اشاعتیں

مارچ, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اب خوب ہنسے گا دیوانہ

اوراق پارینہ میں حفیظ جالندھری کی دو نظمیں ہاتھ آئی ہیں ۔یہ المیہ ہے کہ اب ان کی تصانیف کمیاب بلکہ نایاب ہیں ۔بچوں کے لیے بھی انہوں نے کمال کی نظمیں کہیں،وہ بھی کہیں نہیں ملتیں۔ دونوں نظمیں قارئین سے شیئر کی جارہی ہیں۔ کیا خبر آج کےسیاسی اور سماجی حالات پر منطبق نظر آئیں ۔ شیر! شیروں کی آزادی ہے آزادی کے پابند رہیں جس کو چاہیں چیریں پھاڑیں کھائیں پئیں ، آنند رہیں سانپوں کو آزادی ہے ہر بستے گھر میں بسنے کی اور عادت بھی ہے ڈسنے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہین کو آزادی ہے آزادی سے پرواز کرے ننھی منی چڑیوں پر جب چاہے مشق ناز کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی میں آزادی ہے گھڑیا لوں اور نہنگوں کو جیسے چاہیں پالیں پوسیں اپنی تند امنگوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان نے بھی شوخی سیکھی وحشت کے ان رنگوں سے شیروں سانپوں شاہینوں گھڑیالوں اور نہنگوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان بھی کچھ شیر ہیں باقی بھیڑوں کی آبادی ہے بھیڑیں سب پابند ہیں لیکن شیروں کو آزادی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیر کے آگے بھیڑیں کیا ہیں اک من بھاتا...

مجرم ہیں اے جگر گوشۃ رسول ہم مجرم ہیں

اگر اب بھی ہمالیہ الٹ کر اوپر نہیں آن گرتا تو کب گرے گا ؟ اگر اب بھی بحر ہند کا پانی اس دھرتی کو نگل نہیں جاتا تو کب نگلے گا ؟ خدا کا خوف کرو اہل پاکستان ،اللہ کے غضب سے ڈرو ،تمہاری بد بختی اسفل السافلین کے اس شرم ناک درجے پر پہنچ چکی ہے کہ فرشتے تاسف سے اور حیرت سے انگلیاں دانتوں میں دابے حکم الٰہی کا انتظار کررہے ہیں ، کیا عجب تم پر پتھر برسیں ،کیا عجب زمین دھنس جائے اور تم اس میں غرق ہوجاؤ۔ اے اہل پاکستان !شرم کرو ،شرم سے ڈوب مرو ،ایک عورت جس کی آمدنی شفاف ہے نہ شہرت ۔وہ تمہارے سامنے اپنا موازنہ جگر گوشہء رسول سے کررہی ہے اور اپنے باپ کا موازنہ اس پاک ہستی سے کررہی ہے جس کے ساتھ موازنہ کوئی صحابی کرسکتا ہے نہ کوئی تابعی ،کوئی ولی نہ کوئی صوفی! نقل  کفر کفر نہ باشد “حضرت محمد ﷺ جب خانہ کعبہ میں نماز ادا کرتے تھے تو جب وہ سجدے میں جاتے تھے ،کفار کیا کرتے تھے؟تو  کیا جو گھناؤنی حرکت کرتے تھے تو وہ حضرت فاطمہ الزہرہ ان کے اوپر سے وہ ہٹاتی جاتی تھیں تو میرے بھائیو! چونکہ فتح ہوئی نہ پھر !!،کیونکہ والد حق پر تھا۔ والد سچے راستے پرتھا تو نواز شریف جو آپ کا لیڈر ہے ،م...

کنے بوئےتے کِنی باریاں نیں

کتنی ہی بار لاہور آئے۔ کئی کئی دن رہے ‘مزدوری کے حوالے سے لے کر ‘ذاتی حوالوں تک’ بارہا آنا اور رہنا ہوا۔ مگر اندرون لاہور دیکھنا ‘دیکھ کر سمجھنا اور سمجھ کر دیکھنا نہ نصیب ہوا۔ اس عرصہ میں دنیا کے کئی قدیم شہروں کے “اندرون” دیکھ لیے۔قرطبہ اور غرناطہ میں عربوں کے قدیم محلے ایک سے زیادہ مرتبہ چھانے ‘فاس میں کہ ہزاروں    برس پرانی گلیاں اب بھی راہگیرو ں  سے چھلک رہی ہیں ۔ گھوم پھر کر قدیم یونیورسٹیاں دیکھیں ۔ ابن خلدون جس گھر میں رہتا تھا، اس میں ج کل رہنے والے سے مکالمہ کیا۔ مراکش شہر میں وہ میدان دیکھا جس میں سینکڑوں سال پرانی روایتیں شام کو اب بھی اسی طرح زندہ دکھائی دیتی ہیں ۔یوسف بن تاشفین کے مزارپر حاضری دی ۔طنجہ میں سقہ کو ایک ہزار برس پرانے لباس میں پانی پلاتے دیکھا۔ پرانی تنگ گلیوں میں ابن بطوطہ کا مزار ڈھونڈا’ استنبول ‘قونیہ ‘عمان کے کوچے ماپے۔ خیورا ‘ ارگنج ‘ترمذ اور سمرقند کے آسمان کو دیکھا۔ بکارا میں “لبِ حوض” سے لے کر کوچہ تِل پگ فروشاں تک کی گرد کو لباس کی زینت بنایا۔ فلپائن کے شہر منیلا میں مسلمان بادشاہوں کے محلات دیکھے ۔روم اور نیپلز کی تنگ گلیوں میں ...

شوکت ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا

جب پارلیمنٹ ایک دکان ہے اور دکان کے اندر مختلف سبزیاں بکنے کے لیے رکھی ہیں تو اس سےکیا فرق پڑتا ہے کہ کون سی سبزی کہاں پر رکھی جائے’ چیئرمین رضا ربانی ہوں یا مشاہد حسین یا کوئی اور’ بکنے والی سبزی’ بکنے والی سبزی ہی رہے گی! فرنگی زبان میں ایسے شخص کو جو سوچنے  سمجنے سے عاری ہو ‘اپنی رائے نہ رکھتا ہو’ ویجی ٹیبل ہی کہتے ہیں ‘ ا س مریض کو بھی ویجی ٹیبل کہتے ہیں ۔ جو بستر پر پڑا ہو۔ نلکیاں لگی ہوں ۔بات نہ کرسکتا ہو، سُن ’سمجھ نہ سکتا ہو! دلچسپ ترین مطالعہ ان سیاست دانوں کے دلوں اور ضمیروں اور دماغوں اور روحوں کا وہ تصویریں ہیں جو ان دنوں دکھائی دے رہی ہیں ۔بندر بادشاہ بنا تو جنگل کے تمام جانور اپنے اپنے مسائل لے کر حاضر ہوئے۔ بند ر درخت پر چڑھ گیا ۔ایک ڈال سے پھدکتا تو دوسرے پر بیٹھ جاتا ہے۔ دوسرے سے تیسرے پر !جانوروں نے مسائل کا حل پوچھا تو کہنے لگا آپ حضرات میری آنیاں  جانیاں تو ملاحظہ فرمائیے! تصویروں سے ان حضرات کی آنیاں جانیاں پتہ چل رہی ہیں ۔ان کے چہرے دیکھ کر ان کی حیثیتیں معلوم ہو رہی ہیں ، اور یہ بھی مترشح ہورہا ہے کہ ان کی سوچ کی بلندی کتنی ہے۔ ایک تصویر میں ز...

ایک کلو گرام دودھ میں ایک قطرہ گندگی

سینیٹ کے انتخابات میں کرنسی نوٹو ں کی بوریاں ، بیل گاڑیو ں ،کارگو ٹرینوں،ٹرکوں ،بھڑولوں میں بھر کر ایک دوسرے کے ہاں بھیجی گئیں ۔ دوروازے کھٹکھٹائے گئے ۔اندر سے جو باہر نکلا ،اس نے نوٹ گنے، قبول کئے اور اپنی عزت کا سودا عصمت کے سودے کی طرح کیا۔ تف اس ذہنیت پر جو عصمت بیچنے والی ڈیرہ دارن کو برا بھلا کہتی ہے مگر ووٹ بیچنے والے کو عصمت فروش سے زیادہ گنہگار نہیں گردانتی! یہ ضمیر کا سودا کرنے والے ننگ خلائق ہیں !مگر المیہ یہ نہیں اصل المیہ اور ہے۔ جمہوریت یہاں زور والوں کی شکایت کرتی تھی۔ بندوق والوں سے زیادہ ڈرتی تھی ۔تلوار کے زخم دکھاتی تھی۔ اب زر کا زمانہ آگیا ہے ۔جس ملک میں قائداعظم تھے،لیاقت علی خان تھے،عبدالرب نشتر تھے،مولوی تمیز الدین ،مولوی فرید احمد ،نور الامین تھے،سب فقیر۔ دولت سے بے نیاز ۔یہاں تک کہ بیوروکریٹ بھی سرکاری گاڑی ذاتی مقصد کے لیے استعمال کرتے تھے  تو خزانے میں  رقم جمع کراتے تھے ۔چوہدری محمد علی نے سابق وزیر اعظم کے طور پر بیرون ملک علاج کرانے کے لیے اٹھارہ (یا بیس) ہزار روپے حکومت سے ادھار لیے۔ایک ایک پائی واپس کی۔ اس ملک میں اب زرداری ہیں جن کا اوڑھنا...

ٰٰعمران خان بذریعہ جان فرانسس --۲--

جان فرانسس سے ایک دن باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ “دی ایج” (آسٹریلیا کے معروف روزنامہ) کو مضمون بھیجا ہے ۔ابھی تک چھپنے یا نہ چھپنے کی اطلاع نہیں آئی۔ جان مسکرایا ۔کہنے لگا ‘یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ایک تو یہ ہے کہ کوئی صحافی تمہارے  بارے میں تعارفی نوٹ اخبار کو بھیجے ۔دوسرے یہ کہ وہ خود تمہیں کوئی موضوع دے کر کہیں یعنی Requisition  کریں ۔چنانچہ جان نے جسے ہم نے محض باغبان سمجھا تھا ۔دی ایج کو میرے بارے میں تعارفی نوٹ بھیجا۔ان دنوں پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا ہوا تھا۔ چند دنوں بعد “دی ایج" کی طرف سے فرمائش کی گئی کہ سیلاب کے بارے میں تفصیلی مضمون لکھ کر بھیجا جائے، چنانچہ دی ایج میں میرا پہلا مضمون After the Deluge:Disaster Begets Dissent Begets Disaster چودہ اگست 2010 کو شائع ہوا۔ اس کے بعد “یوریکا سٹریٹ” میں بھی چھپنے لگے۔ جب بھی کچھ دن گزرتے ‘جان کا فون آتا کہ شام کو برگنڈی سٹریٹ جاکر کافی پیتے ہیں۔ بھابھی بریسی جب بھی چلی سے ہو کر آتیں ‘کوئی نہ کوئی سوغات ہمارے لیے ضرور لاتیں ۔ایک دن جان کا فون آیا کہ میلبورن کے ثقافتی مرکز میں شام کو فاطمہ بھٹو نے گفتگو کرنی ہے۔ وہ...

عمران خان بذریعہ جان فرانسس

جان فرانسس سے پہلی ملاقات ایک خوشگوار حادثہ تھی یہ 2010 کی بات ہے۔ ہم میا ں بیوی میلبورن میں تھے۔ صاحبزادے نے اپارٹمنٹ چھوڑ کر صحن والا گھر لے لیا۔ اس لیے کہ اسے معلوم تھا باپ صحن کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جون جولائی کی کڑکتی ظہر بھی کمرے میں پنکھے کے نیچے نہیں ‘شیشم یا کیکر کے نیچے پڑھنا پسند کرتا ہوں ۔اور جاڑوں میں تو جب تک سورج کی آخری کرن رہتی ہے دھوپ کے ساتھ چمٹا رہتا ہوں۔ صحن کیا تھا ‘گھر کے عقبی حصے میں بڑا لان تھا اور سامنے والے حصے میں بھی۔بیگم نے لان کا چارج فوراً لے لیا اس لیے کہ گھاس پودوں پھولوں اور سبزیوں کی پرورش کا شوق اس راجپوت خاتون کے اندر یوں سمایا ہوا ہے کہ کوئی اور شوق ‘شغل, ہمسری نہیں کرسکتا۔ نرسری دیکھ کر قدم اس کی طرف یوں بے اختیار بڑھتے ہیں جیسے میاں کے بک شاپ کی طرف ! علم اس حوالے سے اس قدر ہے کہ پودا دیسی ہو یا فرنگی ۔اس کی تاریخ اس کی پیدائش اور پرورش کا ماحول ‘اس کے بڑھنے یا نہ بڑھنے کے اسباب’ سب معلوم ہیں سرکاری رہائش گاہوں کے ارد گرد ‘چاروں طرف صحن ہوتے تھے ۔سبزیاں شاید ہی بازار سے آئی ہوں ۔ ایک دفعہ چھت پر جانا ہوا تو منوں کے حساب سے پیاز ‘بکھرا پ...

مسلم لیگ نون کے نام کھلا خط!

(ہمارے مخاطب مسلم لیگ نون کے وہ ارکان ہیں جو شریف خاندان کے رشتہ دار نہیں ) آپ میں سے ‘سارے نہیں ‘تو اکثر تعلیم یافتہ ہیں ۔ آپ نے تاریخ یقیناً پڑھی ہوگی۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ جن لوگوں نے بادشاہوں اور ان کے جانشینوں کے لیے گردنیں کٹوائیں ‘آج انہیں کوئی نہیں جانتا ۔ کچھ اورنگزیب کے ساتھ ہوگئے تھے۔ کچھ مراد کے ساتھ کچھ داراشکوہ کے   ہمنوا بن گئے اور کچھ شجاع کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر پھرتے رہے۔ سر قلم کرا لیے۔ جنگ کے میدانوں میں کھیت رہے،خاندان اجڑ گئے۔ مخالف شہزادوں نے جائیدادیں مسمار کروا دیں ۔ ہاتھیوں کے  نیچے روند ڈالا۔ کیا آج ان میں سے کسی کا نام تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے؟ نہیں! سوائے چند ایک کے ‘ورنہ تو ہزاروں میں تھے! نام صرف شاہوں اور شہزادوں کے محفوظ ہیں ۔ معزز سیاستدانو تم بھی انہی کی طرح ایک خاندان کی بقا کے لیے اپنے آپ کو ایندھن بنارہے ہو۔ تم نے اپنے آپ کو’اپنے خاندانون کو ‘اپنی قیمت کو’اپنے مستقبل کو میاں نواز شریف ‘مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ساتھ وابستہ کرلیا ہے۔ مگر یہ اچھی طرح جان لو کہ شریف خاندان کے ان رہنماؤں  کے نام...