ریاست؟ کون سی ریاست؟
تو کیا ہمارے حکمرانوں کا رتبہ (میرے منہ میں خاک) امیر المومنینؓ سے بھی بڑا ہے؟ فرات کے کنارے کتا مر جائے تو ذمہ دار امیر المومنینؓ ہوں گے۔ اور دن دہاڑے پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر ایک ڈرائیور نما جانور کے ہاتھوں ٹرالی کے نیچے آ کر کچلا جائے تو ذمہ دار کوئی نہ ہو، نہیں، ایسا نہیں ہو گا! ایسا نہیں ہو سکتا! پوچھا جائے گا پروفیسر کہاں کچلا گیا؟ جواب دیا جائے گا راولپنڈی کی ایک شاہراہ پر۔ پھر ذمہ دار کا تعین کیا جائے گا۔ صوبے کے حکمران کو جواب دینا ہو گا۔ کیا اُس نے کبھی معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر ہفتے، ہر ماہ، ہر سال ٹرالیوں کی وجہ سے کتنے بچے یتیم ہو رہے ہیں؟ کتنی عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں؟ کتنی مائیں جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہی ہیں! شاہراہوں پر، سڑکوں پر، کچے راستوں پر، ٹرالیاں قتل عام کر رہی ہیں۔ صوبے کے حکمران نے اس ضمن میں کیا کیا ہے؟ کتنے قوانین اِن وحشی قاتلوں کو روکنے کے لیے بنائے؟ کتنوں کو سزا ملی؟ مستقبل کے لیے کیا روک تھام کی گئی؟ کابینہ کے وزرا آج غائب ہیں اور نوٹس، سوئی سے لے کر ہاتھی تک۔۔۔۔ ہر شے کا آں جناب خود لینے کے شائق ہیں، تو یہ وزرا کل تو ہر حال میں غائب ہوں...