اگر کوئی کرشمہ برپا ہو جائے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم سے ملاقات ہو تو لگی لپٹی رکھے بغیر‘ ان سے صاف صاف بات کی جائے۔
انہیں کہا جائے کہ ڈاکٹر صاحب! غلطی آپ کی اپنی تھی! آپ سائنسدان بنے ہی کیوں؟ آپ کامیڈین بنتے! پھر آپ دیکھتے کیا عوام‘ کیا خواص‘ کیا حکومتیں‘ سب آپ کو اہمیت دیتے۔ آپ اٹھارہ سال نظر بند رہے‘ آپ کامیڈین ہوتے تو لوگوں نے اتنا شور مچانا تھا کہ چند ماہ بعد ہی آپ رہا ہو جاتے۔ آپ بیمار ہوتے تو حکومتیں آپ کو علاج کیلئے کروڑوں روپے دیتیں۔ جہاز منگوائے جاتے کہ آپ کو یورپ یا امریکہ بھیج کر علاج کرایا جائے۔ آپ بطور کامیڈین وفات پاتے تو میڈیا پر کہرام بپا ہو جاتا۔ صدر مملکت آپ کے پسماندگان کے پاس جا کر فاتحہ پڑھتے۔ آپ نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ یہاں ملک کو دشمن سے بچانے والوں کی قدر نہیں ہوتی‘ یہاں ہنسانے والوں کی قدر ہوتی ہے۔ آپ نے اپنا پروفیشن ہی غلط چنا!
یا آپ کھلاڑی بنتے۔ کروڑوں میں کھیلتے۔ میچ فکس کرتے اور کراتے۔ قوم آپ کو سر پر بٹھاتی۔ بڑے بڑے مبلغ آپ کے پیچھے پیچھے پھرتے۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جس دن میچ ہوتا ہے اس دن عملاً مملکت کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے۔ ایک ایک کھلاڑی کا نام بچے بچے کی زبان پر ہے۔ یا آپ سنگر بنتے۔ قوم کے اصل ہیرو یہی لوگ ہیں۔ انہی کی عزت ہے۔ آپ فلم ایکٹر بنتے۔ ٹی وی سٹار بنتے۔ ڈراموں میں حصہ لیتے۔ ایوارڈ لینے کیلئے آپ کو ہیوسٹن لے جایا جاتا۔ وارے نیارے ہو جاتے۔ یا آپ پراپرٹی ٹائیکون ہوتے۔حکومتوں کے درمیان وچولن کی ذمہ داریاں نبھاتے۔ حکومتیں آپ کی جیب میں ہوتیں۔ آپ پٹواری ہو جاتے۔ تھانیدار لگ جاتے۔ وزیر امیر آپ سے تعلقات رکھتے۔
ڈاکٹر صاحب! آپ کی زندگی سنگین غلطیوں سے بھری پڑی ہے۔ سب سے بڑی غلطی آپ نے اُس وقت کے وزیر اعظم کا کہا مان کر کی۔ کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ خود وزیر اعظم کا مستقبل اس ملک میں ہمیشہ مخدوش ہوتا ہے؟ جہاں لیاقت علی خان جیسا لیجنڈری وزیر اعظم گولی کا نشانہ بنا اور اس کے قاتل کو وہیں مار دیا گیا‘ وہاں بھٹو صاحب کا مستقبل کیا ہو سکتا تھا؟ آپ کی دوسری غلطی تھی اپنے کام کو سنجیدگی سے فرض جان کر پورا کرنا۔ آپ کو کیا ضرورت تھی رات دن ایک کر کے کام کرنے کی؟ کام کو لٹکاتے جیسا کہ یہاں رواج ہے۔ یہاں تو ایک چھوٹا سا ایئر پورٹ بنانے میں دہائی لگ گئی۔ رنگ روڈ بننے میں عشرے لگیں گے۔ ایک ایک شاہراہ‘ ایک ایک پُل ایک ایک انڈر پاس بننے میں سالہا سال صرف ہوتے ہیں۔ تین سال ہو گئے وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی بنا نہ گورنر ہاؤس کا کچھ ہوا۔ آپ بھولے بادشاہ تھے کہ جو فرض سونپا گیا اسے سرانجام دے دیا۔ اس کی پاداش میں آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اُس میں اُن سب لوگوں کے لیے سبق ہے اور وارننگ بھی جو اپنے کام میں مخلص ہیں۔
ڈاکٹر صاحب! جس ملک میں پروفیسر اور پی ایچ ڈی دھکے کھائیں اور سیکشن افسر اور مجسٹریٹ ان پروفیسروں اور پی ایچ ڈی سکالرز پر حکم چلائیں اُس ملک کو سائنس یا سائنسدانوں کی کیا ضرورت ہے؟ یہاں ہر تیسری دکان نہاری‘ چرغے اور پلاؤ کی ہے۔ یہاں گھروں میں گھنٹوں اس امر پر بحثیں ہوتی ہیں کہ آج پکے گا کیا؟ یہاں لاہور میں ایک غیر ملکی فاسٹ فوڈ آئوٹ لیٹ جس دن کھلا اُس دن پینتیس ہزار گاہک وہاں آئے۔ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں لائبریریاں عنقا ہیں۔ بُک شاپس ایک ایک کر کے مرتی جا رہی ہیں! آپ نے بسوں‘ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں میں کتنے لوگوں کو کتاب پڑھتے دیکھا ہے؟ جس ملک میں مکانوں کے گیٹ سنہری ہوں اور باہر والی دیواروں پر سنگ مر مر تھوپا جائے اس ملک کے لوگوں کا مائنڈسیٹ کیا ہو گا؟ آپ کے لیے بہترین لائحہ عمل یہ تھا کہ آپ ریستوران کھولتے۔ پائے اور ہریسہ بیچتے‘ تکے کباب بناتے۔ کروڑوں میں کھیلتے۔ یا لاہور کے بلال گنج یا راولپنڈی کے چاہ سلطان میں چرائی گئی گاڑیوں کے پارٹس بیچتے۔ آپ بھی عیش کرتے اور آپ کے بچے بھی۔ آپ بھی عجیب ہیں۔ جہاں سے سائنسدان‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ پروفیسر بھاگ رہے ہیں آپ وہاں واپس آ گئے۔ آپ کی کیا قدر ہوئی؟ کیا آپ کی نظر بندی کے خلاف کوئی جلوس نکلا؟ کیا ایک بھی ریلی نکالی گئی؟ کیا کوئی جلسہ کیا گیا؟ کیا کسی نے خود سوزی کی؟ کیا کسی نے یہ کہہ کر بھوک ہڑتال کی کہ محسنِ پاکستان کے ساتھ یہ بدسلوکی روا نہ رکھی جائے؟ وہ تو خداوند قدوس نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا ورنہ آپ پچاس سال اور زندہ رہتے تب بھی کسی نے آپ کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دینا تھا!
یا آپ اختلافی مسائل کے سپیشلسٹ ہو جاتے۔ آپ یو ٹیوب پر اپنا چینل کھولتے اور اونچی یا آہستہ آمین‘ رفع یدین اور ہاتھ چھوڑ کر یا باندھ کر نماز پڑھنے پر لمبی لمبی تقریریں کرتے۔ آپ کو سننے والے لاکھوں میں ہوتے۔ لوگ آپ کی خاطر ایک دوسرے کے سر پھوڑتے۔ آپ کا ایک نام ہوتا! ایک مقام ہوتا! آپ پامسٹ بن جاتے۔ روحانیت کے نام پر مستقبل کی پیش گوئیاں کرتے۔ تعویز فروشی کرتے۔ زائچے کھینچتے۔ ستاروں کی چال سے قسمتوں کے احوال بتاتے۔ ساس کو بہو سے اور بہو کو ساس سے جان چھڑانے کے لیے دم درود کرتے۔ بڑے بڑے لوگ‘ بیگمات سیاست دان‘ بزنس مین‘ آپ کے دروازے پر پہروں کھڑے رہتے ! آپ دوسرے ملکوں کے دورے کرتے!
ڈاکٹر صاحب! جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا اس سے کچھ باتیں ہمیشہ کے لیے طے ہو گئیں! اوّل: کسی سائنس دان‘ پروفیسر‘ انجینئر یا ڈاکٹر کو کسی حکمران کے کہنے پر کبھی بھی واپس نہیں آنا چاہیے۔دوم: قوم کے لیے کوئی معرکہ آرا اور بے مثال و بے نظیر کارنامہ سرانجام دینے سے پہلے ہر شخص کو آپ کی سوانح عمری اچھی طرح پڑھ لینی چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کارنامے کے انعام کے طور پر اسے نظر بند کر دیا جائے۔ سوم: اس ملک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہی نہیں۔ یہاں اگلے سو سال میں بھی ڈاک خانے کمپیوٹرائزڈ ہوں گے نہ ریلوے سٹیشنوں پر برقی سیڑھیاں نصب ہوں گی! اس ملک کے عوام پوٹلیاں اور گٹھڑیاں سروں پر لادے ٹوٹی ہوئی سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے رہیں گے۔ اپنے محسنوں پر سنگ زنی کریں گے۔ سو سو سال وردی میں منتخب کرانے کے نعرے لگانے والے سیاستدان جمہوریت کے چیمپئن بن کر اپنے بیٹوں‘ بھتیجوں‘ پوتوں اور نواسوں کو وزیر اور مشیر لگواتے رہیں گے۔ یہاں ہمیشہ ڈیرہ داروں کی سنی اور مانی جائے گی۔ یہاں سب سے زیادہ بے توقیر استاد ہو گا اور سب سے زیادہ معزز اٹھائی گیرے ہوں گے۔ یہاں کتابیں کوئی نہیں پڑھے گا سوائے ایک حقیر اقلیت کے۔ مگر ہر روز لاکھوں کروڑوں ٹن گوشت کھایا جائے گا۔ یہاں شعبدہ باز ہمیشہ فائدے میں رہیں گے۔ اہل علم ہمیشہ گھاٹے میں رہیں گے۔ اہلیت رکھنے والے کونوں کھدروں میں چھپ کر عزت بچاتے رہیں گے۔ نااہل پیش منظر پر چھائے رہیں گے۔ جس نے سنا ہے اس نے سنا ہے‘ جس نے نہیں سنا وہ سن لے کہ ڈاکٹر قدیر بننے کی کوشش کبھی نہ کرے!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment