اشاعتیں

جون, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ریاست؟ کون سی ریاست؟

تو کیا ہمارے حکمرانوں کا رتبہ (میرے منہ میں خاک) امیر المومنینؓ سے بھی بڑا ہے؟ فرات کے کنارے کتا مر جائے تو ذمہ دار امیر المومنینؓ ہوں گے۔ اور دن دہاڑے پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر ایک ڈرائیور نما جانور کے ہاتھوں ٹرالی کے نیچے آ کر کچلا جائے تو ذمہ دار کوئی نہ ہو، نہیں، ایسا نہیں ہو گا! ایسا نہیں ہو سکتا! پوچھا جائے گا پروفیسر کہاں کچلا گیا؟ جواب دیا جائے گا راولپنڈی کی ایک شاہراہ پر۔ پھر ذمہ دار کا تعین کیا جائے گا۔ صوبے کے حکمران کو جواب دینا ہو گا۔ کیا اُس نے کبھی معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر ہفتے، ہر ماہ، ہر سال ٹرالیوں کی وجہ سے کتنے بچے یتیم ہو رہے ہیں؟ کتنی عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں؟ کتنی مائیں جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہی ہیں! شاہراہوں پر، سڑکوں پر، کچے راستوں پر، ٹرالیاں قتل عام کر رہی ہیں۔ صوبے کے حکمران نے اس ضمن میں کیا کیا ہے؟ کتنے قوانین اِن وحشی قاتلوں کو روکنے کے لیے بنائے؟ کتنوں کو سزا ملی؟ مستقبل کے لیے کیا روک تھام کی گئی؟ کابینہ کے وزرا آج غائب ہیں اور نوٹس، سوئی سے لے کر ہاتھی تک۔۔۔۔ ہر شے کا آں جناب خود لینے کے شائق ہیں، تو یہ وزرا کل تو ہر حال میں غائب ہوں...

ایک بازار یہاں آخرِ شب لگتا ہے

وہی گلیاں تھیں جن میں امام مالکؒ برہنہ پا چلتے تھے۔ تین تہائی رات ایک طرف تھی اور ایک تہائی ایک طرف۔ سبز گنبد سے روشنی پھوٹتی تھی اور چہار دانگ پھیلتی تھی۔ یہی دنیا تھی مگر نہیں! ایک اور دنیا تھی! ہوا اور تھی۔ مٹی مختلف تھی۔ پاؤں کے نیچے زمین نہیں تھی۔ زائر ایک اور جہاں میں تھا۔ پھر ربِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کرم فرمایا۔ لفظوں کو حکم ہؤا کہ اس بے زبان گنہگار کے پاس جائیں۔ لفظ آتے گئے اور اپنی اپنی جگہ جُڑتے گئے:   مدینے کی ہوا ہے اور رخساروں پہ پانی کوئی ایسی لغت! جس میں سناؤں یہ کہانی یہاں مٹی میں کنکر لعل اور یاقوت کے سب درختوں پر یہاں سارے پرندے آسمانی اسی دہلیز پر بیٹھا رہے میرا بڑھاپا انہیں کوچوں میں گزرے میرے بچوں کی جوانی رہے میرا وطن اس شہر کے صدقے سلامت قیامت کے تلاطم میں وہ کشتی بادبانی مرے آبِ وضو سے بھیگتی ہے رات اظہارؔ مری آنکھوں سے کرتے ہیں ستارے دُرفشانی وطن قیامت کے تلاطم میں ہے! بادبان پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ کاش سمندر میں کوئی مشعلیں ہی پھندک دیتا کہ بادبان روشن ہو جاتے! یہ کشتی سیدھی چل سکتی! اٹھو! جن کی استطاعت ہے جاؤ! پہلے ایک...

سلامتی کا راستہ درمیانی راستہ ہے

دنیا ٹی وی پر جناب کامران شاہد نے اُس متنازع بل پر مباحثہ کرایا جو پنجاب اسمبلی نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے ماضی قریب میں پیش کیا ہے۔ دونوں طرف کے شرکاء نے بڑھ چڑھ کر جوہر دکھائے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بل کے حق میں جو ٹیم حصہ لے رہی تھی اس میں دو خواتین اور ایک صاحب شریک تھے جبکہ دوسری طرف تینوں کے تینوں شرکا مرد تھے۔ سب نے دلائل دیے، اپنے اپنے نکتہ نظر کا دفاع کیا۔ خوب رونق رہی! عورت اس ملک میں عرصہ سے زیرِ بحث ہے۔ نہیں معلوم، دوسرے مسلمان ملکوں میں کیا صورتِ احوال ہے۔ پنجاب اسمبلی کے بِل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ دونوں فریق پھر آمنے سامنے ہو گئے۔ الیکٹرانک میڈیا پر، اخبارات و رسائل میں، گھروں میں، تعلیمی اداروں میں، غرض ہر فورم میں دو مختلف اور متحارب نکتہ ہائے نظر سامنے آنے لگے۔  طے کچھ بھی نہیں ہو رہا، اس لیے کہ ایک تیسرا فریق بھی ہے اور وہ میدان سے غائب ہے، اُسے کوئی بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ تیسرا فریق وہ ہے جو دونوں فریقوں کو مکمل غلط نہیں کہتا، مکمل صحیح بھی نہیں قرار دیتا۔ دونوں کے دلائل میں وزن ہے اور دونوں ہی کے کچھ دلائل بے وقعت ہیں۔ سلامتی کا راستہ درمیانی ...

چاند سمجھے تھے جسے ابرکا ٹکڑا نکلا

ہماری زندگیوں میں نجومیوں، عاملوں، بابوں اور مختلف اقسام کی ’’روحانی‘‘ شخصیات کا بہت عمل دخل ہے۔ ان ’’روحانی‘‘ شخصیات کے کمالات کا زیادہ حصہ پیش گوئیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ کام ہم شعرا کے دواوین سے بھی لے سکتے ہیں۔ ایرانی دیوانِ حافظ سے فال نکالتے ہیں۔ آخر ہم دیوانِ غالب سے کیوں نہیں نکال سکتے! ہماری سیاسی تاریخ جو کچھ ہمارے ساتھ کر رہی ہے اور کیے جا رہی ہے، اس کے بارے میں غالب نے ایک پیش گوئی کی تھی۔ اس پیش گوئی کی حد درجہ صحت دیکھ کر کہنا ہی پڑتا ہے کہ  ع تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا! غالب کی پیش گوئی دیکھیے    ؎ چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں جنرل پرویز مشرف نے تختہ الٹا تو اس قوم نے مٹھائیاں بانٹیں۔ سب یہی سمجھے کہ جس نجات دہندہ کا انتظار تھا، آ پہنچا ہے۔ امیدیں آسمان کو چھونے لگیں۔ پہلے دو تین برس جرنیل نے کچھ اچھے کام بھی کیے یا کم از کم ڈول ڈالا۔ پہلی بار اس نے ہر سطح کی بھرتیاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے حوالے کیں یعنی اسمبلی کے ممبروں اور وزیروں سے نوکریوں کے پروانے چِھن گئے۔ پھر اہلِ س...

ہم اتنے بھی بُرے نہیں!

چلچلاتی دُھوپ تھی‘ اور کڑی دوپہر! مائیکل اور اس کے ساتھی کو کام کرتے کئی گھنٹے ہو گئے تھے۔ گھر کی پشت پر چھت کو جانے والی لوہے کی سیڑھی کئی ہفتوں سے اتری ہوئی تھی۔ اس کے کئی مسائل تھے جگہ جگہ ویلڈنگ کرنا تھی۔ نیچے سے زمین کے ساتھ جوڑنا تھی اور اوپر سے چھت کے ساتھ! فن تعمیر سے وابستہ کئی دوستوں نے مختلف کاریگروں کا بتایا۔ کوئی بھی نہ ہاتھ آیا۔ ایک نے تو اچھا خاصا سبق بھی پڑھا دیا۔ شکوہ کیا کہ تُم نے وعدہ کیا تھا۔ مگر نہ آئے‘ کہنے لگا صاحب! لیبر کا وعدہ ہوتا ہے نہ کوئی زبان! بس مجبوریاں ہی مجبوریاں ہیں! مائیکل نے کئی سال پہلے گھر آ کر کچھ کام کیا تھا۔ پرانے کاغذوں میں اس کا فون نمبر تلاش کیا۔ اس نے مہربانی کی اور صرف ایک بار وعدہ خلافی کرنے کے بعد‘ ایک صبح ضروری سامان اٹھائے پہنچ گیا۔ چلچلاتی دُھوپ تھی اور کڑی دوپہر! دونوں کو کام کرتے کئی گھنٹے ہو چلے تھے۔ درمیان میں برقی رو لوڈشیڈنگ کی نذر ہو جاتی اور انہیں انتظار کرنا پڑتا۔ سب گھر والے اپنے اپنے کمروں میں پناہ لیے سو رہے تھے! میں نے جام شیریں کے دو گلاس بنائے۔ ٹرے میں رکھے اور چاردیواری کے اندر‘ پانچ فٹ چوڑی راہداری میں چلتا‘ مائیک...

اُلجھ گئے ہیں ہمارے نصیب۔۔۔! کیا کہنا۔۔۔!

کہتے ہیں ایک صاحب نے کسی اسرائیلی سے پوچھا کہ اتنے پیچیدہ بارڈر پر تمہیں کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ زمین اسرائیل کی ہے یا عربوں کی؟ اس نے جواب دیا کہ جو زمین ہری بھری فصلوں سے ڈھکی ہوئی ہوگی وہ اسرائیل کے اندر ہو گی اور جو بنجر و ویران اور غیر کاشت شدہ ہوگی وہ اسرائیل سے باہر ہو گی! نہ جانے اس میں کتنی صداقت ہے۔ عرب اسرائیل سرحد پر جا کر جگہ جگہ کون پڑتال کرے گا مگر جو کچھ زاہد شنواری نے کہا ہے وہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے کی بات ہے۔ پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے زاہد شنواری نے کہا ہے کہ افغان سرحد پر پاکستان کی طرف سے ویزے کا اصرار غلط بات ہے۔ اس سے پاکستان کے اپنے قبائلیوں کا نقصان ہوگا۔ زاہدکی اس دلیل میں وزن ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں زراعت ہے نہ کوئی صنعت! لے دے کے مشرقی افغانستان کے ساتھ تجارت کا سہارا ہے۔ زاہد نے اعداد و شمار سے اپنا موقف واضح کرتے ہوئے بتایا کہ 2010ء میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم اڑھائی ارب ڈالر تھا جو گھٹ کر ڈیڑھ ارب رہ گیا ہے! چار عشرے ہو چکے ہیں بلکہ کچھ برس اوپر بھی جب پہلی بار خیبر ایجنسی سے لے کر وزیرستان تک کے قبائلی...

ہم سے زمانہ ہے سرگراں

کیا آپ کو معلوم ہے سیرا لیون کہاں ہے؟ آئس لینڈ کہاں ہے اور فجی اور چلی کہاں واقع ہیں؟ سیرا لیون برِّ اعظم افریقہ کے مشرقی کنارے پر ہے۔ یہ پاکستان سے آٹھ ہزار چھ سو اسی کلو میٹر دور ہے۔ فجی کے جزائر جنوبی بحر الکاہل میں ہیں۔ پاکستان اور فجی کا درمیانی فاصلہ بارہ ہزار سات سو کلو میٹر ہے۔ آئس لینڈ یورپ کے انتہائی شمال میں قطب شمالی کے پڑوس میں آباد ہے جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے‘ یہ برف کا دیار ہے۔ پاکستان سے چلیں تو چھ ہزار نو سو کلو میٹر سفر طے کر کے آئس لینڈ پہنچیںگے۔  رہا چِلّی تو یہ جنوبی امریکہ کے مغربی کنارے پر ایک لمبا‘ عمودی‘ سلاخ نما ملک ہے۔ یہاں ہسپانوی زبان کا راج ہے۔ پاکستان سے چِلّی پہنچنے کے لیے آپ کو بہت زیادہ نہیں‘ صرف سولہ ہزار ساڑھے تین سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوگا۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کی زبردست کامیابی ہے کہ ان سارے ملکوں سے ہمارے تعلقات خوشگوار ہیں۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ پاکستان کا چِلّی سے یا فجی سے یا آئس لینڈ سے یا سیرا لیون سے کوئی جھگڑا ہوا ہے۔ ہمارا ان ملکوں سے کوئی سرحدی تنازع ہے نہ اقتصادی تنازع۔ کوئی مذہبی ان بن ہے نہ نس...

قہقہہ

ویسے ایک بات ہے۔ لطف آ گیا۔  (قہقہہ) یار! جو ٹیکنیکل قسم کی گالیاں تم نے دیں، جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔ بس سماں باندھ دیا! ان تعلیم یافتہ عورتوں کا دماغ درست کرنا ضروری ہے۔ ورنہ مزید سرپر چڑھیں گی۔ میں نے تو صاف کہہ دیا کہ تم شوہر بننے کی کوشش کر رہی ہو!ہاں! یار! یہ تو تم درست کہہ رے ہو! طالبان کی حکومت آئی تو ان عورتوں کا کم از کم افغانستان میں بندوبست ہو گیا تھا۔ ملازمتیں چھُڑوا دی گئیں، گھروں میں بٹھا دیا گیا، بہت شور مچا کہ کچھ عورتیں مجبوراً ملازمت کرتی ہیں تا کہ گھر کا خرچ چلتا رہے مگر آفرین ہے طالبان پر! ایک نہ سنی ،جو چاہتے تھے کر دکھایا! کام تو یہاں بھی شروع ہو گیا تھا! لڑکیوں کے کئی سکول جلا ڈالے گئے۔ مگر افسوس! یہ سلسلہ رُک گیا۔ یہ سلسلہ جاری رہتا تو آج یہ ہمارے منہ نہ لگتیں! فساد کی جڑ عورتوں کی تعلیم ہی ہے اسی برصغیر میں ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ عورتوں کو لکھنا نہ سکھاؤ! ورنہ یہ پڑوسیوں کو خطوط لکھیں گی! کیا وژن تھا! سبحان اللہ! جب سے ہم نے بزرگوں کی حکم عدولی کرنا شروع کی ہے، نتائج بھگت رہے ہیں۔ عورتیں پڑھ لکھ کر بحث کرنے لگی ہیں! مردوں کے سامنے ا...

میجر علی جواد شہید

بچُھو نے دریا پار کرنا تھا۔ کوئی صورت نظر ہی نہیں آرہی تھی۔ بالآخر کچھوے کا دل پسیجا۔ اس نے کہا میری پیٹھ پر بیٹھ جائو، میں دوسرے کنارے جا رہا ہوں، پہنچا دوںگا۔ بچھو پیٹھ پر بیٹھ گیا۔ دریا کے عین وسط میں پہنچے تو زہر بھرا ڈنک کچھوے کی پیٹھ پر مارا۔ کچھوا بلبلا اٹھا: ’’یہ کیا کر رہے ہو۔ بھئی، کیا یہ میرے احسان کا بدلہ ہے؟‘‘ بچھو نے جواب دیا: ’’کیا کروں عادت سے مجبور ہوں‘‘۔ یہ ایک مشہور حکایت ہے۔ اسی سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ      ؎ نیشِ عقرب نہ از رہِ کین است مقتضائی طبیعتش این است بچھو دشمنی کی وجہ سے ڈنک نہیں مارتا، یہ اس کی طبیعت، اس کے مزاج، اس کی طینت کا تقاضا ہے۔ ہم نے افغانوں کو مشکل وقت میں پیٹھ پرسوار کیا۔ مہاجر تھے، آج مالک ہیں۔ لبرٹی لاہور سے لے کر بارہ کہو تک، ترنول سے لے کر چکوال تک، اٹک سے لے کر کراچی تک، ہر جگہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہ دنیا میں  اپنی قسم کے انوکھے مہاجر ہیں۔ کہاں کی ہجرت! وہ تو مقامی لوگوں کے، انصار کے گلے پکڑ رہے ہیں۔ جائدادیں، کاروبار، اعلیٰ تعلیم، جعلی شناختی کارڈ بہت کچھ ہتھیا لیا۔ واپس جانے کا نام نہیں لے رہے۔ کچھ کہیں...

خیابانِ احمد ندیم قاسمی

اُن دنوں اسلام آباد کے محلّے آئی ایٹ میں قیام تھا۔ غالباً یہ دارالحکومت کا واحد سیکٹر ہے جس کا ایک کنارہ دو وسیع سیرگاہوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک کچنار پارک چونکہ بڑی شاہراہ سے نظر آتا ہے، اس لیے ترقیاتی ادارے کے شاطر سربراہوں نے اس پر زیادہ توجہ دی، مگر صبح یا شام کی سیر کے لیے لوگ زیادہ ترجیح اُس دوسری سیرگاہ کو دیتے تھے جو محلّے کے شمالی کنارے پر، فیڈرل ایجوکیشن بورڈ کے عین سامنے واقع تھا۔اب ان دونوں سیرگاہوں کے دھڑ،کندھے اور بازو کاٹ کر بہت بڑا انٹرچینج تعمیرکیا گیا ہے۔ یوں سیرگاہیں لنڈوری ہو گئی ہیں! کوشش ہوتی تھی کہ شام کو باقاعدگی سے نہیں تو کم از کم نیم باقاعدگی سے سیر ہوتی رہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود بھی یہیں سیرکرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ شفقت سے پیش آتے رہے اور بغیر جتائے، بلکہ بغیر بتائے، احسانات بھی کرتے رہے۔ ایک دو بار ان کا ہم قدم ہوکر ٹریک کے دو تین چکر لگائے تاکہ گفتگو کا شرف حاصل ہو۔ وہ تو ہوا مگر ڈاکٹر صاحب بہت تیز چلتے تھے۔ اس میں غالباً ان کی طویل قامتی کا قصور بھی تھا۔ تیسرے چکر میں میرا سانس بُری طرح پھول چکا ہوتا تھا۔ یہیں افسر شاہی کے ریٹائرڈ مظاہر بھی اک...

کسی مرد کو بلاؤ

پہلی خوف ناک شکست بھارت نے ہمیں1971ء میں دی۔ غلطیاں ہماری اپنی تھیں، فائدہ اس نے اٹھایا۔ نوے ہزار پاکستانی پنجرے میں بندکر لیے۔ تاریخ نے کبھی یہ تعداد مسلمان قیدیوں کی دیکھی ہی نہ تھی۔ ہم نے خوب خوب واویلا کیا۔ کبھی امریکہ بحری بیڑے کی دھمکیاں دیں، کبھی چین کا ڈراوا دیا۔ مگر ٹائیگر نیازی نے ایک چوہے کی طرح شکست کی دستاویز پر دستخط کیے اور نسل خراب کرنے کی دھمکیاں دینے والے شیر نے ریوالور سکھ جرنیل کی خدمت میں پیش کر دیا۔ دوسری خوف ناک شکست ہمیں مودی دے رہا ہے۔ یہ شکست امورِ خارجہ کے میدان میں ہے۔ شکست نہیں، شکست در شکست در شکست ہے۔ مودی ملک پر ملک فتح کر رہا ہے اور کیے جا رہا ہے۔ مانا وہ مسلمانوںکا قاتل ہے، مگر ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ وہ بھارت کے لیے کس قدر اورکیا کچھ کر رہا ہے۔ اس کا ذاتی مفاد کوئی نہیں۔ بزنس ہے نہ بیرون ملک جائیدادیں! دوروں پر جاتا ہے تو اپنے کسی بھائی کو اپنا دم چھلہ نہیں بناتا، نہ ہی اس کی اولاد کسی سیٹھ کے نجی طیارے میں اس کے پیچھے پیچھے دوروں میں ساتھ ہوتی ہے! 2015ء کے دوران مودی 26 ملکوں میں گیا۔ روس سے اس نے جنگی طیاروں کے لیے معاہدہ کیا۔ تیل، کوئلہ، زراعت ...

کشکول

سنہری بالوں والی جسٹین گریننگ   (Justine Greening)  دیکھنے میں ایک عام برطانوی خاتونِ خانہ لگتی ہے۔ مگر یہ 47سالہ لیڈی‘ برطانیہ کی سو طاقت ور ترین عورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ لندن بزنس سکول سے ایم بی اے کرنے کے بعد بڑی بڑی کمپنیوں میں فنانس منیجر کے طور پر کام کیا۔ پھر سیاست میں آئی اور کنزر ویٹو پارٹی کی طرف سے 2005ء میں منتخب ایوان کی رکن بنی 2007ء میں خزانے کی شیڈو منسٹر بنی۔ کیا آپ کو معلوم ہے شیڈو (Shadow)  منسٹر کیا ہوتا ہے؟ برطانیہ اور بہت سے دوسرے جمہوری ملکوں میں حزب اختلاف باقاعدہ اپنی کابینہ بناتی ہے‘ اسے شیڈو کابینہ کہتے ہیں۔ اگر آپ شیڈو کابینہ میں فرض کیجیے تعلیم کے وزیر ہیں تو یہ امر آپ کے فرائض میں شامل ہے کہ حکومتی پارٹی کے وزیر تعلیم کا محاسبہ کریں۔ اس کی کارکردگی کا جائزہ لیں؟ متبادل تجاویز اور پروگرام قوم کے سامنے پیش کریں۔ یوں حزب اختلاف‘ ہر وزیر کا مسلسل محاسبہ کرتی ہے اور اس کی پالیسیوں پر کڑی نظر رکھتی ہے۔ 2009ء میں گریننگ لندن کی شیڈو منسٹر بنی اس کی پارٹی برسر اقتدار آئی تو وہ وزیر خزانہ بنائی گئی۔2014ء میں ٹرانسپورٹ کی وزیر بنی...

دروازے کے پیچھے کون کھڑا ہے؟

منیر نیازی نے سوال پوچھا تھا  ع منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟ ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا نہیں، یقینا اِس ملک کے تاجر پر آسیب کا سایہ ہے۔ روزنامہ دنیا کے رپورٹر عمیر چودھری نے دہائی دی ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ایک دن پہلے ہی چالیس سے زائد بنیادی ضرورت کی اشیاء مہنگی کر دی گئی ہیں۔ ان اشیا میں آلو سے لے کر دال تک، اور مرچ سے لے کر چینی تک تمام وہ اشیا شامل ہیں جو ہر گھر میں استعمال ہوں گی۔ گرمیوں کے روزے ہیں۔ شام کو شربت کی ضرورت سب سے زیادہ پڑے گی۔ جام شیریں کی بوتل 160 سے بڑھا کر ایک سو ستر روپے کر دی گئی ہے! اس فہرست میں گوشت بھی شامل ہے پھلوں پر کلہاڑے کا وار سب سے زیادہ شدید ہے کیونکہ ہر گھر میں چاٹ بننی ہے۔ یوں لگتا ہے ایک مست اونٹ ہے جسے کھول دیا گیا ہے۔ ہر طرف دوڑتا پھرتا ہے، جو سامنے آتا ہے، ہلاک ہو جاتا ہے۔ معاف کیجیے، بات سخت لگے گی مگر رمضان آتے ہی ہمارا تاجر مست اونٹ کی طرح ہو جاتا ہے! اس کے جبڑوں کو، چیرنے اس کے دانتوں کو، چبانے اوراس کے پاؤں کو رگیدنے کے لیے کچھ نہ کچھ چاہیے۔ سامنے گاہک نظر آتا ہے۔ ساری مستی، سارا پاگل پن، سارا جنون، ا...