پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر خاندانی تسلط چھایا ہوا ہے۔ جب بھی اس
خاندانی تسلط پر اعتراض کیا جاتا ہے تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ آخر امریکہ میں بھی بش خاندان اور کینیڈی خاندان کئی پشتوں سے سیاست میں دخیل ہیں۔ اس سے زیادہ مغالطہ آمیز دلیل شاید ہی کوئی ہو۔ چلیے، یہ نہیں کہتے کہ یہ دلیل گمراہ کن ہے۔ شاید گمراہ کن کا لفظ سخت ہے۔ مگر نرم ترین الفاظ میں بھی اسے خلطِ مبحث ہی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر شریف خاندان، بھٹو خاندان، ولی خان خاندان اور مفتی محمود خاندان قابض ہیں۔ یہ قبضہ نسل درنسل چلا آ رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی پارٹی کی سربراہ بنی۔ پھر اسی راستے سے وہ وزیر اعظم بنیں۔ پھر ان کے شوہر پارٹی کے سربراہ بنے۔ اسی حوالے سے پانچ سال وہ ملک کے صدر رہے۔ اب پارٹی کے سفید سرسیاست دان صاحبزادے کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔ یہی اجارہ مسلم لیگ ن پر مسلط ہے۔ محمد خان جونیجو کو کہنی مار کر راستے سے ہٹا دینے کے بعد میاں محمد نواز شریف نے مسلم لیگ کی سربراہی سنبھالی اور اب اس سربراہی کو کم و بیش تین عشرے ہونے کو ہیں۔
پانامہ کا معاملہ جب سے پیش منظر پر چھایا ہے، اندازے یہی لگائے جا رہے ہیں کہ وزیر اعظم اقتدار اپنی بیٹی کو سونپیں گے۔ اب ایک خبر یہ دی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم ان کا بھائی ہو۔
اس منظر نامے کو جو حضرات بش خاندان اور کینیڈی خاندان کی سیاست سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔ ان پر حیرت ہوتی ہے۔
اگر امریکی سیاسی جماعتوں، ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی، کی صرف حالیہ تاریخ پر ہی ایک نظر ڈال لی جائے تو اس دلیل کی ’’وقعت‘‘ اظہرمن الشمس ہو جاتی ہے۔
پہلے ڈیموکریٹک پارٹی کو لیجیے۔ صرف گزشتہ تیس برسوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ وہ تیس برس ہیں جن کے دوران مسلم لیگ نون ایک شخص…صرف ایک شخص… یعنی فردِ واحد کی زیر صدارت چلی آ رہی ہے۔ ان تیس برسوں میں ڈیموکریٹک پارٹی نے چودہ سربراہ بھگتائے ہیں۔ جی ہاں چودہ! فاعتبروا یا اولی الابصار! عبرت پکڑو آنکھوں والو!
پھر یہ سربراہ بھی کلی اختیارات کا مالک نہیں ہوتا۔ پارٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک گورننگ باڈی ہے جسے ’’ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی‘‘ کہتے ہیں۔ ہر ریاست کی اپنی کمیٹی ہے۔ تمام پچاس ریاستوں میں سے دو سو منتخب ارکان اس مرکزی کمیٹی میں شامل ہیں۔ کمیٹی کا سربراہ، یعنی پارٹی کا سربراہ، ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ ہر چار سال بعد یہ کمیٹی اور اس کا سربراہ قومی اجتماع(نیشنل کنونشن) منعقد کرتے ہیں تا کہ امریکی صدارتی الیکشن کے لیے امیدوار نامزد کریں۔ عبرت ناک اطلاع ہمارے لیے یہ ہے کہ جب اس پارٹی کا نامزد امیدوار امریکہ کا صدر بن جاتا ہے تو وہ پارٹی کی لیڈر شپ نہیں سنبھالتا۔ پارٹی کا سربراہ کوئی اور ہوتا ہے اور جو بھی ہوتا ہے، وہ پارٹی کی سربراہی جاری رکھتا ہے۔
یہی صورتِ حال ری پبلکن پارٹی کی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں چودہ افراد اس پارٹی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ آج کل پندرھواں ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس پارٹی کی ایک سو اکسٹھ سالہ تاریخ میں صرف ایک شخص ایسا ہے جو پارٹی کا سربراہ رہا اور امریکہ کا صدر بھی بنا۔ لیکن یہاں یہ ذہن میں ضرور رکھیے کہ وہ شخص(جارج ایچ ڈبلیو بش یعنی سینئر بش) پارٹی کا سربراہ 1973-74ء میں رہا۔ ایک سال کے بعد نیا سربراہ آ گیا۔ اس کے سولہ سال بعد پارٹی نے سینئر بش کو صدارتی الیکشن کے لیے نامزد کیا اور وہ الیکشن جیت کر امریکی صدر بنا۔ اس کا بیٹا(جونیئربش) 2001ء میں امریکی صدر منتخب ہوا اور 2009ء تک صدر رہا۔ ان آٹھ سالوں میں پارٹی کی سربراہی سے اس کا کچھ لینا دینا نہ تھا۔ ان نو سالوں میں نو مختلف سیاست دان پارٹی کے سربراہ رہے۔ ان نو سربراہوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کا تعلق ٹیکساس سے ہو جہاں سے بش تھا۔
اس صورتِ حال کو پاکستان کی خاندانی اجارہ داری سے تشبیہہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ کسی خاندان کا سیاست میں ہونا الگ بات ہے اور ایک خاص خاندان کا سیاسی جماعت پر سالہا سال تک، عشروں تک، مسلط ہونا بالکل مختلف حقیقت ہے۔ خواجہ آصف صاحب کا خاندان سیاست میں ہے۔ ان کے والد صاحب بھی سیاست میں سرگرم تھے۔ گوجرانوالہ کا دستگیر خاندان، مری کا خاقان عباسی خاندان، پشاور کا بلور خاندان، یہ سب خاندان سیاست میں کئی پشتوں سے دخیل ہیں۔ ان کا موازنہ کینیڈی خاندان یا بش خاندان سے ضرور کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کسی خاندان کا پارٹی پر تسلط نہیں۔ مگر شریف خاندان اور بھٹو(زرداری) خاندان کی پارٹی پر اجارہ داری کو باربار وزیر اعظم بننے کو، پھر اپنی بیٹی اور بھائی کو وزیر اعظم بنانے کی منصوبہ بندی کو بش یا کینیڈی خاندان کی سیاست سے تشبیہہ دینا تاریخ کو اور حقیقتِ حال کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
ہمارے ہاں جمہوریت ضرور ہے مگر اپاہج ہے۔ لولی لنگڑی ہے۔ ان پارٹیوں کے اندر جو انتخابات ہوتے ہیں، ان کی حقیقت سب جانتے ہیں۔ کیا ان انتخابات کو ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر ہونے والے ان انتخابات سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے جو ہر ریاست میں منعقد ہوتے ہیں اور جینوئن ہوتے ہیں؟
امریکہ میں ریاست(یعنی صوبے) کے امور، گورنر کا بیٹا نہیں چلاتا۔ امریکی صدر کی بیٹی وزراء کو ہدایات نہیں دیتی اگر امریکی صدر بیمار پڑ جائے تو غیر ملکی سفیر بیٹی کی خدمت میں نہیں حاضر ہوتے۔ امریکی پارلیمنٹ کا سپیکر، کنارے پر نہیں چلتا تا کہ سرخ قالین پر صرف صدر کی بیٹی چل سکے۔ آپ پاکستانی جمہوریت کو ضرور جمہوریت
کہیے مگر خدا کے لیے انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑئیے اس آمرانہ اور خاندانی
جمہوریت کا جواز امریکہ کے نظام میں نہ تلاش فرمائیے! ع
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
امریکی صدر کلنٹن جب کٹہرے میں کھڑا ہوا تھا تو باہر اس کے حواری ڈائس نصب کر کے عدالت پر اور سیاسی حریفوں پر تابڑ توڑ حملے نہیں کرتے تھے۔ امریکی صدر کی جائیداد اور کارخانے امریکہ سے باہر نہیں۔ وہ سال میں پندرہ چکر لندن کے نہیں لگاتا۔برطانوی وزیر اعظم نے اپنی بیوی کے لیے سیکنڈ ہینڈ کار خریدی، اس کا ٹیکس ڈاکخانے کی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر خود جمع کرایا۔ سرکاری گھر خالی کرنا تھا تو سامان خود پیک کیا۔ وزیر اعظم کی بیوی بغیر ٹکٹ ٹرین میں سفر کرتی پائی گئی تو اسے عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ حافظ سعید صاحب جیسا کٹر مسلمان اپنے حکمرانوں کے عیاشانہ طرزِ رہائش کے خلاف عدالت میں جاتا ہے تو اسلامی طرزِ رہائش کی مثال دیتے وقت برطانوی وزیر اعظم کے سرکاری گھر کا ذکر کرتا ہے۔
ہمارے دانشوروں کی زندگیاں لکھتے اور بولتے گزر جاتی ہیں مگر وہ سیاسی جماعتوں پر خاندانی اجارہ داری کے خلاف لکھتے ہیں نہ بات کرتے ہیں۔ کوئی دوسرا اگر نشان دہی کرتا ہے کہ پارٹی پر اجارہ داری ہے اور اس اجارہ داری کو یوں استعمال کیا جا رہا ہے کہ ملک کا اقتدار بھی اسی خاندان کے پاس رہے تو ایک اضطراب برپا ہو جاتا ہے۔ پھر جواز ڈھونڈے جاتے ہیں اور امریکہ کے سیاسی خاندانوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
کبھی کہا جاتا ہے کہ زمینی حقائق دیکھے جانے چاہئیں۔ آئیے! زمینی حقائق بھی دیکھ لیتے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ نون پر ایک خاندان کا قبضہ ہے اور منصوبہ بندی ہو رہی ہے کہ اقتدار اسی خاندان کے قبضے میں رہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بلاول کو وزیر اعظم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان پر قبل از تاریخ کا سرداری نظام مسلط ہے اور سترسال میں صرف ایک وزیر اعلیٰ ایسا گزرا ہے جو سردار نہیں تھا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ شریف خاندان اور زرداری خاندان کی دولت ملک سے باہر ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے صوبے کو دبئی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
تو پھر کیا یہ زمینی حقیقتیں ہمارے پائوں کی زنجیر بن جائیں؟ کیا یہ حقیقتیں قوم پر مسلسل مسلط رہیں؟ کیا ان خاندانوں سے نجات حاصل کرنا، زمینی حقائق کی توہین قرار دیا جائے؟ تو کیا یہاں کسی لی کسی مہاتیر کے آنے کی توقع ہی نہ کی جائے کیوں کہ زمینی حقائق ساتھ نہیں دے رہے؟
چلیے! ہم ہی ہار مان لیتے ہیں۔ قوم کو زمینی حقائق بدلنے کا سوچنا ہی نہیں چاہیے۔ چلیے! راضی برضا ہو جاتے ہیں کہ ہم پر میاں نواز شریف اور بھٹو کے نواسے پوتے پڑپوتے لکڑ پوتے حکومت کریں اور کرتے ہی رہیں۔ میرؔ یاد آ رہے ہیں ؎
کھنچیں میرؔ تجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں
No comments:
Post a Comment