Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, August 31, 2019

ادبی میلے یا مخصوص لابیاں




’’2002

ء کے قتل عام پر ایک نظر ڈالیے۔ اس سال 27فروری کو گجرات میں گودھرا ریلوے سٹیشن پر ایک ٹرین کو آگ لگ گئی اس میں ہندو زائرین سوار تھے۔ فی الفور اور ذرہ بھر ثبوت کے بغیر مودی نے اعلان کر دیا کہ پاکستان کی سیکرٹ سروس اس کی ذمہ دار ہے۔ پھر اس نے جلی ہوئی لاشوں کو احمد آباد شہر میں پھرایا اور اپنی ہی حکومتی پارٹی سے تین دن کی ہڑتال کرا دی۔ نتیجہ خونریزی کی صورت میں نکلا۔ سرکاری اندازوں کے مطابق ایک ہزار جانیں قتل ہوئیں۔ آزاد ذرائع یہ تعداد دو ہزار بتاتے ہیں۔بھاری اکثریت ان میں مسلمانوں کی تھی۔ ہجوم عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کو گھسیٹ کر گھروں سے نکالتا اور ان کی آبرو ریزی کرتا۔2007ء میں تفتیشی میگزین ’’تہلکہ‘‘ نے رنگ لیڈرز کے بیان ریکارڈ کئے۔ ان میں سے ایک نے جس کا نام بابو بج رنگی تھا بتایا کہ کیسے اس نے ایک حاملہ عورت کا پیٹ چیر کرکھولا۔کچھ سال بعد مودی نے کہا کہ اس قتل عام پر اسے اتنا ہی دکھ ہوا جتنا اس شخص کو ہوتا ہے جس کی گاڑی کے نیچے کتے کا بچہ آ جائے۔ 


یہ بیان کسی پاکستانی کا ہے نہ کسی بھارتی مسلمان کا نہ کسی کشمیری کا۔ یہ سب کچھ برطانوی اخبار’’دی گارڈین‘‘ نے اپنی سات اپریل 2014ء کی اشاعت میں لکھا۔ یہی مودی اب گجرات والا کھیل کشمیر میں کھیل رہا ہے۔ مشرقی پنجاب کی کہانی دہرانے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ وادی میں پولیس سے ہتھیار واپس لے لیے گئے ہیں۔ تھانوں میں تلواریں خنجر اور چاقو جمع کر کے ہندو بلوائیوں میں تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ مسلمان گھروں میں مقید ہیں۔ ہر کشمیری مسلمان کے سر پر ایک فوجی کھڑا ہے۔ 


ایسے میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کا مینجنگ ڈائریکٹر اسلام آباد میں اگلے مہینے منعقد ہونے والے ’’ادبی میلے‘‘ کے ضمن میں کہتا ہے کہ بھارتی مصنفہ دیپا اگروال کو دعوت دی گئی ہے مگر ’’انڈیا اور پاکستان کے درمیان ٹینشن

(tenstion)

کی وجہ سے نہیں آ پائے گی‘‘ 


پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ’’ٹینشن‘‘ نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بربریت کا راج ہے! دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسے میں جب پوری پاکستانی قوم بھارت کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ ایئر سپیس بند کی جا رہی ہے۔ تجارت ختم ہو رہی ہے۔ سفارتی تعلقات صفر ہیں تو بھارت کے ادیبوں کو کس برتے پر بلایا جا رہا ہے؟ کیا آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کو یاد نہیں کہ کشور ناہید اور سلیمہ ہاشمی جیسی روشن خیال شخصیات کو بھارت میں بلا کر کانفرنسوں میں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ 


اصل کہانی کیا ہے؟ اصل کہانی یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے ادبی میلوں ٹھیلوں کا یہ جو سلسلہ شروع کیا تو اس میں خاص مزاج اور مخصوص نکتہ نظر رکھنے والے نام نہاد دانشوروں کو پروموٹ کیا۔ یہ وہ دانشور ہیں جن کی زبانوں پر قائد اعظم اور تحریک پاکستان کا نام بھول کر بھی نہیں آتا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کی ویب سائٹ کھول کر دیکھیے۔ اس سال مارچ میں کراچی میں ادبی میلہ کرایا گیاویب سائٹ کے پیش منظر پر انور مقصودامر جلیل اور آئی اے رحمن کی تصویریں نمایاں ترین ہیں ع 


قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا 


اس سے آپ نکتہ نظر اور تعصب کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک مخصوص جھکائو رکھنے والے دانشوروں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ افتخار عارف، کشور ناہید اور کبھی کبھی مستنصر حسین تارڑ کو برائے ’’وزنِ بیت‘‘ بلا لیا جاتا ہے مگر ان ادبی میلوں کے پیش منظر پر ممتاز حیثیت انہی کو دی جاتی ہے جو نظریاتی حوالے سے ’’راس‘‘ آتے ہیں۔ 


اس ویب سائٹ پر ایک تصویر ایک امریکی مصنفہ 

Deborah Baker

کی بھی نظر آئے گی جسے مارچ کے ادبی میلے میں بلایا گیا۔ اس کی وجہ شہرت اس کی وہ کتاب ہے جو اس نے معروف نو مسلمہ مریم جمیلہ کی سوانح کے طور پر لکھی۔ اس میں سوانح کم اور تنقیص زیادہ ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد مریم جمیلہ کا ایک بھر پور منفی تاثر ابھرتا ہے۔ مگر کیا دیبورہ بیکر واقعی امریکی ہے؟ نہیں! وہ بھارتی بھی ہے۔ اس نے بھارتی ادیب امی تاو گھوس سے شادی کی ہوئی ہے۔ زیادہ تر کلکتہ اور گوا میں رہتی ہے۔ اس بھارتی مصنف یعنی اس کے میاں نے ایک کتاب’’دی امام اینڈ انڈین‘‘ بھی لکھی ہے جس میں ہندو انتہا پسندی کا نہیں، مسلمان انتہا پسندی کا ذکر ہے


ان نام نہاد ادبی میلوں کے حوالوں سے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان کا ایک غیر اعلان شدہ اتحاد ایک معروف انگریزی روزنامہ سے ہے جو اپنی پیشانی پر قائد اعظم کا نام لکھتا ہے مگر ہر اس پہلو کو نشانہ بناتا ہے جس کا قائد اعظم کے پاکستان سے مثبت تعلق ہو۔ اس کے ہفتہ وار ایڈیشن پر جو کتابوں اور ادیبوں کے متعلق ہوتا ہےنصف درجن ادیبوں پر مشتمل ایک مخصوص لابی چھائی ہوئی ہے۔ جن میں بھارتی نژاد بھی شامل ہیں۔ اگر آپ کا تعلق اس مخصوص لابی سے نہیںاگر آپ نظریاتی طور پر پاکستان سے محبت کرتے ہیںتقسیم ہند کو درست سمجھتے ہیں اور اگر آپ قائد اعظم کے نام لیوا ہیں تو یہ ادبی میلے اور اس اخبار کے ادبی صفحات آپ کے شعر و ادب کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔ آپ تو خیر پاکستانی ہونے کے حوالے سے کسی شمار قطار ہی میں نہیں آئیں گے۔ یہ ادبی میلے تو بھارت ہی کی مصنفہ ارون دھتی رائے کو کبھی نہیں بلائیں گے اس لئے کہ وہ پاکستانی فوج کی تعریف کرتی ہے اور مسلمانوں کے قتل عام پر شدید تنقید کرتی ہے۔ 

اس کا تازہ ترین بیان دیکھیے۔


ii ’’کشمیرمنی پورناگا لینڈمیزو رامتلنگانہپنجابگوا اور حیدر آبادمیں بھی بھارتی حکومت نے جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ان ریاستوں میں فوجی جنگ جاری ہے۔ بھارتی حکومت نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوج تعینات کر رکھی ہے۔ پاکستان اپنے لوگوں کے خلاف فوج استعمال نہیں کرتا جیسا کہ نام نہاد جمہوریہ بھارت کر رہا ہے بھارت نے آزادی ملتے ہی اپنے ہی لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے درجنوں علاقوں میں فوج کو استعمال کیا‘‘ 


جس انگریزی روزنامہ کا اوپر ذکر ہوا ہے اس کا پاکستان کی مسلح افواج سے ’’محبت‘‘ کا خاص رشتہ ہے کوئی موقع اس کے ہاں ضائع نہیں کیا جاتا۔ جس میں ہماری افواج کی اہانت کا پہلو نکلتا ہو اس کے ایک سٹاف ممبر نے نواز شریف کے حوالے سے فوج کو ہدف تنقید بنانے میں اور خصوصی طور پر ان کا ایک خاص انٹرویو لینے میں خوب خوب شہرت پائی۔ 


بھارت اس وقت مسلمانوں کے لئے مرگھٹ بن چکا ہے۔ جو کچھ آسام میں ہو رہا ہے اس کا ذکر بھارتی اخبارات تو پھر بھی کر دیتے ہیںہمارے ان مخصوص خیالات رکھنے والے اخبارات میں نہیں ہوتا۔ بھارتی مسلمانوں کو زدوکوب کیا جا رہا ہے۔ داڑھیاں نوچی جا رہی ہیں۔ گھر جلائے جا رہے ہیں بکرے کے گوشت کی دو بوٹیاں ریفریجریٹرسے نکلیں تو پورا گھرپورا خاندان جلا کر خاکستر کر دیا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان گائے بیچنے جا رہا ہو تو اسے مار دیا جاتا ہے۔ سنگدلی اور سفاکی کی انتہا یہ ہے کہ گجرات میں دو لاکھ مسلمان بے گھروں میں سے کچھ کے لئے جب کیمپ بنانے پڑے تو مودی نے انہیں ’’بچے پیدا کرنے والی فیکٹریاں‘‘ قرار دیا۔ اس مائنڈ سیٹ کا مالک آج بھارت کا وزیر اعظم ہے اور بھارتیوں کی اکثریت اس کی انتہا پسندی کی آواز پر لبیک کہہ چکی ہے۔ ایسے میں قوم ان نام نہاد دانشوروں کو خوب پہچانتی ہے جو کشمیر کا ذکر کرتے بھی ہیں تو ساتھ اگر مگر لگاتے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ سرحد پار سے ہلتی ہوئی ڈور پر کون کون ناچتا ہے اور ایم آئی سکس کی تال پر رقص کرنے والے کون ہیں؟ 


پاکستانی بھارت کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ اگر کسی یونیورسٹی پریس کو بھارت کے ساتھ لنک عزیز ہے تو سامان باندھےسرحد پار کر لے اور اپنے ساتھ اُس لابی کو بھی لے جائے جو ابھی تک تقسیم ہند پر ماتم کر رہی ہے اور افواج پاکستان سے جس کی دشمنی ڈھکی چھپی نہیں

Thursday, August 29, 2019

ڈر ………جو ہمیں کھا گئے



‎آپ گاڑی چلا رہے ہیں۔ یہ بڑی شاہراہ ہے جسے ’’مین روڈ‘‘ کہتے ہیں سامنے ‘ بائیں ہاتھ پر‘ ایک چھوٹی سڑک اس بڑی شاہراہ سے مل رہی ہے۔ اس چھوٹی سڑک پر ایک گاڑی عین اس وقت نمودار ہوتی ہے جب آپ موڑ پر پہنچنے والے ہیں۔ آپ کو ڈر لگتا ہے کہ اگر چھوٹی سڑک سے آنے والی گاڑی نہ رکی اور مین روڈ پر چڑھ آئی تو آپ کی گاڑی سے ٹکر لگے گی اس ڈر سے آپ بریک لگاتے ہیں ۔چھوٹی گاڑی والا ایک ثانیے کے لئے بھی نہیں رکتا۔ بس یہی وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں نہیں لاحق ہوتا۔ آپ مین روڈ پر وہاں بلا کھٹکے گاڑی چلاتے جائیے۔ چھوٹی سڑک سے آنے والے نے ہر حال میں رکنا ہے۔ اگر مین روڈ بالکل خالی ہے تب بھی چھوٹی سڑک سے آنے والے نے بریک لگانی ہے۔ 

‎آپ نے جوتے خریدے ہیں۔ گھر آ کر دیکھا کہ یہ تو فٹ نہیں آ رہے۔ دوسرے دن بازار کا رخ کرتے ہیں کہ واپس کر آئیں آپ ڈر رہے ہیں کہ نہ جانے دکاندار واپس لے گا یا نہیں! ہو سکتا ہے بدلنے کی اجازت دے مگر ماپ کا جوتا نہ ملا تو کیا وہ جوتے واپس لے کر رقم لوٹا دے گا؟ بس یہی وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں نہیں ہوتا جوتا پورا ہے یا نہیں۔ دکاندار وجہ پوچھے بغیر واپس لینے کا اور رقم لوٹانے کا پابند ہے! 

‎آپ ایئر پورٹ کی طرف جا رہے ہیں‘ جہاز پکڑ کر کراچی پہنچنا ہے۔ کراچی سے دوسرے جہاز 
(Connectedفلائٹ) 
‎کے ذریعے ملک سے باہر روانہ ہونا ہے۔ آپ ڈر رہے ہیں کہ جہاز وقت پر نہ چلا اورکراچی تاخیر سے پہنچا تو کراچی سے بیرون ملک جانے والی پرواز ہاتھ سے نکل جائے گی۔ یہ ڈر اور بھی زیادہ ہوجاتا ہے جب آپ یہ سوچتے ہیں کہ کراچی والا جہاز غیر ملکی ایئر لائن کا ہے اور اس نے ایک لمحہ تاخیر کئے بغیر وقت پر اپنے دروازے بند کر دیے ہیں جب کہ کراچی تک پہنچانے والا جہاز ’’اپنی‘‘ ایئر لائن کا ہے بس یہ وہ ڈر ہے جو آپ کو غیر ملکی ایئر لائنوں میں سفر کرتے وقت نہیں ہوتا۔ 

‎آپ کی طبیعت ناساز ہے ڈاکٹر سے آپ نے وقت لیا ہے ۔طے شدہ وقت کے مطابق کلینک کی طرف جا رہے ہیں آپ کو ڈر ہے کہ نہ جانے ڈاکٹر کلینک میں ہے بھی یا نہیں! اپائنٹ منٹ کے باوجود آپ کو نہ جانے کتنا بیٹھنا پڑے گا۔ پچھلی بار آپ کو چار گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ بس یہ وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں کسی مریض کے دل میں سوئی نہیں چبھوتا۔ زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے یا آدھا گھنٹہ۔ ڈاکٹر کسی ایمرجنسی کی وجہ سے غیر حاضر ہے تو آپ کو فون پر اطلاع دی جائے گی ورنہ وہ اپنے کمرے سے نکل کر انتظار گاہ میں آئے گا اور آپ کو خود ساتھ لے کر اپنے کمرے میں لے جا کر دیکھے گا! 

‎آپ کا نوکری کے لئے انٹرویو ہے!تیار ہو کر نکلتے ہیں۔ شاہراہ پر ٹریفک رینگتی نظر آتی ہے۔ اب آپ ڈر رہے ہیں کہ یہ رینگتی ٹریفک آگے جا کر بالکل نہ رک جائے!کوئی مذہبی یا سیاسی جلوس نہ نکل رہا ہو۔ کسی نے لاش چارپائی پر رکھ کر چارپائی شاہراہ کے درمیان نہ رکھی ہوئی ہو۔ اگر ایسا ہوا چار پانچ گھنٹے تو کہیں گئے ہی نہیں! بس یہ وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں آپ کو اندر سے نہیں کھاتا ٹریفک جام کی اور بات ہے۔ ورنہ ناممکن ہے کہ جلوس یا احتجاج یا حاکم کے پروٹوکول کے شاہراہ عام بند ہو! 

‎بدقسمتی سے آپ کے گھر رات کو چوری کی واردات ہو گئی۔ آپ پولیس سٹیشن جا رہے ہیں۔ آپ ڈر رہے ہیں کہ نہ جانے ایس ایچ او موجود ہو گا یا نہیں! محرر کیا سلوک کرے گا؟ کتنی دیر لگے گی ؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایف آئی آر کٹے گی یا نہیں؟ یہ وہ ڈر ہے جو مذہب ملکوں میں نہیں پایا جاتا۔ آپ فون کریں گے تو پولیس والے خود آئیں گے آپ کو تھانے کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے۔ 

‎آپ کے کسی عزیز کوگھرمیں دل کا دورہ پڑا ہے۔ آپ ایمبولینس کے لئے ہسپتال فون کرتے ہیں۔ اب آپ ڈر رہے ہیں کہ نہ جانے ایمبولینس کتنی دیر میں پہنچے گی۔ اگر ایمبولینس کا ڈرائیورچائے پینے گیا ہوا ہے تو نہ جانے کب لوٹے گا؟ اگر ایمبولینس کے پیچھے کوئی گاڑی پارک کر کے غائب ہو گیا ہے تو کیا ہو گا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایمبولینس بڑے ڈاکٹر صاحب یا وزیر صحت کے گھر قربانی کے جانور پہنچانے میں مصروف ہو(ایسی کئی مثالیں موجود ہیں)یہی وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں نہیں ہوتا۔ ایمبولینس پانچ دس منٹ میں پہنچ جاتی ہے ادھر مریض ایمبولینس میں رکھا گیا‘ ادھر ایمبولینس ہی میں ضروری ٹیسٹ لینے کی کارروائی شروع ہو گئی۔
ہ

‎ آپ کے بیٹے یا بیٹی کی شادی ہے بیسیوں قسم کے ڈر آپ کا خون خشک کر رہے ہیں۔ بیٹی والے ہیں تو عذاب دوگنا ہے۔ برات میں کتنے لوگ ہوں گے۔ بیٹے والوں کے مطالبات میں کتنا اضافہ ہو گا؟ ملبوسات تیار کرنے والے وقت پر کام پورا کریں گے یا نہیں؟ لہنگا کب ملے گا؟ زیورات کتنے ہوں گے؟ کیا مالیت ہو گی اور تیار کب ہوں گے؟ کارڈ کب تک چھپیں گے؟ مہمانوں کی فہرست میں کوئی رہ گیا تو جان مصیبت میں آ جائے گی سب سے بڑھ کر یہ کہ پھپھا جان ناراض ہیں اوراس موقع پر وہ اپنی ناراضگی کو ہتھیار بنا کر خوب بلیک میل کریں گے۔ انہیں کس طرح منایا جائے گا؟ کھانا کہیں کم نہ پڑ جائے؟ لڑکی والوں کے لئے جو صوفے ہال میں ریزرو رکھے ہیں ان پر دوسرے مہمان نہ براجمان ہو جائیں۔ ہم کچھ مواقع پر اپنے اعمال کی سزا دنیا میں اپنے آپ کو خود بھی دیتے ہیں اورشادی ان میں سے ایک ہے۔ مہذب ملکوں میں یہ سارے ڈر مفقود ہیں ۔ لمبی چوڑی فہرستیں ہیں نہ شادی ہال نہ کھانے کے مہنگے مینو! پھپھا قسم کی مخلوقات ناراض ہی نہیں ہوتیں کہ منایا جائے۔ لڑکے والے فرعونیت کا مظاہرہ نہیں کرتے نہ لڑکی والے ماتحت ہونے کا ثبوت دیتے ہیں! 
م
‎آپ مکان بنوا رہے ہیں۔ بیسیوں نہیں سینکڑوں قسم کے ڈر ہیں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ مکان مکمل ہونے تک آپ کو ذیابیطس کی بیماری لگ جائے گی۔ بلڈ پریشر کی بلندی تو کہیں گئی ہی نہیں! مستریوں سے خوں ریز جھگڑے ہوں گے۔ شٹرنگ والا۔ رنگ والا۔ بجلی ولکڑی والا‘ پلمبر اور نہ جانے کس کس سے پالا پڑے گا۔ مہذب ملکوں میں یہ ڈر بھی دور کر دیے گئے ہیں۔ آپ ایک کمپنی کو مکان بنانے کا کام دیتے ہیں کچھ ملکوں میں تو دوران تعمیر مالک اندر آ کر دیکھ بھی نہیں سکتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ مقررہ وقت کے اندر آپ کے دیے ہوئے نقشے کے مطابق مکان بنا کر آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ کاریگروں سے الگ الگ نمٹنے کی ضرورت ہی نہیں!

‎ آپ مالک مکان ہیں۔ ڈر رہے ہیں کہ کرایہ دار وقت پر کرایہ دے گایا نہیں! مکان کے ساتھ جانے کیا سلوک ہو رہا ہو گا!کرایہ دار ہیں تو کچھ خراب ہونے کی صورت میں مالک کے پیچھے پیچھے بھاگنا پڑے گا۔ مہذب ملکوں میں یہ سارے ڈر نہیں ہیں۔ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ دونوں طرف کا ذمہ دار ہے۔ کرایہ دار مکان کی دیوار میں کیل تک نہیں گاڑ سکتا۔کرایہ ہر ماہ یا ہر پندرہویں دن کرایہ دار کے بنک اکائونٹ سے خود بخود ایجنٹ کے اکائونٹ میں منتقل ہو جائے گا۔ کرایہ دار کے حقوق زیادہ ہیں۔ مالک مکان سروسز جاری رکھنے کا پابند ہے۔ 

‎تہذیب ‘ امارت کا نام نہیں! نہ محلات اور سونے چاندی کی کثرت کا نام ہے! مہذب معاشرے وہ ہیں جہاں قسم قسم کے ڈر لوگوں کی نیندیں نہیں حرام کر رہے ،جہاں سسٹم شہریوں کی حفاظت کرتا ہے۔

Tuesday, August 27, 2019

وہ شے لائو جس کی منڈی میں ڈیمانڈ ہے



‎میں اور شوکت ایک ہی گائوں کے تھے۔ اکٹھے گلیوں میں کھیلے۔ کھیتوں میں تتلیاں پکڑیں۔ مقامی پرائمری سکول سے دونوں نے ایک ساتھ پانچویں جماعت پ
‎زمانے کی گردش بھی عجیب ہے۔ آج ہم دونوں ایک ہی شہر میں رہ رہے ہیں۔ مگر باہمی رشتہ گائوں والا نہیں! وہ برابری کا رشتہ تھا۔ آج حالات مختلف ہیں۔ شوکت ایک کامیاب بزنس مین ثابت ہوا۔ میں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔ پھر معاشی جبر تلے پستا‘ اس سے گاہے بگاہے قرض لیتا رہا، مکان بنایا تو اس نے مدد کی بچوں کی شادیوں پر اس سے ادھار مانگا۔ 

‎برابری سے چلا ہوا یہ رشتہ اب عجیب و غریب شکل اختیار کر چکا ہے۔ ملنے جائوں تو باہر کھڑے کھڑے ملتا ہے۔ سماجی تقاریب میں‘ جو اس کے گھر منعقد ہوتی ہیں۔ مجھے کبھی نہیں دعوت دی جاتی! اپنے کسی بچے کی شادی پر شوکت نے مجھے نہیں بلایا۔ 

‎یہ ہے معاملہ پاکستان اور یو اے ای کا! 

‎برابری کے تعلقات کیسے قائم ہو سکتے ہیں؟ کہاں پاکستان کی دریوزہ گری! کہاں یو اے ای کی بخشیش!! جس ملک کے وزیر اعظم اور درجنوں وزراء اور عمائدین اقامے کی خاطر ویلڈر‘ الیکٹریشن‘ ڈرائیور‘ کلرک اور چپراسی بن کر یو اے ای میں مزدوری کر رہے ہوں۔ اس ملک کو یو اے ای برابری کی سطح پر کس طرح رکھ سکتا ہے؟ یو اے ای کو معلوم ہے کہ پاکستان کے سابق صدر اور سابق وزیر اعظم یو اے ای کے محتاج ہیں۔ پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت سے وہاں کارخانے لگائے گئے۔ سابق صدر کا دوسرا (یا پہلا؟) گھر ہی دبئی میں ہے ۔ایک عشرے تک گورنری میں داد عیش دینے والے عشرت العباد نے بچوں کی شادیاں وہیں کیں۔ جس ملک کے حکمران عملاً یو اے ای کے شہری ہوں اور اپنے ملک میں اپنی دولت نہ رکھتے ہوں وہ ملک پاکستان کو کیسے برابری کی سطح پر رکھ سکتا ہے؟ 

‎پاکستان یو اے ای کے سامنے کب کورنش بجا نہیں لایا؟ معدوم ہوتے پرندوں کا شکار۔ جو خود پاکستانیوں کے لئے ممنوع ہے۔ یو اے ای کے شہزادوں کے لئے ہمیشہ دستیاب رہا! ہماری وزارت خارجہ ان شہزادوں کے لئے کنیز کا کام کرتی رہی! کشکول میں کبھی انہوں نے کوئی ایئر پور ٹ ڈال دیا کبھی صحرا کے درمیان کوئی سڑک پکی کرا دی۔ ان کی خدمت کے لئے عزتیں تک گروی رکھی گئیں! سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے-

‎دوسری طرف بھارت ہے! کسی ملک کے حکمران کی خاطر بھارت نے اپنے کسی قانون میں کبھی لچک نہیں دکھائی۔ اس کے حکمرانوں کی جیبوں سے یو اے ای کے اقامے کبھی نہیں نکلے۔ بھارت کا کوئی سابق صدر کوئی عشرت العباد دبئی میں مقیم نہیں! سونیا گاندھی کا کوئی محل‘ دبئی میں بے نظیر بھٹو کے محل کے ساتھ نہیں کھڑا ملتا! بھارت نے کبھی مفت تیل کی بھیک مانگی نہ بیل آئوٹ ہونے کے لئے منت زاری کی!

‎ یو اے ای کی بڑی بڑی کمپنیاں بھارتی چلا رہے ہیں۔ ڈینیوب گروپ‘ این ایم سی ہیلتھ کیئر‘ آسٹر ڈی ایم ہیلتھ کیئر‘ جویا گروپ ان میں سے صرف چند ہیں! روزنامہ گلف نیوز کے مطابق 2018ء کے دوران بھارت اور یواے ای کی تجارت کاحجم 36ارب ڈالر رہا!(اس میں تیل کی خریدو فروخت شامل نہیں) اس وقت یواے ای میں 4365بھارتی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔238کمرشل کمپنیاں ہیں ۔شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس میں بھارت نمایاں کردار نہ ادا کر رہا ہو۔ جائیداد کی خریدو فروخت‘ تھوک‘ پرچون‘ ٹرانسپورٹ‘ عمارتی تعمیراتی‘ ایڈمنسٹریشن‘ آئی ٹی‘ مواصلات ‘ اطلاعات ‘ تعلیم‘ ہر میدان میں بھارتی آگے آگے ہیں۔ ایک ہفتے میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہزار سے زیادہ پروازیں آتی جاتی ہیں۔بھارت کے ہر بڑے شہر سے ہوائی جہاز براہ راست یو اے ای جا رہے ہیں۔ 

‎اس سال مارچ میں ابو ظہبی نیشنل آئل کمپنی نے دو بھارتی آئل کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کی رو سے آئل اور گیس دریافت کرنے کے حقوق ان بھارتی کمپنیوں کو ملے ہیں۔ یہ سرمایہ کاری سترہ کروڑ ڈالر کی ہے۔ حال ہی میں بھارت کے ریڈی سڈی
 (reddy sidi)
‎گروپ کو سیمنٹ کا کارخانہ لگانے کا ٹھیکہ ملا ہے یہ سرمایہ کاری پونے اٹھارہ کروڑ ڈالر کی ہے! یہ صرف مشتے نمونہ از خروارے ہے۔ ہر تیسرا شخص یو اے ای میں بھارتی ہے۔ یعنی کل آبادی کا تقریباً 30فیصد!! 

‎میں شوکت کو ہمیشہ گائوں کے حوالے سے دیکھتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ بچپن کے اکٹھے گزارے دنوں کے صدقے شوکت مجھے برابری کی سطح پر رکھے گا۔ مگر شوکت کے لئے گائوں کا تعلق کوئی تعلق نہیں! وہ مجھے بزنس کی عینک سے دیکھتا ہے اور اس عینک سے میں اسے بہت چھوٹا‘ بہت حقیر نظر آتا ہوں۔ خدا کے بندو! امہ امہ کا نام لے کر یو اے ای اور بھارت کی قربت پر دھاڑیں مار مارکر رونے والو!امہ کا تصورتمہارا یک طرفہ تصور ہے! یو اے ای‘ سعودی عرب‘ بحرین یا کوئی اور مسلمان ملک امہ کے حوالے سے تمہیں بھارت پر کبھی ترجیح نہیں دے گا کیوں کہ یہ عملاً ممکن نہیں! ان ملکوں کی معیشتیں امہ کی بنیاد پر نہیں قائم! اگر  یو اے ای کا انحصار امہ پر ہوتا تو وہ آج یورپ اور امریکہ کا مقابلہ نہ کر رہا ہوتا! ملٹی نیشنل کمپنیوں پر یورپی اور امریکی بیٹھے ہیں۔ آپ میں سکت ہوتی تووہاں آپ بیٹھے ہوتے جس ملک سے اپنی ایئر لائن نہیں چل رہی اور جس کا دعویٰ فقط اس گئے گزرے غرورپر مشتمل ہے کہ ایمیریٹ کو ہم نے اُڑنا سکھایا تھا۔ اسے یو اے ای گھر میں رکھے یا گھاٹ میں؟ ایک سٹیل مل تھی اور ایک ایئر لائن ۔ دونوں بدترین سیاسی بھرتیوں‘ سیاسی مداخلتوں کی نذر ہو گئیں۔ آپ کے مقابلے میں بھارت اپنے کارخانے اپنے جہاز‘ اپنی ریل گاڑیاں‘ اپنا آئی ٹی کا کاروبار‘ دو سو فیصد زیادہ ظفریابی سے چلا رہا ہے۔ آپ خود سوچیے آپ زیادہ مفید ہیں یا بھارت؟ 

آپ دو چیزوں کی پروڈکشن کے لیے مشہور ہیں   خود کش جیکٹ  اور مدرسے۔ یہ دونوں اشیا  کسی کو درکار نہیں 
‎آپ کے حکمران بھارت سے لے کر دبئی اوردوحہ تک پاکستان کے نہیں اپنے ذاتی کاروبار کے لئے تعلقات کے جال 
‎بچھاتے رہے! سو‘ ان کا ذاتی کاروبار خوب پھلا پھولا۔ ملک کے کاروبار کے لئے محنت کرتے تو ملک ترقی کرتا! لیس للانسان الاما سعیٰ ۔ انسان وہی حاصل کرتا ہے جس کے لئے کوشش کرتا ہے! 

‎ان بھاری بھرکم فربہ، لحیم شحیم مذہبی کم‘ مسلکی زیادہ رہنمائوں کو تلاش کرو جو مشرق اوسط سے آئے ہوئے عباپوش دینی شخصیتوں کی آمد پر آپے سے باہرہو کر تقریبات پر تقریبات منعقد کرتے ہیں اور کسی دوسرے مسلک کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتے! آج وہ منقار زیر پر ہیں۔ اس لئے کہ یہ ملک کبھی ان کی ترجیح نہیں رہا! ان کی ترجیح یہ ملک ہوتا تو اپنے مسلک کے اندر مقید نہ ہوتے۔ جن کے راستے میں یہ پھول نچھاور کرتے ہیں اور سرخ قالینیں بچھاتے ہیں وہ مودی کے ساتھ معانقوں پر معانقے کر رہے ہیں مگر یہ کبھی احتجاج نہیں کریں گے۔ کیسے کریں؟کریں تو ریال ملنے بند ہو جائیں گے! ریال ملنے بند ہو گئے تو ایک ایک اینٹ کی بنی ہوئی سیاسی جماعتیں نہیں چلیں گی جن کی بنیاد پر سینٹ کی ممبریاں ملتی ہیں! کبھی دریوزہ گر بھی احتجاج کرتے ہیں؟؟ 

‎مشرقی وسطیٰ کے ملکوں کے تعلقات بھارت سے ہیں یا امریکہ سے! اس لئے کہ بھارت کے پاس مضبوط‘ عظیم الشان معیشت ہے! امریکہ کے پاس کرہ ارض کا سب سے طاقت ور لشکر ہے اور جدید ترین ہتھیار! رہے آپ تو آپ لوہے کے تاروں سے بنے ہوئے لمبے ٹوکرے میں پڑے جو پاپڑ بیچ رہے ہیں ان کی طلب ہی منڈی میں نہیں! بھائی! وہ شے لائو جس کی ڈیمانڈ ہے!!

Sunday, August 25, 2019

کشمیر سے آسام تک



ہر روز ان ویڈیو کلپس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو بھارتی مسلمانوں کی بے بسی دکھا رہی ہیں۔ 

داڑھیاں نوچی جا رہی ہیں۔ ردائیں تار تار کی جا رہی ہیں۔ زمین پر گرا کر ٹھوکریں ماری جا رہی ہیں۔ گلے گھونٹے جا رہے ہیں۔ ستونوں کے ساتھ باندھ کر زدو کوب کیا جا رہا ہے۔ سینکڑوں سالوں سے رہنے والوں سے پوچھا جا رہاہے کہ شہریت کی سند دکھائو۔ جن کی پیدائش بھارت میں ہوئی جو انتخابات میں ووٹ ڈالتے آئے ہیں‘ انہیں اٹھا اٹھا کر کیمپوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ کیپٹن ثناء اللہ بھارتی فوج سے ریٹائر ہوا۔ اس کا باپ‘ دادا‘ پردادا سب آسام میں پیدا ہوئے۔ آسام ہزاروں برس سے بھارت کا حصہ ہے مگر کپتان ثناء اللہ کو گھر سے اٹھایا گیا اور دو ہفتے جیل میں رکھا گیا۔ الزام یہ تھا کہ تم غیر ملکی ہو! 

مودی حکومت بھارت کو ایک اور اسرائیل بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ایک بہت بڑا اسرائیل! جس میں سینکڑوں کیمپ ہوں گے۔ مسلمانوں کو غیر ملکی ثابت کر کے ان کیمپوںمیں رکھا جائے گا۔ پروگرام یہ ہے کہ وہ انہی کیمپوں میں مرکھپ جائیں۔ ان کی آئندہ نسلیں جو بچ جائیں ان خار دار تاروں سے باہر نہ نکلیں سکیں۔ 

بھارت کے انتہائی مشرق میں آسام ہے اور انتہائی مغرب میں کشمیر‘ مودی کے بلکہ آر ایس ایس ایجنڈے کا آغاز ان دو انتہائوں سے ہو رہا ہے۔ بظاہر آسام میں یہ کہا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش سے بارڈر کراس کرنے والوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے جنہیں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ ’’دیمک‘‘ کا نام دیتاہے۔ یہ اور بات کہ اس پردے میں آسام کے لاکھوں مسلمانوں کو کیمپوں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی وزیر اعظم میں اتنی ہمت کہاں کہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے اور پوچھے کہ دیمک کون ہے؟ بنگلہ دیشی مسلمان یا آر ایس ایس کے مذہبی جنونی؟ 

اس کے ساتھ ساتھ مودی حکومت پارلیمنٹ سے ایک بل پاس کرانے کی کوشش کر رہی ہے، اس بل کے مطابق ‘ہندوئوں ‘ بدھوں اورعیسائیوں کو شہریت ثابت کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ صرف مسلمان رہ جائیں گے جن سے شہریت کا ثبوت مانگا جائے گا۔ کئی مسلمان مرد اور عورتیں آسام میں خودکشی کر چکے ہیں۔ بدنیتی کا یہ عالم ہے کہ بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے آنے والے ہندوئوں کے لئے کوئی پابندی نہیں۔ انہیں قبول کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف آسامی مسلمانوں کو زبردستی’’غیر بھارتی‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔آثار واضح ہیں کہ آسام اور کشمیر کے بعد بی جے پی کا اگلا نشانہ بہار‘ یوپی اور مدھیہ پردیش ہوں گے۔ پھر یہ تلوار آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے مسلمانوں پر گرے گی! 

اب یہاں نکتہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی توجہ کشمیر کی طرف ہے جب کہ مسلمان کُشی صرف کشمیر میں نہیں پورے بھارت میں کرنے کا منصوبہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہے۔ امیت شاہ جیسا انتہا پسند وزیر داخلہ ہے۔ ادتیا ناتھ۔ ایک متعصب پنڈت۔ یو پی جیسے اہم صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے۔ اس کالم نگار نے ادتیا ناتھ کی تقریریں یوٹیوب کے ذریعے سنی ہیں۔شدید سنسکرت زدہ ہندی بولنے والا ادتیا ناتھ کسی قصاب سے کم نہیں! وہ ایک بدمست ہاتھی ہے جو مسلمانوں پر چڑھ دوڑنا چاہتا ہے۔ اِلٰہ آباد کا نام وہ تبدیل کر چکا ہے۔ اگلی باری تاج محل کی ہے۔ دیکھیے۔ اس کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ 

یوں بھی بی جے پی نے اقتدار میں آ کر تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ بات کسی مسلمان نے کہی ہوتی تو کون مانتا۔ مگر یہ کہنا نیو یارک ٹائمز کا ہے۔ یہ امریکی اخبار اپنی حالیہ اشاعت میں لکھتا ہے۔

 ’’جب سے 2014ء میں مودی نے اقتدار سنبھالا ہے‘ سرکاری کمیٹیوں نے تاریخ کی کتابیں ازسر نو لکھی ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کے حالات پر مشتمل ابواب غائب کر دیے گئے ہیں اور سرکاری مقامات کے مسلمان ناموں کو ہندو ناموںمیں بدل دیا گیا ہے۔ ہندوئوں کے ہجوم درجنوں مسلمانوں کو جان سے مار چکے ہیں۔ شاید ہی کسی کو سزا ملی ہو‘‘ 

اگر کوئی غیر ملکی صحافی اس بارے میں بات کرے تو بی جے پی کے عہدیدار یا حکومتی افسر اس ظلم و ستم کو ’’انتظامی اقدامات‘‘ کا نام دے دیتے ہیں! یہ ہے وہ صورت حال جو بھارتی مسلمانوں کو درپیش ہے۔ یہ صرف کشمیر کا مسئلہ نہیں‘ بھارت کے تمام مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ ہے۔ ان حالوں‘ اب کوئی احمد شاہ ابدالی تو آنے سے رہا! ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جہاں سے احمد شاہ ابدالی مرہٹوں کو پیچھے دھکیلنے کے لئے آیا تھا‘ وہاں اب حامد کرزئی اور اشرف غنی دونوں بھات کے زلہ خوار ہیں۔ ایک کھلم کھلا اور دوسرا بین السطور!

 کیا غیب سے کوئی ایسا رہنما اٹھے گا جو مسلمان ملکوں کے سربراہوں کو شرم دلائے اوربھارتی مسلمانوں کی جان بچانے کے لئے آواز اٹھانے پر مجبور کرے؟ بدبختی کی انتہا یہ ہے کہ شرق اوسط تقریباً سارے کا سارا بھارت کے سامنے سربسجود ہے۔ یوں بھی ’’تعظیمی‘‘ سجدے کے جواز میں فتوے دینے والے علماء سو کی مسلمانوں میں کبھی کمی نہیں رہی۔ لگتا ہے تیس فیصد بھارتی آبادی رکھنے والا یو اے ای ان بھارت نواز مسلمان مملکتوں کا سرخیل ہے! ؎ 

بسی نادیدنی را دیدہ ام من 
مرا ای کاشکی مادر نہ زادی 

یہ سب کچھ جو نہیں دیکھنا تھا‘ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ کاش ماں نے جنا ہی نہ ہوتا! 

وضاحت۔ اس کالم نگار نے دو دن پہلے اپنے کالم میں مثنوی رومی سے ایک شعر نقل کیا تھا ؎ 

شیر بی دم و سرو اشکم کہ دید
 این چینن شیری خدا خود نافرید 

ہمارے بزرگ اور اردو شاعری کے لیجنڈ جناب ظفر اقبال نے نشاندہی فرمائی کہ اشکم میں الف زائد ہے جو ان کے خیال میں ٹائپ کی غلطی تھا۔ نہایت ادب سے گزارش ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ شکم سے پہلے رومیؔ نے الف اسی طرح ضرورت شعری کے لحاظ سے لگایا ہے جیسے سوار کو اسوار اور شترکو اشتر کر دیا جاتا ہے۔ رومی ہی کا شعر ہے ؎ 

اشترِ دیوانۂ سر مستِ من 
سلسلۂ عقل دریدن گرفت 

ایران کی قابل اعتبار ویب سائٹ ’’گنجور‘‘ پر تو یہ لفظ ’’اشکم‘‘ ہے ہی‘ اس کالم نگار کے پاس جو مثنوی کا آبائی نسخہ ہے اس میں بھی اشکم ہی ہے۔ یہ نسخہ نول کشور کا شائع کردہ ہے اور سال اشاعت1908ء ہے۔ دفتراول کا یہ صفحہ نمبر 76ہے۔ 

۔    
 اس اثنا میں معروف فارسی دان‘ محقق اور قدیم فارسی مخطوطات کے ماہر جناب ڈاکٹر عارف نوشاہی کا مکتوب بھی بذریعہ ای میل موصول ہو گیا۔ 23اگست کی ای میل میں عارف نوشاہی لکھتے ہیں۔

 ’’مولانا روم نے مثنوی(دفتر اوّل) میں لفظ اشکم (الف کے ساتھ) ہی استعمال کیا ہے۔ اور آپ کا حوالہ بالکل درست ہے۔ مثنوی کے تمام ایڈیشنوں بشمول نکلسن میں اشکم ہی ہے۔ 

الف کا ایک جواز تو اوپر کالم نگار نے پیش کیا ہے یعنی جس طرح سوار۔اسوار اور شتر۔اشتر ہو جاتا ہے اسی طرح شکم‘ اشکم ہو گیا۔ مگر ڈاکٹر عارف نوشاہی نے ایک اوروجہ بھی بتا کر ہمارے علم میں اضافہ کیا۔ لکھتے ہیں۔ “مزید اطلاع کے لئے عرض ہے کہ علامہ دہخدا نے اپنے لغت نامہ میں اشکم کا ماخذ پہلوی زبان سے’’اشکمب‘‘ بتایا ہے۔ معنی وہی بطن اور پیٹ کے ہیں‘‘

Saturday, August 24, 2019

کیا شائستگی بازار میں دستیاب ہے ؟



’’موسم گرما میں کپڑوں کے نیچے بنیان پہنیں اور خدارا خوشبو کا استعمال کریں۔ دوسروں کو اذیت میں مبتلا کرنا مذہب اور اخلاقیات دونوں کے خلاف ہے۔ 

کان اور ناک کے بال صاف کریں۔ ناک کے بال اکھاڑنے کیلئے عوامی مقامات مناسب جگہ نہیں۔ ازراہ کریم یہ فریضہ گھر پر سرانجام دیں۔دوسرے لوگوں کو اس عمل سے گھن آتی ہے۔ یہ الگ بات کہ آپ کو احساس نہیں ہوتا۔ 

عوامی مقامات پر ناک اور کان میں انگلی گھما کر صفائی کا ’’اہتمام‘‘ کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ اس ’’اہتمام‘‘ کے بعد جب آپ کسی سے مصافحہ کرتے ہیں تو اسے عجیب و غریب صورت حال میں ڈال دیتے ہیں۔ ہاتھ ملائے تو مصیبت نہ ملائے تو نامناسب! 

کرنسی نوٹ گنتے ہوئے لعاب دہن کا بے دریغ استعمال نہ کریں۔ ضرورت ہو تو پانی بھی تو موجود ہے۔ یہ سوچیے کہ یہ کرنسی نوٹ کن کن ہاتھوں سے ہو کر آپ تک پہنچے ہیں! 

گاڑی چلاتے وقت تنگ سڑکوں پر اوورٹیکنگ سے اجتناب کریں۔ کیا آپ نے کبھی گاڑی پارک کرتے وقت سوچا ہے کہ دوسروں کو غلط پارکنگ سے کس قدر اذیت ہوتی ہے۔ دو گاڑیوں کی جگہ گھیرنے کا حق آپ کو کس نے دیا ہے؟ 

کوئی قریبی عزیز کسی منصب پر فائز ہے تو رشتہ داری سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں۔ اس کے منصب کا استحصال نہ کریں۔ سرکاری ملازموں کو یہ احساس نہ دلائیں کہ وہ آپ کے سامنے کیڑے مکوڑے ہیں۔ 

نماز روزے کا رشتہ آپ کے اور آپ کے معبود کے درمیان ہے۔ زعمِ تقویٰ میں دوسروں کے ساتھ حقارت سے نہ پیش آئیں۔ ان کی عبادات کے حوالے سے سوالات نہ کریں۔ کم از کم آج دوپہر تک یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ خلق خدا کے اعمال کا حساب آپ رکھیں گے۔ کل کا نہیں معلوم! خاص طور پر یہ پوچھنا کہ ’’کیا آپ روزے سے ہیں؟‘‘ ایک انتہائی نامناسب سوال ہے! 

ذاتی اور نجی زندگی کے متعلق سوالات کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں! تنخواہ کتنی ہے؟ پنشن کتنی مل رہی ہے؟ آپ کے بچے کیوں نہیں؟ آپ کے بچے یا پوتے فلاں سکول میں کیوں نہیں پڑھ رہے؟ ایسے تمام سوالات پست ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ 

جگہ جگہ تھوکنے سے پرہیز کریں۔ چھلکے اور ریپر گاڑی سے باہر نہ پھینکیں۔ گاڑی میں شاپنگ بیگ رکھیں جسے ڈسٹ بن کے طور پر استعمال کریں۔ 

پکنک پر جائیں تو اس مقولے پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ع 

جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے 

تمام کوڑا کرکٹ‘ چھلکے‘ ہڈیاں وغیرہ شاپنگ بیگ میں ڈال کر گاڑی میں رکھیں اور پکنک کے مقام پر چھوڑ کر نہ آئیں ۔

پبلک ٹائلٹ کو اس حال میں چھوڑ کر آئیں جیسے آپ اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔ پبلک بیت الخلا کسی بھی قوم کی اجتماعی ذہنیت کی عکاس کرتے ہیں۔ وہاں اپنی خطاطی ‘اپنے ادبی ذوق اور اپنے سیاسی اور مذہبی خیالات کے نمونے چھوڑ کر نہ آئیں۔ خواتین کے ناموں کی وہاں بے حرمتی نہ کریں‘ اپنی بے مثال مصوری کے نشان دیواروں پر نہ ثبت کریں۔ یہ نفسیاتی عارضے کی علامات ہیں۔ 

جسم کے مناسب اور نامناسب اعضا پر دوسروں کی موجودگی میں خارش سے پرہیز کریں۔ اگر ناگزیر ہو تو اس ضرورت کیلئے خلوت کا انتظام کریں۔ 

دوستوں کی کال کا جواب ضرور دیں۔ خواہ تاخیر ہی کیوں نہ ہو جائے۔ کسی کی کال کا جواب نہ دینا۔ رِنگ بَیک نہ کرنا تکبر کی علامت ہے۔ خاص طور پر ہمارے تاجر بھائی۔ سب نہیں مگر اکثر۔ فون کال کی رقم بچاتے ہیں۔ 

کوئی مشورہ لیتا ہے تو دیانت دارانہ مشورہ دیں مگر اس کے بعد اس کے حق میں داروغہ نہ بن جائیں کہ مشورے پر عمل ہوا ہے یا نہیں! ایک صاحب اس لئے ناراض ہو جاتے ہیں کہ نومولود بچے کا نام ان کا تجویز کردہ کیوں نہیں رکھا گیا؟ یہ گائودی پن کی نشانی ہے! 

کسی کی خریداری میں نقص نہ نکالیں۔ بہت گدگدی ہو رہی ہے تو خاموش رہیں! دوسروں کا دل توڑنا اور ان کی خریداری سے انہیں متنفر کرنا ہرگز مستحسن نہیں! 

کسی کو یہ احساس دلانا کہ اس کی اولاد نرینہ نہیں اور افسوس کرنا کہ ساری اولاد لڑکیوں پر مشتمل ہے ‘ انتہائی پست ذہنیت کی عکاس کرتا ہے! یہ جہالت بھی ہے اور جاہلیت بھی! جاہلیت جہالت سے کئی گنا زیادہ نقصان دہ ہے!روایت ہے کہ فیض صاحب سے کسی نے پوچھا آپ کی اولاد نرینہ کتنی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اولاد والی بات تو سمجھ میں آتی ہے‘ نرینہ کیا ہے؟ اولاد تو اولاد ہے نرینہ ہے یا غیر نرینہ! 

بچی کی‘ خاص طور پر دوسری یا تیسری بچی کی پیدائش پر آپ کو موت نہیں پڑ جانی چاہیے۔ رشتہ داروں اور محلے والوں کی باتوں میں آ کر اپنے آپ کو جہالت اور جاہلیت کے اندھے گڑھے میں نہ پھینکیں۔ والدہ محترمہ پریشان ہوں تو انہیں خدا رسول کے احکام سمجھانے کی اور مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی کوشش کریں ایسا کرتے ہوئے والدہ کے احترام کا خاص خیال رکھیں بچی یا بچیوں کی پیدائش پر‘ ماں کے کہنے میں آ کر بیوی کو طلاق دینا‘ یا طعنے دے دے کر اس کی زندگی جہنم بنانا ظلم ہے۔ اس سے اجتناب کرنا ہو گا۔ مگر خیال رہے کہ ماں کے ادب میں کمی نہ آئے۔ یہی وہ مواقع ہیں جہاں توازن رکھنا لازم ہوتا ہے اور مرد کی حکمت عملی‘ صبر اور تحمل کی جانچ ہوتی ہے، 

یہ ہدایات ہمارے دوست میاں وقار احمد نے جو ایتھنز (یونان) میں مقیم ہیں ‘نقل کی ہیں۔ زیب داستان کے لئے ہم نے بھی کچھ اضافہ کیا ہے۔ مگر اس حوالے سے ایک اور پہلو قابل غور ہے! اور یہ پہلو ہی اس تحریر کا سبب بنا۔ 

ایک ایک بات کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے کہ ’’کافر‘‘ ملکوں میں یہ ہدایات دینے کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی۔ اس لئے کہ یہ ساری احتیاطیں وہاں بدرجۂ اتم پہلے سے موجود ہیں۔ کوئی شخص سڑک پر تھوکتا یا ناک میں انگلی گھماتا نہیں نظر آتا۔ غلط اوورٹیکنگ کوئی نہیں کرتا۔ کوئی کسی سے تنخواہ پوچھتا ہے نہ عبادات کا حساب لیتا ہے نہ اولاد نرینہ کے اعداد و شمار لیتا ہے! گاڑی سے چھلکے‘ ماچس کی خالی ڈبیا‘ خالی ریپرکوئی نہیں باہر پھینکتا۔ کسی کو کال کریں تو ننانوے اعشاریہ نو فیصد حالات میں جواب دے گا۔ وعدہ کیا ہے کہ آپ کو فلاں اطلاع فراہم کرے گا تو ضرور کرے گا۔ اکثر و بیشتر مواقع پر آپ کو یاددہانی کی ضرورت نہیں پڑے گی! جہاز یا ٹرین میں یا بس میں آپ کسی کی نظروں کا ٹارگٹ نہیں ہوں گے۔ فون کریں گے تو اس قدر آہستہ کہ دوسروں کی سماعت مجروح ہو گی نہ متاثر! 

کچھ عرصہ ہوا لاہور سے راولپنڈی ریل کار کا سفر تھا۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے لاہور پنڈی کے سفر کے لئے یہ کالم نگار ہمیشہ ریل کار پارلر کو ترجیح دیتا ہے۔ ابھی گاڑی گوجرانوالہ پہنچی تھی کہ ایک صاحب نے فون پر کسی سے بزنس ڈیل شروع کر دی۔ آواز بلند‘ پاٹ دار اور والیم ٹاپ پر! خدا جھوٹ نہ بلوائے‘ کسی مبالغہ آرائی کے بغیر پورا راستہ ‘ انہوں نے پورے ڈبے کو سولی پر لٹکائے رکھا۔ غنیمت ہے کہ بزنس کی اس ڈیل میں دشنام طرازی نہیں تھی مگر اوچھا پن اور بازاری لہجہ نمایاں تھا۔ جہلم آن پہنچا تو تنگ آ کر ایک ریلوے والے کی توجہ اس مصیبت کی طرف دلائی۔ وہ بیچارہ کہنے لگا‘ صاحب ! آپ خود بات کیجیے۔ ہماری تو بے عزتی کرتے ہیں ایسے لوگ اور شکایت بھی! صبر کے گھونٹ پیے۔ پنڈی کے قریب آ کر ان کی ڈیل فائنل ہوئی اور کانوں کو آرام نصیب ہوا۔ 

کاش! شائستگی بازار میں فروخت ہوتی! پیکٹوں کی شکل میں یا چائے کی ناخالص پتی کی طرح کھلی ہی سہی!
 

powered by worldwanders.com