اشاعتیں

جولائی, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

…… پنجابیوں نے لُوٹ لیا

سب ہانپ رہے تھے۔ سب سامان اُٹھائے تھے۔ کسی کے سر پر صندوق تھا۔ کسی کے ہاتھ میں بیگ۔ کوئی بوڑھی تھی اور ہائے ہائے کیے جا رہی تھی۔ کوئی نوجوان تھا مگر مشقت اس قدر تھی کہ سانس اس کا پھولا ہوا تھا۔ سیڑھیاں اُترنا تھیں۔ پھر چڑھنا تھیں، پھر اُترنا تھیں۔ پھر چڑھنا تھیں! یہ اُس قافلے کا ذکر نہیں جو تقسیم ہند کے وقت جالندھر اور امرتسر اور لدھیانہ اور فیروزپور اور ملیر کوٹلہ سے گرتا پڑتا آ رہا تھا اور اُن ہزاروں بے یار و مددگار قافلوں میں شامل تھا جو پاکستان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یہ تو اُن بے کس، بے بس، مسافروں کا ذکر ہے جو لاہور ریلوے اسٹیشن پر دو روز پہلے ان آنکھوں نے دیکھے، عبرت پکڑی! یہ لکھنے والا خود بھی ان ہانپتے کانپتے مسافروں میں شامل تھا! یا خواجہ! یا خواجہ سعد رفیق! اے ریلوے کے وزیر! اے ریلوے کے محنت کرنے والے وزیر! تو کہاں ہے؟مگر ریلوے کے وزیر کو یا کسی بھی وزیر کو اخباری کالم پڑھنے کی کیا ضرورت ہے! اس سے پہلے بائیس اپریل 2016ء کو ریلوے کے مسائل پر تفصیلی کالم روزنامہ دنیا میں چھپ چکا ہے۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ وزیر ریلوے نے وہ بھی نہیں پڑھا ورنہ کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے ک...

میاں رضا ربانی اگر چاہیں تو

میاں رضاربانی اگر چاہیں تو پاکستان کی تاریخ کو ایک موڑ دے سکتے ہیں۔ ایک خوبصورت موڑ۔ آئینی اصلاحات کے ضمن میں‘ ان کی بہت خدمات ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئینی اصلاحات کے صدر رہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے معماروں میں سے ہیں۔ پارٹی نے مجبور کیا تو ایک معاملے میں ووٹ پارٹی کے کہنے پر دیا مگر دُکھ اتنا ہوا کہ روپڑے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں کراچی یونیورسٹی سے سزا کے طور پر نکال دیے گئے۔ جیل یاترا بھی کی۔ والد گرامی گروپ کیپٹن عطا ربانی قائد اعظم کے اے ڈی سی رہے ! سب سے بڑھ کر یہ کہ رضا ربانی کی شہرت وہ نہیں جو پارٹی کا غیر تحریری (UN-WRITTEN) منشور رہا ہے کہ کھائو پیو اور بولیاں لگائو۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ سرے محل سے لے کر ‘ فرانس کے اڑھائی سو سالہ پرانے قصرِ شاہی تک۔ اور یوسف رضا گیلانی صاحب کے سکینڈلوں سے چھلکتے عہدِ ہمایونی سے لے کر راجہ پرویز اشرف صاحب کے اندھیارے راج تک‘ کسی مقام پر میاں رضا ربانی صاحب نے احتجاج نہیں کیا! نہ ہی کبھی‘ دبے لفظوں ہی میں سہی‘ پارٹی پر خاندانی آمریت کے مضبوط ہوتے پنجوں کے خلاف آواز اٹھائی مگر آہ! پاکستانی سیاست کی مجبوریاں! کریں تو کیا کریں! جائیں...

شُکر

عمر رسیدہ شخص کے سامنے سے ٹرے اٹھاتے وقت پوچھا: ’’آپ کو کچھ اور چاہیے‘‘ کہنے لگا: ’’نہیں! اللہ کا شکر ہے جس نے پیٹ بھر کرکھانا دیا اور کیا چاہیے! پینے کے لیے ٹھنڈا پانی عطا کیا! سانس آ جا رہی ہے! الحمد للہ!‘‘ ہم صحن میں بیٹھے تھے۔ سہ پہر تھی، مگربادل چھائے تھے۔ درجہ حرارت جو ایک دن پہلے اڑتیس تھا، تیس کے لگ بھگ ہو گیا تھا۔ ہوا کے جھونکے جسم کو پرسکون اور ذہن کو شاداب کر رہے تھے۔ عمر رسیدہ شخص نے آسمان کو دیکھا اور جیسے اپنے آپ سے کہنے لگا: ’’کیا بادل تان  دیے ہیں تُو نے ہمارے سروں پر! اور کیا خوشگوار ہوا کے جھونکے فرحت بخش رہے ہیں ہمارے جسموں کو! تیرا شکر ادا کرنے کے لیے لفظ ہی نہیں ملتے۔ واہ پروردگار! تیرے کام انوکھے ہیں! رات بھر ایئرکنڈیشنرکی ہوا میں سونے والے صبح اٹھتے ہیں تو تھکے تھکے ہوتے ہیں۔ چہرے زرد اور بعض کی ٹانگوں میں درد! اور وہ جو چھت پر یا صحن میں سوتے ہیں، رات کو اس خنکی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو آسمان سے براہ راست نازل ہوتی ہے۔ چادر اوڑھنا پڑتی ہے۔ صبح تازہ دم ہوتے ہیں۔ واہ پروردگار! کیا توازن ہے تیرے مدبر الامر ہونے میں! جو سیب کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے، ...

فساد

تصویر

بازارِ دل میں اپنی دکاں ہم نے کھول لی

بظاہر یہ دو کمروں پر مشتمل ایک دفتر ہے جو دارالحکومت کے مرکز میں واقع ایک پرانے بے رنگ پلازے کی بیسمنٹ میں ہے، مگر اصل میں کروڑوں اربوں کا کاروبار ہے! چھوٹے کمرے میں میرا معاون بیٹھتا ہے۔ سارا سامان دو میزوں‘ چند کرسیوں‘ ایک ٹیلی فون اور دو لیپ ٹاپ پر مشتمل ہے۔ نسبتاً بڑے کمرے میں مَیں خود بیٹھتا ہوں۔ میں چیف ایگزیکٹو بھی ہوں، بورڈ آف ڈائریکٹر بھی ہوں، ایڈوائزر بھی ہوں اور سچ پوچھیے تو چائے بنانے والا ملازم بھی ہوں۔ بازار تیز ہے۔ شاعر کہا کرتے ہیں کہ بازارِ عشق تیز ہے! نہیں، یہ اور بازار ہے۔ راولپنڈی میں ایک مولانا صدر الدین کاشمیری تھے۔ عالم دین اور بلا کے مقرّر۔ سیٹلائٹ ٹائون کی ایک مسجد میں خطبہ دیا کرتے تھے۔ عمدہ شعری ذوق رکھتے تھے۔ کچھ عرصہ اردو بازار میں ایک دکان پر بیٹھتے تھے۔ اِس لکھنے والے کا سِن اُس وقت کچا تھا۔ والدِ گرامی کے ساتھ وہاں جایا کرتا تھا۔ معلوم نہیں ان کی اپنی دکان تھی یا صرف بیٹھتے تھے۔ بہر طور ایک گاہک آیا اور پوچھا: ’’کیا وہ کتاب آپ کے پاس ہے جس کا نام ’اُس بازار میں‘ ہے‘‘۔ مولانا ہنسے اور جواب دیا، وہ جوکتاب ہے ’اُس بازار میں‘ وہ آپ کو اِس بازار میں...

ہمارا اقبال اور اصل اقبال -2

21مارچ 1932ء کو بیرون دہلی دروازہ لاہور آل انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس علامہ اقبال کی صدارت میں شروع ہوا۔ 22 مارچ کے اختتامی اجلاس میں اقبال نے ایک مختصر تقریر کی جس میں یہ بھی کہا: ’’روحانی اعتبار سے ہم مسلمان خیالات و جذبات کے ایک ایسے زندان میں محبوس ہیں جو گزشتہ صدیوں میں ہم نے اپنے گرد خود تعمیر کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ ساری مسلم قوم کی موجودہ ذہنیت یکسر بدل دی جائے تاکہ وہ پھر نئی آرزوئوں، نئی تمنائوں اور نئے نصب العین کی اُمنگ محسوس کرنے لگے۔ کسی فرمان سے توقعات وابستہ مت کرو‘ مسولینی کا قول ہے کہ جس کے پاس لوہا ہے اس کے پاس روٹی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جو خود لوہا ہے اس کے پاس سب کچھ ہے‘‘۔ 3 جولائی 1933ء کو راغب احسن کا خط موصول ہوا۔ اقبال نے اسی روز اپنے جوابی مکتوب میں تحریر فرمایا: ’’میرا ایک مدت سے عقیدہ ہے کہ علما اور صوفیا قرآن کے اصل مقاصد سے بے خبر ہو چکے ہیں۔ نئی نسل میں سے چند لوگوں نے فرنگی تعلیم کے باوجود اس حقیقت کو محض اپنی سلیم الفطرتی کی وجہ سے پا لیا ہے‘‘۔ ستمبر 1935ء میں اقبال نے پروفیسر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کو جوابی خط میں تحریر فرمایا کہ میرا عقیدہ یہ ہے جو ...

ہمارا اقبال اور اصل اقبال

’’آپ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے کشمیری النسل تھے۔ والد ٹوپیاں بناتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہو کر آپ یورپ گئے جہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ واپس آ کر وکالت کرنے لگے۔ مہینے میں اتنے ہی مقدمے لیتے تھے جن سے بس گزارہ ہو سکے۔ 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد میں تصوّرِ پاکستان پیش کیا۔ بانگِ درا اور بالِ جبریل آپ کی شاعری کے مجموعے ہیں۔ کچھ شاعری آپ نے فارسی میں بھی کی۔ آپ کا مزار شاہی مسجد لاہور کی بغل میں ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال آپ کے فرزند تھے‘‘۔ یہ ہے ہمارا عمومی تصوّر علامہ اقبال کے بارے میں! اگر آپ بی اے کے ایک اچھے خاصے ہونہار طالب علم سے اقبال پر مضمون لکھنے کا کہیں تو کم و بیش یہی کچھ لکھے گا! زیادہ سے زیادہ ساتھ قائد اعظم کا ذکر کر دے گا! اقبال کا نام سن کر ہماری چشم تصوّر اکثر و بیشتر یہی دیکھتی ہے کہ آپ کوئی کام وام نہیں کرتے تھے۔ سردیوں میں کشمیری دھسہ لپیٹے اور گرمیوں میں بنیان اور تہمد پہنے‘ چارپائی پر نیم دراز‘ فکرِ سخن میں مصروف رہتے تھے۔ ایک وجہ اس بے خبری کی یہ بھی ہے کہ سرکاری سطح پر علامہ اقبال کی کوئی مستند‘ تفصیلی سوانح حیات نہیں لکھوائی گئی۔ پاکست...

اپنی توہین نہ کر، میرا تماشا نہ بنا

مدتوں پہلے، کئی عشرے قبل، ایک دفتر جانا ہوا۔ میز پر ایک کیلنڈر پڑا تھا۔ پشت پر لکھا تھا: مَنْ کَتَمَ سِرَّہ بَلَغَ مُراَدہ، یعنی جس نے اپنا راز افشا نہ کیا، اپنے مقصد کو پہنچ گیا۔ جانے کیا سحر تھا، پانچ الفاظ کا جملہ، بلاغت میں کتابوں پر بھاری، دل میں بیٹھ گیا اور ذہن پر نقش ہو گیا۔ الفاظ حدیث کے تھے۔  کیا تلقین ہے! زندگی کو ہنگاموں سے اور آشوب سے اور سازشوں سے اور حسد سے بچانے والی! ایک دوست تھے‘ شہنواز خٹک۔ بڑے منصب پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ آج کل غالباً پشاور میں مقیم ہیں۔ ایک بار عندیہ دیا کہ فلاں جگہ تعیناتی چاہتے ہیں۔ انہیں یہ حدیث سنائی اور مشورہ دیا کہ کوشش کیجیے، مگر جب تک احکام جاری نہ ہو جائیں، پھر جب تک وہاں جا کر چارج نہ لے لیں، کسی سے ذکر نہ کریں۔ کچھ عرصہ بعد ملے تو مسکراتے ہوئے بتایا کہ کامیابی ہوئی۔ درِ رسالت سے ایک اور ہدایت جاری ہوئی: ’’اپنی حاجتیں پوری کرنے کے لیے کتمان سے مدد لو، (یعنی راز کو راز ہی رکھو) اس لیے کہ ہر وہ شخص جسے نعمت سے سرفراز کیا جاتا  ہے، اس پر حسد بھی کیا جاتا ہے‘‘۔ ایک بار فرمایا: جس نے اپنی بات افشا نہ کی، اس کے ہاتھ میں خیر ہے۔...

خدمت یا کاروبار؟

ہمارے ایک دوست مفت ڈسپنسری چلاتے ہیں۔ سینکڑوں ایسے مریض جو ڈاکٹروں کی فیس اور دوائوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے‘ اس ڈسپنسری میں جاتے ہیں۔ یہاں لیبارٹری بھی ہے، ضروری ٹیسٹ مفت کر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے دوست کے جاننے والے‘ ان کے رشتہ دار‘ احباب‘ متعلقین ڈسپنسری کے لیے فنڈز مہیا کرتے ہیں۔ دامے درمے‘ جو کسی کی استطاعت ہے‘ ان کے حوالے کر دیتا ہے۔ کبھی کوئی خوشحال مریض آ نکلے تو وہ بھی عطیہ دیتا ہے۔ ایک صاحب نے ایک مشین لیبارٹری کی نذرکی! آپ کا کیا خیال ہے جو رقوم‘ درد مند حضرات ڈسپنسری کے اخراجات کے لیے دیتے ہیں‘ اگر ہمارے دوست‘ اس میں سے کچھ حصہ اپنے گھر کے اخراجات کے لیے رکھ لیں‘ اس میں سے بچے کو موٹر سائیکل خرید دیں یا ان پیسوں سے مری، نتھیا گلی سیر کے لیے چلے جائیں تو کیا یہ جائز ہو گا؟ آپ کا جواب یقیناً نہیں میں ہوگا۔ اس لیے کہ ڈسپنسری خدمت کے لیے کھولی گئی ہے،کاروبار کے لیے نہیں! خدمت اور کاروبار میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ’’خدمت‘‘ کا منصوبہ ہو تو آپ عطیات وصول کر سکتے ہیں بشرطیکہ دیانت داری کے ساتھ ایک ایک پائی خدمت ہی پر صرف کی جائے۔ کاروبار آپ اپنے سرمایے سے کریں گے، کوئی دو...

محبت عاشقوں کو رفتہ رفتہ کھو رہی ہے

جانے یہ روایت درست ہے یا نہیں، بہر حال سنتے آئے ہیں کہ احمد بن حنبلؒ نے (غالباً) عباسی خلیفہ سے کہا تھا کہ تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ ہم دونوں کے جنازے کریں گے۔ ایدھی صاحب کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ اس کالم نگار جیسے لاکھوں کروڑوں لوگ اُن کے جنازے میں شامل ہونے کے لیے تڑپ رہے تھے مگر اُس شہر سے دور تھے جہاں اِس بے تاج بادشاہ کا آخری سفر اپنے مرحلے طے کر رہا تھا۔ ایدھی صاحب نے ثابت کر دیا کہ لوگوں پر حکمرانی کرنے کے لیے تخت پر بیٹھنا ضروری نہیں۔ محلات بنوانے کی حاجت نہیں! ہٹو بچو کی صداؤں میں گھری ہوئی زندگیوں میں قید ہونا ضروری نہیں! ڈیزائنر سوٹ درکار ہیں نہ کروڑوں کی گھڑی۔ دبئی، جدہ، لندن، نیویارک میں رہائش گاہیں بھی درکار نہیں! کیا تھا ایدھی صاحب کے پاس؟ دو جوڑے کپڑوں کے، ایک ٹوپی جو قیمتی نہیں تھی۔ جوتوں کا جوڑا، جس کی بیس برس سے زیادہ عمر تھی اور جو مرمت ہوتا رہا! یہ تھی ان کی ساری اقلیم! یہ تھی کل کائنات۔ مگر رخصت ہوئے تو خلقِ خدا کی چیخیں نکل گئیں۔ دل بجھ گئے۔ آنکھیں بھیگ گئیں، مسکراہٹیں ہونٹوں سے چھن گئیں۔ جو پہنچ سکتے تھے، چل پڑے۔ جو دور تھے ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھے...

ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ

شاہی قافلے میں سینکڑوں ہاتھی تھے۔ کتنے ہی ہاتھیوں پر بادشاہ کا ذاتی سامان لدا تھا۔ کشمیر جاتے ہوئے بھمبر وہ مقام تھا، جہاں ہاتھی رُک جاتے تھے۔ اس سے آگے قلی سامان لے جانے پر مامور تھے۔ بادشاہ کا ذاتی سامان پانچ ہزار قلی اُٹھاتے تھے! فرض کیجیے، شاہ جہان اور اورنگ زیب کے زمانے میں پارلیمنٹ ہوتی! کیا پھر بھی شاہی سامان ڈھونے پر خزانہ بے دریغ خرچ کیا جاتا؟ مغل بادشاہت کے برعکس ہمارے ہاں جمہوریت کا راج ہے۔ ایک پارلیمنٹ ہے۔ اس کے ارکان منتخب ہیں! کیا پارلیمنٹ اس بات کا نوٹس لے گی کہ وزیراعظم کو لندن سے واپس لانے کے لیے خصوصی طیارہ پاکستان سے بھیجا جا رہا ہے؟ غالباً نہیں! اس لیے کہ پارلیمنٹ میں دم خم نہیں! اکثریت ایسے ارکان کی ہے جو بولتے ہیں نہ کسی معاملے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ صرف چند ممبر ہیں جو سرگرم ہیں۔ مگر و زیراعظم پر اُٹھنے والے بے جا اخراجات پر احتجاج کرنے والا کوئی نہیں! یہ ایسی پارلیمنٹ ہے جس کے ارکان خود اپنی مراعات بڑھانے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہتے ہیں اور جب بھی مراعات بڑھانے کا مسئلہ در پیش ہو، مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں! حکمران کو راہِ راست پر رکھنے کی صرف دو صورتی...

جوش یا ہوش؟

کچھ یورپی ممالک ایسے ہیں جہاں عوامی مقامات پر برقع اوڑھنے پر پابندی ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات کے شہری ان جگہوں پر جائیں تو انہیں سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ اس پابندی پر عمل کریں تاکہ قانونی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے نہ ہی جرمانہ عائد ہو سکے۔ یورپی ممالک میں سکیورٹی کے حوالے سے جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ ان کے پیش نظر وہاں سفر کرنے والوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ سکیورٹی کے حوالے سے یہ تبدیلیاں اس لیے بھی رونما ہوئی ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں صورتحال ابتر ہوئی ہے اور پھر جو مہاجرین یورپ  پہنچے ہیں‘ وہ بھی ایک سبب ہے۔یہ ہدایات امارات کی وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر احمد الزہیری نے چار دن پہلے جاری کی ہیں۔  وزارت خارجہ کے افسر نے کچھ اور تفصیلات اپنے عوام کے گوش گزار کیں‘ مثلاً یہ کہ فرانس‘ بیلجیم‘ ڈنمارک اور نیدرلینڈ نے برقع پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اسی طرح ہسپانیہ کے شہر بارسلونا میں چہرہ چھپانے پر پابندی ہے۔ جرمنی اور اٹلی کے کچھ حصوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ یکم جولائی 2016ء کو یعنی ایک ہفتہ پیشتر سوئزرلینڈ نے اس علاقے میں جو اٹلی کے ساتھ لگتا ہے چہرہ چھپانے کو ممنوع قر...

پوٹلیاں اور گٹھڑیاں

رخصت ہو رہا ہوں۔ اگلے برس پھر آؤںگا۔ تم میں سے جو زندہ رہے ان سے پھر سامنا ہو گا، جو نہ رہے ان کی کارکردگی کی رپورٹ اُن تک پہنچ جائے گی! بظاہر میں خاموش ہوں۔کچھ تو ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے میری آمد ہی نہیں ہوئی۔ لیکن میرا حال بھی اُن ستاروں جیسا ہے جن کا ترانہ تمہارے شاعر اقبال نے لکھا تھا کہ ’’می نگریم و می رویم‘‘ دیکھتے جاتے ہیں اور گزرتے جاتے ہیں! میں بھی سب کچھ دیکھتا ہوں خاموشی سے اور گزرتا جاتا ہوں۔ مجھے سب معلوم ہے، ان کا بھی جو تحریروں اور تقریروں میں میرے فضائل بیان کرتے ہیں۔ صبح اُٹھ کر پراٹھے کھاتے ہیں، دن کو سردائیاں نوش فرماتے ہیں، سہ پہر کو چائے اور پھر شام کو افطار ڈنر اٹنڈ کرتے ہیں۔ اُن کا بھی پتا ہے جو رات کو قیام کرتے ہیں۔ سحری اٹھتے ہیں۔ نمازِ فجر التزام سے پڑھتے ہیں، دن بھر بھوکے پیاسے رہتے ہیں مگر جھوٹ بولتے ہیں۔ قسمیں اٹھاتے ہیں۔ دعوے کرتے ہیں۔ عہد و پہچان باندھتے ہیں۔ پھر سب کچھ توڑ دیتے ہیں۔ عہد و پیمان بھی قسمیں بھی! مردہ بھائیوں کا گوشت مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ ہر ناجائز منافع خوری کے بعد الحمد للہ کہتے ہیں۔ انہیں بھی جانتا ہوں جو حرمین شریفین میں س...

بُدھو میاں

’’فہرست کے مطابق محمود اچکزئی وزیر اعظم کے خصوصی مشیر ہیں۔ ان کے بھائی محمد خان اچکزئی بلوچستان کے گورنر ہیں۔ بھائی حمید خان اچکزئی ایم پی اے ہیں۔ بھائی مجید خان اچکزئی بھی ایم پی اے ہیں۔ بیوی کی بھابھی بھی ایم پی اے ہیں۔ بیوی کی بہن نسیمہ حفیظ ایم این اے ہیں(ان تمام منتخب رشتہ داروں میں شاید ہی کسی نے ایک ہزار سے زیادہ ووٹ لیے ہوں۔) برادر نسبتی منیجر کوئٹہ ایئر پورٹ تعینات ہیں۔ دوسرا برادر نسبتی حسن منظور ڈی آئی جی موٹر وے پولیس ہے۔ بیوی کا بھتیجا سالار خان بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز میں لیکچرر ہے اور اسی یونیورسٹی میں بیوی کا کزن قاضی جلال رجسٹرار کی سیٹ پر براجمان ہے‘‘۔ یہ اقتباس نذیر ناجی صاحب کے کالم سے ہے جو چند دن پہلے شائع ہوا ہے۔ ویسے سوشل میڈیا پر جو فہرستیں محمود خان اچکزئی کے متعلقین کی گردش کر رہی ہیں وہ اس فہرست سے طویل تر ہیں جو ناجی صاحب نے بہت محتاط ہو کر پیش کی ہے۔ یہ سارے متعلقین اس ریاست سے حلوہ کھا رہے ہیں جسے پاکستان کہتے ہیں اور جس کا ایک صوبہ۔۔۔ جی ہاں پورے کا پورا صوبہ محمود خان اچکزئی نے افغانستان کو عطا کر دیا ہے۔ تی...