اشاعتیں

نومبر, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ساتویں صدی عیسوی کی ایک خاتون سے ملاقات

میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کے قبرستان میں تین قبریں ہیں جن کے لیے میں قبرستان جاتا ہوں۔ پہلی والد گرامی مرحوم کی۔ دوسرے میرے بیٹے محمد مظہر الحق کی‘ جو تین ماہ کی عمر میں چل بسا تھا اور جس کی یاد میں مَیں نے ایک دردناک نظم کہی تھی۔ تیسری میری بڑی بہن کی خوشدامن صاحبہ کی‘ جو رشتے میں ہماری نانی بھی ہوتی تھیں۔ میرے لڑکپن میں ان کی صحت اچھی تھی‘ حقہ پیا کرتی تھیں۔ ہمارے علاقے میں حقے کو چلم کہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی طرح‘ چلم بالکل الف کی طرح سیدھی ہوتی ہے۔ اس کے نچلے حصے میں پانی ہوتا ہے۔ میں نے ان کی چلم میں مٹی کا تیل ڈال دیا تھا۔ انہوں نے تمباکو پر جلتی ہوئی دیا سلائی رکھی تو چلم میں آگ بھڑک اٹھی۔ گاؤں کے قبرستان کے برعکس یہ ایک منظم قبرستان ہے‘ پلاٹوں کے نمبر ہیں‘ پھر ہر پلاٹ میں قبروں کے نمبر الگ ہیں‘ پلاٹ نمبر اور قبر نمبر کی مدد سے کسی بھی قبر کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس قبرستان میں میرے ساتھ عجیب و غریب واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ان واقعات کے حوالے سے وقتاً فوقتاً کالم بھی لکھتا رہا۔ یہیں ایک مردے سے ملاقات ہوئی تھی‘ جو شاہجہان کے زما...

وہم اور وسوسے برائے فروخت

خاتون نے شادی کی! کچھ عرصہ بعد میاں بیمار پڑ گئے۔ ہسپتال والوں نے خاتون سے میاں کی میڈیکل ہسٹری پوچھی۔ خاتون کو کچھ علم نہ تھا۔ خاتون کے اپنے الفاظ میں: ''وہ ہسپتال والے مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے دل میں پیس میکر پڑا ہوا ہے یا سٹنٹ؟ مجھے پتا ہی کچھ نہیں کہ ان کے دل میں پہلے کیا پڑا ہوا ہے یا کتنی سرجریز ہو چکی ہیں؟ کیو نکہ یہ ان کے دل کا تیسرا شدید دورہ تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ تو مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ پہلے دو شدید دورے پڑ چکے ہیں‘‘۔ لطیفہ کہیے یا مذاق کہ یہ خاتون‘ جنہیں اپنے رفیقِ زندگی کے دل کے متعلق‘ جن کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں‘ کچھ معلوم نہ تھا‘ ساری دنیا کو مستقبل کے حالات بتاتی پھرتی ہیں! اپنے مستقبل کے بارے میں تجسس خلقِ خدا کی بہت بڑی کمزوری ہے! اس کمزوری سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جنہیں خدا پر پختہ ایمان ہے یا اپنے آپ پر یقین ہے! اس کمزوری سے نجومی‘ پامسٹ اور علم الاعداد کا دعویٰ کرنے والے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ضعیف الاعتقاد لوگ ان کے پاس جاتے ہیں۔ کوئی پوچھتا ہے کارو بار میں کامیابی کب ملے گی! کوئی پوچھتا ہے شادی کب ہ...

نوے سالہ لیجنڈ … (2)

مسافروں سے بھری بس کسی سٹاپ پر یا ریلوے پھاٹک پر یا پُل پر رکتی تھی تو اس میں کوئی نہ کوئی پھیری والا آ جاتا تھا۔ کوئی دانتوں کی دوا بیچنے والا یا سرمہ فروخت کرنے والا! یہ ہمارے قصباتی کلچر کا حصہ تھا۔ وہ اپنی شے بیچنے کیلئے فصیح و بلیغ تقریر کرتا تھا۔ مسافر سنتے تھے۔ کچھ سادہ لوح اس کی شے خرید لیتے تھے۔ باقی اس کی تقریر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ انور مسعود صاحب نے اپنی مشہور نظم ''جہلم دا پُل‘‘ میں اس مٹتے ہوئے کلچر کو محفوظ کر لیا ہے۔ ان کا مشاہدہ غضب کا ہے۔ اس میں ایک جنتری بیچنے والا بھی ہے۔ آج کی نسل کو نہیں معلوم جنتری کس چڑیا کا نام تھا۔ نئے سال کی جنتری تقریباً ہر گھر میں ہوتی تھی۔ میرے دادا جان بھی باقاعدگی سے منگواتے تھے اور میں اسے دلچسپی سے پڑھا اور دیکھا کرتا تھا۔ جنتری میں کیا کیا معلومات ہوتی تھیں؟ انور صاحب کی زبانی سنیے: ایہدے وچ لکھیا اے جس ویلے لگنا اے چن نو گرہن کدوں کس ویلے لگنا اے روزیاں دے وچ گھگھو کہیڑے ویلے بولنا اے کنے وَجے رکھنا اے تے کہیڑے ویلے کھولنا اے ڈیوڑھا کنا لگدا‘ سوایا کنا لگدا اے لاہور تو کراچی دا کرایہ کنا لگدا اے تے مومنو ق...

نوے سالہ لیجنڈ

برج نرائن چکبست کا مشہور شعر ہے: اس کو ناقدریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں؍ مر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا مگر انور مسعود کے بچوں نے ایسا نہیں ہونے دیا! انور مسعود صاحب نوّے برس کے ہوئے تو ان کے بچوں اور بچوں کے بچوں نے ایک یادگار تقریب منعقد کی۔ اس میں اسلام آباد کی ادبی اور سماجی شخصیات تو مدعو تھیں ہی‘ لاہور سے سہیل احمد (عزیزی) بطورِ خاص تشریف لائے۔ انور صاحب کے فرزند‘ کالم نگار اور میڈیا پرسن‘ عمار مسعود نے شگفتہ انداز میں نظامت کی۔ شنیلہ عمار مسعود نے اپنے بابا کے فن پر ڈاکیومنٹری پیش کی۔ دوسری بہو‘ روشین عاقب‘ جو امجد اسلام امجد کی صاحبزادی ہیں‘ اس تقریب کے انتظام وانصرام میں پیش پیش تھیں! انور صاحب کی زبان ذکرِ الٰہی سے تر رہتی ہے۔ ان پر خدا کا خصوصی کرم ہے۔ دنیا بھر میں مقبولیت تو ہے ہی‘ ان کے بچے‘ بہوئیں اور داماد ان پر جان چھڑکتے ہیں! میرا اعزاز کہ اس تاریخی فنکشن میں مَیں بھی شریک تھا اور جن چند افراد نے انور مسعود کے حوالے سے گفتگو کی ان میں بھی شامل تھا!! والد گرامی مرحوم‘ حافظ محمد ظہور الحق ظہور فارسی کے شاعر استاد اور س...