Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, June 01, 2016

آ بیل مجھے مار

ڈاکٹر صاحب ہمارے فیملی ڈاکٹر تھے۔ گھر میں جب بھی کوئی بیمار ہوتا، اُنہی کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ ہم جب بھی جاتے، ڈاکٹر صاحب پہلے چائے یا ٹھنڈا منگواتے۔ اس کے بعد ہمیں اپنے دکھوں میں شریک کرتے۔ یہ دُکھ کیا تھے؟ بہن نے بچوں کے رشتے نہ دینے کی وجہ سے ان پر جادو کرا رکھا تھا۔ بھائی کی بیوی انہیں نقصان پہنچانے کے لیے تعویذ لکھوا رہی تھی۔ جس زمین کو خریدنے یا بیچنے کے لیے وہ کوشش کر رہے تھے، ان کے رشتہ دار اس میں روڑے اٹکا رہے تھے۔ خاندان میں ان کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں۔ بیوی کے بھائی، بیوی کو ان کے خلاف مسلسل بھڑکا رہے تھے۔ چارپائی کے پاس کسی کے قدموں کے نشان ملے تھے۔ باتھ روم کے دروازے پر خون کے چھینٹے نظر آئے تھے۔ آدھی رات کو چھت پر کوئی آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ ان کی میڈیکل پریکٹس کو نقصان پہنچانے کے لیے دوسرے ڈاکٹر، باہم متحد ہو کر کسی بابے سے عملیات کرا رہے تھے۔ کار کے نیچے سے ایک پر اسرار کاغذ برآمد ہوا تھا۔
ہم یہ باتیں سنتے۔ کبھی دلچسپی سے، کبھی خوب بور ہوتے۔ پھر ہم میں سے کوئی ڈاکٹر صاحب کو یاد دلاتا کہ دوسرے مریض باہر انتظار کر رہے ہیں۔ اس پر وہ ہمارے مریض کو دیکھتے۔ ذہین تھے۔ تشخیص خوب کرتے۔ اللہ نے ہاتھوں میں شفا رکھی تھی۔ مگر یہ احساس کہ ہر شخص ان کے خلاف ہے، انہیں مارے جا رہا تھا۔
نفسیات میں اسے 
Persecution Complex
 کہتے ہیں۔ یعنی یہ احساس کہ نقصان پہنچانے کی، اذیت دینے کی، زندگی جہنم بنا دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ احساس، خیالی بھی ہو سکتا ہے اور حقیقی بھی! کچھ حضرات اس کیفیت کو شزوفرینیا کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ عام طور پر یہ کمپلیکس اُن گروہوں کو لاحق ہوتا ہے جو مذہبی یا نسلی حوالے سے اقلیت میں ہوں۔ عیسائیت کی تاریخ میں یہ کمپلیکس بہت نظر آتا ہے۔ بد قسمتی سے یہ کمپلیکس اب مسلمانوں میں بھی عام ہونے لگا ہے۔ سازشی تھیوری اسی کا مظہر ہے۔ یعنی یہ احساس کہ ان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ احساس اور ہر وقت یہ شکایتیں کرنا، نکمے پن کی علامت بھی ہے۔ امریکہ، اسرائیل یا بھارت نے مسلمانوں کے خلاف جو کچھ کرنا ہے، سازش کے ذریعے نہیں، کھلم کھلا کر رہے ہیں۔ مثلاً اسلحہ کی پروڈکشن! اس کا توڑ واویلا مچانا نہیں بلکہ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنا ہے۔ اس کی مثال اُس نکھٹو نوجوان کی ہے جو محنت مزدوری کرنے پر آمادہ نہیں مگر ماں باپ، بہن بھائیوں، دوستوں پڑوسیوں کے خلاف ہر وقت بھرا رہتا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کرتے۔
بد قسمتی سے مغربی ممالک میں جابسنے والے مسلمانوں میں میں بھی ایک گروہ اس بیماری میں مبتلا ہے۔ یہ گروہ آئے دن ایسی خبریں اڑاتا رہتا ہے جس سے بیرون ملک بسنے والے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا ہو یا ان کے دل میں اہلِ مغرب کے خلاف نفرت انگیز جذبات پیدا ہوں اور پھر یہ جذبات مسلسل بھڑکتے رہیں! اس کا مظاہرہ 2003ء میں فلوریڈا میں ہوا۔ ایک خاتون مسلمان ہوئی تو اس نے اصرار کیا کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے تصویر نقاب اوڑھ کر، یعنی چہرہ ڈھانپ کر بنوائے گی۔ پولیس نہ مانی۔ معاملہ عدالت میں پہنچا تو جج نے فیصلہ دیا کہ چہرہ ڈھانپ کر تصویر بنوانا ایسے ہی ہو گا جیسے ڈرائیونگ لائسنس پر تصویر لگی ہی نہیں، کیونکہ اصل مسئلہ پہچان کا ہے اور وہ چہرے سے ہو گی۔ اس فیصلے کو ایک گروہ نے یہ رنگ دیا کہ مسلمان عورتوں کو نقاب نہیں اوڑھنے دیا جا رہا! حالانکہ عدالت نے ایسا بالکل نہیں کہا تھا۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں ایک مسلمان استانی پرائمری سکول کے بچوں کو پڑھاتے وقت چہرے پر نقاب اوڑھتی تھی۔ بچوں نے اعتراض کیا کہ ہم مِس کی بات سنتے ہیں تو ہمیں ان کے ہونٹ ہلتے نہیں نظر آتے! اب یہ بھی انتہا پسندی کی ایک مثال تھی کہ چھوٹے بچوں کو پڑھاتے وقت بھی چہرہ چھپائے رکھنا ہے! 
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اِن ملکوں میں کچھ لوگ اسلام کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ عورتوں کو چھیڑتے ہیں، تنظیمیں بنی ہوئی ہیں جو مسلمانوں کے خلاف مظاہرے کرتی ہیں مگر یہ بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ انہی کے ہم وطن، سفید فام، اس رویے کے خلاف بھی ہیں اور اکثریت مسلمانوں کو امن و چین سے رکھنے کے حق میں ہے۔ 2009ء (یا غالباً 2010ء) میں آسٹریلیا کے صوبے نیو ساؤتھ ویلز کی اسمبلی میں ایک رکن نے بِل پیش کیا کہ مسلمان عورتوں کو چہرہ ڈھانپنے سے منع کر دیا جائے مگر ارکان کی اکثریت نے بل کی مخالفت کی اور پاس نہ ہونے دیا! 
چند دن پہلے ایک قاری نے بیرون ملک سے ایک میل بھیجی۔ غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ میل اس اعلیٰ تعلیم یافتہ قاری نے بہت سے افراد کو بھیجی تھی جن میں کچھ صحافی بھی تھے۔ اس میں خبر دی گئی تھی کہ آسٹریلیا کے صوبے وکٹوریا کے شہر میری بارو کے میئر نے سکولوں کے کیفی ٹیریوں سے پورک (سؤرکا گوشت) ہٹانے سے انکار کر دیا ہے۔ آگے اس کی تفصیل درج تھی کہ مسلمان والدین نے مطالبہ کیا کہ میری بارو کے تمام سکولوں کی کینٹینوں سے پورک ہٹا دیا جائے۔ میئر نے انکار کر دیا اور بلدیہ کے کلرک نے تمام والدین کو خط لکھا۔ اس خط میں مسلمانوں کو بتایا گیا کہ ’’انہیں آسٹریلیا کے رسم و رواج اور طرزِ زندگی کو اپنانا ہو گا کیونکہ وہ خود اپنی مرضی سے اس ملک میں آئے ہیں۔ انہیں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ انہوں نے آ سٹریلیا کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ہے نہ کہ آسٹریلیا کے لوگوں نے! آسٹریلیا کے لوگوں نے تو ان کا فراخ دلی سے استقبال کیا ہے۔ آسٹریلیا نے مسلمانوں کو قبول کیا جبکہ مسلمان ممالک غیر مسلموں کو اپنے ہاں نہیں آنے دیتے۔ جن مسلمانوں کو آسٹریلیا کا سیکولرازم پسند نہیں، ان کے لیے ستاون خوبصورت مسلمان ملکوں کا راستہ کھلا ہے، وہ وہاں چلے جائیں۔ آخر اتنے مسلمان ممالک کو چھوڑ کر وہ آسٹریلیا آئے ہیں تو اب آسٹریلیا کو مسلمان ملکوں کے معیار پر کیوں نیچے لانا چاہتے ہیں‘‘۔
یہ لمبی چوڑی ای میل کی مختصر شکل ہے۔ پڑھ کر اس کالم نگار کا ماتھا ٹھنکا اس لیے کہ اتنا ضرور معلوم تھا کہ آسٹریلیا میں کسی شہر کے میئر کے پاس اتنے اختیارات ہی نہیں کہ وہ ان معاملات کے فیصلے کر سکے۔ سکولوں کی کینٹینوں اور کیفے ٹیریوں میں مہیا کیے گئے کھانے کے بارے میں فیصلے ریاستی (یعنی صوبائی) حکومت کا شعبۂ تعلیم کرتا ہے اور ان فیصلوں میں والدین اور دیگر متعلقہ گروہوں کی نمائندگی لازم ہوتی ہے؛ چنانچہ معاملہ میئر کے دائرہِ کار سے باہر ہے۔ یوں بھی آسٹریلیا کے سکولوں میں بچوں کو بٹھا کر کیفے ٹیریا کا کھانا نہیں کھلایا جاتا بلکہ بچے گھر سے لاتے ہیں یا کینٹین سے خود اپنی مرضی کا خریدتے ہیں۔ 
اس پس منظر میں جب تحقیق کی تو متعلقہ میئر (جیوف لَوِٹ) کی 26 فروری 2016ء کی وضاحت ہاتھ آئی جس میں اس نے ایسے کسی مطالبے کا یا بلدیہ کے کسی اہلکار کے خط کا انکار کیا اور بتایا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔ یہ فرضی ای میل تیرہ ہزار افراد نے فیس بک پر شیئر کی۔
بالکل اسی مضمون کی ای میل کچھ عرصہ قبل بلجیم کی ایک بلدیہ کے میئر کے حوالے سے مشتہر کی گئی مگر اُس میئر (مارک ڈو، وی، ور) نے تردید کی اور کہا کہ ایسا کوئی معاملہ نہیں پیش آیا۔ اس کے بعد کینیڈا کے فرانسیسی صوبے کو بک کے شہر ڈور وال کے میئر کی طرف سے اسی مضمون کی ای میل کا چرچا ہوا۔ اس میئر نے بھی تردید کی کہ ایسی کوئی میل، کوئی خط نہیں بھیجا گیا نہ ہی ایسا کوئی واقعہ پیش آیا۔
اس امر کا قوی امکان ہے کہ اینٹی اسلام گروپ یہ کام کر رہے ہوں تاکہ مغربی ملکوں کے عوام کو اس خوف میں مبتلا کیا جائے کہ مسلمان اُن کے رسم و رواج اور روایات کو تلپٹ کرنے پر تلے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ خود مسلمان، تحقیق کیے بغیر ایسی میلیں لا تعداد لوگوں کو کیوں بھیج رہے ہیں؟ مسلمانوں کو تو قرآن پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تم کو اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے‘‘ (الحجرات)
کینیڈا میں ایک نوجوان مسلمان جوڑے سے ملاقات ہوئی۔ وہ شدومد سے تلقین کیے جا  رہے تھے کہ فلاں فلاں اور فلاں سٹوروں سے کھانے پینے کی کوئی شے نہ خریدی جائے۔ پوچھنے پر وضاحت کی کہ اُن سٹوروں میں شراب بیچی جاتی ہے۔ جب ان سے پوچھا کہ ترکی، مراکش، ملا ایشیا اور دیگر کئی مسلمان ملکوں میں بھی شراب عام فروخت ہوتی ہے اور جن ریستورانوں یا ہوٹلوں میں آپ کھانا کھاتے ہیں یا قیام فرماتے ہیں، وہ شراب پینے والوں کو شراب باقاعدہ بیچتے ہیں۔ اس پر وہ خاموش ہو گئے مگر یقیناً انہوں نے اپنا ’’مشن‘‘ ترک نہ کیا ہو گا!
ہم ایک عجیب شکست خوردہ ذہنیت کے اسیر ہو چکے ہیں! پہلے تن من دھن داؤ پر لگا کر ان ملکوں میں جائیں گے۔ بہت سے لوگ اپنے وطن میں اچھا خاصا روزگار اور آسودہ زندگی ترک کر کے دیارِ مغرب کو ہجرت کرتے ہیں۔ بوڑھے والدین روکتے رہتے ہیں مگر انہیں روتا سسکتا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ کچھ اپنے وطن کی لاقانونیت، سفارش اور کرپشن کے کلچر سے تنگ آ کر نکل جاتے ہیں۔ مگر وہاں پہنچ کر دوسری انتہا پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میزبان ملک کی ہر شے بُری لگتی ہے۔ جہاں بیٹھیں گے، نفرت کا اندھیرا پھیلائیں گے۔ دوسری طرف ان ملکوں کی سہولیات سے بھی خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ کالم نگار ایسے کئی اصحاب کو ذاتی طور پر جانتا ہے جو ہٹے کٹے صحت مند ہیں مگر ان ملکوں میں مقیم ہو کر سوشل سکیورٹی (بیروزگاری الاؤنس) نہ صرف خود بلکہ بیوی بچوں کے نام پر بھی لے رہے ہیں۔ رہنے کو مکان بھی بلدیہ سے خیراتی کوٹے میں لے رکھے ہیں۔ یوں روزگار کے غم سے ’’فراغت‘‘ حاصل کر کے تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہیں! اور انہی ملکوں کے طرزِ زندگی کے خلاف تقریریں کر رہے ہیں۔ یہ ذہنیت نہ صرف شکست خوردہ ہے بلکہ سچ پوچھیے تو بیمار ہے۔ یہ حضرات مشرق وسطیٰ میں رائج کفیل سسٹم کا ذکر کبھی نہیں کریں گے جو غلامی کی جدید شکل ہے۔ ان ملکوں میں چالیس چالیس سال رہنے، کام کرنے اور ان کی معشیت کو خونِ جگر سے سینچنے کے بعد بھی شہریت نہیں ملتی اور اچھا خاصا بھلے مانس ’’رفیق‘‘ یا ’’مسکین‘‘ ہی کہلاتا ہے!!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com