Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, June 29, 2016

ریاست؟ کون سی ریاست؟

تو کیا ہمارے حکمرانوں کا رتبہ (میرے منہ میں خاک) امیر المومنینؓ سے بھی بڑا ہے؟ فرات کے کنارے کتا مر جائے تو ذمہ دار امیر المومنینؓ ہوں گے۔ اور دن دہاڑے پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر ایک ڈرائیور نما جانور کے ہاتھوں ٹرالی کے نیچے آ کر کچلا جائے تو ذمہ دار کوئی نہ ہو، نہیں، ایسا نہیں ہو گا! ایسا نہیں ہو سکتا! پوچھا جائے گا پروفیسر کہاں کچلا گیا؟ جواب دیا جائے گا راولپنڈی کی ایک شاہراہ پر۔ پھر ذمہ دار کا تعین کیا جائے گا۔ صوبے کے حکمران کو جواب دینا ہو گا۔ کیا اُس نے کبھی معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر ہفتے، ہر ماہ، ہر سال ٹرالیوں کی وجہ سے کتنے بچے یتیم ہو رہے ہیں؟ کتنی عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں؟ کتنی مائیں جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہی ہیں! شاہراہوں پر، سڑکوں پر، کچے راستوں پر، ٹرالیاں قتل عام کر رہی ہیں۔ صوبے کے حکمران نے اس ضمن میں کیا کیا ہے؟ کتنے قوانین اِن وحشی قاتلوں کو روکنے کے لیے بنائے؟ کتنوں کو سزا ملی؟ مستقبل کے لیے کیا روک تھام کی گئی؟ کابینہ کے وزرا آج غائب ہیں اور نوٹس، سوئی سے لے کر ہاتھی تک۔۔۔۔ ہر شے کا آں جناب خود لینے کے شائق ہیں، تو یہ وزرا کل تو ہر حال میں غائب ہوں گے! ایک طیب منیر نہیں، مقتولوں کی قطار۔۔۔۔ طویل قطار۔۔۔۔ ایک طرف ہو گی، اُس دن کوئی انگلی لہرا سکے گا نہ ایک وعدہ اور داغ سکے گا      ؎
لباس بے آبرو، جواہر سیاہ سارے
وہ دن کہ جب جمع ہوں گے عالم پناہ سارے
وعدے۔۔۔ وعدے۔۔۔ وعدے! وعدوں کا کوئی انت نہیں! مستقبل کے صیغوں کی بھرمار! گا۔۔۔ گے۔۔۔ گی کا جتنا استعمال اِس دور میں ہوا ہے اتنا پچاس سال گریمر پڑھانے اور پڑھنے والوں نے نہیں کیا ہو گا! ’’دُکھی انسانیت‘‘ تکیہ کلام بن چکا ہے۔ تازہ وعدہ ملاحظہ ہو: ’’میں نے دُکھی انسانیت کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہسپتالوں کو درست کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے! جس کے نتائج عوام ایک سال میں دیکھیں گے۔ عام آدمی کو اچھی طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ہسپتالوں کو ٹھیک کر کے دم لوں گا‘‘۔
عشروں سے آپ سیاہ و سفید کے مالک ہیں! یہ کام ضروری تھا تو آپ نے اب تک کیوں نہیں کیا؟ اور اگر تیس سال میں نہیں ہوا تو مزید ایک سال میں کیسے ہو گا؟ کیا آپ کو واقعی نہیں احساس کہ ایسے دعوے، ایسے وعدے سن کر لوگ بے اختیار ہنس دیتے ہیں؟ استاد نے کلاس کے بچے سے پوچھا، تین جمع دو کتنے ہوتے ہیں؟ بچے نے معصومیت سے الٹا سوال کر ڈالا۔ سر! کیا آپ کو واقعی نہیں معلوم؟ تو کیا آپ نے واقعی کبھی نہیں سوچا کہ خلقِ خدا کیا کہے گی؟
ہسپتالوں کی حالت کیسے ٹھیک ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ خود طبی معائنے کے لیے کتنی بار ولایت گئے ہیں؟ لاہور یا صوبے کے کس ہسپتال میں کب آپ نے اپنا طبی معائنہ کرایا؟ آپ کے تو نوکر بھی ان ہسپتالوں کو اپنے لیے مناسب نہیں سمجھتے؟ ملک کے سربراہ ملک کے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی توہین کر کے لندن مقیم ہیں! مُلک صابری جیسے مقبولِ عام فنکار کا سوگ منا رہا ہے۔ جنازہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ عدالتِ عالیہ کے قاضی کا بیٹا گُڈ گورننس کی نذر ہو چکا ہے اور خبریں سوگوار، خوف زدہ قوم کے سینے پر مونگ یہ دل رہی ہیں کہ وزیراعظم گھر والوں کے ساتھ گراں ترین سٹور میں شاپنگ کر رہے ہیں۔ کھڑی شریف کے فقیر نے کہا تھا: ’’دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مر جاناں‘‘ اور یہاں تو مرنے والے اور مرنے والوں کا سوگ منانے والے آپ کے دشمن بھی نہیں، آپ کی رعایا ہیں!
حکمران آکسفورڈ سٹریٹ، ہائیڈ پارک، ہیرڈ اور مارک اینڈ سپنسر پر فریفتہ ہیں۔ قوم نے جو کچھ اس کے پاس تھا، نذر کر دیا، مگر اب آکسفورڈ سٹریٹ کہاں سے لائے؟ قوم کی خوش قسمتی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم مع خاندان لندن میں مقیم ہیں اور اپوزیشن کے رہنما دبئی میں!         ؎
میں اِتھے تے ڈھولا تھل وے
مینڈی اللہ خدائی آلی گل وے
ڈاکٹر طیب منیر! آہ طیب منیر! بریک کے بغیر ٹرالی چلانے والے وحشی کو کیا معلوم کہ اُس نے کس کو کچل دیا۔ ایک محقق، ایک استاد جس کے شاگرد رو رہے ہیں اور دوست دل گرفتہ ہیں! رومی نے کہا تھا: کسی نے بتایا ہے کہ سنائی چل بسا۔ یہ کوئی معمولی خبر نہیں! سنائی کوئی تنکا نہیں تھا کہ اسے ہوا اڑا لے گئی۔ وہ پانی نہیں تھا کہ جاڑا اُسے منجمد کر جاتا! 
شانہ نبود او کہ بہ موئی شکست
دانہ نبود او کہ زمینش فشرد
وہ کنگھی نہیں تھا کہ بالوں میں پھیرتے ہوئے ٹوٹ گئی۔ وہ دانہ بھی نہ تھا جسے زمین کھا جائے۔ وہ تو اِس خاکہ ان میں ایک خزانہ تھا زر کا خزانہ!
پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر سے پہلی ملاقات سالہا سال پہلے گورنمنٹ ڈگری کالج سیٹیلائٹ ٹاؤن میں ہوئی جہاں میں ڈاکٹر رؤف امیر سے ملنے گیا۔ رؤف امیر دوست بھی تھا، برخوردار بھی اور فین بھی۔ پورا کلام اِس لکھنے والے کا اسے ازبر تھا! قازقستان کی الماتی یونیورسٹی میں اردو مسند پر تعینات تھا کہ چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گیا۔ کالج میں طیب منیر بھی تھے۔ خندہ کرتا چہرہ! ستارے جیسی چمکتی پیشانی! شائستگی کا متین نمونہ! پھر اکثر ملاقاتیں رہیں! آخری ملاقات مختصر تھی مگر دِل میں پیوست ہے! اوپن یونیورسٹی کے سربراہ محبِ گرامی ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اِس لکھنے والے کی شاعری کے حوالے سے ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام کر ڈالا۔ ڈاکٹر طیب منیر خصوصی طور پر بین الاقوامی یونیورسٹی سے تشریف لائے جہاں وہ اُردو زبان و ادب کے صدر شعبہ تھے! وہی مسکراتا چہرہ، چاندی جیسے خوبصورت بال! عربی میں کہتے ہیں موتُ العالم، موتُ العالَم! ایک علم والا کیا اُٹھ جاتا ہے، دنیا ہی ساتھ لے جاتا ہے!
یہ بے مہار وحشی ٹرالیاں انسانوں کو چیر پھاڑ کر نگل رہی ہیں اور نگلے جا رہی ہیں! ان کی بریکیں غائب ہیں۔ راتوں کو یہ بے چراغ دندناتی پھرتی ہیں! کوئی سگنل، کوئی اشارہ، کوئی قانون ان پر نافذ نہیں اس لیے کہ ریاست خود غائب ہے۔ جو قانون موٹر سائیکل سواروں کو شکنجے میں نہ لا سکے، وہ ٹرالیوں کو کیسے قتلِ عام سے روک سکتا ہے؟ اِس قوم کو یاد بھی نہ ہو گا کہ خلیل حامدی جیسے عالم، مصنف، ماہرِ لسانیات کی موت ٹرالی ہی کی ٹکر سے ہوئی تھی۔ کل اوکاڑہ کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر عبداللہ اپنے بیٹے، ڈرائیور اور ساتھیوں سمیت جاں بحق ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب حافظ قرآن تھے، بیٹا بھی حافظ تھا! سندھ میں مٹیاری کے مقام پر ڈمپر نے پانچ افراد کو کچل ڈالا۔ ڈمپر ٹرالی کا بھی باپ ہے! نا جائز باپ!! یہاں ایک لطیفہ بھی سن لیجیے، وزیراعلیٰ پنجاب نے مٹیاری کے قریب چھ افراد کے جاں بحق ہونے پر دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے! یہ افسوس بھی بجا ہے! مگر وزیراعلیٰ کے اپنے صوبے میں راولپنڈی کے ڈاکٹر طیب منیر سے لے کر اوکاڑہ کے ڈاکٹر عبداللہ تک ہر روز بیسیوں افراد ٹرالیوں اور ڈمپروں کی نذر ہو رہے ہیں! وہ بھی افسوس کے حقدار ہیں!      ؎
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ براندازِ چمن! کچھ تو اِدھر بھی!
کیا یہ نا ممکن ہے کہ جس علاقے میں ٹرالی قتل کا ارتکاب کرے، اُس علاقے کے ٹریفک کے انچارج کو پکڑ کر قاتل کے ساتھ ہی زندان میں بند کر دیا جائے؟ کیا یہ نا ممکن ہے کہ ٹریفک پولیس بغیر بریک، بغیر چراغ ٹرالیوں کو سڑکوں سے اتار لے؟ کیا وحشی ڈرائیوروں کو سدھارنا ناممکنات میں سے ہے؟ کیا حکومت کو معلوم ہے کہ ویگنوں کے لالچی یہودی صفت مالکوں نے ڈرائیوروں کو وقت کے پنجرے میں ڈال رکھا ہے؟ یعنی ڈرائیور کو یہ بتایا جاتا ہے کہ (مثال کے طور پر) اچھرہ سے لے کر چوبری تک تم نے دن میں اتنے پھیرے کرنے ہیں اور ایک پھیرا اتنے منٹ میں پورا کرنا ہے۔ اب پھیروں کی تعداد پوری کرنے کے لیے ڈرائیور جنونیوں کی طرح گاڑی چلاتا ہے۔ مست اونٹ کی طرح دائیں بائیں آگے پیچھے کچھ نہیں دیکھتا! اس کی آنکھوں میں بینائی کی جگہ خون بھر جاتا ہے!
خدا کی قسم! جنگلوں میں مویشی ہانکتے گڈریے، اِن ٹرالیوں، ڈمپروں، ویگنوں اور ٹریکٹروں کے وحشی ڈرائیوروں سے ہزار گناہ زیادہ مہذب ہیں!

Monday, June 27, 2016

ایک بازار یہاں آخرِ شب لگتا ہے

وہی گلیاں تھیں جن میں امام مالکؒ برہنہ پا چلتے تھے۔ تین تہائی رات ایک طرف تھی اور ایک تہائی ایک طرف۔ سبز گنبد سے روشنی پھوٹتی تھی اور چہار دانگ پھیلتی تھی۔ یہی دنیا تھی مگر نہیں! ایک اور دنیا تھی! ہوا اور تھی۔ مٹی مختلف تھی۔ پاؤں کے نیچے زمین نہیں تھی۔ زائر ایک اور جہاں میں تھا۔ پھر ربِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کرم فرمایا۔ لفظوں کو حکم ہؤا کہ اس بے زبان گنہگار کے پاس جائیں۔ لفظ آتے گئے اور اپنی اپنی جگہ جُڑتے گئے: 
 مدینے کی ہوا ہے اور رخساروں پہ پانی
کوئی ایسی لغت! جس میں سناؤں یہ کہانی
یہاں مٹی میں کنکر لعل اور یاقوت کے سب
درختوں پر یہاں سارے پرندے آسمانی
اسی دہلیز پر بیٹھا رہے میرا بڑھاپا
انہیں کوچوں میں گزرے میرے بچوں کی جوانی
رہے میرا وطن اس شہر کے صدقے سلامت
قیامت کے تلاطم میں وہ کشتی بادبانی
مرے آبِ وضو سے بھیگتی ہے رات اظہارؔ
مری آنکھوں سے کرتے ہیں ستارے دُرفشانی
وطن قیامت کے تلاطم میں ہے! بادبان پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ کاش سمندر میں کوئی مشعلیں ہی پھندک دیتا کہ بادبان روشن ہو جاتے! یہ کشتی سیدھی چل سکتی! اٹھو! جن کی استطاعت ہے جاؤ! پہلے ایک حرم کا طواف کرو۔ پھر دوسرے میں جاؤ۔ سبز گنبد کے سائے تلے کھڑے ہوکر، جہانوں کے مالک کو مدینے کا واسطہ دو۔ مدینہ کی اُن گلیوں کو وسیلہ بناؤ جہاں کفشِ مبارک کا نچلا حصہ پڑتا تھا تو مٹی کا ایک ایک ذرہ ستارا بن جاتا تھا۔ اُس مٹی پر پلکیں بچھاؤ اور وطن کی ہچکولے کھاتی کشتی کی سلامتی کی بھیک مانگو! اور جو مدینہ نہیں جا سکتے، آخری عشرہ آغاز ہو رہا ہے، یہیں گڑ گڑانا شروع ہو جاؤ! یہ دس راتیں غنیمت سمجھو۔ تین پہر ایک طرف ہوتے ہیں اور ایک پہر ایک طرف کہ منادی ہوتی ہے، ہے کوئی طلب کرنے والا؟ ہے کوئی مصیبت زدہ؟    ؎
ایک آواز کہ ہے کوئی خریدار کہیں؟
ایک بازار یہاں آخرِ شب لگتا ہے
مصیبت زدہ؟ ہاں! ہم مصیبت زدہ ہیں! ہم سے زیادہ مصیبت زدہ کون ہوگا؟ ہم سے زیادہ پروردگار کی دست گیری کا مستحق کون ہے؟ ہم بہروپیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمیںگندم کی نوید سنائی جاتی ہے، ہم تھیلے لیے پہنچتے ہیں تو ہمارے تھیلے جو سے بھر دیے جاتے ہیں! بنی اسرائیل چالیس سال بھٹکتے رہے، ہمیں تو اس سے بھی زیادہ عرصہ ہو چلا ہے۔ بھٹک رہے ہیں اور ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں خدا کی قسم جن کی بغل میں منزل کا نہیں، لق و دق صحرا کا نقشہ ہے۔ یہ ہمیں اُس صحرا میں لے جانا چاہتے ہیں جہاں سراب ہیں۔ ہڈیاں بکھری پڑی ہیں۔ سروں کے کاسے ریت میں چمک رہے ہیں۔ ٹوٹی ہوئی طنابیں ہر طرف بکھری ہیں۔ کیا اب بھی کسی کے بتانے کی، خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ اِس دشتِ وحشت میں مسافروں کا انجام کیا ہوتا ہے! دشت کے اندر آبنائے آئی ہوئی ہے۔ خوف کی آبنائے جس کے دونوں طرف جسموں کے پنچر ہیں!
مدارس کو مین سٹریم میں لانے کی بات؟ مدارس کے طلبہ کی فکر؟؟ بخدا یہ بات بنانے والی بات ہے۔ یہ 
After Thought 
کے سوا کچھ نہیں! اِس کالم نگار جیسے شخص مدارس کے مخالف نہیں ہو سکتے بالکل اس طرح جیسے انسان اپنی میراث کے درپے ہوجائے۔ اس کالم نگار کے جدِ امجد نے ساٹھ سال مسجد کے فرش پر بیٹھ کر ہدایہ، کنزالد قائق، جلالین، سکندرنامہ، مطلعِ انوار اور بہت کچھ اور پڑھایا۔ شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو جب دُرِمختار اور فتویٰ عالمگیری ان کے بازؤں کی رسائی میں نہ ہو! پھر بزرگوں سے سعدیٔ ثانی کا خطاب پایا۔ اس کالم نگار کے والد، خدا اُن کی لحد کو منور کرے، اُن چند متقدمین میں سے تھے جو جاہلی شاعری پڑھا جانتے تھے۔ مدتوں مولانا غلام اللہ خان مرحوم کے مدرسہ تعلیم القرآن میں حماسہ، متنبی، سبع معلقات، مقامات حریری پڑھاتے رہے اور عربی انشا سکھاتے رہے۔ جس دن اپنے طلبہ کو اپنی جیب سے چائے نہ پلاتے، بے چین رہتے۔ جسٹس افضل چیمہ مرحوم کہ ان کے نصف صدی پرانے دوست تھے، گھر آئے اور اصرار کر کے رابطہ عالم اسلامی میں مترجم اور ترجمان بنا کر لے گئے۔ کچھ عرصہ بعد وہاں سے فارغ ہوئے تو سیدھے مدرسہ پہنچے اور اسی دن تدریس شروع کر دی! ہم جیسے طالب علم تو مدارس میں پڑھانے والوں کی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں! اور یہ ہمی جانتے ہیں کہ مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ عمران خان؟ عمران خان کو کیا معلوم کہ مدرسہ کیا ہے اور ان میں پڑھانے اور پڑھنے والے کس حال میں ہیں      ع
توچہ دانی کی درین گرد سواری باشد 
کیا اس کالم نگار نے نصف درجن کالم اِس موضوع پر نہیں لکھے کہ مدارس کے اساتذہ کا استحصال ہو رہا ہے؟ وہاں پڑھنے والے بچوں کا حق، مالکان اور ان کے خاندانوں کے بلند معیارِ زندگی کی نذر ہو رہا ہے؟ تو پھر آپ نے کون سا میکانزم ڈھونڈا ہے جس کے تحت ٹیکس دہندگان کی یہ خطیر رقم طلبہ پر خرچ ہوگی؟ اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان اس رقم کا آڈٹ کرے گا۔ ذرا بتا دیجیے تا کہ اُس میکانزم کا دوسرے مدارس پر بھی اطلاق ہو! پھر آپ نے صوبے کے ہزاروں مدارس میں وہی چُنا جو غیر ملکیوں کا گڑھ ہے۔ جس کی خاص شہرت ہے؟ آپ کا مقصد نواز نے کے علاوہ کچھ اور ہوتا تو آپ مفتی رفیع عثمانی ہی سے مشورہ کر لیتے جن کے والد مفتی محمد شفیع تحریکِ پاکستان کے سپاہی رہے اور مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم کے تحت پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں شریک رہے۔
مگر المیہ یہ ہے کہ آپ کو تاریخ سے آشنائی ہی نہیں! تاریخِ پاکستان کاؤنٹی کرکٹ سے ذرا مختلف چیز واقع ہوئی ہے۔ آپ کو یہ تک نہیں معلوم کہ جن سے آپ اپنے آپ کو جوڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے مخالف تھے ورنہ ان سے قائداعظم کو قائداعظم ہی کہلوا دیجیے۔ انہیں بابائے قوم کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے لے جا کر دکھا دیجیے۔ آخر یہ لوگ اپنے بزرگوں کی قبروں پر بھی تو جاتے ہی ہیں! 
پھر ایک خاص مدرسہ کا انتخاب پارلیمنٹ نے کیا یا فردِ واحد نے؟ کیا سنی، شیعہ، اہلِ حدیث، بریلوی، تمام مکاتبِ فکر کے علما اور اصحابِ مدارس سے آپ نے مشورہ کیا؟ کیا یہ سارے مسالک کے مدارس ہمارے اپنے مدارس نہیں؟ آپ میں گہرائی ہوتی تو آپ یہ طرفداری، دھڑے بندی والا کام ہر گز ہز گز نہ کرتے! تمام مکاتبِ فکر کے علما سے مشورہ کرتے۔ پشاور سنجیدہ اور دیانت دار علمائے کرام سے الحمد للہ جگمگا رہا ہے جن میں اہلِ حدیث، بریلوی، شیعہ، دیوبندی تمام موجود ہیں! 
سو، ہمیں کوئی طعنہ نہ دے کہ ہم مدارس کے مخالف ہیں یا یہاں کے طلبہ سے محبت نہیں کرتے! تحدیثِ نعمت کے طور پر۔ بخدا صرف اور صرف تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض ہے کہ ایک بیٹے نے مسجد میں، مدرسہ کے فرش پر بیٹھ کر قرآن پاک حفظ کیا، اب سول سروس میں ہے اور الحمد للہ باپ کی طرح دوپہر کو گھر سے لائی ہوئی سوکھی روٹی سبزی کے ساتھ کھاتا ہے! میں تو اُن قاری صاحب کی خاکِ پا کے برابر نہیں جنہوں نے اسے حفظ کرایا۔ ہم تو اُس قبیلے سے ہیں جہاں اساتذہ کی اولاد کا بھی اساتذہ کے برابر احترام کیا جاتا ہے! گزارش صرف اتنی ہے کہ شیخ سعدی کی بات پر کان دھریے جو اتفاق سے، آپ کی نسبت ذرا زیادہ عقل مند تھے     ؎
ترسم نہ رسی بہ کعبہ اے اعرابی!
کین رہ کہ تو می روی، بہ ترکستان است!
علما انبیا کے وارث ہیں! مگر کون سے علما؟ وہ علما جو مراعات اور پروٹوکول اور سرکاری رقوم سے بے نیاز ہو کر، خالص رضائے الٰہی کے لیے، قال اللہ اور قال الرسول میں عمر گزارتے ہیں۔ وہ نہیں جو بالوں میں مصنوعی سیاہی چمکا کر میڈیا پر جلوہ گر ہوتے ہیں! افسوس ہؤا، کیا وقت آیا ہے اسلام پر! حمزہ علی عباسی دین سے متعارف ہونے کے لیے گیا بھی تو کہاں گیا! ارے بھئی! کسی عالم کے پاس جاتے جہاں علم بھی ہوتا اور برکت بھی! جسٹس تقی عثمانی کے پاس چلے جاتے! مفتی منیب الرحمن کے ہاںحاضر ہو جاتے! ابتسام الٰہی ظہیر کے پاس چلے جاتے! عمار خان ناصر سے ملاقات کرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین پڑھنے اور سمجھنے میں عمریںگزار دیں! ان کے نکتۂ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کی علمیت مسلّمہ ہے!
کہانی کے آغاز کی طرف پلٹتے ہیں! ہم نے اونٹوں کی قطار دیکھی اور لدی ہوئی بوریاں! ہم تھیلے لیے پہنچے مگر ارے! یہ گندم نہیں یہ تو جو ہیں! گندم نمائی! اور جو فروشی! نہیں! جناب نہیں! آپ اپنا پاندان اٹھا لیجیے! آپ کا پاندان ہمارے کام کا نہیں! ایک صوبے کے تجربہ ہی سے معلوم ہو گیا کہ یہ فردِ واحد کے فیصلے ہیں۔ پورے ملک کی حکومت ملی تو کیا ہو گا! اتنا ادراک ہی نہیں کہ سارے مسلکوں، سارے مکاتبِ فکر کو ساتھ لے کر چلیں! مرکز میں برسرِ اقتدار آ کر بھی اگر یہی انصاف ہونا ہے اور تحریکِ پاکستان کے ساتھ یہی ’’وفاداری‘‘ نبھائی جانی ہے تو پھر ابھی سے چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دنیا شروع کیے دیتے ہیں! حالی نے مسدس کا آغاز ایک درد ناک رباعی سے شروع کیا ہے۔ بُری طرح یاد آرہی ہے:
بلبل کی چمن میں ہم زبانی چھوڑی
بزمِ شعرا میں شعر خوانی چھوڑی
جب سے دلِ زندہ تو نے ہم کو چھوڑا
ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی
پس نوشت! ہر کالم نگار کا حلقۂ اثر ہوتا ہے۔ الحمد للہ بھاری اکثریت نے ٹھنڈی سانس بھر کر اتفاق کیا ہے!

Saturday, June 25, 2016

سلامتی کا راستہ درمیانی راستہ ہے

دنیا ٹی وی پر جناب کامران شاہد نے اُس متنازع بل پر مباحثہ کرایا جو پنجاب اسمبلی نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے ماضی قریب میں پیش کیا ہے۔ دونوں طرف کے شرکاء نے بڑھ چڑھ کر جوہر دکھائے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بل کے حق میں جو ٹیم حصہ لے رہی تھی اس میں دو خواتین اور ایک صاحب شریک تھے جبکہ دوسری طرف تینوں کے تینوں شرکا مرد تھے۔ سب نے دلائل دیے، اپنے اپنے نکتہ نظر کا دفاع کیا۔ خوب رونق رہی!
عورت اس ملک میں عرصہ سے زیرِ بحث ہے۔ نہیں معلوم، دوسرے مسلمان ملکوں میں کیا صورتِ احوال ہے۔ پنجاب اسمبلی کے بِل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ دونوں فریق پھر آمنے سامنے ہو گئے۔ الیکٹرانک میڈیا پر، اخبارات و رسائل میں، گھروں میں، تعلیمی اداروں میں، غرض ہر فورم میں دو مختلف اور متحارب نکتہ ہائے نظر سامنے آنے لگے۔ 
طے کچھ بھی نہیں ہو رہا، اس لیے کہ ایک تیسرا فریق بھی ہے اور وہ میدان سے غائب ہے، اُسے کوئی بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ تیسرا فریق وہ ہے جو دونوں فریقوں کو مکمل غلط نہیں کہتا، مکمل صحیح بھی نہیں قرار دیتا۔ دونوں کے دلائل میں وزن ہے اور دونوں ہی کے کچھ دلائل بے وقعت ہیں۔ سلامتی کا راستہ درمیانی راستہ ہوتا ہے۔ اعتدال کا اورتوازن کا راستہ! مفاہمت اور لچک کا رویّہ! افسوس ہم ہر معاملے میں انتہا پر رہتے ہیں۔ ایک فریق پنجاب اسمبلی کے بِل کو صحیفہ سمجھ کر اس کا دیوانہ وار دفاع کر رہا ہے۔ دوسرا فریق اُسے ایک شیطانی کاغذ سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں! تیسرا فریق جو خاموش بیٹھا ہے، اس لیے کہ اس کی کسی کو ضرورت نہیں، سمجھتا ہے اور خوب سمجھتا ہے کہ دونوں غلط ہیں نہ دونوں حق پر! 
ایک فریق شاکی ہے کہ بیٹی کو باپ کے سامنے اور بیوی کو شوہر کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا کر دیا گیا ہے تو اس بات میں وزن ہے۔ ایک فقرہ جو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دونوں پر اکثر و بیشتر سننے میں آرہا ہے یہ ہے کہ ’’میری اپنی زندگی ہے۔ جس طرح چاہوں گزاروں‘‘۔ اپنی زندگی تو مرد کی بھی نہیں ہے! وہ بھی مکمل آزادی سے نہیں گزار رہا‘ نہ گزار سکتا ہے۔ خاندان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بیٹی تو بیٹی ہے، بیٹے کو بھی باپ کے سامنے نہیں کھڑا ہونا چاہیے۔ باپ کو یہ احساس ہی نہیں ہونا چاہیے کہ بیٹا مخاصمت پر تلا ہے۔ باپ کے سامنے اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کا طریقہ قرآن حکیم میں بتایا گیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ باپ کو بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں۔ باپ دھمکی دیتا ہے کہ تم باز نہ آئے تو پتھر مار مار کر ہلاک کردوں گا۔ اس پر بیٹا کہتا ہے کہ ابا جان! آپ پر سلامتی ہو!
مگر دوسرے فریق کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ کچھ فرائض بھی ہیں جو باپ کے ذمے ہیں اور کچھ حقوق بھی ہیں جو بیٹی کے ہیں اور بیوی کے بھی! یہ درست ہے کہ بیٹی کو گھر سے بھاگنا نہیں چاہیے مگر شریعت یہ بھی تو کہہ رہی ہے کہ بیٹی کی رضامندی کے بغیر اس کی شادی نہیں ہو سکتی! اس پر دوسرا فریق بغلیں جھانکنے لگتا ہے!
پھر مغرب کی تقلید کے حوالے سے جس طرح شور مچایا جا رہا ہے وہ بھی محلِ نظر ہے۔ ہمیں صرف مغرب کی عریانی اور آزادی نظر آتی ہے، مغرب نے عورتوں کے حقوق کا جس طرح تحفظ کیا ہے، اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہاں کسی کی مجال نہیں کہ قتل بھائی نے کیا ہے تو سزا اس کی پانچ سالہ بہن کو دے اور وہ بھی اس طرح کہ اس کا نکاح ستر سالہ بوڑھے سے کر دیا جائے۔ وہاں قرآن کے ساتھ شادی بھی نہیں ہو سکتی نہ جائداد بچانے کے لیے بیٹیوں کو بوڑھا کر دیا جاتا ہے نہ ڈنڈے کے زور پر بہنوں سے جائداد میں ان کا قانونی اور شرعی حصہ چھین لیا جاتا ہے۔ ایک صاحب دعویٰ کر رہے تھے کہ ’’مغرب‘‘ میں 62 فیصد جوڑے نکاح کے بغیر رہ رہے ہیں۔ 
الیکٹرانک میڈیا پر ایک ’’سہولت‘‘ یہ ہے کہ اعداد و شمار کچھ بھی پیش کیے جا سکتے ہیں! اوّل تو کوئی پوچھنے کی جسارت کرے کہ ’’مغرب‘‘ سے کیا مراد ہے؟ کیا مغرب میں جاپان بھی شامل ہے؟ خود یورپ میں ثقافتی اور مذہبی یکسانیت نہیں ہے۔ جنوبی یورپ کے ممالک، جن میں یونان، اٹلی اورسپین شامل ہیں، شمالی یورپ سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ نسبتاً دقیانوسی ممالک ہیں۔ کیتھولک اکثریت ہے۔ خاندانی نظام مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔ جنرل فرانکو کے زمانے میں تو حالت یہ تھی کہ سڑک پر لڑکا لڑکی ایک دوسرے کا ہاتھ بھی نہیں پکڑ سکتے تھے۔ سب سے زیادہ مادر پدر آزادی سیکنڈے نیویا کے ممالک میں ہے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں خاندانی نظام مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔ 62 فیصد کی تعداد درست نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی یاد رہے کہ کینیڈا، آسٹریلیا اور کئی دوسرے ملکوں میں چینی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ وینکوور میں ان کی تعدد 48 فیصد ہے۔ چینیوں کے ہاں طلاق کی شرح انتہائی کم ہے۔ خاندانی نظام مستحکم ہے۔
پھر کہا جاتا ہے کہ اتنے عرصہ میں لندن میں یا فلاں مغربی ملک میں اتنی عورتوں پر تیزاب پھینکا گیا تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان میں بھی تیزاب پھینکا جائے یا جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے وہ درست ہے؟ پھر یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہاں سزا کا کیا تناسب ہے؟ تیزاب پھینکنے والوں میں سے کتنے سزا سے بچ سکے؟
یہ شکوہ بھی حق بجانب ہے کہ جب عورتوں پر ظلم ہو رہا ہو تو ہر طرف خموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی نہیں بولتا۔ پھر جب کوئی آواز اٹھتی ہے تو ہر طرف سے شور برپا ہوتا ہے کہ عورتوں کو تو اسلام نے پہلے ہی بہت حقوق دے رکھے ہیں! سوال یہ ہے کہ اسلام نے جو حقوق دے رکھے ہیں، وہ کہاں ہیں؟ ان پر تو عمل ہی نہیں ہو رہا۔ کیا عورتوں کو میراث میں حصہ مل رہا ہے؟ کیا شادیاں ان کی رضامندی سے ہو رہی ہیں؟ کیا انہیں زد و کوب نہیں کیا جا رہا؟ کیا دفتروں، بازاروں، کارخانوں میں انہیں ہراساں نہیں کیا جا رہا؟ آج تک مذہبی طبقات نے ونی، اسوارہ اور کاروکاری کے خلاف کوئی بات نہیں کی؟ کتنے علماء کرام جمعہ کے خطبات میں اِن موضوعات پر اسلام کے احکام سناتے ہیں؟ رہی اسلامی نظریاتی کونسل تو اس نے اگر آواز اٹھائی بھی ہے تو وہ آواز لاکھوں مسجدوں میں دیے گئے خطبات کا نعم البدل نہیں ہو سکتی!
فریقین سے گزارش ہے کہ ایک دوسرے کو شکست دینے اور ظفرمند ہونے کی دُھن چھوڑ دیں۔ دوسرے کی درست بات تسلیم کرنے کو اَنا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ مادر پدر آزادی نہیں ہونی چاہیے مگر یہ ماننے میں کیا حرج ہے کہ عورتوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا!

Friday, June 24, 2016

چاند سمجھے تھے جسے ابرکا ٹکڑا نکلا

ہماری زندگیوں میں نجومیوں، عاملوں، بابوں اور مختلف اقسام کی ’’روحانی‘‘ شخصیات کا بہت عمل دخل ہے۔ ان ’’روحانی‘‘ شخصیات کے کمالات کا زیادہ حصہ پیش گوئیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ کام ہم شعرا کے دواوین سے بھی لے سکتے ہیں۔ ایرانی دیوانِ حافظ سے فال نکالتے ہیں۔ آخر ہم دیوانِ غالب سے کیوں نہیں نکال سکتے!
ہماری سیاسی تاریخ جو کچھ ہمارے ساتھ کر رہی ہے اور کیے جا رہی ہے، اس کے بارے میں غالب نے ایک پیش گوئی کی تھی۔ اس پیش گوئی کی حد درجہ صحت دیکھ کر کہنا ہی پڑتا ہے کہ  ع
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا!
غالب کی پیش گوئی دیکھیے    ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
جنرل پرویز مشرف نے تختہ الٹا تو اس قوم نے مٹھائیاں بانٹیں۔ سب یہی سمجھے کہ جس نجات دہندہ کا انتظار تھا، آ پہنچا ہے۔ امیدیں آسمان کو چھونے لگیں۔ پہلے دو تین برس جرنیل نے کچھ اچھے کام بھی کیے یا کم از کم ڈول ڈالا۔ پہلی بار اس نے ہر سطح کی بھرتیاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے حوالے کیں یعنی اسمبلی کے ممبروں اور وزیروں سے نوکریوں کے پروانے چِھن گئے۔ پھر اہلِ سیاست کا عمل دخل در آیا۔ جرنیل کو اپنے اقتدار کے جواز کے لیے سیاست دانوں کے انگوٹھے کی ضرورت تھی۔ جمالی صاحب وزیراعظم بن گئے۔ آتے ہی انہوں نے ملازمتوں کی زنبیل فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ہاتھ سے چھینی اور سیاست دانوں کے حوالے کر دی۔ ساتھ ہی اپنے طبقے کی خوشنودی کے لیے یہ اعلان بھی کیا کہ ملک میں زرعی اصلاحات کی کوئی ضرورت نہیں! مسکراہٹیں ایک کان سے لے کر دوسرے کان تک چوڑی ہو گئیں۔ بتیسیاں نکل آئیں!
بقیہ عرصہ جرنیلی اقتدار کا ہارس ٹریڈنگ، ضمیر فروشی اور امریکہ نوازی کی عبرت ناک داستان ہے! افلاس کی آخری حد یہ تھی کہ پلاسٹک کا بنا ہوا وزیراعظم درآمد کیا گیا‘ جس نے وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہوتے ہی واپسی کی راہ لی!
پھر افق پر چوہدری افتخار صاحب کا ستارہ نمودار ہوا جسے سب ستارۂ صبح سمجھے۔ ہم جیسے بے شمار احمقوں نے ان سے امیدیں وابستہ کرلیں۔ قوم ٹیلی ویژن کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر اعتزاز احسن اور ساتھ چوہدری صاحب تشریف فرما ہوئے۔ قافلہ چلا، قوم ہم رکاب تھی۔ کتنے ہی برس گزر گئے، ایک دن معلوم ہوا یہ بھی دھوکہ تھا۔ اور لمبا دھوکہ تھا۔ صاحبزادے کے خلاف مقدمہ پیش ہوا تو ملمع اتر گیا، قلعی کھل گئی۔ اب تانگہ پارٹی چلا رہے ہیں ‘رہی عزت تو اسے بُلٹ پروف کار کے ہاتھ گروی رکھا ہوا ہے۔
بہ تدریج عمران خان کی پارٹی کا گراف اوپر جانے لگا۔ ہم جیسے احمقوں نے اب امیدیں تحریک انصاف سے وابستہ کر لیں۔ تحریکِ انصاف سے نہیں، عمران خان سے! دارالحکومت میں وہ خواتین و حضرات بھی ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں کھڑے ہو گئے جو الیکشن کے دن کبھی گھر سے نکلے ہی نہ تھے! دہشت گردی سے خوف زدہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ‘خان کے ساتھ ہوگئے!
سوچنے سمجھنے والوںکا ماتھا اُسی وقت ٹھنک گیا تھا جب، مدتوں پہلے، عمران خان نے قبائلی علاقوں میں رائج صدیوں پرانے جرگہ سسٹم کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ یعنی پتھروں پر بیٹھ جاؤ اور پھر فیصلہ کرو کہ فلاں کا گھر مسمار کر دو اور فلاں کا حجرہ منہدم کر دو! کیا عجب کل کو چور پکڑنے کے لیے انگاروں پر چلنے کا حکم دے دیا جائے! عدالتوں کی ضرورت نہیں رہے گی!
پھر سوات میں آرمی ایکشن ہوا۔ وہی سوات جہاں سکول جلائے جا رہے تھے، قبروں سے مردوں کو نکال کر چوراہوں پر لٹکایا جا رہا تھا‘ اور مسلم خان نے ٹیلی ویژن پر پوری قوم کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ لوگوں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ سوات عملی طور پر ملک سے کٹ چکا تھا۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے علاوہ صرف عمران خان نے ایکشن کی مخالفت کی۔ اگست میں ملک سعد میموریل ٹرسٹ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے قوم کو یاد دلایا کہ انہوں نے سوات میں اور فاٹا میں، غرض ہر جگہ آرمی ایکشن کی مخالفت کی تھی۔ پھر کبھی انہوں نے طالبان کو دفاتر دینے کی پیشکش کی ‘کبھی ایسے گول مول بیانات دیے کہ ان کے دلدادگان دل برداشتہ ہوتے گئے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ طالبان نے مذاکرات میں انہیں اپنا نمائندہ قرار دیا! زنداں کی دیوار چمن تک آ پہنچی! عمران خان شرمندہ شرمندہ نظر آئے راز کُھل گیا تھا۔ 
بالکل بجا کہ پاناما لیکس کی تفتیش کا آغاز وزیراعظم کی ذات اور ان کے خاندان سے ہونا چاہیے‘ وزیراعظم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہو گا مگر یہ جو عمران خان کہہ رہے ہیں کہ وہ اور بلاول ایک ہی کنٹینر پر کھڑے ہوں گے‘ تو کیا اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات کوئی ہو سکتی ہے؟ پیپلز پارٹی گلے گلے تک کرپشن میں دھنسی ہوئی ہے۔ زرداری صاحب سے لے کر گیلانی صاحب تک سینکڑوں واقعات ہیں۔ پھر یہ بھی ہر عقل رکھنے والے کو معلوم ہے کہ آخری پتہ کھیلتے وقت زرداری صاحب نون لیگ کی موافقت کریں گے!
اب خان صاحب نے وہ کام کیا ہے جو اس سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا۔ نون لیگ نے، نہ قاف نے نہ پیپلز پارٹی نے۔ انہوں نے ایک مدرسے کو پانچ دس کروڑ نہیں تیس کروڑ روپے عنایت کیے ہیں، اور دلیل ایک یہ دی ہے کہ مولانا نے پولیو مہم میں مدد فراہم کی تھی۔ دوسری یہ کہ مدارس کے بچوں کا بھی حق ہے!
تو کیا پولیو مہم میں مدد فراہم کرتے وقت معاوضے کی بات طے ہوئی تھی؟ اور وہ بھی پورے تیس کروڑ؟ رہی یہ دلیل کہ مدارس کے بچوں کا بھی وسائل پر حق ہے تو اس سے کون سنگدل انکار کر سکتا ہے؟ مگر حق مدارس کے بچوں کا ہے یا مدارس کے مالکان کا؟ یہی تو رونا ہے کہ مدارس کے اوپر چیک اینڈ کنٹرول نہیں! مظلوم ترین طبقہ وہ اساتذہ ہیں جو مدارس میں پڑھا رہے ہیں! انہیں علاج معالجہ کی سہولیات حاصل ہیں‘نہ رہائشی! معمولی، بلکہ برائے نام تنخواہوں پر یہ علما مدارس میں پڑھا رہے ہیں۔ مالکان اور ان کے کنبوں کا معیارِ زندگی آسمان کو چُھو رہا ہے۔ دوسرا مظلوم ترین طبقہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کروڑوں اربوں کے عطیات میں سے ان طلبہ تک کتنا پہنچ رہا ہے؟
سوال یہ ہے کہ ایک خاص مدرسہ کا انتخاب کس بنیاد پر ہوا ہے؟ کیا دوسرے مدارس کا حق نہیں؟ کیا دوسرے مسالک کا حق نہیں؟ یہ ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کا کوئی انت نہیں! نہ ہو گا! ہر مسلک کے مدارس کا ایک بورڈ ہے۔ پھر سب بورڈز کی ایک مشترکہ باڈی ہے۔ کیا اِس باڈی سے مشورہ کیا گیا؟ یا یہ عمران خان کی ذاتی پسندنا پسند کا مسئلہ تھا؟ کیا اس مدرسے کی طالبان کے حوالے سے شہرت عمران خان کو معلوم نہیں؟ یا بلی آخر کار تھیلے سے باہر آ گئی ہے؟؟ 
وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل مولانا حنیف جالندھری سے لے کر سابق سیکرٹری مذہبی امور تک، سب نے اِس عجیب و غریب فیصلے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ پھر یہ بھی سوال ہے کہ رقم مدرسہ خرچ کرے گا یا حکومت خود مدرسہ پر خرچ کرے گی؟ کیا اس کا آڈٹ ہو گا جس طرح کہ بجٹ سے گئی ہوئی دوسری ساری رقوم کا ہوتا ہے؟
ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ یہ کرم فرمائی حبِ علیؓ میں نہیں بغضِ معاویہؓ میں کی گئی ہے! مولانا فضل الرحمن کی ضد میں یہ کیاگیا ہے تو بات بنی نہیں! اِن صفحات میں ہم نے ہمیشہ مولانا فضل الرحمن کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ وہ بابائے طالبان نہیں ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ بندوق برداری کی مذمت کی ہے اور جمہوری طرزِ سیاست کی حمایت کی ہے۔ ان پر حملے بھی ہوئے۔ پھر مسلم لیگ کی حکومت نے حال میں جو فنڈ انہیں دیے، وہ ترقیاتی کاموں کے لیے دیے۔ مدرسہ کے لیے نہیں!
شہزاد احمد یاد آرہے ہیں     ؎
چُوم لیں دیدۂ حیراں کو کہ آنکھیں پھوڑیں
چاند سمجھے تھے جسے ابر کا ٹکڑا نکلا
پس نوشت۔ اس کالم نگار نے بیسیوں کالم عمران خان کی حمایت میں لکھے۔ مگر اس کے باوجود اِس کالم کے بعد قارئین کی دعاؤں کی ضرورت ہے!

Wednesday, June 22, 2016

ہم اتنے بھی بُرے نہیں!

چلچلاتی دُھوپ تھی‘ اور کڑی دوپہر! مائیکل اور اس کے ساتھی کو کام کرتے کئی گھنٹے ہو گئے تھے۔ گھر کی پشت پر چھت کو جانے والی لوہے کی سیڑھی کئی ہفتوں سے اتری ہوئی تھی۔ اس کے کئی مسائل تھے جگہ جگہ ویلڈنگ کرنا تھی۔ نیچے سے زمین کے ساتھ جوڑنا تھی اور اوپر سے چھت کے ساتھ! فن تعمیر سے وابستہ کئی دوستوں نے مختلف کاریگروں کا بتایا۔ کوئی بھی نہ ہاتھ آیا۔ ایک نے تو اچھا خاصا سبق بھی پڑھا دیا۔ شکوہ کیا کہ تُم نے وعدہ کیا تھا۔ مگر نہ آئے‘ کہنے لگا صاحب! لیبر کا وعدہ ہوتا ہے نہ کوئی زبان! بس مجبوریاں ہی مجبوریاں ہیں! مائیکل نے کئی سال پہلے گھر آ کر کچھ کام کیا تھا۔ پرانے کاغذوں میں اس کا فون نمبر تلاش کیا۔ اس نے مہربانی کی اور صرف ایک بار وعدہ خلافی کرنے کے بعد‘ ایک صبح ضروری سامان اٹھائے پہنچ گیا۔
چلچلاتی دُھوپ تھی اور کڑی دوپہر! دونوں کو کام کرتے کئی گھنٹے ہو چلے تھے۔ درمیان میں برقی رو لوڈشیڈنگ کی نذر ہو جاتی اور انہیں انتظار کرنا پڑتا۔ سب گھر والے اپنے اپنے کمروں میں پناہ لیے سو رہے تھے! میں نے جام شیریں کے دو گلاس بنائے۔ ٹرے میں رکھے اور چاردیواری کے اندر‘ پانچ فٹ چوڑی راہداری میں چلتا‘ مائیکل اور اس کے ساتھی کے پاس لے گیا۔ ٹرے مائیکل کے سامنے کیا تو کانچ کا گلاس اٹھاتے وقت اس پر ہچکچاہٹ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ چند ثانیوں کے تذبذب کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور پوچھا !…’’سر ! اسی میں پینا ہے؟‘‘ میں نے کہا ہاں! یہ تمہارے لیے ہی ہیں! کچھ دیر کے بعد جب انہیں چائے کے دو کپ پیش کیے تو اب کے تذبذب کم تھا اور حیرت زیادہ! وہ دودھ پیتے بچے نہیں تھے۔ پیالیاں دیکھ کر جان گئے ہوں گے کہ یہ مہمانوں کے لیے مخصوص نسبتاً بہتر نسل کے برتن ہیں!
ہمارے معاشرے کے بعض روییّ عجیب و غریب ہیں! متناقض! اضداد سے بھرے ہوئے! گھروں میں کام کرنے والا مرد یا عورت مسیحی ہے تو اس کے برتن الگ کر دیئے جاتے ہیں! کچھ گھرانوں میں سب ملازموں کے برتن قطع نظر ان کے مذہبی عقائد سے‘ مطلقاً الگ رکھے جاتے ہیں مگر عمومی رویہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ اس کا معیار مذہب پر رکھا گیا ہے! دوسری طرف جب ہم ولایتی ملکوں میں جاتے ہیں تو انہی کے ریستورانوں میں چائے پیتے ہیں۔ کھانے کھاتے ہیں۔ حلال کھانا مہیا کرنے والے ریستورانوں میں بھی مسیحی اور یہودی ویٹر اور باورچی کام کرتے ہیں! مقامی آبادی کے گھروں میں جا کر ان کے ہاں‘ ساتھ بیٹھ کر‘ لاکھوں کروڑوں مسلمان دعوتیں کھاتے ہیں!
امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ نے لشکر اسامہ کی روانگی کے وقت مجاہدین کو دس ہدایات دیں۔ ان کی تفصیل مشہور مورخ محمد حسین ہیکل نے خلیفہ اول کی سوانح عمری میں نقل کی ہے۔ آٹھویں ہدایت یہ تھی …’’تمہیں ایسے لوگوں کے پاس جانے کا موقع ملے گا جو تمہارے لیے برتنوں میں ڈال کر مختلف قسم کے کھانے پیش کریں گے۔ تمہارا فرض ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کر دو‘‘۔
رسم و رواج کے بہت سے حصے مذہب کے کھاتے ہیں ڈال دیئے گئے۔ بے شمار ایسے سماجی رویے ہیں جنہیں ہم مذہب کا تقاضا گردانتے ہیں مگر تھوڑا سا بھی غور کر لیا جائے اور ذرا سی تحقیق کر لی جائے تو معاملے کی تہہ تک پہنچنا مشکل نہیں ہوتا۔ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا مذہب سے یا عقائد سے کوئی تعلق نہیں! مذہب کو خواہ مخواہ ذمہ دار ٹھہرا کر بدنام کیا جاتا ہے۔
پنجاب اور سندھ کی فیوڈل سوسائٹی میں جو سلوک ہاریوں‘ مزارعوں‘ نوکروں اور ان کی عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے‘ وہ ہماری ثقافت کا حصہ تو ہو سکتا ہے‘ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں! جاگیردار نوکروں سے بدسلوکی یا ظلم کرتے وقت یہ نہیں دیکھتا کہ وہ مسلمان ہے یا ہندو یا مسیحی! یہ نوکر یا ملازم‘ عملی طور پر غلاموں کی زندگی بسر کرتے ہیں! ’’مالک‘‘ کے سامنے چارپائی پر یا کرسی پر‘ یہاں تک کہ پیڑھی پر بھی نہیں بیٹھ سکتے۔ دن ہو یا رات‘ حویلی کے بڑے دروازے کے باہر درجن یا نصف درجن نوکر زمین پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ مردوں کے حقوق ہیں نہ عورتوں کے‘ نسل در نسل یہ غلامی منتقل ہوتی رہتی ہے۔ بلوچستان میں صورتحال اس سے بھی زیادہ ابتر ہے! بلوچی سردار‘ اہل قبیلہ کے جان و مال‘ دونوں کا بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ چاہے تو مار دے‘ چاہے تو زندہ رکھے‘ اس پس منظر میں تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ نواب‘ جاگیردار یا سردار ملازموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے گا یا اُن برتنوں میں کھائے گا جن میں نوکروں نے کھایا ہے! غالباً یہی رواج مڈل کلاس اور اپر کلاس کے تعلیم یافتہ اور نیم تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی پہنچا ہے سو کام کرنے والوں کے برتن الگ رکھے جاتے ہیں! پھر اگر خاکروب ہے‘ یا دوسرے مذہب کا‘ تو اس رواج میں التزام بھی شامل ہو جاتا ہے۔ غیر مسلم اسے اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے حالانکہ اسلام میں اس کی کوئی اصل نہیں! رہا یہ پہلو کہ جن برتنوں میں شراب پی جاتی ہے یا غیر حلال گوشت رکھایا یا کھایا جاتا ہے‘ وہ برتن اگر مسلمان کے گھر میں ہوں گے‘ تب بھی ان سے اجتناب کرنا ہو گا! اس میں مسلم یا غیر مسلم کی تخصیص نہیں! مفتی محمد شفیع مرحوم اپنی تفسیر میں ایک مقام پر لکھتے ہیں ’’گوشت کے سوا دوسری اشیاء خوردنی میں اہل کتاب اور دوسرے کفار میں کوئی امتیاز اور فرق نہیں! کھانے پینے کی خشک چیزیں گندم‘ چنا‘ چاول اور پھل وغیرہ ہر کافر کے ہاتھ کا حلال اور جائز ہے۔ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں!‘‘
تقسیم سے پہلے مسلمانوں کی ہندوئوں اور سکھوں کے ساتھ دوستیاں تھیں۔ بھائی چارے تھے ایک دوسرے کی شادیوں اور موت کی تقریبات میں شامل ہوتے تھے۔ گھروں میں دعوتیں ہوتی تھیں۔ حلوائی زیادہ تر ہندو ہوتے تھے۔ ڈھاکے قیام کے دوران دیکھا کہ شہر میں مٹھائی کی مقبول ترین دکان مرن چند کی تھی۔ اسی کے فراہم کردہ برتنوں میں مسلمان رس ملائی کھاتے تھے‘ تازہ بنے ہوئے گلاب جامن اور میٹھا دہی بھی‘ میٹھا دہی بنگال میں مٹھائی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ بنگالی میں اسے ’’مشٹی دوئی‘‘ کہتے ہیں۔ مشرقی پاکستان مرحوم اور اب بنگلہ دیش میں بوگرہ کا میٹھا دہی مقبول عام و خاص ہے۔ اس کے بنانے کی خاص تکنیک ہے۔
اقلیتوں کے حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ ہو سکتا ہے‘ اعلیٰ ترین نہ ہو مگر ع…  عمر بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے‘ اس میں منفی پروپیگنڈے کا عنصر بھی غالب ہے۔ بُری خبر اچھالی جاتی ہے اور مثبت خبر سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔ اس سلوک میں پاکستان کا اپنا میڈیا بھی برابر کا شریک ہے۔ چند دن پہلے سندھ کے قصبے گھوٹکی میں ایک 80 سالہ بوڑھا ہندو افطار کے وقت سے پہلے کھانے پینے کی چیزیں فروخت کر رہا تھا۔ ایک سپاہی نے جس کا بیان تھا کہ بوڑھا کیلا کھا رہا تھا‘ اُسے خوب مارا پیٹا۔ بوڑھے کے پوتے نے مقدمہ دائر کر دیا۔ سپاہی کو جس کا نام علی حسین تھا گرفتار کر لیا گیا۔ تعجب ہے کہ ہمارے اپنے میڈیا نے اس خبر کو نمایاں حیثیت نہ دی۔ مگر معروف بھارتی انگریزی روزنامے ’’دی ہندو‘‘ نے سپاہی کی گرفتاری کی خبر اپنے سارے ایڈیشنوں میں چھاپی! اسی ہفتے ٹنڈو آدم میں وہ دکاندار گرفتار کر لیا گیا ہے جس کی دکان پر قابل اعتراض جوتے فروخت ہو رہے تھے۔ ہندو برادری نے شکایت کی تھی اور احتجاج بھی کہ جوتوں میں ایسے الفاظ لکھے ہوئے ہیں جن سے ہندو دھرم کی توہین ہوتی ہے۔ بلاسفیمی قانون کے تحت دکاندار پکڑ لیا گیا ہے یہ اور بات ہے کہ اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا۔ جوتے اسے پنجاب سے سپلائی ہوئے تھے‘ یہ خبر رائٹر نے اور بھارتی اخبارات نے بھی شائع کی ہے۔
تاہم دلچسپ ترین اقدام عمران خان کی خیبر پختونخوا حکومت نے اٹھایا ہے! اس نے اقلیتوں کے لیے مختص فنڈ میں غیر معمولی کمی کر کے تیس کروڑ روپے ایک دارالعلوم کو دے دیئے ہیں۔ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے گزشتہ برس گیارہ کروڑ ستر لاکھ روپے رکھے گئے تھے۔ ابکے یہ رقم آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ رہ گئی ہے۔ وفاق المدارس عربیہ کے سیکرٹری جنرل مولانا حنیف جالندھری نے دارالعلوم کی گرانٹ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی قریب میں مدارس کو کوئی فنڈ جاری نہیں ہوئے۔ سابق سیکرٹری مذہبی امور وکیل خان کے مطابق 2002ء کے بعد کسی مدرسہ کو وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی گرانٹ نہیں ملی! مدرسہ کو خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے اس خطیر گرانٹ کا مقصد مدرسہ کی تعمیر نو اور بحالی بتایا گیا ہے۔ کیا عجب‘ مدرسہ کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کے بعد عمران خان کے صاحبزادے لندن سے آ کر اس مدرسہ میں داخلہ لے لیں!!۔

Monday, June 20, 2016

اُلجھ گئے ہیں ہمارے نصیب۔۔۔! کیا کہنا۔۔۔!

کہتے ہیں ایک صاحب نے کسی اسرائیلی سے پوچھا کہ اتنے پیچیدہ بارڈر پر تمہیں کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ زمین اسرائیل کی ہے یا عربوں کی؟ اس نے جواب دیا کہ جو زمین ہری بھری فصلوں سے ڈھکی ہوئی ہوگی وہ اسرائیل کے اندر ہو گی اور جو بنجر و ویران اور غیر کاشت شدہ ہوگی وہ اسرائیل سے باہر ہو گی!
نہ جانے اس میں کتنی صداقت ہے۔ عرب اسرائیل سرحد پر جا کر جگہ جگہ کون پڑتال کرے گا مگر جو کچھ زاہد شنواری نے کہا ہے وہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے کی بات ہے۔
پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے زاہد شنواری نے کہا ہے کہ افغان سرحد پر پاکستان کی طرف سے ویزے کا اصرار غلط بات ہے۔ اس سے پاکستان کے اپنے قبائلیوں کا نقصان ہوگا۔ زاہدکی اس دلیل میں وزن ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں زراعت ہے نہ کوئی صنعت! لے دے کے مشرقی افغانستان کے ساتھ تجارت کا سہارا ہے۔ زاہد نے اعداد و شمار سے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے بتایا کہ 2010ء میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم اڑھائی ارب ڈالر تھا جو گھٹ کر ڈیڑھ ارب رہ گیا ہے!
چار عشرے ہو چکے ہیں بلکہ کچھ برس اوپر بھی جب پہلی بار خیبر ایجنسی سے لے کر وزیرستان تک کے قبائلی علاقوں کا سفر کیا۔ طورخم کے تحصیلدار کے ہاں ظہرانہ تھا۔کل کی خبر پڑھ کر ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو تعجب ہوا ہو کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی وفد میں تحصیلدار ہمیشہ سے ایک طاقتور منصب دار رہا ہے۔ اس کے اقتدار کا پھیلائو اتنا ہی ہے جتنا کسی دوسری جگہ کمشنر کا! شنواری گوشت بریاں کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ گز گز لمبی سلاخیں تھیں جن میں بریاں گوشت کے ٹکڑے پروئے ہوئے تھے۔ ساتھ کابل کے سردے تھے! مدتوں بعد پڑھا کہ آگرہ میں مقیم ہو جانے کے بعد بابر کے لیے کابل سے خربوزے آئے۔ خربوزہ کاٹتا تھا اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے! پھر تاشقند‘ سمرقند‘ بخارا‘ ترمذ اور خیوا میں بھی خربوزے کھائے۔ افغان خربوزوں سے کئی گنا زیادہ شیریں! لب دوز! تاشقند کی ایک شام تھی۔ ایک تاجکی دوست خربوزے کاٹتا تھا اور فارسی میں سیاست پر بات کرتا جاتا تھا۔ انگور اور آڑوکی دو دو سو‘ اڑھائی اڑھائی سو اقسام اور ہرگھر پھلوں میں تقریباً خودکفیل!
چار عشرے پہلے‘ کچھ برس اوپر‘ قبائلی علاقوں کا پہلا سفر تھا۔ فلک بوس‘ بنجر‘ سیاہ پہاڑ دیکھ کر وحشت ہوتی تھی اور حیرت بھی کہ حملہ آور کیا کچھ عبور کر لیتے تھے۔ پھر قدرت کی بے نیازیوں پر حیرت سے بھی آگے کے جہان کھلتے تھے۔ اتنی ویرانی‘ اتنا بنجرپن اور پھر انہی بے آب و گیاہ گھاٹیوں میں زر کی فراوانی! دنیا بھر کا مال و اسباب مہیا تھا۔ بکتا تھا اور باڑے اور میرن شاہ کے بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا! وہ میرن شاہ پرسکون زمانے کا میرن شاہ تھا! قدرت سے کیا بعید ہے‘ جو لق و دق پہاڑوں میں مال و دولت فراہم کر سکتی ہے‘ وہ دلوں کی زمستاں زدہ شاخوں کو بھی ہرا بھرا کرنے پر قادر ہے! 
زاہد شنواری درست کہتے ہیں کہ قبائلی زراعت اور صنعت دونوں سے محروم ہیں! مگر آہ! یہ اتنا بڑا جرم کس نے کیا‘ کتنا عرصہ کیا اور ظلم کہیے یا نااہلی کہ اب تک کیوں ہو رہا ہے؟ انور شعور نے کہا ہے  ؎
کیا چاہیے نہ تھا یہ کبھی پوچھنا تمہیں
کیسے ہو تم شعور؟ یہ کیا ہو گیا تمہیں
کیا چاہیے نہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد وفاق اور صوبے (اُس وقت این ڈبلیو ایف پی) کی حکومتیں اولین فرصت میں ان علاقوں کی حالت بدلنے کو ترجیح دیتیں؟ کراچی‘ فیصل آباد‘ پشاور‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ کے صنعتکاروں کو ترغیب و تحریص دی جاتی کہ وہاں جا کر کارخانے لگائیں۔ زراعت کو ترقی دی جاتی۔ مشینی کیا جاتا۔ کروڑوں اربوں کی رقوم پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے چند ملوک اور خوانین کو ساٹھ ستر سال تک دی جاتی رہیں۔ وہی دولت تعلیم پر لگائی جاتی۔ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جال پھیلا دیا جاتا! سرحد پار کے قبائلیوں اور ہمارے قبائلیوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا۔ سرحد پار کرتے ہی تفاوت کا احساس ہو جاتا۔ جیسے ترمذ میں بیٹھ کر ایک دن اس کالم نگار نے جنوب کی طرف گدلے پانی کی اُس ندی کو دیکھا تاریخ جسے آمو دریا کہتی ہے۔ دریا کے پار افغانستان تھا اور افغانستان کی غربت اور فلاکت! ویرانی اور جنگ و جدل۔ مگر آمو کے دوسری طرف ایک خوبصورت شہر‘ دیدہ زیب عمارتیں‘ کھاتے پیتے لوگ‘ بہت آسائشیں نہ تھیں مگر ایک پرسکون آرام دہ زندگی کا دور دورہ تھا!   ع
بارہا گفتہ ام و بار دگرمی گویم
پھر مطالبہ ہے کہ ملوک اور خوانین میں بانٹی گئی دولت کا کوئی حساب کتاب‘ کوئی اندراج کوئی ریکارڈ کہیں ہے؟ یونہی تو نہیں بڑے شہروں کو چھوڑ کر ’’سمجھ دار‘‘ سول سرونٹ ان علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹ یا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ لگنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک سیاستدان کے فرزند نے مدتوں پہلے وہاں تعیناتی کرائی۔ مشہور تھا کہ ٹمبر مافیا والے تین لاکھ روزانہ کا حصّہ نکالتے ہیں!
ریاست نے قبائلیوں کے لیے کچھ نہ کیا! کچھ بھی تو نہیں! قبائلیوں کے پاس کیا راستہ بچا؟ سمگلنگ! یا وہ سب کچھ جو خان کرنے کے لیے کہے! یا بندوق اٹھا کر طالبان کے پاس چلے جائیں! پاکستان میں بیٹھے ہوئے رہنما ریموٹ کنٹرول سے افغانوں اور قبائلیوں کو جنگ کا ایندھن بناتے رہے۔ ان رہنمائوں کے اپنے بچے، تو وہ آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ بغل میں دبائے امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ پھر بزنس کرتے تھے یا آنکھوں کو چندھیانے والی بڑی بڑی ملازمتیں! ان لوگوں نے قبائلیوں کے بچوں کو غلیلوں اور پھر بندوقوں کے خون آشام شغل میں الجھائے رکھا!
اب جب پاکستان بارڈر مستحکم کرنا چاہتا ہے تو زاہد شنواری جیسے حالات سے آگاہ حضرات درست کہتے ہیں کہ زراعت ہے نہ صنعت نہ تعلیم! آمدورفت پر بھی پابندی لگ گئی تو قبائلی روٹی کیسے کمائے گا اور کیونکر کھائے گا!
الجھے ہوئے مقدر ہیں افغانوں اور قبائلی پاکستانیوں کے!

Love-Hate Relationship 
کی عجیب و غریب مثال!
بارڈر کھولیں تو دہشت گردی کا طوفان! بند کریں تو جینوئن تاجروں کو مشکلات! مجید امجد نے کہا تھا  ؎
جو تُم ہو برق نشیمن تو میں نشیمن برق
اُلجھ گئے ہیں ہمارے نصیب! کیا کہنا!
ریاست کرے تو کیا کرے‘ جائے تو کہاں جائے! باقی سمگلنگ کو چھوڑ دیجیے‘ ایک لمحے کے لیے دہشت گردی کے مسئلے کو بھی ایک طرف رکھ دیجیے‘ دستاویزات کے بغیر ہجوم کو اجازت دے دیں تو صرف کرنسی کی مد میں پاکستانی ریاست کو کروڑوں کا نقصان ہے! جولائی سے لے کر 2015ء کے اکتوبر تک‘ یعنی صرف چار ماہ کے عرصہ میں پاکستانی حکام نے بیس لاکھ ڈالر کی کرنسی پکڑی اور یہ تو سمندر کا صرف ایک قطرہ ہے۔ ہزار سے لے کر تیرہ سو تک ٹریلر روزانہ جا رہے ہوں تو چیکنگ ممکن ہی نہیں رہتی۔ ’’افغانستان ٹو ڈے‘‘ کو ایک سمگلر نے بتایا کہ اس نے چند ماہ میں تیس لاکھ ڈالر سے زیادہ کرنسی کی سمگلنگ کی!
اس وقت پشاور میں تقریباً ساڑھے تین سو منی چینجر ہیں۔ ان میں سے دوسو افغانی ہیں‘ جن کا کاروبار سرحد پار تک پھیلا ہے۔ وہی بات کہ برق نشیمن یا نشیمن برق! رہائی میں نجات نہ قید میں!  ؎
ترکِ تعلقات کا دن بھی عجیب تھا
مر کر رہا ہوئے کہ رہا ہو کے مر گئے
ریاست نے ستر سالوں میں قبائلیوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا! زاہد شنواری درست کہتے ہیں‘ تجارت بھی نہ ہوئی تو کیا کریں گے؟ مگر زاہد شنواری جیسے دردمند لوگ قبائلیوں کی حالت بدلنے کے لیے ریاست کی نالائقی کا کفارہ بھی تو ادا کرنے کا سوچیں۔ ایسی تنظیم بنائیں جو قبائلی علاقوں میں کارخانے لگائے اور لگوائے۔ زراعت کو جدید خطوط پر لائے‘ تعلیمی ادارے پھیلائے‘ یہ حضرات صنعتکاروں کو تحفظ فراہم کریں۔ حکومت ٹیکس ہالی ڈے دے تو صنعتکار قبائلی علاقوں کا رُخ کریں! مگر صنعتکار بھی صرف منافع تو نہ دیکھیں! حبّ وطن کے لیے بھی کچھ کر کے دکھائیں! یا دھرتی ماں سے صرف دودھ ہی پینا ہے؟

Sunday, June 19, 2016

ہم سے زمانہ ہے سرگراں

کیا آپ کو معلوم ہے سیرا لیون کہاں ہے؟ آئس لینڈ کہاں ہے اور فجی اور چلی کہاں واقع ہیں؟
سیرا لیون برِّ اعظم افریقہ کے مشرقی کنارے پر ہے۔ یہ پاکستان سے آٹھ ہزار چھ سو اسی کلو میٹر دور ہے۔
فجی کے جزائر جنوبی بحر الکاہل میں ہیں۔ پاکستان اور فجی کا درمیانی فاصلہ بارہ ہزار سات سو کلو میٹر ہے۔
آئس لینڈ یورپ کے انتہائی شمال میں قطب شمالی کے پڑوس میں آباد ہے جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے‘ یہ برف کا دیار ہے۔ پاکستان سے چلیں تو چھ ہزار نو سو کلو میٹر سفر طے کر کے آئس لینڈ پہنچیںگے۔ 
رہا چِلّی تو یہ جنوبی امریکہ کے مغربی کنارے پر ایک لمبا‘ عمودی‘ سلاخ نما ملک ہے۔ یہاں ہسپانوی زبان کا راج ہے۔ پاکستان سے چِلّی پہنچنے کے لیے آپ کو بہت زیادہ نہیں‘ صرف سولہ ہزار ساڑھے تین سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوگا۔
یہ ہماری خارجہ پالیسی کی زبردست کامیابی ہے کہ ان سارے ملکوں سے ہمارے تعلقات خوشگوار ہیں۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ پاکستان کا چِلّی سے یا فجی سے یا آئس لینڈ سے یا سیرا لیون سے کوئی جھگڑا ہوا ہے۔ ہمارا ان ملکوں سے کوئی سرحدی تنازع ہے نہ اقتصادی تنازع۔ کوئی مذہبی ان بن ہے نہ نسلی حوالے سے کوئی باہمی بد مزدگی! وزیر خارجہ خود وزیر اعظم یا عملی طور پر ہم سب کے بزرگ سرتاج عزیز یا ہر دلعزیز شخصیت جناب فاطمی‘ جو کوئی بھی پالیسی بنا اور چلا رہا ہے‘ اُسے اس بات کا زبردست کریڈٹ جاتا ہے کہ ان تمام ممالک سے ہماری گاڑھی چھنتی ہے۔
اب اسے محض اتفاق جانیے کہ جو ممالک ہماری بغل میں ہیں۔۔۔۔ایران‘ افغانستان یا بھارت‘ ان سے تعلقات کشیدہ ہیں!
مت پوچھیے ہماری خارجہ پالیسی کی کرامات! ہم نے سعودی عرب کے اصرار کے باوجود یمن کے لیے اپنے عساکر نہیں بھیجے، مگر یہ قربانی ہم ایران کو بیچ نہ سکے۔ ایران پھر بھی کھنچا کھنچا ہے، تیوریاں چڑھائے ہے۔ جن دنوں یمن کا مسئلہ پیش منظر پر چھایا ہوا تھا‘ ہمارے وزیر اعظم ریاض سے ہو کر تہران گئے، مگر ایسا نہ ہوا کہ وزیر اعظم جو وزیر خارجہ بھی ہیں‘ اپنے ملک کے حوالے سے خصوصی طور پر وہاں جائیں، ایرانی لیڈروں سے دل کی بات کریں، ان کی سنیں‘ اپنی سنائیں‘ برف پگھلے اور تعلقات میں مثبت موڑ آئے۔ آپ ہماری خارجہ پالیسی کی ریکارڈ کامیابی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہمارے تینوں پڑوسی ایران‘ افغانستان اور بھارت ہمارے خلاف متحد ہیں! گوادر کے مقابلے میں چاہ بہار کی ہنڈیا پکا رہے ہیں۔ آگ جلا رہے ہیں، پھونکیں مار رہے ہیں اور چمچہ ہلا رہے ہیں! ہمارا ’’صبرو تحمل‘‘ بلکہ بے نیازی‘ مکمل بے نیازی دیکھیے کہ ہمارا کوئی لیڈر، ہمارا حکومتی سربراہ یا وزارت خارجہ کی کوئی بڑی شخصیت‘ کسی پڑوسی دارالحکومت میں نہیں گئی۔ کوئی سفارتی سرگرمی دیکھنے میں نہ آئی۔ کسی ڈپلومیسی نے کوئی کرشمہ نہ دکھایا۔ ہماری ٹوکری سے کوئی سانپ نکلا نہ ٹوپی سے کوئی کبوتر۔
نیوکلیئر سپلائی گروپ سے کام پڑا تو ہمارے مشیرِ خارجہ نے وزرائے خارجہ کو ٹیلی فون کھڑکائے۔ کہیں گئے نہ کوئی وفد ہی بھیجا۔ ہم تو تمام مہمات‘ گھر میں بیٹھے بیٹھے ہی سر کرتے ہیں۔ دو اشخاص ایک کمرے میں بیٹھے تھے۔ ایک نے دوسرے سے کہا باہر جا کر دیکھو بارش تو نہیں ہو رہی‘ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے جواب دیا ہو رہی ہے۔ پوچھا‘ کیسے معلوم ہوا‘ کہنے لگا‘ ابھی بلی میرے قریب سے گزری ہے، میں نے اسے ہاتھ لگایا تو وہ گیلی تھی۔ اب اس نے دوسرا کام بتایا کہ اُٹھ کر چراغ گل کر دو‘ کہنے لگا میرے اٹھنے کی ضرورت ہی نہیں‘ آنکھیں بند کر لو‘ اندھیرا ہو جائے گا۔ پھر اس نے تیسرا کام بتایا کہ اُٹھ کر کمرے کا دروازہ بند کر دو کہنے لگا ‘ دو کام میں نے کیے ہیں‘ اب یہ تیسرا تم خود کر لو!
اگست2015ء میں بھارتی پرائم منسٹر نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ زبردست پذیرائی ہوئی، یہاں تک کہ دہشت گردی اور دفاع کے میدانوں میں بھی معاہدے ہوئے۔ مودی نے تقریروں میں پاکستان پر خوب خوب چوٹیں کیں۔ طعنے دیے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے۔ بھارتی تارکین وطن سے خطاب کیا۔ انڈیا میں شادیانے بجے، بھارتی میڈیا نے بھنگڑے ڈالے۔
اس میں کیا شک ہے کہ یہ ایک بڑی کامیابی تھی مگر پاکستان کا ردِّ عمل کیا تھا؟ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔ ہم ٹھہرے ملنگ! ملنگوں کو ان دنیاوی بکھیڑوں سے کیا غرض! ہمارے پاس تو بابا دھنکا جیسے پہنچے ہوئے بزرگ ہوتے ہیں۔ پیٹھ پر چھڑیاں رسید کرتے ہیں اور بگڑی سنور جاتی ہے۔ یہ بھی نہ کام آئے تو ایک مولانا موجود ہیں جو میاں صاحب کو اور زرداری صاحب کو ہر مشکل وقت میں مشکل کشا مشورے دیتے ہیں اور پھر کروڑوں اربوں کے فنڈ معاوضے میں وصول کرتے ہیں! بہر طور پاکستان نے ردِّ عمل میں کچھ بھی نہ کیا۔کوئی اور ملک ہوتا تو یو اے ای جیسے اہم ملک میں ایک کے بعد دوسرا وفد بھیجتا۔ سفارت کاری کے تمام حربے آزماتا اور بھارت نے جو کچھ حاصل کیا تھا اس میں شگاف ڈال کر رہتا!
جو کچھ افغانستان پاکستان کی سرحد پر ہو رہا ہے‘ اس کا کریڈٹ فوج کو جائے گا۔ اس میں وزارتِ خارجہ یا وزارت دفاع کا کوئی عمل دخل نہیں نظر آتا۔ وزیر خارجہ کئی ہفتوں سے ملک میں موجود نہیں۔ ذاتی مسائل میں گرفتار ہیں۔ رہے وزیر دفاع تو وہ ٹریکٹر ٹرالیاں بنانے میں مصروف ہیں۔ وزیر دفاع سے یاد آیا کہ جی ایچ کیو میں ہائی لیول اجلاس ہوا جس میں سینئر وزراء حاضر تھے۔ اس پر چہ میگوئیاں ہوئیں تو مشیر خارجہ نے وضاحتی بیان دیا کہ یہ اجلاس ان کے مشورے سے منعقد ہوا تھا۔ لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیتے کہ اگر مشورہ انہی کا تھا تو اجلاس وزارت خارجہ میں یا وزیر اعظم کے دفتر میں کیوں نہ منعقد ہوا؟
ساری کمزوریوں اور غلط کاریوں کے باوجود افغانوں کی ایک صفت تاریخ سے ثابت ہے۔ سفارت کاری میں وہ سعودیوں کی طرح منجھے ہوئے ہیں۔ وہ ڈیڑھ دو سو سال دنیا کی دو عظیم جارح سلطنتوں کے درمیان رہے اور اپنی آزادی بچائے رکھی۔ پہلے زار پھر سوویت یونین، دوسری طرف برطانوی ہند۔ یہ چکّی کے دو پاٹ تھے مگر افغان ان کے درمیان پسے نہیں، سلامت رہے۔ انہوں نے Survive کیا۔ اب وہ بارڈرکو مستحکم نہیں کرنے دے رہے۔ ظاہر ہے کہ ہزاروں افغان ہر روز یہ سرحد پار کرتے ہیں! یہاں تک کہ تین چار سو افغان طلبہ ہر روز پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے آتے ہیں۔ سوئی سے لے کر گوشت تک‘ روز مرہ استعمال کی ہر شے یہاں سے سمگل ہوتی ہے۔ بظاہر موقف یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کو وہ نہیں تسلیم کرتے۔ یہ مسئلہ ان سے صرف اور صرف سفارت کاری سے اور صرف سفارت کاری سے نہیں‘ اعلیٰ ترین سفارت کاری سے طے ہوگا۔ انہیں باورکرانا ہوگا کہ ہمیں ورثے میں جو سرحد ملی ہے وہی ہماری سرحد ہے۔ نہیں منظور تو ملکہ برطانیہ کے پاس جائیں!
سفارت کاری؟ اور اعلیٰ پائے کی سفارت کاری؟ ہماری ’’بلند پایہ‘‘ سفارت کاری کا حالیہ نمونہ جو وزارتِ خارجہ کے ارباب بست و کشاد نے دکھایا ہے‘ اس پر خندہ کیا جا سکتا ہے یا گریہ کیا جا سکتا ہے کہ’’ہمارے پاس تو پھر نیوکلیئر آپشن ہی رہ جاتا ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی طعنہ دیا گیا کہ ’’افغانستان کے نئے دوست ایران اور بھارت مہاجرین کو لے جائیں‘‘۔ وہ تو غنیمت ہے کہ کوسنے نہیں دیے۔ اندرون لاہور کی عورتیں صبح ناشتہ کر کے پڑوسنوں کو آواز دیتی تھیں کہ آئو‘ لڑائی کریں! ہماری سفارت کاری کے زریں جملے سن کر سوکنوں کے طعنے یاد آتے ہیں!
ہمارے مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ ایک دن صبح اٹھیں تو پاکستان کا محلِّ وقوع تبدیل ہو چکا ہو۔ کسی سمندر کے عین درمیان ہمارا ملک ایک جزیرہ بن کر سنہری دھوپ میں جگمگا رہا ہو۔ سینکڑوں ہزاروں میل تک کوئی اور ملک نہ ہو۔ کوئی دہشت گرد آ سکے نہ کسی کے ساتھ بارڈر ہو نہ کوئی سرحدی جھگڑا! نہ کسی وزیر خارجہ کی ضرورت! موجودہ محلِّ وقوع کے ساتھ تو جو تیر ہم مار رہے ہیں وہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور عش عش کر رہی ہے! سراج الدین ظفر یاد آ گئے     ؎
میں نے کہا کہ ہم سے زمانہ ہے سرگراں
اس نے کہا کہ اور اسے سرگراں کرو

Friday, June 17, 2016

قہقہہ

ویسے ایک بات ہے۔ لطف آ گیا۔ 
(قہقہہ)
یار! جو ٹیکنیکل قسم کی گالیاں تم نے دیں، جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔ بس سماں باندھ دیا!
ان تعلیم یافتہ عورتوں کا دماغ درست کرنا ضروری ہے۔ ورنہ مزید سرپر چڑھیں گی۔ میں نے تو صاف کہہ دیا کہ تم شوہر بننے کی کوشش کر رہی ہو!ہاں! یار! یہ تو تم درست کہہ رے ہو! طالبان کی حکومت آئی تو ان عورتوں کا کم از کم افغانستان میں بندوبست ہو گیا تھا۔ ملازمتیں چھُڑوا دی گئیں، گھروں میں بٹھا دیا گیا، بہت شور مچا کہ کچھ عورتیں مجبوراً ملازمت کرتی ہیں تا کہ گھر کا خرچ چلتا رہے مگر آفرین ہے طالبان پر! ایک نہ سنی ،جو چاہتے تھے کر دکھایا!
کام تو یہاں بھی شروع ہو گیا تھا! لڑکیوں کے کئی سکول جلا ڈالے گئے۔ مگر افسوس! یہ سلسلہ رُک گیا۔
یہ سلسلہ جاری رہتا تو آج یہ ہمارے منہ نہ لگتیں! فساد کی جڑ عورتوں کی تعلیم ہی ہے اسی برصغیر میں ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ عورتوں کو لکھنا نہ سکھاؤ! ورنہ یہ پڑوسیوں کو خطوط لکھیں گی! کیا وژن تھا! سبحان اللہ! جب سے ہم نے بزرگوں کی حکم عدولی کرنا شروع کی ہے، نتائج بھگت رہے ہیں۔ عورتیں پڑھ لکھ کر بحث کرنے لگی ہیں! مردوں کے سامنے انہیں بولنے کی جرأت ہی نہیں ہونی چاہیے! لیکن یار! اس بات کا خیال رہے کہ رائے عامہ ہمارے خلاف ہو رہی ہے۔ اب یہی معاملہ دیکھ لو، جو تمہارے اور اس عورت کے درمیان پیش آیا۔ کسی نے تمہاری حمایت نہیں کی! ہمارا اپنا طبقہ تو ساتھ دے رہا ہے مگر تمہارے حق میں بیان دینے کی ہمت ان سے بھی کسی نے نہیں کی!
رائے عامہ کا کیا ہے! کیا اس سے پہلے رائے عامہ کبھی ہمارے راستے کی دیوار بنی؟ ان کے قائداعظم ہی کی مثال لے لو! پورے پاکستان کا قائداعظم ہے مگر ہم نے کبھی قائداعظم کہا نہ تسلیم کیا۔ نہ کبھی مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے۔ ہمارے ہزاروں لاکھوں مدرسوں میں اوّل تو اس کا کبھی ذکر ہی نہیں ہؤا، ہو بھی تو جناح کہہ دیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ہم نے مدارس میں تحریک پاکستان کی تاریخ یا برصغیر کی تاریخ کا فتنہ ہی نہیں پنپنے دیا! اسی لیے تو ہمیں اس طبقے سے ووٹ مل رہے ہیں! تاریخ پڑھائی جاتی تو ہمارے طلبہ کو یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا مفتی محمد شفیع اور دیگر کئی علما نے قائداعظم کا ساتھ دیا تھا! تم نے رائے عامہ کی بات کی! رائے عامہ کی ہماری طاقت کے سامنے کیا حیثیت ہے! ہم نے بر ملا کہا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں۔ اس کے باوجود ہم ہر حکومت کا حصہ رہے۔ ہم نے پاکستان سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ ہماری پانچوں گھی میں اور سرکڑھائی میں ہے۔ کیا یہ ہمارا کمال نہیں کہ جس پاکستان کے بانی کا ہم نے کبھی ذکر تک نہیں کیا، کسی جلسے کسی تقریر میں اس کا نام تک کبھی نہیں لیا، اسی پاکستان سے ہم وزارتوں میں بھی اپنا حصہ بلکہ حصے سے زیادہ، لیے جا رہے ہیں۔ کمیٹیوں کے ہم صدر ہیں۔ اسلامی نظریاتی ادارے ہماری جیب میں ہیں وزیروں جتنی مراعات ہم لے رہے ہیں۔ اسمبلیوں اور سینیٹ کی رکنیتیں ہمارے پاس ہیں! ہم جب چاہیں، ایک گھنٹے کے نوٹس پر حکومت کے سربراہ سے مل سکتے ہیں! کہاں ہے رائے عامہ؟
(قہقہہ)
ویسے یار! اگر ہمت کرتے تو ایک آدھ ہاتھ اُس مغرب زدہ عورت کو ٹکا ہی جاتے! دماغ درست ہو جاتا اس کا بس حالات ہی ایسے تھے کہ یہ کام نہ ہو سکا! چلو، کوئی بات نہیں! اگلی بار سہی!
اگلی بارتو مجھے مشکل ہی دکھائی دے رہی ہے! میں نہیں سمجھتا کہ اب تمہیں یہ ٹی وی چینلوں والے اپنے ٹاک شوز میں بلائیں گے! تمہیں بلا بھی لیا تو اس عورت کو کبھی نہیں بلائیں گے۔ وہ بھی تو ہر وقت جھگڑنے لڑنے کے لیے تیار بیٹھی ہوتی ہے!
یہ بھی تمہاری غلط فہمی ہے! بلائیں گے۔ ضرور بلائیں گے۔ مجھے بھی بلائیں گے اور اس عورت کو بھی!
نہیں! بھئی! پیمرا نے بھی نوٹس لے لیا ہے!
پیمرا یا نو پیمرا! تم ایک پہلو پر غور نہیں کر رہے! یہ ٹی وی چینل دکانیں ہیں۔ دکان پر وہی سودا سپلائی کیا جاتا ہے جس کی مانگ ہو! ٹی وی چینلوں کے لیے ریٹنگ کا مسئلہ موت اور زندگی کا مسئلہ ہے! تمہارا کیا خیال ہے جب ایک طرف مجھے بلا رہے تھے اور دوسری طرف اُس عورت کو، تو کیا انہیں معلوم نہ تھا کہ جھگڑا ہو گا اور خوب ہو گا! وہ سب جانتے تھے۔ اور یہی چاہتے تھے کہ جھگڑا ہو، بلکہ لڑائی مارکٹائی تک بات پہنچے۔
اب اس وڈیو ہی کو دیکھ لو جو ہمارے جھگڑے کی ہے۔ لاکھوں ناظرین دیکھ چکے ہیں اور دیکھے جا رہے ہیں! کیا تم نے کبھی نوٹ نہیں کیا کہ جب چینلوں پر سیاست دان اور مذہبی سکالر ایک دوسرے سے الجھتے ہیں تو اینکر خواتین اور اینکر حضرات خاموش ہو کر انہیں الجھنے دیتے ہیں۔ مداخلت نہیں کرتے۔ جھگڑا اتنا بڑھتا ہے کہ ناظرین کا انہماک دو چند ہو جاتا ہے۔ ہمارے لوگوں کی نفسیات کو اس حقیقت سے سمجھنے کی کوشش کرو کہ جب کسی شاہراہ پر دو فریقوں یا دو افراد کے درمیان لڑائی ہو تو راہ گیر رک جاتے ہیں۔
گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں والے گاڑیاں اور موٹر سائیکل ایک طرف پارک کر کے، دوڑ دوڑ کر تماشہ دیکھنے جاتے ہیں۔ سینکڑوں کا ہجوم اکٹھا ہوتا ہے! ٹی وی چینلوں پر یہی حال ہے۔ لوگ چسکا لیتے ہیں۔ اُن کی اذیت رسانی (SADISM) کی رگ کو تسکین ملتی ہے! اکثر و بیشتر ٹاک شوز میں دونوں حریف، بیک وقت، مسلسل بول رہے ہوتے ہیں۔ چیخ رہے ہوتے ہیں۔ اینکر پرسن اس طرح مطمئن، بیٹھے ہوتے ہیں، جیسے مرغوں کی لڑائی کے دوران مرغوں کو لڑانے والے آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں! چنانچہ اس بات کو تو تم بھول ہی جاؤ کہ ہمیں اب بلایا نہیں جائے گا! چند دن کا وقفہ ہو گا۔ پھر ہم ہوں گے اور یہ ٹاک شو!
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن و سنت سے جو احکام اور روایات، کسی نہ کسی مصلحت کے تحت چھپا کر رکھے ہوئے تھے، وہ بھی سرِ عام بتائے جا رہے ہیں!
مثلاً؟
مثلاً لوگوں کے، بالخصوص خواتین کے علم میں لایا جا رہا ہے کہ بالغ، عاقل عورت اپنی پسند سے شادی کر سکتی ہے اور اس کے ماں باپ، مربی یا ولی کو زبردستی شادی کرنے کا اختیار نہیں! روزنامہ دنیا نے گیارہ مئی 2016ء کو اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا کہ ایک خاتون نے بارگاہِ رسالت میں آکر فریاد کی کہ اس کے والد نے اپنے رشتہ داروں میں اس کی شادی زبردستی کر دی ہے تا کہ اس بندھن سے والد کا سماجی مرتبہ بلند ہو جائے۔ آپ نے شادی منسوخ فرما دی۔ تب اس خاتون نے کہا اب میں اس شادی پر راضی ہوں۔ میں صرف یہ چاہتی تھی کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ عورت کی شادی کے معاملے میں مردوں کو اختیار نہیں! یا مثلاً پاکستانی عورتوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ عرب معاشرے میں عورت آج بھی مرد کو شادی کے لیے پیغام خود بھجوا سکتی ہے!ہاں درست ہے ان حقائق کو اب زیادہ دیر چھپایا نہیں جا سکتا، مگر ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو مسلسل بتاتے رہیںکہ عورت ناقص العقل ہے! ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔ مرد کے سامنے اس کی حیثیت ہیچ ہے۔ یہ نجی پنچایتیں اور جرگے غنیمت ہیں کہ انہوں نے بھی عورت کو، بہت حد، تک اپنی اوقات میں رکھا ہوا ہے۔

Wednesday, June 15, 2016

میجر علی جواد شہید

بچُھو نے دریا پار کرنا تھا۔ کوئی صورت نظر ہی نہیں آرہی تھی۔ بالآخر کچھوے کا دل پسیجا۔ اس نے کہا میری پیٹھ پر بیٹھ جائو، میں دوسرے کنارے جا رہا ہوں، پہنچا دوںگا۔ بچھو پیٹھ پر بیٹھ گیا۔ دریا کے عین وسط میں پہنچے تو زہر بھرا ڈنک کچھوے کی پیٹھ پر مارا۔ کچھوا بلبلا اٹھا: ’’یہ کیا کر رہے ہو۔ بھئی، کیا یہ میرے احسان کا بدلہ ہے؟‘‘ بچھو نے جواب دیا: ’’کیا کروں عادت سے مجبور ہوں‘‘۔
یہ ایک مشہور حکایت ہے۔ اسی سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ      ؎
نیشِ عقرب نہ از رہِ کین است
مقتضائی طبیعتش این است
بچھو دشمنی کی وجہ سے ڈنک نہیں مارتا، یہ اس کی طبیعت، اس کے مزاج، اس کی طینت کا تقاضا ہے۔
ہم نے افغانوں کو مشکل وقت میں پیٹھ پرسوار کیا۔ مہاجر تھے، آج مالک ہیں۔ لبرٹی لاہور سے لے کر بارہ کہو تک، ترنول سے لے کر چکوال تک، اٹک سے لے کر کراچی تک، ہر جگہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہ دنیا میں  اپنی قسم کے انوکھے مہاجر ہیں۔ کہاں کی ہجرت! وہ تو مقامی لوگوں کے، انصار کے گلے پکڑ رہے ہیں۔ جائدادیں، کاروبار، اعلیٰ تعلیم، جعلی شناختی کارڈ بہت کچھ ہتھیا لیا۔ واپس جانے کا نام نہیں لے رہے۔ کچھ کہیں تو غراتے ہیں۔ جان بچانی مشکل ہو جاتی ہے!
طورخم بارڈر پر افغان دو دن سے حملے کر رہے ہیں اس لیے کہ پاکستان نے اب مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ کھُلے مادر پدر آزاد بارڈرکو قانون کے دائرے میں لا کر رہے گا۔ یہ یکم جون سے ہوا۔ بارڈر پر سختی سے جانچ پڑتال ہونے لگی، یہاں تک کہ تین چار سو افغان طالب علم جو ہر روز پاکستان کے سکولوں کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں، ان کے لیے بھی پاسپورٹ لازم قرار دیے گئے۔ افغانوں کو یہ پابندیاں راس نہیں آ رہیں۔ ان کا مفاد اس میں ہے کہ بارڈر پہلے کی طرح کھلے رہیں۔ افغانستان سے دہشت گرد بھی آئیں اور منشیات بھی! پاکستان سے آکسیجن بھی جائے اور پانی بھی۔ پکی ہوئی روٹیاں بھی اور ادویات بھی۔ گھی،گندم، چینی، مصالحے، سیمنٹ، سریا، اینٹیں، کپڑا، جوتے، غرض ہر وہ شئے جو روئے زمین پر کسی سانس لیتے آدم کے بیٹے کو ضرورت پڑتی ہے، پاکستان سے افغانستان سمگل ہوتی رہے! یہ ہے وجہ افغانوں کے ازخود رفتہ ہونے کی! ہوش و خرد کو انہوں نے بالائے طاق رکھا اور اپنے محسن پاکستان پر چڑھ دوڑے۔ 
پاکستان کے لیے یہ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ والا معاملہ ہے۔۔۔۔ Now or Never۔ لازم ہے کہ پاکستان بارڈر مستحکم ہونے کے پروگرام پر ثابت قدم رہے، ایک قدم پیچھے نہ ہٹے۔ افغان فوج کی اشتعال انگیز کارروائیوں کا دندان شکن جواب دے اور سخت جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری رکھے۔ بجا کہ چالیس سے زیادہ مقامات ہیں جن سے آمدورفت، سرحد پار تک ہو سکتی ہے، سب کو مکمل بلاک کرنے کے لیے وقت درکار ہے اور وسائل بھی۔ مگر جو بڑے بڑے معروف مقامات ہیں، جیسے طورخم اور چمن، ان کا بندوبست کرنے سے بہت فرق پڑے گا۔ بغیر دستاویزات آنے جانے والوں کی تعداد بہت حد تک کم ہو جائے گی! اس کے بعد باقی چور دروازوں کو بھی، وقت کے ساتھ ساتھ مسدود کیا جا سکتا ہے!
ایک مغربی مورخ نے کیا خوب تشبیہ دی ہے کہ مار دھاڑ، قتل و غارت، نسلوں تک بھڑکتی انتقام کی آگ، یہ سب کچھ افغانوں کے لیے تفریح ہے، جیسے انگریزوں کے لیے کاؤنٹی کرکٹ کی تفریح! شاہ شجاع کے امراء میں سے ایک نے اپنے ساٹھ رشتہ داروں کو طعام کی دعوت دی۔ بلڈنگ کے نیچے بارود کی بوریاں رکھوا دیں۔ کھانے کے دوران کسی بہانے باہر نکلا اور مہمانوں کے پرخچے اڑ گئے! پوری تاریخ افغانستان کی اٹھا کر دیکھ لیجیے، یہ کابل کے پانی کی تاثیر تھی کہ ہمایوں کے بھائی اُس کی پیٹھ میں بار بار چھرا گھونپتے رہے۔ افغانستان (جس کا اُس وقت یہ نام نہیں تھا) تینوں بڑی سلطنتوں کو جُل دیتا رہا، ڈاج کرتا رہا، تینوں سے فائدہ اٹھاتا رہا۔ مغرب میں ایرانیوں سے، مشرق میں مغل سلطنت سے، شمال میں ازبکوں سے۔ کبھی ایک کے ساتھ، کبھی دوسرے کے ساتھ۔ یہ راتب لے کر حمایت کرنے کی ریت برطانوی عہد سے نہیں، بہت پہلے سے چلی آرہی ہے!
افغانوں کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے سمجھنا ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان پیٹ بھرنے، سر چھپانے اور تن ڈھانپنے کے لیے ہمیشہ برصغیر کا محتاج رہا! ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ صنعت و حرفت کا گزر وہاں بھولے سے بھی نہیں ہوا۔ کیا کسی بازار میں، دنیا کی کسی مارکیٹ میں کوئی شے ایسی ملتی ہے جس پر میڈ اِن افغانستان لکھا ہو؟ ساختہ افغانستان درج ہو؟ کوئی کپڑا، کوئی جوراب، کوئی جوتا، گھی کا کوئی ڈبہ، نمک کا کوئی پیکٹ، سیمنٹ کا کوئی بیگ! لے دے کے قالین بافی تھی، اس میں ترکمانستان اور ایران اُس سے کہیں آگے ہیں! باقی صرف انگور، سردا اور بادام رہ جاتے ہیں! اس سے گنجی نہائے کیا اور نچوڑے کیا! 
صدیوں سے افغان پیٹ بھرنے، سرچھپانے اور تن ڈھانپنے کے لیے اُن علاقوں کے دست نگر رہے جو ان کے مشرق میں واقع ہیں۔ روٹی کی اور پیسے کی ضرورت پڑی تو کبھی پشاور کو تاراج کیا، کبھی پنجاب کو لوٹا، کبھی سندھ پر چڑھ دوڑے اورکبھی اس سے بھی آگے! وسطی پنجاب میں یہ محاورہ یوں ہی تو نہیں زبان زدِ خاص و عام تھا کہ ’’کھادا پیتا لاہے دا تے باقی احمد شاہے دا‘‘، یعنی وہی تمہارا ہے جو کھاپی لوگے، باقی تو احمد شاہ (ابدالی) کی افواج ہڑپ کر جائیں گی یا لوٹ کر لے جائیں گے۔ مرہٹوں سے بچانے کی شمالی ہند سے افغانوں نے بھاری قیمت وصول کی اور خوب کی!
پھر یہ ہوا کہ زمانہ بدل گیا۔ تلواریں رہیں نہ گھوڑے، پاکستان میں ایک پیشہ ورانہ لحاظ سے ماہر فوج ہے! اب پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کے لیے افغان کیا کریں؟ اب ایک ہی راستہ ہے کہ بارڈر کھلا رہے۔ غدار پاکستانی سمگلنگ کرکے انہیں ہر وہ شئے پہنچاتے رہیں جو پاکستانی کارخانے بناتے ہیں اور پاکستانی کسان اگاتے ہیں! نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم جزو سرحدی استحکام بھی ہے۔ چنانچہ اب یکم جون سے پاکستان نے جب بارڈر کو منظم کیا اور قانون کے حصار میں لایا تو افغانستان نے ہماری فوج پر بلا اشتعال فائرنگ کر دی۔ اِس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو خبر آئی ہے کہ افغان فورسزکی فائرنگ سے زخمی ہونے والے میجر علی جواد شہید ہوگئے ہیں! اِنا للہ وانا الیہ راجعون! تصویر سے میجر شہید ہزارہ قبیلے کے سپوت لگتے ہیں!
ہمیں اب یہ قربانیاں دینی ہوںگی۔ اس قبیل کی ناپاک اور قابلِ مذمت جارحانہ حرکتوں سے افغانستان کا اصل مقصود یہ ہے کہ پاکستان سرحدی استحکام کا عمل روک دے۔ دہشت گرد افغانستان سے آتے رہیں اور افغان خفیہ ایجنسی (این ڈی ایس) اپنے گماشتوں کے ذریعے پاکستان میں تباہ کن بزدلانہ کارروائیاں کرتی رہے!
ہم میں سے کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالات کے بگاڑ کا سبب بھارت ہے! یہ وہی طرزِ فکر ہے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ساری ذمہ داری بھارت پر ڈالتا ہے! غلطیاں ہماری اپنی تھیں۔ کیا ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘کا نعرہ بھارت نے سکھایا تھا؟ نہیں! بھارت نے ہماری حماقتوں کا صرف فائدہ اٹھایا اور خوب اٹھایا۔ یہی صورتِ حال افغانستان کے ضمن میں ہمیں اب در پیش ہے! اگر ہمارے بارڈر کھُلے رہیں گے اور اگر نادرا کے غدار، وطن فروش، ملازم چند کھنکتے سکوںکی خاطر غیر ملکیوں کو دستاویزات جاری کرتے رہیںگے تو بھارت فائدہ اٹھاتا رہے گا! اور کیوں نہ اٹھائے؟ دشمن کا اورکام کیا ہے!
یہ 2004ء کی فروری کا ایک روشن دن تھا۔ یہ لکھنے والا حرمِ کعبہ کے وسیع صحن میں بیٹھا تھا۔ سامنے دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا، آنکھوں میں روشنی بھر رہا تھا۔ ساتھ سیاہ پگڑی باندھے ایک معمر افغان بیٹھا تھا! اُس سے بات چیت ہو رہی تھی! خوست کا تھا۔ اس نے بتایا کہ راولپنڈی راجہ بازار کے علاقے میں اس کی چار دکانیں ہیں۔ اس سے پوچھا کہ سامنے کعبہ ہے، سچ بتانا! کبھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑی تو کس کا ساتھ دو گے؟ اُس ملک کا جہاں تم پیدا ہوئے؟ یا اُس ملک کا جو تمہاری پرورش کر رہا ہے؟ افغان نے بہر حال جھوٹ تو نہ بولا مگر وہ جواب بھی زبان پر نہ لایا جو اُس کے دل میں تھا! آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ اس ایک واقعہ سے اُس قوم کی صدیوں سے چلی آتی نفسیات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے!
ہمارا قومی مفاد اسی میں ہے کہ مہاجرین، جو مہمان بلائے جان بنے ہوئے ہیں، واپس بھیجے جائیں۔ بارڈر مستحکم ہو، دستاویزات کے بغیر کوئی آئے نہ جائے۔ افغانستان اور پاکستان دونوں کا فائدہ اس میں ہے کہ ایک دوسرے کے مفروروں کو پناہ دینے کا سلسلہ بھی بند کریں!

Monday, June 13, 2016

خیابانِ احمد ندیم قاسمی

اُن دنوں اسلام آباد کے محلّے آئی ایٹ میں قیام تھا۔ غالباً یہ دارالحکومت کا واحد سیکٹر ہے جس کا ایک کنارہ دو وسیع سیرگاہوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک کچنار پارک چونکہ بڑی شاہراہ سے نظر آتا ہے، اس لیے ترقیاتی ادارے کے شاطر سربراہوں نے اس پر زیادہ توجہ دی، مگر صبح یا شام کی سیر کے لیے لوگ زیادہ ترجیح اُس دوسری سیرگاہ کو دیتے تھے جو محلّے کے شمالی کنارے پر، فیڈرل ایجوکیشن بورڈ کے عین سامنے واقع تھا۔اب ان دونوں سیرگاہوں کے دھڑ،کندھے اور بازو کاٹ کر بہت بڑا انٹرچینج تعمیرکیا گیا ہے۔ یوں سیرگاہیں لنڈوری ہو گئی ہیں!
کوشش ہوتی تھی کہ شام کو باقاعدگی سے نہیں تو کم از کم نیم باقاعدگی سے سیر ہوتی رہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود بھی یہیں سیرکرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ شفقت سے پیش آتے رہے اور بغیر جتائے، بلکہ بغیر بتائے، احسانات بھی کرتے رہے۔ ایک دو بار ان کا ہم قدم ہوکر ٹریک کے دو تین چکر لگائے تاکہ گفتگو کا شرف حاصل ہو۔ وہ تو ہوا مگر ڈاکٹر صاحب بہت تیز چلتے تھے۔ اس میں غالباً ان کی طویل قامتی کا قصور بھی تھا۔ تیسرے چکر میں میرا سانس بُری طرح پھول چکا ہوتا تھا۔
یہیں افسر شاہی کے ریٹائرڈ مظاہر بھی اکثر و بیشتر چلتے پھرتے نظر آتے۔ آنکھوں میں گزری بادشاہت کے بجھے ہوئے افسانے! چال میں دم توڑتی تمکنت! عوام سے وہی کنارہ کشی اور بیزاری، کبھی کبھی یہ حضرات کسی بنچ پر بیٹھے باہم محو گفتگو ہوتے ؎
آ عندلیب ! مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گُل پکار، میں چلاؤں ہائے دل
سیرگاہ اور مسجد میں باقاعدگی سے آنے والوں کا باہمی تعلق عجیب سا ہوتا ہے۔ بسا اوقات نام تک نہیں معلوم ہوتا مگر شناسائی اچھی خاصی ہو چکی ہوتی ہے۔ ایک صاحب پارک میں انتہائی باقاعدگی سے آتے تھے۔ مُعنّک، چال جیسے کڑی کمان کا تیر! ہاتھ اٹھا کر ہم ایک دوسرے کو سلام کرتے۔ یوں لگتا تھا یہ صاحب سیر عبادت سمجھ کر یا فرض جان کر کر رہے ہیں! ایک دن اتفاق سے اسلام آباد کلب میں ملاقات ہوگئی۔ معلوم ہوا یہ سلیم ہیں اور سول سروس میں ہیں! متین، ادب آداب سے بھرے ہوئے۔
پھر سلیم اخبارات میں وزرا کے ساتھ بیٹھے نظر آنے لگے۔ معلوم ہوا پرنسپل انفارمیشن افسر ہو گئے ہیں! چند روز پہلے ان کی طرف سے ایک بھاری بھرکم پیکٹ موصول ہوا۔ کھولا تو ’’ماہِ نو‘‘ کا مُجلّد ضخیم احمد ندیم قاسمی نمبرتھا! اب وہ اُس سرکاری ادارے کے مدارالمہام ہیں جو نشر و اشاعت کا ذمہ دار ہے۔ طباعت اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کے حوالے سے۔ 
قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد آغاز ہونے والا ماہنامہ ’’ماہِ نو‘‘ کئی ادوار سے گزرا مگر اصل بات یہ ہے کہ اب تک حیات ہے۔ اِس لکھنے والے کا سِن اُس وقت کچا تھا جب والد گرامی مرحوم کی لائبریری میں ماہِ نو کی ایک ضخیم فائل دیکھنے میں آیا کرتی تھی۔ یہ طفلی کا عہد تھا جس میں سمجھ آنے والی اور نہ سمجھ آنے والی ہر شے پڑھ جایا کرتے تھے۔ اکثر پرچوں پر بطور مدیر رفیق خاور کا نام اب تک یاد ہے۔ یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ رفیق خاور تصنیف و تالیف کے میدان میں جِن سے کم نہ تھے۔ شاعر اور محقق، جواں مرگ ڈاکٹر رؤوف امیر نے پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ انہی پر لکھا تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے کراچی کے کئی سفر کیے اور رفیق خاور کے پس ماند گان سے متعدد ملاقاتیں کیں۔ رؤوف امیر مرحوم بتاتے تھے کہ رفیق خاور نے اپنی ملازمہ سے شادی کی جو ناخواندہ تھی۔ پھر اسے الف بے پڑھانا شروع کیا اور انگریزی زبان و ادب میں ایم اے تک لے کر گئے۔ ترجمہ میں ان کا بہت کام ہے مگر اصل معرکہ جو انہوں نے سر کیا ان کی تصنیف اردو زبان میں تھیسارس (معجم) ہے۔ غالباً مقتدرہ قومی زبان نے اسے چھاپا ہے۔ سنا ہے کہ آخری دنوں میں ان کا ذہنی توازن درست نہیں رہا تھا۔ 
مگر ماہِ نو کا سنہری دور وہ تھا جب کشور آپا (کشور ناہید) اس کی ایڈیٹر رہیں! یہ اسی کی دہائی کا وسط اور اواخر تھے۔ ملک کے ادبی جرائد میں ماہِ نو سِرفہرست تھا۔کیا مندرجات ہوتے تھے! تنقید، کہانی، شاعری، آرٹ، ثقافت۔۔۔ ہر حصہ ممتاز، عمدہ اور عالی قدر ہوتا۔ کشور آپا کافون آتا۔۔۔ فون کم اور ڈانٹ زیادہ: ’’ماہِ نو کے لیے کچھ بھیجو‘‘۔ یا ’’فارسی نظموں کے تراجم کرو‘‘۔ یہ ڈانٹ ہی کا اثر تھا کہ اُن دنوں جم کر کام کیا۔ فروغ فرخ زاد اور نادر نادرپور کی کئی نظموں کے ترجمے کیے جو ماہِ نو میں چھپے۔ پھر کشور آپا نے ایک پہاڑ جتنا کام کر ڈالا۔ چالیس سالوں پر پھیلے ہوئے ماہِ نو کے پرچوں کا انتخاب کیا اور دو جلدوں میں چھاپا۔ یہ انتخاب تقریباً اٹھارہ سو صفحات پر مشتمل ہے اور ایک اعتبار سے مبسوط ادبی تاریخ ہے، یہاں تک کہ ہم جیسوں کے عکس ہائے تحریر بھی شامل ہیں!
سلیم نے اب ماہِ نو کا احمد ندیم قاسمی نمبر جو چھاپا ہے تو سچی بات ہے کہ بڑا کام کیا ہے۔ ویسے اگر کسی نامور ادیب کو اس پرچے کا ’’مہمان مدیر‘‘ بناتے تو پرچہ وقیع تر ہوتا مگر جس لحاظ سے احمد ندیم قاسمی کو غیر مرئی طور پر، چپکے چپکے، بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے، اُس لحاظ سے یہ نمبر بروقت آیا ہے۔ طباعت گراں بہا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی سے لے کر غلام محمد قاصر مرحوم تک بہت سوں کی تحریریں شامل ہیں؛ تاہم بہترین حصہ وہی ہے جس میں قاسمی صاحب کے مضامین، افسانوں، کالموں اور شاعری کا انتخاب ہے!
سلیم نے دو تین کام اور بھی کیے ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔ ایک تو اس نے قائداعظم کی 11اگست 1947ء والی تقریر، مع اُردو ترجمہ، دیدہ زیب کتا بچے کی صورت چھاپی ہے۔ اِن عجیب و غریب وقتوں میں، جب اس تقریر کو جعلی تک کہا جا رہا ہے، اس کی اشاعت سلیم کی بہادری پر بھی دال ہے۔ یہی وہ تقریر ہے جس میں بابائے قوم نے کہا تھا: ’’اب آپ آزاد ہیں! اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدہ سے تعلق ہو، کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں‘‘۔
’’الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشن‘‘ کے سرکاری ادارے نے ’’پاکستان: بنیادی حقائق‘‘ اور ’’پاکستان کی دلکش جھیلیں‘‘ کے عنوان سے دو خوبصورت کتابچے بھی شائع کیے ہیں جو غیر ملکیوں کے لیے کسی بھی پاکستانی کی طرف سے بہترین تحفہ کا کام دے سکتے ہیں۔ ادارے کو چاہیے کہ یہ کتابچے پاکستانی سفارت خانوں کو بھیجے تاکہ یہ دوسرے ملکوں کے کالجوں، یونیورسٹیوں، ذرائع ابلاغ اور لائبریریوں تک پہنچیں۔ ہاں! اگر ان کتابچوں کے ساتھ وہی سلوک ہونا ہے جو قرآن پاک کے نسخوں کے ساتھ روم کے پاکستانی سفارت خانے نے کیا تھا تو پھر سفارت خانوں کو ہرگز نہ بھیجیں!
روم کے سفارت خانے کا قصّہ یوں ہے کہ 1980-81ء کا عرصہ اٹلی میں قیام رہا۔ روم کے پاکستانی سفارت خانے میں دیکھا کہ کلامِ پاک کے کئی نسخے پڑے ہیں۔ کئی سو کی تعداد میں ہوں گے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ اسلام آباد سے وزارت مذہبی امور نے بھجوائے ہیں تاکہ تقسیم کیے جائیں۔ روم سے میں نیپلز (ناپولی) چلا گیا جہاں قیام تھا! ایک دن ایک مصری کلاس فیلو نے جس کا معوّذ نام تھا، بتایا کہ اسے قرآن پاک کا ایک نسخہ درکار ہے۔ اسے کہا کہ میرے پاس تو ایک ہی ہے جو میں گھر سے ساتھ لایا ہوں مگر ہمارے سفارت خانے میں نسخے پڑے ہیں۔ چند دن انتظار کرے، وہاں سے منگوائے دیتا ہوں! سفارت خانے کو خط لکھا۔کئی ہفتے انتظار کے بعد ٹیلی فون پر یاد دہانی کرائی، التماس کی۔ ہمارا قیام آخرکار ختم ہوا مگر معوّذ کو نسخہ ملا نہ ہی خط کا جواب آیا!
سرکار نے احمد ندیم قاسمی کو جو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، لائقِ تحسین ہے۔ اب دلدادگانِ ادب کا یہ دیرینہ مطالبہ بھی پورا کیا جائے کہ دارالحکومت کی ایک شاہراہ کا نام ’’خیابانِ احمد ندیم قاسمی‘‘ ہو!

Saturday, June 11, 2016

کسی مرد کو بلاؤ

پہلی خوف ناک شکست بھارت نے ہمیں1971ء میں دی۔ غلطیاں ہماری اپنی تھیں، فائدہ اس نے اٹھایا۔ نوے ہزار پاکستانی پنجرے میں بندکر لیے۔ تاریخ نے کبھی یہ تعداد مسلمان قیدیوں کی دیکھی ہی نہ تھی۔ ہم نے خوب خوب واویلا کیا۔ کبھی امریکہ بحری بیڑے کی دھمکیاں دیں، کبھی چین کا ڈراوا دیا۔ مگر ٹائیگر نیازی نے ایک چوہے کی طرح شکست کی دستاویز پر دستخط کیے اور نسل خراب کرنے کی دھمکیاں دینے والے شیر نے ریوالور سکھ جرنیل کی خدمت میں پیش کر دیا۔
دوسری خوف ناک شکست ہمیں مودی دے رہا ہے۔ یہ شکست امورِ خارجہ کے میدان میں ہے۔ شکست نہیں، شکست در شکست در شکست ہے۔ مودی ملک پر ملک فتح کر رہا ہے اور کیے جا رہا ہے۔ مانا وہ مسلمانوںکا قاتل ہے، مگر ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ وہ بھارت کے لیے کس قدر اورکیا کچھ کر رہا ہے۔ اس کا ذاتی مفاد کوئی نہیں۔ بزنس ہے نہ بیرون ملک جائیدادیں! دوروں پر جاتا ہے تو اپنے کسی بھائی کو اپنا دم چھلہ نہیں بناتا، نہ ہی اس کی اولاد کسی سیٹھ کے نجی طیارے میں اس کے پیچھے پیچھے دوروں میں ساتھ ہوتی ہے!
2015ء کے دوران مودی 26 ملکوں میں گیا۔ روس سے اس نے جنگی طیاروں کے لیے معاہدہ کیا۔ تیل، کوئلہ، زراعت اور ہیروںکی تجارت پر بات کی۔ سنگاپور جا کر بھارتی تارکینِ وطن سے خطاب کیا۔ ملائیشیا گیا اورکئی شعبوں کے حوالے سے معاہدے کیے۔ برطانیہ گیا اور تین دنوں میں ستائیس معاہدے کیے۔ ٹیکنالوجی ٹرانسفر سے لے کر دفاعی معاملات تک۔۔۔۔ لشکرِ طیبہ پر واویلا مچانے سے لے کر سائبر سکیورٹی تک۔۔۔۔!! یہ نہیں کہ وہ لندن جا کر اپنی برادری کے چند لوگوں سے مل کر واپس آ جائے! وہ جہاں جاتا ہے، پروٹوکول اور دو طرفہ آداب کے ساتھ جاتا ہے۔ اس لیے بھی کہ وہ بار بار نہیں جاتا نہ ہی ’’نجی دورے‘‘ کرتا ہے!!
2015ء میں امریکہ آیا تو ٹیکنالوجی کی بڑی بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملا۔
اور جگر تھام کر پڑھیے۔ وہ متحدہ عرب امارات گیا جہاں اس کی زبردست پذیرائی کی گئی۔ بھارتی میڈیا نے جشن منایا کہ تین فتوحات اس دورے میں ہوئیں۔ اوّل: اس نے بقول بھارتی میڈیا کے، متحدہ عرب امارات کو قائل کر لیا کہ دہشت گردی کا مرکز’’کہاں‘‘ ہے! دوم: تجارتی تعلقات کو وسیع ترکیا اور سوم: بھارتی تارکین وطن کے لیے مراعات لیں! جولائی 2015ء میں روس کے شہر اُوفا میں بین الاقوامی کانفرنس سے ہمارے وزیراعظم سیدھے اسلام آباد پہنچے اور ایک ’’انتہائی اہم‘‘ اجلاس کی صدارت کی۔ یہ انتہائی اہم اجلاس لاہور ہوائی اڈے کی مرمت کے بارے میں تھا! آپ کا کیا خیال ہے، اگر معاملہ کراچی یا کوئٹہ یا پشاور کے ہوائی اڈے کی مرمت کا ہوتا تو وزیراعظم اُس کی صدارت بنفس نفیس کرتے؟ بہر طور، مودی اُوفا سے واپس گھر نہیںگیا۔  وہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ایک ایک دارالحکومت گیا۔ تجارت، توانائی اور دفاعی معاملات پر معاہدے کیے۔ ان ملکوں کے طالب علم انڈیا میں جا کر تعلیم حاصل کریںگے! یاد رہے کہ جو شخص جس ملک میں تعلیم حاصل کرتا ہے، اس کا اس سے جذباتی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ساری زندگی اُس ملک کے غیر اعلانیہ سفیر کے طور پر اُس سے ذہنی طور پر وابستہ رہتا ہے۔
پھر وہ چین گیا اور چینی کمپنیوں کے ساتھ بائیس ارب ڈالرکے معاملات طے کیے۔ پھر یہ ہندو بچہ فرانس گیا اور 36 لڑاکا جیٹ طیاروں کے لیے درخواست کی! پھر وہ جرمنی گیا اور شور مچایا کہ پوری یونین اور بھارت کے درمیان فری ٹریڈ معاہدہ ہونا چاہیے۔ اس نے کہا کہ بھارتی مصنوعات کی برآمد کے لیے یہ بہت ضروری ہے! شہری ترقی کے لیے جرمنی اور انڈیا نے باہمی ورکنگ گروپ تشکیل دیا، انڈیا اور جرمنی کی یونیورسٹیوں کے درمیان طلبہ کے تبادلوں پر رضا مندی ہوئی! پھر وہ منزلوں پر منزلیں مارتا بحرِاوقیانوس کے اُوپر اُڑتا کینیڈا اترا۔ اس نے کینیڈا کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے جس کے نتیجہ میں کینیڈا بھارت کو طویل مدت تک یورینیم سپلائی کرے گا! توانائی، تیل اور گیس کے معاہدے اس کے علاوہ تھے! جنوبی کوریا کے دارالحکومت پہنچ کر سات معاہدے طے کیے۔ اب اس ملک کے ساتھ بھارت تجارت کرے گا تو ڈبل ٹیکسیشن نہیں ہوگی!
2015ء نے ہمیں یہ سارے جھٹکے دیے اور رخصت ہو گیا۔ 2016ء آیا تو مودی نے پھر واسکٹ پہنی، زعفران کا قشقہ ماتھے پر لگایا، بتوں کے آگے سجدہ زیر ہوا اور سعودی عرب جا پہنچا۔ یہاں وہ بادشاہ سے ملا۔ وزیر داخلہ اور وزیردفاع سے ملاقات کی۔ بھارتی کمپنی ’’ٹاٹا کنسلٹینسی سروس‘‘ سعودی عرب میں ایک ہزار سعودی خواتین کو آئی ٹی کی تربیت دے رہی ہے۔ مودی نے ان سعودی خواتین کو بھارت آنے کی دعوت دی۔ تیس لاکھ بھارتی سعودی عرب میں ملازمتیں کر رہے ہیں۔ ان کے لیے مراعات لیں۔
مگر زور دار چپت مودی نے پاکستان کے سر پر مئی 2016ء میں لگائی جب وہ پاکستان کے اوپر سے ہوتا ایران گیا اور افغانستان اور ایران دونوں کے ساتھ معاہدے کیے۔ چاہ بہار پیش منظر پر چھایا رہا۔ یہ پاکستانی سفارت کاری کی بد قسمت ناکامی تھی کہ لاکھوں افغان جو پاکستان میں کما اورکھا رہے ہیں، ان کے صدر نے پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور بھارت اور ایران کے ساتھ مل کر خم ٹھونک کر کھڑا ہوگیا۔
بھارت نے دوسری چپت ہمارے سر پر اُس وقت رسید کی جب مودی قطر گیا اور اسے زبردست اور مثالی اہمیت دی گئی۔ قطر اور بھارت کے درمیان سات معاہدے ہوئے۔
تیسری چپت مودی نے ہمارے سر پر تین دن پہلے ماری ہے۔ وہ امریکہ گیا اور آٹھ معاہدے طے کیے۔ ان میں ایک معاہدہ ایسا بھی ہے جس کی رُو سے دونوں ملکوں کی بحریہ خفیہ اطلاعات کا تبادلہ کریںگی۔ معاہدوں کو تو چھوڑیے، اوباما کے اس اعلان پر غورکیجیے جو اس نے مودی کی گود میں بیٹھ کر کیا کہ پاکستان ممبئی اور پٹھانکوٹ کے ملزموں کو کٹہرے میں لائے۔ جو کچھ اس کے علاوہ ہوا اور کہا گیا، اس کی تفصیلات آپ نے 9 جون کے اخبارات میں دیکھ لی ہوںگی! 
دوسری طرف ہماری ’’سرگرمی‘‘ دیکھیے۔ نیوکلیئر سپلائی گروپ کی رکنیت کے لیے کوشش کس طرح ہو رہی ہے؟ مشیر خارجہ سرتاج عزیز دوسرے ملکوں کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فون پر رابطے کر رہے ہیں! کبھی ایسے کام دنیا میں ٹیلی فونوں سے بھی ہوئے؟ مگر دوسری طرف مشیر خارجہ ان ملکوں میں جائیں تو وزیرخارجہ کو پروٹو کول نہیں ملے گا۔ کریں توکیا کریں! نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن! وزارت خارجہ کا قلم دان تو وزیراعظم نے اپنی میز پر سجا رکھا ہے! فارسی کا محاورہ ہے’’برائی نہادن چہ سنگ و چہ زر‘‘ رکھنا ہی ہے اور استعمال نہیں کرنا تو ایسے سونے اور پتھر میں کیا فرق ہے! اس قلم دان کا کیا فائدہ جو استعمال ہی نہ ہو!
ہمارے وزیراعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شرمیلے ہیں۔ جگت بازوں کی مجلس پسند فرماتے ہیں۔ گفتگو کا غالب حصہ خور و نوش کے موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا دربار میں شیخ رشید اور مشاہد حسین جیسے ہنسانے والوں کی کرسیاں تختِ شاہی کے نزدیک ہوتی تھیں۔ اب بھی وہ لوگ دائیں بائیں ہیں جو اسمبلی تک میں لچرگفتگو کرتے ہیں اور پنجابی سٹیج ڈراموں کے سکرپٹ نویس جن کے سامنے ہیچ ہیں!
کیا آپ تصورکر سکتے ہیںکہ ہمارے وزیراعظم جرمنی،کوریا، فرانس،کینیڈا اور امریکہ جا کر سربراہوں سے بات کریں گے، مباحثہ کریںگے، پاکستان کا کیس پلیڈ کریںگے اور اپنی نگرانی میں معاہدوں کے مسودے تیار کرائیں گے؟ یہاں تو ترجیحات ہی اور ہیں! اوّلین ترجیح یہ ہے کہ اختیارات خاندان سے باہر نہ نکلیں! دوسری ترجیح یہ ہے کہ پاناما لیکس سے جان چھوٹے۔
مودی دنیا کو فتح کیے جا رہا ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی سٹیج پر بے پناہ نقصان ہو رہا ہے۔ اس کا ہر نیا دورہ ہمارے لیے خفت کا نیا سامان لا رہا ہے! کہتے ہیں ایک مغل شہزادہ ہمیشہ محل کے زنان خانے ہی میں رہا! وہیں بچپن وہیں لڑکپن،کنیزوں اور بیگمات کی صحبت میں گزرا یہاں تک کہ نوجوان ہوا۔ ایک دن محل میں کہیں سے سانپ نکل آیا۔ کنیزوں اور بیگمات نے شور مچایا کہ کسی مرد کو بلاؤ۔ شہزادہ بھی پکار رہا تھا کہ کسی مرد کو بلاؤ!
پس نوشت: چین پاکستان کی پولیس کو 425 گاڑیاں اور 80 ایمبولینس فراہم کر رہا ہے۔ چین سے درخواست ہے کہ ان گاڑیوں کے صحیح استعمال کو بھی یقینی بنائے۔ کہیں حسب معمو ل دال جوتیوں ہی میں نہ بٹ جائے۔

Friday, June 10, 2016

کشکول

سنہری بالوں والی جسٹین گریننگ 
 (Justine Greening)
 دیکھنے میں ایک عام برطانوی خاتونِ خانہ لگتی ہے۔ مگر یہ 47سالہ لیڈی‘ برطانیہ کی سو طاقت ور ترین عورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ لندن بزنس سکول سے ایم بی اے کرنے کے بعد بڑی بڑی کمپنیوں میں فنانس منیجر کے طور پر کام کیا۔ پھر سیاست میں آئی اور کنزر ویٹو پارٹی کی طرف سے 2005ء میں منتخب ایوان کی رکن بنی 2007ء میں خزانے کی شیڈو منسٹر بنی۔ کیا آپ کو معلوم ہے شیڈو
(Shadow)
 منسٹر کیا ہوتا ہے؟ برطانیہ اور بہت سے دوسرے جمہوری ملکوں میں حزب اختلاف باقاعدہ اپنی کابینہ بناتی ہے‘ اسے شیڈو کابینہ کہتے ہیں۔ اگر آپ شیڈو کابینہ میں فرض کیجیے تعلیم کے وزیر ہیں تو یہ امر آپ کے فرائض میں شامل ہے کہ حکومتی پارٹی کے وزیر تعلیم کا محاسبہ کریں۔ اس کی کارکردگی کا جائزہ لیں؟ متبادل تجاویز اور پروگرام قوم کے سامنے پیش کریں۔ یوں حزب اختلاف‘ ہر وزیر کا مسلسل محاسبہ کرتی ہے اور اس کی پالیسیوں پر کڑی نظر رکھتی ہے۔
2009ء میں گریننگ لندن کی شیڈو منسٹر بنی اس کی پارٹی برسر اقتدار آئی تو وہ وزیر خزانہ بنائی گئی۔2014ء میں ٹرانسپورٹ کی وزیر بنی۔ 2012ء میں اسے انتہائی اہم وزارت سونپی گئی۔ وہ بین الاقوامی ترقی کی وزیر تعینات ہو گئی۔ اب وہ اس امداد کی انچارج تھی جو برطانیہ پس ماندہ ملکوں کودیتا ہے۔ یوں اس کی رسائی پاکستان کے معاملات تک ہوئی۔
اس بی بی نے پہلی بار ہمارا شان و شوکت والا اونچا طرہ 2013ء میں اتارا اور کیکر پر ٹانگ دیا۔ آگے چل کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ طُرّے کا لفظ ایڈیٹر کی قینچی سے ڈر کر استعمال کیا گیا ہے ورنہ کیکر پر ٹانگا جانے والا کپڑا ہمارے لباس فاخرہ کا ایک اور حصہ تھا! جسٹین گریننگ نے کہا کہ جب برطانوی ٹیکس دہندگان پاکستان کو امداد دیتے ہیں تو پھر ان کا یہ حق ہے کہ وہ اس امدادی رقم کے بدلے میں کارکردگی کی توقع کریں؛ چنانچہ جب برطانوی ٹیکس دہندگان سوال کرتے ہیں کہ پاکستان کے بالائی طبقات ٹیکس کیوں نہیں ادا کرتے یا انتہائی کم ٹیکس کیوں ادا کرتے ہیں تو وہ حق بجانب ہیں!
برطانوی قومی اسمبلی (دارالعلوام) میں بین الاقوامی امداد کے حوالے سے کمیٹی بنی ہوئی ہے۔ اس کے سربراہ سر بروس ہیں۔ جب جسٹین گریننگ نے پاکستان کے امرا کے ٹیکس نہ دینے کا معاملہ اٹھایا تو سر بروس نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانیوں کی’’عزت افرائی‘‘ کی!’’برطانیہ پر لازم ہے کہ ایسے ملک کو امداد دینے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے جہاں امیر ترین طبقات ٹیکس نہیں دیتے۔ ہم برطانیہ کے ٹیکس دہندگان سے رقم لے کر پاکستان کو کہاں تک دیتے جائیں جب کہ ان برطانوی ٹیکس دہندگان کی آمدنی پاکستان کے ان دولت مندوں سے کم ہے جو ٹیکس نہیں ادا کرتے! ‘‘
درمیان میں سر بروس کا ذکر آ گیا۔ بات جسٹین گریننگ کی ہو رہی تھی ۔ جسٹین نے یہ بھی کہا کہ مئی2013ء کے انتخابات نے میاں نواز شریف کو مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ اقتصادی نظام میں اصلاحات لائیں!!پاکستان کے حوالے سے میڈیا میں جسٹین گریننگ کا تذکرہ آندھی کی طرح دوسری بار اس وقت اٹھا جب گزشتہ سال کے آخر میں پنجاب کے وزیر تعلیم نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ اس تصویر کی ‘جس میں وہ خاتون وزیر سے ہاتھ ملا رہے تھے‘ برطانوی میڈیا نے خوب تشہیر کی مگر اس تشہیر کے ساتھ جلی سرخیاں اس قسم کی تھیں۔’’ہم ہر سال پاکستان کو سات سو ملین (ستر کروڑ) پائونڈ تعلیم کے لیے دیتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ پنجاب کے سکولوں کے وزیر کے خلاف کرپشن کی تحقیقات ہو رہی ہیں‘‘برطانوی میڈیا نے اس موقع پر لکھا کہ پنجاب کو 38کروڑ پائونڈ دیئے گئے مگر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کرپشن کے بڑے بڑے کیس پکڑے۔ سندھ میں پانچ ہزار سکولوں اور چالیس ہزار اساتذہ پر فنڈز خرچ کئے گئے جب کہ ان سکولوں اور ان اساتذہ کا وجود ہی کوئی نہ تھا۔ سب کچھ جعلی تھا! پنجاب کے ہائر ایجوکیشن بجٹ میں سے ساڑھے تین کروڑ پائونڈ بالکل ہی غائب پائے گئے!
یہ ہے ہماری کارکردگی ‘یہ ہے ہماری شہرت اور یہ ہے ہماری عزت! لباس ہمارا کلف زدہ ہے۔ انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں ہیں۔ پجارو پر سوار ہیں مگر مانگ بھیک رہے ہیں! ماں گداگری کر رہی ہے‘ صاحبزادہ گھوڑوں کے سودے کر رہا ہے! کشکول توڑنے کے دعوے تو کیے تھے مگر بھیک مانگ کر مزے اڑانے کی لت پڑ جائے تو کشکول کون توڑتا ہے۔
جسٹین گریننگ ہمارے کشکول میں روٹی کے ٹکڑے ڈالنے کے لیے دو دن قبل اسلام آباد میں تھیں! وزیر اعظم کے دفتر میں ہمارے ارباب اقتدار اور اس برطانوی خاتون وزیر برائے’’بین الاقوامی ترقی‘‘ کے درمیان میٹنگ ہوئی اور ترقیاتی ’’شراکت‘‘ کے معاہدے پر بات چیت ہوئی! شراکت؟جی ہاں! بالکل وہی شراکت جو مالک اور نوکر کے درمیان تھی کہ مالک کھانا کھائے گا اور نوکر برتن دھوئے گا۔ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ترقیاتی ’’شراکت‘‘ یہ ہے کہ اگلے دس برس بھی برطانیہ بھیک دیتا رہے گا۔ بھیک کو ان اجلاسوں میں ’’امداد‘‘ یا ’’ایڈ پروگرام‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ بھیک دینے کا موجودہ معاہدہ جو 2006ء سے لے کر 2016ء تک دس سالہ عرصہ پر محیط تھا آنے والے ستمبر میں ختم ہو جائے گا۔ اس عرصہ میں برطانوی ٹیکس دہندگان نے دو ارب سے زیادہ پائونڈ اہلِ پاکستان کو بھیک میں دیے۔اتنی خطیر رقم برطانیہ نے کسی اور ملک کو نہیں دی۔
مستقبل کا ’’تعاون‘‘ کن شعبوں میں ہو گا؟ وہی جن میں ستر سالوں سے ہو رہا ہے اور تاحال نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ گورننس! غربت کا انسداد! ٹیکس اصلاحات! ور فاٹا کے متاثرین کی بحالی!! لاٹری ہماری یہ نکلی ہے کہ ٹیکس اصلاحات اور گورننس کے ساتھ فاٹا کے متاثرین بھی مل گئے ہیں! زلزلہ یا سیلاب آتا تو اور بھی وارے نیارے ہو جاتے!
ہمارے سیاست دان نجی جیٹ طیاروں میں پھرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اجلاس دبئی میں یوں ہوتے ہیں جیسے دبئی بندر روڈ پر واقع ہو! چیئرمین صاحب پارٹی اراکین کو طلب فرماتے ہیں تو جہازوں کے جہاز اڑانیں بھر کر چل پڑتے ہیں! دوسرا مرکز لندن ہے! طبی معائنہ ہے تو لندن میں ‘آپریشن ہے تو لندن میں‘ جائیداد ہے تو لندن میں‘ کاروبار ہے تو لندن میں! برطانوی کابینہ کے ارکان ہماری سرینوں پر جوتے رسید کر رہے ہیں کہ شرم کرو! برطانوی عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے تمیں امداد دے رہے ہیں جب کہ تمہارے لوگ برطانوی عوام سے کہیں زیادہ دولت مند ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے!!
لیکن ہم چوک پر‘ گاڑیوں کے شیشوں پر دستک دینے والے ان بے حس‘ بے شرم بھکاریوں کی طرح ہیں جن کے چہروں پر عزت نفس کی ایک رمق بھی نہیں!لوگ انہیں حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں مگر وہ مسکراتے رہتے ہیں اور بھیک مانگتے رہتے ہیں!
جسٹین بی بی!! ہمارے کشکول میں سکّے ڈالتی رہو! گزشتہ دس سال کا معاہدہ ستمبر میں ختم ہو گا تو مزید دس سال کے لیے سکّے ڈالنے کا معاہدہ طے ہو جائے گا۔ مزید دس سال!
مزید بیس سال!
مزید تیس سال!
بھیک مانگنے کا کوئی انت نہیں! بھیک کے ان کھنکتے سکوں سے ہم لباس فاخرہ خریدیں گے۔ اونچا طرّہ پہنیں گے اور دبئی اور لندن کا رُخ کریں گے     ؎
ان ظالموں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے‘ تو ہے کم

Wednesday, June 08, 2016

دروازے کے پیچھے کون کھڑا ہے؟

منیر نیازی نے سوال پوچھا تھا  ع
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟
ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا نہیں، یقینا اِس ملک کے تاجر پر آسیب کا سایہ ہے۔ روزنامہ دنیا کے رپورٹر عمیر چودھری نے دہائی دی ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ایک دن پہلے ہی چالیس سے زائد بنیادی ضرورت کی اشیاء مہنگی کر دی گئی ہیں۔
ان اشیا میں آلو سے لے کر دال تک، اور مرچ سے لے کر چینی تک تمام وہ اشیا شامل ہیں جو ہر گھر میں استعمال ہوں گی۔ گرمیوں کے روزے ہیں۔ شام کو شربت کی ضرورت سب سے زیادہ پڑے گی۔ جام شیریں کی بوتل 160 سے بڑھا کر ایک سو ستر روپے کر دی گئی ہے! اس فہرست میں گوشت بھی شامل ہے پھلوں پر کلہاڑے کا وار سب سے زیادہ شدید ہے کیونکہ ہر گھر میں چاٹ بننی ہے۔ یوں لگتا ہے ایک مست اونٹ ہے جسے کھول دیا گیا ہے۔ ہر طرف دوڑتا پھرتا ہے، جو سامنے آتا ہے، ہلاک ہو جاتا ہے۔ معاف کیجیے، بات سخت لگے گی مگر رمضان آتے ہی ہمارا تاجر مست اونٹ کی طرح ہو جاتا ہے! اس کے جبڑوں کو، چیرنے اس کے دانتوں کو، چبانے اوراس کے پاؤں کو رگیدنے کے لیے کچھ نہ کچھ چاہیے۔ سامنے گاہک نظر آتا ہے۔ ساری مستی، سارا پاگل پن، سارا جنون، اس پر نکلتا ہے۔ وہ گاہک کو پاؤں سے رگیدتا ہے۔ جبڑوں سے چیرتا ہے اور دانتوں میں رکھ کر چبا جاتا ہے!
وزیر خزانہ نے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو خط لکھا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہونے سے روکیں۔ صوبائی حکومتیں کیا کر لیں گی؟ ہر تاجر پر، ہر دکان پر، پولیس کا سپاہی تو تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ قیمتیں چیک کرنے والا انسپکٹر کہاں کہاں جائے گا۔ جمعہ بازاروں اور اتوار بازاروں میں کئی بار دیکھا کہ لکھ کر لگائی گئی قیمتیں اور ہیں۔ جو وصول کر رہے ہیں، وہ زیادہ ہیں۔ پوچھیے تو کہیں گے کہ بازار کی انتظامیہ کو دکھانے کے لیے ہیں مگر اصل قیمت وہی ہے جو ہم مانگ رہے ہیں!
اس کائنات میں جتنے مسائل لاینحل ہیں۔ جتنے راز سر بستہ ہیں، ان میں سے سر فہرست یہ ہے کہ پاکستانی تاجر کو بیماری کون سی لا حق ہے؟ آخر دوسرے ملکوں میں کرسمس کے موقع پر اشیا سستی کیوں ہو جاتی ہیں؟ اب تو اِن تمام ملکوں میں رمضان آتے ہی رمضان پیکج بھی سامنے آجاتے ہیں۔ یہ غیر مسلم، جن کا رسالت پر ایمان ہے نہ آخرت پر، رمضان کے لیے اشیا ارزاں کر رہے ہیں، ہمارا تاجر، جو اکثر و بیشتر صورت سے بھی متشرع ہے، پائنچے بھی ٹخنوں سے اوپر رکھتا ہے، اذان کی آواز سن کر مسجد کی طرف بھی دوڑتا ہے، عمرے بھی کرتا ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ ناروا نفع خوری سے، ذخیرہ اندوزی سے، باز نہیں آتا۔ ٹیکس چوری کرتا ہے۔ خریدا ہوا مال واپس کرتا ہے نہ تبدیل کرتا ہے۔ شے بیچتے وقت نقص چھپاتا ہے۔ گارنٹی زبان سے دیتا ہے، لکھ کر نہیں دیتا۔ رسید مانگیں تو برا سا منہ بنا کر رسید یوں دیتا ہے جیسے گاہک کے والد صاحب پر احسان کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اس نے برآمدے پر بھی قبضہ کیا ہؤا ہے، سامنے کے فٹ پاتھ کو بھی دکان کا حصہ بنایا ہؤا ہے۔ سڑک اور دکان کے درمیان والی سرکاری زمین ریڑھی والے کو، ’’معاوضہ‘‘ لے کر، خود ہی الاٹ کر رکھی ہے!!
آخر سبب کیا ہے؟ ہو سکتا ہے آپ اس کا سبب حکمرانوں کی کرپشن قرار دیں، یا یہ کہ مقامی حکومتوں کا چیک اینڈ بیلنس سسٹم ناپید ہے! یہاں تو خود مقامی حکومتیں ہی وجود میں نہیں آرہیں! مگر اصل سبب وہی ہے جو دودھ میں پانی ملانے والی بڑھیا کو اس کی بیٹی نے بتایا تھا کہ امیر المومنین نہیں دیکھ رہے، خدا تو دیکھ رہا ہے! خدا کا خوف ہی ہے جو برائی سے روک سکتا ہے! 
مگر غیر مسلم ملکوں میں غیر مسلم تاجروں میں سے تو بہت سے ایسے ہیں جن کا خدا پر بھی یقین نہیں ہے! وہ عیسائی ہیں نہ بدھ۔ پوچھیے کہ تمہارا خدا پر یقین ہے تو مسکرا کر جواب دیں گے، میرا اپنے آپ پر یقین ہے! تو پھر وہ سارے اہتمام کیوں کرتا ہے جو مسلمان تاجروں کو بتائے گئے ؟ نقص تو وہ فوراً بتاتا ہے۔ کئی بار تجربہ ہؤا کہ دکاندار نے خندہ پیشانی سے بتایا کہ تمہاری مطلوبہ شے فلاں دکان سے ملے گی! ہمارے ہاں یہ عام بات ہے کہ آپ جو مانگ رہے ہیں، وہ تاجر کے پاس نہیں، مگر وہ کچھ اور دکھائے جا رہا ہے اور صاف صاف بتانے سے مکمل گریز کر رہا ہے! کوالٹی کا پوچھیں تو ایک ہی جواب ہے، کراچی سے لے کر گلگت تک! گھڑا گھڑایا۔ ’’شکایت کوئی نہیں آئی!‘‘ خدا کے بندے ! پاکستان میں شکایت کرتا کون ہے؟ یہاں تو زندگی گزارنے کا سب سے بڑا اصول ہی یہ ہے کہ مٹی پاؤ۔ کوئی سر پھرا شکایت لے کر تاجر کے پاس جائے گا تو اسے ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ نسلیں یاد رکھیں گی! 
تاجروں کی اکثریت کا مائنڈ سیٹ کچھ عجیب بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے۔ اسلام کو دکان کے اندر نہیں آنے دینا، ہاں دکان سے باہر اسلام کی خوب پذیرائی کرنی ہے۔ نماز ، روزہ، عمرہ، حج، خیرات، صدقات۔ سب شدومد سے مگر اسلام کا داخلہ دکان کے اندر منع ہے۔ جنہیں چندہ دیتا ہے، وہ بھی اس روپے سے خوش ہیں! ان کا مدرسہ چل رہا ہے۔ ان کی بلا سے وہ دکان کے اندر کیا کرتا ہے، کیا نہیں کرتا! وہ تو یہ فتویٰ دینے کو بھی تیار ہیں کہ سمگلنگ میں کیا برائی ہے! تجارت ہی تو ہے!
یہ مہنگائی جو ابھی صرف اشیائے خورد و نوش پر طاری ہوئی ہے، وسط رمضان کے بعد دیگر اشیا کو بھی لپیٹ میں لے لے گی! کپڑے کی قیمتیں بڑھا دی جائیں گی! جوتے مہنگے ہو جائیں گے۔ سب سے زیادہ ظلم بچوں کے ملبوسات اور جوتوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے! بڑوں نے نئے کپڑے بنانے ہیں یا نہیں، بچوں کے ہر حالت میں بننے ہیں! ماں باپ کی حالت تو قابلِ رحم ہوتی ہے۔ بچہ ضد کر رہا ہے، تاجر کے چہرے پر سفاکی ہے۔ اس نے پورے سال کی کمائی رمضان کے آخری عشرے سے نکالنی ہے۔ آخری عشرہ دوزخ سے رہائی کا پروانہ ہے۔ یہ پروانہ حاصل کرنے کے لیے تاجر کپڑے سے لے کر جوتے تک، چوڑیوں سے لے کر میک اپ کے سامان تک، خوشبو سے لے کر کنگھی تک، ہر شے مہنگی کرتا ہے۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ہے۔ چالیس سے زائد اشیائے خورد و نوشی کو مہنگا کر کے تاجر نے پہلے عشرے کا حق ادا کر دیا ہے۔ ابھی تو دیکھیے شام کو سموسے اور جلیبی کے نرخ کہاں جا پہنچیں گے!
ایک زمانہ تھا پادری جنت کے ٹکٹ جاری کرتے تھے۔ وہاں تو یہ کھیل ختم ہو گیا۔ پادری سے جان چھوٹی تو تاجر شائستہ ہو گئے۔ ہم وہیں ہیں۔ مدرسے کی صندوقڑی میں چندہ ڈالو۔ جنت تمہارے خیال میں پکی ہو گئی ہے۔ اب دکان کے اندر 
خوب واہی تباہی مچاؤ۔ مست اونٹ کو کون روکے گا! 

مگر آہ! تمہیں معلوم نہیں، تمہاری دکان کے دروازے کے 
پیچھے، اُس فٹ پاتھ کے ساتھ جس پر تم نے نا جائز قبضہ کر رکھا ہے، ملک الموت کھڑا ہے۔ صندوقڑی تمہارے منہ پر مارے گا۔ ہونٹ لہو لہان ہو جائیں گے۔ اُس وقت، نزع کے عالم میں، بے بس بے کس گاہک تمہیںقطار میں کھڑے نظر آئیں گے۔ تم ان کے آگے ہاتھ جوڑو گے مگر وہ تم سے وہی سلوک کریں گے جو تم نے ان کے ساتھ کیا تھا!

 

powered by worldwanders.com