Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, August 30, 2014

اگر……


اگر ظہیرالدین بابر کابل ہی میں رہتا۔ اگر ابراہیم لودھی کے پاس بھی توپ خانہ ہوتا، کیا خبر ہماری یعنی برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ مختلف ہوتی!
شیر شاہ سوری نے پانچ سال میں جو کچھ کیا، بہت سے دوسرے حکمران چالیس سال میں بھی اتنا نہ کرپائے۔اگر اسے بھی بیس پچیس سال مل جاتے!
اگر اورنگزیب کے بجائے دارا بادشاہ بنتا اور اکبر کی پالیسیاں جاری رکھتا! اگر اورنگزیب آخری پچیس سال دکن میں نہ گزارتا اور شمال میں رہ کر سلطنت کو مستحکم کرتا!
اگر مغلوں کے پاس ایک طاقت ور نیوی ہوتی اور انگریز، فرانسیسی اور پرتگالی برصغیر کے ساحلوں پر قدم نہ جماسکتے۔ اگر بنگال‘ بہار اور اڑیسہ کی دیوانی (مالیات) ایسٹ انڈیا کمپنی کونہ دی جاتی!
اگر برصغیر کے سارے حکمران انگریز ’’تاجروں‘‘ کے مقابلے میں متحد ہوجاتے! اگر ٹیپو کی پکار پر نپولین مصر سے آگے بڑھتا اور برصغیر تک پہنچ جاتا! اگر عثمانی ترک ٹیپو کی مدد کو پہنچ جاتے ! اگر نظام اور مرہٹے ٹیپو کا ساتھ دیتے !
اگز ولزلے انگریزوں کو ہندوستانیوں کے ساتھ معاشرتی اختلاط سے منع نہ کرتا، اگر انگریز اور ہندوستانی 1800ء کے بعد بھی سماجی رابطے رکھتے اور باہمی شادیاں کرتے رہتے!
اگر 1857ء کی جنگ کے دوران مقامی بااثر افراد انگریز سرکار کی مدد کو نہ پہنچتے! دہلی کے ہندو اور مسلمان یک جان دو قالب ہوکر شہر کا دفاع کررہے تھے۔ عیدالاضحیٰ آگئی، بہادر شاہ ظفر کا ایک بیٹا کمان کررہا تھا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس دفعہ مصلحتاً گائے کی قربانی سے گریز کیاجائے۔ ایسا نہ ہوسکا اور پھوٹ پڑگئی۔ اگر ایسا نہ ہوتا!
اگر قائداعظمؒ کچھ عرصہ اور زندہ رہتے اور زرعی اصلاحات انہی خطوط پر نافذ کرسکتے جن پر بھارت نے 1951ء میں نافذ کیں اور خاندانی سیاست کا خاتمہ کردیا!
اگر ایوب خان کے مارشل لاء کا سیاستدان متحد ہوکر بائی کاٹ کرتے، اگر چودھری خلیق الزمان جیسے لوگ اسے امیر المومنین بنانے کی کوشش نہ کرتے!
اگر دھاندلی نہ ہوتی اور فاطمہ جناح مشرقی پاکستان کی طرح مغربی پاکستان میں بھی جیت جاتیں! اگر ایوب خان کے فرزند لسانی بنیادوں پر کراچی میں ’’ فتح‘‘ کا جشن نہ مناتے اور قتل و غارت نہ ہوتی!
اگر الیکشن کے نتائج برضاو رغبت تسلیم کرتے ہوئے مجیب الرحمن کو پاکستان کا وزیراعظم بننے دیا جاتا!
اگر ذوالفقار علی بھٹو میرٹ کو قتل نہ کرتے اور جنرل ضیاء الحق کونیچے سے اوپر لاکر آرمی چیف نہ بناتے!
اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی !
اگر سیاست دان جنرل ضیاء الحق کی مجلس ’’شوریٰ‘‘ میں بیٹھنے سے انکار کردیتے!
اگر جنرل ضیاء الحق افغان مہاجرین کو اسی طرح پاکستان میں رکھتے جس طرح ایران نے رکھا! اگر افغان  مہاجر ہمارے کلچر، ہماری تجارت، ہماری ٹرانسپورٹ اور ہمارے ہائوسنگ سیکٹر پر قبضہ نہ کرتے ! اگر منشیات اور اسلحہ کی یہ ملک کھلی منڈی نہ بنتا!
اگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بننے والی تنظیموں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی نہ کی جاتی!
اگر میاں نوازشریف بھٹو کی پیروی نہ کرتے اور میرٹ قتل کرکے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف نہ بناتے!
اگر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے پر لاہور میں مٹھائیاں نہ تقسیم ہوتیں!
اگر سیاست دان متحد ہوتے اور جنرل پرویز مشرف کو آٹھ سال تک سہارا نہ دیتے !
اگر میاں نوازشریف جدہ نہ جاتے اور وہ جدوجہد خود کرتے جو جاوید ہاشمی کرتے رہے!
اگر میاں نوازشریف تیسری بار اقتدار میں آکر بے لاگ احتساب کرتے ۔ سوئٹزر بینک میں پڑی ہوئی دولت واپس لاتے ، پیپلز پارٹی کے حج اور دوسرے سکینڈلوں کی غیر جانب دارانہ تفتیش کرکے مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کرتے !
اگر میاں صاحب اپنی ساری دولت اور جائیداد بیرون ملک سے واپس لے آتے!
اگر میاں صاحب برادری سے اور شہر سے باہر نکل سکتے۔ اگر خواجہ ظہیر صاحب اور سعید مہدی صاحب جیسے اصحاب کو اعلیٰ مناصب نہ دیتے!
اگر وہ اپنے چھوٹے بھائی کو کہتے کہ وفاق کے معاملات میں نہ پڑو کہ تمہارے ساتھ وہی برتائو ہوگا جو باقی تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ہوگا‘ نہ ہی تم ہر بیرونی دورے میں میرے ساتھ جائو گے‘ نہ ہی دوسرے ملکوں میں جاکر وزارت خارجہ کے امور سرانجام دو گے‘ نہ ہی تمہارا فرزند، جو قومی اسمبلی کارکن ہے ، صوبے کا عملی طور پر حکمران اعلیٰ بنے گا‘ نہ ہی تم ایک درجن وزیروں کے قلمدان اپنے پاس رکھو گے ! نہ ہی تم پورے صوبے کے بجٹ کا ساٹھ ستر فیصد حصہ ایک شہر پر خرچ کرو گے! 
اگر وہ اپنے رشتہ داروں کو اکٹھا کرکے تنبیہ کرتے کہ ان سے کسی رعایت یا اقرباپروری کی توقع نہ کی جائے۔ سمدھی کو وزیر خزانہ نہ بناتے اور قریبی عزیزوں کو وزارتیں نہ دیتے!
اگر ان کی سرکاری کابینہ اور کچن کابینہ کی غالب اکثریت تین مخصوص ڈویژنوں سے نہ ہوتی۔ اس میں پشتو اور سندھی بولنے والے لوگ بھی ہوتے!
اگر ان کی پہلی ترجیح ٹیکس نہ دینے والوں کو سزا دینا ہوتی! اگر وہ ایک ایک عوامی نمائندے سے ، صنعت کار سے ، لینڈ لارڈ سے اور بزنس مین سے ایک ایک پائی ٹیکس وصول کرکے خزانے میں ڈالتے !
اگر ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کے قتل عام پر اپنے بھائی سے اسی دن استعفیٰ لیتے اور ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے !
اگر میاں صاحب اپنے تیسرے دور میں پولیس اور بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت ختم کرتے اور کراتے !
اگر غالبؔ یہ شعر نہ کہتا    ؎
ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پریاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

Friday, August 29, 2014

عزت دار ملکوں میں


نیو سائوتھ ویلز آسٹریلیا کا مشرقی صوبہ ہے۔اس کا دارالحکومت سڈنی ہے۔سڈنی کی اہمیت آسٹریلیا میں وہی ہے جو نیو یارک کی امریکہ میں‘بمبئی کی بھارت میں اور کراچی کی پاکستان میں ہے۔صدر مقام تو آسٹریلیا کا کینبرا ہے لیکن مالی ‘تجارتی‘صنعتی اور ایک اعتبار سے سیاسی حوالے سے بھی‘سڈنی پہلے نمبر پر ہے۔نیو سائوتھ ویلز کے وزیر اعلیٰ کی بھی ملک میں بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ وہ اہم ترین صوبے کا حاکم اعلیٰ ہے۔
اپریل 2011ء میں لبرل پارٹی کا ایک سیاستدان ’’او۔فیرل‘‘ صوبے کا وزیر اعلیٰ منتخب ہوا۔اپریل 2014ء میں اس کی حکومت کو تین سال مکمل ہوئے اور اسی مہینے اس پر ’’کرپشن‘‘ کا الزام لگ گیا۔آسٹریلیا کا محکمہ جو کرپشن کے خلاف تحقیقات کرتا ہے‘ آئی سی اے سی (INDEPENDENT COMMISSION AGAINST CORRUPTION)کہلاتا ہے ‘ اس محکمے نے وزیر اعلیٰ کو دھر لیا۔یہ کرپشن بیرون ملک جائیداد خریدنے کی تھی نہ اپنا بزنس بڑھانے کی۔نہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے ایک دن نئے قوانین جاری کرنے اور دوسرے دن فائدہ اٹھانے کے بعد ان قوانین کو منسوخ کرنے کی‘نہ اپنی فیکٹریوں کے بنے ہوئے لوہے کی فروخت کی‘ نہ الیکشن میں دھاندلی کی‘ نہ چودہ بے گناہوں کے قتل کی۔کرپشن کا الزام یہ تھا کہ 2011ء میں ‘ یعنی تین سال پہلے‘ ایک بزنس مین سے وزیر اعلیٰ نے شراب کی ایک بوتل تحفے میں وصول کی تھی جس کی کل قیمت تین ہزار ڈالر تھی!
آئی سی اے سی کو وزیر اعلیٰ نے یہ بیان دیا کہ اسے بالکل یاد نہیں کہ اس کے گھر پر ایسی کوئی بوتل آئی ہو۔اس پر آئی سی اے سی نے وزیر اعلیٰ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک کاغذ دکھایا جس پر اس نے بزنس مین کو تھینک یو لکھ کر بھیجا تھا۔اٹھائیس سکینڈ کی ایک ٹیلی فون کال بھی ادارے نے گواہی میں پیش کی۔یہ کال وزیر اعلیٰ نے بزنس مین کو کی تھی۔ہاتھ کا لکھا ہوا’’تھینک یو‘‘ سامنے آنے پر وزیر اعلیٰ نے اپریل2014ء میں پریس کانفرنس کی اور میڈیا کو مندرجہ ذیل بیان دیا۔
’’میں اعتراف کرتا ہوں کہ ’’تھینک یو‘‘ کے الفاظ میرے لکھے ہوئے ہیں اور اس کے نیچے دستخط بھی میرے ہیں۔ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جو احتساب پر یقین رکھتا ہے‘ میں اس تحریر کے نتائج قبول کرتا ہوں‘ اور اعتراف کرتا ہوں کہ میری یادداشت میرا ساتھ نہیں دے رہی۔مجھے ابھی تک یاد نہیں آ رہا کہ شراب کی بوتل کا تحفہ آیا تھا لیکن ذمہ داری بہر طور قبول کرتا ہوں۔اگلے ہفتے اپنی پارٹی کا اجلاس منعقد کر کے میں استعفیٰ دے رہا ہوں تاکہ نیا وزیر اعلیٰ منتخب کیا جا سکے‘‘
پبلک نے اور سیاست دانوں نے بھی افسوس کا اظہار کیا کہ یہ ایک معمولی بات تھی۔یہاں تک کہ حزب اختلاف کے قائد نے بھی بہت محتاط بیان دیا جس میں یہ نہیں کہا کہ استعفیٰ دینا چاہیے۔ملک کے وزیر اعظم نے مستعفی ہونے والے وزیر اعلیٰ کے حسن کردار کی اور احساس ذمہ داری کی تعریف کی۔
17 اپریل 2014ء کو وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ دے دیا جو قبول کر لیا گیا۔مائک بیئرڈ نیا وزیر اعلیٰ منتخب ہوا۔
لال بہادر شاستری مئی1952ء میں ریلوے کا وزیر بنا۔ستمبر 1956ء میں ریلوے کا ایک حادثہ ہوا جس میں بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے۔شاستری نے استعفیٰ دے دیا۔وزیر اعظم نہرو نے استعفیٰ منظور نہ کیا۔تین ماہ بعد تامل ناڈو صوبے میں ریلوے کا ایک اور حادثہ ہوا۔شاستری نے ’’اخلاقی اور آئینی ذمہ داری‘‘قبول کرتے ہوئے دوبارہ استعفیٰ دیا۔اس بار نہرو نے استعفیٰ منظور کر لیا لیکن پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ وہ استعفیٰ اس لیے منظور کر رہا ہے کہ اس اقدام سے ’’آئینی دیانت‘‘ کی ایک اعلیٰ مثال قائم ہو گی۔ورنہ شاستری حادثے کا کسی طور بھی ذمہ دار نہیں۔
بھارت کے حالیہ انتخابات میں کانگریس کو تاریخی شکست ہوئی اور لوک سبھا میں اسے صرف 44سیٹیں مل سکیں جبکہ اس کی حریف بھارتیہ جنتا پارٹی کو دو سو اسی نشستیں ملیں۔جن صوبوںسے بہت ہی کم نشستیں ملیں ان میں مہاراشٹر ‘آسام اور ہریانہ سرفہرست ہیں۔آسام میں صوبائی حکومت بہرحال کانگریس ہی کی بنی ہے۔لیکن کانگریس کے سیاست دان اپنی پارٹی سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ کی پالیسیوں کی وجہ سے مرکز میں شکست ہوئی ہے اس لیے تبدیلیاں لائی جائیں۔اس اختلاف میں آسام کا وزیر تعلیم و صحت بسو سرما نمایاں تھا۔ایک ماہ قبل اس نے استعفیٰ دے دیا‘ اس لیے کہ اس کے خیال میں وزیر اعلیٰ کی پالیسیاں پارٹی کے حق میں نقصان دہ تھیں۔انہی دنوں مہاراشٹر میں بھی صوبائی وزراء نے وزیر اعلیٰ سے اس حوالے سے اختلافات کا اظہار کیا۔صوبائی وزیر صنعت نرائن شرما نے مہاراشٹر میں بھی استعفیٰ دے دیا۔
بھارت ہی کے صوبے بہار میں نیتش کمار 2005ء سے وزیر اعلیٰ تھا ۔اس کے عہد میں بے شمار اور بے مثال ترقیاتی کام ہوئے اور صوبے کی شکل ہی تبدیل ہو گئی۔2010ء میں وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوا۔ حالیہ قومی انتخابات میں اس کی پارٹی جنتا دل یونائیٹڈ کو شکست ہوئی۔ 2009ء کے الیکشن میں اس پارٹی کو لوک سبھا (قومی اسمبلی ) میں بہار سے بیس نشستیں ملی تھیں۔لیکن مئی کے انتخابات میں صرف دو امیدوار کامیاب ہوئے۔شکست کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نیتش کمار نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ایک بہت بڑے بزنس مین اشوک کمار سنگھ نے پوری بزنس کمیونٹی کی طرف سے استعفیٰ پر اظہار افسوس کیا ہے۔’’بہار کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا ہے۔نیتش کمار نے صوبے کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا تھا۔‘‘نیتش کمار نے بالکل نہیں کہا کہ ترقیاتی کام متاثر ہوں گے۔اس نے تاریخ کے صفحے پر اپنا نام اس خانے میں لکھوا لیا جو عزت داروں کے لیے مخصوص ہے۔
16اپریل 2014ء کو جنوبی کوریا کی ایک فیری (چھوٹا بحری جہاز) سمندر میں ڈوب گئی۔بہت سے مسافر ہلاک ہو گئے۔ ڈوبنے والوں کی زیادہ تعداد طلبہ پر مشتمل تھی جو سیر کے لیے ٹرپ پر نکلے تھے ۔یہ ایک پرائیویٹ سفر تھا۔حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہ تھا‘ لیکن حادثے کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جنوبی کوریا کے وزیر اعظم چنگ نے استعفیٰ دے دیا۔استعفیٰ دینے والے اس ایشیائی وزیر اعظم کا بیان دیکھیے۔
’’میں نے متاثرہ خاندانوں کا اور روتے ہوئے لواحقین کا درد اور کرب دیکھا اور ان کا وہ غم دیکھا جو بچھڑنے والے پیاروں کے لیے ان کے چہروں پر پھیلا ہوا تھا۔میں نے سوچا کہ ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے مجھے اس حادثے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے‘‘۔ 
ستم ظریفی دیکھیے کہ جنوبی کوریا کے سسٹم میں زیادہ تر اختیارات صدر کے پاس ہیں‘ لیکن حکومت کا سربراہ بہر طور وزیر اعظم ہے۔فیری پر مقررہ وزن سے کہیں زیادہ وزن لاد دیا گیا تھا۔ڈوبنے کی اور بھی تکنیکی وجوہات تھیں۔وزیر اعظم کا یا وزیر اعظم کی حکومت کا دور دور سے اس حادثے سے تعلق نہیں تھا۔ نہ ہی کسی بھی پہلو سے ذمہ داری بن رہی تھی‘ لیکن جمہوری ملکوں میں وزیر ‘وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم ہمیشہ اخلاقی بنیادوں پر استعفے دے دیتے ہیں۔تاہم ایسا ان ملکوں میں ہوتا ہے جو صرف جمہوریت کا دعویٰ نہیں کرتے‘عزت دار بھی ہوتے ہیں۔

Wednesday, August 27, 2014

قبیلہ


قبیلہ دو دھڑوں میں بٹ گیا۔ معمولی سا جھگڑا تھا۔ پھیلتے پھیلتے لڑائی میں تبدیل ہو گیا۔ مارپیٹ ہوئی۔ سر پھٹول ہوا۔ لاٹھیاں چلیں۔ پھر بندوقوں کی نوبت آ گئی۔ کچھ مارے گئے۔ چند زخمی ہوئے۔ آپس میں بول چال بند ہو گئی۔ یہ حالات تھے جب ایک اور قبیلے نے دو دھڑوں میں بٹے ہوئے اس قبیلے پر حملہ کردیا۔حملہ کرنے کی دیر تھی کہ دونوں دھڑے اکٹھے ہو گئے۔ سارے جھگڑے بھلا دیے گئے۔ قتل تک معاف ہو گئے۔ اب مسئلہ دھڑوں کا نہیں‘ پورے قبیلے کا تھا۔ متحد ہو کر دوسرے قبیلے کا مقابلہ کیا گیا۔ وہی قبیلہ جو آپس میں لڑ رہا تھا‘ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہو گیا۔ کوئی رخنہ رہا نہ جھگڑا۔ 
یہ جو میاں نوازشریف وزیراعظم پاکستان سابق صدر آصف زرداری کو ہیلی پیڈ سے خود ڈرائیو کر کے رائے ونڈ محل میں لے گئے‘ یہ جو ان کا ایسا استقبال ہوا جیسا بادشاہوں کا ہوتا ہے‘ یہ جو ان کے اعزاز میں فش کباب‘ مٹن کباب‘ چکن اچاری‘ آلو گوشت‘ آلو کی بھجیا‘ چاول ‘ملائی بوٹی‘ مٹن قورمہ‘ مٹن بریانی‘ سری پائے‘ پالک پنیر بھرے ٹینڈے‘ چار پانچ قسم کی سبزیاں‘ ہرن کا گوشت‘ قیمہ بھرے کریلے‘ بھنے بٹیر‘ افغانی پلائو‘ سندھی بریانی‘ سندھی بھنڈی‘ مٹن نہاری‘ حیدرآبادی کوفتے‘ کشمیری کلچے‘ چھ اقسام کی سلاد‘ کھیر‘ رس ملائی‘ پیٹھے کا حلوہ‘ رس گلے‘ بے نظیر قلفہ‘ قصوری فالودہ‘ شہد‘ فروٹ ٹرائفل اور چاٹی کی لسی پیش کی گئی‘ یہ جو گیارہ جماعتیں اکٹھی ہو گئی ہیں‘ تو یہ ایک قبیلہ متحد ہوا ہے جس پر ایک اور قبیلے نے حملہ کردیا ہے۔ اب مسئلہ دھڑوں کا نہیں۔ مسئلہ پورے قبیلے کا ہے۔ نون لیگ ہو یا پیپلز پارٹی‘ اے این پی ہو یا جے یو آئی‘ ضیا لیگ ہو یا پگاڑا لیگ‘ یہ سارا ایک قبیلہ ہے اور وہ جو بوریاں بچھا کر دھرنے میں بیٹھے ہیں‘ وہ ایک اور قبیلہ ہے۔ اسے عامی قبیلہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ عامی قبیلہ خواص کے قبیلے پر اپنی دانست میں حملہ آور ہوا ہے۔ 
مسئلہ عمران خان کا نہیں‘ نہ ہی ڈاکٹر طاہرالقادری کا ہے۔ مسئلہ اُن لوگوں کا ہے جو ان کی آواز پر لبیک کہہ کر اکٹھے ہوئے ہیں‘ اپنے اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن سکرین کے ساتھ لگ کر بیٹھے ہیں اور صبح صبح اخبار کی جانب لپکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سی این جی کی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔ آدھا کلو امرود خرید کر گھر میں پہنچتے ہی بچوں کو مژدہ سناتے ہیں کہ پھل آ گئے ہیں۔ پانچ مرلے کا گھر بنانے کے لیے دو پوری نسلیں پلاننگ کرتے کرتے قبر میں پہنچ جاتی ہیں‘ بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں‘ ’’فارغ التحصیل‘‘ ہو کر الیکٹریشن یا ویلڈر بنتے ہیں اور اگر بی اے کر لیں تو علاقے کے ایم این اے کے سامنے گھٹنے ٹیک ٹیک کر چھوٹی موٹی نوکری حاصل کرتے ہیں۔ 
یہ جو قبیلہ رائے ونڈ سے لے کر اسمبلی کی راہداریوں اور ایوانِ وزیراعظم کے دالانوں تک متحد کھڑا ہے‘ یہ طاقت کا سرچشمہ ہے۔ آپس میں یہ رشتہ داریوں میں بندھے ہیں۔ ایک بھائی نون میں ہے تو دوسرا کسی اور لیگ میں۔ سسرال پیپلز پارٹی میں ہے تو میکہ کسی نہ کسی لیگ میں۔ اسمبلیوں میں ان کی خاندانی نشستیں نسلوں تک محفوظ ہیں۔ نوکری کے لیے انہیں کسی مقابلے کے امتحان میں بیٹھنا ہے نہ کچھ اور کرنا ہے۔ ارسلان افتخار‘ تاریخ میں پہلی بار‘ سی ایس ایس کی چکی میں پسے بغیر پولیس میں اے ایس پی لگ گئے حالانکہ اے ایس پی ہمیشہ وہ لگتا ہے جو دو سال سی ایس ایس کے مراحل میں گزار کر آیا ہو‘ جناب امین فہیم کی صاحبزادی مقابلے کا امتحان دیئے بغیر پاکستانی سفارت خانے میں افسراعلیٰ تعینات ہو گئی‘ ایسی بیسیوں نہیں‘ سینکڑوں مثالیں ہیں۔ ایک پارٹی کے وزیر کا بھائی قانون کی گرفت سے بچنا چاہتا ہے تو دوسری پارٹی کا سیاست دان اسے اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔ ان میں لاتعداد چیزیں مشترک ہیں‘ ٹیکس نہیں دیتے‘ کروڑوں اربوں کے قرضے بیک جنبشِ قلم معاف کرا لیتے ہیں۔ فیکٹریاں اور کارخانے لگاتے ہیں۔ بجلی کے بل نہیں دیتے۔ ابھی تو چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک کارخانہ دار نے واپڈا والوں کو قتل کی دھمکی دے دی۔ اسلحہ ان کے پاس بے شمار ہے‘ ایک ایک کے پاس درجنوں گارڈ ہیں۔ بیرون ملک اپارٹمنٹ‘ محلات‘ کارخانے اور کاروبار ہیں‘ ڈیروں پر مفرور بیٹھے ہیں۔ اشارہ کریں تو علاقے کا ایس ایچ او بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور تحصیل دار بھی بلکہ ایس پی اور ڈپٹی کمشنر بھی! 
آپ نہیں دیکھتے کہ اسمبلی میں جب مراعات کا بل پیش ہوتا ہے یا زراعت کے سیکٹر پر ٹیکس کی بات ہوتی ہے تو یہ قبیلہ‘ ایک ساعت میں متحد ہو جاتا ہے! 
ایف آئی آر؟ کون سی ایف آئی آر؟ آج تک کون سی ایف آئی آر کٹی ہے؟ جب بلوچستان کے صحرا میں لڑکیوں کو گولی مار کر ریت میں دفن کردیا گیا تھا تو کابینہ میں کون بیٹھا ہوا تھا؟ پنچایتیں حکم دیتی ہیں کہ ملزم کی بہن کو پکڑ لائو تو آج تک کس پنچایت کا کون سا رکن پکڑا گیا ہے؟ یہ تو دو ہفتے پہلے کی بات ہے کہ ایک عورت پر کتے چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ قانون نہ جانے اُس وقت کس سیاست دان کی خدمت میں مصروف تھا اور رُول آف لا نہ جانے کس وڈیرے کے گُھٹنے چھُو رہا تھا! 
ایک ہی استاد کے شاگرد ’’استاد بھائی‘‘ کہلاتے ہیں۔ ایک ہی بزرگ کے مرید ’’پیر بھائی‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ جو متحد ہیں‘ یہ ’’سٹیٹس کو بھائی‘‘ ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ قانون کا ہاتھ ان تک پہنچ سکے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ان کے سامنے بس ہے۔ یہ حصار نہیں توڑا جا سکتا۔ یہ قلعہ جس کی بنیاد پنجاب کی یونینسٹ پارٹی نے رکھی تھی‘ اب اس قلعے کی دیواریں اونچی کرنے میں صنعت کار بھی شامل ہو چکے ہیں اور تو اور اگر کوئی اِکا دُکا جماعت اپنے اندر الیکشن کراتی ہے اور عام لوگوں پر مشتمل ہے‘ وہ بھی ان وڈیروں اور کروڑ پتی صنعت کاروں سے پوچھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتی! ۔
حافظے کمزور ہیں۔ کسے یاد نہ ہوگا‘ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے ابتدائی تین سالوں میں ایک انقلابی قدم اٹھایا تھا۔ اس نے قانون بنایا تھا کہ گریڈ سولہ سے نیچے کی نوکریاں بھی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ملیں گی۔ اس کا مطلب تھا کہ ڈرائیور ہو یا نائب قاصد‘ کلرک ہو یا ایل ڈی سی‘ یُو ڈی سی یا جونیئر آڈیٹر یا اسسٹنٹ‘ سب ملازمتیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن دے گا یعنی میرٹ پر‘ سفارش کے بغیر ملیں گی! تین سال کے بعد جرنیل پر دبائو بڑھا کہ دنیا کو جمہوریت کا چہرہ دکھائو۔ ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے۔ طاقت ور قبیلے کا روایتی نمائندہ! جمالی صاحب نے وزیراعظم بننے کے بعد یہ قانون ختم کر ڈالا۔ اگر ڈرائیور‘ نائب قاصد‘ جونیئر کلرک اور اسسٹنٹ‘ میرٹ پر لگنے لگے تو ایم این اے اور وڈیرے کے پاس کیا رہ جائے گا؟ اس کے گھٹنے کون چھوئے گا‘ کس کا باپ اس کا حقہ تازہ کرے گا اور پارلیمنٹ لاجز کے سامنے قطاروں میں کون کھڑا ہوگا؟ ان کا بس نہیں چلا ورنہ یہ مقابلے کا اعلیٰ امتحان بھی ختم کرا دیتے۔ ہاں‘ مقابلے کے ا متحان پاس کر کے جو آتے ہیں‘ انہیں اگر کوئی اچھی تعیناتی بالخصوص بیرون ملک تعیناتی چاہیے تو وہ مکمل طور پر اس طاقت ور کلاس کے قبضے میں ہے۔ میرٹ یہاں کلی طور پر عنقا ہے! 
آپ کا کیا خیال ہے‘ ایک صوبیدار کا بیٹا‘ ایک امام مسجد کا فرزند فور سٹار جرنیل کیوں بن جاتا ہے؟ مسلح افواج میں دو سال یا تین سال کا مقررہ عرصہ پورا کیے بغیر کسی افسر کا تبادلہ کیوں نہیں ہوتا؟ ہر ریٹائر ہونے والے فوجی افسر کو اپنی باری پر‘ کسی سفارش کے بغیر‘ گھر کیوں مل جاتا ہے؟ پوری رقم دے کر بھی سول سرونٹ کو ریٹائرمنٹ کے بعد پلاٹ کیوں نہیں ملتا‘ دارالحکومت کے سیکٹر جی چودہ میں آٹھ سال گزرنے کے باوجود کسی سول سرونٹ کو قبضہ کیوں نہیں ملا جب کہ کئی ریٹائرڈ سول سرونٹ قبروں میں جا سوئے ہیں؟ اس لیے کہ پاکستان کی خوش قسمتی سے مسلح افواج کے پروموشن بورڈوں میں ابھی تک وزیر اور عوامی نمائندے نہیں بیٹھ سکتے! فوجی افسروں کے تبادلے تعیناتیاں کرنے والی ملٹری سیکرٹری برانچ کو وزیراعظم کا سیکرٹری دن میں کئی بار فون پر احکام نہیں دیتا! ورنہ بریگیڈیئر اور جرنیل بھی بھانجے بھتیجے لگتے! 
دھرنے؟ احتجاج؟ تقریریں؟ اللہ کے بندو! یہ قبیلہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گیا ہے۔ اس دیوار میں کوئی کھڑکی ہے نہ دروازہ! اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا!

Monday, August 25, 2014

روحوں کا انتظار

لطف اللہ خان 1916ء میں چنائی (مدراس) میں پیدا ہوئے۔ والد سائوتھ انڈین ریلوے میں ملازمت کرتے تھے۔ تلاش روزگار میںلطف اللہ خان نے بمبئی اور حیدرآباد کے سفر کیے۔ تقسیم ہوئی تو کراچی آ گئے۔ لطف اللہ خان نے کتابیں بھی تصنیف کیں۔ میوزک میں بھی کام کیا، درباری راگ کے ماہر تھے۔ لیکن ان کی وجہ شہرت آوازوں کا اکٹھا کرنا تھا۔1951ء میں انہوں نے 1046 روپے دس آنے میں ٹیپ ریکارڈر اور22 ٹیپیں خریدیں۔ اور سب سے پہلے اپنی والدہ کی آواز ریکارڈ کی۔ اس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ سیاست، شاعری، نثر، مذہب، موسیقی، ہر شعبے کے مشاہیر کی آوازیںریکارڈ کیں اور پھر اس طریقے  سے محفوظ کیں کہ کوئی آواز کسی بھی وقت چند منٹوں میں نکال کر سنوا سکتے تھے۔ قائداعظم، گاندھی، علامہ رشید ترابی، ابوالکلام آزاد سے لے کر سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مفتی محمد شفیع تک، فیض سے لے کر جگن ناتھ آزاد، اخترالایمان، جگر اور جوش تک، پطرس بخاری، امتیاز علی تاج، راجندر سنگھ بیدی، چراغ حسن حسرت، ڈاکٹر ذاکر حسین، صادقین، جمی انجینئر، کسی بھی شعبے کا کوئی قابل ذکر شخص انہوں نے نہ چھوڑا۔ 2012ء میں جب لطف اللہ خان کا انتقال ہوا تو ان کے اس شہرئہ آفاق ذخیرے میں پانچ ہزار سے زیادہ شخصیات کی آوازیں محفوظ تھیں اور منظم طریقے سے کیٹلاگ کی گئی تھیں۔ لیکن اصل بات جو بتانی مقصود ہے ، اور ہے۔ 
1982ء یا 83ء کی بات ہے۔ لطف اللہ خان مرحوم اسلام آباد تشریف لائے۔ ان کا مقصد شاعروں اور ادیبوں کی آوازیں ریکارڈ کرنا تھا۔ غریب خانے کو بھی انہوں نے اور بیگم صاحبہ نے عزت بخشی۔ ماحضر بھی تناول کیا، غزلیں بھی ریکارڈ کیں۔ جڑواں شہروں کے ایک بزنس مین نے‘ جو ادب میں دلچسپی رکھتے تھے‘ لطف اللہ خان سے ایسا سوال پوچھا جو کوئی شاعر، ادیب، موسیقار، نقاش، عالم دین، یہاں تک کہ سیاستدان بھی نہیں پوچھ سکتا‘ صرف اور صرف بزنس مین پوچھ سکتا ہے۔ ’’اس سارے کام سے آپ کو فائدہ کیا پہنچ رہا ہے؟‘‘ 
لطف اللہ خان مسکرائے۔ وہ سمجھ گئے کہ مالی فائدے کی بات ہو رہی ہے۔ دھیرے سے جواب دیا۔ ’’ہر کام مالی فائدے کیلئے نہیں ہوتا‘‘۔
لطف اللہ خان ایک فرد تھے۔ یہ عظیم الشان کارنامہ انہوں نے اپنی ذاتی آمدنی سے انجام دیا۔ آرکائیوزکی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ لیکن پاکستانی تاجر‘ پاکستانی دکاندار اور پاکستانی صنعتکار کو یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ کچھ کام ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے ’’بظاہر‘‘ مالی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ہوسکتا ہے اس لکھنے والے کی رائے درست نہ ہو لیکن غالباً ترقی یافتہ ملکوں میں بزنس کمیونٹی کا رویہ مختلف ہے۔ اس کی وجہ قانون کی حکمرانی بھی ہوسکتی ہے اور تعلیم و تربیت کا معیار بھی۔ بل گیٹس جیسے ہزاروں بزنس مین فلاح و بہبود کے کام کر رہے ہیں‘ صحت اور تعلیم کے شعبے پر اپنی اپنی دولت کا کثیر حصہ صرف کر رہے ہیں۔ نام و نمود کی پروا ہے نہ تختیاں لگوانے کی۔ بہت سوں کے تو نام بھی صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں۔
یہ ساری رام کہانی سنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پاکستان کے ایک معروف صنعتی اورتجارتی شہر کی بزنس کمیونٹی نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے شہر میں ایئرپورٹ بنوایا۔ اس وقت کی حکومت نے ان حضرات کی حوصلہ شکنی براہ راست نہیں کی تو بالواسطہ منع ضرور کیا گیا۔ لیکن یہ لوگ اپنے ارادے پر قائم رہے۔ اعلیٰ کوالٹی کا ایئرپورٹ بنا۔ ایک اندازے کے مطابق اس کا رن وے ملک کا بہترین رن وے ہے۔ اب یہ کمیونٹی اپنی نجی ایئرلائن بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے بعد پاور سیکٹر میں نجی منصوبے شروع کرنے کا پروگرام ہے۔
ہم اس شہر کے تاجروں اور صنعتکاروں کی کامیابی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ وہ ضرور ایئرلائن بنائیں۔ پھر پاور سیکٹر میں کارنامے انجام دیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد اس شہر میں فائیو سٹار ہوٹلوں کا جال بچھا دیا جائے۔ پھر پرائیویٹ ریلوے لائی جائے۔ پھر فلک بوس عمارتوں سے اسے دوسرا ہانگ کانگ بنا دیا جائے۔ پھر اس میں مصنوعی جھیلیں اور پہاڑ تعمیر کیے جائیں۔ عالمی سطح کے خوبصورت پارک وجود میں آئیں اور دنیا بھرکے سیاح ادھر کا رخ کریں۔ زرمبادلہ کے انبار لگ جائیں۔
لیکن نوٹ کیجئے کہ اس دولت مند بزنس کمیونٹی کو یونیورسٹی بنانے کا خیال نہیں آ رہا۔ ایئرپورٹ، پھر ایئرلائن، پھر پاور سیکٹر۔یہ سارے وہ منصوبے ہیں جو آمدنی اور منافع بڑھانے میں براہ راست کردار ادا کرتے ہیں جبکہ یونیورسٹی بظاہر صرف اور صرف رقم لگانے کا کام ہے۔ عمارتیں بنیں گی۔ اساتذہ لائے جائیں گے۔ لیبارٹریاں اور لائبریریاں لاکھوں کروڑوں روپے کھا جائیں گی۔ آمدنی نہیں ہوگی۔ خرچ ہی خرچ! انتظامیہ پر خرچ، ہوسٹلوں پر خرچ، کیفیٹیریوں میں خوراک طلبہ کی مالی سطح کی مناسبت سے مہیا کرنا پڑے گی۔ اس پر خرچ! درختوں پودوں پھولوں کی نگہداشت پر خرچ! بظاہر ’’وصولی‘‘ کچھ نہیں ہوگی!
 سلجوقیوں کے وزیراعظم نظام الدین طوسی نے سلطنت میں تعلیمی اداروںکا جال بچھا دیا اور ہر شہر میں کالج اور یونیورسٹیاں قائم کردیں۔ وزارت خزانہ نے بادشاہ سے شکایت کی کہ بوڑھا وزیراعظم خزانے کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ بادشاہ نے وزیراعظم سے کہا کہ بابا! اس رقم سے تو ایک بہت بڑی فوج کھڑی کی جا سکتی تھی۔ طوسی نے جواب دیا کہ جہاں پناہ! سپاہی کا تیر تیس گز سے آگے نہیں جاتا‘ لیکن میرے بنائے ہوئے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے جو اہل علم اور سائنسدان نکلیں گے ان کی مار ستاروں تک ہوگی!
اس صنعتی اور تجارتی شہر کی بزنس کمیونٹی کی خدمت میں گزارش ہے کہ اپنے منصوبے جاری رکھیں۔ ان کی کامیابی کے لئے دعائیں ہیں لیکن ازراہ کرم مل بیٹھ کر ایک ایسی یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیجیے جو جنوبی ایشیا میں روشنی کا مینار ثابت ہو۔ ایسا کیمپس بنائیے جو امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں کی عمارات کے مقابلے کا ہو، دنیا بھر سے بہترین اساتذہ لائیں‘ ان کے لیے ایسی تنخواہوں کا بندوبست کیجیے کہ کھچے چلے آئیں۔ عظیم الشان لائبریری اور لیبارٹریاں قائم کیجیے۔ میرٹ پر طلبہ کو داخل کیجیے ۔ جو قلاش ہوں ان کی مالی دستگیری کیجیے۔ آپ کی ایئرلائن کے جہاز تو زیادہ سے زیادہ بادلوں سے اوپر جائیں گے لیکن یونیورسٹی سے جو لوگ نکلیں گے وہ آپ کے شہر کا نام کہکشائوں تک لے جائیں گے۔ آپ ہی کے شہر میں اس وقت کا بہت بڑا سکالر ملا عبدالحکیم سیالکوٹی تھا جسے مغل بادشاہ، شاہ جہان نے چاندی میں تلوایا تھا۔ آپ چاندی اکٹھی کیجیے اور ہارورڈ اور آکسفورڈ کی مثال قائم کر دیجیے۔ لاہور میں نجی شعبے کی نامور یونیورسٹی ایک صنعتکار ہی کا خواب ہے۔ آخر صنعتکار اور تاجر علم پروری سے غافل بھی نہیں! جس شہر کے اہل حرفت اور اہل صنعت کو ریاض الدین شیخ جیسے متحرک نمائندے میسر ہوں، وہ اس کام میں تاخیر کیوں کر رہا ہے؟ جلدی کیجئے، اقبال اور فیض کی ارواح بے تابی سے انتظار کررہی ہیں!

Sunday, August 24, 2014

یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی


بادشاہ ننگا تھا۔ سر سے پیر تک الف ننگا۔ لیکن جلوس میں شامل عمائدین اور دو رویہ کھڑے امراء اس کے لباس کی تعریف کررہے تھے۔ واہ واہ ! کیا دیدہ زیب شاہی لباس ہے ! تعریف کرنے والے وہ تھے جن کے مفادات بادشاہ سے وابستہ تھے۔ ثابت ہوا کہ لغت مفادات کی محتاج ہے۔ اگر مفاد کا معاملہ ہے تو برہنگی کا معنی بدل جائے گا۔ اگر درباری امراء برہنگی کو برہنگی کہہ دیتے تو عہدے چھن جاتے۔ ہاتھی گھوڑے لے لیے جاتے۔ محلات خالی کرالیے جاتے۔ چنانچہ لغت تبدیل کرلی گئی۔ برہنگی کا معنی دیدہ زیب لباس ہوگیا۔ 
لغت کے ساتھ یہ ’’ حسنِ سلوک‘‘ آج کل بھی زوروں پر ہے۔ بار بار اعلان ہورہے ہیں کہ ساری اپوزیشن حکومت کے ساتھ ہے۔ گویا جو لوگ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف دھوپ اور بارش میں کھلے آسمان تلے دھرنا دے رہے ہیں‘ وہ اپوزیشن میں نہیں ہیں اور پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوا طبقہ جو سر سے پائوں تک مفادات کی زرہ میں محفوظ و مامون ہے، اپوزیشن ہے۔ ہمیشہ اپنی پسند کی وزارتوں پر اصرار کرنے والی جے یو آئی بھی اپوزیشن میں شمار کی جارہی ہے اور پیپلزپارٹی بھی !   ؎
لغت میں ہجر کا معنی بدل ڈالا کسی نے 
کہ اب کے وصل میں اظہار تنہائی بہت ہے
جو نظام علامہ طاہرالقادری اور عمران خان لانے کی بات کررہے ہیں‘ وہ آتا ہے یا نہیں آتا، اس سے قطع نظر، وہ ان لوگوں کو بالکل راس نہیں جو پارلیمنٹ میں’’ اپوزیشن‘‘ کا کردار ادا کررہے ہیں یا حزب اقتدار میں ہیں۔ بھاری اکثریت ٹیکس نہیں دے رہی۔ ایک عالی شان زندگی ہے جو یہ اصحاب بسر کررہے ہیں۔ اولادیں ہر سال یورپ اورامریکہ کی سیریں کرتی ہیں۔ بہت سے تو رہائش پذیر ہی دساورمیں ہیں۔ تھانے ان کی جیبوں میں ہیں۔ کچہریاں ان کی مٹھیوں میں ہیں۔ پروازیں ان کے لیے موخر کردی جاتی ہیں۔ قطاروں میں یہ لوگ آج تک نہیں لگے۔ ان کے ہسپتال، ان کے سکول کالج ، ان کے شاپنگ سنٹر سب الگ ہیں۔ جہازوں سے اترتے ہیں تو امیگریشن اور کسٹم کے قوانین معطل ہوجاتے ہیں اور ان کے پرسنل سیکرٹری آناً فاناً انہیں باہر لے جاکرگاڑیوں میں بٹھاکر بجلی کی رفتار سے لے جاتے ہیں۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر فرخ سلیم اعدادو شمار سے ثابت کرتے ہیں کہ گزشتہ 44سالوں کے دوران دس قانون ساز اسمبلیاں آئیں اور جتنی بھی قانون سازی ہوئی‘ پارلیمنٹ کے ممبران کے مفاد میں ہوئی‘ عوام کے مفاد میں نہیں ہوئی تو پھر یہ طبقہ حکومتِ وقت کا ساتھ کیوں نہ دے ! خوشی سے خودکشی کوئی نہیں کرتا۔
موجودہ سیاسی صورتِ حال میں پیپلزپارٹی کا موقف ’نیمے دروں نیمے بروں‘ کا آئینہ دار ہے۔ یہ عین وہی صورت حال ہے جو پیپلزپارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دورِ اقتدار میں مسلم لیگ نون کو درپیش رہی۔ آدھا تیتر ، آدھا بٹیر، کبھی یہ اعلان کہ شاہراہوں پر گھسیٹیں گے اور کبھی یہ عزم کہ سسٹم چلتا رہے۔ اس بحران کے آغاز میں اپوزیشن لیڈر جناب خورشید شاہ نے واضح کردیا تھا کہ وہ سسٹم کو ہر حال میں بچائیں گے۔ اس لکھنے والے نے تفصیل سے لکھا تھا کہ سسٹم سے ان کی کیا مراد ہے۔
جس جہاز کو طوفان سے بچانے کی کوشش مسلم لیگ نون کی حکومت کررہی ہے، اس کے ایک حصے میں پیپلزپارٹی پہلے ہی مقیم ہے۔ تین اقدار پیپلزپارٹی اور حکومتی پارٹی میں مشترک ہیں۔اول: دونوں خاندانی اقتدار کا مظہر ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جناب صدر کا صاحبزادہ اور بہنیں شریک حکم تھیں۔ موجودہ دور میں جو صورتِ حال ہے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ سب کچھ عیاں ہے اور ڈنکے کی چوٹ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ نون کی پوزیشن اس قدر واضح ہے کہ کبھی اس نے نمائش کے لیے بھی تردید یا وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی ! دوم : دونوں پارٹیوں کے سربراہوں کی مالی سلطنتیں بیرونِ ملک ہیں۔ کارخانے ، بینک اکائونٹ، بیش بہا اپارٹمنٹ ، محلاّت، کاروبار، پراپرٹی کے لہلہاتے بزنس! ملک کے اندر اس کا عشرِعشیر بھی نہیں ! یاد رہے کہ طاہرالقادری اور عمران خان اس دولت کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہوئے ہیں۔ سوم: دونوں پارٹیاں سیاسی خانہ بدوشوں کی بہترین پناہ گاہ ہیں، جیسے ہی یہ دونوں پارٹیاں اقتدار سے محروم ہوتی ہیں، پرندے ان کی صفوں سے اُڑنا شروع ہوجاتے ہیں اور پانی سے بھری جھیلوں اور سرسبز زمینوں پر جا اترتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے پیپلزپارٹی سے اقتدار چھینا اور پیپلزپارٹی ہی کے وفاداروں نے اسے سہارا دیا اور دیے رکھا۔ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ نون سے تخت ہتھیایا اور پرندے شریف خاندان کو چھوڑ کر قاف لیگ پر آن بیٹھے۔
یہ بھی زور و شور سے کہا جارہا ہے کہ یہ تحریک ملک گیر نہیں ہے مگر آزاد الیکٹرانک میڈیا ایک مختلف تصویر پیش کررہا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے عمران خان کے دھرنے میں شریک ایک چترالی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ میں اور میرے ساتھی اس دھرنے میں اس لیے شریک ہیں کہ ہم اس ایک مخصوص طبقے کی حکمرانی سے تنگ آچکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ان لوگوں کو پکارنا شروع کردیا جو چترال میں ہیں کہ اٹھو اور آکر ہمارے ساتھ شامل ہوجائو۔ ایک نوجوان لڑکی بتارہی تھی کہ وہ اور اس کا گروپ کراچی سے آئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے عقیدت مند بھی پورے پاکستان سے آئے ہوئے ہیں۔ ہم ان کے نظریات یا طریق کار سے اتفاق کریں یا اختلاف، لیکن سچائیوں کو نہیں جھٹلانا چاہیے۔ عمران خان کی شخصیت کا کرشمہ ہے یا طاہرالقادری کا سحر آگیں طرزِ خطاب، یا دونوں میں نظام کو بدلنے کا ولولہ ، یا جذبات کا تلاطم اور سیاسی ناپختگی جو کچھ بھی ہے‘ حقیقت کی موجودگی سے تو انکار نہ کیجیے ۔ تیلی نے کسان سے کہا تھا، جاٹ رے جاٹ تیرے سر پر کھاٹ، جاٹ نے جواب دیا تیلی رے تیلی، تیرے سر پر کولہو، تیلی نے اعتراض کیا کہ قافیہ نہیں ملا، جاٹ نے فاتحانہ انداز میں بتایا کہ قافیہ ملا ہے یا نہیں، کولہو تمہیں سر پر بھاری تو لگ رہا ہے۔ دھرنا کامیاب ہوتا ہے یا نہیں، بہر طور بھاری ضرور لگ رہا ہے۔ جب خواجہ سعد رفیق جیسے آتش بجاں رہنما بات چیت کرنے اور ’’ جائز‘‘ مطالبات ماننے کی پیش کش کرتے ہیں اور لہجہ بھی بدل لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کولہو اور کچھ کرے نہ کرے ، بھاری ضرور ہے! 
سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کی ایف آئی آر بھی نہیں کٹنے دینی، استعفے بھی نہیں دینے، وزیراعلیٰ کو بھی نہیں تبدیل کرنا‘ خاندان کے کسی فرد کو اقتدار سے الگ بھی نہیں کرنا‘ مذاکرات بھی کرنے ہیں‘ سسٹم بھی بچانا ہے‘ آئین اور جمہوریت کی پاسداری بھی کرنی ہے تو پھر آئیے ، دعا کریں کہ کوئی معجزہ رونما ہو اور تخت و تاج بچ جائے   ؎
یہ نمازِ عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
پس نوشت ۔1: آپ کا کیا خیال ہے کہ دبئی سے کراچی پہنچنے کے بعد جناب آصف علی زرداری نے سب سے پہلے کس شخصیت سے بات کی ہوگی؟ مولانا فضل الرحمن سے !!
پس نوشت۔2: اگر میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ بچ گئی تو ایک ایم این اے کو وزارت ملنے کی امید قوی ہے!

Friday, August 22, 2014

بہت میلی کچیلی

جناب وزیراعظم! 
گزشتہ دو ہفتے شدید ذہنی دبائو کا شکار رہا۔ اپنے آپ کو اس افسوسناک واقعے کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ مجھے اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی! ایک باعزت مشرقی جنٹل مین کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اس غلطی کی بھاری قیمت ادا کرنی چاہیے اور اس کی صرف ایک ہی صورت تھی کہ میں اپنی زندگی ختم کردوں۔ سو کر رہا ہوں۔ 
آپ کا مخلص 
وزیر قومی ترقی 
جون کے ایک گرم دن جب 1959ء میں لی کوان ییو اور اس کے ساتھیوں نے سنگاپور کی کابینہ کا حلف لیا تو سب نے سفید قمیضیں اور سفید پتلونیں پہنی ہوئی تھیں۔ یہ علامت تھی اس ارادے کی کہ یہ حکومت صاف ستھری ہوگی اور کرپشن سے یکسر پاک۔ لوگ بھی یہی توقع کر رہے تھے کہ یہ کابینہ ذاتی اور پبلک دونوں زندگیوں میں دیانت دار ہوگی۔ 
لی نے سب سے پہلے سی پی آئی بی (Corrupt Practices Invenstgation Bureau) کی تنظیم نو کی۔ یہ ادارہ انگریز حکومت نے بنایا تھا لیکن یہ تھانیداروں اور انسپکٹروں کے پیچھے پڑا رہتا تھا۔ لی کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ نچلی سطح پر کرپشن ختم کرنے کے لیے قوانین تبدیل کریں گے‘ صوابدیدی اختیارات ختم کریں گے اور بہت سی پابندیاں ہٹا دیں گے۔ سی پی آئی بی کو حکم دیا گیا کہ بڑی مچھلیوں کو بڑے بڑے مناصب پر پکڑو۔ جیسے جیسے مجرموں کو سزا دلوانے میں رکاوٹیں آتی گئیں‘ قوانین میں ترمیم کی جاتی رہی۔ ایک سال بعد یہ قانون بنایا گیا کہ رشوت یا ’’خدمت‘‘ میں ہر وہ شے شامل ہوگی جو قیمتی ہوگی! 
لی نے سنگاپور کو جو مچھیروں کا ایک بدحال پس ماندہ کیچڑ والی گلیوں سے بھرا ہوا قصبہ تھا‘ کس طرح دنیا کا ٹاپ کلاس ملک بنا دیا اس کی ایک مثال وہ خط ہے جو اس کے وزیر قومی ترقی تیہہ چیانگ وان نے خودکشی کرنے سے پہلے اُسے لکھا اور جو اس کالم کے آغاز میں پیش کیا گیا ہے۔ 1986ء میں سی پی آئی بی وان کے ایک پرانے دوست سے کسی معاملے میں تفتیش کر رہی تھی۔ دوران تفتیش اس نے بتایا کہ اُس نے وان کو چار چار لاکھ ڈالر کی دو ادائیگیاں کی تھیں۔ ایک 1981ء میں اور دوسری 1982ء میں۔ پہلی اس لیے کہ وان نے ایک ترقیاتی کمپنی کو اجازت دی تھی کہ وہ اس زمین پر قبضہ برقرار رکھے جو حکومت نے لینی تھی۔ دوسری اس لیے کہ وان نے ایک نجی کمپنی کو سرکاری زمین خریدنے میں مدد کی تھی۔ وان نے الزامات سے انکار کیا اور سی پی آئی بی کے ایک افسر سے مُک مکا کرنے کی کوشش کی۔ کابینہ ڈویژن نے اس کی اطلاع لی کو دے دی۔ اسی اثنا میں وان نے وزیراعظم لی سے ملنا چاہا لیکن لی نے تحقیقات ختم ہونے سے پہلے ملاقات کی اجازت نہ دی۔ ایک ہفتہ بعد وان نے خودکشی کر لی اور خودکشی سے پہلے وزیراعظم کو یہ خط لکھا۔ 
لی تعزیت کے لیے وان کے گھر گیا اور اس کی بیوہ سے ملا۔ لی کی حکومت نے کرپشن کو معاشرے میں اس طرح ناقابلِ قبول بنا دیا تھا کہ کوئی عزت دار شخص کرپشن کے الزام کے بعد زندہ ہی نہیں رہ سکتا تھا۔ بیوہ نے بتایا کہ عزت بچانے کا یہی ایک طریقہ تھا۔ بیوہ نے منت کی کہ موت کی تفتیش نہ کی جائے۔ یہ صرف اُس صورت میں ممکن تھا کہ ڈاکٹر طبعی موت کا سرٹیفکیٹ جاری کردے جو ممکن نہ تھا‘ نہ لی نے اس قانونی معاملے میں مداخلت کی۔ خودکشی کی تفتیش سے مزید خبریں چھپیں۔ بدنامی کے خوف سے بیوہ اور بیٹی نے ملک ہی چھوڑ دیا! 
یہ تھا‘ لی کا عزمِ صمیم۔ اس نے تیس تیس سال پرانے دوستوں کو رعایت نہ دی۔ اس کا پھل یہ ملا کہ عالمی سروے نے سنگاپور کو دنیا کا شفاف ترین ملک قرار دیا اور دس میں سے نو اعشاریہ اٹھارہ (9.18) نمبر دیے! ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے سنگاپور کو دنیا میں ساتواں شفاف ترین ملک قرار دیا! اندازہ لگایئے‘ دنیا کے سینکڑوں ممالک میں ساتواں نمبر! صرف دو عشروں کی محنت کے بعد! 
آج جو آئین آئین اور پارلیمنٹ پارلیمنٹ کا راگ الاپ رہے ہیں‘ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر‘ خدا کو حاضر ناظر جان کر‘ تنہائی میں اپنے آپ سے پوچھیں اور پوچھتے وقت یہ فراموش نہ کریں کہ موت شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ لقمہ ہاتھ میں ہو تو منہ میں ڈالنے کا وقت نہیں ملتا! سیاسی وابستگی ایک طرف‘ دیانت دوسری طرف۔ خدا کے لیے اور اس کے رسولؐ کے لیے اپنے دل سے پوچھیں کہ کیا یہ حکومت آئین کے حوالے سے پیپلز پارٹی سے بہتر ہے؟ کیا پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے لوگ صاف ستھرے ہیں؟ کیا ایک ایم این اے کو صوبے کا عملی طور پر بادشاہ بنانا آئین کے مطابق ہے؟ کیا صاحبزادی کو اربوں کھربوں پر بٹھانا آئین کے مطابق ہے؟ کیا ہر دورے میں بھائی اور صاحبزادے کو ساتھ لے جانا آئین کی رُو سے درست ہے؟ کیا صوبے کا وزیراعلیٰ وفاقی وزیر کی قیادت کرتے ہوئے دوسرے ملکوں میں جا کر ملکی معاملات طے کر سکتا ہے؟ تو پھر کیا پرویز خٹک‘ ڈاکٹر عبدالمالک اور قائم علی شاہ کے خاندان بلند مرتبہ نہیں کہ وہ بھی وزیر خارجہ بن کر ملک ملک پھریں اور جناب احسن اقبال فائلیں اٹھائے ان کے پیچھے پیچھے ساری دنیا کو نظر آئیں؟ کیا اربوں کے منصوبوں میں لوہے کی بھاری مقدار اوپن ٹینڈر کے ذریعے لی جا رہی ہے اور کیا اس بارے میں قوم کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟ کیا بھانجے کو اور سمدھی کو وزیر بنانا ناگزیر تھا؟ فاروق اعظم نے اپنے بیٹے کو کمیٹی میں ڈالا اور وضاحت کی کہ مشورے میں اُسے شریک کیا جائے گا لیکن خلافت کا امیدوار نہیں ہوگا۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ قرآن پاک میں کہاں لکھا ہے کہ بیٹا جانشین نہ ہوگا۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مالیات کا سربراہ شکایت کرتا ہے کہ صوبے کے گورنر نے بیت المال سے قرض لیا اور اب واپس نہیں کر رہا۔ گورنر قریبی عزیز تھا۔ (شاید فرسٹ کزن) امیر المومنین نے حکم دیا کہ رقم واپس کرو۔ جنگ کا زمانہ تھا۔ فرسٹ کزن ساتھ چھوڑ گیا لیکن پیشانی پر بل نہ پڑا۔ حضور! یہ نمازیں! یہ حرمین شریفین پر حاضریاں! سب بجا‘ لیکن حکمران کا حساب اس کے طرزِ حکومت سے کیا جائے گا۔ اس پروردگار کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں اس لکھنے والے کے بچوں کی جانیں ہیں‘ کل کوئی حمزہ شہباز‘ کوئی مریم نواز‘ کوئی عابد شیر علی‘ کوئی اسحاق ڈار کام نہ آئے گا! اس دن تو ماں بیٹے سے اور بیوی شوہر سے دور بھاگے گی! اور آپ تو خاندان کے 84… جی ہاں چوراسی افراد کے کیے کے جواب دہ ہوں گے جن کے بارے میں آپ کی آج کل سب سے بڑی حلیف پارٹی پیپلز پارٹی کے رہنما بابر اعوان نے پارلیمنٹ کے سامنے تذکرہ کیا ہے‘ تعداد بتائی ہے اور ابھی تک کسی گوشے سے تردید نہیں آئی! 
اقربا پروری! دوست نوازی! کسی سرمایہ کار کے جہاز میں بچے سوار ہو کر چین جا رہے ہیں‘ کبھی ڈونگا گلی سے سرکاری ہیلی کاپٹر اڑتا ہے اور ذاتی دوست کو لانے کے لیے پروں کو پھڑپھڑاتا سینکڑوں میل دور جاتا ہے۔ پائلٹ کی تنخواہ اور تیل کا خرچ ٹیکس ادا کرنے والے مفلوک الحال عوام کے ذمے! چودہ لاشیں گرتی ہیں۔ چودہ خاندان خون کے آنسو روتے ہیں اور برادرِ خورد ڈنکے کی چوٹ اپنے پسندیدہ صحافیوں کو کہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ اگر ثابت ہو جائے کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ گولی چلانے کا حکم میں نے دیا تھا تو مستعفی ہو جائوں گا۔ پوری دنیا حیرانی سے دیکھ رہی ہے کہ اپنی فکر ہے! جب کہ صوبے کا حاکم اعلیٰ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ گولی چلانے کا حکم دینے والے کو ڈھونڈے اور سزا دے۔ 
نہیں! عالی جاہ! نہیں! نہیں ظل الٰہ نہیں! پاکستان کے عوام لیبیا‘ مصر یا شام کے عوام کی طرح تین تین عشروں تک صبر کرنے والے نہیں! برصغیر کا مزاج اور ہے! تاریخ پڑھیے! اور تاریخ پڑھتے وقت اس قائداعظم کے بارے میں بھی کچھ پڑھ لیجیے گا جو ایک ایک سرکاری پائی کا حساب دیتا تھا۔ جس نے بستر مرگ پر لیٹے ہوئے جرابیں واپس کر دی تھیں کہ نہیں! میں یہ نہیں پہنوں گا مہنگی ہیں! آپ کی حشر کے دن‘ قائداعظم سے ملاقات ہو تو انہیں اپنی کروڑوں روپے کی گھڑی ضروری دکھایئے گا۔ خوش ہوں گے! تھپکی دیں گے! آپ کی حکومت اتنی میلی کچیلی ہے کہ ظفر اقبال کا شعر یاد آ رہا ہے (بہ تصرف ادنیٰ)   ؎ 
مجھے غَسّال ہی نہلائیں گے اب 
بہت میلی کچیلی ہو گئی ہوں

Wednesday, August 20, 2014

خانہ بندوشوں کے خلاف سازش


جو لوگ اس خوش فہمی میں ہیں کہ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ تبدیلی لانے کے لیے کیے جا رہے ہیں وہ اس کہانی کو یاد کریں جس میں ایک کمبل پوش دیہاتی میلہ دیکھنے گیا تھا۔ میلے میں کمبل چوری ہو گیا۔ واپس آ کر اُس نے دہائی دی کہ میلے کا یہ سارا کھڑاک اُس کا کمبل چرانے کے لیے برپا کیا گیا تھا۔
عمران خان کا آزادی مارچ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا انقلاب مارچ بھی چند مخلصین کو پراگندہ خاطر کرنے کے لیے برپا کیا جا رہا ہے۔ یہ مخلصین وہ سیاسی مسافر ہیں جو بستر سروں پر رکھے‘ پوٹلیاں بغل میں دبائے‘ بقچیاں ہاتھوں میں اٹھائے نون لیگ کے خیمے میں ابھی ابھی آئے تھے۔ انہیں جیسے ہی معلوم ہوا کہ نون لیگ قوم کی بقا کے لیے اشد ضروری ہے‘ وہ ایک لمحہ کی تاخیر گوارا کیے بغیر اس میں شامل ہو گئے۔ ہمارے ایک دوست شہاب ہاشمی نے سوشل میڈیا کی دیوار پر پانچ تصویریں آویزاں کی ہیں۔ پہلی تصویر میں محترمہ ماروی میمن جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کھڑی ہیں۔ جنرل صاحب بادامی رنگ کی پتلون اور نیلی قمیض زیب تن کیے‘ جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں۔ دوسری تصویر میں محترمہ ہنزہ کی ٹوپی پہنے آسمانی رنگ کے دوپٹے میں ملبوس چودھری شجاعت کے ساتھ کھڑی ہیں۔ تیسری تصویر میں سیاہ رنگ کا دوپٹہ اوڑھے چودھری پرویزالٰہی کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ چوتھی تصویر میں عمران خان تقریر کر رہے ہیں اور ماروی میمن ان کے بائیں طرف سرخ دوپٹہ اوڑھے تشریف فرما ہیں۔ پانچویں تصویر میں میاں نوازشریف گفتگو کر رہے ہیں یا شاید تقریر… اور یہی محترم خاتون ان کے ساتھ بیٹھی مسکرا رہی ہیں۔ اب آپ خود انصاف کیجیے‘ اتنے خیمے جھانکنے کے بعد جب انہیں تھوڑی دیر کے لیے قرار نصیب ہوا تو عمران خان اور طاہرالقادری نے انہیں پھر آمادۂ سفر کرنے کے لیے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کا تماشا کھڑا کردیا۔ یہ سازش صرف ماروی میمن کے خلاف نہیں‘ زاہد حامد‘ عمر ایوب خان اور طارق عظیم جیسے زعماء بھی اس سازش کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اللہ کے بندو! یہ مردانِ کار‘ یہ مخلصین‘ تلاشِ بسیار کے بعد نون لیگ کے قافلے میں پہنچے ہی تھے کہ تم لوگ پھر انہیں خانہ بدوش کرنے آ گئے ہو۔ ان میں صرف زاہد حامد وہ خوش بخت ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے دستِ شفقت سے محروم ہونے کے چند ثانیے بعد ہی شریف خاندان کی آغوشِ محبت میں آ گئے تھے۔ بقیہ حضرات کو تو کافی دیر صحرائوں میں بھٹکنا پڑا۔ مرزا غالب کچھ دن قیام کرنے ایک نواب صاحب کے ہاں مہمان ہوئے۔ نواب صاحب کا کہیں جانے کا پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا۔ وہ پالکی میں بیٹھے اور مرزا صاحب کو کہا خدا کے حوالے‘ مرزا صاحب بولے کہ خدا نے آپ کے حوالے کیا تھا‘ آپ پھر خدا کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شاہی خاندان ان مخلصین کو خدا حافظ کہے تو یہ بھی آگے سے غالبؔ والا شکوہ کریں! اور پھر سامان اٹھا کر نئی منزلوں کی تلاش میں چل پڑیں اور حافظؔ کا یہ شعر رو رو کر پڑھیں   ؎
ما آزمودہ ایم درین شہر بختِ خویش
بیرون کشید باید ازین ورطہ رختِ خویش
’’ہم اس شہر میں اپنی قسمت آزما چکے۔ اب اس بھنور سے کشتی نکال لینی چاہیے‘‘
پانی پُرسکون ہو تو قیام میں مزا آتا ہے۔ تلاطم برپا ہو جائے تو ڈوبتے ہوئوں کو چھوڑو اور نئے پانیوں کی تلاش میں نکل پڑو۔ آج جنرل پرویز مشرف بھنور کے بیچ میں ہیں۔ طارق عظیم نظر آ رہے ہیں نہ زاہد حامد نہ ماروی میمن‘ نہ عمر ایوب خان اور نہ ہی دس بار وردی میں منتخب کرانے والے چودھری پرویزالٰہی! جنرل صاحب ہاتھ ملتے ہیں اور گنگناتے ہیں   ؎
ملی ہیں آخرِ شب خلعتیں جنہیں اظہارؔ
وہی تو چند قبیلے مرے موافق تھے!
پیش منظر پر آزادی مارچ اور انقلاب مارچ یوں چھائے ہیں کہ ’’سائڈ شو‘‘ پر لوگ توجہ ہی نہیں دے رہے حالانکہ سائڈ شو ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی 26 ویں برسی پر منعقد ہونے والی دعائیہ تقریب میں ان کے صاحبزادے نے کمال کا نکتہ بیان کیا ہے… ’’اگر عوام کی منتخب کردہ حکومت کو ختم اور وزیراعظم کو برطرف کیا گیا تو پھر آئندہ سیاسی جماعتیں الیکشن کی تیاریاں نہیں بلکہ عوامی جتھے تیار کیا کریں گی‘‘۔
انگریز ایسے موقع پر ایک خوبصورت فقرہ کہتے ہیں: Look! who is talking!۔ یعنی سبحان اللہ! یہ کہہ کون رہا ہے؟ جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تو منتخب کردہ تھی ہی نہیں! ہائے! سیاسی مسافرت! ہائے سیاسی غربت! یاد رہے کہ غریب‘ بے وطن کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد مالی غربت نہیں۔ اسی لیے مسافر کو غریبِ شہر بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ ع ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے! یوں بھی کہا گیا ہے کہ   ؎ 
دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو
ہم نے جب وادیٔ غربت میں قدم رکھا تھا
یہ وضاحت اس لیے کی کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمارے منہ میں خاک! ہم جنرل صاحب کے صاحبزادے کو غریب‘ مالی حوالے سے کہہ رہے ہیں۔ ہماری مراد تو سیاسی مسافرت ہے! شریف برادران کو جنرل پرویز مشرف نے عہدِ حاضر کا شہنشاہِ ہمایوں بنایا تو ضیاء الحق کے صاحبزادے بیرم خان نہ بنے۔ انہوں نے اُن تورانی سرداروں کی پیروی کی جو شیر شاہ سوری سے آ ملے تھے۔ تقریباً ایک عشرہ جنرل پرویز مشرف کی مصاحبت میں گزرا۔ بیچ میں پیپلز پارٹی کا زمانہ آن پڑا۔ اب خدا خدا کر کے یاد آیا کہ بڑے میاں صاحب کو تو والدِ محترم نے اپنی زندگی لگ جانے کی دعا دی تھی۔ مراجعت ہوگئی۔ ابھی دم بھی نہ لیا تھا کہ یہ مارچ شروع ہو گئے۔ اب ’’عوام کی منتخب کردہ حکومت‘‘ کی حفاظت پر کمر نہ کسیں تو اور چارہ بھی کیا ہے! ع
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
محمد حسین آزاد نے غالباً ذوق کے بارے میں آبِ حیات میں لکھا ہے کہ جس ڈیوڑھی کے سامنے ہاتھی جھومتے تھے‘ وہاں خاک اُڑ رہی تھی!
یہاں نوبت بجتی تھی‘ یہاں ہاتھی جھومتے تھے
دل ہے اب اُجڑا دروازہ‘ یہاں کوئی نہیں
جنرل ضیاء الحق مرحوم کی برسی زمانے نے وہ بھی دیکھی ہے کہ سینکڑوں بسوں کے قافلے منزلوں پر منزلیں مارتے آتے تھے۔ فیصل مسجد کے اردگرد انسانی سروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا تھا۔ میاں نوازشریف موجود ہوتے تھے۔ وہ صحافی بھی‘ بلکہ صحافیوں کا وہ گروہ بھی اشکبار آنکھوں کے ساتھ حاضر ہوتا تھا جس نے ضیائی دور میں آنکھوں کو خوب خوب ٹھنڈا کیا تھا۔ اب وہ دن آ گیا ہے کہ پریس لکھتا ہے… ’’اس موقع پر مختلف سیکٹروں سے آئے ہوئے مسلم لیگ (ض) اور ضیا فائونڈیشن کے عہدیداران کی بھی بڑی تعداد موجود تھی‘‘۔
کیا بے ثباتی ہے اور گردشِ زمانہ کی کیا بے رحمی ہے۔ وقت کی چکی پیستی جاتی ہے۔ کسی کو چھوڑتی نہیں۔ بھٹو صاحب نے کہا تھا میری کرسی بہت مضبوط ہے اور کرسی الٹ گئی۔ پھر وزارتِ خزانہ میں ایک اجلاس میں ضیاء الحق صاحب نے کہا میرا ابھی جانے کا کوئی ارادہ نہیں! اور چلے گئے۔ کاش! یہ نکتہ وہ شاہی خاندان بھی سمجھ جائے جس کے بارے میں ڈاکٹر بابر اعوان نے روزنامہ دنیا کے مطابق‘ کل پارلیمنٹ ہائوس کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ… ’’ایک ہی خاندان کے 84 افراد سرکاری عہدوں پر فائز ہیں!‘‘۔ حبیب جالب کی انقلابی شاعری کے ساتھ اگر خواجہ حیدر علی آتش کے عبرت آموز اشعار بھی انگلی لہرا کر ترنم سے پڑھ لیے جائیں تو کیا حرج ہے   ؎
زمینِ چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

Tuesday, August 19, 2014

لیکن اُسے جتا تو دیا‘ جان تو گیا


’’پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اعتماد کا ووٹ لیں‘‘۔
یہ ہے وہ مشورہ جو اسفند یار ولی خان نے وزیراعظم کو دیا ہے۔ یہ ایک خالص ’’جمہوری‘‘ مشورہ ہے جو مفت دیا گیا ہے۔ اسفند یار ولی خان کی اپنی پارٹی میں بھی مثالی جمہوریت ہے۔ آپ پارٹی کے مرکزی انتخابات میں پانچویں بار پارٹی کے ’’بلا مقابلہ‘‘ صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ایسے ہی انتخابات کے نتیجہ میں حسنی مبارک، حافظ الاسد ان کے صاحبزادے بشار الاسد اور صدر قذافی سالہا سال کیا، عشروں تک ’’بلا مقابلہ‘‘ منتخب ہوتے رہے۔ ہارون الرشید جب لکھتے ہیں کہ اے این پی ایک صدی سے پختونوں کو لسانی اور نسلی تعصب کا سبق پڑھا رہی ہے تو سو فی صد سچ ہے۔ ایک با صلاحیت کمیونٹی کو، جو پورے برصغیر میں صدیوںسے ٹیلنٹ ثابت کر رہی ہے، ایک صوبے میں کیا، ایک صوبے کے چند حصوں میں مقید کر کے رکھ دیا۔ یہاں تک کہ صوبے کا چیف منسٹر لگانا ہو یا کراچی سے سینیٹر بنوانا ہو، اپنے ہی خاندان کو فوقیت دیتے رہے ہیں۔ یہ سانحہ بھی ماضی قریب ہی میں ہوا کہ ان کے کارکنوں نے اردو میں بات سننے سے انکار کر دیا، اس لیے کہ پنجاب ہائی کورٹ نے کوئی بات کالا باغ ڈیم کے بارے میں کہہ دی تھی، اس کا غصہ بیچاری اردو پر نکالا جا رہا تھا۔ اسفند یار ولی خان کو کارکنوں کی منت سماجت کرنا پڑی کہ اردو میں بات نہیں کریں گے تو صحافیوں تک موقف کیسے پہنچائیں گے۔ یہ ہے وہ ’’کنٹری بیوشن‘‘ جو اے این پی کا پاکستانیت میں ہے! تب اس کالم نگار نے لکھا کہ اردو کی ترویج و اشاعت میں تو پختون ہمیشہ سے صف اول میں رہے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین سے جوش ملیح آبادی تک، ہمارے دوست اطہر شاہ خان جیدی سے لے کر محسن احسان اور احمد فراز تک، سب پختون ہی تو تھے اور ہیں!
لیکن اصل بات کرنے کی اور تھی۔ تمہید طولانی ہوگئی۔ وزیراعظم پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیں۔ بہت خوب! کون سی پارلیمنٹ؟ عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کیا ہے۔ اس کے سیاسی مضمرات و نتائج ایک لمحے کے لیے ایک طرف رکھ دیجیے، انہوں نے ٹیکس نہ دینے کی اپیل کی ہے۔ کیا پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے خاندانی اور نسلی ارکان ٹیکس دے رہے ہیں؟ کیا پورے پاکستانی پریس میں یہ حقیقت کئی بار و اشگاف نہیں ہوئی کہ جناب امین فہیم کا نیشنل ٹیکس کارڈ ہی نہیں بنا ہوا۔ انہوں نے گزشتہ دو سال میں کتنا ٹیکس دیا ہے؟ محترمہ فہمیدہ مرزا اور ان کے میاں نے کتنا دیا ہے؟ جناب زرداری نے کتنا دیا ہے؟ شریف خاندان نے کتنا دیا ہے؟ گوشواروں میں تو ارکان پارلیمنٹ کے پاس اپنی گاڑیاں تک نہیں! کیا یہ سول نافرمانی نہیں؟ کیا اپنے ملک کو ٹیکس نہ ادا کرنا حب الوطنی ہے یا کچھ اور؟
دانش ور اور تجزیہ کار دلائل دے رہے ہیں۔ کچھ تو دور کی کوڑی بھی لا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زمانہ وہ نہیں کہ دارالحکومت پر چڑھائی کی جائے۔ بالکل درست! لیکن خاندان تغلق، خاندان خلجی اور خاندان غلاماں کا زمانہ بھی تو نہیں رہا! بجلی کے بل نہ دینا بُری بات ہے۔ عمران خان سمیت کسی کو زیبا نہیں کہ عوام کو بجلی کے بل نہ دینے پر اکسائے۔ لیکن اس بجلی کا کیا ہو گا جو مسلسل چوری ہو رہی ہے؟ اور چور پکڑے نہیں جا رہے۔ اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ کارخانہ دار اور تاجر بجلی چوری نہیں کر رہے۔ اور کیا عوام کو بتایا جائے گا کہ کتنی بجلی پورے لاہور شہر کے لیے مختص ہے اور کتنی صرف رائے ونڈ کے محلات کے لیے؟دارالحکومت کا تو سب کو معلوم ہے کہ جتنی بجلی پورے شہر کے لیے میسر ہے ،اس سے دوگنا رسد ریڈ زون کے رہنے والے عمائدین واُمراء کے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ یہ کون سی پولیٹیکل سائنس ہے کہ بڑے بڑے سیاستدان ٹیکس نہ دیں تو پارلیمنٹ میں متمکن ہوں اور عوام ٹیکس نہ دیں تو بغاوت ہے اور کچھ اسے غداری کا نام بھی دیں!جناب عابد شیر علی سمیت حکمران طبقے کے کسی فرد کو معلوم ہی نہیں کہ لوڈشیڈنگ کس چڑیا کا نام ہے۔بل کئی گنا زیادہ ہو گئے ہیں۔ بجلی کی رسد کئی گنا کم ہے۔پاکستانیوں کو دو واضح طبقات میں بانٹ دیا گیا ہے۔ایک کے لیے سہولیات کالامتناہی انتظام ۔قیمت ادا کریں یا نہ کریں ،ٹیکس دیں یا نہ دیں۔دوسرے کے لیے سہولیات نپی تلی۔ طویل وقفوں کے ساتھ‘ لیکن ادائیگی پوری سے بھی زیادہ۔بیٹوں کی شادیوں پر کنڈے لگانے والے اس ملک میں معززین ہیں۔تو پھر غیر معزز کس کو کہا جائے گا؟
نہیں معلوم عمران خان کے آزادی مارچ کا انجام کیا ہے۔سول نافرمانی تحریک کس رُخ بیٹھتی ہے اور کس انجام سے دوچار ہوتی ہے۔لوگوں کی تعداد بھی متنازع ہے ۔دس لاکھ افراد کے جمع نہ ہونے کے طعنے سنائی دے رہے ہیں۔طاہر القادری کے انقلاب مارچ کا انجام بھی ابھی تک واضح نہیں ہے ۔کامیابی ہوتی ہے یا نہیں۔لیکن اگر یہ کامیاب نہیں ہوتے تو کسی کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ان کی کچّی ہو گئی۔عمران خان اور طاہر القادری تو اقتدار میں بھی نہیں،لیکن جو اقتدا ر میں آئے ہیں انہوں نے کلی اختیارات کے باوجود اب تک کیا کیا ہے ؟یہی لوڈشیڈنگ تھی کہ مینار پاکستان پر اس کے خلاف خیمے تنے گئے تھے اور ہاتھوں سے پنکھے جھلا رے گئے تھے۔اب بھی مینار پاکستان پر وہی لوگ حکمران ہیں اور وہی لوڈشیڈنگ ہے بلکہ اس سے زیادہ۔اب خیمہ زن کیوں نہیں ہو رہے؟اب دستی پنکھے کہاں گئے؟ وہ جو کہا گیا تھا کہ فلاں مقتدر شخصیت کو گلیوں میں گھسیٹیں گے اور علی باباچالیس چور کا نعرہ عام کیا گیا تھا! وہ سب منظر نامہ غائب کیوں ہو گیا ہے؟
عوام شاہراہوں پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ان کے سروں کے اوپر فضائوں میں کیا ہو رہا ہے؟ایک خصوصی جہاز پر سراج الحق صاحب کو ’’منگوایا‘‘ جارہا ہے۔ایک اور ہیلی کاپٹر اڑتا ہے اور پنجاب کے حکمران اعلیٰ کو اسلام آباد سے چک لالہ ایئر پورٹ لے جاتا ہے۔پھر وہاں سے ان کا خصوصی جہاز انہیں لاہور لے جاتا ہے۔زمانے کا اُلٹ پھیر دیکھیے۔ کیا اقبال نے اس صورتحال کے لیے کہا تھا؟     ؎
ہوائیں ان کی، فضائیں ان کی، سمندر ان کے، جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیوں کر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
سب کچھ تو اُن کے تصرف میں ہے۔خاک زادوں کے پاس خاک کے سوا کچھ نہیں!
سنا ہے‘عطاء اللہ شاہ بخاری تقریر کرتے تھے تو پو پھٹے تک کوئی نہیں ہلتا تھا۔آخر میں کبھی کبھی یہ شعر پڑھا کر تے     ؎
افشائے رازِ عشق میں گو ذلّتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا جان تو گیا‘
جتانے میں کامیابی ہو جائے تو آدھی لڑائی جیت لی جاتی ہے!

Saturday, August 16, 2014

کھیل کا منطقی انجام


غالب کو کیا علم تھا کہ سو ڈیڑھ سو سال بعد قسمت اس سے مذا ق کرے گی۔ جس فارسی کلام پر اسے ناز تھا اور جسے اس نے ’’نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ کہا تھا ، کتاب فروشوں کے پاس ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا اور جس ’’ مجموعہ اردو ‘‘ کو بے رنگ کہا تھا وہ بیسٹ سیلر رہے گا۔ سو ڈیڑھ سو صفحات کا دیوان غالب (اردو) ادبی پیش منظر پر چھاپا ہوا ہے۔ لیکن ایک اور بھی کتاب ہے، سو ڈیڑھ سو صفحوں کی…یا شاید اس سے بھی ذرا مختصر، جس نے اپنے مصنف کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ پطرس بخاری نے انگریزی میں بھی بہت کچھ لکھا، لیکن مختصر کتاب مضامین پطرس، مزاح نگاروں میں پطرس کو سرفہرست رکھے ہوئے ہے اور رکھے رہے گی !
عمران خان اور طاہرالقادری کے عوامی جلوسوں پر بھانت بھانت کے تبصرے سن کر اور پڑھ کر پطرس یاد آگئے۔ مرزا نے بائیسکل کے بارے میں کمال کا فقرہ لکھا جو پامال اور زبان زد خاص و عام ہونے کے باوجود ہمیشہ تازہ رہتا ہے۔ سائیکل کی ہر شے بجتی ہے سوائے گھنٹی کے !! یہی کچھ ہمارے تجزیہ کار بھی کررہے ہیں۔ فوجی مداخلت یا عدم مداخلت کی بات بھی ہورہی ہے۔ جاوید ہاشمی کی رخصتی اور مراجعت پر بھی تبصرے ہورہے ہیں۔ طاہرالقادری کے ماضی اور یوٹرن لینے پر بھی باتیں ہورہی ہیں جن میں سے اکثر درست بھی ہیں۔ چودھری نثار اور شہبازشریف صاحبان کی آرمی چیف سے ملاقات بھی پیش منظر پر چھائی ہوئی ہے۔ دوسری طرف سے جنرل پرویز مشرف پر چلانے جانے والے مقدمے کو سارے شورو غوغا کاباعث قرار دیا جارہا ہے۔ صرف عوام کی بات نہیں کی جارہی ! گویا ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ جیسے طاہرالقادری اور عمران خان جادوگر ہیں۔ جیسے لاکھوں عوام ہپناٹزم کے زیراثر باہر آنکلے ہیں۔
ایک دانش ور دور کی کوڑی لائے کہ عام آدمی نظر نہیں آرہا ! درست فرمایا! عام آدمی بیچارہ تو پارلیمنٹ میں بیٹھا ہے اور یہ جو لوگ زمان پارک کی طرف یا منہاج القرآن ہیڈ کوارٹر کی طرف رواں تھے یہ سارے کروڑ پتی تھے اور خدام اور نقیب ان کے جلوس میں تھے!
اللہ کے بندو! تاریخ کے جس مرحلے نے آنا ہے‘ اسے روکا نہیں جاسکتا! ایک طرف بھارت ہے جس کے لیڈروں کے بیرون ملک اثاثے ہیں نہ بینک اکائونٹ۔ دوسری طرف ایران ہے جس کے حکمرانوں کے سرے محل ہیں نہ پیرس کے مضافات میں اڑھائی سو سال پرانے قصر! ریلوے سٹیشن پرچائے بیچنے والا وزیراعظم بن گیا ہے۔ایک پائی کرپشن کا الزام نہیں ! من موہن سنگھ کو دیانت دار وزیراعظم قرار دیاگیا اور احمدی نژاد کو‘ جب وہ تہران کا میئر تھا‘ بہترین میئر کہا گیا۔ فرش پر بیٹھ کرگھر سے لایا ہوا کھانا کھاتا تھا۔چھوٹا سا گھر۔ کھٹارہ گاڑی۔ رہے نام اللہ کا !!
تاریخ کی یلغار سے پاکستان کو کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ تبدیلی آنی ہے۔ آکر رہے گی۔ تبدیلی کے اس پروسیس میں کسی عمران خان ، کسی طاہرالقادری ، کسی نوازشریف ، کسی آصف زرداری کی کوئی اہمیت نہیں ۔ تاریخ ان کے گرد نہیں گھوم رہی۔ تاریخ ان عوام کے گرد گھوم رہی ہے جن کی خاطر قدرت نے ان لیڈروں کو سامنے کیا ہے۔ آج کتنے لوگوں کو گورباچوف کا نام یاد ہے؟ لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ روس میں صرف روس شامل ہے، باقی ریاستیں الگ ہیں۔ ان ریاستوں میں جمہوریت کلی طور پر نہیں آئی۔ ابھی تاریخ کے مرحلے طے ہورہے ہیں۔
وہ ایک عام سا نوجوان تھا جس کاانٹرویو ٹی وی پر سنایا جارہا تھا۔ چند لمحوں کا انٹرویو… ’’ہم اپنا پاکستان واپس لینے جارہے ہیں۔ ایک طبقے نے ہم سے ہمارا پاکستان چھین لیا ہے…‘‘ کیا اسے دام دیے گئے تھے ؟ کیا جنرل پرویز مشرف کے غم میں وہ نڈھال تھا؟ کیا وہ چودھریوں کو یا شیخ رشید کو برسراقتدار لانا چاہتا تھا؟
قائداعظم ، لیاقت علی خان ، عبدالرب نشتر، چودھری محمد علی اور چند اور رہنما۔ پھر اس کے بعد دو طبقات ا لگ ہوگئے۔ کہاں وہ دن جب کابینہ کی میٹنگ کے لیے چائے کا پوچھا گیا تو قائداعظم نے کہا کہ گھر سے چائے پی کر آئیں اور کہاں یہ وقت کہ ایک ایک وزیر … ایک ایک عوامی نمائندہ کروڑوں کا پڑرہا ہے۔ کوئی ہے جو حساب لگاکر بتائے کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا بطور سپیکر قوم کو کتنے میں پڑیں۔ سابق وزراء اعظم اور سابق صدور کیا کیا کچھ لے رہے ہیں۔ کابینہ کے اجلاس پر کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ ایک ایک دن کا وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کا خرچ لاکھوں میں ہے۔ کروڑوں اربوں دوروں پر لگ رہے ہیں۔ کون سے ’’ سرکاری ‘‘ دورے ؟ جن میں بھائی بھی ساتھ ہوتا ہے، صاحبزادہ بھی۔تیل نہیں نکلا لیکن طور اطوار مشرق وسطیٰ کے شہزادوں کے ہیں۔ گاڑیاں، گھڑیاں ، ذاتی کاروبار، پہریدار، محلات، کسی دن جزیروں اور بجروں (Yachts)کی خبریں بھی آجائیں گی! تجزیہ کار یہ بھی تو دیکھیں کہ عوام کس حال میں رہ رہے ہیں۔ ہر شخص کے پاس یو پی ایس تو نہیں ! ہرگھنٹے بعد بجلی جاتی ہے۔ وہ جو حسرت موہانی نے جیل میں کہا تھا   ؎
کٹ گیا قید میں ماہ رمضان بھی حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
ملک عوام کے لیے جیل بن گیا ہے۔ اندھیرا، فلک کو چھوتی قیمتیں ! ہر مہینے گھر کے سودا سلف میں آئٹم کم کرنے پڑتے ہیں۔ پھل ریڑھیوں پر پڑے گل سڑ جاتے ہیں۔ دو اڑھائی سو روپے کلو سیب کون خرید سکتا ہے۔ کتنوں کے بچوں کو صبح انڈا نصیب ہورہا ہے۔ انگریزوں نے مرغی کو عام کیا تھا۔ ایک خاندان نے مرغبانی پر اپنی اجارہ داری قائم کی اور غریبوں کے منہ سے مرغی چھین لی۔ پوری پوری زندگیاں چار مرلے کے مکان کی حسرت میں کٹ جاتی ہیں۔ لوگ طاہرالقادری اور عمران خان کے ساتھ نہ نکلیں تو کیا کریں۔ ہرچہ بادا باد !کچھ نہ ہوا تو خواری کے گڑھے میں تو پہلے ہی گرے پڑے ہیں۔ اسلام آباد جاکر دھرنا دینے سے کچھ ملنے کی ، کچھ بدل جانے کی امید تو ہے !!
حکمران جماعت کے وزراء اور عمائدین ، تنہائی میں دل پر ہاتھ رکھ کر خدا کی قسم اٹھا کر‘ اپنے آپ سے کہیں کہ نوکریاں سفارش کے بغیر مل رہی ہیں ! نہیں ! وہ کبھی نہیں کہیں گے۔ تعلیم کا شعبہ غیر منظم، شتربے مہار ہے، کسی میں اتنا وژن بھی نہیں کہ منڈی کی طلب کے مطابق تعلیم کے شعبے کو ترتیب دے ۔ بچے چودہ جماعتیں پاس کرتے ہیں پھر سولہ۔ ایم بی اے شروع ہوا تو بھیڑ چال چل پڑی۔ اب ایک اینٹ الٹیں تو نیچے سے آٹھ ایم بی اے نکلتے ہیں۔ آٹھ کے آٹھ بے روزگار! اقربا پروری کی معراج دیکھیے کہ دارالحکومت کا پولیس افسر اپنے افسر اعلیٰ کا فون نہیں سنتا تھا‘ اس لیے کہ شاہی خاندان سے عزیز داری تھی۔ جہاں اقربا پروری سے دارالحکومت کا امن وامان نہ بچا ہو، وہاں سفارش کے بغیر نوکری کس کو ملے گی !
انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کامیاب نہ ہوئے تو تاریخ منہ چھپا کر لوٹ نہیں جائے گی ! ایسا نہیں ہوتا ظل الٰہی ! ایسا نہیں ہوتا ! تاریخ پسپا نہیں ہوتی۔ پیچھے پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہوتی ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری منظر سے ہٹ جائیں گے۔ عوام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہیں خواری کے گڑھے سے نکالنے کے لیے کوئی اور سامنے آجائے گا! پاکستان آسمان سے نہیں اترا کہ چند خاندانوں کی شکار گاہ بنا رہے۔ یہ اسی زمین کا حصہ ہے، جہاں تاریخ کے مراحل طے ہیں۔ تبدیلی کے راستے متعین ہیں۔ اگر بھارت اور ایران کے حکمران پائی پائی کا حساب دے سکتے ہیں تو ان دونوں ملکوں کے درمیان واقع پاکستان کے حکمران بھی پائی پائی کا حساب دیں گے۔ ضرور دیں گے! آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں  ؎
یہ کھیل اب منطقی انجام کو پہنچے گا اظہار
ذرا اک صبر… عزت کے نشاں گرنے لگے ہیں

Wednesday, August 13, 2014

صرف استعفیٰ؟


پیر کے دن کچہری ایک افسر کو ٹیلی فون کیا کہ ایک جائز کام کے لیے راستہ سہل کر دیں۔ معلوم ہوا کہ کنونشن سنٹر ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ یہ تو شام کی خبروں میں اور دوسرے دن کے اخبارات سے معلوم ہوا کہ کنونشن سنٹر میں وزیراعظم ’’ویژن 2025ء‘‘ کے سلسلہ میں تقریب سے خطاب کرنے آئے ہوئے تھے۔ چند دن پہلے ہمارے ایک قاری نے انگلستان سے شکوہ کیا کہ کالم نگار ’’چھوٹے چھوٹے‘‘ مسائل میں الجھ جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک ’’چھوٹا‘‘ ہی مسئلہ ہے۔ حکومت کے سربراہ جہاں تشریف لاتے ہیں وہاں شاہراہیں تو بند ہوتی ہی ہیں۔ خلجی‘ تغلق اور شاہ جہان کے زمانوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے حاجب اور نقیب چاروں طرف پھیل تو جاتے ہی ہیں اور ہٹو بچو کے شور سے کان تو پھٹتے ہی ہیں۔ ویژن 2025ء کا کمال دیکھیے کہ کچہریوں‘ تھانوں‘ دفتروں سے افسر اور اہلکار بھی‘ جائے ’’واردات‘‘ پر مامور کر دیے جاتے ہیں۔ سائل جائیں بھاڑ میں اور حکومت کا کاروبار جائے جہنم میں۔ یہ تو ’’ویژن‘‘ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر ویژن نہ ہو تو کیا ہوگا! 
اب دوسری طرف انقلاب کے ضمن میں بھی ایک ’’چھوٹی‘‘ سی خبر دیکھ لیجیے تاکہ انقلاب کی حقیقت بخوبی سمجھ میں آ سکے۔ گجرات کے چودھری صاحبان کو یقین دلایا گیا ہے کہ ان کی تینوں رہائش گاہوں پر فُول پروف یعنی زبردست سکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے۔ پولیس کے ضلعی سربراہ نے یہ یقین دہانی بنفس نفیس کرائی ہے۔ یوں تو انقلاب لانے کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ چودھری صاحبان کے علاوہ ہزاروں لاکھوں عقیدت مند بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے ہیں لیکن سکیورٹی صرف گجرات کی رہائش گاہوں اور لال حویلی کے ضمن میں بروئے کار لائی جا رہی ہے۔ لگتا ہے یہ انقلاب کا وہی ایڈیشن ہے جو اس سے پہلے خادمِ اعلیٰ کئی بار لا چکے ہیں۔ حبیب جالب کی انقلابی شاعری‘ دھواں دار پرجوش تقریریں‘ مشہور زمانہ لہراتی انگشتِ شہادت اور رائے ونڈ سے لے کر لاہور تک پھیلی ہوئی رہائش گاہوں پر مامور درجنوں نہیں‘ بیسیوں نہیں‘ سینکڑوں پولیس اور ایلیٹ فورس کے اہلکار! ع 
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی 
ویژن 2025ء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو دہشت گردی میں دھکیلنے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے جن کی وجہ سے اربوں ڈالرز اور ہزاروں جانوں کا نقصان ہوا۔ کیا واقعی وزیراعظم سنجیدگی سے یہ احتساب کرنا چاہتے ہیں؟ تو پھر بسم اللہ! انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ ملک کی مقدس سرحدیں ساری دنیا کے جنگجوئوں کے لیے کس نے کھولی تھیں؟ اسلحہ کی ریل پیل کس کے زمانے میں ہوئی تھی؟ پاسپورٹ ویزا اور دوسرے قوانین کی بے حرمتی کر کے غیر ملکیوں کو پورے ملک میں کس نے پھیلایا تھا؟ کس کے زمانے میں خیبر پختونخوا کے مزدوروں کو کام ملنا بند ہو گیا تھا کہ ترجیح غیر ملکیوں کو دی جاتی تھی؟ جائیدادیں‘ ٹرانسپورٹ‘ کاروبار‘ سب کچھ ان پر نچھاور کردیا گیا تھا۔ اپنے بچوں کو امریکہ میں تعلیم دلانے والوں‘ کاروبار کرانے والوں اور ٹھیکے دلوانے والوں نے دوسروں کے بچوں کو شہادت کا راستہ دکھلایا تھا۔ 
اور وزیراعظم یہ کیوں فرما رہے ہیں کہ دہشت گردی میں دھکیلنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے؟ یہ مطالبہ وہ کس سے کر رہے ہیں؟ کیا وہ کسی احتجاجی جلوس کی قیادت کر رہے ہیں؟ عالی جاہ! ظلِ الٰہ! آپ تو خود سربراہِ حکومت ہیں! یہ احتساب تو آپ نے کرنا ہے۔ مشینری آپ کی تحویل میں ہے۔ اللہ کا نام لے کر یہ کام کر ڈالیے۔ 
ایک اور ’’چھوٹی‘‘ سی خبر۔ جے یو آئی (فضل الرحمن گروپ) کے انتخابات میں مولانا خان محمد شیرازی نے سخت ترین چیلنج پیش کیا۔ ذرائع کے مطابق مولانا کو منانے کی ساری رات کوششیں ہوتی رہیں کہ وہ رضاکارانہ طور پر دستبردار ہو جائیں لیکن وہ اڑے رہے۔ یہاں تک کہ جب پیر کی صبح کو جنرل کونسل کے ارکان پورے ملک سے اکٹھے ہو گئے تب بھی کوشش جاری رہی اور مولانا شیرازی مزاحمت کرتے رہے۔ پھر وہ دست بردار ہوئے لیکن دستبرداری سے پہلے ارکان سے خطاب کیا اور مبینہ طور پر مولانا فضل الرحمن کی اقرباپروری کی پالیسیوں کی شدید مخالفت کی۔ 
اگر یہ خبر صحیح ہے تو پھر جماعت اسلامی کی طرح جے یو آئی بھی جمہوریت میں مسلم لیگ کی نصف درجن شاخوں اور پیپلز پارٹی سے آگے نکل گئی۔ 
سودا قمارِ عشق میں شیریں سے کوہ کن 
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا 
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز 
اے روسیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا 
آج تک نہیں سنا کہ کسی نے میاں نوازشریف‘ چودھری شجاعت‘ آصف زرداری یا بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کے اندرونی انتخابات میں چیلنج کیا ہو‘ پھر اسے منایا گیا ہو اور پھر دستبرداری سے پہلے اس نے پارٹی سربراہ کی اقرباپروری کے خلاف تقریر کی ہو۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسا ایم کیو ایم میں ہوا نہ تحریکِ انصاف میں‘ کہ کسی نے الطاف حسین یا عمران خان کو چیلنج کیا ہو۔ مانا کہ جے یو آئی کا عمومی ریکارڈ قابلِ رشک نہیں ہے‘ وزارتوں اور کمیٹیوں کی سربراہی کے لیے جے یو آئی کی ’’جدوجہد‘‘ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی؛ تاہم جہاں تحسین جائز ہو‘ وہاں تحسین نہ کرنا قرینِ انصاف نہیں۔ 
بڑے بھائی وزیراعظم ہو کر مطالبہ کر رہے ہیں کہ فلاں معاملے میں فلاں کا احتساب ہونا چاہیے تو چھوٹے بھائی بھی پیچھے نہیں! تازہ ترین انٹرویو میں وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ’’خدا کو حاضر ناظر جان کر اور قوم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر شفاف تحقیقات کے نتیجے میں یہ ثابت ہو جائے کہ میں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ فائرنگ کے احکام دیے ہوں تو بلاتاخیر استعفیٰ دے دوں گا‘‘۔ 
اس بیان کا ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ کہ اٹھارہ کروڑ عوام بے وقوف ہیں‘ اور سیانے صرف آپ ہیں۔ جناب خادمِ اعلیٰ! آپ صوبے کے حکمرانِ مطلق ہیں اور جملہ امور آپ کے فرزندِ ارجمند چلا رہے ہیں۔ کیا سارا مسئلہ یہ ہے کہ فائرنگ کے احکام آپ نے دیے یا نہیں؟ حضور! آپ کی ذمہ داری یہ معلوم کرنا ہے کہ فائرنگ کے احکام کس نے دیے تھے؟ آپ کو صرف اپنی جان کی کیوں فکر ہے؟ اگر فائرنگ کے احکام آپ کے کسی ماتحت نے دیے تو کیا آپ بطورِ حاکم اعلیٰ‘ ذمہ دار نہیں؟ یہ تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ چودہ بے گناہ شہری دن دیہاڑے گولیوں سے بھون دیے گئے اور صوبے کا سربراہِ حکومت اعلان کرتا ہے کہ میں نے فائرنگ کے احکام نہیں دیے۔ تو پھر یہ معلوم کرنے کے لیے کہ فائرنگ کے احکام کس نے دیے‘ تُرکی‘ چین یا نائیجیریا کی حکومت سے التماس کیجیے کہ وہ اصل مجرم پکڑ کر آپ کے حوالے کریں۔ یوں بھی خارجہ امور بہت حد تک آپ ہی نمٹا رہے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اگر ثابت ہو جائے کہ فائرنگ کے احکام آپ نے دیے تو آپ مستعفی ہو جائیں گے‘ تو اگر خدانخواستہ یہ ثابت ہو جائے کہ چودہ انسان آپ کے حکم کے نتیجہ میں قتل ہوئے تو کیا یہ مقدمہ آپ کے محض استعفیٰ سے ختم ہو جائے گا؟

Monday, August 11, 2014

پیٹ خلقت کا


بوکھلاہٹ طاری ہو جائے تو ہر قدم الٹا پڑتا ہے۔ ہر کام غلط ہوتا ہے۔ ابھی تو یہی طے نہیں ہوا کہ ماڈل ٹائون میں چودہ لاشیں گرانے کا ذمہ دار کون ہے۔ اس سے زیادہ ضروری کام حکمرانوں کو یہ لگ رہا ہے کہ کینیڈا کی حکومت کے ساتھ ڈاکٹر طاہرالقادری کی غیر ملکی شہریت کا معاملہ اٹھائیں اور یہ تفتیش کریں کہ اس مذہبی لیڈر کے ٹیکس کے کیا واجبات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والوں سے ایک ایک پائی واجبات وصول کرنا تو آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے آپ نے پہلے طاہرالقادری کو چھوٹ کیوں دی؟ اور اس بات کا انتظار کیوں کیا کہ وہ لاہور پر چڑھائی کریں پھر آپ کی ٹیکس وصول کرنے والی مشینری حرکت میں آئے؟ رہی غیر ملکی شہریت تو اگر آپ کی حکومت کو اس بات پر اعتراض نہیں کہ آئینی مناصب پر غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد متمکن ہیں جن کے سامنے حساس دفاعی اداروں کے مکمل کوائف پیش کیے جاتے ہیں تو کسی اور پر اس حوالے سے کیا اعتراض کر سکتے ہیں! 
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جو بھی حکومتِ وقت ہو گزشتہ حکومتوں سے سبق نہیں سیکھتی۔ ہر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کنٹینر اور پولیس اسے بچا لیں گے۔ کراچی میں کنٹینروں سے شہر کو سیل کر کے لاشیں گرائی گئیں تو جنرل پرویز مشرف نے اسے ’’عوامی طاقت‘‘ کا نام دیا۔ وہی زبان اب حکومتی عمائدین استعمال کر رہے ہیں۔ دو وزیروں کے بیانات پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ حضرات سیاسی گہرائی رکھتے ہیں؟ وزیراعظم کی صاحبزادی فرما رہی ہیں کہ احتجاج کرنے والوں نے پولیس اہلکار کو شہید کر ڈالا۔ حکومت اسلامی احکامات کے مطابق اس فتنے کو کچل ڈالے۔ اس پر ایں خانہ ہمہ آفتاب است کے علاوہ کیا کہا جائے۔ پولیس اہلکار کی شہادت یقینا افسوسناک ہے۔ اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ لیکن ماڈل ٹائون کے چودہ افراد کی شہادت کو تو اس سے بھی بڑا فتنہ قرار دیا جانا چاہیے۔ اُس فتنے کے بارے میں ’’اسلامی احکام‘‘ کیا ہیں؟ اور یہ جو پریس میں چرچا ہے کہ ذاتی دوستوں کو لانے کے لیے ٹیکس دینے والے عوام کے خرچ پر سرکاری ہیلی کاپٹر اڑائے جا رہے ہیں تو اس ضمن میں اسلامی احکام کیا کہتے ہیں‘ یہ بھی قوم کو بتا دیا جائے۔ 
اس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکاروں اور سرکاری اہلکاروں کے درمیان خانہ جنگی کی صورتِ حال ہے۔ اس صورتِ حال سے کوئی آئی جی اور کوئی کنٹینر نہیں نمٹ سکتا۔ اس سے وزیراعظم کی سیاسی حکمت عملی‘ دانش مندی اور احساسِ ذمہ داری نمٹ سکتا ہے۔ اس قسم کے بیانات کہ طاہرالقادری اور عمران خان کے درمیان آگ اگلنے کا مقابلہ ہے‘ پولیس اہلکاروں کو عوامی تشدد سے نہیں بچا سکتے۔ ایک طرف اگر زبانیں آگ اگل رہی ہیں تو دوسری طرف بھی گلاب نہیں اگلے جا رہے۔ شعلے پانی سے بجھتے ہیں۔ ہوا دینے مزید بھڑک رہے ہیں۔ 
اَلَیْس مِنْ کُمْ رَجُل الرشید؟ کیا کوئی تھنک ٹینک وزیراعظم کو بتانے والا نہیں کہ آخر عوامی غیظ و غضب کا سبب کیا ہے؟ اس بات کو ایک لمحے کے لیے بھول جایئے کہ یہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے معتقدین ہیں۔ جس کے بھی معتقد ہیں‘ عوام میں سے ہیں۔ کیا حکومتی صفوں میں کوئی تجزیہ کار نہیں جو اس جوشِ انتقام کا تجزیہ کرے جو عوام میں پایا جا رہا ہے۔ کہاں گئے وہ گیلپ سروے کرنے والے جو ہمیشہ بتاتے تھے کہ آدھا گلاس پانی سے بھرا ہے۔ سچے ہمدرد وہ ہوتے ہیں جو گلاس کے خالی حصے کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن اگر منزلِ مقصود یہ ہو کہ کیبنٹ بلاک میں ایک کمرہ‘ ایک نائب قاصد اور ایک گاڑی مل جائے تو پھر کمرِ زریں بچانے کے لیے وہی بات کہنا پڑتی ہے جو اقتدار کی سماعت کو خوش آئے۔ فری لانسنگ کا دعویٰ کرنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہنروری کا آغاز تو فری لانسنگ سے کرتے ہیں لیکن درمیان میں آ کر کیبنٹ بلاک کا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔ تو پھر ہنروری پر بھروسہ ہی نہ کرتے! مقابلے کا امتحان دے کر پکے پکے اہلکار بن جاتے اور نائب قاصد اور کمرے کا مستقل انتظام ہو جاتا! 
ایک طرف عوام کو ناکوں چنے چبوائے جا رہے ہیں۔ اوپر سے ایسے اشتہارات‘ جو اسّی فیصد عوام کی سمجھ سے باہر ہیں۔ خدا کے بندو! پولیس اہلکار اور عوام پورے ملک میں ایک دوسرے کے گلے پکڑے ہوئے ہیں۔ سول وار کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ سڑکوں پر خون بہہ رہا ہے۔ بوڑھی عورتیں کنٹینروں کے نیچے سے رینگ رینگ کر فاصلے طے کر رہی ہیں اور تم یہ چھپوا رہے ہو کہ مارکیٹ کیپیٹل کتنا ہے‘ تجارتی خسارہ کتنا ہے اور جی ڈی پی کی شرح ترقی کیا ہے۔ وزارت خزانہ کے یہی دانشور اگلی حکومت کے لیے ایسی ہی میڈیا مارکیٹنگ تیار کر رہے ہوں گے۔ اندازہ لگایئے‘ اقتدار کی ہوش مندی کا‘ عوام کے گھروں میں گھپ اندھیرا ہے‘ ہاتھوں سے پنکھے چلائے جا رہے ہیں۔ سی این جی اور پٹرول کے لیے میلوں لمبی قطاریں لگی ہیں۔ لوگ گاڑیوں سے باہر کھڑے ماتھوں سے پسینے کے دریا بہا رہے ہیں اور انہیں بتایا یہ جا رہا ہے کہ مارکیٹ کیپیٹل کتنا ہے اور جی ڈی پی کی شرح کیا ہے؟ ایسے باہوش اقتدار کو طاہرالقادری اور عمران خان جیسے دشمنوں کی ضرورت ہی کیا ہے! 
عوام اس وقت تین عذابوں سے گزر رہے ہیں۔ ارباب حکومت کو ان تین عذابوں کی خبر ہے نہ اندازہ‘ خبر ہو بھی تو درد کی شدت سے بے خبر ہیں۔ وزیراعظم اگر صرف تین اقدامات کر لیتے تو آج طاہرالقادری کے غبارے میں ہوا ہوتی نہ عمران خان کے اشارے پر لاکھوں لوگ پابہ رکاب ہوتے۔ اول‘ وہ حکم دیتے کہ وزیراعظم ہائوس‘ وزیراعظم آفس‘ منسٹر کالونی اور پورے ریڈ زون میں لوڈشیڈنگ اسی طرح ہوگی جس طرح باقی شہروں میں ہو رہی ہے۔ صوبوں کے لیے بھی ایسے ہی احکام ہوتے۔ دوم‘ ان کے وزرا بے شک قطار میں کھڑے ہو کر سی این جی نہ ڈلواتے لیکن وزیراعظم حکم دیتے کہ وزرا‘ قطاروں میں گھنٹوں کھڑے عوام کے پاس جائیں گے۔ ان کی تکلیف بانٹیں گے اور یہ احساس دلائیں گے کہ حکومت ان کے کرب سے آگاہ ہے۔ سوم‘ کم از کم وزرا تو بازار سے سودا سلف خود خریدتے! تب وہ کابینہ کے اجلاس میں بتا سکتے کہ آٹے دال کا بھائو کیا ہے اور بے بضاعت عوام پر کیا گزر رہی ہے۔ اسلامی احکام کا حوالہ دینے والی وزیراعظم کی ازحد قابلِ تعظیم صاحبزادی آخری مرتبہ کب بازار تشریف لے گئیں اور کیا انہیں معلوم ہے کہ چنے کی دال‘ ٹماٹر‘ مٹن اور چکن تو چھوڑ دیجیے‘ گائے کا گوشت کیا بھائو ہے؟ رمضان لوگوں نے کس طرح گزارا؟ اندھیرا اور خالی دسترخوان!! دوائیں رسائی سے باہر ہیں۔ دارالحکومت کے ہسپتال مذبح لگ رہے ہیں۔ ضلع اور تحصیل سطح کے ہسپتال کیسے ہوں گے! 
یہ جن تین اقدامات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے‘ انہونے نہیں ہیں۔ نہ ہی ناقابلِ عمل۔ برطانیہ جیسے ملکوں کو تو چھوڑ دیجیے جہاں وزیراعظم ریل میں کھڑا ہو کر سفر کرتا ہے اور مسافروں میں سے کوئی اس کی طرف دیکھتا تک نہیں۔ بھارت کو دیکھیے‘ مہنگائی کے خلاف جلوس نکلا تو اس وقت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کی بیوی جلوس میں شامل تھی‘ اس لیے کہ وہ گھر کا سودا سلف خود خریدتی تھی۔ اسرائیل میں بجلی بند ہو تو وزیراعظم کا گھر اس سے مستثنیٰ نہیں ہوتا! اگر کل کو ریڈ زون میں کوئی دوسرا گروہ متمکن ہوتا ہے اور اپنے طرزِ زندگی کو اسی نہج پر رکھتا ہے جس پر موجودہ گروہ نے رکھا ہوا ہے تو کوئی اور طاہرالقادری‘ کوئی اور عمران خان عوام کو باہر نکال لائیں گے   ؎ 
بھرا نہ اطلس و مرمر سے پیٹ خلقت کا 
یہ بدنہاد اب آب و گیاہ مانگتی ہے

Saturday, August 09, 2014

جھکی ہوئی ٹہنی سے ٹپکتے قطرے

 بریگیڈیئر نیاز احمد سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی‘ ان کا دائرہ الگ تھا۔اس دائرے میں داخل ہوئے نہ کبھی کوشش ہی کی۔ہاں‘جب بھی سنا‘ ان کا نام طاقت ور لوگوں کے حوالے سے سنا۔شریف برادران! جنرل پرویز مشرف!بشری کمزوری ہے اور عین انسانی فطرت کے مطابق کہ جو افراد طاقت ور اصحاب سے وابستہ ہیں ‘ ان سے مرعوب ہوا جائے۔بریگیڈیئر صاحب ایمبیسی روڈ پر رہتے تھے اور ایک ایسے گھر میں رہتے تھے جس کا‘ ان کے اکثر ہم مرتبہ سرکاری ملازم بھی بس خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ ان کے پڑوس میں لتھوانیا کے اعزازی سفیر مسعود خان رہتے ہیں۔ دوست ہیں اور کرم فرما۔ ان کی بیگم‘بھابھی ڈاکٹر اسمارا جب بھی ہمارے ہاں آتیں‘ والدِ مرحوم کو‘ کہ ضعف کا ان پر غلبہ رہنے لگا تھا‘اصرار کر کے کھانا کھلاتیں۔ ایک بار مسعود خان کے ہاں بیٹھے تھے کہ انہوں برسبیل تذکرہ بتایا کہ صدرِ مملکت ان کے پڑوس میں بریگیڈیئر صاحب کے گھر آتے ہیں۔بریگیڈیئر صاحب کے داماد عمار‘ جو ٹی وی کے جانے پہچانے کمپیئر ہیں‘ محبت سے پیش آتے ہیں۔ایک کالم بہت زیادہ پسند آیا تو کہیں سے ٹیلی فون نمبر حاصل کر کے بیرون ملک فون کیا اور داد دی۔بس یہ ہے سارا حدود اربعہ بریگیڈیئر نیاز احمد مرحوم سے ’’تعلق ‘‘ کا!
اس کے باوصف‘کل جب ان کی رحلت کی خبر پڑھی تو ایک دھچکا لگا۔تو کیا بریگیڈیئر صاحب بھی چل بسے؟اتنا بڑا شخص!وقت کا بادشاہ جس کے گھر آتا تھا تو پہریدار انسانی جسموں سے فصیل بنا لیتے تھے۔پتا بھی نہیں ہلتا تھا! پھر پنجاب کے طاقت ور ترین خاندان سے مراسم۔ اور مراسم بھی ایسے کہ فیصلے تبدیل کرا سکتے تھے۔ تو جب اتنا بڑا شخص فنا کے گھاٹ اتر گیا تو کیا ہما اور کیا شما‘ جان ایلیا نے کہا تھا  ؎
کتنی دلکش ہو تم، کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
مرنا کتنی بڑی سچائی ہے۔غالباً دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ خوفناک سچائی!عشرتوں کے ٹھاٹھ‘عیش کے اسباب‘حشمتوں کے دسترخوان‘ یا فاقے‘ چیتھڑے اور جھونپڑا۔ امارت ہو کہ غربت‘ کچھ بھی نہیں بچتا۔ فقیر نے رات تنور پر گزاری۔ بغل میں محل تھا۔ آرام دہ کمرے میں بادشاہ نے رات کو سمور کا کمبل اوڑھا ۔صبح کا اجالا پھیلا تو فقیر نے گدڑی جھاڑی اور یہ کہہ کر ایک طرف چل دیا  ع
شب تنور گزشت و شب سمور گزشت
اور نظیر اکبر آبادی نے تو کمال کی نصیحت کی   ؎
یا نعمتیں کھاتا رہا دولت کے دستر خوان پر
میوے مٹھائی‘ بامزہ‘ حلوائے تر‘ شیرو شکر
یا باندھ جھولی بھیک کی‘ٹکڑوں کے اوپر دھر نظر
ہو کر گدا پھرنے لگا ٹکڑے کی خاطر دربدر
گر یوں ہوا تو کیا ہوا اور ووں ہوا تو کیا ہوا
موت وہ حقیقت ہے جسے ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔لیکن اصل مصیبت اور ہے اور وہ یہ کہ ہم مرنے والے کو اس ترازو پر تولتے ہیں جو ہم نے خود بنایا ہے۔ہم اسے اس کسوٹی پر پرکھتے ہیں جو پیدا کرنے والے اور مارنے والے نے نہیں وضع کی۔ہماری روایتیں اور ہماری جہالتیں کسی کو نیک قرار دیتی ہیں اور کسی کو بد۔ اور یہی اصل افتاد ہے جو ہم پر آن پڑی ہے۔ وہ کام جو انسان کے مرنے کے بعد کسی اور نے کرنا ہے وہ ہم خود کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔و ہ حساب کتاب جو جزا کے دن کیا جانا ہے‘ دنیا میں شروع کر دیا جاتا ہے۔یہ غلط ہے اور قابل مذمت۔ جو ایسا کرتا ہے وہ اپنی فکر کرے۔خدا کے لیے اپنی فکر کرے۔
ہم ظاہر پر رائے قائم کرتے ہیں۔چند ہفتے ہوئے کراچی سے معروف شاعر شوکت عابد کمرشل اشتہاروں کی شوٹنگ یا اسی قبیل کے کسی سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔شدید گرمی تھی اور رمضان۔ایک معروف و مشہور فلم ایکٹریس کے بارے میں بتایا کہ ملتان سے کار میں آئی۔روزہ رکھا ہوا تھا۔اسلام آباد پہنچ کر سارا دن کام بھی کیا۔ اسّی فیصد نہیں تو ساٹھ فیصد کے لیے یہ غیر متوقع ہوگا‘ اس لیے کہ ہمارے اذہان میں نیکو کاروں اور گنہ گاروں کے حلیے فکس ہو چکے ہیں۔ہم اس Fixationسے باہر نہیں آ سکتے۔ایک بزرگ کے بارے میں روایت ہے کہ ساری زندگی حدیث پڑھاتے رہے اور حدیث لکھتے رہے ۔کوچ کیا تو ایک شاگرد کو خواب میں ملنے آئے۔اس نے پوچھا حضرت !آپ کے معاملات تو آسانی سے طے ہو گئے ہوں گے۔ساری زندگی قال اللہ اور قال الرسولؐ کہتے اور لکھتے گزاری۔فرمایا نہیں!ایسا بالکل نہیں ہوا۔صورتحال مخدوش تھی۔کچھ منظور ہی نہیں ہو رہا تھا۔ وہ تو ایک مکھی آئی اور جاں بخشی کرا گئی۔وہ یوں کہ کتابت کرتے وقت ورق الٹنے لگا تھا تو دیکھا کہ روشنائی کے ایک گہرے دھبے پر ایک مکھی بیٹھی پیاس بجھا رہی تھی۔سوچا‘روشنائی پی لے تو ورق الٹوں گا۔سیاہی چوس بھی اسی لیے استعمال نہ کیا۔وہ مکھی آ کر سفارش نہ کرتی تو نہ جانے کیا انجام ہوتا!
نورانی چہرے‘لمبی عبائیں‘ کُلاہ اور اس پر سفید چادر‘ ہاتھ میں تسبیح‘ عقب میں جان چھڑکتے عقیدت مند‘ سب بجا۔ عین ممکن ہے کہ سب حقیقی اور جینوئن ہو۔قابل قبول ہو۔لیکن ضمانت کیا ہے؟ گارنٹی کہاں ہے؟ کون دلاں دیاں جانے ہُو۔سول سروس کی ایک خاتون تھی۔بظاہر فیشن ایبل ۔تراشیدہ مُو‘ کم ہی لوگ جانتے تھے کہ صوم و صلوٰۃ کی پابندی تو تھی ہی‘اکلِ حلال کی تخصیص اتنی تھی کہ ماں نے ماتحت کو گھر کے کسی چھوٹے موٹے کام کے لیے فون کیا تو منع کر دیا کہ امی جان نہیں‘ دفتر کی افرادی قوت گھر کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔بظاہر مذہبی حضرات جس حقارت سے دوسروں کو بابو ‘ منشی‘مسٹر اور میم کہتے ہیں‘ حیرت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اخلاق حمیدہ کا تعلق ہے‘ نہ اخلاق ذمیمہ کا۔کیا خبر شکر اور صبر‘توکل اور خشوع ‘صدق اور محبت کس کے سینے میں موجیں مار رہے ہیں اور کذب ‘غیبت‘ چغل خوری ‘ مدح سرائی‘بخل‘ تکبر‘حب جاہ ‘ حرص‘حسد‘ ریا اور غضب کس نورانی چہرے کی اوٹ میں پھن لہرائے بیٹھے ہیں!
ایک ثقہ بزرگ نے بتایا کہ لڑکپن میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی ۔وہ بار بار زبان اوپر والے ہونٹ پر پھیرتا تھا جیسے کسی مٹھاس کا مزہ لے رہا ہو۔ کئی رات دن مشاہدہ کیا… اس حرکت میں کمی نہ دیکھی۔استفسار پر اس نے آپ بیتی سنائی۔پرانے قبرستان سے گزر رہا تھا کہ گھاس‘ دوب‘جھاڑیاں‘ کانٹے دار خود رو پودے ‘جھاڑ جھنکاڑ‘ ہر طرف پھیلے تھے۔ دیکھا تو ایک دھنسی ہوئی قبر‘بہت پرانی‘اوپر سے کھلی تھی۔نزدیک گیا تو منظر ناقابل یقین تھا۔قبر کے کنارے درخت تھا ۔ایک ٹہنی قبر پر جھکی تھی۔نیچے میت پڑی تھی۔سر اور منہ نظر آ رہے تھے۔جھکی ہوئی ٹہنی سے ایک قطرہ گرتا تھا اور میت کے منہ میں ٹپکتا تھا۔تجسس تھا اور ہمت بھی کہ اس شخص نے ایک قطرہ انگلی پر لیا اور چاٹ لیا۔ ایسی مٹھاس اس نے چکھی تھی نہ سنی تھی۔ہفتے گزرے‘ پھر مہینے‘ پھر سال‘جب بھی زبان ہونٹ پر پھیرتا‘ شیرینی سے منہ بھر جاتا۔تجسس نے اکسایا۔ چھان بین کی۔قبر ایک خاتون کی تھی۔معلوم کرنے پر مترشیح ہوا کہ کچھ خاص عبادت گزار تھی نہ کسی اور نیکی کے لیے معروف۔ جستجو کرنے والا پیچھے نہ ہٹا۔کریدتا رہا‘ پوچھتا رہا اور ایک سے دوسرے‘ دوسرے سے تیسرے ‘تیسرے سے چوتھے مرد یا عورت سے ٹوہ لیتا رہا۔ آخرِ کار معلوم ہوا کہ خاتون نے ساری زندگی ایک ایسے شوہر کے ساتھ گزاری جس میں ایک نقص تھا۔لیکن یوں گزاری جیسے کچھ تھا ہی نہیں‘ صبر بھی کیا اور اس کی عزت پر بھی حرف نہ آنے دیا۔
اپنے قائم کئے ہوئے معیار زائل کر دو‘ اپنی بنائی ہوئی کسوٹیاں توڑ دو۔جنہیں نیک گردانتے ہو‘انہیں نیک ہی گردانو۔لیکن جنہیں گنہگار سمجھتے ہو‘اگر وہ ولی نکلے تو اپنا ٹھکانہ کہاں بنائو گے۔اس طرف دیکھو…زمین کے نیچے بہت نیچے ‘ ایک جہان آباد ہے۔کہیں کوئی لحد بقعہ نور بنی ہے اور کہیں گھپ اندھیرا ہے۔ظاہر کو دیکھ کر رائے قائم نہ کرو اور دوسروں کی نہیں ’اپنی فکر کرو۔

Thursday, August 07, 2014

نوحہ


کباب کھانے کو دل کر رہا ہے ۔ اور وہ بھی شیر کی ران کے ۔پکانے کے لیے ایندھن بھی درکار ہے۔یہ ایندھن جمشید اور کیقباد کے تخت کی لکڑی سے ہونا چاہیے!
سناہے قُم میں شراب میسر نہیں۔ خدا کے لیے تیز تیز قدم اٹھائو اور مجھے رَے سے شراب لا کر دو۔ اگر شراب کا ساغر اژدہا کے منہ میں بھی ہے تو بس‘ہمت کرو اور نکال کر لے آئو۔
اور ہاں!غلام! سن‘ گھوڑے سے زین اتار کہ آج شکار پر نہیں جانا۔ اور اس بات کا بُرا نہ منا کہ آج ہم سوار نہیں ہو رہے کیوں کہ اصل میں تو پیادہ وہ ہے ‘جو مے نوشی پر سوار نہیں۔ اور ہاں!آسمان نیاز مندی کے لیے حاضر ہو تو اسے اشارہ کر دینا کہ آج حاضری کی اجازت نہیں۔
یہ شاعری قاآنی کی ہے جو شیراز میں 1808ء میں پیدا ہوا اور تہران میں 1854ء میں وفات پا گیا۔نام حبیب اللہ تھا ۔نقاد کہتے ہیں کہ جامی کے بعد اتنا قادر الکلام شاعر کوئی نہیں پیدا ہوا اورجامی تو ساڑھے تین سو سال قبل 1492ء میں (سقوط غرناطہ کے سال) وفات پا گئے تھے۔قاآنی کو پڑھیں تو انسان حیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ الفاظ کس طرح اس شخص کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ یہاں ہم قاآنی کے ایک مرثیہ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو ایک انوکھے اسلوب میں ہے۔شہیدِ کربلا کو ہر زمانے کے اہل قلم خراج عقیدت پیش کرتے آئے ہیں لیکن قاآنی کا یہ نوحہ اسلوب کے حوالے سے اتنا دلکش ہے اور دامنِ دل کو یوں کھینچتا ہے کہ برائون نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘‘میں بطور خاص اس کی تعریف کی ہے۔یاد رہے یہ کتاب لکھنے میں برائون نے عمر عزیز کے چوبیس سال صرف کئے۔ قاآنی کے اس مرثیہ کا مطلع یوں ہے   ؎
بارد چہ؟ خوں‘ کہ؟ دیدہ‘ چساں؟ روز و شب‘ چرا؟
ازغم‘ کدام غم؟ غمِ سلطان کربلا
برسارہی ہے‘ کیا؟ خون! کون؟
آنکھ! کس طرح؟ رات دن! کیوں؟
غم کی وجہ سے !کون سا غم‘ سلطان کربلا کا غم!
باقی مرثیے کے کچھ اشعار کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے ۔اصل مرثیہ انٹرنیٹ پر دیکھا جا سکتاہے۔ایرانیوں نے ڈیڑھ دو ہزار سال کی ساری شاعری انٹرنیٹ پر انڈیل دی ہے ۔
ہم چونکہ مشاغل میں مصروف رہے‘اس لیے تین چار سو سال کی اردو شاعری بھی نہ منتقل کر سکے۔اب اس بات پر ہر روز کیا فخر کرنا کہ گوگل کے سروے کے مطابق انٹرنیٹ کے فحش مقامات دیکھنے میں پاکستان سرفہرست ہے۔یوں تو دعویٰ یہ ہے کہ پاکستان اسی روز معرضِ وجود میں آ گیا تھا جس دن برصغیر میں پہلا مسلمان اترا تھا۔سندھ پر عربوں کے حملے کو شمار نہ بھی کریں تو غزنوی تو گیارہویں صدی میں داخل ہوچکے تھے ۔لیکن ہمارا ادب ولی دکنی سے شروع ہوتا ہے۔ ولی دکنی 1707ء تک زندہ رہے۔ تو پاکستان اگر ثقافتی لحاظ سے گیارہویں صدی میں شروع ہوا تو درمیان کے سات سو برسوں کا ادب کہاں ہے؟یہ وہ فارسی ادب ہے جس سے ہم نابلد ہیں۔یہ وہ وراثت ہے جس کو لینے سے ہم انکار کر رہے ہیں۔اس کی مثال یوں ہے کہ اگر آج ایک پاکستانی طالب علم’’برصغیر کے مسلمانوں کے ادب‘‘ کے موضوع پر کسی غیر ملکی یونیورسٹی میں لیکچر دیتا ہے تو وہ ولیؔ سے شروع کرے گا۔یعنی 1700ء سے ۔پوچھنے والا پوچھے گا کہ سومنات کا بت تو آپ نے 1025ء میں توڑ دیا تھا۔ تو یہ سات سو سال کا عرصہ کیا بغیر ادب اور شاعری کے گزارا؟لیکن ٹھہریے ہم قاآنی کا مرثیہ پڑھ رہے تھے۔
اس کا نام کیا تھا؟حسینؓ!اولاد کس کی تھا۔علی ؓکی
اماں جان کون تھیں؟فاطمہؓ!نانا کون تھا؟مصطفی ؐ
ہوا کیا تھا؟شہید ہو گئے تھے! کہاں؟دشت ماریہ میں!
کب؟دس محرم کو! 
کیا رات تھی؟نہیں!دن تھا؟کیا وقت تھا؟ ظہر کا!
کیا شہید ہوتے وقت سیراب تھے؟نہیں!کیا کسی نے پانی پیش کیا تھا؟ہاں!کیا تھا!کس نے؟شمر نے !کس چشمہ سے؟فنا کے چشمہ سے!
خواتین کی زینت سے کیا بچ سکا؟دو چیزیں بچ گئیں۔گردن میں ستم کا ہار اور پائوں میں غم کی پازیب!
کیا یہ ظلم کسی آتش پرست نے کیا؟نہیں!کسی یہودی نے؟نہیں؟کیا مارنے والے ہندو اور بت پرست تھے؟نہیں!یہی تو فریاد ہے!کیا قاآنی ان اشعار کے لائق ہے؟ ہاں !ہے!کیا چاہتا ہے؟رحمت!کس سے؟حق تعالیٰ سے!کب؟جزا کے دن!!
آج اگر قاآنی جیسا قادر الکلام شاعر ہمارے ملک میں ہوتا تو جو کچھ یہاں چندروز پہلے حواکی بیٹی کے ساتھ ہوا‘اس پر ضرور نئے اسلوب میں نوحہ لکھتا۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم حاشاوکلاّ کسی اور سانحہ کو سانحہ کربلا کے برابر قرار نہیں دے رہے ۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار ی کرنے والے کے غم کا دنیا کے کسی غم سے موازنہ نہیں ہو سکتا!یہ فقط نوحہ خوانی کی بات ہو رہی ہے۔ دل پر ہاتھ رکھیے اور نوحہ خوانی کیجئے۔
جھک گئے؟ کیا!سر!
کن کے؟فرشتوں کے؟کہاں؟آسمان پر !
کیوں؟ شرم سے!کس بات پر شرم؟
بے حسی پر!کس کی؟
اہلِ پاکستان کی!کس وجہ سے؟ایک عورت کو جلا دینے سے
کس نے جلایا؟اس کے شوہر نے !کیا وہ ہندو تھا؟ نہیں؟ کیا وہ یہودی تھا؟
نہیں؟کیا وہ سربیا کا عیسائی تھا؟نہیں!
مسلمان تھا!
کیا عورت نے کفر کا ارتکاب کیا تھا!نہیں!کیا اس نے مذہب کی توہین کی تھی؟نہیں ۔کیا اس نے قتل کیا تھا؟نہیں!اس کا جرم کیا تھا؟اس نے ایک اور بیٹی کو جنم دیا تھا!
کیا بیٹیاں آقائے دوجہاں کو محبوب نہیں تھیں؟تھیں!تو کیا یہ توہین رسالت نہیں؟ہے!کیا کسی نے اس توہین پر مسجد کا لائوڈ سپیکر کھول کر عوام کو جمع کیا؟نہیں!کیا کوئی مفتی صاحب بولے؟ نہیں!کیا چیچنیا اور فلسطین کا غم کرنے والے اس پر مغموم ہوئے؟نہیں!کیا ہمارے فوجیوں کو شہادت کے دائرے سے خارج کرنے والوں نے اس ظلم پر احتجاج کیا؟نہیں!کیا کتے کو شہید قرار دینے والے علماء نے اسے مسئلہ بنایا؟نہیں!کیا کوئی ریلی کوئی جلوس نکلا؟نہیں!
کیا یہ ملک اسلام کا قلعہ ہے؟ہاں!ہے!کیا بیٹیوں کی پیدائش پر بھارت میں مائوں کو جلایا جاتا ہے؟ہاں!جلایا جاتا ہے!تو کیا بھارت اور پاکستان اس باب میں برابر ہیں؟ہاں!برابر ہیں۔ کیا پھر بھی پاکستان اسلام کا قلعہ ہے؟ہاں ہے!
کیا یہ ظلم ملک کے کسی دو رافتادہ گوشے میں رونما ہوا؟نہیں!سب سے بڑے صوبے کے وسط میں!
کیا بھارت میں بیٹیوں کی پیدائش پر غم کیا جاتا ہے؟ہاں!کیا پاکستان میں بیٹیوں کی پیدائش پر غم کیا جاتا ہے؟ہاں!کیا پھر بھی پاکستان اسلام کا قلعہ ہے؟ہاں!پوری دنیا کے مسلمانوں کا درد کس کے دل میں ہے؟اہل پاکستان کے دل میں ؟کیا اس کے دل میں پاکستان کے مسلمانوں کا درد شامل ہے۔نہیں!کیوں؟اس لیے کہ یہ تو یوں بھی اسلام کا قلعہ ہے!
کیا کلام پاک میں اس شخص کی مذمت کی گئی ہے جس کے چہرے کا رنگ بیٹیوں کی پیدائش پر سیاہ پڑ جاتا ہے ‘پھر وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے؟ہاں کی گئی ہے !کیا یہ آیات عوام کو پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں؟نہیں!کیوں!اس لیے کہ ملک اسلام کا قلعہ ہے!

 

powered by worldwanders.com