اشاعتیں

ستمبر, 2009 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

گھڑا

یہ ان دنوں کی بات ہے جب کساد بازاری سرطان کی طرح پھیل چکی تھی اور بے روزگاری عام تھی! کوئی اقتصادی سرگرمی رونما نہیں ہو رہی تھی۔ خرید و فروخت کا بازار سرد تھا۔ لوگ پلاٹ لے کر منڈی میں بیٹھے تھے اور آدھی قیمت پر بیچنے کو تیار تھے لیکن خریدار عنقا تھا! درآمد برآمد کا کاروبار ٹھپ ہو چکا تھا۔ سرکاری شعبے میں یہ حال تھا کہ بیروزگاروں کو تو کیا نوکریاں ملتیں، پہلے سے موجود سرکاری ملازمین کو نکالا جا رہا تھا۔ سوائے کابینہ کے کسی شعبے میں توسیع نہیں ہو رہی تھی اور کابینہ میں نوکری حاصل کرنے کے لئے نیم خواندہ ہونے کے علاوہ بھی کئی کڑی شرطیں تھیں جن کا پورا کرنا آسان نہیں تھا۔ایسے میں جب مفتی صاحب نے مجھے اپنے ہاں ملازمت کی پیشکش کی تو مجھے یوں لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔ میرے اہل خانہ نے مشورہ دیا کہ میں ملازمت کی پیشکش قبول کرنے سے پہلے یہ ضرور پوچھ لوں کہ میرا کیا ہوگا، لیکن میں اس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ہم پاکستانیوں کو ایک بیماری یہ بھی لاحق ہے کہ پہلے تو نوکری کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں سفارشیں تو خیر کرائی ہی جاتی ہیں رشوت تک پیش کی جاتی ہے لیکن جب نوکری ملتی ہے تو ...

شہر کی چابیاں

کیا اجتماعی سطح پر ہمارا زوال اس درجے کو پہنچ گیا ہے کہ اب اردو زبان کو علماء کرام نے بھی ثانوی حیثیت دے دی؟ بے شک ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے! مسجد قاسم خان میں جب واجب الاحترام مفتی پوپلزئی صاحب ہلالِ عید دیکھنے کا اعلان فرما رہے تھے، تو بھلے وہ باقی ملک سے ایک دن پہلے نہیں، ایک ہفتہ پہلے عید کرنے کا اعلان کر دیتے اور بے شک وہ صوبائی حکمران جماعت کے دو نہیں، درجنوں وزیر اکٹھے کر لیتے، کم از کم یہ تو دیکھتے کہ وہ پوری قوم سے، پورے پاکستان سے اور تمام پاکستانیوں سے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، خطاب فرما رہے تھے۔ کیا کسی بھی منطق کی رو سے انہیں پہلے اردو میں اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا (یہ بھی نہیں کہ وہ اردو میں رواں نہیں تھے۔ بعد میں انہوں نے فصیح و بلیغ اردو میں خطاب فرمایا) پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں کو مخاطب کرنے کا کیا یہی طریقہ تھا؟ اور کیا اب قومی سطح پر ہماری وحدت بالکل ہی پارہ پارہ ہو چکی ہے؟ اور کیا ہم سارے پاکستانی ایک اکائی نہیں ہیں؟ کیا وہ لوگ جو مسجد قاسم خان میں جمع تھے، اردو سے اتنے نابلد تھے کہ انہیں سمجھانے کے لئے پہلے پشتو میں خطاب ...

ایف آئی آر

اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کتنی تھیں۔ بیس، یا بیس سے بہت زیادہ یا بیس سے کم وہ عورتیں جو کراچی میں مفت آٹا لینے کی خواہش میں ہجوم کے پیروں تلے کچلی گئیں، جتنی بھی تھیں، مرکر ثبوت چھوڑ گئی ہیں کہ پاکستان نااہلوں کے ہاتھ میں ہے اور نا اہلی بھی ایسی جس کے ارد گرد بددیانتی کا حاشیہ کھنچا ہوا ہے۔ آپکا کیا خیال ہے لاٹھی چارج کے بعد بھگدڑ میں مرنے والی ان عورتوں نے ’’وہاں‘‘ سب سے پہلے کون سا کام کیا ہو گا؟ جب لوگ جنازہ پڑھ کر واپس چلے گئے۔ دفن شدہ عورتوں نے کم از کم چار افراد کے خلاف ضرور ایف آئی آر کٹوائی ہو گی۔ صدر، وزیراعظم سندھ کا گورنر اور سندھ کا وزیراعلیٰ ان عورتوں کا موقف یقیناً یہ ہو گا کہ ان حکمرانوں کا فرض تھا کہ ہمارے گھروں میں راشن پہنچاتے اگر نہیں پہنچا سکتے تھے تو حکومت چھوڑ دیتے۔ جس ملک میں ریل کے حادثے پر ریلوے وزیر نے کہا ہے کہ ’’میں کیوں استعفیٰ دوں، میں کوئی ڈرائیور تھا اور یہ بیان تاریخ کا حصہ بن گیا ہو، اس ملک میں اگر مرکز کے حکمران اور صوبے کے والی قہقہہ مار کر یہ کہہ دیں کہ کیوں، ہماری ذمہ داری کیوں تھی؟ ہم کوئی راشن انسپکٹر تھے؟ تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن یہ با...

مظلوم گاؤں کی خادم پنجاب سے فریاد

2005 ء کی جنوری تھی۔ دھوپ کی تمازت نے جاڑے کو خوشگوار کیا ہوا تھا۔ یہ وہ دن تھا جب جھنڈیال کے اشراف۔۔ جن کی تعداد تقریباً پندرہ تھی۔ فتح جنگ کے تحصیل ہیڈ کوارٹر میں اٹک ضلع کے ناظم میجر طاہر صادق سے ملے ۔جھنڈیال تحصیل فتح جنگ کا ایک عجیب گاؤں ہے۔ عام اصول یہ ہے کہ قریے‘ قصبے اور شہر خستہ حال ماضی سے نکل کر خوشگوار حال کی طرف بڑھتے ہیں اور بہتر مستقبل کی امید رکھتے ہیں لیکن جھنڈیال نے الٹی گنگا بہائی ہے۔ اس کا ماضی تابناک تھا اور حال ویران ہے۔ یہاں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ ان کا نام غلام محمد تھا۔ انہوں نے ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ تک اس گاؤں میں بٹھ کر درس و تدریس کا کام کیا۔ بنگال اور آسام سے لے کر کابل اور بدخشاں تک کے طلبہ آکر ان سے فقہ اور فارسی ادب پڑھتے تھے تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ اردگرد کے گاؤں بھی ان طلبہ کے قیام و طعام کی ذمہ داری میں شریک ہو جاتے تھے۔ مولانا غلام محمد معروف طبیب بھی تھے اور مفت علاج کرتے تھے۔ تعلیم اور صحت کے حوالے سے شاندار ماضی رکھنے والے اس گاؤں کا حال آج اتنا تاریک ہے کہ یہ گاؤں عبرت کی مثال ہے۔ ضلع ناظم میجر طاہر صادق گاؤں کے اشرافیہ کے وفد کو خندہ...

نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم

یہ تو مجھے معلوم تھا کہ من موہن سنگھ پاکستان بننے سے پہلے چکوال کے علاقے کے کسی گاؤں میں رہتا تھا لیکن اس گاؤں کا نام پتہ تھا نہ محلِ وقوع۔من موہن سنگھ کو میں فوراً ملنا چاہتا تھا اور جو بات اس سے کرنا چاہتا تھا وہ اتنی ضروری تھی کہ تاخیر کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اسکے بارے میں سنا تھا کہ بہت سادہ اور فقیر منش انسان ہے لیکن جو کچھ بھی ہو، تھا تو وہ وزیراعظم اور وزیراعظم جتنا بھی فقیر منش ہو، وزیراعظم ہوتا ہے، اس تک رسائی کیلئے کوئی نہ کوئی سیڑھی ضرور ہوتی ہے۔ کم از کم ہمارے ہاں رواج یہی ہے۔ سوچ سوچ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اسکے گاؤں جاؤں۔ ضلع چکوال میں واقع یہ گاؤں جس کا نام ’’گاہ‘‘ ہے من موہن سنگھ کی جنم بھومی ہے جب ہمارے کمانڈو صدر جنرل مشرف من موہن سنگھ کو ملنے گئے تھے تو اسی گاؤں کے سکول ہی سے من موہن سنگھ کا تاریخ پیدائش کا سرٹیفکیٹ تحفے کے طور پر لے گئے گئے تھے!۔ایک بوڑھا آدمی، جس کا دعویٰ تھا کہ وہ من موہن سنگھ کا ہم جماعت رہا ہے، مشکل سے راضی ہوا کہ اس کے نام رقعہ دے۔ میری فرمائش تو یہ تھی کہ وہ مجھے دہلی لے چلے، آنے جانے کا بس کا کرایہ میرے ذمے ، لیکن اسکے خیال میں وہ ایک مصرو...

خادمِ حرمین شریفین کی خدمت میں بصد احترام

عالی جاہ! آج جب خلافتِ عثمانیہ کا دور دور تک نشان نہیں ہے، آپکی پْرشکوہ سلطنت ملّتِ اسلامیہ کیلئے عملاً مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلمان جس خطّے میں بھی بس رہے ہیں، اکثریت کی شکل میں یا اقلیت کی صورت میں، آپ ہی کی طرف دیکھتے ہیں! حرمین شریفین کے خادم کی حیثیت سے آپ پورے عالمِ اسلام کے سرپرست ہیں اور کروڑوں اربوں مسلمان جو قطبِ شمالی سے لے کر انتہائی جنوب میں واقع میلبورن تک اور لاس اینجلز سے لے کر جزائر جاپان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کو اپنے دل کے قریب پاتے ہیں! ۔جہاں پناہ! آپ سے زیادہ اس حقیقت سے کون باخبر ہوگا کہ پورے عالم اسلام میں پاکستان وہ واحد مملکت ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی، اسکے قیام کیلئے لاکھوں مسلمان عورتوں مردوں بچوں اور بوڑھوں نے جان کی قربان دی، اس کی سپاہ دنیا کی افواج میں تربیت اور جواں مردی کے حوالوں سے ایک ممتاز مقام رکھتی ہے اور اسکے سائنس دانوں نے ایک طویل عرصہ کی محنت ِ شاقہ کے بعد پاکستان کو دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی طاقت کا درجہ عطا کیا ہے! ۔عالی جاہا! آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ جس طرح سعودی عرب کی مملکت عالم اسلام کا روحانی مرکز ہے، اسی طرح پاکستان سائنس اور ٹیکن...