Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, December 31, 2019

سال کا آخری دن



سال کا آخری دن ہے!

زمانے کی گردش نے سال کو‘ اس کے آخری لمحوں میں کتنا عبرت ناک کر دیا ہے!یہ ایک کبُڑے بوڑھے کی طرح ہے! ایک خطرناک‘ فریب کار‘ پیرِِ تسمہ پا کی طرح! جو تین سو پینسٹھ دن ہماری گردنوں پر مسلط رہا۔ 

کون سا دھوکہ ہے جو اس نے ہمیں نہیں دیا‘ کون سا سبز باغ ہے جو اس نے نہیں دکھایا ‘کون سا گڑھا ہے جس کے اوپر اس نے گہنیاں رکھ کر اسے پتوں اور مٹی سے نہیں چھپایا!

تین سو پینسٹھ دن پہلے جب اس سال نے طلوع کیا‘ ہم کس قدر خوش تھے! ہم نے سالِ نو کے جشن منائے۔ رقص کیے۔ شرب واکل کے اہتمام کیے۔ احباب واعزہ کو تہنیت کے پیغام بھیجے۔ کہیں Happy New Year کے نعرے لگائے‘ کہیں ''نیا سال مبارک‘‘ پکارا۔ کہیں ''کُلّ عامٍ و انتم بخیر‘‘ کہا۔ کہیں ''نو روزِ شما نیکو باد‘‘ کے پھول بکھیرے۔
ہمارے سامنے امید کے باغ کھلے تھے۔ ہمارا آسمان ستاروں سے جگمگا رہا تھا۔ قطبی تارا ہمارا ہاتھ پکڑے تھا۔ کہکشائیں ہمارے سنگ ناچ گا رہی تھیں۔ چاند ہمارے ہاتھ چومتا تھا۔ نئے سال کی ہر کرن ہمارے ماتھوں پر خوش بختی کی علامت بن کر دمک رہی تھی۔ ہم اپنے آپ کو خلاؤں میں اُڑتا محسوس کر رہے تھے۔

تین سو پینسٹھ دن پہلے اس سال نے ہمیں یقین دلایا کہ ہمارے دن بدل چکے ہیں‘ اس سال کے اختتام تک ہم کم از کم سنگاپور یا ہانگ کانگ یا جنوبی کوریا یا ملائیشیا یا تھائی لینڈ بن چکے ہوں گے۔ بے روزگاری کا مسئلہ حل ہو چکا ہوگا۔ جہالت گھٹ چکی ہوگی۔ قرضوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ کرپشن کے ذریعے کھایا ہوا قومی خزانہ معدوں سے نکال لیا جائے گا۔ قوموں کی فہرست میں ہمارا نام باعزت حد تک اوپر چلا جائے گا۔ پاسپورٹ باعثِ ننگ ہونے کے بجائے باعثِ عزت ہوگا۔ کرنسی دوسرے ملکوں میں ہماری فلاکت کا نشان بننے کے بجائے ہماری خوشحالی کی علامت ہوگی۔
ہم نے ان سب وعدوں پر یقین کر لیا۔ ہم رختِ سفر باندھ کر نئے سال کی ہمراہی میں چل پڑے۔ ہم امید کر رہے تھے کہ برف پگھلے گی۔ ابر پارے سروں سے ہٹ جائیں گے۔ شعائیں گھروں کے در و دیوار منور کر دیں گی۔ ہم شہرِ طرب کو ڈھونڈ لیں گے۔ مغنّی ہمارے قافلے میں آگے آگے چل رہا تھا‘ اور گا رہا تھا: ؎

مایوس نہ ہو اداس راہی
آنے کو ہے دورِ صبحگاہی

اے منتظرِ طلوعِ فردا
بدلے گا جہانِ مرغ و ماہی

پھر خاک نشیں اٹھائیں گے سر
مٹنے کو ہے نازِ کجکلاہی

انصاف کا دن قریب تر ہے
پھر داد طلب ہے بے گناہی

اب اہلِ وفا کا دور ہو گا
ٹوٹے گا طلسمِ کم نگاہی

مگر سال کے وسط تک آتے آتے ہم جان چکے تھے کہ ایک بار پھر ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ہم ایک بار پھر اپنی معصومیت کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ ہم ایک بار پھر گاؤدی‘ بودے اور احمق ثابت ہوئے تھے۔ اہلِ ہوس ایک بار پھر ہمیں اپنے قبیح مقاصد کے لیے استعمال کر چکے تھے۔

سال کے اواخر تک ہمیں اچھی طرح معلوم ہو چکا تھا کہ ہم جہاں گزشتہ سال تھے‘ وہیں پر ہیں! ہم جنوبی کوریا‘ ہانگ کانگ یا سنگاپور تو کیا بنتے‘ ہم صومالیہ‘ افغانستان اور عراق کے ساتھ شمار کیے جا رہے تھے۔ پاسپورٹ اسی طرح باعثِ ننگ تھا۔ کرنسی اسی طرح اونٹ کے منہ میں زیرہ تھی۔ کرپشن کا پیسہ واپس تو کیا لاتے‘ کرپٹ مشاہیر کی دیکھ بھال پر ہمارا قومی خزانہ مزید کروڑوں اربوں خرچ کر رہا تھا۔ پہلے ہم صرف مغربی طاقتوں کے غلام تھے‘ اب اپنے مسلمان بھائی بھی کمی کمین سمجھ کر حکم چلانے لگے تھے۔ دائیں طرف دیکھیں یا بائیں طرف‘ سانس لیں یا نہ لیں‘ گھر کا دروازہ کس طرف رکھیں‘ یہ سب فیصلے دوسرے کرنے لگے تھے۔ خود مختاری تہمت بن چکی تھی۔

اس سال بھی ہماری بستیاں خاک اڑاتے کچے راستوں کے عقب میں زندگی گزارتی نہیں‘ زندگی سہتی رہیں۔ بارش میں کچے صحن پانی سے بھر جاتے رہے۔ ہسپتالوں سے دُور ہمارے کسان بیماریوں کی گرفت میں رہے۔ جن بچوں کو سکول جا کر پڑھنا تھا‘ وہ مویشی چراتے رہے۔ اس سال بھی سکولوں کی عمارتیں چھتوں کے بغیر رہیں۔ ہزاروں سرکاری سکول پینے کے صاف پانی سے محروم رہے۔ میز کرسیاں تو دور کی بات ہے بچے گھروں سے سیمنٹ کے خالی بیگ لا کر ان پر بیٹھتے رہے۔ اس سال بھی جنوبی پنجاب‘ اندرون سندھ اور بلوچستان کے سکولوں کالجوں کی عمارتیں مویشیوں کے باڑے بنی رہیں اور غلّے کے گوداموں کے طور پر استعمال ہوتی رہیں۔ اس سال بھی لاکھوں ہاری غلام رہے۔ عورتیں رکھیل رہیں۔ بچے حویلیوں میں جانوروں کی طرح کام کرتے رہے۔ اس سال بھی لاکھوں پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے وڈیرے‘ ملک اور سردار کرتے رہے۔ کسی کے ایجنڈے پر زرعی اصلاحات نہ تھیں۔ کسی نے نہ سوچا کہ 1857ء کے بعد ملنے والی جاگیریں واپس لینی ہیں۔ کیا استعمار کی خدمت کا بدلہ یہ زمینیں ایک سو باسٹھ سال تک دے نہیں چکیں؟

اس سال بھی ہماری ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفک میں گنِی جاتی رہی۔ شاہراہوں پر سول وار مسلسل جاری رہی۔ لوگوں کو کاروں‘ ٹرکوں‘ ٹریکٹروں ٹرالیوں اور ڈمپروں کے نیچے کچلا جاتا رہا۔

پنچایتیں اس سال بھی کم سن لڑکیوں کو بوڑھوں کے ساتھ ازدواج میں باندھتی رہیں۔ ''انصاف‘‘ کا یہ متوازی نظام برابر چلتا رہا۔ کسی کے باپ میں بھی جرأت نہیں کہ اس متوازی نظام کو ختم کرے۔ عورتوں کو بیٹیاں جنم دینے پر مارا جاتا رہا۔ لاکھوں کروڑوں عورتوں کو تعلیم سے‘ ووٹ دینے کے حق سے‘ اور انسانیت کے مرتبہ سے محروم رکھا جاتا رہا۔ کیا واعظ اور کیا مسٹر‘ حوا کی بیٹی کی توہین کے سب مرتکب ہوتے رہے۔

اب تو ہم نے عہد کر لیا ہے کہ کسی نئے سال کے فریب میں نہیں آئیں گے۔ نیا سال آئے یا نئی صدی !ہم جیسے تھے‘ ویسے ہی رہیں گے۔ ہماری ظاہری حالت‘ ہماری اندرونی کیفیت‘ ہماری ذہنیت‘ ہمارا مائنڈ سیٹ‘ ہماری معیشت‘ ہمارا زرعی نظام‘ ہماری جاگیرداری‘ ہمارا سرداری سسٹم‘ ہماری تعلیم  ہماری جہالت‘ ہماری توہم پرستی‘ پیروں فقیروں قبروں ملنگوں مجاوروں‘ نجومیوں‘ دست شناسوں‘ اور عطائیوں پر ہمارا انحصار‘ یہ سب کچھ ہر سال جوں کا توں رہے گا۔ سیاسی جماعتیں خاندانوں کی کنیزیں ہی رہیں گی! ہمارے اعتزاز احسن‘ ہمارے رضا ربانی‘ ہمارے احسن اقبال‘ اپنے سارے علم اور تجربے کے باوجود‘ شہزادوں اور شہزادیوں کے مصاحب ہی رہیں گے! ہم اب بھی وہی ہیں جو لودھیوں‘ تغلقوں‘ خلجیوں اور مغلوں کے زمانے میں تھے۔ ہم آج بھی کسی نہ کسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نرغے میں ہیں۔ کل ہم پر راجے مہاراجے نواب‘ والی اور مہتر حکومت کرتے تھے‘ آج ہم پر ایم این اے اور ایم پی اے حکومت کرتے ہیں۔ کل دربار تھے۔ آج ڈیرے ہیں۔ کل ہم ہاتھیوں پر ہودے ڈالتے تھے۔ آج جلسہ گاہوں میں دریاں بچھاتے ہیں! کل ہم درباری کہلاتے تھے۔ آج کارکن کہلاتے ہیں۔

اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہے کہ کل طلوع ہونے والا نئے سال کا سورج ہماری زندگیاں بدل ڈالے گا تو وہ ازراہِ کرم آج غروب ہونے والے سورج کو اچھی طرح دیکھ لے۔ جسے یقین نہ آئے وہ 1870ء میں لکھی جانے والی سر سید احمد خان کی تصنیف ''مسافرانِ لندن‘‘ پڑھ لے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں ہم جس وحشت اور جہالت کے رُتبے پر اُس وقت فائز تھے‘ آج بھی وہیں ہیں۔ ڈیڑھ سو سال میں جو نہ ہو سکا‘ وہ آئندہ پانچ‘ دس‘ پندرہ‘ بیس‘ پچاس برس میں کیسے ہوگا؟ کسی قوم کا مستقبل تین اوزاروں سے ماپا جاتا ہے۔ اوّل ماضی کے اعداد و شمار دوم حال کے بارے میں میسر حقائق سوم کامن سینس! جسے شک ہے کہ تبدیلی آئے گی‘ وہ مستقبل کی پیمائش کر کے دیکھ لے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Sunday, December 29, 2019

حق اچھا پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا



2007ء میں سعیدہ وارثی برطانوی پارلیمنٹ کی رکن بنی تو پاکستان میں گھی کے چراغ جلائے گئے۔ اُس معاشرے کی تو کسی نے تعریف نہ کی جس نے سعیدہ کو پارلیمنٹ کا ممبر بنایا اور قبول کیا۔ ہاں اس حقیقت کا پاکستان میں زور و شور سے چرچا ہوا کہ اُس کا والد بس ڈرائیور تھا اور فیکٹری میں بطور ورکر کام کرتا رہا۔
2016ء میں ایک اور پاکستانی نژاد لندن کا مئیر منتخب ہو گیا۔ یہ صادق خان تھا۔ اس بار پھر پاکستان میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ صادق خان کی لائف ہسٹری اخبارات میں نمایاں طریق سے شائع ہوئی۔الیکٹرانک میڈیا پر خوشیاں منائی گئیں۔
2018ء میں اہلِ پاکستان کو ایک اور زبردست ''کامیابی‘‘ نصیب ہوئی۔ اب کے پاکستانی نژاد ساجد جاوید برطانیہ کا وزیر داخلہ بن گیا۔ پاکستانیوں کی اسلامیت کی رگ خوب خوب پھڑکی۔ خوب چرچے ہوئے۔ اس اہم وزارت پر ایک مسلمان کا، وہ بھی پاکستانی نژاد کا انتخاب! اسے پاکستان کی فتح قرار دیا گیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ تینوں افراد‘ سعیدہ وارثی، صادق اور ساجد جاوید پاکستانی نہیں تھے‘ پیدائشی برطانوی تھے۔ سعیدہ وارثی یارک شائر میں پیدا ہوئیں‘ صادق خان لندن میں  اور ساجد جاوید شمال مغربی انگلستان میں مگر چونکہ انکے آبائو اجداد کا تعلق پاکستان سے تھا‘ اس لیے یہ کامیابیاں ہم نے اپنے کھاتے میں ڈالیں۔
2015ء میں برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے۔ پاکستانی میڈیا میں ایک بار پھر زلزلہ آ گیا۔ تیرہ مسلمان پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ گزشتہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ 2010ء کے انتخابات میں کل آٹھ مسلمان منتخب ہوئے تھے۔ اب کے تیرہ مسلمان جیتے۔ یہ تمام فتوحات اسلام اور پاکستان کے سر پر سجائی گئیں! تعجب کی بات یہ ہے کہ سارا کریڈٹ ان منتخب افراد کو دیا گیا۔ بس ڈرائیور کی بیٹی اور دارالامرا کی رکن! بس ڈرائیور کا بیٹا اور لندن کا مئیر! فلیٹ میں رہنے والے معمولی دکاندار کا بیٹا اور برطانیہ کا وزیر داخلہ! سبحان اللہ! سبحان اللہ!!
منافقت کی دیمک سے کھائے ہوئے اس معاشرے میں پھوٹے منہ بھی کسی نے اُس سوسائٹی کی تعریف نہ کی جس نے سارے مذہبی اور نسلی تفاوت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان افراد کو، جو سفید فام تھے نہ عیسائی،اعلیٰ مناصب کیلئے منتخب کیا! شہنائیاں بجاتے وقت، ایک لمحے کیلئے بھی ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہ ہوئے! اس بات کو تو چھوڑ دیجیے کہ ایک ہندو یا عیسائی بس ڈرائیور یا معمولی دکاندار کی بیٹی یا بیٹا پاکستانی سینیٹ کا رکن بنے یا کراچی یا لاہور کا مئیر بنے یا وزیر داخلہ! بس ڈرائیور اگر مسلمان ہو، تب بھی اُس کے بچے کا کوئی چانس نہیں!
منافقت میں ہمیں سو میں سے سو نمبر ملنے چاہئیں۔ تازہ ترین مثال کل کی خبر ہے! تازہ ترین خبر! وزارت داخلہ یا مئیرشپ یا سینیٹ کی رکنیت کا کیا سوال ، ہم تو کرکٹ ٹیم میں کسی غیر مسلم کو کھلے ماتھے نہیں برداشت کر سکتے۔ مشہور کرکٹر شعیب اختر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی ٹیم کا ہندو رکن دانش جب کھانے کی میز پر آتا تو ٹیم کے کئی کھلاڑی اس کے ساتھ کھانا کھانے سے گریز کرتے۔ اس بیان سے دانش کو حوصلہ ہوا اور اس نے خاموشی کا قفل توڑتے ہوئے بتایا کہ شعیب اختر، انضمام الحق، یونس خان اور محمد یوسف کے علاوہ اسے کسی کھلاڑی سے عزت اور سپورٹ نہیں ملی! دانش کہتا ہے کہ اس میں اتنا بھی حوصلہ نہیں تھا کہ اس سلوک کا ذکر کرتا۔ شعیب اختر نے بات چھیڑی تو اسے بھی جرأت ہوئی۔ اس نے کہا کہ وہ جلد ان تمام کھلاڑیوں کے نام بتائے گا جو اُس سے صرف ہندو ہونے کی وجہ سے نفرت کرتے تھے۔ انضمام منع کرتے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی کھلاڑی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے‘ دانش پاکستان کے لیے کھیلتا ہے، اس سے بڑا اعزاز کوئی نہیں!
یہ ہے ہماری پستی، ہماری منافقت اور ہمارے دوغلے رویے کی مثال! جب کوئی مسلمان، کسی غیر مسلم ملک میں وزیر بنے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ مگر اپنے ملک میں کرکٹ ٹیم کی رکنیت بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں! غیرت جاگ اٹھتی ہے! وہ تو خدا کا شکر ہے کہ شعیب اختر، انضمام الحق، یونس خان اور محمد یوسف جیسی ایک اقلیت اس ملک میں موجود ہے۔
منافقت کی انتہا دیکھیے کہ غیر مسلم ملازموں کے لیے اکثریت کے گھروں میں یہاں برتن تک الگ رکھے جاتے ہیں! یہی پاکستانی جب ولایت جاتے ہیں تووہاں کے ریستورانوں میں کھانا کھاتے وقت سوچتے تک نہیں کہ جن برتنوں میں کھا رہے ہیں ان میں غیر مسلم بھی کھاتے رہے ہیں۔ پکانے والے بھی غیر مسلم! کل ہی سوشل میڈیا پر کسی نے لکھا ہے کہ ایک صاحب قسطوں پر الیکٹرانک اشیا فروخت کرتے ہیں۔ اس قصے کا راوی ان کے پاس بیٹھا تھا۔ دو غیر مسلم آئے کہ ان سے قسطوں پر کوئی شے خریدنا چاہتے تھے۔ دکاندار ان سے مذہبی بحث کرنے لگا۔ تنگ آ کر انہوں نے کہا کہ بھائی! ہم تمہارے گاہک ہیں۔ شے بیچنی ہے تو بیچو! راوی نے دکاندار کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنے رویے پر اڑا رہا!
ہم پاکستانیوں کو اُس وقت بھی شرم نہیں آتی جب مشرق وسطیٰ میں ہمارے مسلمان بھائی ہمیں جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں! مسکین کا خطاب دیتے ہیں! یلّا یلّا کہہ کر دھکے دیتے ہیں! بیت الخلا میں بھی پاسپورٹ کے بغیر جانے کی ہمت کوئی نہیں کرتا۔ نسلیں ان ملکوں میں کام کرتے کرتے بوڑھی ہو گئیں۔ کفیل کے بغیر سانس لینے کی اجازت نہیں! یہی وجہ ہے کہ ''کفار‘‘ کے ملکوں میں اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ کروڑ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ کسی مسلمان ملک میں اتنی مذہبی آزادی خود مسلمانوں کو نہیں جتنی امریکہ، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہے! مسجدوں کا شمار نہیں! کاروبار ان کے اپنے نام پر ہیں! بڑے بڑے مکانوں کے یہ مالک ہیں! کمپنیوں کے سربراہ ہیں! پارلیمنٹ کے رکن ہیں! سکولوں میں خیال رکھا جاتا ہے کہ ان کے بچوں کو ایسی خوراک نہ دی جائے جسے یہ ناجائز کہتے ہیں!
یہ سب کچھ خود ہمارے ہاں ناقابلِ تصور ہے! کوئی غیر مسلم، مسلمان ہو جائے تو اسے رشتہ کوئی نہیں دیتا۔ وہ وہی رہتا ہے جو مسلمان بننے سے پہلے تھا! ایک معروف عالم دین اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ایک عمر رسیدہ صاحب، پچاس پچپن سال پہلے غیر مسلم سے مسلمان ہوئے۔ انہوں نے قرآن پاک کے مختلف تراجم کو سامنے رکھ کر قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کیا۔ ان مولانا صاحب سے انہوں نے اس کی تقریظ لکھنے کی فرمائش کی! مولانا کو ان کا غیر مسلم پس منظر معلوم تھا۔ انہوں نے پوری تحقیق کر کے، مقامی علما سے رہنمائی لے کر، تقریظ لکھی۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ مولانا ہی کے الفاظ میں سنیے ...''اس پر بعض دوستوں کی جانب سے اعتراض ہوا کہ میں نے ایک غیر مسلم کی تفسیر پر تقریظ لکھ دی ہے۔ صرف اعتراض نہیں ہوا۔ ملک بھر میں اس کی خوب تشہیر کی گئی۔ مختلف شہروں سے مجھے فون آنے لگے بلکہ عام حلقوں میں تقسیم کیے جانے والے ایک پمفلٹ میں اس کا ذکر کیا گیا‘‘۔ آگے چل کر مولانا لکھتے ہیں کہ مہم زور پکڑتی گئی۔ حکومت پنجاب کے قائم کردہ ''متحدہ علما بورڈ‘‘ کو درخواست دی گئی۔ پھر پاکستان شریعت کونسل تک بات پہنچائی گئی اور مولانا کو اپنے مؤقف پر نظر ثانی کے لیے کہا گیا۔ یہ اور بات کہ مولانا اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے‘ اس لیے کہ منظوم ترجمہ کرنے والا شخص پچاس سال سے مسلمان تھا اور پورے شہر کو معلوم تھا کہ وہ مسلمان ہے!
اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہم بی جے پی پر کیسے اعتراض کر سکتے ہیں؟ فرق صرف یہ ہے کہ وہ کھلم کھلا قتل و غارت پر اتر آتے ہیں جب کہ ہم نفرت کا آتش فشاں اپنے اندر پالتے رہتے ہیں۔ یو پی کے متعصب چیف منسٹر ادتیا ناتھ پر ہمیں اعتراض ہے کہ وہ شہروں کے مسلمان نام بدل رہا ہے۔ خود ہم نے کیا کیا؟ کیا ہم نے انگریزی نام رہنے دیئے؟ فیصل آباد کا نام لائل پور تھا۔ پنجاب کے گورنر سرجیمز براڈ وُڈ لائل نے اسے بسایا تھا۔ ہم نے یہ نام ہٹا کر، نام کو مسلمان کر دیا۔ کیمبل پور شہر کی بنیاد 1908ء میں اُس وقت کے کمانڈر انچیف سر کولن کیمبل نے رکھی۔ ہم نے یہ نام بھی مسلمان کر لیا۔ اعتراض ہم ادتیا ناتھ پر کرتے ہیں!!؎
تمہاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی!
شعیب اختر کا بھلا ہو، اس کی وجہ سے دانش کو بات کرنے کا حوصلہ ہوا۔ یہاں کتنے ہی دانش امتیازی سلوک برداشت کر رہے ہیں مگر خاموش ہیں۔

Friday, December 27, 2019

میں انتظار کروں گا‘ ترا قیامت تک

تلخ نوائی…………

یہ ایک خط تھا ‘جو اخبار میں چھپا‘ مگر یہ خط نہیں تھا؛ آئینہ تھا۔ اس میں ایک نہیں‘ دو تصویریں نظر آ رہی تھیں۔اس خط کو سمجھنے کے لیے اور اس آئینے میں دو تصویریں دیکھنے کے لیے آپ کو کالم نگار کے ساتھ بارہ سال پیچھے جانا پڑے گا۔
یہ لگ بھگ 2007ء کا زمانہ تھا۔ وفاقی حکومت کے ملازموں کو ریٹائرمنٹ پر قطعۂ زمین قیمتاً فروخت کرنے والے ادارے ''ہائوسنگ فائونڈیشن‘‘ نے پلاٹ الاٹ کیے۔ یہ پلاٹ سیکٹر جی چودہ ون‘ جی چودہ ٹو اور جی چودہ تھری میں الاٹ کیے گئے۔ ان ملازموں میں افسر‘ غیر افسر‘ سب شامل تھے۔ ان ملازموں کی اکثریت 2008ء میں ریٹائر ہو گئی۔ پلاٹ دینے کا مقصد یہ تھا کہ ریٹائرمنٹ پر یہ لوگ زمین کے ان ٹکڑوں پر چھتیں ڈال کر سر چھپانے کی پناہ گاہیں بنا لیں گے!
آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ پلاٹ ان ملازموں کو مل گئے؟ انہوں نے گھر بنا لیے؟ نہیں! آپ کا خیال غلط ہے! جی چودہ ون اور ٹو میں تو ابھی تک وہ عمارتیں اور مکانات بھی قائم ہیں‘ جو منہدم ہونے تھے۔ رہا سیکٹر جی چودہ تھری‘ تو تا دمِ تحریر‘ ابھی تک وہاں بھی کوئی مکان نہیں بنا۔
2008ء تک ریٹائر ہونے والے ملازمین اب بہتّر بہتّر سال کے ہو گئے ہیں یا اس سے بھی زیادہ! کچھ افراد پلاٹوں کے قبضے کا انتظار کرتے کرتے قبرستانوں میں جا لیٹے‘ جو باقی ہیں‘ ان میں سے بہت سے لاٹھیوں پر چل رہے ہیں۔ کچھ کرائے کے مکانوں میں ہیں۔ کچھ اپنی آبائی بستیوں کو یہ کہہ کر پلٹ گئے؎
ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک 
خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے 
ایسے ہی ایک دل جلے نے تنگ آ کر اخبار میں خط لکھا اور مطالبہ کیا کہ ہائوسنگ فائونڈیشن اور یہ پلاٹوں کو خالی کرا کر دینے یا سرکاری ملازموں کیلئے مکان بنانے کا کام پاکستان آرمی کے سپرد کیا جائے!
پتا نہیں کسی ذمہ دار حکومتی فرد نے یہ خط پڑھا یا نہیں! قارئین کے خطوط اکثر و بیشتر یہ قارئین خودد ہی پڑھتے ہیں‘ مگر مطالبہ کرنے والا ہوا میں بات نہیں کر رہا تھا۔ فوج کے ملازم ہمارے ہی بہن بھائی اور بیٹے بھتیجے ہیں۔ جس زمانے میں سول ملازمین کے لیے ہائوسنگ فائونڈیشن بنی‘ لگ بھگ اسی زمانے میں فوجی ملازموں کے لیے یہ سلسلہ شروع ہوا اور ہائوسنگ ڈائریکٹریٹ بنی۔ فوجی ملازم اپنے اپنے جی پی فنڈ سے کٹوتیاں کرا کر رقم جمع کراتے۔ ریٹائرمنٹ پر انہیں ان کی حیثیت کے مطابق ‘مکان دے دیا جاتا۔ آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ تھوڑی بہت تاخیر کے باوجود‘ یہ حال فوجی ملازموں کا نہیں ہوا‘ جو وفاق کے سول ملازمین کا ہو رہا ہے!
ایک آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرنا مناسب ہوگا جس سے ''دیانت داری‘‘ کا علم بھی ہو رہا ہے۔ سلیم بہادر خان مرحوم‘ وزارت ِخزانہ کے جوائنٹ سیکرٹری تھے اور اس حیثیت میں پاکستان ائر فورس کے مالی مشیر تھے۔ (ان کے صاحبزادے بھی سول سروس میں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وفاقی سیکرٹری داخلہ تعینات ہوئے تھے۔ معلوم نہیں آج کل کہاں ہیں) یہ کالم نگار بھی ان دنوں پشاور میں مزدوری کر رہا تھا۔ چائے کا دور سلیم بہادر خان صاحب ہی کے ہاں چلتا۔ انہوں نے بھی فارم پُر کر کے ہائوسنگ فائونڈیشن کو بھیجا۔ جواب آیا کہ آپ تو پہلے ہی مکان کے مالک ہیں‘ اس لیے آپ پلاٹ کے اہل نہیں! خان صاحب نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اصلی اور کھرے روہیلے تھے۔ دسترخوان وسیع تھا۔ خوددار اتنے کہ ائر فورس کے کتنے ہی بڑے بڑوں کو برج سکھائی ‘مگر کبھی کوئی جائز سہولت بھی نہ مانگی۔ فائونڈیشن کو جوابی خط لکھا کہ یہ میرا مکان جو آپ کے علم میں آیا ہے‘ اس کا اتہ پتہ بتا دیجیے کہ جا کر قبضہ تو کروں‘ کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے‘ پورے ملک میں میرا مکان کوئی نہیں! ہوا یہ تھا کہ ان کی جگہ کسی اور ''پسندیدہ‘‘ سرکاری ملازم کو پلاٹ دیا جا رہا تھا۔
فوج کے ہائوسنگ کے شعبے میں ایسی کوئی بدنظمی ‘ کوئی بددیانتی نہیں ہوئی۔ کسی کو سفارش نہیں ڈھونڈنا پڑی۔ ایک نظام کے تحت کام چلتا رہا اور چل رہا ہے!
یہ ہے وہ آئینہ جو یہ خط دکھا رہا ہے۔ یہ ہیں؛ وہ تصویریں!
یونیورسٹیوں میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی شاخوں نے جو قیامت برپا کر رکھی تھی‘ اس کا علاج بھی فوج ہی کو کرنا پڑا۔ فوجی افسروں کو وائس چانسلر تک لگانا پڑا۔ یہ کوئی خوش آئند امر نہیں تھا‘ مگر زمینی حقائق کب خوش آئند تھے؟ ایک یونیورسٹی میں تو ان سرگرمیوں اور سیاسی شاخوںکا مکمل استیصال کر دیا گیا۔ دوسری میں‘ کم از کم‘ اُس زمانے میں کافی افاقہ ہوا۔ حال ہی میں دارالحکومت کی ایک یونیورسٹی میں ایک سیاسی شخصیت ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھی کہ گولیاں چلیں۔ ایک طالب علم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اُس خاندان کے دُکھ کا اور والدین کے کرب کا اندازہ لگاناآسان نہیں‘ جس کا لخت جگر آیا تو تعلیم کے حصول کے لیے تھا‘ مگر لاش کی صورت واپس گیا۔ آج اس یونیورسٹی کا انتظام کسی فوجی افسر کے سپرد کیجیے۔ گولیاں چلانے والوں کا علاج بھی ہوگا اور سیاسی رہنمائوں کا عمل دخل بھی بند ہو جائے گا!
اس وقت ملک میں دو گروہ ایسے ہیں جو قانون کے دائرے سے مکمل طور پر باہر ہیں۔ ایک گروہ وکیلوں کا ہے‘ جن پر کوئی پابندی‘ کوئی قدغن اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ لاقانونیت کی انتہا یہ ہے کہ ہسپتال پر حملہ ہوا‘ تین مریضوں کو قتل کر دیا گیا‘ مگر قتل ِ عمد کا مقدمہ کسی پر نہ چلا۔ خود منصف حضرات نے یہ تجویز پیش کی کہ پھول لے کر جائیے اور صلح صفائی کی کوشش کیجیے‘ تو کیوں نہ یہ سارا قضیہ فوج کے سپرد کر دیا جائے۔ فوجی عدالتوں میں مقدمے چلیں اور انصاف ہو!
ڈاکٹروں کا بھی یہی حال ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں جس طرح ڈاکٹر چائے کے لمبے لمبے وقفے کرتے ہیں۔ کسی سی ایم ایچ میں اس طرح نہیں ہوتا۔ دارالحکومت کے ایک بڑے ہسپتال میں ایک معروف ڈاکٹر کی نگاہِ التفات کے لیے یہ کالم نگار چار دن جاتا رہا۔ سارے روابط اور سفارشوں کے باوجود موصوف کی جھلک تک نہ ملی! عسکری ہسپتالوں میں بھی فرشتے تو نہیں بیٹھے‘ مگر اتنا ظلم نہیں ہوتا۔ اگر سول ہسپتالوں کا انتظام فوجی افسروں کے سپرد کر دیا جائے تو سیاست دان اور اینکر حضرات تو ناراض ہوں گے‘ مگر مریض سکھ کا سانس لیں گے۔ ہسپتال ضابطے کے پابند ہو جائیں گے!
دوسرا گروہ جو من مانی اور دھاندلی کرنے میں جواب نہیں رکھتا‘ تاجروں کا ہے۔ شناختی کارڈ سے لے کر ٹیکس تک‘ یہ کسی بات پر آمادہ نہیں ہوتے۔ کئی حکومتوں نے کوشش کی کہ اوقاتِ کار ہی ان کے معقول ہو جائیں ‘مگر وہی ڈھاک کے تین پات! بازار دوپہر کے بعد کھلتے ہیں اور آدھی رات کو بند ہوتے ہیں۔ بازاروں میں ناجائز تجاوزات نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔ ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی‘ ناروا نفع خوری عام ہے! ری فنڈ پالیسی عنقا ہے۔ خریدا ہوا مال واپس ہونے کا سوال ہی نہیں! کوئی حکومت‘ کوئی ڈپٹی کمشنر‘ کوئی ایف بی آر اس طبقے کو قانون کے دائرے کے اندر نہیں لا سکتا! اب‘ فریب دہی اور دھاندلی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ جس کا شکار زیادہ تر گھریلو خواتین ہو رہی ہیں۔ یہ ''آن لائن‘‘ خریداری کا سلسلہ ہے۔ جو نمونہ بتایا جاتا ہے‘ آن لائن ڈیلیوری (Delivery) اُس نمونے کے مطابق‘ اکثر و بیشتر نہیں ہوتی۔ واپس کریں تو ڈاک کا خرچ خریدار کے ذمے! اس بات کی بھی ضمانت نہیں کہ دوسری بار ترسیل دیانت داری سے ہو گی! تو کیا اس طبقے کے ظلم اور دھاندلی سے نجات کے لیے بھی عوام‘ فوج کی طرف دیکھیں؟
دور دور تک انصاف کی کوئی امید نہیں۔ افق سے افق تک دیکھ لیجیے‘ روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی! ہائوسنگ فائونڈیشن اُن ملازموں کو جو ابھی تک زندہ ہیں‘ پلاٹوں کے قبضے کب دے گی؟ہسپتال پر حملے کے دوران ‘جن مریضوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا‘ ان کے پس ماندگان کی شنوائی کب ہوگی؟ یونیورسٹیوں میں طلبا کے قتل کب رُکیں گے؟ ہسپتال مذبح خانوں کے بجائے شفاخانے کب بنیں گے؟ تاجر گاہکوں کو انسان سمجھنا کب شروع کریں گے؟ بازار صبح نو بجے کب کھلیں گے؟ ؎
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ 
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہو گی

Tuesday, December 24, 2019

آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا



جب بھی سولہ دسمبر آیا‘ نوحہ خوانی کی!اس بار ضبط کیا۔ اس لیے کہ ؎
کب تلک پتھر کی دیواروں پر دستک دیجیے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں
سولہ دسمبر آیا‘ گزر گیا۔ کیسے کیسے فلسفے پڑھنے کو ملے۔ کیسی کیسی وجوہ اس سانحہ کی سننے میں آئیں۔ الامان والحفیظ! ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک عامیانہ‘ بھونڈا سا مزاح گردش کر رہا ہے کہ جسے گھر والے دوسری بار سالن نہیں دیتے ‘وہ بھی فلاں فلاں پر تنقید کر رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کا بھی یہی حال ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک سانحہ تھا۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن بزرجمہروں کو  بنگلہ دیش (یا مشرقی پاکستان) کا حدود اربعہ تک نہیں معلوم‘ وہ بھی سقوط ڈھاکہ کا فلسفہ بگھارنے میں اپنے آپ کو ابن ِخلدون سے کم نہیں گردانتے ؎
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوئہ اہلِ نظر گئی
احسن اقبال سے کئی اختلافات ہیں‘ مگرایک بات ان کی دل کو لگتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف والا فیصلہ پچاس برس پہلے آ جاتا تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ چلئے الگ ہو بھی جاتا تو یوں شکست اور رسوائی نہ ہوتی۔ قتل و غارت نہ ہوتی۔ سیاست دان شاید عقل کو بروئے کار لاتے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرتی اور بریگزٹ (Brexit)قسم کا پرامن بٹوارا ہوتا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری چوبیس گھنٹے کھلی رہتی۔ اُس وقت مغربی پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں چوبیس گھنٹے کھلی رہنے والی لائبریری کا کوئی تصور نہ تھا۔ آج بھی نہیں ۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہنگامے بھی ہوتے‘ ہڑتالیں بھی‘ مگر جو طلبہ پڑھاکُو تھے‘ اُن کی مثال کوئی نہیں تھی۔ صبح تین بجے بھی لائبری بھری ہوتی‘ ایسی ہی ایک شام تھی۔ میں لائبریری میں بیٹھا انٹرنیشنل ٹریڈ کی کسی کتاب سے سر مار رہا تھا۔ باہر لیچی اور املی کے پیڑ جھوم رہے تھے۔ اُن کے پتوں کا عکس لائبریری کی کھڑکیوں کے شیشوں پر پڑ رہا تھا ہلکا سا کھٹکا ہوا۔ سامنے میرا بنگالی کلاس فیلو کھڑا مسکرا رہا تھا۔''اظہار! چائے پینے نہ چلیں‘‘
اُس نے اُسی سٹائل سے کہا‘ جس سے وہ کلاس روم میں پروفیسروں سے مشکل مشکل سوال پوچھا کرتا! مجھے بہانہ چاہیے تھا‘ بریک کے لیے۔ 
''چلو چلتے ہیں‘‘ میں نے کہا۔
ہم مادھو کی کینٹین میں جا بیٹھے ۔کہاوت یونیورسٹی میں یہ مشہور تھی کہ جس نے مادھو کی کینٹین سے اتنے کپ چائے نہ پی اور اتنے سموسے نہ کھائے‘ اُسے ڈگری نہیں ملے گی۔ مادھو کینٹین کی تاریخ بھی عجیب ہے اور دلچسپ! درد ناک بھی! مادھو اپنے باپ کے ساتھ کہیں سے ہجرت کر کے آیا اور 1921ء میں چائے اور کھانے پینے کا سامان فروخت کرنا شروع کیا۔ ابتدا میں یہ کینٹین اُس عمارت میں تھی جو بعد میں (ہمارے زمانے میں) میڈیکل کالج بنا۔ جب نیل کھیت میں یونیورسٹی کی نئی آرٹس بلڈنگ بنی تو کینٹین وہاں منتقل ہو گئی۔ یہ وہی آرٹس بلڈنگ ہے‘ جس کے حوالے سے ایک مغربی پاکستانی طالب علم نے کہا تھا ؎
آرٹس بلڈنگ کے چھلکتے ہوئے برآمدوں میں
کاش اُس نے بھی کسی دن مجھے ڈھونڈا ہوتا
مادھو کینٹین‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کی ثقافتی تاریخ کا جزو لانیفک رہی۔ سٹوڈنٹ لیڈر یہیں بیٹھتے۔ سنجیدہ کتابی کیڑوں کا ٹھکانا یہی تھی۔ تحریکوں کا گڑھ یہیں تھا۔ بنگالی زبان کی تحریک تھی یا طلبہ کے دیگر مطالبات‘ سرگرمیوں کا مرکز مادھو کی کینٹین ہی ہوتی۔ بنگالی میں اسے مادھور (یعنی مادھو کی) کینٹین کہا جاتا تھا۔ 1971ء میں ملٹری ایکشن ہوا تو مادھو بھی مارا گیا۔ اس دلخراش خونی داستان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں! مختصر یہ کہ مادھوکی بیوی‘ بیٹی اور داماد بھی قتل کر دیے گئے۔
بعد میں کینٹین کو دوبارہ آباد کیا گیا۔ سنا ہے اب ‘یہ اُس عمارت میں واقع ہے جہاں 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل ہوئی تھی!
ہم مادھوکی کینٹین میں جا بیٹھے۔ دو چائے کے کپ اور دو سموسے! اور بے شمار باتیں! یہ ناممکن تھا کہ اُس زمانے میں (1967-70ء)دو طالب علم اکٹھے ہوں اور بات مرکزی حکومت‘ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی نہ ہو! قصّہ وسائل کی تقسیم کا تھا۔ پاکستان ٹائمز اُس زمانے کا معروف انگریزی روزنامہ تھا۔ اُس نے اپنے اداریے میں اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ مشرقی پاکستان کا کمایا ہوا زرِمبادلہ مغربی پاکستان میں خرچ ہو رہا تھا۔ حکومت کرنے مشرقی پاکستانی‘ مغربی پاکستان نہیں آتے تھے ‘بلکہ مغربی پاکستان سے بیورو کریٹ مشرقی پاکستان جایا کرتے۔ اچانک سامنے بیٹھا ہوا میرا کلاس فیلو اپنے کپ پر جھکا اور مجھے کہنے لگا: ''اظہار! مجھے صرف ایک بات بتا دو! دس برس ہو گئے ہیں‘ ایوب خان کو حکومت کرتے! اگر پاکستان پر جرنیلوں ہی نے حکومت کرنی ہے تو ہماری باری کس طرح آئے گی؟ بنگالی تو کوئی جرنیل ہے ہی نہیں!‘‘۔
میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ کسی کے پاس نہ تھا! آج بھی نہیں -ایوب خان جاتے جاتے ملک پر یحییٰ خان‘ ایک اور جرنیل مسلط کر گیا‘ جس نے مشرقی پاکستان کو‘ الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود‘ ان کا حق نہ دیا۔ اسمبلی کا اجلاس ہی نہ ہونے دیا! وہ کس کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا۔ کس کی معیت میں اندرون سندھ کی شکار گاہوں کو ماپ رہا تھا۔ یہ سارے سوالات ضمنی ہیں! برہنہ حقیقت ایک ہی ہے کہ ایک عسکری آمر برسراقتدار تھا۔ اقتدار کُلی اُسی کے ہاتھ میں تھا۔ وہ کوئی بچہ نہیں تھا کہ بھٹو نے یا کسی اور نے اسے ورغلایا یا مجبور کیا یا پھانس لیا۔
ایوب خانی دور میں معیشت بظاہر بہتر تھی۔ اکنامک indicators (اقتصادی اشارے) بھلے لگتے تھے‘ مگر وہ لاوا جو اندر ہی اندر پک رہا تھا؟ عدم اطمینان کی وہ شدید کیفیت جو مشرقی پاکستانیوں کے ذہنوں میں کلبلا رہی تھی؟ ایک غیر معروف وکیل عبدالمنعم خان کو وہاں کا گورنر بنا دیا (یہ اُس زمانے کا بزدار تھا!!) اُس کے بارے میں جو لطیفے مشہور تھے‘ ان سے اس کی اصیلت کا پتہ چلتا تھا‘ مثلاً :اُس نے ڈھاکہ ایئر پورٹ پر صدر ایوب خان کا استقبال کیا۔ گلے ملتے وقت ایوب خان کو کچھ چُبھا۔ معلوم ہوا عبدالمنعم خان نے قمیص کے نیچے کچھ چھپایا ہوا ہے۔ تلاشی لی گئی تو دیکھا گیا کہ اس نے ایوب خان کی تصنیف فرینڈز ناٹ ماسٹرز سینے سے لگائی ہوئی تھی!
پھر ایوب خان نے 'عشرئہ ترقی‘‘ منانے کا ڈول ڈالا۔ الطاف گوہر اس تصور کے بانیوں میں تھے! گنگا اور میگنا کے دریاؤں میں چلتی ہوئی کشتیوں پر بڑے بڑے بینر لگوائے گئے‘ جن پر ''عشرئہ ترقی‘‘ لکھا ہوتا‘ مگر سینے تو داغ داغ تھے۔ عشرئہ ترقی کے جشن کیا کرتے ؎
زمیں پہ زائچے کہتے رہے کچھ اور مجھے
وہ آسماں پہ ستارے مرے بدلتا رہا
طرفہ تماشا یہ ہے کہ بنگالیوں کو آج بھی غداری کے طعنے دیے جاتے ہیں! افسوس! اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے ہم آج بھی آمادہ نہیں! خدا کے بندو! وہ تو اکثریت میں تھے۔ اکثریت کیسے الگ ہو سکتی تھی! ہم تعداد میں کم تھے! الگ ہونے کا فیصلہ تو ہم نے کیا۔ اُس دن کیا جب یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا ہونے والا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا‘ تاکہ شیخ مجیب الرحمن وزیراعظم نہ بن سکے‘ جو اس کا قانونی‘ آئینی اور اخلاقی حق تھا! آج اسے غدار کہا جاتا ہے! ہاں! یہ وہی غدار ہے‘ جس نے فاطمہ جناح کے لیے صدارتی انتخابات میں شہر شہر گاؤں گاؤں گھر گھر جدوجہد کی! اور ہم جن کے ہاں فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا‘ ہم محب وطن ٹھہرے! واہ! کیا معیار ہے! حب الوطنی اور غداری کے تمغے باٹنے کی کیا عمدہ مشین ہے‘ جو ہمارے ذہنوں میں آج بھی نصب ہے اور دھڑا دھڑ پیداوار دے رہی ہے! 
ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ وہاں ہندو بہت تھے۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف کام کیا! جھوٹ اور مکر و فریب کی کوئی حد ہوتی ہے! یہ ہندو اُس وقت کامیاب کیوں نہ ہوئے جب تحریک پاکستان میں بنگالی سب سے آگے تھے‘ ہمارے ہاں تو خاکسار بھی تھے۔ احرار بھی۔ جو تحریک پاکستان کے مخالف تھے۔ جمعیت علماء ہند تھی‘ جماعت اسلامی تھی جو کم از کم مسلم لیگ کے خلاف ضرور تھی! وہاں تو کوئی جماعت‘ کوئی گروہ‘ کوئی جتھاپاکستان کے خلاف نہ تھا! اُس وقت ہندو کیوں نہ کامیاب ہوئے؟
سولہ دسمبر آتا رہے گا! زخم ہرے ہوتے رہیں گے! کیا کوئی دسمبر ایسا بھی آئے گا‘ جب ہم اپنا محاسبہ کریں گے؟ اپنے گریبان میں جھانکیں گے؟ کیا ہر دسمبر میں ہم اپنے آپ کو پوتر اور دوسروں کو بھرشٹ ثابت کرتے رہیں گے؟ کیا ہماری معصومیت کا کوئی انت ہے؟

Sunday, December 22, 2019

نظر آتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے



کاش میں ایک پرندہ ہوتا! درختوں پر بیٹھتا۔ پھل کھاتا، اُڑتا پھرتا، حساب کا ڈر ہوتا نہ عذاب کا! کاش میں سرِ راہ درخت ہوتا۔ اونٹ میرے پاس سے گزرتے! مجھے نوالہ بناتے۔ چباتے اور نگل جاتے‘‘۔
''اے کاش میں تنکے کی طرح خس و خاشاک ہوتا! کاش میری ماں مجھے نہ جنتی!
یہ حسرتیں عام لوگوں کی نہیں، خلفائے راشدین کی ہیں! عقل مندوں نے ہمیشہ اقتدار سے جان بچائی۔ ایسے ایسے اہل اللہ بھی تھے کہ بادشاہ حاضر ہونے کی اجازت مانگتے تو انکار کر دیتے۔ کچھ اپنی رہائش گاہ چھوڑ کر غائب ہو جاتے!
اس لیے کہ اقتدار سانپ کا بِل ہے۔ یہ بچھوؤں سے بھری ہوئی غار ہے! جس نے اس کی خواہش کی اور اسے حاصل کرنے کی جدوجہد کی، اس نے اپنے راستے میں کانٹے بوئے۔ اپنا انجام خراب کیا۔ جسے یقین نہ آئے وہ آج پرویز مشرف کا حال دیکھ لے! میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی ابتری، پراگندگی اور دربدری پر نظر دوڑائے! جنرل ضیاالحق کا دنیا میں انجام ذہن میں رکھے۔
کیاپرویز مشرف کو سزا اُنہی جرائم کی مل رہی ہے جن کا ذکر عدالت نے کیا ہے؟ ممکن ہے انہی کی ہو! مگر بہت کچھ ہے جو نگاہوں سے اوجھل ہے! کتنے ہی سزائے موت کے قیدی آخری لمحات میں بتاتے ہیں کہ جس جرم کا ذکر دنیا کی عدالت میں کیا گیا، وہ ہم نے کیا ہی نہیں! مگر ہمیں معلوم ہے‘ سزا کس جرم کی مل رہی ہے! امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ دعا منسوب ہے کہ اے اللہ! مجھے چیزیں اس طرح دکھا جس طرح وہ اصل میں ہیں! اس طرح نہیں جیسے نظر آ رہی ہیں (مفہوم)
نظر آتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے
مگر تم نے مری جاں مسئلہ سمجھا نہیں ہے!
عدالت نے سزائے موت دی! ملے گی یا نہیں، قادر مطلق ہی کو معلوم ہے!
پھر میڈیا پر جنرل صاحب کی (خدا انہیں صحت سے نوازے) وہ تصویریں گردش کرنے لگیں جن میں وہ دبئی کے کسی ہسپتال میں صاحبِ فراش ہیں۔ چہرے کا رنگ اور نقوش بدلے ہوئے ہیں، یہ سب کچھ دیکھ کر اور سزائے موت کا سُن کر، کالم نگار کو مشتاق رضوی یاد آ گیا! آہ! سید مشتاق حیدر رضوی!
یہ جنرل‘ صدر پرویز مشرف کے اقتدار کا عروج تھا۔ سیاست دان اُن کے حضور دست بستہ کھڑے تھے۔ بیوروکریٹ حکم کے غلام تھے۔ انڈونیشیا میں اس حکمران اعلیٰ نے اپنے ایک ذاتی دوست کو سفیر متعین کیا۔ اس نے وزارت خارجہ سے اور اسلام آباد سے پوچھے بغیر سفارت خانے کی عمارت، جو حکومت پاکستان کی ملکیت تھی، فروخت کر دی! مشتاق رضوی نے‘ جو فارن سروس کا پروفیشنل افسر تھا اور وہیں تعینات تھا، اس جرم کی اطلاع وزارت خارجہ کو دینے کا ''جرم‘‘ کیا۔ اسے منصب اور دفتر سے ہٹا کر سزا کے طور پر او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ وہ دھکے کھاتا رہا۔ جب ملک کا حکمران اعلیٰ ہی مخالف تھا تو شنوائی کہاں ہوتی! ایک دن اسی بے یارومددگار حالت میں شدید ذہنی کرب میں اسی بے گناہی کے جرم میں وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی موت کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور نیب، دونوں اداروں نے تصدیق کی کہ اس سودے میں غبن ہوا تھا! تفصیل انٹرنیٹ پر آج بھی دیکھی جا سکتی ہے! اس کالم نگار نے مشتاق رضوی کی بیوہ کو روتے، بلکتے اور جھولی پھیلا کر بددعائیں دیتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے!
وفاقی شعبہ تعلیم کی سربراہی پر جنرل پرویز مشرف نے اپنے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ایک ایسے شخص کو تعینات کیا جو ریٹائرڈ تھا اور وفاق کے سول شعبے سے غیر متعلق! آپ کا کیا خیال ہے اسے کتنی بار اس منصب پر توسیع دی گئی ہوگی؟ پانچ بار! جن اساتذہ کا حق تھا، وہ جوتیاں چٹخاتے، عدالتوں میں دھکے کھاتے، ریٹائر ہو گئے۔ کئی مر کھپ گئے۔ غرہ اتنا تھا کہ یہ صاحب وفاقی سیکرٹری ایجوکیشن کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
قوانین، ضابطے، رُول، ریگولیشن، سب روندے جاتے رہے! پوسٹل سروس آف پاکستان ایک ایسا محکمہ ہے جو سول (سی ایس ایس) افسروں پر مشتمل ہے! تیس پینتیس برس یعنی ساری پیشہ ورانہ زندگی کے بعد اس شعبے کا سینئر ترین افسر اس محکمے کی سربراہی تک پہنچتا ہے۔ جنرل صاحب نے یہ حق بھی اُس قلم سے قتل کیا جو اُن کے طاقتور ہاتھوں نے پکڑا ہوا تھا۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل کو سربراہ بنا دیا گیا۔ جن کا حق تھا، جنہوں نے جوانیاں محکمے میں دفن کی تھیں، وہ ان صاحب کی ماتحتی میں ریٹائرڈ ہوتے گئے!
خصوصی عدالت کے ججوں کے ہاتھوں پر جو قلم تھے، کیا خبر اُنہیں چلا کون رہا تھا؟ جرم آئین کا قتل تھا؟ یا ان گنت حقداروں کے حقوق کا قتل؟ کون جانے! کون بتائے!
اب میاں نواز شریف صاحب کے انصاف کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ سابق سفیر جاوید حفیظ لکھتے ہیں ''میرا تبادلہ رنگون ہوا۔ ابھی مجھے رنگون میں چھ ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ پھر اذنِ سفر ہوا! میں نے پوچھا: میرا قصور؟ جواب ملا‘ آپ نے کوئی غلطی نہیں کی! بس جو صاحب رنگون آنا چاہتے ہیں انہیں ہم روک نہیں سکتے۔ یہ دسمبر 1997 کی بات ہے میری جگہ نامزد سفیر میاں صاحب کے ہم زلف تھے یعنی مریم بی بی کے خالو۔ میری فیملی اگلے آٹھ ماہ دربدر رہی‘‘۔
یہ صاحب کون تھے! ایک پرائیویٹ کمپنی میں اکاؤنٹنٹ تھے۔ وجہ ان کی تعیناتی کی، جو اس کالم نگار کے علم میں ہے، افسوسناک تھی۔ تفصیل رہنے دیجیے۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے فوراً بعد، وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر لگا دیا گیا۔ یہ ایک انوکھی اور مضحکہ خیزتعیناتی تھی!
جنرل ضیاالحق کے طویل عہدِ ہمایونی میں ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ آئین کا درجہ رکھتا تھا! لاتعداد مثالیں تاریخ کے اوراق کا حصہ ہیں، بیرون ملک تعیناتیوں کے حوالے سے ہر قانون کو پیروں تلے روندا گیا۔ نو، نو، دس، دس، سال تک مخصوص ''پسندیدہ‘‘ افسران ملک سے باہر، دلکش اسامیوں پر مزے اڑاتے رہے! پلاٹوں کی بندر بانٹ اُس زمانے میں عروج پر تھی۔ مشہور تھا کہ اردن میں اگر کوئی قریب سے بھی گزرا تھا، اسے نوازا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صدر صاحب اپنے آپ کو آرمی چیف کے طور پر توسیع دیتے رہے!! کون تھا جو بولتا!
حدیث مبارکہ پھر یاد آ گئی۔ فرمان نبویؐ کا حق ہے کہ مسلسل اس کی تشہیر ہو یہاں تک کہ دماغوں میں راسخ ہو جائے۔ 
''جسے مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی اور تعلق کی بنا پر اہلیت کے بغیر دیا۔ اس پر اللہ کی لعنت ہے اُس کا فرض مقبول ہے نہ نفل۔ یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے‘‘۔
مفسرین نے یہ حدیث اُس آیت کے ضمن میں بیان کی ہے جس میں حکم دیا گیا ہے کہ امانتیں صرف اُنہیں پہنچاؤ جو ان کے اہل ہیں!! جب یہ طے ہے کہ ذرہ بھر نیکی بھی دکھا دی جائے گی اور ذرہ بھر برائی بھی! تو اتنی حق تلفیاں، اتنی اقربا پروری، اتنی غلط بخشیاں کیسے چپکے سے گزر جائیں گی اور نوٹس نہیں لیا جائے گا؟
 

آج جنرل پرویز مشرف صاحب پورے ملک میں زیر بحث ہیں۔ ان کے حق میں دلائل کے انبار ہیں اور ان کے خلاف شہادتوں کے ڈھیر! مگر کیا معلوم، اُس عدالت میں جو کسی کو نظر نہیں آ رہی، جہاں گرما اور سرما کی کوئی تعطیلات نہیں ہوتیں، جہاں بھاری فیسوں والے وکیلوں کی ضرورت نہیں پڑتی، جہاں تاریخ لینے کے لیے پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے، جہاں کوئی جج سابق وکیل نہیں ہوتا نہ کوئی وکیل مستقبل کا جج ہوتا ہے، کیا معلوم اُس عدالت میں کون سا جرم بڑا جرم سمجھا جا رہا ہے؟ وہاں کتنے مشتاق رضویوں اور ان کی بیواؤں کو سُنا جا رہا ہے؟
وہاں میں محترم تھا اور وہ نادم کھڑے تھے
نظر مجھ سے چراتے تھے وزیر و شاہ میرے
بھٹو صاحب نے سات سینئر جرنیلوں کو محروم کرکے ضیاالحق صاحب کو آرمی چیف مقرر کیا۔ نواز شریف صاحب نے چار سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کرکے جنرل کاکڑ کو چُنا۔ میاں صاحب نے جب جنرل پرویزمشرف کو چیف تعینات کیا تو اس وقت جنرل علی قلی خان اور جنرل خالد نوازخان جنرل مشرف سے زیادہ سینئر تھے۔ جو جرنیل تھری سٹار ہوتا ہے، جو کور کی کمانڈ کر چکا ہوتا ہے، وہ سربراہ کیوں نہیں بن سکتا؟ یہ دلیل کہ یہ سربراہ حکومت کی صوابدید ہے کہ کس کو چُنے، ایک بودی دلیل ہے۔ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ جسے محروم کر رہے ہیں اس کی وجہ بھی فائل پر لکھیے۔
غالب نے کہا تھا ؎
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟
سارا مسئلہ ہی تو یہی ہے کہ جو ڈائری اُوپر جاتی ہے وہ کسی پرنسپل سیکرٹری یا کیبنٹ سیکرٹری کی لکھی ہوئی نہیں ہوتی! اُسے فرشتے لکھتے ہیں

Thursday, December 19, 2019

……کون سی خارجہ پالیسی؟



پاکستان ایک آزاد ملک ہے یا زنجیروں میں جکڑی ہوئی ذیلی ریاست؟ ایک زنجیر آئی ایم ایف کی، ایک ورلڈ بینک کی! ایک فلاں ملک کی! ایک فلاں بادشاہت کی! واہ! کیا آزادی ہے!؎
دلِ آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر اختیار کو دیکھا
تاریخ نے پاکستان کو ایک سنہری موقع دیا! امتِ مسلمہ کی قیادت کی نشست کب سے خالی ہے۔ ترکی کے اردوان اور ملائیشیا کے مہاتیر نے کمرِ ہمت باندھی۔ پاکستان کو آواز دی کہ آئو، اس نشست کو پُر کریں۔ امت کی قیادت کریں۔ پاکستان نے پہلے ہامی بھری۔ پھر تذبذب میں پڑ گیا؎
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
آخر کار معذرت کر لی! انکار کر دیا... اس لیے کہ فلاں دربار سے اجازت نہیں ملی! دعویٰ یہ تھا کہ اے قوم! جھکوں گا نہ جھکنے دوں گا۔
آن نہ من باشم کہ روزِ جنگ بینی پشتِ من
آن منم کاں درمیانِ خاک و خون بینی سری
میں وہ نہیں کہ لڑائی کے دن، تم میری پیٹھ دیکھو! میں تو وہ ہوں جس کا سر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے!
کیا کیا دعوے اور وعدے تھے۔ بقول اقبالؔ؎
ما رنگِ شوخ و بوئی پریشیدہ نیستیم
مائیم آنچہ می روَد اندر دل و دماغ
ہم محض شوخ رنگ نہیں نہ ہی پریشان خوشبو! ہم تو وہ ہیں جو دل و دماغ کے اندر اتر جاتے ہیں!
ایک ایک کر کے سارے دعوے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے! پہلے آئی ایم ایف کے سامنے ہتھیار ڈالے! پھر عشروں کے آزمائے ہوئے امرا و عمائدین کا حصار اپنے گرد باندھا۔ اور اب ایک نادر موقع ضائع کر دیا۔ امتِ مسلمہ کی قیادت نے خود آگے بڑھ کر دعوت دی تھی کہ آئو مجھے سنبھالو! مگر افسوس! صد افسوس!
وزیراعظم عمران خان بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں! مہاتیر اور اردوان کے ساتھ ان کی شمولیت ایک ایسی ٹیم بناتی جو مسلم امہ کو صدیوں بعد نصیب ہوتی!
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نے جو تقریر کی، جس طرح مسلمانوں کے مسائل کا ذکر کیا، جس طرح اسلاموفوبیا کو للکارا، اس کی مثال کم از کم ہم عصر تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسی سے اردوان اور مہاتیر محمد کو حوصلہ ہوا۔ انہی دنوں یہ طے ہوا کہ تینوں ممالک الیکٹرانک میڈیا کا مشترکہ چینل لانچ کر کے اسلاموفوبیا کا سدِّباب کریں گے!
اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ پاکستانی وزیراعظم کا جنرل اسمبلی والا پُرشکوہ اور دنداں شکن خطاب کچھ ملکوں کو پسند نہیں آیا۔ مقدس مقامات کی بدولت امّہ کی قیادت انہیں By default مل تو گئی مگر تقاضے پورے نہ ہو سکے! خلا ہمیشہ نہیں رہتا۔ اُسے پُر ہونا ہوتا ہے!؎
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے/ تخت خالی نہیں رہا کرتا
میڈیا میں مسلمان مار کھا رہے ہیں! اسلام دشمن پروپیگنڈے کا آج تک منظم جواب نہیں دیا جا سکا۔ اکا دکا انفرادی کاوشیں لائق تحسین سہی مگر مداوا نہیں کر سکتیں۔ چینل کے بعد مہاتیر اور اردوان نے کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ جن کو بلا یااور جن کو مدعو نہیں کیا، اس کی ان کے پاس وجوہات ہیں! جنہیں قیادت اپنے ہاتھ سے پھسلتی ہوئی دکھائی دی، وہ متحرک ہو گئے۔ پاکستان کو روکنا اس لیے آسان تھا کہ پاکستان احتیاج کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے۔ اسے قرض چاہئے۔ تیل اور گیس بھی! عمران خان جری سہی، مگر جس ملک کی قیادت فرما رہے ہیں، وہ قلاش ہے! بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام کا مارا ہوا! نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ تحریک انصاف کی حکومت طوعاً و کرہاً، اپنے پیشروئوں کی طرح نکلی۔ کم از کم کچھ شعبوں اور کچھ دائروں کے حوالے سے تو شک ہی نہیں کہ لکیر کی فقیر ٹھہری!
عربوں کا احساسِ برتری مآج کا مسئلہ نہیں، صدیوں پرانا ہے۔ بنو امیہ کی حکومت کے اواخر میں تو یہ عالم تھا کہ نماز پڑھانے کیلئے بھی عرب امام کو ترجیح دی جاتی تھی! امریکہ میں بسنے والے پاکستانی سکالر، بتاتے ہیں کہ قرآن و حدیث یا فقہ کے حوالے سے کوئی مسئلہ آن پڑے تو عرب غیر عربوں کو کسی کھاتے میں نہیں ڈالتے! یہ اہلِ زبان ہمیشہ سے دوسروں کو گونگا (عجمی) سمجھتے آئے ہیں۔ افتاد یہ آن پڑی کہ بڑے بڑے نابغے اور عبقری غیر عرب تھے۔ امام ابو حنیفہؒ، امام بخاریؒ، امام ترمذیؒ سب! عجم کے دیاروں سے تھے!؎
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
صلاح الدین ایوبی کُرد تھا۔ رہی سہی کسر سلجوقیوں اور پھر سلطنت عثمانیہ نے نکال دی۔ الپ ارسلاں اور ملک شاہ جیسے طاقت ور فاتحین کے سامنے خوابیدہ سلطنتِ عباسیہ کی کیا حقیقت تھی مگر احترام یہ لوگ پھر بھی کرتے تھے۔
سلطنتِ عثمانیہ کی پیٹھ میں جس طرح خنجر بھونکا گیا، تاریخ اس کی شاہد ہے اور یہ شہادت رو رو کر ، بلک بلک کر دیتی ہے! یورپی استعمار نے عربوں کو قومیت کی بنیاد پر ترکوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔ شریفِ مکہ اور مصر میں برطانوی سفیر میکموہن کے درمیان ہونے والی خط و کتابت میں وعدے وعید ہوئے۔ یہ سلسلہ بالآخر اسرائیل کے قیام پر منتج ہوا۔ عربوں کو چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں تو ملیں مگر اسرائیل کا خنجر بھی سینے میں گڑ گیا۔ ع
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
جو آپس میں متحد نہیں ہو سکتے وہ عالمِ اسلام کی قیادت کیا اور کیسے کریں گے۔ 1958ء میں مصر اور شام نے دونوں ملکوں کو ملا کر ''متحدہ عرب ری پبلک‘‘ کی بنیاد ڈالی، یہ اتحاد مشکل سے تین سال چل سکا۔ عراق نے کویت پر حملہ کیا‘ اور امریکہ نے عراق پر ''کارپٹ بمباری‘‘ کی تو اس کے جہاز اردگرد کے عرب ممالک سے اُڑ کر جاتے تھے۔ آج قطر ایک طرف ہے اور یو اے ای اور دوسرے عرب ممالک دوسری طرف! آمریت، احساسِ برتری، عرب عجم کی تمیز‘ یہ سب عوامل مل کر ایک ہی حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ان تلوں میں تیل نہیں!
آمریت سے پاک ملائیشیا، ترکی اور پاکستان کا مشترکہ سٹیج، عالمِ اسلام کی قیادت کے لیے بہترین کردار ادا کر سکتا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت، صنعتی اور تکنیکی انفراسٹرکچر، دوسرے تمام مسلمان ملکوں سے کہیں زیادہ ہے، مگر پاکستان پیچھے ہٹ گیا؎
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملائیشیا اور ترکی ہی نے کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کی کھل کر حمایت کی ہے۔ ملائیشیا کو سزا دینے کے لیے بھارت نے ملائیشیا سے درآمدات بند کر دیں۔ ملائیشیا کے پام آئل کا بھارت بہت بڑا خریدار تھا۔ پچھلے مالی سال کے دوران ملائیشیا کی بھارت کو برآمدات تقریباً گیارہ ارب ڈالر کی تھیں جبکہ بھارت سے درآمدات سوا چھ ارب ڈالر سے زیادہ نہیں تھیں۔ اس منافع بخش دو طرفہ تجارت کی ملائیشیا نے پاکستان کی خاطر قربانی دی اور اپنے مؤقف سے انحراف نہ کیا۔ ترکی نے بھی مکمل حمایت کی۔ مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں میں سے بھی کسی ایک نے پاکستان کا ساتھ نہ دیا۔ کچھ نے کھلم کھلا اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ کچھ نے صبر کی تلقین کی! اس وقت بھارت مشرقِ وسطیٰ پر ایسا غلبہ حاصل کر چکا ہے جو پاکستان کے نقطۂ نظر سے قابلِ رشک ہرگز نہیں! متحدہ عرب امارات میں ہر تیسرا شخص بھارتی ہے۔ دو طرفہ سرمایہ کاریاں زوروں پر ہیں! تعلقات مصافحہ کے نہیں، معانقہ کے ہیں!
نظر کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے مریض کو کہا کہ سامنے والا بورڈ پڑھے۔ مریض نے پوچھا: کون سا بورڈ؟ ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ جو دیوار پر لگا ہے۔ مریض نے پوچھا: کون سی دیوار؟ اگر وہ پوچھتا کہ سامنے دیکھ کر بتائو پاکستان کی خارجہ پالیسی کہاں ہے؟ تو وہ یہی پوچھتا کہ کون سی خارجہ پالیسی؟

Tuesday, December 17, 2019

To be or not to be that is the question

آئی سی (اسلامی کانفرنس) ایک مردہ گھوڑا ہے۔ مہاتیر محمد اگر نہ اُٹھتے تو کسی اور نےجلد یا بدیراٹھنا ہی اٹھنا تھا۔ یہی تاریخ کا طریقِ کار ہے۔

او آئی سی کیا ہے؟ ایک مخصوص خطے کے حکمرانوں کی کنیز! عالمِ اسلام پر جب کوئی مصیبت نازل ہوئیاو آئی سی نے چہرے کو دبیز کپڑے سے ڈھانکاکروٹ بدلی اور سو گئی!نظیری نیشاپوری نے کہا تھا ؎

خورشیدِ عمر برسرِ دیوار و خفتہ ایم

فریاد بردرازئی خوابِ گرانِ ما 

سورج سر پر آ پہنچا اور ہم ہیں کہ سو رہے ہیں...! اتنی گہری اور لمبی نیند...! فریاد ہے فریاد...!)

کشمیر جنت نظیر پر ایک کے بعد دوسری ابتلا آ رہی ہے۔ بھارت میں دہشت گرد مودیموذی بن چکا ہے۔ آسام میں لاکھوں مسلمانوں کو بے وطن قرار دے کر کیمپوں میں دھکیلنے کی تیاری زور پکڑ چکی ہے۔ یہ ابتدا ہے۔ اس کالم نگار نے مہینوں پہلے شور مچایا تھا کہ کیرالہ اور شاید مشرقی پنجاب کو چھوڑ کرآسام کا کھیل تمام ریاستوں میں دہرایا جائے گا۔ اس ساری بربریت کے دوران او آئی سی نے کیا کیا؟ اُمت کہاں ہے؟ مسلمان ملکوں میں سے کسی نے چُوں تک نہیں کی! پاکستان کی حمایت کا سوال نہیںاسلامی غیرت کا سوال تھا! کوئی نہ بولا! طرہ یہ کہ بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی گئیں! کشمیری مسلمانوں کے خون سے رنگی ہوئی دھرتی پر پائوں رکھ کر سرمایہ کاری کے وعدے وعید ہوئے! مندر کا افتتاح اس زور و شور سے ہوا کہ آنکھیں شرم سے جھُک گئیں۔ عبادت گاہہر مذہب کے پیروکاروں کا حق ہےمگر تھال اٹھا کر ملازموں کی طرح کھڑے رہنا؟

حلبدمشقرقّہ اور کئی دوسرے شہروں پر قیامتیں گزریں۔ او آئی سی سوئی رہی! روہنگیا کے مسلمان مظلوموں کی چیخیں آسمان تک پہنچیںاو آئی سی کے کانوں میں روئی ٹھُنسی رہی! مسلمان نہیںیہ تاریخ ہےجو مایوس ہوئی! تاریخ کسی کی داشتہ ہےنہ ملازم! تاریخ اپنا راستہ خود بناتی ہے! تاریخ دوراہے پر تھی۔ وہاں اسے مہاتیر اور اردوان نظر آئے۔ اس نے یہ ذمہ داری اُن کے سپرد کر دی! تاریخ کی مجبوری تھی! محسن بھوپالی کی غزل کو شہرۂ آفاق بنانے والی گل بہار بانو نےجو سنا ہے بُرے حال میں ہےمجبوری کا فلسفہ گھر گھر سمجھایا :؎

روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو

کچی مٹی تو مہکے گیہے مٹی کی مجبوری

پاکستان کے وزیراعظم نے جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا مقدمہ پیش کیا تو خوفناک سناٹا تھا۔ اس سناٹے میں دو... جی ہاں... صرف دو آوازیں بلند ہوئیں۔ یہ کوئی معمولی ہم نوائی نہ تھی! آسان بھی نہ تھی! یہ اردوان اور مہاتیر تھےجنہوں نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا اور کشمیر کا نام لے کر ظالم کی مذمت کی! چین نے بھی موافقت کی مگر اس وقت بات مسلمان ملکوں کی ہو رہی ہے!

اباس حقیقت میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ شرقِ اوسطعالمِ اسلام کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہے! آمریت کی اپنی مجبوریاں ہیںپھر امریکہ کے ساتھ غیر اعلانیہ اتحاد! کچھ دوسرے مسائل جن کا یہاں ذکر شاید مناسب نہ ہو! ؎

افسوس! بے شمار سخن ہائے گفتنی

خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے

گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں برِّصغیر مسلمان لیڈروں سے خالی نہ تھامگر سب دوسری صف کے تھے! اقبالؔ نے پیش گوئی کی؎:

می رسد مردی کہ زنجیرِ غلاماں بشکند

دیدہ ام از روزنِ دیوارِ زندانِ شما

میں تمہارے قید خانے کی دیوار میں بنے روزن سے دیکھ رہا ہوں! تمہیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے والا بطلِ جلیل آیا ہی چاہتا ہے!)

پھر ایک پہلی صف کافرسٹ ریٹلیڈر آیا۔ یہ قائداعظمؒ تھےآئینے کی طرح شفاف کردار کے مالک! فولادی عزم رکھنے والےجنہوں نے یہ زنجیریں توڑیں!

اباردوان اور مہاتیرافق سے ابھرنے والے سورج کی طرح لگ رہے ہیں۔ تاریخ منتظر ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم اس نئی لیڈر شپ میں شامل ہوں۔

23 نومبرکو مہاتیر محمد نے اعلان کیا کہ 19 سے 21 دسمبر تک وہ مسلمانوں ملکوں کے ایک اجلاس کی میزبانی کریں گے۔ ان کے ذہن میں جو مسائل کلبلا رہے ہیںان میں سرِفہرست مسلمان ملکوں کی پسماندگی ہے۔ کچھ مسلمان ممالک تو باقاعدہ ''ناکام‘‘ ریاستوں کی فہرست میں گنے جاتے ہیں۔ مہاتیر کہتے ہیں کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ وجہ جاننا ہوگی۔ اور یہ وجہ اُسی وقت معلوم ہوگی جب مسلمان ملکوں کے رہنماسکالر اور تھنکر سر جوڑ کر بیٹھیں گےپھر خوراک کا مسئلہ ہے۔ دولت کی تقسیم نو کا بکھیڑا ہے۔ اسلاموفوبیا کا قضیہ ہے۔مسلمانوں کی بے وطنی ایک اور مسئلہ ہے۔اقتصادی ترقی اور قومی سکیورٹی کے باہمی تعلق کا ایشو ہے۔ یہ وہ مسائل ہیںجن پر غور کرنے کے لیے کوئی ایک بھی تنظیمآرگنائزیشنمجلسادارہ موجود نہیں! مہاتیر کو امید ہے کہ ترکی کے اردوانانڈونیشیا کے جوکو ودودوقطر کے امیر تمیم بن حماد ثانی اور پاکستان کے عمران خان بنفسِ نفیس شرکت کریں گے۔ باون ملکوں سے ساڑھے چار سو کے قریب رہنماسکالر اور علما ان کے علاوہ متوقع ہیں۔

جن ممالک کے سربراہوں کی شمولیت متوقع ہےان کے ناموں سے صاف ظاہر ہے کہ ظاہری اور زیریں دھارے (currents and under currents)کیا ہیں؟ مایوسی کِن سے ہے؟ نئے شہر بسانا اُس وقت ناگزیر ہو جاتا ہےجب پرانے شہر مسائل کا گڑھ بن جائیں اور باشندوں کی مشکلات کا حل تلاش نہ کر سکیں؎

کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد

مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد

شیکسپیئر نے ہیملٹ کے منہ سے کمال کا فقرہ کہلوایا:

"To be, or not to be, that is the question"

چنانچہ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان ملائیشیا کے اس اجلاس میں خود شریک ہوں گے یا اپنی نمائندگی کا فرض کسی اور کو سونپ دیں گے؟

وزیراعظم کا مشرق وسطیٰ کا حالیہ دورہ بہت کچھ بتا رہا ہے! آہ! اقتصادی احتیاج ملکوں کے ہاتھ پائوں باندھ دیتا ہے؎

آنکہ شیران را کند روبہ مزاج

احتیاج و احتیاج و احتیاج 


احتیاج اور دوسروں پر انحصار شیروں کو لومڑیوں میں بدل دیتا ہے!)

قومی آمدنیقومی پیداوار اور فی کس آمدنی کے اعتبار سے پاکستانترکی اور ملائیشیا دونوں سے پیچھے ہے۔ وہ جو کسی نے فرد کے حوالے سے کہا تھاقوموں پر بھی صادق آتا ہے؎

اے زر! تو خدا نہ ای و لیکن بخدا

ستّارِ عیوب و قاضی الحا جاتی!

(پیسہ خدا تو نہیںمگر خدا کی قسم عیب ڈھانکتا ہے اور ضروریات پوری کرتا ہے!)

حالت ہماری یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کسی ملک سے جہاز مانگ کر لندن سدھارتے ہیں تو سابق صدر کسی بادشاہ کے دیئے ہوئے عطیے سے رہائش گاہیں خریدتے ہیں۔ وقت کا حکمران کسی دوسرے حکمران کے ذاتی جہاز کا مرہونِ احسان ہے! کشکول لے کر دربدر ہم پھر رہے ہیں۔ کوئی اس میں تیل ڈال کر کہتا ہےادائیگی بعد میں کر دینا! کوئی یوآن ڈالتا ہے کوئی لیرےکوئی درہم اور کوئی دینار! درآمدات ہماری زیادہ ہیں برآمدات کم! اہلِ سیاست لندن اور دبئی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُس ملک کی کیا عزت ہوگیجس کے حکمرانوں کی اولادیں سینہ تان کر کہتی ہوں کہ ہم پاکستانی نہیں بدیسی ہیں!

دوسروں سے اجازت لے کرکانفرنسوں میں شریک ہونے کا فیصلہ کرنا!! انا للہ وانا الیہ راجعون! ملک کی جو اندرونی حالت ہےاس کے پیشِ نظر اس میں اچنبھا بھی کیا ہے؟ سرمایہ بھاگ بھاگ کر باہر جا رہا ہےتاجر ٹیکس ادا کرنے کے بجائے ایف بی آر کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کی حالت یہ ہے کہ سینکڑوں وکیلحساس ترین ہسپتال کی طرف

لشکر بن کر مارچ کرتے ہیں اور پولیس نظر نہیں آتی! کل اِس حملے کے نتیجے میں چوتھا مریض بھی جاں بحق ہو گیا اور ایک معروف وکیل رہنما ٹیلی ویژن پر معصومیت سے پوچھ رہے تھے کہ ہم نے کیا کیا ہے؟ معاشرہ جنگل بن چکا ہےمجرموں کو چھڑوانے کے لیے سرِ عام دبائو ڈالا جاتا ہے۔

دنیا کی قوموں میں عزت اُن ملکوں کی ہے جو اندرونی استحکام سے مالا مال ہوں۔ جن کی معیشت کسی کی دست نگر نہ ہو۔ جو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے زر خریدنہ ہوں۔ جن میں مجرم وکیل ہوں نہ ڈاکٹر! ایم این اے ہوں نہ بزنس ٹائی کون! صرف اور صرف مجرم ہوں!

کاش ہمارے ہاتھ پائوں بندھے نہ ہوتے اور وزیراعظم ڈٹ کرایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھنے میںمہاتیر اور اردوان کے ساتھ دھڑلے سے شامل ہو سکتے! ایک نیا با معنی اور تعمیری اتحاد وجود میں آتا!


 

powered by worldwanders.com