Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, October 29, 2020

ایک لیجنڈ جو ہمارے درمیان موجود ہے!



دارالحکومت کی جس بستی میں کالم نگار رہ رہا ہے اُس بستی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو شاعری کے حوالے سے دو بڑی شخصیتیںیہیں قیام فرما ہیں۔ افتخار عارف اور انور مسعود!

فارسی زبان و ادب کے توسط سے والد گرامی مرحوم کی بھی علیک سلیک جناب انور مسعود سے تھی۔ دونوں فارسی کے استادتھے۔ اس حقیر سے بھی انور مسعود شفقت سے پیش آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ نہ بھی متعارف ہوتے تو کالم نگار کے لیےیہی کافی تھا کہ اس نے انور مسعود کو دیکھا ہے، انہیں سنا ہے، ان کے پاس بیٹھا ہے اور ان کے عہد میں جی رہا ہے۔ المیہ یہ ہواکہ مشاعروں کے حوالے سے انور مسعود کی عالمگیر شہرت اور بے پناہ مقبولیت ان کی علمی حیثیت کو پس منظر میں لے گئی؛ تاہمان کی شاعری میں بھی علم ہے۔ ان کے بکھیرے ہوئے قہقہوں کے پیچھے آنسو تو ہیں ہی، مگر‘ جس طرح وہ زبان کو برتتے ہیں اورجس طرح الفاظ کی پرتیں کھولتے جاتے ہیں، اس سے ایک ایک مصرعے میں علم کا دروازہ کھلتا جاتا ہے اور ایک ایک شعر میںلغت کے عقدے وا ہوتے جاتے ہیں۔

ضمیر جعفری کے بعد، وہ اردو مزاح کے سب سے بڑے شاعر ہیں؛ تاہم الفاظ سے کھیلنے کا فن جو انور مسعود جانتے ہیں، ضمیر صاحبکی شاعری میں بھی نہیں ملتا۔ غزل کے بارے میں جب وہ کہتے ہیں کہ 'یوں بحر سے خارج ہے کہ خشکی پہ پڑی ہے، تو شعر کے بحرسے خشکی کا پہلو نکالنا انہی کا کمال ہے۔ ایک اور قطعے میں لغت کا کھیل دیکھیے:

اگر ہیں تیغ میں جوہر، جواہر میں خمیرے ہیں

ادھر زور آزمائی ہے ادھر طاقت کے نسخے ہیں

مطب میں اور میدان دغا میں فرق اتنا ہے

وہاں کُشتوں کے پُشتے ہیں یہاں پُشتوں کے کُشتے ہیں

تیغ میں انور مسعود نے جوہر دیکھا۔ جوہر سے جواہر اور جواہر سے خمیرہ گاؤ زبان عنبری جواہر والے تک پہنچے‘ مگر اصل گتکا جو وہ کھیلےہیں آگے ہے‘ میدان جنگ میں کشتوں کے پشتے لگتے ہیں‘ مگر حکیم صاحب کے مطب میں جو خاندانی کشتے ہیں وہ تو پشتوں کے کشتےہیںاپنی شہرۂ آفاق نظم ''تو کی جانیں بھولیے مَجھے انار کلی دیاں شاناں‘‘ میں جب وہ بھینس کو ہدایت کرتے ہیں کہ اب گُڑ کا شربتنہیں تو نے کولا پینا ہے تو نلکی (سٹراکے لیے جس طرح ''کانا‘‘ کا لفظ فِٹ کیا ہے، کمال کی زباندانی دکھائی ہے۔ع

بوتل دے نال منہ نہ لائیں، منہ وچ پا لے کانا

انور مسعود ایران میں تھے کہ کسی کھانے کی محفل میں ان پر دہی الٹ گیا۔ فوراً بولےاز ماست کہ بر ماست۔ ماست فارسی میںدہی کو کہتے ہیں، بر ماست کا مطلب ہے ''ہم پر ہے‘‘۔ جدہ میں مشاعرہ تھا۔ انور صاحب کی باری آئی تو کہایہ ایک اَن فراموشایبل (Un-framoshable) مشاعرہ ہے۔ انور مسعود کی یہ نکتہ آفرینی دیکھیے کہ وہ کہتے ہیںپانی کے حوالے سے جتنے الفاظ ہیں‘ ان میںسے اکثر ''نون‘‘ سے شروع ہوتے ہیں جیسے نل، نہر، نہانا، نم، ندی، ناؤ، نوکا، نالہ، نلکا، نیاگرا، نِیل، نچڑنا‘ نوش، نوشابہ۔

انور مسعود کو جو غیر معمولی پذیرائی پوری دنیا میں ملی ہے، شہرت کے جس آسمان پر وہ ہیں اور جو عالم ان کی مقبولیت کا ہے‘ اسمیں سارا عمل دخل، صرف نظر آنے والے عوامل کا نہیں، نظر نہ آنے والے اسباب کا بھی ہے۔ وہ پکے اور کٹر مسلمان ہیں۔اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہیں۔ ذکر، اذکار، اوراد و وظائف باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ ایک ان کا معمول تو اس بے بضاعت کو بھی معلومہے۔ سورہ مُلک کی ہر روز تلاوت کرتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کے خطاط ہیں۔ ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی سورہ مُلک دیکھی ہے۔ اپنےخیالات کے اظہار میں کبھی کوئی احساس کمتری آڑے آیا نہ کوئی مصلحتنہ وہ کبھی زمانے کی رَو میں بہے۔ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کےبارے میں جو بات انور مسعود نے کہی، شاید ہی کسی نے کہی ہو

عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی

کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے

سقوط ڈھاکہ کا نوحہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چُپ سی لگی ہے

اک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے

سچ یہ ہے کہ ان کی جن نظموں کو مزاح سمجھ کر سامعین اور قارئین حظ اٹھاتے ہیں اور ہنستے ہیں، وہ دراصل نوحے ہیں۔ ہماریپسماندگی کا اس سے زیادہ درد ناک نوحہ کیا ہو گا کہ

باندھی ہوئی ہے کَس کر تانگے سے چارپائی

اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی

ان کی نظم "''ہُن کی کرئیے‘‘ سیاسی بازی گروں کی ناکامی کا نوحہ ہے اور رلا دینے والا نوحہ ہے مگر خون جگر سے لکھے ہوئے اننوحوں کو پڑھتے ہوئے انور مسعود خود بھی ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں۔ یہی ان کے فن کا کمال ہے۔ پھر پڑھنے کا اورادائیگی کا اسلوب بھی قسّام ازل نے بطور خاص بخشا ہے۔ میں جب بھی ان کی نظم ''گل کسے کیتی سی‘‘ پڑھتا یا سنتا ہوں تو روناآتا ہے مگر کمالِ فن یہ ہے کہ اسے بھی انہوں نے مزاح میں ''شوگر کوٹ‘‘ کیا ہے۔ پنجابی سے نا واقف حضرات کے لیے کاش کوئیماہر فن اس نظم کا اردو اور انگریزی میں ترجمہ کر دے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس مضمون کی اور اس پائے کی نظم شاید دنیا کی کسیزبان میں نہیں ہو گی تو اس میں مبالغہ نہ ہو گا۔ یوں لگتا ہے لغت انور مسعود کے آگے دست بستہ کھڑی ہے، لفظ ان کے غلامہیں۔ عام سے لفظ کو استعمال کرتے ہیں تو وہی عام سا لفظ ہیرے کی طرح چمک اٹھتا ہے۔

اس کالم نگار نے تاریخ کے مطالعہ سے، تین تین مشاہیر کا کلاس فیلو ہونا نوٹ کیا ہے۔ عمر خیام، نظام الملک طوسی اور حسن بنصباح تینوں کلاس فیلو تھے۔ تینوں مشہور ہوئے۔ وجۂ شہرت ہر ایک کی الگ تھی۔ پھر مغل دور میں ملاّ عبدالحکیم سیالکوٹی، شیخاحمد سرہندی اور نواب سعداللہ خان کلاس فیلو تھے۔ تینوں مشہور ہوئے۔ ملا عبدالحکیم سیالکوٹی بہت بڑے عالم اور سکالر تھے۔شاہجہان نے دو بار چاندی میں تُلوایا۔ لاہور، آگرہ اور سیالکوٹ میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے سربراہ رہے۔ فاضل لاہوری اورآفتابِ پنجاب کے خطابات پائے۔ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق، مجددالف ثانی کا لقب انہیں مُلّا صاحب ہی نے دیا تھا۔ رہے، نواب سعداللہ خان، تو وہ شاہجہان کے عہد میں وزیر اعظم بنے۔ اسیتسلسل میں ہمارے عہد کے تین بڑے شاعر بھی کلاس فیلو ہیں۔ انور مسعود، خورشید رضوی اور اسلم انصاری۔ کلاس فیلو اسمعنی میں کہ ایک ہی سیشن میں یہ تینوں اورینٹل کالج کے طالب علم تھے۔ انور مسعود نے فارسی میں ایم اے کیا، خورشید رضوینے عربی میں اور اسلم انصاری نے اردو میں۔ خورشید رضوی شاعر ہونے کے علاوہ عربی ادب کے بلند پایہ ماہر اور محقق ہیں۔اسلم انصاری کمال کے شاعر اور مقرر ہیں۔ ہمارا دوست آفتاب احمد شاہ جب ڈی جی خان کا ڈپٹی کمشنر تھا تو اس کے دور میںڈی جی خان مشاعروں اور ادبی تقاریب کا مرکز تھا۔ وہیں ایک فنکشن میں اسلم انصاری کی تقریر سنی۔

انور مسعود قدیم اور جدید فارسی ادب، بالخصوص شاعری پر ماہرانہ دسترس رکھتے ہیں۔ اس موضوع پر ان کی کتاب بھی آ چکی ہے۔کاشہم جیسے فارسی کے عشاق باقاعدگی سے استفادہ کر سکتےیہ طالب علم جب انہیں ملتا ہے تو ان کے گھٹنے چُھوتا ہے۔ لوگہی کتنے رہ گئے ہیں جن کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے!



















Tuesday, October 27, 2020

تارکین ِوطن اور موجودہ حکومت

نیویارک سے لے کر پرتھ اور سڈنی تک تارکینِ وطن دوستوں سے جب بھی بات ہو تی ہے یہی تاثر ملتا ہے کہ تارکینِ وطن کی بھاری اکثریت موجودہ حکومت کے حوالے سے ابھی تک پر امید ہے۔ وہ کوتاہیاں تسلیم کرتے ہیں مگر ان کا مؤقف وہی ہے جو وزیر اعظم کا ہے یعنی وقت دیجیے۔ صبر کیجیے۔ کچھ یہ دلیل دیتے ہیں کہ وزیر اعظم کی ٹیم کا قصور ہے۔ کچھ بدستور گزشتہ حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ کورونا کی وبا حملہ آور نہ ہوتی تو معاملات بہت بہتر ہو چکے ہوتے۔ سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کالم نگار سمیت تمام لکھنے والے‘ تمام پڑھنے والے‘ بلکہ یوں کہیے کہ تمام پاکستانی‘تارکین وطن سے محبت کرتے ہیں ‘ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اور جغرافیائی دوری کے باوجود انہیں اپنے جسم کے حصے کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ وہ جہاں بھی ہیں پاکستان کے سفیر ہیں۔ دامے‘ درمے ‘ سخنے‘ جس طرح بھی ممکن ہو پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں۔اردو کی انہوں نے بستیاں بسائی ہوئی ہیں اور نامساعد حالات کے باوجود اپنی زبان اور اپنے کلچر کے ساتھ وابستہ رہنے کی پوری جدوجہد کر رہے ہیں۔ مگر یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں ‘ پاکستان سے باہر رہ رہے ہیں۔ وہ ساحل پر کھڑے ہیں۔ پاکستان کے اندر رہنے والے جس گرداب میں پھنسے ہیں ‘ جن طغیانیوں کا سامنا کر رہے ہیں اور جس المناک صورتحال سے دوچار ہیں اس کا صحیح ادراک ہزاروں میل دور رہ کر نہیں کیا سکتا۔ ٹیلی وژن دیکھ کر اور اخبارات کا مطالعہ کر کے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ اصل صورت احوال کا عشر عشیر بھی نہیں۔
دوسرا مسئلہ ہمارے تارکینِ وطن کے ساتھ یہ ہے کہ ان کا معیار دہرا ہے۔ جن ملکوں کو انہوں نے اپنے مستقل قیام کے لیے پسند کیا اور اپنا نیا وطن بنایا وہاں چیزوں کو اور پیمانے سے ماپتے ہیں اور پاکستان کے حالات کو دوسرے پیمانے سے۔ یوں ان کا سٹینڈرڈ ایک نہیں بلکہ ڈبل ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ جاپان‘ برطانیہ‘ ہسپانیہ اور دوسرے جمہوری ممالک میں سیاسی پارٹیاں خاندانی تسلط سے سو فیصد آزاد ہیں۔ مگر انہی ملکوں میں رہنے والے جو حضرات (ن) لیگ‘ (ق) لیگ اور پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں انہیں ان پارٹیوں کے اندر رچی ہوئی خاندانی آمریت کبھی بری نہیں لگتی۔ یہ حضرات ان پارٹیوں کے خاندانی مالکوں کی جس طرح پذیرائی کرتے ہیں ‘ جس طرح مدد کرتے ہیں ‘اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ وہ کبھی ان مالکوں سے مطالبہ نہیں کرتے کہ اپنی پارٹیوں کے اندر انتخابات کرائیں اور نسل در نسل چلتی ہوئی موروثی لیڈر شپ کو خیرباد کہیں۔
کچھ ایسا ہی معاملہ اُن تارکینِ وطن کے ساتھ ہے جو تحریک انصاف کے حامی ہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ تارکین وطن کی اکثریت موجودہ حکومت کی اب بھی حامی ہے۔ ایک تو حکومت کے اپنے لیڈر ‘ وزیر اور عمائدین ذہنی طورپر بدستور اسی مائنڈ سیٹ میں ہیں جس میں حکومت سنبھالنے سے پہلے تھے۔ وزیر اعظم کی تقریروں اور بیانات سے لگتا ہے کہ وہ اب بھی اپوزیشن ہی میں ہیں۔ دوسرے ان کے حامی تارکین وطن بھی شریفوں کی بد عنوانی کے علاوہ کوئی اور بات مشکل ہی سے کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی مالی بد عنوانیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ مگر یہ ہمارے پرابلم کا صرف ایک حصہ ہے۔ سارا زور اس پر لگانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپروچ منفی ہے۔ مثبت اپروچ ہوتی تو ان بدعنوانیوں کا معاملہ عدالتوں اور نیب پر چھوڑ کر حکومت آگے بڑھ چکی ہوتی مگر حکومت وہیں اٹکی ہوئی ہے جہاں اقتدار سنبھالنے سے پہلے تھی۔
تارکینِ وطن میں سے ہر شخص چاہتا ہے اور صدق ِدل سے چاہتا ہے کہ پاکستان میں بھی وہی اندازِ حکومت ہو جو ان کے نئے ملکوں میں ہے۔ کیا وہ سوچ سکتے ہیں کہ بزدار جیسے صاحب ویسٹرن آسٹریلیا‘ یا نیو ساؤتھ ویلز یا انٹاریو کے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟ کیا ان ملکوں میں یہ ممکن ہے کہ چینی راتوں رات پچاس روپے سے سو روپے کو جا لگے اور عوام کو صرف یہ بتایا جائے کہ برآمد کرنے کا فیصلہ جن اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا گیا تھا وہ غلط ہیں‘ مگر غلط اعداد و شمار دینے والے یوں محفوظ ہوں جیسے بتیس دانتوں میں زبان ؟ کیا ان ملکوں میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ہمیں گندم کی صورت حال کاپہلے معلوم ہی نہ تھا؟ کیا ان ملکوں میں بھی غیر منتخب خصوصی معاونوں کی تعداد درجنوں میں ہوتی ہے ؟ کیا ان ملکوں میں بھی پولیس کے سربراہ‘ چیف سیکرٹری‘ اور دیگر افسران ہر چند ہفتوں بعد بدل دیئے جاتے ہیں ؟ کیا ان ممالک میں بھی پولیس کے افسروں سے ایف آئی آر اسی طرح لکھوائی جاتی ہے ؟ کیا ان ملکوں میں بھی حکومت بدلتی ہے تو پچھلی حکومت کے شروع کیے ہوئے ترقیاتی کام ‘ جہاں ہیں جیسے ہیں ‘ کی بنیاد پر روک دیے جاتے ہیں ؟ کیا وہاں بھی بھاگے ہوئے شریفوں اور اسحاق ڈاروں کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے مگر بھاگے ہوئے جہانگیر ترینوں کا نام تک نہیں لیا جاتا؟ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پہلے بھی تو یہی کچھ ہورہا تھا۔ تو پھر اگر اب بھی یہی کچھ ہونا تھا تو تبدیلی کہاں گئی ؟
عمران خان صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے ہر بات پر‘ ہر تقریر میں ‘ مغربی ملکوں کی مثالیں دیتے تھے۔مگر عملاً وہی کچھ کر رہے ہیں جو اِن کے پیشرو کرتے رہے۔ وہی پارلیمنٹ سے بالا بالا آرڈنینسوں کا اجرا‘ وہی حکومت میں دوستوں کی شمولیت‘ وہی مفادات کا تصادم(Conflict of Interest)۔کیا بائیس کروڑ لوگوں میں صحت کا معاون خصوصی بنانے کے لیے شوکت خانم ہسپتال کے سربراہ کے علاوہ کوئی شخص اس قابل نہ تھا؟ پہلے امیدوں اور آدرشوں کو آسمان پر لے جایا گیا اور اس کے بعد بوتلوں میں وہی پہلے والا پانی نئے لیبلوں کے ساتھ دے دیا گیا کہ پیو مرو اور پچھلوں کو گالی دو۔ واہ جناب واہ !
ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرو۔ تارکینِ وطن خود تو جہاں رہتے ہیں وہاں شفافیت ہے‘ کابینہ منتخب افراد کی ہوتی ہے‘ وزرائے اعظم پارلیمنٹ میں ہر روز پیش ہوتے ہیں اور سوالوں کے جواب خود دیتے ہیں‘سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات ہوتے ہیں۔ تو پھر یہ سب کچھ یہاں کیوں نہ ہو ؟ تارکینِ وطن کو چاہیے کہ اپنی پسندیدہ حکومت سے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کریں۔ کتنی للکار تھی وزیر اعظم کے لہجے میں جب حکومت میں آنے سے پہلے انہوں نے بجلی کے بلوں میں 35 روپے پی ٹی وی کا ''جگا ٹیکس‘‘ ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ذرا وہ وڈیو کلپ سنیے۔'' میں پی ٹی وی کے ایم ڈی سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو شرم نہیں آتی ...‘‘۔
مگر ہوا کیا؟ اڑھائی سال ہونے کو ہیں یہ ایک معمولی سی تبدیلی بھی نہ لائی جا سکی۔ اپنا وعدہ‘ اپنی للکار‘ سب کچھ بھول گئے۔ کوئی ایک کام ہی انقلابی کر دیتے۔ پی آئی اے اور سٹیل مل کے سفید ہاتھیوں ہی کو پرائیویٹائز کر کے اربوں کھربوں کے مالی بوجھ سے قومی بجٹ کی جان چھڑا دیتے۔ ٹریفک ہی کو مہذب ملکوں کی طرح کر دیتے۔ کچہریوں میں جاری رشوت ہی کے خاتمے کے لیے کچھ کر دیتے۔ذرا مکان‘ جائداد‘ یا زرعی زمین کا انتقال رشوت کے بغیر کوئی مائی کا لال کرا دیکھے۔ یگانہ چنگیزی پھر یاد آگئے؎
شش جہت میں ہے ترے جلوۂ بے فیض کی دھوم
کان مجرم ہیں مگر آنکھ گنہگار نہیں

Monday, October 26, 2020

سر سید ایئر پورٹ اسلام آباد

راجہ ٹوڈر مل 1550ء میں پیدا ہوا۔ کچھ کہتے ہیں چونیاں ضلع لاہور کا تھا۔ کچھ اودھ کا بتاتے ہیں۔ یتیم تھا اور مفلس‘ مگر ٹیلنٹ اتنا تھا کہ اکبر اعظم نے اسے پوری سلطنت کا وزیر خزانہ مقرر کیا۔ اس سے پہلے شیر شاہ سوری نے روہتاس کے قلعے کی تعمیر کی نگرانی اسی کے سپرد کی تھی۔ جنگوں میں بھی بڑے بڑے معرکے سر کیے مگر اصل کارنامہ اس کا مالیات میں تھا۔ پٹواری سسٹم جو آج بھی جاری ہے، اسی نے شروع کیا۔ زرعی پیداوار کا سروے کیا۔ ٹیکس کی شرح مقرر کی۔ ماپ تول کے پیمانے فکس کیے۔ لگان کے حوالے سے صوبوں کو سرکار اور سرکار کو پرگنوں میں بانٹا۔ یہ سب اس کے کارنامے ہیں مگر ایک کارنامہ اس نے ہندوؤں کی ترقی کے لیے ایسا سرانجام دیا کہ اس کا ذکر بطور خاص لازم ہے۔
راجہ ٹوڈر مل جان گیا تھا کہ ترقی کا راستہ وقت کے ساتھ چلنے میں ہے نہ کہ رجعت پسندی میں۔ اس نے دھوتی اتار پھینکی اور وہی لباس اپنا لیا جو ترک امرا پہنتے تھے۔ وہ ایک مستقبل بین شخص تھا۔ اسے نظر آ رہا تھا کہ مغل حکومت جلد جانے والی نہیں۔ کاروبار مملکت کی زبان فارسی تھی۔ ہندو فارسی سے نا بلد تھے اور کتراتے بھی تھے۔ اس نے انہیں سمجھایا کہ ترقی کرنی ہے اور عہدے حاصل کرنے ہیں تو سرکاری زبان سیکھو تا کہ تورانی اور ایرانی امرا کے برابر بیٹھ سکو۔ شروع میں ہندوؤں میں اضطراب پیدا ہوا۔ مشکلات بھی پیش آئیں۔ مگر آخر کار اس کا نظریہ غالب آیا۔ ہندوؤں نے فارسی سیکھی اور حکومت میں دخیل ہوئے۔ وزیر بنے اور بیوروکریٹ بھی۔ ہندوؤں میں بڑے بڑے فارسی سکالر، مصنف، مترجم اور اساتذہ ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنے جدی پُشتی کتب خانے میں بہت سی ایسی کتابیں دیکھی ہیں جن کے مصنف ہندو تھے۔ انشائے مادھو رام کا نسخہ اب بھی ہمارے پاس ہے۔ ایک سکھ نے فارسی گرامر، فارسی نظم میں لکھی۔ اس کتاب کا نام، اگر ہمارا حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو 'جواہرالترکیب‘ تھا۔ اس کا ایک مصرع ابھی تک ذہن میں محفوظ ہے۔ این اشارہ بر قریب و آن اشارہ بر بعید۔
تین سو سال بعد انگریز حکومت نے فارسی کی صف لپیٹی۔ سرکار اور روزگار دونوں کی زبان انگریزی ہو گئی۔ مسلمان انگریزی سے اسی طرح الرجک تھے جیسے مغل دور کے اوائل میں ہندو، فارسی سے تھے۔ اس الرجی کے اسباب بہت سے تھے جن پر بحث کا یہاں موقع نہیں۔ ہندو پہلے بھی ایک اجنبی زبان (فارسی) سیکھ کر ترقی کر چکے تھے۔ غیر زبان سیکھنے کی صلاحیت ان میں موجود تھی؛ چنانچہ دھڑا دھڑ انگریزی سیکھنے لگ گئے۔ مائنڈ سیٹ کا بھی فرق تھا۔
1824ء میں جب انگریزی حکومت نے کلکتہ میں ہندوؤں کے لیے ایک سنسکرت کالج قائم کیا تو ہندوؤں نے عرض داشت پیش کی کہ ہمیں سنسکرت کی نہیں انگریزی تعلیم کی ضرورت ہے، حکومت اس کا بندوبست کرے۔ اس کے برعکس 1835ء میں مسلمانوں نے جو عرض داشت پیش کی اس کا لب لباب یہ تھا کہ انگریزی تعلیم سے سرکار ہمیں عیسائی بنانا چاہتی ہے۔ تعلیم میں مسلمان ہندوؤں سے بہت پیچھے تھے۔ 1875ء میں پورے ہندوستان میں سترہ مسلمان بی اے تھے اور تین ایم اے‘ جبکہ سات سو پندرہ ہندو بی اے تھے اور ایک سو اکتیس ایم اے۔
اس صورت احوال کو سر سید احمد خان نے بھانپ لیا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ انگریز جلد جانے والے نہیں اور اگر مسلمان ہمعصر تعلیم میں پیچھے رہ گئے تو انگریزوں کی غلامی تو ہے ہی، ہندوؤں کے بھی دست نگر ہو جائیں گے؛ چنانچہ انہوں نے علی گڑھ کالج قائم کیا اور مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کیا۔ اس راستے میں سر سید کو ناقابل یقین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کفر کے فتوے لگے۔ مسلسل پروپیگنڈا کیا گیا کہ وہ 'کرسٹان‘ ہو چکے ہیں‘ مگر سر سید اور ان کے ساتھیوں نے عزیمت دکھائی‘ گالیوں پر صبر کیا اور فتووں کو جھیلا۔ صرف انیس برس میں علی گڑھ کالج نے ایک سو چھبیس گریجوایٹ اور ایک سو چوہتر انڈر گریجوایٹ پیدا کیے۔ انیس مسلمانوں نے وکالت کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ سر سید کی دل سوزی اور تشویش کا اندازہ لگائیے کہ 1880ء میں لکھا: ہم نے سنا ہے کہ ہائی کورٹ کی وکالت کے امیدواروں کی فہرست میں ایک بھی مسلمان نہیں‘ یہ بھی سنا ہے کہ ایک لائق تحصیل دار، عالمِ علومِ مشرقی، کو امیدوارانِ ڈپٹی کلکٹر کی فہرست میں اس لیے جگہ نہیں مل سکی کہ وہ انگریزی نہیں جانتا تھا۔ تحریک پاکستان میں علی گڑھ یونیورسٹی نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ قائدِ اعظم نے اسے مسلم انڈیا کا اسلحہ خانہ قرار دیا تھا۔
اردو ادب کے حوالے سے بھی سر سید کا اپنا مقام ہے۔ اس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ قرآن پاک کی تفسیر میں ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے‘ مگر اس اختلاف سے ان کی دوسری خدمات پر پانی نہیں پھیرا جا سکتا۔
سر سید پہلے شخص تھے جنہوں نے کانگرس کے عزائم کو بھانپا۔ جب ہندو انجمنوں نے اردو رسم الخط کی مخالفت کی تو سر سید کو کھٹکا لگ گیا تھا‘ پھر بھی وہ اتحاد کے لیے کوشش کرتے رہے۔ علی گڑھ کالج میں ہندو طلبا کو بھی داخلہ لینے کی آزادی تھی۔ شروع کے بیس برسوں ہی میں دو سو ہندو طلبہ مختلف امتحان وہاں سے پاس کر چکے تھے مگر جلد ہی سر سید کو کھُل کر کہنا پڑا کہ کانگرس کے عزائم مسلمانوں کے لیے خطرناک ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ لیجسلیٹو کونسل (اُس وقت کی گویا اسمبلی) کے لیے اگر عام انتخابات منعقد کیے گئے تو کسی طرح مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں کے برابر نہیں ہو سکتی کیونکہ ہندوؤں کی تعداد بمقابلہ مسلمانوں کے چوگنی ہے۔ پس جو طریقہ انتخاب کا قرار دیا جائے گا‘ اس سے اگر ایک مسلمان ممبر ہو گا تو چار ہندو ہوں گے۔ 
غور کیجیے، کیا یہی دلیل بعد میں تحریک پاکستان کی بنیاد نہیں بنی؟ متحدہ ہندوستان میں ون پرسن ون ووٹ کا فارمولا مسلمانوں کے لیے سیاسی موت کا پیغام ہوتا۔ ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین اپنی کتاب ''حیات اقبال عہد بہ عہد‘‘ کے حصہ اول میں‘ جو اقبال اکادمی پاکستان لاہور نے 2015ء میں چھاپی، لکھتے ہیں: 29 دسمبر 1928ء کو دہلی میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا چار روزہ اجلاس سر آغا خان کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں نہرو رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ اقبال نے قرارداد کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ نصف صدی قبل سر سید احمد خان مرحوم نے مسلمانوں کے لیے جو راہ عمل قائم کی تھی وہی صحیح تھی۔ تلخ تجربوں کے بعد اب ہمیں اس راہ عمل کی اہمیت محسوس ہو رہی ہے۔ ہمیں اب علیحدہ طور پر ایک پولیٹیکل پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ 
پاکستان کے تین معمار ہیں۔ سر سید، قائد اعظم اور علامہ اقبال۔ ہندو اکثریت کے ظلم سے بچاؤ کی پہلی اینٹ سر سید نے رکھی تھی۔ کراچی ایئر پورٹ قائد اعظم کے نام پر ہے اور لاہور ایئر پورٹ اقبال کے نام پر! ہم تجویز کرتے ہیں کہ اسلام آباد ایئر پورٹ کا نام سر سید ایئر پورٹ رکھا جائے۔ ہمارے سیاستدانوں کی (کیا ماضی کے اور کیا حال کے) دُور کی نظر کمزور ہے۔ انہیں اداروں کے نام رکھتے وقت صرف اپنے قریبی رشتے دار دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر بھی کسی کے والد کے نام کی تختی لگ جائے، سر سید کی خدمات کا احساس اور شعور رکھنے والوں کو اس مطالبے کی حمایت کرنی چاہیے۔ کچھ لوگ سر سید کے مخالف بھی ہیں۔ بہت سے لوگ یہاں قائد اعظم کے بھی مخالف ہیں۔ مگر شورش کاشمیری نے کہا تھا:
شورش! ترے خلاف زمانہ ہوا تو کیا
کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں!

Thursday, October 22, 2020

آٹا گوندھنا ہے اور ہِلنا بھی نہیں

اس نے لبنان چھوڑا اور 2002ء میں جرمنی پہنچ گیا۔ اس وقت اس کی عمر بائیس برس تھی۔
اس نے میڈیکل میں داخلہ لے لیا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد وہ لبنان واپس نہ آیا‘ وہیں، جرمنی ہی کے ایک کلینک میں ملازمت شروع کر دی۔ 2012ء میں اسے جرمنی آئے ہوئے دس سال ہو چکے تھے۔ اس نے جرمنی کی شہریت کے لیے درخواست دائر کر دی۔ اگلے آٹھ سال مختلف مراحل طے کرنے میں گزر گئے۔ تمام مغربی ملکوں کی طرح جرمنی کی شہریت حاصل کرنے کے لیے بھی طویل عرصہ درکار ہے۔ کئی قسم کے ٹیسٹ ہوئے۔ ان ٹیسٹوں میں اس نے خاصے اچھے نمبر لیے۔ پھر جرمنی کے ساتھ وفا داری نبھانے کے حلف پر دستخط کیے۔ لکھ کر دیا کہ وہ انتہا پسندی کی مذمت کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، جب تمام مراحل طے ہو جاتے ہیں تو شہریت دینے کی ایک رسمی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ اس میں درخواست دہندگان کو اکٹھا بلا لیا جاتا ہے۔ اب ان سے زبانی حلف لیا جاتا ہے۔ سب اپنی اپنی مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھاتے ہیں کہ اپنے نئے ملک کے وفا دار رہیں گے۔ اس کے آئین اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جنگ میں بھی جانا پڑا تو جائیں گے۔ اس کی ثقافت، رسم و رواج وغیرہ کا احترام کریں گے؛ چنانچہ ایسی ہی ایک تقریب کا انعقاد ہوا۔ اسے بھی بلایا گیا کیونکہ اسے بھی شہریت ملنا تھی۔ اس نے باقی سب لوگوں کے ساتھ، آواز میں آواز ملا کر، وفاداری کا حلف اٹھایا۔ اب وہ ایک جرمن شہری تھا۔ بس اب ایک رسم رہ گئی تھی اور وہ تھی اسے شہریت کا سرٹیفکیٹ دینے کی۔ جس کا نام پکارا جاتا، سٹیج پر جاتا، خاتون افسر سے ہاتھ ملاتا اور سرٹیفکیٹ حاصل کرتا۔ اس کا نام پکارا گیا۔ وہ سٹیج پر پہنچا۔ خاتون افسر نے ہاتھ ملانے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا‘ مگر اس نے ہاتھ ملانے سے انکار دیا۔ خاتون افسر نے، جواباً سرٹیفکیٹ اسے نہ دیا اور اس کی شہریت کی درخواست رد کر دی۔ وجہ ہاتھ نہ ملانے کی لبنانی ڈاکٹر نے یہ بتائی کہ بیوی سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ کسی عورت سے ہاتھ نہیں ملائے گا۔
اس نے عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ اپیل میں ڈاکٹر نے یہ کہا کہ وہ تو کسی مرد سے بھی ہاتھ نہیں ملائے گا، گزشتہ ہفتے، جمعہ کے دن، یہ اپیل نا منظور کر دی گئی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہاتھ ملانا صدیوں پرانی روایت ہے۔ ملتے وقت اور جدا ہوتے وقت ہاتھ ملایا جاتا ہے مگر اس کے علاوہ ہاتھ ملانے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ فریقین نے معاہدہ قبول کر لیا ہے۔ خاتون افسر نے سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے ہاتھ ملانا چاہا تو اس کا یہی مطلب تھا۔ اس میں جنس یعنی مرد یا عورت ہونے کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ عدالت نے یہ بھی لکھا کہ عورت سے ہاتھ ملانے سے انکار، مساوات کے اُس تصور کی خلاف ورزی ہے جو جرمنی کے آئین میں درج ہے اور یہ جو اپیل کنندہ اب کہہ رہا ہے کہ وہ مرد و زن کی برابری پر یقین رکھتا ہے اور یہ کہ کسی مرد سے بھی ہاتھ نہیں ملائے گا تو یہ محض ایک حربہ اور چال ہے۔
لبنانی ڈاکٹر عدالت کے اس فیصلے کے خلاف جرمنی کی سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔ اپیل منظور ہو گی یا زیریں عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا جائے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا؛ تاہم یہ حقیقت ہے کہ مغربی ملکوں میں مستقل قیام کے خواہش مند بہت سے مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ذہن میں، خواہ وہ اوسط درجے ہی کا کیوں نہ ہو، کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ ڈاکٹر نے جب شہریت کی درخواست دی تو اسے جرمنی میں رہتے ہوئے دس سال ہو چکے تھے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہو چکا تھا کہ جرمنی کا کلچر کیا ہے۔ اگر اسے یہ کلچر نا منظور تھا تو اس کے باوجود اس نے یہاں کی شہریت کے لیے درخواست کیوں دی؟
2۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ کسی بھی عرب ملک میں آسانی کے ساتھ اچھی ملازمت حاصل کر سکتا تھا۔ مراکش سے لے کر مصر تک اور سعودیہ سے لے کر یو اے ای تک، ڈاکٹروں کی بہت ڈیمانڈ ہے اور ایک وسیع مارکیٹ۔ یہاں اس نے ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
3۔ اگر وہ اپنے نظریات پر اتنا ہی پختہ تھا تو اپیل میں موقف بدل کر ایسی کچی باتیں کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ میں مرد سے بھی ہاتھ نہیں ملاؤں گا؟ حیلوں بہانوں سے کام نکلا‘ نہ وقار رہا۔ کیا مناسب یہ نہ تھا کہ سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا تو اپنے موقف پر ڈٹ جاتا یا پھر جرمنی کو خیر باد ہی کہہ دیتا؟
نہیں معلوم ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟ مگر اس لبنانی مسلمان ڈاکٹر سے زیادہ ثابت قدم تو آئرلینڈ کا شخص نکلا جس کا نام بلی اوشی ہے۔ اس نے ڈنمارک میں 37 سال رہنے کے بعد شہریت کی درخواست دی۔ یہاں بھی تقریب میں کوپن ہیگن کے میئر کے ساتھ ہاتھ ملانا لازمی تھا۔ بلی اوشی نے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا اور پھر اپنے موقف پر ڈٹ گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں مرد و زن سب سے ہاتھ ملاتا ہوں مگر آپ مجھے ہاتھ ملانے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ یہ میری آزادی پر حملہ ہے۔ اس نے عدالتوں میں اور پھر پارلیمانی کمیٹی میں بھی یہی موقف اختیار کیا اور ببانگ دہل کہا کہ یہ قانون غلط ہے۔ ہم مسلمان عجیب مخمصے کا شکار ہیں۔ آٹا بھی گوندھنا ہے اور ہِلنا بھی نہیں! ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، جرمنی اور کئی دوسرے یورپی ملکوں نے اپنی پالیسیوں کا واضح اعلان کیا ہوا ہے۔ ایک کٹر مسلمان کے نقطہ نظر سے یہ معاشرے رہنے کے قابل نہیں‘ مگر ہم لوگ ان معاشروں کے فوائد حاصل کرنے کے لیے وہاں رہنے پر بضد ہیں۔ یہ فوائد، جن میں ملازمت، سیاسی آزادی، بنیادی حقوق کی گارنٹی، اعلیٰ مناصب پر پہنچنے کے مواقع اور وسیع کاروبار کے امکانات شامل ہیں، پچپن مسلمان ملکوں میں سے کسی ایک ملک میں بھی حاصل نہیں۔ ہم اپنے ملکوں کو یورپی ممالک کی سطح پر لانے کی کوشش تو کرتے نہیں۔ ہاں ساری صلاحیتیں مغربی ملکوں میں آباد ہونے کی جدوجہد پر صرف کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف یہ ممالک مسلمانوں کے لیے شہریت کی شرائط سخت سے سخت تر کرتے جا رہے ہیں۔ جرمنی ہی کی ایک جنوبی ریاست نے مسلمانوں کے لیے تیس سوالوں پر مشتمل ایک خاص مرحلہ لازمی قرار دیا ہے جس سے شہریت کے امیدواروں کو گزرنا ہو گا۔ اس میں ہم جنسیت سے لے کر زبردستی کی شادی تک، کئی قسم کے سوال پوچھے جائیں گے۔ ریاست کی وزارت داخلہ کا موقف یہ ہے کہ صرف ان مسلمانوں کو شہریت دی جائے گی جو جرمنی کی اقدار کو دل سے قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جرمنی ہی کے شہر فریل برگ میں واقع اسلامی مرکز میں دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے ناظم عبدالحکیم آرغی صاحب کا کہنا ہے کہ عورتوں سے ہاتھ نہ ملانے کا کوئی مذہبی جواز موجود نہیں۔ قرآن پاک میں، بقول ان کے، اجنبی عورتوں سے ہاتھ ملانے کی ممانعت کا کہیں ذکر نہیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو مغرب میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ مگر اس رائے سے ہم سب کا متفق ہونا مشکل ہو گا۔ ان جھمیلوں میں پڑنے سے بہتر ہے کہ ہم سہولتوں کے اعتبار سے اپنے ملکوں کو مغربی ملکوں کے معیار پر لائیں اور وہاں جا کر تنازع کھڑے کرنے کے بجائے اپنے ہی معاشروں میں زندگی گزاریں۔

 

powered by worldwanders.com