Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, August 27, 2020

مشتاق رضوی انتظار کر رہا ہے



‎مشتاق رضوی انتظار کر رہا ہے!……
‎جنت کے چمن زاروں میں ٹہلتے ٹہلتے اسے جس وقت وہ اذیت یاد آتی ہے جس سے وہ دنیا میں گزرا ہے، تو پاس سے گزرتے ہوئے فرشتے سے پوچھتا ہے: وہ پہنچا ہے کہ نہیں ؟ فرشتہ مسکراتے ہوئے جواب دیتا ہے نہیں! ابھی نہیں پہنچا‘ مگر خاطر جمع رکھو‘ آنا اس نے ضرور ہے‘ تمہیں پورا موقع ملے گا ، تم خود اس سے اُس ظلم کا حساب مانگو گے جو اس نے تم پر ڈھایا‘ حکمران یا سابق حکمران وہ دنیا میں تھا‘ یہاں وہ ملزم ہو گا‘ تمہارا ملزم اور بہت سے دوسرے افراد کا ملزم۔ 
‎سابق حکمران کو مشتاق رضوی کا نام تک یاد نہ ہو گا۔ کہاں سابق حکمران جب پتا بھی اس کے اشارۂ ابرو کے بغیر نہیں ہلتا تھا، جب انصاف اس کے بوٹوں کے نیچے قالین کی طرح بچھا ہوا تھا‘ اور کہاں مشتاق رضوی گریڈ انیس بیس کا معمولی سرکاری ملازم ! کیا حیثیت تھی اس کی حکمران کے سامنے!
‎مگر آہ ! حکمران بھول جاتے ہیں کہ جو مناظر ان کے سامنے تیزی سے گزر کر غائب ہو جاتے ہیں ، وہ کسی اور کمپیوٹر پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ایک ایک خراش، ایک ایک ٹھنڈی سانس، ایک ایک گرم آہ، ہر چیز کا حساب ہو گا۔
‎تُلیں گے کس ترازو میں یہ آنسو اور آہیں
‎اسی خاطر تو میں روزِ جزا کو مانتا ہوں
‎پھر جب پنڈلی پنڈلی سے جُڑ جاتی ہے، جب جان حلق میں پہنچ جاتی ہے، جب جھاڑ پھونک کرنے والوں کو بلایا جاتا ہے ، جب سورہ یٰسین پڑھنے کے لیے مولوی کی یاد آتی ہے ، تب یہ مناظر جو غائب ہو گئے ہوتے ہیں ایک ایک کر کے فلم کے مانند آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔ پھر دریچہ کُھلتا ہے۔ پھڑپھڑاتے پروں کے ساتھ موت کا قوی ہیکل عقاب کمرے میں داخل ہوتا ہے اور نزع میں ڈوبے انسان کو پنجوں میں یوں دبوچ کر چلا جاتا ہے‘ جیسے انسان نہ ہو چوزہ ہو!
‎فلم چلنی ہی چلنی ہے۔ مشتاق رضوی نے نظر آنا ہی آنا ہے۔ کیا عجب اُن لمحوں میں وہ یارِ دیرینہ بھی نظر آئے جس کے لیے مشتاق رضوی کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
‎ٹریجڈی کا تاریک ترین پہلو یہی ہے کہ جن کے لیے انسان انصاف کا خون کرتا ہے اور حق دار کو اس کے جائز حق سے محروم کرتا ہے وہی تو اس دن کام نہیں آتے۔ ارے بھائی! اُس دن تو میاں بیوی سے بھاگے گا اور ماں باپ بچوں سے ، تو ایک سابق سفیر، سابق حکمران کی کیا مدد کرے گا۔ جرم کا بوجھ کوئی نہیں بانٹتا نہ اُس دن کسی کا جرم اپنے کھاتے میں کوئی ڈالے گا۔ آپ دنیا میں لاکھ دعویٰ کریں کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا یا دونوں ہاتھ اٹھا کر فخر سے اعلان کریں کہ یہ میرا طاقت کا مظاہرہ تھا‘ لیکن جس دن آپ نے ظلم کا حساب دینا ہو گا اس دن آپ اپنی نجات کے لیے اُس فرد یا افراد کے محتاج ہوں گے جن کا حق آپ نے پامال کر کے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو نوازا تھا۔ اگر یہ مظلوم معاف کریں گے تو مالکِ روزِ جزا بھی معاف کرے گا ورنہ نہیں۔
‎ریاست پاکستان کے اس مالی نقصان اور مشتاق رضوی کے ساتھ ہونے والے ظلم کا معاملہ ٹھیک بیس سال پہلے پیش آیا۔ اِس وقت اِس پر اس لیے لکھا جا رہا ہے کہ احتساب کے ادارے نے سابق سفیر کے خلاف ریفرنس اب دائر کیا ہے۔ رواں صدی کا پہلا سال تھا۔ انڈونیشیا میں تعینات پاکستانی سفیر نے دو عمارتیں فروخت کر ڈالیں۔ یہ دونوں عمارتیں پاکستان کی ملکیت تھیں۔ ایک میں سفارت خانہ تھا اور دوسرے میں سفیر کی رہائش گاہ ! ان عالی شان عمارتوں کا محل وقوع بہترین تھا۔ فروخت سراسر خلاف قانون تھی۔ وزارت خارجہ سے اجازت لی گئی نہ کوئی اشتہار دیا گیا۔ ضابطے کا کوئی ایک تقاضا بھی پورا نہ کیا گیا۔ مشتاق رضوی‘ جو فارن سروس آف پاکستان کے رکن تھے اور پیشہ ورانہ امور پر گہری نظر رکھتے تھے‘ وہیں تعینات تھے۔ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے وزارت خارجہ کو اس دھاندلی کی اطلاع دی۔ یہ ایک ایسا قصور تھا جس کی سزا مشتاق رضوی نے مرتے دم تک کاٹی۔ پاکستان پر قابض اُس وقت کے آمرِ مطلق نے اس معاملے میں چھ ظلم کیے۔ اول‘ سفیر نے قانون کی جو دھجیاں اُڑائی تھیں، اس سے چشم پوشی کی۔ دوم‘ اس خلاف قانون سودے سے ریاست کو جو مالی نقصان پہنچا، اس سے اغماض برتا کیونکہ فروخت اونے پونے داموں ہوئی تھی۔ سوم، مشتاق رضوی کو واپس بلا کر او ایس ڈی بنا دیا۔ چہارم، وزارت خارجہ سے نکال کر مشتاق کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ماتحت کر دیا‘ جس کی کوئی نظیر نہ تھی۔ پنجم‘ مشتاق رضوی کو آٹھ سال تک کسی تعیناتی، کسی دفتر کے بغیر رکھا یہاں تک کہ اسی بیچارگی اور کسمپرسی کے عالم میں وہ ریٹائر ہو گیا۔ آٹھ سال ! کہنا آسان ہے مگر تصور کیجیے چھیانوے ماہ تک بغیر کسی کام، بغیر کسی منصب اور بغیر کسی دفتر کے گزارنا‘ وہ بھی اتنی سنیارٹی کے ساتھ ! چھٹا ظلم یہ کیا کہ جرم کرنے والے سفیر کو نہ صرف یہ کہ وہیں رکھا بلکہ توسیع بھی دی۔
‎اب اس معاملے پر مٹی بھی ڈالنا تھی۔ اپنے دوست کو بچانا بھی تھا۔ اس کے لیے یہ حیلہ ایجاد کیا کہ تین افسروں کی ایک کمیٹی کو جکارتہ بھیجا گیا۔ کمیٹی نے واپس آ کر وہی کچھ کہا جو حکمران چاہتا تھا‘ یعنی یہ کہ قانون شکنی تو ہوئی مگر قیمت مناسب مل گئی اور یہ کہ اس سارے دھندے کی اب منظوری دے دی جائے۔
‎کمیٹی کی سفارشات فوراً منظور کر لی گئیں۔ اس کمیٹی کی حقیقت مشتاق رضوی کی بیوہ نے بیان کی۔ جب وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئیں تو انہوں نے بتایا کہ سہ رکنی کمیٹی کے سربراہ، اُس وقت کے سیکرٹری کابینہ نے نوکری میں توسیع کی خاطر سفیر کو بے گناہ قرار دیا۔
‎بے گناہ مشتاق رضوی آٹھ سال تک در بدر ہونے کے بعد اسی عالم میں ریٹائر ہوا۔ اس کے دو سال بعد دل کا دورہ پڑا اور اپنا مقدمہ لیے سب سے بڑی عدالت میں پیش ہو گیا‘ جہاں اب وہ بڑے ملزم، سابق حکمران کا انتظار کر رہا ہے۔ تین افسروں کی کمیٹی کا سربراہ ملازمت میں توسیع لینے میں کامیاب ہوا یا نہیں مگر زندگی میں توسیع نہ مل سکی‘ اور بڑی عدالت میں بلا لیا گیا۔ احتساب کرنے والوں نے مقدمہ سابق سفیر کے خلاف قائم کیا ہے۔ بجا ! مگر اصل مجرم تو سابق حکمران ہے جس نے دوست نوازی کرتے ہوئے پہلے اپنے دوست کو تعینات کیا پھر ناروا فروخت کو معاف کر دیا۔ پھر مشتاق رضوی کو اذیت میں رکھا اور ستم بالائے ستم یہ کیا کہ سفیر کی مدت ملازمت میں توسیع بھی کی۔
‎افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ بیوروکریٹس کی سہ رکنی کمیٹی میں سے کسی ایک کو بھی اختلافی نوٹ لکھنے کی ہمت ہوئی نہ توفیق۔ شاید اس لیے کہ مشتاق رضوی کی حق گوئی کا انجام ان کے سامنے تھا۔ مشتاق رضوی نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ حکم امتناعی بھی حاصل کیا۔ فائل تھوڑی سی چلی مگر آمریت اور دوست نوازی کے درشت پنجوں نے قاعدوں ، ضابطوں اور عدل و انصاف کو چیر پھاڑ کر رکھا ہوا تھا۔ کیسا تاریک دور تھا۔ کوئی کہتا تھا‘ وردی میری کھال ہے، کوئی دعویٰ کرتا تھا‘ وردی میں اتنی بار منتخب کرائیں گے۔ ہر شام ڈوبتا سورج فنا کا پیغام چھوڑ کر جاتا ہے مگر ہر اگلی صبح لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ چڑھتا سورج ہمیشہ رہے گا‘ حالانکہ یہ طے ہے کہ ع
‎کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے کچھ اپنی جزا لے جائیں گے

‎( اس تحریر کے لیے دو واقفانِ حال جناب جاوید حفیظ اور جناب زاہد سعید سے مشاورت کی گئی ہے )

بشکریہ روزنامہ دنیا 

……………

Tuesday, August 25, 2020

کیا یہ وہی ایبٹ آباد ہے ؟


چھیالیس برس سے ایبٹ آباد میں آنا جانا ہے۔ ہر کوچہ ‘ہر بازار ‘ ہر گوشہ جانا پہچانا ہے۔بچوں کی پرورش ایک لحاظ سے یہیں ہوئی۔ اب ان کے بچے بھی یہاں کے سبزہ زاروں ‘کوہساروں ‘رہگزاروں اور بازاروں سے شناسا ہیں۔ ایک ایسا شہر جو دامنِ دل پکڑ لے تو چھوڑتا نہیں۔ کئی بار یہاں بس جانے کا سوچا مگر آہ ! علائق جنہیں چھوڑا نہ جا سکا اور آہ ! زنجیریں جو توڑی نہ جا سکیں ! تاہم جب بھی دل پر یاس طاری ہوتی ہے پاؤں ایبٹ آباد کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔
غم ِغریبی و غربت چو بر نمی تابم
بشہرِ خود روم و شہریار خود باشم
غریب الوطنی کا غم جب برداشت سے باہر ہو جائے تو اس اپنے شہر میں آجاتا ہوں اور اپنا مالک خود ہو جاتا ہوں۔
ایبٹ آباد شہروں میں ایک شہر ہے۔کوہسار اس کے گرد فصیل باندھے کھڑے ہیں۔ہوا اس کی خنک ہے۔ فضا اس کی عطر بیز ہے۔ بادل اس کے بادل نہیں پانیوں سے بھرے مشکیزے ہیں جو پیاسوں کا امتحان نہیں لیتے۔ درخت اس کے سبز اور گھنیرے ہیں۔باشندے یہاں کے نرم خو اور کشادہ جبیں ہیں۔ بات کریں تو اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔مغربی حاشیے پر شملہ پہاڑی ہے جس پر ہائیکنگ بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں سہل ہے۔ شمال مشرق میں ٹھنڈیانی ہے جو کوہ مری کی سگی دختر نیک اختر ہے۔ کیسی دل نواز چوٹی ہے! بادل آپ کے سینے سے لگ کر ماتھا چومتے ہوئے آگے گزرجاتے ہیں اور ارد گرد نمی چھوڑ جاتے ہیں۔ نمی! جس کا اصل مقام آنکھوں میں ہے۔
ایبٹ آباد گیٹ وے ہے۔ جو شمال کے دیاروں کی طرف کھلتا ہے۔ بلتستان کے تاکستانوں اور ہنزہ کے سیب زاروں کی طرف راستے یہیں سے جاتے ہیں۔ یہیں سے قافلے ختن کاشغر‘ بشکیک اور خجند روانہ ہوتے ہیں۔کوہ پیما دنیا بھر سے آتے ہیں اور ایبٹ آباد ہی سے ہو کر ان چوٹیوں کو سر کرنے نکلتے ہیں جو شہزادیوں کی طرح آسماں بوس فضاؤں میں کھڑی ہیں۔ آپ نے دیوسائی کے میدان میں ان پھولوں سے نظر بازی کرنی ہے جن کی عمر چند ہفتوں سے زیادہ نہیں ہوتی ‘ یا شِگر میں پولو کا میچ دیکھنا ہے ‘ ہاں وہی پولو جسے قطب الدین ایبک کے عہد میں چوگان کہتے تھے اور جسے کھیلتے ہوئے ایبک جان ہار بیٹھا اور انارکلی بازار کی ایک گلی میں اب بھی سو رہا ہے ‘ یا‘ خپلو میں رات کو چاندنی اور دریا کے ملاپ کا وہ منظر دیکھنا ہے جو آسمانی ہے اور دیو مالائی ہے اور ناقابل یقین ہے یا''نگر‘‘کے ان سبزہ زاروں سے ملاقات کرنی ہے جن کا مثیل سوئٹزرلینڈ سے لے کر الاسکا تک کہیں بھی نہیں ‘ غرض آپ نے جہاں بھی جانا ہے ‘ ایبٹ آباد کے بہشت زار سے معانقہ کر کے ہی جائیں گے۔
شام کی سیر ایبٹ آباد کا ارمغانِ خاص ہے۔ اس بار ایک مدت بعد بازار کا رخ کیا۔ جی پی او سے ذرا پہلے اب جہاں کمشنر ہزارہ ڈویژن کا دفتر ہے وہاں ایک زمانے میں پیلس ہوٹل تھا۔اُس وقت ہمارا سول سروس کا آغاز تھا۔ اس ہوٹل میں ٹھہرتے رہے۔ جی پی او سے پہلے ‘ جی پی او کی دیوار کے ساتھ ساتھ‘ دائیں طرف مڑ گیا... یہاں ایک بک شاپ ہوتی تھی۔ نظر نہ آئی تو آنکھوں پر دھوکے کا گمان ہوا۔ بار بار دکانوں کو دیکھا۔ بالآخر ایک تاجر سے پوچھا تو وہ مسکرایا۔ ''جناب! وہ بک شاپ تو منڈیاں کے علاقے کو سدھار چکی‘‘ ! یہ پہلا صدمہ تھا۔ کچھ دیر‘ دم بخود‘ وہیں کھڑا رہا اور اس وحشت اثر خبر کو ہضم کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہا۔سینکڑوں بار اس بک شاپ میں جانا ہوا ہو گا۔ اب وہاں جوتے تھے یا شاید ملبوسات! کونے سے بائیں طرف مڑ گیا۔سامنے جناح روڈ تھی۔دائیں کونے پر ایک دومنزلہ ریستوران ہوا کرتا تھا۔ شاید اس کا نام کاغان ریستوران تھا۔اس کی روٹیاں توے کی ہوتی تھیں۔ بڑی بڑی‘ اور خوب پتلی جو بچوں کو کبھی نہیں بھولیں۔ یا وحشت ! وہ ریستوران کہاں گیا؟ وہاں ایک بیکری منہ چڑا رہی تھی۔اندر جا کر یوں پوچھا جیسے گم شدہ ریستوران اپنا ہی تھا۔ بتایا گیا وہ ختم ہو چکا۔یہ دوسرا صدمہ تھا۔
جناح روڈ پر بائیں طرف مڑ گیا۔ مڑتے ہی آپ کو چند دکانیں نظر آتی ہیں۔ ان دکانوں کے فوراً بعد ایم ای ایس کا انسپیکشن بنگلہ ہے۔ یاد کی سوکھی جلد پر ایک خراش ابھری۔ چالیس پینتالیس سال پہلے یہاں بھی کتابوں کی ایک دکان تھی۔کتابیں یہاں سے بارہا خود ہی ایک ایک الماری چھان کر ڈھونڈیں۔یہیں سے ہیمنگوے کے'' اولڈ مین اینڈ دی سی‘‘ کا ترجمہ ہاتھ آیا تھا۔ صفیہ کے خطوط جاں نثار اختر کے نام ''زیر لب‘‘بھی یہیں سے خریدے تھے۔ آسکر وائلڈ کا طویل محبت نامہ ''ڈی پروفنڈس ‘‘ بھی یہیں ہاتھ لگا۔ اور یہیں ایبٹ آباد ہی میں پڑھ ڈالا۔ چلتا گیا۔ انسپیکشن بنگلے سے آگے بڑھا۔ دائیں طرف پبلک پارک تھا۔ ہجوم اورریڑھیوں پر چاٹ بیچنے ولے سماجی فاصلے کے ساتھ وہی سلوک کر رہے تھے جو چنگیز خان مفتوحہ علاقوں کے ساتھ کرتا تھا۔ اب مجھے '' مونا لیزا‘‘ کی تلاش تھی جو اسی سڑک پر بائیں طرف واقع تھا۔ ایک ایسا ریستوران جو ایبٹ آباد کی شناخت تھا۔جو ہر مسافر اور ہر سیاح کی پناہ گاہ تھا۔ عین شاہراہ کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے یہ ہر ایک کا فطری انتخاب تھا۔اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے آگے نکل گیا۔ پھر واپس آیا مگر یہ عجیب معمہ تھا کہ مونا لیزا ریستوران غائب تھا۔ اب وہاں کچھ اور تھا جو معلوم نہیں کیا تھا۔یہ تیسرا صدمہ تھا۔ آہ ! مونا لیزا ریستوران جو ایبٹ آباد کا جزو لاینفک تھا۔بہت بڑا لینڈ مارک۔ بہت بڑا نشان۔ پرانے وقتوں کا رفیق۔
یہ ایبٹ آباد‘ وہ ایبٹ آباد نہیں جس سے ہم نے محبت کی تھی۔ جو ہمیں پناہ دیتا تھا۔جہاں ہم جون جولائی میں سویٹروں کے ساتھ آتے تھے۔ اب صورت حال ہولناک ہے۔ گاڑیوں کی تعداد روزافزوں ہے۔ کراچی سے لے کر پشاور تک کے اور فیصل آباد سے لے کر لاہور تک کے لوگ یہاں آباد ہو چکے۔رہی سہی کسر غیرملکیوں نے پوری کردی جو واپس جانے کا نام نہیں لے رہے۔پہاڑ کھود دیے گئے ہیں۔ درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ ہر طرف مکان ‘ مکان اور مکان ہی دکھائی دیتے ہیں۔ آبادی مانسہرہ کو چھورہی ہے۔ وہ جو درمیان میں منظر تھے اور وادیاں ‘ مٹا دی گئی ہیں۔ سب سے زیادہ قلق ان پہاڑوں اور پہاڑیوں کا ہے جو انسان کی جُوع الارض کا شکار ہو رہی ہیں۔ کاش کوئی پابندی ہوتی! کاش کوئی ضابطہ‘ کوئی قانون ہوتا۔ کوئی پوچھنے والا ہوتا۔ پلاننگ ہے نہ پروگرامنگ! جنگلی حیات موت کے منہ میں دھکیلی جا رہی ہے۔ جو کبھی ہل سٹیشن تھا اب محض ایک سٹیشن رہ گیا ہے۔ کہاں وہ وقت کہ پنکھوں کی ضرورت نہ تھی کہاں یہ قیامت کا عالم کہ ایئر کنڈیشنر چل رہے ہیں۔ اگر صوبے میں کوئی حکومت ہے اور اگر ایبٹ آباد کا کوئی والی وارث ہے تو فوراً سے پیشتر تین کام کرنے چاہئیں ‘اول: مزید آبادکاروں پر پابندی لگادینی چاہیے۔ دوم: غیر ملکیوں کو شہر سے نکال دینا چاہیے خواہ اس کام میں زور لگے یا زر۔ سوم: درخت کاٹنے اور پہاڑ کھودنے پر عبرتناک سزا دینی چاہیے۔
اور آخری بات... ہزارہ نے الگ صوبہ بننا ہی بننا ہے۔ اسے مؤخر تو کیا جا سکتا ہے‘ روکا نہیں جا سکتا۔ اس لیے کہ وقت کے دھارے کے آگے جو بھی کھڑا ہو گا وقت اسے بہا لے جائے گا۔ جب بھی صوبہ بنے ‘ ایبٹ آباد کو صوبائی دارالحکومت نہیں بننا چاہیے۔ مزید آبادی اور مزید عمارتوں کا بوجھ اسے کراچی بنا دے گا۔ بہترین انتخاب صوبائی ہیڈ کوارٹر کے لیے شنکیاری ہو گا یا اس کے نواح میں کوئی نیا قریہ ! 

ایبٹ آباد سے محبت کرنے والوں کو ایبٹ آباد بچانے کے لیے اب کچھ کرنا ہی ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ  دنیا

Monday, August 24, 2020

دوسال



''ترقی سڑکوں اور پلوں کا نام نہیں‘‘
یہ عظیم اخلاقی سبق ہمیں دیا جاتا رہا؛ چنانچہ جب سبق دینے والوں کو اختیار ملا تو سڑکوں اور پلوں کے منصوبے روک دیے گئے۔ باقی ملک کی طرح وفاقی دارالحکومت میں بھی ہر پروجیکٹ پر فل سٹاپ لگ گیا۔ دو ایسے منصوبوں پر کام ہو رہا تھا جو نہ صرف دارالحکومت کے مکینوں کے لیے بلکہ پورے ملک کے ان لوگوں کے لیے بھی بے حد ضروری تھے جو دارالحکومت تک کا سفر کرتے ہیں۔ ایکسپریس وے جی ٹی روڈ کو اسلام آباد سے ملاتی ہے‘ اور قبل از تاریخ کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس شکستہ عبرت ناک شاہراہ کی تہذیب اور تعمیر کے لیے گزشتہ حکومت نے دس ارب کی جو رقم مخصوص کی تھی، یہ واپس لے لی گئی۔ جہلم چکوال، گوجر خان سے لے کر روات تک اور پھر خود اس شاہراہ کے کناروں پر آباد لاکھوں افراد ہر روز ایک ناقابل بیان اذیت سے گزرتے ہیں۔ جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دیتے ہیں۔ جنہوں نے ووٹ دیا تھا وہ اپنے آپ کو کوستے ہیں۔ شنوائی کوئی نہیں۔ چیف کمشنر صاحب کسی کا فون نہیں سنتے۔ متاثرہ فریادی پورٹل کو بھی آزما بیٹھے۔ معلوم ہوا سب مایا ہے۔
دوسرا نشانہ ایئر پورٹ کی میٹرو بس کا منصوبہ بنا۔ بیشتر حصہ بن چکا تھا۔ اسے جہاں تھا‘ جیسے تھا کی بنیاد پر روک دیا گیا۔
مان لیا ''ترقی سڑکوں اور پلوں کا نام نہیں‘‘ ترقی اقدار سے ہوتی ہے۔ اصولوں پر کاربند رہنے سے ہوتی ہے۔ اہلیت کی سرپرستی سے ہوتی ہے۔ میرٹ کی پذیرائی سے ہوتی ہے۔ کرپشن کے استیصال سے ہوتی ہے۔ ایفائے عہد اور صدق مقال ترقی کی بنیاد ہے۔ بجا فرمایا۔ یہی اصل ترقی ہے۔ یہ ہو جائے تو اقتصادی ترقی اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ سیاسی استحکام بھی اسی کا ثمر ہے۔ مگر کیا یہ ہو رہا ہے؟
افسوس صد افسوس! ان میں سے کچھ بھی نہیں ہو رہا! جنہوں نے امیدیں باندھی تھیں، ووٹ دیے تھے، خواب دیکھے تھے، مباحثے اور جھگڑے کیے تھے، احباب اور اعزہ کو نا خوش کیا تھا وہ اب ندامت کے گرداب میں غوطے کھا رہے ہیں اور زبان حال سے بقول فراق یوں کہتے پائے جا رہے ہیں:
تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے
زمانے سے لڑائی مول لے، تجھ سے برا بھی ہو
سورج کی روشنی سے زیادہ صاف نظر آ رہا ہے کہ وعدے تار تار کئے گئے ہیں۔ جو کچھ کہا گیا اس کے عین الٹ کیا گیا۔ میرٹ کی بات لے لیجیے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ روئے زمین پر کوئی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا انتخاب میرٹ پر کیا گیا ہے یا یہ دعویٰ کر سکے کہ یہ تعیناتی اہلیت کی بنیاد پر ہوئی ہے؟؟ ہاں جنہیں کچھ مل رہا ہے کہ گن گائیں‘ وہ ضرور گائیں گے۔ ریاست مدینہ کا تذکرہ شب و روز ہوتا ہے۔ ریاست مدینہ کا تو بنیادی اصول ہی یہ تھا کہ امانتیں ان کے سپرد کرو جو اہل ہیں۔ظلم کی تعریف ہی یہ ہے کہ کسی شے کو وہاں رکھنا جو اس کی جگہ نہ ہو۔ یہ انتخاب‘ یہ تعیناتی ایک ایسا عمل ہے کہ جس کا جواز ڈھونڈنے کا تصور ہی مضحکہ خیز ہے۔
یہ کون سا میرٹ ہے کہ پنجاب میں ایک ''آرام دہ‘‘ اسامی خالی ہوتی ہے۔ وفاق میں ایک بیورو کریٹ کو ایک سال پہلے ریٹائر کر دیا جاتا ہے۔ اس ریٹائرمنٹ کی منظوری خود وزیر اعظم دیتے ہیں۔ پھر اسے فوراً پنجاب کی اس آرام دہ پوسٹ پر لگا دیا جاتا ہے تا کہ وہ وہاں چار سال تک افسری کر سکے۔ اسی سطح کے جو افسر انہی دنوں ریٹائر ہوئے کیا وہ اس قابل نہ تھے؟ کیا یہ میرٹ ہے؟ یا کسی کو فائدہ پہنچانے کی میرٹ کُش تدبیر؟ کوئی ہے جو جواز پیش کرے؟
کیا یہ قوم کی توہین نہیں کہ پہلے یہ کہا جائے کہ بجلی کے ہر بل میں پی ٹی وی کے لیے پینتیس روپے غلط کاٹے جا رہے ہیں۔ ''پاکستانیو! ہر مہینے آپ کے بل سے پی ٹی وی کے لیے، 35 روپے کٹتے ہیں اور ہر سال دس ارب روپیہ پی ٹی وی کو آپ دیتے ہیں۔ ہم دیتے ہیں۔ میں پی ٹی وی سے پوچھتا ہوں اور پی ٹی وی کا جو ایم ڈی ہے اس سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو شرم نہیں آتی‘‘ تو پھر دو سال ہو گئے یہ ناروا بھتہ کیوں نہیں ختم کیا گیا؟
پوری قوم کو ٹی وی کے ذریعے وزیر اعظم خود، بنفس نفیس، بتاتے ہیں کہ پنجاب میں ناصر درانی کو لگایا جا رہا ہے تا کہ پولیس کو پوتر کیا جا سکے۔ ناصر درانی فائز ہوتے ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد ہٹ جاتے ہیں یا ہٹا دیے جاتے ہیں۔ دو سال ہونے کو ہیں وزیر اعظم قوم کو نہیں بتا رہے کہ کیا ہوا؟ پنجاب میں پولیس ریفارمز ایک انچ کے ہزارویں حصے کے برابر بھی نہیں ہوئیں۔ تحصیل، کچہری، پٹوار خانے میں بھی رشوت اسی طرح لی جا رہی ہے جس طرح پہلے ادوار میں لی جاتی تھی۔
دوست نوازی کا پیڑ بھی اسی طرح کھڑا ہے۔ مضبوط تنے کے ساتھ۔ چھتری کی طرح سایہ فگن۔ پیدائش باہر کی۔ زندگی کی ساری برساتیں وہیں گزاریں۔ بینک بیلنس، جائیدادیں، گوشوارے، سب باہر۔ اب پاکستانی قوم کو یہ حضرات حکومت کی پالیسیاں بتاتے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر جلوہ فگن ہو کر حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں! کس حیثیت میں؟
کیا ووٹوں سے یہ نمائندگی حاصل ہوئی ہے؟ نہیں! واحد سند جو دامن میں ہے دوستی ہے! قوی ہیکل اہم ادارے، عظیم الشان محکمے ان کی تحویل میں ہیں صرف اس لیے کہ شاہ کے مصاحب ہیں! کرونی ازم زندہ باد!!
بیورو کریسی منہ زور ہے بالکل اسی طرح جیسے تھی۔ آئے دن پردوں کے پیچھے سے چھن چھن کر خبریں باہر نکلتی ہیں کہ فلاں وزیر کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی، فلاں کو لائن حاضر کیا گیا۔ اہلکار اور چوبدار مالک بنے ہوئے ہیں اور وہ جو انتخابات جیت کر آئے ہیں بے یار و مدد گار، خوار، پھر رہے ہیں۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا کہ حمقا گلاب اور قند کا شربت پی رہے ہیں اور وہ جو دانا ہیں، ان کا گزر بسر خون جگر پر ہے۔ گھوڑوں سے گدھوں کا سا سلوک ہو رہا ہے۔ رہے گدھے تو مزے کر رہے ہیں۔ بقول حافظ، ان کی گردنوں میں سنہری پٹے ہیں۔
جس ہڑپ کی گئی دولت کا شور تھا اس کی ایک دمڑی بھی واپس خزانے میں نہیں آئی۔ گرانی آسمان کو چھو رہی ہے۔ پٹرول سے لے کر چینی تک ہر طرف آہ و بکا ہے۔ سبز پاسپورٹ کی رینکنگ آج بھی وہی ہے جو تھی۔ کرنسی پہلے سے زیادہ خوار و زبوں ہے۔ ایک ڈالر ایک سو اڑسٹھ روپے میں مل رہا ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار !
قومی ایئر لائنز اور سٹیل ملز جیسے ہاتھی پہلے ہی کی طرح قومی خزانے کو چوس رہے ہیں۔ یونینوں نے ماضی ہی کی طرح اداروں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ انہیں نجی شعبے میں لائے بغیر چارہ نہیں۔ ایسے جرأت مندانہ اقدامات کرنے والا کوئی آئے گا تو تبھی صورت احوال بدلے گی۔ قدیم ترین سرداری نظام کو، جو اس ملک میں پایا جاتا ہے ہاتھ وہی ڈالے گا جو کرونی ازم اور میرٹ کُشی کے بجائے بے غرضی کو اپنائے گا۔ اقبال نے کہا تھا:
می رسد مردی کہ زنجیر غلاماں بشکند
دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما
میں تمہارے زنداں کی دیوار کے سوراخ سے دیکھ رہا ہوں کہ غلاموں کی زنجیر توڑنے والا آیا چاہتا ہے۔ قائد اعظم آئے اور ایسا ہی ہوا جیسا اقبال نے کہا تھا۔ ایک بار پھر کسی کے آنے کا انتظار کرنا ہو گا۔

Thursday, August 20, 2020

…ہم اس کے، وہ اور کسی کا


نسیم صاحب کے مالی حالات قابل رشک نہیں تھے۔ بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پریشان رہتے۔ ذاتی مکان بھی نہیں تھا۔ انہی دنوں ان کا ایک قریبی دوست ہجرت کر کے لندن جا آباد ہوا۔ پاؤں جم گئے تو اس نے نسیم صاحب کو بھی ہجرت کرنے کا کہا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم لڑکپن میں تھے اور یورپی ملکوں کے لیے امیگریشن ویزے اور وہاں نوکری کا حصول اتنا مشکل نہ تھا۔ نسیم صاحب کی مالی مشکلات کے پیش نظر یہ ایک زبردست موقع تھا۔ گھر والے بھی خوش تھے‘ مگر نسیم صاحب نے اپنے دوست کی پیشکش ٹھکرا دی۔ وجہ انکار کی انہوں نے یہ بتائی کہ جب تک ان کے ماں باپ حیات ہیں وہ ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔ بیوی نے دلیل دی کہ اب بھی رہتے تو والدین کے ساتھ نہیں ہیں‘ وہ گاؤں میں ہیں اور آپ شہر میں۔ نسیم صاحب کا جواب تھا کہ جب بھی ان کا جی ماں باپ کو ملنے کے لیے کرتا ہے یا جب بھی ماں باپ کو ان کی ضرورت پڑتی ہے وہ تین گھنٹوں میں ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں‘ لندن سے وہ اس قدر جلد اور اس قدر سہولت کے ساتھ نہیں آسکیں گے۔
ماں باپ کی قربت نسیم صاحب کی پالیسی کا مرکزی ستون تھی۔ ہر شخص کی ایک پالیسی ہوتی ہے جس کے ارد گرد اس کی زندگی کے اہم فیصلے گھومتے ہیں۔ کوئی بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی خاطر بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ کوئی اپنے ماں باپ یا آبائی گاؤں کو کسی حال میں نہیں چھوڑ نا چاہتا۔ کچھ نوجوان سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد فارن سروس سے گریز کرتے ہیں کہ روز روز کی خانہ بدوشی سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ ایک پکا مسلمان جب بزنس کرے گا تو اس کی بنیادی پالیسی دیانت ہوگی اور اکل حلال۔ ایک کٹر ہندو گوشت کا کاروبار کبھی نہیں کرے گا‘ یہ اس کے کاروبار کی پالیسی ہے۔
افراد کی طرح ملکوں کی پالیسی کا بھی ایک مرکزی ستون ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں امریکہ کی پالیسی کمیونزم کے استیصال کے گرد گھومتی تھی۔ پھر کمیونزم کی جگہ سیاسی اسلام اور پھر عسکری اسلام نے لے لی۔ جنوبی اور شمالی کوریا اپنی پالیسیاں ایک دوسرے کو دیکھ کر، ٹوہ کر، تشکیل دیتے ہیں۔ شرقِ اوسط کی عرب ریاستوں کی پالیسی کا مرکزی نکتہ پہلے اسرائیل تھا۔ انقلاب ایران کے بعد آہستہ آہستہ ان کی ترجیحات بدلنا شروع ہوئیں۔ عراق، شام اور پھر یمن میں غیر ملکی مداخلتوں نے ان کی پالیسیوں کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اب ان کی پالیسی کا فیصلہ کن حوالہ ایران اور ایران کی پالیسیاں ہیں۔
جب سے یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ ہوا ہے، پاکستان میں ایک نئی بحث چل پڑی ہے۔ یوں بھی ہم کوئی نہ کوئی باہمی باعث نزاع ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ بقول غالب
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
ہر شخص کی زبان پر یا دل میں یہ منطقی سوال ابھر رہا ہے کہ یو اے ای کے اس اقدام کے بعد پاکستان کے لیے لائحۂ عمل کیا ہو گا۔ ایک گروہ کا موقف ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا اس سے تعلقات قائم کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ دوسرا گروہ عرب ملکوں کی مثال دے کر عملیت پسندی کی تلقین کرتا ہے‘ اور تسلیم کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں گروہ پاکستان کے نقطۂ نظر سے بات نہیں کر رہے۔ جو تسلیم نہ کرنے کا کہہ رہے ہیں وہ یہ سٹینڈ مسلم اُمّہ کے لیے لے رہے ہیں۔ دوسرا گروپ تسلیم کرنے کا اس لیے پرچار کر رہا ہے کہ عرب ممالک ایسا کر رہے ہیں۔
معاملے کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے اور وہ ہے پاکستان کا اپنا مفاد اور اپنی پالیسی۔ یہاں ہم امت کی بات اس لیے نہیں کر رہے کہ پاکستان کی شہ رگ کشمیر کے سلسلے میں امت کے ایک کثیر حصے نے (دو تین ملکوں کو چھوڑ کر) کوئی مدد نہیں کی۔ کوئی پسند کرے یا نہ کرے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ستون کشمیر اور کشمیر سے بھی زیادہ وہ دشمنی ہے جو پاکستان کے لیے بھارت کے دل کی گہرائیوں میں اور دل تک خون لے جانے والی ایک ایک رگ میں اور دل سے خون واپس لانے والی ایک ایک ورید میں اور ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں بھری ہوئی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دو بلاک وجود میں آ چکے ہیں۔ اس وقت یہ وجود دھند میں لپٹے ہوئے ہیں مگر مستقبل میں ان کی صورتیں واضح تر ہو سکتی ہیں۔ ایران ترکی اور چین ایک طرف ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کا اتحاد ہمیشہ سے مضبوط تھا۔ اب اس اتحاد میں عرب طاقتیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ پاکستان کسی ایسے اتحاد یا بلاک میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتا جس میں بھارت موجود ہو۔ حال ہی میں ایران اور چین کے درمیان قربتیں بڑھی ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک طویل المیعاد اقتصادی معاہدے کا امکان روشن ہو رہا ہے۔ دوسری طرف ایران اور بھارت کے تعلقات میں دراڑ پڑ رہی ہے۔ امریکہ نے جو پابندیاں (sanctions)ایران پر لگائی ہیں بھارت ان کی خلاف ورزی کی ہمت نہیں کر سکتا۔ یوں چاہ بہار کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ رہا ہے۔ ایران کو یہ بھی احساس ہے کہ بھارت یو اے ای اور سعودی عرب کے بہت نزدیک ہے۔ ایشیا ٹائمز نے اپنی حالیہ اشاعت میں صاف کہا ہے کہ ایران کے کچھ تجزیہ کار ایک سہ فریقی علاقائی بلاک وجود میں آتا دیکھ رہے ہیں جو چین پاکستان اور ایران پر مشتمل ہو گا اور جس سے بھارت کو جیو سٹریٹجک دھچکا لگ سکتا ہے۔
پاکستان کسی دوسرے ملک کا پیروکار نہیں کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ اگر پاکستان کے مفاد میں ہے کہ تسلیم کیا جائے تو یہ ایک آزادانہ فیصلہ ہو گا۔ اور اگر اسرائیل کی قربت پاکستان کے مفاد میں نہیں تو بے شک سارا شرقِ اوسط اسرائیل کو تسلیم کر لے، پاکستان نہیں تسلیم کرے گا۔ اس لیے کہ اسرائیل اور ہمارے مشرقِ وسطیٰ کے بھائی، دونوں، بھارت کے قریبی دوست ہیں۔ پاکستان کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کو پس پشت ڈال کر کسی بھی ایسے اتحاد میں شامل نہیں ہو سکتا جہاں بھارت پہلے ہی ایک نمایاں حیثیت کا مالک ہے۔
بر صغیر کے مسلمانوں کے ساتھ پاکستان کی قسمت بندھی ہوئی ہے۔ یہ مسلمان خواہ بھارت میں ہیں یا بنگلہ دیش میں، ہماری پالیسیوں کے لیے اہم ہیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان حائل برف بھی پگھلنا شروع ہو چکی ہے۔ ڈھاکہ میں تعینات پاکستانی سفیر نے وہاں کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد صاحبہ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔ بھارت جو سلوک آسامی مسلمانوں اور بنگلہ دیش سے گئے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے اس سے بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان دوریاں پیدا ہوئی ہیں۔ ہمارے عرب بھائیوں نے جو بے نیازی بھارتی مسلمانوں کی حالت زار پر اور مودی کی مسلم دشمنی پر دکھائی ہے اس سے بر صغیر کے مسلمانوں کے دل پر گہرا گھاؤ لگا ہے۔ دوسری طرف ایرانی حکومت نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف برپا کیے گئے منظم فسادات پر گہری تشویش کا برملا اظہار کیا۔
عرب ملکوں کے اپنے مفادات ہیں‘ اور پاکستان کے اپنے۔ حجاز میں واقع مقدس مقامات کے دفاع کے لیے ہماری جانیں حاضر ہیں مگر جہاں تک سیاسی حرکیات کا تعلق ہے پاکستان کسی بھی دوسرے ملک یا ملکوں کی تقلیدِ محض نہیں کر سکتا۔ ظفر اقبال کے بقول
ہم اس کے، وہ اور کسی کا، پکی پختہ ڈوری
اپنا دل، اپنا مذہب، کیا جھگڑا چوں چنوں کا

Tuesday, August 18, 2020

ہمیں عینک بدلنا ہو گی


متحدہ عرب امارات ملک کے بجائے انسان ہوتا اور شعر اس کا شعار ہوتا تو ضرور کہتا؎
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم ساری دنیا کو اپنی عینک سے دیکھتے ہیں۔عینک ہماری پرانی ہو چکی۔ کمانیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ان کمانیوں پر جذبات کی دھجیاں لپیٹ رکھی ہیں۔ شیشوں کے نمبر کئی عشروں سے تبدیل نہیں ہوئے۔ ان فرسودہ نمبروں والے شیشوں سے ہمیں ہر شے دھندلی دکھائی دیتی ہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ دونوں شیشوں کے نمبر ایک دوسرے سے بھی نہیں ملتے۔ کبھی ہم عینک کو نیچے سرکا کر‘ اُوپر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی بڈھے بابوں کی طرح ایک شیشے کو ہتھیلی سے ڈھانپ کر ایک آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں جو کچھ دنیا کو نظر آرہا ہوتا ہے ہم نہیں دیکھ پاتے۔ اور جو ‘ اپنی دانست میں ‘ ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں ‘ اصل منظر سے مختلف ہوتا ہے۔ ہمیں پورا حق ہے کہ یو اے ای اور اسرائیل کے معاہدے کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھیں اور جانچیں مگر حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ یو اے ای کے نقطۂ نظر سے بھی دیکھیں۔ اسی طرح ایران اور ترکی کے موقف بھی ‘ ان دونوں ملکوں کی عینک سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ایرانی انقلاب سے پہلے بھی خلیج کے ملکوں اور ایران کے درمیان سرد جنگ موجود تھی۔ 1971ء میں جب برطانیہ بوریا بستر سمیٹ کر آبنائے ہرمز سے واپس جا رہا تھا تو ایران نے ابو موسیٰ ‘ طنب اکبر اور طنب اصغر کے جزائر پر قبضہ کر لیا۔ ان پر یو اے ای کا بھی دعویٰ تھا۔ دونوں ملکوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔
ایرانی انقلاب کے بعد اس جغرافیائی جھگڑے میں نظریاتی پہلو بھی شامل ہو گیا اور سکیورٹی کا ایشو بھی۔ایران نے لگی لپٹی رکھے بغیر انقلاب کے آغاز ہی سے پوری دنیا پر واضح کر دیا تھا کہ وہ انقلاب کو برآمد کرے گا۔ خود امام خمینی نے کئی بار اس کا ذکر کیا۔ ان کے بعد بھی نمایاں ایرانی رہنماؤں نے انقلاب برآمد کرنے کا عندیہ ہمیشہ دیا۔ ہاشمی رفسنجانی نے جو اُس وقت مجلس کے سپیکر تھے23 ستمبر 1983 ء کو کہا '' ہمارا ایک مشن انقلاب کی بر آمد ہے۔اگر ہم نے انقلاب عراق کو برآمد کیا ہے تو یہ بالکل نارمل ہے ‘‘۔
ایران کی القدس فورس اسی سلسلے میں اپنے فرائض انجام دیتی ہے۔ اور حماس ‘ حزب اللہ ‘ حوثی قبائل اورشام و عراق کی ہم مسلک ملیشیا کی مدد کرتی ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی نے اس ضمن میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ وہ ایرانی عزائم کا برملا اظہار کیا کرتے تھے۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ انقلاب مشرقِ وسطیٰ سے آگے بڑھ کر شمالی افریقہ تک جائے گا۔ واضح رہے کہ شمالی افریقہ میں مصر‘ لیبیا‘ تیونس الجزائر اور مراکش واقع ہیں۔ 2008 ء میں جب جنرل ڈیوڈ پیٹریاس عراق میں امریکی افواج کا کمانڈر تھا تو جنرل سلیمانی نے اسے پیغام بھیجا کہ'' تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں جنرل قاسم سلیمانی‘عراق‘ لبنان ‘ غزہ اور افغانستان کے حوالے سے ایران کی پالیسیوں کو کنٹرول کرتا ہوں‘‘۔
عراق اور شام کی اندرونی خانہ جنگیوں میں ایران کی شمولیت اور کردار ڈھکا چھپا نہیں ہے نہ ہی ایرانی حکومت نے کبھی اس پر پردہ ڈالنے کی ضرورت محسوس کی۔ 2015 ء میں جنرل قاسم سلیمانی ماسکو گئے جس کے بعد شام میں ایرانی اور روسی اتحاد نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
سچ یہ ہے کہ حوثی قبائل کی یورش اور شورش کے بعد عرب طاقتیں ایک لحاظ سے خوفزدہ اور ایک لحاظ سے چوکس ہو گئیں۔ عربوں کی مین لینڈ یعنی قلب میں بھی کئی واقعات مسلکی اقلیتوں کے حوالے سے رونما ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حالات نے یو اے ای کو اسرائیل کے ساتھ اس معاہدے کے لیے مجبور کیاہے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں۔ عربوں کی دلیل یہ ہے کہ جو کچھ یمن میں ہوا وہ کل کسی اور عرب ملک میں بھی ہو سکتا ہے۔
ایران کے فیکٹر سے ہٹ کر ‘ دیگر عوامل پر غور کیا جائے تب بھی یو اے ای کے رویے یا اندازِ فکر کوسمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے۔ یو اے ای کوئی مذہبی یا نظریاتی ریاست نہیں۔ یہ ایک سیکولر ملک ہے۔ سیکولر کا لفظ ہم یہاں کاسموپولیٹن کے معنی میں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر مسلمان سے زیادہ ایک عرب ملک ہے۔ دنیا بھر کی قومیتیں یہاں کام بھی کر رہی ہیں اور رہ بھی رہی ہیں۔ دبئی میں ہر تیسرا فرد بھارت سے آیا ہوا ہے۔ فلسطینی کاز سے یو اے ای کی کوئی جذباتی یا نظریاتی وابستگی نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یو اے ای کا رویہ بھارت سے اتنا قریبی نہ ہوتا۔ بھارت میں یو اے ای نے بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ تعلقات قریبی نہیں بلکہ انتہائی قریبی ہیں۔ ماضی قریب میں ایک بہت بڑے مندر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ حالانکہ بھارت جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے اور جو قیامت کشمیریوں پر ڈھا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسرائیل کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اسے اسی پس منظر میں دیکھئے تو سارا مسئلہ صاف اور واضح طور پر دکھائی دینے لگتا ہے۔
خاندانی بادشاہتوں کے نقطۂ نظر سے معاملے کا جائزہ لیں تب بھی یہ معاہدہ یو اے ای جیسے ملکوں کا فطری آپشن ہے۔ شاہ ایران کا عبرتناک انجام ان ملکوں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ پھر عرب بہار نے مزید خطرات دکھائے۔ اسی پس منظر میں ان ملکوں نے مصر میں اخوان حکومت کے خاتمے کے لیے سرگرم کردار اداکیا۔ حزب اللہ ‘ حماس اور اخوان جیسے نان سٹیٹ ایکٹر ان ملکوں کے لیے نیک شگون نہیں۔اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے اور خطرات سے بچانے کے لیے ایک فرد یا ریاست یا بادشاہت کسی حد تک بھی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملانے سے ان ملکوں کو ایک طرف ایران کی انقلاب برآمد کرنے کی پالیسی کے خلاف مدد ملے گی دوسری طرف خطرے کی گھنٹی بجانے والے نان سٹیٹ ایکٹرز کے حوالے سے ایک مشترکہ پالیسی بنانے کا موقع ملے گا۔
صرف شرق ِاوسط ہی میں نہیں ‘ دنیا بھر میں سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ہانگ کانگ کو دیکھ لیجیے۔ چین اس پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے۔ امریکہ میں سیہ فام اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ترکی پر مسلط کیا ہوا سو سالہ ظالمانہ معاہدہ دن بدن اپنی موت سے قریب ہو رہا ہے اور مغرب اضطراب کی حالت میں انتظار کر رہا ہے کہ
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے نکلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
امریکہ میں ڈیمو کریٹک پارٹی نے جو بائیڈن کے ساتھ نائب صدر کے طور پر کمالہ حارث کو نامزد کیا ہے جس کی ماں بھارتی تامل اور باپ جمیکا کا سیہ فام تھا۔ ہر لحظہ رنگ بدلتی دنیا میں عرب اسرائیل قربت اچنبھے کا باعث نہیں ہونی چاہیے۔
خود عرب دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے چند برس پہلے اس کا تصور بھی محال تھا۔ قطر کو سائڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ رد ِعمل میں اس کا جھکاؤ ترکی اور ایران کی طرف ہو رہا ہے۔ سعودی عرب میں معاشرتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ خواتین گاڑیاں ڈرائیو کر رہی ہیں۔ ان پر عائد سفر کی پابندیاں نرم کر دی گئی ہیں۔ بر صغیر میں بنگلہ دیش اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ صراحی سے قطرہ قطرہ نئے واقعات ٹپک رہے ہیں۔ انہونی ہو رہی ہے۔ اقبال کہہ گئے ہیں۔ع
جو تھا‘ نہیں ہے‘ جو ہے ‘ نہ ہوگا ‘ یہی ہے اک حرفِ محرمانہ !

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, August 17, 2020

……نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں


جب سے یہ تحریر نظر سے گزری ہے دماغ شل ہو رہا ہے۔ ہاتھ پیر کانپ رہے ہیں۔ ذاتی پسند کے امرا کو گلوری فائی کرنے کے لیے اب ہم اپنے قومی ہیروز کی تنقیص اور تضحیک پر اتر آئے ہیں۔ بار بار یہ شعر زبان پر آرہا ہے:
بسی نادیدنی را دیدہ ام من
مرا ای کاشکی مادر نہ زادی
کہ کیا کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے‘ اس سے بہتر تھا پیدا ہی نہ ہوتے
ہمارے ایک دوست نے دعویٰ کیا ہے کہ علامہ اقبال نے عمرِ عزیز کا بڑا حصہ ایک بنیان اور ایک تہبند میں گزار دیا۔ ثبوت اس دعوے کا یہ دیا ہے کہ ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں کہ انہوں نے بچپن میں اقبال کو صرف دو بار گھر میں کپڑے بدلتے دیکھا۔ ایک دفعہ عید پر اور ایک اُس وقت جب قائد اعظم ان سے ملنے تشریف لائے۔
دعوے تو علامہ کی تنقیص کی خاطر ایک دو اور بھی کیے گئے ہیں مگر پہلے کپڑے بدلنے کے سلسلے میں حقائق پر نظر ڈال لیتے ہیں۔
اقبال کے فرزند گرامی جاوید اقبال 1924 میں پیدا ہوئے۔ علامہ کی عمر اس وقت 47 سال تھی۔ شروع کے کم از کم تین برس نکال دیجیے۔ اس کے بعد ہی کے مشاہدات یاد رکھے جا سکتے ہیں۔ گویا ڈاکٹر جاوید اقبال کو علامہ کے آخری گیارہ برس ہی کے واقعات یاد رہے ہوں گے۔ 1928 میں جاوید اقبال چار سال کے تھے۔ آئیے 1928 اور 1929 کے دوران علامہ کی مصروفیات پر ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں:
22 فروری‘ پنجاب کونسل کے اجلاس میں تقریر۔23 فروری کو بھی پنجاب کونسل میں تقریر۔4 مارچ‘ انجمن حمایت اسلام کے اجلاس میں رکن سب کمیٹی تعلیم کی حیثیت سے شرکت۔8 اپریل‘ انجمن کے سالانہ جلسے میں انگریزی میں لیکچر۔ اسی سال دہلی اور شملہ تشریف لے گئے۔ ستمبر کے دوسرے ہفتے شملہ کا ایک اور سفر۔5 نومبر‘ سائمن کمیشن سے ملاقات۔ نومبر ہی کے دوران اوریئنٹل کانفرنس لاہور میں انگریزی میں مقالہ پیش کیا۔9 دسمبر‘ انجمن حمایت اسلام کی نصاب کمیٹی میں شرکت۔ 29 دسمبر‘ دہلی میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے چار روزہ اجلاس میں تقریر فرمائی۔ دسمبر ہی میں وائی ایم سی اے میں ڈاکٹر سیموئل کے لیکچر میں شرکت۔ دوسرے روز نواب ذوالفقار علی خان کے ہاں دعوت میں شرکت۔ انہی دنوں انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کے سالانہ جلسہ کی صدارت۔ سال کے آخر میں طبی کانفرنس کی صدارت۔2 جنوری 1929‘ روانگی برائے مدراس۔ 3 جنوری‘ بمبئی میں چائے کی دعوت۔ 5 جنوری‘ گوکھلے ہال مدراس میں پہلا لیکچر۔6 جنوری‘ مدرسہ جمالیہ میں تقریر۔ 7 جنوری‘ گوکھلے ہال میں لیکچر۔ اسی روز انجمن خواتین اسلام مدراس کی طرف سے استقبالیہ میں تقریر۔8 جنوری‘ مدراس سے بنگلور روانگی۔ دس جنوری میسور آمد۔ اسی دوران سلطان ٹیپو کے مزار پر حاضری اور گریہ۔ 13جنوری‘ روانگی برائے حیدرآباد دکن۔ اس دوران حیدر آباد میں آپ کے اعزاز میں کئی تقاریب منعقد کی گئیں۔ 18 جنوری‘ حضور نظام سے ملاقات۔4 مارچ‘ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر تقریر۔ 7 مارچ‘ بجٹ پر دوسری تقریر۔14 اپریل‘ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں مقالہ پیش کیا۔ 2 جون‘ انجمن کی کالج کمیٹی میں شرکت۔23 جون‘ انجمن کے جنرل کونسل اجلاس میں شرکت۔28 جولائی‘ شملہ میں موجودگی۔ 5 ستمبر‘ علامہ نے لاہور کی چھ علمی شخصیات کو گھر پر مدعو کیا۔ 7 ستمبر‘ بیرون دہلی دروازہ فلسطین کی حمایت میں منعقد کیے گئے بہت بڑے جلسے کی صدارت فرمائی۔ 25 ستمبر‘ مولوی سید میر حسن کی وفات پر روانگی برائے سیالکوٹ۔ انہی دنوں جنرل نادر خان افغانستان جاتے ہوئے لاہور ریلوے سٹیشن سے گزرے تو علامہ نے ان سے ملاقات فرمائی۔ 17 نومبر‘ روانگی برائے علی گڑھ یونیورسٹی۔23 نومبر‘ علیگڑھ یونیورسٹی میں تقریر۔ اس دوران علیگڑھ کے سٹریچی ہال میں چھ خطبات دیے۔ 19 دسمبر‘ برکت علی اسلامیہ ہال کے جلسہ میں سائمن کمیشن کے متعلق تقریر۔ اسی سال لاہور میں آل انڈیا اوریئنٹل کانفرنس کے متعدد اجلاسوں کی صدارت فرمائی۔
یہ وہ عرصہ ہے جب علامہ کی صحت کا گراف نیچے جا رہا تھا۔ اس سے قیاس کیجیے کہ اس سے پہلے کے برسوں کا کیا عالم ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ لاہور کی سیاسی، علمی اور ثقافتی زندگی کے وہ روح رواں تھے۔ برصغیر کے کئی شہروں کئی یونیورسٹیوں‘ کئی اداروں میں آپ نے تقریریں فرمائیں‘ خطبات دیے‘ نصاب کمیٹیوں کے فعال رکن رہے‘ سنڈیکیٹس کے اجلاسوں میں کردار ادا کیا‘ وکالت کی۔ کیا یہ سب کچھ وہ بنیان اور تہبند پہن کر کرتے تھے؟ خدا کا خوف کیجیے۔ لندن سے بیرسٹری کی۔ تب بیرسٹری کی سند دیتے وقت امیدوار کی سوشل لائف، اس کا لباس، عشائیوں میں شرکت وغیرہ بہت کچھ دیکھا جاتا تھا۔
برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علامہ کا وجود ایک بہت بڑی نعمت تھا۔ ان کے شیدائی ہر وقت ان کے قرب کے متلاشی رہتے تھے۔ مدراس سے لے کر کشمیر تک اور پٹنہ سے لے کر کابل تک ہر شہر اور ہر تنظیم ان سے وقت کا تقاضا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ اپنے عقیدت مندوں کے تمام مطالبات تسلیم کرنا ان کی انتہائی مصروف زندگی کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ وہ صرف فلسفے اور تفکر کے انسان نہ تھے‘ عملی زندگی میں بے حد متحرک، سوشل اور بزم آرا تھے۔ لاہور میں جتنی آم (مینگو) پارٹیاں منعقد ہوتی تھیں‘ ان میں اکثر کو علامہ اپنی شرکت کا اعزاز بخشتے تھے۔ شادیوں کی تقاریب میں شامل ہوتے تھے۔ جنازوں میں جاتے تھے۔ احباب اور اعزہ کی تعزیتوں کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔
جہاں تک فرزندِ اقبال کے ریمارک کا تعلق ہے تو ان کا احترام اپنی جگہ مگر خرم شفیق کی تصنیف دیکھ لیجیے۔ ان سے واقعاتی اغلاط کا صدور ثابت شدہ ہے۔ رہی یہ نکتہ آفرینی کہ علامہ نے چند دن کوچۂ سیاست میں گزارے اور جان لیا کہ وہ اس کے لیے پیدا نہیں ہوئے‘ واقعاتی لحاظ سے غلط ہے۔ علامہ نے سیاست میں بالخصوص پنجاب کی سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ مسلمانوں کی ہر معاملے میں رہنمائی کی۔ قائد اعظم کا انتخاب انہوں نے اس لیے نہیں کیاکہ سیاست علامہ کے بس کی بات نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ وہ انہیں مسلمانوں کی قیادت کے لیے موزوں ترین شخصیت سمجھتے تھے۔
آپ کی ممدوحہ کے متعلق بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر اقدار مانع ہیں۔ صرف اتنی گزارش ہے کہ اپنی پسند اور اپنے معیار کی شخصیات کی سطح پر قائد اعظم اور اقبال کو نیچے نہ اتاریے۔ آپ کو پورا حق حاصل ہے کہ جسے بھی کشتی کا کھیون ہار سمجھتے ہیں اس کی تعریف کیجیے‘ اور پرچار بھی‘ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ آپ کی پسند ہمارے نزدیک درست ہے یا غلط۔ پسندیدگی کے محرکات کیا ہیں؟ ہم اس میں بھی نہیں پڑتے ۔ سیاست میں آرا ہمیشہ مختلف اور متحارب رہی ہیں۔ اس میں کوئی برائی نہیں مگر جب بھی کوئی اپنی مقصد براری کے لیے قائد اعظم یا اقبال کو اس سطح پر نیچے لائے گا تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ اس عاجز سے خدانخواستہ ایسی جسارت کا صدور ہو جاتا تو روحِ اقبال سے اور محبانِ اقبال سے غیر مشروط معافی مانگ لیتا۔
کھنچیں میر تجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں
( علامہ کی مصروفیات کے ضمن میں مندرجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا: حیات اقبال ہر دو حصے از ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین۔ اقبال کی منزل از خرم علی شفیق)

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, August 13, 2020

بنجاروں کا عروج



ایک افریقی کہانی‘ جو ہم اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں!
یہ لوئر مڈل کلاس بستی تھی۔ کچھ اہل حرفہ تھے۔ کچھ کسان۔ بیس تیس فیصد ان میں پڑھے لکھے تھے۔ سب کا گزر اوقات مناسب ہو جاتا تھا۔ مجموعی طور پر یہ باعزت لوگ تھے۔ سائیکل کی سواری عام تھی۔ کئی خوش بخت گاڑیوں کے بھی مالک تھے۔ کچھ کے پاس ذاتی تانگے تھے۔
چند میل کے فاصلے پر بنجاروں کی ایک آبادی تھی۔ ان کی خواتین گلی گلی پھر کر چھوہارے، چوڑیاں وغیرہ بیچتی تھیں۔ مرد نچلی سطح کی محنت مزدوری کرتے تھے۔ کچھ بکریاں چراتے۔ کچھ نے گھوڑے رکھے ہوئے تھے۔ تعلیم سے بے بہرہ ان لوگوں کے بچے آوارہ پھرتے یا ایک دوسرے سے ہاتھا پائی کرتے۔
اگر یہ کہا جائے کہ بنجاروں کی اس مفلوک الحال آبادی کا انحصار اُس لوئر مڈل کلاس بستی پر تھا‘ جس کا ذکر ہم نے ابتدا میں کیا ہے‘ تو مبالغہ نہ ہو گا۔ یہ اپنے تھیلے لاتے اور بستی کے لوگ ان تھیلوں کو آٹے سے بھر دیتے۔ پوٹلیوں میں گندم باندھ کر لے جاتے۔ بستی کے سکول میں بنجاروں کے بچے، جو پڑھنا چاہتے، مفت تعلیم حاصل کرتے؛ اگرچہ ان کے ماں باپ کو تعلیم میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یہ جلد ہی بچوں کو سکول سے اٹھا لیتے اور کسی کام دھندے پر لگا دیتے۔ بنجاروں کے سردار کی عزت رکھنے کے لیے سب سے پہلی بائیسکل بھی بستی والوں ہی نے دی۔ یہ سائیکل اس وقت بڑی اہم تھی کیونکہ اس کی بدولت سردار سواری کا مالک ہو گیا تھا۔
خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ایک غیر ملکی کمپنی آئی اور اس نے بنجاروں کے زیر تصرف جو زمین تھی اس کا سروے کیا۔ کمپنی والوں کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بنجاروں کی زمین کے نیچے قدرت نے معدنیات کے وسیع و عریض خزانے رکھے تھے۔ پیتل‘ تانبا‘ چاندی اور کہیں کہیں سونا بھی۔ کوئلے کے ذخائر بھی تھے۔ کمپنی نے سردار سے ٹھیکہ لے لیا۔ سروے‘ کھدائی اور فروخت کا سارا کام کمپنی کے ذمے تھا۔ اس کے عوض، سردار اور اس کے خاندان کو بہت فیاضانہ نرخ پر رائلٹی دی گئی۔ وارے نیارے ہو گئے۔ دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ بکریوں کی جگہ موٹر سائیکل آ گئے۔ گھوڑوں کی جگہ ٹیکسیوں نے لے لی۔
بنجاروں کی قسمت کیا بدلی‘ رہن سہن بھی کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ پیوند زدہ جھگیوں کے بجائے پختہ مکان بننے لگے۔ سردار کے خاندان کے تو ہر رکن نے محل تعمیر کرا لیا۔ دروازوں پر گارڈز نے پوزیشن سنبھال لی۔ فراخ و کشادہ شاہراہیں تعمیر ہونے لگیں، خواتین زیورات سے لد گئیں۔ جلد ہی دوسری بستیوں سے گھریلو ملازم، ڈرائیور، مستری اور طبیب منگوائے جانے لگے۔
قدرت دنوں کو انسانوں کے بیچ پھیرتی ہے۔ وہی بستی جو بنجاروں کو آٹا اور غلہ دیتی تھی، جس نے ان کے سردار کو اس کی زندگی کی پہلی سواری بخشش میں دی تھی، جس کے سکول میں ان کے بچے خیراتی تعلیم پاتے تھے، جی ہاں وہی بستی اب معاملات میں بنجاروں کی دست نگر ہو گئی۔ بستی کی عورتیں اور مرد ان کے ہاں ملازمتیں کرتے۔ اب بنجارے پے ماسٹر تھے اور بستی والے ان کے تنخواہ دار۔ پیتل، تانبا اور دیگر معدنیات بستی والے انہی سے خریدتے۔
جب کبھی بنجاروں کا سردار بستی والوں کے ہاں آتا تو بستی والے اسے خوب پروٹوکول دیتے۔ اسے خوش اور مطمئن کرنے کی سعی کرتے۔ اس کا ماضی اور اس کی قسمت کا پھیر، سب کچھ، بستی والوں کے سامنے تھا مگر وہ بہر طور، اب اقتصادی حوالے سے بنجاروں کے محتاج تھے۔
زمانے کی گردش نے ایک چکر اور پورا کیا۔ وقت نے اپنی کتاب کا ایک اور ورق الٹا۔ حالات نے نیا رخ اختیار کیا۔ یہ نیا رخ، بستی کے لیے خوش کن نہ تھا بلکہ المناک تھا۔ بستی کے معززین اپنی نا اہلی اور نا لائقی کی وجہ سے بستی کو اقتصادی طور پر مستحکم نہ رکھ سکے۔ مالی حالت خستہ سے خستہ تر ہونے لگی۔ بستی کو قرضے لینے پڑے۔ تعلیم کا معیار گر گیا۔ کرپشن سکۂ رائج الوقت کی صورت اختیار کرنے لگی۔ ایسے میں بستی پوری طرح بنجاروں کی محتاج ہو گئی۔
اب بنجارے بستی میں آتے تو بستی والے ان کے سامنے غلاموں کی طرح دست بستہ کھڑے رہتے۔ بنجارے گھڑ سواری کرتے تو بستی والوں کے بچے لگام پکڑ کر آگے آگے چلتے۔ ان کی گاڑیاں صاف کرتے۔ عورتیں بنجاروں کے گھروں میں آیا اور باورچی کے طور پر کام کرتیں۔ پھر معاملہ اور آگے چلا گیا۔ بستی والے قرضوں کے نیچے دب چکے تھے۔ معدنیات خریدنے کے لیے رقم نہ تھی۔ بنجاروں نے معدنیات ادھار دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ کچھ نقدی بھی دی تاکہ ضروریات پوری ہو سکیں مگر اس کے بعد بنجارے گویا بستی کی تقدیر کے مالک ہو گئے۔ اب وہ سانس بھی آزادی سے لیتے تو بنجاروں کو برا لگتا۔ فلاں سے کیوں بات کی۔ کیا بات کی۔ فلاں قریے سے لوگ تمہارے ہاں کیوں آئے‘ تم فلاں سے تعلقات رکھ سکتے ہو مگر فلاں فلاں سے نہیں۔ ہمارے دشمن تمہارے دشمن ہوں گے۔ تم اب کسی معاملے میں آزاد پالیسی نہیں رکھ سکتے۔ دنیا کو تم نے ہماری نظر سے دیکھنا ہو گا‘ ہم دنیا کو جس نظر سے بھی دیکھیں ہماری مرضی۔ حالت یہ تھی کہ بنجارے بستی کے دشمنوں کے ساتھ مل کر محبت کے گیت گا رہے تھے۔ بستی والے دبی زبان سے شکایت کرتے تو بنجارے قرض کی واپسی کا مطالبہ شروع کر دیتے۔ کبھی دھمکی ملتی کہ بستی کی افرادی قوت جو ان کے ہاں ملازمتیں کر رہی تھی نوکریوں سے نکال دی جائے گی۔ بستی والے دل مسوس کر رہ جاتے مگر کر کچھ نہ سکتے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ بقول شاعر
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
عوام تو تنگ آئے ہوئے ہی تھے۔ اب خواص نے بھی جھرجھری لی۔ بستی والے خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے۔ ایک اور قریے سے رقم ادھار لے کر بنجاروں کو واپس کی۔ اس کے بعد دوسری بستیوں سے روابط اپنی صوابدید کے مطابق بڑھائے۔ اپنے فیصلے خود کرنے شروع کر دیے۔ قدرت نے بھی مدد کی۔ جو معدنیات بنجاروں سے خریدی جاتی تھیں، وہ دوسری آبادیوں نے پیش کر دیں۔ 
بنجاروں کا سردار بستی والوں کی یہ انگڑائی کیسے برداشت کرتا۔ اس نے فرمان جاری کیا کہ بستی والوں کی افرادی قوت نکال باہر کی جائے۔ غصے سے اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ وہ بھول گیا کہ یہی بستی والے اسے غلہ فراہم کرتے تھے۔ سائیکل تک انہی نے دے تھی۔ اسے فقط یہ پتہ تھا کہ معدنیات کی وجہ سے امیر وہ بہت ہو گیا ہے۔
دفتر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ایچ آر کا سربراہ سردار کے سامنے کھڑا تھا۔ حضور! افرادی قوت واپس نہیں بھیج سکتے۔ 
''کیوں‘‘ سردار نے گرج کر پوچھا۔
عالی جاہ! ہمارا پورا نظام بیٹھ جائے گا‘ آپ کے علم میں ہے کہ ہمارے لوگ کام جانتے ہیں نہ محنت کے عادی ہیں۔ ہمارے محکموں کے محکمے بستی کے لوگ چلا رہے ہیں۔ یہ محنتی اور لائق لوگ ہیں‘ حضور! ہمارا گزارہ ان کے بغیر نہیں ہو سکے گا‘ اور ایک اور پہلو جو جہاں پناہ! بہت حساس ہے۔ دفاع کے حوالے سے جب بھی ہم پر مشکل وقت پڑا بستی ہی کی افرادی قوت ہماری ڈھال بنی۔ 
سردار کے ہاتھ سے عصا نیچے گر پڑا تھا۔ 
یوں افریقی کہانی اپنے انجام کو پہنچی

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, August 11, 2020

…ہر ضلع میں ایک کلائیو بیٹھا ہے


صحافی کا لہجہ شائستہ تھا اور مہذب ۔بات وہ دلیل سے کر رہا تھا ۔ شکایت کا لبِ لباب یہ تھا کہ تحصیل ہسپتال میں ایک عرصہ سے گائنی کالوجسٹ کی تعیناتی نہیں ہوئی تھی۔ شہر اور مضافات کے ڈیلیو ری کے کیسز دوسرے شہروں کو لے جانے پڑتے تھے ۔ عوام کو تکلیف تھی اور بے حد تکلیف !
ڈپٹی کمشنر کا جوابی لہجہ سخت تحکمانہ تھا ۔ کئی بار کہا کہ'' میں ڈپٹی کمشنر ہوں ‘‘۔ یہ بھی کہ میں باتیں سننے کا عادی نہیں۔پھر بڑے فخر سے بتایا کہ وہ فلاں شہر سے ہے اس لیے جگتیں بھی مار سکتا ہے۔ اگر آپ کے قیاس کا گھوڑا فیصل آباد کا رخ کر رہا ہے تو باگ کھینچ لیجئے۔ ڈی سی صاحب بہادر نے ایک اور شہر کا نام لیا تھا۔
مقصد کسی کی پگڑی اچھالنا ہوتا تو ڈی سی کا نام بھی لکھا جا سکتا تھا۔ ضلعے کا بھی اور تحصیل کا بھی‘ مگر مقصد صرف یہ ہے کہ اس گلے سڑے نظام کے تعفن کا ذکر کیا جائے۔یہ نظام از کارِ رفتہ ہو چکا ہے ۔ بوسیدہ‘ کھنڈر سے بد تر ‘ نوکر شاہی اس پانی کی طرح ہو چکی ہے جو مدتوں سے کھڑا ہے۔ بدبو کے بھبکے اُٹھ رہے ہیں ‘جو گزرتا ہے ناک پر کپڑا رکھ لیتاہے‘ مگر جن کا فرض اس پانی کو صاف کرنا ہے یا ختم کرنا ہے وہ خود اس پانی کے پروردہ ہیں۔ وہ مسئلہ کیسے حل کریں۔ وہ تو مسئلے کا جزو ہیں۔ عشرت حسینوں‘ ارباب شہزادوں اور اعظم خانوں سے یہ مسئلہ نہیں حل ہو گا ۔ اسے کوئی تعلیم یافتہ سیاست دان ہی حل کرے تو کرے۔
سیاست دان اور نوکر شاہی کے مہرے میں فرق واضح ہے۔ اول: سیاست دان کبھی ایسی ہلکی اور کچی بات نہیں کرے گا کہ میں ضلع ناظم ہوں اور یہ کہ میں باتیں سننے کا عادی نہیں ۔ باتیں سن سن کر ‘ ووٹروں کی جھاڑیں کھا کھا کر ہی تو وہ اس مقام پر پہنچا ہے۔ دوم: ڈپٹی کمشنر یا کمشنر کی طرح اس کا قیام عارضی نہیں کہ دو تین سال کا عرصہ گزارا اور پھر کبھی پلٹ کر نہ آئے۔ سیاست دان نے یہیں جینا ہے یہیں مرنا ہے وہ لوگوں کو ناراض کرنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتا۔ اس نے سیاست کرنی ہے۔ ووٹ لینے ہیں‘ عوام کی شکایات دور کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ سوم: اس کے مخالفین اس کی نگرانی کر رہے ہیں اس کی بد دیانتی‘ اس کی نا اہلی‘ اس کی کام چوری ‘ اس کی بد نیتی کو کسی نے معاف نہیں کرنا‘ اس لیے وہ ہر لمحے چوکنا رہتا ہے۔ چہارم: اس کے وژن اور نوکر شاہی کے وژن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نوکر شاہی کا رکن اپنے تبادلے اپنی ترقی اپنے باس سے آگے کچھ نہیں سوچ سکتا۔ سیاست دان کی ذہنیت یہ نہیں‘ سیاست دان ایسے کام کرنا چاہتا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے کہ اسے عوام کی فکر ہے ۔
اس ملک پر بڑے بڑے ظلم ہوئے مگر ایک بڑا ظلم یہ ہوا کہ ضلع ناظم کی جگہ زمامِ اقتدار دوبارہ نو کر شاہی کے اہلکاروں کو دے دی گئی ۔ ضلعی حکومتوں کا قیام ایک بہت بڑا قدم تھا۔ یہ آگے کا سفر تھا‘ بہت ہی تنگ نظر اور خود نظر تھے وہ صوبائی حکمران جنہوں نے ضلعی حکومتوں کے پودے کو اکھاڑ پھینکا۔ صرف اس لیے کہ ضلع ناظم انہیں سیلوٹ نہیں کرے گا‘ فنڈز مانگے گا‘ یس سر ‘یس سر نہیں کرے گا۔
ایک بات یاد رکھئے کہ آج کی نوکر شاہی انگریز نوکر شاہی سے بد تر ہے۔ انگریز کم از کم اپنے ملک کے لیے تو سراپا ٔاخلاص تھے۔انگریز ڈپٹی کمشنر کو معلوم تھا کہ اس نے چترال یا وانا یا تربت میں مر جانا ہے مگر اس نے زبانیں سیکھیں۔ انصاف کا نظام رائج کیا۔ ہر ضلعے کا گزٹ لکھا ان ضلعGazetteersمیں قیام ِپاکستان کے بعد ایک صفحے کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔
تحریکِ انصاف کی حکومت دوسرے شعبوں کی طرح نوکر شاہی کے حوالے سے بھی کوئی تبدیلی نہیں لا سکی‘ بلکہ اس شعبے میں اس کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ یہاں ہم نے کارکردگی کا لفظ غلط استعمال کیا ہے ‘ کارکردگی تو ہے ہی نہیں۔ رویہ بھی وہی ہے جو دہائیوں سے چلا رہا ہے۔ وہی نوازشیں ہیں۔ جوڑ توڑ والا ‘ اوپر سے ڈور کھنچوانے والا ریٹائر ہوتا ہے تو اسی شام کو دوبارہ نوکری مل جاتی ہے۔ یہی کچھ پہلے بھی ہو رہا تھا۔ نوکر شاہی کے ایک نمائندے کو حال ہی میں ایک سال پہلے ریٹائر کر کے ایک ایسی جگہ لگا دیا گیا جہاںوہ چار سال کرسی پر بیٹھے گا۔ اگر یہ میرٹ ہے تو پھر دوست نوازی اور اقربا پروری کس چڑیا کا نام ہے۔
موجودہ حکومت بیورو کریسی کے حوالے سے ایک انچ کے ہزارویں حصے کے برابر بھی تبدیلی نہیں لا سکی ۔مدتوں سے یہ ہوتا چلا آرہا ہے کہ پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعظم کسی بڑے شکار پر ہاتھ مارتا ہے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی پوسٹ کے لیے نوکر شاہی کے جن چار بااثر نمائندوں کے نام الگ کیے گئے ہیں ان میں سرِ فہرست پھر پرنسپل سیکرٹری ہی کا نام ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر نئی زندگی بخش روایت قائم کرنا چاہتی تو اس گھسی پٹی از کار ِرفتہ تقلید کو ترک کر کے نجی شعبے کی طرف توجہ دیتی۔ یہ کس آسمانی کتاب میں لکھا ہے کہ ایسی پوسٹوں کی دال جوتیوں ہی میں بانٹی جائے ؟ کوئی معیشت دان کیوں نہیں بھیجا جا سکتا ؟ ؟ مالیات کا کوئی پروفیسر ؟ اقتصادیات کا کوئی گُرو؟ لگتا ہے حکومت نوکر شاہی کے سامنے بے بس ہے اور بے اختیار ‘مزے کی بات یہ ہے کہ جو معاونینِ خصوصی نوکر شاہی میں ریفارم لانے کے نام پر لائے گئے وہ بھی اسی کلاس اور اسی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔وحید احمد نے ایک نظم لکھی ہے '' علاج بالمثل‘‘۔ اس کی دو سطریں یاد آرہی ہیں:
نشتر زخم لگاتا ہے تو نشتر سے کھلواتا ہوں
سلواتا ہوں
پھنیر نیل اتارتا ہے تو منکے میں رسواتا ہوں
کھنچواتا ہوں
یعنی میرکیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب...
ہماری ترقی کا حال دیکھئے‘ مجہول سے مجہول ملکوں میں بھی مقامی حکومتیں قائم ہیں۔ انتخابات ہوتے ہیں ‘ فنڈز ان کی تحویل میں دیے جاتے ہیں۔ مقامی حزب ِاختلاف انہیں تیر کی طرح سیدھا رکھتی ہے۔ ہمارے حال پر اللہ ہی رحم کرے۔ نئی صدی کا ربع مکمل ہونے میں صرف پانچ برس رہ گئے۔ زمانہ کہاں پہنچ گیا اور ہمارے معززین ‘ ڈپٹی کمشنر سے آج بھی یہ سن رہے ہیں کہ میں ڈپٹی کمشنر ہوں۔ باتیں سننے کا عادی نہیں ہوں۔
چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی لاہور یا پشاور یا کراچی جانا پڑتا ہے اور ایک بار نہیں بار بار جانا پڑتا ہے۔اور یہ بھی آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ دور دور تک اس صورتحال میں تبدیلی کے آثار ہیں نہ امکان ۔ وہ اور ہوتے ہیں‘ بڑے ظرف والے‘ بڑے دل والے ‘ جو اپنے اختیارات دوسروں کو سونپ دیتے ہیں۔ اتھارٹی کو Delegate کرتے ہیں۔ نچلی سطح کے منتخب نمائندوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ رہے ہم تو انگریز نے نوکر شاہی کا جو نظام استعمار کا پنجہ مضبوط کرنے کے لیے تین سو سال قبل بنایا تھا اس میں ایک رمق بھر تغیر نہیں لا سکے ... ضمیر جعفری نے کہا تھا:
کلائیو کی یہ بات آئی پسندکہ وہ مر گیا‘مگر کہاں مرا ہے؟ کلائیو تو ہر تحصیل‘ ہر ضلعے میں آج بھی بیٹھا ہے۔
ہم وائسرائے کے عہد میں جی رہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, August 10, 2020

……ہم سے کوئی امید نہ رکھو



وہ گڑ گائوں سے دہلی جا رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کے پک اَپ ٹرک کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ آٹھ دس مشٹنڈے موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں پر اس کے پیچھے آ رہے تھے۔ ڈر کے مارے اس نے رفتار تیز کر دی۔صدر بازار پہنچا تھا کہ تعاقب کرنے والوں نے آ لیا۔ گھسیٹ کر نیچے اتارا گیا۔ پھر لوہے کی سلاخوں، ڈنڈوں، لاتوں اور گھونسوں سے مارا گیا‘ یہاں تک کہ جسم زخموں کا ڈھیر بن گیا۔ اس نے بہت منت کی کہ یہ گائے کا نہیں‘ بھینس کا گوشت ہے۔ پک اَپ ٹرک کے مالک طاہر قریشی نے بھی لاکھ بتایا کہ یہ بھینس کا گوشت ہے۔ طاہر قریشی ایک مارکیٹ میں گزشتہ پچاس برس سے بھینس کے گوشت کا کاروبار کر رہا ہے۔ لقمان خان اس وقت ہسپتال میں داخل ہے۔ کئی ہڈیاں فریکچر ہو گئی ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ گڑ گائوں اور دہلی پولیس نے کیا کیا ہوگا؟ غنڈوں کو پکڑا ہوگا؟ نہیں! انہوں نے غنڈوں کو کچھ نہیں کہا کیوں کہ یہ غنڈے‘ مقدس غنڈے تھے۔ ''گائے کی حفاظت‘‘ کرنے والے گروہ سے تھے۔ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ لقمان خان اور طاہر قریشی دونوں پر اعتبار نہ کرتے ہوئے گوشت کو لیبارٹری بھجوا دیا کہ ٹیسٹ کر کے معلوم کیا جائے گوشت گائے کا ہے یا بھینس کا! 
یہ ایک لقمان خان اور ایک طاہر قریشی کی کہانی نہیں۔ جب سے گجرات کے قصاب کی حکومت آئی ہے، سینکڑوں مسلمان مارے جا چکے ہیں۔ کبھی ان کے گھر جلائے جاتے ہیں، کبھی پکڑ کر بے رحمی سے قتل کر دیا جاتا ہے، کبھی گھروں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے، کبھی کاروبار کو بند کر دیا جاتا ہے اور کبھی انہیں ملازمتوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کیلئے پورا انڈیا مقبوضہ کشمیر بن چکا ہے۔ آسام سے کپورتھلہ تک‘ کہیں مسلمانوں کیلئے انصاف ہے نہ جائے امان! صدیوں سے بھارت میں رہنے والوں سے شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ اسرائیل نے جو رہائشی ڈربے فلسطینیوں کیلئے بنائے ہیں انہی خطوط پر مسلمانوں کو جھونپڑی نما بستیوں میں دھکیلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھارتی مسلمان اس وقت فلسطینیوں اور عراقیوں کی نسبت زیادہ قابلِ رحم حالت میں ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ایک تاریک مستقبل ان کے سامنے خوفناک راکھشس کی صورت کھڑا ہے۔ انکی آئندہ نسلیں گہری کھائی کی طرف ہانکی جا رہی ہیں! ملازمتوں میں ان کا حصہ برائے نام ہے‘ بزنس میں وہ ہندوئوں سے پیچھے تھے، اب زیادہ پیچھے ہیں، مسلمان لڑکیوں کو ملازمت حاصل کرنے کیلئے ہندو نام رکھنا پڑتے ہیں۔ ایک قوم کی پوری نسل شناخت کے بحران کا شکار ہے! ادتیا ناتھ اور امیت شا جیسے متعصب ترین ہندو، منظم طریقے سے مسلمانوں کے خلاف، ایک طویل المیعاد پالیسی پر عمل کر رہے ہیں!
لقمان خان اور طاہر قریشی اگر مسلمان نہ ہوتے، فرض کیجیے، مسیحی ہوتے تو آج کرۂ ارض پر ڈپلومیسی میں ہل چل مچ گئی ہوتی۔ ایک اور مشرقی تیمور بن گیا ہوتا۔ ایک اور جنوبی سوڈان ظہور پذیر ہو چکا ہوتا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہ مسلمان ہیں‘ اور مسلمانوں کا کوئی والی وارث، کوئی پشتیبان، کوئی محافظ، کوئی ضامن نہیں! جن کے ایک اشارے سے ان کے بخت کا پانسہ پلٹ سکتا ہے، وہ دشمن کے ساتھ مل چکے ہیں۔ وہ مودی کو اعزازات دے رہے ہیں۔ اس کی خوشامدیں کر رہے ہیں۔ ان کے دل کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی بھارتی مسلمانوں کے لیے ہمدردی کے جذبات نہیں ہیں۔ لگتا ہے‘ آنکھیں ماتھوں پر رکھ لی گئی ہیں! خون سفید ہو گئے ہیں! تو کیا امتِ مسلمہ کی پستی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے نزدیک صنعتی ترقی، تجارت، آئی ٹی کا عروج ہی سب کچھ ہے؟ اخلاقی، مذہبی، عصبیتی، سارے پہلو نظروں سے غائب ہو چکے ہیں؟ اب اس امت کی ترجیحات میں سرفہرست تیل کی فروخت، کارخانوں کا قیام اور مالِ تجارت کی افزودگی ہے؟ اور کچھ نہیں؟
ہماری بدقسمتی کہ جب ایک متحدہ مسلم بلاک کی سب سے زیادہ ضرورت پاکستان کو تھی، مسلمان دو بلاکوں میںتقسیم ہو گئے ہیں۔ یہ تقسیم، بنیادی طور پر، عرب اور غیر عرب کی ہے۔ اسلامی کانفرنس، ایک بلاک کے تابع ہو چکی۔ مشرقِ وسطیٰ کے دو تین بڑے ممالک اس کو دامے، درمے، سخنے کنٹرول کر رہے ہیں۔ اس بلاک کو امریکہ کی اشیر باد حاصل ہے۔ مگر کیا ہم اسے اشیرباد کہہ سکتے ہیں؟ غالباً نہیں! اشیرباد سے زیادہ، یہ ماتحتی ہے اور احکام کی تعمیل ہے۔ بڑے صاحب کا حکم بحرِ اوقیانوس کے اس طرف سے پہنچتا ہے اور عبائیں سرِ تسلیم خم کر لیتی ہیں۔ آج اگر پاکستان اقتصادی طور پر پائی پائی کا محتاج نہ ہوتا، قرضوں میں اس کا بال بال بندھا نہ ہوتا، تیل کی خیرات کا ضرورت مند نہ ہوتا تو نہ صرف دوسرے بلاک میں شامل ہوتا بلکہ اس کی قیادت کرتا۔ اصل بات وہی ہے جو شاعر کہہ چکا ؎
ای زر تو خدا نہ ای ولیکن بخدا
ستّارِ عیوب و قاضی الحاجاتٖ
پیسہ خدا تو نہیں مگر خدا کی قسم! عیب بھی چھپاتا ہے اور حاجات بھی پوری کرتا ہے۔
ہم بھارت میں لٹ چکے۔ ہمارا سب کچھ ختم ہونے کو ہے۔ ہمارے شہروں کے نام جو صدیوں سے چلے آ رہے تھے، بدلے جا رہے ہیں۔ ہمیں Main stream سے ہٹا کر، سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔ ہماری عورتوں کی عصمتیں لوٹی جا رہی ہیں۔ ہمارے بچے قتل کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ مگر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم صرف نقشے بنا رہے ہیں۔ ہم صرف شاہراہوں کے نام تبدیل کر رہے ہیں۔ رہے دوسرے مسلم ممالک تو ان پر بے نیازی کی چادر تنی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایک ماہ کے لیے... صرف ایک ماہ کیلئے پچپن مسلمان ملک اپنے اپنے سفیر بھارت سے واپس بلا لیتے، ایک ماہ کیلئے... صرف ایک ماہ کیلئے پچپن مسلمان ممالک بھارت سے تجارتی تعلقات منقطع کر لیتے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک صرف ایک نوٹس بھارت کو دیتے کہ کشمیر کی آئینی حیثیت بحال کرو... ورنہ بھارتیوں کو واپس بھیج رہے ہیں‘ تو بھارت کے مسلمان مضبوط ہو جاتے۔ مودی حکومت کے ہوش ٹھکانے آ جاتے۔ بھارتی مسلمانوں کی نکبت و ذلت کے دن ختم ہو جاتے، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!ع
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے! 
یہ ہو بھی تو کیسے ہو؟ ہم معاشی طاقت ہیں نہ سیاسی قوت! ہمارے لیے کون سٹینڈ لے؟ ہماری تو ترجیحات ہی اور ہیں۔ دوسرے ملکوں کی اسمبلیوں میں اقتصادی، تجارتی اور مالی مسائل پر غور ہوتا ہے، ہماری اسمبلیوں میں اس پر بحث ہو رہی ہے کہ فلاں فرقہ اپنے بزرگوں کے ناموں کے ساتھ یہ لکھے اور یہ نہ لکھے! بال بال قرض میں بندھا ہوا ہے۔ تیل کیلئے کشکول بدست ہیں اور ترجیحات دیکھیے! بحث کس پر ہو رہی ہے؟ چاند کس نے درست اور کس نے غلط دیکھا! یوٹیوب پر فرقہ واریت پوری طرح مسلط ہو چکی ہے۔ واعظین فخر سے کہہ رہے ہیں‘ ہم تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتے ہیں۔ عوام کو الجھایا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے سے متنفر کیا جا رہا ہے۔ ان کے سینوں میں عداوتیں کوٹ کوٹ کر بھری جا رہی ہیں۔ لوگوں کو مشتعل کیا جا رہا ہے۔ برافروختہ کیا جا رہا ہے۔ دشنام طرازی عام ہے۔ ناقابلِ بیان گالیاں دی جا رہی ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ وڈیو کلپ لاکھوں کی تعداد میں سنے جا رہے ہیں۔ پوری قوم کی نفسیات مسخ کی جا رہی ہے۔ ایسے میں کہاں کی اقتصادی ترقی اور کون سی مالی خود کفالت! معاشی سرگرمیاں مفقود ہیں۔ عوام فارغ ہیں۔ کسی کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں۔ دو موٹرسائیکلوں کی ٹکر ہو جائے تو پانچ سو افراد گھنٹوں وہاں کھڑے رہتے ہیں
بھارتی مسلمانو! ہم سے کوئی امید نہ رکھو۔   باقی مسلمان ملکوں کو بھی write off کر دو

Thursday, August 06, 2020

ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لُوٹ لیا


1206ء میں جب محمد غوری کو سوہاوہ کے قریب قتل کیا گیا اور قطب الدین ایبک دہلی میں تخت پر بیٹھا تو ایبک سیدھا آسمان سے نہیں اترا تھا‘ نہ ہی بنگال، تبت یا ہمالہ کی کسی چوٹی سے براہ راست دہلی پر نازل ہوا تھا۔ ایبک پنجاب سے گیا تھا۔ لاہور اس سے پہلے اس کا پایۂ تخت تھا۔ طبقاتِ ناصری کے مطابق محمد غوری کی وفات کے وقت ملتان، سیالکوٹ، لاہور، ترائن، ہانسی، بھیرہ اور پنجاب کے دوسرے علاقوں پر غوریوں کی حکومت تھی۔
اور پنجاب میں یہ چند دن پہلے نہیں آئے تھے۔ 1001ء میں محمود غزنوی نے ہندوستان کا رُخ کیا تھا۔ تیس سال وہ پنجاب اور ملحقہ علاقوں پر حملہ زن رہا۔ اسی وقت سے مسلمانوں کا پنجاب میں آنا جانا، رہنا شروع ہو گیا۔ یہ درست ہے کہ محمود جن علاقوں کو فتح کرتا، ہندو حکمرانوں کو سونپتا جاتا، مگر ظاہر ہے کہ ان ماتحت اور مفتوحہ ہندو علاقوں میں مسلمانوں کو رہنے کی آزادی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ محمد غوری نے 1175ء میں پنجاب پر حکمرانی کا آغاز کیا تو اس سے پہلے ایک سو ستر ایک سو پچھتر سال سے پنجاب میں مسلمان رہ رہے تھے۔ کبھی حاکم بن کر اور کبھی بااثر کمیونٹی کے طور پر... تو ظاہر ہے کہ ان کی اپنی زبان بھی ہوگی جو مقامی زبان سے مختلف ہوگی۔ یہی زبان، پونے دو سو یا دو سو برس بعد لے کر وہ دہلی میں داخل ہوئے۔ یعنی اردو جو دہلی اور شمالی ہند میں گئی وہ پنجاب سے گئی!
یہ تھیسس اس کالم نگار کا نہیں! نہ کسی ہماشما کا ہے۔ یہ نظریہ حافظ محمود شیرانی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ''پنجاب میں اردو‘‘ میں پیش کیا تھا۔ اردو کی پیدائش، اردو کے بچپن اور اردو کے شباب پر جو کتابیں آج تک لکھی گئیں، ان میں اس کتاب کا مقام اتنا بلند ہے کہ دیکھنے والوں کے سروں سے دستاریں گر جاتی ہیں۔ اسی کے تتبع میں بعد ازاں ''گجرات میں اردو‘‘ اور ''بنگال میں اردو‘‘ قسم کی تحقیقات سامنے آئیں!
اردو کی پیدائش کا سہرا، پنجاب کے سر پر سجانے والے حافظ محمود شیرانی پنجاب سے نہیں تھے۔ راجستھان سے تھے۔ اور انشا نے جب وجد میں آ کر کہا؎ 
چھڑا جو قصّہ کہیں رات ہیر رانجھے کا
ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
تو وہ بھی پنجاب سے نہیں تھے۔ دادا ان کے طبیب تھے۔ نجف اشرف سے تشریف لائے تھے۔ انشا بنگال (مرشد آباد) میں پیدا ہوئے اور رہے لکھنٔو اور فیض آباد میں۔ اور افتخار عارف نے اگر کہا ہے کہ دوسرے علاقوں کی نسبت پنجاب میں بہتر شاعری ہو رہی ہے تو افتخار عارف بھی پنجاب سے نہیں ہیں!!
پنجاب اگر اردو کی جنم بھومی ہو سکتا ہے تو یہاں بہتر شاعری بھی ہو سکتی ہے۔ یہ کہہ کر افتخار عارف نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا کہ اسے دل پر لے لیا جائے۔ ہمارے لیے پاکستان کے سارے حصے محترم ہیں۔ خاص طور پر کراچی جو پاکستان کا دل ہے۔ کراچی کے شعرا، سینئر ہیں یا نئی پود کے، سب ہمیں عزیز ہیں اور قابلِ تعظیم ہیں۔ ان سطور کے لکھنے والے پر قمر جمیل ہمیشہ دستِ شفقت رکھے رہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ جون ایلیا اور سلیم احمد کا ثانی کوئی نہیں تو اس میں اہلِ پنجاب کا کوئی اعتراض نہیں ہوگا بلکہ خوشی سے تسلیم کریں گے۔ بالکل اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ پنجاب میں تازہ کاری زیادہ ہے تو پنجاب اہلِ کراچی کا بھی اتنا ہی ہے جتنا خود پنجابیوں کا ہے! یہ تو فخر و انبساط کی باتیں ہیں، کدورت کی نہیں!
جناب نصیر ترابی سے اس فقیر کا تعلق محبت اور احترام کا ہے۔ ہمارے سینئر ہیں اور بے حد واجب الاحترام! ہم نے ہمیشہ ان سے استفادہ کیا اور کرتے رہیں گے۔ ان کا سایہ ہم پر، اور اردو کے تمام نام لیوائوں پر دائم و قائم رہے!
ویسے اگر غور کیا جائے تو اہلِ قلم کی تقسیم علاقوں کے لحاظ سے بے معنی اور سطحی لگتی ہے! بیدل اور غالب، وسط ایشیا کے چشم و چراغ، دلی اور عظیم آباد میں روشن رہے۔
محمد حسین آزاد دہلی میں پیدا ہوئے‘ لاہور میں رہے اور کربلا گامے شاہ لاہور میں آسودۂ خاک ہوئے۔ حالیؔ سالہا سال پنجاب میں رہے۔ انتظار حسین اور ناصر کاظمی پنجاب کے ہو رہے! اسی طرح کراچی کو دیکھ لیجیے۔ مشفق خواجہ سے لے کر ابن انشا تک، پنجاب سے گئے اور کراچی کے ہو کر رہ گئے۔ صغیر ملال سے لے کر صابر ظفر تک بہت سے بڑے بڑے نام پنجاب سے گئے۔ لاہور ہے یا کراچی، ایک ہی گلدستے کے پھول ہیں۔ ہندوستان تقسیم ہوا تو وہی سید، وہی وسط ایشیائی، وہی پختون جو یو پی، بہار اور دکن میں پھیلے ہوئے تھے، پاکستان آئے۔ گویا اپنے اصل کی طرف لوٹے۔جوش ملیح آبادی تھے یا ڈاکٹر ذاکر حسین... پٹھان تھے۔ مومن خان مومن کشمیری النسل تھے!!
بنگال سے لے کر پشاور تک اور ہمالہ کی ترائیوں سے لے کر دریائے کاویری تک... مسلمان اصلاً اور نسلاً ایک دوسرے سے اس قدر جڑے ہوئے ہیں اور باہم یوں پیوست ہیں کہ باپ دکن کا ہے تو ماں شمالی ہند کی اور دادا پنجاب سے ہے تو نانا سوات یا بونیر سے اور رہ پٹنہ میں رہے ہیں! ایک ہی خاندان میں آدھے سُنّی اور آدھے شیعہ! وہ جو کسی بابے نے کہا ہے کہ؎
بنی آدم اعضائی یک دیگر اند
کہ در آفرینش ز یک جوہر اند
کہ بنی آدم ایک دوسرے کے اعضا ہیں اس لیے کہ پیدائش ایک ہی جوہر سے ہوئی ہے۔ تو اس کا اطلاق بدرجۂ اتم برِّصغیر کے مسلمانوں پر ہوتا ہے۔ مفت کے جھگڑے اور برتری یا کمتری کے قصّے!! حالانکہ اصل میں سارے ایک ہیں۔
ادب بالخصوص شاعری میں ادوار آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا ضرور ہوتا ہے کہ تواتر کے ساتھ جاندار شاعری زمین کے کسی ایک حصے سے اٹھتی چلی آتی ہے۔ یہ فطری ہے اور قدرتی! آج اگر یہ کہا جائے کہ شمس الرحمن فاروقی‘ وارث علوی‘ فضیل جعفری‘ گوپی چند نارنگ اور شمیم حنفی جیسے بلند پایہ نقاد پاکستان میں نہیں پیدا ہوئے تو اس پر پاکستانی ادیبوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ حقائق تسلیم کرنا پڑتے ہیں۔ ہمارے دوست پروفیسر ندیم احمد نے کہ کلکتہ یونیورسٹی میں اردو کے استاد ہیں، غلام عباس پر جو کام کیا وہ پاکستان میں نہیں ہوا۔ افتخار عارف ہندوستان سے آئے تو کراچی میں اترے۔ ہمیشہ کراچی کا ذکر فخر اور اپنائیت سے کرتے ہیں۔ سب کا نام محبت سے لیتے ہیں۔ اس فقیر کی نیازمندی ان کے ساتھ اس زمانے سے ہے جب وہ لندن میں تھے۔ 
افتخار عارف لکھنٔو اور کراچی سے، اور یہ گنوار، شمال مغربی پنجاب کے ایک قریے سے، ہاں، قدرت نے کشکول میں یہ خیرات ڈالی کہ پدری اور جدی زبان ایک لحاظ سے، فارسی ملی! یوں بزرگوں کے نام سے بھرم قائم ہے۔
افتخار عارف کی ایک عمر پنجاب میں نہیں بھی گزری تو پنجاب کے ساتھ ضرور گزری ہے کہ وفاق پنجاب کی بغل میں ہے۔ پنجاب کے نوجوان بلکہ ادھیڑ عمر شعرا کی بھی اٹھان ان کی آنکھوں کے سامنے ہوئی۔ یوں وہ ان کی تازہ کاری سے واقف بھی ہیں اور گواہ بھی! بہت سوں کی تربیت بھی کی! یہی وہ پس منظر ہے جس میں انہوں نے پنجاب کی ہم عصر شاعری کی تعریف کی! مگر ان کا مقصد ہرگز کسی علاقے کی تنقیص یا تخفیف نہیں تھی! اس طویل عرصۂ رفاقت میں لسانی یا مسلکی یا علاقائی تعصب کم از کم اس کالم نگار نے ان کے نزدیک نہیں دیکھا۔

ہم تو کراچی کے عشاق میں ہیں!ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ کراچی اور اہلِ کراچی ہم سے محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت ہی ہمارا سرمایہ ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, August 04, 2020

محمد قدیر


فرات کے کنارے مرنے والا کتّا خوش قسمت تھا کہ اس کا کوئی والی وارث تو تھا۔ افسوس! صد افسوس! حیف! صد حیف! محمد قدیر اتنا خوش قسمت نہ تھا۔ وارث وہ پیچھے تین بلکہ چار چھوڑ گیا۔ مگر والی کون تھا؟
احساس پروگرام سے لے کر بے حسی کی گہری دبیز تہہ تک، ''غریبوں‘‘ میں روپیہ تقسیم کرنے کے اعلانات سے لے کر محمد قدیر کی موت تک، بہت کچھ واشگاف ہو گیا۔ ریاست مدینہ کے نام لیوا حکمرانوں کے دور میں بھوک اور ننگ سے ایڑیاں رگڑتا محمد قدیر زہر کھا کر، زمین کے فرش پر، آسمان کی چھت تلے، سو گیا اور کچھ بھی نہ ہوا۔ ؎
نہ مدعی‘ نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
بینک زکوٰۃ کاٹتے رہے۔ خیراتی ادارے دستر خوان بچھاتے رہے۔ سینکڑوں، ہزاروں فلاحی تنظیمیں اشتہار بازی کے ذریعے اپنی کارکردگی جتاتی رہیں، مسجدوں میں اذانیں دی جاتی رہیں، جبینیں سجدہ ریز ہوتی رہیں، مسلمانوں کی بستی میں محمد قدیر کی مدد کو کوئی نہ پہنچا۔ عظیم الشان سرکاری مشینری نا کام ہو گئی۔ مملکتِ خداداد کو ریاست مدینہ بنانے کے اعلانات ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ دھواں دھار تقریریں بے نتیجہ نکلیں۔ سمارٹ لاک ڈائون محمد قدیر کو لے بیٹھا۔ شکر ہے کہ اس مملکت میں اسے زہر میسر آ گیا۔ نیکو کاروں کے ملک میں اس نے موت کو گلے لگانا بہتر جانا۔ 

محمد قدیر بچوں کے سکول بیگ بناتا تھا۔ پچاس روپے فی بیگ فروخت کرتا تھا۔ پھر کورونا آیا۔ سکول بند ہو گئے۔ پڑھائیاں آن لائن شروع ہو گئیں۔ بچوں نے بیگ خریدنے بند کر دیئے۔ ڈیمانڈ ختم ہو گئی۔ ڈالر اکائونٹوں میں بچت کی رقمیں جمع کرانے والوں کے دیار میں محمد قدیر کے پاس بچت کی مد میں کچھ نہ تھا۔ نوبت فاقوں تک آ گئی۔ عیدالاضحی کی تاریخوں کا تعین ہو گیا۔ محمد قدیر کا ہاتھ خالی تھا، جیب میں کچھ نہ تھا۔ اس کا گائوں ظفر وال تحصیل کا حصہ تھا۔ تحصیل میں تحصیل دار تھا۔ تھانے دار تھے۔ پٹواری تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر بھی ہو گا۔ ان میں سے کسی کو محمد قدیر کے طویل فاقوں کا علم نہ ہوا۔ کیا یہ محمد قدیر کی غلطی تھی کہ اس نے تحصیل کے حاکم کو نہیں بتایا؟ یا یہ حاکم کا فرض تھا کہ اُس تک پہنچتا؟ ریاستِ مدینہ کے والی نے یہ شرط نہیں لگائی تھی کہ کتا مرنے سے پہلے آ کر اُسے اطلاع دے یا کوئی اور آ کر بتائے۔ ریاستِ مدینہ کے والی نے تو سیدھا سادا قانون بتا دیا تھا کہ کتا بھی مر گیا تو وہ جواب دہ ہو گا! افسوس! پوری تحصیل میں کسی اہل کار نے نہ پوچھا کہ محمد قدیر فاقوں 
پر فاقے کیوں کر رہا ہے اور اب وہ بلال‘ عبدالرحمن اور عائشہ کو لے کر کہاں جا رہا ہے! 

جس دن محمد قدیر دو سالہ بلال کو کندھے سے لگا کر اور چار سالہ عبدالرحمن کو دائیں ہاتھ کی انگلی پکڑا کر اور چھ سالہ عائشہ کو بائیں ہاتھ کی انگلی پکڑا کر اپنے نام نہاد گھر سے نکلا تو ملک بھر میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفاتر کھلے تھے۔ احساس پروگرام کے مراکز میں بھی کام ہو رہا تھا۔ ظفر وال تحصیل کے سارے سرکاری محکمے کام میں سخت مصروف تھے۔ ان تمام سرکاری محکموں اور ان تمام سرکاری کاموں میں محمد قدیر کی بے روزگاری اور فاقہ کشی کا نوٹس لینے کی کسی کو فرصت نہ تھی۔ محمد قدیر تینوں بچوں کو لے کر چلتا رہا۔ تحصیل ظفر وال نارووال کے ضلع کا حصہ ہے۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ضلع کا حاکم بیٹھتا ہے۔ اس کے پاس بہت بڑا، رعب دار، وسیع و عریض دفتر ہے۔ کھڑکیوں پر پردے لگے ہیں۔ قیمتی کرسی درمیان میں میز کے سامنے پڑی ہے۔ سائڈ پر یقینا صوفہ سیٹ بھی پڑا ہو گا۔ باہر دربان ہوتا ہے۔ ضلع کے حاکم کی میز پر کئی قسم کے ٹیلی فون دھرے ہیں۔ افسوس! ان سرکاری ٹیلی فونوں میں سے کسی پر اطلاع نہ آئی کہ محمد قدیر تینوں بچوں کو لے کر کس طرف جا رہا ہے؟ اُس دن ظفر وال کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر گوجرانوالہ میں بھی کمشنر کے دفاتر کھلے تھے۔ گاڑیوں کا ہجوم تھا۔ بڑے صاحب موجود تھے۔ چھ اضلاع کا کمشنر بڑا صاحب نہیں ہو گا تو بھلا اور کون ہو گا۔ چھ اضلاع، چھ اضلاع کے ڈپٹی کمشنر، عظیم الجثّہ سرکاری مشینری، بے کنار اختیارات، اطلاعات کی فراوانی، مگر افسوس! محمد قدیر کی فاقہ کشی اور آخری بے بس، بے کس نقل و حرکت کی اطلاع سے کمشنر بھی بے خبر رہا۔ محمد قدیر نے زہر نکالا۔ خود کھایا۔ بچوں کو کھلایا۔ پھر یہ سب ایک کھلے میدان میں پڑ رہے۔ لوگوں نے دیکھا اور پہچان نہ پائے کہ تین جسم ہیں یا تین لاشیں ہیں۔ وہ لے کر ہسپتال دوڑے۔ راستے میں محمد قدیر، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام 
اور احساس پروگرام کو سلام کرتا، مر گیا۔ بچے بچ گئے۔

پنجاب حکومت نے تین لاکھ روپے کی خطیر رقم کا وعدہ کیا ہے۔ اندازہ لگائیے! تین یتیم بچّے، ایک بیوہ ان کی ماں! سامنے زندگی کا غیر آباد وسیع و عریض جنگل‘ اور تین لاکھ روپے نصف جن کا ڈیڑھ لاکھ روپے ہوتا ہے!!

قومی سطح کے ایک انگریزی معاصر نے اسی سال، پندرہ جنوری کی اشاعت میں اطلاع دی تھی کہ چیف منسٹر پنجاب کی سرکاری رہائش گاہ کے کمرے کی کھڑکیوں اور دروازوں کے پردوں کا کپڑا پندرہ ہزار روپے فی مربع فٹ پڑا ہے۔ اس تناسب سے اُن دنوں کی گئی تزئین و آرائش کے باقی اخراجات کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے!
یہی روزنامہ بارہ جون 2019ء کو اطلاع دیتا ہے کہ جو بجٹ ایوانِ صدر کے لیے مختص کیا گیا ہے اس کے حساب سے ہر روز کا خرچ دو لاکھ بانوے ہزار روپے ہو گا۔ وزیر اعظم ہائوس کی گھر داری اور سٹاف کے لیے 2019-20ء کے دوران اٹھارہ کروڑ ستائیس لاکھ ساٹھ ہزار روپے کا بجٹ مختص کیا گیا جو تقریباً پانچ لاکھ روپے روزانہ بنتا ہے! لاکھوں کے حساب سے روزانہ کے اس خرچ کو چھوڑئیے۔ یہ سب محمد قدیر سے زیادہ ضرورت مند اور زیادہ مستحق ہیں۔ محمد قدیر تو یوں بھی ایک ایسی عدالت میں پہنچ چکا ہے جہاں ہر قسم کے احساس اور غیر احساس پروگراموں کی پوچھ گچھ باریک بینی سے ہو گی۔ رہے عبدالرحمن، بلال، عائشہ اور ان کی ماں تو ان کے لیے ظفر وال کے شہریوں پر لازم ہے کہ بھلے مانسوں اور شریف، نیک نام لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں۔ صاحبانِ استطاعت اس کمیٹی کے قائم کردہ بینک اکائونٹ میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں تا کہ بچوں کی تعلیم کے لیے 
ٹرسٹ قسم کی باڈی بن جائے۔ یہ کالم نگار بھی اپنے جُثے کے مطابق حصّہ ڈالے گا۔

محمد قدیر اگر کسی فلاحی ملک کا باشندہ ہوتا تو جس دن اس کی بے روزگاری شروع ہوئی، اسی دن اسے گزارہ الائونس ہر مہینے ملنا شروع ہو جاتا۔ اسے خود کشی نہ کرنا پڑتی۔ مگر ہم بے روزگاروں کو گزارہ الائونس دینے کے بجائے زیادہ ضروری امور میں مصروف ہیں۔ یہ کون سے ضروری امور ہیں؟ ان کا ذکر نہ کرنا، ذکر کرنے سے بہتر ہے۔ ان ضروری امور میں محمد قدیر کی زندگی شامل نہ تھی۔

کاش وہ دن بھی آئے کہ ہر بیروزگار شخص، ہر بے کس بیوہ، ہر بے سہارا بوڑھا، ہر بے آسرا بچہ ریاست کی کفالت میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھے۔ اسے دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ اس کی عزتِ نفس نہ مجروح ہو۔ اسے خود کشی نہ کرنی پڑے۔ یہ جبھی ہو گا جب ہماری ریاست کی ترجیحات بدلیں گی اور وہ قسم قسم کے نام ہٹا کر صرف ایک نام اپنائے گی 'فلاحی ریاست‘۔ یہ ناممکنات میں سے نہیں‘ وسائل موجود ہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا

بحث کی بغدادی نسل


داستانوں میں پڑھا اور سنا تھا کہ ایک موسم بغداد میں مناظروں کا تھا۔ دروغ بر گردنِ تاریخ‘ ان مناظروں کا اختتام دست بدست لڑائی پر ہوتا تھا۔ فریقین ایک دوسرے پر پل پڑتے تھے۔ تفصیلات میسر نہیں کہ اُن دنوں پولیس آ کر مداخلت کرتی تھی یا نہیں! پھر اسی موسم میں انکل ہلاکو آئے اور مناظرے‘ مجادلے‘ مناقشے سب ختم ہو گئے۔ انکل ہلاکو نے انکل مستعصم کو اس کے زریں اور نقرئی ظروف پیش کر کے حکم دیا کہ انہیں کھاؤ۔ اس نے پوچھا :یہ تو سونا چاندی ہے‘ کیسے کھاؤں‘ تو ہلاکو نے پوچھا: پھر جمع کیوں کیے تھے؟ اس سے بہتر تھا ہتھیار بنواتے اور سپاہ کو تنخواہ دیتے۔
خیر‘ یہ تو دو انکلز کا باہمی معاملہ تھا ہمیں اس سے کیا‘ ہم تو مناظروں کی بات کر رہے تھے۔ ہمیں سوشل میڈیا نے‘ بالخصوص یوٹیوب نے‘ بُری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم اندر سے کتنے کثیف ہیں‘ کتنے نامعقول ہیں‘ یو ٹیوب نے سب کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ یو ٹیوب پر آپ کو بالکل بغدادی نسل کے مناظرے دیکھنے کو ملیں گے۔ پہلے فریقین کتابیں کھول کھول کر دلائل دیتے ہیں‘ پھر آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں‘ پھر دونوں طرف کے صاحبان کھڑے ہو جاتے ہیں‘ اور پھر وہی ہوتا ہے جو بغداد میں سینکڑوں سال پہلے ہوا کرتا تھا۔مگر ذرا ٹھہرئیے! اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ صرف مذہبی طبقے آپس میں جھگڑا کرتے ہیں تو آپ ایک سو ایک فی صد غلط ہیں۔ یو ٹیوب کی طرح ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز نے بھی ہمیں برہنہ کر دیا ہے۔ سیاست دان تو آپس میں دست و گریبان دیکھے ہی تھے‘ میڈیا کے سربرآوردہ اصحاب بھی گلے کی رگیں پھلاتے اور دہانوں سے جھاگ اگلے نظر آتے ہیں۔کہیں مطالبہ ہو رہا ہے کہ معافی مانگی جائے‘ کہیں دوسرے کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا۔ اور یہ کہنا تو اب لاحاصل ہے کہ یہ سب میڈیا کی دنیا میں مطلوب و مقصود ہے۔ جو جتنا شور و غوغا کرے‘ جو جتنا دوسرے کو ہراساں کر کے خاموش کرا لے‘ وہی پروڈیوسروں اور اینکروں کا منظورِ نظر ہے! یہاں تک کہ ایک صاحب جب جوتا لے کر آئے اور سامنے میز پر رکھ دیا تو کسی انتظامیہ نے روکا نہ اینکر نے ٹوکا!
اس صورتحال کا بنیادی سبب کیا ہے؟ یہ کہ ہم بحث کرنے کے فن سے پوری طرح ناواقف ہیں۔ ناواقفیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہم دعویٰ کرتے وقت ثبوت نہیں پیش کرتے اور دوسرا دعویٰ کرے تو جواب میں جوابی دعویٰ تو داغ دیتے ہیں‘ ثبوت مانگتے ہی نہیں!بڑی بڑی باتیں ہم ثبوت‘حوالے کے بغیر کہہ جاتے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ اس اطلاع کا منبع کیا ہے؟ ریفرنس کہاں ہے؟ Evidenceکیا ہے؟ اگر ہمیں ثبوت کے ساتھ دعویٰ کرنے کا شعور ہوتا تو ہماری بحث کا رنگ ہی اور ہوتا۔ اس میں جو تم پیزار ہوتی نہ گالیاں! ذاتی حملے نہ طعنے اور کوسنے!
اس رویے کے مظاہر ہماری عملی زندگی میں قدم قدم پر موجود ہیں۔ ایسی ایسی محفلیں دیکھی ہیں کہ ڈاکٹر موجود ہیں۔ خاموش بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے مریض کے مرض کی تشخیص دیدہ دلیری سے کی جا رہی ہے‘ دوائیں بھی تجویز کی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹر سب کچھ سن کر‘ بے بسی سے مسکرا دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کچھ کہیں گے تو وہ جو ڈاکٹر نہیں ہیں‘ ان سے بحث کرنے لگ پڑیں گے۔ ایک دوست آنکھوں کی کسی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ ایک معروف آئی سپیشلسٹ کالم نگار کے دوست تھے۔ ان کے پاس لے گیا۔ چھوٹتے ہی ان صاحب نے ماہرِ امراض چشم سے کہا ''میری آنکھ میں انفیکشن ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب ہنس پڑے۔ خیر‘ معائنہ ہوا۔ دوا تجویز ہوئی۔ پھر مریض چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ڈاکٹر صاحب سے کالم نگار نے پوچھا کہ آپ ہنسے کیوں تھے؟ کہنے لگے: ہنسا اس لئے کہ انہوں نے خود ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ انفیکشن ہے۔ اس کا کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں تھا!
کچھ عرصہ قبل چکوال کے ایک گاؤں میں جو کچھ ہوا‘ اس سے بہت سے لوگ آگاہ ہوں گے۔ بالآخر میڈیا نے پول کھولا کہ اصل حقیقت کیا تھی۔ ہر سنی سنائی بات پر یقین کرنے کا رجحان ہماری ثقافت کا جیسے حصہ ہے۔ سازشی تھیوریوں کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کا بھی یہی سبب ہے۔ مشرقی پاکستان کے سیاست دان مولانا بھاشانی ہر بات کا سِرا امریکی سازش تک پہنچاتے تھے۔ لطیفہ ان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ بچے کی ان کے ہاں ولادت ہوئی۔ اُن تک خبر پہنچی تو غیر ارادی طور پر اسے امریکی سازش کا شاخسانہ قرار دیا۔ بغیر ثبوت کے دعویٰ ماننے اور اسے خوب خوب پھیلانے کا مرض پورے برصغیر کو لاحق ہے۔ بنگالی اس حوالے سے ہم سے بھی آگے ہیں۔ لوگ کسی کی پٹائی کر رہے ہوں تو ہر گزرنے والا‘ وجہ یا قصور جانے بغیر کارِ خیر میں شریک ہو جاتا ہے۔ بھارت میں بے شمار لوگوں کو یقینِ کامل ہے کہ گائے پر ہاتھ پھیرنے سے ہائی بلڈ پریشر ٹھیک ہو جاتا ہے۔
کالم نگاروں کو ایسے ''الزامات‘‘ سے آئے دن واسطہ رہتا ہے مثلاً یہ تہمت عام ہے کہ آپ نے فلاں کے بارے میں تو لکھ دیا مگر فلاں کے متعلق آپ نے کبھی کچھ نہیں لکھا۔ کوئی پوچھے کہ کیا آپ نے کالم نگار کے سارے مضامین پڑھے ہیں جو اتنے یقین سے کہہ رہے ہیں؟ مگر ہم بات کرتے ہوئے‘ الزام لگاتے ہوئے‘ اعداد و شمار بتاتے ہوئے سوچتے تک نہیں کہ حوالہ کیا ہے؟ اسی لئے جعلی اعداد و شمار کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ جو اعداد و شمار آپ کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں‘ جھٹ سے پیش کر دیجئے۔ اپنے پاس سے ''تصنیف‘‘ کر لیں تب بھی چل جائیں گے!
بحث کرتے ہوئے ہماری دوسری کمزوری یہ ہے کہ ہم موضوع کی پابندی نہیں کرتے۔ الزام کا جواب نہیں دیتے۔ جواب میں ایک اور الزام داغ دیتے ہیں۔ جن ملکوں میں بحث کے دوران گالی گلوچ اور مار دھاڑ کا رواج نہیں‘ وہاں فریق مخالف کے دلائل نوٹ کئے جاتے ہیں پھر ان کا نمبر وار جواب دیا جاتا ہے‘ ہمارے ہاں ''فری فار آل‘‘ ہے۔ ایک فریق‘ فرض کیجئے‘ کرپشن کا الزام لگاتا ہے تو فریق ثانی‘ اس کا دفاع نہیں کرتا نہ ثبوت مانگتا ہے بلکہ دوسرے پر کرپشن کا جوابی الزام عائد کرتا ہے۔ یوں الزام در الزام سے ہوتی ہوئی بحث‘ ذاتیات پر آ جاتی ہے۔ پھر عزت اور بے حرمتی کا معاملہ آن پڑتا ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ دشنام اور دھول دھپّے کا ہوتا ہے۔تیسرا اور مہلک ترین عارضہ ہمارا یہ ہے کہ ہم اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے اور صداقت کا اقرار نہیںکرتے‘ صرف اس لئے کہ ایسا کرنے سے فریقِ مخالف ''جیت‘‘ جائے گا حالانکہ اصل جیت اس کی ہوتی ہے جو اپنی غلطی کو تسلیم کرے اور ناقابلِ تردید حقیقت سے منہ نہ موڑے۔
یہاں انا مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی بات پر اڑے رہیں۔ جوابی الزامات لگائیں۔ خلطِ مبحث کا سہارا لیں اور ایسا ہنگامہ کھڑا کریں کہ سچ نظر سے غائب ہو جائے۔ کل ہی ایک صاحب سے گفتگو ہو رہی تھی۔ عرض کیا کہ صرف دوستی کی بنیاد پر کسی کو اہم شعبے سونپ دینا اصولِ حکمرانی کے خلاف ہے۔ خاص طور پر جب دوست کی اہلیت‘ تجربہ اور کوالی فیکیشن ہی کا علم نہ ہو! جواب انہوں نے یہ دیا کہ فلاں نے ڈاکٹر عاصم کو بھی تو منصب پر بٹھا دیا تھا اور فلاں نے ایک جرمن کو ایک بڑے ادارے کا سربراہ بنا دیا تھا۔ جس بحث کی وہ توقع کر رہے تھے وہ ان کے ہاتھ یوں نہ آئی کہ جواب میں گزشتگان کی یہ غلطیاں‘ یہ جرائم تسلیم کر لئے گئے۔ اب ان کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا مگر اتنی اخلاقی جرأت نہ تھی کہ دوست نوازی کا اعتراف کر لیتے۔
ذہنی بلوغت کی سب سے بڑی گواہی یہ ہے کہ بحث منظم اور پُرمغز ہے یا نہیں! باہمی احترام قائم ہے یا نہیں۔ وگرنہ بغدادی بحث کے تو ہم ماہر ہی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ  دنیا
 

powered by worldwanders.com