ارشد محمود پر ہمیشہ رشک آتا ہے۔ بصارت کے مسائل کے باو جود اس نے تن تنہا‘ اتنا تحقیقی کام کیا ہے جتنا بڑے بڑے ادارے بھی شاید نہ کر سکیں۔ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہے تو لعل وجواہر نکال لاتا ہے۔ ریت کو چھوتا ہے تو سونا برآمد ہوتا ہے۔ وہ باکمال تخلیقات جن کے مصنفین تہہِ خاک جا چکے تھے اور تخلیقات پر زمانے کی گرد پڑی ہوئی تھی‘ ارشد محمود نے انہیں ڈھونڈا‘ گرد صاف کی‘ تفصیلات لکھیں اور منظرِ عام پر لے آیا۔ اب تک وہ ستر سے زیادہ تحقیقی جواہر پارے‘ ادب کے اساتذہ اور طالب علموں کے سامنے لا چکا ہے۔ ان دنوں وہ مسدس حالی کی تاریخ پر کام کر رہا ہے۔ مسدس کی ایک سو گیارہ اشاعتیں اور مختلف زبانوں میں اس کے تیس تراجم دریافت کر چکا ہے۔ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کا سربراہ ہے۔ کل وہ ڈین بھی ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے شیخ الجامعہ بھی بن جائے مگر شعبے کے سربراہ‘ ڈین اور جامعہ کے رئیس تو کئی آئے اور گئے‘ ارشد محمود ناشاد کے سر پر جو سرخاب کا پر ہے‘ وہ منصب کا نہیں‘ تحقیق اور تصنیف وتالیف کا ہے۔ مناصب اور مراتب عارضی ہیں۔ تخلیقی کام قیامت تک زندہ رہتے ہیں۔ عربی کے کسی شاعر نے کہا تھا:
یلوح الخط فی القرطاس دھراً
و کاتبہ رمیم فی التراب
لکھنے والا ہمیشہ نہیں رہتا مگر اس کی تحریر کو دوام حاصل ہوتا ہے۔ اسی مضمو ن کو فارسی شاعر نے یوں بیان کیا:
نوشتہ بماند سیہ بر سفید
نویسندہ را نیست فردا امید
پنجابی کے شاعر نے بھی کہہ دیا:
لکھے رہسن کاغذ اُتے حرف سیاہی والے
لکھنے آلا عاجز بندہ ہوسی خاک حوالے
ارشد محمود ناشاد کے ساتھ ہی گورنمنٹ کالج اٹک پر بھی رشک آ رہا ہے۔ یہ کالج 1924ء میں وجود میں آیا۔ جلد ہی شمال مغربی ہند کا یہ مقبول ترین ادارہ بنوں سے لے کر جہلم تک اور سوات سے لے کر سرگودھا تک کے تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے لگا۔ یہ وسطی پنجاب کے گورنمنٹ کالج لاہور کے مقابلے کا کالج تھا۔ کم از کم دس اساتذہ ایسے ہیں جو اِن دونوں عظیم درسگاہوں کے ساتھ وابستہ رہے۔ ان میں پروفیسر ایش کمار‘ پروفیسر صدیق کلیم‘ پروفیسر اشفاق علی خان اور پروفیسر محمد عثمان کے نام نمایاں ہیں۔ گزشتہ سال‘ 2024ء میں گورنمنٹ کالج اٹک کو قائم ہوئے ایک صدی ہوئی تو ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے اس کی سو سالہ تاریخ مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اہلِ علم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام کتنا مشکل ہو گا۔ مشکل ترین کام یہ تھا کہ 1924ء سے لے کر قیامِ پاکستان تک‘ کالج کے سربراہوں کے حالات اور تصویریں کیسے دریافت کی جائیں؟ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے نہ صرف پرنسپل حضرات کے حوالے سے مکمل معلومات حاصل کیں بلکہ اساتذہ اور نامور طلبہ کو بھی ڈھونڈ نکالا۔ گورنمنٹ کالج اٹک کی یہ سو سالہ روداد اصل میں ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جو پورے خطے کی تعلیمی تاریخ ہے۔ اس میں ارشد نے پہلے سیاسی تاریخ لکھی ہے‘ پھر بتایا ہے کہ تقسیم سے پہلے مسلمان کس طرح دوسری قوموں سے پیچھے تھے۔ پھر عہد بہ عہد کالج کی داستان رقم کی۔ نامور اساتذہ کے ناموں کی فہرست ترتیب دی اور تعارفیے لکھے۔ دلچسپ ترین حصہ وہ ہے جس میں کالج سے وابستہ نامور شخصیات کی اپنی لکھی ہوئی یادداشتیں ہیں۔ یہ حصہ تقریباً سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ضمیر جعفری‘ احمد ندیم قاسمی‘ دیویندر اسر‘ فتح محمد ملک‘ وقار بن الٰہی اور دیگر مشاہیر شامل ہیں۔ یہ یادداشتیں کیا ہیں‘ ادب پارے ہیں۔ ضمیر جعفری لکھتے ہیں ''ہمارے پرنسپل سردار پریم سنگھ بڑے نفیس طبع سکھ تھے۔ لمبی نورانی داڑھی کے نیچے کوٹ‘ واسکٹ اور پھر اس کے نیچے ٹائی لگاتے تھے۔ ہم لوگ بڑی مدت کے بعد دریافت کر سکے کہ وہ ٹائی بھی باندھتے ہیں۔ پروفیسر ایش کمار کالج کے سب سے بڑے انٹلیکچول تھے۔ وہ کالج کی علمی وذہنی زندگی پر چھائے ہوئے تھے‘‘۔ اردو کے نامور ادیب دیویندر اسر لکھتے ہیں ''میں کیمبل پور کو دل کی بستی کہتا ہوں۔ اس دل کی بستی میں ایک درسگاہ تھی جسے گورنمنٹ کالج کہتے ہیں۔ یہاں تعلیم تو ملتی ہی تھی لیکن اجزائے حیات بھی ملتے تھے۔ جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں‘ آسمان پر کوئی بادل نہیں۔ شاید وہ دور کسی ویرانے میں بھٹک رہا ہو گا۔ کاش اسے بھی اپنے وطن سے یادوں بھرا سندیسہ ملے جسے پڑھ کر وہ یکبارگی رو دے‘ اتنا روئے‘ اتنا برسے کہ اپنے وطن پہنچ جائے‘‘۔ پروفیسر فتح محمد ملک رقمطراز ہیں ''اس زمانے میں دور دور تک کوئی اور کالج نہیں تھا۔ نہ میانوالی میں کوئی کالج تھا نہ کوہاٹ میں‘ طالب علم دور دور سے کیمبل پور کالج میں پڑھنے آتے تھے؛ چنانچہ مختلف اور متنوع چال ڈھال اور طور اطوار کے طلبہ ہوسٹل میں جمع تھے۔ کیمبل پور کی خاک میں میرے آنسوئوں کی نمی دفن ہے۔ مجھے اس کی یاد عزیز ہے۔ یہی وہ دانش گاہ ہے جس نے مجھے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی خو اور زندگی کرنے کا حوصلہ بخشا ہے‘‘۔
ارشد نے کالج کے خدمت گزاروں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ دفتریوں‘ مالیوں اور آفس رنرز کی بھی تصویریں دی ہیں۔ کالج کے محسنین کا ذکر ہے۔ لائبریری‘ ہوسٹل‘ کالج میگزین‘ سالانہ رپورٹیں‘ کانووکیشن خطبات‘ یہاں تک کہ اساتذہ اور طلبہ کی تصانیف کا بھی ذکر کیا ہے۔ خاصے کی چیز اس کتاب میں تصویریں ہیں۔ تصویروں کا یہ بڑا ذخیرہ ارشد نے کس طرح جمع کیا‘ کتنی محنت کی‘ کتنے در کھٹکھٹائے‘ کتنے گھاٹ اترا‘ وہی جانتا ہے۔ ان تصویروں میں میرے استاد پروفیسر مختار صدیقی کی تصویر بھی ہے۔ ان کا نام بھی اساتذہ کی فہرست میں شامل ہے۔ پروفیسر مختار صدیقی گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی میں ہماری کلاس کو اکنامکس پڑھاتے تھے۔ وہ ایک بہترین استاد تھے۔ آج کے طلبہ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اُس زمانے کے پروفیسر خوش لباس ہوتے تھے۔ صدیقی صاحب بھی بہترین کوٹ پتلون زیب تن فرماتے تھے۔ نکٹائی لگاتے تھے۔ بعد میں ان کا تبادلہ ان کے آبائی شہر اٹک ہو گیا۔ ملازمت کے دوران سرکاری کام سے جب بھی اٹک جانا ہوتا‘ ان کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا۔ ایک بار آرٹلری سنٹر اٹک میں ایک بڑی تقریب تھی۔ شہر کے معززین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ میں مہمانِ خاص کی حیثیت سے سٹیج پر بیٹھا تھا۔ اچانک میری نظر پروفیسر مختار صدیقی صاحب پر پڑی جو حاضرین میں تشریف فرما تھے۔ ایک جنرل صاحب تھے یا بریگیڈیئر صاحب‘ جو میزبان یعنی منتظم تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ میرے استاد نیچے بیٹھے ہیں‘ میں ان کے سامنے اونچی جگہ‘ یعنی سٹیج پر نہیں بیٹھ سکتا۔ چنانچہ پروفیسر صاحب کو سٹیج پر بیٹھنے کی زحمت دی گئی۔ تین چار دن کے بعد مجھے اسلام آباد ان کا فون آیا۔ فرمانے لگے ''اوئے یار! تم مجھے کس مصیبت میں ڈال گئے ہو۔ ہر روز تمہارے کئی ماتحت آ جاتے ہیں کہ میں تمہیں ان کی سفارش کروں‘‘۔ 1998ء میں میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو پروفیسر صاحب کمال شفقت سے گائوں تشریف لائے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت وہ گورنمنٹ کالج فتح جنگ کے پرنسپل تھے۔ میں نے انتظامات کیے کہ انہیں واجبات کے لیے کسی دفتر نہ جانا پڑے اور چیک ان کے گھر پہنچے۔ بہت خوش ہوئے۔ دعائوں سے نوازا۔ ایک دن خبر ملی کہ وہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں داخل ہیں۔ حاضر ہوا مگر وہ پہچان نہ سکے۔ع مرا ہر موئے تن استاد کے حق میں دعا گو ہے۔ میرے لیے میرے اساتذہ کی خاک پا بھی مقدس ہے!!
ارشد نے گورنمنٹ کالج اٹک کی اس تاریخ کا عنوان ''روشنی کی ایک صدی‘‘ رکھا ہے۔ اس سے بہتر عنوان ہو بھی نہیں سکتا تھا!