اشاعتیں

مئی, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت

یہ درست ہے کہ قبرض کے ترک حصے میں یونان نے مداخلت کی تھی تو چند ثانیوں کے اندر اندر ترکی کے جنگی جہاز ایتھنز پر منڈلا رہے تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ تائیوان ہو یا کوئی اور مسئلہ، چین نے کبھی کسی ملک کو اپنے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی لیکن یہ سب تاریخ کے کولڈ سٹوریج میں جا چکا ہے۔ یہ سب ماضی کی داستانیں ہیں۔ آج اگر کرۂ ارض پر کوئی غیرت مند اور خود مختار ملک بڑی سے بڑی طاقت کو اپنے امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا تو وہ صرف اور صرف پاکستان ہے! طلوع ہونے والے سورج کے دیس جاپان سے لے کے ۔۔ بحرالکاہل کے نیلے پانیوں کے کنارے آباد میکسیکو تک اور آسٹریلیا کے دل نشین ساحلوں سے لے کر دل پر جادو کر دینے والے فن لینڈ تک ۔۔ صرف پاکستان ہی ایک ایسا عزت دار ملک ہے جس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والی بڑی سے بڑی طاقت چند لمحوں کے اندر اندر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔ شیخ سعدی اگرچہ کچھ دیر پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی دور رس نگاہیں پردۂ غیب پر پاکستان کو دیکھ چکی تھیں۔ انہوں نے یہ شعر یقیناً پاکستان کے لئے کہا تھا …؎ ہر کہ با  فولاد   بازو پنجہ کرد ساعت سیمینِ خو...

عطر فروشوں کے بازار میں

اس کا باپ فیکٹری میں کام کرنیوالا ایک عام ملازم تھا۔ آج وہ برطانیہ کی کابینہ میں وزیر ہے اور قومی سطح کی سیاسی پارٹی کی سربراہ! حیرت مجھے یوں چمٹی ہے کہ پنڈا نہیں چھوڑ رہی۔ میں اس خبر پر کیسے یقین کر لوں! اس خاتون کا تعلق کسی جاگیردار خاندان سے نہیں۔ اسے اسمبلی کی نشست دادا اور باپ سے ورثے میں نہیں ملی۔ یہ خاتون صنعت کار نہیں۔ اسکے پاس محلات ہیں نہ کارخانے، اس کے پاس جعلی ڈگریاں نہیں۔ اس نے سیاسی پارٹیاں نہیں تبدیل کیں۔ اس نے فوجی حکمران کی وردی استری نہیں کی نہ یہ نعرہ لگایا کہ ہم اسے دس بار منتخب کروائیں گے۔ اس نے کروڑوں اربوں کے قرضے معاف نہیں کرائے۔ ٹیکس چوری نہیں کرتی۔ صحیح ڈیوٹی دینے والے پولیس مین کو ناک سے لکیریںنہیں نکلواتی۔ اسکے آگے پیچھے چمکتے ہوئے اسلحہ کی نمائش کرنیوالے باڈی گارڈ نہیں۔ قانون کو پائوں تلے روندنا اپنا پیدائشی حق نہیں مانتی۔ اس میں تکبر ہے‘ نہ جہالت، اسکے باوجود وزیر بن گئی! الیکشن جیت لیا اور ایک سیاسی پارٹی کی سربراہ مقرر کر دی گئی! میں سوچ رہا ہوں کہ کیا اسکے بعد اس کا بیٹا یا بیٹی پارٹی کی قیادت سنبھالے گی اور کیا پارٹی کے ارکان، معزز ارکان … اسکے صاحبزا...

ہمارے رہنما!

بڑے شہروں کے ہنگاموں سے دُور، شنکیاری کے بے پناہ خوبصورت علاقے میں رہنے والے طویل قامت شاعر محمد حنیف نے یہ شعر یقینا ایک عام پاکستانی کیلئے کہا ہے…؎ کوئی انساں کبھی بے خواب نہیں رہ سکتا ہر کسی آنکھ میں کچھ خواب ہوا کرتے ہیں باسٹھ سالوں سے بے خواب رہنے والے عام پاکستانی کے خواب سچے ثابت ہونگے یا خدانخواستہ احمد فراز نے بھی اُسی عام پاکستانی کیلئے کہا تھا…ع خواب جھوٹے خواب تیرے میرے خواب بھی! پیپلزپارٹی سے تیر کھا کر عوام مسلم لیگ نون کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور آنکھوں میں مزید تیر پیوست ہو جاتے ہیں۔ خاندانی حکمرانی کی حفاظت پر کمربستہ احسن اقبال یہ کہتے ہوئے ذرا بھی جھجک نہیں محسوس کرتے کہ جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق نے غلط کیا۔ آخر کیا غلطی کی ان دونوں نے؟ یہی کہ سترھویں ترمیم کی شق نمبر چار کو ختم کرنے کی مخالفت کی جو سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات کرانے سے متعلق تھی! خلقِ خدا کو خوش گمانی تھی کہ وقت کے اُس ٹکڑے نے جو ابتلا کی صورت میں گِرا تھا،میاں صاحبان کو بدل ڈالا ہوگا۔ خدا کی قسم اگر میاں صاحبان بدل جاتے تو اس ملک کے عوام کی قسمت بدل جاتی لیکن سوئی کے سورا...

طمانچہ

’’مبارک ہو! تم نے پُلٹزر (Pulitzer) پرائز جیت لیا ہے‘‘ کے وِن کارٹر کو یہ خبر ٹیلی فون پر نیویارک ٹائمز کی ایڈیٹر نے دی۔ ’’کے وِن کارٹر‘‘ کون تھا؟ اور ہم اپنے قارئین کیلئے خصوصی طور پر اس کا ذکر کیوں کر رہے ہیں۔ یہ جاننے سے پہلے اتنا سن لیجئے کہ پُلٹزر انعام کیا ہے؟ یہ انعام ایک امریکی جوزف پُلٹزر نے جو خود بھی ایک اخبار نکالتا تھا‘ صحافت‘ موسیقی اور ادب کیلئے شروع کیا تھا۔ پہلا انعام 1917ء میں دیا گیا۔ اُس وقت سے لیکر اب تک ہر اپریل میں اس پرائز کا اعلان ہوتا ہے۔ پُلٹزر نے اپنی موت سے پہلے 1911ء میں اپنی ساری جمع پونجی نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کو دے دی تھی۔ یونیورسٹی ہی انعام کی تقسیم کا سارا کام کرتی ہے۔ ہاں! پُلٹزر نے اپنی دولت کا ایک حصہ یونیورسٹی میں صحافت کا ایک بڑا ادارہ (جرنلزم سکول) قائم کرنے کیلئے بھی وقف کر دیا! کے وِن کارٹر کو پُلٹزر انعام جس شہکار تصویر پر ملا‘ وہ تصویر پوری دنیا کے مسلمانوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ وہ طمانچہ جسے روکنے کیلئے خدا کے آخری رسولؐ نے بار بار تنبیہ کی‘ بار بار وارننگ دی‘ بار بار تلقین کی‘ مسلمانوں کے منہ پر یہ طمانچہ آخری نہیں۔ بوستانِ...