اشاعتیں

ستمبر, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

بے شرمی کا تاج اور ڈھٹائی کا تخت

یہ بحری جہاز کی سب سے نچلی منزل تھی۔ لنگوٹیاں باندھے ہوئے مرد اور نیم برہنہ عورتیں زنجیروں سے بندھی تھیں۔ ایک ایک زنجیر کئی افراد کو باندھنے کے لیے استعمال ہوئی تھی۔ یہیں وہ پاخانہ پیشاب کرتے تھے۔ یہیں قے کرتے تھے۔ کئی دن کے بعد ان میں سے کچھ کو کھولا جاتا اور صفائی کرائی جاتی۔ خوراک صرف اتنی ملتی کہ وہ مر نہ جائیں۔ پانی نپا تُلاہوتا۔ افریقہ کے ساحلوں سے یہ جہاز چلتے، مہینوں بعد امریکہ پہنچتے۔ وہاں منڈیاں لگتیں‘ نیلامیاں ہوتیں۔ عورتوں کو گاہک ٹٹول ٹٹول کر دیکھتے۔ مردوں کے بازو اور مَسل جانچے جاتے۔ پھر یہ غلام بڑے بڑے زمینداروں کی جاگیروں پر پہنچائے جاتے۔ کپاس‘ گنے اور تمباکو کے میلوں پر پھیلے کھیت! پو پھٹے سے اندھیرا چھا جانے تک یہ غلام سر جھکائے کام کرتے۔ سفید فام سپروائزر ہاتھوں میں کوڑے لیے ان کی نگرانی کرتے۔ دو غلام آپس میں بات کرتے پائے جاتے تو کوڑا ہوا میں لہراتا اور پشت پر گوشت تک اُدھڑ جاتا۔ غلام مرد اور غلام عورتیں آپس میں شادیاں کرتے۔ بچے ہو جاتے۔ پھر ایک دن شوہر فروخت کردیا جاتا اور سینکڑوں میل دور چلا جاتا۔ مرنے تک میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکتے۔ کالی عورتوں کا مال...

مٹی

دبئی میں مزدوری کرتے‘ شفٹیں بھگتاتے عمر ہی گزر گئی۔ روکھا ملا تو وہ کھا لیا۔ کبھی کچھ بھی نہ کھایا اور سو رہے۔ چارپائی بھی وہ جس پر کمرے میں رہنے والے دو افراد سوتے۔ جس کی ڈیوٹی نہ ہوتی سو جاتا۔ کبھی کفیل کی جھڑکیں سننا پڑتیں کبھی سیٹھ کی۔ یوں ایک عمر گزر گئی۔ خواب یہ تھا کہ اس ساری مشقت‘ اس لمبے بن باس کا بدلہ ملے گا۔ بچے پڑھ لکھ جائیں گے۔ ملک کے قابل فخر شہری بنیں گے۔ باپ کا نام روشن کریں گے۔ قوم کی خدمت کریں گے۔ یوں طویل مشقت کا میٹھا پھل ملے گا۔ بڑھاپا آرام سے کٹے گا اور اطمینان سے بھی!  مگر آہ! خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا! ساری محنت مزدوری بیکار گئی۔ پردیس میں گزاری عمر کا پھل ملا مگر کڑوا۔ بیوی نے روپے کی ریل پیل دیکھی تو اللے تلوں پر خرچ کرنے لگی۔ زیورات اور ملبوسات پر اور کوٹھی کی پہلے تعمیر اور پھر آرائش پر بے تحاشا پیسہ خرچ کیا۔ بچوں کی تربیت و تعلیم اس بی بی کی ترجیحات میں ہی شامل نہ تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچے لڑکپن میں آوارہ ہو گئے۔ نوجوانی آئی تو ساتھ خودسری لائی‘ اوباش دوست گھیرے رکھتے۔ دس گیارہ جماعتوں سے آگے ایک لڑکا بھی بڑھ نہ پایا۔ آہستہ ا...

آئیے! اپنے آپ پر ہنسیں!

بڈھ بیر پر دہشت گردوںکے حملے نے ایک بارپھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ جنگ وہ روایتی جنگ نہیں جس میں قوم صرف اپنی فوج پر انحصار کرتی ہے۔ اس جنگ میں طبل جنگ ہے نہ میدان جنگ۔ اس جنگ کی کوئی سمت ہے نہ جہت ! یہ مغرب مشرق شمال جنوب اوپر نیچے چھ جہتوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ دہشت گردی کو روکنے کیلئے ہماری ’’ منصوبہ بندی ‘‘ پر دشمن تو دشمن دوست بھی ہنستے ہوں گے۔ اس شخص کی حماقت کا اندازہ لگائیے جس کے گھر پر حملے کا خطرہ ہے۔ اس نے چھت پر بھی بندوقچی بٹھائے ہوئے ہیں اور دروازے پر بھی پہریدار مامور کیا ہے مگر پشت پر چاردیواری کا ایک کونہ ٹوٹا ہوا ہے۔ یوں کہ اس سے ہر راہگیر اندرداخل ہوسکتا ہے۔ پھر اس شخص کی مزید حماقت دیکھیے۔ اس کے گھر کے اندر،ایک کمرے میں کچھ لوگ رہ رہے ہیں جو حملہ آوروں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ چاردیواری کے شکستہ حصے سے اندر آنے والے حملہ آور اس کمرے میں جب تک چاہیں چھپے رہ سکتے ہیں۔ آپ نائن الیون کو دیکھ لیجیے...