…اور اب آ کسیجن مافیا کا انتظار کیجیے
اپنے دوست چوہدری ناصر علی کے گھر بیٹھا تھا۔چائے کا دور چل رہا تھا۔ چوہدری اپنے بزنس کی کامیابی کی خبریں سنا رہا تھا۔ مجھے اس لیے بھی پسند کرتا ہے کہ میں ایک صابر سامع ہوں۔ دفعتاً گھنٹی بجی۔ پھر ملازم اندرآیا'' سر جی ! پانی والا آیا ہے‘‘۔ چوہدری نے بے نیازی سے اسے کہا کہ بیگم صاحبہ سے پوچھ لو کتنی بوتلیں لینی ہیں۔ میں کھڑ کی سے دیکھ رہا تھا۔ ٹرک والے نے پانی سے بھری بڑے سائز کی بوتلیں ملازم کے حوالے کیں‘ خالی بوتلیں اس سے لے کر ٹرک میں ڈالیں‘ اور انجن کا شور گلی میں پھیلاتا اگلی منزل کو روانہ ہو گیا۔ '' پانی والا آیا ہے‘‘۔ چوہدری کا ملازم تو یہ فقرہ کہہ کر بھول گیا ہو گا مگر مجھے یاد کے بے کنار سمندر میں غوطہ زن چھوڑ گیا۔ ایک آواز آتی تھی ''ماشکی آیا ہے‘‘۔ پھر پردے والی بیبیاں اندر کمرے میں چلی جاتی تھیں۔ ماشکی‘ مَشک کمر پر لادے گھڑونچی پر رکھے گھڑوں میں پانی ڈالتا۔پانی ڈالتے وقت مَشک کے منہ پر ململ کا باریک کپڑا رکھتا تاکہ کیڑے یا کوئی اور کثافت گھڑوں کے اندر نہ جا سکے۔ مسجد میں بھی ماشکی ہی پانی ڈالتا۔ پانی اسے کتنے دور سے لانا پڑتا؟ یہ اس کی قسمت پر منحصر تھا۔...