Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, October 28, 2021

ہم اہل قریہ


ہم اہلِ قریہ اُن معززین سے مختلف ہیں جو شہروں میں رہتے ہیں!
ہمیں ایک ایک فرد کا پتا ہے کہ کون کس کا فرزند ہے اور کون کس کا برادر زادہ یا خواہر زادہ! ہم جانتے ہیں کہ کس کے آبا کہاں سے آئے تھے؟ کس کے اجداد کیا کرتے تھے؟ ہم کسی سے مصافحہ یا معانقہ کرتے ہیں تو اسے دیکھ کر نہیں، بلکہ اس کے مرحوم والد، دادا اور نانا کے چہرے ذہن میں لا کر مصافحہ یا معانقہ کرتے ہیں۔ ہمیں ایک ایک مرحوم کی قبر کا علم ہے۔ جب قبرستان قبروں سے بھر جاتے ہیں تو ہم نئی زمین پیش کر دیتے ہیں، فروخت نہیں کرتے!
ہم حویلیوں اور مکانوں کو ان کے حال سے نہیں، بلکہ ماضی سے پہچانتے ہیں! ہمیں معلوم ہے، کس حویلی کے درمیان کب لکیر کھنچی اور اس سے پیشتر کیا نقشہ تھا۔ دیوار کہاں تھی، دروازہ کہاں تھا، کون سا کمرہ رُو بہ شمال تھا اور کون سا جنوب کی طرف کھلتا تھا۔ مکانوں اور حویلیوں کے یہ معدوم نقشے یا تو ہماری یادداشت میں محفوظ ہیں یا خوابوں میں! جو کچھ بھی ہو جائے ہمیں خواب پرانی حویلیوں اور مرحوم مکانوں کے آتے ہیں! چچا زاد جب درمیان میں دیوار کھڑی کرتے ہیں تو ہم، سارے اہلِ قریہ روتے ہیں، مگر صحنوں کے درمیان اٹھنے والی اور کمروں اور برآمدوں کو بانٹنے والی یہ دیواریں رونے سے کبھی نہیں رکیں! ہمیں شہروں میں رہنے والے معززین سے ہمدردی ہے جو کوٹھیوں اور محلات کی تقسیم کے لیے عدالتوں میں جاتے ہیں مگر ان پر رونے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ہماری خوشیاں کیا ہیں؟ ہماری خوشیاں وائی فائی کے پاس ورڈ سے نہیں نہ سالگرہ کی تقریب سے، نہ آدھی رات کو پزا ڈیلیور کرانے سے نہ بیڈ روم کے سائز سے نہ فانوس کے امپورٹڈ ہونے سے! ہم شام کو درختوں کی ٹہنیاں اور گھاس چارپائی پر بچھا دیتے ہیں۔ جب ہماری بکریاں اسے کھاتی ہیں تو ہم خوش ہوتے ہیں۔ ہماری ابلق گائے جب سفید براق بچھڑا جنے، جب بارش وقت پر ہو، جب خوشوں کے اندر دانے گیلے نہ ہوں، جب بیل دوڑ میں انعام جیت لے، جب بھڑولے گندم سے بھر جائیں، جب مونگ پھلی کی بوریاں چھت سے جا لگیں، تو ہم خوش ہوتے ہیں۔ ہم بکری کے نئے میمنے کو چوم کر، رنگ رنگ کی مرغیوں کو بڑھتا دیکھ کر، بھوسے کا مینار بنا کر، تالابوں کو پانی سے چھلکتا دیکھ کر مسرت حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں دودھ دینے والی گائے ہو، ہمارے مویشیوں کو چارہ ملتا رہے، ہمارے گاؤں میں تھانیدار نہ آئے، ہمارے ٹریکٹروں میں ڈالا جانا والا پٹرول مہنگا نہ ہو تو ہم خوش ہوتے ہیں۔ ہمیں خوشی کے لیے سالگرہ کا کیک نہیں درکار۔ نہ ہمارے قریوں میں کیک بنتے ہیں۔ ہمارے بچے چاکلیٹ کھاتے ہیں نہ آئس کریم! ہاں وقت پر کھانا کھا کر وقت پر سو ضرور جاتے ہیں اور اذان کے ساتھ اٹھ بیٹھتے ہیں۔
ہم اہلِ قریہ نیو ایئر نائٹ نہیں مناتے نہ ایک دوسرے کو ہیپی نیو ایئر کہتے ہیں۔ ہم اہلِ قریہ حقیقت شناس ہیں! ہمیں معلوم ہے ہم نئے سال میں ہیپی نہیں ہوں گے۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں اور نفاق کی نشانیاں ہیں۔ یہ ممکن بھی کیسے ہے کہ رات کو سوئیں اور صبح بیدار ہوں تو سب کچھ بدل گیا ہو؟ ہمیں تو اکتیس دسمبر اور یکم جنوری میں کبھی کوئی فرق نہیں دکھائی دیا۔ بارش سے جھپ جھپ کرتے جس کچے صحن کو عبور کر کے کمرے میں جاتے ہیں اور جا کر سو جاتے ہیں‘ صبح اٹھ کر اُسی کیچڑ سے بھرے ہوئے صحن سے گزر کر باہر نکلتے ہیں۔ وہی ڈبیوں والے کھیس اوڑھے ہوئے، وہی گُڑ اور نمک والی چائے پیتے ہوئے، اُسی دھوئیں سے بھری ہوئی رسوئی میں بیٹھے ہوئے، ہم اُس صبح کو دیکھتے ہیں جسے شہر کے معززین نئی صبح کا نام دیتے ہیں۔ ہمارے لیے یکم جنوری ایک تاریخ کے سوا کچھ نہیں۔
ہمارے قریوں میں ڈسپنسریوں، ہسپتالوں، لیبارٹریوں، ایکس رے اور الٹرا ساؤنڈ کی دکانوں اور دوا فروشوں کا رواج نہیں۔ ہم مریضوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹر کے ہسپتال لے جاتے ہیں جہاں ڈاکٹر موجود ہو تو آلات موجود نہیں ہوتے۔ اکثر و بیشتر مریض واپسی پر میت میں تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ کوئی وزیرِ صحت، کوئی سیکرٹری صحت کبھی ہمارے قریے میں نہیں آیا۔ ہمارے ہاں ایسی دکانیں بھی نہیں جہاں ذبح شدہ بکرے لٹکے ہوں۔ ہاں کوئی علیل بکری یا مریض گائے بھینس حلقوم پر بر وقت چھری پھِروا، لے تو اور بات ہے۔ ہم تو پیاز اور لسی کے ساتھ کھانا کھا لیتے ہیں۔ چٹنی ہمارا فاسٹ فوڈ ہے۔ آم کی رُت ہو تو آم کے ساتھ، اور خربوزوں کا موسم ہو تو خربوزوں کے ساتھ کھا لیتے ہیں۔ جس رفتار کے ساتھ اور جس مقدار میں معززینِ شہر مرغِ بریاں اور مرغِ مسلّم کھاتے ہیں، اُس رفتار اور اُس مقدار کا ساتھ ہم اہل قریہ کہاں دے سکتے تھے۔ وہ تو بھلا ہو فرنگیوں کا جنہوں نے گتّے کی مرغی ایجاد کی، جس کا نام شیور کی مرغی رکھا، جس کے چرغے، تِکے اور کڑھائیاں کھائی جاتی ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ مرغ سمجھ کر کھائی جاتی ہیں۔ وہ مرغ ہی کیا جو صحنوں، سبزہ زاروں، کھیتوں، گلی کوچوں میں مٹر گشت نہ کرے۔ جو ایک ادائے فاخرہ کے ساتھ اذان نہ دے اور وقتاً فوقتاً گردن میں تناؤ نہ پیدا کرے۔
فرنگیوں کی یہ ایجاد متعدی بیماری کی طرح پھیلی۔ خربوزے بھی شیور کے آنے لگے۔ سب ایک رنگ کے، ایک سائز کے، گول گول، گنجے گنجے، بے ذائقہ۔ پھر شیور کے شاعر پیدا ہونے لگے۔ استاد کا منہ دیکھا نہ کتاب کا۔ سوشل میڈیا کی پیداوار! پھر اینکر بھی شیور کے آنے لگے۔ گفتگو کے فن سے ناآشنا، زبان کی نفاست اور باریکیوں سے ناواقف! پھر پردۂ سیمیں پر شیور کے ڈرامے آ گئے۔ انہوں نے سبق سکھایا کہ بیٹا باپ کو اور بیٹی ماں کو تنک کر کہے: میری اپنی زندگی ہے! ان ڈراموں نے سکھایا کہ خاندان کے اندر مقدس رشتوں کو ہوس کی نذر کیسے کیا جاتا ہے۔ ان اسباق کی کوکھ سے شیور کے میاں بیوی وجود میں آئے۔ بیوی نے شوہر کو خبرِ وحشت اثر دی کہ اس کی اپنی زندگی ہے جس کا شوہر اور شوہر کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔ میاں نے اپنی الگ دنیا بسا لی۔ دونوں الگ الگ دنیاؤں کی کلیدیں موبائل فون میں محفوظ ہیں جو کھل جا سم سم سے کھلتی ہیں۔ ہر موبائل کا اپنا کھل جا سم سم ہے۔ اب تو موبائل چہروں کے نقوش سے کھلتے ہیں۔ یہ دو متوازی دنیائیں چلتی رہتی ہیں یہاں تک کہ میاں بیوی کاغذی طور پر بھی الگ ہو جاتے ہیں۔ خدا اس وقت سے بچائے جب بزرگ بھی شیور کے ہوں گے۔
ہم اہل قریہ مختلف ہیں۔ ہمارا لباس، ہماری خوراک، ہمارے سونے جاگنے کے اوقات، ہماری مہمان نوازی، ہماری ترجیحات، ہمارے غم سب کچھ مختلف ہے۔ کسی کی موت واقع ہو جائے تو ہم سب کام چھوڑ دیتے ہیں۔ فصل کا کام ہو یا مکان کی تعمیر، سب کچھ رُک جاتا ہے۔ سب ماتم والے گھر کا رُخ کرتے ہیں۔ قبر کی کھدائی سے لے کر مہمانوں کے کھانے تک، کوئی کام بھی وفات والا گھر نہیں کرتا بلکہ اہلِ قریہ کرتے ہیں۔ ہمیں وفات کی خبر اخبار یا ٹیلی ویژن سے نہیں، اُس تار کے ہلنے سے ملتی ہے جو ہمارے دلوں میں لگی ہوتی ہے۔ تفصیل میں کیا جائیں، بس اتنا عرض کیے دیتے ہیں کہ ہم اہلِ قریہ اُن معززین سے مختلف ہیں جو شہروں میں رہتے ہیں!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, October 26, 2021

دو نحوستیں



جہاں جانا ہے وہاں نہیں جا سکتے۔
مہذب دنیا میں کتنے ملک ہیں جہاں راستے بند ہو تے ہیں؟ شاہراہوں پر قوی ہیکل کنٹینر پڑے ہوتے ہیں۔ بچے کی ولادت کا وقت نزدیک ہے‘ مگر ہسپتال نہیں جا سکتے۔ ہوائی اڈے پر نہیں پہنچ سکتے۔ کمرۂ امتحان میں نہیں پہنچ سکتے۔ جنازے میں شامل ہونا ناممکن ہے۔ تدفین کے لیے میت کو قبرستان لے جانا ناممکن ہے۔ پہلے پتا کیجیے کون سا راستہ کھلا ہے؟ کب تک کھلا ہے ؟ پھر گھر سے نکلیے!
اس ملک کے بے زبان شہریوں کے ساتھ یہ ظالمانہ مذاق کب تک جاری رہے گا؟ جس حکومت نے ‘ جس ریاست نے‘ لوگوں کو آرام پہنچانا ہے ‘ وہی ان کے راستے بند کر رہی ہے۔دھرنے دینے والے قانون سے بالا تر ہیں۔ کیوں ؟ کیا راستوں پر قبضہ کرنے والے حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہیں؟ اور پھر یہ ظالمانہ مذاق ہر چند ماہ کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ کوئی گروہ اٹھتا ہے۔ راستوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس گروہ سے نمٹنے کے بجائے حکومت خود راستوں پر قبضہ کر لیتی ہے۔گویا وہ گروہ اور حکومت اس ضمن میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ٹارگٹ عوام ہیں۔ راستے بند ہونے ہی ہونے ہیں۔ گروہ نے نہ کیے تو حکومت کر دے گی۔
کوئی مذہبی دن ہے تو راستے بند۔ سیاسی سرگرمی ہے تو راستے بند۔ کسی کے رشتہ دار کی لاش گری ہے تو راستے بند۔طلبہ کے مطالبات ہیں تو راستے بند۔ کسی کرّو فر والے نے گزرنا ہے تو راستے بند۔ ان تمام مواقع پر پبلک کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ پانی اور ماچس تک پر ٹیکس لینے والی ریاست لوگوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر یوں غائب ہو جاتی ہے جیسے اس کا وجود ہی کوئی نہیں۔ اندھے کو بھی ماں کم از کم مسجد پہنچاکر غائب ہوتی تھی۔ ریاست تو لوگوں کو بند راستوں کے سامنے چھوڑ کر گم ہو جاتی ہے۔
کس مہذب ملک میں راستے بند ہوتے ہیں ؟ کیا سعودی عرب اور یو اے ای میں مسلمانوں کے گروہ راستے بند کرتے ہیں ؟ کیا برطانیہ‘ امریکہ‘ ملائیشیا ‘ جاپان میں حکومتیں کنٹینروں سے راستے بلاک کر تی ہیں؟کیا حکومت بتائے گی کہ وہ یہ سلسلہ کب بند کرے گی یا کرائے گی؟یا کم از کم اتنا بتادے کہ عوام اس مسئلے کے حل کے لیے کیا کریں؟ کس کے پاس جائیں ؟ تیرہ بخت عوام کے پاس ہیلی کاپٹر ہیں نہ حاجب اور نقیب! برق رفتار بیش بہا گاڑیوں کے بیڑے ہیں نہ ہٹو بچو کرنے والے پولیس مین! تو کیا وہ گھروں سے نکلنا بند کر دیں؟ یا یہ قوم اجتماعی خود کشی کر لے ؟
دو نحوستیں اس ملک کے ساتھ یوں چمٹی ہیں کہ اترنے کا نام نہیں لے رہیں۔ ایک اندرونی بد امنی ہے۔ کبھی دھماکے ہیں تو کبھی اغوا برائے تاوان۔ ہے کوئی بہادر عوامی نمائندہ جو اسمبلی میں کھڑا ہو اور سوال کرے کہ باقی شہروں کو تو چھوڑ دو صرف اسلام آباد کا بتاؤ کہ ایک مہینے میں کتنی گاڑیاں‘ کتنے موٹر سائیکل چوری ہوتے ہیں اور ڈاکے کتنے پڑتے ہیں ؟ ٹریفک حادثات بھی بدامنی کا حصہ ہیں۔ بچاؤ کے لیے کیے گئے اقدامات صفر ہیں۔
دوسری نحوست اقتصادی غلامی ہے۔عالمی اقتصادی ادارے پہلے بھی ہماری گردن پر سوار تھے۔ آج بھی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پہلے ان کے نمائندے صرف وزارتِ خزانہ میں بیٹھتے تھے اب سٹیٹ بینک آف پاکستان بھی مکمل طور پر ان کے قبضے میں ہے۔ کس چیز پر کتنا ٹیکس لگانا ہے ‘ اس کا فیصلہ پاکستانی حکومت نہیں کرتی۔ کوئی اور کرتا ہے۔ کہنے کو ہم آزاد ہیں۔ ماں کو فارسی نہیں آتی تھی‘ بچڑا آب آب کہتے مر گیا۔ پاکستانی عوام تبدیلی تبدیلی کہتے جان دے رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے بچوں کے نکاح حجاز میں ہوتے تھے۔ آج کے حکمران بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف لاکھوں خاندان محلے کی مسجد میں بھی نکاح کرانے سے معذور ہیں۔ پلّے پیسہ ہے نہ دھیلا‘ نکاح کیسے ہو گا؟ سونے کو تو چھوڑیے‘ مرغی کے سالن کے ساتھ برات کو کھانا کھلانا مشکل بلکہ ناممکن ہو رہا ہے۔ تقریباً پونے چار سو روپے میں ایک کلو گھی مل رہا ہے۔ روٹی کا آٹا کم ہو رہا ہے اور قیمت کا رُخ آسمان کی طرف ہے۔ وہ دن دور نہیں جب لوگ چیتھڑے اوڑھیں گے اور اُبلے ہوئے پتے کھائیں گے۔ کیا کسی نے وزیر اعظم کو‘ صدر کو‘ کسی وزیر کو‘کسی چیف منسٹر کو‘کسی گورنر کو بازار میں سودا سلف لیتے دیکھا ہے؟ جو قیامت عام آدمی پر ٹوٹی ہے اس کا اربابِ اختیار کو کوئی اندازہ ہی نہیں! دو مختلف دنیائیں ہیں جو الگ الگ سیاروں پر آباد ہیں۔
فیض صاحب کا ایک فقرہ بہت مشہور ہے۔ کسی محفل میں پاکستان کے مستقبل پر بات چیت ہو رہی تھی۔ کسی کو ڈر تھا کہ خون خرابہ ہو گا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ مزید ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت ہو گی۔ فیض صاحب کہنے لگے کہ اس سے بھی زیادہ برا ہو گا۔ وہ اس طرح کہ پاکستان اسی طرح چلتا رہے گا۔ لگتا ہے ان کا اندازہ سو فیصد درست تھا۔ ہماری قسمت کے فیصلے کرنے والوں نے‘ جو سمندر پار بیٹھے ہیں ‘ یہی طے کر رکھا ہے کہ یہ ملک ایسے ہی رہے۔ ڈوبے نہیں ‘ بس سطحِ آب پر تیرتا رہے مگر یوں کہ غوطے بھی کھاتا رہے اور زندہ بھی رہے۔ بس پانی سے نکل کر اپنے پاؤں پر نہ چل سکے۔ کتنی دہائیاں ہو گئیں‘ ہم قرضوں پر قرضے لے رہے ہیں۔ ہماری برآمدات میں کوئی مشینری ہے نہ ٹیکنالوجی۔ غضب خدا کا زرعی اشیا بھی باہر سے منگوا رہے ہیں۔ کبھی گندم! کبھی چینی! کشکول بدست ملک ملک پھر رہے ہیں اور آواز لگا رہے ہیں جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کابھی بھلا۔ تبدیلی والے مڈل کلاس کا نعرہ لگا کر آئے تھے۔ سب نے دیکھ لیا کہ ماشاء اللہ ان کے وزیروں اور کلیدی امرا کی جائدادیں بھی مغرب میں ہیں۔ یہ بھی تو شہ خانوں کے معاملات خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔ سیاحت کی ترقی یوں کی کہ متبادل انتظام کیے بغیر سرکاری موٹل بیک جنبش قلم بند کر دیے۔ترقیاتی منصوبے جو جاری تھے‘ جہاں ہیں‘ جیسے ہیں‘ کی بنیاد پر وہیں روک دیے گئے۔
پڑھنے والے شکوہ کرتے ہیں کہ ہم کالم نگار مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ مایوسی ہم نہیں‘ وہ پھیلا رہے ہیں جن کے پاس اختیار ہے۔ لکھنے والے نے تو وہی لکھنا ہے جو اسے دکھائی دے رہا ہے ! کیا یہ لکھنے والے ہیں جو آئے دن شاہراہیں بند کر دیتے ہیں؟ کیا کالم نگار جلوس نکالتے ہیں یا دھرنے دیتے ہیں یا کنٹینر لگا لگا کر آمد ورفت مسدود کر دیتے ہیں ؟ کیالکھنے والوں نے قوم کو استعماری مالیات کے شکنجے میں کسا ہے ؟ بھائی لوگو! سفیر کو کیوں قتل کرتے ہو؟ سفیر تو وہی پیغام دے گا جو اسے سونپا گیا ہے! کالم نگار وہی کچھ لکھے گا جو اسے گردو پیش میں نظر آ رہا ہے اور صاف نظر آرہا ہے!
اندرونی بد امنی اور بیرونی طاقتوں پر معاشی انحصار ! جو حکومت ان دو نحوستوں سے قوم کو مستقل چھٹکارا دلائے گی وہی نجات دہندہ ہو گی۔ تقریریں‘ بیانات‘ جوابی بیانات ‘ ذاتی حملے ‘میڈیا کی کھوکھلی مہمات ‘ الزامات‘ جوابی الزامات‘ ان سے حکومت بھی غیر مقبول ہو رہی ہے اور اپوزیشن بھی! جو جماعتیں اپوزیشن میں بھی متحد نہیں ہو رہیں‘ وہ حکومت میں آکر کیا تیر ماریں گی؟ ان کے پاس متبادل معاشی منصوبہ کیا ہے ؟ دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نہیں دکھائی دے رہی

بشکریہ روزنامہ  دنیا

Monday, October 25, 2021

ہم فرنٹ لائن پر ہیں!



دیکھتے دیکھتے، ایک نسل ختم ہو جاتی ہے۔ ہم ٹاپ پر پہنچ جاتے ہیں۔ بزرگ قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ بزرگی نہیں، دراصل اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ حضور! تیار ہو جائیے! آپ کی نسل کے خاتمے کا آغاز ہونے والا ہے۔ پھر نئی صف سے لوگ ایک ایک کر کے جانا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک اور نسل غائب ہو جاتی ہے۔ پھر اگلی نسل کی باری آتی ہے۔ بچے جوان اور جوان بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ ایک تہہ ہٹتی ہے۔ دوسری تہہ اوپر آجاتی ہے۔ یہی مدبّرالامر کی تدبیر ہے۔ یہی تقدیر ہے... ''ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر مہین پانی سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے۔ پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ پھر تم کو ایک بچے کی صورت نکال لائے تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی زیادہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے‘‘۔

لاہور میں مرحوم دوست سید آفتاب احمد شاہ کا تعزیتی ریفرنس تھا۔ ان کی صاحبزادی نے کہ کسٹم سروس میں کلکٹر ہیں، اپنے ابو کی اور میری چوّن سالہ دوستی کا مان رکھتے ہوئے بطور خاص اسلام آباد سے بلایا۔ تقریب میں موبائل فون کی آواز دبا دی‘ جسے کہتے ہیں: Silent پر کر دینا۔ ایسا مسجد میں کیا جائے یا کسی تقریب میں، آواز کو دوبارہ بحال کرنا یاد نہیں رہتا۔ تقریب خاصی تاخیر سے ختم ہوئی۔ فون کی آواز ٹھیک کرنا یاد نہ رہا۔ صبح اسی تاخیر سے اٹھنا ہوا جس تاخیر سے ہم جیسے اٹھتے ہیں۔ دیکھا تو رات کے وقت کئی کالیں آئی تھیں۔ گھر والوں کی اور چھوٹے بھائی کی! سب سے چھوٹے ماموں جان اس نگر کو سدھار گئے تھے جہاں اس سے پہلے نانا جان، نانی جان، امی جان اور دوسرے ماموں سدھارے تھے۔ آخری نشانی ننھیال کی ختم ہو گئی۔ نانکے مُک گئے۔ ننھیال نانا نانی سے ہوتے ہیں اور اس کے بعد ماموئوں اور خالاؤں سے۔ اس کے بعد پسماندگان سے تعلق گہرا قائم ہو جائے تو خوش بختی ورنہ دنیا کی بھیڑ میں قرابت داری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر جب ایک فریق گاؤں میں رہتا ہو اور دوسرا شہر میں!
ہمارے یہ ماموں، اپنے والد اور بھائی ہی کی طرح طویل قامت تھے۔ غضب کے شہسوار! نیزہ بازی کے ماہر! بے خوف! جیسے اس نسل کے لوگ تھے۔ رات کے بے پناہ اندھیرے میں سفر کرتے۔ کبھی پیدل کبھی گھوڑے پر۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کی عزت، منصب یا امارت سے نہیں بلکہ علم، وجاہت اور شخصیت کی بنا پر کی جاتی ہے۔ ہجوم جنہیں دیکھ کر خاموش ہو جاتا ہے۔ علاقے کے جھگڑے جن کی دانائی سے ختم ہو جاتے ہیں۔ لاٹھیاں اور بندوقیں اٹھائے، بپھرے ہوئے لوگ جن کی حکمت سے، چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں۔ پورے علاقے میں ان کا احترام تھا۔ شادیوں اور جنازوں پر ان کا انتظار کیا جاتا تھا۔ رہنمائی کے لیے لوگ ان کی طرف دیکھتے تھے۔ ہم بہن بھائی جب چھوٹے تھے تو ہمیں باہر کھیتوں میں لے کر جاتے جہاں خربوزے ہوتے اور موٹھ کی پھلیاں۔ بعد میں خربوزوں کی جگہ مونگ پھلی نے لے لی۔ گاؤں سے جب بھی ہمیں ملنے شہر میں آتے تو نانی جان ان کے ہاتھ وہ ساری سوغاتیں بھیجتیں جو آج معدوم ہو چکی ہیں۔ تنور میں بریاں کیے ہوئے باجرے کے سٹے، ستو، مرنڈے، میٹھی روٹیاں‘ بوتلوں میں بھرا خالص دودھ! ہمارے گاؤں اور ماموں جان کے گاؤں میں چار پانچ میل کا فاصلہ ہے۔ درمیان میں ایک گھاٹی پڑتی ہے۔ مشکل اور خوفناک۔ پہلے نیچے نشیب کی طرف جانا پڑتا ہے۔ ایک پُر ہول اترائی پر! گھوڑے پر ہوں تو، اتر کر، اور گھوڑے کو ساتھ ساتھ پتھروں اور چٹانوں پر چلا کر۔ سائیکل پر ہوں تو سائیکل کاندھے پر اٹھا کر! نشیب میں ایک میدان تھا ریتلا۔ اس کے بعد پہاڑی ندی! جو برسات میں عبور ہونے کے لیے پہروں انتظار کراتی۔ اسے پار کرنے کے بعد پھر چڑھائی‘ مگر یہ چڑھائی نسبتاً مہربان تھی۔ گھوڑے پر سوار ہوا جا سکتا تھا۔ دونوں گاؤں کے درمیان اس فاصلے اور اس پُر ہول گھاٹی کو ہم نے کتنی ہی بار عبور کیا ہو گا۔ ماموں جان ساتھ ہوتے تو یہ سارا سفر پکنک کی طرح لگتا۔ بارہا وہ رات کو سفر کرتے ہوئے اس گھاٹی کو تنہا پار کرتے۔ کبھی گھوڑے پر کبھی پیدل! بہت بعد میں، جب گاڑیاں اور موٹر سائیکل عام ہوئے تو اس گھاٹی کو مسافروں نے خیر باد کہہ دیا‘ اور نئے راستے تلاش کر لیے۔ پیدل چلنا خیال و خواب ہو گیا۔ گھوڑے‘ گھوڑیاں کم ہوتے ہوتے صرف یادداشتوں میں رہ گئے۔ ماموں جان کے گھر میں موٹر سائیکل آ گئی۔ ان کا بیٹا جوان ہوا تو اس نے جیپ خرید لی۔ اب وہ شہر میں ہمارے ہاں آتے تو بیٹے کی جیپ پر یا کبھی کبھی ہم انہیں گاڑی پر لے آتے۔
امی جان اور بڑے ماموں کی وفات کے بعد ننھیال صرف انہی پر مشتمل ہو کر رہ گیا تھا۔ ہم بھائی کوشش کرتے کہ جتنی زیادہ ممکن ہو ان سے ملاقات ہوتی رہے۔ ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ بہت بہادری سے بیماری کا مقابلہ کرتے رہے۔ اپنے معمولات، زمینوں کی دیکھ بھال، مسجد کے امور، علاقے میں آنا جانا، سب کچھ معمول کے مطابق جاری رکھا۔ ذیابیطس دیمک کی طرح کھاتی ہے خاص طور پر ان افراد کو جو دیہات میں رہنے کی وجہ سے ڈاکٹر اور ہسپتال سے دور ہوتے ہیں۔ ماموں جان کو سر اور ہاتھوں میں رعشہ شروع ہو گیا۔ آسٹریلیا میں ایک برخوردار نیورو فزیشن ہیں، اور ہمارے صاحبزادے کے دوست۔ ان سے پوچھا کہ اسلام آباد راولپنڈی میں کس ڈاکٹر کے پاس لے کر جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود علاج کریں گے۔ ماموں جان کے وڈیو کلپس بنا کر انہیں بھیجے۔ دوائیں شروع کرائیں۔ کچھ عرصہ بعد سر کا رعشہ تو ٹھیک ہو گیا لیکن ہاتھوں کا رعشہ آخر تک رہا۔ ان کا بیٹا اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتا اور پانی پلاتا۔ ایک دن میری بڑی بہن کا فون آیا کہ انہوں نے کچھ دنوں کے لیے ماموں جان کو گاؤں سے بلا لیا ہے۔ ان کے نئے دانت بنوانے ہیں۔ دانت بن گئے۔ میں نے چیک اپ کرایا تو گردوں کی کارکردگی کم نکلی۔ نیفرالوجسٹ کو دکھایا۔ اس نے پروٹین کم کرنے کا کہا۔ ان کی ادویات شہر سے باقاعدگی کے ساتھ بھجوائی جاتی رہیں۔ کبھی میں خود دینے جاتا۔ کچھ وقت ان کے ساتھ گزارتا۔ ایک دن گیا تو مسجد میں تھے۔ غسل کرنے کے بعد نماز پڑھنے لگے تھے۔ میرا چھوٹا بھائی بھی باقاعدگی سے جاتا۔ بہت خوش ہوتے۔وقت گزر رہا تھا۔ وہ زیادہ کمزور ہو رہے تھے مگر اس کے باوجود عمومی حالت اچھی تھی۔ مسجد بھی جا رہے تھے۔ صاحب فراش نہ تھے۔ شاید قدرت انہیں اور ان کے تیمارداروں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ عشا کی نماز ادا کی۔ رات آدھی ایک طرف تھی‘ آدھی دوسری طرف۔ بیٹے کو بلایا کہ مجھے بٹھاؤ۔ باتھ روم گئے۔ واپس آئے۔ گلے سے خراش قسم کی آ واز آئی اور پلک جھپکنے میں وہ سرحد عبور کر چکے تھے۔
اب ہماری نسل فرنٹ لائن پر ہے۔ اس دنیا میں کوئی ہمیشہ کے لیے رہتا تو وہ پیغمبر ہوتے۔ خاتم النبیین ہوتے ع
جب احمد مرسَل نہ رہے، کون رہے گا!
خدا رفتگاں کی منزلیں آسان فرمائے! اور ہم پسماندگان پر رحم کرے!

بشکریہ روزنامہ دنیا


دیکھتے دیکھتے، ایک نسل ختم ہو جاتی ہے۔ ہم ٹاپ پر پہنچ جاتے ہیں۔ بزرگ قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ بزرگی نہیں، دراصل اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ حضور! تیار ہو جائیے! آپ کی نسل کے خاتمے کا آغاز ہونے والا ہے۔ پھر نئی صف سے لوگ ایک ایک کر کے جانا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک اور نسل غائب ہو جاتی ہے۔ پھر اگلی نسل کی باری آتی ہے۔ بچے جوان اور جوان بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ ایک تہہ ہٹتی ہے۔ دوسری تہہ اوپر آجاتی ہے۔ یہی مدبّرالامر کی تدبیر ہے۔ یہی تقدیر ہے... ''ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر مہین پانی سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے۔ پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ پھر تم کو ایک بچے کی صورت نکال لائے تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی زیادہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے‘‘۔(مفہوم) (الحج:5)
لاہور میں مرحوم دوست سید آفتاب احمد شاہ کا تعزیتی ریفرنس تھا۔ ان کی صاحبزادی نے کہ کسٹم سروس میں کلکٹر ہیں، اپنے ابو کی اور میری چوّن سالہ دوستی کا مان رکھتے ہوئے بطور خاص اسلام آباد سے بلایا۔ تقریب میں موبائل فون کی آواز دبا دی‘ جسے کہتے ہیں: Silent پر کر دینا۔ ایسا مسجد میں کیا جائے یا کسی تقریب میں، آواز کو دوبارہ بحال کرنا یاد نہیں رہتا۔ تقریب خاصی تاخیر سے ختم ہوئی۔ فون کی آواز ٹھیک کرنا یاد نہ رہا۔ صبح اسی تاخیر سے اٹھنا ہوا جس تاخیر سے ہم جیسے اٹھتے ہیں۔ دیکھا تو رات کے وقت کئی کالیں آئی تھیں۔ گھر والوں کی اور چھوٹے بھائی کی! سب سے چھوٹے ماموں جان اس نگر کو سدھار گئے تھے جہاں اس سے پہلے نانا جان، نانی جان، امی جان اور دوسرے ماموں سدھارے تھے۔ آخری نشانی ننھیال کی ختم ہو گئی۔ نانکے مُک گئے۔ ننھیال نانا نانی سے ہوتے ہیں اور اس کے بعد ماموئوں اور خالاؤں سے۔ اس کے بعد پسماندگان سے تعلق گہرا قائم ہو جائے تو خوش بختی ورنہ دنیا کی بھیڑ میں قرابت داری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر جب ایک فریق گاؤں میں رہتا ہو اور دوسرا شہر میں!
ہمارے یہ ماموں، اپنے والد اور بھائی ہی کی طرح طویل قامت تھے۔ غضب کے شہسوار! نیزہ بازی کے ماہر! بے خوف! جیسے اس نسل کے لوگ تھے۔ رات کے بے پناہ اندھیرے میں سفر کرتے۔ کبھی پیدل کبھی گھوڑے پر۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کی عزت، منصب یا امارت سے نہیں بلکہ علم، وجاہت اور شخصیت کی بنا پر کی جاتی ہے۔ ہجوم جنہیں دیکھ کر خاموش ہو جاتا ہے۔ علاقے کے جھگڑے جن کی دانائی سے ختم ہو جاتے ہیں۔ لاٹھیاں اور بندوقیں اٹھائے، بپھرے ہوئے لوگ جن کی حکمت سے، چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں۔ پورے علاقے میں ان کا احترام تھا۔ شادیوں اور جنازوں پر ان کا انتظار کیا جاتا تھا۔ رہنمائی کے لیے لوگ ان کی طرف دیکھتے تھے۔ ہم بہن بھائی جب چھوٹے تھے تو ہمیں باہر کھیتوں میں لے کر جاتے جہاں خربوزے ہوتے اور موٹھ کی پھلیاں۔ بعد میں خربوزوں کی جگہ مونگ پھلی نے لے لی۔ گاؤں سے جب بھی ہمیں ملنے شہر میں آتے تو نانی جان ان کے ہاتھ وہ ساری سوغاتیں بھیجتیں جو آج معدوم ہو چکی ہیں۔ تنور میں بریاں کیے ہوئے باجرے کے سٹے، ستو، مرنڈے، میٹھی روٹیاں‘ بوتلوں میں بھرا خالص دودھ! ہمارے گاؤں اور ماموں جان کے گاؤں میں چار پانچ میل کا فاصلہ ہے۔ درمیان میں ایک گھاٹی پڑتی ہے۔ مشکل اور خوفناک۔ پہلے نیچے نشیب کی طرف جانا پڑتا ہے۔ ایک پُر ہول اترائی پر! گھوڑے پر ہوں تو، اتر کر، اور گھوڑے کو ساتھ ساتھ پتھروں اور چٹانوں پر چلا کر۔ سائیکل پر ہوں تو سائیکل کاندھے پر اٹھا کر! نشیب میں ایک میدان تھا ریتلا۔ اس کے بعد پہاڑی ندی! جو برسات میں عبور ہونے کے لیے پہروں انتظار کراتی۔ اسے پار کرنے کے بعد پھر چڑھائی‘ مگر یہ چڑھائی نسبتاً مہربان تھی۔ گھوڑے پر سوار ہوا جا سکتا تھا۔ دونوں گاؤں کے درمیان اس فاصلے اور اس پُر ہول گھاٹی کو ہم نے کتنی ہی بار عبور کیا ہو گا۔ ماموں جان ساتھ ہوتے تو یہ سارا سفر پکنک کی طرح لگتا۔ بارہا وہ رات کو سفر کرتے ہوئے اس گھاٹی کو تنہا پار کرتے۔ کبھی گھوڑے پر کبھی پیدل! بہت بعد میں، جب گاڑیاں اور موٹر سائیکل عام ہوئے تو اس گھاٹی کو مسافروں نے خیر باد کہہ دیا‘ اور نئے راستے تلاش کر لیے۔ پیدل چلنا خیال و خواب ہو گیا۔ گھوڑے‘ گھوڑیاں کم ہوتے ہوتے صرف یادداشتوں میں رہ گئے۔ ماموں جان کے گھر میں موٹر سائیکل آ گئی۔ ان کا بیٹا جوان ہوا تو اس نے جیپ خرید لی۔ اب وہ شہر میں ہمارے ہاں آتے تو بیٹے کی جیپ پر یا کبھی کبھی ہم انہیں گاڑی پر لے آتے۔
امی جان اور بڑے ماموں کی وفات کے بعد ننھیال صرف انہی پر مشتمل ہو کر رہ گیا تھا۔ ہم بھائی کوشش کرتے کہ جتنی زیادہ ممکن ہو ان سے ملاقات ہوتی رہے۔ ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ بہت بہادری سے بیماری کا مقابلہ کرتے رہے۔ اپنے معمولات، زمینوں کی دیکھ بھال، مسجد کے امور، علاقے میں آنا جانا، سب کچھ معمول کے مطابق جاری رکھا۔ ذیابیطس دیمک کی طرح کھاتی ہے خاص طور پر ان افراد کو جو دیہات میں رہنے کی وجہ سے ڈاکٹر اور ہسپتال سے دور ہوتے ہیں۔ ماموں جان کو سر اور ہاتھوں میں رعشہ شروع ہو گیا۔ آسٹریلیا میں ایک برخوردار نیورو فزیشن ہیں، اور ہمارے صاحبزادے کے دوست۔ ان سے پوچھا کہ اسلام آباد راولپنڈی میں کس ڈاکٹر کے پاس لے کر جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود علاج کریں گے۔ ماموں جان کے وڈیو کلپس بنا کر انہیں بھیجے۔ دوائیں شروع کرائیں۔ کچھ عرصہ بعد سر کا رعشہ تو ٹھیک ہو گیا لیکن ہاتھوں کا رعشہ آخر تک رہا۔ ان کا بیٹا اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتا اور پانی پلاتا۔ ایک دن میری بڑی بہن کا فون آیا کہ انہوں نے کچھ دنوں کے لیے ماموں جان کو گاؤں سے بلا لیا ہے۔ ان کے نئے دانت بنوانے ہیں۔ دانت بن گئے۔ میں نے چیک اپ کرایا تو گردوں کی کارکردگی کم نکلی۔ نیفرالوجسٹ کو دکھایا۔ اس نے پروٹین کم کرنے کا کہا۔ ان کی ادویات شہر سے باقاعدگی کے ساتھ بھجوائی جاتی رہیں۔ کبھی میں خود دینے جاتا۔ کچھ وقت ان کے ساتھ گزارتا۔ ایک دن گیا تو مسجد میں تھے۔ غسل کرنے کے بعد نماز پڑھنے لگے تھے۔ میرا چھوٹا بھائی بھی باقاعدگی سے جاتا۔ بہت خوش ہوتے۔وقت گزر رہا تھا۔ وہ زیادہ کمزور ہو رہے تھے مگر اس کے باوجود عمومی حالت اچھی تھی۔ مسجد بھی جا رہے تھے۔ صاحب فراش نہ تھے۔ شاید قدرت انہیں اور ان کے تیمارداروں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ عشا کی نماز ادا کی۔ رات آدھی ایک طرف تھی‘ آدھی دوسری طرف۔ بیٹے کو بلایا کہ مجھے بٹھاؤ۔ باتھ روم گئے۔ واپس آئے۔ گلے سے خراش قسم کی آ واز آئی اور پلک جھپکنے میں وہ سرحد عبور کر چکے تھے۔
اب ہماری نسل فرنٹ لائن پر ہے۔ اس دنیا میں کوئی ہمیشہ کے لیے رہتا تو وہ پیغمبر ہوتے۔ خاتم النبیین ہوتے ع
جب احمد مرسَل نہ رہے، کون رہے گا!
خدا رفتگاں کی منزلیں آسان فرمائے! اور ہم پسماندگان پر رحم کرے!

Thursday, October 21, 2021

محبت کا دعویٰ کہیں رد نہ ہو جائے


ایک اور بارہ ربیع الاول آیا اور گزر گیا۔
اس بار بھی ہم نے چراغاں کیا۔ جلوس نکالے۔ جلسے کیے۔ حکومت نے یہ دن منایا اور رعایا نے بھی۔ ہاں، یہ کوشش بھی کی گئی کہ ہماری زندگیوں پر اس دن کا کوئی اثر نہ پڑے‘ ہم نے اپنے کسی رویّے کو تبدیل نہیں کرنا‘ فرد ہے یا خاندان یا معاشرہ یا حکومت‘ کسی نے بھی اپنے آپ کو اس راستے پر نہیں چلانا جس کی ہمیں تلقین کی گئی ہے۔ امریکہ میں کچھ تنظیموں نے دنیا بھر کے ملکوں کو قرآن پاک اور رسول اکرمﷺ کی ہدایات کی کسوٹی پر پرکھا اور اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ آئرلینڈ، نیوزی لینڈ اور کچھ اور مغربی ملک، اس ضمن میں مسلمان ملکوں سے کہیں آگے ہیں! انفرادی سطح پر نہیں بلکہ سسٹم کے لحاظ سے! انفرادی طور پر بھی ہماری اخلاقیات ان ملکوں کے باشندوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ درست کہ شراب عام ہے اور جنسی حوالے سے اُن معاشروں میں افراتفری ہے۔ ہمارے ہاں بھی بہت کچھ ہوتا ہے مگر چھپ کر۔ ہم شراب نوشی کو اور جنسی آزادی کو غلط سمجھتے ہیں اور غلط سمجھنا چاہیے تاہم ہمارا اسلام یہاں پر آکر ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے آگے ہم اُسے نہیں بڑھنے دیتے۔ کہیں پہلے بھی عرض کیا ہے کہ صبح کی نماز میں اسلام ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ نماز سے فارغ ہو کر ہم مسجد سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں تو اسلام ہمارے ساتھ مسجد سے باہر آنا چاہتا ہے مگر ہم پورے احترام کے ساتھ اسے باہر آنے سے منع کر دیتے ہیں۔ ہم اسلام سے دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ حضور! آپ باہر دنیا کے دھندوں میں کیا الجھیں گے! یہیں مسجد میں بیٹھیے۔ ہم ظہر کے وقت دوبارہ ملیں گے۔ یوں اسلام کو مسجد میں چھوڑ کر ہم اپنے اپنے کارخانوں، دفتروں، کھیتوں، بازاروں اور کام کی جگہوں کو روانہ ہوتے ہیں۔ جو کچھ بھی وہاں کرتے ہیں اس میں اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ظہر کی نماز پر مسجد لوٹتے ہیں تو اس سے پھر بغلگیر ہوتے ہیں۔
چراغاں کرنا، تعطیل منانا، ربیع الاول کے حوالے سے پروگرام کرنا آسان ہے مگر زندگی کو اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنا مشکل ہے۔ جھوٹ ہماری ہڈیوں کے اندر گودے تک سرایت کر چکا ہے۔ گاہک ہے یا دکاندار، استاد ہے یا شاگرد، بیوی ہے یا میاں، والدین ہیں یا بچے، ماتحت ہیں یا افسر، اہل سیاست ہیں یا دوسرے شعبوں کے ماہرین، ہر شخص ہر جگہ جھوٹ بولتا ہے۔ اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اسے برا بھی نہیں سمجھتا۔ صلہ رحمی مفقود ہے۔ غریب رشتے داروں کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے۔ قرابت داری کا انحصار زیادہ تر دولت اور سٹیٹس پر ہے۔ بہت کم خانوادے ہیں جو ملازموں کے ساتھ وہی سلوک رکھتے ہیں جو افرادِ خانہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ پڑوسیوں کے حقوق سے غفلت عام ہے۔ احادیث میں جو پیش گوئی کی گئی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دوستوں اور بیویوں کو والدین پر ترجیح دی جائے گی۔ اگر یادداشت درست کام کررہی ہے تو یہ قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ادھر ادھر نظر دوڑائیے ایسی کئی مثالیں مل جائیں گی۔ حرمت رسولﷺ پر جان قربان ہے مگر سنت رسولﷺ پر عمل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے صرف اسی کو دیکھ لیجیے۔ وراثت میں ان کا حصہ ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ بیٹی کی ولادت پر تھری پیس سوٹ والا اور جبہ و دستار والا، دونوں کا چہرہ سیاہ پڑتا ہے۔ مائنڈسیٹ ملاحظہ فرمائیے کہ بیٹی لائق ہو اور والدین کی دیکھ بھال کرے تو کہا جاتا ہے یہ بیٹی نہیں بیٹا ہے۔ واہ! کیا طرز فکر ہے! عمومی اخلاق پر غور کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم متبسم رہتے تھے۔ نرم گفتار تھے۔ آواز نہ پست رکھتے تھے نہ بہت بلند۔ صلہ رحمی فرماتے تھے۔ بچوں پر شفقت کرتے تھے۔ آپﷺ نے کبھی کسی کو طعنہ نہیں دیا۔ کبھی کسی کی غیبت نہیں کی۔ کبھی کسی زیادتی کا بدلہ نہیں لیا۔ بڑے سے بڑے دشمن کو معاف فرما دیا۔ ہم لوگ کس قدر کھردرے ہیں۔ مسکرا کر کم ہی جواب دیتے ہیں۔ شکریہ ادا کرنے میں کنجوس ہیں۔ اپنا کیا ہوا احسان یاد رکھتے ہیں اور جتاتے ہیں۔ دوسروں کے احسانات بھول جاتے ہیں۔ بدلہ لیے بغیر نیند نہیں آتی۔ اپنے قصور کی معافی مانگنے میں انا حائل ہو جاتی ہے۔ دوسرا معافی مانگے تو اکڑ بڑھ جاتی ہے حالانکہ اب میڈیکل سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کہ منتقم مزاج افراد کو دل کی بیماریاں دوسروں کی نسبت زیادہ لاحق ہوتی ہیں۔ وجہ ظاہر ہے۔ بدلہ لینے کے لیے ان کے بغض بھرے دل ہر وقت مضطرب رہتے ہیں اور دماغ کھولتے رہتے ہیں۔ عفوودرگزر کرنے والوں کی زندگیاں نسبتاً طویل ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے مختلف یونیورسٹیوں کی تحقیقی رپورٹیں انٹرنیٹ پر موجود ہیں! ڈھونڈ کر پڑھ لیجیے۔ معاف کرنے میں زیادہ فائدہ معاف کرنے والے کا اپنا ہے۔ پھر، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اصحاب کی موجودگی میں آقائے دو جہاںﷺ نے کھانا اکیلے ہی تناول فرما لیا ہو۔ کئی فاقوں کے بعد بھی کچھ میسر آتا تھا تو سب کے ساتھ مل کر کھاتے تھے۔ اہل بیت کی زندگیوں پر نظر دوڑائیے۔ یہ مقدس ہستیاں جودوسخا، بخشش، اور مہمان نوازی کی پیکر تھیں۔ ہمارے حکمران تو کھانا تنہا کھانا ہی پسند کرتے ہیں۔ ہم جو رعایا ہیں، تو ہم نے بھی پھر انہی کی تقلید کرنی ہے۔
دینی معلومات کی ذمہ داری ساری کی ساری مولوی صاحب پر چھوڑ دی گئی ہے۔ اب اردو میں دینی لٹریچر وسیع پیمانے پر موجود ہے مگر خال خال ایسے گھرانے ہیں جو اس ضمن میں خود کفیل ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ ہو، مولوی صاحب کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ بچوں کو ناظرہ قرآن پاک پڑھایا جاتا ہے مگر کسی کو ہوش نہیں کہ ترجمہ بھی پڑھایا جائے۔ یہ واحد کتاب ہے جسے ذوق و شوق سے پڑھنے والوں کو اس کے معنی اور مفہوم کی کوئی فکر نہیں۔ اس حقیقت پر جتنا ماتم کیا جائے اتنا ہی کم ہے کہ پانچ وقت نماز پڑھتے عمر بیت جاتی ہے مگر نماز کے کلمات کا مطلب نہیں معلوم! مولوی صاحب دعا مانگتے ہیں۔ آمین کہنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ مانگا کیا ہے۔ دین کا ایک خول ہے جو ہم نے اپنے اوپر چڑھایا ہوا ہے۔ نماز، روزہ، حج۔ یہ سب صرف باہر ہے۔ اندر، ہماری عملی زندگی ہے جس کی دنیا ہی مختلف ہے۔ عملی زندگی پر دین کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیا جاتا۔ صرف ایک مثال لے لیجیے۔ ہمارے ہاں معذوروں کو حقارت آمیز ناموں سے بلایا یا یاد کیا جاتا ہے۔ کلام پاک میں اس سے منع کیا گیا ہے‘ مگر یہ بات کتنے لوگوں کو معلوم ہے؟ حالانکہ اس آیۂ کریمہ کو کتنی بار پڑھا اور کتنی بار سنا ہو گا! ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلانے سے منع فرمایا گیا۔ یہاں رات دن منقول کہہ کر ہر رطب و یابس کو فارورڈ کیا جا رہا ہے۔ غلط روایات، افواہوں اور اتائی نسخوں کا ایک انبار ہے جو رات دن پھیلایا جا رہا ہے۔
ولادت پاک کی خوشی منانا ہمارا حق ہے۔ گنہگار سے گنہگار مسلمان کا دل بھی محبت رسولﷺ سے چھلک رہا ہے۔ ساتھ ساتھ ہمیں یہ فکر بھی ہونی چاہیے کہ کل جب رسالت مآبﷺ کا سامنا ہو گا تو کہیں محبت کا دعویٰ رد نہ ہو جائے۔

Tuesday, October 19, 2021

طالبان حکومت… کامیابی کا راستہ کون سا ہے ؟



'' پی آئی اے نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر افغانستان میں کابل سمیت دیگر شہروں کے لیے فلائٹ آپریشن معطل کر دیا۔اس سے قبل طالبان کی حکومت نے کابل اسلام آباد کرایہ کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے مراسلے میں دھمکی دی تھی کہ کرایہ کم نہ ہونے کی صورت میں پی آئی اے اور افغان ایئر لائن کی کابل فلائٹس پر پابندی لگا دی جائے گی۔ پی آئی اے نے موقف اختیار کیا کہ انشورنس کی قیمت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے پر مجبور ہیں۔ادھر برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے افغانستان کے لیے پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن معطل کرنے کی وجہ طالبان کا جارحانہ رویہ قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ طالبان کا رویہ اس قدر جارحانہ ہے کہ ایک دن کابل میں منیجر آپریشن کو بندوق کی نوک پر بٹھا لیا اور روزانہ کی بنیاد پر نئی پالیسی متعارف کرا دیتے ہیں۔یہ اقدام پی آئی اے کے آپریشنز میں رکاوٹ بن رہے تھے۔‘‘
یہ خبر گزشتہ ہفتے روزنامہ دنیا میں شائع ہو ئی۔ اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ طالبان کی حمایت یا مخالفت کا نہیں‘ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کو نکالنے کے بعد طالبان نے کاروبارِ مملکت کس طرح چلانا ہے؟ ان کی فتح دنیا نے تسلیم کر لی۔ امریکہ اپنی ہزیمت مان چکا۔ اب اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا ہوائی جہازوں کے کرائے اور انشورنس جیسے تکنیکی ایشو بندوق سے حل کیے جائیں گے ؟ اگر کوئی افغانستان کا اور طالبان حکومت کا بداندیش ہے تو وہ اس پر واہ واہ کرے گا مگر جو افغانستان کا اور وہاں کی موجودہ حکومت کا خیر خواہ ہے وہ اس رویے پر فکرمند ہو گا۔
مانا کہ اس رویے کے پیچھے بیس تیس سالہ جدو جہد ہے جو بندوق کی مدد سے کی گئی۔ ایک لحاظ سے غلام محمد قاصر مرحوم کا شہرہ آفاق شعر طالبان پر صادق آتا ہے ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
طالبان ناکام نہیں ہوئے۔ بندوق کی مدد سے اللہ کی نصرت کے ساتھ ظفریاب ہو ئے مگر ساتھ ہی تلخ حقیقت یہ ہے کہ انہیں بندوق چلانے کے علاوہ کوئی اور کام بھی نہیں آتا۔ کھیت میں کارخانے میں بازار میں دفتر میں انہوں نے کوئی کام کیا نہ کوئی اور پیشہ یا مصروفیت۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا لڑائی میں حصہ لینے والے طالبان کو ایک باقاعدہ پیشہ ور فوج میں تبدیل کیا جائے گا ؟ اور پھر انہیں سول معاملات سے الگ رکھا جا ئے گا؟ یا کاروبارِ مملکت وہی چلائیں گے ؟ اگر وہی چلائیں گے تو پھر ان کے پاس تو بندوق ہی ہے۔ اگر پاکستان جیسے دوست ملک کی قومی ایئر لائن کے منیجر کو وہ بندوق کی نوک پر بٹھا سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک مطلب یہ ہے کہ ریاستی معاملات بندوق کے ساتھ چلائے جائیں گے۔متناقض بات (paradox) یہ ہے کہ ایک طرف وہ بندوق کو کندھے سے اتارنے کے لیے تیار نہیں‘ دوسری طرف وہ معاشی لحاظ سے دوسروں کے محتاج ہیں۔ جس پاکستان کے سینئر افسر کو وہ بندوق کی نوک پر بٹھا رہے ہیں یہ وہی پاکستان ہے جو اُن کے ملک کے لیے لائف لائن ہے۔ چاروں طرف خشکی سے محصور افغانستان کا انحصار پاکستان کی بندرگاہوں پر ہے۔ پیداوار وہاں کی پوست ہے یا پھل۔ صنعت نہ ہونے کے برابر ہے۔ گندم ساری کی ساری پاکستان سے جاتی ہے۔ یہ بات بچے بچے کو معلوم ہے کہ سوئی سے لے کر مشین تک اور کپڑے سے کر چینی تک سب کچھ یہیں سے جاتا ہے۔ مریض بھی یہیں آتے ہیں اور طلبہ بھی۔
کوئی طالبان کو سمجھائے کہ اب آپ کو ملک کا نظم و نسق چلانا ہے۔ کارخانے لگانے ہیں۔زراعت کو مشینی ( میکانائز) کرنا ہے۔ عوام کے لیے خوراک پیدا کرنی ہے۔ دنیا بھر کے سفیروں سے معاملات طے کرنے ہیں جس کا واحد طریقہ گفت و شنید ہے۔ کالج‘ سکول‘ یونیورسٹیاں کھولنی ہیں۔ ایئر لائن چلانی ہے۔ عدالتیں قائم کرنی ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ معاملات چلانے ہیں۔یہ اور اس جیسے سینکڑوں کام کرنے ہیں۔ ان میں سے کوئی کام بھی بندوق کی نوک پر نہیں ہو گا۔ اب علم کی ضرورت ہے اور حلم کی ! اب بندوق کو غلاف میں ڈال دیں۔ ڈھنگ کی افرادی قوت اپنے پاس نہیں تو دوسرے ملکوں سے لیں۔ سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ صنعت کاروں کو یقین دلائیں کہ وہ اور ان کی فیکٹریاں محفوظ رہیں گی۔پھلوں کو ڈبوں میں بند اور محفوظ کرنے کے لیے تھائی لینڈ‘ فلپائن اور ملائیشیا سے ماہرین بلائیں۔ معدنیات دریافت کرنے کے لیے کمپنیوں کو منگوائیں اور ان سے ماہرانہ اور شاطرانہ انداز سے شرائط طے کریں۔ یہ کام اعداد و شمار سے ہو گا اور مذاکرات سے! بندوق کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں !
جس تسلسل کے ساتھ افغانستان کے شہروں میں دھماکے ہو رہے ہیں اور ہلاکتوں کی جو تعداد رپورٹ ہو رہی ہے اس کے پیش نظر مستقبل مخدوش دکھائی دے رہا ہے۔ دو دن پہلے طالبان کے ترجمان نے امریکی میڈیا کو بتایا ہے کہ چین افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہے۔مگر کیا افغانستان کی اندرونی صورتِ حال چین کو ایسا کرنے دے گی ؟
سرمایہ کاری کے ساتھ چین کی افرادی قوت بھی آئے گی۔ کیا اس افرادی قوت کی حفاظت کی ضمانت دی جا سکے گی؟ پاکستان نے خود اس ضمن میں بہت ناخوشگوار واقعات برداشت کیے ہیں جبکہ پاکستان میں ادارے منظم ہیں اور ریاست مضبوط! اس کے مقابلے میں افغانستان انتہائی عدم استحکام کا شکار ہے۔ لسانی‘ مسلکی اور نسلی مسائل کی گرد افغانستان پر ایک سیاہ چادر کی صورت تنی ہوئی ہے۔ خدا کرے کہ چین کی سرمایہ کاری کا ارداہ پایۂ تکمیل تک پہنچے۔
طالبان حکومت کی کامیابی کے لیے صرف دو عوامل درکار ہیں اور یہ دو عوامل ایسے ہیں جن کے بغیر کامیابی کا کوئی امکان نہیں؛ ایک مذاکرات، دوسرا برداشت۔ دونوں عوامل بیرونی اور اندرونی دونوں حوالوں سے ناگزیر ہیں۔ خاص طور پر اندرونی ہم آہنگی کے لیے مذاکرات اور برداشت لازم ہیں۔ اس وقت جن ازبکوں اور تاجکوں کو طالبان حکومت نے اپنایا ہوا ہے یہ وہ ہیں جو نظریاتی طور پر ان کے ساتھ ہیں‘ برداشت کا تقاضا یہ ہے کہ مخالف نظریات رکھنے والوں کو بھی ساتھ ملایا جائے۔ مسلک اور زبان سے قطع نظر سب کو ساتھ لے کر چلیں گے تو حکومت بچے گی اور کامیاب ہو گی۔ جو شواہد نظر آرہے ہیں وہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ خواتین کی ملازمتوں اور تعلیم کا سلسلہ وعدۂ فردا پر رُکا ہوا ہے۔ اس ضمن میں اندرونی اختلافات شدید ہیں۔ ایک گروہ اس سلسلے میں متوازن رویہ رکھنا چاہتا ہے‘ دوسرا غیر لچکدار! معاملات کی نوعیت کا اصل احساس اُن طالبان رہنماؤں کو ہے جو دوحہ مذاکرات میں شامل تھے۔ دوسری طرف طالبان کے وہ رہنما ہیں جو جنگ کے میدان میں تھے۔ دونوں کا اپنا اپنا استحقاق ہے۔ اور دونوں کی اپروچ میں تفاوت بہت زیادہ ہے۔ جنگی کمانڈروں کو چاہیے کہ وہ ایک پروفیشنل فوج تیار کرنے میں لگ جائیں اور پالیسی معاملات مکمل طور پر ان رہنماؤں کے حوالے کر دیں جو مذاکرات کی چھلنی سے گزرے ہیں اور جنہیں احساس ہے کہ دنیا کی کیا توقعات ہیں اور آگے کیسے بڑھنا ہے ؟
بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, October 18, 2021

ڈاکٹر صاحب ! غلطی آپ کی اپنی تھی



اگر کوئی کرشمہ برپا ہو جائے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم سے ملاقات ہو تو لگی لپٹی رکھے بغیر‘ ان سے صاف صاف بات کی جائے۔ 

انہیں کہا جائے کہ ڈاکٹر صاحب! غلطی آپ کی اپنی تھی! آپ سائنسدان بنے ہی کیوں؟ آپ کامیڈین بنتے! پھر آپ دیکھتے کیا عوام‘ کیا خواص‘ کیا حکومتیں‘ سب آپ کو اہمیت دیتے۔ آپ اٹھارہ سال نظر بند رہے‘ آپ کامیڈین ہوتے تو لوگوں نے اتنا شور مچانا تھا کہ چند ماہ بعد ہی آپ رہا ہو جاتے۔ آپ بیمار ہوتے تو حکومتیں آپ کو علاج کیلئے کروڑوں روپے دیتیں۔ جہاز منگوائے جاتے کہ آپ کو یورپ یا امریکہ بھیج کر علاج کرایا جائے۔ آپ بطور کامیڈین وفات پاتے تو میڈیا پر کہرام بپا ہو جاتا۔ صدر مملکت آپ کے پسماندگان کے پاس جا کر فاتحہ پڑھتے۔ آپ نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ یہاں ملک کو دشمن سے بچانے والوں کی قدر نہیں ہوتی‘ یہاں ہنسانے والوں کی قدر ہوتی ہے۔ آپ نے اپنا پروفیشن ہی غلط چنا!
یا آپ کھلاڑی بنتے۔ کروڑوں میں کھیلتے۔ میچ فکس کرتے اور کراتے۔ قوم آپ کو سر پر بٹھاتی۔ بڑے بڑے مبلغ آپ کے پیچھے پیچھے پھرتے۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جس دن میچ ہوتا ہے اس دن عملاً مملکت کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے۔ ایک ایک کھلاڑی کا نام بچے بچے کی زبان پر ہے۔ یا آپ سنگر بنتے۔ قوم کے اصل ہیرو یہی لوگ ہیں۔ انہی کی عزت ہے۔ آپ فلم ایکٹر بنتے۔ ٹی وی سٹار بنتے۔ ڈراموں میں حصہ لیتے۔ ایوارڈ لینے کیلئے آپ کو ہیوسٹن لے جایا جاتا۔ وارے نیارے ہو جاتے۔ یا آپ پراپرٹی  ٹائیکون ہوتے۔حکومتوں کے درمیان وچولن کی ذمہ داریاں نبھاتے۔ حکومتیں آپ کی جیب میں ہوتیں۔ آپ پٹواری ہو جاتے۔ تھانیدار لگ جاتے۔ وزیر امیر آپ سے تعلقات رکھتے۔
ڈاکٹر صاحب! آپ کی زندگی سنگین غلطیوں سے بھری پڑی ہے۔ سب سے بڑی غلطی آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم کا کہا مان کر کی۔ کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ خود وزیر اعظم کا مستقبل اس ملک میں ہمیشہ مخدوش ہوتا ہے؟ جہاں لیاقت علی خان جیسا لیجنڈری وزیر اعظم گولی کا نشانہ بنا اور اس کے قاتل کو وہیں مار دیا گیا‘ وہاں بھٹو صاحب کا مستقبل کیا ہو سکتا تھا؟ آپ کی دوسری غلطی تھی اپنے کام کو سنجیدگی سے فرض جان کر پورا کرنا۔ آپ کو کیا ضرورت تھی رات دن ایک کر کے کام کرنے کی؟ کام کو لٹکاتے جیسا کہ یہاں رواج ہے۔ یہاں تو ایک چھوٹا سا ایئر پورٹ بنانے میں دہائی لگ گئی۔ رنگ روڈ بننے میں عشرے لگیں گے۔ ایک ایک شاہراہ‘ ایک ایک پُل ایک ایک انڈر پاس بننے میں سالہا سال صرف ہوتے ہیں۔ تین سال ہو گئے وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی بنا نہ گورنر ہاؤس کا کچھ ہوا۔ آپ بھولے بادشاہ تھے کہ جو فرض سونپا گیا اسے سرانجام دے دیا۔ اس کی پاداش میں آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اُس میں اُن سب لوگوں کے لیے سبق ہے اور وارننگ بھی جو اپنے کام میں مخلص ہیں۔
ڈاکٹر صاحب! جس ملک میں پروفیسر اور پی ایچ ڈی دھکے کھائیں اور سیکشن افسر اور مجسٹریٹ ان پروفیسروں اور پی ایچ ڈی سکالرز پر حکم چلائیں اُس ملک کو سائنس یا سائنسدانوں کی کیا ضرورت ہے؟ یہاں ہر تیسری دکان نہاری‘ چرغے اور پلاؤ کی ہے۔ یہاں گھروں میں گھنٹوں اس امر پر بحثیں ہوتی ہیں کہ آج پکے گا کیا؟ یہاں لاہور میں ایک غیر ملکی فاسٹ فوڈ آئوٹ لیٹ جس دن کھلا اُس دن پینتیس ہزار گاہک وہاں آئے۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں لائبریریاں عنقا ہیں۔ بُک شاپس ایک ایک کر کے مرتی جا رہی ہیں! آپ نے بسوں‘ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں میں کتنے لوگوں کو کتاب پڑھتے دیکھا ہے؟ جس ملک میں مکانوں کے گیٹ سنہری ہوں اور باہر والی دیواروں پر سنگ مر مر تھوپا جائے اس ملک کے لوگوں کا مائنڈسیٹ کیا ہو گا؟ آپ کے لیے بہترین لائحہ عمل یہ تھا کہ آپ ریستوران کھولتے۔ پائے اور ہریسہ بیچتے‘ تکے کباب بناتے۔ کروڑوں میں کھیلتے۔ یا لاہور کے بلال گنج یا راولپنڈی کے چاہ سلطان میں چرائی گئی گاڑیوں کے پارٹس بیچتے۔ آپ بھی عیش کرتے اور آپ کے بچے بھی۔ آپ بھی عجیب ہیں۔ جہاں سے سائنسدان‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ پروفیسر بھاگ رہے ہیں آپ وہاں واپس آ گئے۔ آپ کی کیا قدر ہوئی؟ کیا آپ کی نظر بندی کے خلاف کوئی جلوس نکلا؟ کیا ایک بھی ریلی نکالی گئی؟ کیا کوئی جلسہ کیا گیا؟ کیا کسی نے خود سوزی کی؟ کیا کسی نے یہ کہہ کر بھوک ہڑتال کی کہ محسنِ پاکستان کے ساتھ یہ بدسلوکی روا نہ رکھی جائے؟ وہ تو خداوند قدوس نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا ورنہ آپ پچاس سال اور زندہ رہتے تب بھی کسی نے آپ کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دینا تھا!
یا آپ اختلافی مسائل کے سپیشلسٹ ہو جاتے۔ آپ یو ٹیوب پر اپنا چینل کھولتے اور اونچی یا آہستہ آمین‘ رفع یدین اور ہاتھ چھوڑ کر یا باندھ کر نماز پڑھنے پر لمبی لمبی تقریریں کرتے۔ آپ کو سننے والے لاکھوں میں ہوتے۔ لوگ آپ کی خاطر ایک دوسرے کے سر پھوڑتے۔ آپ کا ایک نام ہوتا! ایک مقام ہوتا! آپ پامسٹ بن جاتے۔ روحانیت کے نام پر مستقبل کی پیش گوئیاں کرتے۔ تعویز فروشی کرتے۔ زائچے کھینچتے۔ ستاروں کی چال سے قسمتوں کے احوال بتاتے۔ ساس کو بہو سے اور بہو کو ساس سے جان چھڑانے کے لیے دم درود کرتے۔ بڑے بڑے لوگ‘ بیگمات سیاست دان‘ بزنس مین‘ آپ کے دروازے پر پہروں کھڑے رہتے ! آپ دوسرے ملکوں کے دورے کرتے!
ڈاکٹر صاحب! جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا اس سے کچھ باتیں ہمیشہ کے لیے طے ہو گئیں! اوّل: کسی سائنس دان‘ پروفیسر‘ انجینئر یا ڈاکٹر کو کسی حکمران کے کہنے پر  کبھی بھی واپس نہیں آنا چاہیے۔دوم: قوم کے لیے کوئی معرکہ آرا اور بے مثال و بے نظیر کارنامہ سرانجام دینے سے پہلے ہر شخص کو آپ کی سوانح عمری اچھی طرح پڑھ لینی چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کارنامے کے انعام کے طور پر اسے نظر بند کر دیا جائے۔ سوم: اس ملک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہی نہیں۔ یہاں اگلے سو سال میں بھی ڈاک خانے کمپیوٹرائزڈ ہوں گے نہ ریلوے سٹیشنوں پر برقی سیڑھیاں نصب ہوں گی! اس ملک کے عوام پوٹلیاں اور گٹھڑیاں سروں پر لادے ٹوٹی ہوئی سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے رہیں گے۔ اپنے محسنوں پر سنگ زنی کریں گے۔ سو سو سال وردی میں منتخب کرانے کے نعرے لگانے والے سیاستدان جمہوریت کے چیمپئن بن کر اپنے بیٹوں‘ بھتیجوں‘ پوتوں اور نواسوں کو وزیر اور مشیر لگواتے رہیں گے۔ یہاں ہمیشہ ڈیرہ داروں کی سنی اور مانی جائے گی۔ یہاں سب سے زیادہ بے توقیر استاد ہو گا اور سب سے زیادہ معزز اٹھائی گیرے ہوں گے۔ یہاں کتابیں کوئی نہیں پڑھے گا سوائے ایک حقیر اقلیت کے۔ مگر ہر روز لاکھوں کروڑوں ٹن گوشت کھایا جائے گا۔ یہاں شعبدہ باز ہمیشہ فائدے میں رہیں گے۔ اہل علم ہمیشہ گھاٹے میں رہیں گے۔ اہلیت رکھنے والے کونوں کھدروں میں چھپ کر عزت بچاتے رہیں گے۔ نااہل پیش منظر پر چھائے رہیں گے۔ جس نے سنا ہے اس نے سنا ہے‘ جس نے نہیں سنا وہ سن لے کہ ڈاکٹر قدیر بننے کی کوشش کبھی نہ کرے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, October 14, 2021

ڈاکٹر لطیف کی واپسی



بہت سمجھایا تھا مگر ڈاکٹر لطیف نہ مانا۔
بعض لوگوں پر جب ایک جنون سوار ہو جاتا ہے اور سوئی ان کی ایک جگہ اٹک جاتی ہے تو کوئی دلیل بھی، خواہ وہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، انہیں قائل نہیں کر سکتی۔ یہی حال ڈاکٹر لطیف کا تھا۔ ادھر 2018 کے انتخابات کا نتیجہ نکلا، ادھر اس نے واپسی کی ٹھانی۔ خدا کا بندہ اچھا بھلا وینکوور میں رہ رہا تھا۔ دنیا کے چند بہترین شہروں میں سے ایک شہر۔ جب بھی، رہنے کے لحاظ سے، دنیا کے بہترین شہروں کی درجہ بندی ہوتی ہے تو ویانا، وینکوور اور میلبورن ٹاپ پر آتے ہیں۔ وینکوور کا کیا کہنا! جگہ جگہ سمندر شہر کے اندر آیا ہوا ہے۔ ریاست کا نام ہی بی بی سی ہے یعنی بیوٹی فُل برٹش کولمبیا۔ کشمیر کے بارے میں کہتے تھے:
اگر فردوس بر روئ زمین است 
ہمین است و ہمین است و ہمین است 
کشمیر میں تو سارا حسن فطرت کا تھا مگر برٹش کولمبیا کے اس بے مثال شہر میں انسان نے بھی فطرت کے حسن کو چار چاند لگائے ہیں۔ یہیں ڈاکٹر لطیف ایک عرصہ سے پریکٹس کر رہا تھا۔ چوٹی کا میڈیکل سپیشلسٹ تھا۔ عزت بھی تھی۔ پیسہ بھی تھا۔ حقوق بھی تھے۔ سکیورٹی بھی تھی۔ بہت سمجھایا کہ ابھی اتنا بڑا فیصلہ نہ کرو۔ ابھی تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ اقتدار میں آکر بہت سوں کی جون بدل جاتی ہے‘ مگر لطیف کو میں بچپن سے جانتا ہوں۔ ٹھان لے تو پھر ہٹتا نہیں۔ اس کی ایک ہی دلیل تھی کہ ستر سال میں کسی نے یہ باتیں نہیں کیں جو خان صاحب کررہے ہیں۔ اسے اندھیری سرنگ کے آخر میں روشنی نظر آرہی تھی۔ کلینک کو سمیٹا۔ گھر اور فرنیچر فروخت کیا۔ بچوں کو سکولوں کالجوں سے اٹھایا۔ ٹنڈ پھوہڑی ترڈا اٹھایا اور واپس پاکستان پہنچ گیا۔ میں نے اسے ائیرپورٹ سے لیا اور دو تین اپنے گھر میں رکھا۔ ان دو تین دنوں میں اس نے مجھے یقین دلایا کہ نوشیرواں عادل اور عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور کو باہم ملایا جائے تو جو آمیزہ تیار ہوگا اس کی نمود پاکستان میں ہونے والی ہے۔ اس کا ایمان تھا کہ پاکستان بہت جلد سنگاپور، جنوبی کوریا اور یو اے ای سے آگے نکل جائے گا۔ وہ خان صاحب کے وعدوں کی بات کرتا تھا اور کہتا تھا: خان، خان ہے، اپنی کہی ہوئی بات سے سرِ مُو انحراف نہیں کر ے گا۔ میں نے بھی ووٹ خان صاحب کو دیا تھا۔ پینتیس برسوں میں پہلی بار ووٹ ڈالنے گھر سے نکلا تھا۔ خان صاحب کا شیدائی میں بھی تھا مگر کبھی کبھی لگتا کہ ڈاکٹر لطیف محض شیدائی نہیں، مرید کے مانند ہے۔ مرید کی وابستگی اس دنیائے دُوں کی حدود سے بہت آگے کی ہوتی ہے۔

خان صاحب نے حلف اٹھایا۔ ایک زرّیں، نقرئی، دور کا آغاز ہوا۔ ایک صبح میں اپنی پوتی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ہم پودوں سے پتے توڑ کر پلیٹوں میں سجا کر پکوان تیار کر رہے تھے۔ شام کو ٹِکلو نے آنا تھا۔ ٹِکلو ہمارا ایک تصوراتی دوست تھا۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف ڈاکٹر لطیف تھا۔ کہنے لگا: یہ عثمان بزدار کون ہیں؟ بتایا کہ میں نہیں جانتا۔ اس نے پوچھا: آج کے اخبارات نہیں دیکھے؟ جواب دیا کہ نہیں۔ کہنے لگا: میں تمہاری طرف آرہا ہوں۔ آیا تو کچھ پریشان تھا۔ کہنے لگا: ان صاحب کو وزیر اعلیٰ لگا دیا ہے‘ سمجھ میں نہیں آرہا کیوں؟ خان صاحب تو اسے جانتے ہی نہیں تھے۔ سوال اس کے ذہن میں یہ تھا کہ یہ صاحب کس کی دریافت ہیں؟ یہ پہلا جھٹکا تھا جو لطیف کو لگا۔ دوسرا شدید جھٹکا اسے اس وقت لگا جب شیخ رشید، فہمیدہ مرزا، زبیدہ جلال، عمر ایوب خان، خسرو بختیار، فروغ نسیم، محمد میاں سومرو، اعظم سواتی، عشرت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی اقتدار میں حصہ دار بنے‘ مگر پھر بھی لطیف نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ بندہ خود ایماندار ہے!
پھر خان صاحب نے توسیع دے دی تو لطیف کو ان کا وہ بیان یاد آیا جب وہ اپوزیشن میں تھے۔ اُس وقت انہوں نے توسیع کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا اس طرح ادارے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ پھر، یو ٹرن کے بعد یو ٹرن ہونے لگا حتیٰ کہ یو ٹرنوں کے ڈھیر لگ گئے۔ ڈاکٹر لطیف کی دوڑ مجھ تک تھی۔ وہ اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے ہر یوٹرن کا جواز ڈھونڈتا مگر میں نے محسوس کیا کہ اب اس کی پہلے والی تازگی اور شگفتگی رُو بہ زوال تھی۔ اب وہ بات کرتے کرتے اچانک چُپ ہو جاتا اور کچھ سوچنے لگتا۔ ایک دن کہنے لگا: یہ جو ہم پی ٹی وی کو ہر ماہ ایک سو روپے دیتے ہیں جو اربوں تک جا پہنچتا ہے، اس کی خان صاحب نے شدید مذمت کی تھی۔ اسے ابھی تک نہیں ختم کیا۔ پھر وزیر صحت پر سنگین الزامات لگے۔ اسے ایک طرف ہٹایا تو دوسری طرف پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا۔ لطیف اس پر بھی ناخوش تھا کہ تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف کا ایک ملازم سٹیٹ بینک کا سربراہ بنا دیا گیا۔ چلیے، آئی ایم ایف سے بچ نہیں سکے تو کیا بائیس کروڑ میں سے کوئی ایک بھی سٹیٹ بینک کا سربراہ بننے کا اہل نہ تھا۔ لطیف کو تاحال یہ اطمینان تھا کہ بیوروکریسی میں تعیناتیاں میرٹ پر ہوں گی۔ پھر ایک دن اس کا یہ خواب بھی بکھر گیا۔ پنجاب میں ایک پُرکشش پوسٹ خالی ہوئی۔ اگر کسی ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہی کو لگانا تھا تو کئی تھے جو حال ہی میں ریٹائر ہوئے تھے‘ مگر جسے نوازنا تھا وہ تو حاضر سروس تھا اور وفاق میں سیکرٹری تھا؛ چنانچہ اس کی ریٹائرمنٹ وزیر اعظم نے، بطور خاص، وقت سے ایک سال پہلے منظور کی اور اسے چار سال کے لیے نئی بادشاہت عطا کر دی۔ ایک دن پھر لطیف اخبار لے کر میرے پاس منہ لٹکائے بیٹھا تھا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ کے لیے اشتہار دیا گیا۔ چھ سو افراد نے درخواستیں دیں۔ شارٹ لسٹنگ کے بعد اٹھارہ کے انٹرویو ہوئے۔ یہ سب اہل تھے مگر تعینات کون ہوا؟ سندھ کے گورنر کا سیکرٹری! جو امیدوار ہی نہیں تھا۔ پھر ایک اور صاحب کو ایک سال پہلے ریٹائر کر کے چار سال کے لیے ٹیکس محتسب لگایا گیا۔ ان کے ریٹائرمنٹ آرڈر کو بطور خاص تبدیل کیا گیا۔ لطیف کا سوال تھا کہ جو ریٹائر ہو چکے تھے کیا وہ سب نااہل تھے۔
ایک چمکیلی صبح کو لطیف اچانک وارد ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ہوائی سفر کے ٹکٹ تھے۔ کہنے لگا: یار میں واپس جا رہا ہوں۔ تعجب سے پوچھا کہ تم تو بہت صابر اور پُر امید تھے۔ روہانسا ہو کر کہنے لگا: دو چیزوں نے میری امید کی لرزتی دیوار کو منہدم کر کے رکھ دیا۔
ایک غیر ملکی تحائف کا حساب دینے سے صاف انکار۔ اس میں کسی گھڑی کا بکھیڑا بھی ہے۔ دوسرے، پنڈورا لیکس میں ان کی کابینہ کے ارکان کے نام آئے۔ برطرف نہ بھی کرتے تو کم از کم انہیں چھٹی پر بھیج دیتے کہ تفتیش کے بعد بے قصور نکلے تو واپس آ جانا‘ مگر بالکل وہی ہوا جو گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں ہوتا رہا۔ کہنے لگا: اب میں قائل ہو گیا ہوں کہ وعدے صرف وعدے تھے۔ میں مایوسی کے مزید جھٹکے برداشت نہیں کر سکتا۔ میں نے غلطی کی جو واپس آ گیا۔
ڈاکٹر لطیف کو رخصت کرنے ایئر پورٹ پر میں موجود تھا۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, October 12, 2021

فرشتے لے چلے سوئے حرم تابوت میرا

مسلم دنیا میں یہی ہوتا آیا ہے‘ اور شاید یہی ہوتا رہے گا۔ یہ جو آج اچھل اچھل کر دعوے کیے جاتے ہیں کہ فلاں مسلمان سائنسداننے یہ ایجاد کیا اور فلاں کی یہ دریافت تھی، تو ساتھ یہ بھی تو وضاحت کرنی چاہیے کہ ان سائنس دانوں کا انجام کیا ہوا۔ الکندیکو پیٹا گیا اور اس کی لائبریری ضبط کر لی گئی۔ ابن رشد کو قرطبہ سے نکال دیا گیا اور ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے پر مجبورکیا گیا۔ اس کی کتابیں نذر آتش کر دی گئیں۔ اس کی تحریروں پر پابندی لگا دی گئی۔ کئی اور ایسی مثالیں ہیں۔ ان روایات کیروشنی میں اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی زندگی کے آخری سترہ سال نظر بندی میں گزارے تو تعجب کی کیا بات ہے۔

''کرے کوئی اور بھرے کوئی‘‘ کی دردناک مثال ڈاکٹر قدیر خان کی زندگی کے آخری دو عشرے ہیں۔ انہیں مسلسل قربان گاہ میں رکھاگیا۔ کہنے کو وہ محسن پاکستان تھےمگر اس محسن پر جوابی احسانات کیا کیا تھے؟ انگریزی کا مؤقر ترین معاصر میرے سامنےکھلا ہے۔ تاریخ چوبیس دسمبر 2019ء کی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان عدالت میں درخواست دائر کرتے ہیں اور اپنے بنیادی حقوق کیبحالی کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ملک میں آزادانہ گھوم پھر سکیںان کے وکیل نے عدالت سے استفسار کیا کہ کیا حکومت کو آئینیتحفظات کے پرخچے اڑانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ اور کیا حکومت ڈاکٹر صاحب کو اپنے اعزہ و اقربا، اپنے احباب، ملازموں،افراد خانہ، صحافیوں، مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ، اور بیوروکریٹس کو ملنے سے روک سکتی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نےعدالت کو بتایا کہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور یوں ملک کو دشمن کی بری نظروں سے محفوظکیا۔ جب سے وہ پاکستان آئے، ان کے شایانِ شان ان کی حفاظت کی گئی مگر اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ اہلکار ساتھ والے گھر میںبیٹھ گئے ہیں اور کسی کو ان سے ملنے نہیں دیتے۔ ڈاکٹر صاحب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پیشگی منظوری کے بغیر ڈاکٹرصاحب ادھر ادھر آجا نہیں سکتے اور نہ ہی سماجی اور معاشرتی تقاریب میں شرکت کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال، عملاً قید کی سیہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول ''یہ صورتحال 2004ء میں شروع ہوئی جب حفاظت کے نام پر مجھے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ کسیدوست سے تو کیا، میری بیٹی اور اس کے بچے بھی، جو چند گھر چھوڑ کر رہ رہے تھے، مجھ سے نہیں مل سکتے تھے۔ پابندیوں کا یہعالم تھا کہ میں عدالت کا دروازہ بھی نہیں کھٹکھٹا سکتا تھا‘‘۔

یہ تھی وہ حالت اور کیفیت جس میں محسنِ پاکستان کو رکھا گیا۔ ایک یا دو یا تین سالوں تک نہیں بلکہ 2004ء سے لے کر ان کیوفات تک یعنی سترہ برس!

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے رب کے حضور جا چکے۔ بائیس کروڑ مسلمانوں کے ملک کو وہ ایک ایسا ہتھیار بنا کر دے گئے کہ دشمن جودھمکیاں دے رہا تھا، جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ یہ ایسا کارنامہ تھا کہ دنیا کے ہر مسلمان کے دل میں چراغ جل اٹھے۔ ڈاکٹر قدیر خانصرف پاکستان کے نہیں، پورے عالم اسلام کے ہیرو ہیں۔ آج اگر انہیں وہاں دفن نہیں ہونے دیا گیا جہاں وہ چاہتے تھے، تو اس سےانہیں کوئی فرق نہیں پڑا ہاں ہم نے ثابت کر دیا کہ ہم محسن کُش تھے اور محسن کُش ہیںاپنے محسنوں کے ساتھ بدسلوکی کرنےکے حوالے سے مسلمانوں کی جو طویل اور شرمناک تاریخ ہے اس میں ایک اور باب کا اضافہ ہوا ہے‘ مگر قدرت کا عجیب دستور ہے۔بقول افتخار عارف:

میں صابروں کے قبیلے سے ہوں مگر مرا رب

وہ محتسب ہے کہ سارے حساب جانتا ہے

وہ جو دشمن تھا آج خائب و خاسر ہے۔ سرزمینِ وطن کو چھو تک نہیں سکتا۔ امام احمدؒ بن حنبل نے کہا تھا کہ ہمارے جنازے فیصلہکریں گے۔ ہر پاکستانی ڈاکٹر صاحب کی وفات پر سکتے میں آ گیا۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ہر دل سوگوار ہے۔ زندہ کسی نے بھی نہیںرہنا۔ ہم سب نے جان دینی ہے۔ کل کوئی اور سفرِ آخرت پر روانہ ہوا تو دنیا دیکھ لے گی کہ چراغ کتنی آنکھوں میں جلتے ہیں اورجنازہ کتنے دلوں میں پڑھا جاتا ہے۔

لوگ سیانے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ حقیقت کیا تھی اور دکھایا کیا گیا؟ زبانیں خاموش سہی مگر تاریخ کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔سوشل میڈیا نے دنیا کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر آنے والا دن ذرائع ابلاغ میں نئے سے نیا انقلاب لا رہا ہے۔ وہ دن بھی تھے جب لوگدرست خبروں کے لیے بی بی سی سنتے تھے۔ پورے بازار میں کسی ایک دکان میں ریڈیو ہوتا تھا۔ پورا محلہ وہاں جمع ہو کر خبریںسنتا تھا اس لیے کہ اپنے ہاں خبریں نہیں، خبروں کا مثلہ پیش کیا جاتا تھا۔ مگر آج دنیا بدل چکی ہے۔ ہر گھر میں، ہر جیب میں،سوشل میڈیا کا ایک مرکز، ایک نیوکلیئس (nucleus) کام کر رہا ہے۔ پیاز کے سارے چھلکے اتر چکے ہیں۔ چہروں سے سارے ماسکاتر گئے ہیں۔ سورج کی شعاعوں کو کون روک سکا ہے؟ کبھی آنے والی رُت نے راستہ بدلا؟

لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر بھٹو کے تختہ دار پر لٹکنے تک اور بے نظیر بھٹو کے قتل سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سترہسالہ بے بس اور بے کس نظر بندی تک، ایک سرخ لکیر ہے جو کھِنچتی چلی جا رہی ہے۔ مادر ملت فاطمہ جناح کے ساتھ کیا ہوا؟ مگریہ طے ہے کہ قائد اعظم کے بعد اس ملک پر سب سے بڑا احسان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ہے۔ کاشکچھ عرصہ کے لیے انہیں ملک کیصدارت پر فائز ہونے دیا جاتا۔ سرحد پار، بھارتی سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام کو صدر بنایا گیا۔ ہم اپنے سائنسدان کو صدر تو کیابناتے، الٹا انہیں حبس بے جا میں رکھا۔ قدرت ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اعمال کی سزا بھی دیے جا رہی ہے۔ بائیس پچیس کروڑ کیآبادی میں سے سات سو نام پنڈورا لیکس میں نکلتے ہیں۔ سرحد پار ایک ارب سے زیادہ آبادی ہے۔ وہاں سے تین سو نام نکلتے ہیں۔ نہکسی عسکری شخصیت کانہ کسی وزیر کاہمارے تو امیروں وزیروں سب کے اسمائے گرامی ہیں۔ عوام توقع کر رہے تھے کہ نیا دورہے‘ تبدیلی کا سورج چڑھ چکا ہے۔ ایسے وزیروں کو فارغ کر دیا جائے گا کہ جب تک تفتیش مکمل نہیں ہوتی، گھروں میں بیٹھ کرانتظار کرو مگر کسی نے پلک تک نہیں جھپکی۔ کسی کی کان کی لو تک سرخ نہیں ہوئی۔ کل جو بُرا تھا اور ناقابل قبول آج وہ درستہے!

افسوسچمن جھاڑ جھنکار سے اَٹ گئےایک ایک شاخ زاغ و زغن کے قبضے میں ہے۔ سفید چھڑی ہاتھ میں پکڑ کر جو راستہ ٹٹولرہے تھے وہ منزل کا نشان دکھا رہے ہیںتوتلے قصہ گوئی کر رہے ہیں۔ بہرے شکایتیں سننے پر مامور ہیں۔ پا بریدہ دوڑ میں حصہلینے پر تلے ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ اول انعام کے بھی حقدار قرار دیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بخت روشن تھا کہ اسخرابے سے چلے گئے اور خلد میں آباد ہو گئے۔ سنیے کیا کہہ رہے ہیں:

فرشتے لے چلے سوئے حرم تابوت میرا

کفِ افسوس ملتے رہ گئے بد خواہ میرے


بشکریہ روزنامہ دنیا

 

powered by worldwanders.com