اشاعتیں

مئی, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

آہ ! ایک ازبک ادیب ! جو پاکستان کا عاشق تھا

دادا خان نوری کا اصرار تھا کہ وہ ازبک پلاؤ ہسپتال کے اُس کمرے میں پکائیں گے جس میں میں داخل تھا! یہ ستائیس‘اٹھائیس سال پہلے کی بات ہے! میں بیمار ہو کر اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں پڑا تھا۔ میرے گہرے دوست‘ معروف ازبک ادیب‘ دادا خان نوری نے‘ جو ازبک یونین آف جرنلسٹس کے صدر بھی تھے‘ میری علالت کی خبر سنی تو جہاز میں بیٹھے اور اسلام آباد پہنچ گئے۔ مگر وہ اکیلے نہ تھے۔ ازبک پلاؤ پکانے کا پورا سامان بھی جہاز میں ان کے ساتھ آیا تھا۔ اس سامان میں ایک بڑا برتن بھی شامل تھا جسے کازان کہتے ہیں اور جس میں یہ لوگ پلاؤ پکاتے ہیں! چاول‘ پیاز‘ گاجریں‘ ضروری مسالے‘ ہر چیز وہ ساتھ لائے تھے سوائے گوشت کے۔ وہ عام گوشت لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ ازبکستان کے سفیر کو ساتھ لیا اور جہاں سے سفیر صاحب دنبے کا گوشت خریدا کرتے تھے‘ وہیں سے خریدا۔ اسے ازبکوں کا خیال کہہ لیجیے یا عقیدہ کہ ازبک پلاؤ کھانے سے بیمار شفا یاب ہو جاتا ہے۔ ان کا ارادہ ہسپتال کے کمرے میں پلاؤ پکانے کا تھا۔جب یہ ممکن نہ ہوا تو ہمارے کچن میں پکایا۔ میری بیگم کو کچن میں آنے سے منع کر دیا۔ خود پکایا۔ پھر مجھے کھلایا! 1992ء میں جب وسط ای...

خدا نخواستہ یہ سلسلہ چل نکلا تو ؟؟

''جو مسلمان درخت لگائے یا فَصل بوئے‘پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صَدقہ شمار ہو گا۔ (صحیح بخاری) ''اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اسے لگا سکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔(مسند احمد) جو کوئی درخت لگائے‘پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے یہاں تک کہ وہ درخت پھل دینے لگے‘وہ اس کیلئے اللہ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا۔(مسند احمد ) عرب میں بالعموم ببول یا بیری کے درخت ہوا کرتے تھے‘ نبی کریمﷺ نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا: جو بیری کا درخت کاٹے گا‘ اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا۔(سنن ابو داؤد)جب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے: کسی بچے کو قتل نہ کرنا‘ کسی عورت کو قتل نہ کرنا‘ کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا‘ چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا‘ درختوں کو نہ کاٹنا۔(بیہقی) یہ وہ ارشادات ہیں جو کم و بیش ہر مسلمان نے سنے ہیں اور بارہا سنے ہیں۔ اور یہ بات تو بچے بچے کو معلوم ہے کہ کفار سے جہاد کے دوران بھی فصلوں‘ کھیتوں اور درختوں کو تباہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ 25 مئی کو ج...

ڈاکٹر صاحبہ ! آپ خوش قسمت ہیں !!

اس ملک میں ایلیٹ کی کئی اقسام ہیں ! �کچھ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ وہ فیوڈل ہیں۔ زمینوں اور جاگیروں کے مالک ! کچھ اس لیے کہ وہ سردار ہیں۔کچھ اس لیے کہ وہ حکومت میں ہیں۔ کچھ اس لیے کہ وہ اپوزیشن میں ہیں! مگر محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ! آپ کسی ایک وجہ سے ایلیٹ نہیں !آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ فیوڈل بھی ہیں! بہت بڑی فیوڈل! آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ سردارنی بھی ہیں! آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ حکومت میں بھی رہیں! آپ اس لیے ایلیٹ ہیں کہ آپ اپوزیشن میں بھی ہیں ! �آپ اس وقت ملک کی طاقتور ترین خاتون ہیں۔ آپ ایلیٹوں کی ایلیٹ ہیں۔ جو ہنگامہ ‘ جو غلغلہ‘ جو خروش و غوغا‘ جو شور‘ جو احتجاج آپ کی گرفتاری پر ہوا وہ اس ملک کی تاریخ میں کسی عورت ‘ کسی مرد کی گرفتاری پر آج تک نہیں ہوا۔ اپوزیشن تو اپوزیشن‘ حکومت نے بھی احتجاج کیا؛ تاہم کسی میں آپ سے پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی کہ آپ جب انسانی حقوق کی وزیر تھیں تو کئی صحافیوں کے بنیادی انسانی حقوق کے پرخچے اڑائے گئے جن کا ایک زمانے کو علم تھا مگر آپ کو جیسے خبر ہی نہ تھی۔ میڈیا مالکان کو مہینوں‘ بغیر کسی جرم کے محبوس رکھا گیا۔ آپ کے منہ سے ایک لفظ نہ نکلا۔ ایک ایک ا...

تلاشِ گمشدہ

حالاتِ حاضرہ کی عجیب ترین ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر کوئی شریفوں یا زرداریوں کے خلاف ہے تو اسے عمران خان کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی عمران خان کے چار سالہ دورِ اقتدار پر تنقید کرتا ہے تو اسے فوراً شریفوں اور زرداریوں کے ساتھ بریکٹ کر دیا جاتا ہے۔ جو شریفوں کے حامی ہیں وہ بھی مزے میں ہیں۔ جو عمران خان کے ساتھ ہیں وہ بھی مست ہیں۔ جو دونوں کو ناپسند کرتے ہیں وہ دونوں طرف سے شعلوں کی لپیٹ میں ہیں۔ مظلوم ترین گروہ وہ ہے جو شریفوں اور زرداریوں کی چیرہ دستیوں سے عاجز آکر عمران خان کی طرف لپکا تھا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ جو انصاف‘ جو میرٹ جو طرزِ حکومت مغرب کے جمہوری ملکوں میں رائج ہے‘ اسے پاکستان میں نافذ کریں گے؛ چنانچہ یہ جو گروہ تھا‘ شریفوں اور زرداریوں سے تنگ آکر عمران خان کے جھنڈے تلے آنے والا گرو ہ‘ اس گروہ نے عمران خان کے اس وعدے میں پناہ لی۔اس گروہ میں ایک کثیر تعداد اُن لوگوں کی تھی جو ووٹ ڈالنے زندگی میں پہلی بار گھر سے نکلے۔ ان لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیا۔ ان کی حکومت آنے پر خوش ہوئے۔اب یہ لوگ جب عمران خان کے عہدِ حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو ک...

چوگان

شہر میں چوگان کا میچ تھا۔ ایک عزیز، جو مدعو تھے، ساتھ لے گئے! گھوڑے دوڑ رہے تھے۔ ایالیں ان کی بندھی ہوئی تھیں جیسے عورتوں کی چوٹیاں! سوار، پاؤں جن کے رکابوں میں تھے، زینوں پر اُٹھتے تھے، پھر بیٹھتے تھے، پھر اٹھتے تھے۔ سبزہ، گرد کو روکے تھا ورنہ وہی حال ہوتا جو نظامی گنجوی نے سکندر کی لڑائی کا بیان کیا ہے:  ز سمِّ ستوران دران پہن دشت زمین شش شد و آسمان گشت ہشت گھوڑوں کے سُموں سے میدانِ جنگ میں اتنی گرد اٹھی کہ زمین گرد بن کر آسمان کی طرف اُٹھ گئی۔ یوں زمینیں سات کے بجائے چھ رہ گئیں اور آسمان سات کے بجائے آٹھ ہو گئے! آنکھیں چوگان دیکھ رہی تھیں۔ ذہن انار کلی میں پھر رہا تھا۔ یونیورسٹی کی طرف سے انار کلی میں داخل ہوں۔ لوہاری کی طرف چلیں۔ راستے میں دائیں طرف جانے والی ایک گلی میں وہ شخص مٹی اوڑھ کر سو رہا ہے جسے لاہور بہت پسند تھا۔ جو لاہور کا دلدادہ تھا۔ گلابی جاڑوں کی ایک دوپہر تھی جب چوگان کھیلتے ہوئے آٹھ سو بارہ سال پہلے قطب الدین ایبک گھوڑے سے گرا۔ زین کا فتراک سینے میں پیوست ہو گیا اور جان بدن سے پرواز کر گئی۔ زندگی بھی کیا چیز ہے! ترکستان میں شروع ہوئی۔ نیشا پور کے بازار میں غلام...

صرف دو ماڈل راس آسکتے ہیں

مرزا غالب کسی کے ہاں‘ کچھ روز قیام کرنے‘ تشریف لے گئے۔ غالباً کوئی نواب صاحب تھے۔ مرزا کے قیام کے دوران ہی نواب صاحب کا کہیں جانے کا پروگرام بن گیا۔ انہوں نے جاتے ہوئے مرزا سے کہا ''اللہ کے حوالے‘‘۔ مرزا کہاں چوکنے والے تھے۔ برجستہ جواب دیا ''اللہ نے آپ کے حوالے کیا تھا‘آپ پھر اللہ کے حوالے کر رہے ہیں‘‘۔ ہم نے پیپلز پارٹی ‘ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ قاف سے تنگ آکر عمران خان کو ووٹ دیا تھا کہ ان پرانے حکمرانوں سے جان چھوٹے گی۔ مگر عمران خان ہمیں پھر انہی حکمرانوں کے حوالے کر کے یہ جا ‘ وہ جا! ایسا ہماری تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا۔ جنرل ضیا الحق دس سال حکمرانی کر گئے تو بھٹو صاحب کی مہربانی سے! ضیا الحق سینئر ترین جرنیل نہیں تھے۔ بھٹو صاحب انہیں نیچے سے اوپر لائے۔پھر جو کچھ ہوا‘ آج تک قوم بھولی ہے نہ پیپلز پارٹی! جنرل مشرف کے اقتدار کی ذمہ داری میاں نواز شریف پر عائد ہوتی ہے۔ میرٹ کو پسِ پست ڈال کر میاں صاحب نے انہیں سپہ سالار مقرر کیا اور پھر نہ صرف بھگتا بلکہ خوب خوب بھگتا۔ اب جو پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) ‘ جے یو آئی اور دیگر پارٹیاں تخت نشین ہوئی ہیں تو اس مراجعت...

ہے کوئی جو اس قتلِ عام کو رکوائے

خاندان کے خاندان ختم ہو رہے ہیں۔ لوگ دن دہاڑے قتل کیے جا رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ریاست بے نیاز ہے۔ حکومتی ترجیحات کی فہرست میں عوام کی جان و مال کی حفاظت دکھائی نہیں دیتی۔ پولیس لاتعلق ہے۔ منتخب ایوان اس ضمن میں قانون سازی نہیں کر رہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس خونخوار سفاکی کو سنجیدگی سے لے نہیں رہیں! نتیجہ یہ ہے کہ روک ٹوک کوئی نہیں۔ قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ لوگ مارے جارہے ہیں۔ لوگ ہلاک کیے جا رہے ہیں۔ لوگ ختم ہو رہے ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہو رہے ہیں۔ یتیموں اور بیواؤں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شاید آہیں آسمان تک جا نہیں پا رہیں۔ منتخب ایوانوں کو اگر عوام کی حالت کا احساس ہوتا اور قوم کا درد ہوتا تو قومی اسمبلی کا یاکسی صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن تو کھڑا ہو تا اور حکومت سے پوچھتا کہ گزشتہ پانچ سال یا دو سال‘ یا چلو ایک سال ہی میں‘ ٹریکٹروں‘ ٹرالیوں‘ ڈمپروں‘ آئل ٹینکروں اور واٹر ٹینکروں نے کتنے لوگ ہلاک کیے ہیں ؟ کسی منتخب ایوان کی اگر ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو وہ اس قتلِ عام پر تشویش کا اظہار کرتا اور اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کرتا‘ مگر المیہ یہ ہے کہ وہ جو منتخب ا...

مرنے کا آسان نسخہ

بہت سے کام ہمارے ملک میں مشکل ہیں؛ تاہم ایک کام آسان ہے۔ حد درجہ آسان! اور وہ ہے مرنا! بیمار ہیں تو نجی ہسپتال جائیں۔ اتنا نچوڑیں گے کہ آپ کی جان نکل جائے گی۔ سرکاری شفا خانے میں جائیں گے تو عدم توجہی سے مارے جائیں گے۔ سڑک پر گاڑی یا موٹر سائیکل چلائیں گے تو کوئی ڈمپر، کوئی ٹریکٹر‘ کوئی ٹرالی، کوئی پانی کا ٹینکر آپ کو کچل دے گا۔ یہ وہ عفریت ہیں جن پر کوئی پابندی نہیں۔ نیم وحشی، چِٹے ان پڑھ، بے حس ڈرائیور ایسے قاتل ہیں جن پر قتل کی دفعہ ہی نہیں لگتی۔ اس سے بھی زیادہ آسان طریقہ مرنے کا یہ ہے کہ بینک سے کچھ لاکھ روپے نکلوائیں اور چل پڑیں۔ پیدل ہیں یا سواری پر، اس سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ موت کے سوداگر گھیر چکے۔ اب گولی آپ کے سینے میں اور کرنسی نوٹوں کی تھیلی ان کے ہاتھوں میں ہو گی۔ محمد حنیف کے ساتھ یہی ہوا۔ تیس سال سے اخبار فروشی کرنے والے حنیف عباسی کو ڈاکوئوں نے مار ڈالا۔ بینک سے بیس لاکھ کی رقم نکالنے کی حماقت ایک اور شہری نے کی۔ ڈاکو اسے لوٹ رہے تھے کہ حنیف نے ڈاکوئوں پر اینٹوں سے حملہ کر دیا۔ بے وقوف شہری کے تو صرف بیس لاکھ گئے۔ حنیف کی جان چلی گئی۔ بچے اس...

قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش

یادش بخیر ، مولانا طارق جمیل کا ایک مختصر سا انٹرویو ایک نجی   ٹیلی ویژن چینل  پر نشر ہؤا۔  اسی سے ملتا جلتا بیان اخبارات میں بھی شائع ہؤا ہے۔ ( روزنامہ دنیا ۲۷۔اپریل ۲۰۲۲ ء )۔   اس بیان میں انہوں نے مندرجہ ذیل باتیں کی ہیں۔   ۱۔۔ یہ کہ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ ۲۔۔  یہ کہ وہ سیاست میں بالکل نہیں ہیں۔ ۳۔۔ یہ کہ ریاست مدینہ کا تصور  عمران خان نے دیا ۔ ۴۔۔یہ کہ ریاست مدینہ کو بنانا ہم نے ، یعنی عوام نے، تھا۔ جھوٹا جھوٹ چھوڑتا، رشوت والا رشوت چھوڑتا، دھوکہ دینے والا دھوکہ چھوڑتا، ظلم کرنے والا ظلم چھوڑتا، فحاشی کرنے والافحاشی چھوڑتا، بدکاری کرنے والا بدکاری چھوڑتا ۔ لڑنے والے قتل و غارت کی دشمنیاں ختم کر کے  صلح کرتے۔اپنانا تو معاشرے نے تھا۔ معاشرے نے یہ تصور قبول نہیں کیا تو عمران خان کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ ۵۔۔ یہ کہ تحائف کے حوالے سے  مولانا کو   پاکستانی قا نون کے بارے میں پتہ نہیں ہے۔  مولانا کے یہ ارشادات پڑھ کر اور سن کر ہمارے  نارسا  ذہن میں کچھ سوالات ابھرے ہیں جو ہم اپنے قارئین کے ساتھ شئیر کرنا چاہتے ہیں۔ او...

میرے ماں باپ قربان

یہ تو اپنی اپنی قسمت ہے! کوئی حرمت ِرسول پر جان قربان کر دیتا ہے اور کسی کو اتنا کہنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی کہ مسجد ِنبوی میں شورو غوغا اور دنگا فساد کرنے والوں نے برا کیا۔ جو اسلام کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ اسی طرح بے نقاب ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہی نہیں! اپنے رسول کی حرمت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود اٹھائی ہوئی ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام محمد ہے۔ کرۂ ارض پر ‘ ہر وقت‘ کسی نہ کسی جگہ اشہد ان محمد اًرسول اللہ ضرور کہا جا رہا ہے۔ اگر امریکہ میں صبح کی نماز پڑھی جارہی ہے تو مشرقِ وسطیٰ میں اُس وقت ظہر کی اذانیں ہو رہی ہیں۔ فجی اور آسٹریلیا میں عشا کی نماز کے دوران لوگ السلام علیک ایہا النبی ( سلامتی ہو آپ پر اے نبی ) کہہ رہے ہوتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں اس وقت عصر کی نماز میں اللہم صل علیٰ محمد کہہ کر درود بھیجا جا رہا ہوتا ہے۔ ہر قبر اور ہر چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے والوں کو حرمت رسول کا احساس بھی نہیں ہو سکتا۔یہ تو توفیق کی بات ہے اور توفیق دینے والابندوں کو خوب پہچانتا ہے۔اس نے ترکان عثمان کو توفیق دی اور انہوں نے دنیا ک...

با محمدﷺ ہوشیار!!

بال کھول لو، پٹکے کمر کے ساتھ باندھ لو۔ پھر سینہ کوبی کرو۔ یہاں تک کہ تم گر جاؤ اور جان، جان آفرین کے سپرد کر دو۔ اس لیے کہ جینے کا جواز ختم ہو چکا! اس کائنات میں جتنے جہان ہیں اور جتنے زمانے ہیں اور جتنی دنیائیں ہیں اور جتنی زمینیں ہیں اور جتنے آسمان ہیں اور جتنی کہکشائیں ہیں اور جتنے ستارے ہیں اور جتنے سیارے ہیں، اور جتنے شمسی نظام ہیں اور جو آئندہ بھی اس ہر لحظہ پھیلتی کائنات میں پیدا ہوں گے ان سب میں مقدس ترین مقام وہ ہے جہاں اللہ کے آخری رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں‘ اور وہ شہر مقدس ترین ہے جہاں آپ اپنا وطن چھوڑ کر تشریف لائے اور جو آپ کو اتنا عزیز تھا کہ تا دمِ آخر اس سے جدا نہ ہوئے۔ کیا شہر ہے جہاں کے کنکر موتی ہیں، جہاں کے درخت آسمانی ہیں جس کی مٹی بادشاہوں اور ولیوں اور عالموں کی آنکھ کا سرمہ ہے۔ روضۂ رسول تو روضۂ رسول ہے، مسجدِ نبوی تو مسجدِ نبوی ہے، مدینہ کی تو عام گلی بھی ادب کا اور خاموشی کا اور شرافت کا تقاضا کرتی ہے۔ کاش تم دیکھ سکتے کہ فرشتے وہاں کس حالت میں حاضری دیتے ہیں! اس کائنات کا مالک، خود، ہاں خود، جس ہستی پر درود بھیجتا ہے اور اس ...