Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, July 31, 2023

شٹر پاور


شبر زیدی کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ کبھی نہیں سنا کہ وہ مسلم لیگ نون یا قاف کا حصہ رہے۔ جے یو آئی کی قربت کا اعزاز بھی انہیں حاصل نہیں! جس عہدِ ہمایونی میں بڑے بڑے لوگ خاک کے فرش پر بیٹھ کر الطاف بھائی کے فنِ خطابت سے مسحور ہوتے تھے اور ناک پر بیٹھی مکھی اڑانے کا خطرہ بھی مول نہیں لیتے تھے‘ شبر زیدی کو وہاں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ عبوری دور میں سندھ کے وزیر خزانہ رہے۔ ٹیکس کے جملہ امور کے ماہر ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے اپنے دورِ اقتدار میں انہیں فیڈرل بورڈ آف ریونیو 
(FBR) 
کا سربراہ بنایا۔ نیت خان کی نیک تھی کہ ٹیکس کا دائرہ وسیع تر کیا جائے مگر شبر زیدی ناکام ہوئے۔ یا ناکام کر دیے گئے۔ 
اب شبر زیدی نے تحریک انصاف کی انقلابی حکومت کا اصل چہرہ دکھایا ہے۔ عمران خان نے‘ بقول عمران خان کے‘ امریکہ کے سامنے تو 
Absolutely not 
کا نعرہ لگایا مگر اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے سامنے جب یہ نعرہ لگانے کا وقت آیا تو خان صاحب کو ہنسی آگئی۔ شبر زیدی نے جو کچھ بتایا ہے اس سے اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت ہو گئی ہے کہ تحریک انصاف اور دوسری پارٹیوں کی حکومت میں کچھ خاص فرق نہیں تھا اس لیے کہ وزیر‘ امیر اور مشیر وہی تھے جو ہر حکومت میں حصہ دار رہے! وہی شیخ رشید! وہی چودھری پرویز الٰہی‘ وہی زبیدہ جلال‘ وہی حفیظ شیخ‘ وہی فواد چودھری‘ وہی فہمیدہ ریاض‘ وہی غلام سرور خان‘ وہی عمر ایوب‘ وہی اعظم سواتی‘ وہی ڈاکٹر عشرت حسین اور وہی فردوس عاشق اعوان! آپ دیکھ لیجئے گا مستقبل میں بھی یہی عمائدین‘ یہی امرا‘ یہی معززین حکومت کریں گے۔ اب محاورہ یہ نہیں ہے کہ نئی بوتل میں پرانی شراب! اب محاورہ یہ ہے کہ نئے وزیراعظم کی کابینہ میں وہی پرانے وزیر! وزیراعظم ہمارے ہاں کیا ہے؟ مکان کے اوپر لگی نام کی تختی ہے۔ مکان وہی ہے۔ مکین بدل جاتا ہے۔ کابینہ کم و بیش وہی رہتی ہے۔ وزیراعظم بدلتا رہتا ہے۔ مستقبل میں بھی حکومت جس کی بھی ہوئی‘ پی پی پی کی یا مسلم لیگ (ن) کی یا تحریک انصاف کی‘ کابینہ میں یہی لوگ ہوں گے۔ اس لیے کہ سوسائٹی کا ڈھانچہ وہی ہے۔ ووٹ انہی کو ملتے ہیں جنہیں ملتے آئے ہیں۔ شبر زیدی کہتے ہیں انہوں نے ''ملتان کے ایک بڑے زمیندار کو نوٹس بھیجا تو قریشی صاحب کی قیادت میں 40 اراکینِ اسمبلی آگئے‘ دریشک صاحب نے کہا کہ اس چکر میں مت پڑو‘ یہ تمہارے بس کا کام نہیں۔ جنوبی پنجاب کے ایم این ایز سے لڑ کر کوئی حکومت رہ نہیں سکتی!‘‘۔ بالکل درست! سو فیصد درست! اس لیے کہ ایم این ایز ہر اسمبلی میں یہی ہوں گے اور ان کے مطالبات‘ ان کی امیدیں‘ ان کے مقاصد‘ ان کا مائنڈ سیٹ کبھی تبدیل نہیں ہو گا۔ جب تک سوسائٹی کا فیبرک تبدیل نہیں ہوتا یہی حضرات منتخب ہوتے رہیں گے۔ سوسائٹی کا فیبرک کب تبدیل ہو گا؟ جب جاگیر دار‘ وڈیرے‘ فیوڈل‘ پیر‘ سردار‘ قریشی‘ گیلانی‘ کھوسے‘ لغاری‘ کھر‘ مہر اور دوسرے طاقتور عناصر پیش منظر سے ہٹیں گے۔ جب زرعی اصلاحات‘ حقیقی زرعی اصلاحات‘ وجود میں آئیں گی۔ جب تعلیم عام ہو گی۔ سیاسی شعور ذہنی غلامی پر غالب آجائے گا اور اس سب کچھ کے بعد سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کی روایت نہ صرف پڑے گی بلکہ پختہ بھی ہو جائے گی۔ اس سارے عمل میں ہمارے ہاں پچاس سال بھی لگ سکتے ہیں‘ سو سال بھی اور اس سے زیادہ بھی! آخر خواب دیکھنے پر پابندی تو نہیں ہے نا!! 
شبر زیدی بتاتے ہیں کہ انہوں نے تمباکو مافیا کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوشش کی تو اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی ایم این ایز کو لے کر آگئے کہ ٹیکس نہیں دیں گے۔ قبائلی علاقوں میں سٹیل ری رولنگ ملز پر ہاتھ ڈالا تو فاٹا کے سینیٹرز چیئرمین تحریک انصاف کے پاس پہنچ گئے۔ شبر زیدی کی یہ تشخیص سو فیصد درست ہے کہ ''شٹر پاور‘‘ ٹیکس کے راستے میں سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس ضمن میں ہم صرف یہ ترمیم کریں گے کہ یہ شٹر پاور نہیں شٹر مافیا ہے!! ہمارے مستقل قارئین اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک عرصہ سے ہم اس شٹر مافیا‘ یعنی تاجر حضرات کی خود سری‘ لاقانونیت اور دھاندلی کے خلاف لکھ رہے ہیں! ٹیکس چوری تو ایک مسلّمہ حقیقت ہے جس میں یہ مافیا ملوث ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس مافیا کے بہت سے جرائم ہیں! اوقات کار کا ایشو ہی دیکھ لیجئے۔ ہر حکومت نے کوشش کی کہ بازار سر شام بند ہوں اور صبح سویرے کھلیں تاکہ توانائی بچ سکے۔ مگر ہر بار اس مافیا نے حکومت کو زچ کیا۔ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں بازار دن کے ایک بجے کھلتے ہیں نہ آدھی رات تک کھلے رہتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی معاشی اور سماجی نحوست ہے جو اس ملک پر چھائی ہوئی ہے! مستقبل قریب میں اس کا کوئی حل نہیں دکھائی دے رہا۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے آہنی ہاتھ درکار ہیں جو کم از کم لمحۂ موجود میں کہیں نظر نہیں آرہے! 
اس کے بعد تجاوزات کے مسئلے پر غور کیجئے۔ شٹر مافیا نے پورے ملک کو ناجائز تجاوزات سے بدصورت کر رکھا ہے۔ فٹ پا تھ‘ راستے‘ گلیاں‘ سڑکیں سب پر ان کا قبضہ ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں بھی یہ برائی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اس میں ترقیاتی ادارے کی ملی بھگت بھی شامل ہے۔ اسلام آباد کے تمام بازار دیکھ لیجئے۔ آبپارہ‘ سپر مارکیٹ‘ جناح سپر‘ مرکز ایف ٹین‘ جی ٹین کے بازار‘ میلوڈی‘ سب کے سب مکروہ تجاوزات سے اَٹے پڑے ہیں۔ جو بازار کسی زمانے میں مثالی ہوتے تھے‘ آج راجہ بازار اور ٹنچ بھاٹہ کا نمونہ بنے ہوئے ہیں! ایک اور برائی یہ ہے کہ تاجر حضرات پاکستان میں کسی قسم کی ''ریفنڈ پالیسی‘‘ نہیں چلنے دیتے۔ پوری دنیا میں خریدا ہوا مال واپس کر دیا جاتا ہے اور واپس لے لیا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں یہ ناممکنات میں سے ہے! بہت احسان چڑھائیں گے تو کہیں گے کہ اس کے بدلے میں کوئی اور شے لے لیجئے‘ تجوری کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ 
اس لکھنے والے نے ایک معروف مقامی برانڈ کی دکان سے کچھ ملبوسات لیے۔ پہنے گئے تو ان میں سے کچھ مناسب نہ محسوس ہوئے۔ دوسرے دن واپس کرنے گیا تو بتایا گیا کہ ریفنڈ کی اجازت نہیں۔ بس یہ ہے کہ اتنی ہی مالیت کی کوئی اور چیز لے لیجئے۔ میں نے انٹرنیٹ پر اس برانڈ کا ہیڈ آفس تلاش کیا اور انہیں ای میل کی کہ اگر اشیا واپس لے کر رقم نہ لوٹائی گئی تو میں (1) سوشل میڈیا پر مہم چلاؤں گا (2) عدالت جاؤں گا اور (3) پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس سینہ زوری کو برہنہ کروں گا! تیسرے دن جواب آیا کہ آپ کو رقم خصوصی احکام کے تحت واپس کی جاتی ہے۔ اور واپس ہوئی۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ حالات احتجاج سے بدلتے ہیں‘ بکری بننے سے نہیں بدلتے۔ ہاں! احتجاج قانونی حدود کے اندر ہو اور تشدد سے پاک ہو! یہاں شے کا نقص بتانے سے بھی موت پڑتی ہے۔ بیرونی دنیا میں شے کا نقص صاف صاف بتایا جاتا ہے اور یہ رہنمائی بھی کر دیتے ہیں کہ مطلوبہ شے فلاں دکان میں ملے گی مگر ہمارے ہاں گاہک کو یوں جال میں پھنسایا جاتا ہے جیسے مکڑا مکھی کو پھنساتا ہے کہ آگیا ہے تو اب جانے نہ پائے۔ کوالٹی کے بارے میں پوچھیں گے تو لگا بندھا جواب ملے گا کہ ''کوئی شکایت اس شے کی نہیں آئی‘‘۔ شکایت کرنے کا کلچر ہی کہاں ہے؟ عزت بچانے کی خاطر گاہگ دکاندار کے پاس واپس جاتا ہی نہیں! شکایت کیا خاک کرے گا؟ 
اس میں کیا شک ہے کہ شٹر پاور یہاں بہت بڑی پاور ہے۔ منظم اور مضبوط پاور!! کاش کوئی ایسی حکومت آجائے جو اس پاور کو زیر کر سکے!

Thursday, July 27, 2023

قلاش ملک کے شہنشاہ لوگ


نئے جوتے تو خرید لیے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ابا جی کو بتائے کون؟
چھوٹے بھا ئی سے کہا کہ تم اپنی طرف سے پیش کرو۔ اس نے صاف جواب دے دیا کہ آپ نے خریدے ہیں‘ آپ خود جا کر سامنا کریں۔ میں گیا اور عرض کیا: ابا جی! یہ آپ کے لیے نئے جوتے ہیں! ان کا سوال منطقی تھا۔ فرمایا: جب میرے جوتے ابھی بالکل ٹھیک ہیں تو نئے جوتوں کا کیا جواز ہے؟ کیوں پیسے ضائع کیے؟ اور پھر‘ میں ایک وقت میں ایک جوڑا ہی پہن سکتا ہوں!
یہ میرے یا آپ کے ابا جی کی بات نہیں! یہ ایک پوری نسل تھی جو ہمارے آپ کے دیکھتے دیکھتے۱ بہشت کو سدھار گئی! یہ کیا لوگ تھے! انہیں معلوم تھا کہ کثرت کی خواہش سے بچنا ہے! ان کے دل مطمئن تھے! ذخیرہ اندوزی کا ان کے ہاں کوئی تصور نہیں تھا! ان کے پاس اگر چھوٹا سا مکان بھی تھا تو اس سے خوش تھے۔ جوتوں کا ایک جوڑا۔ لباس فقط چند! شاپنگ اور ''ونڈو شاپنگ‘‘ کی مصیبتوں سے بچے ہوئے تھے! ان کے پاس جو کچھ تھا اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ استغنا کی دولت سے مالا مال تھے۔ اس رویّے کے اور اس طرزِ زندگی کے بہت سے مثبت اثرات تھے اور سب سے بڑا مثبت اثر یہ تھا کہ یہ لوگ آئے دن کی ذہنی پریشانیوں (ٹینشنوں) سے بچے ہوئے تھے! 
ذخیرہ اندوزی صرف یہ نہیں کہ کھانے پینے کی اشیا کا ذخیرہ کر لیا جائے۔ یہ بھی ذخیرہ اندوزی ہے کہ گھروں میں ملبوسات‘ جوتے‘ کراکری اور برقی مشینوں 

(gadgets) 

کے ڈھیر لگا دیے جائیں! آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک عام‘ مڈل کلاس فیملی کے گھر میں کتنی ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے! پورے کنبے کے جوتے ہی نہیں گنے جا سکتے! پلنگ پوشوں سے الماریاں بھری ہیں! گدیوں کے غلاف (کُشن) بیسیوں کی تعداد میں ہیں۔ ڈیکوریشن پیس مسلسل جمع کیے جاتے ہیں۔ آن لائن شاپنگ نے ذخیرہ اندوزی کے اس رجحان کو نئی زندگی دی ہے۔ خواتین‘ جو زیادہ وقت گھر‘ شوہر اور بچوں کو دینے کے بجائے‘ سوشل میڈیا کو دے رہی ہیں‘ جب فیس بک پر کوئی اشتہار دیکھتی ہیں تو اوسطاً ہر روز ایک آرڈر دے دیتی ہیں۔ پارسل پر پارسل آتے ہیں۔ کوریئر انڈسٹری کے بھاگ جاگ اُٹھے ہیں۔ میں نے کوریئر والے ایک لڑکے سے پوچھا کہ آن لائن بزنس کا آپ لوگوں کی مصروفیت پر کیا اثر پڑا ہے؟ کہنے لگا: کام کئی گنا زیادہ ہو گیا ہے۔ اور زیادہ کام خواتین کے حوالے سے ہے۔ تکاثر (کثرت کی خواہش) کہیے یا ذخیرہ اندوزی کا رجحان کہ جب خواتین کے ملبوسات والے برانڈز پر سیل لگتی ہے تو اتنا جمگھٹا ہوتا ہے کہ لڑائیاں ہوتی ہیں اور خواتین ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جاتی ہیں۔ ایسے واقعات لاہور میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں اور اسلام آباد میں بھی۔ اور ایک دو بار نہیں‘ کئی بار رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ خواتین گھروں میں کام کرنے والی مائیاں نہیں بلکہ پڑھی لکھی آسودہ حال خواتین ہیں! ان کے گھروں میں الماریاں چھتوں تک ملبوسات سے بھری رہتی ہیں۔ ان گھروں میں شاید ہی کوئی کتاب نظر آئے۔ لائبریری تو دور کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جہالت‘ ذہنی پستی اور مِس انفارمیشن دندناتی پھر رہی ہے۔
ایک گھر سے دوسرے گھر میں شفٹ ہونا یہاں ایک عذاب سے کم نہیں۔ اس لیے کہ ایک اوسط آمدنی والے گھر میں بھی سامان بے تحاشا ہوتا ہے۔ ایک امریکی‘ امریکہ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے آسانی سے شفٹ کر لیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے گھر میں ضرورت سے زائد بستر کی چادریں‘ ملبوسات کے ڈھیر‘ ڈیکوریشن کی اشیا‘ کراکری اور کٹلری کے ذخیرے‘ جوتوں کے انبار‘ بے تحاشا فرنیچر اور برسوں کا جمع شدہ کاٹھ کباڑ نہیں ہوتا۔ ایک زمانہ تھا کہ گھروں میں براتیں ٹھہرتی تھیں۔ تب تو برتنوں اور بستروں کو جمع کرنے کا جواز تھا۔ آج کل تو شاید ہی کہیں کوئی مہمان ایک رات بھی ٹھہرتا ہو۔ کاروں اور شاہراہوں کی بہتات ہے۔ ملاقات کے بعد رات کو لوگ اپنے گھر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ براتیں گیسٹ ہاؤسوں‘ ہوٹلوں اور موٹلوں میں ٹھہرتی ہیں۔ کھانے شادی ہالوں میں کھلائے جاتے ہیں۔ اب تو گھروں میں بیسیوں مہمانوں کیلئے سامان اکٹھا کرنے کا کوئی جواز نہیں! یہ سارا معاملہ‘ یعنی حد سے بڑھی ہوئی صارفیّت بچت کے رجحان کی شدید حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ آمدنی کا غالب حصہ ان اشیا کی خرید پر صرف ہوتا ہے جو پیداواری نہیں ہیں۔ سرمایہ کاری کیلئے بچت لازم ہے۔ اور بچت تبھی ہو گی اور تبھی زیادہ ہو گی جب غیرضروری اشیا نہیں خریدی جائیں گی۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک اوسط آمدنی والا گھرانہ اپنی آمدنی ملبوسات‘ جوتوں‘ ڈیکوریشن کی اشیا اور کراکری جمع کرنے پر لگا دیتا ہے۔ اتنی ہی آمدنی رکھنے والا ایک دوسرا گھرانہ یہ غیرضروری اشیا نہیں خریدتا۔ اسکے بجائے وہ بچت کرتا ہے اور چھوٹی سطح پر سہی‘ سرمایہ کاری کرتا ہے۔ مثلاً ایک موٹر سائیکل خرید کر کسی کو کرائے پر دے دیتا ہے۔ کار خرید کر رینٹ اے کار والوں کو دیتا ہے۔ چھوٹی ہی سہی‘ دکان ڈال لیتا ہے۔ یہ راستہ معاشی ترقی کی طرف جاتا ہے۔ کنبے خوشحال ہوں گے تو ملک بھی خوشحالی کی طرف گامزن ہوگا! ایک زمانہ وہ تھا کہ مردوں پر کوئی افتاد پڑتی تھی تو ہماری نانیاں دادیاں قرآن پاک کے غلافوں سے ہزاروں روپے نکال کر ان کی مدد کرتی تھیں۔ اس لیے کہ تب ملبوسات خریدنے کا جنون تھا نہ نام نہاد سیل لگتی تھی۔ خواتین بچت کرتی تھیں۔ 
اب کھانوں کی طرف آجائیے۔ پہلے کھانا‘ زندہ رہنے کے لیے ہوتا تھا۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ زندگی کا مقصد کھانا‘ کھانا اور صرف کھانا ہے۔ ہم جب چھوٹے تھے تو مہمان کے لیے مرغی کا گوشت‘ روٹی‘ چاول اور میٹھے کی ایک ڈش پکا کرتی تھی۔ شادیوں پر سینکڑوں مہمانوں کے لیے کھانا‘ سارا سامان خود خرید کر‘ باورچیوں سے پکوایا جاتا تھا۔ زیادہ تر ایک ہی ڈش ہوتی تھی۔ اب تو معاملہ اسراف سے آگے بڑھ کر تبذیر تک جا پہنچا ہے۔ بیسیوں پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ دس دس سویٹ ڈشیں ہوتی ہیں۔ چند برس پہلے جب زرداری صاحب رائے ونڈ گئے تھے تو شہباز شریف صاحب کی نگرانی میں تیار کرائے گئے چوہتر (74) پکوان بہت مشہور ہوئے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک اس شکم پرستی میں نہیں پڑے۔ سلاد‘ پھل اور مشروبات کے علاوہ اصل کھانا عام طور پر ایک ہی ڈش پر مشتمل ہوتا ہے۔ اتنا ہی فرق سرکاری ظہرانوں اور عشائیوں میں ہے۔ ہم نے سنا ہے (نہیں معلوم یہ روایت کہاں تک درست ہے) کہ بھٹو صاحب نے ہنری کسنجر کے لیے کثیر مقدار میں کمال کے کھانے پکوائے تھے۔ یہ ایک بے مثال‘ شاہانہ‘ دعوت تھی۔ مگر جب کسنجر آیا تو جو ڈش سب سے پہلے اسے نظر آئی‘ اسی پر اکتفا کیا۔ ہاں گفتگو وہ مسلسل کرتا اور سنتا رہا!
اگر ایسا ہوا تو یہ ناممکن بالکل نہیں۔ ہمارے ایک وزیراعظم کی گھڑی کروڑوں کی بتائی جاتی تھی۔ جلا وطنی میں بھی کئی باورچی اور کئی صندوق ساتھ جاتے تھے۔ ایک اور وزیراعظم چار سال سرکاری ہیلی کاپٹر سے نیچے ہی نہ اُترے۔ احساسِ کمتری کا یہ حال تھا کہ کمرشل فلائٹ پر بیٹھنا گوارا نہ تھا‘ خواہ طیارہ کسی شہزادے سے مانگنا کیوں نہ پڑے اور پھر وہ راستے میں نیچے کیوں نہ اتروا دے۔ سیالکوٹ اور ملتان جانے کے لیے بھی خصوصی جہاز لازم تھے۔ ابھی کل کی خبر ہے کہ زرداری صاحب خصوصی طیارے سے دبئی گئے ہیں! کیا بات ہے ہم پاکستانیوں کی! ایک عام کنبے سے لے کر حکمرانوں تک سب شہنشاہوں جیسے شوق رکھتے ہیں! اور شوق پورے کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو اپنا ملازم سمجھتے ہیں! غالب کا شہرہ آفاق شعر ہمارے لیے ہی تو ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لا ئے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

Tuesday, July 25, 2023

ایک سنجیدہ تجویز


شملہ میں پہلا پکّا گھر ایک انگریز سول سرونٹ نے 1822ء میں بنوایا۔ اس سے تین برس پہلے ایک انگریز افسر نے لکڑی کی کاٹیج بنوائی تھی۔ باقی شملہ صرف جنگلات اور پہاڑیوں پر مشتمل تھا۔ بات آہستہ آہستہ پھیلتی ہے۔ شملہ کی سرد آب و ہوا کی شہرت انگریزوں میں پھیلنے لگی۔ ہندوستان کی بے پناہ گرمی سے انگریز گھبراتے تھے۔ یہ اور بات کہ موسم سے شکست کھا کر کوئی انگریز واپس نہیں گیا۔ہندوستان میں ان کا پہلا پڑاؤ ‘ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ بنگال تھا جو دریاؤں ‘ جھیلوں اور جوہڑوں کی بہتات کی وجہ سے ملیریا کا گڑھ تھا۔ اوسط ایک انگریز روزانہ مر جاتا تھا مگر کوئی واپس گیا نہ کسی نے ہندوستان آنے سے انکار کیا۔ شملہ کی شہرت سن کر انگریز تعطیلات یہاں گزارنے لگے۔ان میں بنگال کا گورنر جنرل اور انگریز کمانڈر انچیف بھی شامل تھا۔ گھروں کی تعداد زیادہ ہونے لگی۔
1832
ء میں گورنر جنرل اور رنجیت سنگھ کے ایلچیوں کی ملاقات شملہ ہی میں ہوئی۔ لدھیانہ چھاؤنی سے شملہ تک چار دن کی مسافت تھی۔ چند سالوں میں شملہ ایک بہت بڑے کلب کی شکل اختیار کر گیا جہاں انگریز چھٹیاں بھی گزارتے تھے اور تفریح بھی کرتے تھے۔انگریز دوشیزائیں شوہروں کی تلاش میں اور بیسوائیں عیاشی کرنے اور کرانے کے لیے آنے لگیں۔ ہندوستان بھر کے انگریزوں کے لیے یہ سب سے زیادہ پُر کشش مقام بن گیا یہاں تک کہ 1864 ء میں گورنر جنرل جان لارنس نے اسے برٹش انڈیا کا گرمائی دارالحکومت قرار دے دیا۔ کہاں کلکتہ‘ اور کہاں شملہ! مگر حکمِ حاکم یہی تھا۔اب ہر سال اپریل میں کلکتہ سے دفاتر اور کارندے شملہ کا رُخ کرتے۔ ٹرین تو شملہ میں 1903 ء میں آئی۔اندازہ لگائیے یہ سینکڑوں لوگ کیسے آتے ہوں گے۔ اکتوبر میں پھر واپسی کا بگل بجتا! کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ملک کے دو دارالحکومت ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی اچنبھے والی بات نہیں! آج کل طائف کو ‘ جہاں کی آب و ہوا خوشگوار ہے‘ سعودی عرب کا موسم گرما کا صدر مقام کہا جاتا ہے۔ خود پاکستان کے ‘ ایک زمانے میں ‘ دو دارالحکومت رہے! جنرل ایوب خان نے ڈھاکہ میں دوسرا دارالحکومت بنوایا اور اس کا نام '' ایوب نگر‘‘ رکھا۔ میں 1967 ء سے 1970 ء تک ڈھاکہ میں تھا۔ کئی بار ایوب نگر دیکھا۔ ایک اجاڑ سی نگری تھی۔اُلّو بولتے تھے۔ اس لیے کہ نیت درست نہ تھی۔ صرف اشک شوئی کے لیے اسے '' سیکنڈ کیپٹل ‘‘ کا نام دیا گیا‘ نیت میں خلل نہ ہوتا تو چھ ماہ دارالحکومت عملاً وہاں شفٹ ہوتااور کاروبارِ مملکت وہیں سے چلایا جاتا۔اگر گھوڑوں‘ خچروں اور اونٹوں کے زمانے میں انگریز ‘ دارالحکومت کو کلکتہ سے ایک ہزار نو سو کلو میٹر دور شملہ میں لا سکتے تھے۔ تو‘ اب تو جہازوں کا زمانہ تھا۔ اخراجات بڑھتے مگر ملک کو متحد رکھنے کے لیے یہ گھاٹے کا سودا نہ ہوتا۔
ایک ملک کے دو دار الحکومت !! یہ ناممکن نہیں ! چلی‘ ملائیشیا‘ جارجیا اور کئی اور ملکوں کے دو دو دارالحکومت ہیں! پاکستان کے بھی دو دارالحکومت ہونے چاہئیں! اسی میں ہماری بقا ہے۔ اسی میں ہماری فلاح ہے! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ دوسرے دارالحکومت کے لیے میں کراچی یا کوئٹہ کا نام لوں گا! مگر آپ غلط سوچ رہے ہیں! اور اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پہلا دارالحکومت ‘ میری تجویز کی رُو سے ‘ اسلام آباد ہی رہے گا تو یہاں بھی آپ غلط ہیں ! اللہ کے بندو! معاملہ اب اسلام آباد‘ کراچی اور کوئٹہ سے آگے جا چکا ہے! بہت آگے! میری تجویز‘ جو اس تحریر کے ذریعے میں قوم کے سامنے رکھ رہا ہوں یہ ہے کہ ہمارے ملک کا‘ جس کا نام پاکستان ہے‘ پہلا دارالحکومت دبئی ہونا چاہیے۔ کیا کسی نے حساب کیا ہے کہ زرداری صاحب اور بلاول گزشتہ بیس تیس برسوں میں کتنی بار دبئی گئے ہیں ؟ اتنی بار گئے ہیں کہ شمار مشکل ہے۔ تازہ ترین خبر کے مطابق آصف علی زرداری خصوصی طیارے سے دبئی پہنچ گئے ہیں اور بہت مصروف وقت گزار رہے ہیں‘ سابق وزیراعظم اور ( ن) لیگ کے قائد نواز شریف اور مریم نواز بھی دبئی پہنچ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کرنے کیلئے بیٹھک کا امکان ہے‘ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی بھی دبئی آمد کی اطلاعات ہیں۔ نگران سیٹ اَپ کے حوالے سے مشاورت کیے جانے کا امکان ہے۔ سابق صدر نے دبئی میں اہم سیاسی ملاقاتیں کی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وہ بلاول بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کیلئے لابنگ میں مصروف ہیں اور یہاں مقیم بعض سابق اہم شخصیات کو بھی قائل کررہے ہیں۔ آصف زرداری ابھی مزید چند دن دبئی میں گزاریں گے !
بی بی شہید اور زرداری صاحب کا دبئی میں عالی شان محل ہے! جمہوری ممالک کے کتنے سابق صدور یا کتنے سیاستدانوں کے محلات دبئی میں ہوں گے ؟ اگر نگران حکومت جیسے حسا س مسائل ملک کے اندر نہیں‘ دبئی میں طے ہونے ہیں ‘ اگر مولا نا فضل الرحمان کے تحفظات اسلام آباد میں بیٹھ کر دور ہو سکتے ہیں نہ کراچی میں ‘ نہ ڈیرہ اسماعیل خان میں‘ نہ لاڑکانہ میں نہ نواب شاہ میں‘ اور صرف دبئی میں ہو سکتے ہیں اور اگر بلاول کی وزارتِ عظمیٰ کے لیے لابنگ کی بہترین جگہ بھی دبئی ہی ہے تو گولی ماریے ان شہروں کو اور دبئی کو پاکستان کا دارالحکومت قرار دیجیے۔ گولی مارنے سے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ وہ بھی سُن لیجیے۔ میلے میں ایک صاحب کی بیوی کھو گئی۔وہ ڈھونڈ رہے تھے کہ ایک اور صاحب انہیں مل گئے۔ ان کی بیوی بھی گم ہو چکی تھی۔ پہلے صاحب نے دوسرے سے پوچھا کہ آپ کی بیوی کی شکل اور ڈیل ڈول کیسا ہے کہ کہیں نظر آئیں تو پہچان لیں۔ اُن صاحب نے جواب دیا کہ نرگسی آنکھیں ہیں۔ سنہری بال ہیں۔ لمبے قد کی ہیں۔ کمر پتلی ہے اور بہت خوبصورت ہیں۔ اب دوسرے صاحب نے پہلے سے پوچھا کہ آپ کی بیوی کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا :گولی ماریں میری بیوی کو ! دونوں مِل کر آپ ہی کی بیوی کو ڈھونڈتے ہیں !!
دوسرا دارالحکومت ہمارے ملک کا لندن ہونا چاہیے۔اس میں کوئی غلط بات نہیں۔ انگریز کے دور میں لندن ہی تو ہمارا صدر مقام تھا! مگر اصل وجہ اس تجویز کے پیچھے وہ بے پناہ پیار ہے جو بڑے میاں صاحب کو لندن سے ہے۔ شاید ہی کوئی فرد اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ میاں صاحب کا وطنِ اصلی لندن ہے۔ جب وہ پاکستان میں تھے تو ہر عید پر لندن چلے جاتے تھے۔ ہمارا کلچر بھی یہی ہے کہ عید پر ہم اپنے اپنے اصلی گھروں کو لَوٹ جاتے ہیں۔ میاں صاحب کے صاحبزادوں کی تو نیشنیلٹی بھی وہیں کی ہے جس کا اعلان ان کے بیٹوں نے ببانگ دہل کیا تھا۔میاں صاحب ایک طویل عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں۔ میڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں کہ کبھی وہ کسی ریستوران میں ہیں‘ کبھی اپنے دفتر میں تو کبھی کہیں شاپنگ کر رہے ہیں۔ اس سے تاثر یہی ملتا ہے کہ وہ لندن میں اتنے آرام و سکون سے رہتے ہیں جتنا گھر میں رہا جا سکتا ہے۔ فرنگی اس صورت حال کو تو کہتے ہی 
Feel at home
ہیں ! تازہ ترین خبر ان کے بارے یہ ہے کہ اگلے چند دنوں میں وہ سعودیہ سے دبئی اور پھر لندن واپس جائینگے‘ لندن میں 5 سے 6 ہفتے کے قیام کے بعد پاکستان روانہ ہوں گے۔ لندن پہنچنے کے بعد ہی نواز شریف کی پاکستان واپسی کے حوالے سے تیاریاں مکمل کی جائیں گی۔
میاں صاحب کے آخری دورِ حکومت کے حوالے سے ان کے غیر ملکی مبیّنہ دوروں پر نظر ڈالیے۔افغانستان‘ جرمنی‘ بحرین‘بھارت‘ ایران‘ نیپال‘ تاجکستان اور تھائی لینڈ کا ایک ایک دورہ ‘ ازبکستان اور قزاقستان کے دو دو دورے‘ چین‘ ترکی اور امریکہ کے چار چار دورے‘ سعودی عرب کے پانچ دورے اور برطانیہ کے سترہ ( 17 ) دورے !!
یاد رکھیے ! ہمارے مقدر کے فیصلے لندن اور دبئی میں ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے !!

Monday, July 24, 2023

گھر کا دروازہ اندر سے بند کر لیجیے

آپ کا کیا خیال ہے پاکستان میں کن دو چیزوں کی افراط ہے ؟
یہ ملک زرعی ملک ہے! یہی پڑھایا اور بتایا جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ آٹے سے لے کر دودھ تک اور مکھن سے لے کر شہد تک کچھ بھی اطمینان بخش نہیں!دودھ گوالے کا ہے یا ڈبے کا‘ دونوں پریشان کُن ہیں۔ کبھی بازار میں پیاز کی قلت ہو جاتی ہے کبھی ٹماٹرناپید ہو جاتے ہیں۔ لیموں پانچ سو روپے کلو تک گئے ہیں! صنعتی پیداوار بھی وافر نہیں ! بجٹ کے موقع پر تازہ ترین اکنامک سروے میں بتایا گیا کہ صنعتی سیکٹر پہلے کی نسبت سکڑ گیا ہے۔ تعلیم بھی عام نہیں! غرض آپ جتنا سوچیں‘ آپ کو کوئی چیز وافر مقدارمیں نہیں ملے گی سوائے دو چیزوں کے۔ ایک آبادی ‘ دوسرا وقت! 
جن دنوں میں اسلام آباد کے گنجان حصے ‘ بارہ کہو‘ میں مقیم تھا‘ گھر میں پانی کیلئے بور کرانا پڑا! اس آبادی میں پانی کے بور کی ''صنعت‘‘ یا '' انڈسٹری‘‘ ‘ تقریباً ساری کی ساری‘ غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ غیر ملکی کس ملک کے ہیں! چنانچہ ایسے ہی ایک غیر ملکی سے معاہدہ ہو گیا۔ دوسرے دن اس نے کام شروع کیا تو ایک لڑکا بھی مددگار کے طور پرساتھ تھا۔ اس کے بعد ہر روز اس کے ساتھ ایک نیا لڑکا ہوتا۔ پانی تو مل نہیں رہا تھا‘ کئی دن وہ لگا رہا! سات آٹھ دن کے بعد میں نے پوچھا کہ ہر روز نیا مددگار کہاں سے لے آتے ہو؟ کہنے لگا: سارے میرے اپنے ہی بیٹے ہیں۔ پوچھا کہ کُل کتنے بچے ہیں؟ اس نے بتایاکہ لڑکے لڑکیاں ملا کر کُل سولہ ہیں! اس واقعہ میں رمق بھر مبالغہ نہیں! اسی دن ایک دوست ملاقات کے لیے آگیا۔ اس کا ڈرائیوربھی غیر ملکی تھا۔ سولہ بچوں والی بات اعصاب پر چھا ئی ہوئی تھی۔ تجسس کے زیر اثر ‘اس ڈرائیور سے اس کے بچوں کی تعداد پوچھی تو اس نے بارہ بتائی۔ ہماری اپنی آبادی بھی کیا کم ہے کہ دوسروں کی آبادیاں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔ وہ جو فرازصاحب نے کہا تھا 
غم ِدنیا بھی غم یار میں شامل کر لو 
نشّہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں 
تو ہمارا آبادی کا نشہ دو گنا ہے۔آبادی بے تحاشا بڑھے تو دو مضمرات اس کے مسلّمہ ہیں! ایک مفلسی دوسری جہالت! پھر مفلسی اور جہالت سے ہزار مسائل پھوٹتے ہیں جن کا سامنا ہم کر رہے ہیں! 
رہا وقت تو ہمارے پاس لاکھوں کروڑوں ٹن وقت فالتو ہے۔ ایک دوست سے کئی دن بات نہ ہو سکی۔ ان کے صاحبزادے ملے تو ان کی خیریت پوچھی۔ یہ بھی پوچھا کہ ان کے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں؟ برخوردار نے جو روٹین ان کا بتایا اس کے مطابق دو گھنٹے ہر روز وہ صرف مختلف پیغامات کو ‘ بذریعہ وٹس ایپ‘ فارورڈ
( forward ) 
کرتے ہیں! اندازہ لگائیے ! کہ میسیجز 
( messages)
 کو فارورڈ کرنا ‘ یعنی آگے چلانا‘ ایک مکمل اور باقاعدہ سرگرمی ہے جس کے لیے وقت کی خصوصی طور پر الاٹمنٹ کی گئی ہے۔ ایک اور دوست نے ‘ جو ماشاء اللہ بہت بڑی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے‘ بتایا کہ نمازِ فجر کے بعد وہ سب احباب و اقربا کو ‘ وٹس ایپ کے ذریعے‘ گلدستے اور سلام بھیجتے ہیں ! چلیے گلدستے اور سلام کو تو چھوڑیے‘ مگر یہ جو وبا ہے مختلف سمتوں سے آئے ہوئے پیغامات کو آگے پھر مختلف سمتوں میں بھیجنا! یہ وبا تو ایک معاشرتی بیماری کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس عادتِ بد کے تین نقصانات ہیں۔ اول! جو پیغامات موصول ہوتے ہیں‘ ان کی بھاری اکثریت غیر مصدقہ اطلاعات پر مشتمل ہوتی ہے۔کچھ تو سراسر کِذب پر مبنی ہوتے ہیں۔ عطائیوں کے نسخے‘ جھوٹی خبریں‘ پھسپھے لطیفے‘ بیکار باتیں‘ ناقابل یقین دعوے اور بہت کچھ اور بھی ! حد یہ ہے کہ احادیث کے نام پر‘ کسی حوالے‘ کسی ریفرنس‘ کسی تحقیق کے بغیر ‘ جو کچھ موصول ہوتا ہے‘ آگے روانہ کر دیا جاتا ہے۔ دوم۔ آپ کے دوست‘ جن پر آپ یہ بمباری کرتے ہیں ‘ آپ سے تنگ اور عاجز آجاتے ہیں! آج کے دور میں ہر شخص مصروف ہے۔افراتفری کا زمانہ ہے۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ آپ کے زبردستی گھس آنے والے پیغامات پڑھتا پھرے۔ نتیجہ اس حماقت کا یہ ہے کہ آپ کا احترام ان سب دوستوں کے دلوں میں کم ہو جاتا ہے۔کچھ آپ کو بلاک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کچھ مروّت کی وجہ سے بلاک نہیں کرتے مگر پیغامات پڑھے بغیر ڈیلیٹ کرتے جاتے ہیں۔ تیسرا نقصان یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے بھی یہ عادت‘ یا یہ حرکت‘ خسارے کا سودا ہے۔ ہم سب نے یہ فرمانِ پاک سنا ہوا ہے کہ '' کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات دوسروں کو بتاتا پھرے۔‘‘ ہر رطب و یابس ‘ کسی تحقیق کے بغیر دوسروں کو بھیجنا اس حدیث پاک کے دائرے میں آتاہے! خدا جانے کتنے سادہ لوح انسان ان پیغامات کو درست مان کر نقصانات اٹھاتے ہوں گے! منقول کا لفظ لکھ کر آپ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برانہیں ہو سکتے! منقول لکھنے کا فائدہ بھی نہیں! اب آپ بھیج رہے ہیں تو اس کے سچ یا جھوٹ کی ذمہ داری سو فیصد آپ پر ہے! 
بدترین فارورڈ کیے جانے والے پیغامات وہ ہیں جو سیاسی تپش لیے ہوتے ہیں! آپ اپنے پسندیدہ لیڈر‘ یا پسندیدہ پارٹی کے حق میں پیغامات بھیجتے ہیں! وصول کرنے والا شخص اس لیڈر یا پارٹی کا شدید مخالف ہے۔ وہ یہ ‘ بِن بلایا پیغام دیکھ کر پریشان ہوتا ہے۔آگ بگولا بھی ہو سکتا ہے! آپ کے حق میں '' نازیبا‘‘ کلمات بھی کہہ سکتا ہے! ستم بالائے ستم یہ کہ سیاسی نوعیت کے پیغامات بھیجنے والوں کو ایک دو پیغام بھیج کر افاقہ بھی تو نہیں ہوتا! ہر روز ایک سندیسہ آپ کو موصول ہوتا ہے جس میں کسی لیڈر کو دیوتا قرار دیا جاتا ہے اورکسی کوشیطان! آپ جواب دیں تو توپ کے گولوں کی تعداد دو چند ہو جاتی ہے۔ اچھے بھلے معقول افراد‘ جو دیکھنے میں نارمل لگتے ہیں‘ وٹس ایپ پر ثابت کر دیتے ہیں کہ ان میں عامیانہ پن اور ابتذال کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے! 
کچھ ایذا رساں وہ ہیں جنہیں آپ جانتے ہی نہیں! ان سے آپ کی ملاقات ہی نہیں! ان کا آپ نے نام ہی نہیں سنا! مگر آپ کو پیغام بھیج رہے ہیں! اگر'' گھس بیٹھیا ‘‘ کا لقب سخت ہے تو بتائیے ایسے افراد کو کیا کہا جائے؟ 
اور ہاں! بھول کر بھی کسی کو سمجھانے کی کوشش نہ کیجیے کہ بھائی جان ! مجھے پیغامات مت ارسال کیجیے۔ یہ غلطی کبھی نہ کیجیے گا! آپ کو ایسا فلسفہ سمجھائے گا کہ ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔آپ نادم ہوں گے کہ کیوں سمجھانے کی کوشش کی ! کوئی نارمل انسان ہوتا تو ایسی حرکت ہی نہ کرتا! جسے اتنا بھی نہیں معلوم کہ اجنبیوں کو میسج نہیں بھیجنا چاہیے‘ وہ آپ کے سمجھانے سے کیا سمجھے گا۔ پھر ایک مخلوق اور بھی ہے جو آپ سے اجازت لیے بغیر آپ کو اپنے وٹس ایپ گروپ میں شامل کر لے گی! لیجیے! اب ہر چند سیکنڈ کے بعد گروپ کے کسی نہ کسی رکن کا کوئی نہ کوئی ارشاد آپ کے فون پر اُتر رہا ہے! آپ کے پاس ان تمام حملوں سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ بلاک کرتے جائیے! پیغامات سیاسی ہیں یا مذہبی ‘ یونانی طب پر مشتمل ہیں یا گھریلوٹوٹکوں پر‘ یا کسی فضول وڈیو کلپ پر جس میں آپ کو کوئی دلچسپی نہیں‘ لحاظ یا مروّت کا خیال کیے بغیر ‘ بلاک کر دیجیے۔ اگرباہر گلی میں ایسے تلنگے دندنا رہے ہوں جو کسی بھی گھر میں بغیر اجازت گھس سکتے ہیں تو گھر کا دروازہ اندر سے بند کرنے ہی میں عافیت ہے !!

Thursday, July 20, 2023

دل جو سینے میں ، بائیں طرف ، دھڑک رہا ہے



بابا جی کھانا کھا کر گدھے پر خربوزوں سے بھری بوریاں لادتے اور چل پڑتے۔

یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا! نام اس کا عجیب و غریب تھا! علی محمد! وجہِ تسمیہ اس کی نہ جانے کیا ہے۔ یہ کالا چِٹا پہاڑ سے کچھ دور جنوب کی طرف واقع ہے! کھَیری مورت پہاڑ کے مغرب میں! دریائے سندھ یہاں سے تقریباً اسّی کلو میٹر دور ہے۔ مغرب کی طرف بالکل سیدھا چلتے جائیں تو دریائے سندھ آجاتا ہے۔ اس مقام پر دریا کو عبور کرنے کیلئے انگریز سرکار نے 1907ء میں پُل بنایا تھا۔ یہاں پنجاب کی حدود ختم ہوتی ہیں۔ دریا کے دوسری طرف خیبر پختونخوا ہے۔ جیسے ہی دریا کو پار کرتے ہیں‘ خوشحال گڑھ کا قصبہ آجاتا ہے۔ اس قصبے کے نام پر ہی اس پُل کا نام ہے۔ یہ پُل‘ یعنی خوشحال گڑھ پُل‘ ایک سو سات سال تک خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اور پنجاب کو آپس میں ملاتا رہا۔ اس پر سڑک تھی اور ریلوے لائن بھی!
2014ء میں پاکستانی حکومت نے نیا پُل بنایا۔ 

علی محمد نامی گاؤں کا یہ باشندہ‘ یہ بابا جی‘ زمیندار تھے۔ اس علاقے میں زمیندار‘ جاگیردار یا فیوڈل کو نہیں کہتے۔ بس جو کسان مالی طور پر ذرا آسودہ ہو اسے زمیندار کہا جاتا ہے۔ یوں بھی ''زمیندار‘‘ کی اصطلاح ''سردار‘‘ کے حوالے سے وضع ہوئی۔ مغلوں کو اس خطے میں سردار کہتے ہیں۔ اعوانوں کو زمیندار!

بابا جی زمیندار تھے۔ زرعی پیداوار ان کی خاصی تھی۔ گاؤں میں صبح نو بجے کے لگ بھگ تنور سلگ اُٹھتے تھے۔ جوان دہقان زادیاں لمبے پراندوں کے ساتھ اور بوڑھی عورتیں مہندی لگے سرخ سَروں کے ساتھ روٹیاں لگاتیں۔ پھر کھانا کھا لیا جاتا۔ فرنگیوں کی زبان میں یہ ''لنچ‘‘ تھا۔ روٹیاں تنور سے نکلتیں تو عورتیں انگلیوں سے ان میں گڑھے بناتیں۔ پھر ڈھیر سا مکھن انڈیلا جاتا جو گڑھوں میں رَچ بس جاتا۔ ساتھ تازہ لسّی ہوتی! جس کسی نے یہ ''لنچ‘‘ کیا ہے‘ یا کبھی کیا تھا‘ وہ کراچی اور لاہور سے لے کر ٹوکیو اور لاس اینجلس تک‘ سیون سٹار ہوٹلوں میں گراں ترین لنچ بھی کر لے‘ بوفے یا آلا کارٹ‘ مکھن‘ تنور کی روٹی اور لسی کے اس لنچ کو نہیں بھول سکتا۔ جب بھی اس کی یاد آئے‘ دل کو کچھ ہوتا ہے۔ ٹیس یا ہُوک یا شاید درد کی ایسی قسم جس کی دوا کوئی نہیں!

بابا جی یہی لنچ کرتے۔ پھر وہ گھی لگے ہاتھوں سے مونچھوں کو تاؤ دیتے۔ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے‘ گاڑھے کے سفید تہمد کے لمبے لٹکتے کونے اڑستے‘ گدھے پر خربوزوں بھری بوری لادتے۔ خربوزوں کی بھی عجیب‘ گھٹتی بڑھتی‘ داستان ہے۔ یہ پورا علاقہ‘ تلہ گنگ سے لے کر چکوال تک اور پنڈی گھیب سے لے کر فتح جنگ تک‘ میٹھے اور اعلیٰ نسل کے خربوزوں کیلئے مشہور تھا! ساٹھ کی دہائی میں مونگ پھلی کی نقد آور فصل آگئی اور اس سارے علاقے سے خربوزوں کا صفایا ہو گیا۔ جس زمانے کی ہم بات کر رہے ہیں‘ اُس وقت مونگ پھلی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا! خربوزوں کی بہتات تھی اور یہی اس علاقے کا پھل تھا۔ یہ خربوزے آج کل کے ''شیور‘‘ کے خربوزے نہ تھے بلکہ رنگ رنگ کے ہوتے تھے اور بے حد شیریں! 

بابا جی گدھے پر خربوزے لاد کر‘ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت طے کرتے اور ایک اور گاؤں پہنچ جاتے جہاں ان کی اکلوتی بیٹی بیاہی تھی! وہ بیٹی کے گھر خربوزے اتارتے۔ چائے کا اُس وقت تک رواج ہی نہ پڑا تھا۔ پانی یا لسّی پیتے اور واپس علی محمد کی طرف چل پڑتے! دوسرے دن صبح پھر ان کا یہی معمول ہوتا۔ کھانا کھاتے اور خربوزے لاد کر بیٹی کے گاؤں کی طرف چل پڑتے۔ زیادہ تر سر پر کڑکتی دھوپ ہوتی۔ بادل کبھی کبھی کرم فرمائی کرتا! جب تک خربوزے رہتے‘ کم و بیش‘ یہی معمول ہوتا! یہاں تک کہ لوگوں نے انہیں کہنا شروع کر دیا ''بابا! کیا تمہی نے بیٹی بیاہی ہے؟ کسی اور نے بیٹی نہیں بیاہی؟؟‘‘۔
اس واقعہ کو‘ تقریباً‘ ایک سو سال ہو چکے۔ بابا جی‘ ہر روز سفر طے کرکے‘ اپنی جس بیٹی کیلئے خربوزے لاتے تھے‘ اُس بیٹی کے عمر رسیدہ پوتے نے ایک شہر سے دوسرے شہر‘ اپنی بیٹی کو آم بھجوائے اور اس واقعہ کی فلم چل پڑی! فلم وہی تھی۔ کردار بدل گئے تھے۔ گدھے کی جگہ ڈائیوو نے لے لی تھی۔ خربوزوں کے بجائے اب آم بھیجے جا رہے تھے۔ ہاں! یہ فرق ضرور تھا کہ خربوزے با با جی کی اپنی زمین سے تھے جبکہ ان کی بیٹی کے عمر رسیدہ پوتے نے آم کسی اور شہر کے انبہ فروش سے بُک کرا کر بھجوائے تھے! ذرائع رسل و رسائل اور ذرائع حمل و نقل بدلے تھے تاہم دو کردار وہی رہے! باپ اور بیٹی کے کر دار!!
تبدیلی کا عمل سینکڑوں ہزاروں سال سے چل رہا ہے۔ مگر یہ تبدیلی ظاہر کی تبدیلی ہے! لباس بد ل گئے! اونٹوں‘ بیلوں اور گھوڑوں کی جگہ کاروں‘ بسوں اور ہوائی جہازوں نے لے لی! تاہم انسان اندر سے وہی رہا! وہی دل! وہی فراق کا درد اور قُرب کی سرشاری! وہی آنسو! وہی آہیں! وہی ملنے کی پیاس اور بچھڑنے کا وہی درد! تمام تبدیلیوں کے باوجود دل وہیں ہے‘ سینے کے بائیں طرف! اسی طرح دھڑکتا ہے! اسی طرح ڈوبتا اور بیٹھتا ہے! اسی طرح مچلتا ہے! پہلے بیٹی باپ کے گھر سے جانے لگتی تھی تو دروازے پر گھوڑے‘ اونٹ اور کجاوے حاضر کیے جاتے تھے۔ گھوڑے پر سوار ہونے کیلئے ایک طرف لٹکتی رکاب پر بیٹی پاؤں رکھتی تھی تو باپ یا بھائی دوسری طرف لٹکتی رکاب کو پکڑ کر نیچے کی طرف زور لگاتا تھا کہ زین کا توازن بر قرار رہے۔ پھر گھوڑا روانہ ہوتا اور ساتھ ساتھ خدام اور خدمت گار! رخصت کرنیوالے گھر کے اندر چلے جاتے۔ باپ کھڑا رہتا! بیٹی کے قافلے کو‘ ٹکٹکی باندھے‘ دیکھتا رہتا یہاں تک کہ سواری نظر سے اوجھل ہو جاتی! اب بیٹی رخصت ہوتی ہے تو باپ گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے گاڑی میں بٹھاتا ہے۔ گاڑی چل پڑتی ہے۔ وہ اسے دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ گاڑی موڑ مُڑتی ہے اور آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ آنکھوں میں رنگ رنگ کے پھول کھِلنے لگتے ہیں!
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے۔ چاند اور دوسرے سیاروں پر زمینیں الاٹ کرانے کا وقت آرہا ہے! ایسے میں کون سا لٹریچر؟ کیسی شاعری اور کہاں کا ادب! مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ تمام حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین ایجادات اور دریافتوں کے بعد بھی دل کا مقام وہی ہے! سینے کے بائیں طرف! دل اسی طرح دھڑکتا ہے جیسے بادبانی جہازوں اور رینگتے قافلوں کے زمانے میں دھڑکتا تھا! کسی کا کوئی پیارا دم توڑ دے تو کیا وہ نہیں روئے گا؟ کیا وہ کہے گا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی اس لیے میں اپنے پیارے کی موت پر آنسو بہاؤں گا نہ ماتم کروں گا؟ بچھڑے ہوئے مل جائیں تو کیا خوشی کا گلا گھونٹ دیا جائے گا صرف اس لیے کہ کمپیوٹر کی رفتار اور مار حیران کُن ہے؟ جب تک غم اور خوشی موجود ہیں‘ ادب تخلیق ہوتا رہے گا!
صرف کمپیوٹر اور ایجادات کا معاملہ نہیں‘ سہولیات اور تعیشات کا بھی یہی حساب ہے۔ وسیع و عریض محل میں ایک اکیلا مالک‘ ملازموں کے رحم و کرم پر‘ بیوی بچوں کی یاد میں‘ بیٹھا آنسو بہا رہا ہے اور چھوٹے سے گھر میں ایک عام شہری بیوی بچوں اور پوتوں نواسوں کے ساتھ کھیل رہا ہے یہ جانے بغیر کہ وہ کتنا مراعات یافتہ ہے! جن سہولیات کو عرفِ عام میں مراعات کہا جاتا ہے‘ وہ بھی جائز ہیں اور نعمتوں میں شمار ہوتی ہیں مگر اصل مراعات اور ہیں! زندگی کا مرکز کمپیوٹر ہے نہ ٹیکنالوجی‘ محلات ہیں نہ اقتدار! زندگی کا مرکز دل ہے! دل جو سینے میں بائیں طرف‘ دھڑک رہا ہے!!

روزنامہ دنیا

Tuesday, July 18, 2023

ادب ہی کی نہیں‘ ادیبوں کی تاریخ بھی پڑھنی چاہیے


کشور ناہید سے پہلا تعلق یکطرفہ تھا۔ ہمارا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ کتابیں خریدنے کی استطاعت کم تھی! چنانچہ لائبریریوں میں بیٹھ کر پسندیدہ شاعری کے نوٹس اسی طرح بناتے تھے جس طرح درسی کتابوں کے بناتے تھے۔ جوش اور عدم کے نوٹس بنائے۔ احمد فراز کی ''درد آشوب‘‘ کے بھی !! میرا جی کے بھی ! وہی زمانہ تھا جب کشور ناہید کی غزلیات کا مجموعہ '' لبِ گویا‘‘ آیا۔ ہم نے پڑھا۔ چکرائے۔ بالکل نئی قسم کی شاعری تھی۔ اب تو ہر شاعرہ نسائی لہجے کا لاکٹ اپنے گلے میں ڈال لیتی ہے اور نقاد حضرات کا تو کیا ہی کہنا! نسائی لہجے کی بانی شاعرات کے ڈھیر ہی لگا دیے۔ مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ نسائی لہجے کی ابتدا اِ س عہد میں کشور ناہید نے کی!ذرا ساٹھ کی دہائی کو ذہن میں لائیے اور یہ اشعار دیکھیے ؛
کچھ یوں بھی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی 
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھِلتا ہوا نہ تھا 
سر کو جس کے سامنے ڈھکنا بہت 
دیکھ کر اُس شخص کو ہنسنا بہت
شام ہوتے ہی سنورتا ہے مری آنکھوں میں 
یہ نظارہ ہی مجھے آگ بنا دیتا ہے 
آپا سے براہ راست رابطہ اسّی کی دہائی میں ہوا! تب وہ''ماہِ نو ‘‘ کی ایڈیٹر تھیں! ہم سب جانتے ہیں کہ ماہِ نو ایک ادبی جریدہ ہے جو سرکار کی ملکیت میں ہے۔ اس کے سنہری ادوار صرف دو تھے۔ پہلا ‘ جب رفیق خاور اس کے مدیر تھے۔رفیق خاور کون تھے؟ ہم میں سے اکثر کو نہیں معلوم! بہت بڑے ادیب تھے اور لسانیات کے ماہر! اردو میں پہلا تھیسارس انہی کا کارنامہ ہے! پروفیسر رؤف امیر مرحوم نے ان کے فن اور شخصیت پر پی ایچ ڈی بہت محنت سے کی اور اس حوالے سے کئی بار کراچی بھی گئے۔ یہ مقالہ ‘ نہ جانے اب کہاں ہے۔ اسے افادہ عام کے لیے چھپنا چاہیے۔
ماہِ نو کا دوسرا ‘ اور تاحال آخری‘ سنہری دور وہ تھا جب کشور ناہید ایڈیٹر تعینات تھیں۔ روٹین میں مَیں نے پہلے کی طرح ایک غزل یا نظم بھیج دی۔ مگر اب کے وہاں ایڈیٹر ہاتھ میں مولا بخش لیے براجمان تھیں! اپنے زمانۂ ادارت میں آپا نے مجھ جیسے طالب علموں سے‘ مار کُٹ کر‘ اتنا کام کرایا جتنا کئی برسوں میں نہیں کیا تھا۔ مضمون لکھوائے۔ جدید فارسی شاعری کے تراجم کرائے۔ گنتی کے جو چند افراد ( زیادہ سے زیادہ تین یا چار ) بہترین ادبی جریدہ ایڈٹ کر سکتے ہیں کشور ناہید ان میں سر فہرست ہیں! 
شاعری کے حوالے سے اور عورتوں کے حقوق ( Feminism)کے حوالے سے کشور ناہید کا موازنہ کس سے کیا جائے؟ پروین اعتصامی سے؟ فروغ فرخ زاد سے ؟ یا قرۃ العین طاہرہ سے؟ نہیں! اس لیے کہ یہ شاعرات ‘ یہ بہادر خواتین‘ تو آج کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں! قرۃالعین طاہرہ کو 1850ء میں موت کے گھاٹ اتارا گیا! تو یہ تقریباً حال ہی کا زمانہ ہوا! سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ کشور ناہید کا موازنہ مہستی گنجوی سے کیا جائے! وہ بارہویں صدی کی شاعرہ تھی۔گنجہ شہر آج کے آذربائیجان میں واقع ہے! پاکستان سے سیاحوں کے بہت گروپ آذربائیجان جاتے ہیں مگر گنجہ ان میں سے کسی کی فہرست میں نہیں ہے۔ فارسی شاعری کا عبقری نظامی گنجوی گنجہ ہی سے تھا! پہلا مشہور خمسہ ( پانچ مثنویوں کا مجموعہ) اسی نے لکھا۔ پھر امیر خسرو نے اور پھر جامی نے! آج کی کشور ناہید کو میں بارہویں صدی کی مہستی سے کیوں ملا رہا ہوں؟ اس لیے کہ آج کے پاکستان میں عورتوں کی سماجی پوزیشن وہی ہے جو کچھ اور ملکوں میں بارہویں صدی میں تھی! مہستی نے اُس زمانے میں جو شاعری کی ‘ خاص طور پر رباعیات! اُس کا اُس عہد میں تصور بھی محال تھا! وہ بولڈ تھی۔ بے خوف! مرد نے عورت کو جس مصنوعی اور پدر سری (male chauvinism ) کے خول میں قید کر کے رکھا ہوا تھا‘ مہستی نے اس خول کو تار تار کیا اور جو باتیں عورت نہیں کر سکتی تھی ‘ برملا کیں! بالکل کشور ناہید کی طرح! مہستی کی شاعری یہاں سنانے کی گنجائش نہیں۔ یوں بھی فارسی چونکہ ایک ہزار سال تک ہماری حکومتی اور تہذیبی زبان رہی ہے اس لیے ہمیں اس سے نابلد ہی رہنا چاہیے کہ یہی ہمارا شیوہ ہے! 
کشور ناہید آج کی پا بہ زنجیر پاکستانی عورت کے دفاع کے لیے خم ٹھونک کر کھڑی ہے! مسلمان اور ایٹمی پاکستان میں عورت آج بھی کارو کاری ‘ ونی اور سوارہ کا شکار ہے! ہمارے منتخب اداروں میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بِل پیش ہو تو منہ کی کھاتا ہے! کبھی عورتوں کو قتل کر کے صحرا کی ریت میں چھپا دیا جاتا ہے تو کبھی اندھے کنوؤں میں ڈال دیا جاتا ہے اور اکثر و بیشتر ان وحشیانہ جرائم میں وہ سردار اور جاگیردار ملوث ہوتے ہیں جو حکومتوں کا حصہ ہوتے ہیں! بلو چستان کو تو چھوڑیے‘ نام نہاد ترقی یافتہ پنجاب میں یہ حالت ہے کہ بیٹی جنم دینے والی عورت کو ہسپتال ہی میں طلاق دے دی جاتی ہے یا اسے پیٹا جاتا ہے! وراثت میں عورت کے جائز شرعی حصے کا معاملہ ہو تو کیا عمامے ‘ قبائیں اور تسبیحیں‘ اور کیا تھری پیس سوٹ ‘ سب اپنا تھوکا ہوا چاٹتے ہیں اور بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت سے محروم کرتے ہیں۔ اس اسلامی ملک میں قرآن پاک سے اتنی محبت کی جاتی ہے کہ بیٹیوں کی شادیاں تک قرآن پاک سے کی جاتی ہیں! جس شخصیت نے تسلسل کے ساتھ اور دلسوزی اور بہادری کے ساتھ اس بیمار مائنڈ سیٹ کے خلاف توانا آواز اٹھائی ہے وہ کشور ناہید ہے! اس کی نئی کتاب (پیرہن تار تار ) میں نور مقدم پر نظم ہے جو یقینااردو شاعری میں نور مقدم پر پہلی نظم ہے۔ مہسا امینی پر بھی پہلی نظم اسی کتاب میں ہے۔ یہ وہ لڑکی تھی جسے سر پر دوپٹہ نہ کرنے کی پاداش میں مار دیا گیا! کشور کی یہ نئی نظمیں ایک ڈائری کی طرح ہیں۔ یہ نوحہ خوانی ہے! اور نوحے ن م راشد اور میرا جی کی نظموں کی طرح علامتی اور گنجلک نہیں ہو سکتے! یوں بھی آئی ایم ایف ‘ طالبان کے مفتی ‘ ایدھی‘ یوکرین اور سیلاب زدگان پر لکھی ہوئی نظمیں صاف ‘ سیدھی اور غیر علامتی ہی ہونی چاہئیں تا کہ دل میں اُتر جا ئیں! ہاں ایک نظم '' بھروسہ‘‘ پڑھ کر ہنسی آئی کہ اس کا بالواسطہ تعلق مجھ سے بھی ہے۔ نظم کے بقول‘ افتخار عارف صاحب نے آپا کو چھڑی بھیجی ہے اور آپا ان سے پوچھ رہی ہیں کہ بتاؤ میں کتنے دن چھڑی کے ساتھ رہوں گی؟ اس لکھنے والے کے والد مرحوم جب ضعیف ہو گئے تو میں ان کے لیے واشنگٹن سے ایک چھڑی لایا جو فولڈ ہو کر چھوٹی سی ہو جاتی تھی۔کچھ عرصہ کے بعد وہ لاٹھی کو‘ اور مجھے بھی‘ چھوڑ کر چلے گئے! میں جب بھی لاٹھی دیکھتا تو ڈرتا کہ یہ میرا انتظار کر رہی ہے! ایک دن جناب افتخار عارف میرے گھر آئے ہوئے تھے تو میں نے وہ چھڑی ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ غالباً وہ اپنی چھڑی ساتھ نہیں لائے تھے۔ اب میں مطمئن ہو گیا کہ چھڑی نظر نہیں آئے گی۔ مگر چند ہی دن گزرے تھے کہ افتخار صاحب کا ڈرائیور چھڑی وا پس کر گیا!!
کشور ناہید نے بہت کام کیا۔ شاعری میں بھی اور نثر میں بھی! بڑے بڑے ثقافتی اداروں کی سربراہ بھی رہیں! مگر ایک کام ان پر قرض ہے ! انہوں نے بڑے بڑے‘ مشہور اور باعزت ادیبوں اور شاعروں کو قریب سے دیکھا ہے۔ سفر میں بھی اور حضر میں بھی!کشور ناہید نے بے شمار ایسے واقعات کو دیکھا ہے جو ان بڑے لوگوں کو '' چھوٹا‘‘ ثابت کرتے ہیں ! اور اصل چہرہ دکھاتے ہیں! التماس ہے کہ وہ ازراہِ کرم یہ سب کچھ لکھ ڈالیں ! صرف ادب کی نہیں‘ ادیبوں کی تاریخ کا جاننا بھی ضروری ہے!
( کشور ناہید کی نئی کتاب کی تقریب میں پڑھا گیا)

Monday, July 17, 2023

آسمان کی طرف دیکھیے اور مسکرائیے !


بادشاہ بیمار ہوا اور ایسا بیمار کہ جان کے لالے پڑ گئے۔کوئی علاج کار گر نہیں ہو رہا تھا۔ساری مملکت سے حکما منگوائے گئے۔آخر کار بیماری کی تشخیص ہوئی۔ جتنی عجیب اور پُراسرار بیماری تھی اتنا ہی مختلف اور مشکل نسخہ تجویز ہوا۔ نسخہ یہ تھا کہ ایک نوجوان کے پِتّے سے دوا بنے گی اور نوجوان بھی وہ جس میں فلاں فلاں خصوصیات ہوں! ان خصوصیات کو سامنے رکھ کر پورے ملک میں تلاش شروع ہوئی۔ بالآخر ایک غریب کسان کا بیٹا ملا جس میں وہ خصوصیات موجود تھیں جن کا مطالبہ حکما نے کیا تھا۔ اْس زمانے میں میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی تو کی نہیں تھی کہ سرجری کر کے پتّہ نکال لیں اور جان بھی ضائع نہ ہو۔ پتّہ نکالنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ سر قلم کر دیا جائے اور لاش سے پتّہ نکال کر حکما کے حوالے کر دیا جائے۔ نوجوان کے ماں باپ کو بادشاہ کی زندگی کی اہمیت بتائی گئی۔ مملکت کے سربراہ کی زندگی کے مقابلے میں رعایا کے ایک معمولی فرد کی اہمیت ہی کیا تھی۔اوپر سے نوجوان کے ماں باپ کو '' معاوضہ‘‘ کی شکل میں اتنا مال منال دیا گیا کہ ان کی کئی نسلوں کیلئے کافی تھا۔ وہ راضی ہو گئے! اس کے بعد قاضی سے فتویٰ لیا گیا کہ ملک کے سربراہ کی جان بچانے کے لیے ایک شخص کا خون بہانا جائز ہے۔ ان ساری رکاوٹوں کے ہٹ جانے کے بعد جلاد کو حکم دیا گیا کہ نوجوان کی گردن اُڑا دے۔ نوجوان نے آسمان کی طرف دیکھا اور مسکرایا! بادشاہ نے پوچھا کہ مسکرانے کا یہ کون سا موقع ہے؟ نوجوان نے کہا کہ انسان کا سب سے بڑا سہارا اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ میرے ماں باپ نے مال و دولت کے بدلے میری زندگی کا سودا کر ڈالا۔اس کے بعد قاضی ہوتا ہے جو انصاف کرتا ہے۔ یہاں قاضی نے میری ہلاکت کو جائز قرار دیا ہے۔ اس سے بھی بڑی اتھارٹی بادشاہ کی ہوتی ہے جو رعایا کا مائی باپ ہوتا ہے۔ میرے معاملے میں بادشاہ کا اپنا فائدہ میری موت میں ہے۔ اس کے بعد خدا ہی کی ذات ہے جو مجھے بچا سکتی ہے۔ اس لیے آسمان کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ کہانی کے اس موڑ پر پہنچ کر ہمارا مقصد پورا ہو جاتا ہے مگر قارئین کا تجسس دور کرنے کے لیے کہانی کا بقیہ حصہ بھی سنا دیتے ہیں۔ بادشاہ کا دل پسیج گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اس ناجائز قتل کی نسبت اس کی ا پنی موت ہی بہتر ہے! نوجوان کی جان بخشی ہو گئی۔ خدا نے کرم کیا اور اس نیک عمل کے بدلے میں بیماری سے شفایابی بھی ہو گئی۔
شیخ سعدی کی بیان کردہ یہ حکایت یوں یاد آئی کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کورونا کے دنوں میں چھ سو بیس بڑے لوگوں کو‘ یا بڑے لوگوں کی کمپنیوں کو‘ تین ارب ڈالر قرض دیا جو تقریباً مفت ہی تھا۔ مقصد یہ بتایا گیا کہ ڈوبتی ہوئی انڈسٹری کو بچانا تھا۔ خوب! اچھا کیا! تو یہ بتا ئیے کہ کون کون سی انڈسٹری کو‘ یا کون کون سی کمپنیوں کو یہ قرضہ دیا گیا؟ اس کے نتائج کیا نکلے؟ یہ معلومات سٹیٹ بینک نے قوم کو بتانے سے انکار کر دیا! ملک کی سب سے بڑی اتھارٹی قومی اسمبلی ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی قومی اسمبلی کا حصہ ہے! پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سٹیٹ بینک کو حکم دیا کہ نام بتا ئے جائیں! سٹیٹ بینک نے کہا ''اِن کیمرہ‘‘ اجلاس رکھیے۔ یعنی ایسا اجلاس جس کی کاروائی خفیہ ہو اور باہر نہ آسکے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے یہ بات بھی مان لی۔ مگر میڈیا کہتا ہے کہ چھ سو بیس افراد یا کمپنیوں کے نام اس خفیہ اجلاس میں بھی نہ بتائے گئے۔ قوم کی ساری امیدیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے وابستہ تھیں۔اب اگر وہ بھی یہ نام نہ اگلوا سکی تو پھر اس کے بعد خدا ہی کی ذات ہے جس کے آگے فریاد کی جا سکتی ہے! اس لیے آئیے ہم بھی اُس مظلوم نوجوان کی طرح آسمان کی طرف دیکھیں اور مسکرائیں!
لطیفہ ہے یا مذاق کہ جس قرض کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے ہفتوں اور مہینوں ہم گڑ گڑاتے رہے‘ گھٹنے پکڑتے رہے‘ پاؤں پڑتے رہے‘ سفارشیں کراتے رہے۔ شرائط تسلیم کرتے رہے‘ وعدے کرتے رہے‘ قسمیں اٹھاتے رہے‘ اس قرض کی مالیت تین ارب ڈالر ہی تو ہے! وہ بھی قسطوں میں! دل پر ہاتھ رکھیے! خدا کو حاضر ناظر جان کر اپنے آپ سے پوچھیے کہ اس سے بڑی حماقت کیا ہو سکتی ہے! تین ارب ڈالر آپ کے خزانے میں موجود تھے! آپ نے انہیں خزانے سے نکالا اور بانٹ دیا! اور پھر آپ اتنی ہی رقم کے لیے کشکول اُٹھا کر آئی ایم ایف کے دروازے پر سجدہ ریز ہو گئے!
کورونا نے جو معاشی تباہی مچائی اس کی تلافی کے لیے قرض دینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں نہ کوئی جرم ہے! سٹیٹ بینک کا موقف ہے کہ حکومت سے پوچھے بغیر یہ قرض دینا اس کے اختیارات میں تھا! یہ بھی مان لیا! مگر سوال یہ ہے کہ کیا قرض دینے کا مقصد پورا ہوا؟ کیا مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے ؟ کیا ملک کی معیشت کا فائدہ پہنچا؟ یہ سب سوالات حق بجانب ہیں! ان جائز‘ بلکہ ضروری‘ سوالات کا جواب اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب متعلقہ افراد یا کمپنیوں کے نام معلوم ہوں! پھر ان سے پوچھا جائے کہ قرض کو کس طرح استعمال کیا گیا؟ فوائد کی کون سی فصل کاٹی گئی؟ ملک کا اقتصادی گراف اس سے کتنا بلند ہوا؟ پلک اکاؤنٹس کمیٹی ملک کی بلند ترین اتھارٹی ہے! اس کے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ ان لوگوں کے نام معلوم کرے اور سوالات پوچھے! مگر افسوس! صد افسوس! کمیٹی بھی بے بس ثابت ہوئی! چھ سو بیس طاقتور افراد‘ یا کمپنیوں کے طاقتور افراد جیت گئے! منتخب نمائندے بے بس ثابت ہوئے!
روایت اس ملک کی یہ رہی ہے کہ قرضے لینے والے بڑے لوگ قرضے واپس نہیں کرتے! ان قرضوں کی میعاد لمبی کرا لیتے ہیں اور آخر کار معاف کرا لیتے ہیں! پچھلے پچاس ساٹھ برسوں میں جتنے قرضے دیے گئے اور معاف کر دیے گئے‘ وہ اس قرض سے شاید ہی کم ہوں جو اس عرصے میں آئی ایم ایف اور دوسرے ملکوں سے لیے گئے! یہ ایک دلچسپ مطالعہ ( سٹڈی) ہو گا! کسی محقق کو‘ یا کسی معیشت دان کو اس موضوع پر کام کرنا چا ہیے۔ یہ ایم فل کے لیے ایک انتہائی زبردست ٹاپک ہو گا! اس سے معلوم ہو گا کہ ہم کتنا آگے بھا گے ہیں اور پھر کتنا پیچھے کی طرف لڑھکے ہیں؟ پہلے ہم خزانہ لٹاتے ہیں‘ پھر بھیک مانگ کر بھرتے ہیں۔ جب بھر جاتا ہے تو پھر لٹانا شروع کر دیتے ہیں! ہم وہ لوگ ہیں جو دن بھر دیوار چاٹتے ہیں۔ رات کو اسے ٹھیک کرتے ہیں اور صبح پھر چاٹنا شروع کر دیتے ہیں!
اب ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے! قرض دینے سے پہلے آئی ایم ایف‘ دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ‘ یہ شرط بھی رکھے کہ دیے گئے قرضوں کا حساب دو اور جو آج تک معاف کیے گئے‘ ان کی بھی تفصیل دو! ایسا ہو تو کس مائی کے لال میں جرأت ہے کہ نام نہاد رازداری کا ڈھونگ رچائے!بے حمیّتی کی بہت سی اقسام ہیں! بدترین بے حمیتی وہ ہے جس میں اپنی حکومت‘ اپنے اداروں اور اپنے عوام سے حقائق پوشیدہ رکھے جائیں مگر اقتصادی استعمار کے سامنے جھک جائیں! کون سی آزادی ہے یہ ؟ بقول فراق گورکھپوری ؎
دلِ آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر اختیار کو دیکھا!
سچ بتائیے! کیا آپ کو اپنے منتخب اداروں پر پیار نہیں آرہا؟

Thursday, July 13, 2023

دوسرے پاکستان کی باری کب آئے گی ؟


نوجوان نے اشعار سنائے اور چونکا دیا۔


اب تو کم ہی ایسے نوجوان ہیں جن کے اشعار چونکا دیں۔ اکثر کے اشعار تو اُونگھ لانے میں مدد دیتے ہیں۔ شاعری کے دشمن ہمیشہ سے بہت تھے جیسے بدذوق لوگ اور ناشاعر جو خود کو شاعر کہتے تھے۔ مگر جو دشمنی سوشل میڈیا نے شاعری کے ساتھ کر کے دکھائی ہے اس کی مثال ادب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پبلشر سر پیٹ رہے ہیں کہ جو تھوڑی بہت شاعری کی کتابیں فروخت ہوتی تھیں‘ وہ بھی سوشل میڈیا کے طفیل نہیں بِک رہیں! پہلے ایک طویل پروسیس ہوتا تھا۔ شاعر ایک مدت تک ادبی جرائد میں چھپتا تھا۔ کڑی تنقیدی آرا کا سامنا کرتا تھا۔ برسوں اپنی اصلاح اور تہذیب پر توجہ دیتا تھا۔۔ تب جا کر اپنا مجموعہ کلام شائع کرنے کی جرأت کرتا تھا۔ سوشل میڈیا شاعری کو شیور کی مرغی کی سطح پر لے آیا ہے۔ مصنوعی خوراک‘ مصنوعی وزن اور مصنوعی پکوان! پہلے مرغ مہینوں اور برسوں میں تیار ہوتا تھا اب دنوں میں!! شاعر فیس بک پر اپنے اشعار لکھتا ہے۔ یوٹیوب پر سناتا ہے۔ فارورڈ کیا جاتا ہے۔ شاعری ٹیگ ہوتی ہے۔ لائکس ملتے ہیں۔ کمنٹس وصول ہوتے ہیں۔ لیجیے! ثقاہت حاصل ہو گئی۔سند مل گئی! اور اگر معاملہ شاعر کا نہیں ‘ شاعرہ کا ہے تو پھر تو لائکس کی تعداد شمار کرنا ہی مشکل ہے! آپ کا کیا خیال ہے سوشل میڈیا غالبؔ اور ذوقؔ کے زمانے میں ہوتا تو کیا ہوتا؟ ذوقؔ استادِ شاہ تھے! شاہی حکم سے سینکڑوں آئی ڈی وجود میں آ جاتیں! ذوقؔ سوشل میڈیا کے ذریعے چھا جاتے اور غالبؔ منہ دیکھتے رہ جاتے! سوشل میڈیا کے بعد‘ دوسرے نمبر پر سوقیانہ مشاعرے شاعری کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مشاعروں کے ذریعے نوجوان طلبہ و طالبات کو انتہائی مبتذَل ‘ پست اور عامیانہ اشعار سنائے جا رہے ہیں ۔ ان اشعار پر طلبہ و طالبات واہ واہ کر کے داد نہیں دیتے بلکہ سیٹیاں بجا کر ‘ شور مچا کر اور چیخ کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ شعر میں کالج اور لڑکی کے الفاظ آجائیں تو خوب ہڑبونگ مچتی ہے اور شاعر دیر تک حاضرین کو سیلوٹ کرتا رہتا ہے۔ ''مقبولیت ‘‘ حاصل کرنے کیلئے ہر سوشل میڈیائی شاعر کی خواہش ہوتی ہے کہ ٹین ایجرز کو خوش کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے!
مگر اس نوجوان کی شاعری مختلف نسل کی تھی! مثلاً
بڑے زمانے کے بعد آیا ہے شعر کہنا 
کشیدہ کاری بڑے زمانے کے بعد آئی 
٭......٭......٭
حدِّ نظر سراب ہے پانی تو ہے نہیں 
صحرا کی گرد ہم نے اڑانی تو ہے نہیں 
چلتا نہیں ہے اس پہ ہمارا کچھ اختیار 
یہ زندگی ہے کوئی کہانی تو ہے نہیں 
کیوں دیکھ بھال اس کی کریں ہم تمام عمر 
یہ زخم کوئی اس کی نشانی تو ہے نہیں 
رکھنا ہے خود کو شورِ جہاں سے الگ تھلگ 
آواز اس میں اپنی ملانی تو ہے نہیں 
یہ شاعر تاج الدین تاج تھا۔یہ لاہور کا ہے نہ کراچی کا! اسلام آباد سے تعلق ہے نہ پشاور سے! اس کا مولد کوئٹہ ہے نہ ملتان! اس کا تعلق کسی بڑے شہر سے نہیں! اسی لیے آپ نے اس کا نام سنا ہو گا نہ کلام!تاج الدین تاج ‘ بڑے شہروں کے ہنگاموں سے دور‘ شنکیاری کے چھوٹے سے‘ پہاڑوں سے گھِرے قصبے میں رہتا ہے۔ ایک اور نوجوان نے اشعار سنائے 
کیا تجھے علم ہے اس دل کے پری خانے میں 
میں نے اِک عمر ترے درد کو مہمان کیا
آپ کا دشت آپ کے آہو 
خاک جم جم اڑائیے صاحب 
یہاں آسیب تک نہیں رہتا 
میرے اندر سے جائیے صاحب
آپ جاتے ہیں‘ پر نہیں جاتے 
جائیے‘ پھر نہ آئیے صاحب 
کوئی منظر بھی نہیں دھند کی چادر کے سوا 
آنکھ ویراں ہے کہ تصویر میں ویرانی ہے 
یہ چاند ستارے کبھی زیور تھے زمیں کے 
افلاک نے دھرتی سے چرایا ہے بہت کچھ
باہر سے تو رونق ہے وہی آج بھی لیکن 
اس عشق نے اندر سے جلایا ہے بہت کچھ 
ایک دن روح پلٹ جائے گی منزل کی طرف 
اور یہ جسم بھی اک روز ٹھکانے لگے گا 
یہ نوجوان اخلاق احمد اعوان تھا! دماغ کے اعتبار سے فارمیسی کا ماہر اور دل کے اعتبار سے شاعر! یہ بھی کراچی لاہور اسلام آباد پشاور سے دور ‘ ایبٹ آباد کے کوہستانی سلسلے میں فروکش ہے! یہ اور ایسے بہت سے قابلِ ذکر شعرا آپ کو ٹی وی کے کسی مشاعرے میں نظر نہیں آئیں گے۔ اس لیے کہ پاکستان ایک نہیں‘ دو ہیں اور ان کا تعلق پہلے پاکستان سے نہیں دوسرے پاکستان سے ہے! پہلا پاکستان کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ پشاور اور کوئٹہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس پاکستان میں چھلکتے بازار ہیں اور ہر رنگ اور ہر جسامت کے مال اور پلازے! ان شہروں میں رہنے والے شعرا خوش بخت ہیں کیونکہ ان کی تشہیر ہوتی ہے۔ لوگ ان کے نام سے روشناس ہیں اور کلام سے متمتع ہوتے رہتے ہیں! ہر ٹی وی مشاعرے پر دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان میں سے کچھ چہروں سے لوگ اُکتا چکے ہیں اور کچھ کا کلام جو وہ مشاعروں میں سناتے ہیں ‘ سامعین اور ناظرین کو ماشا اللہ حفظ ہو چکا ہے! دوسرا پاکستان ان چمکتے دمکتے شہروں سے دور قصبوں اور قریوں میں ہے جہاں ٹیلنٹ ہے مگر اُس ٹیلنٹ کو پالش اور صیقل کرنے والا کوئی نہیں! جہاں ذہانت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے لیکن مواقع کا قحط ہے! جہاں موتی اور ہیرے موجود ہیں مگر مٹی میں رُل رہے ہیں۔ اس دوسرے پاکستان میں اچھے طلبہ و طالبات ہیں یا اچھے شعرا‘ ان کے آگے بڑھنے کے امکانات کم ہیں ! بہت ہی کم ! بقول فراق ؔ:
وہ پھریں اپنے در و بام پہ اہلے گہلے
عشق آوارہ پھرے دشت میں تنہا تنہا
جن دنوں آغا ناصر مرحوم پاکستان ٹیلی ویژن کے سربراہ تھے ‘ اس لکھنے والے نے اُن کی خدمت میں عرض کیا کہ ہر مشاعرے میں لوگ بابے دیکھ دیکھ کر اُکتا چکے ہیں۔ ایسا مشاعرہ کرائیے جس میں یہ متقدّمین حضرات نہ دکھائی دیں! آغا صاحب بہت بڑے انسان تھے۔ یہ ان کی بڑائی ہی تھی کہ مجھ جیسے بے بضاعت سے بھی محبت کرتے تھے۔ چنانچہ ایسا مشاعرہ کرایا جس میں صرف قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے شعرا کو مدعو کیا گیا! آج اگر آغا صاحب ہوتے یا ان جیسا کوئی صاحبِ دل الیکٹرانک میڈیا کے تخت پر رونق افروز ہوتا تو میں ‘ کہ اب خود بھی چھوٹا موٹا بابا ہوں‘ تجویز کرتا کہ ایسا مشاعرہ کرائیے جس میں بڑے شہروں سے کسی کو بھی نہ بلایا جائے‘ صرف قصبوں‘ قریوں اور چھوٹے شہروں کے شعرا کی پذیرائی کی جائے!!

Tuesday, July 11, 2023

سنار کی ضرب اور لوہار کی ضرب



نیو یارک ٹائمز کا اداریہ تھا یا شاید لندن ٹائمز کا ! آج تک نہیں بھولا۔ ستر کے عشرے میں جب شاہ فیصل کی قیادت میں تیل کی فروخت پر پابندی (Oil Embargo)لگی تو اس اداریے میں لکھا گیا کہ ساتویں صدی عیسوی میں عرب صحرا سے نکلے اور بر اعظموں پر چھا گئے۔ اس کے بعد پہلی مرتبہ انہوں نے ایک اور ضرب لگائی ہے جس کا درد پورا مغرب محسوس کر رہا ہے۔ الفاظ یاد نہیں! مفہوم یہی تھا! شاہ فیصل نے اس ضمن میں جان کی قربانی دے دی مگر مغرب کو احساس ہو گیا کہ وہ ناقابلِ تسخیر نہیں ہے!
افشائے رازِ عشق میں گو مشکلیں پڑیں
لیکن اسے جتا تو دیا‘ جان تو گیا
آپ کا کیا خیال ہے اُس وقت اگر شاہ فیصل تیل کا ہتھیار استعمال نہ کرتے اور اس کے بجائے پوری دنیا کے مسلمانوں سے کہتے کہ جلسے کرو‘ احتجاجی جلوس کرو‘ نعرے لگاؤ ‘مغربی ملکوں کے سفارت خانوں کے سامنے دھرنے دو تو مغربی ملکوں پر‘ بالخصوص امریکہ پر کیا اثر پڑتا؟ یہ تیل کی پابندی تھی جس کی وجہ سے کسنجر کو شرقِ اوسط کے‘ بالخصوص سعودی عرب کے ‘ کئی چکر لگانا پڑے!
سویڈن میں جو اسلام کی توہین ہوئی وہ ناقابلِ برداشت ہے اور ناقابلِ معافی! مگر اس کا رد عمل کیا ہونا چاہیے؟ رد عمل دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک کمزور‘ ضعیفانہ اور عاجزانہ رد عمل اور دوسرا مؤثر اور طاقتور رد عمل! خود اعتمادی سے بھرپور رد عمل ! کمزور انسان کو جب تھپڑ پڑتا ہے اور وہ بدلہ نہیں لے سکتا تو دشنام طرازی کرتا ہے ‘ چیختا ہے ‘ نالہ و فریاد کرتا ہے اور اپنی جگ ہنسائی کراتا ہے۔ سب کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا زور نہیں چل رہا۔ قہرِ درویش بر جانِ درویش! عید کے حوالے سے اقبال نے کہا تھا:
عیدِ آزادان شکوہِ ملک و دین
عیدِ محکومان ہجومِ مومنین
کہ آزاد اقوام کی عید‘ ملک اور دین کے جاہ و جلال اور شان و شوکت سے ہوتی ہے جبکہ محکوموں کی عید‘ عیدگاہ کی حاضری سے عبارت ہے۔ انگریز کے عہدِ غلامی میں نماز عید پر کون سی پابندی تھی ؟ مگر ذلت کا یہ عالم تھا کہ کیا جاگیر دار اور کیا گدی نشین ‘ سب ملکہ کی غلامی پر فخر کرتے تھے۔ انکی غلامانہ اور عاجزانہ عرضداشتیں تاریخ میں محفوظ ہیں اور ہم میں سے بہت سوں نے پڑھی بھی ہیں! یہ جو کچھ سویڈن میں ہوا ‘ اس کیخلاف ہمارے احتجاج‘ جلسے‘ جلوس‘ نعرے ‘ گیدڑ بھبکیوں کے سوا کیا ہیں؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے! کیا یہ ہماری کمزوری کی علامت نہیں؟ ہمارے صدر ‘ وزیر اعظم‘ وزیروں اورپارلیمنٹ نے آخر یہ اعلان کیوں نہیں کیا کہ ہم سویڈن سے تجارت ختم کر رہے ہیں اور سویڈن کی مصنوعات اور درآمدات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ دوسرے مسلمان ممالک بھی ایسا ہی کریں! ہماری برآمدات ‘ جو سویڈن کو جا رہی ہیں‘ درآمدات سے کم ہیں! بائیکاٹ سے زیادہ نقصان سویڈن کا ہونا ہے۔ 2021ء میں سویڈن کی برآمدات ‘ جو پاکستان میں آئیں‘ تین سو گیارہ ملین ڈالر کی تھیں جبکہ پاکستان نے اُسی سال ایک سو چورانوے ملین ڈالر کی ا شیا سویڈن کو بھیجیں!پچپن مسلمان ممالک میں سے صرف یمن کے حوثی گروپ نے غیرت دکھائی اور سویڈش مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ہے!حوثی وزیر تجارت محمد شرف المطہر نے اس مقاطعہ کا اعلان چار جولائی کو کیاہے اور تمام مسلمان ملکوں سے ایسا کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔ان کے متعلقہ محکمے نے سویڈن کی تیس ایجنسیوں اور سو برانڈز کی فہرست شائع کی ہے جن کا بائیکاٹ کرنا ہے۔ یمن کے نجی شعبے نے ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
جنوری میں جب نیدرلینڈز اور سویڈن میں کلام پاک کی بیحرمتی کی گئی تھی تو الازہر نے اسی وقت فتویٰ جاری کر دیا تھا کہ ان دونوں ملکوں کی مصنوعات کو ٹھوکر پر رکھا جائے۔ ابھی 29جون کو الازہر نے یہ فتوی دوبارہ ایشو کیاہے۔ الازہر نے دنیائے اسلام کے دیگر فتویٰ مراکز اور تنظیموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بھی ایسی ہی ہدایات جاری کریں۔ سویڈن کا مشہور ترین برانڈ '' آئکیا ‘‘ (Ikea)ہے۔ یہ اس وقت ‘ عملاً پوری دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ یہ سویڈن کا ہے مگر ہیڈ کوارٹر نیدرلینڈز میں ہے۔ دو سال پہلے کے اعدادو شمار کی رُو سے دنیا کے پچاس ملکوں میں اس کی چار سو بائیس برانچیں تھیں۔ ( پاکستان میں ‘ غالباً کوئی برانچ نہیں)۔ دو سال پہلے کے اعداد و شمار کی رو سے آئکیا نے اکتالیس ارب یورو کی ا شیا فروخت کیں۔ منافع اکہتر کروڑ یورو تھا۔ یہ زیادہ تر فرنیچر اور گھر کا سازو سامان فروخت کرتا ہے۔ ہر آئٹم لاکھوں کی تعداد میں بنتا ہے اس لیے لاگت کم آتی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ''Ikea‘‘کا بائیکاٹ کرنا چا ہیے۔ اس کے علاوہ ‘ بڑی بڑی کمپنیاں سویڈن کی مندرجہ ذیل ہیں۔
H&M, Volvo, Ericsson, Electrolux, Skanska, Sandvik, Scania, Atlas Copco, Husqvarna, Saab, Orrefors, Kosta Boda, Rörstrand, Gant, Acne Studios, Cheap Monday, Nudie Jeans, Fjällräven, Happy Socks, Tretorn, Björn Borg, Swedish Hasbeens, WeSC, Tiger of Sweden, C/O Gerd, Peak Performance, Our Legacy, Hope
ایچ اینڈ ایم( H&M )بھی بہت بڑی کمپنی ہے۔پچھتر ملکوں میں اس کے تقریباً پانچ ہزار سٹور ہیں۔ یہ دنیا کا دوسرا بڑا ‘ ملبوسات کا پرچون فروش ہے۔ میں نے دنیا کے مختلف ملکوں میں بے شمار مسلمانوں کو اس کمپنی کی مصنوعات پہنے دیکھا ہے۔ گانٹ ( Gant) بھی از حد مشہور اور مقبول برانڈ ہے۔ ستر ممالک میں چار ہزار سے زیادہ برانچیں ہیں۔ یہ کمپنی ملبوسات‘ گھریلو سامان‘ شیشے کی مصنوعات‘ گھڑیاں اور جوتے بناتی اور فروخت کرتی ہے۔ ان تین بہت ہی معروف کمپنیوں کا تعارف اس لیے کرایا ہے کہ ان سے بخوبی واقفیت ہو جائے اور ان کی ساختہ اشیا کا بائیکاٹ کیا جائے۔ باقی کمپنیوں کا بائیکاٹ بھی لازم ہے!
ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ یہ دنیا جذبات کی نہیں! ہوش کی ہے۔ سوچ کی ہے اور حکمت عملی کی ہے۔ صلح حدیبیہ سے لے کر سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی طرف سے رچرڈ کو گھوڑا دینے تک‘ ہر موقع پر ٹھنڈے مزاج اور گہری حکمت عملی تھی جس نے فتح دلوائی۔ ہم لاکھ جلوس نکالیں اور کروڑ نعرے لگالیں‘ سویڈن اور ہالینڈ پررَتی بھر اثر نہیں ہو گا۔ لیکن اگر پچپن مسلمان ملکوں میں سے آدھے ملک بھی ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو انہیں دن میں تارے نظر آ جائیں گے! مغربی ممالک کے نزدیک روحانیت‘ اخلاق اور دوسروں کے جذبات کا احترام دس میں سے تین درجے رکھتا ہے جبکہ پیسہ دس میں سے نو درجے رکھتا ہے۔ منافع ہی ان کی ترجیح ہے۔منافع پر ضرب ہی کاری ضرب ہو گی! جاپان نے فاتح امریکہ کو معاشی زور سے مفتوح کر لیا ہے۔ چین نے ایک گولی نہیں چلائی لیکن پورا کرۂ ارض اس کی مصنوعات سے چھلک رہا ہے۔ وینکوور اور میکسیکو سے لے کر فلپائن تک میں نے چینی مصنوعات کو حکمرانی کرتے دیکھا ہے۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی بغل میں واقع ایک دکان سے جوتے خریدے تو وہ چین کے بنے ہوئے تھے۔ ایک لفظ منہ سے نکالے بغیر مسلمان ممالک ان بد دماغ ملکوں کا اقتصادی بائیکاٹ کریں تو یہ گھٹنے ٹیک دیں گے۔ یہ بائیکاٹ اُس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک ہولوکاسٹ کی طرح مسلمانوں کی مقدس شخصیات‘ کتاب اللہ اور اسلامی شعائر کے حوالے سے قانون سازی نہ کی جائے!
مگر آہ! افسوس صد افسوس! ہیہات! ہیہات! مسلمان ملکوں میں ‘ اس حوالے سے ‘ یکجہتی ایک خواب کے سوا کچھ نہیں! اتفاق ہوتا تو یہ نوبت ہی نہ آتی! دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ مسلمان ملکوں کے حکمران ذاتی اور گروہی مفادات کی سطح سے اوپر اُٹھ کر ‘ متحد ہو جائیں اور یہ کاری ضرب لگائیں !!!!

Monday, July 10, 2023

خدا کے لیے اس ملک پر رحم کیجئے


سامنے اس وقت ایک رسالہ پڑا ہے! ''ماہنامہ اخبارِ اردو‘‘۔ اسے ''ادارۂ فروغِ اردو‘‘ نکالتا ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جسے پہلے ''مقتدرہ قومی زبان‘‘ کہتے تھے!


کیا آپ نے کبھی کسی ریستوران میں ماہیٔ مسلّم یعنی سالم پکی ہوئی مچھلی کا آرڈر دیا ہے؟ یا گھر میں پکائی ہے؟ یاد کیجیے! جب ہم اسے کھا چکتے ہیں تو اس کی کیا شکل نکل آتی ہے؟ کانٹوں پر مشتمل ایک لمبا پنجر! جس کا ماس ہمارے معدوں میں پہنچ چکا ہوتا ہے! یہی حالت آج کے پاکستان کی ہے۔ ہمارے سامنے ایک پنجر پڑا ہے۔ درمیان میں ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ارد گرد کانٹے ہیں۔ گوشت معدوں میں پہنچ چکا ہے۔ مگر ہماری بھوک ہے کہ مٹ نہیں رہی۔ بھنبھوڑنے کا عمل مسلسل جاری ہے! سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر صاحب نے ان 620معززین کے اسمائے گرامی پاکستانی عوام کو بتانے سے معذرت کر لی ہے جنہیں کورونا کی افتاد کے دوران ''قرض‘‘ دیا گیا تھا۔ قرض کا لفظ واوین میں اس لیے لکھا ہے کہ اب تک کی ہسٹری کی رُو سے کسی بڑے نے کبھی قرض واپس نہیں کیا اور کسی چھوٹے کا قرض کبھی معاف نہیں کیا گیا۔ یہ قرض تین ارب ڈالر کا تھا جو بقول سٹیٹ بینک کے‘ انڈسٹری کو بچانے کے لیے دیا گیا تھا! اس وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی! اس ''قرض‘‘ کا زیادہ حصہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو دیا گیا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان نے نام پوچھے اور کئی بار پوچھے مگر گورنر صاحب کا موقف تھا‘ اور ہے‘ کہ نام بتانے سے قرض خواہوں کا اعتبار مجروح ہوتا ہے۔ سٹیٹ بینک نے یہ سخاوت ضرور کی کہ تفصیلات ''اِن کیمرہ‘‘ اجلاس میں بتانے کا وعدہ کیا۔ ''اِن کیمرہ‘‘ اجلاس کا مطلب ہے کہ تفصیلات اجلاس سے باہر نہیں جائیں گی! پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ جناب نور عالم خان کی شہرت ایک دبنگ اور صاف گو پارلیمنٹیرین کی ہے۔ نہ جانے کیوں وہ اِن کیمرہ اجلاس پر راضی ہو گئے۔ 
اعتبار کا ایک معاہدہ بینکوں اور قرض خواہوں کے درمیان ہے۔ قرض خواہ طاقتور ہیں‘ اس لیے معاہدے کی پاسداری لازم ہے! اعتبار کا ایک معاہدہ پاکستانی عوام اور پاکستانی ریاست کے درمیان ہے۔ چونکہ عوام بے بس ہیں‘ اس لیے اس معاہدے کو تار تار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں! یہ اور بات کہ قرض کی رقوم انہی عوام کے خون پسینے کی کمائی پر مشتمل ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ ایک فیکٹری کے مالک ہوں‘ آپ نے ایک خزانچی رکھا ہوا ہو جو کارکنوں کو تنخواہیں دے اور خزانچی آپکو کارکنوں کے نام اور تنخواہوں کی تفصیل مہیا کرنے سے انکار کر دے۔ فیکٹری آپکی! خزانچی آپکا ملازم! اور آپ ہی کو بتانے سے منکِر!! روپیہ عوام کا‘ سٹیٹ بینک کے حکام عوام کے ملازم! اور عوام ہی سے اطلاعات خفیہ رکھی جا رہی ہیں! ویسے ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا! جب گورنر کی‘ اور بعد میں وائسرائے کی‘ تعیناتی لندن سے ہوتی تھی تب بھی عوام کو ریوڑ سمجھا جاتا تھا اور اطلاعات ان سے خفیہ رکھی جاتی تھیں! اگر آج بھی عوام اپنے تین ارب ڈالر لے جانیوالوں کے نام جاننے کا حق نہیں رکھتے تو پھر کم از کم گورنر صاحب کا نام بدل کر وائسرائے تو کر دیجیے!! 
گزشتہ ہفتے ہمارے ایک دوست‘ معروف کالم نگار نے یہ دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ وزیر خارجہ اپنے خرچ پر بیرونی ملکوں کے دورے کر رہے ہیں اور دوسری طرف سپیشل جہاز میں جاتے ہیں تو اپنا ٹکٹ کیسے خریدتے ہیں؟ آخر وہ عام کمرشل پروازوں میں سفر کیوں نہیں کرتے؟ اس وقت جو ہمارے مالی حالات ہیں‘ ان میں تو یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ کبھی بڑے لوگوں کے حج کے لیے خصوصی پروازیں جارہی ہیں اور کبھی وزیر خارجہ سپیشل جہاز پر جاتے ہیں! اگر گھر کا سارا خرچ مانگے کے پیسوں سے چل رہا ہو تو دال سبزی کھائی جاتی ہے یا قورمے اور زردے اڑائے جاتے ہیں؟ ہم کتنے عجیب لوگ ہیں! اسّی سے زیادہ وزرا تو صرف وفاق میں ہیں! صوبوں کے وزرا ان کے علاوہ ہیں! ان کی تنخواہیں‘ ان کی مراعات‘ ان کی گاڑیاں‘ گاڑیوں کا پٹرول‘ مینٹی نینس! ان کا سٹاف اور سٹاف کی تنخواہیں اور مراعات! کیا کسی کے دل میں خدا کا خوف ہے؟ ملک کا وزیراعظم آئی ایم ایف کی سربراہ کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے اورکفایت شعاری کا کہیں نام بھی نہیں! کالم کی ابتدا میں ہم نے ادارۂ فروغِ اردو کے ماہانہ میگزین کا ذکر کیا ہے! پینتالیس‘ پچاس صفحات کے اس نام نہاد جریدے کے اکثر صفحات آرٹ پیپر پر مشتمل ہیں اور یہ تقریباً سارا ہی پکٹوریل یعنی رنگین تصویروں سے اَٹا ہے۔ بانٹا بھی مفت ہی جاتا ہے! سوال یہ ہے کہ قومی خزانے کے ساتھ یہ بے رحمی کیوں؟ ''مقتدرہ قومی زبان‘‘ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں وجود میں آیا۔ اس کے پہلے سربراہ معروف مورخ ڈاکٹر اشتیاق احمد قریشی تھے جو جنرل ضیا الحق کے استاد تھے۔ ڈاکٹر اشتیاق قریشی نے تاریخ پر بہت کام کیا مگر اردو میں ان کی کوئی کتاب کم از کم ہمارے علم میں نہیں! اسے ''استاد پروری‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے! ادارے کا مقصد اردو کا نفاذ تھا جو آج تک نہیں ہو سکا۔ ڈاکٹر وحید قریشی‘ افتخار عارف اور پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد جیسے مشاہیر اس کے سر براہ رہے۔ یہ بڑے لوگ تھے اور زندگی بھر کا تجربہ رکھتے تھے۔ ان کے عہد میں کام بھی ہوا مگر اس وقت پاکستان اس شدید مالی بحران میں مبتلا نہ تھا جو آج درپے ہے۔ اس وقت یہ ادارے افورڈ ہو سکتے تھے۔ جو معاشی صورت حال اور اقتصادی برہنگی آج ملک کو صلیب پر لٹکائے ہے‘ اس میں ان اداروں پر پیسہ لگانا ظلم کے سوا کچھ نہیں! نوجوان محقق ڈاکٹر راشد حمید اس ادارے کے سربراہ ہیں اور ضائع ہو رہے ہیں! وہ لائق ہیں اور اہلِ علم! انہیں کسی یونیورسٹی میں استاد ہونا چاہیے! یوں بھی اکادمی ادبیات اور ادارۂ فروغِ اردو میں جوہری فرق کیا ہے؟ یہ تکرارکے سوا کچھ نہیں! اگر ایسے ادارے صوبوں میں موجود ہیں تو وفاق میں ان کی کیا ضرورت ہے اور اگر وفاق ان کے بغیر نہیں چل سکتا تو صوبوں میں کیوں؟
ملکی خزانہ خالی ہے۔ اگر کچھ خزانے میں موجود ہے تو وہ قرض سے حاصل شدہ رقم ہے۔ خدا کیلئے اس ملک پر رحم کیجئے۔ جو ادارے ضروری نہیں‘ انہیں ختم کیجئے۔ غیرضروری اور کئی کئی دنوں پر مشتمل فضول کانفرنسوں کے نخرے مزید نہ اٹھائے جائیں! کابینہ‘ وفاقی ہے یا صوبائی‘ مختصر کیجئے۔ وزیر‘ سفیر اور عمائدین سرکاری گاڑیوں میں کم از کم پٹرول تو اپنی جیب سے ڈلوائیں۔ ان میں کون اتنا مفلس ہے جو پٹرول ڈلوانے کی استطاعت سے محروم ہے؟ ایوانِ صدر کا بجٹ کم کیا جائے۔ وزیراعظم‘ صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ اپنے اپنے دفتروں کے اخراجات پر نظر ثانی کریں۔ ویٹروں‘ باورچیوں‘ نائب قاصدوں‘ ڈرائیوروں اور 
Valets
کے جتھے کم کیے جائیں! سرکاری اجلاسوں میں چائے اور دیگر چونچلے ختم کیے جائیں۔ قائداعظم سرکاری اجلاسوں میں چائے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ان کا فرمان تھا کہ جسے چائے پینی ہو‘ گھر سے پی کر آئے! بیورو کریسی‘ نوری ہے یا ناری‘ سول ہے یا خاکی‘ خدا کیلئے اپنے اپنے بجٹ پر نظر ثانی کرے۔ قطرہ قطرہ مل کر دریا ہوتا ہے اور پیسہ پیسہ جڑ کر خزینہ بنتا ہے! ہم ایک ایک دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں! کشکول اٹھائے پوری دنیا میں آوازے لگا رہے ہیں مگر غیر ترقیاتی اخراجات ہیں کہ جوں کے توں ہیں! کہیں کٹ لگتا نہیں نظر آرہا! پاؤں بدستور چادر سے باہر ہیں! ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاؤں چادر سے باہر ہوں تو ہاتھ پھیلانا پڑتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں میں دوسرے ملکوں کے حکمران آئیں تو انہیں برگر کھلایا جاتا ہے یا کسی عام ریستوران میں سادہ کھانا! ہم پکوانوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں‘ بے تحاشا اسراف کرتے ہیں۔ ہم تو اتنے ''غیرتمند‘‘ ہیں کہ آج بھی ایوانِ صدر کے خدام پگڑیوں اور اچکنوں میں ملبوس ہیں! انہیں انگریزوں نے یہ لباس ہماری اشرافیہ کی تذلیل کیلئے پہنایا تھا!!

Thursday, July 06, 2023

ریٹائرمنٹ … ذاتی تجربہ

ریٹائرمنٹ کے حوالے سے دو مضامین لکھے تو احبّا کا کہنا ہے کہ پند و نصائح کو چھوڑوں اور ذاتی تجربہ بیان کروں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیسے گزر رہی ہے! یہ موضوع ‘ جو زیر تعمیر خود نوشت کیلئے رکھا ہوا تھا‘ احباب کی بے حد تحکمانہ فرمائش پر نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے! 

2008
ء میں ریٹائر ہوا تو سرکاری مکان میں رہائش پذیر تھا‘ اکثر رفقائے کار کو ریٹائرمنٹ کے بعد پُر کشش ملازمتیں مل رہی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ صدر زرداری کے دست ِراست ‘ ایک معزز صاحب‘ کالم نگاری کے سبب بہت عزت و محبت سے پیش آتے تھے۔ ان سے ملنے ایوانِ صدر گیا۔بہت تکریم سے پیش آئے۔ پُر تکلف چائے سے نوازا۔ جب عرض کیا کہ سرکار نے گریڈ بائیس میں ریٹائر ہونے والے فلاں فلاں افسروں کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور دوسرے اداروں میں پارک کیا ہے‘ میں اگر ان سے زیادہ نہیں تو کم لائق بھی نہیں ! ان کا جواب بہت منطقی تھا کہ '' تمہارے 
Credentials
 پیپلز پارٹی کے حوالے سے کمزور ہیں!‘‘ یعنی‘ دوسرے الفاظ میں پارٹی کیلئے میری خدمات صفر ہیں۔ یہ اور بات کہ ان کے انتہائی قریبی عزیز ریٹائرمنٹ کے بعد ایک زبردست ملازمت پر فائز تھے۔ ایک دو اور احباب نے بھی کوشش کی مگر سکہ رائج الوقت نہ ہونے کے سبب کام نہ بنا۔ذہن میں یہ تھا کہ سرکاری مکان ملازمت کے بہانے کچھ عرصہ رہ جاتا‘ تاہم چھ ماہ کے قانونی پیریڈ کے بعد مکان خالی کر دیا اور کرائے کے مکان میں اُٹھ آیا جہاں تین سال رہا! اس اثنا میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک بہت محترم دوست نے ‘ جو نامور لکھاری ہیں‘ فون کیا اور پوچھا: ریٹائر ہو گئے؟ کہا: جی ہو گیا! پوچھا کوئی مصروفیت دی حکومت نے؟ کہا: نہیں! کہنے لگے‘ تم نے کسی بڑے آدمی کو کوئی اطلاع بیچی ہوتی‘ کوئی فائل دکھائی ہوتی تو آج وہ تمہاری دیکھ بھال کرتا! میں نے کہا: اللہ مالک ہے۔ 
اطلاع نہ بیچنے اور فائل نہ دکھانے کے صرف دو واقعات شیئر کرتا ہوں! 2006 ء میں مَیں وزارتِ خزانہ میں ایڈیشنل سیکرٹری تھا۔ اور دفاع کے تمام مالی امور کا انچارج! اس کام میں دس فنانشل ایڈوائزر یعنی جوائنٹ سیکرٹری میرے معاون تھے۔ میں اور میرا عملہ وزارتِ خزانہ اسلام آباد میں نہیں‘ بلکہ وزارتِ دفاع راولپنڈی میں بیٹھتے تھے۔ انہی دنوں وزیر اعظم (شوکت عزیز) کیلئے ہوائی جہاز خریدنے کا ڈول ڈالا گیا۔ اس کیلئے چار ملکوں میں جانا تھا۔ ٹیم کے ہمراہ میرا نمائندہ بھی گیا۔ کچھ دنوں بعد ایک معروف صحافی نے‘ جو آج بھی شہرت کے آسمان پر ہیں ‘ فون کیا اور فرمائش کی کہ جہاز والی فائل دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ دُکھ تو قومی خزانے کے ضیاع کا مجھے بھی ہے مگر فائل ریاست کی امانت ہے۔ نہیں دکھا سکتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے انہوں نے کہا تھا کہ کسی وقت وہ بھی کام آئیں گے ! بہرطور میں نے معذرت کی۔ اس کے بعد ایک آدھ بار آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ دوسرا واقعہ تب کا ہے جب میں ایڈیشنل آڈیٹر جنرل آف پاکستان تھا۔ ایک دوست‘ بہت ہی معروف صحافی‘ تشریف لائے اور غیر مطبوعہ آڈٹ رپورٹیں دیکھنے کی فرمائش کی۔ کالم میں اتنی گنجائش نہیں کہ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ آڈٹ رپورٹوں کا فرق واضح کیا جائے۔ قصہ مختصر‘ اسی بنیاد پر ان سے بھی معذرت کی کہ یہ ریاست کی امانت ہے مگر انہوں نے کسی ناراضی کا اظہار نہ کیا۔ آج بھی محبت سے پیش آتے ہیں اور میرے پسندیدہ احباب میں شامل ہیں۔ بہر طور یہ طے ہے کہ بائیس اور اکیس گریڈ سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت یونہی نہیں ملتی۔ کسی نہ کسی '' سبب‘‘ سے ملتی ہے!! تاہم یہ ملازمت بھی دو یا تین برس کیلئے ہی ملتی ہے۔ہاں جو بندو بست غیب سے ہوتا ہے وہ غیر معینہ مدت کیلئے ہوتا ہے ! عنایات اتنی ہیں کہ شکر ادا کرنا ممکن نہیں۔ پیر نصیر الدین نصیر ؒ کا شعر یاد آگیا؛نہ پوچھو کچھ کہ کیا کچھ دے دیا ہے دینے والے نے / بڑا ہو لاکھ کوئی ہم کسی کو کیا سمجھتے ہیں 
ضیا حسین ضیامرحوم ادبی جریدہ ''زرنگار‘‘ نکالتے تھے۔ میرا بہت طویل انٹرویو اس میں شائع کیا۔ سوال تھا '' آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر زندگی زوال آمادہ لگتی ہے؟ یا ابھی آپ کیلئے یہ غمزہ کار ہی ہے‘‘۔ میرا جواب تھا ''زندگی اور زوال آمادہ ؟ زندگی تا دم آخر خوبصورت ‘ متناسب اور متبسم ہوتی ہے۔ اور ہر مرحلے اور ہر موڑ پر نئے غمزے اور انوکھے عشوے دکھاتی ہے۔ زندگی نے اس مرحلے پر پوتے‘ نواسے اور نواسی دی ہے۔ میں اسے زوال سے کیسے تعبیر کروں۔ ان نعمتوں نے زندگی میں اتنے رنگ بھر دیے ہیں‘ اتنی بوقلمونی عطا کی ہے اور ایسا دلرُبا حُسن دیا ہے کہ ایک ایک لمحہ حَظ اُٹھا رہا ہوں! '' حقیقت یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی اتنی شدید مصروفیت میں گزر رہی ہے کہ سنجیدگی سے ایک ملازم رکھنے کا سوچ رہا ہوں جو صرف کان کھجا دیا کرے۔ ہفتے میں تین کالم لکھنے ہوتے ہیں۔گزشتہ چند برسوں کے دوران چار ( نثری اور شعری) کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ بچوں کیلئے ایک انوکھا ‘ نئی طرز کا ناول زیر طبع ہے۔ قارئین اور ناشر کے اصرار پر خود نوشت لکھنے کا عمل زوروں پر ہے۔ ایک کتاب ‘ شیرلٹ برونٹی کی داستانِ درد‘ زیرِ تصنیف ہے۔ مشہور کلاسیکی عجوبے (سرگذشت حاجی بابا اصفہانی) کا فارسی سے ترجمہ ساتھ ساتھ ہو رہا ہے!
اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرطاس وقلم نے دنیا سے کاٹ رکھا ہے۔ تمام اعزہ واقارب کے ہاں باقاعدگی سے حاضر ہوتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ قطع رحمی کے گناہِ کبیرہ سے بچوں! ہفتے میں ایک دن اپنے پرانے دوست پروفیسر اظہر وحید کے ہاں لنچ کرتا ہوں۔ ہم ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق طلبہ‘ جو اسلام آباد میں میسر ہیں‘ کلب میں اکٹھے ہوتے ہیں اور مشرقی پاکستان کو یاد کرتے ہیں! ادبی محافل میں باقاعدگی سے شرکت ہوتی ہے۔ ہر شادی اور غم کے موقع پر اپنے گاؤں بھی جاتا ہوں اور نانکے گاؤں بھی! گاؤں میں اور شہر میں بھی رفتگاں کی قبروں کی دیکھ بھال باقاعدگی سے کرتا ہوں۔ کون جانے کل اپنی قبر پر ''نے چراغے نے گُلے‘‘ والا معاملہ ہو گا یا کوئی پھیرا ڈالنے والا ہو گا! محلے اور مسجد کے احباب کے ساتھ مسلسل ملاقات رہتی ہے! 
ہفتے میں پانچ دن ‘یا کم از کم چار دن‘ ورزش کیلئے مختص ہیں۔ورزش کے علاوہ سرما میں پچاس منٹ سیر ہوتی ہے۔ گرمیوں میں ڈاکٹر نے سیر سے‘ بوجوہ‘ منع کیا ہوا ہے اس لیے کمرے میں سائیکل چلاتا ہوں! کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو گاڑی سے بچوں اور کام کاج پیدل چل کر کروں۔ ذاتی لائبریری کی دیکھ بھال‘ صفائی اور چھانٹی باقاعدگی سے کرتا ہوں۔ چھانٹی نہ کی جائے تو کچن تک کتابوں سے بھر جائے۔رطب رکھنا پڑتا ہے اور یابس نکالنا پڑتا ہے! اپنے ملبوسات کے ضمن میں ساری زندگی بیگم کو زحمت دی نہ کسی ملازم کو۔ دھلے ہوئے کپڑے الماری میں خود رکھتا ہوں۔ میلے کپڑے لانڈری میں خود پہنچاتا ہوں۔ شلوار میں کمر بند خود ڈالتا ہوں۔ گاڑی کے تیل پانی میں تاخیر یا کوتاہی ہر گز نہیں کرتا۔ 
یہ سب کچھ تو ہے مگر ریٹائرمنٹ کے بعد جو خوشگوار ترین نعمت عطا ہوئی ہے وہ پوتے‘ پوتیاں‘ نواسے اور نواسیاں ہیں ‘ یہ کتنا بڑا انعام ہے‘ اس کا اندازہ وہ شخص نہیں کر سکتا جو نا نا یا دادا کے منصب پر فائز نہیں ہوا! لاہور ہو یا اسلام آباد‘ یا سال کے پانچ ماہ میلبورن میں ‘ جہاں بھی ہوں‘ ان بچوں کو انکے ماں باپ کے '' ظلم ‘‘سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ بجٹ کا زیادہ حصہ انہیں کھلانے پلانے اور ان کی فرمائشیں پوری کرنے پر صرف ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی لذت ہے جو شاید دنیا میں بہشت کی نعمتوں کا تصور عطا کرتی ہے۔
یہ تھی ایک جھلک ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کی! 
یہ جو سفر کا آخری حصہ ہے سامنے 
دلکش بہت ہے‘ باغ بغیچہ ہے سامنے

Tuesday, July 04, 2023

ریٹائرمنٹ… اعزاز… یا سزا؟… (2)


اگر آپ نے اولاد کو اچھی تربیت دے کر اچھی ملازمت یا اچھا کاروبار‘ اپنی زندگی میں دلوا دیا ہے تو یہ آپ کے چھوڑے ہوئے ترکے کے محتاج ہی نہیں! اور اگر آپ کی کوشش کے باوصف اولاد اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکی تو آپ کا ترکہ بھی انہیں کامیاب نہیں کر پائے گا۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ جو یہاں بُرے ہیں‘ وہ لاہور جا کر بھی بُرے ہی رہیں گے! کوشش کیجئے کہ پیغامِ اجل آنے سے پہلے اپنی غیر منقولہ جائیداد کو جہاں تک ممکن ہو 
Liquidate
 کیجئے۔ آپ عمر کے جس حصے میں ہیں‘ آپ کو پلاٹ اور مکان نہیں درکار! اب آپ کو جتنا ہو سکے کیش درکار ہے تاکہ آپ اپنی ضروریات پوری کر سکیں! آپ کو اگر کوئی چیز بھاتی ہے‘ آپ کے دل پر حملہ کرتی ہے‘ کوئی شرٹ‘ سوٹ‘ شب خوابی کا کوئی لباس‘ کوئی جوتا‘ کوئی ٹیبل لیمپ‘ کوئی صوفہ جس پر استراحت سے آپ بیٹھ سکیں‘ مساج کی کوئی چیئر‘ ورزش والی سائیکل یا ٹریڈملِ‘ اور آپ کی استطاعت بھی ہے تو آپ فوراً خرید لیجئے۔ اسی طرح بیگم صاحبہ کیلئے کوئی شے آپ کا دامنِ دل کھینچتی ہے اور جیب میں وسائل بھی ہیں تو فوراً خرید کر بیگم صاحبہ کو پیش کیجئے۔ اس سے آپ کی زندگی میں روشنی پھیلے گی! سورج کی کرن اندر آئے گی‘ چاندنی آپ کے صحن میں رقص کرے گی! کیا خبر آپ کے رخصت ہونے کے بعد پسماندگان‘ تعزیت کیلئے آنے والوں کو چائے کا ایک کپ یا ''لیموں پانی‘‘ کا ایک گلاس بھی پیش کریں گے یا نہیں‘ لاہور کا ایک بہت نامور میڈیا مالک‘ کھربوں چھوڑ کر مرا‘ رمضان تھا‘ دعا کرنے والے عصر کے بعد آئے۔ ورثا نے مبینہ طور پر مہمانوں کو افطار سے پہلے رخصت کر دیا۔ ترکے میں سے چند کپ چائے بھی دینا پسند نہیں کیا‘ دولت آپ کی وہی ہے جو کھا لی‘ جو پہن لی یا جو بھیج دی‘ بھیجنے سے یہاں مراد زکوٰۃ‘ صدقہ‘ خیرات اور فلاحی خدمات ہیں! ان تین مدات کے علاوہ آپ جو پسماندگان کیلئے چھوڑ جائیں گے اسے گویا آپ نے دریا بُرد کر دیا۔
سوم: محاورہ ہے کہ ملازمت باپ کی بھی اچھی نہیں ہوتی‘ ملازمت یا کاروبار ایک جبر ہوتا ہے۔ ضروری نہیں یہ آپ کے ذوق کے ساتھ ہم آہنگ ہو‘ اس میں مصروفیت بھی بلا کی ہوتی ہے۔ صبح اٹھتے ہیں‘ ناشتہ ٹھونسا اور چل دیے۔ در حقیقت یہ شیر کی سواری ہے۔ نیچے اترنا سہل نہیں‘ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوتا اور آپ کے بچے بڑے ہو جاتے ہیں‘ آپ کو ان کے ساتھ کھیلنے‘ لطف اندوز ہونے کا کم ہی وقت ملا۔ بہت سے کام جو آپ کرنا چاہتے ہیں اور آپ کے ذوق کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں‘ آپ ملازمت یا کاروبار کے ساتھ نہیں کر سکے‘ مگر قدرت نے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو فراغت اسی لیے عنایت کی کہ آپ گمشدہ آرزؤں کو عمل کا لباس پہنا سکیں۔ زراعت میں دلچسپی ہے‘ تو گاؤں چلے جائیے اور آبائی زمینوں کی دیکھ بھال کیجئے۔ گاؤں کے نہیں تو کہیں اور فارم حاصل کیجئے۔ ٹنل فارمنگ کیلئے زیادہ رقبہ بھی درکار نہیں۔ آپ تعلیمی ادارہ کھول سکتے ہیں۔ مکانوں کی تعمیر کا ڈول ڈال سکتے ہیں۔ میں ایسے بیسیوں افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے کنسٹرکشن کا کام‘ ریٹائرمنٹ کے بعد شروع کیا اور آج ثروت مند ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے تو یہ وقت قدرت کی طرف سے بہترین عطیہ ہے‘ سیرِ دنیا کا شوق ہے تو کوئی سا سفری گروپ جوائن کر لیجئے۔ یہ گروپ آپ سے معقول رقم لے کر ملک ملک پھراتے اور دکھاتے ہیں۔ تمام انتظامات ان کے ہوتے ہیں۔ آپ ان میں سے کوئی بھی کام شروع کر سکتے ہیں۔ مگر کوئی پوچھے کہ آج کل ریٹائرمنٹ کے بعد کیا شغل ہے تو خدارا یہ نہ کہیے کہ عبادت کرنے اور مسجد آنے جانے کی مصروفیت ہے۔ یہ فریضہ تو آپ کو ریٹائرمنٹ سے پہلے بھی سرانجام دینا تھا۔‘ عبادت دنیاوی کاموں سے نہیں روکتی۔ جبھی تو فرمانِ الٰہی ہے کہ ''جب (جمعہ کی) نماز ادا ہو چکے تو زمین میں چلو پھرو اور اللہ کا فضل تلاش کرو...‘‘اگر ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کا معمول یہ ہے کہ ایک اخبار کی ورق گردانی کرکے‘ ظہر تک شب خوابی کے لباس میں پلنگ پر لیٹنا ہے یا کرسی پر بیٹھنا ہے اور ظہر کی نماز کے بعد پھر اسی ''مصروفیت‘‘ کو اپنانا ہے تو یقین کیجئے کہ ریٹائرمنٹ آپ کیلئے انعام و اعزاز نہیں‘ سزا ہے اور اس معمول کا دوسرا نام ''انتظارِ مرگ‘‘ ہے!
چہارم: بہترین سرگرمی ریٹائرمنٹ کے بعد معلمی ہے‘ آپ اپنے پوتوں‘ نواسوں اور پوتیوں اور نواسیوں کو پڑھائیے‘ جس مضمون پر آپ کو عبور حاصل ہے‘ اس میں انہیں طاق کر دیجئے۔ محلے کے دوسرے بچوں کو بھی شامل کیجئے۔ کسی کالج یا یونیورسٹی میں لیکچر دیجئے۔ معاوضہ ملے تو خوب‘ ورنہ مفت پڑھانے کی اپنی لذت ہے اور اپنا اطمینان۔ اگر آپ کے پاس ایک وسیع و عریض لائبریری ہے تو آپ کتابوں کی جلد سازی کرنا شروع کر دیجئے۔ یہ وہ کام ہے جو بڑے بڑے سکالر اور مصنف کیا کرتے تھے۔
پنجم: آپ نے ایک وڈیو کلپ دیکھا ہوگا جس میں ایک عمر رسیدہ شخص نکٹائی لگا کر گھر سے باہر جا رہا ہے۔ دوسری طرف اسی کا ہم عمر بستر پر لیٹا ہے اور اس کے ناک اور منہ میں ٹیوبیں لگی ہیں۔ یہ ورزش کرنے اور نہ کرنے کا شاخسانہ ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوسروں کے احتیاج سے بچیں تو ہفتے میں پانچ دن... اور پانچ دن نہیں تو کم از کم چار دن جسم کے بالائی اور زیریں حصوں کی ورزش کیجئے! کم از کم چالیس منٹ سیر کیجئے۔ شدید گرمی میں سیر کرنے سے پانی کی کمی کا خوف ہے تو کمرے کے اندر سائیکل چلایئے یا ٹریڈمِل کیجئے۔ اگر آپ نے ان جسمانی سرگرمیوں کو کاہلی کی بھینٹ چڑھا دیا اور 
Couch Potato
بنے رہے تو اس کی ہولناک قیمت ادا کرنا ہوگی۔
ششم: اب تک تو اُن سرگرمیوں کا ذکر آیا ہے جو کرنے کی ہیں‘ مگر کچھ کام ایسے بھی ہیں جو نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ بنیادی طور پر عزتِ نفس کے معاملے ہیں۔ آپ جس دفتر یا کارخانے یا سیٹ اَپ سے ریٹائرہوئے ہیں وہاں شدید ضروری کام کے بغیر‘ کبھی نہ جایئے۔ اور یہ ضروری کام بھی آپ کا ذاتی ہو تب! جو ریٹائرڈ حضرات وقت گزاری کیلئے یا گپ شپ کیلئے اپنے پرانے دفتروں میں جاتے ہیں‘ وہ اپنی عزت و وقار کھو بیٹھتے ہیں۔ ان کے پرانے رفقائے کار ان سے اکتا جاتے ہیں۔ ایک تو یہ لوگ مصروف ہوتے ہیں۔ دوسرے آپ ان کے پاس بے مقصد بیٹھ کر انہیں بے چین کرتے ہیں! عزت اسی میں ہے کہ آپ جو گھر چھوڑ آئے ہیں‘ وہاں کا کبھی رخ نہ کیجئے۔ اسی طرح اپنے پرانے رفقائے کار سے کسی کی سفارش مت کیجئے۔ اپنا ذاتی کام ہے تو اور بات ہے مگر کسی اور کیلئے‘ وہ کتنا ہی قریبی اور مجبور کیوں نہ ہو‘ کبھی سفارش نہ کیجئے۔ یاد رکھئے! اب آپ ایسا سکہ ہیں جو رائج الوقت نہیں‘ بہت ہی کم امکان ہے کہ آپ کی سفارش کے ساتھ باعزت سلوک ہو۔ استغنا‘ بے نیازی اور عزتِ نفس کا احساس ریٹائرمنٹ کے بعد‘ پہلے سے زیادہ لازم ہو جاتا ہے!
ہفتم: آخری مشورہ یہ ہے کہ خدارا اپنے وہ کارنامے دوسروں کو ہرگز نہ سنائیے جو آپ نے اپنی سروس یا بزنس کے دوران سرانجام دیے۔ ریٹائرڈ حضرات میں سے کچھ وتیرہ بنا لیتے ہیں جہاں آڈیئنس ملی‘ اپنے درخشاں کارنامے سنانا شروع کردیے۔ جیسے میں نے فائل پر یہ لکھ کر اوپر بھیجا‘ وزیر کے تو اوسان ہی خطا ہو گئے‘ یا میں نے بزنس کو ایسا پلٹا دیا کہ منڈی میرے ہاتھ میں آ گئی‘ یقین کیجئے! لوگوں کو آپ کے ماضی میں ذرہ بھر دلچسپی نہیں‘ وہ اضطراب اور بوریت سے آپ کی خود کلامی سنتے ہیں۔ آپ کے تھیلے میں اگر واقعی کچھ کارنامے ہیں تو اپنی یادداشتیں لکھ ڈالیے۔ آپ کا نشہ بھی پورا ہو جائے گا اور جنہیں شوق ہو گا وہ پڑھ بھی لیں گے! اور آخر میں مولانا ظفر علی خان کا شعر :
حذر ہیں اور بھی واجب مگر کہاں تک میں
بتائے جاؤں گا تم کو فلاں فلاں سے بچو

Monday, July 03, 2023

ریٹائرمنٹ…اعزاز…یا سزا؟


میں ملازمت کی پہلی سیڑھی پر تھا اور مغل صاحب ملازمت کی آخری سیڑھی پر۔ دفتر میں ہمارے کمرے ساتھ ساتھ تھے۔ مغل صاحب خوش اطوار تھے۔ خوش گفتار تھے اور خوش لباس! انسٹھ ساٹھ کے پیٹے میں تھے مگر لباس اتنا عمدہ اور تازہ ترین فیشن کا زیب تن کرتے تھے کہ چالیس کے لگتے تھے۔ ان کے پاس بیٹھ کر ہمیشہ شگفتگی کا احساس ہوتا۔ باتوں میں ایک لطیف سا مزاح تھا۔ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ۔پھر یوں ہوا کہ مغل صاحب ریٹائر ہو گئے۔ ادارے نے انہیں بھاری دل کے ساتھ رخصت کیا۔ دعوتیں ہوئیں۔ تحائف پیش کئے گئے۔
چند ماہ گزرے تھے کہ میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک بابا جی اندر داخل ہوئے۔ سر پر کپڑے کی سوراخوں والی ہوا دار ٹوپی۔ کھلے گلے کا ملگجا کرتا جو گھٹنوں سے کافی نیچے تھا۔ شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر تو تھے ہی‘ گھٹنوں سے اوپر بھی جانا چاہتے تھے مگر کسی نامعلوم وجہ سے پنڈلیوں کے درمیان رک گئے تھے۔ شلوار کا ایک پائنچہ جنوبی ایشیا کا رخ کر رہا تھا تو دوسرا شرقِ اوسط کا۔ اگر بابا جی السلام علیکم نہ کہتے تو میں پہچان نہ پاتا کہ یہ تو اپنے مغل صاحب ہیں۔ خواہش اور کوشش کے باوجود میں ان سے پوچھ نہ سکا کہ یہ کایا کلپ کیسے ہوئی۔ چند ماہ میں وہ اچھی بھلی خوش لباسی سے اتر کر بدلباسی پر کیوں سوار ہو گئے۔
یہ بھولا بسرا واقعہ یوں یاد آیا کہ میرے ایک پرانے دوست آج کل اس بات پر خصوصی طور پر غور کر رہے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ لوگ زندگی کو تج دیتے ہیں۔ آخر کیوں؟ جبکہ کچھ لوگ زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس قدر کہ گویا ریٹائرمنٹ سے پہلے اس لطف سے آشنائی ہی نہ تھی۔ ان کا یہ غور‘ اور اس موضوع کو اہمیت دینا‘ اور اس پر لکھنا اور لکھوانا‘ ایک لحاظ سے خدمتِ خلق ہے۔ اور ریٹائرمنٹ کے بعد جو افراد ذہنی طور پر قبرستان میں جا بیٹھتے ہیں‘ انہیں واپس ان کے گھروں میں لانے کی جدوجہد ہے! گزشتہ ہفتے برادرِ عزیز جناب راؤ منظر حیات کہ امورِ سرکار سے وابستہ رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کے اَن دیکھے خوشگوار پہلوؤں سے لطف اندوز ہوئے اور ہو رہے ہیں! ان کا ایک مضمون شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے ریٹائرمنٹ کے مثبت پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ میرے پرانے دوست نے‘ جس کا ذکر سطور بالا میں کیا ہے‘ راؤ صاحب کے اس مضمون کی طرف میری توجہ مبذول کی۔ اس سے مجھے تحریک ہوئی۔ سوچا کہ ''پوسٹ ریٹائرمنٹ‘‘ ایک دلچسپ اور انتہائی مفید موضوع ہے۔ اس پر انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور کہنہ مشق مشہور صحافی دانش اور تجربات کے موتی بکھیر رہے ہیں۔ تو میں بھی ''پھتے‘‘ کی طرح دخل در معقولات کا ارتکاب کروں اور اس ضمن میں اپنے ناقص خیالات اور بے بضاعت تجربات کا ذکر کروں!
''پھتے‘‘ کا قصّہ یوں ہے کہ چار بھائی تھے۔ ایک ہیڈ ماسٹر تھا۔ دوسرا فوج میں افسر تھا۔ تیسرا مجسٹریٹ تھا۔ چوتھا کھوتی پر ریت ڈھونے کا کام کرتا تھا۔ جہاں مکان زیر تعمیر ہوتا‘ وہاں پھتا کھوتی پر ریت لاد کر پہنچاتا۔ اس کا نام فتح خان تھا مگر جیسا کہ ہمارے کلچر میں نام بگاڑنے کی روایت عام ہے۔ خاص طور پر جس بدقسمت انسان کا معاشرے میں کوئی قابلِ ذکر مقام نہ ہو تو اس کا نام ضرور بگاڑا جاتا ہے؛ چنانچہ فتح خان کو بھی ''پھتا کھوتی والا‘‘ کے نام سے جانا اور پکارا جاتا تھا۔ دلچسپ صورتحال تب پیدا ہوئی تھی جب ان چاروں بھائیوں کا تذکرہ باتوں باتوں میں کرنا پڑتا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب‘ میجر صاحب‘ مجسٹریٹ صاحب اور پھتا کھوتی والا‘‘! یہاں سے یہ محاورہ وجود میں آیا کہ پھتا وِچ بھراواں گتّا‘‘ گتّا گننے سے بنا ہے۔ یہ فعل مجہول ہے یعنی ''گِنا جاتا ہے‘‘۔ پیشے کچھ کے کتنے ہی معزز کیوں نہ ہوں اور بلند سماجی رتبے کے حامل کیوں نہ ہوں‘ جب ایک باپ کی اولاد کا تذکرہ ہوگا تو بلند سماجی مرتبوں والوں کے ساتھ پھتے کھوتی والے کا ذکر لازماً آئے گا۔ یعنی پھتا وِچ بھراواں گتّا‘‘ تو جہاں اتنے بڑے بڑے قلم کار اور اہلِ دانش ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی پر رشحاتِ قلم بکھیر رہے ہیں‘ وہاں میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں ''پھتا‘‘ بھی اپنے خیالات اور مشاہدات سے پڑھنے والوں کے صبر کا امتحان لوں!
ذاتی تجربات بیان کرنے سے احتراز کروں گا۔ ''واحد متکلم‘‘ کے صیغے سے یوں بھی اجتناب کی کوشش ہوتی ہے‘ اپنے تجربات کی تعمیم (Generalisation) کر دی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی‘ جتنی بھی ہے‘ سزا کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے اور انعام و اعزاز کی بھی! اس کا انحصار ریٹائر ہونے والے شخص کے حالات‘ مزاج‘ افتادِ طبع‘ نفسیات اور ماحول پر ہے۔ مگر سب سے زیادہ انحصار اس شخص کی سوچ اور رویے پر بھی ہے‘ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ سڑیل ہے اور سنکی یا زندہ دل ہے‘ ساری زندگی اس نے بخل میں گزاری ہے یا فیاضی میں! یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عادات و خصائص‘ مثبت ہیں یا منفی‘ ساٹھ سال کی عمر کے بعد اچانک تبدیل نہیں ہو سکتے! ان تمام Ifs اور Buts کے باوجود‘ چند عوامل کہہ لیجئے یا اشارے‘ یا Tips‘ کچھ پہلوؤں کی طرف اشارہ کیے دیتے ہیں!
اوّل: یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھیے کہ آپ ملازمت سے ریٹائر ہو رہے ہیں‘ زندگی سے نہیں! آپ سے وہ ساتھی چھوٹے ہیں جو آپ کے ساتھ صبح نو بجے سے شا م چار پانچ بجے تک ہوتے تھے۔ آپ کی صبحیں بھی وہی ہیں‘ شامیں بھی وہی اور راتیں بھی وہی ہیں۔ آپ کی فیملی بھی وہی ہے‘ اعزہ‘ و اقارب بھی وہی‘ محلہ بھی وہی ہے اور مسجد بھی وہی! یعنی آپ کی روزمرہ زندگی کا صرف ایک پہلو بدلا ہے جبکہ زیادہ پہلو وہی ہیں اور ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے۔ کوئی پہاڑ جتنی تبدیلی آپ کے معمولات ہیں‘ آپ کے قرب و جوار میں اور آپ کے احباب واعزہ میں نہیں آئی۔ اس لیے آپ اپنی خوش لباسی ہرگز ترک نہ کیجئے۔ یہ درست ہے کہ آپ ہر روز صبح دفتر نہیں جا رہے مگر جہاں بھی جانا ہو‘ کسی عزیز کے ہاں‘ کسی دوست کے ہاں‘ کسی لائبریری میں‘ کسی کلب میں‘ آپ بہترین پوشاک‘ جو آپ کے پاس ہے‘ زیب تن کر کے جائیے۔ آپ کوشش کیجئے کہ مسجد میں بھی اچھے سے اچھا لباس پہن کر جائیں۔ یہ جو شلوار قمیض ہے یہ ہمارا علاقائی لباس ضرور ہے اور قومی! مگر یہ عرب ہے نہ اسلامی! شلوار قمیض پہن کر ہی مسجد میں جانا ہے تو آپ کی شلوار قمیض مائع لگی ہو اور استری شدہ ہو! آپ کائنات کے مالک کے دربار میں حاضر ہونے جا رہے ہیں! شلوار قمیض نہیں‘ تو بہترین شرٹ‘ بہترین ٹی شرٹ اور بہترین پتلون پہن کر مسجد جائیے! آپ کو اتنا ہی خوش لباس ہونا چاہیے جتنا آپ ملازمت کے زمانے میں تھے! ذہنی طور پر ریٹائرمنٹ کو ذہنی پریشانی اور دباؤ کا سبب ہرگز نہ بننے دیجئے! کوئی قیامت نہیں ٹوٹی۔ آسمان کا کوئی ٹکڑا آپ کے سر پر نہیں آ گرا۔ وہی سہانی صبحیں ہیں وہی تاروں بھری شامیں! وہی دل آویز ہوائیں ہیں‘ وہی چاندنی‘ وہی دھوپ وہی جھومتے درخت‘ وہی بُور سے لدی ٹہنیاں‘ وہی پھول‘ وہی تتلیاں! ایسی کون سی مصیبت آن پڑی ہے کہ آپ نے ریٹائرمنٹ کو اپنے دل پر لے لیا ہے!
دوم: آپ کے پاس یقینا کچھ رقم بھی ہوگی۔ کچھ پس انداز کی ہوئی‘ کچھ زمین یا کسی کاروبار سے‘ کچھ مرکز قومی بچت سے‘ کچھ پنشن سے! آپ اس رقم پر خدارا مارِ سرِ گنج بن کر نہ بیٹھ جائیے! (اس پہلو پر ہم اپنے 29مئی 2023ء کو چھپنے والے کالم میں بھی تفصیلی روشنی ڈال چکے ہیں!) اسے اپنی ذات‘ اپنے آرام اور اپنی ضروریات پر خرچ کیجئے اور فراخ دلی سے خرچ کیجئے۔ یہ جو کچھ لوگ روپیہ اور جائیداد سینت سینت کر رکھتے ہیں کہ کل‘ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اولاد کے کام آئے گی‘ وہ نہ صرف گاؤدی بلکہ بودے بھی ہیں!(جاری)
 

powered by worldwanders.com