے سخت نکلے ایک نرم ہی نہیں ہوا۔ چاول کا جو دانہ سخت تھا، اسے تین مہمانوں کو پیش کیا گیا۔ دو مہمان بھوکے رہے، ایک کا پیٹ ہی نہیں بھرا۔ جس مہمان کا پیٹ نہ بھر سکا اسکے پاس تین عدد گائے تھیں۔ دو بانجھ تھیں اور ایک دودھ ہی نہیں دیتی تھی۔ جو گائے دودھ نہیں دیتی تھیں اسے تین روپے میں فروخت کر دیا گیا، دو روپے کھوٹے تھے اور ایک کو لیتا ہی کوئی نہیں تھا۔ جس روپیہ کو کوئی نہیں قبول کرتا تھا، اسے چیک کرانے کیلئے سنار کی دکان پر لے گئے۔ وہاں تین سنار بیٹھے تھے دو تو اندھے تھے، ایک کو دکھائی کچھ نہیں دیتا تھا۔ جس سنار کو دکھائی کچھ نہیں دیتا تھا، اس نے سونے کی تین چوڑیاں بنائیں ان چوڑیوں میں سے تو تنگ تھیں ایک کلائی پر چڑھتی ہی نہیں تھی۔ جو چوڑی چڑھتی نہیں تھی، متھرو اسے خریدنا چاہتی تھی لیکن افسوس! گوپی خریدنے نہیں دیتا تھا!

یہ لوک کہانی میں نے بچپن میں اپنے والد کی نانی جان سے اور پھر اپنی دادی جان سے سنی اور بارہا سنی، میں اس وقت سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ کہانی میرا وطن بن جائے گی اور میں اس کہانی میں زندگی گزار رہا ہوں گا!

آج میرے وطن میں بھیڑیے اترے ہوئے ہیں۔ امریکہ کا بھیڑیا، وکی لیکس کا بھیڑیا، کرپشن کا بھیڑیا، مہنگائی کا بھیڑیا، دہشت گردی کا بھیڑیا، انتہا پسندی کا بھیڑیا۔ ہمارے دریا کچھ تو خشک ہو گئے ہیں اور کچھ میں پانی ہی نہیں۔ کل جب بصرہ اور بغداد پر گدھ منڈلاتے تھے تو شاعر پکار اٹھا تھا :

ہمارے گھر ہمارے بصرہ و بغداد دیکھو

ہیں گرنے کو ستارے بصرہ و بغداد دیکھو

زمیں اور آسماں اور لامکاں سب دم بخود تھے

فرشتے جب پکارے بصرہ و بغداد دیکھو

فرات اور دجلہ کا پانی کہانی کہہ رہا ہے

کہانی کے کنارے بصرہ و بغداد دیکھو

آج ہمارا اپنا ہر شہر بصرہ اور بغداد بنا ہوا ہے۔ مسجدیں شہید ہو رہی ہیں، خانقاہیں اور مزار کھنڈر بنائے جا رہے ہیں، بچے اور عورتیں بھونی جا رہی ہیں، بغیر پائلٹ کے جہاز ہماری سرحدوں سے در آتے ہیں اور تباہی پھیلا کر اطمینان سے واپس چلے جاتے ہیں اور ہماری پارلیمنٹ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق ”احتجاج“ کرتی ہے اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کیمطابق ”بھول جاتی ہے“۔ ہمارے سیاستدان کچھ تو کبڑے ہیں اور جنہیں ہم سیدھا سمجھتے تھے، وکی لیکس والے بتاتے ہیں کہ ان کی تو کمر ہی نہیں ہے، وہ تو امریکیوں کو قائل کرتے رہے ہیں کہ وہ امریکہ نواز ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنما مٹی کی ایسی ہانڈیاں ہیں جن کے پیندے ہی نہیں۔ یہ پرپیچ عمامے اور لمبی عبائیں امریکی سفیر کے آگے گڑگڑاتی رہیں کہ خدا کیلئے ہمیں وزارت عظمیٰ کی گدی پر بٹھاو اس لئے کہ ”پارلیمنٹ کے اکثر ارکان بکاو مال ہیں۔“ شاید شورش کاشمیری نے ایسے ہی ”رہنماوں“ کیلئے کہا تھا : ”جن کے دل خوف سے خالی ہیں بہ ایں ریشِ دراز! “
 عوام کچھ تو بھوکے ہیں اور کچھ کا پیٹ خالی ہے۔ آٹا اور چینی غائب کرنیوالے اونچے ایوانوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ کوئی کابینہ میں بیٹھا ہے اور کوئی پارلیمنٹ میں، ان کا ایک ایک سوٹ لاکھوں کا ہے، لوگ بھوکے مر رہے ہیں، پیاز کی قیمت سو روپے فی کلو ہے، دوسری طرف آٹھ آٹھ لاکھ پاونڈ کا ایک ایک موبائل ہے جس میں ہیرے جڑے ہوئے ہیں، خلق خدا گیس اور پٹرول کیلئے اور چینی اور گڑ کیلئے قطاروں میں کھڑی ہے اور مٹی کو سرمہ کہہ کر بیچنے والے دانشور انہیں تسلی دے رہے ہیں کہ یہ ملک رمضان کی ستائیسویں کو بنا تھا اس لئے سب کچھ برداشت کرو اور اف تک نہ کرو اور یہ تو بالکل نہ کہو کہ بھارت میں حاجیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، پاکستان کے حاجی اس کا سوچ بھی نہیں سکتے اس لئے کہ جس حاجی کے جسم پر صرف جانگیا اور بنیان رہ گئی ہے، وہ سوچنے کی تاب ہی کہاں لا سکتا ہے، یوں بھی ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ جب وہ ملتان کے علاقے میں تھا تو اسے صابونی حلوہ کھلایا گیا، ایک بات ابن بطوطہ لکھنا بھول گیا کہ اس علاقے میں لوگوں نے پگڑیاں باندھی ہوئی تھیں اور داڑھیاں سرخ کر کے صابونی حلوے کھایا کرتے تھے، ان کے جسموں سے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے کہ جس صابن کے ساتھ انہوں نے بنانا تھا، اسے بھی حلوہ سمجھ کر کھا رہے تھے۔ خزانے کے وزیر نے کئی بار بیانات دئیے ہیں جو بڑے لوگوں کیخلاف ہیں، لیکن کوئی ہے جو ان بڑے لوگوں سے ٹیکس وصول کرے؟ محلات کی کیا بات کرتے ہو، اب تو ان لوگوں نے اپنے الگ شہر بسا لئے ہیں، ایک ایک وزیر اعلیٰ نے چار چار رہائش گاہوں کو ”چیف منسٹر ہاوس“ قرار دیا ہوا ہے اور بات انقلاب کی کرتے ہیں۔ جیسے سننے والے بے وقوف ہی تو ہیں!
ہمارے کھوٹے سکے جانچ کون رہا ہے؟ غضب خدا کا! ایسے سنار، جو یا تو اندھے ہیں یا دیکھ ہی کچھ نہیں سکتے! یہ اندھے سنار طلائی چوڑیاں بنا رہے ہیں، خلقِ خدا تو یہ بھی کہتی ہے کہ سیروں اور منوں کے حساب سے سونا ملک سے باہر لے جایا گیا جب کہ کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرنیوالی عورتوں کی انگلیوں پر انگوٹھیاں ہیں نہ کلائیوں پر چوڑیاں اور دوسری طرف وہ بھی ہیں جو دوپہر کی باقر خانیوں کیلئے الگ باورچی رکھتے ہیں اور شام کے کھانے کیلئے الگ اور ناشتہ بنانے کیلئے الگ، وہ جب عوام کو دستر خوان پر بٹھاتے ہیں تو انکے سامنے ایسے چاول رکھتے ہیں جو یا تو کچے ہوتے ہیں یا گلے ہوئے نہیں ہوتے اور تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ باورچی رکھنے کیلئے واجد علی شاہ بدنام ہے! لیکن کیا آپ سامنے وہ اونچا میدان دیکھ رہے ہیں؟ دیکھئے، وہاں سے بھیڑیے اتر رہے ہیں!
 

powered by worldwanders.com