Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, June 30, 2009

ایک اور دن


جب پھوٹی کونپل دھوپ کی ہم گھر سے نکلے
پھر شہر کی بہتی دھار میں ہلکورے کھائے
اک لہر کی دست درازیاں ساحل تک لائیں
اک ریستوران میں چائے پی اور جسم سکھایا
اب دھوپ درخت جوان تھا،چھتنار ہوا تھا
سو ہم نے تنہا ریت پر تنہائی تانی
اور اس کے نیچے رنگ رنگ کی باتیں کھولیں
کچھ باتیں گزرے وقت کی، جو ہم نے دیکھا
کچھ آنے والے وقت کی جو کس نے دیکھا
ڈاکٹر وحید احمد کی نظم’’ایک دن‘‘ جس کا پہلا نصف حصہ اوپر دیا گیا ہے، ان تیرہ بختوں کی روداد ہے جن کا کوئی دن کامرانی سے ہم کنار نہیں ہوتا۔ جو ہر آنے والے دن کا رشتہ امید سے باندھتے ہیں لیکن ظفراقبال کے بقول…؎
درِ امید سے ہو کر نکلنے لگتا ہوں
تویاس روزنِ زنداں سے آنکھ مارتی ہے
ایک دن…جو دوسرے دنوں سے مختلف نہیں۔ کس طرح کٹتا ہے۔ کاٹنے والے ہی کو معلوم ہے
۔میں صبح اٹھتا ہوں۔ ابھی اخبارات کا پلندہ گیٹ کے پاس نظر نہیں آتا۔ غسل خانے میں جا کر بارش کرنے والے ولایتی آلے کے نیچے کھڑا ہوتا ہوں۔ صابن جسم پر ملا ہوا ہے۔ پانی ختم ہو جاتا ہے۔ میں چیخ کر کہتا ہوں ’’پانی والی موٹر چلائو‘‘۔ بیوی اسی طرح چیخ کر باورچی خانے سے جواب دیتی ہے۔’’بجلی نہیں ہے۔‘‘ ناقابل بیان مراحل سے گزرتا باہر نکلتا ہوں۔ ناشتہ دکھایا جاتاہوں۔ چائے بدمزہ ہے۔ گوالا بھینس کو ہر روز، ہارمون والا انجکشن لگاتا ہے۔ دیہاتی ہونے کی وجہ سے پائوڈر والے دودھ سے آج تک صلح نہیں ہوئی۔
اب باہر نکلنے کی تیاری ہے۔ پتلون استری والی میز پر بچھاتا ہوں۔ بجلی کا سوئچ نیچے کرتا ہوں۔ استری میں بلب نہیں روشن ہوتا۔ چیخ کر کہتا ہوں استری خراب ہوگئی ہے، بیوی پھر چیخ کر بتاتی ہے، استری خراب نہیں، بجلی گئی ہوئی ہے۔ بجلی کے آنے تک، سوچتا ہوں میل دیکھ لوں۔ لیپ ٹاپ کھولتا ہوں۔ انٹرنیٹ غائب ہے۔ بیٹے سے شکایت کرتا ہوں۔ ’’معاذ! انٹرنیٹ پھر خراب ہے، کمپلینٹ کی ہے؟‘‘ معاذ بُرا سا منہ بنا کر جواب دیتا ہے۔’’انٹرنیٹ خراب نہیں، بجلی نہیں ہے۔ آئے گی تو انٹرنیٹ چلے گا۔‘‘
میرے گھر کے سامنے رہائشی مکان میں کسی صاحب نے کاروباری دفتر بنایا ہوا ہے۔ حالانکہ سی ڈی اے کے قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے، ان کی بہت سی کاریں، وینیں وغیرہ گھر کے ارد گرد کھڑی رہتی ہیں، مشکل سے گاڑی نکال کر لے جاتا ہوں۔ جہاں جانا ہے وہاں تک پہنچتے پہنچتے خون کھول اٹھتا ہے، فشارِ خون بلند ہو جاتا ہے۔ غیض و غضب سے بھرجاتا ہوں۔میرے آگے جو کار جا رہی ہے، وہ بغیر اشارہ دیئے اچانک دائیں طرف مڑ جاتی ہے حالانکہ میں اُسے صحیح سمت سے اوورٹیک کر رہا تھا اور ایسا کرتے وقت میں نے اُسے لائٹ دے کر متنبہ بھی کیا تھا۔ مشکل سے بریک لگا کر ٹکر روکتا ہوں۔ سامنے سے ایک لڑکا…جو مشکل سے دس بارہ سال کا ہے، کار چلاتا آرہا ہے۔ اُس نے بیلٹ بھی نہیں باندھی ہوئی۔ غالباً اس کا والد یا بڑا بھائی ساتھ والی سیٹ پر فخر کے ساتھ بیٹھاہوا ہے۔ میرے پیچھے پولیس کی گاڑی ہے جو مسلسل بغیر وجہ کے ہارن دے رہی ہے، سگنل پر میں اُس کے برابر میں کار روکتا ہوں اور اُس کے ڈرائیور کو کہتا ہوں کہ اس طرح ہارن دینا خلافِ قانون ہے، پولیس کی وردی میں ملبوس ڈرائیور پوری بتیّسی نکال کر مجھے دیکھتا ہے اس طرح جیسے میں کرۂ ارض کا احمق ترین انسان ہوں۔
دارالحکومت کی سب سے بڑی مارکیٹ کی جو وزیراعظم کے دفتر، ایوان صدر اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے صرف دس منٹ کے فاصلے پرہے، ایک بڑی دکان سے میں کچھ خریداری کرتا ہوں۔ قیمت ادا کرتا ہوں تو کائونٹر پر بیٹھے ہوئے مولانا شکریہ ادا کرکے اخبار نکال لیتے ہیں۔میں انہیں یاد دلاتا ہوں کہ آپ نے رسید دینی ہے۔ وہ مجھے اس طرح دیکھتے ہیں جیسے مجھ سے کسی کفریہ عقیدے کا اظہار ہوگیا ہے۔ بادل نخواستہ سامنے پڑے ہوئے کاغذات الٹتے پلٹتے ہیں۔ ان کے دست و بازو اس طرح ڈھیلے ڈھیلے ہیں اور یوں آہستگی سے ہلتے ہیں جیسے فالج پڑا ہوا ہے۔ میں کہتا ہوں۔’’آپ کو رسید مانگے بغیر دینی چاہئے۔‘‘ وہ سخت کھردرے لہجے میں جواب دیتے ہیں۔’’کوئی مانگے تو ہم دے دیتے ہیں۔ سب لوگ ایسے نہیں جو لینا چاہتے ہوں۔‘‘
اب کار میں سی این جی کی مقدار دکھانے والی بتیوں میں سے صرف ایک لائٹ روشن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سی این جی ڈلوائی جائے۔ ابھی کل تو ڈلوائی تھی۔ اور کل سے آج تک گاڑی کچھ زیادہ چلائی بھی نہیں۔ عجیب سے تلخ ذائقے کا زبان کو احساس ہوتا ہے۔ گیس ڈالنے والے کو قیمت ادا کرتا ہوں۔ وہ بقایا رقم واپس کرتا ہے تو کم واپس کرتا ہے۔ میں تقاضا کرتا ہوں تو ڈھیلے ڈھیلے دست و بازو ہلاتا کافی دیر سے واپس آتا ہے۔ اور یہ تاثر دیتا ہے جیسے فالج پڑا ہوا ہو!درزی کے پاس پہنچتا ہوں۔ آج اُس نے کپڑے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مجھے دیکھ کر ہنستا ہے اور کہتا ہے، کاریگر چھٹی پر گیا ہوا ہے۔ اگلے ہفتے آئے گا۔ میں اسے کہتا ہوں۔ یار تم مجھے فون کر دیتے، میں اتنی دور سے آیا ہوں۔ وہ اور زیادہ ہنستا ہے۔
کئی ناکوں اور رکاوٹوں سے گزرتا، آدھ گھنٹے کے فاصلے کو ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرتاواپس گھر پہنچتا ہوں۔ گھر والی کہتی ہے، منگل بازار لے کر چلو، سارا راستہ مہنگائی کا رونا روتی ہے۔ بڑے ٹماٹر، بڑے پیاز، بڑے آلو، کچھ بھی اس کی قسمت میں نہیں۔ یہ سب تو دکانداروں نے سجاوٹ کیلئے رکھا ہوا ہے۔ جو کچھ وہ بیچنا چاہتے ہیں، گاہک لینے کیلئے تیار نہیں۔ واپس گھر پہنچ کرایک اور مسئلہ کھڑا ہوتا ہے، خاتونِ خانہ کہتی ہے کہ میں نے دو درجن کیلے خریدے لیکن یہ توبائیس ہیں، دو کم ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا۔ کبھی یوں نہ ہوا کہ چوبیس کے بجائے چھبیس یا بارہ کے بجائے چودہ نکلے ہوں۔
خواب گاہ کا ائرکنڈیشنر خراب ہے۔ جس سے خریداگیاتھا، اسے ٹیلی فون کرتا ہوں۔ وہ وعدہ کرتا ہے کہ کاریگر کو تھوڑی دیر کے بعد بھیج دیا جائے گا۔ میں پوری شام انتظار کرتا ہوں۔ دو دفعہ پھر فون کرتا ہوں وہ دونوں بار اپنا وعدہ دہراتا ہے۔ بے پناہ گرمی ہے اورتین سالہ نواسی اور ڈیڑھ سالہ نواسہ بھی آئے ہوئے ہیں جونانا اور نانی کے درمیان امن و سلامتی کا پُل بن کر سوتے ہیں۔ شام پڑ جاتی ہے۔ اسے سی ٹھیک کرنے والا نہیں پہنچتا، اب جب فون کرتا ہوں تو فون کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔ کوئی اٹھاتا ہی نہیں!
عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کیلئے سیکٹر کی سب سے بڑی مسجد میں جاتا ہوں۔ پہلی دو رکعتوں میں حضرت مولانا کی قرأت سوز سے یکسر خالی، سپاٹ، بے رنگ اور بے اثر ہے۔ سوچتا ہوں نماز کے بعد حضرت سے سعدی کے اس شعر کا مطلب پوچھوں…؎
گر تو قرآن بدین نمط خوانی
ببری رونقِ مسلمانی
کہ اگر تم قرآن پاک اس انداز سے پڑھو گے تو مسلمان ہونے کی رونق کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن پھر عقل جذبے پر غالب آتی ہے۔ ان لوگوں سے اس زمانے میں پنگا لینا خطرناک ہے، اور پھر یہ کہ نمازیوں کی کئی قطاروں میں کتنے لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ قرأت اس سے بہت بہتر ہونی چاہئے لیکن جہاں مسجدوں کی امامت اور خطابت موروثی ہو وہاں میرٹ اور قابلیت کا کیا سوال؟اب رات گہرا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ بجلی پھر گئی ہوئی ہے۔ ٹی وی، انٹرنیٹ، فون سب کچھ معطل ہے۔ ایک دن…جو دوسرے دنوں طرح تھا، گزر گیا ہے۔ میں ڈاکٹر وحید احمد کی نظم کا باقی حصہ پڑھتا ہوں
…؎
کچھ باتیں گزرے وقت کی جو ہم نے دیکھا
کچھ آنے والے وقت کی جو کس نے دیکھا
کچھ سرسوں دن کھلیان کی، لچکیلی پیلی
شب آنکھیں سم پھنکارتی، چمکیلی نیلی
کچھ شامیں رنگ اچھالتی، گہرا نارنجی
کچھ روز و شب بیکار سے، بے جاں شطرنجی
جب گھر لوٹے تو شام تھی، پت جھڑ ہوتی تھی
جو لمحہ لمحہ گرد تھی کپڑوں سے جھاڑی
جو بہتی دھار کے خار تھے، پائوں سے کھینچے
پھر دونوں نے دہلیز پر آوازیں رکھ دیں
اور آنکھیں بجھتی روشنی کے ہاتھ میں دے دیں

Thursday, June 25, 2009

جانگیا

تاریخ پر مجھ سے زیادہ آپکی نظر گہری ہے، آپ جانتے ہیں کہ سلطان محمد تغلق کو پڑھا لکھا ہوا بے وقوف کہا جاتا ہے۔ اچھا بھلا دارالحکومت دلی میں تھا مزاج شاہی میں ابال آیا اسے دولت آباد لے گیا، وہاں جا کر حماقت کا احساس ہوا تو واپسی کا حکم دیا کچھ لوگ جانے میں اور بہت سے واپسی کے دوران ہلاک ہوئے۔ خزانہ خالی ہو گیا۔لیکن بادشاہ کے اللے تللے وہی رہے اس نے اتنے ٹیکس لگائے کہ خلق خدا چیخ اٹھی ہم لوگ اس وقت لاہور میں رہتے تھے صبح کا کھانا کھاتے تو شام کو فاقہ ہوتا۔ شام کو سوکھی روٹی چائے میں گھول کر تنور شکم بھرتے تو اگلی صبح گھر میں خدا کا نام ہوتا۔میرے پاس ایک پرانی گدھا گاڑی تھی بالکل شکستہ، انچر پنجر ہلا ہوا، قرض لیکر اور بچوں کا پیٹ کاٹ کر نئی خریدی، سواری کے بغیر گزارہ مشکل تھا عورتوں کے عجیب موڈ ہوتے ہیں گھر والی کو نئی گدھا گاڑی دیکھ کر اپنا پرانا شوق سیاحت یاد آیا اور بچوں کو تیار کر کے ایتوار کی صبح اس نے اعلان کیا کہ ہم اسلام آباد کی سیر کو جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کیسے جاؤ گی تو تنک کر جواب دیا کہ تم اپنی نئی گدھا گاڑی پر لیکر جاؤ گے۔بچے نہائے دھوئے ہوئے سروں کو تیل سے چوپڑے خوش خوش بیٹھے تھے میری نیک بخت گھر والی اگلی سیٹ پر میرے ساتھ زبان حال سے ہمسری کا دعویٰ کرتی براجمان تھی۔ میں گدھے کو ہانکتا سوچنے لگا کہ ٹھیک ہے، بے وقوف تغلق نے مہنگائی کر دی ہے لیکن زندگی اتنی بری نہیں۔ سواری کا مزہ الگ ہی ذائقہ رکھتا ہے میں گنگنانے لگا گدھے کی چال سے بھی طمانیت کا اظہار ہو رہا تھا۔راوی کا پل پار کرنے لگے تو لکڑی کے ڈبے میں ایک شخص سڑک کے عین درمیان میں بیٹھا ملا آگے بیریئر تھا میں نے راستہ بند کرنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا، پندرہ روپے ادا کرو۔ میں نے پوچھا کس بات کے؟ اور تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ دریار پار کرنے کا ٹیکس ہے اور یہ کہ میں جلدی کروں، پیچھے اور گدھا گاڑیاں اور بگھیاں انتظار کر رہی ہیں میں نے تیوری تو چڑھائی لیکن پندرہ روپے ادا کر دیئے گھر والی نے شور مچا دیا کہ بغیر وجہ کے اسے پندرہ روپے دے آئے ہو، کیسے مرد ہو؟ میں نے سمجھایا کہ پل بنانے میں سلطنت دہلی کا خرچہ ہوتا ہے۔ آخر ہم شہریوں کے بھی کچھ فرائض ہیں!لیکن مشکل سے دو فرلانگ چلے تھے کہ پھرایک رکاوٹ آ گئی سڑک کے درمیان پھر لکڑی کے ڈبوں میں جلاد نما افراد بیٹھے تھے پھر پندرہ روپے مانگے گئے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اگر اسلام آباد جاتے ہوئے جہانگیر کا مقبرہ دائیں ہاتھ پڑے اور نورجہاں کا مزار بائیں طرف ہو تو اس ازواجی مفارقت کے غم میں ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ گوجرانوالہ داخل ہوئے تو پندرہ روپے دینے پڑے وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ چونکہ گوجرانوالہ ایشیا کا صاف ترین شہر ہے اس لئے اس خوشی میں مسافروں سے ہدیہ لیا جاتا ہے۔ وزیر آباد میری گھر والی کی چھوٹی بہن رہتی تھی آدھا گھنٹہ وہاں رکے چائے پی اور ظہر کی نماز ادا کی باہر نکلے تو سڑک پھر بند تھی پھر پندرہ روپوں کا مطالبہ ہوا۔ میں لڑائی کرنے کے موڈ میں تھا، گھر والی میری مردانگی کے حوالے سے شکوک میں مبتلا ہو رہی تھی لیکن لکڑی کے ڈبے میں بیٹھے ہوئے جلاد نما شخص نے بہت پیار سے سمجھایا کہ جو شخص وزیرآباد میں رکے اور بیوی کی بہن کے گھر سے چائے پیئے اسے حکومت کو پندرہ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں سرکار کا حکم ہے اس میں کوئی چھوٹ نہیں !کھاریاں تک پہنچتے پہنچتے میرے پاس ایک دھیلا تک باقی نہ رہا اتنی بار پندرہ پندرہ روپے دیئے کہ شمار کرنا ممکن نہ تھا! اب کے پندرہ روپے لینے کا سبب پوچھا تو جلاد صفت اہلکار نے میرے بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا، پھر اپنا ہاتھ سونگھا اور برا سا منہ بنایا کہنے لگا اتنا زیادہ تیل چوپڑنے پر حکومت نے ٹیکس لگایا ہے تاکہ فضول خرچی کی حوصلہ شکنی ہو۔ گھر والی نے مجھ سے چھپا کر جو روپے بچائے تھے اور دوپٹے کی چوک میں باندھے ہوئے تھے نکالے، دلدوز آواز سے بین کیا اور پندرہ روپے ادا کر دیئے۔ جہلم کا دریا عبور کرتے وقت مزید پندرہ روپے لئے گئے وجہ یہ بتائی گئی کہ وزیراعظم کے بیرونی دوروں کیلئے جو اربوں روپے بجٹ میں مخصوص کئے گئے ہیں وہ کم پڑ گئے ہیں اس لئے دریائے جہلم کو اس قومی خدمت پر مامور کیا گیا ہے۔ منگلا تک پانچ مرتبہ روکا گیا چنی کی چوک میں بندھے پیسے ختم ہو گئے۔ گوجر خان پھر روکا گیا ہمارے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ رہی تھی ہم روئے، تڑپے بچوں کے آنسو دکھائے، بیوی نے پھر دل دوز چیخ ماری لیکن لکڑی کے ڈبے میں بیٹھے ہوئے شخص پر کسی زاری کا اثر نہ ہوا مرتا کیا نہ کرتا میں نے اپنی قمیض اتاری اوراسکے حوالے کی۔ اس نے اسے دیکھا، سونگھا کہنے لگا مالیت پندرہ روپے سے کم لگتی ہے لیکن کوئی بات نہیں تم جاؤ!مندرہ سے آگے گئے تو گدھا اس طرح گاڑی کھینچ رہا تھا جیسے مرد ہے اور خاندان کی کفالت کا بوجھ کھینچنا پڑ رہا ہے تھکا تھکا پژمردہ، خستہ اور درماندہ!اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوئے تو ایک مسجد کے پاس رکے۔ مغرب کی اذان ہو رہی تھی میں نے وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گیا واپس گدھا گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہونے لگا تو دیکھا کہ سڑک پھر بند تھی۔ میری قوت برداشت جواب دے چکی تھی میں نے پوری قوت سے چلا کر پوچھا۔ ’’خدا تمہیں اپنے قہروغضب کا نشانہ بنائے، تمہارا خزانہ کبھی نہ بھرے، نہ تمہاری ندیدہ آنکھوں سے بھوک نکلے، بدبختو! اب کس چیز کے پندرہ روپے لے رہے ہو؟‘‘ میری بددعائیں اور گالیاں سن کر تین چار اہلکار بندوقوں کی نالیاں میری طرف کئے آن دھمکے اور مجھے کہا کہ کار سرکار میں مداخلت کرنے کے جرم میں مجھے پکڑا بھی جا سکتا ہے بہتر یہی ہے کہ میں شرافت سے پندرہ روپے ادا کروں۔ ’’لیکن کس بات کے‘‘؟ میں نے پوچھا اہلکار! مسکرایا اسکی گندی مونچھوں پر لسی کی سفیدی لگی ہوئی تھی جسے اس نے ہاتھوں سے صاف کیا۔ وہ میری طرف دیکھ کر بھی مسکرایا اسکے ہونٹوں کے کنارے اس کے کانوںکی لوؤں تک جا پہنچے۔ ’’کیا تم نے ابھی مغرب کی نماز سے پہلے وضو نہیں کیا تھا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا :’’کیا تھا لیکن اس کا پندرہ روپوں کے غنڈہ ٹیکس سے کیا تعلق؟‘‘ اہلکار پھر مسکرایا: ’’ تمہارا وضو ٹوٹ گیا تھا اس لئے تمہیں تازہ وضو کرنا پڑا۔ بس یہ پندرہ روپے وضو ٹوٹنے کا ٹیکس ہے!میں اسلام آباد میں داخل ہوا تو میرے جسم پر صرف ایک جانگیا تھا!

Tuesday, June 23, 2009

نہیں! جناب وزیر اعظم! نہیں!

جون کے دوسرے ہفتے کا آغاز ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے دفتر سے تین اہم وزارتوں
کے سیکرٹریوں کو ایک خط لکھا جاتا ہے۔ خط میں بتایا جاتا ہے کہ ایک وزیر اور ایک ایم این اے نے تجویز پیش کی ہے کہ فلاں افسر کو مندرجہ ذیل چھ عہدوں میں سے کسی ایک پر لگایا جائے۔ ان چھ میں سے دو عہدے بیرون ملک ہیں۔ (امریکہ اور برطانیہ کی تخصیص کی گئی ہے) اور باقی ایسے ہیں کہ تنخواہ اور مراعات لاکھوں میں ہیں۔ اور قضا و قدر پر قبضہ الگ ہے۔ خط میں تینوں سیکرٹریوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ بارہ دن کے اندر اندر اس بارے میں رپورٹ حاضر کی جائے۔ وزیر اعظم کے اس حکم نامے سے مندرجہ ذیل اصول وضع ہوتے ہیں۔ 1۔ وزیر اور ایم این اے اپنی پسند کے اہلکاروں کے لئے اپنی پسند کے عہدے تجویز کر سکتے ہیں۔ 2۔ وزیر اعظم کے دفتر سے ان تجاویز پر کارروائی کے لئے ہدایات جاری کی جائیں گی۔ 3۔ ان عہدوں پر فائز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ کسی ایم این اے یا وزیر سے سفارش کرائی جائے۔ 4۔ وزیر اعظم یا ان کا دفتر ’’تجویز‘‘ کرنے والے وزیروں یا ایم این اے کو یہ نہیں کہے گا کہ اس سلسلے میں کوئی طریق کار موجود ہے جس میں آپ کی سفارش یا ’’تجویز‘‘ کی گنجائش نہیں ہے۔ ان چار اصولوں کے علاوہ اس حکم نامے سے یہ بھی طے ہوتا ہے کہ اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے اپنے پسندیدہ سرکاری ملازموں کیلئے بہترین عہدوں کی ’’تجاویز‘‘ پیش کر سکیں۔ یاد رہے کہ کل ارکان کی تعداد چار سو سے زیادہ ہے۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان اسکے علاوہ ہیں! اس حکم نامے سے یہ بھی طے ہوتا ہے کہ ایسے سرکاری ملازمین پر جن کے نام بہترین عہدوں کیلئے وزیر یا ایم این اے ’’تجویز‘‘ کریں گے‘ پاکستانی حکومت کے قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔ پاکستانی حکومت کا قانون کیا ہے؟ قانون یہ ہے اور ادنیٰ سرکاری ملازم بھی اس قانون سے بخوبی آگاہ ہے کہ جو سرکاری ملازم چمکدار عہدوں پر فائز ہونے کیلئے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کریگا اسکے خلاف تادیبی کارروائی ہو گی۔ اور اس کارروائی کے نتیجے میں اسے ملازمت سے برطرف بی کیا جا سکتا ہے۔ جون کا تیسرا ہفتہ اور اٹھارہواں دن ہے جمعرات کا دن ہے۔ وزیر اعظم پاکستان پارلیمنٹ ہاؤس میں منتخب ارکان سے خطاب فرماتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی سپیکر‘ سینٹ کے نائب صدر‘ حزب اختلاف کے موقر رہنما اور دونوں ایوانوں کے معزز ارکان موجود ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نظام کی تبدیلی کیلئے پارلیمنٹ کے ارکان کی مدد مانگتے ہیں وہ فرماتے ہیں۔ ’’جب تک نظام تبدیل نہیں ہوتا ملک ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں جبکہ ادارے ہمیشہ رہتے ہیں‘‘ وزیر اعظم اس عزم کا اظہار فرماتے ہیں کہ وہ اداروں کو مضبوط بنایں گے۔ وہ کہتے ہیں۔’’میں ہر وہ قدم اٹھانے کیلئے تیار ہوں جس سے ملک کو فائدہ ہو‘‘ کسی ملک کی حکومت کا سربراہ ملک کا مائی باپ ہوتا ہے۔ جناب یوسف رضا گیلانی ایک شریف النفس انسان ہیں۔ اقبال نے ایک سید زادے کو یوں مخاطب کیا تھا…ع … ’’تو سید ہاشمی کی اولاد ‘‘وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی سید ہاشمی کی اولاد ہیں ہم انتہائی ادب و احترام کیساتھ عرض کریں گے کہ نہیں جناب وزیر اعظم نہیں! آپ نظام کی تبدیلی کی بات نہ کریں اس لئے کہ آپکے عمل میں اور آپکی شیریں بیانی میں کوئی مناسبت نہیں! اور پھر آپ نظام کی تبدیلی کی بات کن سے کر رہے ہیں؟ وہ جو نظام کی تبدیلی کے سب سے بڑے مخالف ہیں! جو جاگیرداری اور فیوڈلزم کے علمبردار ہیں جو زرعی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگانے دیتے جو آپکو کہتے ہیں کہ ہمارے پسندیدہ اہلکاروں کو بہترین عہدوں پر لگائیے جن پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جو صرف اس وقت متحد ہوتے ہیں جب مراعات کا سوال ہو جو وفاداریاں اس طرح اس طرح بدلتے ہیں جیسے وفاداری میلا کپڑا ہوا صرف دو دن پہلے کے اخبار میں تفصیلات چھپی ہیں کہ کس کس جگہ مجرموں کو کون کون پناہ دے رہا ہے۔ اب تو اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے وقت افسروں کے انٹرویو لئے جاتے ہیں اور صاف صاف پوچھا جاتا ہے کہ ہمارے حلقے کے لوگوں کی نوکریوں کے بارے میں کیا رویہ رکھا جائیگا۔ جناب وزیر اعظم! نظام میرٹ سے تبدیل ہوتا ہے صرف میرٹ سے اور میرٹ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہیں؟ جناب وزیر اعظم! آپ دھوپ سے مخاطب ہو کر چھاؤں کی بات کر رہے ہیں! جہاں باڑ کھیت کو کھا رہی ہے وہاں آپ باڑ کو کھیت کی حفاظت کا کہہ رہے ہیں! آپ معزز ارکان سے نظام کی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کا استحقاق مجروح نہ ہو جائے کہیں آپ کیخلاف تحریک استحقاق نہ پیش ہو جائے! جناب وزیر اعظم! آپکے پاس دو مقدس ادارے ہیں۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور فیڈرل سروسز ٹرابیونل آپ وہاں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو تعینات فرماتے ہیں۔ لیکن کس نظام کی بنیاد پر؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہاں من پسند افراد کو لگایا جاتا ہے۔ صرف ان کو جن کی ’’رسائی‘‘ ہو! آپکے محل سے چند کلومیٹر دور جی ایچ کیو اور فضائیہ اور بحریہ کے دفاتر ہیں انکے پاس بھی ایسے ادارے ہیں جہاں ریٹائرڈ لوگوں کو لگایا جاتا ہے لیکن ترتیب کیساتھ‘ انصاف کیساتھ‘ کسی کو محروم نہیں رکھا جاتا۔ کوئی ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت قبول نہ کرے تو اور بات ہے لیکن پیشکش سب کو کی جاتی ہے لیکن آپ اسی سطح کے ایک ریٹائرڈ ملازم کو نواز دیتے ہیں اور اسی سطح کے ایک اور ریٹائرڈ ملازم کو درخور اعتنا ہی نہیں گردانتے؟ کیوں اسلئے کہ آپکی صوابدید ہے! تو کیا صوابدید میں کوئی انصاف کوئی اصول کوئی ترتیب کوئی ضابطہ نہیں ہوتا؟ کیا آپکے صوابدیدی احکام کی پوچھ گچھ حشر کے دن نہیں ہو گی؟ جناب وزیر اعظم! یہ پوچھ گچھ آپکے ناناؐ کی موجودگی میں ہو گی‘ اقبال نے کہا تھا…؎ور حسابم را تو بینی ناگزیر از نگاہِ مصطفٰیؐ پنہاں بگیر لیکن اقبال فقیر تھا آپ سے تو سولہ کروڑ لوگوں کے حقوق کی پوچھ گچھ ہو گی! جناب وزیر اعظم! وقت بہت کم ہے! اقتدار کی ڈوری بہت کچھی ہے۔ کیا خبر کس وقت کیا ہو جائے آپ اگر نظام بدلنا چاہتے ہیں تو جلدی کیجئے یہ کام کر گزرئیے! جو لوگ آپکو اپنے پسندیدہ اہلکاروں کے نام بتائیں‘ ان اہلکاروں کو سزا دیجئے۔ بلند ترین سطح کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی فہرست بنوائیے اور ریٹائرمنٹ کے حساب سے باری باری ان مقدس اداروں میں انہیں تعینات کیجئے اور تعینات کرتے وقت انکے اثاثے بھی دیکھئے۔ آپکے پاس سفارشیں آ رہی ہیں کہ فلاں کو پیمرا میں لگائیے اور فلاں کو نیپرا میں لگائیے! اسلئے کہ یہاں لاکھوں کے مشاہرے ہیں۔ ان سفید ہاتھیوں کو ختم کر دیجئے۔ پانی اور بجلی کی وزارت کی موجودگی میں نیپرا کی کیا ضرورت ہے۔ کیا یہ کام وزارت کے افسر سیکرٹری اور وزیر صاحب نہیں کر سکتے جن پر ہر ماہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں! کیا وزارت اطلاعات وہ کام نہیں کر سکتی جو پیمرا کرتا ہے؟ نہیں کر سکتی تو وزارت اطلاعات کو توڑ دیجئے ورنہ پیمرا کو ختم کیجئے۔ یہ ادزرے اس لئے بنائے گئے تھے کہ اپنے ’’پسندیدہ‘‘ اہلکاروں کو اس وقت تک ملازمت اور مراعات دی جائیں جب تک وہ اہلکار سہارے کے بغیر چل سکتے ہیں! جناب وزیر اعظم! نظام بدلنا ہے تو زرعی اصلاحات کا حکم دیجئے یہ اصلاحات بھارت میں ساٹھ برس پہلے ہو چکی ہیں اور آج بھارت کے پنجاب کی گندم کی پیداوار کا مقابلہ اپنے پنجاب سے کیجئے اور یہ بھی دیکھئے کہ ان کا پنجاب آپکے ایک یا دو ضلعوں کے برابر ہے! نظام بدلنا ہے تو ان سیاسی گدیوں کو ختم کیجئے جو نسل در نسل چلی آ رہی ہیں اور آپ نے یہ کام کر دیا تو یقین کیجئے پاکستان کے لوگ آپکی نیلسن منڈیلا سے بھی زیادہ عزت کریں گے۔ جناب وزیر اعظم! نظام بدلنا ہے تو نظامِ تعلیم بدلئے‘ افسروں وزیروں مشیروں اور ارکان پارلیمنٹ کو حکم دیجئے کہ اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کو سرکاری سکولوں کالجوں میں پڑھائیں۔ آپ یقین کیجئے سرکاری سکولوں کالجوں میں پڑھائیں۔ آپ یقین کیجئے سرکاری سکولوں اور کالجوں کی حالت جس تیز رفتاری سے بہتر ہو گی۔ آپ حیران رہ جائیں گے۔ نظام بدلنا ہے تو وہ سکول اور کالج بند کر دیجئے جو انگریزوں نے اسلئے بنائے تھے کہ انکے سامنے سجدہ کرنیوالوں کی اولاد کو ’’پڑھایا‘‘ جائے! نظام بدلنا ہے تو مدارس میں زیر تعلیم لاکھوں بچوں کا مقدر بدلئے تاکہ وہ امامِ مسجد کے علاوہ بھی کچھ بن سکیں! نظام بدلنا ہے تو افسروں وزیروں مشیروں اور ارکانِ اسمبلی کو حکم دیجئے کہ کل سے دفتروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے آئیں! یقین کیجئے یہ افسر اور وزیر اور یہ عوامی نمائندے سالوں میں نہیں‘ مہینوں میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو ایشیا کا بہترین سسٹم بنا دینگے‘ زیر زمین ریلوے بھی بچھ جائیگی‘ کاروں کی تعداد بھی کم ہو جائیگی اور پٹرول کا بل بھی کم ہو جائیگا!

Thursday, June 18, 2009

سی این جی … مائی لارڈ … سی این جی

اگر آپ شمال کی طرف سفر کریں اور کرتے جائیں تو کرۂ ارض کے آخری چپٹے سرے پر بحیرۂ آرکٹک ہے۔ پھر قطب شمالی۔ جہاں زمین ختم ہو جاتی ہے یا یوں کہئے کہ گول ہونے کی وجہ سے دوسری طرف نکل جاتی ہے۔ کرۂ ارض کے اس جگہ ختم ہونے کے بعد اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہاں خلا ہے‘ تو آپ غلطی پر ہیں۔ وہاں ایک ملک کرۂ ارض سے الگ‘ سب سے جدا‘ سب سے انوکھا بستا ہے۔ آج جو کہانی ہم سنا رہے ہیں وہ اسی انوکھے ملک کی ہے۔ ہمارا اشارہ حاشا و کلّا کسی اور ملک کی طرف نہیں۔
اُس ملک میں چرواہے کو ہٹا کر بھیڑیا مالک بن بیٹھا۔ کالی بھیڑیں بھیڑئیے کے ساتھ مل گئیں۔ کالی بھیڑوں کو قاف اتنا پسند آیا کہ وہ اپنے آپکو کالی کے بجائے ’’قالی‘‘ بھیڑیں کہلاتی تھیں۔ اس بھیڑیے نے بھیڑوں کو پکڑ پکڑ کر دوسرے بھیڑیوں کے حوالے کرنا شروع کر دیا اور دوسرے بھیڑیوں کو آزادی فراہم کی۔ اس قدر کہ وہ جب چاہتے آتے اور بھیڑوں کو ہلاک کر جاتے یا پکڑ کر لے جاتے۔ قاف کی کالی بھیڑوں کے تعاون سے بھیڑیا اس قدر بے باک ہو گیا کہ اُس نے سب سے بڑے جج کو اُسی کے اہلِ خانہ سمیت قید کر دیا اور اپنی مرضی کے ایک اہلکار کو اس کی جگہ جج مقرر کر دیا۔ کالے کوٹوں میں ملبوس وکیلوں نے بُرا منایا۔ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آگ لگ گئی۔ تحریک دنوں سے ہفتوں‘ ہفتوں سے مہینوں اور مہینوں سے برسوں میں ڈھلنے لگی‘ شاہراہیں خون سے بھر گئیں‘ لوگوں نے جان کے نذرانے دئیے‘ پتھر کھائے‘ زخمی ہوئے‘ گرفتاریاں دیں اور آخر ایک دن بھیڑیے کو چلتا کیا۔ ہمارا اشارہ کسی اور ملک کی طرف نہیں ہم تو اُس انوکھے ملک کا ذکر کر رہے ہیں جو قطب شمالی سے آگے ایک اور دنیا میں بستا ہے۔ بھیڑیا رخصت ہوا تو ایک اور چرواہا آ گیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہوا کہ پالیسیاں پُرانی ہی چلتی رہیں تب لوگوں پر یہ راز کھلا کے اصل حکمران چرواہا ہے نہ بھیڑیا تھا۔ اصل حکمران ایک عجیب الخلقت شخص ہے جس کا نام اسٹیبلشمنٹ (ESTABLISHMENT) ہے۔ اس شخص کو کسی نے آج تک نہیں دیکھا تھا لیکن طاقت کا مصدر اور منبع یہی تھا۔ سُننے میں آیا کہ اس کے بال حبشیوں جیسے ہیں‘ دانت باہر نکلے ہوئے ہیں‘ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی‘ ماتھا باہر کو نکلا ہوا‘ ہونٹ موٹے درختوں کی کھردری ٹہنیوں جیسے‘ ایک ایک بازو میں دس دس ہاتھ لگے ہوئے اور پاؤں پیچھے کی سمت مڑے ہوئے‘ منہ سے پھنکاریں نکلتی ہوئیں اور آنکھوں سے شعلے اُبلتے ہوئے دیکھے تو بھسم کر ڈالے‘ ہاتھ لگائے تو کوڑھی کر ڈالے
۔بہت لوگوں نے کوشش کی کہ اُسے ایک نظر دیکھ سکیں لیکن کوئی کامیاب نہ ہوا۔ کچھ جری نوجوان سروں پر کفن باندھ کر اُسے دیکھنے نکلے لیکن آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔ برمُودا کی تکون اُس کے سامنے ہیچ نکلی۔ نئے چرواہے نے سب سے بڑے جج کو قید سے رہا کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اُسے کرسیٔ عدالت پر دوبارہ براجمان کرے لیکن اسٹیبلشمنٹ آڑے آتی تھی۔ خدا خدا کر کے کئی مہینوں بعد چرواہا کامیاب ہوا اور معزول بڑے جج کو بحال کر دیا گیا۔ اُس دن پورے ملک میں جشن کا سماں تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ کے گھر میں صفِ ماتم بچھی تھی۔ اُس نے اپنے بال نوچ ڈالے چہرے پر دو تھپڑ مارے پٹکے سے کمر کس لی اور دردناک آواز سے وہ بین کئے کہ خلاؤں میں بکھرے سارے شیاطین کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔اُسی روز اسٹیبلشمنٹ کا چہرہ پہلے سے بھی زیادہ سیاہ ہو گیا۔ اُس روز اسی نے دانت پیس کر عہد کیا کہ بحال ہونے والے بڑے جج کے ہر حکم کو ٹالا جائے گا اور ہر ممکن طریقے سے اُسکے فیصلوں کو غیر موثر کیا جائیگا۔
حاشا وکلا ہمارا اشارہ کسی اور ملک کی طرف نہیں۔ ہم تو اُس انوکھے ملک کی بات کر رہے ہیں جو بحیرۂ آرکٹک سے آگے‘ قطب شمالی کے اُس پار‘ ایک اور دنیا میں آباد ہے۔ وہاں گھوڑے تو تھے لیکن ان کی خرید و فروخت اس قدر زیادہ تھی کہ گھوڑا گاڑیوں کیلئے کوئی گھوڑا دستیاب ہی نہ تھا۔ مجبوراً لوگ کاروں بسوں ویگنوں اور موٹرسائیکلوں پر سفر کرتے تھے چونکہ عوام نے بڑے جج کی بحالی کیلئے تحریک چلائی تھی‘ اس لئے اسٹیبلشمنٹ عوام کو تباہ و برباد کرنا چاہتی تھی۔چنانچہ ہر پندرہ دن کے بعد پٹرول‘ ڈیزل اور سی این جی کی قیمت بڑھا دی جاتی ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھتے تو ہر شے پر منفی اثر پڑتا۔ آٹے سے لیکر نمک تک‘ کپڑوں سے لیکر جوتوں تک‘ دوائوں سے لیکر قبر کھودنے تک ہر شے کے نرخ آسمان کو چھونے لگتے اور تباہ حال لوگ بلک بلک کر روتے اور ڈگمگا ڈگمگا کر گرتے! بڑے جج نے خلق خدا کی حالت زار دیکھی تو حکم دیا کہ پٹرول ڈیزل اور سی این جی کے نرخ کم کئے جائیں۔ ایک ایک لیٹر میں حکومت منافع پر منافع لے رہی تھی۔ بڑے جج کا حکم اسٹیبلشمنٹ نے سنا تو قہقہہ لگایا۔ بڑے جج کے حکم کیساتھ دنیا کا بدترین مذاق کیا گیا۔ پٹرول میں ڈیڑھ روپیہ فی لیٹر کی کمی کی گئی۔ جی ہاں! ایک لٹر میں صرف ڈیڑھ روپے
۔ لیکن یہ مذاق کا آغاز تھا اصل انتقام بڑے جج سے نہیں اُن عوام سے لیا جانا تھا جنہوں نے شاہراہوں پر خون بہا کر بڑے جج کو بحال کر د یا تھا۔ آخر اسٹیبلشمنٹ نے آخری اور کاری وار کیا اور نئے بجٹ میں سی این جی پر کاربن نامی ٹیکس نافذ کر کے سی این جی کی قیمت ساٹھ روپے فی کلو کر دی۔ خلق خدا تباہ و برباد ہو گئی۔ سی این جی پر کاربن ٹیکس چھ روپے فی کلو کے لگ بھگ لوگوں نے سنا تو پہلے تو دھاڑیں مار مار کے روئے پھر انہوں نے سینوں کو پیٹا اور تپتی جھلستی زمین پر گر گئے۔ ہر طرف چیخیں تھیں اور ماتم‘ آہیں تھیں اور زاریاں‘ لوگ چہروں پر دو ہتھڑ مارتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ اپنے محل کی کھڑکیوں سے دیکھ کر قہقہے لگاتی تھی اور ایک ایک بازو کے دس دس ہاتھ ہوا میں لہراتی کر کہتی تھی … بدبختو! کل جب تم نے جج کو بحال کرایا تھا تو میں نے بھی تو چہرہ دو ہتھڑوں سے سرخ کر دیا تھا اور بال نوچ لئے تھے ! اب دیکھو میرا انتقام ! صبح ہوئی تو ملک کے ہر شہر‘ ہر قصبے اور ہر بستی کی ہر دیوار پر ایک ہی نعرہ لکھا تھا … ’’سی این جی … مائی لارڈ … سی این جی۔‘‘
.

Tuesday, June 16, 2009

غلیل

بچہ کافی دیر سے وہاں کھڑا تھا۔ لیکن میں نے اُس کی موجودگی اُس وقت محسوس کی جب وہ بورڈ کی طرف مسلسل دیکھے جا رہا تھا اور ہنسنے لگا تھا۔عمر یہی بارہ تیرہ سال ہوگی۔ شلوار قمیض میں ملبوس‘ پیروں میں پشاوری چپل پہنے وہ بچہ بالکل عام بچوں جیسا لگ رہا تھا لیکن جب وہ تحریکِ انصاف کے بورڈ کو دیکھ کر ہنسنے لگا اور پھر ہنستا ہی رہا تو مجھے اچنبھا ہوا۔ بورڈ پر صرف اتنا لکھا تھا ’’دفتر تحریکِ انصاف‘‘ اس میں ہنسنے کی بات تو کوئی نہیں تھی۔ بچے کی ہنسی اور تحریکِ انصاف کا بورڈ … میں یہ پہیلی بوجھنے کیلئے اُسکے پاس چلا گیا اور اُس سے ہنسی کا سبب پوچھا۔ میرا سوال سن کر وہ پھر ہنسا۔ مجھے فراق کا شعر یاد آ گیا …؎ رونا فراق کا تری تصویر دیکھ کررونے کے بعد پھر تری تصویر دیکھنابالآخر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔’’بڑے میاں! آپ کو تعجب ہو رہا ہے کہ میں تحریکِ انصاف کے بورڈ کی طرف دیکھ کر ہنس رہا ہوں۔ آپ کا تعجب بجا ہے۔ میرے اعصاب مضبوط ہیں کیونکہ میں کسی شہری بابو کا GIRLISH بچہ نہیں ہوں۔ میں قبائلی بچہ ہوں۔ میرے اعصاب مضبوط ہیں۔ ورنہ یہ بورڈ دیکھ کر تو مجھے رونا چاہئے تھا! مجھے تو تعجب اسکے اندازِ تخاطب پر ہو رہا تھا جس طرح اُس نے مجھے بڑے میاں کہہ کر مخاطب کیا تھا بہت حد تک میں اپنی اوقات میں آ گیا تھا۔ اُس نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’بڑے میاں! میں اس لئے ہنس رہا ہوں کہ عمران خان قبائلیوں کے جرگہ سسٹم کے بہت حامی ہیں اور تبدیلی کے مخالف ! انہیں طالبان بھی بُرے نہیں لگتے۔‘‘ میں نے ہاتھ سے اُسے روکا‘ ورنہ وہ بات سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔ ’’بیٹے ! تم صرف عمران خان کی تحریکِ انصاف کے بورڈ پر کیوں ہنس رہے ہو‘ یہاں تو اور بھی بہت سے بزرجمہر ہیں جو جرگہ سسٹم کے حامی ہیں اور طالبان کا ’’اسلام‘‘ انہیں راس آتا ہے۔ بالخصوص اُس وقت جب وہ اس ’’اسلام‘‘ کی زد سے دور ہیں۔ آخر تم اُن پر کیوں نہیں اعتراض کرتے؟ تم صرف عمران خان کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔‘‘’’بڑے میاں! بات تم نے معقول کی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اور دوسرے لوگوں میں فرق ہے۔ فرق یہ ہے کہ مجموعی طور پر عمران موجودہ فرسودہ نظام کا حامی نہیں ہے۔ بالخصوص اسلئے کہ اُس نے اپنی مال و دولت باہر کے بینکوں میں نہیں رکھی نہ ہی اُسکے دوسرے ملکوں میں محلات ہیں۔ وہ کرپٹ سیاستدانوں کے بھی خلاف ہے۔ اُس سے کچھ امیدیں وابستہ ہیں۔ قوم اُسکی طرف دیکھ رہی ہے۔ رہے دوسرے عناصر جو قبائلیوں کو فرسودگی میں رکھنا چاہتے ہیں اور جنہیں طالبان کا اسلام پسند ہے‘ وہ آخر کون ہیں؟ مذہب کے نام پر سیاست یا سیاست کے نام پر اپنے مذہبی خیالات چمکانے والے! اُن سے مجھے کیا لینا دینا وہ تو صرف اپنی ہنسی اڑاتے ہیں۔ جو لوگ اسمبلیوں میں اپنے ہی خاندان کی خواتین متمکن کراتے ہیں اور جو اپنی زندگی میں اپنی گدیوں پر اپنی اولاد کو تخت نشین اور تاج پوش کرتے ہیں اُنکی بات کو کیا اہمیت دینی! رہے ریٹائرڈ جرنیل تو جو ایک خاص طرز زندگی گزارنے کے عادی ہیں‘ جنکے کیسے میں بڑے بڑے جرائم ہیں‘ جنہوں نے وردی پہن کر سیاسی جماعتوں کو ریوڑوں کی طرح ہانگا اور ایک پگڈنڈی سے دوسری اور دوسری سے تیسری پر چڑھاتے رہے‘ روپیہ بانٹتے رہے اور جو بزعم خود طالبان کی DYNAMICS (حرکیات) کے ماہر ہیں وہ سب تو چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ اُنکی بات سنتا کون ہے؟ خدا کی قسم! لوگوں کی اکثریت اُنکے اخباری ببانات پڑھ کر قہقہے لگاتی ہے۔ بڑے میاں! بات عمران خان کی کرو جس سے ہمیں امیدیں وابستہ ہیں۔‘‘ اُس نے بات جاری رکھی۔ ’’ایک ہفتہ ہوا عمران خان نے ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو دیا۔ جب کمپیئر نے اُس سے تابڑ توڑ انداز میں پوچھا کہ آخر قبائلیوں کا صدیوں پرانا نظام کیوں جاری رہے؟ تو عمران خان کے پاس صرف ایک دلیل تھی کہ ’’میں وہاں گیا ہوں اور آپ نہیں گئے۔‘‘ کیا عمران خان کو نہیں معلوم کہ گریٹ گیم GREAT GAME کیا تھی؟ روسی ڈرتے تھے کہ برطانوی ہند کی فوجیں افغانستان کو پار کر کے وسط ایشیا میں نہ گُھس آئیں اور انگریز خائف تھے کہ جنوب کی طرف یلغار کرتا اور منزلیں مارتا روسی استعمار افغانستان کو تاراج کر کے برصغیر میں نہ گُھس آئے۔ دونوں کو صرف ایک بات راس آتی تھی کہ قبائلی علاقے جوں کے توں رہیں اور افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان حد فاصل بنے رہیں۔’’کیا عمران خان کو نہیں معلوم کہ جرگہ سسٹم میں خان‘ ملک اور فیوڈل بے تاج بادشاہی کر رہے ہیں۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ 62 سالوں میں یعنی پاکستان بننے سے لیکر آج تک ان ملکوں ان خوانین اور ان فیوڈل لارڈز کو پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے کتنی دولت دی گئی ہے؟ کیا عمران خان کو نہیں معلوم کہ فاٹا کے ’’منتخب‘‘ نمائندوں کی شہرت کیا ہے۔ ابھی تو سینٹ کے حالیہ ’’انتخابات‘‘ پرانے نہیں ہوئے کیا عمران خان چاہتا ہے کہ یہی لوگ فاٹا کی نمائندگی کرتے رہیں؟ کیا اس جرگہ سسٹم کے ڈانڈے اُس پنچائتی نظام سے نہیں ملتے جو معصوم بچیوں کی ’’شادیاں‘‘ بوڑھوں سے کرتا ہے‘ جو عورتوں کو زندہ دفن کرتا ہے اور انہیں بھوکے کتوں کے آگے ڈالتا ہے؟‘‘ ’’اس قبائلی نظام نے قبائلی علاقے کو کتنے کالج اور کتنی یونیورسٹیاں دی ہیں؟ خواتین کے کتنے تعلیمی ادارے ہیں؟ کتنے شاپنگ سنٹر‘ کتنے ہسپتال‘ کتنی لائبریریاں‘ کتنی میونسپل کمیٹیاں‘ کتنے رفاہی ادارے اور کتنے تفریحی مراکز قبائلی علاقوں میں بنائے گئے ہیں؟ کیا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انقلابی باتیں کرنیوالے عمران خان کا آئیڈیل یہ جرگہ سسٹم ہے جس میں لوگوں کو بیٹھنے کیلئے کرسیاں اور چارپائیاں تو دور کی بات ہے‘ چٹائی تک نہیں میسر آتی؟ کیا قبائلی علاقوں کا حق نہیں کہ وہ جدید عدلیہ سے بہرہ ور ہوں؟ جدید تعلیم سے آراستہ ہوں اور جدید سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں؟ آج اگر عمران خان جرگہ سسٹم جاری رکھنے پر مصر ہے تو کل بلوچستان کے سرداری نظام کی حمایت بھی کریگا اور پرسوں پنچایت اور اترسوں ونی اور اُس سے اگلے روز کاروکاری کے حق میں آواز اُٹھائے گا۔ نہیں ! بڑے میاں ! نہیں ! ہمیں عمران خان سے ایسی امید نہیں۔ ہمیں تو یہ امید ہے کہ وہ ان خوانین کے پنجۂ استبداد سے ہمیں رہائی دلوائے گا اور عام قبائلی کو اتنی آزادی دلوائے گا کہ وہ اپنا مقدمہ آزاد عدلیہ کے پاس لیکر جائے۔ ایسی آزاد عدلیہ جو قانون کے جدید اصولوں کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتی ہے آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ پورے پاکستان کو انقلاب کی نوید دینے والا عمران خان سوات کو طالبان کے کنوئیں میں اور قبائلی علاقوں کو جرگہ سسٹم کی فرسودگی میں قید رکھنا پسند کرے؟ بچے نے جیب سے غلیل نکالی۔ اُس میں کنکر رکھا اور سیدھا بورڈ کو نشانہ بنایا۔ میں نے جھپاک سے غلیل کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔

Thursday, June 11, 2009

مدارس ہمارے قلعے ہیں

میکالے نے فارسی کو قتل کیا اور اور ہماری خواندہ آبادی راتوں رات ان پڑھ قرار دی گئی۔ اس وقت مدرسے بقا کی جنگ نہ لڑتے تو جانے ہمارا کیا حال ہوتا! تنقید کرنی آسان ہے اور نکٹائی کی گرہ ٹھیک کرکے‘ ناک سکوڑ کر‘ باریش نوجوانوں کو نگاہ غلط انداز سے دیکھنا چنداں مشکل نہیں۔ لیکن جو جنگ مدارس نے لڑی ہے۔ وہ ایک طویل جنگ تھی۔ انہیں پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے اور سفید چمڑی والوں اور ان کے گندمی رنگ کے حواریوں کی بہت باتیں سننا پڑیں لیکن وہ ثابت قدم رہے اور تقسیم ہند تک اپنا کردار نبھاتے آئے۔
وہ جو مدارس میں پڑھ رہے ہیں‘ کیا وہ ہمارے ہی لخت ہائے جگر نہیں؟ کیا وہ ہماری آنکھوں کی پتلیاں نہیں؟ کیا وہ پرائے ہیں اور ہمارے صرف وہ ہیں جو آکسفورڈ اور کیمبرج کے نصاب ازبر کر رہے ہیں؟
نہیں! ہرگز نہیں! یہ باریش نوجوان ہمارے اپنے ہیں۔ ہمارے جسم کا حصہ ہیں۔ ہمار ے دلوں کے ٹکڑے اور ہماری آنکھوں کی روشنی ہیں لیکن ان کے کچھ حقوق ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے حقوق انہیں دئیے جا رہے ہیں؟
ان کا پہلا حق… سب سے بڑا حق… یہ ہے کہ انہیں وہ تعلیم دی جائے جو انہیں آج کی دنیا میں کسی احساس کم تری کا شکار نہ ہونے دے اور انہیں بیچ میدان میں کھڑا ہونا پڑے تو ان میں سے ہر شخص احمد دیدات سے کم نہ ثابت ہو۔ ایک محترم عالم دین نے جو مدارس کی تنظیم کے عہدہ دار ہیں۔ ٹیلی ویژن پر یہ جو فرمایا ہے کہ مدارس میں ’’عصری علوم کی تربیت کا اہتمام‘‘ کیا جاتا ہے۔ تو حیران کر دیا ہے اور اپنے خیر خواہوں کو پریشان کر دیا ہے۔
گلۂ جفائے وفا نما جو حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری بری
عصری علوم کی تربیت کا اہتمام؟ حقیقت یہ ہے کہ مدارس کا نصاب ازحد قدیم اور فرسودہ ہے۔ ضد کی بات دوسری ہے اور وہم کی طرح ضد کا بھی کوئی علاج نہیں اور جب انا کو شہتوت کا رس بھی پلا دیا گیا ہو تو پھر تو کسی مثبت ردعمل کا امکان ہی نہیں۔
مغلوں کے زمانے میں اور اس سے پہلے بھی مدارس کا نصاب اپنے وقت کے حوالے سے جدید ترین تھا۔ سلطان سکندر لودھی کے زمانے میں ملتان کے دو بھائیوں (شیخ عبداللہ اور شیخ عزیز اللہ) نے اپنے زمانے کے جدید علوم… منطق‘ ریاضی‘ ادب فلسفہ اور ہیئت مدارس کے نصاب میں داخل کئے۔ اورنگ زیب عالمگیر نے فتاویٰ عالمگیری مرتب کروایا تو ملا قطب الدین سہالوی نے اس میں بہت کام کیا۔ ملا صاحب لکھنؤ کے قریب واقع سہالی نامی قصبے سے تعلق رکھتے تھے۔ جائیداد کے جھگڑے میں انہیں قتل کر دیا گیا تو اورنگ زیب نے انگریز تاجروں کا متروکہ محل (فرنگی محل) ملا قطب الدین کے بیٹے ملا نظام الدین کے سپرد کر دیا۔ ملا نظام الدین نے لکھنؤ کے فرنگی محل میں طلبہ کیلئے جو نصاب مرتب کیا… وہی آج درس نظامی کہلاتا ہے۔ انہوں نے یہ نصاب اپنے وقت کے حوالے سے جدید ترین بنایا تھا اور اس کے فارغ التحصیل طلبہ کا سرکاری ملازمتوں میں وہی مقام و مرتبہ تھا۔ جو آج کل سی ایس ایس کا ہے۔ منطق‘ فلسفہ‘ ریاضی تاریخ‘ طب اور انجینئرنگ (ہندسہ) اس نصاب کا اہم حصہ تھا۔ کل 79 کتابیں تھیں۔
ملا نظام الدین نے 1748ء میں وفات پائی۔ دو سو اکسٹھ سال ہو گئے ہیں کہ درس نظامی میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں ہوئی۔ بیرسٹر ظفر اللہ خاں نے جنہوں نے لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے سول سروس میں شمولیت اختیار کی اور اس سے بھی پہلے درس نظامی کے کنویں سے پانی پیا‘ ایک کتاب تصنیف کی۔ ’’اور زمانے کا خواب‘‘ اگر مالی استطاعت ہوتی تو ہر مدرسے کے ہر طالب علم اور ہر استاد کو اس کتاب کا ایک ایک نسخہ فراہم کرتا۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان دل سوزی سے بتاتے ہیں کہ ’’تازہ ترین‘‘ کتاب بھی تین سو سال پرانی ہے جو درس نظامی میں پڑھائی جا رہی ہے۔ علم البلاغہ میں تلخیص المفتاح پڑھائی جا رہی ہے جو سات سو سال پہلے لکھی گئی۔ عربی ادب میں مقامات (حریری اور ہمدانی) پڑھائے جاتے ہیں اور شاعری میں سبع معلقات‘ حماسہ اور متنبی! یہ سب کلاسیکی ادب ہے جدید کا تو ذکر ہی کیا۔ متوسطین کی تخلیقات بھی نہیں پڑھائی جا رہیں۔ یہ ایسے ہی ہے۔ جیسے اردو ادب کے طلبہ کو ولی دکنی اور میر کے بعد کوئی اور شاعر کو نہ پڑھایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کی اکثریت فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی جدید عربی بولنے اور لکھنے میں دقت محسوس کرتی ہے۔ علم ہیئت میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ گیلی لیو سے بھی پہلے کی ہیں۔ حساب میں ناصر الدین طوسی کی جو کتاب شامل نصاب ہے وہ سات سو اٹھاون سال پہلے تصنیف کی گئی تھی۔ کاش! ٹیلی ویژن پروگرام کا میزبان ’’عصر علوم‘‘ کی تفصیل پوچھتا! سوال یہ نہیں ہے کہ چند مدارس میں کمپیوٹر کی ابتدائی تعلیم دی جاتی ہے اور کہیں کہیں میٹرک کرایا جاتا ہے! علم ڈگریوں کا نام نہیں۔ مدارس کے طلبہ سکہ رائج الوقت کے حساب سے بے شک بی اے یا ایم اے نہ کریں۔ لیکن انہیں جدید علوم پر عبور ہونا چاہئے وہ اس قابل ہوں کہ HUNTINGTON کی شہرہ آفاق کتاب CLASH OF CIVILIZATIONS پڑھ سکیں اور نہ صرف پڑھ سکیں بلکہ اس پر تنقید کر سکیں اور اس کا جواب لکھ سکیں وہ اس قابل ہوں کہ ٹائن بی کی سٹڈی آف ہسٹری پڑھیں اور اسی کا ابن خلدون کے فلسفہ تاریخ سے مقابلہ کریں۔ وہ MYRDAL کا ایشین ڈرامہ اور سپنگلر کی DECLINE OF WEST پڑھیں اور مغربی دانشوروں کو بتائیں کہ…ع
سخن شناس نہ ای دلبرا! خطا این جاست
مدارس کے نصاب سازوں نے اپنے ہی رہنما سید سلیمان ندوی کی تلقین پر ذرہ بھر توجہ نہیں کی اور ان کی نصیحت کو درخور اعتنا ہی نہ گردانا۔ آج سے چوراسی سال پہلے سید صاحب نے مدارس (آج کے چنائی) میں اپنے مشہور زمانہ خطبات دئیے تھے۔ آپ نے فرمایا۔ ’’حضرات! میں اس وقت آپکے سامنے اردو میں تقریر کر رہا ہوں گو اردو زبان نے ہندوستان میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ ملک کے ہر گوشے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ تاہم میں محسوس کرتا ہوں کہ مدراس کیلئے مناسب یہ تھا کہ یہ لیکچر انگریزی میں ہوتے تاکہ انکے فائدہ کا دائرہ زیادہ وسیع ہوتا اور وہ بھی اس میں شریک ہو سکتے اور دلچسپی لے سکتے جو اردو بالکل نہیں سمجھتے یا پوری طرح نہیں سمجھتے۔ اسی سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ علماء پر آج انگریزی کا جاننا بھی فرض ہو گیا ہے۔ خدا کرے وہ دن آئے جب ہمارے علماء خدا کا پیغام خدا کی بنائی ہوئی ہر زبان میں دنیا کو پہنچا سکیں۔‘‘
سید سلیمان ندوی 1925ء میں علماء کیلئے انگریزی جاننا فرض قرار دیتے ہیں تو آج تو اسکی اہمیت کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے اور پھر جب بقول سید صاحب ہر زبان خدا کی بنائی ہوئی ہے تو پھر مغربی زبانوں کا علم حاصل کرنا کفر کس طرح ہو جاتا ہے؟ آج مدارس میں عربی کے سوا کوئی اور زبان نہیں پڑھائی جاتی۔ فارسی میں گلستاں بوستاں سکندر نامہ‘ جامی کی یوسف زلیخا اور فقہ میں فارسی میں مالا بدّمینہُ کے سوا کچھ نہیں پڑھایا جاتا۔ آج چاہئے تو یہ تھا کہ مدارس کے ذہین و فطین طلبہ انگریزی‘ فرانسیسی‘ جرمن اور ہسپانوی زبانوں میں کام کرکے اہل مغرب کے اعتراضات کا نہ صرف جواب دیتے بلکہ مسلمانوں کو بھی بتاتے کہ مغرب نے کہاں کہاں ٹھوکر کھائی ہے!
کیا علوم کو اسلامی اور غیر اسلامی کے خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے؟ ماضی میں اگر اس زمانے کے جدید علوم (فلسفہ‘ ریاض‘ ہیئت‘ ہندسہ) پڑھائے جاتے تھے اور مساجد اور مدارس میں پڑھائے جاتے تھے۔ تو وہ غیر اسلامی کیسے ہو گئے؟ اور آج کے جدید علوم (ریاضی‘ ہیئیت‘ انجینئرنگ‘ ٹیکنالوجی اور آئی ٹی) مساجد اور مدارس میں کیوں نہیں پڑھائے جا سکتے؟ یہ اعتراض کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ نے سائنس اور جدید علوم پڑھ کر کیا تیر مار لیا ہے۔ بے معنی اعتراض ہے! آپ نے مدارس میں طلبہ کو جدید سائنسی علوم اس لئے پڑھانے ہیں کہ یہ فرض ہیں۔ جیساکہ مفتی محمد شفیعؒ اپنی تفیسر معارف القرآن میں سورۃ انفال کی آیت نمبر 60 کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ آیت ہے جس میں ارشاد باری ہے کہ ’’تیار کرو‘ انؐ کی لڑائی کے واسطے جو کچھ جمع کر سکو قوت سے‘‘ مفتی صاحب مرحوم تفسیر میں لکھتے ہیں۔
’’قرآن کریم نے اس جگہ اس زمانہ کے مروجہ ہتھیاروں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ قوت کا عام لفظ اختیار فرما کر اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ یہ قوت ہر زمانے اور ہر ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس زمانہ کے اسلحہ تیر تلوار نیزے تھے اس کے بعد بندوق توپ کا زمانہ آیا۔ پھر اب بموں اور راکٹوں کا وقت آگیا۔ لفظ قوت ان سب کو شامل ہے اس لئے آج کے مسلمانوں کو بقدر استطاعت ایٹمی قوت ٹینک اور لڑاکا طیارے آب دوز کشتیاں جمع کرنا چاہئیں کیونکہ یہ سب اسی قوت کے مفہوم میں داخل ہیں اور اس کیلئے جس علم و فن کو سیکھنے کی ضرورت پڑے وہ سب اگر اس نیت سے ہو کہ اسکے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں سے دفاع کا اور کفار کے مقابلہ کا کام لیا جائے گا تو وہ بھی جہاد کے حکم میں ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہ علم و فن جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم ہے اور مفتی صاحب اس علم و فن کو جہاد کے حکم میں داخل فرما رہے ہیں۔ جہاد فرض ہے تو اس علم و فن کو سیکھنا بھی فرض ہے۔ تو پھر مدارس کے طلبہ کو اس فرض کی ادائیگی سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ اس محرومی کے ذمہ دار کون اصحاب ہیں؟ آج ہماری ایٹمی تجربہ گاہوں اور لیبارٹریوں میں مدارس کے فارغ التحصیل کتنے طلبہ یہ فرض ادا کر رہے ہیں؟ اس تحریر کا مقصد کسی کو برا فروختہ کرنا نہیں ہے نہ ہی بحث و مباحثہ کرنا ہے۔ اور نہ ہی مدارس‘ کالج اور یونیورسٹیاں الگ الگ طبقات کے مترادف ہیں! ہم تو دست بستہ پہ استدعا کرتے ہیں اور بصد عجز و احترام کرتے ہیں کہ اس مسئلے کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے اور یہ ثابت کرنے کے بجائے کہ مدارس کا نصاب حرف آخر ہے۔ ان طلبہ کو ان کا حق دیا جائے اور سب سے بڑا حق یہ ہے کہ انہیں جدید ترین علوم پڑھائے جائیں اور اس قابل بنایا جائے کہ یہ آکسفورڈ کیمبرج‘ ہارورڈ‘ جان ہاپکن اور برکلے یونیورسٹیوں میں جاکر اعتماد سے پڑھا سکیں اور مغربی دانشوروں اور وہاں کے اہل مذہب سے مکالمہ کر سکیں۔ کچھ حقوق مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کرام کے بھی ہیں جن کی اکثریت قال اللہ اور قال الرسولؐ کا فرض شدید مالی عسرت میں سرانجام دے رہی ہے۔ اس موضوع پر پھر کبھی… اس لئے کہ بقول نظیری …؎
صد بار ز آغاز بانجام رساندیم
افسانۂ دردی کہ بپایان نرسیدہ

Tuesday, June 09, 2009

گھاس کے ایک گٹھڑ کے عوض

شاعر اور پروفیسر جلیل عالی اور اس کی پروفیسر اہلیہ کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ چھتیس چھتیس برس (جو کل بہتر برس بنتے ہیں) پڑھانے کے بعد اُن کے چھوٹے سے گھر میں دن دہاڑے پانچ ڈاکو آئیں گے اور سب سے بڑے صوبے کی انتہائی نیک نام پولیس اُن کی عمر بھر کی کمائی کی ایک رمق بھی واگزار نہیں کرا سکے گی تو وہ دونوں کبھی پروفیسر نہ بنتے۔
سکندراعظم نے کہا تھا کہ ’’باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا لیکن استاد مجھے پھر زمین سے آسمان پر لے گیا۔‘‘
پروفیسر جلیل عالی اور اس کی اہلیہ ان بہتر سالوں میں ہزاروں بچوں اور بچیوں کو آسمان کی رفعتوں پر لے گئے۔ انہوں نے اپنے بچے کو پالا‘ پوسا‘ پڑھایا‘ جوان کیا‘ ڈاکٹر بنایا‘ ڈاکٹری میں مزید اعلیٰ تعلیم دلا کر سرجن بنایا اور پھر وہ بچہ افواجِ پاکستان کو سونپ دیا۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ اُن کے ساتھ یہ کچھ ہوگا جس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوگا تو وہ بیٹے کو ڈاکٹر بنا کر فوج میں بھیجنے کے بجائے پولیس کا افسر بناتے۔ پھر اُن کے گھر کے باہر ایک پکٹ (Picket) ہوتی۔ لکڑی کا کمرہ ہوتا‘ ہر آٹھ گھنٹے بعد پہریداروں کی ٹولیاں بدلتیں‘ راہگیر قریب سے گزرنے کی بھی ہمت نہ کرتے۔
کیا پنجاب کے عوام اس قابل ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ کتنے پولیس افسروں کی رہائش گاہوں پر پہرہ داروں کیلئے خیمے نصب ہیں؟ یہ پولیس افسر کس کس سطح کے ہیں؟ پولیس کے جوانوں کی کتنی نفری اس کام پر متعین ہے؟ یہ تعداد صوبے کی کل تعداد کا کتنے فیصد ہے؟ اس تعداد پر سالانہ کتنا بجٹ خرچ ہو رہا ہے اور یہ بجٹ صوبے کی پولیس کے کل بجٹ کا کتنے فیصد ہے؟
خدا کی پناہ ! زمین ظلم سے بھر چکی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ زمین انگڑائی لے‘ خیمے الٹ جائیں اور عوام کے خون پسینے کی کمائی پر عشرت کدے بنا کر عیش کرنے والے ٹکٹکیوں پر باندھے جائیں۔ یہ کوتوال جو عوام کی حفاظت پر مامور ہونے چاہیں‘ پہریداروں کے حصار میں رہتے ہیں اور گاڑیوں کے جلوس کے بغیر ان کا عام اہلکار بھی اپنا جلوہ نہیں دکھاتا۔
ایک خبر کے مطابق ایک ڈی آئی جی صاحب کے استعمال میں گیارہ گاڑیاں ہیں۔ صوبے کے بارے میں دیگر تفصیلات دیکھی جائیں تو شہنشاہ آریا مہرمات ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کے پاس 5 گاڑیاں‘ 9 ڈرائیور اور 7 مکینک ہیں۔ یہ دھیان میں رہے کہ یہ پانچ گاڑیاں نل کے پانی پر نہیں‘ پٹرول پر چلتی ہیں۔ یہ ڈرائیور‘ رہائش‘ خوراک اور لباس کے ضرورت مند ہیں اور یہ سب کچھ عوام کے ذمے ہے جن کا مہنگائی سے بھرکس نکل چکا ہے اور سی این جی اور پٹرول کی خریداری جن کی استطاعت سے باہر ہو چکی ہے! سات مکینک معلوم نہیں کیا فرائض سرانجام دیتے ہیں لیکن غالباً صرف آکسیجن پر ان کا گزارہ بھی نہیں۔ 9 ڈرائیور اور سات مکینک۔ 16 تو یہی ہو گئے۔ باورچی‘ مالی‘ پہریدار‘ خاکروب اور دیگر ملازم اس کے علاوہ ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں انگریز ڈپٹی کمشنر کے 56 خدمت گار گنوائے تھے۔ ہمارے براؤن افسر اُن سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ اب جرائم کہیں زیادہ ہیں۔ موضوع کی طرف واپس چلتے ہیں۔ ایک سابق ڈی آئی جی کے قبضے میں تین گاڑیاں اور آٹھ مکینک ہیں۔ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر کے پاس تین گاڑیاں ہیں۔ ایک سابق پولیس افسر کے پاس جو اب پنجاب پبلک سروس کمشن کے ممبر ہیں پولیس کی چار گاڑیاں ہیں جو عام گاڑیاں نہیں ہیں بلکہ پراڈو‘ ہونڈا اور سنگل کیبن جیسی ہیں۔ دو اور سابق پولیس افسر بھی پنجاب پبلک سروس کمشن کے ممبر ہیں اور دو دو گاڑیاں اُن کی تحویل میں بھی ہیں۔ پنجاب پبلک سروس کمشن جو پورے صوبے کی نمائندگی کرتا ہے‘ لگتا ہے پولیس کے سابق افسروں کی ملکیت میں ہے۔ یوں بھی پسماندہ ضلعے جن کا واحد فائدہ صوبے کو بڑا ثابت کرنا ہوتا ہے پنجاب کے ’’دل‘‘ میں کام کرنے والے اداروں پر حق نہیں رکھتے۔
پولیس کے سابق افسران صرف پنجاب پبلک سروس کمشن پر ہی نہیں چھائے ہوئے‘ پنجاب حکومت کے مشیروں میں بھی ان کی ’’بھرپور‘‘ نمائندگی ہے اور پولیس سے فارغ ہونے کے باوجود ان مشیرانِ کرام کی خدمت پر پنجاب پولیس ہی کی گاڑیاں اور ڈرائیور مامور ہیں جو اچھی خاصی تعداد میں ہیں کیونکہ پولیس کے سابق افسر‘ کوئی عام انسان نہیں ہیں جن کا گزر بسر ایک ایک گاڑی اور ایک ایک ڈرائیور پر ہو جائے۔ سیکورٹی اور پروٹوکول کے تقاضے اس کے علاوہ پورے کئے جا ر ہے ہیں!
پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون کی رُو سے حاضر سروس ایڈیشنل آئی جی‘ ڈی آئی جی اور ڈی پی او صرف ایک ایک گاڑی کے حقدار ہیں اور جب باہر آمد و رفت میں ہوں تو ایک گاڑی اس کے علاوہ۔ جہاں تک ایس پی یا اس کے برابر کے افسروں کا تعلق ہے تو انہیں صرف ایک گاڑی مل سکتی ہے !
لیکن یہ تو قانون کی رُو سے ہے اور قانون کی حیثیت اس معاشرے میں وہی ہے جو بھارت میں اچھوت اور دلت کی ہے۔ یہ اور بات کہ اب تو بھارت میں دلت خاتون قومی اسمبلی کی سپیکر کے عہدۂ جلیلہ پر فائز کی گئی ہے لیکن پاکستان میں قانون ایسا دلت ہے جسے کبھی عزت نصیب نہیں ہو سکتی!
بھارت میں Reverse Brain Drain شروع ہو چکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھارتی جو دوسرے ملکوں میں کام کر رہے تھے واپس اپنے ملک آ کر رہنا اور کام کرنا شروع ہو گئے ہیں! لیکن مملکت خداداد میں ہر وہ شہری جو پولیس افسر ہے نہ ریٹائرڈ پولیس افسر … اسمبلی کا رکن ہے نہ وزیر … جاگیردار ہے نہ جاگیردار کا کلاشنکوف بردار … صرف تعلیم یافتہ ہے بستر سر پر رکھے صندوق اُٹھائے کسی نہ کسی سفارت خانے کے باہر قطار میں کھڑا ہے! جس ملک میں حکمران طبقہ‘ پروفیسروں کو حقارت سے ماسٹر کہہ کر پکارے‘ جہاں مجسٹریٹ‘ کالج کے پرنسپل کی ’’ڈیوٹی‘‘ پولنگ سٹیشن پر لگائے اور جہاں امتحان گاہوں پر بوٹی مافیا کی دہشت کا راج ہو‘ اُس ملک میں کون اعلیٰ تعلیم یافتہ رہے گا اور رہنا پسند کرے گا؟
زوال و ادبار کا زمانہ ہو اور شکست و ریخت کے دن ہوں تو قانون عنقا ہو جاتا ہے۔ ایسے میں سب سے زیادہ نقصان اہل علم کا ہوتا ہے۔ شاعر‘ پروفیسر‘ ادیب اور سائنس دان ایسے معاشرے میں حقیر سمجھے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ جب چنگیز خان کی افواج قاہرہ اسلامی دنیا کو تہہ و بالا کر رہی تھیں اپنے وقت کے بہت بڑے طبیب‘ ولی اور شاعر خواجہ فرید الدین عطار نیشاپور میں مقیم تھے۔ قتل وغارت کا راج تھا۔ حکومت نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ ایک تاتاری نے انہیں پکڑ لیا۔ قریب تھا کہ وہ قتل کر دیتا۔ برابر سے ایک اور تاتاری بولا کہ اس قیدی کو میرے ہاتھ ایک ہزار روپے میں بیچ دو۔ خواجہ صاحب نے تاتاری سے کہا کہ اس قیمت پر نہ بیچنا۔ میرے دام بہت زیادہ ہیں۔ ایک اور تاتاری آ گیا اور کہنے لگا کہ اس غلام کو میرے ہاتھ گھاس کے ایک گٹھڑ کے عوض بیچ دو۔ خواجہ صاحب نے اپنے ’’مالک‘‘ سے کہا کہ فوراً بیچ دو۔ میری قیمت تو گھاس کے گٹھڑ سے بھی کم ہے۔ وحشی تاتاری ان ساری باتوں سے سمجھا کہ قیدی اُسے بے وقوف بنا رہا ہے۔ اُس نے انہیں قتل کر دیا حالانکہ وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ انسان سے بڑھ کر نہ کچھ گراں ہے اور نہ ارزاں۔
آج پھر زوال و ادبار کا زمانہ ہے۔ شاعر ڈاکوئوں کے نرغے میں ہیں! سعدی نے خلافتِ بغداد کے زوال پر مرثیہ لکھا۔ پہلا شعر آج تک تازہ ہے
آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمین
بر زوالِ مُلکِ مستعصم امیرالمومنین!
اگر آسمان سے خون بھی برسے تو روا ہے!

Tuesday, June 02, 2009

Growing Polarization of Religious elements in Pakistan

Daily The Bangladesh Today, Dhaka
June 2, 2009
------------------------------------------------

With every passing day the line between pro Taliban and Anti Taliban ulama (religious scholars) is getting sharper- and more trenchant. The most important question is: are the ulama, belonging to the school of thought to which Taliban too belong, doing enough to diffuse the sectarian rift rising dangerously?It is no secret that Taliban, of whatever hue, belong to Deobandi School of thought. Right from Mulla Umar, who once ruled over Afghanistan, to Maulana Sufi Muhammad and his son in law Maulana Fazlullah, all subscribe to Deobandi school of thought. In Zia's days when "jihad" in Afghanistan was going on in full swing, former students of Madrasa Haqqanya were at the forefront. This madrasa located on Grand Trunk Road between Indus and Peshawar, has been a landmark in the then anti Soviet Union struggle. Although present situation is different but the over all faithfulness of Taliban remains committed to the same orientation. Present day Taliban can be grouped, broadly, in three categories. Firstly, those who were resisting the allied forces within Afghanistan. We, in this column, are not concerned much with them as our main focus is on what is happening on the Eastern side of Afghan border. Secondly, those who have been carrying on their activities in Waziristan, north as well as south. Baitullah Mehsood is their commander. Once a prisoner in Guantanamo Bay Detention Camp, he, at present, holds almost a legendry position in and around Waziristan. Third group consists of Taliban who are fighting elsewhere within Pakistan whether it is Swat or Buner or Bajaur. They lack a unified leadership. However names of Fazlullah, Muslim Khan, Shah-e-Dauran, and few others, have been, off and on, rising to prominence. Mualana Sufi Muhammad, whose true status in present situation can not be defined clearly, and who, it appears, has lost control over local Taliban, was once an office bearer of Jamaat-Islami. When in recent past he issued a decree declaring democracy as Kufr (infidelity), the present chief of Jamaat Islami taunted him reminding that Sufi Muhammad too once participated in a local election and it implied that he too did commit a bit of Kufr by doing so!It is intriguing that ulama of this school of thought have not cleared their position vis-à-vis the abominable and terrifying acts committed by Taliban. One can venture to infer by a long lull prevailing over these ulama and their seminaries that they are, somehow, privy to these acts. Whether it is Justice Taqi Usmani or Dr. Asrar Ahmed or Maualana Fazlur Rehman, none has shown even an iota of disapproval. Blasting barber shops and video sale-points, killing women going to their jobs, chopping the body of a singer woman in eighteen pieces, slitting throats of fellow Muslims like once Serbs did with Bosnian Muslims, issuing threats not to wear Patloons lest they would be killed - these and many other acts of terror under nomenclature of Islam have all been met with tacit approval of ulama of this school of thought. So far so good; but every action has a reaction and in matters where human beings are involved, parameters and extent of reaction can neither be forestalled nor modulated. The rival school of thought viz. Barelvi, who are greater in number, have finally made attempts to unite themselves and have vowed to fight it out. It maybe recalled that body of an important spiritual leader (pir), belonging to this school of thought, was taken out of grave, was desecrated and hung for many days. Unfortunately no leader of Deobandi School of thought condemned the barbaric act. Of late different segments of Barelvi scholars have been holding conferences and have vowed to counteract what Taliban have been doing and propagating. If polarization continues, these segments, so far peaceful, may get armed, which would have all the potential of proving lethal for national coherence. In all fairness, the situation can be contained only by the ulama of Deobandi school of thought, to which Taliban claim their loyalty. By remaining quite and implicitly supporting acts of Taliban, these ulama have been committing great disservice to the unity of the country. A common Pakistani now is bracketing Taliban with these ulama and their school of thought. Unless, these ulama disown certain acts of Taliban, the growing polarization may take a dangerous turn. That the Barelvis outnumber the Taliban's school of thought should never be thrown into oblivion. Is civil war around the corner?It is intriguing that majority of students as well as ulama in Deobandi Seminaries, wherever they are, belong to a particular province, rather a linguistic group. Whether it is south Punjab or the coastal city of Karachi, these seminaries are dominated by them. The linguistic and parochial factors cutting across this school of thought present an ominous picture for the future. Thus intra-school and inter-schools of thought both tendencies warn and deserve to be pre-empted by saner elements wherever they are.
 

powered by worldwanders.com