Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, October 29, 2009

نئے کسریٰ


کوئی ایک مصیبت اس قوم پر ہوتی تو اس کا علاج بھی ممکن ہوتا‘ یہاں تو پے درپے مصیبتیں ہیں ڈھانچہ ایک ہے اور اس کو بھنبھوڑنے والے زیادہ ہیں۔ صرف وہ تو نہیں جو پنجوں سے نوچ رہے ہیں۔ وہ بھی ہیں جن کے دانت نوکیلے لمبے اور تیز ہیں۔ وہ تو ہڈیاں تک چبا رہے ہیں۔ وہ بھی ہیں جن کی چونچیں کدالوں جیسی ہیں۔ ان میں سے ایسا کوئی بھی نہیں جسے دیکھ کر عفریت کانوں کو ہاتھ نہ لگائیں۔

اس قوم پر کوئی ایک مصیبت تو نہیں! ابھی تو ملک بنا بھی نہیں تھا کہ یونینسٹ پارٹی کی شکل میں جاگیردار چھری کانٹے لے کر انتظار میں کھڑے ہو گئے۔ کیا ہی نامبارک گھڑی تھی جس وقت ٹوڈیوں کے اس گروہ کو مسلم لیگ میں آنے دیا گیا!کاش ایسا نہ ہوتا! یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی عرضداشت ملکہ برطانیہ کو پیش کی تھی کہ برصغیر سے انگریز نہ جائے۔ یہ عید کے دن انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی پر مبارکباد دینے جاتے تھے۔ گھنٹوں کھڑے رہتے چپڑاسی آ کر بتاتا تھا کہ صاحب بہادر نے مبارک باد قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ غیرت مند ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے گلے ملتے تھے۔ تاریخ کو ابھی تک یاد ہے کہ اپنے ہم وطنوں سے فرعونوں کا سلوک کرنے والی یہ گاجر مولیاں جب انگریز حاکم کو سلام کرنے کیلئے جھکتی تھیں تو ان کی پشت سے کپڑا اٹھ جاتا تھا اور ان کی سرینیں برہنہ ہو جاتی تھیں!
پھر جرنیل آ گئے اور حکومت ملی تو وہ سب کچھ کیا جو نودولتیے کرتے ہیں۔ آج ان کی نسلیں جب اپنے آپ کو اقتدار کیلئے پیش کرتی ہیں تو لوگ کس قدر نفرت کرتے ہیں‘ اس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتیں اور عوام کی سب سے بڑی بدبختی یہی ہے کہ ان کی نفرت فیصلے کرانے میں کوئی کردار نہیں ادا کر رہی!
پھر افسرشاہی نے کھلبلی مچا دی یہی دارالحکومت تھا جس میں نوکرشاہی کے ایک نمائندے نے بیٹی کو شادی پر سونے کا جوتا پہنایا۔ کسی کے پاس چونسٹھ پلاٹ‘ کسی کے پاس بیس بنگلے اور کسی کے پاس بیرون ملک بنکوں میں ان گنت ڈالر‘ کیا اس سے بڑا مذاق بھی ہو سکتا ہے کہ فوجی آمروں کے دستِ راست رہنے والے‘ ان کی خفیہ ایجنسیاں چلانے والے اور انکے اقتدار کو طول دینے کیلئے سب کچھ کر گزرنے والے آج وعظ نما مضامین لکھ رہے ہیں اور لکھے جا رہے ہیں۔ اس قوم پر کوئی ایک مصیبت تو نہیں!
لیکن یہ ساری مصیبتیں تو پرانی ہیں خلق خدا ان کی عادی ہو چکی ان میں سے کچھ ٹل رہی ہیں اور کچھ انشاء اللہ دور ہو جائیں گی لیکن قوم پر اب جو نئی مصیبت ٹاک شو منعقد کرنے والے میزبانوں 
(ANCHOR-PERSONS) 
اور بزعمِ خود تجزیے پیش کرنے والے بزرجمہروں کی شکل میں نازل ہوئی ہے اس نے عذاب کی دوسری شکلوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے!
اس میں کوئی شک نہیں کہ کالم نگاروں سے بھی پڑھنے والے تنگ آ گئے ہیں لیکن کالم نگار اپنے آپ کو مسلط نہیں کرتے کوئی چاہے تو انہیں پڑھے‘ چاہے تو چھوڑ دے پھر کالم نگار تو اپنا نکتۂ نظر بہت باعزت طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ وہ مجمع لگاتے ہیں نہ اپنی پسند کے ان لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر لوگوں کا دل کرتا ہے کہ ٹیلی ویژنوں کی سکرینیں پتھروں سے ریزہ ریزہ کر دیں۔ کالم نگار تو ایک معصوم بے ضرر مخلوق ہے اور اپنی طرف سے خیر کا اہتمام کرتی ہے۔
لیکن اس پروردگار کی قسم! جس نے اپنی کتاب میں اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ایسی ایسی تخلیقات کریگا جنہیں تم نہیں جانتے! تو کسی کو کیا خبر تھی کہ اس مغضوب اور مقہور سرزمین پر جو پہلے ہی مصیبتوں میں گلے گلے تک دھنسی ہوئی ہے۔ ٹاک شو کے میزبان لوگوں کی گردنوں پر نہ صرف خود سوار ہونگے بلکہ اپنے پسندیدہ سیاست دانوں‘ پسندیدہ تجزیہ کاروں اور پسندیدہ جہلا کو بھی مسلط کریں گے۔ ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جنہیں خدا جھوٹ نہ بلوائے اردو پڑھنا تک نہیں آتی۔ افسوس! یہ کتنی خوفناک حقیقت ہے کہ سیٹھ جب ٹیلی ویژن چینلوں کے مالک بنتے ہیں تو انکے ٹیلی ویژن شعبدہ بازوں کی تحویل میں آ جاتے ہیں۔
کیا اس سے بڑا ظلم بھی اس ملک کے باشندوں پر ہو سکتا ہے کہ جن نام نہاد سیاسی رہنماؤں کو انہوں نے اپنے ووٹ کی طاقت سے گھروں میں واپس بھیج دیا یہ ٹاک شو ان مسخروں کو نہ صرف اہتمام سے بلکہ التزام سے بلاتے ہیں اور سننے والوں کو اذیت پہنچاتے ہیں پھر ہر میزبان اور نام نہاد تجزیہ کار کے چند پسندیدہ صحافی اور مخصوص ’’مبصر‘‘ ہیں۔ جن کی شکلوں سے آنکھیں اکتا چکی ہیں‘ جن کی آوازوں سے کانوں کے پردے پھٹنے کے قریب ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جب انہیں نہ بلایا جاتا ہو اور ان کی مضحکہ خیز آرا نہ سنائی جاتی ہوں۔
اور ان کا تکبر! خدا کی قسم! یہ اپنے آپکو قیصر و کسریٰ سے کم نہیں سمجھتے۔ میڈیا کی طاقت نے انکے نتھنے پھلا دیئے ہیں۔ انکے سینے تن گئے ہیں اور انکی گردنیں اس فولادی سریے میں پروئی گئی ہیں جو جہالت کی بھٹی میں تیار ہوتا ہے۔ معصوم سادہ لوح عوام میں سے کچھ اپنے مسائل کے حل کیلئے انہیں ملنے کی کوشش کرتے ہیں اور ذلتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اس میں ایک رمق بھر مبالغہ نہیں کہ یہ میزبان خلقِ خدا کو ملتے ہیں نہ ان کی بات سنتے ہیں۔ ان کی دل آویز مسکراہٹیں صرف پردۂ سیمیں کیلئے ہیں۔ وہ احمق جو ان کے ’’فین‘‘ بن کر ان کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ان کیلئے انکی تنگ پیشانیوں پر شکنوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کا تو اپنا اپنا ایجنڈا ہے اور یہ تو اپنے اپنے گروہ کو نمایاں کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔ انکی پیشہ وارانہ زندگی کی معراج تو انکے نزدیک یہ ہے کہ یہ اقتدار کی غلام گردشوں میں عمائدین کے کندھوں سے کندھے رگڑیں‘ انکے ساتھ جہازوں میں ہوٹے لیں اور پوری دنیا میں گھومتے پھریں۔
سیاست دان تو عوام کی عدالت میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ ان کا حساب بھی ہوتا ہے اور مواخذہ بھی! انہیں سزائیں بھی ملتی ہیں لیکن میڈیا پر حکومت کرنے والوں کیلئے کوئی نیب ہے نہ ایبڈو! کوئی حساب ہے نہ کتاب! احتساب کرنیوالے ان سے خائف ہیں یا مرعوب! یہ چاہیں تو کسی کے عیب اتنے اچھالیں کہ اسکی نیکیاں دب جائیں اور چاہیں تو مجرموں کے چہروں پر اتنا میک اپ کر کے ناظرین کے سامنے لائیں کہ انکے ڈھیروں گناہ چھپ جائیں!
میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔ دارالحکومت کے ہوٹل میریٹ کی لابی میں‘ میں چند دوستوں کیساتھ بیٹھا تھا۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ ایک ٹاک شو کا میزبان باہر سے آیا اور کافی دیر (شاید کسی کے انتظار میں) کھڑا رہا۔ ظاہر ہے اس کا چہرہ کسی کیلئے بھی اجنبی نہیں تھا۔ گزرنے والے اسے ملتے تھے۔ کیا استکبار تھا اسکی گردن میں! وہ یوں ہاتھ ملاتا تھا جیسے وہ بادلوں کے اوپر ہو اور ملنے والے تحت الثریٰ میں!
لیکن قدرت نے

 EXPOSE
کرنا ہو تو پل بھر میں سب کچھ ہو جاتا ہے۔ مبلغِ علم کی حالت یہ ہے کہ چند روز پہلے اس قبیلے کے ایک سرکردہ رکن سورت الشعرا کو اشعر کہہ رہے تھے اور بچے بھی سن کر ’’علم‘‘ کی داد دے رہے تھے۔
اقبالؒ نے ضربِ کلیم میں ایک دلچسپ نظم لکھی ہے ۔ بہائی مذہب کا بانی محمد علی باب قرآن غلط پڑھتا تھا …؎
تھی خوب حضورِ علما باب کی تقریر
بے چارہ غلط پڑھتا تھا اعرابِ سمٰوٰت
اس کی غلطی پر علما تھے متبسم
بولا تمہیں معلوم نہیں میرے مقامات
اب میری امامت کے تصدق میں ہیں آزاد
محبوس تھے اعراب میں قرآن کے آیات
الیکٹرانک میڈیا کے قیصر و کسریٰ قرآنی آیات کو تلفظ کی قید سے آزاد کر رہے ہیں!!

Tuesday, October 27, 2009

’’وڈیروں سے وردی تک‘‘


مجھے جب اس تقریب کے منتظم اعلیٰ جناب سعید اختر ملک نے شرکت کا حکم دیا تو میں اپنی جھونپڑی کے سامنے زمین پر بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔ میں نے اپنی سی کوشش کی کہ مجھے کچھ نہ کہا جائے لیکن ملک صاحب نہ مانے۔ مجھے یہ بتانے بلکہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ میں ایک اُجڈ اور منہ پھٹ دیہاتی ہوں۔ مجھے جہاں کئی اور عوارض لاحق ہیں، دو تکلیفیں، خاص طور پر دوسروں کیلئے، تکلف دہ ہیں۔ ایک یہ کہ میرا تعلق اٹک سے ہے اور دوسرے میں اعوان ہوں۔ اٹک جسے وڈیروں نے نقصان پہنچایا اور وردی نے فائدہ کوئی نہیں دیا۔ ہاں یہ ضر ور ہے کہ اٹک کے علاقے نے فوج کو جوان بہت دیئے اور بہادر جوان دیئے۔ مجھے یاد ہے میں کالج پڑھتا تھا جب 1965ء کی جنگ چھڑی اور میں نے سنا کہ گائوں کا ایک جوان جو کمانڈو تھا مہم پر دشمن کے علاقے میں اُترا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔ یہ وہی گائوں ہے جس نے کچھ عرصہ ہوا خادمِ پنجاب کی خدمت میں پریس کے ذریعے فریاد کی ہے کہ ڈسپنسری منظور ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ایک پتّہ بھی نہیں ہلا۔ ابھی تک یہ فریاد سُنی نہیں گئی۔ حالانکہ گائوں والے یہ یقین دلانے کیلئے تیار ہیں کہ اگر یہ ڈسپنسری بن گئی تو طبّی معائنے کیلئے کسی وزیر یا وزیراعلیٰ کو اس ڈسپنسری میں آنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ یہ حضرات حسب سابق… بدستور… تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد طبّی معائنے کیلئے لندن تشریف لے جاسکتے ہیں۔


اٹک سے میرا ہونا اس لئے بھی باعثِ اعزاز ہے کہ جناب شوکت عزیز قومی اسمبلی میں میرے ایم این اے تھے۔ حالانکہ میرے ضلع سے اُن کا تعلق اتنا ہی تھا جتنا پاکستان سے تھا۔ مشہور فارسی شاعر انوری بازار سے گزرا تو چوک پر مجمع لگا تھا اور ایک شاعر شعر سنا رہا تھا۔ انوری نے غور سے سنا تو یہ اُس کے اشعار تھے۔ اُس نے چور شاعر سے کہا کہ یہ تو انوری کے شعر ہیں۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ انوری کے شعر ہیں۔ انوری نے پوچھا کہ پھر تم کیوں سنا رہے ہو؟ چور شاعر بولا کہ میں ہی تو انوری ہوں۔ انوری نے کہا کہ شعر چوری ہوتے تو سنے تھے، شاعر چوری ہوتے پہلی بار سنا ہے۔ اس ملک میں جعلی ڈومی سائل، جعلی پاسپورٹ، جعلی ڈگریاں، جعلی دوائیں، جعلی عدلیہ تو بنتی رہی، جعلی ایم این اے بھی بھگتنا پڑا۔ عائشہ مسعود نے شوکت عزیز صاحب کو MERMAID وزیراعظم کا خطاب دیا ہے۔ مرمیڈ جل پری کو کہتے ہیں جس کا اوپر کا دھڑ انسانی اور نیچے کا مچھلی کا ہوتا ہے۔عائشہ کہتی ہیں کہ ان کا دماغ امریکی تھا اور جسم پاکستانی، مجھے نہیں معلوم اس پر امریکیوں کا ردعمل کیا ہوگا لیکن یہ کالم نگار انہیں پلاسٹک کا وزیراعظم کہا کرتا ہے۔ اُن کے جلسے میں بم پھٹا تو انہوں نے اٹک کی روایتی بہادری کی ’’لاج‘‘ رکھتے ہوئے وزیراعظم ہائوس سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اسلام آباد کی مضافاتی بستی بارہ کہو میں سوئی گیس کا افتتاح موصوف نے اپنے محل میں کیا۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ بارہ کہو میں آج تک سوئی گیس نہیں آئی!

میں نے کہا تھا کہ مجھے دوعارضے لاحق ہیں۔ ایک کا بیان ہو چکا۔ دوسرے کا قصہ یہ ہے کہ اعوان کی دو نشانیاں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ بُھکّا ہوتا ہے (امیر اعوانوں سے معذرت کیساتھ) دوسری یہ کہ آکڑا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن یہ ماضی کا قصہ ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اعوان کا لفظ اعانت اور تعاون سے بنا ہے۔ جب سے ایک سابق صدر نے ایک ٹیلی فون کال پر سب کچھ نچھاور کر دینے کا فیصلہ کیا تو پوری قوم ہی تعاون کرنے والی یعنی اعوان بن گئی۔ پھر اب تو ہم بھُکّے بھی نہیں رہے۔ آکڑ ختم ہو جائے تو کھانے کیلئے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ ہم نے اپنے بندے تک پکڑ پکڑ کر بیچے۔ جو تھوڑی بہت کمی رہ گئی تھی وہ ایمان اور غیرت بیچ کر پوری کردی۔ محبوب خزاں یاد آگئے…؎

کچھ لوگ جی رہے ہیں شرافت کو بیچ کر

تھوڑی بہت اُنہی سے شرافت خریدئیے

یہاں شرافت کی جگہ غیرت پڑھیے۔ اس سے شعر کا وزن تو خراب ہوگا لیکن کوئی مضائقہ نہیں۔ بطورِ قوم ہمارا وزن یوں بھی کم ہو چکا ہے!

سعید اختر ملک نہ مانے اور میں اس بزم میںحاضر ہونے کیلئے تیار ہوگیا۔ لیکن کل صبح ایک اور سیاپا پڑگیا۔ مجھے دورے پڑنے لگ گئے۔ یہ دورے غشی کے نہیں بلکہ ہنسی کے تھے۔ میں نے ہنسنا شروع کردیا۔ یوں کہ ہنسی بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑنے لگے۔ کمر دُہری ہونے لگی اور آنکھیں اُبل کر باہر آنے لگیں۔ بیگم کسی بدحواسی کے بغیر… نہایت اطمینان کے ساتھ… ڈاکٹر کے پاس لے گئی اور کہا کہ ’’اس بار دورہ ہنسی کا ہے‘‘۔ ٹیسٹ، ایکس رے، الٹرا سائونڈ، سی ٹی سکین اور نہ جانے کیا کیا ہوا (کافر فرنگیوں نے بھی کیا کیا آلات ایجاد کئے ہیں) بالآخر تشخیص ہوئی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ صبح صبح میں نے جناب وزیراعظم کا بیان پڑھا جس میں انہوں نے اعلان فرمایا کہ ’’سرمایہ کاری کے ذریعے ہی دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹا جاسکتا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بات سرمایہ کاری بورڈ سے خطاب کرتے ہوئے فرمائی۔ ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق ہنسنے کی وجہ بیان کا وہ حصہ ہے جس میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان نہ صرف غذائی اشیا میں خودکفیل ہوگا بلکہ زرعی مصنوعات کی برآمد کیلئے علاقائی مرکز کے طور پر ابھرے گا۔ اب پتہ نہیں کہ چینی اور آٹا غذائی اشیا میں شامل ہیں یا نہیں۔ لیکن میرا ڈاکٹروں کی تشخیص سے اختلاف تھا۔

میرا خیال ہے کہ مجھے ہنسی کے دورے اس لئے پڑے کہ وزیراعظم نے سرمایہ کاری بورڈ میں تقریر کی اور کہا کہ سرمایہ کاری کے ذریعے ہی دہشت گردی سے نمٹا جاسکتا ہے۔ یہ تو اتفاق ہے کہ دہشت گردی کے زمانے ہی میں اُنہیں سرمایہ کاری بورڈ میں تقریر کرنا پڑی۔ ورنہ یہ تقریر اگر وہ وزارت صحت میں کرتے تو بیان یہ ہوتا کہ صحت کے ذریعے ہی دہشت گردی سے نمٹا جاسکتا ہے۔ یا اگر یہ تقریر ٹکسال میں کی جاتی جہاں پیسے بنتے ہیں تو یہ کہا جاتا کہ پیسے بنانے سے ہی دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹا جاسکتا ہے! بہر طور میں نے دوا کھائی اور یہاں حاضر ہونے کے قابل ہوگیا۔

اس تمہید کے بعد میں اب اس کتاب کی طرف آتاہوں جس کی پذیرائی میں اس خوبصورت اور متین تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ عائشہ مسعود کی تحریر میں ادبی حُسن تو ہے ہی، جو پہلو چونکاتا ہے وہ موضوعات کا تنوع ہے۔ اندرونی مسائل سے لے کر بیرون ملک پاکستانیوںکی قدرو قیمت تک اور شاہ ایران کے جنازے سے لے کر غریب قوموں کی خود مختاری کی تدفین تک۔ عائشہ نے بے شمارموضو عات پر قلم اٹھایا ہے اور موضوع پر اس کی قوت تحریر اور معلومات متاثر کرتی ہیں۔ لیکن خواتین و حضرات! مجھے افسوس ہے کہ جیسے میں اوپر عرض کر چکا ہوں میں ایک اجڈ اور منہ پھٹ انسان ہوں بلکہ سچ پوچھئے تو میں طوطا چشم بھی واقع ہوا ہوں۔ قابل احترام مصنفہ نے مجھے اس بزم میں بُلا کر میری عزت افزائی کی لیکن میں اب پینترا بدل کر اُس کیخلاف ہونے لگا ہوں‘حالانکہ نہ وہ اقتدار سے محروم ہو رہی ہے اور نہ میں پاکستانی سیاست دان ہوں!

اس کتاب میں کچھ حساس قومی رازوں کو فاش کرنے کا جرم کیا گیا ہے۔ متعلقہ محکموں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ مثلاً عائشہ لکھتی ہیں…’’جب بھٹو نے ضیاء الحق کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا تو ضیاء الحق سے زیادہ سینئر افسران اس عہدے کیلئے موجود تھے۔ چنانچہ ضیاء الحق کے عہدہ سنبھالتے ہی پانچ جرنیلوں نے استعفے دے دیئے۔‘‘ اصل میں مصنفہ جس راز سے پردہ اٹھانا چاہتی ہیں وہ یہ ہے کہ جب جنرل مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا تو یہ فیصلہ مکمل ’’میرٹ‘‘ پر کیا گیا تھا!

ایک اورجگہ لکھتی ہیں…’’بنو عباس کی خلافت کے دوران ترک جرنیل اس قدر طاقت پکڑ گئے کہ عملاً خلیفہ گر بن گئے۔ جسے چاہتے خلیفہ بناتے اور جب چاہتے معزول کردیتے۔ جب ایک بار نیا خلیفہ مسند نشین ہوا تو اس کے درباریوں نے جوتشیوں سے پوچھا کہ بتائو نیا خلیفہ کب تک برسراقتدار رہے گا؟ ایک مسخرا بھی وہاں موجود تھا کہنے لگا مجھے اس کا جواب جوتشیوں سے بہتر معلوم ہے۔ اس کی خلافت اُس وقت تک برقرار رہے گی جب تک جرنیل چاہیں گے‘‘

آپ کا کیا خیال ہے یہاں کون سا قومی راز فاش کیا گیا ہے؟ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ واقعی اشارہ جرنیلوں کی طرف ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ آپ یہ بھُول رہے ہیں کہ بنو عباس کے زمانے میں تو امریکہ دریافت ہی نہیں ہوا تھا!!

عائشہ مسعود ملک کی کتاب ’’وڈیروں سے وردی تک‘‘ کی افتتاحی تقریب میں پڑھا گیا)

Thursday, October 22, 2009

طِبّی معائنے کیلئے سات سمندر پار


جس بچے سے ہم نے ابن بطوطہ کے مزار کا پتہ پوچھا وہ ہمیں ساتھ لے کر چلنا شروع ہوگیا لیکن یوں لگتا تھا زمانہ بھی اور ہے اور جہان بھی دوسرا ہے۔ عجیب و غریب طلسماتی کوچے ایک دوسرے کے اندر سے نکلتے اور ایک دوسرے کے اندر ہی گُم ہو جاتے۔ کہیں سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیںاور کہیں اُوپر۔سینکڑوں سال پہلے تعمیر کی گئی یہ گلیاں عجیب ڈیزائن اور نقشے کی تھیں۔ ہوا بھی تھی اور دھوپ بھی،  کئی منزلہ گھر، قدیم دروازے جو خوبصورت بھی تھے اور پُراسرار بھی، اور کم سن گائیڈ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ شک ہوا کہ نہ جانے اسے مزار کے بارے میں معلوم بھی ہے یا نہیں، لیکن پوچھنے پر اُس کی خوداعتمادی میں کوئی کمی نہ آئی۔ آخر کار ایک گلی میں جو نشیب سے بلندی کی طرف جا رہی تھی، وہ رُکا اور بائیں طرف واقع ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا جو افسوس! مقفل تھا۔ اور جس شخص کے پاس مزارکے بند دروازے کی چابی تھی وہ شہر کے جدید حصے کی طرف گیا ہوا تھا اور کئی گھنٹوں بعد اُس نے لوٹنا تھا۔ دس بارہ سالہ عرب لڑکی جس کا نام سبرین تھا اور جو مسلسل میری گھر والی کے ساتھ اچھی خاصی انگریزی میں گفتگو کر رہی تھی خوش تھی، چاہتی تھی کہ ہم اس کے گھر جائیں اور کبھی واپس نہ ہوں۔
ہم نے مزار کے مقفل دروازے کو آنکھ بھر کر دیکھا، اُس کی تصویریں اتاریں اور رخصت ہوئے لیکن میں سوچ رہا تھا کہ سری لنکا سے دہلی تک اور ملتان سے سراندیپ تک اور جنوبی ہند کے جنگلوں سے چین تک سفر کرنے والے ابن بطوطہ کو موت آئی تو اپنی گلی میں۔ خورشید رضوی کا شعر یاد آگیا…؎



آخر کو ہنس پڑیں گے کسی ایک بات پر


رونا تمام عمر کا بیکار جائے گا!


مجھے ابن بطوطہ کا سفر نامہ یاد آرہاتھا۔ ملتان سے دلی جاتے ہوئے اُس نے دیکھا کہ زندہ شخص کی کھال اتاری جا رہی تھی۔ محمد تغلق کا زمانہ تھا۔ منظر بیان کرتے ہوئے ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ ملزم کو اُوندھا لٹایا جاتا تھا اور منہ والی جگہ پر چھوٹا سا گڑھا کھودا جاتا تھا تاکہ وہ سانس لے سکے۔ جب کھال اتاری جا رہی تھی تو ملزم بار بار کھال اتارنے والے جلاد سے چلا چلا کر اور گڑ گڑا کر فریاد کرتا تھا کہ مجھے ایک بار ہی تلوار سے ختم کردو لیکن جلاد کہتا تھا کہ اگر اُس نے ایسا کیا تو اُسکی اپنی کھال اتاری جائے گی۔ برصغیر کی تاریخ اگر ایک خاص موڑ نہ مُڑتی تو کون جانے آج بھی زندہ انسانوں کی کھالیں اُتر رہی ہوتیں! یہ موڑ کون سا تھا؟ آج کل کے حالات ایسے نہیں کہ اس موڑ کی تعریف تو کیا، ذکر بھی کیا جائے…؎


افسوس! بے شمار سخن ہائے گفتنی


خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے


ابن بطوطہ کے زمانے کے برصغیر کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں اور مراکش واپس چلتے ہیں۔ یہ طنجہ کا شہر تھا۔ جسے
فرنگی زبان میں
   TANGIER  
   کہتے ہیں۔ کیا طنجہ کی گلیاں اور طنجہ کی گلیوں سے نظر آنے والا سمندر بھُلایاجاسکتا ہے؟ نہیں! کبھی نہیں!


ایک طرف بحرِرُوم تھا اور دوسری طرف بحرِاوقیانوس اور ان دونوں سمندروں کے درمیان وہ تنگ آبی گزر گاہ تھی جو دونوں کو ملاتی تھی۔ اس طرف مراکش تھا اور تنگ آبی گزرگاہ کے اُس طرف…فیری (کشتی) پر آدھ گھنٹہ کی مسافت پر…ہسپانیہ تھا۔ طنجہ کے ساحل سے رات کو ہسپانیہ کی روشنیاں نظر آرہی تھیں اور اُس وقت بھی نظر آتی ہوں گی جب ہسپانیہ سے ہجرت کرکے مراکش آنے والے، اسی طنجہ کے ساحل پر کھڑے ہو کر، چھُوٹا ہوا دیار دیکھتے تھے اور ہاتھ ملتے تھے اور آہیں بھرتے تھے…؎


کھویا ہے اُسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے


یہ بات مگر کون سُنے؟ لاکھ پکارو
میں نے مراکشی رفیقِ سفر سے پوچھا کہ کیا یہ بات صحیح ہے کہ ہسپانیہ سے آنے والوں نے چھوڑے ہوئے مکانوں کی کنجیاں نئے گھروں کی دیواروں پر لٹکا دی تھیں۔ اُس نے کہا کہ اُس نے بھی یہ سنا ہے لیکن اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ مگر عربی ادب میں ہسپانیہ کی یاد میں کہی گئی شاعری کا ایک خاص مقام ہے۔ آنسوئوں اور خوابوں سے بھری ہوئی شاعری جس میں درد آشوب ہے اور نوحہ خوانی! سینہ کوبی ہے اور گریہ وزاری!!


ہم مراکش کے دارالحکومت رباط سے نکلے تو ہماری منزل طنجہ تھی جہاں سے ہم نے کشتی میں بیٹھ کر ہسپانیہ جانا تھا اور قرطبہ اور غرناطہ کی خاک چھاننا تھی۔ قرطبہ اور غرناطہ…جو میں نے اٹھائیس برس پہلے دیکھے تھے اور دوبارہ دیکھنا چاہتا تھا اور کسی کو دکھانا چاہتا تھا!
ہم رباط سے سیدھا طنجہ کی طرف بھی جا سکتے تھے لیکن ہم نے راستے میں فیصلہ کیا کہ مراکش کے مشرقی ساحل پر بسنے والا خوبصورت شہر تطوان بھی دیکھتے چلیں۔ تطوان جانے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ راستے میں ایک اور شہر شق شاون کی سیر بھی کرسکتے تھے۔ یہ دو شہر تطوان اور شق شاون اس لئے مشہور ہیں کہ یہ دونوں شہر اُن مہاجروں نے بسائے تھے جو ہسپانیہ چھوڑ کر مراکش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ ہسپانیہ سے آنے والے قرطبہ غرناطہ طیطلہ اور اشبیلیہ کے صاف ستھرے ماحول اور الگ طرز تعمیر کو کیسے بھول سکتے تھے۔ تھے تو دونوں طرف مسلمان…لیکن ہسپانیہ یورپ میں تھا اور مراکش افریقہ میں! آج بھی یہ دونوں شہر بتا رہے تھے کہ یہ باقی مراکش سے الگ ہیں۔ پکی اور خاص انداز کی انوکھی گلیاں جو دیکھنے والے پر جادو کردیتی ہیں۔ مسجدیں ساری کی ساری چھتی ہوئی صحنوں کے بغیر…اور ریستوران جو کوچوں کے کناروں پر گاہکوں کو بٹھاتے ہیں۔ شق شاون کے ایک ریستوران میں زیتون کے ساتھ روٹی کھاتے ہوئے میں نے دائیں طرف دیکھا تو ساتھ والے ریستوران کا نام مُورِسکو۔ریستوران تھا۔ اندلس سے آنے والے مورِسکو ہی تو تھے! مورِسکو
MOORS
  کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔ فلپائن میں مسلمانوں کو۔ مُورو۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ فلپائن ہسپانیہ کے قبضے میں رہا ہے۔


ہم نے تطوان کی گلیوں میں اندلس کو یاد کیا۔ مراکشیوں کے ساتھ عربی بولنے کی مشق کی اور شہر سے رخصت ہوئے۔ اب ہم شمال کی طرف جا رہے تھے جہاں سبتہ کی بندرگاہ تھی لیکن سبتہ کا خوبصورت مراکشی شہر افسوس! آج بھی ہسپانیہ کے قبضے میں ہے۔ ہم نے اس کی روشنیاں اپنی نظروں کے راستے دلوں میں اتاریں لیکن اس کے اندر نہ گئے۔ ہمارے پاسپورٹوں پر ہسپانوی ویزوں کے ٹھپے لگے ہوئے تھے اور یہ ٹھپے ہم نے قرطبہ اور غرناطہ کیلئے بچا کر رکھنے تھے اگر ہم سبتہ کے اندر جاتے تو ہسپانویوں نے ہمارے ٹھپوں پر لکیریں مار دینا تھیں۔ تطوان اور سبتہ کے درمیانی علاقے میں…ساحل کے ساتھ ساتھ کثیرالمنزلہ فلیٹوں کے سلسلے دور دور تک ساتھ جاتے ہیں۔ ہم حیران تھے کہ ایک مسلمان ملک اور اتنی صفائی!! سچ یہ ہے کہ برصغیر کے باہر سارے ملک صاف ستھرے ہیں۔ مجھے اردن کا دارالحکومت عمان یاد آرہا تھا جہاں ایک بار مجھے ایک ہفتہ رہنے کااتفاق ہوا۔ پورے شہر میں کاغذ کا ٹکڑا تو درکنار، ایک تنکا تک نہ نظر آیا۔ حیران کن نفاست!
 مراکش کے سمندرکے کنارے آباد ان خوبصورت فلیٹوں کے دوسری طرف سمندر تھا اور ریستوران تھے اور دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح جو مراکش کی دھوپ میں اپنے جسموں کی بے داغ سفیدی کو پیتل کا رنگ دینا چاہتے تھے۔ خوش قسمت مراکش! جہاں دھماکے ہیں نہ دہشت گرد اور جہاں کی پولیس سیاحوں سے نکاح نامے طلب کرتی ہے نہ منہ سُونگھتی ہے!
ہم طنجہ کے شہر میں اترے تو ساتھ ہی رات بھی اُتر پڑی! ہمارا ہوٹل سمندر کے کنارے پر تھا اور لہریں آپس میں یوں خلط ملط ہو رہی تھیں کہ ذہن میں سب کچھ گڈ مڈ ہو جاتا تھا۔ مراکش میں ہسپانیہ گڈ مڈ ہو جاتا تھا اور پاکستان میں مراکش خلط ملط ہو رہا تھا۔ ہم پاکستان کے رہنے والے امریکہ کا وائٹ ہائوس فتح کرنا چاہتے ہیں لیکن مراکش سے بھی کئی سال پیچھے ہیں اگر دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیر اور دیانت اور سچائی کے بغیرصرف جذبات کی بنیاد پر ترقی ممکن ہوتی تو آج پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہوتا! لیکن زمینی حقیقت کیا ہے؟ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے غریب مذہبی بہروپیوں کے شکنجے میں ہیں اور پاکستان کے امیر امریکہ کے غلام ہیں۔ اپنے ملک کو ٹیکس تک نہیں دیتے اور دوسرے ملکوں میں کارخانوں پر کارخانے لگائے چلے جا رہے ہیں اور چھینک بھی آئے تو طبی معائنے کیلئے سات سمندر پار جاتے ہیں…
تیرے امیر مال مست
تیرے غریب حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی
خواجہ بلند بام ابھی

Tuesday, October 20, 2009

گندم کے درخت کی اونچائی


ان میں کوئی بھی تھری پیس یا ٹُو پیس سُوٹ پہنے ہوئے نہیں تھا۔ کسی نے نیلی شلوار قمیض پر نیلی واسکٹ (جواب متکبر سیاست دانوں کے ساتھ مختص ہو چکی ہے) ملبوس نہیں کی ہوئی تھی۔ کسی کے چہرے پر رعونت نہیں تھی‘ اسی لئے جب ظہرانہ شروع ہونے کا اعلان ہوا تو کوئی پلیٹ ہاتھ میں لیکر دوڑانہ کسی نے کسی کو دھکا دیا۔ یہ ایک گائوں تھا۔ محرومیوں اور عُسرت کا شکار گائوں! لیکن دعوتِ ولیمہ کے شرکا تہذیب کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ اکثریت آرام سے بیٹھی رہی اور جو اُٹھے وہ قطار میں کھڑے ہو کر کھانا لیتے رہے۔ اور جنہوں نے کھانا لیا‘ اُنکی پلیٹیں اور پیٹ دیکھ کر ایک اور شہر یاد آیا نہ ایک اور برادری جو دونوں چیزوں کے لئے بدنامی کی حد تک ’’مشہور‘‘ ہے! 
میرا عقیدہ ہے اور اس پر میرے شہری دوستوں نے ہمیشہ مجھے لعن طعن کی ہے اور کئی بار مارنے کُٹنے کا عزم کیا ہے کہ تہذیب ہمیشہ دیہات میں اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ وہیں سے اسکے سوتے پھُوٹتے ہیں اور جو کوئی بھی استفادہ کرتا ہے‘ انہیں سوتوں سے کرتا ہے۔ اب اگر تہذیب سے کوئی مبہوت کرنیوالی عمارتیں‘ مرمر‘ فانوس اور بیش قیمت سواریاں مراد لیتا ہے تو اسکی اپنی ہمتِ فکر ہے‘ لیکن تہذیب کا مطلب تو یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے بات کس طرح کرتا ہے‘ مہمان نواز کتنا ہے‘ مخلص کتنا ہے‘ جھوٹ کتنا کم بولتا ہے اور منافقت سے کتنا احتراز کرتا ہے۔ اہلِ دیہہ کو اس حقیقت پر ناز کرنا چاہئے کہ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رضاعت کیلئے شہر سے گائوں بھیجا گیا تھا
!
گائوں جانے کا ایک لازمی جزو قبرستان کی زیارت بھی ہے!



میرے کُہستاں تجھے چھوڑ کے جائوں کہاں


تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک


ایک زمانہ تھا کہ ہر قبرستان میں ایک راکھا ہوتا تھا۔ اس کی وہاں اپنی جھونپڑی ہوتی تھی جس میں وہ مستقل رہائش رکھتا تھا۔ خود رَو گھاس صاف کرتا تھا اور ہمیشہ یہ احساس دلاتا تھا کہ مُردوں کا زندوں سے تعلق کسی نہ کسی صورت میں قائم ہے لیکن اب گائوں کے باشندے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناسب سے راکھے کا معاوضہ برداشت نہیں کر سکتے۔ شہروں میں دیہاڑی پر زیادہ رقم کی مزدوریاں مل جاتی ہیں چنانچہ قبرستان ڈرائونے ہو گئے ہیں‘ خود رَو گھاس قبروں کے کتبوں تک پہنچ گئی ہے۔


وہ گھاس اُگی ہے کہ کتبے بھی چھپ گئے اظہار


نہ جانے آرزوئیں اپنی دفن کی تھیں کہاں


کپڑے کانٹوں سے اَٹ جاتے ہیں جو گھنٹوں چبھتے رہتے ہیں۔ قبروں کے اندر جانے کیا ہو رہا ہے‘ لیکن کم از کم باہر کا ماحول تو خوفزدہ کرنے والا نہ ہو!


لیکن بات اور ہو رہی تھی۔ یہ قبریں اپنے سے دور نہیں جانے دیتیں‘ گائوں کے کئی گھروں کو مستقل قُفل لگ گئے ہیں۔ مکین شہروں میں جا کر بَس گئے ہیں لیکن یہ قبریں انہیں بلاتی رہتی ہیں۔ وہ ہر عید پر‘ ہر تہوار پر اور ہر موقع پر آ کر اُن کی قبروں پر ضرور جاتے ہیں جو زندگی میں بھی اُنکے منتظر رہتے تھے۔ ہاں! اُن کی بات اور ہے جو سمندروں کو پار کر کے دُور کے دیاروں میں آباد ہو گئے۔ انکا انتظار کرنیوالے انتظار کرتے کرتے قبروں میں جا لیٹے اور اُن سے یوں انتقام لیا کہ وہ جب دوسرے ملکوں اور دوسرے براعظموں سے پہنچے تو ان کیلئے صرف قبریں تھیں۔ لیکن یہ مکمل انتقام نہیں۔ موت کے بستروں پر لیٹ کر جب وہ آنیوالوں کا انتظار کرینگے‘ تو پتہ نہیں کیا ہو گا۔ ضروری نہیں کہ اُسی شہر میں رہنے کے باوجود آنیوالے آ پائیں۔ پتہ نہیں سانپ اور اونٹ انتقام کے حوالے سے کیوں ’’مشہور‘‘ ہیں۔ لوگوں کو چاہئے کہ قبروں کے انتقام پر بھی غور کریں!


بچپن میں بڑوں سے کہانی سنتے تھے کہ چند طوطے ایک جنگل میں رہتے تھے۔ اُن میں سے ایک طوطا پردیسی تھا! وہ اکثر ٹھنڈی سانس بھرتا اور کہتا… ہائے میرا پیارا وطن! پھر وہ اپنے وطن کی شان میں ایسی اثر انگیز گفتگو کرتا کہ سُننے والے طوطوں کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔ ایک دن تنگ آ کر طوطوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں اپنا وطن دکھائو۔ طوطا انہیں لے گیا۔ ایک گائوں سے باہر… ویرانے میں… ایک تالاب تھا۔ پانی سے لبالب بھرا ہوا۔ اُسکے کنارے پر ایک چھوٹا سا درخت تھا جس کی سب سے نچلی شاخ پر طوطے کا گھونسلا تھا۔ جب بھی تیز ہوا چلتی‘ شاخ ہلتی اور گھونسلے کا ایک حصہ تالاب کے پانی میں جا لگتا۔ طوطوں نے حیرت اور غُصے کے ملے جلے جذبات کیساتھ پوچھا کہ کیا یہ وہ وطن ہے جس کیلئے تم رات دن آہیں بھرتے تھے؟ طوطے کا سر فخر سے بلند ہوا‘ اسکے سبز گالوں پر سرخی دوڑی اور اس نے مکمل اعتماد سے جواب دیا کہ ’’ہاں! یہی میرا وطن ہے جس کے فراق میں میری ہر سانس پھانس کی طرح ہوتی تھی… اور جس کی یاد میں میں نے اتنے آنسو بہائے ہیں کہ آنکھوں کی روشنی‘ سفیدی میں ڈھلنا شروع ہو گئی ہے اس لئے کہ دنیا کا کوئی شہر‘ کوئی قریہ‘ کوئی جنت نظیر خطہ… میرے وطن کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘‘


شہروں میں ہر چند مہینے بعد کرائے کا گھر تبدیل کرنیوالی بابو مخلوق کو اُس مٹھاس کا اندازہ ہی نہیں ہو سکتا جو گائوں کے آبائی گھر میں سر سے پائوں تک ذائقے کی لَو دینے لگتی ہے! اب تو وہاں بھی دنیا بدل گئی ہے۔ جہاں صحن کے ایک طرف چھپر تھا‘ اور ریت بچھائی جاتی تھی جس کے اوپر گھڑونچی ہوتی تھی اور سبز گھڑے جن سے پانی رستا رہتا تھا… وہاں اب کچن اور باتھ روم بن گئے ہیں۔ گرمیوں کی دوپہروں میں جب سب سوئے ہوئے ہوتے تھے‘ گیلی ریت پر‘ سبزگھڑوں کے درمیان پڑی ہوئی دودھ کی پتیلی سے بالائی کی موٹی تہہ چُرا کر کھانے میں کتنا مزا تھا! اور یہ چوری چمچ سے نہیں انگلیوں سے کی جاتی تھی! رات کو جب دُودھ‘ دہی بننے کیلئے چاٹی (گَلنی) میں ڈالا جاتا تھا تو نانی یا دادی اس میں بچی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ڈال دیتی تھی‘ صبح دہی کیساتھ وہ روٹی کا ٹکڑا کھانے میں جو بے تابی اور سنسنی ہوتی تھی اس کا بیان کسی ناول یا نظم ہی میں ہو سکتا ہے! آجکل کے بچوں پر ترس آتا ہے جو دن کا آغاز ڈبل روٹی کے ’’سلائس‘‘ سے (جسے میری دادی جھاگ کہتی تھیں) کرتے ہیں۔ اور جن کی عیاشی کی معراج نُوڈل‘ پزا اور سٹیک ہے! انکے چہرے اُس سرسوں کی طرح زرد ہیں جسے انہوں نے دیکھا ہی نہیں! کیکر کے پیلے پھولوں کا تو انہوں نے نام ہی نہیں سُنا۔


میں نے ایک نوجوان سے کہا کہ تم کبھی دوپہر کو خالص گھی اور شکر کے ساتھ بھی روٹی کھا لیا کرو‘ وہ مجھے یوں دیکھنے لگا جیسے میں مریخ سے اُتری ہوئی مخلوق ہوں اور کسی اجنبی زبان میں گفتگو کر رہا ہوں! یہ وہ بچے ہیں جنہیں دیسی مرغی سے ’’بُو‘‘ آتی ہے اور صرف وہ مرغی کھا سکتے ہیں جس کی خوراک (فیڈ) کا اِس ملک میں کوئی کوالٹی کنٹرول نہیں! پورے ملک میں کسی کو معلوم نہیں کہ شیور (فارمی) مرغیوں کی خوراک کے اجزا کیا ہیں؟ مہذب ملکوں میں کیا ہو رہا ہے‘ یہ ایک الگ موضوع ہے‘ اِس وقت تو ہم بچوں کی قسمت پر آنسو بہا رہے ہیں! کڑھا ہوا دودھ اگر کبھی غلطی سے پی لیں اور اس میں بالائی کا ٹکڑا آ جائے تو ’’چھیچھڑا‘‘ کہہ کر ہنگامہ برپا کر دیتے ہیں! ان میں سے اکثر نے گائیں بھینسیں ٹیلی ویژن پر یا درسی کتابوں کی تصویروں میں دیکھی ہیں۔ انہیں گندم کے ’’درخت‘‘ کی ’’اونچائی‘‘ معلوم ہے نہ یہ پتہ ہے کہ تربوز اور خربوزے کِن ’’پیڑوں‘‘ پر لگتے ہیں؟ کریلوں کا سالن کھانے والوں کو یہ احمق سمجھتے ہیں۔ کڑوی زہر چاکلیٹوں کو مٹھائی سمجھ کر کھانے والے یہ بچے نُگدی سے واقف ہیں نہ انہوں نے بتاشے کھائے نہ مچھلی کی شکل والی سنگتریاں‘ نہ مکھانے اور نہ وہ چنے جو چینی میں ملفوف ہوتے تھے۔ قدرت نے بھی ان کے ساتھ ستم ظریفی کی کہ اب لسوڑے‘ انجیر اور بٹنگیاں اُگنا ہی بند ہو گئی ہیں!

Thursday, October 15, 2009

اگر اس مقدس زمیں پر مرا خون نہ بہتا






اس خدا کی قسم! جس نے یہ ملک دیا ہے یہ ملک ان کا ہے جنہوں نے اس کی کیاریوں میں پانی کی جگہ اپنا خون بہایا ہے!


نہیں! یہ پاکستان جونکوں کا عفریتوں کا نہیں! ہر گز نہیں! یہ پاکستان ان کا ہے جنہوں نے اسے خون دیا اور اسے خون ہمیشہ انہوں نے دیا جنہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ہر قدم شہادت کی طرف جا رہا ہے۔ یہ ملک حوالدار زرخان، حوالدار استحضار حسین، حوالدار ریاض، نائیک رفیق، لانس نائیک شاہد اقبال، حوالدار ایوب لانس نائیک قدرت اللہ، سپاہی رب نواز، شیخ محمد وقاص سول انجینئر وارث علی، نائب قاصد احمد دین، محمد اشتیاق، کرنل وسیم عامر اور بریگیڈئر انوارالحق کا ہے۔ ایسے موقعوں پر ہمیشہ مجید امجد یاد آتا ہے۔ شہید ان لوگوں سے مخاطب ہوتا ہے جو اس ملک کیلئے خون تو دور کی بات ہے ٹیکس تک نہیں دیتے۔


تم اس وقت کیا تھے؟


تمہارے محلوں تمہارے گھروں میں تو سب کچھ تھا


آسائشیں بھی وسیلے بھی


اس کبریائی کی ہر تمکنت بھی!


سبھی کچھ تمہارے تصرف میں تھا، زندگی کا ہر اک آسرا بھی


کڑے بام و در بھی


خزانے بھی زر بھی


چمن بھی ثمر بھی


مگر تم خود اس وقت کیا تھے؟


تمہاری نگاہوں میں دنیا دھوئیں کا بھنور تھی


اگر انہیں مقدس زمیں پر مرا خوں نہ بہتا


اگر دشمنوں کے گرانڈ پل ٹینکوں کے نیچے


مری کڑ کڑاتی ہوئی ہڈیاں خندقوں میں نہ ہوتیں


تو دوزخ کے شعلے تمہارے معطر گھروندوں کی دہلیز پر تھے


تمہارے ہر اک بیش قیمت اثاثے کی قیمت


اسی سرخ مٹی سے ہے جس میں میرا لہو رچ گیا ہے!
-------------------------------------------------


ہر پاکستانی کا سر ان شہیدوں کے احترام میں جھکا ہوا ہے اور دلوں کے روئیں روئیں سے تشکر پھوٹ رہا ہے۔ نوائے وقت کی خبر کے مطابق جی ایچ کیو کے گیٹ پر پھولوں کے ڈھیر لگ گئے۔ خواتین اشکبار آنکھوں سے قرآن خوانی کرتی نظر آئیں لیکن افسوس!
کچھ تیرہ بخت ایسے بھی ہیں جو اب بھی اس حال میں بھی، دہشت گردوں پر اپنی مذموم سوچ کی چھتری تان کر انہیں بچانا چاہتے ہیں، یہ لوگ اناج اس ملک کا کھاتے ہیں، پانی یہاں سے پیتے ہیں، اس خطہ پاک کی ہوا، دھوپ اور چاندنی سے فیض یاب ہوتے ہیں لیکن وفاداریاں دشمن کے ساتھ ہیں اس میں شک نہیں کہ امریکہ سے لے کر بھارت تک اور اسرائیل سے لیکر برطانیہ تک سب پاکستان کے دشمنوں کی صف میں کھڑے ہیں لیکن اس میں بھی ذرا سا شبہ نہیں کہ یہ دہشت گرد کون ہیں۔ نوائے وقت ہی کی خبر کے مطابق تحریک طالبان کے ترجمان نے برملا اعتراف کیا ہے کہ جی ایچ کیو پر حملہ پنجابی طالبان نے کیا ہے اور انہوں نے آئندہ بھی ایسی کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ ان مقامی دہشت گردوں میں تین ازبک بھی شامل تھے۔


ابھی تک یہ بات پایہ ثبوت تک نہیں پہنچی کہ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کون کر رہا ہے، اسرائیل یا بھارت یا امریکہ۔ یا یہ تینوں طاقتیں لیکن اگر یہ اسلام دشمن طاقتیں ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر بھی رہی ہیں تو اس سے ان دہشت گردوں کے جرم کی سنگینی کسی صورت میں کم نہیں ہوتی!


فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ ٹیلی فون کی گفتگو جو خفیہ ذرائع سے سنی گئی ہے ظاہر کرتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر نے اپنے آدمیوں کو جی ایچ کیو میں کارروائی شروع ہونے کے بعد اسکی کامیابی کیلئے دعا کرنے کا پیغام دیا۔


یہ ساری اطلاعات تصدیق کرتی ہیں کہ دہشت گرد پاکستانی ہیں اور اگر وہ یہ سب کچھ پاکستان دشمن طاقتوں کے آلہ کار بن کر کر رہے ہیں تو یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے!


ہماری گفتگو اسلام آباد کے معروف جید عالم دین مولانا ظہور احمد علوی سے ہوئی ہے۔ وہ اس ملک کے نمائندہ اور جرأت مند علماء میں سے ہیں انہوں نے جی ایچ کیو پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے شدید اضطراب کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا کوئی مسلک ہے نہ مذہب۔ انہوں نے پاکستان کی سالمیت اور استحکام کیلئے پوری قوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر جدوجہد کے عزم کا اعادہ کیا۔


اس وقت پاکستان ایک نہیں کئی دشمنوں کا سامنا کر رہا ہے۔ امریکی دارالحکومت کے اندر اسی طرح گھوم پھر رہے ہیں جیسے وطن بھی ان کا ہے اور حکومت بھی انکی ہے، بھارت افغانستان میں قدم مضبوط کر چکا ہے۔


واحد مسلمان ایٹمی طاقت ہونے کے حوالے سے ساری طاغوتی دنیا دوش سے لے کمر تک زرہ میں ڈوب چکی ہے اس صورتحال میں اگر نسلی گروہی مذہبی یا فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دی گئی تو یہ دشمنوں کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہو گا۔


تمام مسالک کے علماء کرام کا فرض ہے کہ عوام کو تذبذب کا شکار نہ ہونے دیں اور بیک آواز سارے دشمنوں کیخلاف کسی قسم کے ذہنی تحفظات کے بغیر کھل کر مقابلے کا اعلان کریں۔

Tuesday, October 13, 2009

کاشت


فرض کریں مرحوم سوویت یونین افغانستان پر چڑھائی نہ کرتا، افغان مزاحمت نہ کرتے، سی آئی اے کے ذریعے امریکہ مدد نہ کرتا، جنرل ضیاء الحق میدان میں نہ کودتا، اوجھڑی کیمپ کا حادثہ نہ ہوتا، جرنیل زادے کھرب پتی نہ بنتے!
 فرض کریں امریکی ڈالروں کی مدد سے کئے گئے اس جہاد کے نتیجے میں ہمارا ملک افغان مہاجروں کیلئے دبئی نہ بنتا، ٹرانسپورٹ اور مزدوری پاکستانیوں کے ہاتھ سے نہ چھینی جاتی ہم کلاشنکوف اور ہیروئن سے محفوظ رہتے!
 فرض کریں نائن الیون کا سانحہ (جس نے بھی کیا) نہ ہوتا، امریکہ طالبان کی حکومت ختم نہ کرتا۔ فرض کریں جنرل مشرف کو ٹیلی فون نہ آتا۔ وہ امریکہ کے سامنے رکوع میں نہ جاتا۔ فرض کریں بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، ملا عمر اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، کوئی بھی نہ ہوتا۔ فرض کریں صوفی محمد نہ ہوتے، ملا فضل اللہ، مولوی شاہِ دوراں، مسلم خان، کسی کا بھی وجود نہ ہوتا!۔ فرض کریں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد اور دیگر’جہادی‘ تنظیمیں وجود میں نہ آتیں۔



… تو پھر کیا پاکستان میں آج امن وامان ہوتا؟ ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں رواں ہوتیں؟ جرائم کا نام و نشان نہ ہوتا؟ اور اکیلی عورت زیورات سے لدی پھندی… کراچی سے پیدل چل کر گلگت پہنچ جاتی اور اسے آنکھ اٹھا کر کوئی نہ دیکھتا؟

اسکی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص کو کینسر کا مرض لاحق ہوجائے اور ڈاکٹر اسے کہے کہ دس سال تک تم چلتے پھرتے رہو گے، اسکے بعد بستر پر لگ جاؤ گے،کچھ عرصہ یوں گزرجائیگا اور پھر وہ ہو کر ہے گا جو ہونا ہے! اس شخص کو ابھی چلتے پھرتے پانچ سال ہی ہوئے تھے۔ ابھی اس کا چلنے پھرنے کا پانچ سال کا عرصہ رہتاتھا۔ کہ اسے ٹریفک کا حادثہ پیش آ گیا۔ وہ شدید زخمی ہوگیا، اور چند ماہ سرجن کے رحم و کرم پر رہ کر چل بسا۔ اگر ٹریفک کا حادثہ پیش نہ آتا تو اس شخص کا انجام کیا ہونا تھا؟


اگر جنرل ضیاء الحق کی حکمت عملی کے نتیجے میں جہادی تنظیمیں وجود میں نہ آتیں اگر جنرل مشرف کی امریکہ پرستی کے نتیجے میں دہشت گردی ملک کے طول و عرض میں نہ پھیلتی تو پھر … کیا‘ سب اچھا ہوتا؟


ہم نے ان صفحات پر کئی بار لکھا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد… باسٹھ سال کے عرصہ میں… ہم نے وزیرستان کو اوردوسرے قبائلی علاقوں کو کیا دیا ہے؟ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ قبائلی علاقوں کے عوام دو ’’اداروں‘‘ کے رحم وکرم پر رہے ہیں (ہمیں نہیں معلوم یہاں ’اداروں‘ کا لفظ برمحل ہے یا نہیں) ایک پولیٹکل ایجنٹ (جو ان علاقوں میں ڈپٹی کمشنر کے قائم مقام تھے) اور دوسرے وہ ملک، خواتین، اور سردار… جو ان پولیٹینکل ایجنٹوں سے رابطے میں رہتے تھے۔ یہی اسمبلیوں میں جاتے تھے، یہی سینٹ میں جاتے تھے اور ابھی تو وہ خبر بھی پرانی نہیں ہوئی کہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے ارکان نے سینٹ کے ’کامیاب‘ امیدواروں سے فی کس کتنے کروڑ روپے لئے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تمام قومی اخبارات میں برملا شائع ہوئی اور کسی نے تردید نہیں کی۔ یہ صرف گذشتہ ایک سال کی خبر ہے۔ ہمیشہ یہی ہوتا رہا۔ کیا یہ وہ انصاف ہے جو قبائلی عوام کو دیا گیا؟ وہ ووٹ کے حق سے ہمیشہ محروم رہے۔ کیا کوئی ادارہ، کوئی سیاسی جماعت، کوئی فورم، کوئی تنظیم، اس ملک میں ایسی ہے جو حکومت سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مانگے۔-1 باسٹھ سال میں پولیٹکل ایجنٹوں کے ذریعے چند مخصوص مَلکوں اور خانوں کو کتنی رقم دی گئی؟ اور انہوں نے وہ رقم آگے کہاں استعمال کی؟-2 قبائلی علاقوں کی کتنی بستیوں میں پینے کا پانی نلکوں کے ذریعے مہیا کیا گیا۔ -3قبائلی علاقوں میں کتنے پرائمری سکول، کتنے مڈل اور کتنے ہائی سکول اور کالج، اس عرصہ میں، قائم کئے گئے۔-4 قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کے کتنے سکول اور کتنے کالج بنائے گئے۔ -5باجوڑ، مہمند، میران شاہ، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں کتنی یونیورسٹیاں ، کتنے میڈیکل کالج، کتنی زرعی یونیورسٹیاں کھولی گئیں؟۔-6قبائلی علاقوں میں کتنے کارخانے قائم ہوئے، وفاقی حکومت کی ’وزارت صنعت‘ نے ان علاقوں میں کیاکچھ کیا؟ گھریلو (Cottage) انڈسٹری کتنی لگی؟ قرضے کتنے دئیے گئے؟ سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو ان علاقوں کیلئے کیا کیا ترغیب دی گئی؟-7ان علاقوں میں 1948ء میں خواندگی کی شرح کیا تھی اور باسٹھ سال گزرنے کے بعد آج کیا ہے؟ -8 ریاست اور حکومت کے سربراہ اس عرصہ میں ان علاقوں میں کتنی بار بنفس نفیس گئے۔ -9 یہی سوالات ہیں جو سوات کے حوالے سے بھی پوچھے جانے چاہئیں اور متعلقہ صوبائی حکومت کو ان سوالوں کے جواب دینے چاہئیں۔


بڑھتی ہوئی آبادی، تعلیم کا مکمل ناپید ہونا، رشوت لینے والے پولیٹکل ایجنٹوں اور استحصال کرنیوالے گنتی کے چند قوانین، ملازمتوں کا فقدان، صنعت و حرفت مکمل طور پر ناپید، تو بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود نہ ہوتے تو کوئی اور ہوتا۔ امریکہ افغانستان میں نہ آتا، تو یہ نوجوان کسی او ر شکل میں ظلم کا جواب دیتے۔


ہر آن کہ تخم بدی کِشت و چشم نیکی داشت


دماغِ بیہْدہ پخت و خیالِ باطل بست


جس نے بھی برائی کاشت کی اور نیکی کی امید رکھی، اس احمق نے اپنے دماغ کو بے ہودہ ہی کھپایا اور غلط خیالوں میں مگن رہا!۔
 ہم میں سے ہر ایک نے بچپن میں ایک شعر پڑھا تھا۔


دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے


اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے


ہاں! یہ درست ہے کہ امریکہ اور بھارت ہمارے دشمن ہیں لیکن اگر ہم مضبوط ہوتے تو کسی کی جرات ہی نہیں کہ ہم پر چڑھ دوڑے۔ ایک مسلمان سے ڈرنے والے سو ہندوؤں کو آج معلوم ہے کہ وہ ایک مسلمان اپنے ہی طاقت ور طبقوں کا غلام بنا ہوا ہو۔ اسکے پاس آٹا ہے نہ گھی، بجلی ہے نہ گیس، سکولوں میں اسکے بچوں کو داخلہ نہیں ملتا، پڑھ جائیں تو روزگار حکمران پارٹی کے قبضے میں ہے حکومت اس پر وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں ہر روز نئے سوٹ پہنتے ہوئے شرم تک نہیں آتی۔ میڈیا ’آزاد‘ ہے لیکن ٹیلی ویژن چینلوں پر آ کر ہاتھ نچا نچا کر فلسفے جھاڑنے والوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ حضور! آپکے اثاثے کیا ہیں؟ اور کہاں سے آئے ہیں؟ لگتا ہے حالی نے میڈیا ہی کیلئے کہا تھا…؎


خوشامد میں ہم کو وہ قدرت ہے حاصل


کہ انساں کو کرتے ہیں ہر طرح مائل


کہیں احمقوں کو بناتے ہیں عاقل


کہیں ہوشیاروں کو کرتے ہیں غافل


کسی کو اتارا کسی کو چڑھایا


یونہی سینکڑوں کو اسامی بنایا

Thursday, October 08, 2009

غلام

سلطنتِ روما کے جنگی جہاز سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔ سمندروں کی نیلگوں وسعتیں اُنکے سامنے سمٹ سمٹ جاتی تھیں۔ زمانۂ امن میں یہ جہاز بادبانوں پر انحصار کرتے تھے لیکن جنگ کی حالت میں چپوئوں سے مدد لینا پڑتی تھی تاکہ آہستہ خرامی شکست کا باعث نہ بنے۔ ہر جنگی جہاز کے نچلے حصے میں دونوں طرف سوراخ کردیئے جاتے تھے۔ ان سوراخوں سے چپوئوں کے سرے باہر نکال لئے جاتے تھے اور اندر، دونوں طرف، چپّو چلانے کیلئے غلاموں کو مامور کیا جاتا تھا! جہاز کے اس نچلے حصے کو گیلی کہتے تھے!
آج ہم میں سے بہت کم کو معلوم ہے کہ یہ غلام کی بدترین قسم تھی۔ یہ غلامی جنگی قیدی ہوتے تھے یا سزا یافتہ مجرم۔رات دن مسلسل چپّو اور دیوہیکل جہاز کھینا آسان نہ تھا۔ ان غلاموں کی مسلسل نگرانی کی جاتی تھی۔ وقتاً فوقتاً کوڑوں کی سنسناہٹ ان کی پیٹھوں پر لہو ابھارتے نشان چھوڑتی تھی۔ انہیں زنجیروں کے ساتھ باندھا جاتا تھا اور جہاز ڈوبنے کی صورت میں یہ سب سے پہلے ڈوبتے تھے۔ اگر جہاز کو شکست ہوتی تو فاتح سب سے پہلے ان غلاموں ہی کو قتل کرتے۔ اور اگر فتح ہوتی تو ان کی بے کنار غلامی میں اور وسعت پیدا ہو جاتی!
غلاموں کا ایک اور منظر دیکھئے۔ یہ مصر ہے۔ ہزاروں غلام قطاریں باندھے صحرا کی طرف چل رہے ہیں‘ جن گاڑیوں کو دو دو سو بیل کھینچ رہے ہیں۔ اُن پر پتھر نہیں‘ پورے پورے پہاڑ لدے ہیں۔ اہرام تعمیر ہو رہے ہیں ان غلاموں کے جسموں پر صرف اُس جگہ کپڑا ہے جہاں ستر ہے۔ باقی برہنگی ہے۔ پتھروں کو ڈھوتے اور اہراموں کو تعمیر کرتے انکی زندگیاں صحرا کی شام میں موت کے گھاٹ اترتی جاتیں۔ لاشوں کو صحرا کے گدھوں کی ضیافت کیلئے کھلے میں چھوڑ دیا جاتا۔ نئے غلام آ جاتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بے پناہ جسمانی کام کرنیوالے ان غلاموں کو مسلسل پیاز کھلائے جاتے۔ فلسفہ یہ تھا کہ پیاز کھانے سے انسانی جسم حیرت انگیز طور پر طاقتور ہوتا ہے!
پھر چشمِ فلک نے غلامی کا وہ زمانہ بھی دیکھا جب یورپ کے سفید فام تاجروں نے افریقی حبشیوں کو بلامبالغہ پھندے اور جال بچھا بچھا کر اس طرح پکڑا جیسے فتح جنگ اور پنڈی گھیب کے سرسبز کھیتوں میں بٹیر پکڑے جاتے ہیں۔ بحرِ اوقیانوس پار کرنے کیلئے خصوصی جہاز تعمیر کئے گئے جن میں خوفناک تہہ خانے تھے۔ زنجیروں سے بندھے یہ غلام وہیں رفعِ حاجت کرتے‘ وہیں قے کرتے اور وہیں کھانا کھاتے۔ پھر کولمبس کی نئی دنیا میں انکی نیلامیاں ہوتیں۔ مردوں کے بازو اور عورتوں کی چھاتیاں ٹٹول کر دیکھی جاتیں‘ جو فروخت ہو جاتے وہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں وسیع و عریض جاگیروں پر اس طرح کام کرتے کہ سفید فاموں کے کتے اور سؤر انکی نسبت زیادہ آرام دہ زندگی گزارتے تھے۔ بھاگنے والوں کے پائوں کاٹ دئیے جاتے۔ خاوند بِک جاتا تو بیوی بچے وہیں رہ جاتے بیوی کو نیا مالک کسی دُور کی ریاست میں لے جاتا تو میاں مرنے کیلئے پرانے مالک کے کُتیا خانے میں پا بہ زنجیر رہتا۔
غلامی کا اعزاز سینے پر سجانے کیلئے غلام کہلانا ضروری نہیں۔ پاکستان کے دارالحکومت میں‘ جو اسلام کے نام پر آباد ہوا تھا‘ غلاموں کی ایک ایسی قسم رہتی ہے جو آزادی کے زعم میں مبتلا ہے۔ یاد نہیں یہ شعر فراق کا ہے یا باقی صدیقی کا…؎
دلِ آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر اختیار کو دیکھا
شاہراہ کے عین درمیان میں جنگلے لگا کر راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ ایک سوراخ نما جگہ چھوڑی گئی ہے جس میں سے ایک وقت میں ایک گاڑی اتنی مشکل سے گزرتی ہے کہ چلانے والے کا دِل مُٹھی میں جکڑا جاتا ہے۔ رش کا وقت ہے۔ سب نے اپنے دفتروں‘ دکانوں‘ سکولوں اور مزدوریوں کو پہنچنا ہے۔ لیکن سوراخ سے صرف ایک گاڑی گزر سکتی ہے اور وہ بھی کئی چکر کھا کر‘ اور کئی پیچ لے کر‘ سینکڑوں گاڑیاں رُک گئی ہیں۔ پیچھے دیکھیں تو حدِ نگاہ تک کاریں بسیں ویگنیں سوزوکیاں رُکی ہوئی ہیں۔ یہ بھی نہیں کہ بیرئیر پر گاڑیاں چیک کی جا رہی ہیں۔ اِکّا دُکّا ’’مشکوک‘‘ گاڑی کو ٹھہرا لیا جاتا ہے۔ ورنہ تنگ سوراخ سے گزرنے والی گاڑی میں کون ہے اور کیا ہے۔ بیرئیر پر کھڑی پولیس کو کچھ پتہ نہیں۔ لیکن بے بسی کی انتہا ہے۔ گرمی میں بچے بڑے عورتیں پسینے سے شرابور ہیں۔ یہ سب غلام ہیں‘ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ غلام کہیں بھاگ نہیں سکتے‘ یہ غلام احتجاج نہیں کر سکتے۔ یہ غلام کسی سے کچھ پوچھ نہیں سکتے۔ یہ غلام رو نہیں سکتے۔ یہ غلام ہنس نہیں سکتے۔ ان رکاوٹوں پر‘ اِن بیرئیر پر انہیں پہروں رُکنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ٹیکسیوں یا بسوں پر ہیں‘ انہیں وزیراعظم کے محل نما دفتر کے قریب والے بیرئیر پر اترنا پڑتا ہے۔ اب آگے یہ پیدل جائیں گے۔ ان میں معمر لوگ بھی ہیں‘ عورتیں بھی ہیں‘ ملک کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے غریب مسائل بھی ہیں اور اگر رات ہے تو یہ بیرئیر نظر ہی نہیں آتے‘ گاڑیاں ان سے ٹکراتی ہیں یا ٹکراتے ٹکراتے مشکل سے بچتی ہیں۔ ان پر کوئی سرخ روشنی نہیں‘ کوئی لال بتی نہیں۔ کوئی خبردار کرنیوالی نشانی نہیں۔ جب آقائوں نے گزرنا ہوتا ہے تو یہ رکاوٹیں ہٹا لی جاتی ہیں۔ غلاموں کو روک دیا جاتا ہے جو غلام عورتیں اور غلام مرد دل کے عارضے میں مبتلا ہسپتال جا رہے ہوتے ہیں‘ ’’رُوٹ‘‘ لگنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں‘ حاملہ عورتیں اِسی رُکی ہوئی ٹریفک میں نئے غلام جنم دیتی ہیں۔ اور جن غلاموں نے جہازوں اور ٹرینوں کو پکڑنا ہوتا ہے‘ وہ نہیں پکڑ پاتے لیکن بے بسی کے کوڑے کھانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے!
غلاموں کی ایک قسم موٹروے پر پائی جاتی ہے۔ ان غلاموں نے پشاور یا اسلام آباد سے لاہور جانا ہے یا لاہور سے اسلام آباد کا سفر کرنا ہے۔ انہوں نے موٹروے کا انتخاب اس لئے کیا کہ یہ سفر چار گھنٹے میں کٹ جاتا ہے۔ یہ چکری پر یا بھیرہ پر یا کسی اور سٹاپ پر گاڑیوں میں سی این جی بھروانے کیلئے قطاروں میں رُکے ہیں۔ سی این جی سٹیشن صرف ایک ہے۔ قطاریں طویل ہیں۔ دھوپ ہے اور بھوک ہے۔ بے بسی ہے اور غصہ ہے۔ قہرِ درویش صرف جانِ درویش پر ہے۔ ہر سٹاپ پر سی این جی کا صرف ایک سٹیشن ہے۔ اجارہ داری‘ غلامی کی بدترین شکل ہے۔ کیا اِن سی این جی سٹیشنوں کے مالک اس قدر طاقتور ہیں کہ کسی اور کو یہاں دکان ڈالنے کی اور گیس بیچنے کی اجازت نہیں؟ ہر گاڑی کو کم از کم تین بار سی این جی بھروانا پڑتی ہے۔ اگر ایک ایک گھنٹہ بھی قطار میں کھڑا ہونا پڑے تو تین گھنٹے جمع چار گھنٹے۔ یعنی آپ سات گھنٹوں میں پہنچتے ہیں لیکن سنیچر اور اتوار کے دن ایک ایک سٹاپ پر سی این جی کیلئے دو دو گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے!
غلام کی تعریف کیا ہے؟ کوئی سی جدید لغت اٹھا کر دیکھ لیجئے‘ تعریف یہ ہے کہ ’’وہ فرد جو کسی دوسرے کی رضا کا پابند ہے۔ جس کی نقل و حرکت کسی دوسرے کے اختیار میں ہے۔ جو مدافعت نہیں کر سکتا۔ جو اپنے آپکو دوسرے کی طاقت کے آگے پیش کر دیتا ہے‘‘۔
اسلام آباد سے مری جائیں تو ایک بہت بڑی آبادی بارہ کہو کے نام سے اسلام آباد کے مضافات میں ہے۔ اس میں ایک بستی شاہ پور کے نام سے ہے جو پھُل گراں روڈ پر آباد ہے۔ یہ بستی یوں لگتا ہے غلاموں کی بستی ہے۔ یہاں کوئی سڑک ایسی نہیں جس میں کئی کئی فُٹ گہرے گڑھے نہ ہوں۔ جہاں پانی تالاب کی صورت رُکا ہوا نہ ہو۔ یوں لگتا ہے اس بستی کے مکین سی ڈی اے کے غلام ہیں۔ سی ڈی اے کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری کے ماتحت ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ پھُل گراں روڈ شاہ پور کے غلاموں کا اصل مالک سی ڈی اے کا چیئرمین ہے یا کابینہ ڈویژن کا سیکرٹری۔ کیونکہ بستی میں سڑکیں اِن مالکوں نے بنانی ہیں۔ غلام ان کی رضا کے پابند ہیں۔ یہ غلام مدافعت نہیں کر سکتے۔ لیکن ابھی تو آپ نے غلامی کی صرف ایک جھلک دیکھی ہے۔پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز نے اپنے عہدِ اقتدار میں‘ جو دراصل عہدِ عذاب تھا‘ اِس بستی کیلئے سوئی گیس کی ’’منظوری‘‘ دی تھی۔ مذاق یہ ہوا تھا کہ بارہ کہو اور شاہ پور میں سوئی گیس کا افتتاح پلاسٹک کے وزیراعظم نے اپنے دفتر میں کیا تھا کیونکہ دفتر سے باہر اُنکی جان کو ’’خطرہ‘‘ تھا۔ شاہ پور کے غلام باشندے کہتے ہیں کہ بستی میں ایک طاقتور گھر ہے جہاں سوئی گیس آ گئی ہے اور استعمال ہو رہی ہے عام لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طاقتور گھر نے سوئی گیس کے کنکشن باقی گھروں کے روکے ہوئے ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو اِس ناانصافی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اِس بستی کے لوگ غلامی کی تعریف پر پُورے اترتے ہیں۔
آپ کو یہی قلق ہے نا کہ آپ دیر سے پیدا ہوئے اور اُن غلاموں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکے جو سلطنتِ روما کے جنگی جہاز کھیتے تھے‘ یا اہرامِ مصر تعمیر کرتے کرتے ہلاک ہو جاتے تھے یا سفید فام امریکیوں کی جاگیروں پر کام کرتے تھے۔ تو یہ تو کوئی قلق نہیں۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ابھی جائیے‘ پھُل گراں روڈ پر شاہ پور کی بستی میں غلام ہی غلام ہیں۔ مالکوں کا فیصلہ ہے کہ یہ غلام سڑکوں کے بغیر مٹی میں لت پت ہو کر رہیں۔ انکے اور انکے بچوں کے پھیپھڑوں میں منوں اور ٹنوں کے حساب سے دھول جائے… اور سوئی گیس؟ تو مملکتِ خداداد میں اتنا اندھیر بھی نہیں کہ غلاموں کو سوئی گیس مہیا کی جائے!!

Tuesday, October 06, 2009

نہیں! ڈاکٹر فاروق ستار! نہیں!

ڈاکٹر فاروق ستار صاحب! آپ نے یہ کیا کیا؟ کیا آپ اس ملک میں نہیں رہتے؟ کیا آپ اس کی تاریخ سے واقف نہیں؟ کیا آپ بچے ہیں؟ افسوس! آپ نے ایسی بات کہی جس نے آپ کو ساری اشرافیہ میں تنہا کر دیا ہے! آپ پر لوگ ہنس رہے ہیں۔ انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ اگر آپ کے یہی طور اطوار رہے تو وہ لوگ جو ایم کیو ایم کو مہاجروں تک محدود کئے جانے پر خوش تھے‘ مغموم ہو جائیں گے۔ وہ اب تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ایم کیو ایم کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے اور وہ پورے پاکستان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھنے لگی ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار! آپ کی یہ جرأت کہ آپ نے زراعت پر ٹیکس لگانے کی بات کی اور وہ بھی کس سے؟ محترمہ حنا ربانی کھر سے؟ یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے۔ کیاآپ شہباز کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے پنجے سے لہولہان چڑیا کو چھوڑ دے؟ کیا آپ شیر کو یہ تجویز دے رہے ہیں کہ وہ بکری کا خون آلود ڈھانچہ اپنے دانتوں سے رہا کرکے باہر پھینک دے؟ کیا آپ جنگل کو کہہ رہے ہیں کہ اپنے آپ پر شہر کا قانون نافذ کر دے؟ کیا آپ شہنشاہ کو کہہ رہے ہیں کہ وہ تخت و تاج سے دستبردار ہو کر انتخابات منعقد کرائے؟ کیا آپ ناک کٹے غلام کو فوج کا سپہ سالار بنانا چاہتے ہیں؟ اور کیا آپ اس مٹی کی داد رسی کرنا چاہتے ہیں جو پاؤں کے نیچے آتی رہتی ہے؟آپ ان جاگیرداروں کو ٹیکس ادا کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں جنہوں نے اپنے نام اور اپنے خاندانوں کے نام سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایکڑ زمینیں رکھی ہوئی ہیں۔ جن کا طول و عرض خود انہیں بھی نہیں معلوم! انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان زمینیوں پر کام کرنے والے مزارع اور ہاری کیا کھاتے ہیں اور کیا پہنتے ہیں؟ آج تک کسی انصار برنی اور کسی ایدھی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ حساب لگائے کہ ہاریوں کی کتنی عورتیں زمینداروں کے بستروں میں ہیں۔ آپ کمال کرتے ہیں ان لوگوں پر ٹیکس نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں جو آبرو ریزی کے ہر واقعے پر ہنس کر کہتے ہیں کہ ’’آخر جوان لڑکا ہے‘ اس نے یہی کچھ تو کرنا ہے‘‘آپ نے اس طاقتور لابی کو للکارا ہے جو نہ صرف ملک کی ستر فیصد زرعی اراضی پر قابض ہے بلکہ پانی کی تقسیم اس کی مرضی سے ہوتی ہے۔ کھاد پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ ٹریکٹروں کی خریداری کیلئے قرضے اس کے حکم سے ملتے ہیں اور وہ کسی بھی کامیاب بنک کو پاکستان میں مکمل ناکامی سے دوچار کر سکتی ہے۔ یہ لابی تحصیل داروں‘ پٹواریوں‘ مجسٹریٹوں اور پولیس کے اہلکاروں کو اپنے ڈیروں پر طلب کرتی ہے۔ یہ لابی سکولوں کی عمارتوں میں اپنے ڈنگر باندھتی ہے۔ استانیوں کو کنیزوں کا درجہ دیتی ہے اور وہ کمی جو پڑھ لکھ جاتے ہیں‘ تضحیک اور اذیت کا نشانہ بنتے ہیں۔ کیا آپ کو اس سوفیصد سچے واقعے کا علم نہیں کہ پڑھا لکھا لڑکا خوشی سے سردار کو ملنے گیا۔ وہ سردار کو اپنے باپ کا اپنے بابا کا درجہ دیتا تھا۔ سردار کو اس کا چپڑا ہوا سر اور اجلے کپڑے دیکھ کر خطرہ محسوس ہوا۔ بالکل اسی طرح جیسے کالا باغ کے نواب کو داؤد خیل کے علاقے میں سکولوں سے خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ وہ لڑکا جب باہر نکلا تو اسے پکڑ لیا گیا۔ اس کے ننگے جسم پر گڑ کا شیرہ ملا گیا اور اسے اس غار میں ڈال دیا گیا جس میں لاکھوں چیونٹیاں تھیں! ان لوگوں پر ٹیکس؟ جنہوں نے مسلم لیگ کو آخری وقت قبول کیا تھا وہ مسلم لیگ جس میں محمد علی جناح کے علاوہ سارے کے سارے زمیندار‘ جاگیردار‘ نواب‘ نواب زادے‘ سردار‘ خان اور خان زادے تھے! جو آج بھی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور ان کی اکثریت ہے اور ڈاکٹر فاروق ستار صاحب! آپ نے اگر زراعت پر ٹیکس نافذ کرنے کی بات کو آگے بڑھایا تو آپ دیکھیں گے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے لے کر صوبائی بلکہ ضلعی اسمبلیوں تک اکثریت گُڑ کا شیرہ ہاتھوں میں لئے آپ کو پکڑنے کیلئے دوڑے گی! ٹیکس ادا کریں سرکاری ملازم اور پرچون کی دکانوں سے آٹا دال اور گھی خریدنے والے لیکن جن کی شاپنگ اعلیٰ درجے کی شراب اور راتوں کو رنگین بنانے والی ادویات پر مشتمل ہو۔ جن کے کیلی فورنیا‘ کولو ریڈو اور آسٹریلیا میں فارم (RANCH) ہوں اور ملک کے ہر شہر میں محلات ہوں اور لندن اور نیو یارک میں اپارٹمنٹ ہوں‘ انہیں ٹیکس ادا کرنے کی تکلیف دینا گستاخی کی انتہا ہے اور یہ وہ جرم ہے جو اس ملک میں کبھی معاف نہیں ہوا!اور اب تو جاگیرداری ان میں بھی آگئی ہے جن کے پاس جاگیریں نہیں ہیں۔ تہجد پڑھنے والے جاگیردار نے جس کے بارے میں سنا ہے کہ جس گلی میں اس کی حویلی کا دروازہ ہے‘ اس گلی میں اور کسی گھر کا دروازہ بن ہی نہیں سکتا‘ کہا تھا کہ جاگیرداری ایک روئیے کا نام ہے! کیا یہ سچی بات کہی تھی اس نے!خدا کی بے نیازی ہائے مومنہم ایماں لائے ہیں زلف بتاں سےسچ کو کوئی روک سکتا ہے؟ وہاں سے برآمد ہوتا ہے جہاں سے گمان تک نہیں ہوتا۔ جاگیردارانہ نظام۔ زمینوں کے وسیع و عریض رقبوں کا چند ہاتھوں میں ارتکاز۔ ایک ذہنیت کو جنم دیتا ہے جسے جاگیردارانہ رویہ (FEUDAL MENTALITY) کہتے ہیں۔ اس رویے کی تعریف‘ حکما نے یہ کی ہے کہ یہ دو اجزا سے عبارت ہے۔ خود غرضی اور رعونت اس رویے کا منبع۔ مصدر۔ سرچشمہ۔ پھر دو اجزا سے بنا ہے۔ دولت اور طاقت۔یہ رویہ نفرت کرتا ہے محبت سے‘ قانون سے‘ انصاف سے اور دیانت داری سے اور اس کی خاص دشمنی علم سے ہوتی ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ زمیندار سب سے پہلے تھانیدار کو ’’قابو‘‘ کرتا ہے تاکہ پولیس انصاف نہ کر سکے۔ پھر وہ اسسٹنٹ کمشنر کے گھر بھینس بھیجتا ہے۔ یہ زمیندار جب دارالحکومت میں ممبر بن کر پہنچتا ہے۔ تو یہ اسسٹنٹ کمشنر وفاقی سیکرٹری بن کر اس کے استقبال کیلئے موجود ہوتا ہے۔ اگر کسی کو بہت تکلیف ہے تو ہم ان وزیروں کے نام لے سکتے ہیں۔ جو نوکر شاہی کے ان کارندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی وزارتوں میں سیکرٹری لگاتے رہے جو ان کے ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور ان کے ڈویژن میں کمشنر رہے تھے! بات جاگیردارانہ رویے کی ہو رہی تھی۔ یہ رویہ افسوس! صد افسوس! سیاسی جماعتوں میں در آگیا ہے اور مستقبل میں کوئی امکان نہیں کہ سیاسی جماعتیں جاگیردارانہ رویے کے پنجے سے رہا ہو سکیں۔ یہ سیاسی جماعتیں کیا ہیں؟ کیا یہ جاگیریں نہیں ہیں؟ کیا پیپلز پارٹی‘ نون لیگ‘ قاف لیگ‘ اے این پی اور جے یو آئی خاندانوں کی ملکیت نہیں ہیں؟ یہ سیاسی جماعتیں وہ کھیت ہیں جن پر مخصوص خاندان نسل در نسل قابض ہیں۔ کیا ابھی پیپلز پارٹی پر بلاول نے حکمرانی نہیں کرنی؟ کیا دانشور مشاہد حسین لکھنے پڑھنے کا کام جس طرح چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کیلئے کر رہے ہیں کیا مونس الٰہی کیلئے نہیں کریں گے؟ اور کیا آپ نے کل کے قومی اخبارات میں وہ تصویر نہیں دیکھی جس میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر مسلم لیگی رہنما جناب حمزہ شہباز کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے ہیں؟ تصویر کے نیچے یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ وہ مسلم لیگ کے کیا ہیں؟ آخر برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر یہ تبادلہ خیال چودھری نثار علی‘ جاوید ہاشمی‘ احسن اقبال‘ صدیق الفاروق یا اقبال جھگڑا سے کیوں نہیں کرتا جن کے بال سفید ہیں اور جن کی عمریں پارٹی کی خدمت میں کٹ گئیں۔ جو جیلوں میں سڑتے رہے اور جنہوں نے قربانیاں دیں؟ اس لئے کہ نون لیگ بھی موروثی پارٹی ہے۔ قاف لیگ بھی اور باقی پارٹیاں بھی!ڈاکٹر فاروق ستار صاحب! آپ زراعت پر ٹیکس کی بات کرتے ہیں؟ یہاں تو فیوڈل سسٹم سرطان کی طرح ایک ایک شریان میں‘ ایک ایک رگ میں سرایت کر چکا ہے ؎پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالوپایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے

Thursday, October 01, 2009

برہمن اور مسلمان

مجھے سیاستدان بہت پسند ہیں اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں!
کیا آپ نے ایک پرائیویٹ نجی ٹیلی ویژن کے ٹاک شو میں وہ پروگرام نہیں دیکھا جس میں ریلوے کے وفاقی وزیر اپنی ماتحت خاتون افسر کے بارے میں فرما رہے تھے کہ وہ انکی بیٹی کی طرح ہے بلکہ عمر میں انکی بیٹیوں سے بھی چھوٹی ہے۔ کیا اس سے زیادہ نرمی، شفقت اور جذبۂ رحم سیاست دانوں کے علاوہ کوئی اور جنس دکھاسکتی ہے؟ اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ خاتون سی ایس پی افسر مریم گیلانی کی جگہ واقعی وفاقی وزیر کی دُختر ہوتی تو کیا وہ اسے بھی ایک فہرست دے کر یہ حکم دیتے کہ ان افراد کو ہر حال میں بھرتی کرنا ہے؟ تو یہ تو بال کی کھال اتارنے والی بات ہے
۔سیاست دان مجھے اس لئے بھی پسند ہیں کہ وہ ہمیشہ ہر حال میں سچ بولتے ہیں۔ اسی پروگرام میں محترم وفاقی وزیر نے میرٹ کا ذکر سُن کر کہا کہ کون سی میرٹ؟ لیکن کمال کی بات انہوں نے یہ کہی کہ جرنیل کا بیٹا جرنیل ہوتا ہے اور سیکرٹری کا بیٹا سیکرٹری ہوتا ہے۔ یہ معصومیت اور بے پناہ علم ہی تو سیاست دانوں کا مجھے متاثر کیے رکھتا ہے
خدا بھلا کرے فوج کے کمیشن کے طریق کار کا، بے شمار جرنیلوں کے بچے کاکول نہیں پہنچ سکتے اور کئی سپاہیوں، حوالداروں، صوبیداروں اور کسانوں کے بچے لفٹین بن جاتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کاکول میں پاسنگ آئوٹ پریڈ تھی۔ کیڈٹ کمیشن لے رہے تھے۔ بڑے دروازے کے پاس ایک دیہاتی تہمد میں ملبوس کھڑا تھا اور اس کا لفٹین بیٹا اس کیساتھ لپٹا ہوا تھا! جرنیل کا بیٹا ہر حال میں جرنیل نہیں بنتا۔ لیکن اگر اُن لوگوں میں جو یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو فوج میں افسر بنانا ہے اور کس کو نہیں، سیاستدانوں کو بھی شامل کرلیا جائے اور فوج کے پروموشن بورڈ میں بھی سیاست دانوں کو بٹھا دیا جائے تو وزیروں اور اسمبلیوں کے ممبروں کے صاحبزادگان ضرور جرنیل بن جائینگے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ جرنیل ایسے بھی تھے جن کی اولاد کو جرنیل بننا تو دور کی بات ہے فوج ہی پسند نہیں تھی۔ایوب خان جرنیل تھے۔ ان کے والد بھی فوج میں تھے لیکن ان کے بیٹے نے فوج میں رہنا اچھا نہ سمجھا اور پیشۂ آبا یعنی سپہ گری کو لات مار کر آگئے اور اسکے بعد جو کچھ کرتے رہے تاریخ کا حصہ ہے۔ کچھ جرنیل اوجھڑی کیمپ والے بھی تھے۔ اُنکے بیٹے بھی جرنیل نہ بنے لیکن اسمبلیوں میں ضرور آئے۔ کیوں آئے؟ کیسے آئے؟ کیوں کر آئے؟ آپ تو یوں پوچھ رہے ہیں جیسے واقعی آپ کو کچھ نہیں معلوم! ان میں سے ایک نے کچھ عرصہ پہلے کہا ہے کہ لال مسجد کا سانحہ جب ہوا تو انہیں وزارت سے استعفیٰ دینا چاہئے تھا۔ افسوس! انہوں نے قوم کو یہ نہیں بتایا کہ وہ استعفیٰ کیوں نہ دے سکے؟ اور جب انہوں نے یہ کہا کہ لال مسجد کے سانحہ پر انہیں استعفیٰ دے دینا چاہئے تھا تو اس میں آخر ہنسنے کی کون سی بات تھی؟ لیکن افسوس! لوگ پھر بھی ہنسے! زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جرنیل کا بیٹا جرنیل بنے تو لوگ عش عش کرتے ہیں لیکن اگرجرنیل کا بیٹا سیاست دان بنے تو لوگ ہنستے ہیں!
رہی وفاقی وزیر کی یہ بات کہ سیکرٹری کا بیٹا سیکرٹری بنتا ہے تو یہ وہ فقط معصومیت کی وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ ورنہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سول سروس کیلئے مقابلے کا امتحان پاس کرنا پڑتا ہے جو اتنا آسان نہیںہوتا جتنی آسان وزارت ہوتی ہے اور کئی سیکرٹریوں کے بیٹے اس امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ سیاست دانوں کو پسند کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ حضرات ہر کام میرٹ پر کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر کا ماتحت خاتون افسر سے تنازعہ یہ نہیں تھا کہ بھرتیاں میرٹ پر نہ ہوں۔ وہ تو بھرتیاں میرٹ پر ہی چاہتے تھے لیکن انکا حکم یہ تھا کہ میرٹ کی یہ بھرتیاں اُنکے حلقے ہی سے ہوں۔ عمر کا تقاضا ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ وہ اپنے حلقے کے نہیں پورے پاکستان کے وزیر ہیں۔ ریلوے کی بھرتی میں صوبوں کے اپنے اپنے حصے ہیں۔ اب اگر پورے صوبہ سرحد کے حصے کی بھرتیاں وزیرصاحب کے حلقے کو دے دی جائیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ یہ دھاندلی بھی تو میرٹ ہی پر ہونا تھی!
سیاست دانوں کی ’’میرٹ پسندی‘‘ کے اور واقعات بھی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سیاست دان تھے۔ انہوں نے ’’میرٹ‘‘ پر جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا۔ انہیں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو ’’میرٹ‘‘ پر پھانسی دے دی۔ پھر میاں نوازشریف نے خالص ’’میرٹ‘‘ پرجنرل مشرف کو آرمی چیف بنایا۔ میاں صاحب آخر وزیراعظم تھے۔ انہیں یہ رپورٹیں تو ضرور ملی ہونگی کہ جنرل مشرف کس قماش کے انسان ہیں اُنکے شب و روز کیسے گزرتے ہیں۔ وہ کیوں مشہور ہیں اور انکے پسندیدہ مشاغل کیا ہیں۔ لیکن ’’میرٹ‘‘ کا حملہ اتنا شدید تھا کہ ان رپورٹوں کے باوجود میاں صاحب نے جنرل مشرف ہی کو فوج کاسربراہ بنایا! ایسے مواقع ہی کیلئے تو فارسی کا یہ مصرع ایجاد ہوا ہے…
ع ۔ رموزِ مملکتِ خویش خسرو اں دانند
پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ جو بھی اقتدار پر بیٹھتا ہے اپنے آپکو خسرو سمجھتا ہے اور ملک کو اپنی مملکت گردانتا ہے!
بات اہل سیاست کی میرٹ پسندی کی ہو رہی تھی۔ ایک سیاست دان ظفراللہ جمالی جب وزیراعظم بنے تو ایک اور سیاست دان قاضی حسین احمد نے اُنہیں نصیحت کی کہ اب میرٹ پر فیصلے کرنا، تو پہلے سیاست دان نے دوسرے سیاست دان کو جو جواب دیا وہ فرشتوں کو چاہئے کہ آسمان پر نور سے اس طرح لکھیں کہ رہتی دنیا تک لوگ اُسے دیکھتے اور پڑھتے رہیں۔ اس نے جواب دیا کہ میں خود کون سا میرٹ پر آیا ہوں! دوسرے سیاست دان سے یاد آیا کہ وہ اب جماعت کے سربراہ نہیں رہے اس لئے عید انہوں نے مسجد قاسم خان کے فتویٰ کیمطابق کی ہے جبکہ منصورہ والوں نے اُسکے ایک دن بعد کی ہوگی! اب یا تو قاضی حسین احمد صاحب کی عید درست تھی یا منصورہ والوں کی! ظاہر ہے کہ دونوں تودرست نہیں ہوسکتیں لیکن اہل سیاست کا کمال یہ ہے کہ وہ دونوں کودرست ثابت کر دینگے اور ایک وجہ انہیں ازحد پسند کرنے کی۔ یہ کمال بھی ہے۔ یوں بھی سابق امیر کیلئے موجودہ (حاضر سروس) امیر کی اطاعت ضروری نہیں! اطاعتِ امیر کا سبق عوام کیلئے ہے خواص کیلئے نہیں رہا، ان کا منصورہ کے بجائے مسجد قاسم خان کو ترجیح دینے کا معاملہ تو انگریزی نے ایسے مواقع کیلئے ایک محاورہ ایجاد کیا ہے۔
BLOOD IS THICKER THAN WATERیعنی خون کا رشتہ دوسرے سب
روابط پر بھاری ہوتا ہے!!
ایک اور خوبی سیاست دانوں میں یہ ہے کہ وہ ہر کام حساب کتاب سے کرتے ہیں۔ اسکی مثال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے دو ایسی خواتین کو وزیر بنایا جو جنرل مشرف کے زمانے میں بھی وزیر رہیں۔ اسکے مقابلے میں مسلم لیگ نون نے ایک ایسے مرد کو سینے سے لگایا جو جنرل مشرف کیساتھ سارا عرصہ وزیر رہا۔ اب حساب کتاب کا حیرت انگیز پہلو دیکھئے کہ اہل سیاست نے ثابت کردیا کہ وہ ایک مرد وزیر کو دو خواتین وزیروں کے برابر…یا ایک وزیر مرد کو دو وزیر خواتین کا ہم پلّہ سمجھتے ہیں۔
اور آخری وجہ سیاست دانوں پر فدا ہونے کی یہ ہے کہ وہ لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انگریز ایسے شخص کو PRAGMATIC کہتے ہیں یعنی وقت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے والا۔ وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق سیاسی وفاداریاں بدل لیتے ہیں۔ سول کو طلاق دیکر مارشل لاء کے ہم نوا ہو جاتے ہیں اور حالات پلٹیں تو ایک بار پھر جمہوریت کو خدا مان لیتے ہیں۔ یہ بہت بڑی خوبی ہے جو سیاست دانوں میں پائی جاتی ہے۔ وفاداری…جو اصل ایماں ہے، برہمنوں کی خوبی ہے۔ مسلمان کو زیبا نہیں…
؎وفا داری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
 

powered by worldwanders.com