اشاعتیں

اگست, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

خواب لے لو! خواب!

گائوں سے کچھ فاصلے پر جوہڑ تھا۔ پانی اس کا گندہ تھا۔ بے حد گندہ! آنے جانے والی سوزوکیاں گوبر اور مٹی سے لتھڑے ہوئے پہیے تو دھوتی ہی تھیں‘ بھینسیں بھی پانی کی مقدار میںحسبِ توفیق ’’اضافہ‘‘ کرتی رہتی تھیں۔ مولوی صاحب نے یہ حال دیکھا تو مناسب سمجھا کہ فقہی مسئلہ واضح کر دیں؛ چنانچہ مسجد میں ایک دن جب لوگ جمع تھے تو انہوں نے سمجھایا کہ اس جوہڑ کے پانی سے وضو نہیں ہوتا۔ ایک کسان پچھلی صف سے اٹھا اور بلند آواز سے بولا۔ مولوی صاحب! میرا وضو تو وہاں ہو جاتا ہے۔ روز کرتا ہوں!  آپ کا کیا خیال ہے مولوی صاحب اگر اُس کسان کے سامنے فقہ کی کتابیں کھول کر بیٹھ جائیں تو وہ کسان قائل ہو جائے گا؟  گندے جوہڑ اس ملک میں بے شمار ہیں۔ پچھلی صف سے اُٹھ کر مولوی صاحب کی فقہ کو چیلنج کرنے والے کسان بھی کم نہیں۔ ان میں سے کچھ پہلی صف میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کسان لکھاری اور دانش ور ہیں! ان دانش ور کسانوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کر کرپشن جتنی بھی ہے‘ جہاں بھی ہے جیسی بھی ہے‘ فوج اسے نہ چھیڑے۔ کرپشن کے خلاف ایکشن لینا سیاسی حکومت کا کام ہے۔ فوج کے آئینی کردار کا تقاضا نہیں ...

خواب لے لو! خواب!

گائوں سے کچھ فاصلے پر جوہڑ تھا۔ پانی اس کا گندہ تھا۔ بے حد گندہ! آنے جانے والی سوزوکیاں گوبر اور مٹی سے لتھڑے ہوئے پہیے تو دھوتی ہی تھیں‘ بھینسیں بھی پانی کی مقدار میںحسبِ توفیق ’’اضافہ‘‘ کرتی رہتی تھیں۔ مولوی صاحب نے یہ حال دیکھا تو مناسب سمجھا کہ فقہی مسئلہ واضح کر دیں؛ چنانچہ مسجد میں ایک دن جب لوگ جمع تھے تو انہوں نے سمجھایا کہ اس جوہڑ کے پانی سے وضو نہیں ہوتا۔ ایک کسان پچھلی صف سے اٹھا اور بلند آواز سے بولا۔ مولوی صاحب! میرا وضو تو وہاں ہو جاتا ہے۔ روز کرتا ہوں!  آپ کا کیا خیال ہے مولوی صاحب اگر اُس کسان کے سامنے فقہ کی کتابیں کھول کر بیٹھ جائیں تو وہ کسان قائل ہو جائے گا؟  گندے جوہڑ اس ملک میں بے شمار ہیں۔ پچھلی صف سے اُٹھ کر مولوی صاحب کی فقہ کو چیلنج کرنے والے کسان بھی کم نہیں۔ ان میں سے کچھ پہلی صف میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کسان لکھاری اور دانش ور ہیں! ان دانش ور کسانوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کر کرپشن جتنی بھی ہے‘ جہاں بھی ہے جیسی بھی ہے‘ فوج اسے نہ چھیڑے۔ کرپشن کے خلاف ایکشن لینا سیاسی حکومت کا کام ہے۔ فوج کے آئینی کردار کا تقاضا نہیں ...

وہ جو دودھ سے بھری بالٹیاں گھروں کو لے گئے

گیارہ دن اور گیارہ راتیں وہ بے ہوش رہا۔  گیارہ دن اور گیارہ راتیں اس کے پیارے دعائیں مانگتے رہے‘ آنسو بہاتے رہے‘ بارہویں دن بے ہوشی ختم ہوئی اور اس کی جگہ موت نے لے لی۔ ایک چھوٹی سی خبر اور وہ بھی ایک آدھ اخبار میں! فیض نے کہا تھا   ؎  نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا  کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا  پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو  کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ  نہ مدعی نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا  یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا  لیکن یہ لہو یتیم تو نہ تھا۔ فیض صاحب کا خیال تھا کہ رزم گاہ میں بہنے والا خون معتبر ہوتا ہے‘ پرچموں پر لکھا جاتا ہے اور مشتہر ہوتا ہے۔ خدا اس سرزمین پر رحم کرے‘ اب رزم گاہ میں بہنے والا خون بھی معتبر نہیں رہا۔ اب وہ خون بھی یتیم ہے جو میدانِ جنگ میں ہے۔ اب یہاں صرف وہ خون معتبر ہے جو کسی بڑے آدمی کا ہو۔ اب خون کا پاک صاف ہونا بھی ضروری نہیں۔ اب خون کا کسی شہید کا خون ہونا بھی لازم نہیں! بے شک گندا خون ہی کیوں نہ ہو‘ بس کسی گردن بلند کا ہو‘ کسی کج کلاہ کا ہو‘ کسی متکبر کا ہو‘ کسی مقتدر کا ہو...

حکم ملتے ہی سمندر پار سے

تصویر

افیونچی

ا جہاندیدہ اور خوش گفتار خاتون تھی اور کیا کیا فارمولے تھے اس کی زنبیل میں۔ کئی سال پہلے کی بات ہے‘ چند دوستوں نے میریٹ ہوٹل کراچی کے ریستوران میں کھانے پر مدعو کیا۔ پندرہ بیس معززین‘ کچھ بیوروکریٹ اور کچھ صحافی اور دانشور۔ انہی میں یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت تھی‘ جنوبی ہند سے ہجرت کر کے امریکہ گئی ہوئی۔ دو باتیں اس کی نہیں بھولتیں‘ جو اُسے اس کے باپ نے یاد رکھنے کو کہی تھیں۔  اوّل‘ پہلی نظر جوتوں پر پڑتی ہے۔ اس لیے کسی کو ملنے جائو تو جوتے بہترین ہوں! دوم: غریب امیر ہو جائے تو غربت پچاس سال تک اس کے اندر سے نہیں نکلتی اور خوشحالی مفلسی میں تبدیل ہو جائے تو رنگ ڈھنگ اور اندازِ فکر نصف صدی تک امیرانہ ہی رہتا ہے۔ عمرکوٹ میں ہمایوں اور اس کے بچے کھچے ساتھیوں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ وقت تھا کہ گوشت مل جاتا تو خود (ہیلمٹ) میں ابالتے۔ جو شخص اکبر کی پیدائش کی خبر لایا‘ اسے خالی ہاتھ کیسے جانے دیتا! مفلسی تھی لیکن انداز امیرانہ تھا۔ صرف نافۂ مشک تھا اس کے پاس۔ کستوری کی پوٹلی! اور کچھ بھی نہ تھا! مشک کے ٹکڑے کیے۔ ایک خبر لانے والے کو پیش کیا اور باقی حاضرینِ مجلس میں تقسیم کیے!...

مکڑی کا گھر

ایاز صادق مکڑی کے گھر میں رہ رہے تھے۔ بیت العنکبوت میں! مکڑی کا گھر کب تک سہارتا! انّ اوہن البیوت لبیت العنکبوت! سب گھروں میں بودا‘ کمزور ترین گھر‘ مکڑی کا ہوتا ہے! یہ سب مکڑی کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ یہ سارے گھر ٹوٹیں گے۔ قدرت کی تعمیر میں نظم ہے تو تخریب اور پھر تعمیرِ نو میں بھی ترتیب ہے۔ اقلیم سات ہیں تو آسمان بھی سات ہیں! ہفت اقلیم پر ہفت آسمان ترتیب سے گریں گے۔ دیکھتے جایئے   ؎  یہ کھیل اب منطقی انجام کو پہنچے گا اظہارؔ  ذرا اک صبر! عزت کے نشاں گرنے لگے ہیں  لاکھوں شہیدوں کا خون اس مٹی میں اس لیے نہیں سمایا تھا کہ زرداری‘ شریف‘ چودھری‘ سردار اور ان کے گماشتے ازمنۂ وسطیٰ کے بادشاہوں کے انداز میں اپنی زندگیوں کو عشرت گاہوں میں بدل لیں۔ کبھی فہمیدہ ذوالفقار آ کر کروڑوں کے قرضوں پر خطِ تنسیخ پھیر دیں اور کبھی ایاز صادق اور ان کے فرزند ارجمند اعلان کریں کہ ٹربیونل کا فیصلہ درست ہے مگر دھاندلی تو نہیں ہوئی نا! کیا دلیل ہے! کیا یہ دلیل یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ یہ مکڑی کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ ان کے پیروں تلے سے ساحل کی لہریں ریت سرکاتی ہیں تو یہ زم...

شاہراہ اور پگڈنڈیاں

’’گاندھی جی اسلام کی بہت تعریف کرتے ہیں‘‘ محمد علی جوہر سُن کر مسکرائے اور جواب دیا‘ ’’اگر اسلام گاندھی جی کو اتنا ہی پسند ہے تو مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے؟‘‘  ملا عمر کے شیدائیوں سے بھی یہی سوال پوچھنا چاہیے۔ سب سے نہیں‘ مگر اُن سے ضرور جو بیٹھتے ملا عمر کے کیمپ میں ہیں اور کرتے وہ سب کچھ ہیں جو ملا عمر کو پسند نہیں!  ملا عمر کے طرفدار دو قسم کے تھے۔ ایک تو اہلِ مدارس! ان کے بارے میں اور جو کچھ بھی کہیں‘ ملا عمر کے حوالے سے انہیں منافق نہیں کہا جا سکتا۔ چند سال پہلے کی بات ہے۔ سکردو کی ایک مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے داخل ہوا۔ خطیب صاحب تقریر کر رہے تھے جو ملا عمر کے فضائل پر تھی۔ وہ ان کے لیے امیر المومنین کا لقب استعمال کر رہے تھے۔ دل میں سوچا اگر پاکستان میں ملا عمر کی حکومت قائم ہو تو خطیب صاحب کو کیا فرق پڑے گا؟ کچھ بھی نہیں! پگڑی باندھ رکھی ہے۔ باریش ہیں۔ حجرے میں رہتے ہوں گے یا سادہ سے کچے مکان میں‘ بیگم بیٹیاں سختی سے پردہ کرتی ہوں گی۔ باہر نکلتی ہوں گی تو میاں یا بھائی یا باپ ساتھ ہوتا ہوگا۔ صاحبزادے مدرسہ میں زیر تعلیم ہوں گے۔ رہیں بین الاقوامی امور کی گہرائیاں یا ...

کیا اسمبلی یہ اعداد و شمار مانگے گی ؟

تصویر

نہایت ادب کے ساتھ

تصویر

پلنگ کے نیچے کوئی سو رہا ہے!

بالآخر فیصلہ اس کے حق میں ہوگیا۔ یہ ایک دلچسپ مقدمہ تھا‘ بلکہ عجیب و غریب۔ امریکی ریاست مسوری میں ایک پاکستانی ڈرائیور نے انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ تمام لائسنس یافتہ ٹیکسی ڈرائیوروں کو قانون کی روسے سفید قمیض اور سیاہ رنگ کی پتلون پہننا ہوتی ہے۔ اس ڈرائیور نے انکار کردیا۔ پھر وہ انتظامیہ کو عدالت میں لے گیا۔ اس نے دلیل یہ دی کہ شلوار قمیض میرا مذہبی لباس ہے۔’’یہ لباس میرے مذہب نے تجویز  (Prescribe)  کیا ہوا ہے‘‘۔ اس نے عدالت میں کہا: ’’میں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں‘‘۔ مقدمہ چلتا رہا۔ ڈرائیور کے وکیل نے عدالت کو قائل کرلیا کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ شلوار قمیض اسلام کی طرف سے متعین ہے۔ جج صاحب نے ڈرائیور کے حق میں فیصلہ دیا اور لکھا کہ انتظامیہ مدعی کے مذہبی حقوق پر ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے۔ یہ واقعہ دو ماہ پہلے رونما ہوا۔ لگ بھگ انہی دنوں، امریکی ریاست مسوری سے گیارہ ہزار آٹھ سو ستاون کلومیٹر دور، راولپنڈی کے ایک کالج میں ایک اور واقعہ رونما ہو رہا تھا۔ تقریباً اتنا ہی دلچسپ، بلکہ عجیب و غریب۔ کالج کو اردو کے لیکچرر درکار تھے۔ منتخب امیدواروں کو کہا گیا ک...

اُٹھو!اہل کراچی! اُٹھو

جمال احسانی مرحوم یارِ طرح دار تھا اور شاعر نغزگو‘ کیسے کیسے شعر کہہ گیا   ؎ تمام تیشہ بدست حیرت میں گم ہوئے ہیں چراغ سے کاٹ دی ہوا کی چٹان میں نے اوریہ بھی   ؎   یہ لالٹین ہے کہ چوکیدار کے نحیف ہاتھ میں کوئی ستارہ ہے مزے لے لے کر واقعہ سنایا کرتا کہ ایک صاحب کراچی میں اپنے آپ کو مغل خانوادے کا آخری چشم و چراغ کہتے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے لال قلعہ قسم کی جائیدادوں کی وراثت کا دعویٰ بھی کیا ہوا تھا۔ ایک دن جوش ملیح آبادی کے پاس آئے اور شعر سنانے شروع کیے ۔ بے وزن‘ بے ہنگم اور مضحکہ خیز شاعری تھی۔ جوش صاحب کہاں تک برداشت کرتے‘ زچ ہو کر ملازم سے کہا اسے باہر نکال دو۔ وہ صاحب باہر نکلتے ہوئے جوش صاحب کو کہے جا رہے تھے:’’جوش صاحب! دم خم ہے تو شاعری میں مقابلہ کیجیے ۔ غنڈہ گردی پر کیوں اترآئے ہیں؟‘‘ زوال کی مثال دینے کے لیے یہ کوئی زیادہ موزوں واقعہ نہیں‘ اس لیے کہ واقعہ کم اور لطیفہ زیادہ ہے۔ زوال آتا ہے تو ہمہ گیر ہوتا ہے۔ آندھی آتی ہے تو گلاب ہو یا نسترن‘ کسی کو نہیں چھوڑتی   ؎ تم اپنی شمع تمنا کو رو رہے ہو فراز ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ...

شیر اور سرگوشی

آپ کا کیا خیال ہے مصر کے ظالم بادشاہ نے، جو خدائی کا دعویدار تھا، بنی اسرائیل کے لڑکوں کو مارنے اور لڑکیوں کو چھوڑنے کا پروگرام بنایا تو اس پروگرام کی کامیابی کے لئے کسے مامور کیا تھا؟  اور جب اہرامِ مصر بن رہے تھے اور ہزاروں، لاکھوں غلام اس مشقت میں لگے ہوئے تھے اور ان کی جسمانی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے انہیں مسلسل پیاز کھلائے جاتے تھے، تو اتنی بڑی بیگار فورس کو کنٹرول کرنے کے لئے اور ان کی سرینوں پر لاٹھیاں برسانے کے لئے کس کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی؟  اور چنگیز خان جب شہر اور بستیاں جلاتا آگے بڑھ رہا تھا تو مفتوحہ علاقوں میں اُن لوگوں کو کیسے تلاش کر لیتا تھا جنہوں نے تاتاریوں کے خلاف لڑنے کے لئے مقامی آبادیوں کو ابھارا تھا؟  اور روم کے کلوسیم میں جب انسانوں کو بھوکے شیروں کے آگے ڈالا جاتا تھا تو اِس وحشیانہ کھیل کا انتظام کس کے سپرد تھا؟  اور جب شیر نے جنگل میں ایک شخص کو کھانے کا ارادہ کیا اور اُس شخص نے شیر کے کان میں سرگوشی کی اور سرگوشی سن کر شیر سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا تو اُس نے شیر کے کان میں کیا کہا تھا؟  آپ کو ان سوالوں کے جواب اچھی طرح مع...

خلا جو جنوب میں پیدا ہو رہا ہے

الطاف حسین کا زمانہ لد چکا۔ تو کیا جنرل پرویز مشرف کا عہدِ ہمایونی نہیں ختم ہو رہا؟  عہدِ ہمایونی سے کوئی شہنشاہ ہمایوں کا عہد نہ مراد لے لے۔ ہمایوں کم از کم اتنے کام کا تو نکلا کہ اس کی وفات کے بعد اس کا مقبرہ اس کی نسلوں کے لیے پناہ گاہ رہا۔ آخری چشم و چراغ‘ شاعرِ ماتم کناں‘ بہادر شاہ ظفر نے قلعے سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے ہی میں پناہ لی۔ تاریخ کا عجیب اتفاق ہے کہ دونوں آخری بادشاہ‘ بہادر شاہ ظفر اور شہنشاہِ اودھ واجد علی شاہ‘ ادب شاعری‘ ثقافت اور فنونِ لطیفہ کی خدمت کر رہے تھے جبکہ انتظامِ سلطنت دہلی اور لکھنؤ میں بیٹھے ہوئے انگریز ریذیڈنٹ چلا رہے تھے۔ طبلہ نوازی اور رقص کی حد تک تو جنرل صاحب بھی فنون لطیفہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔  جنرل پرویز مشرف نے ایک تاثر اپنے بارے میں یہ دیا ہوا ہے کہ وہ انڈیا کے معاملے میں کڑی کمان کا تیر ہیں۔ سخت اور غیر لچکدار! مگر حقائق یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جہاں الطاف حسین کا معاملہ آ جائے وہاں جنرل صاحب اپنی نام نہاد بھارت دشمنی کو بڑی صفائی سے گول کر جاتے ہیں۔ الطاف حسین کی ’را‘ کے ساتھ سازباز اب کسی اشتباہ سے بالاتر ہے۔ یہ کہنا کہ انڈیا ات...

بابئووں کا ڈنڈیا ناچ

تصویر

خواب اور خطابت

مولانا، قائداعظم کے مزار پر کھڑے تھے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے۔ فاتحہ خوانی کر کے باہر نکلے تو میڈیا والوں نے گھیر لیا۔ ’’کیا بات ہے مولانا؟ آپ اور بانیٔ پاکستان کے مزار پر حاضری اور فاتحہ خوانی؟ ایسا تو آج تک نہ ہوا تھا‘‘ مولانا اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے ’’تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کبھی بھی نہ ہو گا! آخر دیکھیے، ہم پاکستان سے فائدہ اٹھانے والوں میں سرفہرست ہیں۔ وزارتیں ہماری! کمیٹیاں ہماری! پروٹوکول، گاڑیاں، مراعات، اسمبلیاں، سب کچھ پاکستان ہی کے طفیل ہے تو پھر اس ہستی کے ہم احسان مند کیوں نہ ہوں جس کی جدوجہد کے باعث یہ ملک وجود میں آیا۔‘‘ اس کے بعد مولانا نے ایک خصوصی پریس کانفرنس کو خطاب کیا جس میں لندن بیٹھے ہوئے اس سیاست دان کو آڑے ہاتھوں لیا جو پاکستان کے بارے میں مسلسل ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔ مولانا نے بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس بیان پر احتجاج کیا جس میں انڈیا کو اشتعال دلایا گیا اور کہا گیا کہ انڈیا میں غیرت ہوتی تو پاکستان کی سرزمین پر مہاجروں کا خون نہ ہونے دیتا! مولانا نے پوچھا کہ جو انڈیا گجرات میں مسلمانوں کا خون بہاتا ہے اس سے آپ کس برتے پر مدد ما...

ابھی اُفق سلامت ہے

تو پھر کیا ہم تھک ہار کر بیٹھ جائیں؟ تو پھر کیا چراگاہ کو بھیڑیوں کے حوالے کر کے پہاڑوں کی طرف نکل جائیں؟ ہم ایک دو نہیں! ایک دو ہزار نہیں! ایک دو لاکھ نہیں! ایک دو کروڑ نہیں! ہم بیس کروڑ ہیں! جن چند سو افراد نے اس ملک پر قبضہ کر رکھا ہے وہ تو چاہتے ہی یہی ہیں! کیا یوسف رضا گیلانی نے نہیں کہا تھا کہ جو جانا چاہتا ہے چلا جائے روکتا کون ہے؟ نفرت کا یہ اظہار اس نے صرف اپنی طرف سے نہیں، اپنے پورے طبقے کی طرف سے کیا تھا۔ یہ تو چاہتے ہی یہی ہیں۔ ان کا بس چلتا تو یہ افریقہ یا عرب کا صحرا خریدتے اور بیس کروڑ لوگوں کو وہاں دھکیل دیتے تاکہ ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے والا کوئی نہ رہے!۔ گزشتہ کالم کے ردعمل میں، جس میں عرض کیا تھا کہ کوئی ضرور آئے گا اور سب کچھ بدل دے گا، پڑھنے والوں نے یاس کے مرجھائے ہوئے پھول بھیجے ہیں۔ بے یقینی کے پژ مردہ سندیسے! بیرون ملک سے لوگ پوچھتے ہیں کیا وہ اپنے بچوں کو اس وطن میں واپس بھیج دیں جہاں چند سو افراد کی حکمرانی ہے؟ جہاں سیاسی جماعتوں پر چند خاندانوں کی آمریت چمگادڑوں کی طرح لٹک رہی ہے! کچھ نے کرب کا اور دل برداشتگی کا اظہار یہ کہہ کر کیا ہے کہ کالم ...