Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, July 24, 2025

قبائلی سرداروں کا خفیہ اجلاس

یہ خفیہ اجلاس ایسے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام پر منعقد ہو رہا تھا جہاں کوئی سرکاری چڑیا یا میڈیا کا کبوتر خواب میں بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بحیرۂ عرب کا ایک غیر آباد جزیرہ تھا۔ کچھ کہتے ہیں یہ بلوچستان کے اونچے پہاڑوں کے درمیان ایک ایسی جگہ تھی جس کا علم ان قبائلی سرداروں کے علاوہ کسی کو بھی نہ تھا۔ ایک ذریعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ اجلاس پاکستان کی سمندری حدود سے پرے‘ بحر ہند میں ایک عظیم الجثہ بحری جہاز میں برپا ہوا۔ یہ جہاز بحری قزاقوں کا تھا جن سے ان سرداروں کا گہرا اور پرانا پیشہ ورانہ (پروفیشنل) تعلق تھا۔ اجلاس کے مقام کے ارد گرد دور دور تک اتنا کڑا پہرا تھا کہ چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔ سرداروں نے بڑی بڑی پگڑیاں باندھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے خوفناک‘ لمبی‘ بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں! ایک ایک سردار کے پچاس پچاس‘ سو سو محافظ تھے۔ ان کے پاس بندوقیں‘ ریوالور‘ کلاشنکوفیں‘ دستی گرنیڈ اور نجانے کیا کیا تھا۔ کھانے کے لیے بیسیوں دنبے‘ درجنوں بکرے اور بڑی تعداد میں مرغ‘ تیتر اور بٹیر لائے گئے تھے۔ اتنی سکیورٹی‘ اتنا پروٹوکول‘ اتنی خدمت اور اتنی حفاظت ملکوں کے سربراہ اکٹھے ہوں تو تب بھی نہیں ہوتی۔

سرداروں کی اکثریت خوف زدہ تھی! اجلاس کے دوران انہوں نے اس خوف کا اظہار برملا کیا۔ بانو اور احسان اللہ کے وحشیانہ قتل کے بعد سوشل میڈیا پر عوام نے جس طرح احتجاج کیا اور جس طرح یہ روح فرسا خبر پوری دنیا میں پھیلی‘ اس سے سردار اس ڈر میں مبتلا ہو گئے تھے کہ حکومت کوئی سخت ایکشن نہ لے لے۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ سزا دینا ان کا حق ہے۔ قبائلی روایات کی حفاظت ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یکے بعد دیگرے ہر سردار نے انہی خدشات کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے آج اگر کاروکاری پر پابندی لگا دی تو کل جلتے کوئلوں پر چلا کر چور کو پکڑنے کی روایت پر پابندی لگا دیں گے۔ پرسوں کہیں گے کہ سردار کا قبیلے کے لوگوں کی نجی زندگیوں میں کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ اس طرح تو قبیلے پر سردار کی حاکمیت بے اثر ہوتے ہوتے ایک دن بالکل ہی ختم ہو جائے گی۔ سردار تو قبیلے کے لوگوں کی زندگیوں کا مالک ہے۔ وہ جسے چاہے زندہ رکھے‘ جسے چاہے مار دے۔ جسے چاہے تعلیم حاصل کرنے سے روک دے۔ اس کا حق ہے کہ ''مجرم‘‘ کے جسم پر گُڑ کا شیرہ مل کر چیونٹیوں بھری غار میں پھینک دے۔ جب سرکاری ملازموں کو سردار کی پرچی کے بغیر تنخواہ نہیں مل سکتی تو قبیلے کے ارکان کی کیا حیثیت ہے کہ سردار کے سامنے زبان کھولیں یا اس کے حکم سے سرتابی کریں۔ بڑا سردار جو اجلاس کی صدارت کر رہا تھا‘ سب کی تقریریں سنتا رہا۔ اس کا چہرا کسی قسم کے تاثر یا رد عمل سے خالی تھا۔ اسے اپنے جذبات چھپانے پر اتنی ہی قدرت تھی جتنی اپنے ارادے چھپانے پر۔ اس کی سرداری کا دائرہ وسیع و عریض تھا۔ اس کے اعصاب مضبوط تھے۔ اس کا دل رحم سے خالی تھا۔ اس کے لیے قتل‘ سنگسار‘ اندھے کنویں میں پھینکنا‘ ٹانگیں اور بازو توڑ دینا‘ میاں بیوی کو الگ کر دینا‘ بیوی‘ بیٹی چھین لینا‘ یہ سب معمول کی کارروائیاں تھیں۔
پہلے سیشن کے اختتام پر کھانے کا وقفہ ہوا۔ تکوں‘ کبابوں کی بہار تھی۔ دم پخت اور کھڈا کباب وافر تھے۔ مسلّم بکرے اور دنبے ہی نہیں‘ بھُنی ہوئی سالم گائیں بھی حاضر تھیں۔ کھانے کے بعد قہوے کا دور چلا۔ دوسرے سیشن میں بڑے سردار کی صدارتی تقریر تھی۔ مکمل سناٹا تھا۔ بڑے سردار نے بولنا شروع کیا۔ کیا خود اعتمادی تھی! ایسی خود اعتمادی جو سسلی مافیا کے سب سے بڑے ڈان کو بھی نصیب نہ ہوئی تھی! بڑے سردار نے کہا ''میں نے تم سب کے مؤقف سنے۔ بظاہر تمہارے خدشات معقول نظر آتے ہیں! مگر اصل میں ایسا نہیں! تمہاری باتیں سطحی ہیں۔ تمہارا تجزیہ ناقص ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھو۔ جس سردار نے کوئٹہ میں دن دہاڑے ٹریفک پولیس کے اہلکار حاجی عطا اللہ کو اپنی گاڑی کے نیچے قتل کر دیا تھا کیا اسے سزا ملی؟ کیا اسے پھانسی پر لٹکایا گیا؟ اس ملک کے نظامِ انصاف سے تمہارا اعتماد کیوں اٹھنے لگا ہے؟ یہ نظامِ انصاف تمہارے سامنے دست بستہ کھڑا ہے۔ یہ تمہاری حفاظت کر رہا ہے۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ بانو اور احسان اللہ کے قتل کا حکم دینے والا اور قتل کرنے والے سب بخیرو عافیت واپس آجائیں گے۔ چند پیشیاں ہوں گی‘ کچھ دن جیل میں رہیں گے۔ اس کے بعد ستّے خیراں! اور جیل ہو یا پیشی‘ پروٹوکول انہیں پورا ملے گا۔ تم بھول رہے ہو کہ تمہاری قوت کا منبع جرگہ سسٹم ہے۔ یہ جرگے‘ یہ پنچایتیں‘ یہی تو قبائلی نظام کی بنیادیں ہیں! تم خود سوچو! یہ 2025ء ہے۔ کیا دنیا کے کسی اور مہذب جمہوری ملک میں نجی عدالتوں کا وجود ہے؟ اگر یہ متوازی عدالتیں آج تک کسی حکومت نے ختم نہیں کیں تو آئندہ کون مائی کا لعل ہے جو انہیں ختم کرے؟ کوئی اور ملک ہوتا تو جرگوں میں بیٹھنے والوں اور فیصلے صادر کرنے والوں کے زن بچے کولہو میں پیلوا دیے جاتے۔ جرگوں اور پنچایتوں کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا۔ تم خود سوچو! بانو اور احسان اللہ کے قتل کے بعد کسی اسمبلی‘ کسی کابینہ میں جرگہ سسٹم کے خلاف آواز اٹھی ہے؟ کسی حکمران میں اتنی ذہانت ہی نہیں کہ مسئلے کی تہہ تک جائے۔ انہیں ادراک ہی نہیں! یہ تو وہ حکومتیں ہیں جو کینسر کا علاج پیراسیٹامول سے کرتی ہیں۔ تمہارے اقتدار کی کنجی جرگہ سسٹم میں ہے۔ یہ جرگہ سسٹم ہے جس کی وجہ سے تمہارا قبیلہ تم سے ڈرتا ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ جرگے کی صدارت اور فیصلہ سازی سردار کے پاس ہے۔ اور میں تمہیں قول دیتا ہوں کہ جرگہ سسٹم کبھی ختم نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ عدلیہ ہے یا مقننہ یا انتظامیہ‘ کسی میں اتنا ادراک نہیں کہ بیماری کو جڑ سے پکڑے! یہ سطحی دماغ ہیں۔ اور یہ سطحیت‘ یہ اوسط سے کم درجے کی ذہانت‘ یہی تمہاری خوش قسمتی ہے! اور ہاں! میں تمہیں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ بلوچستان کا سرداری نظام جو ہمارے اقتدار کی اصل بنیاد ہے‘ قائم و دائم رہے گا۔ یہ وہ نظام ہے جس کی مثال افریقہ کے جنگلوں میں شاید مل جائے‘ باقی دنیا میں نہیں مل سکتی! پاکستان کی کسی حکومت میں دم خم نہیں کہ ہمارے سرداری نظام کو نقصان پہنچا سکے۔ بلوچستان کے گورنروں اور چیف منسٹروں کی اب تک کی فہرست دیکھ لو‘ صوبے کی حکومت ہمارے پاس ہی رہی ہے۔ ایک آدھ بار ڈاکٹر عبدالمالک جیسا عام بلوچی وزیراعلیٰ بنا بھی تو جلد ہی ہٹا بھی تو دیا گیا۔ سو‘ نوجوان سردارو! دل چھوٹے نہ کرو! ہمت نہ ہارو! اپنے قدم دھرتی پر مضبوطی سے رکھو! لوگوں کو غیرتعلیم یافتہ کرنے کی کوشش میں کمی نہیں آنی چاہیے۔ سکولوں اور کالجوں کو خطرے کی گھنٹی سمجھو۔ جہالت اور غربت تمہارے اقتدار کے ستون ہیں۔ یہ جو سکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو تم نے غلے کے گوداموں میں تبدیل کر دیا ہے اور ان میں اپنے مویشی باندھتے ہو تو بالکل ٹھیک کیا ہے۔ اپنے بچوں کو بے شک اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھیجو مگر یاد رکھو‘ قبیلے کے عام افراد کے بچے کراچی اور لاہور تک بھی نہ جائیں! انہیں شہروں کی ہوا نہ لگنے پائے۔ اور ہاں! انہیں باور کراتے رہو کہ پنجاب ان کا دشمن ہے۔ انہیں اسی غلط فہمی میں رہنے دو!‘‘۔
خفیہ اجلاس کے اختتام پر سب سردار ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے۔ ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیں۔ اور بڑے سردار کا شکریہ ادا کیا۔
وضاحت۔ اس اجلاس کی روداد مجھے صدر ٹرمپ نے سنائی ہے۔ جس نے تصدیق کرنی ہو‘ صدر ٹرمپ سے رابطہ کر لے۔

 

powered by worldwanders.com