Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, June 30, 2017

نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں


پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر خاندانی تسلط چھایا ہوا ہے۔ جب بھی اس 
خاندانی تسلط پر اعتراض کیا جاتا ہے تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ آخر امریکہ میں بھی بش خاندان اور کینیڈی خاندان کئی پشتوں سے سیاست میں دخیل ہیں۔ اس سے زیادہ مغالطہ آمیز دلیل شاید ہی کوئی ہو۔ چلیے، یہ نہیں کہتے کہ یہ دلیل گمراہ کن ہے۔ شاید گمراہ کن کا لفظ سخت ہے۔ مگر نرم ترین الفاظ میں بھی اسے خلطِ مبحث ہی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر شریف خاندان، بھٹو خاندان، ولی خان خاندان اور مفتی محمود خاندان قابض ہیں۔ یہ قبضہ نسل درنسل چلا آ رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی پارٹی کی سربراہ بنی۔ پھر اسی راستے سے وہ وزیر اعظم بنیں۔ پھر ان کے شوہر پارٹی کے سربراہ بنے۔ اسی حوالے سے پانچ سال وہ ملک کے صدر رہے۔ اب پارٹی کے سفید سرسیاست دان صاحبزادے کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔ یہی اجارہ مسلم لیگ ن پر مسلط ہے۔ محمد خان جونیجو کو کہنی مار کر راستے سے ہٹا دینے کے بعد میاں محمد نواز شریف نے مسلم لیگ کی سربراہی سنبھالی اور اب اس سربراہی کو کم و بیش تین عشرے ہونے کو ہیں۔
پانامہ کا معاملہ جب سے پیش منظر پر چھایا ہے، اندازے یہی لگائے جا رہے ہیں کہ وزیر اعظم اقتدار اپنی بیٹی کو سونپیں گے۔ اب ایک خبر یہ دی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم ان کا بھائی ہو۔
اس منظر نامے کو جو حضرات بش خاندان اور کینیڈی خاندان کی سیاست سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔ ان پر حیرت ہوتی ہے۔
اگر امریکی سیاسی جماعتوں، ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی، کی صرف حالیہ تاریخ پر ہی ایک نظر ڈال لی جائے تو اس دلیل کی ’’وقعت‘‘ اظہرمن الشمس ہو جاتی ہے۔
پہلے ڈیموکریٹک پارٹی کو لیجیے۔ صرف گزشتہ تیس برسوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ وہ تیس برس ہیں جن کے دوران مسلم لیگ نون ایک شخص…صرف ایک شخص… یعنی فردِ واحد کی زیر صدارت چلی آ رہی ہے۔ ان تیس برسوں میں ڈیموکریٹک پارٹی نے چودہ سربراہ بھگتائے ہیں۔ جی ہاں چودہ! فاعتبروا یا اولی الابصار! عبرت پکڑو آنکھوں والو!
پھر یہ سربراہ بھی کلی اختیارات کا مالک نہیں ہوتا۔ پارٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک گورننگ باڈی ہے جسے ’’ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی‘‘ کہتے ہیں۔ ہر ریاست کی اپنی کمیٹی ہے۔ تمام پچاس ریاستوں میں سے دو سو منتخب ارکان اس مرکزی کمیٹی میں شامل ہیں۔ کمیٹی کا سربراہ، یعنی پارٹی کا سربراہ، ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ ہر چار سال بعد یہ کمیٹی اور اس کا سربراہ قومی اجتماع(نیشنل کنونشن) منعقد کرتے ہیں تا کہ امریکی صدارتی الیکشن کے لیے امیدوار نامزد کریں۔ عبرت ناک اطلاع ہمارے لیے یہ ہے کہ جب اس پارٹی کا نامزد امیدوار امریکہ کا صدر بن جاتا ہے تو وہ پارٹی کی لیڈر شپ نہیں سنبھالتا۔ پارٹی کا سربراہ کوئی اور ہوتا ہے اور جو بھی ہوتا ہے، وہ پارٹی کی سربراہی جاری رکھتا ہے۔
یہی صورتِ حال ری پبلکن پارٹی کی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں چودہ افراد اس پارٹی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ آج کل پندرھواں ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس پارٹی کی ایک سو اکسٹھ سالہ تاریخ میں صرف ایک شخص ایسا ہے جو پارٹی کا سربراہ رہا اور امریکہ کا صدر بھی بنا۔ لیکن یہاں یہ ذہن میں ضرور رکھیے کہ وہ شخص(جارج ایچ ڈبلیو بش یعنی سینئر بش) پارٹی کا سربراہ 1973-74ء میں رہا۔ ایک سال کے بعد نیا سربراہ آ گیا۔ اس کے سولہ سال بعد پارٹی نے سینئر بش کو صدارتی الیکشن کے لیے نامزد کیا اور وہ الیکشن جیت کر امریکی صدر بنا۔ اس کا بیٹا(جونیئربش) 2001ء میں امریکی صدر منتخب ہوا اور 2009ء تک صدر رہا۔ ان آٹھ سالوں میں پارٹی کی سربراہی سے اس کا کچھ لینا دینا نہ تھا۔ ان نو سالوں میں نو مختلف سیاست دان پارٹی کے سربراہ رہے۔ ان نو سربراہوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کا تعلق ٹیکساس سے ہو جہاں سے بش تھا۔
اس صورتِ حال کو پاکستان کی خاندانی اجارہ داری سے تشبیہہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ کسی خاندان کا سیاست میں ہونا الگ بات ہے اور ایک خاص خاندان کا سیاسی جماعت پر سالہا سال تک، عشروں تک، مسلط ہونا بالکل مختلف حقیقت ہے۔ خواجہ آصف صاحب کا خاندان سیاست میں ہے۔ ان کے والد صاحب بھی سیاست میں سرگرم تھے۔ گوجرانوالہ کا دستگیر خاندان، مری کا خاقان عباسی خاندان، پشاور کا بلور خاندان، یہ سب خاندان سیاست میں کئی پشتوں سے دخیل ہیں۔ ان کا موازنہ کینیڈی خاندان یا بش خاندان سے ضرور کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کسی خاندان کا پارٹی پر تسلط نہیں۔ مگر شریف خاندان اور بھٹو(زرداری) خاندان کی پارٹی پر اجارہ داری کو باربار وزیر اعظم بننے کو، پھر اپنی بیٹی اور بھائی کو وزیر اعظم بنانے کی منصوبہ بندی کو بش یا کینیڈی خاندان کی سیاست سے تشبیہہ دینا تاریخ کو اور حقیقتِ حال کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
ہمارے ہاں جمہوریت ضرور ہے مگر اپاہج ہے۔ لولی لنگڑی ہے۔ ان پارٹیوں کے اندر جو انتخابات ہوتے ہیں، ان کی حقیقت سب جانتے ہیں۔ کیا ان انتخابات کو ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر ہونے والے ان انتخابات سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے جو ہر ریاست میں منعقد ہوتے ہیں اور جینوئن ہوتے ہیں؟
امریکہ میں ریاست(یعنی صوبے) کے امور، گورنر کا بیٹا نہیں چلاتا۔ امریکی صدر کی بیٹی وزراء کو ہدایات نہیں دیتی اگر امریکی صدر بیمار پڑ جائے تو غیر ملکی سفیر بیٹی کی خدمت میں نہیں حاضر ہوتے۔ امریکی پارلیمنٹ کا سپیکر، کنارے پر نہیں چلتا تا کہ سرخ قالین پر صرف صدر کی بیٹی چل سکے۔ آپ پاکستانی جمہوریت کو ضرور جمہوریت 
کہیے مگر خدا کے لیے انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑئیے اس آمرانہ اور خاندانی 
جمہوریت کا جواز امریکہ کے نظام میں نہ تلاش فرمائیے!  ع
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
امریکی صدر کلنٹن جب کٹہرے میں کھڑا ہوا تھا تو باہر اس کے حواری ڈائس نصب کر کے عدالت پر اور سیاسی حریفوں پر تابڑ توڑ حملے نہیں کرتے تھے۔ امریکی صدر کی جائیداد اور کارخانے امریکہ سے باہر نہیں۔ وہ سال میں پندرہ چکر لندن کے نہیں لگاتا۔برطانوی وزیر اعظم نے اپنی بیوی کے لیے سیکنڈ ہینڈ کار خریدی، اس کا ٹیکس ڈاکخانے کی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر خود جمع کرایا۔ سرکاری گھر خالی کرنا تھا تو سامان خود پیک کیا۔ وزیر اعظم کی بیوی بغیر ٹکٹ ٹرین میں سفر کرتی پائی گئی تو اسے عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ حافظ سعید صاحب جیسا کٹر مسلمان اپنے حکمرانوں کے عیاشانہ طرزِ رہائش کے خلاف عدالت میں جاتا ہے تو اسلامی طرزِ رہائش کی مثال دیتے وقت برطانوی وزیر اعظم کے سرکاری گھر کا ذکر کرتا ہے۔
ہمارے دانشوروں کی زندگیاں لکھتے اور بولتے گزر جاتی ہیں مگر وہ سیاسی جماعتوں پر خاندانی اجارہ داری کے خلاف لکھتے ہیں نہ بات کرتے ہیں۔ کوئی دوسرا اگر نشان دہی کرتا ہے کہ پارٹی پر اجارہ داری ہے اور اس اجارہ داری کو یوں استعمال کیا جا رہا ہے کہ ملک کا اقتدار بھی اسی خاندان کے پاس رہے تو ایک اضطراب برپا ہو جاتا ہے۔ پھر جواز ڈھونڈے جاتے ہیں اور امریکہ کے سیاسی خاندانوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
کبھی کہا جاتا ہے کہ زمینی حقائق دیکھے جانے چاہئیں۔ آئیے! زمینی حقائق بھی دیکھ لیتے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ نون پر ایک خاندان کا قبضہ ہے اور منصوبہ بندی ہو رہی ہے کہ اقتدار اسی خاندان کے قبضے میں رہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بلاول کو وزیر اعظم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان پر قبل از تاریخ کا سرداری نظام مسلط ہے اور سترسال میں صرف ایک وزیر اعلیٰ ایسا گزرا ہے جو سردار نہیں تھا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ شریف خاندان اور زرداری خاندان کی دولت ملک سے باہر ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے صوبے کو دبئی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
تو پھر کیا یہ زمینی حقیقتیں ہمارے پائوں کی زنجیر بن جائیں؟ کیا یہ حقیقتیں قوم پر مسلسل مسلط رہیں؟ کیا ان خاندانوں سے نجات حاصل کرنا، زمینی حقائق کی توہین قرار دیا جائے؟ تو کیا یہاں کسی لی کسی مہاتیر کے آنے کی توقع ہی نہ کی جائے کیوں کہ زمینی حقائق ساتھ نہیں دے رہے؟
چلیے! ہم ہی ہار مان لیتے ہیں۔ قوم کو زمینی حقائق بدلنے کا سوچنا ہی نہیں چاہیے۔ چلیے! راضی برضا ہو جاتے ہیں کہ ہم پر میاں نواز شریف اور بھٹو کے نواسے پوتے پڑپوتے لکڑ پوتے حکومت کریں اور کرتے ہی رہیں۔ میرؔ یاد آ رہے ہیں    ؎
کھنچیں میرؔ تجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں

Monday, June 26, 2017

اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا

سخاوت یہ نہیں کہ عید کے موقع پر آپ اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے اور 
جوتے خریدیں‘ بھتیجوں اور بھانجوں کو عیدی دیں‘ بیگم صاحبہ کو نیا سوٹ خرید کردیں اور اقربا اور احباب کی ضیافت کریں! سخاوت کا دارومدار اس سلوک پر ہے جو عید کے موقع پر آپ اپنے ملازموں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ کیا آپ انہیں نئی پوشاک مہیا کرتے ہیں؟ کیا آپ کو احساس ہے کہ دس بارہ ہزار یا پندرہ سولہ ہزار روپے میں ان کا مہینہ کس مشکل سے گزرتا ہے؟ کیا آپ انہیں کچھ رقم تنخواہ کے علاوہ دیتے ہیں تاکہ وہ کم از کم عید کے موقع پر اچھا کھانا کھا سکیں؟ ان کے دستر خوان پر کچھ پھل آ جائیں!
دنیا میں انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ فیاض اور کنجوس! عربوں کا مقولہ ہے کہ سخاوت تلے کئی عیب چھپ جاتے ہیں‘ یعنی سخی کی بہت سی کمزوریاں پس پشت ڈالنا پڑتی ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سخاوت یا کنجوسی کا سب سے زیادہ علم گھر میں کام کرنے والے ملازم‘ خاکروب‘ ڈرائیور اور چوکیدار کو ہوتا ہے۔ وہ مروت کے سبب‘ یا رعب کی وجہ سے‘ یا خوف کے باعث اس موضوع پر بات کبھی نہیں کرے گا مگر وہ ’’صاحب‘‘ کی فطرت اور عادات پر بہت کچھ کہہ سکتا ہے۔ وہ خاندانی پس منظر بھی جان جاتا ہے اورظرف کی تنگی یا وسعت کا بھی گواہ ہوتا ہے۔
فراخ دلوں‘ مہمان نوازوں‘ کنجوسوں‘ بخیلوں اور مفت خوروں پر جتنا کچھ عربی ادب میں لکھا گیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور زبان کے لٹریچر میں موجود ہو! عربی سے یہ موضوع فارسی ادب میں در آیا۔ شعرا سخاوت کو بھولتے ہیں نہ خست کو معاف کرتے ہیں! عباسیوں کے عہد نے برامکہ کاعروج و زوال دیکھا۔ عروج کے زمانے میں خالد برمکی تھا یا یحییٰ برمکی یا فضل‘ سب ایک سے ایک بڑھ کر فیاض اور دریا دل تھے مگر ایک رکن ان کے خاندان کا کنجوس تھا۔ ایک شاعر نے اس کی ہجولکھی کہ اگر اس کی ملکیت میں بغداد سے لے کر قاہرہ تک محلات ہی محلات ہوں‘ یہ محلات سوئیوں سے بھرے ہوئے ہوں‘ کوئی شخص اس سے تھوڑی دیر کے لیے قمیض سینے کے لیے ایک سوئی‘ صرف ایک سوئی مانگے‘ تمام پیغمبر گارنٹی دیں کہ یہ شخص سوئی واپس کردے گا اور فرشتے اس شخص کی سفارش کریں‘ پھر بھی وہ سوئی نہیں دے گا!
مَرَو کے باشندوں کی کنجوسی ضرب المثل تھی۔ اکٹھے سفر کرتے تو ہر آدمی اپنے لیے گوشت کا ایک ٹکڑا الگ خریدتا۔ اس کو دھاگے سے باندھتا۔ پھر سب مل کر اسے ہانڈی میں پکاتے اور سب اپنے اپنے دھاگے کا سرا ہاتھ میں رکھتے۔ پک جاتا تو ہر شخص اپنا دھاگہ کھینچ کر اپنا گوشت الگ کرلیتا۔ شوربا آخر میں یوں بانٹتے کہ کسی کو ایک قطرہ بھی دوسرے سے کم یا زیادہ نہ ملتا!
ایک کنجوس بیوی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا۔ کہنے لگا گوشت بہت اچھا پکا ہے مگر کاش یہاں ہجوم نہ ہوتا۔ بیوی نے پوچھا کون سا ہجوم؟ کہنے لگا‘ تم۔ پھر حسرت کا اظہار کیا کہ کاش صرف میں اکیلا ہی یہ سارا کھانا کھاتا! ایک بار بیوی نے خوشخبری دی کہ بچے کے دانت نکل آئے ہیں۔ غضب ناک ہوا اور کہا‘ تم مجھے روٹی کے دشمن کی خبر دے رہی ہو!
ایک کنجوس نے اپنے بیٹے کو دیکھا کہ روٹی کا لقمہ توڑتا‘ اسے تھوڑی دیر کے لیے دیوار کے شگاف میں رکھتا‘ پھر اٹھا کر کھا لیتا۔ باپ نے اس حرکت کی وجہ پوچھی‘ کہنے لگا‘ پڑوسیوں نے آج گوشت پکایا ہے‘ ان کے گھر کی طرف سے سالن کی خوشبو بھری ہوا آ رہی ہے‘ میں اس ہوا کے ساتھ روٹی کھا رہا ہوں! باپ ناراض ہوا اور ڈانٹا کہ کم بخت! تم سالن کے بغیر نہیں کھا سکتے!
خراسان کا ایک شخص جب بھی حج یا عمرے کے لیے عرب جاتا‘ واپسی پر عراق میں ایک شخص کے ہاں ضرور قیام کرتا جو اس کا دوست تھا۔ عراقی اس کی خوب خاطر مدارات کرتا اور ہفتوں اسے مہمان رکھتا۔ خراسانی اکثر اسے کہتا کہ کاش کبھی آپ خراسان آئیں تاکہ میں آپ کے ان احسانات اور مہمان نوازی کا کچھ بدلہ اتاروں! گردش زمانہ عراقی کو خراسان لے گئی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے‘ پتہ پوچھتا اس کے پاس پہنچ گیا۔ خراسانی اس وقت اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا تھا۔ عراقی کو دیکھ کر اس نے کسی تپاک کا اظہار نہ کیا جیسے پہچانا ہی نہ ہو! عراقی کو گمان ہوا کہ شاید شال کی وجہ سے شناخت نہیں کر پا رہا‘ اس نے شال اتار دی۔ خراسانی پھر بھی انجان بنا رہا۔ اب عراقی کو شک ہوا کہ شاید اس کی پگڑی کے سبب نہیں پہچان رہا‘ اس نے پگڑی بھی اتار دی۔ پھر بھی وہ اجنبی ہی بنا رہا۔ پھراس نے ٹوپی بھی اتار دی۔ اب خراسانی نے سارا تکلف اور بناوٹ بالائے طاق رکھ دی اور کہا کہ اگر تم اپنی کھال اتار دو تب بھی نہیں پہچانوں گا!
ایک کنجوس کے ہاں جب بھی کوئی مہان آتا دل پر پتھر رکھ کر اسے کھانا کھلاتا اور شب بسری کے لیے کمرہ اور بستر مہیا کرتا۔ صبح مہمان اگر اظہار تشکر کے طور پر کہتا کہ رات خوب مزے کی نیند آئی تو آگے سے جواب دیتا کہ جب کھانا اتنا زیادہ کھایا تو نیند مزے کی آنی ہی تھی! اگر مہمان بے خوابی کی شکایت کرتا تو کہتا‘ بسیار خوری کے سبب تمہارے پیٹ نے تمہیں سونے نہ دیا!
ایک کنجوس گوشت کھا رہا تھا اور اس کے تین بیٹے اسے کھاتا دیکھ رہے تھے۔ وہ سب کچھ چٹ کر گیا یہاں تک کہ صرف ایک ہڈی بچی۔ اس  نے تینوں کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ ہڈی اسے ملے گی جو اسے کھانے کا حق ادا کرے گا۔ بڑے بیٹے نے کہا کہ ہڈی کا حق دار صرف وہ ہے کیونکہ اسے چوس چوس کر بالکل خشک کر دے گا اور یہ لکڑی کی طرح ہو جائے گی۔ باپ متاثر نہ ہوا۔ منجھلے نے دعویٰ کیا کہ وہ اسے اتنا چوسے گا کہ یہ کئی سال پرانی لگے گی۔ باپ نے اسے بھی فیل قرار دیا۔ چھوٹے نے کہا کہ وہ اسے چوسے گا پھر اسے خشک کرے گا۔ پھر پیس کر اس کا سفوف پھانک لے گا! باپ نے اسے آفرین کہا اور ہڈی کا حقدار قرار دیا!
سخاوت کے بھی بڑے بڑے حیران کن واقعات ہیں۔ حاتم طائی سے کسی نے پوچھا کہ کیا تم سے بھی بڑھ کر کوئی سخی ہے؟ حاتم نے جواب دیا کہ ہاں! ایک یتیم بچہ! دوران سفر اس کے ہاں ایک شب قیام کیا! اس کے پاس دس بکریاں تھیں۔ اس نے میرے لیے ایک ذبح کردی۔ کھانا آیا‘ تو بکری کا بھنا ہوا مغز بھی تھا۔ مجھے بہت پسند 
آیا اور میں نے اس کی تعریف کی۔ یہ سن کرلڑکا باہر نکل گیا۔ اس نے باقی نو 
بکریاں بھی ذبح کر ڈالیں اور سب کا مغز بھون کر پیش کردیا۔ صبح مجھے یہ سب معلوم ہوا تو میں نے کہا کہ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا! لڑکے نے جواب دیا کہ مہمان کو کوئی شے اچھی لگے اور میں اس میں بخل کروں‘ یہ عربوں کے لیے گالی سے کم نہیں!
اُزبک مہمان نوازی اور سخاوت میں عربوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں! بابر کی بہن گلبدن بیگم کا بیان ہے کہ ہمایوں نے قریبی رشتہ دار خواتین کی دعوت کی تو پچپن بکریاں ذبح کرائیں! اس کالم نگار کو ازبکوں کی سخاوت اور مہمان نوازی کا بارہا تجربہ ہوا۔ تاشقند میں ایک دوست کے ہاں ملاقات کے لیے گیا تو وہ عصر کی نماز کے لیے نکل رہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ مسجد گیا اور  جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔ واپس گھر پہنچے تو مغرب تک کئی افراد نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ مہمان کی دعوت وہ کرنا چاہتے ہیں! قیام معروف ازبک ادیب دادا خان نوری کے گھر تھا! وہ بھی ہمراہ تھے۔ ازبک مہمان کی تکریم کے لیے چپان (روئی بھرا چغہ) پیش کرتے ہیں۔ مجھے تو اس دوست نے چپان پہنانا ہی تھا‘ دادا خان نوری کو بھی نئی قمیض تحفے میں دی اور معذرت کی کہ اور کوئی شے گھر میں اس وقت نہیں تھی! خالی ہاتھ کسی کو بھی گھر سے واپس نہیں جانے دیا جاتا! مہمان جتنی دیر بیٹھے‘ مسلسل ماکولات و مشروبات آتے رہتے ہیں۔ انواع و اقسام کے خشک پھل‘ پھر تازہ پھل‘ جن میں اکثر گھر خود کفیل ہوتے ہیں! انڈے‘ مختلف پکوان‘ ہر قسم کے شربت اور کولڈ ڈرنک‘ چاکلیٹیں اور ٹافیاں‘ قسم قسم کے سالن اور کبھی تل تو کبھی خشخاش لگے نان! آخر میں پلائو پیش کیا جاتا ہے جو مہمان کی تکریم کے لیے عام طور پر گھر کے مرد پکاتے ہیں! پلائو کے اوپر بریاں گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا رکھا ہوتا ہے جسے گھر کا معمر ترین فرد کاٹ کر مہمان سمیت سب کو پیش کرتا ہے!
بہت سال ہوئے‘ یہ کالم نگار سخت بیمار پڑ گیا۔ دارالحکومت کے شفا ہسپتال میں داخل تھا۔ تاشقند دادا خان نوری کو معلوم ہوا تو پلائو کا سارا سامان لے کر جہاز میں بیٹھے اور پہنچ گئے۔ پلائو پکانے کا بڑا برتن بھی‘ جسے ازبک کازان کہتے ہیں ساتھ لائے۔ چاول سے لے کر پیاز تک‘ گاجروں سے لے کر ہر قسم کے مصالحے تک‘ ہر شے جو پلائو میں پڑنا تھی‘ تاشقند سے ہمراہ لائے۔ ازبکوں کا خیال ہے کہ پلائو سے شفا ہوتی ہے۔ اصرار کیا کہ ہسپتال میرے کمرے میں پلائو پکائیں گے۔ بہت مشکل سے انہیں سمجھایا گیا کہ اس کی اجازت نہیں ملے گی۔ ازبکستان کے سفیر کو ساتھ لیا اور دنبے کا گوشت‘ جہاں سے سفیر صاحب خریدتے تھے‘ وہیں سے خریدا۔ پھر پلائو خود پکایا۔ واپس گئے تو فون پر کہا کہ اب پلائو کھانے سے تم جلد صحت یاب ہو جائو گے! جانے پلائو کا وسیلہ تھا‘ دوائوں اور دعائوں کا‘ جلد رو بہ صحت ہوگیا!
کئی فیاض لوگوں کو دیکھا‘ ان کے ساتھ بیٹھے اور معاملات 
(Dealings)
 کیں! ایسے لوگوں کی صحبت میں عجیب طمانیت اور کشادگی کا احساس ہوتا ہے! غالباً اُن کی شخصیت سے غیر مرئی شعائیں خارج ہوتی ہیں جو ساتھ بیٹھے ہوئوں کو اپنے(باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
 حصار میں لے لیتی ہیں! فتح جنگ میں ایک دوست ملک بشیر تھے‘ مرحوم ہوگئے۔ وسائل زیادہ نہ تھے مگر دوست تو کیا‘ واقف بھی سر راہ مل جاتا تو کھانا کھلائے بغیر نہ جانے دیتے۔ اسلام آباد سے پشاور جانا تھا۔ انہیں معلوم ہوگیا‘ فون کیا کہ ’’راستے میں‘‘ فتح جنگ کھانا کھا کر جانا ہوگا۔ عرض کیا کہ فتح جنگ راستے میں کہاں سے آ گیا‘ کہنے لگے بس ترنول سے ذرا بائیں مڑ جائیے گا! اتنا اصرار کہ جائے بغیر چارہ نہ رہتا! غضب کا مکھڈی حلوا‘ دیسی مرغی اور ہمارے علاقے کی خاص تندوری روٹیاں پیش کرتے۔ خود بہت کم کھاتے۔ خدا مہمان نوازی کے صدقے ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے او راحت و آرام سے نوازے!
مگر جو سخاوت یار دیرینہ سید فاروق گیلانی مرحوم میں دیکھی‘ شاید ازبک اور عرب بھی اس تک نہ پہنچ پائیں۔ ہر روز بلاناغہ شام اسلام آباد کلب میں گزارتے۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ دربان اور خدمت گار کو کچھ نہ دیا ہو اور اچھا خاصا نہ دیا ہو! جہاں بیٹھتے بزم کا سماں ہوتا! انجمن آرائی ہوتی! سب کو بلاتخصیص کھانا کھلایا جاتا! چائے پلائی جاتی! چائے کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا! دور کا واقف بھی نظر آ جاتا تو خاطر داری بغیر نہ جانے دیتے! جتنا عرصہ مکان زیر تعمیر رہا‘ باقاعدگی سے جتنے راج مستری مزدورتھے‘ سب کی دعوت کرتے۔ خود ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔ شاید ہی کوئی ملازم انہیں چھوڑ کر کبھی گیا ہو! گھر میں کچھ نہ ہوتا تو ملاقاتی کو لے کر ریستوران چلے جاتے! سید کا دستر خوان تھا۔ طلسم سے بھرپور اور اسم کی تاثیر والا!
بات عید اور ملازموں سے شروع ہوئی تھی! ایسے ایسے لوگ دیکھے کہ دل عش عش بھی کر اٹھا اور بعض اوقات عبرت بھی پکڑی! ایسے اصحاب بھی دیکھے جو دوسروں کے گھروں میں کام کرنے والے مزدوروں اور ملازموں کو کھانا بھیجتے اور ایسے ایسے بخت کے پیکر بھی دیکھے جو اپنے گھر میں کام کرنے والوں کو بھی روٹی اور چائے تو دور کی بات ہے‘ پانی تک نہ پوچھیں!
فیاض انسان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ کھلا کر‘ بانٹ کر‘ اسے مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اس مسرت کے حصول کے لیے وہ کھلاتا ہے‘ بانٹتا ہے‘ یہاں تک کہ داد و دہش اس کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے۔ مہمان نہ ہو تو کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے۔ آ جائے تو سب کچھ حاضر کر دیتا ہے! مہمان کا سٹیٹس نہیں دیکھتا بلکہ اپنی نجابت اور اپنے خاندانی پس منظر کو ذہن میں رکھتا ہے! (کچھ واقعات ڈاکٹر نائف محمود معروف کی تصنیف ’’طرائف و نوادر‘‘ سے لیے گئے ہیں۔)

Sunday, June 25, 2017

پی ٹی آئی‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی راہ پر

حال ہی میں جس دن پیپلزپارٹی کے ایک معروف سیاست دان نے پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا‘ اسی دن 92 نیوز چینل کے پروگرام ’’نیوز روم‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اس کالم نگار نے پوچھا کہ کل عمران خان وزیراعظم بنے تو کیا اس سیاست دان کے بھائی کے خلاف کارروائی کر پائیں گے؟
یہ بھی عرض کیا تھا کہ عمران خان ان لاکھوں نوجوانوں کی امیدوں پر پانی پھیر رہے ہیں جنہوں نے ’’برگر فیملی‘‘ اور ’’ممی ڈیڈی‘‘ کے طعنے سنے مگر کھاتے پیتے گھروں کے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مہینوں عمران خان کے دھرنے میں فرشِ زمین پر بیٹھے رہے۔
دو قسطوں میں ایک معروف کالم نگار نے کرپشن کی جو دماغ سوز روداد بیان کی ہے اسے پڑھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ      ع
اب وہ کہانی عام ہوئی ہے‘ سنتا جا شرماتا جا
اس حیرت انگیز داستان امیر حمزہ کے الگ الگ اجزا‘ بہت حد تک میڈیا سے تعلق رکھنے والوں اور باقاعدگی سے اخبارات کا مطالعہ کرنے والوں کو پہلے سے معلوم تھے مگر اب اس رپورٹ میں سے پوری کہانی منظر عام پر آ گئی ہے جو ایف آئی اے کی وساطت سے سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔
’’ہم نے ان اٹھارہ ڈیلز میں 71 (اکہتر) کروڑ روپے رشوت اور کمیشن وصول کی۔ میرا حصہ سولہ کروڑ روپے بنا۔ باقی رقم… وہ ان کے ساتھیوں نے آپس میں بانٹ لی۔ یہ رقم بعدازاں ہنڈی کے ذریعہ برطانیہ گئی اور ہم نے اس سے وہاں پراپرٹی خریدی۔‘‘
بیان کا یہ حصہ بھی عبرت ناک ہے:
’’یوں علیم خان کو مجموعی طورپر دو ارب ساٹھ کروڑ روپے ادا کئے گئے۔ یہ دونوں پلاٹ دریا برد تھے۔‘‘
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کو کرپشن کی اس کہانی کا علم نہ تھا؟ اس سوال کے دو ہی ممکنہ جواب ہیں۔ عمران خان اس سے آگاہ تھے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آگاہ نہیں تھے۔ دونوں جواب شرم ناک ہیں۔ آگاہ ہونے کے باوجود انہوں نے ایسے سیاست دانوں کے لیے پارٹی کا دروازہ کھول دیا جو کرپشن میں گلے گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کر کے عمران خان نے اپنی پارٹی کی پیٹھ میں خود ہی چھرا گھونپ دیا ہے۔ اور اگر آگاہ نہیں تھے تو یہ نااہلی کی آخری انتہا ہے۔ آپ پارٹی میں کسی کو داخل کررہے ہیں اوراس کے ماضی کے حوالے سے چھان بین ہی نہیں کر رہے!
نہیں! ایسا نہیں کہ عمران خان کو حال ہی میں پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے سیاست دانوں کی شہرت کا علم نہیں! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ مگر عمران خان کے بخت میں کاتبِ تقدیر نے لکھ دیا ہے کہ وہ استقامت سے عاری ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ ہر حال میں اقتدار کے قلعے پر قبضہ کریں گے۔ چنانچہ اب وہ فصیل پر چڑھنا چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے کرپٹ سیاست دانوں کے کاندھوں پر کیوں نہ سوار ہونا پڑے۔ وہ اس فصیل سے اندر کود کر‘ حکومت کے قلعے کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں تاکہ پی ٹی آئی دروازے سے اندر داخل ہو جائے اور قلعے پر قبضہ کرلے۔
مڈل کلاس کے ساتھ اس ملک میں پہلا کھیل ایم کیو ایم نے کھیلا۔ لوگوں سے بندوق کے زور پرکھالیں چھینیں‘ سیکٹر کمانڈروں کا مافیا قائم کیا‘ الطاف حسین کو لندن کی پرتعیش زندگی فراہم کی‘ بوری بند لاشوں‘ ڈرل کیے گئے جسموں اور کیل ٹھونکے گئے سروں کا کلچر متعارف کرایا۔ مڈل کلاس کے نام پر پورٹ جہاز رانی کی اور ہائوسنگ اور تعمیرات کی وزارتوں کو سالہا سال تک نچوڑا گیا۔ ہیوسٹن سے لے کر لاس اینجلز تک سپر سٹوروں اور پٹرول پمپوں کے جال بچھ گئے۔ اکثر کے اہل خانہ امریکہ اور کینیڈا کے چمکدار شہروں کے گراں ترین حصوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ ’’صاحب‘‘ یا ’’صاحبان‘‘ جنوبی پاکستان میں سیاست سے شغل فرما رہے ہیں!
مگر اس سے بھی شدید تر صدمہ مڈل کلاس کو… اس سیاہ بخت‘ لولی لنگڑی مڈل کلاس کو… عمران خان اور عمران خان کی پی ٹی آئی نے پہنچایا ہے! مومن کے بقول‘ مڈل کلاس کو اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ      ع
مرچُک کہیں کہ تو غمِ ہجراں سے چھوٹ جائے!
کس منہ سے عمران خان‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کی کرپشن کی اب مذمت کریں گے ’ کس منہ سے… جے آئی ٹی اور عدالت عظمیٰ کی خدمت میں کرپشن کے انسداد کے لیے عرض گزاری کریں گے؟ پیپلزپارٹی مسلم لیگ (قاف اور نون)‘ جے یو آئی اور پی ٹی آئی میں کیا فرق رہ گیا ہے؟
پی ٹی آئی کو کچرے کے ایک ڈھیر میں تبدیل کر کے اگر عمران خان اوران کے رفقاء کو کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا تو کم از کم ان نوجوانوں کو ضرور شرم آ رہی ہے جو کرپشن فری پاکستان اور میرٹ والے پاکستان کی آروز میں اس کے شریکِ سفر ہوئے تھے۔ ان تارکینِ وطن کے چہرے حیا سے ضرور سرخ ہورہے ہوں گے جنہوں نے عمران خان سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ پرتھ‘ میلبورن اور سڈنی کے وہ بے غرض نوجوان جو شدید مصروف زندگی سے وقت نکال کر پی ٹی آئی کے لیے کام کر رہے تھے کیا پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کے کرپٹ عناصر کو خوش آمدید کہیں گے؟ کینیڈا سے لے کر امریکہ تک اور لندن سے لے کر بارسلونا اور اوسلو تک پاکستانی تارکین وطن جس غم و اندوہ کی حالت میں ہوں گے‘ اس کا فقط تصور ہی کیا جاسکتا ہے!
جن افراد کو جیل میں ہونا چاہیے تھا‘ ان کے گلوں میں پی ٹی آئی کی رنگین چادریں‘ پھولوں کے ہاروں کی طرح ڈال کر عمران خان شریف برادران کے بارے میں کس منہ سے کہیں گے کہ ان کی جگہ اڈیالہ جیل میں ہے؟ ہم جیسے کالم نگاروں نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا‘ اس کے حق میں درجنوں نہیں‘ بیسیوں کالم لکھے‘ ٹیلی ویژن چینلوں پر عمران خان کا دفاع کیا‘ مگر بقول ناصر کاظمی     ؎
میں نے تیرا ساتھ دیا
میرے منہ پر کالک مل
تو پھر ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کو پی ٹی آئی میں کیوں نہ لے لیا جائے؟ بلکہ بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ عمران خان پیپلزپارٹی میں پی ٹی آئی کو مدغم کر کے کرپٹ سیاستدانوں کی سرپرستی کا کام آصف زرداری کی قیادت میں کریں اور ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں! جو راستہ عمران خان نے اختیار کیا ہے اس میں انہیں رہنمائی کی لازماً ضرورت پڑے گی۔ اس رہنمائی کے لیے زرداری صاحب سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟
کرپشن کی اس دلسوز کہانی کا ایک سرا علیم خان سے تو مل ہی رہا ہے‘ مگر کیا پی ٹی آئی میں شامل دیگر سیاست دانوں کے گلے رُندھ گئے ہیں کہ وہ احتجاج کا ایک لفظ زبان تک نہیں لا رہے؟ ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھ کر پی ٹی آئی کا دفاع کرنے والے خیبر پختونخواہ کے جوشیلے نوجوان کیوں چپ ہیں؟ کیا مراد سعید اور علی محمد خان نہیں دیکھ رہے کہ پنجاب میں کیا چاند چڑھائے جا رہے ہیںٖ؟ کیا محمودالرشید کے کرپشن کے خلاف دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں؟ اور کیا عارف علوی راضی برضا ہو گئے ہیں؟
عمران خان‘ پارٹی کو پستی کی ان گہرائیوں میں لے آئے ہیں جس کے بعد اب اسفل السافلین ہی کا درجہ باقی رہ گیا ہے! کوئی دن کی بات ہے کہ دانیال عزیز‘ طلال خان‘ ماروی میمن اور رانا ثناء اللہ کیلئے بھی دروازے کھل جائینگے کیونکہ اگر مقصد حکومت حاصل کرنا ہے توپھر ان حضرات نے کون سا گناہ کیا ہے؟ جو حضرات اب پی ٹی آئی میں جوق در جوق آ رہے ہیں اور خبروں کے مطابق آنیوالے ہیں‘ ان سے موازنہ کریں تو دانیال عزیز اور طلال خان بہتر ثابت ہونگے!
مگر عمران خان یاد رکھیں کہ ہم جیسے کالم نگار‘ جنہوں نے پی پی پی اور مسلم لیگ کی قانون شکنی‘ اقربا پروری اور بے ضابطگیوں کے خلاف کھل کر لکھا اور خم ٹھونک کر کھڑے ہوئے‘ پی ٹی آئی کی کرپشن نوازی کے خلاف بھی لکھیں گے اور جم کر‘ ٹِکا کر لکھیں گے! قلم امانت ہے۔ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید ہی کہا جائے گا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون سے دشمنی ہے نہ جائیداد کا جھگڑا‘ نہ ہی پی ٹی آئی سے رشتہ داری ہے۔ پی ٹی آئی نے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا‘ کرپشن کے خلاف سٹینڈ لیا‘ ہم نے دل و جان سے حمایت کی۔ مگر اب اگر پی ٹی آئی اسی خوراک کو حلال قرار دے رہی ہے جسے حرام کہتی تھی تو ہم پی ٹی آئی کو آئینہ دکھائیں گے! اور ضرور دکھائیں گے!!
مسدس حالی کے آغاز میں حالی نے ایک رباعی لکھی ہے۔ لگتا ہے حالی عمران خان سے مخاطب ہیں     ؎
بلبل کی چمن میں ہم زبانی چھوڑی
بزمِ شعرا میں شعر خوانی چھوڑی
جب سے دلِ زندہ! تو نے ہم کو چھوڑا
ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی

Friday, June 23, 2017

وطنِ اصلی، وطنِ اقامت اور دیگر معاملات


جب بھی عید آتی ہے، اخبارات اس قسم کی سرخیاں ضرور لگاتے ہیں۔
’’دارالحکومت خالی ہو گیا‘‘
’’پرندے اُڑ گئے‘‘
’’لوگ عید منانے اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئے‘‘
فقہ میں وطن اصلی اور وطن اقامت کا ذکر ہوتا ہے۔ وطن اصلی وہ ہے جہاں سے آپ کا اصل تعلق ہو، آپ کی جائیداد، گھر، عزیز و اقارب، دوست احباب وہاں ہوں۔ اس کے مقابلے میں وطن اقامت وہ ہے جہاں آپ روزگار یا کاروبار کے سلسلے میں مقیم ہوں۔ یہ امتیاز، وطن اصلی یا وطن اقامت میں اس لیے بھی برقرار رکھا جاتا ہے کہ وطن اقامت میں قیام پندرہ دن سے کم ہو تو غالباً نماز قصر کی پڑھنا ہوتی ہے۔
ہمارے وزیر اعظم عید اکثر و بیشتر لندن میں مناتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کراچی، لاہور، اسلام آباد سے لوگ عید منانے اپنے اپنے آبائی گھروں کو یعنی وطن اصلی کو چلے جاتے ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو بات سمجھ میں یوں آتی ہے کہ پاکستان ہمارے حکمرانوں کا وطن اصلی نہیں، وطن اقامت ہے۔ حکمرانوں سے مراد صرف میاں محمد نواز شریف نہیں، بلکہ وہ طبقہ ہے جو ہم پر حکومت کر رہا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب سے لے کر عشرت العباد صاحب تک، حسین نواز سے لے کر بلاول تک۔ سب ہمارے حکمران ہیں۔ سب کے دو دو وطن ہیں۔ ایک وطن اصلی، ایک وطن اقامت۔ عید کے موقع پر کشاں کشاں یہ حضرات اپنے اپنے وطن اصلی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان تو ان کا وطن اقامت ہے۔ یہاں ملازمت کے لیے رکتے ہیں۔ کبھی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے، کبھی صدر کے منصب پر کام کرنے کے لیے، کبھی گورنری کرنے کے لیے! ورنہ ان کے گھر بار، اولاد، جائیدادیں، سب پاکستان سے باہر ہیں۔ لندن اور دبئی ان کا وطن اصلی ہے اور پاکستان وطن اقامت!
چلیے رمضان اور عید کے مواقع پر اس سوال کا جواب تو مل جاتا ہے کہ پاکستان کن کن کے لیے محض وطن اقامت ہے مگر ایک سوال ایسا بھی ہے جس کا جواب حاصل کرنا غالباً ناممکنات میں سے ہے۔ رمضان ہمارے ہاں جس طرح نیکیوں کی بہار دکھاتا ہے، اُس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان واقعی اسلام کا قلعہ ہے۔ رمضان آتے ہی مسجدیں بھر جاتی ہیں۔ تراویح کا اہتمام اتنی ہی شدت سے ہوتا ہے جس شدت سے فرض روزے رکھے جاتے ہیں۔ ستائیسویں رات عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہے۔ شبینہ کی محفلیں سجتی ہیں۔ مسجدوں پر ختم قرآن کے موقع پر چراغاں کیا جاتا ہے۔ کشمیر سے لے کر فلسطین تک، سب مسلمانوں کے لیے گڑ گڑا کر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر پورا مہینہ اسلامی پروگرام چھائے رہتے ہیں۔ افطار اور سحری کے وقت جو چینل بھی لگائیں پردۂ کیمپس پر کوئی نہ کوئی معروف نعت خواں، مشہور مبلغ، متاثر کرنے والا عالم دین نظر آتا ہے۔ خوبصورت ٹوپیاں اور دیدہ زیب پگڑیاں نظر نواز ہو رہی ہوتی ہیں۔ مخیر حضرات کی بھی ہمارے ہاں قلت نہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر فیاض موجود ہے۔ ناداروں کا پیٹ بھرنے کے لیے سینکڑوں، ہزا روں دسترخوان بچھے ہیں۔ یتیم خانے چل رہے ہیں۔ فائونڈیشنیں غریب طلبہ کی خدمت کر رہی ہیں۔ لاکھوں مدارس صرف او رصرف مخیر حضرات کی توجہ سے چل رہے ہیں۔ صدقات و خیرات دینے والے رات دن سرگرمِ عمل ہیں۔ ان سب مثبت پہلوئوں کے باوجود مذہب ہمارے حلق کے نرخرے سے نیچے نہیں، اوپر اوپر ہی رہتا ہے۔ معاملات میں ہم لوگ اسفل السافلین کے درجے پر ہیں۔ دفاتر ہی کی بات کر لیجیے۔ تنخواہ پوری لیتے ہیں مگر آٹھ بجے کے بجائے دس گیارہ بجے آ رہے ہوتے ہیں۔ نماز کے لیے اٹھیں تو پھر دوسرے دن دکھائی دیتے ہیں۔ جو وقت، کیا افسر اور کیا اہلکار، دفتر میں گزارتے ہیں۔ اس کا بھی زیادہ حصہ چائے اور خوش گپیوں میں گزر جاتا ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ کینیڈا کی ایک کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔ ایک دن اپنی سیٹ پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ طلب کر لیے گئے۔ وارننگ دی گئی کہ دفتری اوقات میں ذاتی کام نہیں کر سکتے۔ آسٹریلیا میں ایک شخص دفتری اوقات میں کمپیوٹر پر، یو ٹیوب لگائے کچھ دیکھ رہا تھا۔ ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ یہاں آپ سرکاری ہسپتالوں میں جا کر سروے کر لیجیے، ڈاکٹر سے لے کر ڈسپنسر تک، دوا دینے والے سے لے کر پولیو سرٹیفکیٹ پر دستخط کرنے والے تک، سب غائب ہوں گے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ دارالحکومت کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں چار دن جاتے رہے، متعلقہ ڈاکٹر سے ملاقات نہ ہوئی۔ ہر روز یہی بتایا جاتا کہ رائونڈ پر ہیں۔ میٹنگ میں ہیں، چائے کا وقفہ ہے، کل آئیے۔ پانچویں دن تھک ہار کر وہ اس کے پرائیویٹ کلینک میں گئے، فیس ادا کی اور زیارت ہوئی۔ اب مثال کے طور پر انہی ڈاکٹر صاحب کا کیس لیجیے، تنخواہ پوری لیتے ہیں مگر جو فرائض اس تنخواہ کے عوض سرانجام دینے ہیں وہ نہیں دے رہے اور ڈنکے کی چوٹ نہیں دے رہے۔ تراویح بھی پڑھتے ہوں گے، مسجدوں، مدرسوں میں چندہ بھی دیتے ہوں گے۔ عبادات کے اور ظاہر کے تمام دینی تقاضے پورے کرتے ہوں گے مگر سو سوالوں کا ایک سوال ان کے ذہن کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی کبھی نہ اٹھا ہو گا کہ کیا وہ سرکار سے موصول ہونے والا مشاہرہ حلال کر رہے ہیں؟
اس کالم نگار سمیت ہم سب، اسلام کے اس قلعہ میں رہنے والے، صبح سے شام تک بے تحاشا جھوٹ بولتے ہیں۔ وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور پھر طرفہ تماشا یہ ہے اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ برائی کو برائی نہیں گردانتے، کتنے ہی مذہب میں سر سے پائوں تک ڈوبے ہوئے نیک صورت افراد کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نہیں، ہم نے وعدہ تو نہیں کیا تھا، بات کی
تھی۔ گویا بات منہ سے اور وعدہ کہیں اور سے نکلتا ہے۔
اس پر غور کرنے کی
ضرورت ہے کہ کافر جو ترقی یافتہ ملکوں میں رہتا ہے، وعدے کا کیوں پابند ہے؟ جھوٹ کیوں نہیں بولتا؟ جب یہ بات کی جائے تو اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ وہ افغانستان اور عراق و شام میں کیا کر رہے ہیں؟ اس کا موضوع سے تعلق ہی نہیں مگر پھر بھی جواب دینے کو جی چاہتا ہے کہ کافر عراق و شام میں وہی کچھ کر رہے ہیں جو آپ دہلی سے لے کر انا طولیہ تک کرتے رہے۔ اس زمانے کے جدید ترین توپ خانے کے ساتھ بابر نے دہلی کی مسلم سلطنت کے پرخچے اڑا دیئے۔ قتل ہونے والا ابراہیم لودھی نماز بھی پڑھتا تھا اور روزے بھی رکھتا تھا۔ جس سلطنتِ عثمانیہ کا نام سن کر یورپ لرزہ براندام ہو جاتا تھا، اس کی، مسلمانوں ہی کے بادشاہ امیر تیمور نے اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ترک خلیفہ بایزید کو گرفتار کر لیا۔ حلب اور دمشق کو تاخت و تاراج کیا۔ شہریوں کا قتل عام ہوا۔ بغداد پر حملہ کیا تو حکم دیا کہ اس کا ہر سپاہی کم از کم دو کٹے ہوئے سر پیش کرے۔ آرمینیا اور جارجیا کی عیسائی آبادیوں کو ملیامیٹ کر دیا۔ ساٹھ ہزار تو صرف غلاموں کی تعداد تھی۔
کچھ عرصہ پہلے ایک معروف مبلغ نے برطانیہ میں کہا کہ اہلِ مغرب اپنے اعمال ہمیں دے دیں اور ہم سے ہمارا ایمان لے لیں۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ ہم کافر ہو جائیں۔ اعمال اور ایمان کا تبادلہ یوں بھی ناممکن ہے۔ مگر یہ سمجھانے کا ایک انداز تھا اور ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم ایمان تو رکھتے ہیں مگر ایمانی معاملات جس پاکیزگی کا تقاضا کرتے ہیں، اس سے محروم ہیں۔ ان مبلغ صاحب کے پیچھے ’’مسلمان‘‘ ہاتھ دھو کر پڑ گئے کہ انہوں نے ایسا کہا تو کیوں کہا؟
ہم اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں جس کا جواب کہیں نہیں مل رہا۔ تمام عبادات، صدقات و خیرات کے باوجود ملاوٹ کیوں عام ہے؟ گاڑیوں میں ڈالے جانے والے تیل سے لے کر سموسوں اور پکوڑوں میں ڈالے جانے والے تیل تک ہر شے جعلی اور جھوٹی کیوں ہے؟ ایک سو بیس روپے ایک کلو دودھ کے وصول کرنے والا مسلمان روزے رکھنے کے باوجود پانی کیوں ملاتا ہے؟ ہر سال عمرہ کرنے والے حاجی صاحب انکم ٹیکس دیتے وقت حیلہ سازی اور دروغ گوئی سے کیوں کام لیتے ہیں؟ افطار میں کھجور کا التزام کرنے والا روزہ دار، سرخ بتی کی حرمت کیوں پامال کرتا ہے؟ گھر بیٹھا ہوا نمازی فون پر کیوں کہتا ہے کہ راستے میں ہے اور گاڑی خراب ہو گئی ہے؟ ہمارے غسل خانے دنیا کے سب سے زیادہ گندے غسل خانے کیوں ہیں؟ ہم اپنے اپنے گھر کے سامنے، چند مربع فٹ جگہ بھی صاف نہیں رکھتے! آخر کیوں؟
سائنس دان رات دن یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کائنات کی ابتدا کس طرح ہوئی، دمبدم پھیل کیوں رہی ہے؟ اور اس کا انجام کیا ہو گا؟ کوئی سائنس دان، کوئی فلسفی، کوئی انجینئر، کوئی دانشور، اس سوال کا جواب بھی تو دے کہ ہم شدید مذہبی ہونے کے باوجود، اتنی برائیوں کا ارتکاب کیوں کرتے ہیں؟

Wednesday, June 21, 2017

تم بھی انتظار کرو ہم بھی کرتے ہیں

قسمت کا دھنی اور مقدر کا سکندر کون ہے؟ اس کا فیصلہ وقت کرے گا! ہم کون ہیں 
کرنے والے! اور آپ کس طرح کر سکتے ہیں؟
خوش قسمتی کی تعریف کیا ہے؟ معیار کیا ہے؟ کیا اقتدار کی طوالت خوش نصیبی کی علامت ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر معمر قذافی اور حسنی مبارک سے زیادہ خوش قسمت کون ہے!
عوام کو ان پڑھ رکھیے۔ اداروں کو طاعون زدہ کر دیجیے۔ پولیس کو گھر کی باندی کے طور پر استعمال کیجیے یوں کہ آئی جی آپ کے ذاتی ملازم کی طرح انگلی کے اشارے کا غلام ہو، خزانے کا منہ کھول کر صحافیوں، دانشوروں، اخبار نویسوں، رائے سازوں اور تشہیر کنندگان کو خرید لیجیے، کوئی آپ کا راستہ روکنے والا نہ رہے۔ کوئی چیلنج کرنے والا نہ رہے۔ اقتدار طویل سے طویل تر ہوتا رہے، اگر یہی خوش نصیبی ہے تو پھر تو تاریخ خوش نصیبوں سے بھری پڑی ہے۔ 
پھر تو ابوحنیفہ اور احمد بن حنبل کی قسمت خراب تھی اور ان بادشاہوں کی اچھی تھی جنہوں نے انہیں کوڑے مارے، جسمانی اذیتیں دیں، یہاں تک کہ شہید ہی ہو گئے۔ اس وقت بھی درباریوں نے یہی کہا ہو گا کہ جہاں پناہ! مقدر آپ کے ساتھ ہے، یہ حاسد، یہ کیڑے نکالنے والے، یہ نام نہاد فقیہہ، زندگی ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور آپ کو خدا نے سلامت رکھا ہوا ہے۔
طوالتِ اقتدار ہی خوش بختی کا معیار ہے تو پھر تو عمر بن عبدالعزیز کی قسمت قابل رحم ہے۔ صرف اڑھائی برس، اور اس کے مقابلے میں حجاج بن یوسف بیس سال عراق کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس نے ایک لاکھ افراد کو قتل کیا جن میں اصحابِ رسول بھی تھے۔
پھر تو کامیاب ترین ہندوستانی فرماں روا شیر شاہ سوری صرف پانچ سال حکومت کر سکا۔ بیچارہ، بدنصیب، تاریخ اسے لاکھ کامیاب ترین خوش بخت اور قسمت کا دھنی قرار دیتی رہے، مگر صرف پانچ برس، یہ الگ بات کہ ان پانچ برسوں میں ایسی شاہراہیں بنوائیں جو آج تک استعمال ہو رہی ہیں اور زراعت اور انصاف میں ایسی اصلاحات کیں جو مغلوں نے تو کیا، انگریزوں نے بھی جاری رکھیں اور اپنائیں۔ 
قائد اعظم کہاں خوش قسمت تھے۔ بھئی! وہ تو دوسال بھی حکومت نہ کر سکے۔ اس کے مقابلے میں جنرل ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف دس دس سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ قسمت کے دھنی، مقدر کے سکندر!
چنگیز خان سے زیادہ خوش قسمت پھر کون ہو گا؟ جو اس کے راستے میں آتا، ریت کی دیوار ثابت ہوتا۔ بستیوں کو جلاتا، شہروں کو راکھ میں بدلتا، ہزاروں، لاکھوں انسانوں کو قتل کرتا، عالموں، مصنفوں، ایلچیوں، کو میناروں سے نیچے گراتا، خوش بخت چنگیز خان آگے ہی آگے بڑھتا رہا، کیا مقدر تھا اور کیا ہی قسمت تھی۔ رشک آتا ہے۔
اور یہ سلطان ٹیپو کو کیا سوجھی تھی؟ کتنی غلط بات کہہ گئے سلطان شہید! کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ کہاں زندگی کے مزے۔ کہاں موت! میر جعفر اور میر صادق عقل مند تھے اور خوش قسمت بھی۔ بھٹو کی قسمت خراب تھی، معافی مانگی نہ جلاوطنی کا انتخاب کیا۔ خوش بخت ہوتے تو جیل کی کالی کوٹھڑی میں سڑتے نہ رہتے!کسی بادشاہ کی مدد طلب کرتے۔ معاہدہ پر دستخط کرتے اور سامان سے بھرے چالیس صندوق اور باورچیوں کو ہمراہ لیتے، دور کی کسی مملکت پہنچ کر کسی محل میں فروکش ہو جاتے۔!
خوش بختی کے راستے کا سنگِ مل یہ ہے کہ اپنی برادری پر انحصار کیجیے۔ اپنی ذات، اپنے قبیلے کو ترجیح دیجیے۔ اگر برادری کا آرمی چیف چل جاتا تو خوش بختی اور بھی زیادہ تابندہ ہوتی۔ یہی اصول یوگنڈا کے عدی امین نے اپنایا اور قسمت کا دھنی ثابت ہوا۔ بیورو کریسی سے لے کر فوج تک، ہر جگہ اپنے قبیلے کے افراد کو داخل کیا۔ پھر جنوبی سوڈان سے لوگ منگوائے۔ کابینہ کا پچہتر فیصد اور ٹاپ جرنیلوں کا ساٹھ فیصد اس کے اپنے قبیلے کے افراد اور جنوبی سوڈانیوں پر مشتمل تھا۔ فوج میں سوڈان اور کانگو کے کرائے کے فوجی بھرتی کیے صرف ایک چوتھائی فوجی یوگنڈا کے تھے۔ یوں یوگنڈا کی عدالتیں، الیکشن کمیشن، سیکرٹریٹ، پولیس، وہاں کی ایف آئی اے، سب ادارے اس کی برادری اور اس کے علاقے کے لوگوں سے اٹ گئے۔ اب خوش قسمتی کا راستہ کھلا تھا۔آٹھ بغاوتیں ہوئیں اور سب ناکام! اس کے حامیوں نے اسے ضرور خوش بخت قرار دیا ہو گا۔ پھر قسمت کا عروج دیکھیے کہ لاکھوں افراد قتل کرنے والے اس قاتل کو سرزمینِ حجاز سے بلاوا آگیا۔ ہیلی کاپٹر پر بھاگا تو پہلے لیبیا گیا۔ پھر سعودی عرب! جدہ کے بہترین ہوٹل میں پوری دو منزلیں اس کے لیے مختص ہو گئیں۔ مرسڈیز گاڑیاں حاضر تھیں۔ پھر ایک دن آیا کہ وہ کوما میں چلا گیا۔ اس کی بیگمات میں سے ایک نے یوگنڈا کے حکمران سے واپسی کی بھیک مانگی جو قبول نہ ہوئی۔ آخر کار عدی امین کی اپنی فیملی ہی نے اسے زندہ رکھنے والا وینٹی لیٹر ہٹا دیا اور یوں یہ خوش بخت حکمران انجام کو پہنچا۔ کسی کو معلوم نہیں کہ ایک سادہ سی قبر جدہ کے قبرستان میں اس کی بھی ہے۔!! 
اقتدار خوش بختی کی علامت ہوتا تو قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں صفحۂ ہستی سے مٹا دینے والے خلفائِ راشدین یہ حسرت نہ کرتے کہ کاش وہ تنکا ہوتے اور ان کا حساب کتاب نہ ہوتا۔ ایک تعزیت کے موقع پر ایک بزرگ نے کیا فکر انگیز بات کی کہ سب کو پس ماندگان کی فکر ہے کہ اولاد کا کیا بنے گا، بیوہ کو کون سنبھالے گا، کاروبار کیسے چلے گا، مگر آہ! جانے والے کی کسی کو پرواہ نہیں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ بیس کروڑ افراد کی ذمہ داری حکمران اعلیٰ کے سر پر ہے! فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے ہر شخص کا دائرۂ اختیار ہے اور اس سے اس دائرۂ اختیار کے حساب سے پوچھ گچھ ہو گی۔ یہ دائرۂ اختیار جتنا پھیلا ہوا ہو گا، جواب دہی اُسی تناسب سے ہو گی۔ پانچ ما تحت ہیں تو ان کے حساب سے، ایک محکمہ ہے تو اس کے حساب سے، ایک پورا ملک ہے تو اس کے لحاظ سے! وہ حکمران جس نے کہا تھا کہ فرات کے کنارے کتا مر گیا تو اس کی بھی ذمہ داری مجھ پر ہو گی، کیا عقل سے بے بہرہ تھا؟ چھینک آنے پر ولایت سدھار جانے والوں سے پوچھا جائے گا کہ 
ہسپتالوں میں خلقِ خدا بے سہارا مرتی رہی، تم کہاں تھے؟ اپنی آمد و رفت کے 
لیے شاہراہوں کو سنسان کر دینے والے گردن بلندوں سے پوچھا جائے گا کہ لاکھوں انسان ٹریفک کی لاقانونیت کا شکار ہو گئے، تم اپنے لیے تو رُوٹ لگواتے رہے، اُن کی فکر کیوں نہ کی؟ لکھنے والوں نے درجنوں بار ان حکمرانوں کی توجہ اس طرف دلائی کہ ٹرالیاں، ڈمپر اور ٹریکٹر خلقِ خدا کو دن رات کچل رہے ہیں۔ ریاست غائب ہے، مگر ان حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ان کے ملازم صبح چھ بجے اخبارات کھنگال کر ان کے لیے سمریاں تیار کرتے ہیں۔ خبروں کی کٹنگز، کلپس، پیشِ خدمت کرتے ہیں مگر یہ اس غرّے میں ہیں کہ ان کے حواری انہیں قسمت کا دھنی قرار دے رہے ہیں۔ آخر کچھ کمال تو ان میں ہے وگرنہ کیا یہ سب لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جھوٹ تو وہ بھی نہیں بول رہے تھے جو بادشاہ سلامت کے ’’لباس‘‘ کی تعریف کر رہے تھے۔ جھوٹ تو وہ نامعقول بچہ بول رہا تھا جو کہہ اٹھا کے بادشاہ ننگا ہے۔
کون خوش قسمت ہے اور کون نہیں، خدا کے بندو! خدا سے ڈرو! اس کا فیصلہ وقت کرے گا اور تاریخ کرے گی اور روزِ حشر کرے گا۔ ہاں! آج فیصلہ لینا ہے تو خلقِ خدا کی طرف رجوع کرو۔ سوشل میڈیا ہی کو دیکھ لو! لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ روایت ہے کہ ایوب خان نے ایک بچے کے منہ سے اپنے خلاف نعرہ سنا تو اقتدار چھوڑ دیا۔ آج سوشل میڈیا پر عوام جو کچھ کہہ رہے ہیں۔ دیکھتا تو نہ جانے اس خوش قامت اور وجیہہ خان کا کیا حال ہوتا۔
آہ! تقدیر کا فیصلہ یہی ہے کہ حکمران اعلیٰ ہی سب سے زیادہ بے خبر ہوتا ہے۔ اُسے اردگرد کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ اس کے گرد ایک حصار کے بعد دوسرا حصار اور دوسرے کے بعد تیسرا حصار یوں تناہوتا ہے کہ وہ اس کے پار کچھ دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ حواری اور درباری اس کے بخت کو سلام کہہ رہے ہوتے ہیں اور وہ اس پر یقین کر لیتا ہے۔ بھائی ہیرو کہتا ہے۔ بیٹی عظیم انسان کا خطاب دیتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو عظیم سمجھنے لگتا ہے۔ بیس کروڑ عوام تو دور کی بات ہے، کابینہ کے ارکان جو کچھ اس کے نام پر اور اس کے دیئے ہوئے اختیارات کے وسیلے سے کر رہے ہیں، اسی کا حساب دینا کارے وارد ہو گا۔ قیامتیں ہیں کہ عوام پر ڈھائی جا رہی ہیں۔ وزیر صاحبان ہفتے میں ایک بار مشکل سے دفتر آتے ہیں۔ عرضیوں کے انبار لگے ہیں۔ سائلین کا ہجوم ہے۔ کوئی زنجیرِ عدل نہیں کہ کھینچیں اور حکمران اعلیٰ کے کانوں تک آواز پہنچے۔ کاش کوئی بتاتا کہ عمر ے نہیں بچا سکتے، انسانوں کے حقوق انسان خود ہی معاف کریں گے تو جان چھوٹے گی۔ خاک اڑاتے قریے حکمرانوں کو دن رات بد دعائیں دے رہے ہیں۔ بارہ سال پہلے جو ڈسپنسری منظور ہوئی، اس کے قیام کے لیے چند لاکھ روپے خزانے سے نہیں دیئے جا سکتے مگر اپنی حفاظت پر، اپنے اہل و عیال حتیٰ کہ متعلقین کی پہریداری پر، اپنے علاج معالجے پر، اپنی آمدورفت پر، کروڑوں اربوں روپے دن رات پانی کی طرح بہائے جا رہے ہیں۔ 
کون خوش قسمت ہے؟ تم بھی انتظار کرو! ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ فیصلہ ہو گا تو سب دیکھ لیں گے۔

Monday, June 19, 2017

کہیں ہماری ملّی غیرت سو تو نہیں گئی؟


ہر جیت سنگھ سجن بھارتی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گائوں میں پیدا ہوا۔ والد 
پولیس میں کانسٹیبل تھا۔ ہرجیت سنگھ چھ سال کا تھا جب اس کے کنبے نے کینیڈا کا رخ کیا۔ وہاں ہر جیت کا باپ لکڑی کاٹنے کی مل میں اور ماں ایک زرعی فارم میں ملازمت کرتے رہے۔
ہر جیت بڑا ہوا تو فوج میں بھرتی ہو گیا۔ کینیڈا کے جو فوجی افغانستان تعینات تھے ان میں ہر جیت بھی تھا۔ پنجابی اور اردو سے آشنا ہونے کی وجہ سے اسے افغانوں سے بات چیت کرنے میں دوسروں پر برتری حاصل تھی۔ کینیڈا واپس ہوا تو اس کے ان افسروں نے جنہوں نے افغانستان میں اس کی کارکردگی دیکھی تھی‘ اسے ’’کینیڈا کی انٹیلی جنس کے لیے بہترین سرمایہ‘‘ قرار دیا۔ فوج کی طرف سے تمغہ دیا گیا۔ پھر وہ اپنے صوبے ’’برٹش کولمبیا‘‘ کے گورنر کا اے ڈی سی رہا۔ داڑھی کی وجہ سے ملٹری گیس ماسک پہننے میں دقت کا سامنا ہوا تو ہرجیت نے ایسا گیس ماسک ایجاد کیا جو داڑھی کے ساتھ چل سکتا تھا۔ اس نے اس ایجاد کو اپنے نام کے ساتھ رجسٹر بھی کرا لیا۔
طویل قصے کو مختصر کرتے ہیں۔ ملازمت سے فارغ ہو کر ہر جیت نے مقامی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس نے چینی نژاد مدمقابل کو شکست سے دوچار کیا اور پارلیمنٹ میں پہنچ گیا۔ آج وہ کینیڈا کا وزیر دفاع ہے‘ کابینہ کا رکن ہے۔
اشوک وردکار بمبئی میں پیدا ہوا ‘ ڈاکٹر بنا تو انگلستان ہجرت کر گیا۔ وہاں سے ایک بار پھر واپس بھارت آیا۔ دوسری بار ہجرت کر کے آئر لینڈ میں مقیم ہو گیا۔ وہیں اس کا بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا نام اس نے لیو وردکار رکھا۔2003ء میں اس لڑکے نے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی۔ کئی سال ہسپتالوں میں جونیئر ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے کے بعد 2010ء میں جی پی (جنرل پریکٹیشنر) تعینات ہوگیا۔ سیاست میں دلچسپی شروع ہی سے تھی۔ کالج کے زمانے میں انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس قصے کو بھی مختصر کرتے ہیں۔ سیاست میں زینہ بہ زینہ اوپر ہوتا گیا۔ ٹرانسپورٹ اور سیاحت کا وزیر رہا۔ پھر وزارتِ صحت کا قلم دان سنبھالا۔ آج یہ بھارتی نژاد آئر لینڈ کا وزیر اعظم ہے!
برداشت اور ہم آہنگی کی یہ مثالیں مغربی معاشرے سے ہیں! کیا یہ برداشت صرف غیر مسلم تارکین وطن کے لیے مخصوص ہے؟ شواہد اس کی نفی کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ لندن کا میئر پاکستانی نژاد مسلمان ہے۔ درجنوں مسلمان مرد اور عورتیں دارالعوام برطانیہ کی ارکان منتخب ہوئی ہیں اور ان علاقوں سے جہاں سفید فام اکثریت میں رہتے ہیں! آسٹریلیا کا مواصلات کا نیٹ ورک’’آسٹریلین پوسٹ‘‘ کہلاتا ہے اور یہ سرکاری سرپرستی میں  نجی کاروبار کے اصولوں پر چلتا ہے۔ اس کا سربراہ ایک لبنانی نژاد مسلمان احمد فاعور رہا ہے۔ آسٹریلیا کی بیورو کریسی میں اس کی تنخواہ سب سے زیادہ تھی۔ حال ہی میں اسے بلند ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیاہے۔ یہ اس کی ان خدمات کے صلے میں دیا گیا جو بقول حکومت‘ اس نے بنکاری بزنس اور سرمایہ کاری کے میدان میں سرانجام دیں۔ آسٹریلیا کے ’’اسلامی عجائب گھر‘‘ کی بنیاد احمد کے بھائی مصطفی نے رکھی۔ پورے خاندان نے اس میوزیم کی ترقی کے لیے مالی اور انتظامی خدمات سرانجام دی ہیں۔
اب ہم مشرق وسطیٰ کی طرف آتے ہیں۔
المشرف
 (Al-mushrif)
 ابوظہبی کا ایک معروف علاقہ ہے۔ اس میں ایک مسجد یو اے ای کے حکمران سے منسوب تھی۔ مسجد کا نام ’’شیخ محمد بن زید النیہان مسجد‘‘ تھا۔ گزشتہ ہفتے ابو ظہبی کے ولی عہد اور یو اے ای کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر نے اس مسجد کا نام ’’محمد بن زید مسجد‘‘ سے بدل کر ’’مریم اُمِّ عیسیٰ مسجد‘‘ رکھ دیا۔ حکومت کے اعلان کی رُو سے اس تبدیلی کا مقصد مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان انسانیت کے رشتے کو مضبوط تر کرنا تھا! اسلامی امور کے محکمے کے سربراہ الکعبی کے بیان کے مطابق یہی وہ پالیسی ہے جس کی وجہ سے دو سو سے زیادہ اقوام یو اے ای میں امن و امان سے زندگی بسر کر رہی ہیں!
اس مسجد کے قریب ہی سینٹ اینڈریوز کا گرجا ہے۔ تھوڑی ہی دور جنوبی عرب کے کیتھولک بشپ کا دفتر واقع ہے۔ کسی نے کبھی گرجائوں یا پادریوں کے دفتر کو میلی آنکھ سے دیکھا نہ کسی مسجد پر اعتراض کیا۔ گزشتہ ہفتے ہی ایک اور منظر دنیا نے دیکھا۔ العین میں واقع ایک گرجا کے ملازم‘ مغرب سے تھوڑی ہی دیر پہلے چرچ کے فرش پر قالینی صفیں آراستہ کر رہے تھے۔ چرچ میں دو سو مسلمانوں نے اس دن نماز مغرب ادا کی۔
اس رمضان کے دوران یو اے ای کی کابینہ نے ایک خصوصی منصوبہ’’قومی برداشت پروگرام‘‘ منظور کیا ہے اس سے پہلے ’’وزارت برداشت‘‘ بھی یو اے ای میں کام کر رہی ہے۔ ایک خاتون لبنیٰ بنت خالد القاسمی کے پاس اس وزارت کا قلم دان ہے۔ خاتون وزیر نے کابینہ کو بریف کرتے ہوئے بتایا کہ ’’قومی برداشت پروگرام‘‘ کی بنیاد سات ستونوں پر قائم ہو گی۔
1۔ اسلام
2۔ یو اے ای کا آئین
3۔شیخ زید کے فرامین اور اخلاقیات
4۔ بین الاقوامی معاہدے
5۔ آثار قدیمہ اور تاریخ
6۔ انسانیت
7۔ مشترکہ اقدار
یہ ہیں وہ کاوشیں جو یو اے ای کی حکومت اپنے نوجوانوں کو انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے کے لیے کر رہی ہے۔ انہیں سکھایا جا رہا ہے کہ دوسرے مذاہب‘ دوسری اقوام اور دوسری ثقافتوں کے ساتھ کس طرح مل جل کر رہنا ہے۔ کسی سے مذہب‘ رنگ‘ نسل کی بنیاد پر امتیاز برتنا ہے نہ نفرت پالنی ہے۔حکومت اس سلسلے میںایک ’’ہفتہ برداشت‘‘ بھی منعقد کرے گی۔ ایک ’’برداشت مرکز‘‘ قائم کیا جائے گا۔ ان پروگراموں میں خاندان کی بنیادی اکائی سے لے کر مرکزی حکومت تک‘ سارے سٹیک ہولڈرز کو حصہ دار بنایا جائے گا۔’’کونسل برائے برداشت‘‘ ایک اور شعبہ ہو گا جس کا کام ان ماہرین کا انتخاب ہو گا جو قومی ہم آہنگی اور رواداری کے لیے پالیسیاں بنائیں‘ مشورے دیں اور نئے تصورات پیش کر کے حکومت کی پشتی بانی کریں۔
اب ہم پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ تھرپارکر کے ایک گائوں کی ایک ہندو فیملی نے تھانے میں ایف آئی آر کٹوائی ہے کہ ان کی سولہ سالہ لڑکی کو اغوا کر لیا گیااور اسی دن اس کی شادی اس سے دو گنا عمر کے ایک شخص سے کر دی گئی۔ دوسری طرف لڑکی سے نکاح کرنے والے شخص نے بھی عدالت 
سے مدد مانگی ہے۔ اس کا بیان ہے کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے اس سے شادی کی ہے۔
لڑکی نے شادی مرضی سے کی یا نہیں‘ اور مذہب خوشی سے تبدیل کیا یا طاقت سے کرایا گیا‘ یہ متنازعہ ہے۔ مگر اس تنازعہ سے قطع نظر‘ ایک قانونی پہلو دلچسپ ہے اور قابل غور بھی! وکیل بھگوان داس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپریل 2014ء میں سندھ اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا جس کا نام ’’سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ
(Restraint)
ایکٹ 2013ء‘‘ ہے۔ اس قانون کی رو سے اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کی شادی کی رجسٹریشن ایک ایسا جرم ہے جس کی ضمانت نہیں ہو سکتی اور اس میں ملوث اور مددگار افراد کو تین سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہندو لڑکی کی عمر کیا ہے؟ پرائمری سکول کے سرٹیفکیٹ پر‘ جس کا عکس میڈیا نے چھاپا ہے‘ لڑکی کی تاریخ پیدائش14جولائی2001ء ہے۔ اس حساب سے اس کی عمر سولہ سال بنتی ہے۔ لڑکی کے بہنوئی کا کہنا ہے کہ اٹھارہ سال کی تو مشکل سے اس کی بیوی ہے جو لڑکی کی بڑی بہن ہے۔ شادی کے رجسٹر پر دولہا کا سال پیدائش1980ء درج کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی عمر 37سال ہے۔ دولہا کے قومی شناختی کارڈ کانمبر بھی درج کیا گیا ہے۔ تاہم لڑکی کی عمر ’’اندازاً 18سال لکھی گئی ہے۔ تاریخ پیدائش کا اندراج کیا گیا ہے نہ قومی شناختی کارڈ کے نمبر کا۔قبولیتِ اسلام کی جو سند جاری کی گئی ہے اس پر بھی لڑکی کی عمر ’’اندازاً 18سال‘‘ درج کی گئی ہے۔
لڑکی کے اہل خانہ کا بیان ہے کہ گائوں میں ان کے (یعنی ہندو برادری کے) صرف چار گھر ہیں۔ جن خاندانوں کا گائوں پر غلبہ ہے انہوں نے ’’کہلوایا‘‘ ہے کہ یہ لوگ گائوں چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں!
معاملے کو مذہبی عصبیت کا رنگ دینے کے بجائے غور اس پر کرنا چاہیے کہ اگر عمر اٹھارہ برس ہے تو اس کا ثبوت کہاں ہے؟ جب کہ خاندان کے پاس پرائمری سکول سرٹیفکیٹ ہے جس پر اصل تاریخ پیدائش دیکھی جا سکتی ہے!
کبھی کبھی ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ کراچی کو ایک سازش کے تحت اجاڑا گیا تاکہ دبئی ترقی کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خود ساختہ تاریخوں کے اندراجات کی مدد سے مذہب تبدیل کرانا اور شادی کرانا بھی دوسرے ملکوں کی سازش ہے؟ نہیں! خدا کے بندو! سازش کسی نے نہیں کی! ہم جو کھیتی آج کاٹ رہے ہیں وہ اس عدم برداشت کے بیج کی پیداوار ہے جو ہم ستر سال سے اس دھرتی پر بو رہے ہیں! ہم دوسرے کا مذہب نہیں برداشت کر سکتے۔
دوسروں کا مسلک برا لگتا ہے۔ دوسرے کی نسل نہیں برداشت کر سکتے‘ دوسرے کی زبان ہمیں کھلتی ہے! اس پر تو ہم مسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ یوم پاکستان پر دبئی کی تاریخ ساز عمارت ’’برج خلیفہ‘‘ پاکستانی پرچم کے رنگوں میں نہا رہی تھی مگر یہ سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ اسی یو اے ای میں دو سو قومیں رہ رہی ہیں۔ وہاں کوئی ایسا واقعہ نہیں پیش آتا کہ لڑکی اسلام قبول کرے اور اس کے فوراً بعد اس کی شادی 37سالہ ’’لڑکے‘‘ سے ہو جائے اور شادی کے رجسٹر پر تاریخ پیدائش کا اندراج ہو نہ قومی شناختی کارڈ کا!
حیرت ہے‘ ابھی تک ابوظہبی کی مسجد کا نام محمد بن زید مسجد سے ’’مریم امِّ عیسیٰ‘‘ رکھنے پر ہمارے ملک میں کوئی احتجاجی جلوس نہیں نکلا! کہیں ہماری ملی غیرت سو تو نہیں گئی؟

Sunday, June 18, 2017

کیا ہم ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار دیکھ رہے ہیں؟


عرب بہار آئی‘ عربوں کو اجاڑ کر خزاں کا تسلط قائم کر کے واپس چلی گئی۔ لیبیا اجڑ گیا۔ مصر کی تیس سالہ آمریت ختم ہوئی مگر آج وہاں فوجی ڈکٹیٹر بیٹھا ہے۔ بشارالاسد کی حکومت دمشق تک محدود ہے۔
کیا ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار دکھائی دے رہے ہیں؟ کیا اس بہار کے نتیجہ میں ہمیں اصل جمہوریت ہاتھ آئے گی یا وہی جمہوریت جاری رہے گی جس میں دو تین خانوادے اپنی باریاں لیتے ہیں؟
ویسے مسلم دنیا کا بخت عجیب ہے! کہنے کو وسط ایشیائی ریاستوں میں بھی جمہوریت ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں۔ صدر کے مقابلے میں کسی ماتحت کو کھڑا بھی کیا جاتا ہے مگر عشروں پر عشرے گزرتے ہیں‘ حکمران وہی رہتا ہے۔ 
پاکستان کی جمہوریت مصر‘ شام‘ ازبکستان اور قازقستان کی جمہوریت سے کتنی مختلف ہے؟ کیا کبھی ایسا وقت آئے گا جب برطانیہ اور امریکہ کی طرح ہماری پارٹیوں کی قیادت مسلسل تبدیل ہو گی؟ پیپلزپارٹی کی تشکیل کو نصف صدی ہورہی ہے۔ ایک ہی خاندان اس پارٹی پر مسلط ہے۔ باپ کے بعد بیٹی‘ بیٹی کے بعد بیٹی کا شوہر‘ شوہر اب اپنے بیٹے کو تیار کررہا ہے! پنجاب میں تین عشروں سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے کہ ایک ہی خاندان تخت پر متمکن ہے۔ مسلم لیگ نون میں نون سے مراد نوازشریف ہے۔ یعنی پارٹی کا نام ہی گواہی دے رہا ہے کہ یہ ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ ازبک جمہوریت! قازق جمہوریت! مصری جمہوریت! شامی جمہوریت اور پاکستانی جمہوریت!
تیس سال کے عرصہ میں‘ سرکار کے ہر شعبے میں نقب لگائی جا چکی ہے۔ وفاق سے لے کر صوبوں تک ہر جگہ وفاداروں کا ایک سلسلہ ہے جو وزارتوں‘ محکموں‘ شعبوں‘ کارپوریشنوں پر چھایا ہوا ہے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی تھے مگر نوکر شاہی رائے ونڈ میں دست بستہ کھڑی تھی۔ میڈیا نے بتایا تھا کہ وہاں ’’زائرین‘‘ کے لیے قناتیں لگیں تھیں اور تنبو نصب تھے!!
یہ عمران خان کا جنون ہے کہ ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار نمودار ہوئے ہیں۔ کہاں وہ وقت کہ حکومتِ وقت نے عدالتِ عظمیٰ پر دھاوا بول دیا تھا اور کہاں یہ وقت کہ وقت کا وزیراعظم‘ تفتیشی کمیٹی کے سامنے پیش ہورہا ہے! یہ تغیر معمولی تغیر نہیں!
تو کیا ہم ان خانوادوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر پشاور تک‘ جو خانوادے سیاسی جماعتوں پر مسلط ہیں‘ وہ شاہی خاندان کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیا قوم خاندانوں کے اس اتحاد کو شکست دے پائے گی؟
میڈیا کا ایک بھاری بھرکم گروہ برسرِاقتدار خانوادے کی حمایت میں سرگرم عمل ہے۔ کوئی دختر نیک اختر کا نام جانشین کے طور پر تجویز کرتا ہے‘ کوئی برادر خورد کا!    ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
ان میں سے کوئی بھولے سے بھی یہ نہیں تجویز کرتا کہ پارٹیوں کی قیادت تبدیل ہونی چاہیے۔
مگر ایک سفر تاریخ کا بھی ہے! پارٹیوں کی طرح خانوادوں کی بھی طبعی عمر ہوتی ہے۔ کیا عجب پارٹی پر حکمران ایک خاندان اپنی قیادت کی طبعی عمر پوری کرنے کو ہو! کیا عجب بخت یاوری کرے اور قوم کو ایک اور قیادت نصیب ہو جائے!
عمران خان کا یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ جب تک ایک خاندان اقتدار میں ہے‘ ادارے اُسی کے لیے سرِگرم کار رہیں گے۔ نوکر شاہی کی اولین ترجیح اپنی بقا ہوتی ہے۔ پنجاب میں شاید ہی بیوروکریسی کا کوئی ایسا رکن ہو جو شاہی خاندان کے مفاد کے خلاف کچھ کر سکے یا کچھ کرسکنے کا سوچے۔ ایسے میں اگر عمران خان پارٹی میں ان سیاستدانوں کو لارہا ہے جو انتخابات جیت سکتے ہیں تو اُس کے ذہن میں منصوبہ بندی یہی ہے کہ ایک بار‘ اس خانوادے سے تو نجات حاصل کی جائے جو عشروں سے حکومتوں پر اور اداروں پر قابض ہے۔ بجا کہ جو سیاست دان نیک نام نہیں‘ ان کے ورود سے پارٹی کے جوشیلے اور نوجوان کارکن خوش نہیں‘ مگر عام طور پر‘ حکومت کا سربراہ دیانت دار ہو تو وہ دیانت نیچے ضرور سرایت کرتی ہے۔ کابینہ کے اجلاس مسلسل ہوں اور ایک ایک وزیر کی کارکردگی پر سربراہِ حکومت کی کڑی نظر ہو تو بدعنوانی پنپ نہیں سکتی۔
اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ ان کے وزیروں کی کارکردگی کیا ہے؟ اور عوام کے ساتھ اور سائلین کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے؟ اس کالم نگار کو ایک وزارت میں کئی بار جا کربراہ راست مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ وزیر صاحب ہفتہ میں ایک بار صرف ایک بار۔ دفتر تشریف لاتے ہیں اور اس ایک دن کا دن دہاڑے کھلم کھلا اعلان کیا جاتا ہے۔ پوری وزارت لسانی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔ جنہوں نے کام کرانا ہے وہ اس لسانی حوالے ہی سے سفارش ڈھونڈتے ہیں۔ کوئی قاعدہ ہے نہ قانون! کوئی سسٹم ہے نہ ضابطے! یہ صرف ایک وزارت کا احوال ہے۔ وزیراعظم کسی وزارت میں کبھی آئے ہی نہیں! وزرا کی کارکردگی چیک کرنے کا کوئی نظام نہیں! کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے ہونے کا تصور تک ناپید ہے۔ وزیراعظم نے آج تک یہی نہیں سوچا کہ جن ضرورت مندوں کو وفاقی وزارتوں سے شکایات ہیں‘ ان سے آگاہ کیسے رہیں اور ان کی داد رسی کا کیا بندوبست ہو! ایک وزیر اگر کسی ضرورت مند کا کام نہیں کرتا‘ یا کسی کا حق اسے نہیں دیا جاتا تو وزیر کے بعد کوئی دروازہ نہیں جو ضرورت مند کھٹکھٹا سکے۔ اب یہی ہے کہ وہ عدالتوں کے چکر لگائے اور سالہا سال انصاف کی طلب میں گزر جائیں! 
اسی کرۂ ارض پر ایسے ایسے ملک ہیں جہاں وزیر کے دفتر میں موصول ہونے والی شکایات‘ وزیر سے پہلے میڈیا کو پڑھائی جاتی ہیں۔ میڈیا ان شکایات کی تشہیر کرتا ہے۔ وزیر میڈیا کو بھی جواب دیتا ہے اور حکومت کے سربراہ کو بھی!! مگر جہاں یہ خبر عام ہو کہ حکومت کا سربراہ خود فائل پڑھتا ہے نہ اس پر کچھ لکھتا ہے‘ سارا نظامِ حکومت کارندوں کی وساطت سے چل رہا ہے‘ وہاں وزرا کی کارکردگی کو کون پوچھے گا!
سیاست اور شے ہے۔ کاروبار حکومت اور شے! ہمارے ہاں سیاست دان جب حکومت کا سربراہ بنتا ہے‘ تو سارا وقت سیاست پر صرف کرتا ہے۔ سیاست کا مفہوم ہمارے ہاں جوڑ توڑ ہے۔ یہی وہ سیاست ہے جس کا دعویٰ آصف زرداری صاحب فخر سے کیا کرتے ہیں! جوڑ توڑ! مک مکا! مخالفین کو رام کرنا! ہنس کر‘ دولت سے یا رعب ڈال کر! پہلا اور آخری مقصد اقتدار کی طوالت ہے اور حکمرانی کی بقا! اس کے لیے خزانے کا منہ کھول دیا جاتا ہے۔ مناصب بانٹے جاتے ہیں! عہدے تقسیم ہوتے ہیں! اہلیت کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ ہر جگہ ’’اپنے بندے‘‘ براجمان کیے جاتے ہیں۔ برادری معیار بنتی ہے۔ علاقہ کسوٹی بن جاتا ہے۔ جن کا حق ہوتا ہے وہ گلیوں میں گرد اڑاتے جوتے چٹخاتے ہیں‘ جو اہل نہیں ہوتے وہ خانوادے کی قربت کے سبب مسندوں پر بیٹھ جاتے ہیں! تھانیداروں کی تعیناتیوں کے فیصلے صاحبزادہ کرتا ہے۔ میڈیا سیل دختر نیک اختر چلاتی ہے! فنڈز کے حصول کے لیے عوامی نمائندے پسرِ نسبتی کو سلام کرتے ہیں! وزرا ہفتوں اپنے دفاتر میں نہیں جاتے‘ عدالتِ عظمیٰ کے باہر یا جے آئی ٹی کے دروازے پر میلہ لگاتے ہیں! یہ ہے پاکستانی جمہوریت!
’’پنجاب سپیڈ‘‘ اور پنجاب ماڈل کا بہت شہرہ ہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ سو بچے جو لاہور میں اغوا ہوئے‘ ان کی تلاش کیا ہوتی‘ فائلیں ہی ٹھپ ہو گئی ہیں! حکومت وہ ہوتی ہے جو توازن برقرار رکھے اور ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ نظم و نسق اور امن و امان کی ضمانت دے۔ اگر صوبے کے دارالحکومت سے بچے سینکڑوں کی تعداد میں اغوا ہورہے ہوں اور پولیس خون کے آنسو روتے ماں باپ کی داد رسی نہیں کرتی تو خادم اعلیٰ کہلانے والے حکمران کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ مگر جواب کا تقاضا کون کرے گا؟ وہ تو اسمبلی ہی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وزارت داخلہ کا قلم دان اپنی تحویل میں ہے۔ کئی اقسام کی پولیس قومی خزانے سے تنخواہیں لے رہی ہے۔ ہزاروں گاڑیاں اس پولیس کے تصرف میں ہیں۔ مگر اغوا شدہ بچے نہیں برآمد ہورہے! جہاں پولیس خاندانوں کی حفاظت پر مامور ہوگی‘ وہاں پولیس کی کارکردگی کا معیار کیا ہوگا!
کیا ایسی مطلق العنان بادشاہی ہمیشہ رہے گی؟ کیا عشروں پر عشرے اسی طور گزرتے رہیں گے    ؎
تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم
یونہی دن گزارے چلے جائیں گے؟
پھر فیض یاد آتے ہیں    ؎
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
کیا  ہم ’’پاکستان بہار‘‘ کے آثار دیکھ رہے ہیں؟

Saturday, June 17, 2017

پڑھے لکھے گنّوار


سوٹڈ بوٹڈ عمائدین کا خواتین کو کبھی ٹریکٹر ٹرالی اور کبھی ڈمپر کہنے سے اور جے آئی ٹی کو قصائی کی دکان سے تشبیہہ دینے سے کم از کم ایک بات ضرور واضح ہو گئی ہے کہ گنّوار پن صرف اس طبقے کی میراث نہیں جسے یہ حضرات نچلا طبقہ کہتے ہیں۔ اب جانگلی زبان صرف وہ افراد نہیں استعمال کرتے جنہوں نے چپل پر کھلے پائنچوں والی شلوار پہنی ہو اور گرمیوں میں بھی گلے میں رنگین مفلر ڈالا ہوا ہو جس کے دونوں سرے مختلف سمتوں میں لہرا رہے ہوتے ہیں۔
میرؔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک بیل گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں یہی ذریعۂ آمدو رفت تھا۔ بیل گاڑی میں اور بھی مسافر تھے۔ شاعر نے سارا راستہ کسی سے بات نہ کی کہ عامیانہ لہجے سے زبان نہ متاثر ہو۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ہمارے امرا، ٹریکٹر ٹرالی، ڈمپر اور قصائی کی دکان جیسے الفاظ جن کی زبان پر اکثر و بیشتر آتے ہیں، اس بیل گاڑی میں ہوتے تو میرؔ کی کیا حالت ہوتی؟
شمالی ہندوستان کے شہروں میں بچوں کو تہذیب و تربیت کے لیے رقص و سرودوالی عورتوں کے سپرد کیا جاتا تھا۔ شرفا گالی بھی دیتے تھے تو حد ادب کے اندر! فیروز دہلوی نے اپنے مضمون ’’دلی اور دلی والے، چند تہذیبی مرقعے‘‘ میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ ہر ماہ حکیم اجمل خان صاحب بعد نمازِ عشاء اپنے مخصوص احباب کے ساتھ ایک ایسی محفل ضرور منعقد کرتے جس میں احباب بے تکلفی کے ساتھ ہنستے، قہقہے لگاتے۔ دلی کے محلہ سوئی گراں میں ان دنوں ایک زر دوز عمو جان تھے جو کپڑوں کے ساتھ ساتھ گالیوں میں بھی زر دوزی کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے اپنی مخصوص محفل میں انہیں بلوایا اور کہا ’’عمو جان! ہم چاہتے ہیں کہ آپ کوئی ایسی گالی سنائو جس میں کوئی فحش اور بے ہودہ لفظ نہ ہو! ہر گالی پر ایک روپیہ انعام ملے گا!‘‘عمو جان کچھ دیر خاموش رہے پھر تیزی سے اٹھے۔ الٹے قدموں دیوان خانے کے دروازے تک پہنچے، جھک کر تین بار سلام کیا پھر کہا۔ ’’عرض کرتا ہوں حکیم صاحب! قبلہ! حضور! میں آپ کا داماد!‘‘ اتنا کہہ کر جوتی پہن یہ جا وہ جا! محفل پر سکتہ طاری ہو گیا۔ سب حکیم صاحب کا منہ دیکھنے لگے۔ اگلے لمحے حکیم صاحب مسکرائے ’’ہاں بھئی! گالی ہے! مہذب گالی! عمو جان کو لے کر آئو!‘‘ ملازم دوڑا مگر مرصع گالی دینے والا زر دوز واپس نہ آیا۔ اس زمانے میں آنکھ میں حیا ہوتی تھی! گالی حکیم صاحب کی فرمائش پر دی تھی مگر واپس آنا مناسب نہ سمجھا۔
تہذیب کے اندر رہ کر مزاح پیدا کرنے، طنز کرنے اور چوٹ کرنے کے لیے علم بھی درکار ہے۔ زکاوت بھی اور ذہانت بھی۔ اکبر کے عہد میں بڑے بڑے نابغے اور علم و فضل کے پیکر موجود تھے۔ ان کی آپس میں نوک جھونک بھی ہوتی تھی۔ مشہور شاعر عرفیؔ ابوالفضل کے گھر ملاقات کے لیے گیا۔ ان دنوں ابوالفضل کے بھائی فیضی نے کلامِ پاک کی تفسیر اس طرح لکھی تھی کہ کوئی حرف نقطے والا اس میں نہ آیا تھا۔ عرفی پہنچا تو ابوالفضل قلم دانتوں میں دابے سوچ میں غرق تھا۔ سبب پوچھا۔ ابوالفضل نے کہا بھائی صاحب کی تفسیر کا دیباچہ اُسی صنعت میں(یعنی نقطوں کے بغیر) لکھ رہا ہوں۔ والد صاحب کا نام لکھنا ہے۔ چاہتا ہوں نام بھی آ جائے اور نقطہ بھی نہ ڈالنا پڑے۔ فیضی اور ابوالفضل کے والد کا نام مبارک تھا۔ عرفی نے فوراً کہا، اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ جو آپ کا اپنا لہجہ ہے اس میں ’’ممارک‘‘ لکھ دیجیے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں مبارک کو گنواروں کا طبقہ ممارک کہتا تھا۔
ایک بار فیضی علیل تھا۔ عرفی مزاج پرسی کے لیے گیا۔ فیضی کو کتوں کا شوق تھا۔ چند پِلّے پھر رہے تھے۔ عرفی نے پوچھا ’’مخدوم زادوں کے نام کیا کیا ہیں؟‘‘ فیضی نے جوابی چوٹ کی کہ ’’بہ اسم عرفی‘‘ یعنی عام، معمولی نام ہیں۔ عرفیؔ کہاں ہار ماننے والا تھا۔ کہنے لگا مبارک باشد! اشارہ فیضی کے والد کی طرف تھا۔
گنوار ہونے کے لیے لکڑ ہارا، تیلی یا چمار ہونا ضروری نہیں۔ یہ بھی لازم نہیں کہ وہ خانہ بدوش یا بنجارہ ہو! ایک دہقان بھی مہذب ہو سکتا ہے اور ایک اعلیٰ نسب شہری بھی گنوار پن کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ اپنے اردگرد دیکھیے، سفید، کاٹن کے کھڑ کھڑاتے لباسوں میں ملبوس، یا نکٹائی لگائے ہوئے کئی گنواروں سے آپ کا سابقہ پڑے گا۔ وفاقی وزیر نے جس زبان کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ہماری معاشرتی پستی کی صرف ایک علامت ہے۔ ورنہ معاملہ صرف زبان تک محدود نہیں۔ آپ سپرسٹور کے کائونٹر پر کھڑے ادائیگی کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔آپ کی باری آتی ہے۔آپ کائونٹر والے کو رقم دے رہے ہیں۔ اتنے میں پیچھے سے ایک ہاتھ بڑھتا ہے اور رقم کائونٹر پر رکھ کر کائونٹر والے سے مخاطب ہوتا ہے، یہ گنوارپن ہے۔ آپ پارکنگ میں، خالی جگہ پر اپنی گاڑی لگانے لگے ہیں۔ پیچھے سے زُوں کرتی ایک کار آتی ہے اور آپ کا راستہ کاٹتی خالی جگہ پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ بھی گنوار پن ہے۔ آپ ہوٹل میں داخل ہوئے ہیں۔پیچھے آنے والے کے لیے دروازہ کھول کر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ گزرتے ہوئے شکریہ ادا کرنا تو درکنار، آپ کی طرف دیکھتا بھی نہیں، جیسے آپ اس کے ملازم ہیں اور آپ نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ یہ شخص بھی گنوارہے خواہ مسٹر ہے یا علامہ۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اگر وہ ایک کروڑ کی گاڑی سے اترا ہے اور ایک لاکھ روپے کا ڈیزائنر سوٹ زیبِ تن کر رکھا ہے۔ آپ کسی صاحب کے ہاں جاتے ہیں وہ آپ کو دیوان خانے(ڈرائنگ روم) میں لے آتے ہیں۔ ابھی آپ کھڑے ہی ہیں کہ وہ بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ بھائی صاحب بھی پکے گنوار ہیں۔ آپ سے ایک صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ شام پانچ بجے آپ کے ہاں قدم رنجہ فرمائیں گے۔ آپ پانچ بجے سے انتظار کر رہے ہیں۔ وہ آتے ہی نہیں یا بہت تاخیر سے آتے ہیں۔ آپ کو مطلع بھی نہیں کرتے۔ یہ بھی گنوار ہیں۔ قدریں الٹ پلٹ ہو گئی ہیں۔ کل جو سیاہ تھا آج سفید ہو گیا ہے۔ والد اور والدہ کے آنے پر یا کسی بزرگ کی تشریف آوری پر جو عورت یا مرد نشست سے اٹھ کر کھڑا نہیں ہو جاتا، کیا آپ اسے مہذب کہیں گے؟ وہ وقت بھی تھا جب باپ کے جوتے سیدھے کرنے کے لیے اولاد میں مسابقت ہوتی تھی اور گلی میں چلتے وقت باپ یا بڑے بھائی سے آگے ہو کر چلنا بدتہذیبی سمجھی جاتی تھی۔
تہذیب اور گنوار پن کا اندازہ لگانا ہوتو شادی بیاہ کی دعوتوں کو غور سے دیکھیے۔ گنوارپن کا آغاز اس کوشش سے ہوتا ہے کہ جہاں کھانا لگے گا، اس کے قریب ہی نشست ملے تا کہ حملہ کرنے میں تاخیر نہ ہو۔ اس کے بعد غور سے دیکھتے جائیے۔ ہو سکے تو اس منظر کو ویڈیو میں محفوظ کر لیجیے اور بعد میں کاغذ قلم لے کر غور سے دیکھیے اور مہذب اور گنوار افراد کی فہرست مرتب کیجیے۔ قطار میں کھڑے ہو کر کون بار بار آگے ہو کر دیکھ رہا ہے؟ پلیٹ لینے کا کیا اسلوب ہے؟صبر کی رمق موجود ہے یا سخت بے تابی کا عالم ہے؟ قطار توڑنے والے اور کھانے کی پراتوں پر ہلہ بولنے والوں کی بہتات ہو گی۔ پھر یہ نوٹ کیجیے کہ کھانا کتنا ڈالا جا رہا ہے۔آپ دیکھیں گے کہ اکثر حضرات کبابوں اور بوٹیوں سے پلیٹ بھر لیتے ہیں اور پلائو یا بریانی کا پلیٹ میں مینار کھڑا کر لیتے ہیں۔ پھر انہیں تناول کرتا دیکھیے۔ جیسے یہ ان کی فانی زندگی کا آخری کھانا ہی تو ہے۔ پھر مشروبات کے لیے سرگرمی، دوڑ اور بوتل قابو کرنے کی حرکات دیکھیے۔ گائوں سے تو کوئی بھی نہیں آیا ہوا۔ سب بظاہر تعلیم یافتہ اور سٹیٹس رکھنے والے معززین ہیں، بات وہی ہے جو پہلے ہو چکی ہے۔ تعلیم اور لباس کا تہذیب اور گنوارپن سے کیا تعلق! تعلیم اور شے ہے، تربیت اور شے۔
وسط ایشیا میں ایسی ضیافتوں میں شریک ہونے کے مواقع ملے جن میں تین تین ہزار مہمان بھی تھے۔ سب بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ ایک پلیٹ میں دو افراد کو بھی پلائو پیش کیا جاتا ہے جو آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں کھانا رکھا جاتا ہے تو مہمان کھانا نکالنے کا آغاز کرتا ہے۔ مہمان کے لیے گھر میں پلائو پکے تو خاندان کا معمر ترین فرد آغاز کرتا ہے اور سب کو ڈال کر دیتا ہے۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے دعا مانگی جاتی ہے۔
دی روڈ ٹو مکہ کے مشہور مصنف علامہ محمد اسد جو آسٹریا کے یہودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، فلسطین میں ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ یہ گزشتہ صدی کے اوائل کا قصہ ہے۔ گاڑی ایک سٹیشن پر رکی۔ ان کے سامنے بیٹھا ہوا بدو اترا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں روٹی تھی۔ اس نے روٹی کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا اور ایک حصہ اسد کو پیش کیا۔ ایک یورپی کے لیے یہ انوکھا واقعہ تھا۔ انہوں نے لینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو بدوبولا، میں بھی مسافر ہوں اور آپ بھی۔ یہ پہلی کھڑکی تھی جو اسد کے دل میں اسلام کی طرف کھلی۔ اس اعرابی کا لباس دیہاتی وضع قطع کا تھا، لہجہ بھی شہری نہیں تھا۔ کیا وہ مہذب تھا؟ یا گنوار؟ اس سوال کا جواب اپنے دل سے پوچھیے!

Wednesday, June 14, 2017

احسان؟ کون سا احسان؟


امیرالمومنین عمر فاروقؓ اور امیرالمومنین علی مرتضیؓ عدالتوں میں پیش ہوتے 
رہے۔ کیا کبھی انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ایسا کر کے امت پر احسان کر رہے ہیں؟
خاتون وزیر نے کہا کہ وزیراعظم پیش ہو کر تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ فراق گورکھپوری یاد آگیا   ؎
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مسئلۂِ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
ایک گروہ ہے مفاد اٹھانے والوں کا…
 Beneficiaries
 کا‘ جنہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے کہ وزیراعظم پیش ہو کر قوم پر احسان کر رہے ہیں! نہیں‘ایسا کر کے وزیراعظم اپنے آپ پر احسان کر رہے ہیں۔ تاریخ انہیں سنہری لفظوں سے یاد کرے گی کہ عدالت میں پیش ہو کر ملک کی سیاسی تاریخ کو ارتقا کی طرف لے گئے۔ ہم پختگی 
 Maturity)
 (کا سفر طے کر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب سیاسی حکومت کے تختے الٹے جاتے تھے۔ ایک وقت یہ ہے کہ حکومت کا سربراہ عدالت کے سامنے پیش ہورہا ہے۔ تمام مہذب‘ ترقی یافتہ‘ جمہوری ملکوں میں ایسا ہوتا ہے۔
نہیں‘محترمہ وزیر صاحبہ! ادب کے ساتھ عرض ہے کہ تاریخ تو کب کی رقم ہو چکی۔ یہ زید بن ثابت کی عدالت تھی جس میں امیرالمومنین حضرت عمرؓ مدعاعلیہ کے طور پر پیش ہوئے۔ وقت کا حکمران عدالت میں داخل ہوا تو جج زید بن ثابت احتراماً کھڑے ہو گئے۔’’یہ پہلی زیادتی ہے جو تم دوسرے فریق کے ساتھ کر رہے ہو‘‘! امیرالمومنین ناراض ہوئے۔
ستر سال تک قاضی شریح امت کے جھگڑوں میں فیصلے صادر کرتے رہے۔ کیا کسی کو یاد ہے امیرالمومنین عمر فاروقؓ نے شریح کو جج کیوں مقرر کیا تھا؟ امیرالمومنین ایک شخص سے گھوڑا خریدنے کی بات چیت کررہے تھے۔ گھوڑے کو ٹیسٹ کرنے کے لیے آپ اس پر سوار ہوئے‘ گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور ٹانگ متاثر ہوگئی۔ اس شخص نے گھوڑا واپس لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ اب خریدنا پڑے گا۔ بات بڑھ گئی۔ گھوڑے کے مالک نے کہا کہ شریح سے فیصلہ کراتے ہیں۔ شریح نے دونوں کا موقف سنا اور کہا کہ امیرالمومنین! گھوڑا جس حالت میں آپ نے لیا تھا‘ اسی حالت میں واپس کیجئے۔ امیرالمومنین نے فیصلہ قبول کیا اور شریح کو مسلمانوں کا قاضی مقرر کر دیا۔
زرہ امیرالمومنین علی مرتضیٰؓ کی تھی مگر یہودی کے قبضے میں تھی۔ یہودی کا دعویٰ تھا کہ یہ اس کی اپنی ہے۔ عدالت میں پیش ہوئے۔ یہودی نے جھوٹے گواہ پیش کئے۔ حسنؓ اور حسینؓ کی گواہی قاضی نے تسلیم نہ کی اس لیے کہ وہ مدعی کے صاحبزادے تھے۔ امیرالمومنین علی مرتضیٰؓ کے مقام سے کون نا آشنا تھا! مگر مسلمانوں کے قاضی نے فیصلہ یہودیوں کے حق میں کیا۔ یہ اور بات کہ اس نظر آنے والے انصاف سے یہودی اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے تسلیم کیا کہ ہاں‘زرہ خلیفہ ہی کی ہے اور مسلمان بھی ہوگیا۔
’’اسرار و رموز‘‘ میں علامہ اقبال نے ایک حکایت نظم کی ہے۔ ہاں‘ وہی علامہ اقبال جس کی فارسی شاعری ایران سے لے کر تاجکستان تک پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے۔ مگر چراغ تلے اندھیرا ہے۔ یوں بھی جب انتخابات جیتنے کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں اور پڑھے لکھے لوگوں کو اس معاشرے میں سیکنڈ کلاس شہری سمجھا جائے گا تو کون بے وقوف ہے جو علم حاصل کرے گا! اب اقبال کی زبانی یہ واقعہ سنیے:
بُود معماری ز اقلیم خجند
در فنِ تعمیر نامِ اُو بلند
خجند کے علاقے میں (اب تاجکستان میں ہے۔ روسیوں نے 1936ء میں اس کا نام لینن آباد رکھ دیا۔ 1991ء میں دوبارہ اصل نام پڑا) ایک معمار تھا جو اپنے فن میں شہرۂ آفاق تھا۔
ساخت آن صنعت گرِ فرہاد زاد
مسجدی از حکمِ سلطان مراد
بادشاہِ وقت مراد تھا۔ اس کے حکم پر اس باکمال معمار نے ایک مسجد تعمیر کی
خوش نیامد شاہ را تعمیر اُو
خشمگین گردید از تقصیر اُو
بادشاہ کو اس کی تعمیر پسند نہ آئی۔ اس کی غلطی سے وہ غضب ناک ہو گیا۔
آتشِ سوزندہ از چشمش چکید
دست آن بیچارہ از خنجر برید
بادشاہ کی آنکھوں سے جلا دینے والی آگ برسنے لگی اور اس بے چارے کا ہاتھ خنجر سے کاٹ دیا۔
جوئی خون از ساعدِ معمار رفت
پیش قاضی ناتوان وزار رفت
معمار کی کلائی سے خون کی ندی پھوٹ پڑی۔ وہ مجبور و بے کس ہو کر قاضی کے پاس گیا۔
آن ہنر مندی کہ دستش سنگ سفت
داستانِ جورِ سلطان بازگفت
اس ہنر مند معمار نے کہ جس کے ہاتھ نے پتھر پروئے تھے‘ بادشاہ کے ظلم کی داستان کہی۔
گفت ای پیغامِ حق گفتارِ تو
حفظ آئین محمدؐ کارِ تو
اس نے قاضی سے کہا کہ آپ کی بات خدا کا پیغام ہے اور آپ کا فرض ہے کہ محمدؐ کے آئین کی حفاظت کریں۔
قاضی عادل بدندان خستہ لب
کرد شہ را در حضور خود طلب
انصاف پسند قاضی نے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبایا اور بادشاہ کو اپنے حضور طلب کیا
رنگ شہ از ہیبت قرآن پرید
پیش قاضی چون خطا کاران رسید
قرآن کی ہیبت سے بادشاہ کا رنگ اڑ گیا۔ وہ مجرموں کی طرح قاضی کے حضور پیش ہوا۔
از خجالت دیدہ بر پا دوختہ
عارضِ اُو لالہ ہا اندوختہ
ندامت سے اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں جیسے پائوں کے ساتھ سل ہی گئی 
ہوں۔ شرم سے اس کے رخسار لالہ گوں ہورہے تھے
یک طرف فریادیٔ دعویٰ گری
یک طرف شاہنشہِ گردوں فری
ایک طرف مدعی جو فریادی تھا اور دوسری طرف جاہ و جلال والا شہنشاہ!
گفت شہ از کردہ خجلت بردہ ام
اعتراف از جرمِ خود آوردہ ام
بادشاہ نے کہا مجھے اپنے کیے پر ندامت ہے۔میں اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہوں۔
گفت قاضی فی القصاص آمد حیات
زندگی گیرد باین قانون ثبات
مگر قاضی نے کہا کہ زندگی تو قصاص میں ہے۔ حیات اسی قانون سے قائم و دائم ہے۔ (قاضی کا اشارہ اس آیت مبارکہ کی طرف تھا کہ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔)
چوں مراد این آیۂ محکم شنید
دست خویش از آستین بیرون کشید
جب شہنشاہ مراد نے یہ آیت مبارکہ سنی تو اپنا ہاتھ آستین سے باہر نکال کر پیش کردیا۔
مدعی را تابِ خاموشی نماند
آیۂ بالعدل والا حسان خواند
دعویٰ کرنے والا معمار اس پر چپ نہ رہ سکا‘ اس نے وہ آیت پڑھی جس میں عدل و احسان کا ذکر ہے۔
گفت از بہر خدا بخشید مش
از برائی مصطفی بخشید مش
میں خدا کے لیے اور محمد مصطفیؐ کی خاطر معاف کرتا ہوں۔
یافت موری برسلیمانی ظفر
سطوتِ آئینِ پیغمبر نگر
ایک چیونٹی نے سلیمان ؑ پر فتح پالی۔ پیغمبر کے آئین کی شان و شوکت تو دیکھو۔
پیشِ قرآن بندہ و مولا یکی ست
بوریا و مسندِ دیبا یکی ست
قرآن کے سامنے غلام اور مالک برابر ہیں اور بوریا اور ریشمی مسند میں کچھ فرق نہیں۔
رہا بار بار یہ پانی بلوناکہ صرف ایک خاندان کا احتساب کیوں؟ تو پانامہ پیپرز میں نام شریفوں کا ہے اور احتساب رعایا کا نہیں‘ حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ پانچ سال آصف زرداری برسراقتدار تھے۔ مسلم لیگ نون نے کیوں نہ ان کے جرائم کے خلاف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دعویٰ تھا کہ پیٹ پھاڑ کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت نکالیں گے۔ کیوں نہ نکالی؟ احتساب سب کا ہونا چاہیے مگر حکمرانوں کا پہلے اور رعایا کا بعد میں! یہ نکتہ پہلے بھی پیش کیا تھا کہ بڑھیا نے جب امیرالمومنین سے کرتے کا حساب مانگا تو آنجنابؓ نے جواباً یہ نہیں فرمایا کہ پہلے بڑھیا حساب دے۔ سرتسلیم خم کر کے اپنا حساب دیا!
فارسی والوں نے کیا زبردست محاورہ ایجاد کیا ہے۔ آن را کہ حساب پاک است‘ ازمحاسبہ چہ باک؟ جس کا حساب کتاب درست ہے‘ اسے احتساب سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ آخر کہیں نہ کہیں تو حساب ہونا ہے!   ؎
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے کچھ اپنی جزا لے جائیں گے

Tuesday, June 13, 2017

ممیاتی‘ سرہلاتی بھیڑیں

بھیڑیں یہاں ہیں اور چرواہا سات سمندر پار!
آتا ہے تو بھیڑیں اس کے گرد اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ وہ انہیں سبز چرا گاہوں کے خواب دکھاتا ہے۔ بھیڑیوں کے خلاف تقریریں کرتا ہے۔ دلکشن‘ لاجواب‘ موثر‘ وجد آفریں تقریریں! بھیڑیں اس کی تقریریں سنتی ہیں۔ ممیاتی ہیں۔ نعرے لگاتی ہیں۔ مال پڑتا ہے۔ دھمال ڈالتی ہیں۔
’’میں بھیڑیوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ جن بھیڑوں کو بھیڑیوں نے ہلاک کیا تھا‘ ان کا قصاص لوں گا۔ قصاص لیے بغیر یہاں سے ایک انچ نہیں ہٹوں گا۔‘‘
بھیڑیں سنتی ہیں۔ ممیاتی ہیں‘ ممیاتے ممیاتے نعرہ لگاتی ہیں! چرواہے کے ہاتھ چومتی ہیں۔ گھٹنوں کو چھوتی ہیں۔ قدموں میں لوٹ پوٹ ہوتی ہیں۔
ایک دو ماہ گزرتے ہیں۔ چرواہا اس اثنا میں پوٹلیاں باندھتا ہے۔ سامان سے بھری ہوئی پوٹلیاں! تازہ گھاس کے گٹھے‘ سبز پتوں کے انبار! بھوسے کے ڈھیر! غلے سے بھری بوریاں! تازہ پھل! پھر ایک صبح وہ یہ ساری پوٹلیاں سر پہ رکھے‘ بغل میں دبائے‘ ہاتھوں میں پکڑے‘ اڑن کھٹولے پر بیٹھتا ہے۔ اڑ کر سات سمندر پار جا پہنچتا ہے جہاں اس کا اصل ٹھکانہ ہے! جہاں چراگاہیں شاداب ہیں‘ پانی مصفیّٰ ہے‘ آسمان شفاف نیلا ہے۔ جہاں بحرالکاہل کے بہشت آسا ساحل ہیں۔ جہاں اوقیانوس کے پانی خوبصورت زمینوں کو چومتے ہیں! جہاں بادل سنہری ہیں اور ممیاتی بھیڑیں جہاں کا تصور تک نہیں کرسکتیں!
بھیڑیں اکیلی رہ جاتی ہیں! چرواہے کے بغیر! ممیاتی ہیں! خاموشی سے دن گزارتی ہیں! اب وہ بھیڑیوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ بھیڑئیے جو چاہے سلوک کریں! چرواہا سات سمندر پار ہے۔ اسے بھیڑوں کی خبر ہے نہ پرواہ!
سال گزرتا ہے۔ ایک دن بھیڑوں کو معلوم ہوتا ہے کہ چرواہے کی آمد آمد ہے! وہ پھر ممیاتی‘ ایک دوسرے کے پیچھے چلتی‘ ناک کی سیدھ میں دوڑتی‘ وہاں جمع ہوتی ہیں جہاں اڑن کھٹولے نے اترنا ہے۔ چرواہا اترتا ہے۔ ممیاتی بھیڑیں استقبال کرتی ہیں۔ چرواہا پھر ایک دلدوز‘ اثر آفریں تقریر کرتا ہے۔ بھیڑیوں کو للکارتا ہے۔ پھر قصاص کا نعرہ لگاتا ہے۔ بھیڑیں نعرے کا جواب دیتی ہیں۔ ایک ماہ گزرتا ہے۔ چرواہا پھر سامان سے بھری پوٹلیاں اٹھائے اڑن کھٹولے پر بیٹھتا ہے اور سمندر پار جا اترتا ہے!
یہ تماشا ایک عرصہ سے لگا ہے! مگر چرواہے کا کمال ہے یا اس کی قسمت! کہ بھیڑیں اس سے کبھی نہیں پوچھتیں کہ تم کیسے چرواہے ہو؟ تم کہاں چلے جاتے ہو! کیوں جاتے ہو! یہیں رہ کر قصاص کا مطالبہ منواتے کیوں نہیں! تم جنہیں بھیڑئیے کہتے ہو‘ ان کے رحم و کرم پر ہمیں چھوڑ کر بھاگ کیوں جاتے ہو! ان پوٹلیوں میں کیا ہوتا ہے؟ کہاں سے لیتے ہو؟ کہیں یہ ہمارا چارہ ہی تو نہیں جو تم سمندر پار اکٹھا کر رہے ہو! کوئی بھیڑ یہ سوال پوچھنے کا نہیں سوچتی! چرواہے کی چاندی ہے۔ اس کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے!  وہ یہاں کے مزے بھی لوٹتا ہے‘ وہاں کے بھی! یہاں بھی نجات دہندہ کہلاتاہے‘ وہاں بھی دادِ عیش دیتا ہے! بھیڑیں ممیاتی ہیں! ممیانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتیں!
یہ بھیڑوں کے صرف ایک گلے کا تذکرہ نہیں! یہ ممیاتی‘ جگالی کرتی‘ سر جھکا کر ایک دوسرے کے پیچھے چلتی‘ بیس کروڑ بھیڑوں کی المناک داستان ہے! ان بھیڑوں کے اپنے اپنے گلے ہیں۔ اپنے اپنے باڑے ہیں۔ اور اپنے اپنے چرواہے! کوئی چرواہا لندن میں رہتا ہے۔ بھیڑیں یہاں سے اس کا سامان خورو نوش اور عیش و عشرت بھیجتی ہیں۔ چرواہا خوب موٹا تازہ ہورہا ہے۔ چہرے کی کھال وزن کی زیادتی سے لٹکنا شروع ہورہی ہے۔ یہ چرواہا ٹیلی فون پر تقریریں کرتا تھا تو سہمی‘ ممیاتی بھیڑیں فرشِ زمین پر بیٹھ کر اس کی تقریریں سنتی تھیں اور سر ہلاتی تھیں! چرواہا گالیاں دیتا تھا۔ گانے گاتا تھا۔ ڈانٹتا تھا! بھیڑیں مسلسل سر ہلاتی تھیں!
بھیڑوں کا ایک اور گلہ ہے جس کا  چرواہا وقفے وقفے سے دبئی جاتا ہے جہاں اس کے محلات اور خدام ہیں! بلکہ یوں کہیے کہ وہیں رہتا ہے۔ ہاں وقفے وقفے سے بھیڑوں کے پاس آتا ہے! ممیاتی بھیڑوں کو اکٹھا کرتا ہے۔ تقریریں جھاڑتا ہے۔ بھیڑیں خاموشی سے‘ سعادت مندی سے‘ فرماں برداری سے سر ہلاتی ہیں۔ پھر چرواہا واپس دبئی چلا جاتا ہے۔ بھیڑوں کے تتر بتر ہونے کی خبریں عام ہوتی ہیں۔ چرواہا‘ اپنے بیٹے کو یعنی چھوٹے چرواہے کو بھیجتا ہے۔ وہ بکھری ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنے کے لیے چیختا چلاتا ہے‘ انہیں سبز چراگاہوں کے خواب دکھاتا ہے۔ کچھ ممیا کر اس کی باتوں پر سر ہلاتی ہیں۔ کچھ تتر بتر ہونے والی بھیڑوں کے پیچھے چلتی جاتی ہیں۔ کسی اور گلے کی تلاش میں‘ کسی اور چرواہے کی تقریریں سننے اور سر ہلانے کے لیے!
یہ بیس کروڑ ممیاتی جگالی کرتی بھیڑیں صرف سیاسی چرواہوں کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بن رہیں‘ انہیں قسم قسم کے چرواہے الو بنانے میں مصروف ہیں! کچھ چرواہوں نے روحانیت کی کھالیں اوڑھی ہوتی ہیں! مستقبل میں کیا ہوگا؟ ساری روحانیت ان پیش گوئیوں پر کھڑی ہے ان روحانی چرواہوں کا ایک سائڈ بزنس روحانیت بھری کتابوں کی فروخت ہے! بس کتاب کے عنوان میں روحانیت کا لفظ آ جائے یا فقیر کا لفظ! پھر چاندی ہی چاندی ہے! بھیڑیں فقیر کے لفظ پر‘ روحانیت کے ذکر پر جان دیتی ہیں! نجات کا آسان طریقہ! ہینگ لگے نہ پھٹکری! اکل حلال کی قید نہ فرائض کی سرانجام دہی! ایک روحانی چرواہے نے تو برملا کہہ دیا کہ اس کا مرشد نماز سے بے نیاز تھا!
بھیڑوں کے ان گلوں کو اپنے پیچھے لگانے کے لیے کچھ چرواہوں نے ستارے دیکھنے کی‘ کچھ نے زائچے بنانے کی‘ کچھ نے دست شناسی کی چادریں اوڑھی ہوئی ہیں! بھیڑیں جوق در جوق ان کے گرد جمع ہوتی ہیں! ممیاتی ہیں! سر ہلاتی ہیں! کچھ جنات کے ماہر ہیں! بھیڑوں کی ذلت کی کوئی انتہا نہیں! بے آبرو ہوتی ہیں۔ ان کے جسموں پر لگی اون کتر دی جاتی ہے۔ ان کے بچوں کو یہ چرواہے جن نکالنے کے دوران اذیت دے دے کر مار ہی ڈالتے ہیں! ان بھیڑوں کی جمع شدہ پونجی پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ ان بھیڑوں کے بچوں کے سروں کو لوہے کی ٹوپیوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ بھیڑیں بڑی ہو جاتی ہیں۔ سر چھوٹے رہ جاتے ہیں! چرواہے ان چھوٹے سروں والی نیم پاگل بھیڑوں کو مقدس قرار دیتے ہیں! یہ سن کر مزید بھیڑیں اپنے بچوں کو لے کر آتی ہیں کہ ان کے سروں کو بھی لوہے کی ٹوپیوں میں جکڑو تاکہ یہ بھی بڑے ہو کر مقدس بنیں!
یہ بیس کروڑ بھیڑیں‘ دنیا کی عجیب و غریب بھیڑیں ہیں! یہ جس کو بھی تھری پیس سوٹ پہنے‘ ٹائی لگاتے دیکھتی ہیں تو سر! سر! کہنا شروع ہو جاتی ہیں اور خوب مرعوب ہوتی ہیں! کوئی(باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
 جھنڈے والی قبر دیکھتی ہیں تو ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو جاتی ہیں! کسی کو لمبا سبز چولا پہنے‘ گلے میں مالا ڈالے دیکھتی ہیں تو رکوع میں چلی جاتی ہیں! کوئی غیب کی خبریں بتانے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے گرد جمگھٹا لگالیتی ہیں۔ کسی کے ہاتھ چومتی ہیں‘ کسی کے پائوں چھوتی ہیں‘ کسی کے آگے سجدہ ریز ہو جاتی ہیں! کسی کو عمر بھر کی کمائی دے کر خود قلاش ہو جاتی ہیں!
ستر سال سے یہ بھیڑیں ان سیاسی‘ روحانی‘ مذہبی اور قسم قسم کے چرواہوں کے ہاتھوں بے وقوف بن رہی ہیں! کسی نے انہیں بھیڑیوں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کسی نے ان کی چراگاہوں کے اردگرد باڑ نہیں لگائی‘ کسی نے ان کے درختوں کی حفاظت نہیں کی! کسی نے ان کے بچوں کی فکر نہیں کی! ہر چرواہے نے انہیں محض خواب دکھائے۔ ان سے نعرے لگوائے۔ عملاً کچھ نہیں کیا۔ اور تو اور‘ بعض چرواہے بھیڑیوں کے ساتھ مل گئے اور انہیں بھیڑیں پیش کرتے رہے۔ کچھ نے بھیڑیں فروخت کردیں! حالت یہ ہے کہ اب چراگاہ سوکھ گئی ہے۔ پتے پیلے پڑ گئے ہیں۔ درخت ٹنڈ منڈ ہو گئے ہیں! دریا خشک ہورہے ہیں! بھیڑیوں کے غول چراگاہ کے اردگرد دندناتے پھر رہے ہیں! مگر کسی چرواہے کو بھیڑوں کی فکر نہیں!
آج کل پھر ایک چرواہا سمندر پار سے آیا ہوا ہے!

Sunday, June 11, 2017

بی بی تھریسامے کی کس مپرسی


برطانیہ میں الیکشن ہوئے۔ خاک الیکشن ہوئے۔ سچ پوچھیے تو 
ذرا مزہ نہیں آیا۔
انگریز بہادر ہندوستان میں وارد ہوا تو شروع شروع میں اس نے اپنے طور کوشش کی کہ گھل مل جائے۔ نوابوں کا طرزِ زندگی اسے یوں بھی خوب بھایا۔ چنانچہ بہت سے صاحب بہادروں نے انگرکھا اور پاجامہ پیش کیا۔ قالین بچھائی ‘گائو تکیے رکھے ۔ حقہ پینا شروع کیا اور تو اور‘ شادیاں بھی مقامی خاندانوں میں کیں۔ کچھ مورخ لکھتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی میں ہر تین انگریزوں میں سے ایک کی بیگم ہندوستانی تھی ۔ ایسے انگریزوں کے لیے ایک باقاعدہ اصطلاح وضع کی گئی۔ ’’وائٹ مغل‘‘ یعنی وہ برطانوی جو ہندوستانی بادشاہوں اور نوابوں کے رنگ میں رنگے گئے۔
یہ لارڈ ولز لے تھا جس نے آ کر اس رجحان کے آگے تکبر اور استعمار کا بند باندھا۔1797ء میں وہ ہندوستان کا گورنر جنرل بنا تو یہ ’’چونچلے‘‘ اسے پسند نہ آئے۔ اس کا اصول صاف اورواضح تھا:
حاکم حاکم ہے اور محکوم محکوم! کون سے ہندوستانی اور کیسی شادیاں! قالینوں‘ حقوں‘ انگرکھوں چوڑی دارپا جاموں‘ پان کی گلوریوں اور پازیب پہنے تھرکتے پیروں کا انگریزی تہذیب سے کیا تعلق! ولز لے نے اپنے قیام کے دوران نہ صرف ٹیپو سلطان کا ’’کانٹا‘‘ استعمار کے راستے سے نکال دیا بلکہ ایک ایسا رویہ ایسا ذہن اور ایسا مائنڈ سیٹ انگریزوں کے دل و دماغ میں راسخ کر دیا جس کے بعد دو تہذیبوں کا اختلاط ختم ہو گیا۔
لگے ہاتھوں یہاں روسی استعمار کا بھی اسی حوالے سے ذکرہو جائے۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں روسیوں نے وسط ایشیا کے شہروں پر یکے بعد دیگرے قبضہ کیا۔1865ء میں زار کی فوجیوں نے تاشقند پر حملہ کیا تو روسی آرتھوڈکس چرچ کا نمائندہ پادری‘ صلیب اٹھائے لشکر کی قیادت کر رہا تھا۔ لینن کا بالشویک انقلاب آیا تو وسط ایشیا کو آزادی کا خواب دکھایا گیا مگر سٹالن کے آنے تک استعمار جڑیں پکڑ چکا تھا۔ پھرروسیوں کو ان علاقوں میں بسانے کا پروگرام بنا۔
سوویت یونین 1991-92ء میں منہدم ہوا تو سفید فام باشندے تاشقند میں آبادی کا چالیس فیصد ہو چکے تھے مگر یہ وہ روسی نہیں تھے جو صرف وڈ کاپر گزارہ کریں۔ انہوں نے مقامی معاشرت کو بہت حد تک اپنا لیا تھا۔ان کے گھروں میں قالینوں کے فرش تھے اوریہ ازبکوں کی طرح پھل افراط سے کھانے لگے تھے۔ سوویت یونین ٹوٹا تو ان میں سے بہت سے روسی واپس چلے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے اپارٹمنٹوں میں قالینیں بچھائیں اور ان بے مثال پھلوں کی تلاش میں بازاروں میں نکلے جو وہ تاشقند بخارا اور ترمذ میں کھایا کرتے تھے۔ پھل تو خیر وہاں کیا ملتے‘ پرانے روسیوں کو ان کی قالین پسندی بھی بری لگی۔ چنانچہ بہت سے روسی وسط ایشیا واپس آ گئے۔ اس کالم نگار کو ایک بار ٹرین میں تاشقند سے بخارا تک سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ یہ بارہ گھنٹوں پر محیط تھا۔ سکینڈ کلاس ڈبے میں چھ افراد کی گنجائش تھی ایک ازبک خاندان ہم سفر تھا۔ تمام راستہ وہ انواع اقسام کے کھانے کھاتے رہے اور اس ہم سفر کو زبردستی شدید اصرار کے ساتھ‘ شریکِ طعام رکھا۔ قسم قسم کے خشک اور تازہ پھل ‘لذیذ نان‘ مرغِ بریاں‘ سوپ اور چائے کا دور تو چلتا ہی رہا کہ وہاں پانی پینے کا رواج نہیں۔ ٹرین میں انتظامیہ نے جگہ جگہ سماوار رکھے تھے جن سے چائے کے لیے گرم پانی لیا جاتا تھا۔ ایک اور سفر میں بخارا سے ٹرین پر تاشقند تک کا سفر کیا۔ پھربارہ گھنٹے! بیگم رفیقِ سفر تھیں ایک سفید فام ماسکو سے آیاہوا روسی جوڑا ساتھ تھا۔ ہماری ہی عمر کے ہوں گے۔ بارہ گھنٹوں میں حرام ہے جو انہوں نے ہم سے کوئی بات کی ہو یا آپس میں ہی بولے ہوں یا کچھ کھایا پیا ہو! آنکھیں تک نہ کھولیں کہ ہم ہی کچھ پیش کرسکتے!
لارڈ ولزلے کی بات ہو رہی تھی کیا عجب وہ نہ آتا تو برطانوی ہند کی صورت حال مختلف ہوتی! یوں بھی استعمار محکوموں کی معاشرت پر اثر انداز ہی ہوتا ہے۔ ان کی معاشرت سے خال خال کچھ اپناتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد شام‘ فلسطین اور اس پورے علاقے کو انگریزوں اور فرانسیسیوں نے آپس میں بانٹ لیا اور اس کا نام 
MANDATE
(انتداب) رکھا۔ پہلے بھی اس کالم نگار نے کہا ہے کہ اقبال کی ضربِ کلیم کا باب ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب‘‘ انٹرنیشنل افیئرز کے طلبہ کے لیے پڑھنا ضروری ہے۔ شام پر یورپ کے قبضہ کا ذکر خوب کیا ہے     ؎
فرنگیوں کو عطا خاکِ سوریا نے کیا
بنی عفت و غم خواری و کم آزاری
صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے
مے و قمار و ہجومِ زنانِ بازاری
انگریز دو اڑھائی سو سال ہم پر حکمران رہے۔ ہمیں کرکٹ دے گئے‘ آملیٹ بنانا سکھا دیا انگریزی کی گِٹ مِٹ بھی سونپ گئے۔ مگر افسوس! ہم سے کچھ نہ سیکھا۔ کچھ سیکھا ہوتا تو برطانیہ کا حالیہ الیکشن اتنا پھیکا ‘ اتنا بے رنگ اتنابور نہ ہوتا!
ہم سے انگریزوں نے کچھ سیکھا ہوتا تو بی بی تھریسامے کبھی اپنے پیروں پر خود کلہاڑی نہ مارتی اور آبیل مجھے مار کہہ کر الیکشن وقت سے پہلے نہ کراتی! یہاں دیکھ لیجیے‘ کون سی قیامت نہ اتری اور کون سا حشر نہ ٹوٹا۔ عدالت عالیہ کے دو منصفوں نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا ۔ تشبیہات ڈان اور مافیا تک پہنچ گئیں۔ خاندان کا خاندان لائن حاضر ہے مگر کیا مجال کہ تخت سے اترنے یا الیکشن پہلے کرانے کا خیال بھی آیا ہو! مستقل مزاجی ہو تو ایسی ہو! زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد! ڈان لیکس کا ڈول حکومت نے خود ڈولا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ پاناما کیس اور ڈان لیکس سے کچھ نہیں ہوتا۔ زمین تہہ و بالا بھی ہو جائے‘ کراچی گلگت میں جا بسے اور راکا پوشی گوادر کے ساحل سے چھلانگ لگا کر سمندر میں غائب ہو جائے تب بھی ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر نہ آئے! تھریسامے ہوتی تو پاناما لیکس کا نام سنتے ہی پائوں ڈگمگا جاتے اور ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر نہ لاتی تو میڈیا سے لے کر اپوزیشن تک اور عوام سے لے کر اس کی اپنی کابینہ تک سب درپے ہو جاتے!
یہ کیسا الیکشن تھا کہ الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں ووٹروں سے گاڑیاں بھر بھر کر پولنگ سٹیشنوں پر 
نہیں آئیں۔ اسلحہ کی نمائش تک نہ ہوئی۔ ہمارے ہاں ہر الیکشن پر اور کچھ نہیں تو چھ 
سات ہلاکتیں تو ہو ہی جاتی ہیں۔ پولنگ سٹیشنوں پر گولی چل جاتی ہے۔ گالیوں اور دھمکیوں کا تبادلہ تو عام ہے۔ کبھی کبھی کوئی ایم این اے یا ایم پی اے کسی سرکاری اہل کار کو تھپڑ بھی رسید کر جاتا ہے۔ برطانیہ میں ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ کیاڈرپوک اور بابو منشی قسم کے لوگ ہیں! پجارو کلچر تک نہیں نظر آتا۔ لکڑی کی طرح کھڑ کھڑاتا ‘ خالص کاٹن کا لباس پہنے‘ ہاتھ میں گولڈ لیف کی ڈبی پکڑے۔ انگلی میں انگوٹھی دکھاتے چوہدری ‘مہر ‘خان ‘ ملک اگلی پجارو سے اترتے اور پیچھے آنے والی گاڑیوں پر کلاشنکوف بردار محافظ!! انگریزوں کو مزہ آ جاتا ! سرداری‘چوہدراہٹ ‘ خان گیری نہ ہو تو ووٹ کون دیتا ہے بھئی! ووٹ اسے ملتا ہے جوتھانیدار تحصیل دار پٹواری کا تبادلہ ایک فون سے کرا دے‘ ایس پی اور ڈی سی او اپنی مرضی کا تعینات کرائے۔ اور ’’خونی انقلابی‘‘ لانیوالے اور حبیب جالب کے نغمے الاپنے والے وزیر اعلیٰ سے کہہ کر ناپسندیدہ افسر کو فوراً علاقے سے دور بھجوا دے!
پورے برطانیہ میں ایک بیلٹ بکس بھی کوئی نہ لے اڑا! بزدلی کی حد ہے! حیرت اس پر ہے کہ کیا یہی قوم ہے جس نے نیوزی لینڈ سے لے کر برٹش کولمبیا تک اور مصر سے لے کر جنوبی افریقہ تک حکومت کی اور جس کی ایمپائر پر سورج غروب نہ ہوتا تھا! اتنے ڈرپوک کہ ووٹ ڈالنے والے نہتے‘ عام شہریوں کے فیصلے ہر سر جھکا دیں! غضب خدا کا‘ کسی ایک پارٹی نے کسی ایک امیدوار نے دھاندلی کا رونا نہ رویا! حالانکہ یہ کامیاب ترین نسخہ ہے۔ ہم نے تو یہ میراسی سے سیکھا ہے۔ کاش ہم سے انگریز سیکھ لیتے۔ میراسی قمار بازی کر رہا تھا۔ جو کچھ پلے تھا‘ دائو پر لگاتا گیا اور ہارتا گیا۔ کچھ نہ بچا تو بیوی دائو پر لگا دی۔ بیوی نے غیرت دلائی‘ بے شرم ہار گئے تو یہ مجھے لے جائیں گے! میراسی نے پیلے دانت نکالے اور تسلی دی۔ نیک بخت ! میں ہار تسلیم کروں گا تو لے جائیں گے نا! میں تو مانوں گا ہی نہیں!! سو‘ ہم شکست تسلیم ہی نہیں کرتے! دھاندلی کچھ تو ہوتی بھی ہے اور عمر بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے !
پھر ستم بالائے ستم دیکھیے کہ لیبر پارٹی نے ٹوری پارٹی کے امیدوار توڑ کر اپنے ساتھ ملانے کی کوئی سعی نہ کی! ٹوری پارٹی نے بھی لیبر کے ارکان کو سبز باغ دکھا کر ورغلانے کی کوشش نہ کی! جوڑ توڑ‘ نہ ہارس ٹریڈنگ! تعجب ہے کہ پاکستانی یہاں سے اپنے اپنے فرقے کے مولوی اور پیر تو برطانیہ لے گئے‘ لوٹے لے کر نہ گئے ورنہ وہاں کی سیاست میں بھی لوٹے بہار دکھاتے اور راتوں رات وفاداریاں تبدیل ہوتیں!
اور نالائقی کی انتہا دیکھیے کہ پارٹیوں کے سربراہ تبدیل ہو جاتے ہیں! لیبر پارٹی ہی کو لیجیے‘ 1980ء سے لے کر اب تک دس سیاست دان اس پارٹی کی سربراہی کر چکے ہیں۔ یعنی اوسطاً ہر تین سال سات ماہ بعد پارٹی کا لیڈر تبدیل ہوتا رہا۔ یہی ’’عدم استحکام‘‘ ! جی ہاں! ’’عدم استحکام‘‘ کنزر ویٹو پارٹی کی قسمت میں رہا! 
1975ء میں بی بی مارگریٹ تھیچر پارٹی کی قائد منتخب ہوئیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بی بی عقل سے کام لیتی‘ اپنے بعد پارٹی اپنے بیٹے یا بیٹی کو یا بھائی کو سونپتی۔ مگر دامن جھاڑ کر رخصت ہوئی اور پلٹ کر نہ دیکھا! ایک کے بعد ایک سربراہ آتا گیا۔ پھر ہٹتا گیا۔ (باقی صفحہ13 پر ملاحظہ کریں)
اب یہ جو بی بی تھریسامے ہے یہ تھیچر کے بعد ساتویں سربراہ ہے! اس دوران جان میجر بھی بھگتا دیئے گئے اور ڈیوڈ کیمرون بھی ! فاعتبروا یا اولی الابصار! عبرت پکڑو اے آنکھوں والو! کاش ہم سے یہ سفید چمڑی والے کچھ تو سیکھتے! دیکھیے عشروں پر عشرے گزر رہے ہیں! دہائیوں پر دہائیاں بیت رہی ہیں! وہی نواز شریف پارٹی کے سربراہ ہیں! وہی بھٹو یعنی زرداری خاندان! وہی اسفند یار ولی‘ وہی مولانا فضل الرحمن! وہی چوہدری شجاعت الٰہی ‘ وہی الطاف حسین ‘ وہی عمران خان اور وہی چادر پوش افغان نواز اچکزئی ! اسے کہتے ہیں قیادت کا تسلسل! اسے کہتے ہیں استحکام! اسے کہتے ہیں مستقل مزاجی! ہائے بدقسمت تھریسامے! بیچاری کے دفاع کے لیے وہاں کوئی دانیال عزیز ہے نہ رانا ثناء اللہ ! نہ کوئی آصف کرمانی! نہ کوئی ایمبولینس بھیجنے والا ڈاکٹر فضل چوہدری!! کیا بے بسی ہے اور کس مپرسی کا عالم! اور یہ بھی دیکھ لیجیے گا کہ یہ بی بی جب وزارتِ عظمیٰ سے ہٹی تو اسے کوئی پوچھے گا ہی نہیں! برگر کنگ یا میکڈانلڈ کے سامنے قطار میں کھڑی ہو کر کھانا خریدے گی! بس میں عام پبلک کے ساتھ سفر کرے گی! مگر یہ انگریز شروع ہی سے نالائق اور کند ذہن ہیں! اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے مسلسل گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھنے والا کلائیو سراج الدولہ اور اس کے لشکریوں سے پالکی میں بیٹھنا تک نہ سیکھ سکا!!

 

powered by worldwanders.com