…… پنجابیوں نے لُوٹ لیا
سب ہانپ رہے تھے۔ سب سامان اُٹھائے تھے۔ کسی کے سر پر صندوق تھا۔ کسی کے ہاتھ میں بیگ۔ کوئی بوڑھی تھی اور ہائے ہائے کیے جا رہی تھی۔ کوئی نوجوان تھا مگر مشقت اس قدر تھی کہ سانس اس کا پھولا ہوا تھا۔ سیڑھیاں اُترنا تھیں۔ پھر چڑھنا تھیں، پھر اُترنا تھیں۔ پھر چڑھنا تھیں! یہ اُس قافلے کا ذکر نہیں جو تقسیم ہند کے وقت جالندھر اور امرتسر اور لدھیانہ اور فیروزپور اور ملیر کوٹلہ سے گرتا پڑتا آ رہا تھا اور اُن ہزاروں بے یار و مددگار قافلوں میں شامل تھا جو پاکستان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یہ تو اُن بے کس، بے بس، مسافروں کا ذکر ہے جو لاہور ریلوے اسٹیشن پر دو روز پہلے ان آنکھوں نے دیکھے، عبرت پکڑی! یہ لکھنے والا خود بھی ان ہانپتے کانپتے مسافروں میں شامل تھا! یا خواجہ! یا خواجہ سعد رفیق! اے ریلوے کے وزیر! اے ریلوے کے محنت کرنے والے وزیر! تو کہاں ہے؟مگر ریلوے کے وزیر کو یا کسی بھی وزیر کو اخباری کالم پڑھنے کی کیا ضرورت ہے! اس سے پہلے بائیس اپریل 2016ء کو ریلوے کے مسائل پر تفصیلی کالم روزنامہ دنیا میں چھپ چکا ہے۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ وزیر ریلوے نے وہ بھی نہیں پڑھا ورنہ کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے ک...