Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, February 28, 2018

چار اشارے ۔بوجھو تو جانیں


میں سمجھا یہ بھی ایک ایسی ہی صبح ہوگی جو اکثر میرے نصیب میں ہوتی ہے۔مرجھائی ہوئی!گھٹی گھٹی! تھکی تھکی۔روح تازگی کو ترستی ہے۔ دل بجھا ہوا۔ ہر خبر یاس کا نیا دروازہ کھولتی ہوئی۔ کاغذ کا اخبار تو شدید مایوسی میں پھینکا بھی جاسکتا تھا۔ انٹر نیٹ کو کیسے پھینکیں ۔
اندازہ لگائیے!کیا ہورہا ہے اس دیارِ پاک میں !ایک ادارہ رہ گیا تھا ‘سول سروس کا! اسے بھی خود غرض حکمرانوں نے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ پنجاب کی سول سروس تین حصوں میں منقسم ہوکر رہ گئی ہے۔ ایڈمنسٹریٹو سروس کے کچھ درجن ارکان جو شاہی خاندان کے درباری تھے ۔افسر کے بجائے نوکر بن گئے۔ اکثریت تاہم احد چیمہ کو ہیرو ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ صوبائی سول سروس کے ارکان ان درباری نوکروں کی چیرہ دستیوں سے پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے۔ وہ بھی کورنش بجا لا نے والوں کا ساتھ نہیں دے رہے۔
مایوسی کی وجہ سے صرف سول سروس کے ادارے کی تباہی نہیں ‘ اور وجوہ بھی ہیں !شریف برادران کو رضا ربانی کی شکل میں ایک حمایتی مل گیا ہے۔
فرماتے ہیں احتساب صرف سیاست دانوں کا نہیں بلکہ سول بیوروکریسی ‘ملٹری اور عدلیہ کا بھی ہونا چاہیے۔اور یہ کہ نیب کی از سرِ نو تشکیل کی ضرورت ہے! کوئی ان رضا ربانی صاحب سے پوچھے کہ آپ کی پارٹی کی حکومت حال ہی میں پانچ سال رہی ہے۔ بیوروکریسی’ ملٹری اور عدلیہ کااحتساب اس نے کیوں نہیں کیا؟ نیب کی از سرِ نو تشکیل  سے آپ کی حکومت  کو کس نے منع کیا تھا؟ رضا ربانی صاحب نے ایک اور خبر دی ہے۔ایسی خبر کہ دنیا بھر کے خبر رساں ادارے بیہوش ہونے کے قریب ہیں ۔فرمایا ۔” تمام خواتین محترمہ بینظیر بھٹو کو ایک فلسفہ مانتی ہیں “!پھر اسی سانس میں ایک اور اصطلاح استعمال کی ۔” بینظیر کے نظریہ پر عمل پیرا ہو کر دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے۔”
بے نظیر بھٹؤ کو ہم تم ایک انسان مانتے تھے۔اب معلوم ہوا وہ فلسفہ تھیں ۔ ایسا فلسفہ جس سے دنیا بھر کے فلسفی بے خبر ہیں۔ کیا  دنیا کی کسی یونیورسٹی میں یہ فلسفہ پڑھایا جاتا ہے ؟رہا بے نظیر کا نظریہ ،تو رضا ربانی لگے ہاتھوں اس نظریہ سے بھی قوم کو اور دنیا کو آگاہ فرمادیتے۔ اس نظریہ کی ایک شکل تو وہ محل ہے جو موصوفہ دبئی میں چھوڑ گئیں ۔اگر آپ کے پاس انٹر نیٹ ہے تو گوگل پر جائیے او رلکھیے 
Benazir
 Palace in Dubai
پھر کلک کیجیے اور دیکھیے آپ کس دنیا میں پہنچ گئے ہیں ۔یہ دنیا عام دنیا نہیں ۔پرستان ہے! اس میں فانوس ہیں ۔دبیز پردے ہیں ۔ موڑ مڑتی سیڑھیاں ہیں ۔ آنکھوں کو چندھیا دینے والا فرنیچر ہے.طلسمی مسہریاں ہیں ۔سنہری اور نقرئی دروازے ہیں ۔ایک ایک انچ اس محل کا کروڑوں اربوں کا معاملہ ہے اربوں کھربوں کا۔
ایک اور نظریہ بے نظیر بھٹو کا مشہور صحافی انجم نیاز بھی سناتی ہیں ۔ نیویارک کے سب سے مہنگے علاقے میں خریدا ہوا پینٹ ہاؤس (لگژری اپارٹمنٹ) جس کی قیمت سن کر عام پاکستانی شہری شاید بے ہوش ہی ہوجائے۔
یہ تو بے نظیر کے “نظریہ” کے چند مظاہرے ہیں ۔اصل دولت کتنی چھوڑ کر رخصت ہوئیں ‘شاید ورثا کو بھی اندازہ نہ ہو! یہی وہ “نظریہ” ہے جس پہ عمل پیرا ہوکر ‘رضا ربانی صاحب کے بقول ‘دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے۔ سچ فرمایا !اگر دبئی کے محل یا برطانیہ کے سرے محل، یا فرانس کے محل میں ‘یا نیویارک کے پینٹ ہاؤس میں رہیں تو دہشت گرد ی آپ کا کیا بگاڑ لے گی ؟ دہشت گردی تو اس عوام کے درپے ہے جو بازاروں مسجدوں مزاروں گرجاؤں ‘سکولوں اور راستوں میں پائے جاتے ہیں ۔
رضا ربانی صاحب یونیورسٹیوں میں بھرپور سیاسی سرگرمیوں کے بھی حامی ہیں ۔ اکثر و بیشتر دکھ کا اظہار کرتے ہیں کہ طلبہ یونینوں پر پابندیاں عائد نہیں ہونی چاہیئں ۔حضرت کا بس چلے تو ہر یونیورسٹی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کو الاٹ کردیں کہ آؤ کھل کھیلو!لاہور اور اسلام آباد کی دو معروف یونیورسٹیاں  تو ایک سیاسی جماعت کی خاکروبی کے فرائض انجام دے ہی رہی ہیں ‘باقی بھی کسی نہ کسی جماعت کی رکھیل بن کر مزے کریں ! رہے ان سیاستدانوں ‘حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے “مالکان” کے اپنے بچے تو وہ بیرون ملک جاکر تعلیم حاصل کر لیتے ہیں !۔
چنانچہ آج بھی اٹھا تو یہی سمجھ  رہا تھا کہ ایک بدنصیب پژمردہ صبح میری قسمت میں ہے۔ مگر آج سب کچھ مختلف تھا۔پہلی  لاٹری تو یہی نکل آئی کہ بیگم صاحبہ نے پیار سے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ اجی! اٹھیے دیکھیے صبح ہوگئی ہے اور کیا ہی خوش خبری ہے وطن عزیز کے لیے’لگتا ہے کہ کالموں میں ایک عرصہ سے آپ جو رو دھو رہے تھے ‘اس کا پھل قدرت دینے لگی ہے”
اب یہ جو پنجابی بیگم کا پیار سے جگانا ہے تو یہ بھی ایک نعمت ہے جو کم ہی پنجابی مردوں کو نصبیب ہوتی ہے۔
اس پر ایک مشہور واقعہ یاد آرہا ہے ۔ایک صاحب بہت مہم جُو تھے ازدواجی تجربے کرتے رہتے تھے خواہ تجربے کرنے کے لیے کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ انہوں نے یہ جاننے کے لیے کہ کس علاقے کی عورت ‘ میاں کو صبح کے وقت کس طرح جگاتی ہے ‘مختلف علاقوں میں  شادیاں رچانی شروع کیں ۔ پہلے یوپی کی حسینہ سے شادی کی۔سور ہے تھے تو محسوس ہوا کہ کوئی سر کے بالوں میں نرم و گداز انداز سے انگلیاں پھیر رہا ہے۔پھر ایک سریلی’ کانوں میں رس گھولتی آواز آئی کہ سرتاج! سپیدہ ء سحر ‘افق سے جھانک رہا ہے ۔چھنستان میں طائر چہچہانے لگے ہیں ۔ روشنی یوں آہستہ آہستہ پھیل رہی ہے جیسے دل کےدریچے سے آپ کی سبک خرام محبت در آتی ہے ۔سرتاج اٹھیے’ کنیز آپ کے لیے گرم گرم چائے لے کر آتی ہے!
کیا ہی خوبصورت تجربہ تھا! میاں کا دل با غ باغ ہوگیا۔ پھر کسی نے بتایا کہ دکن کی بیوی جس ناز’ جس انداز اور دلربائی سے جگاتی ہے ‘دیکھو گے تو شمالی ہند کی حسینہ کو بھول جاؤ گے !چنانچہ اب اس بہادر’ بے خوف مرد نے حیدر آبا د دکن کی ایک خاتون سے شادی کی ۔سو رہا تھا کہ محسوس ہوا کہ کوئی بہت نرمی سے پاؤں دبا رہا ہے۔ پھر ایک مترنم آواز کانوں سے ٹکرائی ۔”سرتاج!میری زندگی آپ پر قربان، !ذرا سنیئے!غنچے باغ میں چٹخ رہے ہیں ، اور آپ کا نام لے کر چٹخ رہے ہیں ۔ سورج کی پہلی کرنیں شنبم کے قطروں پر پڑ رہی ہیں۔ ہر قطرے میں قوس ِ قزح ہے اور ہر قوس قزح میں سرتاج کی شبیہہ مبارک نظر  آرہی ہے۔ کھڑکی کا پردہ ہٹا کر دیکھیے ‘شعاع سحر قدم بوسی کی اجازت مانگ رہی ہے۔ صبح کی سفیدی میرے سرتاج کو سلام پیش کرتی ہے !سرتاج !یہ دیکھیے ‘آپ کے سرہانے میں نے چنبیلی کے تازہ پھول رکھے ہیں اور دیکھیے رکابی میں سیب کا مربہ دھرا ہے ۔ساتھ خمیرہ گاؤ زبان عنبری جواہر والا رکھا ہے۔ اور آب خورے میں شہد ملا پانی “۔
مرد نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا ۔اُسے تو جیسے زندگی ہی میں جنت مل گئی تھی۔جس بیوی کے گھر میں رات بسر کرتا ،صبح اتنے پیار سے اٹھایا جاتا کہ اپنے آپ کو شہنشاہ لگتا۔
پھر بنگالی سے شادی کی ۔سویا ہوا تھا کہ کانوں میں موسیقی کی ہلکی ہلکی لے سنائی دینے لگی۔ نیم وا آنکھوں سے دیکھا تو پلنگ سے ذرا ہٹ کر ‘نئی نویلی ‘بنگالی دلہن ‘قالین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی ہے ۔لمبے بال کاندھوں سے نیچے آرہے تھے ۔ساری کا رنگ دلکش تھا۔ ہاتھ میں  رباب تھا۔ بجاتی تھی تو جیسے نغمے آسمان سے براہ راست اتر رہے تھے ۔گیت ختم ہوا’ تو حسینہ اٹھی’ہاتھ ماتھے تک لے جاکر آداب بجا لائی ۔گلاب کا پھول نذرانے میں پیش کیا اور کہا’حضور !باغ سے مینا نے سندیسہ بھیجا ہے ۔پرندے آپ کے اٹھنے کے منتظر ہیں۔پاؤں مسہری سے نیچے رکھیں گے تو ازراہِ کرم فرش پر نہ رکھیے گا ‘کنیز کی پلکوں پر رکھیے گا !سعادت ہوگی !آپ میرے سرتاج ہیں ‘خوش بختی کنیزپر رشک کرے ہے!”
واہ واہ!کیا انداز ہے بیدار کرنے کا !کیا ہی خوش قسمت میاں تھا! یوپی کی اوردکن کی اور بنگال کی بیویوں نے کیسے پھولوں کی سیج پر رکھا۔پھر کسی نے مشورہ  دیا ۔میاں !پنجابی عورت سے شادی نہ کی تو جیسے دنیا میں کچھ بھی نہ دیکھا ۔اب وہ نعمتوں کا عادی ہوچکا تھا۔ سوچا ایک اور سہی! کیا حرج ہے۔ پانچوں گھی میں تو ہیں ہی’سر بھی کڑاہی میں ڈال دیتے ہیں ۔چنانچہ ایک خوبصورت ‘نازک اندام ‘پنجابی دوشیزہ سے شادی رچائی۔سو رہا تھا تو یکدم کسی نے دوہتڑ کمر کے عین درمیان میں رسید کیا ،پھر ایک کرخت صورِ اسرافیل جیسی آواز کانوں کے پردے پھاڑتی کمرے کی چھت سے ٹکرائی، وے مرن جوگیا !ہُن اٹھ بھی پَو، سارا دن مردار بن کے ستا ہی رہیں گا؟جا نکڑ آلی ہٹی توں مینوں دہی لیا کے دے۔میں تے سویرے سو یرے لسی نہ پیواں تے جگر چے ساڑ ہوندا اے۔ (ابے ‘مر جائے تو اب اٹھ جا!کیا مردار بن کے سارا دن  پڑا رہے گا؟نکڑ والی دکان سے مجھے دہی لا کردے صبح صبح لسی نہ پیوں تو جگر میں تپش محسوس ہوتی ہے”)
مگر ہماری  یہ صبح تو بالکل مختلف تھی،بیگم نے ناز برداری سے اٹھایا،اور خوش خبری  دی کہ ملک کے حالات بدلنے لگے ہیں ۔تفصیل پوچھی تو کہنے لگیں ایک ایسی شخصیت نے میاں محمد نواز شریف صاحب سے ملاقات کی ہے کہ بس یوں سمجھیے اس ملک کے دلدر دور ہونے لگے ہیں۔ میں نے بستر پر لیٹے لیٹے کہا ۔مولانا فضل الرحمن ہی اکثر ملاقات کرتے ہیں میاں صاحب سے !وہی ہوں گے!بیگم مسکرائی ‘کہا نہیں !مولانا تو تب ملتے تھے جب میاں صاحب وزیراعظم تھے۔اب مولانا میاں صاحب سے نہیں ‘خاقان عباسی سے ملتے ہیں۔
نیم دراز ہوکر انٹر نیٹ پر اخبار دیکھنے شروع کیے۔پہلے صفحے پرمشہور و معروف شخصیت کی میاں صاحب کے ساتھ ملاقات والی تصویر چھپی ہوئی تھی !میں نے بھی خدا کاشکر ادا کیا ۔ سبحان اللہ !کیا نعمت غیر متبرقہ ہے مسلم لیگ نون کے لیے اور پورے ملک کے لیے کہ اس شخصیت نے میاں صاحب سے ملاقات کی اور اتنی ہائی پروفائل ملاقات کہ پہلے صفحوں پر تصویر جگمگا رہی ہے !اس شخصیت کی برکات اور حکمت بھرے پند و نصائح کو تو ٹرمپ جیسے کرہ ارض  کے بارشاہ ترستے پھررہے ہیں ۔ بس اسی ملاقات کی دیر تھی،اب جملہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ تعلیم سے لے کر زرعی اصلاحات تک’مہنگائی سے لے کر صحت تک’ ملک کی عالمی تنہائی سے لے کر اقتصادی خوشحالی  تک۔ اس ملاقات کے نتیجہ میں سارے مسائل شبنم کے قطروں کی طرح ہوا میں تحلیل ہوجائیں گے !میاں صاحب کی قسمت جاگی ہی ہے تو پورے ملک کا نصیبہ  اترانے لگا ہے! ایسی ہی تو شخصیات ہیں جن کے دم قدم سے یہ ملک قائم ہے !انہی کی بدولت تو اس سرزمین پر دھوپ اور چاند کی کرنیں اترتی ہیں ،اور دریاؤں میں پانی ہے’ درختوں پر پھل ہیں اور آسمانوں سے بارشیں برستی ہیں !خدارا!ایسی ہمہ صفت ‘ہمہ گیر’شخصیات کو اس ملک کی سیاست میں ہمیشہ رکھے!
ان کا نام بتانے سے فقیر گریز کرے گا !قلم کو مشک و عطر سے دھویا نہیں ! نام کیوں  کر لکھوں !ہاں ! چار اشارے دے دیتا ہوں !بوجھو تو جانیں ۔صحافت ‘کڑاکے’چودھری شجاعت حسین’اور “وفاداری”
وفاداری بھی عام وفاداری نہیں !غضب کی وفاداری!

Monday, February 26, 2018

گنتی میں بے شمار تھے کم کردیے گئے

 فرض کیجیے  احد چیمہ بے قصور ہیں ۔ جو کچھ کہا جارہا ہے ۔سازش ہے۔پھر بھی لاہور افسر شاہی کا ردِ عمل ‘بیوروکریسی کے مقام اور مرتبے سے مناسبت نہیں رکھتا۔ سول سروس کی ایک روایت ہے۔اعلی سرکاری ملازمتوں کا ایک امیج ہے۔ پنجاب بیوروکریسی جو طرزِ عمل دکھا  رہی ہے اس سے احد  چیمہ کا کیس مضبوط نہیں ‘کمزور ہورہا ہے۔
یہ جو نیب کو کہا جارہا ہے کہ
“اداروں کو پتہ ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں
اور کہاں سے آرہے ہیں “
تو اس سے خوف اور شدید احساسِ کمتری کی بُو آرہی ہے۔آپ کون ہیں اور کہاں سے آرہے ہیں ؟آپ جہاں سے بھی آرہے ہیں ، قانون سے بالا تر تو نہیں !
افسر شاہی کے چند ارکان جس ردِ عمل کا اظہار کررہے ہیں ‘اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بیوروکریسی دو  گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ صوبائی سروس کے ارکان کو “برہمن “ گروپ نے ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔ صوبائی سول سروس ایسوسی ایشن پنجاب کے سیکرٹری جنرل نوید شہزاد نے نشاندہی کی ہے کہ احدچیمہ صاحب نے ان کی سروس سے تعلق رکھنے والے 73 افسروں کو گرفتار کرایا۔ ان میں خواتین بھی شامل تھیں ۔ اب اپنی گرفتاری پر وہ صوبائی سول سروس سے کیا امید رکھتے ہیں ؟
یہ بھی خوب کہا کہ نیب کے قوانین میں ترمیم کی جائے تاکہ بڑے مگر مچھ بچے رہیں ۔ یہ” تجویز” بھی سننے میں آئی کہ نیب کے چیئرمین کو گرفتار کر لیا جائے ۔اس سے لطیفہ یاد آرہا ہے کہ جب امریکی صدر بل کلنٹن کٹہرے میں کھڑے تھے اور ایک وکیل ان کے بخیے ادھیڑ رہا تھا اور پرخچے اڑا رہا تھا تو شریف برادران نے کلنٹن کو سادہ سا پیغام بھیجا تھا کہ یہ وکیل ایک ایس ایچ اوکی مار ہے! یہ تو لطیفہ ہے۔ مگر حقیقی صورت حال بھی لطیفوں کی خیالی دنیا سے زیادہ مختلف نہیں ۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خان اپنی کتاب 
Glimpses into the corridors of power
 میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں ۔جب وزیراعظم نواز شریف اور اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان اختلافات بڑھے تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ چیف جسٹس کو قومی اسمبلی کی “استحقاق کمیٹی” کے سامنے پیش کیا جائے ۔گوہر ایوب لکھتے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف اوراستھقاق کمیٹی کے چیئرمین کو بتایا کہ ایسا نہ کریں۔ اگر کیا بھی تو چیف جسٹس نہیں آئیں گے، اور یوں قومی اسمبلی اور استحقاق کمیٹی کی بے حرمتی ہوگی ۔گوہر ایوب لکھتے ہیں
“وزیراعظم (نواز شریف) نے مجھے وزیراعظم ہاؤس ساتھ چلنے کو کہا۔کار میں انہوں نے اپنا ہاتھ میرے زانو پر رکھا اور کہا !گوہر صاحب !کوئی طریقہ بتائیں کہ چیف جسٹس کو گرفتار کیا جائے اورایک رات کے لیے اسے جیل میں رکھا جائے
گوہر ایوب آگے لکھتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ ایسا سوچیں بھی مت!
مگر نواز شریف اپنی سوچ سے باز نہ آئے جلد ہی سپریم کورٹ پر منظم حملہ کرادیا گیا۔ ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب جو وزیراعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری تھے۔اس  ہجوم کی قیادت کررہے تھے۔ معروف انگریزی روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق ممبر قومی اسمبلی طارق عزیز نے قائد اعظم کی تصویر والا فریم اتار کر پھینکا جو ٹوٹ گیا۔
اس واقعہ کو ،اس مائنڈ سیٹ کو اور اس ذہنیت کو پس منظر میں رکھ کر سوچا جائے تو کلنٹن کو دی جانے والی نصیحت اتنی غیر حقیقی بھی نہیں لگتی اگر وزیراعظم چیف جسٹس کو ایک رات جیل میں رکھ کر سبق سکھانے کا پلان بنا سکتے ہیں تو پنجاب کی خدمات کلنٹن کو بھی مہیا کی جاسکتی تھیں!
 یہ سب تو سیاست دانوں کے بارے میں تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ اب بیوروکریسی ‘جو اس سطح پر کبھی نہیں آئی تھی’ اس سطح پر اتر آئی ہے ۔کیا عجب کل کو چشم فلک یہ منظر بھی دیکھے کہ پنجاب کے ڈی ایم جی افسروں کا ایک بے قابو ہجوم’ چیف سیکرٹری یا ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی قیادت میں نیب ہیڈ کوارٹر پر حملہ کررہا ہو اور کوئی افسر طارق عزیز کا کردار ادا کرکے تصویریں پھینک اور توڑ رہا ہو۔
ہر سنجیدہ پاکستانی اچھی طرح جان گیا ہے کہ پنجاب میں شریف برادران کے طویل اقتدار نے بیورو کریسی کو طاعون زدہ کردیا ہے۔ اس بیوروکریسی کا غالب حصہ اب ریاست کا نہیں ،حکومت کا بھی نہیں ‘ صرف ایک خاندان کا وفا دار بن کررہ گیا ہے۔ یہ جو ہیٹ پوش وزیراعلی ہی جلسے میں اعلان کرتے پھرتے تھے کہ ایک پیسے کی کرپشن بھی ثابت  نہیں کی جاسکتی تو اس اعلان کا پول کھل گیا ہے۔ احد چیمہ کی گرفتاری پیا ز کا اوپر والا چھلکا ہے۔ اب ایک ایک  ایک کرکے سارے چھلکے اتریں گے اور آخر میں “اعلی “شخصیت بھی کٹہرے میں نظر آئے گی ۔اس انجام سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ نیب کے موجودہ چیئرمین کو ہٹا کر’ پنجاب کے موجودہ چیف سیکرٹری صاحب کو نیب کا چیئرمین تعینات کیا جائے۔ احد چیمہ صاحب کو باعزت بری کرکے نیب کے صوبائی سیٹ اپ کا سربراہ مقرر کردیا جائے۔
جناب ہارون الرشید نے کل امریکہ میں مقیم پاکستانی کے جس خط کے مندرجات لکھے ہیں انہیں پڑھ کر رحم آتا ہے۔ اس عفیفہ پر جس نے بیوہ ہو کر  بچوں کو پڑھایا لکھایا اور اس قابل بنایا کہ سول سروس کا امتحان پاس کرلیا،مگر افسوس !انسان قناعت کو پسند نہیں کرتا نہ انتطار! “ہل من مزید" کی طلب میں لمبے ہاتھ مارتا ہے اور احتیاط اور دیانت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔یہ بات نہ جانے اتنے پڑھے لکھے لوگ کیوں نظر انداز کردیتے ہیں کہ کوئی شے اس دنیا میں چھپتی نہیں ۔ ہر شے سامنے آجاتی ہے۔ جو بہت زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں ‘جیسے زرداری صاحب! جیسے شریف برادران! دیر سے پکڑے جاتے ہیں ۔جو کم طاقت ور ہوتے ہیں جیسے احد  چیمہ ‘جیسے ظفر حجازی وہ نسبتاً جلد پکڑے جاتے ہیں۔
آہ! بیوروکریسی ہمیشہ ایسی نہیں تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ بیوروکریٹ ‘ سیاستدانوں کی تجاویز کو اور حکمرانوں کے احکام کو قانون کی کسوٹی پر پرکھتا تھا۔ قانون اجازت نہ دیتا تو انکار کردیتا تھا! یہ طرزِ عمل بھٹو صاحب نے آکر تبدیل کیا۔ سیاسی بنیادوں پر بیوروکریسی میں بہت سے لوگوں کو زبردستی داخل کیا گیا۔ اس “نودولتیا” افسر شاہی نے قوانین کو ضابطوں کو ‘ پاؤں کے نیچے روندنا شروع کردیا۔ پھر دیکھا دیکھی سب نے اسی رستے پر چلنا شروع کردیا ۔سوائےبہت چند افسروں کے جو تب سے آج تک گنتی میں کم رہے ہیں۔ عالم تاب تشنہ کا شعر یاد آرہا ہے
گنتی میں بے شمار تھے کم کردیے گئے
ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کردیے گئے!
قوانین کی پامالی کو جنرل ضیا الحق نے عروج پر پہنچایا۔ ضابطوں کی دھجیاں اڑیں ۔ قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھا ۔ دس دس سال صدر ضیا الحق نے اپنے چہیتے افسروں کو بیرون ملک ایک ہی پوسٹ پر رکھا۔ دارالحکومت کے ماسٹر پلان کے پرخچے اڑ گئے۔ گرین بیلٹ کو کاٹ کاٹ کر پلاٹ بنائے گئے، کیا زرعی فارم ‘کیا نرسریوں کے پلاٹ ، کیا رہائشی پلاٹ ،جوتوں میں دال بٹی اور خوب بٹی۔
ارشاد حقانی مرحوم نے لکھا کہ ایک بار جنرل ضیا الحق ترکی کے دورے پر گئے۔ ترکی کے صدر نے مہمانوں سے تعارف کرایا۔ایک صاحب کھلاڑی تھے یا اداکار یا آرٹسٹ ‘ان کے بارے میں ترک وزیراعظم (یا صدر) نے بتایا کہ “یہ بیمار ہیں ، میں انہیں علاج کے لیے امریکہ بھیجنا چاہتا ہوں مگر وزارتِ خزانہ اجازت نہیں دے رہی “
ایک طرف ایسی مضبوط بیوروکریسی کہ صدر (یا وزیراعظم) کی بات نہیں مان رہی اور قانون پر عمل پیرا ! دوسری طرف کا احوال دیکھیے! صدر ضیا الحق نے اس آرٹسٹ (یا کھلاڑی کو ‘جو بھی تھا) وہیں سے پاکستان کے خرچ پر امریکہ بھجوانے کے احکام جاری کردیے۔ !!کون سی وزارت خزانہ اور کہاں کے بیوروکریٹ!
اگر زیادتی بھی ہورہی ہے تو افسر شاہی کو اپنے بلند اور متین مقام سے نیچے نہیں اترنا چاہیے ۔عدالتوں میں قانونی جنگ لڑیں ۔ اگر آپ کا دامن صاف ہے تو ایک نہیں ایک ہزار نیب بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی
مگر ایسا طرزِ عمل نہیں  اختیار کرنا چاہیے جس سے پکڑے جانے والے افسران کو تقویت کے بجائے ضَعف اور نقصان پہنچے۔

Sunday, February 25, 2018

“لاہور نوکر شاہی “کے نام کھلا خط



“لاہور نوکر شاہی “سے مراد سول سروس کے ایک خاص گروپ کے وہ چند افراد ہیں جنہوں نے اپنا مستقبل ریاست کے بجائے ایک خاندان سے وابستہ کررکھا ہے۔

لاٹ صاحب!

تمہارے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ تم تاخیر سے پیدا ہوئے ۔تمہیں خلجیوں  ،لودھیوں ، تغلقوں یا مغلوں کے زمانے میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔ تم درباری ہو مگر افسوس !صد افسوس! تم باضابطہ درباروں کے زمانے کو مِس کر بیٹھے ہو! تم ہمایوں کے زمانے میں ہوتے تو دن کو اس کے درمیان میں دست بستہ کھڑے رہتے ‘ سر شام اس کے جوتے صاف کرتے۔ پھر اس کے گھوڑے کو نہلاتے ۔مگر رات کے اندھیرے میں تم   شیر شاہ سوری کے سیکرٹری سے درخواست کرتے کہ   شیر شاہ سوری سے  دس منٹ کی ملاقات کرادے۔ شیر شاہ سوری تخت نشیں ہوتا توتم اس کے دربار میں بھی دست بستہ کھڑے ،ملتے !پھر تم اکبر کے دربار میں شیر شاہ سوری کے خلاف کتاب لکھنے کی پیشکش کرتے اور اس کام کے لیے کمپنی بناتے! اور کمپنی  کا حساب کتاب کبھی نہ ہونے دیتے 

تم انگریزوں کے زمانے میں پیدا ہوئے ہوتے تو تمہارے ساتھ انگریز  باس وہی سلوک کرتے جو جان نکلسن نے مہتاب سنگھ کے ساتھ کیا تھا ۔۔ہوسکتا ہے جان نکلسن کا نام تم نے سنا ہو مگر مہتاب سنکھ کے بارے میں تمہیں نہیں معلوم! اس لیے کہ پنجاب میں تعیناتی کے باوجود پنجاب کی تاریخ سے تم مکمل نابلد ہو! آخری کتاب  تم نے شاید جنرل سائنس کی پڑھی تھی۔ وہ بھی سی ایس ایس کے لیے -صوبے کے حکمران اعلٰی کی اردل میں شامل ہونے کے بعد کتابیں پڑھنے کی ضرورت بھی کیا تھی! دربار کے ایک کونے میں کھڑا رہنے کی جگہ مل جائے تو نسلیں “سنورنے” کا امکان روشن ہوتا ہے۔ کتابیں پڑھنے سے کیا روشن ہوگا ؟ دماغ! دماغ تو تم نے نکلوا کر باہر پھینک دیا۔ جہاں دماغ تھا وہاں اب چیری بلاسم پالش کی ڈبیا اور جوتوں والا برش ہے!

جیسے ہی سی ایم ہاؤس پہنچے’ سامان نکالا اور کام شروع کردیا!

جعلی لاٹ صاحب بننے کے آرزو مند اے گروہِ دریوزہ گراں !

مہتاب سنگھ !رنجیب سنگھ کے زمانے میں بڑا فوجی افسر تھا !—-تھا وہ تمہاری قبیل کا ! جلد ہی برطانوی افسروں کا خدمت گار بن گیا کپور تھلہ کے راجہ کا قریبی عزیز ہونے کی وجہ سے خناس اس کے ذہن میں برتری کا کچھ زیادہ ہی تھا۔ نکلسن اپنا مشہور فوجی دستہ پنجاب سے دہلی لے جارہا تھا جہاں  انگریزوں نے دہلی کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ جالندھر کا کمشنر ان دنوں ایڈورڈ لیک تھا۔ کمشنر نے گھر دعوت کی۔مہمانوں میں مہتاب سنگھ بھی شامل تھا۔ انگریز مہمانوں کی دیکھا دیکھی مہتاب سنگھ جوتوں سمیت اندر آیا۔ دعوت ختم ہوئی ‘مہمان رخصت ہونے لگے۔ جان نکلسن نے بلند آواز میں مہتاب سنگھ کو حکم دیا وہ بھی اردو میں !کہ جوتے اتارو اور انہیں ہاتھ میں پکڑ کر باہر جاؤ میں چاہتاہوں تمہارے نوکر تمہاری ذلت دیکھ سکیں ، “مہتاب سنگھ نے حکم کی تعمیل کی”!

انگریزی عہد میں تم نے افسر تو کیا لگنا تھا ‘کفش بردار ہی ہوتے۔ جو کچھ بنوں کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے ایک قبائلی سردار کے ساتھ کیا تھا’ تمہارے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک ہوتا اور تم اسے بھی پی جاتے!ا س قبائلی سردار نے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ملاقات کے دوران زمین پر تھوک دیا !انگریز نے اپنے نوکر کو حکم دیا کہ تھوکنے والا اپنی تھوک چاٹے اور پھر باہر نکل جائے !ایسا ہی ہوا!

قدرت نے تمہیں سنہری موقع دیا تھا کہ اس نے اعلی ترین امتحان میں تمہیں کامیابی دی!اب تمہارے لیے دو راستے تھے ۔ایک راستہ دیانتداری، اصول پسندی اور قانون پرستی کا تھا۔ تم اپنے قوت بازو کا سہارا لیتے ۔انصاف کرتے۔اپنی تقدیر کسی فرد یا خاندان سے وابستہ کرنے کے بجائے اس قدرت خداوندی سے وابستہ کرتے جس نے تمہیں کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ تم میں سے اکثر ایسے عام خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو لوئر مڈل کلاس بلکہ لوئر کلاس سے ہیں ۔ تمہیں سب سے زیادہ اہمیت اپنی شہرت کو دینا چاہیے تھی۔ نیک نام بننے کو ترجیح دیتے۔ سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہتے۔ فائل پر ضمیر کی آواز سن کر کچھ لکھتے۔تم پر ابتلا کا دور آتا ،مگر آخر کار تم کامیاب ہوتے ۔تم قوم کی خدمت کرتے ۔قوم تمہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتی!

افسوس ! تم نے دوسراراستہ اختیار کیا تم نے فیصلہ کیا کہ اپنی تقدیر کسی بڑے آدمی سے وابستہ کرلو! تم نے کرلی! اب تمہارا قلم اپنا رہا نہ تمہاری زبان! دماغ اپنا رہا نہ دل! دل پر سیاہ دھبہ پھیلنے لگا یہاں تک کہ وہ سارے دل پر چھا گیا۔تم ریاست کے ملازم تھے’تم حکومت کے نوکر بن گئے۔ تم پبلک کے سرونٹ تھے۔تم ایک فرد’ایک کنبے ‘ایک خاندان کے سرونٹ بن گئے۔ تمہارا خواب ایک متواضع زندگی گزارنے کے بجائے اعلی ترین طبقے میں شمولیت بن گیا۔ تم نے کسی کو خوش کرنے کے لیے غلط کو درست کہا ۔پیلے کو ارغوانی اور دھانی کو سیاہ قرار دیا!تم نے اپنی لٹیا ڈبو دی۔ تم نے اپنے پاؤں  پر کلہاڑی ماردی! تم یہ بھول گئے کہ جو مال جس راستے سے آتا ہے اسی راستے سے چلا بھی جاتا ہے۔

جن سینئرز کو تم نے آئیڈیل بنایا تھاایک ان میں سے مکافات عمل کا شکار ہوگیا! اب تم میں کھلبلی مچ  گئی ہے۔ تم سب دوڑتے پھرتے ہو ،کبھی ادھر کبھی اُدھر۔ اسی کالم نگار کا شعر تم پر صادق آرہا ہے!

غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

محل پہ ٹوٹنے والا ہے آسماں جیسے

تم احتجاج کرنے کا پروگرام بنارہے ہو! تم قراردادیں پیش کر اور پاس کررہے ہو !تم چیف سیکرٹری کے پاس جاکر رورہے ہو  کہ اب تمہارا اور تمہارے طائفے کا کیا بنے گا ؟مگر تم یہ بھول رہے ہو کہ ایسی کسی سرگرمی سے تم اپنی شہرت تبدیل نہیں کرسکتے تم پر جو چھاپ لگ گئی ہے وہ تمہاری ریٹائرمنٹ تک لگی رہے گی۔ تم اگر نوکری کرتے بھی رہے تو یہ اب نوکری ہی رہے گی۔ ریاست کی ملازمت نہیں ہوگی!

تمہارا ایک ساتھی گرفتار ہوا تو تم بھول گئے کہ تمہارے جیسوں کے احکام پر اس ملک کے لاکھوں عزت دار گرفتار ہوتے ہیں !تمہارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی! تمہاری کچہریوں کے باہر سائل ہفتوں مہینوں کھڑے رہتے ہیں ۔ تم صوبے کی کسی ایک کچہری ‘کسی ایک تحصیل کا نام بتاؤ جہاں رشوت کے بغیر کسی زمین’ کسی مکان’ کسی جائیداد کا انتقال ہوتا ہو۔ تمہاری کارکردگی صفر ہے!تم اپنے تحصیلدارو ں’پٹواریوں او ریڈروں کے سامنے ننگے ہو! تم میں سے اکثر کی آمدنی مشکوک ہے۔ تمہیں شرم آنی چاہیے کہ تم قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر اتر آئے ہو! تم چاہتے ہو کہ تمہیں کھلی چھٹی مل جائے۔ تم قانون سے ماورا رہو! تو کیا تم زمین پر نہیں پیدا ہوئے،؟ تو کیا تم آسمان سے اترے ہو ؟

آج تمہیں یاد آگیا کہ سول سرونٹس کو آئینی تحفظ مہیا کیا جانا چاہیے۔ آج تم مطالبہ کررہے ہو کہ ایک سیٹ پر دو سال کی تعیناتی یقینی بنائی جائے ۔آج تم سیاسی سطح پر افسروں کی تضحیک ہو تو حکومت ایکشن لے۔ یہ تمہیں اس وقت نہ یاد آیا جب آفتاب چیمہ اور نیکوکارا جیسے افسروں کو ظلم کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ تین سال نیکوکارا اپنی ایمانداری کی سزا بھگتتا رہا۔

اس وقت تم نے کوئی اجلاس نہ بلایا۔ تم نے کوئی احتجاج نہ کیا۔ آج تمہاری دم پر پاؤں آیا ہے  تو تم کھڑے ہوگئے ہو بلبلا اٹھے ہو! تم اس وقت کہاں تھے جب ایک افسر کو دھمکی دی گئی تھی کہ فلاں ایم این اے کے ڈیرے پر جاکر کھانا کھاؤ ورنہ چلتے بنو! ااس نے کھانا کھانے سے انکار کردیا اور اسے وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ اس وقت تمہارے ہونٹوں پر ہیٹ پوش آقا کی نوکری مہر کی طرح ثبت رہی۔ تم نے اُف تک نہ کی۔تم نے چوں نہ کی! آج جب”کاسا” کمپنیاں اور بتیس بتیس کنال کی داستانیں منظر عام پر آئی ہیں تو تم سب  کا ئیں کائیں کرکے اکٹھے ہوگئے ہو !کتنا گھناؤنا رویہ ہے تمہارا!


اپنی زندگی کا جو مقصد تم نے متعین کر رکھا ہے اسی سے تمہارے ذہن کی “بلندی” کا پتہ چل جاتا ہے۔ جی آر او کے ایک مکان سے اوپر تمہیں کچھ نظر نہیں آتا ۔

پھر ایک بیرون ملک پوسٹنگ ! تجوریاں بھر لینے کے مواقع۔، پھر ریٹائرمنٹ کے بعد دو تین چار سال کے لیے مزید کورنش بجا لانے کا امکان! یہ  ہے تمہارے ذہن کی معراج! ان مقاصد کے حصول کے لیے تم اپنی سروس کے ماتھے پر بھی داغ کی صورت اختیار کرلیتے ہو زمین کے لیے بھی بوجھ بن جاتے ہو۔

تم اس ملک کے بیٹۓ نہیں !تم اپنی پست خواہشوں کے غلام ہو! تم کبھی پھل پھول نہیں سکتے۔ جس “کامیابی” کا راستہ تم نے چنا ہے وہ کامیابی نہیں ‘ناکامی ہے۔ جب تک اس ملک میں ایسے بیوروکریٹ موجود ہیں جو حکومتوں کے نہیں ‘ ریاست کے وفادار ہیں تب تک تمہارے گروہ’ جتنے بڑے ہوں ‘پرکاہ کی اہمیت نہیں کرکھتے۔  کاش تم نے ان دوبھائیوں کے بارے میں پڑھا ہوتا جن میں ایک تمہاری طرح بادشاہ کا خدمت گار تھا اور دوسرا اپنے قوت بازو پر بھروسہ کرتا تھا ایک دن خدمت گار دربان نے بھائی کو لعن طعن کی کہ بادشاہ کی غلامی کیوں اختیار نہیں کرتے تاکہ محنت و مشقت سے بچ جاؤ۔ بھائی نے   جواب دیا تم اپنی محنت اور اپنے ضمیر پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے تاکہ چاکری کی ذلت سے بچ جاؤ۔ اس لیے کہ چٹنی سے روٹی کھانا’سنہری پیٹی باندھنے اور ہاتھ باندھ کر کھڑے رہنے سے بہتر ہے۔ مسخرے حاکم کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہنے سے بہتر یہ ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں چونا گوندھ لے۔ ہاتھ گل جائیں مگر عزت نفس سلامت رہے۔ دو روٹیاں کھانے والے کو کمر دوہری کرکے جھک کر سلام کرنا پڑتا ہے ۔جو ایک روٹی پر قناعت کرتا ہے’وہ جھکتا نہیں !تن کر سیدھا کھڑا ہوتا ہے۔


Friday, February 23, 2018

محض کوتاہ نظر ی ہے؟یا تہہ میں کچھ اور ہے؟؟


کاٹھ کی ہنڈیا چولہے پر کتنی بار چڑھ سکتی ہے؟
آمریت زدہ پنجاب حکومت  کاٹھ کی ہنڈیا ہے ۔اس کا انجام قریب ہے!
رسی بہت دراز ہوچکی !اب یہ رسی کھینچی  جارہی ہے۔ اس رسی کےساتھ بندھے ہوئے طاقتور افراد، احد چیمہ اور فوا د حسن فواد جیسے طاقت ور افراد، رسی کے ساتھ کھنچے چلے آرہے ہیں !قامتیں دُہری ہورہی ہیں ! بدن کا سارا لہو کھنچ کر چہروں پر آرہا ہے۔
یہ ازل سے ہوتا آرہا ہے۔اقتدار کا عروج انسان کو اندھا کردیتا ہے اور بہرا کردیتا ہے اور گونگا کردیتا ہے۔ اس کا ذہن شل ہوجاتا ہے ،وہ کچھ سننے،سمجھنے اور دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔ اقتدار کے  سنگھاسن پر بیٹھا ہوا شخص بظاہر طاقت ور ہوتا ہے مگر وہ ایک فالج زدہ اپاہج کی طرح ہوتا ہے۔اسے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ وہ دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اندھے اقتدار کی سلائی اس کی آنکھوں میں بھر جاتی ہے ۔ پھر اسے اس کے حواری لیے لیے پھرتے ہیں ، ان حواریوں کے  اپنے مفادات ہوتے ہیں ۔ اقتدار کا پگھلا ہوا تانبا اس کے کانوں میں پڑتا ہے۔ پھر اس کی سماعت مختل ہوجاتی ہے۔ پھر وہ وہی کچھ سنتا ہے جو مفادات سنوانا چاہتے ہیں ۔
اللہ اللہ کیا غرور تھا ،سب سے بڑے صوبے کے حکمران اعلی کا !اس نے کبھی کسی کےسوال کا جواب نہیں دیا۔ اگر کوئی پریس کانفرنس ہوتی تو بھی مقرر کردہ مہرے پسندیدہ سوال کرتے۔پھر یہ حکمران  چھلاوے کی طرح یہ جاوہ جا۔ صوبائی اسمبلی کو اس نے اتنی اہمیت بھی نہیں دی جتنی شو ہارن کو دی جاتی ہے۔’جتنی لکڑی کے اس چھوٹے ٹکڑے کو دی جاتی ہے جس کی مدد سے پیٹھ کھجائی جاتی ہے ۔تکبر کسی اسمبلی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ رہی کابینہ!  تو وہ  کس چڑیا کا نام تھا۔ حکمران قصور جاتا یا شیخؤپورہ ‘یا حافظ آباد’ متعلقہ وزیر کانام کبھی کسی نے نہ سنا۔ کبھی پریس میں نہ آیا۔ ہسپتال ہوتایا کوئی اور ادارہ’ حکمران اعلی اس ادارے کے سربراہ سے براہ راست پوچھ کچھ کرتا۔ کبھی کوئی ایسی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔
دیانت اور شفافیت کا نعرہ لگانے والے حکمران اعلی کے دور کی صرف دو مثالیں ہی کافی ہیں ۔دیانت اور شفافیت کا پردہ چاک کرنے کے لیے۔ ماڈل ٹاؤن ہلاکتوں کے معاملے میں جو ٹاپ لیول بیوروکریٹ ملوث تھا اسے عالمی تجارتی ادارے میں سفیر کے عہدے پر متعین کردیا گیا۔ کیوں ؟ کس اصول کے تحت ؟کس قائدے کی رُو سے ؟کس ضابطے کے حساب سے؟ کیا نیب  اس تعیناتی کے اندر جھانکے گی؟
ڈی پی او بہاولنگر شارق کمال صدیقی کے متعلق چند روز بیشتر جناب روف کلاسرہ نے تفصیل سے لکھا۔ ایم این اے کے ڈیرے پر پولیس نےملزما ن کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپہ مارا ۔دوسرے دن ڈی پی او کو حکم دیا گیا کہ اسی ایم این اے کے ڈیرے پر جاکر کھانا کھاؤ۔ پولیس کے سربراہ نے اس پولیس افسر کو “کھانا کھانے” کے لیے تین گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا اور پھر اس کا وہاں تبادلہ کردیا گیا۔ انگلی لہراکر ‘تقریر کرنے والے حکمران اعلی سے کوئی اس بارے میں پوچھے! کیا یہ ہے وہ دیانت اور شفافیت جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے؟
ایک مدت سے پنجاب بیورو کریسی کو اس خاندان نے اور اس حکومت نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ جی آر او کے محلات ‘گاڑیوں کے فلیٹ ،بیرون ملک تعیناتیاں !ریٹائرمنٹ کے بعد کی امیدیں اور تمنائیں !اس بیوروکریسی نے سمجھا تھا کہ ہیٹ پوش حکمران اعلی ہمیشہ قائم رہے گا! قائم و دائم !مگر قدرت کے کھیل نرالے ہیں ۔دو سال کی چھٹی لے کر بیرون ملک جانے کے لیے پر تولنے والا بیوروکریٹ نیب کے ہتھے چڑھ گیا۔ سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔
اب ان احمد چیمہ اور   فواد حسن فواد جیسے دست ہائے راست کو بچانے کے لیے ساری بیوروکریسی کو سان پر چڑھانے کی کوششیں شروع ہورہی ہیں ۔ صوبے کے چیف سیکرٹری نے احد چیمہ کی گرفتاری  کے فوراًبعد افسروں کا اجلاس بلایا اور “احتجاج” کی تجویز سامنے رکھی۔تجویز تھی یا حکم! کہ اس گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا جائے۔نیب نے گرفتار کیوں کیا؟ حساب کتاب کیوں لیا جارہا ہے؟ حساب کتاب اور وہ بھی پنجاب بیوروکریسی سے!
مگر زبردستی بلایا جانے والا یہ اجلاس ناکامی کا شکار ہوا ۔افسروں نے بتا دیا کہ اس اجلاس میں شریک ہونے کے لیے “اعلی “سطح سے فون آئے۔رہا احتجاج اور کام چھوڑنے کا پلان تو’ افسروں کی اکثریت نے اس کی مخالفت کردی۔ کچھ کو کہتے سنا گیا کہ جنہوں نے گاجریں کھائیں ‘ان کے پیٹ میں اگر درد اٹھ رہا ہے تو سب کو کیوں ساتھ ملایا جارہا ہے،کچھ نے عقل سکھانے کی کوشش کی کہ بد حواس ہوکر ادھر ادھر ہاتھ نہ مارو۔ اگر گرفتارشدہ افسر بے قصور ہے تو اس کی مدد قانونی جنگ لڑ کرکرو۔ سب سے قابلِ رحم بیان پنجاب حکومت کے ترجمان کا تھا کہ “ چیمہ صاحب ایک دیانت دار اور فر ض شناس افسر ہیں ۔ ان کے خلاف نیب کا ایکشن بلا جواز ہے”۔ !چلیےمسئلہ ہی حل ہوگیا۔ حکومت کے ترجمان نے فیصلہ سنا دیا۔ کہ افسر دیانت دار ہے اور فرض شناس بھی! اب کسی مقدمے کسی تفتیش کسی  آڈٹ کسی کارروائی کی ضرورت نہیں ! کیا انداز ہے فیصلہ سنانے کا !اور کیا یقین ہے پکڑے جانے والے کی دیانت پر! جھوٹ اور سچ جاننے کا جو طریقہ پنجاب حکومت کے ترجمان نے متعارف کرایا ہے اس کے سامنے تو بلوچستان کے سرداروں کا وہ طریقہ بھی ماند پڑتا دکھائی دیتا ہے جس میں ملزم کو جلتے انگاروں پر چلایا جاتا تھا ۔اگر اس کے تلوے جھلسنے سے بچ جائیں تو وہ بے گناہ! پنجاب حکومت کے ترجمان نے تو انگارے دہکانے کا تکلف بھی روا نہیں رکھا! اس کے بغیر ہی فیصلہ سنا دیا کہ افسر دیانت دار اور فرض شناس ہے،اگر دیانت اور فرض شناسی کے فیصلے پنجاب حکومت کے ترجمان ہی نے کرنے ہیں تو عدالتوں کی کیا ضرورت ہے اور ایف آئی اے او رپولیس کا کیاجواز ہے؟ ملک بھر کے ملزموں کو ترجمان صاحب کے حضور پیش کیا جائے ،دیکھتے جائیں گے’فیصلہ سناتے جائیں گے!
تعمیری منصوبے کے لیے سب سے کم بولی جس کمپنی نے دی تھی اس کا نام میسرز چوہدری لطیف اینڈ سنز تھا۔ قاعدے کی رو سے سب  سے کم بولی دینے والی کمپنی کو یہ منصوبہ سونپا جانا تھا۔ مگر شاہی حکم یہ تھا کہ ایک اور کمپنی کو یہ کام دیا جائے اس کمپنی کے ڈانڈے مبینہ طور پر ایک وفاقی وزیر سے جا ملتے ہیں۔اس “انصاف” کو برؤئے کار لانے کے لیے وزیر اعلی نے مبینہ طور پر پنجاب لینڈڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کو حکم دیا کہ سارا منصوبہ ایل ڈی اے کے سپرد کر دیا جائے۔ یوں آخر کار منصوبہ اس کمپنی کو مل ہی گیا جس کی بولی کامیاب ترین بولی نہیں تھی، خزانے کو اس “انصاف” اور اس “شفافیت “سے 71 کروڑروپے کا نجکشن لگا۔ پھر کہا گیا کہ کنسلٹینسی 
consultancy 
سروسز فلاں کمپنی سے حاصل کی جائیں،اس پر انیس کروڑ لگے جب کہ یہی سروسز نیسپاک کمپنی ساڑھے تین کروڑ روپے میں دینے کو تیار تھی۔ !!ایسی بہت سی تکنیکی” انصاف پسندیاں “جن کا جواب صوبے کی حکومت اور حکمران اعلی کے پاس نہیں !
یہ صرف آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کا کھیل نہیں ؛اس میں کئی اور  مناظر بھی اپنی جھلک دکھائیں   گے ۔دانش سکول بنائے گئے ۔سستی روٹی سکیم۔ صاف پانی سکیم اور چھپن کے قریب کمپنیاں جو عملی طور پر پنجاب حکومت کا متبادل تھیں ! متوازی حکومتیں !ان کمپنیوں کے سربراہان بادشاہوں کی طرح حساب کتاب’سوال جواب سے بے نیاز !مکمل بے نیاز!!
  سارا کھیل وسطی پنجاب کے حوالے سے کھیلا گیا۔ اس  صوبے کے مغربی اور جنوبی اضلاع کی شمولیت کہیں تھی بھی تو برائے نام!!محض اشک شوئی کی خاطر!
ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے۔ بھارتی پنجاب کی  بستی جاتی امرا کے مکین بتاتے  ہیں کہ یہاں (یعنی انڈیا میں )ان کا کوئی خاص کاروبار نہیں تھا۔سب “اُدھر”جا کر ہوا۔ یہ مکین بتاتے ہیں کہ یہاں سے(یعنی جاتی امرا انڈیا سے) نوجوانوں کو ان کی فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے سعودیہ بلایا جاتا تھا۔ ایک مکین یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ یہ لڑکے لاہور جاکر بھی کام کرتے رہے ہیں ۔
جو لوگ سعودیہ عرب رہتے ہیں ۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنی فیکٹریوں میں کام کرانے کے لیے یہ محب وطن خاندان بھارتیوں کو ترجیح دیتا رہا ہے۔ اس کی گواہی بے شمار لوگوں نے دی ہے۔ علامہ طاہر القادری کا الزام ہے کہ بھارتی باشندے کچھ “مقامات” پر آکر ٹھہرتے ہیں ۔
ویسے عجیب بات ہے اور کیا خوب:” شکر گزاری” ہے کہ جس ملک نے انہیں زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا یا اس کے باشندے ‘مشرق وسطی میں لگائی گئی فیکٹریوں  کے لیے قابل قبول ہی نہیں ! محلات پر مشتمل جو نیا شہر بسایا ‘ا س کا نام بھی بھارت سے درآمد کیا!یہ رویے دیکھ کر ذہن میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں ۔ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کو جھٹک کر پرے نہیں کیا جاسکتا۔ آلو گوشت والی بات تو زبان زدِ عام و خاص ہے پھر مری میں بھارتی بزنس مین سے ملاقات جس میں کسی حکومتی ادارے کی شمولیت نہیں تھی! سفارتی محاذ پر پورا مشرق وسطی اور وسط ایشیا آسانی سے بھارت کے پاس جانے دیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ  پنجاب کے علاوہ پاکستان کے دوسرے حصوں سے مکمل بے نیازی !ترقیاتی منصوبوں کی بھاری اکثریت پنجاب میں مرتکزہے۔ کیا یہ محض کوتاہ نظری ہے ؟محض میو پیا 
Myopia
ہے؟کیا تہہ میں کچھ اور ہے؟


Wednesday, February 21, 2018

کوئی اور ہے


یہ ایک قصبہ تھا ۔چھوٹا نہ بڑا ۔بس اتنا کہ کوئی واقعہ رونما ہوتو گھر گھر بات فوراً پہنچ جاتی ۔یہاں ایک صاحب کالج میں لیکچرر تھے ۔شام کو کچھ گھروں میں جاکر ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے۔ایک ڈھلتی شام کو یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی کہ جس لڑکی کو پروفیسر صاحب ٹیوشن پڑھاتے تھے ،اس کےساتھ کورٹ جاکر انہوں نے شادی کرلی۔
اس کے بعد پروفیسر صاحب اور ان کی نئی اور پرانی بیوی کے کیا معاملے ہوئے ،اس سے غرض نہیں ۔بتانے والی بات یہ ہے کہ قصبے کے لوگوں نےاس واقعہ کے بعد کسی ٹیوٹر کو  ’ایک طویل عرصہ تک ‘کسی گھر میں داخل ہو کر “پڑھانے “کا موقع نہیں دیا
اس سوفیصد سچے واقعہ کے بیان سے حاشاوکلا ہم کسی اور طرف اشارہ نہیں کرنا چاہتے۔ ہم یہ سبق بھی نہیں پڑھا رہے کہ کو ئی  روحانیت کی تلاش میں کسی گھر کے اندر جائے تو واپسی پر صاحبہ ء روحانیت کو ساتھ لیتا آئے۔
بہت سے امور ایسے ہیں جو شریعت کی رو سے ناجائز نہیں ،تاہم معاشرے کے رویے کو بھی خاطر میں لانا ضروری ہے۔ طلاق کی مثال لیجئے۔جائز ہے،مرد کا حق بھی ہے اور عورت کا بھی ہے۔ مگر معاشرتی پہلو سے اس کے اثرات نظر انداز کرنے والا احمق نہیں  تو غیر عقلمند ضرور کہلائے گا۔ ایک شادی شدہ مرد نے ایک خاتون کوشادی کا پیغام دیا۔خاتون نے پوچھا تمہارے کتنے بچے ہیں ؟اس نے بتایا تین  ہیں۔ خاتون ہنسی اورکہا تم چاہتے ہوکہ رہتی زندگی تک میں ان جانی دشمنوں سے نمٹتی رہوں اب  آپ لاکھ روحانیت کے پیچھے چھپیں ،یہ تو ظاہر ہے کہ ایک ہنستے بستے خاندان میں دراڑ اس وقت پڑنا شروع ہوئی جب روحانیت کا ایک طلبگارگھر کے اندر داخل ہوا ۔اس کے بعد جو کچھ ہوا تاریخ ہے۔
یہاں مسئلہ یہ بھی آن پڑا ہے کہ روحانیت سے مراد لوگوں کی بھاری اکثریت صرف اور صرف مستقبل کی پیشگوئیاں لیتی ہے۔ اب یہ تو علما کرام ہی بتائیں گے کہ روحانیت کی اصطلاح قرآن و حدیث میں موجود ہے یا اجنبی ہے۔ یہاں اسی کی روحانیت مقبول ہوتی ہے جو یہ پیش گوئی کرے کہ تم وزیراعظم بنو گے یا اسمبلی کے رکن بنو گے۔ تو ہم پرست اور ضعف الاعتقاد عوام کو خوب خوب بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ بے وقوف بننے والوں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی شامل ہیں ۔یہ اور بات کہ” پڑھے لکھے” کی تعریف دین کے نکتہ نظر سے مختلف ہے۔ہدایت کا اور روحانیت کا (اگر یہ اصطلاح درست ے) منبع قرآن پاک ہے ۔جو کچھ ہورہا ہے۔ سب قرآن پاک سے دوری کا شاخسانہ ہے ۔اس موضوع پر مفصل بات پھرہوگی ۔ ابھی صرف اتنا کہنا ضروری ہے کہ ایک معروف نوجوان کالم نگار نے دو کالموں میں روحانیت کے نام نہاد علم برداروں کا کچا چٹھا ایسا کھولا ہے کہ خداکی پناہ۔ ایک کالم کا عنوان “روحانیت کے سپر سٹار” ہے اور دوسرے کا ،جو کچھ عرصہ پہلے چھپا ،عنوان تھا” فقیر کیا کہتا ہے”۔
شادی کی ہیٹ ٹرک بہت حد تک ذاتی معاملہ ہے۔یہ اور بات کہ عوامی رہنما کہلانے والے کو اپنے ذاتی معاملات کا حساب بھی دینا ہوتا ہے، اصل ہیٹ ٹرک تو سیاسی میدان میں ہوئی ہے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی پارٹی میں کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب کو درآمد کیا گیا جو ایک معروف قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، اس قبیلے کےارکان کی بھاری اکثریت منڈی بہاؤالدین اور اس کے نواح میں آباد ہے۔ان صاحب کی وجہ شہرت ہر اخبار پڑھنے والے اور ہر ٹیلی ویژن پر خبریں سننے والے کو اچھی طرح معلوم ہے۔اس کےبعد تبدیلی لانے والی پارٹی نے سیالکوٹ کا رخ کیا اور ایک جوہر قابل کو وہاں سے اپنی صفوں میں شامل کیا۔
پارٹی کے اندر سے اور باہر سے اس پر آہوں اور کراہوں کا بہت شور اٹھا مگر وہ شور ہی کیا جو ورزش کرنے والے طالب روحانیت کے کانوں تک پہنچ جائے اب پارٹی نے ایبٹ آباد ہزارہ کے نواح سے ایک اور بطل جلیل کو پارٹی میں شامل کرکے ہیٹ ترک مکمل کرلی ۔واہ سبحان اللہ
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اسے کہتے ہیں لچک۔ انگریزوں نے اس کے لیے 
Pragmatic
کا لفظ بھی گھڑا ہے، یعنی اگر آپ کا کوئی اصول نہیں اور ہر “ تبدیلی “کے لیے آپ کا دروازہ کھلا ہے تواس کا مطلب ہے کہ آپ میں لچک موجود ہے۔ اب کوئی دن کی بات کرتا ہے کہ مشاہد حسین سید ،دانیال عزیز ،طارق عظیم، طلال چوہدری۔ماروی میمن اور زاہد حامد بھی تبدیلی لانے والی پارٹی کے لیے قابل قبول ہوں گے۔ بلکہ انہیں خوش آمدید کہا جائے گا ۔کیا عجب در پردہ کاوشیں ان حضرات کی شمولیت کے لیے آغاز بھی ہوچکی ہوں ۔کیا عجب مستبل قریب میں جب ‘صاحب ‘جو وزیراعظم بننے کے شدید خواہشمند ہیں ،پیٹھ پر چھریاں کھانے کے لیے شمال کا رخ کریں تو اس وقت تک مذکورہ بالا عمائدین سارے کےسارے یا ان میں سے کچھ تبدیلی لانے والی پارٹی میں شامل بھی ہوچکے ہوں ۔
سلاطین دہلی اور پھر مغل بادشاہوں کے زمانے میں ہر علاقہ کسی نہ کسی جاگیردار کی تحویل میں ہوتا تھا ۔یہ جاگیردار ضرورت کے وقت بادشاہ کو سپاہی مہیا کرتا جو شاہی فوج کا حصہ ہوتے۔ سلطان خلجی ہوتا یا تغلق ،لودھی یا مغل، علاقہ اسی ایک جاگیردار یااس کے خاندان کی گرفت میں رہتا۔وہ عوام سے جیسا چاہتا سلوک کرتا ۔اس کی اپنی نجی جیل ہوتی، جہاں تک اس کا علاقہ ہوتا ،وہ عملی طور پر وہاں تک بادشاہ ہوتا۔
آج پاکستان میں 
Electable
ہونے کا جو تصور ہے وہ بنیادی طور پر اسی علاقائی جاگیرداری کا تسلسل ہے ۔اب علاقے کےاس بادشاہ کو ایم این اے یا ایم پی اے کہا جاتا ہے۔ حکومت نواز شریف کی ہو یا بے نظیر بھٹو کی یا جنرل ضیاالحق کی یا پرویز مشرف کی۔ اپنے اپنے علاقے میں یہ نام نہاد
 Electable 
ہی حکومت کرتےہیں ۔انہیں خدشہ تھا کہ تحریک انصاف کہیں صحیح معنی میں تبدیلی نہ لے آئے۔چنانچہ انہوں نے اس خدشے کا سد باب وقت پر کر لیا ہے، تبدیلی لانے والی پارٹی کی حکومت آ بھی جائے تو ایم این اے اور ایم پی اے وہی رہیں گے۔ جو مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی یا ضیا الحق یا پرویز مشرف کے عہدِ  اقتدار میں تھے۔ حال ہی میں اس پارٹی نے اٹک اور دو تین دیگر اضلاع کے حوالے سے جو کچھ کیاہے اس پر صرف ایک ہی رد عمل سمجھ میں آتا ہے کہ زور سے نعرہ لگایا جائے “تبدیلی زندہ باد”
نہیں ! سب سراب ثابت ہوا۔ ابھی قافلے کو اور آگے بڑھنا ہوگا ، یہ تبدیلی لانے والے اپنی منزل کھوٹی کرچکے ہیں ، اس ملک میں اس قدر افرادی قوت ہے جس کی مثال کم ہی ملکوں میں ہوگی۔ اگر آزمائے ہوؤں سے دامن بچایا جاتا اور اس جوہر قابل پر بھروسہ کیا جاتا ہے جو تازہ بھی ہے اور قابل اعتماد بھی،تو تبدیلی  آنے کا امکان ہوتا۔ اگر منڈی بہاؤ الدین اور سیالکوٹ اور اٹک اور ہزارہ اور ٹیکسلا اور بہت سے دوسرے علاقوں کے عوام کو انہی چھوٹے چھوٹے بادشاہوں کے رحم و کرم پر ڈالنا ہے جو عشروں سے حکومت کررہے ہیں تو خدا کے لیے اور کچھ نہیں تو کم از کم تبدیلی کے لفظ کی مزید توہین کرنا تو بند کیجئے۔
تحریک انصاف کو یا تو اپنے اوپر اعتماد نہیں یا ملک کے ان کروڑوں نوجوانوں پر اعتماد نہیں جنہوں نے اس جماعت کو اٹھان دی اور زندگی بخشی ۔کون سا طعنہ تھا جو ان اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نہیں دیا گیا۔ ممی ڈیڈی سے لے کر برگر فیملی تک۔ پھر لاکھوں اعلی تعلیم یافتہ افراد وہ تھے جنہو ں نے مایوسی کی بدولت ماضی میں کبھی کسی کو ووٹ ہی نہ ڈالا تھا ۔یہ طبقہ بھی تحریک انصاف کے لیے الیکشن کے دن گھروں سے نکلا۔ ان نوجوانوں میں اور ان تعلیم یافتہ مڈل کلاس کے افراد میں لیڈر شپ کی بے پناہ صلاحیتیں موجود تھیں مگر تحریک انصاف نے ان سب کو حیران پریشان چھوڑ کر، نام نہاد سیاست دانوں کے ساتھ امیدیں باندھ لی ہیں جو ہر دور میں عوام کا استحصال کرتے آئے ہیں ۔ جو ایک کے بعد دوسری ،دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی پارٹی بدلتے آئے ہیں جن کےدامن کرپشن، سفارش،اقربا پروری، اور میرٹ کشی سے آلودہ ہیں ۔
ایک شخص پہاڑ کی بلند چوٹی سے گرا ۔نیچے دریا تھا ۔ا س نے ہمت کی اور درمیان میں  ایک درخت کی شاخ سے لٹک گیا۔ نیچے دریا تھا ۔خدا کو   مددکے لیے پکارا کہ اے پروردگار ! دست گیری کر، جان بچا دے، غیب سے آواز آئی، “ہم تمہیں بچا لیں گے،ٹہنی کو چھوڑ دو ۔”ٹہنی کو اس نے نہ چھوڑا مگر آواز دی ۔کوئی اور ہے؟”
مڈل کلاس نے تحریک انصاف کو یہی کہا تھا کہ بدنام زمانہ سیاست دانوں کو پارٹی میں شامل نہ کرو، ہم پر بھروسہ کرو۔ مگر تحریک انصاف نے ان سب پر بھروسہ نہ کیا اور آواز لگائی “کوئی اور ہے”؟اب یہ “کوئی اور” پارٹی پر قابض  ہوچکے ہیں اور مزید ہورہے ہیں جن نوجوانوں نے تحریک انصاف سے امیدیں باندھی تھیں اب ان نوجوانوں کی باری  ہے کہ آواز لگائیں ۔۔۔۔۔۔”کوئی اور ہے؟”

Tuesday, February 20, 2018

شہزادی بالائی منزل پر جاگزیں ہے


نہیں! حضرت گرامی جناب ہارون الرشید نہیں ۔یہ تین چار منٹ کی سیڑھیا ں چڑھنے اترنے کا مسئلہ نہیں ۔لائبریری گھر میں جب بھی بالائی منزل پر ہوگی ،دسترس سے دور ہی رہے گی۔ لائبریری کا مزہ اسی میں ہے اور اس سے استفادہ تبھی ممکن ہے جب یہ خواب گاہ کے ساتھ ہو ،کچن کے ساتھ ہو، نشست گاہ کے ساتھ ہو اور اس فلور پر واقع ہوجہاں دن اور رات کا اکثر حصہ گزرتا ہے۔ہم لوگ بھی کیا ظلم کرتے ہیں ،رسوئی ،مہمان خانہ،یہاں تک کہ لانڈری بھی سامنے ہو۔ رہی لائبریری تو لائبریری کا کیا ہے ،اوپر کی منزل پر لے جائیے۔
جناب ہارون الرشید نے اپنا رونا رودیا۔ یہاں اپنے زخم زار سامنے آگئے۔ آرزوؤں کو پانی دے کر ،تمناؤں کی گوڈی کرکے ،گھربنایا تھا، پس منظر خالص دیہی تھا اس لیے لازم تھا کہ بڑا ہو۔ جتنا بڑا استطاعت اجازت دیتی تھی۔ خالص دیہی پس منظر رکھنے والا تین معاملوں میں بے بس ہوتا ہے۔چائے میں پاؤڈر والا دودھ نہیں پی  سکتا۔بازار کے آٹے کی روٹی نہیں کھا سکتا۔ اس کے نزدیک یہ روٹی نہیں ،ربڑ ہے۔چھوٹے گھر میں نہیں رہ سکتا ۔اپارٹمنٹ تو اس کے لیے سانس گھٹنے کا سامان ہے۔ جیتی جاگتی موت۔
ڈیڑھ کنال پر جاپانی اسلوب کا باغ بنا۔ اس کی لیند سکیپنگ کا ڈیزائن اسرار نے خود بنایا۔ کونے میں گزیبو(چھتری نما پختہ سٹرکچر) کہیں سبزہ، کہیں سنگ ریزے، کہیں گول کنکر، کہیں نرسریوں سے اچھی نسل کے میوہ دار پودے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے گئے۔ بیگم نے اپنے ہاتھوں  سے لگائے ،کچھ پاس کھڑے ہو کر لگوائے۔
باغ کے کنارے شام کو جو بیٹھتا ۔سامنے کا منظر دیکھ کر مسحور ہوجاتا ۔دریا تھا، پھر پہاڑیاں ،پھر دور سامنے سبزہ زاروں اور مزید پہاڑیوں کا سلسلہ، احباب میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے ٹوٹ کر اس گھر کی تعریف نہ کی ہو۔ دو اصحاب  کی رائے  اہم تھی۔جناب ہارون الرشید کی اور دوست گرامی جناب جاوید علی خان کی ۔دونوں نے خوب خوب پسند کیا۔بابا جی مستنصر حسین تارڑ تشریف لائے (اگرچہ خود بھی اب چھوٹا موٹا بابا ہوں ) خوش ہوئے ،حوصلہ افزائی کی۔
ملین ڈالر سہولت یہ تھی کہ لمبی چوڑی راہداری کے ایک طرف لائبریری تھی۔ گھر کے عین وسط میں ۔کاہلی،تکان، مصروفیت ،کچھ بھی رکاوٹ کا سبب نہیں بن سکتا تھا ۔خواب گاہ یا نشست گا ہ یا طعام ،سب کے راستے میں لائبریری پڑتی۔ تیمور  ان دنوں نیا نیا چلنا سیکھ رہا تھا ۔میں کام کررہا ہوتا تو شیشے کے دروازے کے باہر آکر کھڑا ہوجاتا ۔ میں اٹھا کر صوفے پر بٹھا لیتا۔ دیواروں پر تاشقند کے مزین مرصع خنجر لگے تھے۔بیٹھا ،انہیں دیکھتا رہتا ۔
سب اچھا تھا ،مگر مور کے پاؤں بدصورت تھے۔ گلی کچی تھی،مکان کے لیے جگہ کا انتخاب کرتے وقت اور بعد میں دوران تعمیر ،خوش فہمی  ،یہی غالب رہی کہ پکی کرا لیں گے۔ آخر اپنا ہی ملک ہےمگر جب گلی پکی کرانے نکلے تو پتا چلا کہ یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے   میخانہ کہتے ہیں ۔وزیراعظم آفس سے بمشکل پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر یہ بستی(شاہ پور) وفاقی ترقیاتی ادارے کی نہیں ،اسلام آباد ضلعی حکومت کے چارج میں تھی۔ ضلعی حکومت کا شہنشاہ سیکرٹری داخلہ تھا۔ یادش بخیر میجر قمرزمان چوہدری اس منصب جلیلہ پر فائز تھے۔ ان سے اچھی خاصی دوستی تھی۔رابطہ کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا دوستی ڈگمگاتی ۔لنگڑاتی ،کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔ سیکرٹری شپ آگے نکل چکی تھی۔ سیکرٹری داخلہ التفات کرتے تب بھی انہوں نے چیف کمشنر ہی کو کہنا تھا۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا چیف کمشنر کا نام طارق پیرزادہ ہے۔فون کیا اور حاضر ہوگیا۔ کیا نجابت تھی اور شرافت۔ خاندانی تربیت کا اثر چہرے سے پھوٹ رہا تھا۔ مجسم شائستگی ،نرم گفتار، اور مساعد۔ فوراً احکام جاری کئے۔کارندے آئے،گلی کی پیمائش ہوئی۔دو تین بار پھر آئے۔ہر بار آکر بتایا کہ کام ہورہا ہے۔ اس کے بعد بقول منیر نیازی،لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور ۔اتنے خوش اطوار اور سلیم شخص کو دوبارہ کہنا مناسب ہی نہ تھا۔ خاص کر جب ساڑھے تین عشرے خود اس بیوروکریسی کو اندر سے دیکھ، چکھ ،بھگت اور بھگتا چکا تھا۔ سیاست دان، وزراء، اور منتخب عوامی نمائندے زیریں ترین سطح  پر، کارندوں سے گٹھ جوڑ میں ہیں ۔ ان کی جیبیں چٹوں سے بھری رہتی ہیں ۔ ایک ایک اوورسیر، ایس ڈی او، تھانیدار اور پٹواری کے لیے جان لڑانے کو تیار۔ ایسے میں یہ کارندے افسران مجاز سے بے نیاز ہوگئے ہیں ۔ کتاب کے مطابق چلنے والا قانون پسند بیورو کریٹ درمیان سے نکال دیا جاتا ہے یا وہ خود عافیت اور عزت اس میں سمجھتا ہے کہ گدلے پانی سے دو ر رہا جائے۔
بارشیں آتیں تو گلی کیچڑ ملے ملغوبے کا گڑھ بن جاتی ۔مہمانوں کو الگ تکلیف ہوتی۔ بچے شاکی اور نالاں کہ کہاں آن بسے۔
ایسے میں فارسی ادب دستگیری کرتا ہے کہ چہ باید کرد؟ کیا کرنا چاہیے۔اہک عہد وہ بھی تھا جب کوئی شخص کھردرا پن دکھاتا تو اسے صاف یہ کہہ دیا جاتا کہ بے چارہ فارسی ادب سے بے بہرہ ہے۔ فارسی ادب عالیہ زندگی گزارنے کے نہیں ،زندگی بسر کرنے کے اسالیب بتاتا ہے۔ یہ بتاتا ہے بادشاہوں کے ساتھ کیسے معاملہ کرنا ہے ،فقیروں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے۔خاندانی پس منظر میں کیسے جھانکنا ہے۔سفلوں اور کمینوں کوکس طرح پہچاننا ہے۔ نجابت اور شرافت کی کیا علامات ہیں ۔ شہروں اور ملکوں سے کب نقل مکانی کرلینی چاہیے۔ دشمنوں کے ساتھ اور دوستوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہوگا۔
حکما نے دو باتوں کی تلقین  کی ہے۔ جب مکان راحت کے بجائے تکلیف کا باعث بن رہا ہوتو اس کی مالیت کو خاطر میں نہ لاؤ ،وہاں سے کوچ کرو اور جس رزق کا حصول عزت پر حرف لارہا ہو ،اس رزق کو پر کاہ اہمیت نہ دو ۔چنانچہ اس وسیع و عریض گھر کو جو گھربھی تھا اور حویلی بھی ،محل بھی تھا اور باغ بھی، چھوڑنے کا فیصلہ کیا -بظاہر وہ نقصان پر فروخت ہوا مگر ادبیات عالیہ کے حقیر طالب علم نے نفع یا نقصان کو کبھی نفع نقصان سمجھا ہی نہیں ۔ حکما سے اور بزرگوں سے اور اسلاف سے جو پیمانے ملے ہیں ،وہ رائج الوقت پیمانوں سے مناسبت اور تطابق نہیں رکھتے۔
تمہیں کیا خبر کہ ہماری فتح و ظفر ہے کیا
جو شکست خوردہ ہیں اس سپاہ میں جائیں گے۔

ہاں !جب دیکھا کہ لگائے گئے پودوں پر میوے لگنے کے دن تھے تو نقل مکانی کرتے وقت دکھ ضرور ہوا۔
ہجرت کرکے جس رہائشی کالونی میں بسیرا کیا وہ عساکر پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ ایک منظم اور قواعد و ضوابط کے تحت چلنے والا سلسلہ ہے۔ ڈھیر ساری سہولیات ہیں ۔کوئی مسئلہ درپیش ہو تو باقائدہ شنوائی ہوتی ہے۔ مگر آہ! کہاں وہ عشرت کہ خواب گاہ سے نکلو تو لائبریری میں جا بیٹھو ۔اب شہزادی بالائی منزل پر جاگزیں ہے۔ہفتے گزر جاتے ہیں کہ جانا اور بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا ۔ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ
؎ رو میں ہے رخش عمر کہاں  دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا  ہے رکاب میں
ملازم اتنا پڑھا لکھا ہے کہ مطلوبہ کتاب اکثر و بیشتر اوپر سے لے آتا ہے۔پھر رکھ بھی آتا ہے ۔یوں یہ عالم ہے کہ حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے،وہیں لائبریری کا بچہ تولد ہوگیا۔ صوفوں کرسیوں سے لے کر قالین اور چارپائیوں تک ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں ۔ تین نسلوں  کی شکایت اپنے کانوں سے سنی۔دادی جان کتابوں اور رسالوں کو “پھڑکے” کہتی تھیں ۔ دادا جان کی اکثر و بیشتر شکایت کرتیں ،بھاگوان ،جب بھی کہیں سے آتا ہے تو مزید پھڑکے لے کر آتا ہے۔ہمارے عہد سے پہلے نادر اور قیمتی کتابیں  فروخت کرنے والے پھیری لگاتے تھے۔ گاؤں گاؤں پھرتے تھے ،اس لیے کہ علمی مرکز اور مدارس قریوں  اور  بستیوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ جد امجد نے، خدا مرقد پر بارش انوار کرے، ایک بار ایک کتاب خریدنا چاہی ،نقد رقم نہ تھی ،قمیض اتار کر بیچنے والے کے حوالے کی اور کتاب قبضے میں لی۔ پھر والدہ مرحومہ کا دور آیا۔ ساری زندگی شکوہ رہا کہ ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں ہیں ،رہیں لکھنے والے کی بیگم تو ان سوکنوں کے ساتھ رہنے کی عادی ابتدا سے ہی ہوگئیں ۔
لائبریری اور کتاب پر لکھتے لکھتے اچانک ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی تصنیف” کتاب نامہ “ یاد آگئی۔ ڈاکٹر ناشاد محقق ہیں اور ایسے محقق کہ تحقیق کاحق  ادا کرنا جانتے ہیں۔ درجنوں تحقیقی تصانیف کا سہرا ان کے سر ہے۔ یہ کتاب “کتاب نامہ” کتاب کی اپنی کہانی ہے۔ اس منظوم کہانی میں ڈاکٹر ناشاد آغاز سے اب تک کتاب کی بپتا کتاب ہی کی زبانی سناتے ہیں ۔
پلا ساقیا پھر مئے لالہ فام
کہ رنگین ہوجائے حسن کلام
سنانی ہے اپنی حکایت مجھے
دکھانی ہے اپنی حقیقت مجھے
میں ہوں دانش و فکر کا انتخاب
مرا نام رکھا گیا تھا “کتاب”
سنو غور سے اب کہانی مری
کہانی مری اور زبانی مری
عجائب بھری ہے مری داستاں
کہ دیکھے ہیں میں نے زمان و مکا ں
رسولوں پہ مجھ کو اتارا گیا
صحیفہ کہا اور پکارا گیا
مری روشنی سے اندھیرے چھٹے
جہالت کے ظلمت کے جنگل کٹے
میں حسن حقیقت کی ایجاد ہوں
میں سارے زمانوں کی استاد ہوں
کبھی تھا زمانے میں چرچا مرا
طلب گار ہر آدمی تھا مرا
مرے قدرداں تھے غریب و رئیس
ہر اک صاحب دل تھا مرا جلیس
کبھی مجھ کو لکھا گیا کھال پر
کبھی چوپ پر اور کبھی چھال پر
کبھی ہڈیاں مرا مسطر ہوئیں
کبھی تختیاں میرا بستر ہوئیں
مجھے سو طرح سے بنایا گیا
سنوارا گیا اور سجایا گیا
کبھی ظلم بھی مجھ پر ڈھائے گئے
مرے گھر گرائے جلائے گئے
جہالت تھی جن کے سروں پر سوار
انہوں نے ستایا مجھے بار بار
رہا ان کا باقی نہ نام و نشاں
مرا اب بھی ہے نام لیوا جہاں
مری دوستی ہے نقیب کمال
مری روشنی ہے علاج زوال
مرے سائے سے جو بھی محروم ہے
زمانے کے منظر سے معدوم ہے
مزاجوں کی تعمیر کرتی ہوں میں
دماغوں کی تطہیر کرتی ہوں میں

ڈاکٹر ارشد ناشاد کا یہ “کتاب نامہ” گھر گھر مکتب مکتب 
پہنچنا چاہیے تاکہ کتاب کلچر کا احیا کرنے میں ممد ہو سکے 

لائبریری کی اب وہ صورتحال نہیں  رہی   ۔اب مطالعہ کے کروڑوں شوقین انٹر نیٹ کے ذریعے کتابیں پڑھ رہے ہیں ۔کتابیں آئی پیڈ ،لیپ ٹاپ اور ای ریڈر پر منتقل ہورہی ہیں ۔ اب سیڑھیوں پر چڑھنے اور اترنے کا مسئلہ بھی نہیں رہا ۔بیٹھے بیٹھے کلک کیجئے ،کتاب حاضر ہے۔بالائی منزل پر کیا جانا ،بستر میں لیٹے لیٹے دنیا بھر کی کتابیں خرید سکتے ہیں اور پڑھ سکتے ہیں ۔


Sunday, February 18, 2018

خدا نہ کرےبلند پہاڑوں میں رسول حمزہ توف مر جائے


رسول حمزہ توف ریا ست دا غستان کے ایک پہاڑی گاؤں میں پیدا ہوا۔2003ء میں ما سکو میں وفا ت پانے والےحمزہ توف نے سوویت یو نین کا پورا زمانہ دیکھا اور پھر سوویتیو نین کا اختتام  اور انہدام بھی ۔ اس کی معر کہ آرا کتاب’’ میراداغگستان ‘’دنیا کے کلا سیکی  ادب میں شمار ہو تی ہے۔بنیادی  طور پر وہ شاعر تھا۔اگر وہ اور کچھ بھی نہ لکھتا  تو اس کی ایک نظم ہی اسےشا عری اور محبت کی دنیا میں زندہ رکھنے کے لیے کا فی تھی۔
اگرایک ہزارمردتمہاری محبت میں مبتلا ہوں تو
یقیناً رسول حمزہ توف ان میں سے ایک ہو گا
اگرایک سو مرد تمہاری محبت میں مبتلا ہوں
تورسول حمزہ توف ان میں،ظاہر ہے ،ضرور شامل ہوگا !
اگر
دس مردتمہاری محبت میں مبتلا ہوں تو پھر بھی
رسول حمزہ توف ان میں سے ایک ہو گا
اور اگر
صرف ایک مردتمہاری محبت میں مبتلا ہو تو پھر بھی
رسول حمزہ توف کےعلاوہ اور
کون ہو سکتا ہے؟
اور اگر تم تنہا ہو -
اکیلی ہو
اورکوئی بھی تمہاری محبت میں مبتلا نہیں
تو یقین کر لینا کہ
کہیں  بلند پہاڑوں میں رسول حمزہ توف مر گیا  ہے!

  یہ نظم ایک خبر پڑھ کر یاد آئی۔خبر یہ ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم صفدر لاہور سے خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچیں ۔پھر اسی  روز شام ڈھلے خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور واپس روانہ ہوگئے۔

قدرت کاملہ کی لاکھوں کروڑوں اربوں کھربوں نشانیاں ہیں ،نشانیوں کو آیات کہتے ہیں ۔کلام پاک کی آیات بھی قدرت ِ کاملہ کی نشانیاں ہیں ۔ آیت عجیب شئے کو بھی کہتے ہیں ۔عینی عجوبہ!کوئی   ا نسان ایسا عجوبہ نہیں تخلیق کرسکتا ۔ہر آیت پروردگار کی طاقت کی نشانی ہے۔ ہر نشانی عجوبہ ہے۔سورہ الحدید کی ایک آیت ہے جس پر جتنا غور کیا جائے ۔اتنے ہی معمے حل ہوتے ہیں ، گرہیں کھلتی ہیں آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چمک کی اصلیت سمجھ میں آتی ہے۔یہ سوری الحدید کی بیسویں آیت ہے ۔مختلف بزرگوں نے اس کا ترجمہ مختلف انداز میں کیا ہے ۔مولانا احمد رضا خان نے لکھا ہے ۔۔۔۔”او ردنیا کا جینا تو نہیں مگر دھوکے کا مال”۔ مولانا فتح محمد جالندھری نے یوں ترجمہ کیا ہے۔۔۔”اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے”۔ سید ابوالاعلی مودودی نے لکھا ہے ۔۔۔۔”دنیاکی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں “۔اور قدرت کاملہ کی نشانی دیکھیے کہ اس کی سورہ مبارکہ کا نام الحدید ہے،یعنی لوہا!

لوہے کے تاجروں کا جو خاندان اس وقت اس ملک پر چھایا ہوا ہے اس نے پورے ملک کو اپنی لوہے جیسی مضبوط گرفت میں لے رکھا ہے۔ یہ ایک ایسا خاندان ہے جس کی امارت اور ثروت کا اندازہ بھی ایک عام پاکستانی نہیں لگا سکتا ۔عین ممکن ہے کہ خود اس خاندان کو اپنی کل مالیت کا صحیح علم نہ ہو۔ یہ لوگ کروڑوں کی گھڑیاں پہنتے ہیں ۔فرشِ زمین پر پاؤں نہیں رکھا۔ خصوصی طیارہ  ان کے لیے اسی طرح ہیں جیسے عام شہری کے لیے بس یا سوزوکی یا ٹیکسی ! ان کے ملبوسات کا ایک ایک آئٹم کروڑوں روپوں کا ہے۔ پوری دنیا کے براعظموں میں اور خطوں میں اور ملکوں میں اور سمندروں کے تمام کناروں پر ان کے کارخانے جائیدادیں ،رہائش گاہیں اور احوال تجارت موجود ہیں ۔

مگر دھوکے کی ٹٹی یہ ہے کہ اس کے باوجود یہ مظلوم ہیں ۔صاحبزادی خصوصی طیارے پر اسلام آباد پہنچتی ہیں ۔وہاں سے ہیلی کاپٹر پر مانسہرہ جاتی ہیں ۔ ہر طرف پھول نچھاور ہورہے ہیں مگر رونا مظلومیت کاروتی ہیں ۔

ملک حیرت سرائے بنا ہوا ہے۔ حکومتیں ان کی اپنی ہیں۔سب سے بڑا ، سب سے طاقتور صوبہ ان کی مٹھی میں ہے۔وفاق پر حکومت کرنے والے ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں مگراس کے باوجود یہ مسلسل سینہ کوبی کررہے ہیں ۔دہائی دے رہے ہیں ۔انسان سمجھنے سے قاصر ہے کہ اختیار ان کا!حکومتیں ان کی! دولت کے ان گنت انبار ان کے قبضے میں !محلات قطار اندر قطار ان کی ملکیت ہیں ،مگر یہ اس پر نالاں ہیں کہ کوئی ان سے یہ پوچھنے کی جرات کیسے کرسکتا ہے کہ قارون کے یہ خزانے آئے کہاں سے ہیں ؟

ان کی متاع ِ غرور میں ،ان کی دھوکے کی ٹٹی میں ،ایک او بڑا دھوکہ ،میڈیا کی وہ فوج ظفر موج ہے جو ہمہ وقت ، سال کے بارہ مہینے، مہینے کے تیس دن، ہفتے کے ساتھ روز اور دن رات کے چوبیس گھنٹے ان کے دفاع میں مصروف ہے۔ ایسے ایسے ذہن ہیں جو اس خاندان سے باہر کا سوچ ہی نہیں سکتے ۔ان کی ساری صلاحیتیں اس حساب کتاب میں صرف ہورہی ہیں کہ اس خاندان کا کون سا فرد اگلا تخت نشیں ہوگا اور اس کے بعد کون ہوگا اور اس کے بعد ہماکس کے سر پر بیٹھے گا ۔لکھاریوں اور مقررین کے اس گروہ کے نزدیک کوئی اور خاندان حکومت کا سزاوار ہی نہیں ۔ باپ کے بعد بیٹی کے سر پر تاج ہونا چاہیے ۔میاں  پارٹی کی صدارت سے ہٹا تو اس کی بیوی ا س کی جاں نشیں ہوگی۔یا بھائی ہوگا یا بھتیجا!

طرف داروں کا یہ گروہ  ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچ سکتا کہ جسٹس ملک قیوم کے ساتھ ہونے والی گفتگو ویڈیو پر آج بھی سنی جاسکتی ہے۔ ان کے نزدیک سپریم کورٹ پر حملہ ایک مقدس جہاد تھا ۔۔جس طرح بریف کیس فیم جج کو ملک کا صدر بنایا گیا وہ عین انصاف تھا۔ لکھنے اور بولنے والے  طائفہ کے معزز ارکان ذہنی افلاس کےاس پاتال تک پہنچ گئے ہیں جہاں وزیراعظم کی عدم موجودگی پر صاحبزادی کا امورِ حکومت چلانا آئین کی اصل روح کا تقاضا تھا۔ یہ خاندان اگر وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں کسی ڈرائیور، کسی باورچی، کسی بٹلر کو بھی ایوان وزیراعظم میں بٹھا دیتا اور وہ ڈرائیور ،وہ باورچی ،وہ بٹلر ،غیر ملکی سفیروں  کو شرف ملاقات بخشتا تو طرف دار دانشوروں کا یہ طائفہ اسے بھی درست سمجھتا اور اس پر تنقید کرنے کا بھی نہ سوچ سکتا ۔

ایک اور پہیلی بھی ہے جو حل ہونے میں نہیں   آتی جس جنرل پرویز مشرف کی ہر وقت مذمت کی جاتی ہے۔اس کے سارے یمین و یسار مسلم لیگ نون میں جمع ہیں ۔ یہی تو پرویز مشرف کے دست و بازو تھے جنہوں نے وہ سارے غلط کام کیے جن کی برائی ہر وقت کی جارہی ہے ۔انہیں کیوں گلے سے لگایا گیا ہے؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا ۔کبھی نہیں دیا جائے گا۔

مسلم لیگ نون لودھراں میں الیکشن جیت گئی ہے۔2018 کے انتخابات میں اسے پھر بہت سی نشستیں مل جائیں گی۔ صاحبزادی وزارت اعظمٰی کا تاج پہنیں گی۔پنجاب بدستور ان کی مٹھی میں رہے گا ۔اس لیے کہ حکومت کی مشنری  کا ایک ایک پرزہ ان کا اپنا ہے۔یہ آئندہ کئی عشروں تک حکمراں رہیں گے۔ایک چھوٹی سی خبر کے مضمرات دیکھیے۔۔۔۔

“وفاقی و صوبائی اداروں میں ن لیگ مخالف بیورو کریٹس سے فوری طور پر اہم فائلیں واپس لینے اور انہیں دوسرے صوبوں میں ٹرانسفر کرنے یا او ایس ڈی کرنے کے حوالے سے اہم ترین حکومتی  ذمہ داران نے کام شروع کردیا !”

ایک ایک “مخالف” بیوروکریٹ کو نکال باہر کرنے والی جماعت ،یا خاندان ،آخر کس طرح اقتدار سے باہر رہ سکتا ہے؟ ہاں !غیب سے کوئی آندھی چلے اور ان کے انگوروں کے باغ تباہ کردے تو اور بات ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا لودھراں میں جیت جانے سے اور اگلی حکومت  اور اگلی حکومتیں بنا لینے سے یہ پوتر ہوجائیں گے؟ کیا ان کے قارونی خزانوں کا جواز مہیا ہوجائے گا۔ نہیں ! میاں محمد نواز شریف اگر ایک ہزارسال بھی اقتدار میں رہیں اور پارٹی کے صدر رہیں تب بھی میاں صاحب کی ذہنی سطح وہی رہے گی جو ہے۔ تب بھی یہ ای سی سی کا یا کوئی اور سنجیدہ اجلاس چیئر نہیں کرسکیں گے۔ تب بھی یہ   تعلیم پریا زرعی اصلاحات پر یا معاشرے کے فیبرک پر ،یا ٹیکس چوری پر بات نہیں کرسکیں گے۔ تب بھی یہ کسی غیر ملکی اخبار نویس سے گفتگو نہیں کرسکیں گے۔ تب بھی یہ کاغذ کی پرچیوں پر نظریں جما کر ہی دوسرے سربراہان ِ مملکت سے بات کریں گے۔

مال و دولت کی چمک کے باوجود اور مفادات کا خوش نما راتب دکھائے جانے کے باوجود بھی ایسے دانشور، سیاسی لکھاری،اینکر پرسن موجود ہیں جو اس خاندان کے چہرے پر پڑی دھوکے کی نقاب اٹھاتے رہیں گے۔ اگر صرف ایک ہزار افراد بھی ان کا دھوکہ تسلیم کرنے سے انکار کردیں تو اس ملک کا مستقبل محفوظ ہے۔ اگر ایک سو افراد بھی ان کے بچھائے ہوئے جال سے بچ نکلیں تو افق روشن رہے گا۔

اگر اس خاندا ن کی مصنوعی  اجارہ داری تسلیم نہ کرنے والے افراد صرف دس بھی رہ جائیں گے تو اندھیرےکا مقابلہ جاری رہے گا۔ اگر ان سے خبردار کرنے والا صرف ایک شخص رہ جائے تب بھی امید کی کھیتی ہری رہے گی۔ خدا نہ کرے ایسا وقت آئے جب سچائی کا ایک علم بردار بھی نظر نہ آئے۔ خدا نہ کرے بلند پہاڑوں میں آخری رسول حمزہ توف بھی مر جائے !مگر ایسا نہیں ہوگا !جو ایسے مداری ہوں  اور ایسے کرتب باز ہوں کہ پہلے اعلان کریں کہ ہم زرداری کو فلاں فلاں شہر کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے ۔پھر ایک  بھائی زرداری کی گاڑی ڈرائیو کرے اور دوسرا چوہتر پکوان اپنی نگرانی میں پکوائے اور کچھ عرصہ بعد پھر اس کی دولت واپس لانے کا اعلان کریں تو متاع غرور کب تک قائم رہے گا! دھوکے کی ٹٹی کب تک آنکھوں میں دھول جھونکے گی۔


Friday, February 16, 2018

خلل آنکھ کے اندر ہے



میں فقیر!

میں فقیر ابنِ فقیر!

میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر!

مجھ سے ان لوگوں کی کیا دشمنی ؟

اہل عدل کا میں نے کیا بگاڑا ہے؟ اہل مذہب کیوں میری خوشی کے در پے ہیں ؟ پیمرا کے ساتھ میری جان نہ پہچان ،لین نہ دین ،واسطہ نہ غرض!
کہاں میں جھونپڑی کے باہر فرش خاک پر آلتی پالتی مارے ،دھوپ میں بیٹھا ہوا  درویش ،کہاں  ہاتھی گھوڑے پرسواری کرنے  والا پیمرا! مگر پیمرا نے میرا نام لکھا،پھر میرے نام کے گرد سرخ روشنائی سے دائرہ لگا دیا، جیسا خروشچیف نے نقشے پر پشاور کے گرد لگایا تھا۔

آج اگر میرا یوم پیدائش پوری دنیا منا رہی ہے تو اس میں حسد سے جل مرنے کا تو کوئی سبب نہیں بنتا ، خدا کے بندو! عدل کے رکھوالو!دین کے متوالو!میڈیا کے تھرمو سٹیٹ کو کنٹرول کرنے والو!یہ تو سوچو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ کیا میں نے قدرت کو درخواست دی تھی کہ مجھے چودہ فروری کے دن پیدا کیا جائے ؟کیا اس میں میری پلاننگ ،کسی منصوبہ بندی کو دوش دیا جاسکتا ہے؟ میرے جدِ امجد مرحوم مغفور نے جب اپنی خاندانی ڈائری میں یہ نوٹ لکھا تھا ۔

“ تاریخ پیدائش عزیزم محمد اظہار الحق خلف الرشید حاجی محمد ظہور الحق کہ نام تاریخی ء او غلام رسول است مورخہ 3 ماہ ربیع الاول 1367 ھ مطابق 3 ماہ پھگن 2004 موافق 14 ماہ فروری 1948 ء در شپ شنبہ،اللھم زد حیاۃ،”

تو کیا انہیں معلوم تھا کہ ایک دن ان کے پوتے کی پیدائش کا غلغلہ کرہء ارض پر برپا ہوگا ۔کروڑوں اربوں مرد عورتیں اس کی پیدائش کا جشن منائیں گے۔ پیش منظر پھولوں سے لد جائیں گے۔ رنگوں کی برساتوں سے خطے اور ملک اور علاقے اور براعظم جل تھل ہوجائیں گے ۔شیرینیاں بانٹی جائیں گی ۔کیک بنیں گے،کھائیں جائیں گے ،تحائف کے تبادلے ہوں گے  اور دنیا پھولوں ،خوشبوؤں اور رنگوں سے بھر جائے گی۔

اتنی تنگ ظرفی ،اتنا حسد ،ایک فقیر پر اتنا غیض و غضب ! کہ خوشی منانے پر قدغن لگا دی ،پھولوں کے آگے دیواریں کھڑی کریں ! عوامی مقامات پر پابندیاں عائد کردیں ، الیکٹرانک میڈیا کو کوریج سے روک دیں ۔

میرا حال تو یہ ہے کہ اپنے غم خانہ تنہائی میں پڑا ہو ں۔ایک شکستہ ،ٹوٹی ہوئی کھاٹ ہے۔تکیہ سوراخوں سے بھرا پڑا ہے۔کمرہ کیا ہے کال کوٹھڑی ہے ، خشک گھاس فرش پر بچھا رکھی ہے۔ کونے میں دیا ہے۔ تیل ہوتو جلتا ہے ورنہ سرِ شام اندھیرا ایک دیوار سے دوسری دیوار تک راج کرتا ہے، دروازے پر کنڈی ہی نہیں !

بھائی !یہاں تو ویرانی کا یہ عالم ہے کہ اٹھائی گیرا بھی نہ آئے۔ اس بے بضاعتی پر بھی اتنے بڑ ے بڑے لوگ مخالفت پر کمر بستہ ہیں ۔اسی لیے تو کہاتھا کہ

؎ لباس کہنہ ہے اور عام سی کُلاہ مری

برائی کرتے ہیں اس پر بھی بادشاہ مری!

تو کیا جملہ امور نمٹ گئے کہ اب میرے در پے ہوگئے ہیں ؟ کیا زمین کے معاملات سنورچکے ہیں کہ گھوڑے کا رخ آسمان کی طرف پھیر لیا؟ برائیوں کے لشکر کے لشکر دندناتے پھر رہے ہیں ، کوئی دروازہ محفوظ ہے نہ کھڑکی معصوم بچیوں اور بچوں کو ہوس کی تلوار سے مولی گاجر کی طرح کاٹا جارہاہے ۔لاشیں غلاظت کے ڈھیروں سے ملتی ہیں ، جائز شرعی نکاح کرنے والے شوہروں اور بیویوں کو دن دہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ پانچ پانچ سال کی گڑیاؤں کے”نکاح “ ستر ستر سال کے پیرانِ فرتقت سے پڑھائے جارہے ہیں اور نکاح پڑھانے والے مذہب  کے جھنڈے ہاتھوں میں اٹھائے ہیں ،دو کروڑ بچے سکولوں سے باہر ریستورانوں میں پتیلے اور کڑاہ مانجھ رہے ہیں ۔ ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے فرشِ زمین پر لیٹے ہیں اور لمبی طویل راتیں وحشت و بربریت کی کھڑی نوکدار سلاخوں پر گزارتے ہیں بیٹی کو جنم دینے والی ابھی زچگی کے بستر پر ہی ہوتی ہے کہ طلاق کے تین خنجر  اس کے رحم میں بھونک دئیے جاتے ہیں ، یہ سارے ظلم برابر ہورہے ہیں ،مسلسل ہورہے ہیں ، رات دن ہورہے ہیں کیا ایک حرف نہیں بولتے مگر مجھ غریب کے یومِ پیدائش کو عزت اور انا کا مسئلہ بنائے پھرتے ہیں ۔

میرے یوم ِ پیدائش کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں جن کے چہروں پر سیاہ سائے لے آتی ہیں وہ ایک لفظ نہیں بولتے،ان مجرموں کے خلاف جنہوں نے عوام کی زندگیوں میں زہر گھول رکھا ہے،  عبا اور عمامہ ان حاجیوں سے سمجھوتہ کرچکے ہیں جو خلقِ خدا کو خوراک میں زہر ملا کر کھلا رہے ہیں ، آٹا خالص ملتا ہے نہ دودھ،شہد نہ دوا،گھی نہ مکھن۔ ٹیلی ویژن والے کتنے ہی مشترع چہروں کو سامنے لا چکے، خوردنی اشیا میں غلاظتیں ملانے والے نمازیوں کو آشکارا کرچکے مگر منبر و محراب سے کوئی آواز مذمت کی اٹھی نہ سنی۔

خوشبو اور پھولوں کے ان دشمنوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اغواکرنے والوں ،تاوان حاصل کرنے والوں ،گاڑیاں اٹھوانے والوں اور پھر ان گاڑیوں کو ان مالکوں کے حوالے کرتے وقت لاکھوں روپے لینے والوں کی اکثریت نیکو کاروں پر مشتمل ہے۔ ہزاروں افراد گواہ ہیں کہ یہ “کاروبار” نمازیں پڑھ کر ہوتا ہے۔

سینکڑوں مظلوم ایسے ہیں ۔ جنہیں ان کی اپنی گاڑیاں مسجدوں میں بیٹھ کر واپس جاتی ہیں اور انہیں اپنی گاڑیوں کی “قیمت “لاکھوں میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ مگر اِن “کاروبار” کرنے والوں کے خلاف کبھی کچھ نہیں کہا جاتا۔ ان کی برائیاں چُھپ جاتی ہیں ۔ یہ سارے نیکو کار ہیں ۔ برائی صرف وہ سوختہ سامان کررہے ہیں جو میرا یوم ِ پیدائش مناتے وقت چند لمحوں کے لیے خوش ہولیتے ہیں ، اس ارضِ سیہ روز پر بچوں بچیوں کی آبرو ریزی اور قتل پر خاموش رہنا جرم نہیں ، پھول بانٹنے پر اور خوشبو بکھیرنے پر خاموش رہنا جرم ہے۔ اس کی مذمت فرض عین ہے۔ دشمنی قاتلوں ،بھیڑیوں اور وحشیوں سے نہیں ،کلیوں ،غنچوں ،بھونروں ،بلبلوں ،تتلیوں اور رنگوں سے ہے۔

مگر  یہ جو  چاہے کرلیں ،میری پیدائش کی خوشیوں کا گلا نہیں گھونٹ سکتے۔یہ خوشیاں اب اور پھیلیں گی ،میری پذیرائی ،جغرافیائی سرحدوں سے آگے نکل چکی ہے۔ یہ اب کسی ایک ملک کا معاملہ نہیں ، یہ تو سمندروں کے پار، اس سیارے کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک جا پہنچی ہے۔

ایک حیرت اور بھی ہے جو مجھے گھیرے ہوئے ہے کہ یہ خاص عدسے   جو دنیا کی ہر شے میں فحاشی دیکھ لیتے ہیں ،کہاں سے سپلائی ہورہے ہیں ؟میں نے کئی عینک فروشوں سے پوچھا، کئی آپٹیشین

Opticians

سے  رابطہ کیا مگر کسی کے پاس ایسے شیشے نہیں ملے۔ سب نے لاعلمی کا اظہار کیا، رسد کا کوئی خاص ذریعہ، کوئی خاص سورس ایسے شیشے رات دن مسلسل بانٹ رہا ہے، جنہیں لگا یاجائے تو پھول کانٹوں کی طرح نظر آتے ہیں ۔ خوشبو ناقابلِ برداشت لگتی ہے۔ ہر تعلق میں برائی نظر آتی ہے۔ انہیں لگا کر پوری دنیا فحاشی اور جنس کا مرقع دکھائی دیتی ہے۔ کچھ  عینک فروشوں کا خیال یہ بھی ہے کہ   یہ شیشوں کا اور عدسوں کا قصور نہیں ، خلل ایسی آنکھوں کے اندر ہے۔ بینائی ہی سرطان زدہ ہے۔ پپوٹے ہی ناقص ہیں ،پلکیں ہی بیزاری سے بنی ہیں ۔ اور آنکھوں کی جھلی کے پیچھے جو پردہ ہوتا ہے وہی پھٹا ہوا ہے۔ایسی آنکھوں کو ہر حال میں ،ہر شے میں برائی ہی نظر آئے گی۔ جنس ان کے حواس  پر  یوں سوار ہے کہ اب وہ شخصیت کا حصہ بن چکی ہے۔

منفی طرزِ فکر کی کوئی حد نہیں ہوتی! قنوطیت ایک مہلک بیماری ہے۔ایک صاحب  کو خوش خبری دی گئی کہ ان کا پالتو کتا دریا میں پانی پر چل رہا تھا۔ رو پڑے کہ ہائے افسوس !کاش تیر سکتا!


Wednesday, February 14, 2018

منہ اور کھر کی بیماری



آپ کا کیا خیال ہے پاکستانی پنجاب کا سب سے زیادہ بد قسمت ،سب سے زیادہ بد نصیب اور سب سے زیادہ محروم توجہ حصہ کون سا ہے؟

آپ کے ذہن میں سب سے پہلے جنوبی پنجاب یعنی سرائیکی پٹی کا نام آئے گا ۔
مگر آپ کا جواب درست نہیں !
سرائیکی پٹی کے سیاست دان تو وزیر اعظم رہے،صوبے کی گورنری ان کے پاس رہی ،وزیر اعلی رہے مصطفی کھر سے لے کر صادق قریشی تک ،یوسف رضا گیلانی سے لے کر کئی مخدوموں تک ۔سیاہ و سفید کے مالک رہے۔
سرائیکی پٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جنوبی پنجاب اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ رؤف کلاسرہ جیسی طاقت ور آواز اس کے لیے اٹھتی رہتی ہے ۔رؤف کلاسرہ صحافیوں کے اس روباہ صفت طبقے سے نہیں جو فروختنی  ہیں  اور اپنے  ماتھے پر پرائس ٹیگ چسپاں کر کے اقتدار کی دہلیز پر حاضر ہوتے ہیں ۔چونکہ وہ بے غرض ہے اس لیے اس کی آواز بلند ہے اور سنی جاتی ہے ۔مگر شکوہ اس سے یہ ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کے علاوہ ،ادھر ادھر کہیں نہیں دیکھتا ۔پنجاب کے پسے ہوئے وہ حصے بھی، جو جنوبی پنجاب میں نہیں ،رؤف کلاسرہ کی آواز کے محتاج ہیں۔
تو پھر آپ کا کیا خیال ہے ،پنجاب کا سب سےزیادہ بد قسمت ،سب سے زیادہ بدنصیب اور سب سے زیادہ محروم توجہ حصہ کون سا ہے ؟اب آپ کہیں گے شمالی پنجاب ،مثلاً راول پنڈی مگر یہاں بھی آپ غلطی کر گئے ۔پنڈی کو شیخ رشید جیسا سیاست دان ملا ہوا ہے ۔اس نے شہر کو سکولوں ،کالجوں سے بھر دیا ۔خاص طور پر خواتین کے لیے کئی کالج بنوائے۔حنیف عباسی نے بھی کئی ترقیاتی کام کرائے ۔
تختِ لاہور کے نواحی اضلاع کا تو آپ یقیناً نام نہیں لیں گے ۔یہ تو سنہری اضلاع ہیں ۔سیالکوٹ ،گوجرانوالہ ،شیخوپورہ ،فیصل آباد ،ناروال اور خود لاہور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو وہ “اصل”پنجاب ہے جسے شریف خاندان واقعی پنجاب سمجھتا ہے ۔مسلم لیگ نون انہی اضلاع کا نام ہے ۔مسلم لیگ نون کے وہ لیڈر جو شریف برادران کے دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے ہیں۔انہی خوش قسمت پانچ چھ ضلعوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔خواجہ سعد رفیق ،خواجہ آصف ،عابد شیر علی،احسن اقبال،خرم دستگیر ،سائر ہ افضل تارڑ،انوشہ رحمان ،رانا ثنا ءاللہ ،رانا افضل حسین ،پرویز ملک ،،کامران مائیکل ،برجیس طاہر ،رانا تنویر حسین،زاہد حامد،دانیال عزیز ،طلال چوہدری ،رانا مشہود احمد خان ،یہی وہ خوش قسمت ہیں جو حکومت کے اصل مالک ہیں اور شریف برادران کے بازو ہاتھ آنکھیں اور کان ہیں ۔چوہدری نثار علی خان ہمیشہ سے
 odd     man   out 
تھے ،چنانچہ اب وہ آؤٹ ہیں ۔ کہنے کو تو شاہد خاقان عبادسی وزیر اعظم ہیں مگر کیا وہ مذکورہ بالا افراد میں سے کسی کا حکم ٹال سکتے ہیں ؟
اس سے پہلے کہ آپ کو بتایا جائے ،پنجاب کا سب سے زیادہ بد قسمت سب سے زیادہ بد نصیب اور سب سے زیادہ محروم توجہ حصہ کون سا ہے ،یہ جان لیجیے کہ ماؤتھ اینڈ فُٹ بیماری کیا ہے ۔یہ بیماری ان جانوروں کو لگتی ہے جن کے چار پاؤں اور چار ٹانگیں ہوتی ہیں ۔اس لیے کہ آج کل دو پاؤں اور دو ٹانگوں والے مویشی بھی عام ہیں ۔اس سے منہ میں چھالے پڑ جاتے ہیں ۔پاؤں یعنی کُھر زخمی ہو جاتے ہیں ۔تیز بخار چڑھتا ہے اور مویشی مرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔اس وقت چکوال اور اٹک کے اضلاع اس بیماری کی لپیٹ میں ہیں ۔سو سے زیادہ مویشی ایک ہفتے میں مر چکے ہیں۔ان میں سے ایک ایک بیل لاکھوں کا تھا ۔
اگر حفاظتی اقدامات کیے جائیں اور حفاظتی ٹیکے بروقت لگائےجایئں تو اس مصیبت کو ٹالا جاسکتا ہے ۔مگر چکوال اور اٹک پنجاب بھر میں وہ دو اضلاع ہیں جہاں حفاظتی ٹیکے(ویکسی نیشن )نہیں لگائے گئے ۔کیوں ؟ انگریز ی زبان میں چھپنے والا معروف ترین روزنامہ نے اس کیوں کا جواب ڈھونڈ نکالا ہے۔سُنیے اور پھر اپنے آپ سے پو چھیے کہ پنجاب کا سب سے زیادہ محروم توجہ حصہ کون سا ہے ۔
“پنجاب لائیو سٹاک اور ڈیری کے محکمے کے ایک سینئر افسر نے روزنامہ کو بتایا کہ چکوال اور اٹک میں بیماری روکنے والا ویکسی نیشن نہیں لگایا گیا کیونکہ دونوں ضلعوں کو حکومت نے “کنٹرول زون”قرار دیا ہوا ہے “۔
“یہ کنٹرول زون “ کیا ہوتا ہے “روزنامہ بتاتا ہے کہ -:
“کنٹرول زون وہ ہوتا ہے جس میں ویکسی نیشن (حفاظتی ٹیکے )نہیں لگائے جاتے ۔وائرس کو کھلی چھٹی دی جاتی ہے کہ وہ مویشیوں پر حملی کرے تا کہ اس وائرس پر تحقیق(میڈیکل سٹڈی )کی جاسکے اور ویکسی نیشن تیار کی جاسکے ۔یوں باقی اضلاع میں مویشیوں کو بچا لیا جاتا ہے ۔”
گویا اٹک اور چکوال کے دو اضلاع ،دو تجربہ گاہیں ہیں۔یہاں حفاظتی ٹیکے روک کر بیماری پھیلنے دی جاتی ہیں ۔پھر اس بیماری کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔تحقیق ہوتی ہے ۔پھر اس کی بنیاد پر ویکسی نیشن تیار کر کے دوسرے اضلاع کے مویشیوں کو لگایا جاتا ہے تا کہ وہ بیماری سے محفوظ رہیں۔
آپ نے سنا ہو گاکہ نئی ادویات تیار کر کے چوہوں ،خرگوشوں ،مینڈکوں اور اس قبیل کےدوسرے جانوروں پر آزمائی جاتی ہیں ۔اٹک اور چکوال کے اضلاع سے بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو خرگوشوں ،چوہوں اور مینڈکوں سے کیا جاتا ہے ۔
اگر ان اضلاع سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندے اپنے حلقوں سے مخلص ہوتے تو صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں کھڑے ہو کر پوچھتے کہ صرف ان دو ضلعوں کو”کنٹرول زون”یعنی تجربہ گاہ کیوں بنایا گیا ہے ؟کیا باقی اضلاع کے مویشی مالکان آسمان سے اترے ہیں ؟ان دو ضلعوں کو کنٹرول زون قرا ردینے والے افراد کی نشان دہی کرائی جاتی پھر انہیں سزا دلوائی جاتی مگر ان بد قسمت اور محروم توجہ اضلاع کے نمائندے حکمرانوں کےسامنے دست بستہ تو کھڑے رہ سکتے ہیں،کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکتے اس لیے کہ مفادات زبان پر قفل لگا دیتے ہیں ۔
پنجاب کے ان مغربی اضلاع میں وزیر اعلی یا وزیر اعظم چار سال میں کتنی بار آئے؟ان چار سالوں سے پہلے بھی پنجاب میں ان کی حکومت عشروں پر محیط رہی۔اس میں ان اضلاع کے لیے کیا گیا ؟
مویشی تو منہ اور کُھر کی بیماری سے مر ہی جائیں گے ۔مگر ایک بات طے ہے کہ منہ اور کُھر کی بیماری حکمرانوں کو بھی لگ چکی ہے ۔ان کے منہ میں ایسے آبلے پھوٹے ہیں کہ اب”مجھے کیو ں نکالا”کے سوا اور کوئی آواز نہیں نکلتی ۔ان کے کُھروں میں ایسی بیماری ہے جو انہیں لندن، جدہ، استنبول ،چین اور امریکہ تو لے جاسکتی ہے ،صوبے کے اطراف واکناف میں لے جانے سے قاصر ہے۔
یہ مویشیوں کو ویکسی نیشن نہیں لگاتے تو نہ لگائیں قدرت ایک اور ویکسی نیشن تیار کر رہی ہے اور لگا رہی ہے ۔ایک حفاظتی ٹیکہ مکافاتِ عمل نے عدلیہ کے ذریعے لگوایا ہے۔سالہا سال سے رکاوٹیں عوام کی تذلیل کر رہی تھیں ۔ڈرپوک حکمرانوں نے راستے بند کر رکھے تھے ۔عدلیہ نے یہ راستے کھلوائے۔کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ہیٹ پوش حکمران  عدالتوں میں پیش ہوں گے۔ یہ تو کابینہ اور اسمبلی جیسے اداروں کو پرِکاہ کی اہمیت نہیں دیتے تھے !انہونی ،ہونی ہو گئی ۔کوئی مانے نہ مانے ،تبدیلی تو یہ ہے ۔
مُلک کے جنوبی حصے میں منہ اورکُھر کی بیماری زور پکڑ رہی تھی۔ایک شخص لندن میں بیٹھ کر منہ سے جھاگ نکالتا تھا اور زمین پر زور زور سے سُم مارتا تھا ۔دستِ قدرت نے اسے ایسا ویکسی نیشن لگایا کہ سامان ِعبرت بن گیا ۔اُس کے پیروکار تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرگئے۔یوں کہ اب کسی مالا میں پروئے ہی نہیں جارہے ۔آپس میں بر سر ِ پیکار ہیں ۔دست و گریباں ہیں ۔ابھی تو ویکسی نیشن کی ڈوز پوری لگی بھی نہیں۔
غور کیجیے ،کراچی میں ایک سیاست دان نے شہری کو سرِ عام اسلحہ دکھایا ۔ٹیلی ویژن پریہ سیاست دان ایک کان سےدوسرے کان تک دہانے کو پھیلاکر مسکرا رہا ہے ۔وہ کراچی جو علم و فضل کا گہوارہ تھا ۔پورے ملک کا ادبی ،ثقافتی اور علمی رہنما تھا ،اس کراچی کے فرزند اسلحہ کی نمائش کرتے ہیں ۔ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں ۔جسموں میں ڈرل مشین سے سوراخ کرنے اور لاشوں کو بوریوں میں بند کرنے کا رواج یہیں سے چلا ۔منہ سے جھاگ نکالنے والے اور زمین پر زور زور سے سُم مارنے والے لیڈر نے عوام کو کہا ،کتابوں پر لعنت بھیجو ۔پڑھنے لکھنے میں کچھ نہیں رکھا۔ٹیلی ویژن اور وی سی آر بیچو اور کلاشنکوفیں بندوقیں ،ریوالور اور گولیاں خریدو۔جس کمیونٹی میں سلیمان ندوی ،محمد علی جوہر ،حکیم اجمل خان ،شبلی ،حالی ،احمد رضاخان ،اشرف علی تھانوی اور اکبر اٰلہ آبادی جیسے نابغے پیداہوتے تھے ۔اس میں جاوید لنگڑا ،فلاں کمانڈر ،فلاں رسہ گیر ،فلاں کن ٹٹا،فلاں اٹھائی گیرا ،فلاں لقندرا،فلاں بانکا،فلاں دادا،فلاں آتش زن،فلاں مردم خور ،فلاں گرہ کٹااور فلاں خدائی خوار پیدا ہونے لگے اور پھر قوم کی رہنمائی بھی کرنے لگ گئے۔
منہ اور کُھر کی بیماری اہلِ حکومت میں اور اہلِ سیاست میں عام ہونے لگی ہے ۔مگر قدرت ساتھ ساتھ ویکسی نیشن کا  انتظام بھی کیے جارہی ہے۔ دیکھتے جایئے۔


Tuesday, February 13, 2018

زندگی کی سب سے بڑی غلطی


زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ ان پر بھروسہ کرلیا ،
دیکھنے میں یہ صاحب مناسب لگ رہے تھے ،پابند صوم صلٰوۃ ،علم کا دعویٰ تھا ،تقویٰ کا بھی اور سب سے بڑھ کر یہ یقین دہانی کہ وہ میری رہنمائی فرمائیں گے اور ان کا اصرار کہ وہ رہنمائی کرنے کے اہل ہیں ۔
میں نے سب کچھ ان پر چھوڑ دیا ۔،انہوں نے کہا دین کا تقاضا ہے کہ شمال کی طرف چلو ،میں نے بیگ اٹھایا اور شمال کی طرف چل پڑا، چلتا رہا’ چلتا رہا ۔ منزل نہ آئی، انہوں نے کہا ‘نہیں شمال کو چھوڑو ‘مشرق کی طرف چلو۔ میں نے مشرق کی طرف چلنا شروع کردیا ۔پھر انہوں نے کہا تیز چلو۔ میں نے رفتار بڑھا دی !پھر فرمایا آہستہ چلو ۔میں سبک خرام ہوگیا ۔
کہا یہ لباس نہیں ‘وہ لباس پہنو’ میں نے ان پر بھروسہ کرتے ہوئے جو لباس پہنا ہوا تھا، اتار پھینکا۔ ان کی تجویزکردہ پوشاک زیب تن کرلی ۔ایک عرصہ بعد کہنے لگے ‘وہ پہلے والا بھی پہن سکتے ہو!
میری سپردگی ‘میری فرماں برداری ‘اور میرا ان پر مکمل انحصار ۔یہ سب ان کے فخرو اطمینان کا باعث بن گیا۔ وہ اپنے آپ کو حاکم اور مجھے محکوم سمجھنے لگے۔ ،میں ان کی نظر میں موم کی ناک سے زیادہ کچھ نہ تھا۔اب وہ میری زندگی کے ہر پہلو میں دخل اندازی کرنے لگے۔ شادی کس طرح کروں ‘بچے کا نام کیا رکھوں ‘رمضان کیسے گزاروں ‘عید کس طرح مناؤں ‘یہاں تک کہ موت کےموقع پر بھی انہی کے احکام چلنے لگے۔ تدفین کس طرح ہو’ کس وقت ہو’وہ تو بھلا ہو عزرائیل کا ‘اس نے روح قبض کرتے وقت ان سے ہدایات نہ لیں !
میں ان کے لیے ایک کھلونا تھا۔ مجھ سے کھیلے اور خؤب کھیلے۔
میں ان کے لیے پلے ڈو تھا ۔کیا آپ کو معلوم ہے پلے ڈو کیا ہے؟ یہ وہ مٹیریل ہے جس سے بچے مختلف شکلوں کی چیزیں بناتے ہیں۔اس میٹریل میں آٹا اور نمک اور پانی اور بورک ایسڈ اور معدنی تیل ہوتا ہے ۔بچہ اس سے کبھی گڑیا بناتا ہے کبھی مکان’ کبھی بلی اور کبھی پلیٹ۔ میں بھی انکےلیے پلے ڈو تھا۔جس طرح موڑتے ‘مڑ جاتا جس طرف چپٹا کرتے ‘چپٹا ہوجاتا۔انہوں نے میری ہر شکل بنائی اور کوئی شکل بھی بدقمتی سے مستقل نہ تھی!
جہانگیر کے دربار میں پرتگالی پرنٹنگ پریس لائے ۔ انہوں نے اسے غیر اسلامی قرار دیا۔ عثمانی خلیفہ کے دربار میں ایک جرمن ‘یہی پرنٹنگ پریس لایا۔یہاں حضرت نے پھر فیصلہ صادر کیا کہ قرآن پاک اور مقدس کلمات اس شیطانی مشین پر نہیں چھپ سکتے ۔اب حضرت کی اپنی ساری کتابیں سارے جریدے ‘پریس پر چھپتے ہیں ۔انگریزی سکول کالج بنے تو انہوں نے کہا ان میں پڑھنا حرام ہے۔اب ان کے بیٹے چھوڑ بیٹیاں کالجو ں یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں ۔ اور کچھ تو تن تنہا امریکہ میں پڑھ رہی ہیں ۔
ٹیلی فون بنا تو اسے یہ کہہ کر زمین پر پٹخ دیا گیا کہ ۔” ہذا صوت الشیطن” یہ تو شیطان کی آواز ہے! اب ان کے پاس چار موبائل فون ہیں ۔گھر میں ‘مدرسہ میں ‘ہر جگہ لینڈ لائن کام کررہی ہے۔
ٹیلی وژن آیا تو فرمایا ٹی وی تو حرا م ہے ۔میں نے گھر آکر ٹی وی سیٹ توڑ دیا ۔بیوی بچوں سے جھگڑا کیا ۔اب آپ رات دن ٹی وی پر وعظ کرتے ہیں۔
پھر کہا پیپسی اور کوکا کولا کا بائی کاٹ کرو۔ یہ یہودیوں کی  کمپنیاں ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ وہ خؤد یہودیوں کی ایجادات اور مصنوعات خؤب خؤب استعمال کررہے تھے۔ جہاز’ موبائل’انٹرنیٹ ‘کار’ٹیلی ویژن’ ادویات ‘سرجری ‘بہت کچھ یہودیوں اور نصٰریٰ نے بنایا ہے مگر خؤد کسی شے کا بائی کاٹ نہیں کرتے۔
تصویر کو حرام قرا ر دیا ۔اب فوٹو گرافر کے بغیر ساتھ والے گھر میں بھی نہیں جاتے۔
مشرق وسطٰٰی کے ایک طاقتور ملک نے عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی لگا دی ۔آپ نے فقہ کی ہی نہیں ‘میڈیسن کی کتابیں بھی کھول لیں،حکومت نہیں چاہتی کہ عورتیں ڈرائیو کریں ۔ آپ نے حکومت کا ساتھ دیا۔ ستمبر 2013 میں اس ملک کی خواتین نے نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا اور گاڑیاں چلانے کا پروگرام بنایا۔ حضرت کو فکر ہوگئی کہ حکومت ناکا م نہ ہوجائے۔ فوراً فتویٰ جاری کیا ۔ یہ فتویٰ دنیائے سلام کی تاریخ کا شرم ناک ترین فتویٰ تھا۔اس میں کہا گیا۔”گاڑی چلانا عورتوں کو جسمانی طور پر نقصان پہنچائے گا۔اس سے بیضہ دانی متاثر ہوسکتی ہے۔ گاڑٰی چلانے سے پٹیرو(pelvis)

اپنی جگہ سے ہٹ کر اوپر چلا جاتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان عورتوں کے بچے قسم قسم  کی بیماریاں لے کر پیدا ہوتے ہیں “۔
ایک فتویٰ یہ بھی تھا کہ ان کا دماغ سکڑ کر ایک چوتھائی رہ جاتا ہے۔
سب سے بڑے مفتی شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ نے 2016 میں فرمایا کہ “عورتوؐں کی ڈرائیونگ ایک خطرناک معاملہ ہے جو عورتوں کو برائی کی طرف لے جاتا ہے”۔
شیخ عبدالعزیز الفوزان نے کہا کہ عورتوں نے گاڑی چلانی شروع کردی تو اس سے انہیں مردوں کو ملنے کا موقع مل جائے گا۔
ستمبر 2017 میں حکومت نے عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی۔ آپ نے بھی رائے فوراً بدل لی۔28 ستمبر 2017 کے روزنامہ عرب نیوز نے رپورٹ کیا کہ سینئرعلما کی کونسل نے جو بادشا ہ کو مذہبی معاملات میں “مشورہ “دیتی ہے ،کہا ہے کہ بادشاہ کا پابندی ہٹانے کا فیصلہ درست ہے۔ “بادشاہ وہی کچھ کرتا ہے جو قوم کے لیے بہترین ہو۔”27 ستمبر 2017 کے روزنامہ “گلف نیوز” نے علماء کونسل کا مندرجہ ذیل بیان چھاپا
اللہ تعالی خادم حرمین شریفین کی حفاظت فرمائے جو ملک اور قوم کے مفاد کی حفاظت اسلامی قوانین کی روشنی میں فرماتے ہیں ۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ شرق اوسط کے مقدس ملک میں خواتین کے لیے عبایا پہننا لازم ہے۔ نہ صرف عرب خواتین ‘نہ صرف مسلمان خؤاتین بلکہ غیر مسلم اور غیر عرب خواتین بھی عبایا کے بغیر گھروں سے باہر نہیں نکل سکتیں ۔سختی کا یہ عالم رہا کہ مطوعے (شرعی پولیس مین) دکانوں پر چھاپے مار کر وہ عبایا بھی ضبط کرتے رہے ہیں جن کے بازوؤں پر کشیدہ کاری پائی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں یہ کڑھائی ‘یہ آرائش’ جو عبایا کے بازوؤں یا کناروں پر تھی یہ بھی شریعت کے خلاف تھی۔
اب حالات بدلے ہیں ۔نئے ولی عہد نے پالیسی بدل ڈالی ہے ۔پابندیاں مٹائی جارہی ہیں ۔چنانچہ حضرت نے بھی پینترا بدل لیا ہے۔ سینئر علما کی کونسل(مجلس ہلیت الکبار العلما)کے ایک معزز رکن نے  تو دو دن پہلے  بساط ہی الٹ دی ہے’فرمایا ہے کہ “خواتین کو عبایا پہننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔خواتین کا لباس یا پہناوا مناسب حد ود میں ہونا لازم اور یہی اہم ہے۔ مسلم دنیا میں90 فیصد خواتین بغیر عبایہ کے زندگی کے معمولات ادا کرتی پھرتی ہیں ۔اور وہ سبھی نیک ہیں ۔عورت سر اوڑھے یا کسی اور طریقے سے پردہ کرے اس میں کوئی حرج نہیں!”
“ظاہر ہے کہ مجلس ِ ہیت الکبارالعلما ءکا کوئی رکن حکومت کی مخالفت نہیں کر سکتا ،کرنی تو دور کی بات ہے سوچ بھی نہیں سکتا ۔اس اعلان کا مطلب واضح ہے کہ حکومت عبایا کی پابندی ہٹانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور زمین تیار کرنے کے لیے یہ اعلان کرایا گیا ہے۔مستقبل قریب میں اور بھی تبدیلیاں رونما ہونے کی توقع ہے ۔سینما گھر کھل رہے ہیں خواتین کو کھیلوں کے میدا ن میں زیادہ آزادی دی جا چکی ہے ۔اب ایک ایسا شہر ہ یا زون بھی بسائے جانے کی تیاری ہے جسے عام رائج قوانین سے مستثنی قرار دیا جائے گا۔
میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ ان پہ بھروسہ کیا ۔انہیں رہنما بنایا ۔آپ نے دیکھا کہ انہوں نے مجھ پر ہر وہ شے مسلط کی جس کا شریعت میں وجود نہ تھا ۔کیونکہ وہی شے کچھ عرصے بعد حرام سے حلال ہو گئی !پچاس سال انہوں نے عورتوں پہ عبایا مسلط کیے رکھا ۔شرطے ،مطوعے ،سپاہی عورتوں کوہراساں کرتے رہے ۔کروڑوں اربوں کھربوں کا اس آئٹم پر بزنس ہوا ۔اس لیے کہ عبایا شرعی حکم تھا ۔اور مطوع شریعت کے نفاذ کا ذمہ دار تھا۔اب عبایا حلال ہو گیا ہے ۔عشروں تک عورتیں گاڑی نہ چلا سکیں ۔مریض گھروں میں راستوں پر مرتے رہے ۔مرد پاس نہیں تھا۔عورت گاڑی چلاتی تو شریعت کی خلاف ورزی ہوتی !آ ج ڈرائیونگ حلال ہو گئی ہے ۔
میرا قصور یہ تھا کہ میں نے خود شریعت کو جاننے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی !ان صاحب نے ہمیشہ میری حوصلہ شکنی کی کہ نہیں ہر مسلمان کے بس کی بات نہیں !میں اگر اپنے بچے کے کان میں خود اذان دوں،اپنے بچوں کو دین کا ضروری علم سکھاؤں ۔نکاح خود پڑھاؤں اپنے پیاروں کا جنازہ خود پڑھاؤں تو ان کے چنگل سے نکل سکتا ہوں ۔اگر ایسا نہ کیا تو یہ اپنی “شریعت مجھ پر مسلط کرتے رہیں گے اور ہر تھوڑے عرصے بعد یہ “شریعت “تبدیل ہوتی رہے گی ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید کو میرے لیے آسان بنایا تھا َاور خود اس میں جگہ جگہ فرمایا کہ ہم نے اسے آسان بنایا ہے ۔ان ظالموں نے مجھے قرآن کے نزدیک ہی نہیں جانے دیا ۔ان کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ کہتے ہیں تم خود نہ پڑھو ۔یہ علما کا کام ہے ۔یہ 2002یا 2003 کی بات ہے ۔کالم نگار کے ایک دوست کا فرزند اپنی شادی کا دعوت نامہ دینے آیا ۔سر پر اس نے ایک پٹی باندھی ہوئی تھی جو شائد اس کے خیال میں د ستار تھی ۔پوچھا کہ نیکو کاروں کے فلاں گروہ کے ساتھ وابستگی کو کتنا عرصہ ہو گیا ؟کہنے لگا چودہ برس پوچھا ۔اب تو ماشاء اللہ قرآن پاک کی آیات کا مطلب سمجھ لیتے ہو گے ؟”اپنے پوتوں اور نواسی کی معصومیت کی قسم ۔اور خدا مرتےوقت ایمان نہ دے اگر جھوٹ بولوں ،اس نے جواب دیا نہیں !بزرگوں نے منع کیا ہوا ہے !
یہ کبھی قرآن پاک کے نزدیک نہیں ہونے دیں گے ۔ایسا ہوا تو ان کی اجارہ داری ان کا تسلط ان کا کاروبار ان کی پاپا ئیت سب خطرے میں پڑ جائے گا ۔
ان سے جان چھڑاؤ !ان پیرانِ تسمہ پا سے جان چھڑاؤ ۔ان کی ہر لحظہ بدلتی شریعت کا اصل شریعت سے کوئی تعلق نہیں ۔

 

powered by worldwanders.com