اشاعتیں

جنوری, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

…اور اب آ کسیجن مافیا کا انتظار کیجیے

اپنے دوست چوہدری ناصر علی کے گھر بیٹھا تھا۔چائے کا دور چل رہا تھا۔ چوہدری اپنے بزنس کی کامیابی کی خبریں سنا رہا تھا۔ مجھے اس لیے بھی پسند کرتا ہے کہ میں ایک صابر سامع ہوں۔ دفعتاً گھنٹی بجی۔ پھر ملازم اندرآیا'' سر جی ! پانی والا آیا ہے‘‘۔ چوہدری نے بے نیازی سے اسے کہا کہ بیگم صاحبہ سے پوچھ لو کتنی بوتلیں لینی ہیں۔ میں کھڑ کی سے دیکھ رہا تھا۔ ٹرک والے نے پانی سے بھری بڑے سائز کی بوتلیں ملازم کے حوالے کیں‘ خالی بوتلیں اس سے لے کر ٹرک میں ڈالیں‘ اور انجن کا شور گلی میں پھیلاتا اگلی منزل کو روانہ ہو گیا۔ '' پانی والا آیا ہے‘‘۔ چوہدری کا ملازم تو یہ فقرہ کہہ کر بھول گیا ہو گا مگر مجھے یاد کے بے کنار سمندر میں غوطہ زن چھوڑ گیا۔ ایک آواز آتی تھی ''ماشکی آیا ہے‘‘۔ پھر پردے والی بیبیاں اندر کمرے میں چلی جاتی تھیں۔ ماشکی‘ مَشک کمر پر لادے گھڑونچی پر رکھے گھڑوں میں پانی ڈالتا۔پانی ڈالتے وقت مَشک کے منہ پر ململ کا باریک کپڑا رکھتا تاکہ کیڑے یا کوئی اور کثافت گھڑوں کے اندر نہ جا سکے۔ مسجد میں بھی ماشکی ہی پانی ڈالتا۔ پانی اسے کتنے دور سے لانا پڑتا؟ یہ اس کی قسمت پر منحصر تھا۔...

2035ء

قبر کھودی جا چکی تھی۔گور کن منتظر تھے۔ میت کے ورثا‘اعزہ و اقارب ‘ جنازہ پڑھ چکنے کے بعد یہیں تھے۔ یہ بھی عجیب دردناک حقیقت ہے‘ مرنے والے سے جتنی زیادہ محبت ہو‘ اتنی ہی خواہش اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈالنے کی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ پھول بھی لائے تھے کہ قبر پر چڑھائیں گے۔ ایک سرکاری اہلکار جو وہاں موجود تھا‘ تدفین کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔اس نے انتظار کرنے کوکہا تھا۔ سب حیران تھے کہ اس اہلکار کو کس نے بھیجا ہے؟یہ تدفین کے عمل کو کیوں روک رہا تھا۔ سب اُس پر اپنی پریشانی اور تشویش کا اظہار کر چکے تھے۔مگر اہلکار کے چہرے پر ایک سرکاری بے نیازی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ وہ ہر بار ایک ہی جواب دیتا کہ اوپر سے این او سی آنا ہے۔ اس کے بعد ہی تدفین کی اجازت ملے گی۔ کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد ‘ جب لوگوں کے اعصاب جواب دینے لگے اور اس سے سخت لہجے میں بات کی گئی تو اس نے یہ وحشت ناک خبر دی کہ یہ قبرستان عالمی اداروں کے پاس رہن رکھا گیا ہے۔ اس کے عوض ملک نے قرضہ لیا تھا۔ قرضہ ادا نہ ہو سکا۔ نتیجے میں عالمی ادارے نے قبرستان پر اپنی ملکیت جتائی اور پٹواری نے اس کی ساری زمین عالمی ادارے کے نام کر دی۔ اب یہ عالمی ادارہ ہر ق...

…اتنی جلدی ہے تو خط خود پوسٹ کر دو

غلط تھے ہمارے اندازے! غلط تھے ہم! انسان کی فطرت میں جلد بازی ہے اور یہی جلد بازی تو ہے جو اس کی رائے کو متوازن نہیں رہنے دیتی۔ ہم سے بھی یہی ہوا! ہم نے اس حکومت کے متعلق رائے قائم کرنے میں جلدی کی۔ کاش! ہم انتظار کر لیتے! آج ندامت نہ اٹھانا پڑتی! ہم اپنی غلطی، بہر طور، تسلیم کرتے ہیں! انسان خطا کا پتلا ہے! ہم بھی انسان ہیں! اللہ معاف کرے کیا کیا اول فول باتیں کیں ہم نے اس حکومت کے بارے میں۔ کبھی کہا کہ پولیس کو نہیں سدھار رہی! کبھی کہا کہ ناصر درانی کو ہٹا دیا گیا۔ کبھی تھانہ کلچر کو لے کر ساری حکومت ہی کو مطعون کر دیا‘ حالانکہ بات ساری اتنی تھی کہ وزیر اعظم موقع کا انتظار کر رہے تھے۔ جیسے ہی موقع ملا‘ انہوں نے ضرب لگا دی! ایسی ضرب کہ معترضین گھائل ہو رہے ہیں۔ یہ بے مثال داستان تب شروع ہوئی جب دارالحکومت کی پولیس کے نئے سربراہ نے وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ اب آپ قانونی موشگافیوں میں نہ پڑیے کہ وفاقی پولیس کا سربراہ تو وفاقی سیکرٹری داخلہ کو جوابدہ ہوتا ہے اور اس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کو۔ یہ بھی نہ پوچھیے کہ یہ ملاقات پولیس کے سربراہ کی اپنی خواہش پر ہوئی یا وزیر اعظم کے حکم پر؟ اگر اپنی...
امریکہ میں ایک کینسر ہسپتال کے بانی‘ پاکستانی نژادڈاکڑ نے کرسمس پر مریضوں کو تحفہ دیا۔ اس نے دو سو مریضوں کی واجب الادا فیس‘ ساڑھے چھ لاکھ ڈالر معاف کر دی۔ ہمارے عالم فاضل دوست جناب اسلم ملک نے اس خبر پر لطیف مگر دردناک تبصرہ کرتے ہوئے غنی کشمیری کا شہرہ آفاق شعر چسپاں کیا ہے؎ غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کُن کہ نورِ دیدہ اش روشن کُند چشمِ زلیخا را کہ کنعان کے بزرگ ( حضرت یعقوب) کا دن تو تاریکی میں ڈوبا ہے مگر ان کا نورِ نظر زلیخا کی آنکھوں کو روشن کررہا ہے۔  اس میں کیا شک ہے کہ یہ ڈاکٹر جو ترقی یافتہ ملکوں میں بے مثال کارکردگی دکھا رہے ہیں ‘ ہمارے لخت ہائے جگر ہیں‘ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر گئے ہیں۔ہر ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کاش یہ اپنے ملک کو فائدہ پہنچاتے ! مریض یہاں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں اور پاکستانی ڈاکٹر امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شکوہ جائز ہے ؟ ہماری سب سے بڑی دلیل اس حوالے سے یہ ہے کہ قوم ایک ڈاکٹر تیار کرنے پر زرِ کثیر اور بہت سے وسائل خرچ کرتی ہے مگر جب ڈاکٹر قوم کی خد...

وزیر ہمارا ہی بھائی ہے

ایک وزیر صاحب نے کہا ہے ''سابق حکومت ہمارے (یعنی موجودہ حکومت کے) راستے میں بارودی سرنگیں بچھا کر گئی ہے۔ انہیں پتہ تھا کہ ان کی حکومت نہیں آنی اور ان کے غلط معاہدوں اور منصوبوں کا خمیازہ آنے والی حکومت بھگتے گی۔ موجودہ حکومت نے ان کی غلط پالیسیوں کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالا۔ اربوں روپے کی سبسڈی دی لیکن عوام پر بوجھ نہیں ڈالا۔ ان کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ آنے والے سالوں میں بھی بھگتنا پڑے گا۔ جب ان سے سوال کرتے ہیں تو آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔ ملک کو گروی رکھ کر چلے گئے۔ عوام نے ان کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کے جلسے فلاپ ہو چکے۔ یہ حکومت کی کارکردگی اور اصلاحات سے خوفزدہ ہیں‘‘۔ ان وزیر صاحب کا سیاسی بائیو ڈیٹا ملاحظہ فرمائیے: 2002ء میں مسلم لیگ قاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن جیتے۔ شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیر رہے۔ 2008ء کے انتخابات میں قاف لیگ ہی کی طرف سے کھڑے ہوئے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ موسم بدلا۔ پرندوں نے ہجرت کی تو آپ نے بھی 2012ء میں مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کر لی۔ 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ نون کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیا مگر منتخب نہ ہو سکے؛ تاہم 2014ء کے ضمنی ...

………فیڈرل اور صوبائی پبلک سروس کمیشن! یا ٹھہرا ہوا متعفن پانی؟

پنجاب پبلک سروس کمیشن میں جو کچھ ہوا آپ میڈیا میں پڑھ اور سُن چکے ہوں گے! لیکچرر، تحصیلدار، اکاؤنٹس افسر، سمیت خالی اسامیاں پُر کرنے کے لیے جو امتحانات کمیشن نے لینے تھے، یا لیے، ان کے پرچے لاکھوں میں فروخت ہوئے۔ اسے لطیفہ سمجھیے یا ٹریجڈی کی انتہا کہ اینٹی کرپشن کے محکمے کی اسامیوں کے پرچے بھی بیچے گئے۔ جن دو امیدواروں نے انسپکٹر اینٹی کرپشن لگنے کے لیے امتحان میں ٹاپ کیا، انہوں نے بھی پرچے خریدے تھے۔ لیکن یہ جو کچھ آپ نے پڑھا یا سنا یہ تو صرف مکھن ہے جو اوپر کی سطح پر آ گیا۔ نیچے کیا ہے؟ لسّی یا کچھ اور؟ پبلک سروس کمیشن ایک ادارہ ہے جو سرکاری محکموں کو افرادی قوت مہیا کرتا ہے۔ اس کام کے لیے امتحان لیتا ہے۔ تحریری اور زبانی بھی۔ مقابلے کے امتحان بھی یہی ادارہ لیتا ہے۔ وفاق میں کمیشن کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کہا جاتا ہے۔ صوبے میں کمیشن صوبے کے نام کے حوالے سے جانا جاتا ہے‘ جیسے پنجاب پبلک سروس کمیشن، سندھ پبلک سروس کمیشن وغیرہ! جو سوال سب سے پہلے ذہن میں ابھرتا ہے، یہ ہے کہ خود ان اداروں کی، یعنی فیڈرل اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں کی افرادی قوت کہاں سے آتی ہے؟ جو افراد ...

بزرگوں کی نصیحت پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ

گھر والے پریشان تھے اور ہکا بکا ! میں نے دو تبادلوں  کا فوری حکم  دیا تھا۔ باورچی کو باغ میں تعینات کر دیا کہ باغبانی کے فرائض  سرانجام دے  ۔مالی روتا ہؤا آیا کہ اس کا آخر قصور کیا ہے۔ اسے تسلی دی اور ہدایت کی  کہ باورچی خانہ سنبھال لے ۔  آج سے وہ  کھانا پکائے گا۔  بیوی نے احتجاج کیا۔ میں خاموش سنتا رہا۔مگر فیصلہ نہ بدلا۔ بچوں نے ان تبدیلیوں کی وجہ پوچھی ۔ انہیں کہا کہ منہ بند رکھیں اور گھر کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں ۔ گھر میرا ہے۔ ان کا نہیں۔  باغبان نے کھانا کیا پکانا تھا۔ پلاؤ بنانے کی کوشش کرتا تو کھچڑی ٹائپ شے بن جاتی،  دال تک نہ بنا پاتا۔ تنگ آکر بیوی نے خود پکا نا شروع کیا۔ ایک دن کہنے لگی کہ باورچی ( یعنی باغبان ) کو فارغ کر دینا چاہیے۔ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور الفاظ چبا چبا کر کہا کہ ایسا سوچنا بھی مت! نہ جانے  میری آنکھوں میں اس نیک بخت نے کیا دیکھا کہ سہم گئی۔ اس دن کے بعد  اس نے باورچی کی نا اہلی کا کبھی تذکرہ نہ کیا۔  مہمان زیادہ آجاتے تو کھانا بازار سے منگوا لیتی۔  باغ کی جو حالت ہوئی،...

آگ خون اور آنسو

کوئٹہ پہنچ کر سرائے میں سامان رکھنے کے بعد پہلا کام یہ ہوتا کہ میثم کو فون کرتا۔ وہ ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھا اور میرا دوست ! یاد نہیں یہ دوستی کب آغاز ہوئی اور کیسے ۔ بس دوستی ہونے کے لیے یہ کافی تھا کہ وہ فارسی بولنے والوں میں سے تھا۔ مزدوری کا وقت ختم ہوتا ، اس کا ، اور میرا بھی ، تو ہم دونوں نکل پڑتے۔ علمدار روڈ ہماری جولانگاہ ہوتی! طول طویل علمدار روڈ ! پہلے کسی ریستوران میں افغان کھانا کھاتے! قہوہ پیتے ! پیالہ در پیالہ ! پھر کتاب فروشوں کا رُخ کرتے ! اب تو معلوم نہیں ان کا کیا بنا ، مگر جن دنوں کی بات ہورہی ہے ، انُ دنوں علمدار روڈ پر کتابوں کی بہت سی دکانیں تھیں۔ بڑی بڑی دکانیں ! کتابوں سے چھلکتی! یہ لوگ ایران اور افغانستان سے بھی کتابیں درآمد کیا کرتے۔ کئی کتابیں علمدار روڈ سے خریدیں جن کی دستیابی پاکستان میں کہیں اور ممکن نہ تھی۔ مثلا” منوچہر دامغانی کا دیوان ، نظامی کا کلیاتِ خمسہ ، عراقی اور ثنائی کے دواوین! ایسا بھی ہؤا کہ مطلوبہ کتاب نہ میسر آئی تو کتاب فروش نے خصوصی طور پر در آمد کر کے مہیا کی ۔ علمدار روڈ ، ہزارہ قبیلے کا مسکن ہے۔ ہزارہ ، اصلا” وسطی افغانستان سے ہیں۔...

اک ذرا سیاست سے ہَٹ کر

مولانا، مریم بی بی، زرداری صاحب اور عمران خان کو کچھ دیر کیلیے شطرنج پر جھکا چھوڑ دیتے ہیں۔ سردست پولیس سے بھی نہیں پوچھتے کہ نہتے اور بے قصور اسامہ ستی کو سترہ گولیاں مار کر اپنی عاقبت کو کیوں سنوارا! کچھ شاعری اور محبت کا ذکر کر لیتے ہیں کہ زندہ رہنے کیلئے یہ آکسیجن بھی ضروری ہے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر معین نظامی، وقفے وقفے سے، سوشل میڈیا پر، ادب کے مرجان اور لولو، ہمارے سامنے رکھتے رہتے ہیں! رشک آتا ہے ان کے حسنِ انتخاب پر! فارسی ادب ایک بے کنار سمندر ہے اور معین نظامی اس کے غوّاص! اب ایسے ثقہ عالِم ملتے ہی کہاں ہیں۔ والد گرامی کی رحلت کے بعد جب بھی فارسی ادب یا لغت میں کوئی دشوار گھاٹی سامنے آتی ہے تو نظامی صاحب ہی دستگیری کرتے ہیں یا ڈاکٹر عارف نوشاہی! گھر میں علم کا دریا موجزن تھا! کاش پیاس بجھا لیتے۔ اب تو کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔  عصا در دست ہوں اُس دن سے بینائی نہیں ہے ستارہ آنکھ میں آیا تھا، میں نے کھو دیا تھا چند دن پہلے معین نظامی نے امیر خسرو کی ایک غزل لگائی! غزل کیا ہے! پرستان ہے یا پھولوں، پرندوں سے مہکتا باغ! متقّدمین نے صناعی کے کیا کیا جوہر دکھائے! اور ق...

ذرا مجھے بھی بتا دیجیے گا

مدثر مختار‘ شکیل احمد‘ سعید احمد‘ محمد مصطفی اور افتخار احمد‘ پولیس کے اُس شعبے میں کام کرتے ہیں جوانسدادِ دہشت گردی کا ذمہ دار ہے۔ پولیس کے ان پانچ جوانوں نے‘ نئے سال کے دوسرے دن‘ بارہویں جماعت کے ایک طالب علم کو‘ مبینہ طور پر‘ عقب سے سترہ گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اب اس معاملے میں چار فریق ہیں۔ اول: پولیس کا مؤقف ہے کہ رات کو انہیں اطلاع ملی کہ نامعلوم افراد ڈکیتی کی واردات کے بعد سفید رنگ کی گاڑی میں فرار ہوئے ہیں۔ڈکیتی والے سیکٹر کی طرف سے ایک سفید کار آتی دکھائی دی۔ انسدادِ دہشت گردی سکواڈ کے جوانوں نے کار کو روکا تو کار کی رفتار اور تیز ہو گئی۔ گاڑی کا تعاقب کیا گیا۔ بالآخر گاڑی کے ٹائروں پر فائر کرنا پڑا۔ اس فائر سے کار کا ڈرائیور موقع پر جاں بحق ہو گیا۔ دوم: مقتول کے والد کا مؤقف '' ذرا‘‘ مختلف ہے۔ اس کے بقول‘ ایک دن پہلے پولیس کے ان پانچ جوانوں کی مقتول کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ مزہ چکھائیں گے؛ چنانچہ انہوں نے گاڑی کا پیچھا کیا اور روک کر سترہ گولیاں ماریں۔ سوم: پوسٹ مارٹم ریکارڈ کے مطابق جسم کے گیارہ مقامات پر زخم تھے۔ تمام گولیاں پیچھے کی جانب ...

نیا سال! کون سا نیا سال؟—-

برہمن نے جھوٹ بولا۔ غالب سادہ دل تھے جھانسے میں آ گئے: دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے اور وہ جو ہاتھ دکھانے والے نے خواہش کی تھی وہ بھی حسرت میں تبدیل ہو گئی: مرا ہاتھ دیکھ برہمنا! مرا یار مجھ سے ملے گا کب ترے منہ سے نکلے خدا کرے اسی سال میں اسی ماہ میں برہمن کے منہ سے نکلا بھی تو کیا! یہی کہ یار کو بھول جاؤ۔ جدائیاں ہیں اور لمبی! ہائے قمر جلالوی یاد آ گئے۔ انہیں دیکھا نہیں‘ سنا ہے۔ کس درد سے پڑھتے تھے۔ ہمارے لیے ہی تو کہا تھا: یہ دردِ ہجر اور اس پر سحر نہیں ہوتی کہیں اِدھر کی تو دنیا اُدھر نہیں ہوتی کون سا نیا سال؟ ہمارے استاد ظہیر فتحپوری نے کہا تھا: جگ میلا، جیون نوٹنکی، سُکھ جھولا سب دھوکا ہے لیکن جو ہمیں جانا ہو ہو گا نیا سال خوشیوں کا ایلچی دوسروں کے لیے! ہمارے لیے نہیں! جو سال بیتا ہے اس نے کون سے گھی کے چراغ جلائے ہمارے گھروں کی منڈیروں پر؟ کورونا تو عالمی آفت تھی۔ پوری دنیا پر آئی۔ ہم پر بھی۔ مگر کورونا نہ آتا تو تب ہم نے کون سا سنگا پور یا کوریا یا تھائی لینڈ بن جانا تھا۔ آہ! جو سال گزرا ہے اسے نعمتوں سے بہرہ ور کرنے کے لیے ہم نے کیا...