آہ ! ایک ازبک ادیب ! جو پاکستان کا عاشق تھا
دادا خان نوری کا اصرار تھا کہ وہ ازبک پلاؤ ہسپتال کے اُس کمرے میں پکائیں گے جس میں میں داخل تھا! یہ ستائیس‘اٹھائیس سال پہلے کی بات ہے! میں بیمار ہو کر اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں پڑا تھا۔ میرے گہرے دوست‘ معروف ازبک ادیب‘ دادا خان نوری نے‘ جو ازبک یونین آف جرنلسٹس کے صدر بھی تھے‘ میری علالت کی خبر سنی تو جہاز میں بیٹھے اور اسلام آباد پہنچ گئے۔ مگر وہ اکیلے نہ تھے۔ ازبک پلاؤ پکانے کا پورا سامان بھی جہاز میں ان کے ساتھ آیا تھا۔ اس سامان میں ایک بڑا برتن بھی شامل تھا جسے کازان کہتے ہیں اور جس میں یہ لوگ پلاؤ پکاتے ہیں! چاول‘ پیاز‘ گاجریں‘ ضروری مسالے‘ ہر چیز وہ ساتھ لائے تھے سوائے گوشت کے۔ وہ عام گوشت لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ ازبکستان کے سفیر کو ساتھ لیا اور جہاں سے سفیر صاحب دنبے کا گوشت خریدا کرتے تھے‘ وہیں سے خریدا۔ اسے ازبکوں کا خیال کہہ لیجیے یا عقیدہ کہ ازبک پلاؤ کھانے سے بیمار شفا یاب ہو جاتا ہے۔ ان کا ارادہ ہسپتال کے کمرے میں پلاؤ پکانے کا تھا۔جب یہ ممکن نہ ہوا تو ہمارے کچن میں پکایا۔ میری بیگم کو کچن میں آنے سے منع کر دیا۔ خود پکایا۔ پھر مجھے کھلایا! 1992ء میں جب وسط ای...