بے شرمی کا تاج اور ڈھٹائی کا تخت
یہ بحری جہاز کی سب سے نچلی منزل تھی۔ لنگوٹیاں باندھے ہوئے مرد اور نیم برہنہ عورتیں زنجیروں سے بندھی تھیں۔ ایک ایک زنجیر کئی افراد کو باندھنے کے لیے استعمال ہوئی تھی۔ یہیں وہ پاخانہ پیشاب کرتے تھے۔ یہیں قے کرتے تھے۔ کئی دن کے بعد ان میں سے کچھ کو کھولا جاتا اور صفائی کرائی جاتی۔ خوراک صرف اتنی ملتی کہ وہ مر نہ جائیں۔ پانی نپا تُلاہوتا۔ افریقہ کے ساحلوں سے یہ جہاز چلتے، مہینوں بعد امریکہ پہنچتے۔ وہاں منڈیاں لگتیں‘ نیلامیاں ہوتیں۔ عورتوں کو گاہک ٹٹول ٹٹول کر دیکھتے۔ مردوں کے بازو اور مَسل جانچے جاتے۔ پھر یہ غلام بڑے بڑے زمینداروں کی جاگیروں پر پہنچائے جاتے۔ کپاس‘ گنے اور تمباکو کے میلوں پر پھیلے کھیت! پو پھٹے سے اندھیرا چھا جانے تک یہ غلام سر جھکائے کام کرتے۔ سفید فام سپروائزر ہاتھوں میں کوڑے لیے ان کی نگرانی کرتے۔ دو غلام آپس میں بات کرتے پائے جاتے تو کوڑا ہوا میں لہراتا اور پشت پر گوشت تک اُدھڑ جاتا۔ غلام مرد اور غلام عورتیں آپس میں شادیاں کرتے۔ بچے ہو جاتے۔ پھر ایک دن شوہر فروخت کردیا جاتا اور سینکڑوں میل دور چلا جاتا۔ مرنے تک میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکتے۔ کالی عورتوں کا مال...