نوے سالہ لیجنڈ … (2)
مسافروں سے بھری بس کسی سٹاپ پر یا ریلوے پھاٹک پر یا پُل پر رکتی تھی تو اس میں کوئی نہ کوئی پھیری والا آ جاتا تھا۔ کوئی دانتوں کی دوا بیچنے والا یا سرمہ فروخت کرنے والا! یہ ہمارے قصباتی کلچر کا حصہ تھا۔ وہ اپنی شے بیچنے کیلئے فصیح و بلیغ تقریر کرتا تھا۔ مسافر سنتے تھے۔ کچھ سادہ لوح اس کی شے خرید لیتے تھے۔ باقی اس کی تقریر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ انور مسعود صاحب نے اپنی مشہور نظم ''جہلم دا پُل‘‘ میں اس مٹتے ہوئے کلچر کو محفوظ کر لیا ہے۔ ان کا مشاہدہ غضب کا ہے۔ اس میں ایک جنتری بیچنے والا بھی ہے۔ آج کی نسل کو نہیں معلوم جنتری کس چڑیا کا نام تھا۔ نئے سال کی جنتری تقریباً ہر گھر میں ہوتی تھی۔ میرے دادا جان بھی باقاعدگی سے منگواتے تھے اور میں اسے دلچسپی سے پڑھا اور دیکھا کرتا تھا۔ جنتری میں کیا کیا معلومات ہوتی تھیں؟ انور صاحب کی زبانی سنیے:
ایہدے وچ لکھیا اے جس ویلے لگنا اے
چن نو گرہن کدوں کس ویلے لگنا اے
روزیاں دے وچ گھگھو کہیڑے ویلے بولنا اے
کنے وَجے رکھنا اے تے کہیڑے ویلے کھولنا اے
ڈیوڑھا کنا لگدا‘ سوایا کنا لگدا اے
لاہور تو کراچی دا کرایہ کنا لگدا اے
تے مومنو قرآن دیاں کنیاں نے سورتاں
دیس دیاں نامی پہلواناں دیاں مورتاں
ریل دے کرائے دا تے سفر دا حساب اے
رمل تے نجوم‘ جادو‘ جفر دا حساب اے
دنیا دے وڈے وڈے مُلکاں دے حال نے ؍ پندرہ بماریاں دے نسخے وی نال نے
جیسا کہ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا‘ ہماری پنجابی کے خیمے میں دوسری زبانوں کا اونٹ گھس چکا ہے۔ ڈڈّو کو ہم مینڈک کہتے ہیں۔ باری کو کھڑکی‘ بُوئے کو دروازہ‘ پِیڑ کو درد‘ مسیت کو مسجد‘ مِزمان یا پراہنے کو مہمان‘ پوترے کو پوتا‘ دوہتری کو نواسی‘ نُوں کو بہو‘ کُڑم کو سمدھی اور ساڈھو کو ہم زلف کہنے لگے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو گیت گانے والوں کا کہ چند الفاظ سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ جو مشہور گیت ہے‘ چن کتھاں گزاری اے رات وے! تو اس کی دوسری سطر ہے ''مینڈا دل دلیلاں دے وات اے‘‘ کتنے پنجابیوں کو معلوم ہے کہ دلیلاں پنجابی میں وسوسوں کو کہتے ہیں۔ وات منہ کو یعنی دہانے کو کہتے ہیں‘ مطلب یہ ہے کہ تم نے رات کہاں گزاری‘ میرا دل وسوسوں کے دہانے میں ہے! حدیقہ کیانی نے ''بُوہے باریاں‘‘ زندہ کر دی ہیں! انور مسعود صاحب نے اصل پنجابی ناموں کو بہت بڑے پیمانے پر اپنی شاعری میں زندہ بھی کیا ہے اور محفوظ بھی! نظم ''اَج کی پکائیے‘‘ میں لسوڑیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ جھڑی کا نام لیتے ہیں۔ یعنی بارش کا لمبا سلسلہ! وہ ڈھِڈ کا لفظ برتتے ہیں جسے ہم پیٹ کہتے ہیں۔ پھر وہ ''وتؤں‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ ہم تو وتؤں کا لفظ ہی بھول چکے۔ اب اسے بینگن کہتے ہیں۔ گونگلو یا ٹھپر بھی نہیں کہتے‘ شلغم کہتے ہیں!! انور صاحب کی نظم ''تُوں کی جانیں بھولیے مجے! انار کلی دیاں شاناں‘‘ بھی ہمیں بہت سی بھولی بسری لفظیات یاد کراتی ہے۔ ''پنج کلیان‘‘ وہ بھینس جس کے چاروں کھر اور تھوتھنی سفید ہو! پٹولے رنگین کپڑوں کے وہ ٹکڑے ہوتے تھے جن سے بچیاں کھیلتی تھیں اور گڑیا کا لباس بناتی تھیں۔ غلاف پنجابی کا لفظ نہیں۔ پنجابی میں یہ اُچھاڑ ہے۔ بٹن کو پنجابی میں بِیڑا کہتے ہیں اور اچانک کو اَچن چیتی!!
انور صاحب کا ایک اور شہکار ان کی نظم ''گل کسے کیتی سی‘‘ ہے۔ میں نے جسارت کی ہے کہ اس کا اردو ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کروں!
کسی نے بات کی تھی؍ نہ جانے کون سی بات تھی؟؍ نہ جانے کس نے کی تھی؟؍ نہ جانے کب کی تھی؟؍ نہ جانے کیا تاریخ تھی ؟؍ نہ جانے دن کون سا تھا ؟؍ خدا ہی کو معلوم ہے بدھ تھا یا ایتوار تھا؟؍ نہ جانے کون سا وقت تھا؟؍ شام کا جھٹپٹا تھا یا فجر کا نور تھا؟؍ کچھ معلوم نہیں‘ ٹھنڈک تھی یا حرارت تھی؟؍ دھوپ تھی یا چھاؤں تھی؟؍ نہ جانے کون سی جگہ تھی؟؍ شہر تھا یا گاؤں تھا؟؍ نہ جانے رت کون سی تھی؟؍ آم کے درختوں پر آم لگ چکے تھے یا ابھی صرف بُور لگا تھا؟؍ یاد داشت کی ''بھڑولی‘‘ کے کونے کھدرے چھان رہا ہوں؍ وقت کے چیتھڑوں والا ''کھینو‘‘ کھول رہا ہوں!؍ کسی نے بات کی تھی تو کیوں کی تھی اور کس طرح کی تھی؟؍ جس نے بات کی تھی‘ وہ نزدیک تھا یا دور تھا؟؍ بات کا تو ذائقہ بھی ہوتا ہے! نہ جانے کیسا ذائقہ تھا؟؍ پھیکی تھی؟ نمکین تھی؟ کھٹی تھی؟ یا کھاری تھی؟؍ تنبے کی طرح کڑوی تھی یا موتی چُور تھی؟؍ بات کوئی ضرور تھی!!
اس نظم میں دو لفظ ایسے ہیں جو آج کل کے نام نہاد پنجابیوں کیلئے اجنبی ہوں گے! ایک بھڑولی! بھڑولی یا بھڑولا‘ مٹی کا وہ مٹکا نما گودام ہوتا ہے جس میں گندم محفوظ کرتے تھے! اٹک اور چکوال کے علاقے میں اسے سکاری کہتے تھے۔ آج کل ایلومینیم کے بنے ہوئے بھڑولے استعمال ہو رہے ہیں۔ دوسرا لفظ کھینو ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب چیزوں کی خریداری اتنی آسان نہیں تھی۔ نقد روپیہ زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ لالٹین کا شیشہ تڑختا تھا تو کرَیک والی جگہ پر آٹے یا سریش سے کاغذ کا ٹکڑا چسپاں کر دیتے تھے کہ شیشہ کچھ دن اور نکال لے۔ آگ جلانے کیلئے دِیا سلائی ''ضائع‘‘ کرنے کے بجائے خواتین پڑوسن کے چولہے سے مٹی کے ٹھیکرے پر رکھ کر انگارہ لے آتی تھیں! اسی طرح گیند خریدنے کے بجائے مصنوعی گیند بنا لی جاتی تھی۔ چیتھڑوں کو اکٹھا کر کے گول شکل میں سی لیا جاتا تھا۔ اسے کھینو کہتے تھے۔ میرے بچپن میں گاؤں میں کھینو عام تھے اور بچے اسی سے کھیلتے تھے! انور صاحب نے اس نظم میں قوم کے اجتماعی نسیان کا ذکر کیا ہے۔ ہم سب کچھ بھول بیٹھے ہیں! کہاں سے آئے ہیں؟ کہاں جانا ہے؟ نصب العین کیا ہے؟ منزل کون سی ہے؟ ہم ہیں کون؟ ہماری اصل کیا ہے؟ کچھ یاد نہیں!!
اپنی نظم ''چاء تے لسّی‘‘ کو انور مسعود دو مختلف تہذیبوں کا مقابلہ قرار دیتے ہیں۔ لسی مقامی تہذیب کی علامت ہے اور چائے درآمد شدہ تہذیب کی۔ ریستورانوں میں میز کرسیوں پر بیٹھ کر چائے کی سُرکیاں لیتے‘ ہوائی قلعے تعمیر کرتے‘ پیالی میں طوفان اٹھاتے نام نہاد دانشور‘ غیر ممالک کی قدروں کو اچھالتے اور بحث کرتے ہیں! دوسری طرف چوپال میں بیٹھا کسان لسی پیتا ہے اور اپنی زمین سے جڑا ہے! وہ اپنی مٹی‘ اپنے کھیتوں اور اپنی جڑوں کی بات کرتا ہے۔ لسی اور چائے اپنا جھگڑا دودھ کے پاس لے جاتی ہیں! دودھ دساور سے آئی ہوئی چائے کو اپنا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب تو چائے بھی ہماری ہی ہے‘ اور لسی اور چائے دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کو قبول کر لیں! غیرملکی تہذیب اور قدروں کی اس قبولیت کو انور صاحب اپنی تہذیب کی آلودگی قرار دیتے ہیں مگر زمینی حقائق اس آلودگی کو قبول کر رہے ہیں! اس نظم میں انور صاحب نے لسی کو ''مائی بگّو‘‘ کا خطاب دیا ہے اور چائے کو ''چینک بیگم‘‘ کا! یہ خطابات فریقین کی ماہیت‘ مزاج اور فطرت کو واضح کرتے ہیں!
ہم اہلِ پنجاب اپنی زبان اور اپنی ثقافت سے الگ ہو کر اپنی جڑوں سے بہت دور‘ خلا میں معلق ہو چکے ہیں۔ جہاں بچوں کو ان کے والدین اپنی مادری زبان بولنے کی اجازت ہی نہ دیں وہاں بچوں کی ذہنی نشو و نما خاک ہو گی؟ انور مسعود نے ہمیں زمین پر واپس لانے کی جد و جہد کی ہے۔ یہ ایک ''وَن مین‘‘ تحریک تھی جو انہوں نے تن تنہا چلائی۔ پوری دنیا میں لوگوں کو پنجابی سے از سر نو روشناس کرایا! اردو میں بھی‘ کیا سنجیدہ اور کیا مزاحیہ‘ ان کی شاعری کمال کی ہے! وہ پاکستان کا اثاثہ ہیں! قیمتی اثاثہ!
ایہدے وچ لکھیا اے جس ویلے لگنا اے
چن نو گرہن کدوں کس ویلے لگنا اے
روزیاں دے وچ گھگھو کہیڑے ویلے بولنا اے
کنے وَجے رکھنا اے تے کہیڑے ویلے کھولنا اے
ڈیوڑھا کنا لگدا‘ سوایا کنا لگدا اے
لاہور تو کراچی دا کرایہ کنا لگدا اے
تے مومنو قرآن دیاں کنیاں نے سورتاں
دیس دیاں نامی پہلواناں دیاں مورتاں
ریل دے کرائے دا تے سفر دا حساب اے
رمل تے نجوم‘ جادو‘ جفر دا حساب اے
دنیا دے وڈے وڈے مُلکاں دے حال نے ؍ پندرہ بماریاں دے نسخے وی نال نے
جیسا کہ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا‘ ہماری پنجابی کے خیمے میں دوسری زبانوں کا اونٹ گھس چکا ہے۔ ڈڈّو کو ہم مینڈک کہتے ہیں۔ باری کو کھڑکی‘ بُوئے کو دروازہ‘ پِیڑ کو درد‘ مسیت کو مسجد‘ مِزمان یا پراہنے کو مہمان‘ پوترے کو پوتا‘ دوہتری کو نواسی‘ نُوں کو بہو‘ کُڑم کو سمدھی اور ساڈھو کو ہم زلف کہنے لگے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو گیت گانے والوں کا کہ چند الفاظ سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ جو مشہور گیت ہے‘ چن کتھاں گزاری اے رات وے! تو اس کی دوسری سطر ہے ''مینڈا دل دلیلاں دے وات اے‘‘ کتنے پنجابیوں کو معلوم ہے کہ دلیلاں پنجابی میں وسوسوں کو کہتے ہیں۔ وات منہ کو یعنی دہانے کو کہتے ہیں‘ مطلب یہ ہے کہ تم نے رات کہاں گزاری‘ میرا دل وسوسوں کے دہانے میں ہے! حدیقہ کیانی نے ''بُوہے باریاں‘‘ زندہ کر دی ہیں! انور مسعود صاحب نے اصل پنجابی ناموں کو بہت بڑے پیمانے پر اپنی شاعری میں زندہ بھی کیا ہے اور محفوظ بھی! نظم ''اَج کی پکائیے‘‘ میں لسوڑیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ جھڑی کا نام لیتے ہیں۔ یعنی بارش کا لمبا سلسلہ! وہ ڈھِڈ کا لفظ برتتے ہیں جسے ہم پیٹ کہتے ہیں۔ پھر وہ ''وتؤں‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ ہم تو وتؤں کا لفظ ہی بھول چکے۔ اب اسے بینگن کہتے ہیں۔ گونگلو یا ٹھپر بھی نہیں کہتے‘ شلغم کہتے ہیں!! انور صاحب کی نظم ''تُوں کی جانیں بھولیے مجے! انار کلی دیاں شاناں‘‘ بھی ہمیں بہت سی بھولی بسری لفظیات یاد کراتی ہے۔ ''پنج کلیان‘‘ وہ بھینس جس کے چاروں کھر اور تھوتھنی سفید ہو! پٹولے رنگین کپڑوں کے وہ ٹکڑے ہوتے تھے جن سے بچیاں کھیلتی تھیں اور گڑیا کا لباس بناتی تھیں۔ غلاف پنجابی کا لفظ نہیں۔ پنجابی میں یہ اُچھاڑ ہے۔ بٹن کو پنجابی میں بِیڑا کہتے ہیں اور اچانک کو اَچن چیتی!!
انور صاحب کا ایک اور شہکار ان کی نظم ''گل کسے کیتی سی‘‘ ہے۔ میں نے جسارت کی ہے کہ اس کا اردو ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کروں!
کسی نے بات کی تھی؍ نہ جانے کون سی بات تھی؟؍ نہ جانے کس نے کی تھی؟؍ نہ جانے کب کی تھی؟؍ نہ جانے کیا تاریخ تھی ؟؍ نہ جانے دن کون سا تھا ؟؍ خدا ہی کو معلوم ہے بدھ تھا یا ایتوار تھا؟؍ نہ جانے کون سا وقت تھا؟؍ شام کا جھٹپٹا تھا یا فجر کا نور تھا؟؍ کچھ معلوم نہیں‘ ٹھنڈک تھی یا حرارت تھی؟؍ دھوپ تھی یا چھاؤں تھی؟؍ نہ جانے کون سی جگہ تھی؟؍ شہر تھا یا گاؤں تھا؟؍ نہ جانے رت کون سی تھی؟؍ آم کے درختوں پر آم لگ چکے تھے یا ابھی صرف بُور لگا تھا؟؍ یاد داشت کی ''بھڑولی‘‘ کے کونے کھدرے چھان رہا ہوں؍ وقت کے چیتھڑوں والا ''کھینو‘‘ کھول رہا ہوں!؍ کسی نے بات کی تھی تو کیوں کی تھی اور کس طرح کی تھی؟؍ جس نے بات کی تھی‘ وہ نزدیک تھا یا دور تھا؟؍ بات کا تو ذائقہ بھی ہوتا ہے! نہ جانے کیسا ذائقہ تھا؟؍ پھیکی تھی؟ نمکین تھی؟ کھٹی تھی؟ یا کھاری تھی؟؍ تنبے کی طرح کڑوی تھی یا موتی چُور تھی؟؍ بات کوئی ضرور تھی!!
اس نظم میں دو لفظ ایسے ہیں جو آج کل کے نام نہاد پنجابیوں کیلئے اجنبی ہوں گے! ایک بھڑولی! بھڑولی یا بھڑولا‘ مٹی کا وہ مٹکا نما گودام ہوتا ہے جس میں گندم محفوظ کرتے تھے! اٹک اور چکوال کے علاقے میں اسے سکاری کہتے تھے۔ آج کل ایلومینیم کے بنے ہوئے بھڑولے استعمال ہو رہے ہیں۔ دوسرا لفظ کھینو ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب چیزوں کی خریداری اتنی آسان نہیں تھی۔ نقد روپیہ زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ لالٹین کا شیشہ تڑختا تھا تو کرَیک والی جگہ پر آٹے یا سریش سے کاغذ کا ٹکڑا چسپاں کر دیتے تھے کہ شیشہ کچھ دن اور نکال لے۔ آگ جلانے کیلئے دِیا سلائی ''ضائع‘‘ کرنے کے بجائے خواتین پڑوسن کے چولہے سے مٹی کے ٹھیکرے پر رکھ کر انگارہ لے آتی تھیں! اسی طرح گیند خریدنے کے بجائے مصنوعی گیند بنا لی جاتی تھی۔ چیتھڑوں کو اکٹھا کر کے گول شکل میں سی لیا جاتا تھا۔ اسے کھینو کہتے تھے۔ میرے بچپن میں گاؤں میں کھینو عام تھے اور بچے اسی سے کھیلتے تھے! انور صاحب نے اس نظم میں قوم کے اجتماعی نسیان کا ذکر کیا ہے۔ ہم سب کچھ بھول بیٹھے ہیں! کہاں سے آئے ہیں؟ کہاں جانا ہے؟ نصب العین کیا ہے؟ منزل کون سی ہے؟ ہم ہیں کون؟ ہماری اصل کیا ہے؟ کچھ یاد نہیں!!
اپنی نظم ''چاء تے لسّی‘‘ کو انور مسعود دو مختلف تہذیبوں کا مقابلہ قرار دیتے ہیں۔ لسی مقامی تہذیب کی علامت ہے اور چائے درآمد شدہ تہذیب کی۔ ریستورانوں میں میز کرسیوں پر بیٹھ کر چائے کی سُرکیاں لیتے‘ ہوائی قلعے تعمیر کرتے‘ پیالی میں طوفان اٹھاتے نام نہاد دانشور‘ غیر ممالک کی قدروں کو اچھالتے اور بحث کرتے ہیں! دوسری طرف چوپال میں بیٹھا کسان لسی پیتا ہے اور اپنی زمین سے جڑا ہے! وہ اپنی مٹی‘ اپنے کھیتوں اور اپنی جڑوں کی بات کرتا ہے۔ لسی اور چائے اپنا جھگڑا دودھ کے پاس لے جاتی ہیں! دودھ دساور سے آئی ہوئی چائے کو اپنا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب تو چائے بھی ہماری ہی ہے‘ اور لسی اور چائے دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کو قبول کر لیں! غیرملکی تہذیب اور قدروں کی اس قبولیت کو انور صاحب اپنی تہذیب کی آلودگی قرار دیتے ہیں مگر زمینی حقائق اس آلودگی کو قبول کر رہے ہیں! اس نظم میں انور صاحب نے لسی کو ''مائی بگّو‘‘ کا خطاب دیا ہے اور چائے کو ''چینک بیگم‘‘ کا! یہ خطابات فریقین کی ماہیت‘ مزاج اور فطرت کو واضح کرتے ہیں!
ہم اہلِ پنجاب اپنی زبان اور اپنی ثقافت سے الگ ہو کر اپنی جڑوں سے بہت دور‘ خلا میں معلق ہو چکے ہیں۔ جہاں بچوں کو ان کے والدین اپنی مادری زبان بولنے کی اجازت ہی نہ دیں وہاں بچوں کی ذہنی نشو و نما خاک ہو گی؟ انور مسعود نے ہمیں زمین پر واپس لانے کی جد و جہد کی ہے۔ یہ ایک ''وَن مین‘‘ تحریک تھی جو انہوں نے تن تنہا چلائی۔ پوری دنیا میں لوگوں کو پنجابی سے از سر نو روشناس کرایا! اردو میں بھی‘ کیا سنجیدہ اور کیا مزاحیہ‘ ان کی شاعری کمال کی ہے! وہ پاکستان کا اثاثہ ہیں! قیمتی اثاثہ!