اشاعتیں

جولائی, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

خاندانِ غلاماں

نئی نظم کے متین شاعر فرخ یار کی اس نظم کا موضوع تو کچھ اور ہے مگر نظم کاآغاز اس نے چائے سے کیا ہے اور کیا ہی دل کو گرفت میں لے لینے والا آغاز ہے   ؎   چین سے چائے کی پتیاں آگئیں سہ پہر سج گئی ہم کہیں درمیاں سے اٹھے  زندگی تیرے پیالے کو سیدھا کیا اور امید سے بھرلیا چائے سب سے پہلے اہل چین نے پینا شروع کی۔سولہویں صدی میں پرتگالی پادری اور تاجر چین آئے تو چائے سے آشنا ہوئے۔انگریزوں نے سترھویں صدی میں چائے کو اپنایا۔ چینیوں کی طرح انگریز بھی رکھ رکھائو اور اہتمام سے چائے پیتے ہیں۔ برصغیر اور سری لنکا میں چائے کی کاشت ایسٹ انڈیا کمپنی نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے شروع کی۔ چائے نوشی کا جو حشر پاکستان اور بھارت میں ہوا وہ چینیوں اور انگریزوں کے لیے ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔یہاں چائے کو اس طرح پکایا جاتا ہے جیسے دال ، سبزی یا گوشت کو پکایا جاتا ہے۔ چائے کی پتی پانی میں ابالی جاتی ہے۔ پھر شکر ڈال کر مزید پکایا جاتا ہے۔ آخر میں دودھ ڈالا جاتا ہے۔ ابلنے کا عمل جاری رہتا ہے۔بسا اوقات شکر اور دودھ کی مقدار چائے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔کہیں اسے کڑک چائے کا نام دیا جاتا ہے اور ک...

ایمان اتحاد‘ تنظیم اور نفاق

’’اوورکوٹ‘‘ غلام عباس کا وہ افسانہ ہے جس کا تذکرہ کیے بغیر اردوادب سے سرسری طورپر بھی نہیں گزراجاسکتا۔ ہم سب نے یہ افسانہ پڑھا ہوا ہے۔ اکثر نے کورس کی کتاب میں اور بہت سوں نے اپنے شوق سے۔ اس میں لاہور کی مال روڈ پر ایک خوش پوش شخص شام کو مٹرگشت کرتا ہے۔ اس نے دیدہ زیب اوورکوٹ پہنا ہوا ہے ۔ گلے میں سکارف باندھا ہوا ہے۔ پالش کیے ہوئے جوتے پہنے ہوئے ہیں۔ وہ اپر کلاس کا فرد لگتا ہے۔ لیکن اس کی موت کے بعد راز کھلتا ہے کہ اس کے اوور کوٹ کے نیچے قمیض ہی نہیں تھی اورجیب سے فقط چند سکے نکلتے ہیں یا وہ اشتہار جو مارکیٹنگ کرنے والے اسے تھماتے رہے۔  ظفر اقبال نے اس پوری صورت حال کو ایک شعر میں بیان کردیا ہے   ؎ ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر ظفرؔ سوراخ اسی قدر ہیں پرانی جراب میں  رمضان کے اس مہینے پر ہم پاکستانی اپنے طرز عمل پر غور کریں تو ہمارا حال وہی ہے جو اوورکوٹ میں ملبوس بظاہر خوش پوش شخص کا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ اوورکوٹ کے نیچے ہم نے ایک پھٹی پرانی بدبودار بنیان پہن رکھی ہے۔ ہمارے جوتے پالش سے چمک رہے ہیں لیکن جرابوں کی ایڑیاں پھٹی ہوئی ہیں‘ پنجوں میں سوراخ ہیں اور جرابیں پا...

پروفیسر غلام اعظم

میں نے پروفیسر غلام اعظم کو صرف ایک بار تقریر کرتے سنا۔ اُن دنوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبۂ اقتصادیات کا طالب علم تھا۔ اگست 1969ء میں ڈھاکہ کے ناظمِ جمعیت عبدالملک کو شہید کر دیا گیا۔ تعزیتی جلسہ میں پروفیسر صاحب نے جذباتی اور طوفانی تقریر کی۔ ملاقات ایک آدھ بار ہی ہوئی۔ کھلی پیشانی‘ چمکتی آنکھیں‘ چہرے پر حد درجہ جاذبیت‘ آواز میں نرمی اور مٹھاس‘ مقناطیسی شخصیت۔ حسینہ واجد کی حکومت کی نام نہاد جنگی جرائم کی عدالت نے نوے سالہ پروفیسر غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا دی ہے۔ گویا اگر وہ مزید نوے سال زندہ رہیں تو زنداں ہی میں رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک غیر انسانی وحشیانہ سزا ہے۔ اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ 1948 ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان ڈھاکہ گئے تو غلام اعظم اس وقت ڈھاکہ یونیورسٹی سنٹرل سٹوڈنٹس یونین کے سیکرٹری جنرل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر مشرقی پاکستانی کا دل اس بات پر مجروح تھا کہ صرف اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف سے بنگلہ کو قومی زبان قرار دینے کی یادداشت وزیراعظم کی خدمت میں غلام اعظم ہی نے پیش کی۔ فروری 1956ء میں جب مو...

کئی نوری سال

چودھری بیمار ہوگیا تو میراثی کے بچے نے ماں سے پوچھا کہ بیمار چودھری جانبر نہ ہوا تو اگلا چودھری کون ہوگا۔ ماں نے بتایا کہ اس کا بیٹا۔ بچے نے پوچھا، وہ بھی مر گیا تو پھر؟ ماں نے کہا پھر اس کا بیٹا۔ پرامید بچے نے پوچھا وہ بھی مر گیا تو… میراثن نے کہا کہ سارا گائوں بھی مر جائے تو تم کبھی چودھری نہیں بن سکتے۔ 1947ء سے لے کر اب تک پاکستانی عوام اس آس پر بیٹھے ہیں کہ ایک دن وہ بھی پاکستان کے حکمران بنیں گے‘ لیکن لگتا ہے پاکستان کے سارے سردار اور نواب بھی رخصت ہوجائیں تو عوام کی باری پھر بھی نہیں آئے گی۔ پریکٹس کے لیے برطانیہ سے حکمران منگوانے شروع کیے جا چکے ہیں۔ جنگل کی سب سے چست مخلوق جنگل کی بادشاہ بن گئی۔ کئی دن گزر گئے اس نے نظام مملکت میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ ایک دن سب جانور اکٹھے ہو کر اس کے حضور گئے۔ بادشاہ سلامت درخت کی ایک شاخ پر بیٹھے تھے۔ وفد کو دیکھا تو کود کر ساتھ والے درخت کی ٹہنی پر جا بیٹھے۔ وہاں سے چھلانگ لگائی تو واپس پہلے درخت کی کسی اور ٹہنی پر براجمان ہوگئے۔ وفد نے مطالبات پیش کیے تو فرمانے لگے، ان مسائل کو چھوڑیے، آپ حضرات میری آنیاں جانیاں تو دیکھیے۔ مسلم لیگ نون عوام ...

ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا

جب قہقہے بکھیرنے والے بھی رونے رُلانے پر آجائیں تو سمجھیں کہ آخری حد آن پہنچی ہے۔ یوں بھی بتایا جارہا ہے کہ پاکستانی نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں۔ پہروں سی این جی سٹیشنوں پر انتظار کرنا، کبھی یوپی ایس کی بیٹریوں کو تلاش کرنا، کبھی جنریٹروں کی قیمتیں معلوم کرنا ، ہرآنے والے مہینے زیادہ سے زیادہ مہنگی ہوتی اشیائے روزمرہ سے گتکا کھیلنا کہ کون سی لی جائے اور کس کے بغیر گزارہ کرنا سیکھا جائے اور کون سی کتنی لی جائے۔ گھروں میں مالی معاملات پر جھگڑے ،بیوی بچوں کے اخراجات اور مطالبات۔ نتیجہ خودکشی یا چڑچڑے پن کی شکل میں۔ رہی سہی کسر اس خوف نے پوری کردی ہے کہ گاڑی یا موٹرسائیکل نہ چوری ہوجائے، بھتے کی پرچی نہ ملنی شروع ہوجائے اور خاندان کے کسی فرد کو اغوا کرنے والے نہ لے جائیں۔  ظریفانہ شاعری کے بادشاہ خالد مسعود نے، جسے اس کی افتاد طبع نے پژمردہ چہروں پر مسکراہٹیں چھڑکنے کے کام پر لگایا ہوا ہے، اب لوگوں کو ڈرانے پر مامور نظرآتا ہے۔ خالد نے لکھا ہے کہ ملتان  جیسے شہر میں بھی (جواس کے بقول بہت بڑا شہر نہیں ہے ) بھتہ خوری عام ہوگئی ہے۔ ’’لازمی‘‘ چندے کے نام پر بھتے کی پرچیاں تقسیم ہورہی ...

نہیں ‘ہم ناکام ریاست نہیں !

جو بدبخت کہتے ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے‘ ہم نے ان کے منہ پر ایک اور تھپڑ مارا ہے۔ زناٹے دار تھپڑ! کیا یہ لوگ اندھے ہوگئے ہیں ؟ کیا تعصب ان کی آنکھوں میں موتیا بن کر اتررہا ہے ؟ ہم ان کو کتنے ثبوت دیں گے۔ اس ناقابل تردید حقیقت کے کہ ہم ناکام ریاست نہیں ہیں۔ ہم کامیاب ریاست ہیں۔ ہماری کامیابی کی کہکشائیں آسمانوں پر دمک رہی ہیں۔  آپ یہ نہ سمجھیے کہ ایک روز قبل جوکچھ بلوچستان میں ہوا ہے، کالم نگار اس کا ذکر کرنا چاہتا ہے۔ صوبائی وزیر اپنے ذاتی مسلح گارڈ بلوچستان اسمبلی کے اندر لے جانا چاہتا تھا۔ وہ صرف وزیر نہیں تھا‘ سردار بھی تھا۔ پولیس نے اجازت نہ دی۔ تلخ کلامی ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے انصاف کیا اور ایس پی کو معطل کردیا۔ ملک میں پڑھے لکھے لوگوں نے مسرت کے شادیانے بجائے تھے کہ پہلی بار مڈل کلاس کے ایک تعلیم یافتہ فرد کو وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے۔ مڈل کلاس کے عروج کا مزہ اہل وطن کراچی میں پہلے چکھ چکے ہیں اور مسلسل چکھ رہے ہیں۔ خیر‘ ایک مزہ اور سہی۔ یہ صوبائی وزیر مسلم لیگ نون کا بلوچستان میں ایک اہم ستون ہے۔ صوبے کا وزیر اعلیٰ مسلم لیگ نون کا مرہون احسان ہے ورنہ وزیراعلیٰ کیسے بنتا۔ ا...

میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیہ

                                   وہ پانچ تھے، ایک ہی ملک سے تھے اور پانچوں پاکستانی تھے۔ پھر ان  میں سے ایک نے اپنی شملے والی پگ کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں پنجابی ہوں۔ دوسرے نے کالی لنگی سر پر باندھی اور بندوق گلے میں ڈال کر نعرہ لگایا میں پختون ہوں۔ تیسرے نے اجرک اوڑھی اور کہا میں سندھی ہوں، چوتھے نے کڑھی ہوئی واسکٹ پہن کرکہا میں بلوچی ہوں۔ پانچویں نے کہا، نہیں، ہم سب پاکستانی ہیں۔ چاروں نے اصرار کیا نہیں ہم  بلوچ ہیں، ہم سندھی ہیں ،ہم پختون ہیں ،ہم پنجابی ہیں تو پھر پانچویں نے کہا کہ ایسا ہے تو ایسا ہی سہی، پھر میں بھی مہاجر ہوں۔  الطاف حسین کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے ۔کچھ لوگ اس پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ افسوس ! ان کی نظر دیوار کے پار دیکھنے سے قاصر ہے۔ کچھ لوگ الطاف حسین کو ایم کیوایم اور ایم کیوایم کو الطاف حسین کہہ رہے ہیں اور برطانوی پولیس کو طالبان کا ہم نواقرار دے رہے ہیں۔ افسوس! وہ بچوں جیسی بات کررہے ہیں یا دوسروں کو بچہ سمجھ رہے ہیں۔ افراط اور تفریط سے کوئی مسئلہ سلجھتا ...

وژن! جناب شہباز شریف! وژن [ دوسری قسط ]

                                        ’’وادی تیراہ سے طالبان کمانڈر منگل باغ کی قید سے فرار ہو کر وزیر آباد کا نوجوان گھر پہنچ گیا۔ سہیل منشا نے انکشاف کیا ہے کہ وادیٔ تیراہ کے سنگلاخ پہاڑوں میں اسلحہ، بم وغیرہ بنانے کی فیکٹری ہے جہاں 52 سے 70نوجوان کام کرتے ہیں اور فیکٹری میں تیار ہونے والا اسلحہ گدھوں پر لاد کر سرحد کے قریب گاڑیوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ وزیر آباد کے رہائشی سہیل منشا نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج گوجرانوالہ طارق افتخار کی عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔‘‘ سہیل نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو بتایا کہ وہ 6فروری 2013ء کو گھر سے کتاب لینے کے لیے جارہا تھا کہ سفید پگڑیاں پہنے چار مولویوں نے اسے روک لیا اور اسے ایک شاپنگ بیگ پکڑ اکر اس کی گرہ کھولنے کو کہا۔ شاپنگ بیگ پر وی آئی پی لکھا ہوا تھا۔ جیسے ہی اس نے گرہ کھولی ا س میں موجود پائوڈر سے اسے کچھ ہوش نہ رہا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک نامعلوم جگہ پر تھا جہاں اس کا ہاتھ اور ٹانگ زنجیروں سے بندھی تھی۔ اسے بتایا گیا کہ وہ منگل باغ کا قیدی ہ...

وژن! جناب شہباز شریف‘ وژن!

                            یہ ایک کیچڑ بھرا میلا قصبہ تھا۔ پیرودھائی یا بادامی باغ جیسا۔ بس فرق یہ تھا کہ سمندر کے کنارے تھا۔ یہاں چپوئوں سے چلنے والی کشتیاں تھیں، انسانی ٹانگوں کے زور سے حرکت کرتے سائیکل رکشے تھے۔ ریڑھیاں دھکیلتی مریل چینی عورتیں تھیں اور چائے بیچتے لکڑی کے غریبانہ کھوکھے تھے۔ حالت یہ تھی کہ سنگا پور کو 1965ء میں ملائیشیا نے الگ کر دیا تو لی کوانگ یِؤ کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ الگ ہو کر زندہ کیسے رہیں گے۔ بے یقینی سی بے یقینی تھی۔ لیکن سنگا پور خوش قسمت تھا کہ اسے  لی  جیسا لیڈر ملا ہوا تھا۔ یہ لی کا وژن تھا جس نےچند سالوں میں سنگا پور کو ایشیا کا ٹائیگر بنا دیا۔ کیچڑ بھری بستی زمین پر دمکتا ستارہ بن گئی۔ آج ترقی یافتہ دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی کمپنی ہو جس کا دفتر یا ایشیائی ہیڈکوارٹر سنگا پور میں نہ ہو۔ آپ لی کے وژن کا اندازہ لگایئے۔ سنگا پور میں تین بڑے گروہ آباد ہیں۔ چینی 74 فیصد ہیں۔ مَلے (ملا ایشیا کے ہم نسل) تیرہ فیصد اور انڈین تامل نو فیصد۔ لی نے سنگا پور کے لیے چار قومی زبانیں ت...

سب سے وکھرے‘ سب سے برتر

                          ناممکن تو نہیں تھا مگر مشکل اتنا تھا کہ بس ناممکن ہی لگ رہا تھا۔ سرچھپانے کے لیے چھت بننے کا امکان روشن ہورہا  تھا لیکن پھر تاریکی میں چھپ چھپ جاتا تھا۔ نائب قاصد ارشاد کو اس کے ایک نرم دل رشتہ دار نے پانچ مرلے زمین کی پیشکش کی تھی اس شرط پر کہ چارماہ کے اندر اندر تین لاکھ روپے کی ادائیگی کردی جائے۔  شاید اس کے بعد کوئی اور موقع نہ ملے۔ ارشاد نے کمرہمت باندھ لی۔ بیوی کے زیور بیچے۔ بھائی سے قرض لیا۔ کچھ پیسے سسر نے کہیں سے بندوبست کرکے دیے۔ یوں دوماہ کی شبانہ روز کوشش سے دولاکھ کا انتظام ہوگیا۔ ایک لاکھ مزید درکار تھے۔ کئی جگراتوں کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے اپنے محکمے سے ہائوس بلڈنگ ایڈوانس مل سکتا ہے بشرطیکہ اس کی پشت پر کوئی مضبوط ہاتھ ہو۔ خدانے اس کا بھی بندوبست کردیا ۔ اور ایک لاکھ روپے اس کے سیونگ اکائونٹ میں دفتر سے بذریعہ چیک جمع ہوگئے۔ یہ 2012ء کے رمضان سے پہلے کا ذکر ہے۔  عیدالفطر کے ایک ہفتہ بعد مدت پوری ہورہی تھی۔ اس نے تین لاکھ روپے کی رقم ادا کرکے زمین اپنے نا...

اعزاز

ایک ایک پیسہ جوڑ کر سالہا سال اپنا اور بال بچوں کا پیٹ کاٹتا رہا اور یوں زندگی میں پہلی بار میرے پاس ایک لاکھ روپے جمع ہوئے۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ چوری چکاری عام ہے بہتر ہے اسے بنک میں جمع کرادو۔بنک گیا تو گارڈ نے اندر جانے سے روک دیا۔پوچھنے لگا رقم جمع کرانے آئے ہو یا نکلوانے؟ میں نے بتایا کہ جمع کرانے آیا ہوں۔کہنے لگا اس کا مطلب ہے تم سرمایہ دار ہو۔اندر جانے سے پہلے اپنی قمیض اتار کر میرے حوالے کرو ۔میں نے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔اس کی دلیل یہ تھی کہ ڈار صاحب نے آئی ایم ایف کی ساری شرطیں مان کر اس کا یعنی گارڈ کا کشکول تک توڑ دیا ہے اور اب وہ بالکل تہی دست یعنی خالی ہاتھ ہے۔مرتا کیا نہ کرتا ، قمیض اس کے حوالے کی اور یوں بنک منیجر تک رسائی ہوئی۔وہ ایک ان پڑھ کلائنٹ سے نمٹ رہا تھا۔لمبی داڑھی والے اس شخص نے سر پر بڑا سا پگڑ باندھ رکھا تھا اور ایک ایسی زبان میں بات کررہا تھا جو مجھے نہیں آتی تھی۔اس نے چادر اوڑھ رکھی تھی۔بنک منیجر اس کے سامنے بچھا جاتا تھا۔کافی دیر گفتگو ہوتی رہی۔پھر پگڑ والے شخص نے چادر سے کرنسی نوٹوں کے پلندے نکالنے شروع کیے یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا ر...

بھیک مانگتی ماں اور گھوڑوں کی خریداری کرتا بیٹا

پہلی خبر یہ ہے کہ گومل زام ڈیم کے اغوا شدہ اہلکاروں کی نئی ویڈیو جاری ہوگئی ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو اگلی ویڈیو میں ایک اہلکار کو گولی مار دی جائے گی۔ ان سرکاری ملازموں کو اغوا ہوئے ایک سال ہونے کو ہے۔ ان لوگوں نے خیبر پختونخوا کے گورنر اور وزیراعلیٰ اور واپڈا کے حکام سے فریاد کی ہے کہ خدا کے لیے انہیں رہائی دلوائی جائے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ کراچی میں ایک خاتون ایک اولڈ ہوم ٹرسٹ چلا رہی ہے۔ 22 مئی 2013ء کو ایک شخص اس ٹرسٹ کے دفتر میں آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ ملا عمر کا بھتیجا ہے اور یہ کہ اسے پچاس لاکھ روپے بھتہ درکار ہے۔ نہ دینے کی صورت میں ٹرسٹ چلانے والی خاتون کو قتل کر دیا جائے گا اور عمارت کو دھماکے سے اڑا دیا جائے گا۔ پولیس کو بتایا گیا لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ 25 جون کو وہ شخص دوبارہ آیا‘ اس کے ساتھ مسلح افراد بھی تھے۔ خاتون رپورٹ درج کرانے تھانے پہنچی تو وہ شخص تھانے میں پہلے سے موجود تھا! تیسری خبر یہ ہے کہ مری کے ایک معروف بزنس مین کو دو ماہ سے بھتے کے مطالبات اور دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اس سے دس کروڑ روپے طلب کیے جارہے تھے۔ تقاضا کرنے والے اپنے...

کوئی ہے جو ہماری مدد کرے!

ہمارے خلاف ہمیشہ سازشیں ہوئیں۔ امویوں کے دور ہی کو لیجیے۔ ہم نے تو کچھ بھی نہیںکیا تھا۔ عربوں کو غیر عربوں پر اس حد تک فوقیت دی جاتی تھی کہ غیر عرب کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ سازش ہوئی اور ا مویوں کی حکومت ختم ہوگئی۔ ہسپانیہ سے بھی ہماری حکومت کو سازش کے تحت دیس نکالا ملا۔ امرا اور افسروں کی تعیناتیاں اور ترقیاں شاہی خاندان کی خواتین کی مرضی سے ہونے لگی تھیں۔ ایک مسلمان ریاست، دوسری مسلمان ریاست کو سبق سکھانے کے لیے نصرانی حکومتوں سے مدد مانگتی تھی۔ میدان جنگ میں ہار جیت کا فیصلہ شطرنج کھیل کر کیا جاتا تھا۔ تخت نشینی کی جنگیں عام تھیں۔ آخری خلیفہ جلا وطنی کے لیے بحری جہاز پر سوار ہونے لگا تو پیچھے مڑ کر دیکھا۔ قرطبہ کے محلات دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ماں نے کہا جس سلطنت کی حفاظت مردوں کی طرح نہ کرسکے، اس پر عورتوں کی طرح آنسو کیوںبہاتے ہو؟ لیکن بے شمار ایسی وجوہات کا سلطنت کے خاتمے سے کیا تعلق؟ سو باتوں کی ایک بات ہے کہ ہمارے خلاف سازشیں ہوئیں اور ہمیں ہسپانیہ چھوڑنا پڑا۔ پھر ایک بہت بڑی سازش برصغیر کے مسلمانوں کے خلاف کی گئی۔ سازش کے تحت مغل بادشاہوں نے سفی...

کیا ہم اتنے عقل مند ہیں؟

یہ تقریباً ایک سو تیس یا چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ سرسید احمد خاں نے لندن کا سفر کیا۔ وہ اور ان کے ساتھی بحری جہاز سے جنوبی فرانس کے ساحل پر اُترے۔ فرانس کے شمال سے انہوں نے پھر بحری جہاز لینا تھا اور انگلش چینل عبور کرنی تھی۔ ان کے ایک ہم سفر کے پاس ڈھنگ کا لباس نہیں تھا۔ غالباً موسم کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔ کسی نے بتایا کہ یہاں تیار لباس مل جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسی ہی دکان میں گئے۔ سرسید بتاتے ہیں کہ وہاں ہر سائز کے لباس موجود تھے۔ ایک مس صاحبہ کائونٹر پر بیٹھی تھیں۔ ان کے ساتھی نے ماپ دیا اور دس پندرہ منٹ کے بعد اُن کے جسم پر نیا لباس تھا جو اس طرح موزوں لگ رہا تھا جیسے انہی کے ماپ کا سیا گیا ہو۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں پوشاک تو کیا‘ ٹوپیاں بھی آرڈر پر تیار ہوتی تھیں۔ ڈیڑھ سو برس ہونے کو ہیں۔ ہم اس معاملے میں ابھی وہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ ایک بہت ہی قلیل تعداد سلی سلائی قمیضیں اور پتلونیں خرید رہی ہے۔ تیار شدہ شلوار قمیض اور کُرتے بھی بازار میں دستیاب ہیں لیکن پاکستان کی کل آبادی کا پانچ دس فیصد یا اس سے بھی کم حصہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو ہمارے کلچر...

شتر مرغ

وہ دیر کے ایک دور افتادہ گائوں میں پیدا ہوا۔ اس گائوں کے تقریباً سارے مکان کچے تھے۔ سب مرد باریش تھے اور ساری عورتیں سخت پردہ کرتی تھیں۔ سب مردوں کا ایک جیسا لباس تھا۔ شلوار قمیص۔ دس سال کا تھا جب وہ یہاں  آیا۔ چھ سال ہوچکے ہیں۔ دو یا تین سال اور یہیں رہنا ہوگا۔ یہ مدرسہ اقامتی ہے۔ وہ رات دن یہیں رہتا ہے۔ مدرسہ کے ساتھ مسجد بھی ہے۔ وہ مسجد بھی اسی مکتبِ فکر کی ہے جس سے مدرسہ وابستہ ہے۔ وہ یہاں کبھی کبھی اخبار پڑھتا ہے۔ اخبار بھی اسی مکتبِ فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، سچی بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم دو حصوں میں منقسم ہوچکی ہے۔ دونوں حصے بہت بڑے ہیں۔ جوکوئی اس حقیقت سے اغماض برتتا ہے ، چشم پوشی کرتا ہے، یا اس کا ادراک کرنے سے قاصر ہے، اس سے حقیقت کے وجود پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ سوال احمقانہ ہے کہ دونوں حصوں میں کون صحیح ہے اور کون غلط۔ یہ انسانوں کا معاملہ ہے۔ ان کے عقائد ، ان کے رویوں، ان کی عقلوں ، ان کے عمل اور ان کے ردعمل کا معاملہ ہے۔ یہ نباتات‘ جمادات اور معدنیات کی سائنس نہیں کہ ایک فارمولے کا یکساں حالتوں پر یکساں اطلاق ہو۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مدرسوں والے غل...