خدا کسی کو بُرا پڑوسی نہ دے۔
میرے پڑوسی کے گھر سے میرے گھر میں پتھر آتے ہیں‘ اینٹیں پھینکی جاتی ہیں‘ کوڑا کرکٹ گرایا جاتا ہے۔ میں اس کی منت کرتا ہوں‘ بھائی چارے کا واسطہ دیتا ہوں‘ مگر بے سود! میں نے کیا نہیں کیا اپنے پڑوسی کے لیے۔ جب بھی اسے ضرورت پڑی‘ میں فوراً حاضر تھا۔ تھانے کچہری میں ہمیشہ اس کے ساتھ گیا۔ جب کھانے کے لیے اس کے گھر میں کچھ نہ تھا‘ میں نے خوراک بھیجی۔ بیمار ہوا تو اسے ہسپتال لے کر گیا۔ ادویات پہنچائیں۔ اس کے گھر پر دشمنوں نے قبضہ کیا تو اس کی خاطر اُن سے لڑا۔ اس کی چھت گر گئی تو اسے اپنے ہاں پناہ دی۔ لیکن اس کے رویے میں کبھی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ مجھ سے مسلسل فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے مسلسل نقصان پہنچاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے سانپ پالے ہوئے ہیں اور یہ زہریلے سانپ میرے گھر بھیجتا ہے۔ بدترین پڑوسی کسی نے دیکھنا ہو تو اسے دیکھے۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ فرمان کہ جس پر احسان کرو‘ اس کے شر سے بچو‘ اس پڑوسی پر ایک سو ایک فیصد صادق آتا ہے۔
میں اس پر احسان کیے جا رہا ہوں۔ وہ میرے رخسار پر تھپڑ مارتا ہے تو میں اسے دوسرا رخسار پیش کرتا ہوں۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ میرے اپنے گھر میں فاقے ہیں اور میں روٹیاں اس کے ہاں بھجوا رہا ہوں۔ میر ے اپنے بچوں کے پاس کتابیں ہیں نہ سکول کی فیس کے پیسے‘ مگر میں اپنے پڑوسی کے بچے پڑھانے چلا ہوں۔ کتابیں لے کر دیتا ہوں۔ ان کی فیسیں بھرتا ہوں۔ یہاں تک کہ اپنے گھر کا ایک کمرہ بھی ان کے لیے مختص کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور اس میں بیٹھ کر پڑھیں! مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ میں مومن ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہوں اور ایک ہی سوراخ سے بار بار‘ بار بار ڈسا بھی جا رہا ہوں۔ شاید میں مومن ہی نہیں۔ شاید میں منافق ہوں! میری یہ روداد سن کر آپ مجھ سے ہمدردی تو کیا کریں گے‘ الٹا مجھ پر نفرین بھیجیں گے۔ دنیا کا کوئی شخص مجھے عقلمند نہیں کہہ سکتا مگر میں اپنی احمقانہ پالیسی پر قائم ہوں!!
آپ کا کیا خیال ہے میں اپنا پیٹ ننگا کر کے آپ کو کیوں دکھا رہا ہوں؟ اپنے گندے کپڑے سر بازار کیوں دھو رہا ہوں ؟ اس لیے کہ پاکستان میں ایک ادارہ ہے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اس نے اسی پڑوسی کے سینکڑوں نوجوانوں کو اپنے خرچ پر پڑھانے کے لیے پاکستان بلا لیا ہے۔ تین سو پچاس پہنچ چکے ہیں۔ چند ماہ بعد ڈیڑھ سو مزید آئیں گے! یہ بندوق علامہ اقبال کے کندھے پر رکھ کر چلائی جا رہی ہے۔ یہ سکالرشپ علامہ کے نام منسوب کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ علامہ اقبال نے جس افغانستان کی تعریف کی تھی وہ اور افغانستان تھا۔ علامہ نے تو صاف کہا ہے۔ دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد۔ یہ بھی کہا ہے کہ: اے کُشتہ سلطانی و مُلّائی و پیری! اور یہ بھی کہا ہے کہ
دلِ ملّا گرفتارِ غمی نیست ؍ نگاہی ہست‘ در چشمش نمی نیست
کہ مُلّا کا دل کسی غم میں گرفتار نہیں کیونکہ اس کے پاس آنکھ تو ہے‘ اس میں نمی نہیں۔
علامہ اقبال آج کے افغانستان میں پاؤں رکھتے تو فوراً سے پیشتر انہیں گرفتار کر لیا جاتا اس لیے کہ ان کی ظاہری شکل وصورت آج کے افغانستان میں قابلِ قبول ہی نہ ہوتی!
ہم ہائر ایجوکیشن کمیشن کے عالی دماغ اور عالی مرتبت دیدہ وروں سے پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ کیا ہمارے اپنے ملک کے تمام مستحق طلبہ وطالبات کو وہ سکالر شپ دے چکے ہیں؟
تو کارِ زمین را نکو ساختی؍ کہ با آسمان نیز پرداختی
کیا زمین کے کام مکمل ہو چکے تھے کہ جناب آسمانوں پر کرم فرمائی کرنے چلے ہیں؟ ہمارے اپنے ملک کے لاکھوں ذہین‘ لائق اور ذکی طلبہ وطالبات صرف اس لیے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں کہ ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ وہ غریب ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے عبقری اربابِ بست وکشاد کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستان میں قبائلی علاقے بھی ہیں‘ جنوبی پنجاب کے پسے ہوئے عوام بھی ہیں اور بلوچستان بھی ہے۔ علامہ اقبال کی مشہور نظم ''بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ بھی ہے۔ یہ شہرہ آفاق شعر اسی نظم میں ہے:افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر؍ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا۔
ہمارے کروڑوں بچے سکول سے باہر خاک چھان رہے ہیں۔ لاکھوں طلبہ وطالبات یونیورسٹیوں میں جانے کی تمنا رکھتے ہیں اور قابلیت بھی‘ مگر اتنی مالی استطاعت نہیں کہ یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں۔ آدھی تعلیم حاصل کر کے انتہائی ٹیلنٹڈ لڑکے پرائمری سکولوں میں پڑھا رہے ہیں یا کلرکی کر رہے ہیں۔ پاکستانیوں کے ٹیکس کے پیسے پر انہی پاکستانی طلبہ وطالبات کا حق ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن باجوڑ‘ وزیرستان‘ خیبر‘ مہمند‘ دیر‘ چترال‘ گلگت‘ بلتستان سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں کو سکالرشپ کیوں نہیں دیتا؟ کیا ان کا حق فائق نہیں؟
اور پھر‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن پڑوسی ملک کے جن نوجوانوں کو پاکستانی خزانے سے نواز رہا ہے اور پاکستان کے اندر بٹھا رہا ہے‘ کیا کمیشن کو معلوم ہے کہ ان میں سے کتنے جاسوس ہیں؟ کتنے بھارت کے لیے کام کریں گے؟ کتنے خوارج کے ایجنٹ ہیں؟ کیا ایچ ای سی نہیں جانتا کہ ہم نصف صدی سے جنہیں پال رہے ہیں وہ پلٹ کر ہمیں ہی کاٹ رہے ہیں! ہمِیں پر غرا رہے ہیں! ہمیں پر حملہ آور ہیں! کیا کرکٹ کے میدانوں میں ہم پر انہوں نے حملے نہیں کیے؟ کیا ان کی زمین سے دہشت گرد ہم پر مسلسل حملے نہیں کر رہے؟ کیا ان کی سر زمین سے آنے والے خوارج ہماری عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم نہیں کر رہے؟ ہمارے جن جوانوں اور افسروں کو پڑوسی ملک سے آنے والے خارجی شہید کر رہے ہیں‘ ان شہدا کے خاندان ٹیکس بھی تو دے رہے ہیں۔ کیا ان ٹیکسو ں سے اکٹھا کیا ہوا روپیہ انہی دہشت گردوں کے مربّیوں پر خرچ کرنا حب الوطنی ہے؟؟ ایچ ای سی کو اس سوال کا جواب دینا ہو گا! لاکھوں کروڑوں روپے اس ملک کے طلبہ پر کیوں صرف کیے جا رہے ہیں جہاں سے رات دن در اندازی ہو رہی ہے؟ یہ حب الوطنی ہے یا کچھ ''اور‘‘ ہے؟؟ کیا ایچ ای سی کی پیدائش کے وقت یہ طے کر دیا گیا تھا کہ دشمنی کرنے والوں پر قومی خزانہ لٹایا جائے گا؟
اور کیا ایچ ای سی ہمیں بتائے گا کہ یہ جو پڑوسی ملک سے سینکڑوں طلبہ منگوائے جا رہے ہیں‘ ان میں طالبات کتنی ہیں؟ غالباً ایک بھی نہیں! اگر ایچ ای سی کے دل میں پڑوس کے لیے اتنا ہی درد ہے تو کیا اس نے متعلقہ حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ طالبات کو ضرور شامل کیا جائے؟ کیا ایچ ای سی طالبان حکومت کی خواتین دشمنی میں شریک ہو رہا ہے؟ اور
misogyny
کا حامی ہے؟
ایچ ای سی والے بیچارے اتنے غریب ہیں کہ جن دنوں بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کر رکھی تھی ‘ ان دنوں یہ اخبار خرید سکے نہ ہی ان کے پاس ٹی وی تھا۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ جس پڑوسی ملک کے نوجوانوں پر یہ قومی خزانہ لٹا رہے ہیں اس ملک نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کی حمایت نہیں کی بلکہ وہاں سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ یہ تو پنجابیوں اور ہندوؤں کی جنگ ہے اور یہ کہ پشتون اس جنگ سے دور رہیں!! ان کی حکومت کا ایک سرکردہ وزیر اُنہی دنوں بھارت کے خفیہ دورے پر بھی تھا! اتنا بڑا احسان پڑوسی ملک نے پاکستان پر کیا تو پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس احسان کا بدلہ تو دینا تھا!! واہ! ہائر ایجوکیشن کمیشن! واہ!