Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, January 31, 2023

ہماری ہنڈیا خالی ہی رہی


کاش ! عمران خان اپوزیشن کو کرش کرنے کے بجائے‘ اور ریموٹ کنٹرول سے پنجاب چلانے کے بجائے‘ اقتدار سنبھالنے کے بعد‘ خاموشی سے جنوبی کوریا کا دورہ کرتے اور وہ کام کرتے جو مہاتیر نے جاپان جا کر کیا تھا!�مہاتیر نے کیا کیا تھا ؟ اس نے اسّی کی دہائی کے آغاز میں حکومت سنبھالی اور ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس پالیسی کا نام تھا '' مشرق کی طرف دیکھو‘‘(Look East policy )اس کا مطلب تھا برطانیہ اور امریکہ کے بجائے جاپان پر توجہ دی جائے۔ مہاتیر نے جاپانی حکومت سے اور جاپان کے نجی شعبے سے معاہدے کیے اور جاپانیوں سے کہا کہ آؤ ملائیشیا میں کارخانے لگاؤ! ملائیشیا تمہیں زمین بھی دے گا‘ تمہاری حفاظت بھی کرے گا‘ ٹیکس میں بھی رعایت کرے گا۔ ظاہر ہے لیبر ملائیشیا میں جاپان کی نسبت سستی تھی! چنانچہ بڑی بڑی جاپانی کمپنیاں ‘ جیسے ہٹاچی‘ سونی‘ اس پیشکش پر جھپٹ پڑیں۔ انہوں نے ملائیشیا میں کار خانے لگائے۔ ریفریجریٹر سے لے کر ٹی وی اور ایئر کنڈیشنر تک‘ مصنوعات ملائیشیا میں بننے لگیں۔ ملائیشیا کے بھاگ جاگ اُٹھے۔ دیکھتے دیکھتے ملائیشیا صنعتی ملک بن گیا۔ اس سے پہلے ملائیشیا کیا برآمد کرتا تھا؟ صرف خام مال ! یعنی ربڑ اور ٹین! اب وہ الیکٹرانک اور الیکٹرک مصنوعات برآمد کرنے لگا۔ یہ ہوتا ہے وژن ! دور اندیشی! آپ اور ہم سب جب بھی ٹی وی یا اے سی خریدنے جاتے ہیں تو دکاندار بتاتا ہے کہ یہ کوریا کا بنا ہوا ہے‘ یہ جاپان کا اور یہ ملائیشیاکا۔ ملائیشیا کا بنا ہوا ٹی وی نسبتاً کم داموں میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ملائیشیا میں بنے ہوئے ٹی وی اور اے سی کی کوالٹی کمتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ملائیشیا میں لیبر سستی ہونے کی وجہ سے لاگت کم آتی ہے۔�چالیس سال تک جاپانی کمپنیاں ملائیشیا میں الیکٹرانک اور الیکٹرک مصنوعات بناتی رہیں اور بر آمد کرتی رہیں۔ ملائیشیا کی ٹوٹل برآمدات کا چالیس فیصد حصہ انہی پر مشتمل تھا۔چالیس سال کے بعد2020ء میں ان کمپنیوں نے انگڑائی لی اور ملائیشیا میں صنعت کے نئے دروازے کھولے۔ چار نئے صنعتی شعبے‘ جو جاپان اب ملائیشیا میں شروع کر چکا ہے‘ ملائیشیا کو مزید بھاگ لگا دیں گے۔ اوّل میڈیکل کی مصنوعات! دل کے آپریشن کے لیے جو آلات درکار ہیں‘ ان کے کارخانے لگائے جا رہے ہیں۔ دیگر آلات بھی بنائے جائیں گے۔ ملائیشیا انہیں پوری دنیا میں فروخت کرے گا۔ دوم، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی۔ سوم، حلال انڈسٹری۔ جاپانیوں کو معلوم ہے کہ ملائیشیا چونکہ مسلمان ملک ہے‘ اس لیے ملائیشیا کا حلال سرٹیفکیٹ پورے مشرق وسطیٰ میں تسلیم کیا جائے گا؛ چنانچہ وہ فوڈ انڈسٹری یہاں قائم کر رہے ہیں۔یہیں سے خوراک برآمد کریں گے۔ چہارم، جاپان کی بڑی بڑی کمپنیاں ہوائی جہاز بنانے کے کارخانے ملائیشیا میں لگا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے جب دنیا بھر میں ملازمین کو نکالا جا رہا تھا‘ ملائیشیا میں کام کرتی ہوئی جاپانی کمپنیوں نے اپنا کوئی ملازم برخاست نہیں کیا۔ ساڑھے تین لاکھ ملا ئیشین ان کمپنیوں میں ملازمت کر رہے ہیں! پندرہ سو جاپانی کمپنیاں ملائیشیا میں کام کر رہی ہیں ! ان میں سے ہر کمپنی قوی ہیکل اور عظیم الجثہ ہے۔ ملائیشیا کو ان کمپنیوں کی برآمدات سے ہر سال اربوں ڈالر کا جو فائدہ ہو رہا ہے ‘ وہ تو الگ معاملہ ہے! صرف اس بات پر غور کیجیے کہ ساڑھے تین لاکھ خاندان ان کمپنیوں پر پل رہے ہیں اور باعزت ‘ بلند معیار کی زندگی جی رہے ہیں۔�یہ کام ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ ایک دلیل اس کے خلاف جو دی جا سکتی ہے یہ ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی کا ناسور موجود ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ صنعتی زون سخت حفاظت میں رکھے جائیں۔ اور آبادیوں سے الگ ہوں۔ کوریا ‘ جاپان اور تائیوان کی کمپنیوں کو کارخانے لگانے کی دعوت دی جائے۔ انہیں پُر کشش مراعات دی جائیں اور دل پذیر شرائط طے کی جائیں۔ ٹیکسوں کی چھوٹ دی جائے۔برآمد اور درآمد اِن کے لیے آسان بنائی جائے۔ اگر ہمیں صرف یہ فائدہ ہو کہ تمام لیبر اور انتظامیہ ہماری ہو تو یہ بھی بہت بڑا فائدہ ہے۔ کئی صنعتی زون بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ جو اتنے بڑے بڑے دماغ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں بیٹھے ہیں تو ان خطوط پر کیوں نہیں سوچتے ؟ صنعت کی وزارتوں کا کیا کام ہے ؟ اب تک انہوں نے کیا تیر مارا ہے ؟ کیا روٹین سے ہٹ کر بھی کوئی کام کیا ہے یا کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہے ؟ کوئی حکمران ‘ کوئی وزیر‘ کوئی سیکرٹری ‘ ایسا کام بھی کر جائے کہ اس ملک کی تقدیر سنور جائے۔اگر ملائیشیا یہ تدبیر کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا؟�اس لیے کہ ہمارے پاس حکمران ہیں اور سیاستدان بھی ہیں مگر لیڈر کوئی نہیں ! سیاستدان اور لیڈر میں فرق ہوتا ہے۔ مہاتیر‘ لی کوآن یو ‘ ماؤزے تنگ‘ چواین لائی سیاست دان نہیں تھے‘ لیڈر تھے۔ رہنما تھے۔ قائد اعظم اور نہرو بھی لیڈر تھے۔ نہرو نے سب سے پہلے سٹیل کی صنعت پر توجہ دی۔ قائداعظم پاکستان بننے کے ایک سال بعد رخصت ہو گئے۔ زندہ رہتے تو بہت کچھ کرتے۔ گزشتہ سال شائع ہونے والی اپنی نئی کتاب '' لیڈرشپ‘‘ میں‘ ہنری کسنجر نے چھ لیڈروں کے حالات لکھے ہیں۔ جرمنی کا کونرڈ ایڈی نار ‘ فرانس کا ڈیگال‘ امریکہ کا رچرڈ نکسن ‘ مصر کا انور سادات‘ سنگاپور کا لی کوآن یو اور برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر!! ظاہر ہے کسنجر نے اپنے پسندیدہ لیڈروں ہی کا ذکر کرنا تھا۔ مہاتیر کا ذکر نہ کر کے اس نے اپنی کتاب کو ‘ ایک لحاظ سے ‘ نامکمل رہنے دیا۔ تاہم یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ لیڈر کون ہوتا ہے اور بلند وژن کس طرح قوموں کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے!�صوفی تبسم نے بچوں کے لیے نظم لکھی تھی۔ منے کی ماں نے ‘انڈا ابالا‘ ہنڈیا میں ڈالا ‘دومنٹ گزرے‘ ڈھکنا اٹھایا ‘ انڈا نہ پایا ‘ چمچہ تھا ٹیڑھا ‘ اوندھی تھی تھالی‘ ہنڈیا تھی خالی ‘قسمت تھی کھوٹی‘ ر وکھی تھی روٹی۔ ہماری قسمت ‘ منے کی ماں کی قسمت کی طرح ‘ ہمیشہ کھوٹی ثابت ہوئی۔ بھٹو صاحب میں یہ صلاحیت تھی کہ اگر چاہتے تو زرعی اصلاحات نافذ کر کے جاگیرداری اور سرداری کی نحوست سے نجات دلا سکتے تھے۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے لیڈر رہنے کے بجائے ایک جابر جاگیردار کا رویہ اپنا لیا اور دار و گیر کا اور پکڑ دھکڑ کا افسوسناک سلسلہ شروع کر دیا۔ عمران خان بہت کچھ کر سکتے تھے۔ مگر ضعیف الاعتقادی ‘ منتقم مزاجی اور کوتاہ اندیشی نے انہیں کچھ نہ کرنے دیا! حسینہ واجد بنگلہ دیش کو‘ غور کیجیے ‘ کہاں لے جا رہی ہے! پلاننگ اور اقتصادی ترقی کے ایک ایک اجلاس کی صدارت خود کرتی ہے اور ایک ایک میٹنگ میں سات سات گھنٹے مسلسل بیٹھتی ہے۔ دریائے پدما پر عظیم الشان ‘ اور بہت مشکل ‘ پُل بننے سے بائیس جنوبی اضلاع کی قسمت تبدیل ہو گئی ہے۔ اس کے بننے سے اگلے پانچ سال میں دس لاکھ نئے کاروبار کھلیں گے۔ دس سال بعد یہ تعداد تین گنا بڑھ جائے گی۔ایک دہائی کے اندر اندر ‘ اس پُل کی وجہ سے پانچ سو نئی فیکٹریاں لگیں گی۔ڈھاکہ شہرکے اندر میٹرو ٹرین ‘ الگ ‘ زیر تعمیر ہے۔ ان کے علاوہ کئی منصوبوں پر رات دن کام ہو رہا ہے۔ رہے ہم! تو ہماری قسمت ‘ تا حال ‘ کھوٹی ہی ہے !! ہمارا چمچہ ہمیشہ ٹیڑھا ہی رہا۔ ہماری تھالی ہمیشہ اوندھی ہی رہی ! ہماری ہنڈیا ہمیشہ خالی ہی رہی۔ جس سوار نے غیب سے آنا ہے ‘ ابھی تک اس کے آنے کے آثار ناپید ہیں ! لمیاں اُڈیکاں

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, January 30, 2023

جسٹس وجیہ الدین احمد اور ذوالفقار احمد چیمہ کے نام

اپیل تو پاکستان کے مشہور اور غیر مشہور امرا سے کرنا تھی جیسے زرداری صاحب‘ شریف برادران‘ گجرات کے چودھری صاحبان‘ جہانگیر ترین‘ علیم خان‘ اسحاق ڈار‘ میاں منشا‘ ہمایوں اختر خان‘ ان کے بھائی‘ اور سینکڑوں دوسرے کھرب پتی! کے پی کی نگران کابینہ کے حوالے سے خبر ہے کہ ارب پتی منظور آفریدی کے مختلف کاروبار ہیں جبکہ ان کی کئی قیمتی پراپرٹیز بھی ہیں‘ ضلع خیبر سے ہی تاج محمد آفریدی کو بھی نگران وزیر بنایا گیا ہے‘ تاج محمد آفریدی بھی ارب پتی ہیں۔اس کے علاوہ قومی وطن پارٹی کے حاجی غفران سابق گورنر خیبرپختو نخوا سردار مہتاب احمد خان کے سمدھی اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے قریبی ساتھی ہیں‘ وہ پیشے کے لحاظ سے صنعتکار ہیں اور ان کے بھی اربوں روپے کے اثاثے ہیں۔ بلاول اور مونس الٰہی‘ دونوں‘ اسمبلی کے ریکارڈ کی رُو سے ارب پتی ہیں۔ حنا ربانی کھر بھارت کا دورہ کرتی ہیں تو ان کے انتہائی قیمتی ہینڈ بیگ اور دھوپ کے چشمے کی دھوم مچ جاتی ہے۔مریم نواز کے صاحبزادے کی شادی خانہ آبادی کے اخراجات ہم آپ جیسے عامیوں کے تصور سے بھی ماورا ہیں۔ عام پاکستانی کراچی سے حیدر آباد‘ یا پنڈی سے لاہور جانے سے پہلے سو بار سوچتا ہے اور کرائے کا یا پٹرول کا حساب کرتا ہے جبکہ تازہ خبر یہ ہے کہ بلاول‘ اپنی بہن آصفہ کے ساتھ دبئی روانہ ہو گئے ہیں۔ شریف برادران کے خاندان کا زیادہ حصہ لندن کا مستقل باسی ہے۔ پاکستان آتے ہیں تو قصر نماز ادا کرتے ہوں گے اور لندن میں پوری نماز پڑھتے ہوں گے! مونس الٰہی پچھلے دنوں کتنی ہی بار یورپ گئے! یہ تو وہ امرا ہیں جن کے ہمیں نام معلوم ہیں اور جو خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ مگر کھرب پتیوں کی کمی نہیں۔ سینکڑوں امیر صنعتکار‘ جاگیردار‘تاجر‘اور مختلف صنعتوں کے ٹائیکون ہیں جن کی دولت کا خود انہیں بھی اندازہ نہیں۔لندن کے مہنگے علاقوں میں عربوں کے اتنے محلات نہیں‘ جتنے پاکستانیوں کے ہیں!

درخواست تو ان امرا سے کرنا تھی۔وہ یہ کہ خدا کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ پورے نہیں تو ذرا ذرا ہی کھول دو۔ وطن پر مشکل وقت آن پڑا ہے۔ دھرتی ماں پکار رہی ہے۔ دودھ کا واسطہ دے رہی ہے۔ اے ارب پتیو! اے کھرب پتیو! اے ان گنت ڈالروں اور بے شمار روپوں کے مالکو! جس رقم کے لیے ملک آئی ایم ایف کے سامنے ناک سے لکیریں کھینچ رہا ہے اور امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر گڑ گڑا رہا ہے‘ وہ رقم تمہارے بائیں ہاتھ کا میل ہے۔ کچھ خیال کرو! یہ سب تم نے‘ جیسے بھی کمایا ہے‘ جس طرح بھی بنایا ہے‘ اسی ملک سے کمایا اور بنایا ہے‘ اس سے پہلے کہ یہ ملک دیوالیہ ہو جائے‘ اپنا فرض ادا کرو! اکٹھے بیٹھ جاؤ ! اپنا اپنا حصہ ڈالو! ایک مشترکہ فنڈ تشکیل کرو! آئی ایم ایف سے جو رقم ہم مانگ رہے ہیں‘ اور جو مستقبل قریب میں مانگنی ہو گی وہ جمع کر کے قومی خزانے کو پیش کرو! جو ڈالر سینت سینت کر‘ ذخیرہ کر چکے ہو‘ انہیں بازار میں لاؤ تا کہ پاکستانی روپیہ سانس بحال کر سکے !
یہ اپیل امرا سے کرنی تھی مگر مشاہدہ‘ تجربہ اور عقل سمجھاتے ہیں کہ ان تلوں میں تیل نہیں ! یہ ایک روپیہ تو دور کی بات ہے‘ ایک پیسہ بھی نہیں دیں گے۔ یہ تو چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے اصول پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ تو '' ھل من مزید‘‘ کے لیے خود جھولیاں پھیلائے بیٹھے ہیں۔یہ تو اَلھاکُم التکاثر والے ہیں۔ یہ تو وہ ہیں جنہوں نے ''قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کا ڈھکوسلا کھڑا کیا جس کا آج تک کوئی حساب کتاب نہیں دیا گیا۔ یہ تو وہ ہیں جنہوں نے میزان ماتھے پر سجا کر‘ ڈیم فنڈ اکٹھا کیا جسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی ! انہوں نے کچھ کرنا ہوتا تو ملک سے باہر نو آبادیاں بنا کر نہ بیٹھے ہوتے اور ملک کے اندر آسمان بوس فصیلوں والے محلات میں نہ رہتے۔ ملک کو آئی ایم ایف کے جبڑوں سے نکالنے کا کام اب صرف عام لوگ کریں گے۔ ہم آپ کریں گے۔ ڈالر کا مقابلہ بھی ہم کریں گے اور اپنے روپے کی پشتیبانی بھی ہم کریں گے۔ بقول مفتی صدر الدین آزردہ ؎
کامل اس فرقۂ زہّاد میں اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
اب اس کے سوا کوئی اور صورت نہیں کہ عوام خود یہ کام کریں اور ملک کو بچائیں۔ یہ قلمکار جسٹس وجیہ الدین احمد اور نیک نام سابق پولیس افسر ذوالفقار احمد چیمہ کی خدمت میں درخواست کرتا ہے کہ اٹھیں اور دونوں باہم مل کر اس مہم کا بیڑہ اٹھائیں۔ یہ فقیر اپنی طرف سے اس فنڈ کا آغاز کرتے ہوئے پچاس ہزار روپے کا حقیر حصہ ڈالتا ہے۔ نہیں معلوم یہ تحریر دونوں معزز صاحبان تک براہ راست پہنچتی ہے یا نہیں! جو کوئی بھی یہ تحریر پڑھے اور اگر جسٹس وجیہ الدین صاحب کو جانتا ہے یا ان تک رسائی رکھتا ہے‘ تو ازراہ کرم ان تک یہ درخواست پہنچا دے۔ ذوالفقار چیمہ صاحب تک اس فقیر کی رسائی ہے۔ ان کی خدمت میں یہ درخواست پہنچا رہا ہوں۔
اے اہلِ وطن! جتنی تمہاری بساط ہے‘ اس سے بڑھ کر دو۔ لاکھ دے سکتے ہویا بیس لاکھ‘ ہزار دے سکتے ہو یا دس ہزار‘ سو دے سکتے ہو یا پچاس‘ دو ضرور! اگر عزم صمیم ہو‘ اگر نیت صاف ہو‘ اگر کامیابی کا یقین ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مہم کامیاب نہ ہو۔
اس کام میں کسی سینئر‘ جونیئر کا مسئلہ ہے نہ کسی پروٹوکول کا سوال! کوئی درجے میں بڑا ہے نہ چھوٹا۔ کوئی افسر ہے نہ ماتحت ! اس تحریک کے لیے مجھے اگر چپڑاسی کی ڈیوٹی بھی دی جائے تو باعثِ فخر ہو گا! ہم اہلِ سیاست سے پناہ مانگتے ہیں ! سب آزمائے جا چکے۔ جن پر بہت تکیہ تھا انہوں نے بھی ہوا کے سوا کچھ نہیں دیا۔ جن کی دیانت و امانت کا بہت چرچا تھا وہ بھی برہنہ ہو چکے۔ اس حمام میں سب ننگے نکلے۔ سب اہلِ غرض ثابت ہوئے۔ کسی نے کابینہ پچپن افراد کی بنائی تو کسی نے پچھتر کی! وطن کی ناؤ کو اب بھنور سے وہی نکال سکتے ہیں جنہیں جاہ کی طلب ہے نہ جلال کی! یہ کام فقیروں کا ہے‘ امیروں اور وزیروں کا نہیں !! کب تک یہ ملک‘ در در بھیک مانگتا رہے گا؟ کب تک ارب پتی سیاستدان عوام کے نام پر دنیا بھر سے مال اکٹھا کرتے رہیں گے؟ کب تک ہر بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے رہو گے؟ اٹھو!اپنے پیسوں سے اپنا قرض خود اتارو! کسی میاں‘ کسی چو دھری‘ کسی سائیں‘کسی مولانا پر اعتبار نہ کرو!جہاز ہچکولے کھا رہا ہے۔ لہریں ہر طرف آسمان تک اُٹھ رہی ہیں ! اس سے پہلے کہ پیندے میں سوراخ ہو جائے‘ اس سے پہلے کہ پانی عرشے تک پہنچ جائے‘ اس سے پہلے کہ جہاز کے حصے ٹوٹ کر بکھرنے لگیں‘ اٹھ کھڑے ہو ! ہم نے اور تم نے یہیں رہنا ہے۔ ہمارا گھر لندن ہے نہ دبئی نہ نیو یارک ! یہ لوگ تو جہازوں میں بیٹھیں گے اور بھاگ جائیں گے !
پس نوشت: چیئرمین کرنسی ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن ملک بوستان نے کہا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ہمارا بہت بڑا ناسور ہے‘افغان ٹرانزٹ ہماری معیشت اورزرمبادلہ کو ختم کررہا ہے‘ امپورٹر مافیا نے افغانستان کا راستہ چُنا ہے کیونکہ وہ ڈیوٹی فری ہے‘ افغان ٹرانزٹ سے وہاں دوارب ڈالرز ماہانہ جارہے ہیں۔کیا وزیر اعظم نے اس ہولناک صورتحال کا نوٹس لیا ہے ؟ کیا وزیر خزانہ اور وزیر تجارت بیدار ہوئے ہیں ؟ افغانستان کے لیے کب تک اپنے ہی ملک کے حلقوم پر چھری چلائی جاتی رہے گی؟؟ یہ نااہلی ہے یا بے حسی یا ملک سے بیوفائی؟؟

Thursday, January 26, 2023

سوالات جو ذہن میں اُٹھتے ہیں


کسان کھیت میں ہل چلا رہا تھا۔ ساتھ والی پگڈنڈی سے اس کے ایک جاننے والے کا گزر ہوا۔اس نے کسان کو سلام کیا۔ السلام علیکم ! کسان نے جواب دیا '' تو پھر تم نے اپنے بیٹے کی شادی پر مجھے تو نہیں بلایا تھا‘‘۔ سلام کرنے والے نے حیران ہو کر کہا کہ میں نے تمہیں سلام کیا ہے‘ تم آگے سے کیا بات لے بیٹھے ہو ! کسان نے جوجواب دیا‘ وہ بہترین جوابوں میں سے ہے اور ایسا جواب ہے جو ہر جگہ‘ ہر موقع پر‘ہر صورت حال میں کام آتا ہے۔سلام کرنے والے نے کہا '' تم آگے سے کیا بات لے بیٹھے ہو؟‘‘ کسان نے جواب دیا '' پھر بات سے بات تو نکلتی ہے‘‘ !
تو پھر بات سے بات تو نکلتی ہے ! جب بات سے بات نکلتی ہے تو سوالات پیدا ہوتے ہیں۔سوالات طالب علم کے ذہن میں اٹھتے ہیں! اکثرو بیشتر ان سوالوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے کہ مصلحت کا تقاضا یہی ہوتا ہے۔ مگر گلا گھونٹنے کے باوجود سوال مرتے نہیں ! زندہ رہتے ہیں !سوال یہ ہے کہ کوئی تو ان سوالوں کے جواب دے ! مثلاً چند سوالات ملاحظہ فرمائیے :
چین اور بھارت ایک دوسرے کے دشمن ہیں! دشمنی معمولی نہیں‘ شدید ہے۔ آئے دن سرحدوں پر ان کی ٹھَیں پٹاس رہتی ہے۔اس کے باوجود تجارت دونوں ملکوں میں ہو رہی ہے اور زور و شور سے‘ مسلسل ہو رہی ہے۔گزشتہ سال2022ء میں صرف اپریل اور اکتوبر کے دوران‘ دونوں ملکوں کے درمیان 69 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ تائیوان اور چین کے درمیان سخت ترین دشمنی ہے۔ چین کی ''ون چائنا پالیسی‘‘ واضح ہے اور وہ تائیوان کو الگ ملک نہیں بلکہ چین کا حصہ سمجھتا ہے۔ چین اپنے دوست ملکوں سے بھی یہی پالیسی چاہتا ہے۔ اس کے باوجود چین اور تائیوان میں تجارت ہو رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ''آزاد تجارتی معاہدہ‘‘ کام کر رہا ہے جسے Economic Cooperation Framework Agreement (ECFA)کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دو طرفہ تجارت پر کم سے کم محصول اور ٹیکس لگائے جائیں۔
2021ء میں دونوں ملکوں کے درمیان166 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ سوال جو طالب علم کے ذہن میں اُٹھتا ہے‘ یہ ہے کہ اگر چین اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں اور اگر چین اور تائیوان ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کیوں نہیں کر سکتے۔ چین اور بھارت کے درمیان جو سرحدی تنازعے ہیں‘ وہ جوں کے توں ہیں۔ پھر بھی تجارت ہو رہی ہے۔ چین تائیوان کو الگ ملک کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرتا۔ پھر بھی تجارت ہو رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت تجارت کریں تو کیا ہو جائے گا؟ باہمی تجارت نہ ہونے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو رہا ہے ؟
اسرائیل کا جھگڑا بنیادی طور پر عربوں کے ساتھ ہے۔ ترکی کے صدر اردوان ہر موقع پر عالم اسلام کے رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ مگر ترکی اور اسرائیل کے درمیان تجارت ہورہی ہے۔2021ء کے دوران ترکی نے6.36 ارب ڈالر کی اشیا اسرائیل کو برآمد کیں۔ ترکی نے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا ہوا ہے۔ استنبول اور تل ابیب کے درمیان ہفتہ وار پروازوں کی تعداد ایک سو باسٹھ ہے۔ انڈونیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہوا مگر 2021ء میں انڈونیشیا نے163 ملین ڈالر کی اشیا اسرائیل کو بر آمد کیں۔ اور یہ تو پوری دنیا کو پتا ہے کہ یو اے ای اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔ سعودی عرب کے حوالے سے بھی برف پگھل رہی ہے۔ طالب علم اپنی کم علمی کو تسلیم کرتے ہوئے اہلِ دانش سے سوال پوچھتا ہے کہ اسرائیل سے تجارت کرنے سے کیا نقصان ہو گا ؟ ترکی کو کیا نقصان ہوا ہے ؟ امریکہ سے ہماری تجارت ہو رہی ہے۔ یہودی وہاں کے بزنس پر چھائے ہوئے ہیں۔ تو پھر امریکہ سے تجارت کیوں ہو رہی ہے؟ اگر اسرائیل کے ساتھ تجارت کرنے سے پاکستان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو بالکل تجارت نہ کی جائے۔ مگر کوئی یہ تو بتائے کہ کیا نقصان ہو گا؟
تمام بڑے بڑے مسلمان ملکوں میں مساجد ریاست کی تحویل میں ہیں۔ مصر‘ سعودی عرب‘ یو اے ای‘ قطر‘ ترکی‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں مسجدیں نجی شعبے میں نہیں ہیں۔ ان تمام ممالک میں ائمّہ اور خطبا ریاست کی طرف سے تعینات ہوتے ہیں۔ خطبات کے موضوع بھی ریاست ہی طے کرتی ہے تا کہ فرقہ واریت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟ اس وقت ہماری مساجد کی اکثریت‘ الا ماشاء اللہ‘ مسلکی بنیادوں پر مصروفِ کار ہے۔ تکفیر بھی کم نہیں! اگر مساجد ریاست کی تحویل میں آجائیں تو خطبات کے موضوعات کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ اس لکھنے والے نے ایک بار نمازِ جمعہ ڈیفنس لاہور کی ایک مسجد میں ادا کی۔ مولانا صاحب کی تقریر ایک خوشگوار جھونکے کی طرح محسوس ہوئی۔ انہوں نے شادی بیاہ کی فضول رسموں اور ناروا اخراجات سے اپنے سننے والوں کو روکا۔ معلوم ہوا کہ انتظامیہ نے یہی موضوع طے کیا تھا اور سمت متعین کی تھی کہ شادی بیاہ کے حوالے سے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اس وقت ڈیفنس اور بحریہ کی آبادیوں میں مساجد کو انتظامیہ کی تحویل میں رکھنے کا کامیاب تجربہ کیا جا رہا ہے۔ امام اور موذن کسی محلے یا مسجد کمیٹی کے کنٹرول میں نہیں نہ ہی انہیں اپنی تنخواہ کے لیے کسی چندے کا دست ِنگر ہونا پڑتا ہے۔ ہر تھوڑے یا مناسب عرصے کے بعد ان کا کسی دوسری مسجد میں تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ یوں گروپ بازی کا استیصال ہو جاتا ہے۔ جب مساجد کو ریاست کی تحویل میں لانے کی بات کی جائے تو اس کے خلاف ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ شرقِ اوسط کے ملکوں میں اگر مساجد ریاست کی تحویل میں ہیں تو وہاں تو نظام بھی موروثی بادشاہت کاہے‘ پھر وہ نظام بھی لائیے! مگر ترکی‘ ملا ئیشیا اور انڈو نیشیا میں تو موروثی بادشاہت نہیں ہے ! وہاں بھی تو مساجد ریاست کی تحویل میں ہیں !
تقسیم کے بعد بھارت میں کئی نئے صوبے وجود میں آئے۔ ( صوبہ وہاں ریاست کہلاتا ہے) آسام کو چار ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پنجاب میں سے ہریانہ اور ہماچل پردیش کی ریاستیں نکالی گئیں۔ بہار کو تقسیم کر کے جھاڑ کھنڈ ریاست بنائی گئی۔ یو پی نے اترکھنڈ کو اور مدھیہ پردیش نے چھتیس گڑھ کو جنم دیا۔2014ء میں آندھرا پردیش کو دو نئی ریاستوں میں بانٹ دیا گیا اور تلنگانہ ریاست وجود میں آئی۔ ہمارے ہاں کراچی‘ پشاور‘ لاہور اور کوئٹہ خزانے کے اوپر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ڈی آئی خان اور بنوں والوں کو اپنے کاموں کے لیے پشاور جانا پڑتا ہے۔ کوہستان اور مانسہرہ والوں کو بھی۔ بہاولپور والے لاہور کے محتاج ہیں۔ (تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کا وعدہ پورا نہیں کیا ) جیکب آباد سے بس میں کراچی جانا ہو تو آٹھ دس گھنٹے لگتے ہیں۔ انتظامی بنیادوں پر شمالی سندھ اور مشرقی سندھ کے نئے صوبے بنانے میں کیا نقصان ہے ؟ ہزارہ کو پشاور کے ساتھ باندھ کر کیوں رکھا جا رہا ہے؟ چترال‘ دیر اور سوات پر مشتمل نیا صوبہ کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ اٹک‘ میانوالی‘راولپنڈی مری‘ چکوال اور جہلم کو اپنے نیچے رکھنے میں تخت لاہور کا کیا مفاد ہے ؟ ان اضلاع پر مشتمل الگ صوبہ کیوں نہیں بن سکتا؟
ایک طالب علم کے ذہن میں جو سوالات اٹھتے ہیں‘ انہیں دبایا تو جا سکتا ہے‘ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ہاں ! ایک صورت ہے کہ سوچنے پر پابندی لگا دی جائے ! اور کوئی سوچتا ہوا پکڑا جائے تو اسے سخت سزا دی جائے !

Tuesday, January 24, 2023

حد سے زیادہ مضبوط اعصاب

!
ایک بات‘ بہر طور تسلیم کرنا پڑے گی‘ وہ یہ کہ عمران خان صاحب کے اعصاب مضبوط ہیں! حد سے زیادہ مضبوط! جب وہ سامنے پڑے ہوئے گلاس کو درخت کہتے ہیں تو ان کے اعصاب کی مضبوطی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ پلک تک نہیں جھپکتے! اس اعتماد سے درخت کہتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو شک ہو جاتا ہے کہ یہ واقعی درخت نہ ہو! 

برطانوی وزیراعظم نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی تھی۔ ان پر جرمانہ ہوا۔ اس پر خان صاحب نے کمال کا کمنٹ دیا ''یہی قانون کی حکمرانی ہے جہاں کوئی اس سے بالاتر نہیں‘‘۔ یہ بات وہ عمران خان کہہ رہے ہیں جن کا قانون کی حکمرانی سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا شیر کا بکری کے ساتھ ہے!
�پاک پتن کے سینئر پولیس افسر کو جب وزیراعلیٰ کے پاس حاضر ہونے کا حکم ملا اور اس سے پوچھ گچھ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں احسن جمیل گجر نے کی تو کیا یہ قانون کی حکمرانی تھی؟ پھر جب اس افسر کو کئی سال تعیناتی کے بغیر رکھا گیا تو کیا یہ قانون کے مطابق تھا؟ 

جون 2018ء میں جب عمران خان ایک چارٹرڈ فلائٹ پر سعودی عرب جا رہے تھے تو زلفی بخاری کو‘ جن کا نام ای سی ایل پر تھا‘ خان صا حب کے ساتھ جانے کے لیے ''صرف ایک بار‘‘ کی خصوصی اجازت دی گئی تھی اور یہ کام گھنٹوں میں نہیں منٹوں میں ہوا تھا تو کیا یہ قانون کے مطابق تھا؟ 

کیا بند لفافہ لہرا کر‘ اس کے مندرجات ظاہر کیے بغیر‘ کابینہ سے منظور کرانا قانون کے مطابق تھا؟ کیا جمہوریت کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا واقعہ کہیں اور پیش آیا ہے؟ 

کیا اربوں روپے‘ جو برطانیہ سے آئے تھے اور جو قومی خزانے میں جمع ہونے تھے‘ ایک بزنس ٹائیکون کو دے دینا قانون کی حکمرانی کا تقاضا تھا؟
�عمران خان نے جس طرح خیبر پختونخوا کا سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کیا‘ پھر جس طرح پچھلی تاریخ سے اس کے لیے ''قانون سازی‘‘ کی گئی‘ کیا برطانیہ جیسے ملک میں ایسا ہو سکتا ہے؟ 

کیا برطانیہ کا وزیراعظم کسی ایسے شخص کو سب سے بڑے صوبے کا حکمران بنا سکتا ہے جسے اس نے خود‘ اپنی زبان سے‘ بقائمی ہوش و حواس‘ سب سے بڑے ڈاکو کا خطاب دیا ہو؟ 

کیا برطانیہ کا وزیراعظم دوسروں کے گھر گرا کر اپنا گھر بچا سکتا ہے‘ جبکہ قانون کی خلاف ورزی یکساں ہو؟ 

اگر برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کا سربراہ برطانیہ کے وزیراعظم کو بتائے کہ جناب! آپ کے گھر میں فلاں جگہ سے قیمتی زیورات یا تحائف آرہے ہیں تو کیا برطانیہ کا وزیراعظم اس کے جواب میں ایجنسی کے سربراہ کو ہٹانے کا حکم دے گا؟ 

کیا برطانوی وزیراعظم اپنی ایف آئی اے کے سربراہ کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ فلاں اپوزیشن رہنما کے خلاف غداری کے اور فلاں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے کھڑے کرو؟ 

کیا برطانوی وزیراعظم اپنے ذاتی‘ غیر منتخب دوستوں کو بڑے بڑے سرکاری مناصب پر بٹھا سکتا ہے؟
�اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان صاحب نے قوم کو بتایا ہے کہ انہوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے پانچ ہزار جنگجوؤں اور 35ہزار افراد پر مشتمل ان کے خاندانوں کو سابق قبائلی علاقوں میں آباد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بظاہر واضح لگ رہا ہے کہ یہ جنگجو مسلّح حالت میں لائے جانے تھے‘ سوال یہ ہے کہ کیا برطانیہ کا وزیراعظم اتنا بڑا فیصلہ پارلیمنٹ سے بالا بالا کر سکتاہے؟ 

یہ چند مثالیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب کے لیے کوئی قانون‘ کوئی قاعدہ‘ کوئی ضابطہ اہم نہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں جس میں ان کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس افسوسناک پس منظر کے ساتھ ان کا برطانوی وزیراعظم پر جرمانہ ہونے کے واقعہ کی تعریف کرنا ایک لطیفے کے سوا کچھ نہیں۔ 
�اپر کلاس مہنگے سکولوں کا اصل روپ
�کچھ سال پہلے بھی لاہور میں ایک شرمناک واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک اداکار‘ جو ایک نجی سکول میں ڈرامہ پڑھاتا تھا‘ اس واقعہ میں ملوث تھا۔ کچھ دن میڈیا میں شور شرابا رہا‘ اس کے بعد کیا ہوا؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم! ایک بار پھر ان مہنگے اور اپرکلاس سکولوں کے چہرے سے پردہ اٹھا ہے اور جو صورت نظر آئی ہے‘ خوفناک ہے۔ بارہ سالہ بچی کو جن بڑی لڑکیوں نے تشدد کانشانہ بنایا ہے‘ اس کا ایک تعلیمی ادارے میں تصور بھی محال ہے۔ بچی کے باپ کے بقول یہ ایک پورا گینگ ہے۔ بچی کے باپ کا بیان سنا جائے تو سکول انتظامیہ کو بے قصور نہیں قرار دیا سکتا۔ اس بے بس باپ کے بقول اس پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ سمجھوتا کر لے کیونکہ فریق مخالف طاقتور ہے۔ جب اینکر نے پوچھا کہ دباؤ کون ڈال رہا ہے تو اس نے کسی تاخیر اور کسی جھجک کے بغیر پولیس کا نام لیا۔ اگر یہ سچ ہے تو پانچ سال سے تحریک انصاف ہی کی حکومت چلی آرہی ہے تو پھر تبدیلی کے وعدوں کا کیا ہوا؟ کیا یہی وہ بدلی ہوئی پولیس ہے جس کا بہت چرچا ہے؟�اس واقعے کے کئی پہلو ہیں۔ خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے اندر منشیات کا عفریت سر سے لے کر پاؤں تک پورے کا پورا داخل ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ والدین کیا کر رہے ہیں اور سکولوں کی انتظامیہ اس صورت حال سے بے نیاز کیوں ہے؟ اور کیا یہ تاثر درست ہے کہ انتظامیہ کے بعض ڈانڈے اس جرم سے مل رہے ہیں؟ حکومت سے کسی ایکشن کی توقع رکھنا عبث ہوگا۔ حکومت میں دم خم ہوتا تو صوبائی دارالحکومت میں حکومت کی ناک کے عین نیچے ایسا جرم ہوتا ہی کیوں؟ جو والدین اس معاملے میں حساس ہیں‘ انہی کو کچھ کرنا ہو گا۔ والدین کی اکثریت اس صورت حال سے یقینا پریشان ہو گی۔ انہیں چاہیے کہ مل بیٹھیں اور ایک مؤثر لائحہ عمل طے کریں۔ نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو اب انجمنیں بنانا ہوں گی اور سکولوں کے ذمہ داران سے جارحانہ انداز میں نمٹنا ہوگا۔�منشیات کی لعنت صرف بالائی طبقے کے سکولوں میں نہیں ، ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں سرایت کر چکی ہے۔ سرکاری سکولوں کا پرسانِ حال ویسے ہی کوئی نہیں، منشیات کو کون روکے گا ! یونیورسٹیوں میں لڑکوں کے علاوہ لڑکیوں کی کثیر تعداد بھی نشے کی لت کا شکار ہو چکی ہے۔ اسلام آباد کی ایک مشہور پبلک یونیورسٹی کے حوالے سے ایسی خبریں کئی بار سامنے آئی ہیں۔ اصل میں یہ ساری صورت حال ا سی نااہلی اور نالائقی کا حصہ ہے جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی ذمہ دار ہے۔ جس طرح ملک میں چوریاں اور ڈاکے عام ہو چکے ہیں ، جس طرح تھانوں اور کچہریوں میں انصاف بک رہا ہے اور جس طرح اہلِ سیاست باہم دست و گریباں ہیں ، ٹھیک اسی طرح تعلیمی ادارے بھی بد انتظامی اور نااہلی کا شکار ہیں۔ نجی شعبے کے مہنگے سکولوں میں جانے والے بچوں کا اضافی المیہ یہ ہے کہ ان کے ماں باپ کے پاس بچوں کی خبر گیری کے لیے وقت ہے نہ پروا۔ غرض ایک ہمہ گیر دلدل ہے جس میں ہم اترتے جا رہے ہیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ متاثرہ لڑکی کے والد کے علاوہ دوسرے والدین کی طرف سے کسی اضطراب ، کسی پریشانی کا اظہار سامنے نہیں آیا؟ لگتا ہے بے حسی بھی عام ہو چکی ہے۔ یہی شاید اصل بد قسمتی ہے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, January 23, 2023

دھوتی‘ شلوار قمیض اور کلب


ملکہ کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ تکیے کے نیچے جو گدّا تھا‘ اُس گدّے کے نیچے کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا۔ ملکہ کو رات بھر نیند نہ آئیکہ بستر نا ہموار ہو گیا تھا!
بالکل یہی حالت ہمارے مراعات یافتہ طبقے کی ہے۔گدے کے نیچے کاغذ کا ٹکڑا پڑا ہو تو خوابِ استراحت میں خلل پڑتا ہے۔ استحقاقمجروح ہو جاتا ہے۔ پھر کسی نہ کسی کی شامت آتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد کلب کو لائن حاضر کیا گیا۔ الزام یہ تھا کہ ''انگریزچلا گیا لیکن باقیات چھوڑ گیا۔ اگر ٹائی کوٹ نہیں پہنا تو کوئی کلب میں کھانا نہیں دیتا‘‘۔روزنامہ دنیا‘ اٹھارہ جنوری )۔ بالکلدرست فرمایا۔ انگریز چلا گیا اور اپنی باقیات چھوڑ گیا۔ انگریزوں نے مسلم شرفا کو ذلیل کرنے کے لیے ان کالباس اپنے نوکروں‘ بٹلروں‘ کوچوانوں اور دربانوں کو پہنا دیا۔ انہیں پگڑی اور شیروانی پہنا ئی۔ یہ روایت صدر پاکستان کے عالی شان قصر میں اورگورنروں کے محلات میں آج بھی جوں کی توں رائج ہے۔ گزارش ہے کہ اس پر بھی تو اعتراض فرمائیے۔ آپ اربابِ حکومت میں سے ہیں۔ایک فرمان جاری کرائیے کہ آج سے ایوان ِصدر کے دربان‘ بٹلر اور نوکر دستار اور شیروانی نہیں پہنیں گے بلکہ ہیٹ‘ کوٹ پتلون‘ ٹائیاور بو پہنیں گے۔ یہ پوری قوم پر آپ کا احسان ہو گا۔
رہا یہ الزام کہ '' اگر ٹائی کوٹ نہیں پہنا تو کوئی کلب میں کھانا نہیں دیتا‘‘۔ تو بصد ادب گزارش ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ باتسو فیصد خلافِ حقیقت ہے۔ اسلام آباد کلب میں ٹائی اور کوٹ بالکل لازم نہیں۔ اوپر کے حصے میں شلوار قمیض اور واسکٹ پہن کرآتے ہیں۔ نیچے کے حصے میں واسکٹ بھی ضروری نہیں۔ صرف شلوار قمیض میں آسکتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہپورے ملک کے کسی کلب میں ٹائی لازم نہیں۔ ہر کلب میں شلوار قمیض اور واسکٹ پہن کر ٹھاٹ سے جا سکتے ہیں۔ ہمارے مرحومدوست‘ مشہور صحافی‘ رحمت علی رازی بہت خوش لباس تھے۔ خوبصورت شلوار قمیض‘ دیدہ زیب واسکٹ اور سنہری کھسہ پہنتےتھے اور جمخانہ کلب لاہور ان کا مستقل ٹھکانہ تھا۔ مجیب الرحمان شامی صاحب کو آج تک پتلون اور ٹائی میں نہیں دیکھا۔ ہمیشہشلوار قمیض میں ملبوس ہوتے ہیں۔ کئی بار انہوں نے جمخانہ کلب لاہور میں اپنی میزبانی سے ہمیں عزت بخشی۔ ہمارے سینئر جنابایاز امیر‘ شلوار قمیض میں ملبوس‘ کئی بار اسلام آباد کلب میں ملے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے حنیف عباسی صاحب اور تحریک انصافکے غلام سرور خان صاحب کو کئی بار اسلام آباد کلب میں دیکھا ہے۔ انہوں نے ٹائی لگائی ہوتی ہے نہ پتلون پہنی ہوتی ہے۔ کراچیاور لاہور کے عسکری کلبوں میں بھی ٹائی لازم نہیں۔ ہر جگہ شلوار قمیض اور واسکٹ میں ملبوس ممبروں کی‘ اور ان کے مہمانوںکی‘ باعزت پذیرائی کی جاتی ہےبات وہ کرنی چاہیے جو درست ہو اور حقیقت کے مطابق ہو۔ پوائنٹ سکورنگ کے لیے وہ بات نہیںکرنی چاہیے جو حقیقت کے خلاف ہو۔
رہا مسئلہ دھوتی کا‘ تو یقینا دھوتی اور تہمد ہمارااپنا لباس ہے اور اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کرتا دھوتی ہماری ثقافتیپوشاک ہے۔ ہمارے ثقافتی میلوں ٹھیلوں میں ہمارے فنکار کرتا دھوتی ہی پہنتے ہیں۔ عالم لوہار مرحوم اور اب ان کا فرزند عارف لوہارہماری ثقافتی نمائندگی کرتے ہیں اور دھوتی‘ یا تہمد‘ زیب تن کرتے ہیں۔ ہماری ثقافت ہمیں عزیز ہے۔ ثقافت پنجاب کی ہو یا سندھ کی‘ پشتون ہو یاکشمیری‘ یا بلوچی یا ہمارے ایم کیو ایم کے بھائیوں کی‘ یا شمالی علاقہ جات کی‘ یہ ساری ثقافتیں پاکستانی ہیں۔ یہسب ہماری اپنی ہیں۔ تاہم یہ مؤقف بھی غلط نہیں کہ کلب‘ کلچر کلب نہیں۔ یوں تو کبڈی بھی ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ ہمیں اس پرفخر ہے۔ کبڈی ہم لنگوٹی پہن کر کھیلتے ہیں۔ اس لحاظ سے لنگوٹی بھی ہمارا ثقافتی لباس ہوا۔ مگر ثقافتی لباس ہم ہر جگہ نہیںپہنتے۔ ثقافتی تقاریب ہی میں پہنتے ہیں۔ ویسے معزز معترض لاہور سے ہیں‘ اس لیے اگر دھوتی کو ڈریس کوڈ کا حصہ بنانا ہے تو یہکام لاہور سے آغاز کریں اور جمخانہ کلب لاہور‘ پنجاب کلب اور عسکری کلب لاہور کالباس تبدیل کرائیں۔
پوری دنیا میں جتنے بھی کلب ہیں‘ ان کے اپنے اپنے قوانین ہیں۔ اپنے اپنے ڈریس کوڈ ہیں۔ کلب کیا ہوتا ہے؟ کلب اٹھنے بیٹھنے کی‘ کھیلنے کی‘ کھانے پینے کی ایک جگہ ہوتی ہے جہاں ہر ممبر اپنے گھر کی طرح اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اطمینان کا واحد سبب یہہے کہ ممبر ایک جیسے لگتے ہیں۔ ان کی دلچسپیاں مشترک ہو تی ہیں۔ کسی کمتری یا برتری کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ خواتین اور بچےبھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ہر معاشرے میں سماجی حوالے سے کئی طبقات ہو تے ہیں۔ یہ اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہیں۔اگر یہ مکس ہونا شروع ہو جائیں تو ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔ ایک کسان‘ کی گفتگو‘ زیادہ تر‘ اپنے مویشیوں‘ کھیتکی پیداوار‘ کھاد اور بیج کے بارے میں ہوگی۔ ضروری نہیں کہ ایک تاجر یا ڈاکٹر اس کے ساتھ گپ شپ کر سکے۔ ٹیکسی چلانے والےشام کو اکٹھے مل بیٹھتے ہیں اور اُن مسائل پر بات چیت کرتے ہیں جن کا انہیں سامنا ہے۔ اس میں کسی پیشے کی تحقیر یا بلندی کاسوال نہیں۔ سب پیشے باعزت ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مشترکہ دلچسپیاں موجود ہیں یا نہیں؟ ایک دوسرے سے بات چیت ہو سکتی ہے یانہیں۔ یہی ایک کلب کے جواز کا سبب ہے۔ اسی لیے کچھ پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تا کہ سب ممبر ایک ضابطے کے اندر رہیںاورکوئی ایک ممبر اجنبیت کا باعث نہ بنےکسی کو اگر یہ پابندیاںیہ ضابطہ اچھا نہیں لگتا تو جبر کا کوئی سوال نہیں۔ وہ کلبسے دور رہ سکتا ہے۔ وہ بیٹھنے اٹھنے کے لیے‘ یا وقت گزارنے کے لیے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کر سکتا ہے جہاں کا ماحول اسےزیادہ پسندیدہ لگتا ہے۔ گاؤں میں چوپال بھی ایک کلب ہی ہوتا تھا۔ وہاں بیٹھنے والے ایک جیسے ہوتے تھے۔ ایک جیسا لباس۔ ایکجیسے مسائل۔ شہر میں رہنے والا وہاں بیٹھ بھی جائے تو چتکبری گائے یا اتھرے بَیل یا تھریشر کے بڑھتے کرائے پر ہونے والی گفتگوکتنی دیر سُن پائے گا؟
جہاں تک کلب میں کھانے کی قیمتوں کا سوال ہے تو اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ نرخ‘ استطاعت کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اور ابایسا بھی نہیں کہ گلاب جامن جو وہاں ملتا ہے بوتل کے ڈھکنے سے بھی چھوٹا ہے۔ اس کا انحصار اس پر بھی ہے کہ بوتل کا ڈھکناکس سائز کا ہے؟ اب جام یا مار ملیڈ یا اچار کی بوتل کا ڈھکنا تو کافی بڑا ہوتا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ جو نرخ پارلیمنٹ کے کیفے کےہیں‘ وہ کہیں اور شاید ممکن ہی نہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے ملک کا قدیم ترین اور مؤقّر انگریزی روزنامہ ہے۔ اس میں پارلیمنٹ کیفےکے2011ء کے نرخ دکھائی دے رہے ہیں۔ چائے ایک روپیہ۔ سُوپ ساڑھے پانچ روپے۔ چپاتی ایک روپیہ۔چکن چوبیس روپے پچاس پیسے۔سبزی بریانی آٹھ روپے۔ مچھلی تیرہ روپے۔ مگر یہ قیمتیں گیارہ بارہ سال پہلے کی ہیں۔ آج کے نرخ یقینا زیادہ ہوں گے مگر اسیتناسب سےچونکہ اسلام آباد کلب میں ہمارے فاضل ارکان پارلیمان کا آنا جانا رہتا ہے اس لیے ہم‘ پورے خلوص کے ساتھ‘ تجویز پیشکرتے ہیں کہ کلب میں کھانے کے نرخ وہی رکھے جائیں جو پارلیمنٹ کیفے کے ہیں۔ اگر کیفے میں‘ قیمت فروخت‘ لاگت سے کم ہے تو وہیبابرکت ترکیب کلب میں بھی آزمائی جائے۔ وما علینا الاالبلاغ !

بشکریہ روزنامہ دنیا



 

powered by worldwanders.com