Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, February 25, 2021

ہم پکی زمین پر نہیں‘ سرکتی ریت پر کھڑے ہیں!


کیا آپ کو یقین ہے کہ کورونا کی ویکسین آپ تک پہنچ جائے گی؟
اور اگر میسر آ گئی تو کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ جینوئن ہو گی؟ قابلِ اعتماد ہو گی؟
اور اگر بازار سے خریدنا پڑی تو کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ اصلی ہو گی؟ اور قیمت کے حوالے سے آپ کا استحصال نہیں کیا جائے گا؟
ان سوالوں کے جواب آپ کو بھی معلوم ہیں اور ہمیں بھی! اور یہی اس ملک کی درد ناک ٹریجڈی ہے۔ ہمارے پاؤں پکی زمین پر نہیں، بلکہ ہر لحظہ سرکتی ریت پر ہیں۔ ہمیں کسی بات پر اعتبار نہیں۔ خواہ وہ بات حکومت کی ہے یا نجی شعبے کی۔ ہم ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جس میں شک، گمان اور تذبذب کے سوا کچھ نہیں! نہیں معلوم کہ اگلے ماہ بجلی کا، یا گیس کا‘ بل کتنا آئے گا؟ چولہے میں گیس کا پریشر ہو گا یا نہیں؟ کسی خاص وقت پر بجلی ہو گی یا نہیں؟ جو پٹرول گاڑی یا موٹر سائیکل میں ڈلوا رہے ہیں، اس کی کوالٹی کیسی ہے؟ جو دودھ گوالے سے لے رہے ہیں یا بازار سے ڈبے میں بند دودھ لے رہے ہیں، وہ اصل میں کیا ہے؟ اکیسویں صدی کا تیسرا عشرہ شروع ہو چکا ہے مگر ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کراچی کی فلائٹ وقت پر روانہ ہو گی یا نہیں؟ اور سکردو، گلگت اور چترال کے لیے پرواز کا کتنے گھنٹے نہیں، کتنے دن انتظار کرنا پڑے گا؟ ریلوے سٹیشن پر کسی کا استقبال کرنا ہے، نہیں معلوم ٹرین وقت پر پہنچتی ہے یا نہیں؟ یہ بھی نہیں معلوم کہ راستے میں ٹریفک کی صورت حال کیا ہو گی؟ گھنٹوں کے حساب سے بھی تاخیر ہو سکتی ہے۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ درزی یا صرّاف آپ کا کام وقت پر کر دے گا؟ اپنے گھر کی خواتین سے پوچھیے کہ شادی کے کپڑے اور زیورات کے لیے کتنی خوار ہوتی ہیں اور انہیں کتنے پھیرے لگانے پڑتے ہیں؟ ہسپتال جا رہے ہیں تو کیا آپ کو یقین ہے کہ ڈاکٹر ڈیوٹی پر موجود ہو گا؟ آپ مکان تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ تکمیل میں ایک سال لگے گا یا ڈیڑھ یا دو سال یا اس سے بھی زیادہ؟ پلاٹ کا قبضہ کب ملے گا؟ نقشہ کب منظور ہو گا؟ اور یہ تو بڑے سے بڑا جوتشی بلکہ متعلقہ وزیر بھی نہیں بتا سکتا کہ گیس کا کنکشن کب ملے گا؟ یہ وہی ملک ہے جس میں اسلام آباد کے ایک سیکٹر کی فائل سالہا سال صدر ضیا الحق کی میز پر پڑی رہی اور مالکان انتظار کرتے رہے۔ دس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے کہ سرکاری ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے جو پلاٹ سیکٹر جی چودہ میں الاٹ ہوئے تھے، ان پر تعمیر کا کام تو دور کی بات ہے، ابھی تک ان کے قبضے ہی نہیں ملے۔ ستر سال میں ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہفتہ وار چھٹی جمعہ کے دن ہو گی یا اتوار کے روز۔ ایک ہی شہر کے ایک حصے میں دکانیں جمعہ کو بند ہوتی ہیں اور دوسرے میں اتوار کو۔ کسی نے آپ کے ہاں آنا ہے اور وقت طے شدہ ہے تو آپ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ وہ صاحب مقررہ وقت پر آ جائیں گے۔ کسی دفتر میں کام ہے تو کوئی اندازہ نہیں کہ کتنا وقت لگے گا۔ عین ممکن ہے کہ متعلقہ اہلکار سیٹ پر نہ ہو اور گھنٹوں اس کا انتظار کرنا پڑے۔ شادی کی تقریب میں کھانا کتنے بجے کھلے گا اور آپ کب تک گھر لوٹ سکیں گے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ صدر مملکت یا وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرنا ہے اور وقت کا اعلان ہو چکا ہے مگر بالکل نہیں معلوم کہ خطاب مقررہ وقت پر شروع گا یا نہیں؟ انتظار کئی گھنٹوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے! اپوزیشن کا جلسہ ہے۔ کچھ معلوم نہیں رہنما کب پہنچیں گے؟ حاضرین کو پہروں انتظارکرایا جاتا ہے۔ آپ تھانے دار ہیں یا ڈپٹی کمشنر، آئی جی ہیں یا ایس پی، یا سیکرٹری، آپ کو اپنی مدت تعیناتی کا کوئی اندازہ نہیں۔ آپ کام کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں مگر یہ سوچ کر کہ کسی وقت بھی آپ کا تبادلہ ہو سکتا ہے، آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، اس کا ارادہ کرتے ہیں نہ ہمت ہی رکھتے ہیں۔
اقتصادی فرنٹ پر کچھ بھی یقینی نہیں۔ صنعتی یونٹ لگانا ہو تو آپ کو بالکل نہیں معلوم کہ آنے والے دنوں میں حکومت کی ٹیکس پالیسی کیا ہو گی؟ بجلی کی سپلائی اور گیس کی فراہمی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ آپ کو نہیں معلوم برآمدات کا ٹارگٹ پورا کر سکیں گے یا نہیں؟ ڈالر اور روپے کا تناسب کیا ہو گا؟ خام مال کی فراہمی میں کوئی بھی غیر متوقع رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔ آپ کو نہیں معلوم عالمی اقتصادی ادارہ، جس کی مٹھی میں ہماری جان ہے، حکومت سے کیا فیصلے کراتا ہے؟
سیاسی حوالے سے غور کیجیے۔ الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے یا نہیں؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا! جہاں الیکشن ہو چکا ہے وہاں کون جیتا ہے؟ کچھ نہیں معلوم! وزیر کو نہیں معلوم کہ اس کی وزارت کتنے دن ہے اور مشیر نہیں جانتا کہ کب اسے چلتا کر دیا جائے گا؟
تعلیمی میدان میں صورت احوال مکمل طور پر غیر یقینی ہے۔ مغربی ملکوں کی یونیورسٹیوں میں کئی کئی سو سال سے داخلوں اور امتحانات کی تاریخیں مقرر ہیں۔ ایک دن آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔ یہاں میٹرک سے لے کر اعلیٰ ترین درجے تک، امتحان کسی بھی وقت ملتوی ہو سکتے ہیں اور آئے دن ہوتے ہیں۔ نتیجہ نکلنے کی تاریخ کسی کو نہیں بتائی جاتی۔ منتظمین خود نہیں جانتے کہ نظام الاوقات کیا ہے؟ دس سال سے زیادہ عرصہ نئے اسلام آباد ایئر پورٹ کی تکمیل کو لگا۔ شہباز شریف آتے ہیں تو پرویز الٰہی کے شروع کردہ ترقیاتی منصوبے ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ عمران خان حکومت سنبھالتے ہیں تو شریفوں کے آغاز کردہ منصوبے جہاں ہیں، جیسے ہیں کی بنیاد پر روک دیے جاتے ہیں۔ عام شہری اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچنے کے لیے بے پناہ تکلیف سے گزر رہا ہے۔ ایئر پورٹ میٹرو بس کا منصوبہ نئی حکومت کے آتے ہی رُک گیا۔ جو کام ہو چکا ہے اس میں کوّے انڈے دے رہے ہیں۔ زلزلہ سولہ سال پہلے آیا تھا جس میں بالا کوٹ تباہ ہوا تھا۔ اس کی تعمیر نو کا اعلان، نیو بالا کوٹ سٹی، کے نام سے کیا گیا۔ ابھی تک یہ اعلان عملی شکل نہیں پا سکا۔
کتنا بڑا المیہ ہے کہ کسی پاکستانی کو نہیں یقین کہ ویکسین کے سلسلے میں کوئی ترتیب، کوئی کسوٹی، کوئی انصاف نظر آئے گا یا نہیں؟ نجی شعبہ کیا سلوک کرے گا؟ صرف کپڑے اتارے گا یا کھال بھی کھینچے گا؟ ویکسین ویکسین ہی ہو گی یا کچھ اور؟ کیا دھاندلی کا نیا دروازہ کھلنے کو ہے؟ کیا چینی، آٹا، پٹرول مافیا کے بعد اب ویکسین مافیا بھی ہم پر مسلط ہو گا؟ کیا وفاق اور صوبوں کو آپس میں گتھم گتھا ہونے کے لیے ایک نیا میدان میسر آنے کو ہے؟ کیا عام اور خاص پاکستانی کی تفریق ویکسین کے حوالے سے بھی خوب خوب روا رکھی جائے گی؟ کیا صرف خیراتی ویکسین ہماری قسمت میں ہو گی یا دوسرے ملکوں کی طرح با عزت طریقے سے بھی حاصل کی جائے گی؟ حکومت نے اس ضمن میں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی ہے یا نہیں؟ حکومت اس سلسلے میں تمام متعلقین ( سٹیک ہولڈرز ) کو آن بورڈ لے رہی ہے یا نہیں ؟ یا یہاں بھی سولو فلائٹ کا مظاہرہ کرے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کے ذہن میں اُٹھ رہے ہیں!

Tuesday, February 23, 2021

ہم کس مٹی سے بنے ہوئے لوگ ہیں ؟


ٹرمپ چلا گیا۔ جو بائیڈن آگیا۔ سنا ہے جو بائیڈن کے بہت سے مشیر بھارت نژاد ہیں۔ دیکھیے پاکستان کے ساتھ  نئی امریکی حکومت کیا سلوک کرتی ہے۔ بھارت کو ترجیح دے گی یا پاکستان کو ؟ افغان پالیسی اس نئی حکومت کی کیا ہوگی؟ ایران کے ساتھ کیسا رویہ رکھے گی؟ مشرق وسطیٰ میں  اس کا جھکاؤ کس طرف ہو گا؟   لیکن ان میں سے کوئی مسئلہ بھی میرا مسئلہ نہیں ! 

سعودی عرب میں ایم بی ایس ( شہزادہ محمد بن سلیمان )  نے بہت سی نئی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں ۔ قوانین بدلے ہیں۔ ملک ایک خاص دائرے  میں مقید تھا۔ شہزادہ اسے اس قید سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دیکھیے ، آنے والے دنوں میں  کیا ہوتا ہے۔ یمن میں بہت گڑ بڑ ہے۔ عرب اور عجم خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ ترکی کا فیکٹر بھی ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کیےجانے ، یا نہ کیے جانے کا رپھڑ الگ ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی  مسئلہ  میرا نہیں ! 
{
نواز شریف  لندن سے آتے ہیں یا نہیں؟ آتے ہیں تو کب ؟ نہیں آتے تو  ملکی سیاست پر کیا اثرات پڑیں گے ؟ پی ڈی  ایم  کا  کیا  مستقبل  ہے ؟ پیپلزپارٹی  کون سا پینترابدلے گی ؟ مسلم لیگ نون کے ارکان  ثابت قدم رہتے ہیں یا  باد صر صر کے تھپیڑوں کے سامنے ہتھیار  ڈال دیں گے؟ مولانا نے بہت سے سابقہ داغ دھو ڈالے ہیں مگر ان کی چلائی ہوئی تحریک کامیاب ہوتی ہے یا نہیں ، کچھ نہیں کہا جا سکتا!سندھ میں  جی ڈی اے کا اور پنجاب میں قاف لیگ کا مستقبل کیا ہو گا ؟ ایم کیو ایم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟  فاروق ستار اور دوسرے  لیڈر کہاں ہیں ؟ مصطفیٰ کمال  کی تمنائیں پوری ہوتی ہیں یا نہیں ؟  کیا کوئی ایسا لیڈر اس ملک کے نصیب میں ہے جو بلوچستان کا  صدیوں پرانا قبائلی نظام  بدل دے ؟  لیکن ان میں سے بھی کوئی مسئلہ میرا مسئلہ  نہیں ۔ 

تحریک انصاف ایک سونامی کی طرح آئی تھی  ۔  جھاگ  کی طرح بیٹھتی جا رہی ہے۔حالیہ ضمنی انتخابات ہوا کا رُخ بتا رہے ہیں۔ کوئی وعدہ پورا ہؤا نہ کوئی  دعویٰ سچ ثابت ہؤا۔ جن طبقات نے اس پارٹی  کے ساتھ امیدیں  وابستہ کی تھیں ،  یوسفِ بے کارواں ہو کر اکیلے پھر رہے ہیں ۔ توقعات کا محل ریت کی دیوار  ثابت  ہؤا۔  گرانی کا عفریت  سانپ کی طرح پھنکار رہا ہے۔روپیہ ڈالر کے مقابلے میں دن بدن نیچے گر رہا ہے۔  موجودہ حکومت  ہر وہ کام کر رہی ہے جو گذشتہ حکومتیں کرتی رہی ہیں ۔وہی دوست نوازی، وہی اقربا پروری ! وہی چہرے جو ہر حکومت کی ویگن میں سوار ہو جاتے ہیں اس حکومت میں بھی شامل ہیں ۔ نوکریاں ملیں نہ مکان بنے۔ ہاں بہت سوں کو بے روزگار ضرور کیا گیا۔  کوئی نئی انڈسٹری نہیں لگ رہی۔زراعت جہاں پہلے  تھی اب وہاں سے بھی پیچھے ہے۔تجارت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ بیوروکریسی اُسی ڈھرّے پر چل رہی ہے جس پر ستر سال سے چلتی آئی ہے۔کسی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ اس تاریک کمرے میں کوئی کرن نہیں اتری ۔وہی عوام کی قسمت جو دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے رو رہی ہے۔ وزیر اعظم بدلا مگر باقی سب کچھ وہی ہے جو تھا اور وہی ہیں جو تھے!وہی سسکتے بلکتے  سرکاری سکول۔ چھتیں نہ دیواریں! فرنیچر نہ استاد! وہی ضلع اور تحصیل سطح کے  ہسپتال جن میں ڈاکٹر ہیں نہ آلات نہ ادویات اور جن میں زیادہ تر  ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنتے ہیں۔ وہی قاتل ٹریفک! وہی تیس اور چالیس ہزار کے درمیان سڑکوں پر ہونے والی سالانہ اموات !وہی بے مہار ڈمپر، ٹرالیاں اور چھکڑے !وہی اعلیٍ کے لیے پروٹوکول اور وہی ادنیٰ کے لیے زبوں حالی مگر اس سب سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔میرا مسئلہ اور ہے ۔

ارے بھائی ! میرا مسئلہ تو وہاں ہے جہاں میں رہتا ہوں۔ میں امریکہ ، عرب، ایران کی کیا بات کروں! میں وزیر اعظم کے دفتر  یا پارلیمنٹ یا وزیروں کی کیا شکایت کروں!  میں پی ٹی آئی یا نون یا قاف یا ایم کیو ایم کا کیوں رونا رؤوں ؟ میرا مسئلہ ان میں سے کسی کا پیدا کردہ نہیں ! میں دارالحکومت کی جس بستی میں   رہ رہا ہوں وہاں پچانوے فی صد باشندے اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ اس بستی میں خواندگی کا تناسب ، اگر سروے کیا جائے تو، کسی صورت بھی  نوے پچانوے فی صد سے کم نہ ہو گا۔ کوئی گھر  ایسا نہیں جس  کے پورچ میں گاڑی نہ کھڑی ہو۔ چھتوں پر سولر پینل قطار اندر قطار لگے ہیں۔ ہر گیٹ کے دائیں بائیں پھولوں کے پودے اور سبزے کی رَوِشیں ہیں۔ میری قیامگاہ کے قریب ایک پارک ہے ، بے حد خوبصورت اور دیدہ زیب ! بستی کی انتظامیہ نے شدید محنت کر کے اسے ہر ممکن سہولت سے آراستہ کیا ہے۔ٹاپ کلاس ریستوران اور فاسٹ فوڈ  مراکز قائم کیے ہیں۔ سیر کرنے کے لیے ٹریک بنایا ہے۔ گاڑیوں کے لیے وسیع پارکنگ ایریا ہے۔دوسری منزل  پر خوبصورت مصنوعی گھاس  لگائی گئی ہے۔ بچوں کے لیے  مور، کبوتر، بطخیں، سارس اور ہرن منگوائے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے ہیں ۔ مگر میں جب بھی اس پارک میں جاتا ہوں، میرا خون کھولنے لگتا ہے، میں ہائی بلڈ پریشر کے لیے دوا لیتا ہوں اور مجھے پارک جا کر یوں لگتاہے کہ کسی دن  معاملہ دوا کے قابو سے باہر ہو جائے گا۔ میں جھنجھلا اٹھتا ہوں۔ اپنے آپ کو بے بس پاتا ہوں۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کالم نگار سنکی ہے اور سڑیل!  کہ ان سہولیات پر خوش ہونے کے بجائے سلگ رہا ہے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ یہ خوبصورت پارک ، ہر شام  کوڑے کا ایک بڑا ڈھیر بنا ہو تا ہے۔ ہر طرف سگرٹ کے ٹکڑے، جیوس کے  خالی ڈبے،   چپس کے خالی پیکٹ، دیا سلائیاں اور  کاغذ کے ٹکڑے بکھرے  ہوئے ملتے  ہیں۔ آپ ٹریک پر واک کر رہے ہوں تو اوپر ، منڈیر سے،  کبھی کوئی  خالی ڈبہ پھینکتا ہے اور کبھی سگرٹ کا ٹکڑا۔  یقین کیجیے اس پارک میں، اور اس میں بنے ہوئے ریستورانوں میں  لوئر کلاس کا کوئی شخص، کوئی لڑکا ، کوئی لڑکی نہیں  آتی۔سب قیمتی گاڑیوں میں آتے  ہیں ۔ سب بظاہر پڑھے لکھے ہیں مگر ان میں اتنی تمیز نہیں کہ کوڑا، جا بجا پڑے ہوئے کوڑے دانوں  کے اندر ڈالیں! اب آپ انصاف کیجیے کہ جب گھر سےدس منٹ کے پیدل فاصلے پر  جہالت، وحشت، گندگی، اوچھے پن  اور ابتذال کا دور دورہ ہو تو کیا حق پہنچتا ہے کہ میں امریکہ، ایران، عرب کی بات کروں، سیاسی جماعتوں پر تنقید کروں اور موجودہ اور  گذشتہ حکومتوں کو برا بھلا کہوں ؟ 

ہم کس مٹی سے بنے ہوئے لوگ ہیں ؟ صفائی تو انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ نومولود بچہ صرف بھوک کی وجہ سے نہیں روتا۔ اس وقت بھی روتا ہے جب اس کا لباس گیلا ہو جائے۔ ہزار ہزار روپے کا بر گر، چھ چھ سو روپے کی کون، دو دو سو روپے  کا کولڈ ڈرنک پی جانے   والے اور  بڑی نزاکت کے ساتھ” لاتے کافی” چڑھانے والے  ان  مڈل کلاس اور اپر کلاس کے  انسان نما جانوروں  کو جانور کہنا بھی  جانور وں کی توہین ہے۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ سگِ آوارہ بھی بیٹھنے سے پہلے  اپنی دُم سے جگہ صاف کر کے بیٹھتا ہے۔  مگر ان پڑھے لکھے، مراعات یافتہ  اور پہترین لباسوں میں ملبوس انسانوں کو کوڑا فرش پر، اور سبزے پر، اور راستوں پر پھینکتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ انتظامیہ نے محنت کی، زر کثیر صرف کیا ، سہولیات مہیا کیں ، مگر افسوس! بازار سے تمیز نہیں ملتی ورنہ وہ بھی مفت تقسیم کرتی! 

اور یاد رہے یہ وہ طبقہ ہے جو ان پڑھوں، مزدوروں،چوکیداروں اور  ٹھیلے والوں  کو حقارت سے دیکھتا ہے ۔

بشکریہ روزنامہ دنیا 
…………………………………………………

Monday, February 22, 2021

پنشنروں کو زندہ رہنے کا حق ہی کیا ہے



کیا آپ نے اُس پارک کی کہانی سنی ہے جو  رو پڑتا تھا ؟

یہ سرما کا ذکر ہے۔ ہمارے ہاں اس موسم میں دھوپ بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ جیسے ہی دن کے دس گیارہ بجتے  ، پارک میں لوگ جوق در جوق آنا شروع کر دیتے ۔پارک کیا تھا، ایک جہان تھا۔ کہیں درختوں کے جھنڈ تھے جن پر ہر رنگ کے طائر بیٹھے ہوئے ہوتے۔کہیں دور دور تک سبزہ تھا جس کے اوپر دھوپ قالین کی طرح بچھ جاتی۔ کہیں بنچ تھے جن پر لوگ باگ بیٹھ جاتے۔ کہیں واک کرنے کے لیے ٹریک تھے  جن پر  پیدل چلنے کے شوقین ، کانوں میں ہیڈ فون لگائے،  سیر کرتے۔  میلے کا سماں ہوتا۔ بچے کھیلتے۔ بھاگتے، ایک دوسرے کو پکڑنے کی کوشش کرتے ۔ سبزے پر دسترخوان بچھ جاتے۔ کھانے کھائے جاتے۔ معمر حضرات چائے پیتے ہوئے سگرٹ کے کش لگاتے، نوجوان آئس کریم اُڑاتے۔ اسی سنہری دھوپ میں نماز ادا کی جاتی۔ پارک  ایک رونق بھرے شہر  کی طرح لگتا۔ زندگی اپنے پورے جوبن پر ہوتی۔ پھر جیسے جیسے سورج مغرب کی گھاٹی میں اترتا، رونق گھٹنا شروع ہو جاتی۔ لوگ پکنک کا سامان سمیٹنے لگتے۔ سیر کرنے والے گھروں  کا رخ کرتے۔  روِشوں اور  کُنجوں  سے بچوں کو واپس بلایا جاتا۔ سورج غروب ہو رہا ہوتا تو ویرانی وحشت میں بدل جاتی۔اب سردی ایک عفریت کے مانندپارک کی وسعتوں کو اپنی ہیبت میں جکڑ لیتی۔ تیز یخ بستہ  ہوائیں درختوں سے ٹکراتیں تو شاخوں سے نوحوں کی آوازیں آتیں  ۔ پھر جیسے جیسے تاریکی بڑھتی، پارک کی تنہائی اور وحشت میں اضافہ ہوتا جاتا۔ رات کس طرح کٹتی، پارک ہی جانتا تھا یا اس کا خدا! کیاریوں میں بہتا پانی منجمد ہو جاتا۔ درجۂ حرارت صفر سے نیچے گر جاتا۔پارک یہ سب کچھ برداشت کرتا اور صبر کرتا۔ مگر آہ ! صبح کاذب  کے وقت اس کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھتا۔ پارک ، بوڑھا پارک، تنہا پارک ، رو پڑتا۔ وہ وحشت اور ویرانی تو برداشت  کر سکتا تھا  مگر اُن لوگوں کی سنگدلی اس سے برداشت نہ ہوتی  جنہوں نے دن بھر اس کی آغوش میں مزے لوٹے تھے۔اور پھر چھوڑ کر چل دیے تھے۔ اس کے ضبط کے سارے بندھن ایک اک کر کے ٹوٹ جاتے۔ پارک کے کونوں کھدروں سے سسکیوں کی آوازیں آتیں۔ صر صر  کے تھپیڑے سہتے درخت چیخ اٹھتے۔پارک ماتم کدہ بن جاتا۔ بنچ سینہ کوبی کرتے ۔ سخت جان پارک  پو پھٹنے تک نشان عبرت بن جاتا۔

خدا کے بندو ! آج ہر ریٹائرڈ سرکاری ملازم، اس پارک کی مثال ہے۔۔ مسیں بھیگنے کو تھیں کہ سرکار کی نوکری میں آگیا ۔ اپنا شباب ریاست کو دیا۔ ساری توانائیاں ملازمت پر صرف کیں۔ بیمار بچے یا بیوی کو ہسپتال لے گیا تو  چند گھنٹوں کی چھٹی لی اور پھر بھاگم بھاگ واپس دفتر  پہنچا۔ ماں مری تو ابھی   تعزیت کے لیے لوگ آرہے تھے  کہ واپس دفتر حاضر ہو گیا۔ بجلی کا بل ٹھیک کرانا تھا تو ایک سانس اوپر، اور ایک نیچے، آدھا کام ہؤا اور آدھا رہتا تھا کہ سمری ڈرافٹ کرنے کے لیے ہانپتا ہؤا سیٹ پر پہنچ گیا۔  پھر وہ ادھیڑ عمر ہو گیا۔ قویٰ مضمحل ہونے لگے۔ بلڈ پریشر بڑھنے لگا۔ جیسے تیسے کر کے بچوں کو پڑھا تو لیا اب ان کی  شادیوں  کی فکر  دماغ پر ہتھوڑے برسانے لگی۔ ریٹائرمنٹ قریب آتے دیکھ کر راتوں کی نیند آڑ جاتی کہ سر چھپانے کی جگہ تو بنی نہیں۔ اگر ایک آدھ پلاٹ سرکار کی طرف سے ملا بھی تو بیچ کر قرضہ اتارا اور شادیوں کا بند و بست کیا۔ پھر  ایک دن اسے ریٹائر کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ جس ریاست کو اس نے شباب دیا، زندگی کی تونائیاں اس کی نذر کیں، اس ریاست نے یہ کیاکہ اسکے گذارے کے لیے پنشن جاری کی۔ 

اس  ہفتوں یا مہینوں کے حساب سے نہیں، گھنٹوں کے حساب سے بڑھنے والی گرانی میں  اس کی واحد امید وہ اضافہ ہوتا ہے جو اس کی پنشن میں ہر سال کیا جاتا ہے تا کہ وہ سفاک افراط زر کا تھوڑا بہت مقابلہ کر سکے۔ یہ اضافہ ریاست کی مہربانی یا بخشش نہیں ہے ۔ یہ اس پنشنر کا حق ہے جس نے چار عشرے ریاست کی خدمت کی۔   ہڈیوں کے اندر جو گودا ہے اس سے لے کر اس گوشت تک جو ہڈیوں کے اوپر ہے، سب کچھ ریاست کی خدمت پر نچھاور کر دیا۔ پہلی بار موجودہ حکومت نے  پنشن میں اضافہ نہ کرکے نہ صرف ایک  غیر منصفانہ  اقدام کیا ہے بلکہ بے رحمی کا ثبوت دیا ہے۔گریڈ انیس تک کے سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں  تو سوال یہ ہے کہ کیا   پنشنر اسی بازار سے سودا سلف نہیں  خریدتے جہاں حاضر سروس ملازمین جاتے ہیں؟ کیا پنشروں کو  ضروریات زندگی مغل عہد کی قیمتوں پر مل رہی ہیں؟ کیا گرانی ان  کے سروں پر ہتھوڑے کی طرح نہیں برس رہی ؟ کوئی ہے جو اس سوال کا جواب دے ؟   اس حکومت نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جن کی وجہ  سے عوام  بلبلا اٹھے ہیں۔ آٹا،  چینی،  ادویات، پٹرول، بجلی ، سب کچھ مہنگا کیا۔ مگر یہ جو کار نامہ سرانجام دیا ہے کہ تنخواہیں بڑھاتے وقت پنشنروں کا ذکر تک نہیں کیا، یہ یقینا” سیہ ترین اقدام ہے۔ پنشنر اور ان کے متعلقین جھولیاں اٹھا اٹھا کر، آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں  ، بد دعائیں دے رہے ہیں  اور منصفِ حقیقی سے انصاف مانگ رہے ہیں۔ اور جس دن منصف حقیقی نے انصاف کا ترازو ہاتھ میں پکڑا تو حکمرانوں کو آئی ایم ایف بچا پائے گا نہ آئی ایم ایف کا کوئی  زلہ خوار! 

اور یہ جو آئے دن رونا رویا جاتا ہے کہ پنشن پر سالانہ اتنی رقم خرچ ہو جاتی ہے  تو جو خطیر رقمیں دوسری مدّوں پر خرچ ہو رہی ہیں ان کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا ؟ ہر ماہ عوامی  نمائیندوں کے الاؤنسز اور مراعات پر  خزانے کا کتنا حصہ صرف ہو رہا ہے ؟ ایوان صدر ، وزیراعظم آفس اور ہاؤس پر  روزانہ لاکھوں  لگائے جا رہے ہیں۔ دعویٰ یہ تھا کہ کابینہ سترہ افراد  پر مشتمل ہو گی۔ اب پچاس سے زیادہ افراد ہیں۔ کیا ان پر ہر مہینے کچھ نہیں خرچ ہو رہا ؟ صوبے کے وزیر اعلیٰ کا ماہانہ ہیلی کوپٹر ہی کا خرچ قوم کو بتا دیا جائے۔اونٹ نگلے جا رہے ہیں  اور مچھر چھانے جارہ ہیں۔ اربوں کھربوں کے بجٹ میں صرف پنشن کا حصہ آنکھوں میں چُبھتا ہے! کون نہیں جانتا کہ آئی ایم ایف کا اصل مقصد ہمارے جیسے بے آسرا   ملکوں میں بد امنی اور عدم استحکام لانا ہے۔ اور اس کا  آسان طریقہ ہے عوام کو زچ کردینا۔ بجلی مہنگی کرو اور آئے دن کرو۔ پٹرول کی قیمت بڑھاؤ۔ ٹیکس زیادہ کرو۔ تنخواہیں نہ بڑھاؤ، پنشن ختم کرانے کی صورت پیدا کرو۔ یہاں تک کہ ان سب اقدامات سے  تنگ آکر لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور معاشی استعمار کے ساتھ سیاسی استعمار کا پنجہ بھی مضبوط ہو جائے۔

صرف گریڈ انیس تک کی تنخواہیں  بڑھانے کا فیصلہ بھی   دور کی نظر کمزور ہونے کا اشارہ ہے۔  کیا انیس سے اوپر کے ملازم  انسان نہیں ؟ یا کیا سب چور ہیں ؟ کیا اس امتیازی سلوک کا ردِّ عمل نہیں ہو گا ؟ کیا  ناامیدی، احساس محرومی  اور غصہ،  ان ملازمین کی کارکردگی کو خراب نہیں کرے گا؟ کیا ان کی قوتِ فیصلہ متاثر نہیں ہو گی ؟ کیا مہنگائی کا اطلاق ان کی خریداری پر نہیں ہوتا ؟ حکومت اپنی دانست میں جو پیسہ بچا رہی ہے، اصل میں  اس سے کئی گنا زیادہ نقصان اٹھائے گی۔ 
Penny  wise, Pound  foolish
یعنی اشرفیاں لُٹیں اور کوئلوں پر مُہر ! 

یہ غریب   پنشنر آئی ایم ایف کی نگاہ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں ۔تو پھر پنشنروں سے جان ہی کیوں نہ چھُڑا لی جائے ؟ انہیں اٹھا کر  سمندر میں پھینک دیجیے۔ انہیں زندہ رہنے کا حق ہی کہاں ہے ! 
……………………………………………

Thursday, February 18, 2021

شہرت کا آسمان یا پستی کی انتہا



اودھ اور حیدر آباد کی خود مختار ریاستوں کے درمیان کشمکش چل رہی تھی۔
آپ کا کیا خیال ہے یہ کشمکش کیوں تھی؟ پالیسیاں اور اہم انتظامی امور تو انگریز آقائوں کے ہاتھ میں تھے۔ ہر ریاست میں ایک انگریز نمائندہ موجود رہتا جو جملہ امور کی کڑی نگرانی کرتا اور ایک ایک بات سے کلکتہ کو باخبر رکھتا۔ تو پھر یہ کشمکش کیوں تھی؟ جب کہ بارڈر بھی مشترک نہ تھا۔ ترجیحات کا اندازہ لگائیے کہ یہ کشمکش ایک باورچی کے لیے تھی۔ یہ نظام حیدر آباد کے پاس تھا۔ شہرت اس کی ماش کی دال پکانے کے لئے تھی۔ گویا یہ ماش کی دال کا سپیشلسٹ تھا۔ بالآخر لکھنؤ کو فتح نصیب ہوئی اور باورچی حیدر آباد سے آ گیا۔
پست ذوق اور عامیانہ مزاج کی یہ صرف ایک مثال ہے‘ ورنہ ان غلام نوابوں کے دن رات اسی نوع کی کارگزاریوں میں گزرتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی منصوبہ بندیاں کرتے رہتے۔ یہ بھی ہوا کہ ایک نواب نے دوسرے کی دعوت کی۔ مہمان نے کوفتہ لیا تو اصل میں وہ مٹھائی تھی۔ یہی حال باقی ڈشوں کا تھا۔ قورمہ تھا یا بریانی‘ سبزی تھی یا دال، سب مٹھائیاں تھیں۔ یوں مہمان کو شکست دی گئی۔ اس مہمان حکمران نے بھی بدلہ لیا۔ سائنس یا علم کے میدان میں نہیں، بلکہ دستر خوان پر! اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ گڈے گڑیا کی شادی پر سپیشل ٹرینیں چلی تھیں اور وائسرائے بھی بلایا گیا تھا۔ عوام بھی اسی رنگ میں رنگے گئے۔ کتوں، مرغوں اور بٹیروں کی لڑائیاں دیکھنے کے لئے ہجوم امڈ امڈ آتے۔
ذوق آج بھی وہی ہے۔ صرف وقت کے ساتھ اس کے مظاہر بدل گئے۔ پست ذوق اور عامیانہ پن ہر طرف چھایا ہوا ہے۔ سوچیے کہ 'یہ ہماری کار ہے‘ یہ ہم ہیں اور یہ ہماری پارٹی ہو رہی ہے‘ والی وڈیو کیسے جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک سب اس تھرڈ کلاس تلفظ اور مبتذل لہجے کے کس طرح اسیر ہوئے۔ ہر طرف کہرام برپا ہو گیا جیسے ہم سب سے پہلے مریخ پر پہنچ گئے ہیں اور باقی دنیا پیچھے رہ گئی ہے۔ اس سے پہلے پوری قوم حریم شاہ کے سِحر میں گرفتار ہوتی دیکھی گئی۔ جس لڑکی کا باپ، خون کے آنسو رو رہا تھا اور اپنے روایتی خاندان کی عزت کے پرخچے اڑنے پر ماتم کناں تھا، ( باپ کی وڈیو بھی تو سب نے دیکھی تھی) اس لڑکی کو اتنی غیر معمولی کوریج دی گئی‘ جس کی مثال نہیں ملتی۔ پھر اسی لڑکی کے حوالے سے صوبائی و وفاقی وزیروں اور بڑے بڑے مشہور اینکروں کے نام اُچھلے۔ یہاں تک کہ اُس دفتر میں بھی دیکھی گئی جو حکمرانی کی اعلیٰ ترین عمارت ہے اور جسے ہمارے ملکی وقار اور قومی متانت کی علامت ہونا چاہیے تھا۔ مگر کہاں کا وقار! اور کیسی متانت! گویا یہ سب کچھ کافی نہ تھا کہ ایک اور بطل جلیل، مفتی قوی نامی، سوشل میڈیا پر چھا گیا۔ دین کے نام پر بھی دھبہ اور دنیا کے لیے بھی باعث ندامت! ہر حد اس نے کراس کی مگر سوشل میڈیا کو خیال نہ آیا کہ اسے در خور اعتنا نہ سمجھے۔ اس کا بھی خاندان ہی آخر کار سامنے آیا۔ اپنی بے حرمتی کا ماتم کیا، مفتی کے خاندانی لقب سے اسے محروم کیا اور مبینہ طور پر، موبائل فون اس سے لے کر، گھر میں محبوس کر دیا۔ پست ذوق عوام اور بھوکا وحشی سوشل میڈیا اگر ان اوباشوں کو ان اسقط الناس 
Scums of the earth
 کو نظر انداز کر دیتا اور انہیں شہرت کے ناقابل رشک آسمان تک نہ لے جاتا تو ان خاندانوں کی عزت بچ سکتی تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ ماں باپ اپنے بچوں کے سائنسی، علمی، عسکری اور معاشرتی کارناموں پر فخر کرتے تھے، افسوس! صد افسوس! آج والدین اس کامیابی پر پھولے نہیں سماتے کہ ہماری بچی کی وڈیو وائرل ہوئی ہے، اتنے لائکس ملے ہیں اور اتنے لاکھ افراد نے دیکھی ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہیں احساس دلانے کے لیے کوئی بتائے کہ تمہاری پُشت پر درخت اُگ آیا ہے تو فخر سے جواب دیں گے کہ چھاؤں میں بیٹھیں گے! تمہیں کیا؟ حالی نے ہمارے جس تنزّل پر ڈیڑھ سو سال پہلے سینہ کوبی کی تھی آج ہمارا ذوق اس سے بھی بد تر ہے، اتنا بد تر کہ پاتال سے بھی نیچے ہیں؎
ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے
کمینوں سے بد تر ہمارا چلن ہے
لگا نامِ آبا کو ہم سے گہن ہے
ہمارا قدم ننگِ اہلِ وطن ہے
کھائی میں لڑھکنے کے اس بے برکت سفر میں الیکٹرانک میڈیا کے ایک حصے نے بھی اپنا پورا حصہ ڈالا ہے۔ جو چینل صرف ڈراموں کے لیے مخصوص ہیں یا ان کے کچھ حصے، انہوں نے عوام کو بے حس کر دیا ہے۔ اب ڈراموں کی اکثریت ایسی کہانیوں پر مشتمل ہے جن میں مقدس رشتوں کو تار تار کیا جا رہا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ ان “”با غیرت “للکھاریوں، ڈائریکٹروں، پروڈیوسروں اور اداکاروں و اداکاراؤں نے سسر کے باعزت رشتے کو چھوڑا نہ بہنوئی کے اور نہ ہی بھابی (بھرجائی) کے مقام کو۔ یہ تو وہ معاشرہ تھا جس میں بڑا بہنوئی باپ اور چھوٹا بہنوئی بھائی کی طرح ہوتا تھا۔ جہاں بھابی ماں کے قائم مقام تھی۔ مگر شرم و حیا جس طرح منہ چھپائے کونوں کھدروں میں چھپے ہیں، ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ محبت کے قیمتی لفظ کو جس طرح رگیدا جا رہا ہے ہماری ہزاروں سال کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ ڈرامے کے ہر تیسرے ڈائیلاگ میں محبت! اٹھتے بیٹھتے محبت کا ذکر! محبت۔ محبت۔ محبت۔ ہر ڈرامے میں وہی کہانی ہے۔ معاشقہ، شادی، شادی کے بعد کسی مقدس رشتے پر بے حیا شب خون! پھر طلاق۔ طلاق کے بعد پھر میل جول، یہاں تک کہ کچھ ڈراموں میں ایک ہی چھت کے نیچے رہنا دکھایا جا رہا ہے۔ ان ڈراموں میں کوئی معلوماتی کہانی ہے نہ کوئی ایڈونچر! کسی کہانی میں کوئی بے آسرا لڑکا محنت سے ترقی کرتے نہیں دکھایا جاتا۔ کسی ادیب، کسی سائنس دان، کسی قومی لیڈر کی زندگی پر کوئی ڈرامہ نہیں۔ ارطغرل بنانے والوں کے بھی دو ہی ہاتھ ہیں اور ایک ہی دماغ ہے۔ کیا ہم نے سلاطین دہلی یا کسی اور حکمران پر ڈرامہ بنایا ہے؟ شیر شاہ سوری جیسا حکمران ہمیں دوبارہ نہیں ملا اور دنیا اس پر رشک کرتی ہے مگر کسی نوجوان سے پوچھ کر دیکھ لیجیے اس کا زمانہ تک نہ معلوم ہو گا۔ اور تو اور ہم قائد اعظم، اقبال، لیاقت علی خان‘ سر سید احمد خان، علی برادران، یہاں تک کہ کسی ہیرو پر بھی ڈرامہ نہ بنا سکے۔ غالب پر جو ڈرامہ بنا اور جو مقبولیت کی حدیں کراس کر گیا وہ بھی بھارت میں بنا اور اس کا سکرپٹ گلزار صاحب کا لکھا ہوا ہے۔ عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں، قرۃ العین کا آگ کا دریا۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ہمارے ادب کے شہکار ہیں مگر ان پر کوئی ڈرامہ ہے نہ فلم!
پھر یہ جو کروڑ پتی بنانے والے پروگرام ہیں جن میں ایک جوسر یا ایک موٹر سائیکل کی خاطر اچھے بھلے با عزت مرد اور عورتیں تضحیک کا سامان بنتی ہیں، اور اوچھے اور نا قابل بیان مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں‘ اس سے سر شرم سے جُھک جاتا ہے۔ انعامات تو طارق عزیز کے نیلام گھر میں بھی بانٹے جاتے تھے مگر ان پروگراموں میں ادب، تاریخ، تربیت بہت کچھ تھا۔ بیت بازی کے مقابلے ہوتے تھے، خود طارق عزیز کو ہزاروں معیاری اشعار ازبر تھے۔ ان کی زبان ادبی تھی۔ اب جو نوجوان اس قسم کے پروگرام کر رہے ہیں، ادب و علم سے مکمل بے بہرہ ہیں۔ ماہانہ لاکھوں کما رہے ہیں، اور اپنے آپ کو نام نہاد شہرت کے آسمان پر پاتے ہیں مگر بیچاروں کو یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ آسمان نہیں، اسفل السافلین کا گڑھا ہے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, February 15, 2021

سرکاری ملازم… قابلِ رحم مخلوق



سو پیاز اور سو کوڑے!
یہ محاورہ صورت حال پر پوری طرح صادق نہیں آتا مگر اور کوئی محاورہ یاد نہیں آ رہا... سرکاری ملازمین کے احتجاج کو حکومت وقت نے جس طرح ہینڈل کیا اس پر آفرین کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے! پہلی حکومتیں ہر سال، نئے بجٹ میں، دس فی صد کے لگ بھگ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کر دیتی تھیں؛ اگرچہ یہ اضافہ، افراط زر کے مقابلے میں ایسا ہی ہوتا تھا جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ! مگر ملازمین اور پنشنروں کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی ہو جاتی تھی اور وہ خاموشی سے اگلے بجٹ کا انتظار شروع کر دیتے تھے۔ موجودہ حکومت نے ملک کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار ملازمین اور پنشنروں کو بجٹ میں در خور اعتنا نہ جانا اور یہ بھی فرض کر لیا کہ یہ بے مثل ''حسن سلوک‘‘ ملازمین ہضم کر لیں گے کہ کیڑے مکوڑوں کی اہمیت ہی کیا ہے! اسے اہل اقتدار کی سادہ لوحی کہیے یا بے نیازی یا کوتاہ بینی! دوسری طرف گرانی کا گراف مسلسل اوپر جاتا رہا۔ یہاں تک کہ برداشت سے باہر ہو گیا۔ آخر کار اسی حکومت کو جو دس فی صد اضافے کی روادار نہ تھی، پچیس فی صد اضافہ ماننا پڑا۔ درمیان میں پنڈی والے شیخ صاحب کا جارحانہ اور دھمکی آمیز لب و لہجہ آڑے آیا ولے بخیر گزشت!! اب اس کے بعد پنشنروں کے احتجاج کی باری ہے۔
سرکاری ملازم بھی عجیب قابل رحم مخلوق ہے۔ چند سرکاری ملازم خیانت کریں تو سارے بد نام ! یہ حقیقت ہے کہ بھاری اکثریت سرکاری ملازموں کی آج بھی دیانت دار ہے۔ یہ بات ہم سب کو معلوم بھی ہے اس لیے کہ سرکاری ملازم آسمان سے اترے ہیں نہ زمین سے اُگے ہیں‘ نہ ہی کہیں باہر سے درآمد کیے گئے ہیں۔ یہ ہمارے ہی بھائی بہنیں‘ بیٹے بیٹیاں‘ بھتیجے بھانجے، چاچے مامے ہیں اور ہم مانیں یا نہ مانیں سچ یہی ہے کہ گندے انڈے چند ہی ہیں۔ ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ لوگ وقت پر نہیں آتے۔ اس کی وجہ پر غور نہیں کیا جاتا۔ ایسا اس لیے ہے کہ خود منسٹر وقت پر نہیں آتے۔ گزشتہ حکومت میں تو کچھ وزیر ہفتے میں ایک آدھ بار ہی دفتر حاضر ہوتے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم کی صرف ایک تقریب اس کالم نگار نے اٹینڈ کی‘ جو مقررہ وقت کی نسبت بہت تاخیر سے شروع ہوئی۔
آپ وفاقی ملازمین کی علاج معالجے کی سہولیات دیکھیے۔ کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں، ساٹھ سال گزر گئے۔ مرکزی ہسپتال (پولی کلینک) کی توسیع نہ ہو سکی۔ ضرورت اس سے دس گنا بڑے ہسپتال کی ہے جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ رہا پمز (PIMS) تو بد انتظامی کا بد ترین نمونہ ہے۔ مریض گھنٹوں نہیں پہروں انتظار کرتے ہیں۔ سنی سنائی بات نہیں، اس کالم نگار کا ذاتی تجربہ ہے کہ اس شفا خانے میں ڈاکٹر کو پانا، اسے ملنا، جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور تھک ہار کر اس کے نجی کلینک میں جانا پڑتا ہے۔ اس صورت حال میں سرکاری ملازمین اور ان کے کنبوں کی صحت کے حوالے سے جو حالت زار ہے، آپ اس کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ ہاں ایک عظیم کارنامہ موجودہ حکومت نے یہ ضرور سرانجام دیا ہے کہ راولپنڈی میں ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے کے لیے جو ڈسپنسری مدتِ دراز سے قائم تھی، جس میں دو ڈاکٹر تعینات تھے اور ایمبولنس اور لیبارٹری تھی اور جو ہزاروں ملازمین اور ان کے خاندانوں کا سہارا تھی، وہ ختم کر دی! اندازہ لگائیے ان ہزاروں سرکاری ملازمین اور ان کے کنبوں نے کتنی ''دعائیں‘‘ اس حکومت کو دی ہوں گی! چار دن کا اقتدار تو ختم ہونا ہی ہے، مگر یہ آہیں قیامت تک اثر انداز رہیں گی!
لیکن وفاقی حکومت کے ملازمین کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ درد ناک مسئلہ رہائش کا ہے۔ اسلام آباد کا شہر جب بسایا گیا تو یہ امیروں کے محلات کے لیے نہیں، بلکہ بنیادی طور پر سرکاری ملازموں کے لیے بنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایوب خان کے زمانے میں جو دو تین سیکٹر سب سے پہلے بنے (جی سکس، جی سیون اور ایف سکس)، ان کا غالب حصہ سرکاری کوارٹروں، فلیٹوں اور مکانوں پر مشتمل تھا۔ آپ ایوب خان کے بعد آنے والوں کی ''درد مندی‘‘ اور ''دور اندیشی‘‘ ملاحظہ فرمائیے کہ ایف سیون، ایف ایٹ، ایف ٹین، ای سیون، ایف الیون، ای الیون اور جی پندرہ کے سیکٹروں میں سرکاری مکانوں کی تعداد صفر ہے۔ باقی سیکٹروں میں سرکاری رہائش گاہیں بنیں بھی، تو وہ تناسب کے لحاظ سے انتہائی کم ہیں اور یک انار صد بیمار والا معاملہ ہے۔ اس احمقانہ منصوبہ بندی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سرکاری ملازم کا سب سے بڑا مسئلہ، دوبارہ عرض ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ، وفاقی دارالحکومت میں سرکاری رہائش گاہ کا حصول ہے۔ یہ ایک انتہائی درد ناک داستان ہے۔ ایک تو سرکاری رہائش گاہوں کی تعداد بہت ہی کم، ستم بالائے ستم یہ کہ عشروں سے الاٹمنٹ میں دھاندلیاں، سفارشیں اور ہیرا پھیریاں چلی آ رہی ہیں۔ بہت سی ''دیگر‘‘ قباحتیں بھی عام ہیں! ملازمین درخواست دے کر سالہا سال انتظار کرتے ہیں۔ کچھ اسی انتظار میں ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر ایک درخواست دہندہ کو اپنی باری پر رہائش گاہ الاٹ ہو گی اور کسی کو باری سے پہلے نہیں نوازا جائے گا۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔ یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ ماضی میں وزارتِ مکانات و تعمیرات کبھی ایک پارٹی کی جاگیر بنی رہی کبھی کسی دوسری پارٹی کی باندی رہی!
سرکاری ملازم آزادیٔ اظہار کے حق سے بھی محروم ہے۔ رولز کے حساب سے حالتِ زار بیان کرنے کے لیے، یا کسی وضاحت کے لیے یہ ملازمین پریس کانفرنس کر سکتے ہیں نہ میڈیا کے ذریعے کچھ کہنے یا لکھنے کی اجازت ہے۔ کہیں افرادی قوت حد سے زیادہ کم ہے کہیں فرنیچر نہیں۔ آج کل قومی بچت مراکز کے ملازمین ہڑتال پر ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ افرادی قوت کی شدید کمی ہے۔ ان ساری تکالیف اور رکاوٹوں کے باوجود یہ سرکاری ملازم ہی ہیں جو ملک کی گاڑی چلائے جا رہے ہیں اور رکنے نہیں دے رہے۔ سرکاری ملازمین پر تنقید کرنا فیشن بن گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ کام نہیں کرتے اور کوئی کسی اور رنگ میں ان کی کردار کُشی کرتا ہے۔ مانا سرکاری ملازم فرشتے نہیں‘ ان میں کمزوریاں ہیں اور خامیاں بھی‘ مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ تمام محکمے چل رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتال کُھلے ہیں، اگر ان میں ساز و سامان اور وسائل کی کمی ہے یا ڈاکٹر نہیں تعینات کیے جا رہے تو یہ حکومت کا قصور ہے۔ سرکاری سکول اور کالج، نا گفتہ بہ حالات کے باوجود، یہ سرکاری ملازم ہی چلا رہے ہیں۔ ٹرینیں چل رہی ہیں۔ ڈاک خانے، عدالتیں، یوٹیلٹی سٹور، اسلحہ فیکٹریاں، پاسپورٹ دفاتر، نادرا، اکاؤنٹنٹ جنرل دفاتر، ملٹری اکاؤنٹس کے دفاتر، ٹیکس اور کسٹم کے محکمے، دوسرے ملکوں میں قائم ہمارے سفارت خانے، ریڈیو پاکستان، عجائب گھر، بندر گاہیں، زرعی تحقیق کی کونسل، ٹریفک پولیس، ایٹمی انرجی کمیشن، اور بے شمار دوسرے وفاقی اور صوبائی ادارے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ لوگوں کے جھوٹے سچے الزامات بھی سہہ رہے ہیں۔ طعنے بھی سن رہے ہیں اور اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں ڈنڈوں اور آنسو گیس سے بھی نوازے جا رہے ہیں۔
جس دن سیاست دان، عوامی نمائندے، وزرا، عمائدین، صنعت کار، تاجر اور جاگیر دار اپنا قبلہ درست کر لیں گے تو سرکاری ملازموں کی خامیاں بھی دور ہو جائیں گی۔ سرکاری ملاز م قوم ہی کا حصہ ہیں۔ جوکمزوریاں سرکاری ملازموں میں ہیں، وہ پوری قوم میں موجود ہیں۔
جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, February 11, 2021

مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو



گاڑی بائیں طرف مُڑی۔ اب میں صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ پر تھا۔
دارالحکومت کا آئی ایٹ سیکٹر کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ سرکاری ملازموں کی اچھی خاصی تعداد یہاں رہائش پذیر ہے۔ اس لیے اسے بابو نگر بھی کہا جاتا ہے۔ کبھی اسے وی آئی پی سیکٹر کا نام دیا جاتا ہے۔ محل وقوع پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان ہے۔ یوں بہت سے لوگ یہاں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ کے ایک طرف پارک ہے۔ دوسری طرف مکانات ہیں۔ گراں بہا اور بڑے بڑے مکانات۔ بہت سے تاجر بھی انہی مکانوں میں رہتے ہیں۔ ویسے تاجر تو سونے کے مکانوں میں بھی رہ سکتے ہیں۔ کسان کے بچے کے لیے گُڑ بہت کشش رکھتا تھا۔ یہی اس کی مٹھائی تھی اور یہی چاکلیٹ! ایک دن باپ کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہا تھا کہ بادشاہ کا قافلہ گزرا۔ کسان نے کہا: بیٹے دیکھو بادشاہ کے گھوڑے پر زین سونے کی ہے۔ بچے کے نزدیک گُڑ سونے کی نسبت زیادہ قیمتی تھا۔ کہنے لگا ابّا! بادشاہ کا کیا ہے وہ تو گُڑ کی زین بھی بنوا سکتا ہے! تو ہمارے تاجر بھائی (سب نہیں) سونے کے مکانوں میں بھی رہ سکتے ہیں۔ ہاں ایف بی آر کے ڈر سے نہ رہیں تو اور بات ہے!
صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ سے بائیں طرف مُڑ گیا۔ اب میں میر چاکر خان روڈ پر تھا۔ چند سیکنڈ بعد میری نظر بائیں طرف پڑی اور میں ٹھٹک گیا۔ یہ آئی ایٹ تھری کا ماڈل کالج فار بوائز تھا۔ یوں لگا جیسے ٹانگیں بے جان ہو گئیں! پاؤں، غیر ارادی طور پر، ایکسیلیٹر سے ہٹ کر بریک پر آ گیا۔ گاڑی بائیں طرف کر کے روک لی۔ اب میں ماڈل کالج کی بغل میں تھا۔
شفیق الرحمان کا ایک کردار بار بار کہتا ہے: ایران! آہ میرے خوابوں کی سرزمین ایران! جہاں پہاڑوں پر قالین بچھا کر قہوہ پیتے ہیں! یہ ماڈل کالج کبھی میرے خوابوں کی سرزمین تھا۔ میری امیدوں کا مرکز! میری تمناؤں کی ارضِ موعود! یعنی Promised land۔
آہ! سیکٹر آئی ایٹ تھری کا ماڈل کالج! وہ دن نہیں بھولتا جب یہ کالج میرے لیے باغِ ارم سے کم نہ تھا۔ وائٹ ہاؤس سے زیادہ اہم! زندگی بھر جن خوابوں کو دیکھا، ان کچے خوابوں کو حسرت کی آنچ پر پکایا اور پھر جھولی میں بھر کر، اس ماڈل کالج میں آ کر بکھیر دیے۔ اس یقین کے ساتھ کہ ان سے بلند و بالا توانا شجر اٹھیں گے جن کی طرف میں فخر سے سر اٹھا کر دیکھا کروں گا۔ ان اشجار کی شاخیں سنہری ہوں گی۔ پھل آسمانی ہوں گے، ان پر رنگ برنگے طائر، زرق برق لباس پہنے، عزت نفس کے گیت گائیں گے۔ میں نے اس کالج کی دیواروں کو چوما۔ اس کی مٹی کو سرمہ جانا۔ یہ میرے لیے تقدیس کا نشان تھا۔ یہ انقلاب کی علامت تھا۔ یہ میرے بچوں کے مستقبل کا ضامن تھا۔
1970 کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد سبق حاصل ہوا کہ اس عدل کُش دیار میں ووٹ ڈالنا ریت پر پانی کا گلاس انڈیلنے والی بات ہے۔ ووٹ ڈالنا ووٹ کی توہین ہے، اپنی توہین ہے۔ اُن چار لفظوں کی توہین ہے جسے تعلیم سمجھ کر حاصل کیا۔ یہ سبق بھی سیکھا کہ جسے بھی ووٹ ڈالیں، کامیاب ہو کر اس نے 'سٹیٹس کو‘ ہی کے پاؤں پکڑنے ہیں، اور نمک کی کان میں نمک ہی ہونا ہے۔ ہاں! میں اڑتالیس سال الیکشن کے دن گھر سے نہیں نکلا۔ آپ سیاسی بے حسی کا الزام لگا سکتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہری کے طور پر میں نے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر سب امیدوار بُرے تھے تو کم بُرے کو ووٹ دے دیتا۔ آپ کے سارے الزامات اپنی جگہ درست! مگر مجھے یقین تھا کہ یہ ایک کارِ لا حاصل ہو گا۔ 'سٹیٹس کو‘ کے غلاموں کو، جدی پشتی جاگیرداروں کو، ٹیکس چور صنعت کاروں کو اور پارٹیاں بدلنے والے ٹوڈیوں کو میں کیوں ووٹ دیتا؟ میں الیکشن کے دن مولی والا پراٹھا لسی کے ساتھ کھاتا، بچوں کے ساتھ کھیلتا، بیوی کے ساتھ واک کرتا، اور جب تک والدین حیات تھے، ان کے ساتھ وقت گزارتا۔
پھر آسمانوں سے آہ و زاری کا جواب آیا۔ ایک نئی جماعت انصاف کے نام سے ابھری اور اس نے ہر وہ بات کہی جو ہم اڑتالیس سالوں سے کہہ رہے تھے۔ اس کے منہ میں ہماری زبان تھی۔ اس کی پلاننگ میں ہماری تمناؤں کا رنگ تھا۔ اس نے کہا: 'سٹیٹس کو‘ دفن ہو جائے گا۔ ہم نے یقین کیا۔ اس نے کہا: میرٹ کو سرفراز کر کے اقربا پروری، دوست نوازی، سفارش، رشوت کا گلا گھونٹ دیں گے، ہم نے تالی بجائی۔ اس نے کہا: کابینہ سترہ ارکان پر مشتمل ہو گی۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اس نے وعدہ کیا: پی ٹی وی کے دس ارب کے سالانہ جگا ٹیکس کی گردن مروڑ دی جائے گی۔ ہم نے بلائیں لیں! اس نے عہد کیا کہ پارلیمنٹ ممبران کو ترقیاتی فنڈز کی رشوت دینے کا مکروہ سلسلہ موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ ہم نے بھنگڑا ڈالا۔ اس نے یقین دلایا کہ پنجاب کا تھانہ کلچر، بدل دیا جائے گا اور یہ کہ پولیس میں سیاسی مداخلت کو زمین کے نیچے دفن کر دیا جائے گا، ہم نے مٹھائیاں بانٹیں۔ اس نے کہا کہ خود کُشی کر لیں گے مگر آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز نہیں کریں گے، ہم نے تعریفوں کے ڈونگرے برسائے۔ اس نے وعدہ کیا کہ اتنے لاکھ مکان بنیں گے اور اتنے کروڑ نوکریاں دی جائیں گی۔ ہم نے اس کی ظفر یابی کے لیے دعائیں مانگیں۔
2018 ء کی پچیس جولائی تھی۔ میرا اور میری اہلیہ کا پولنگ سٹیشن یہی ماڈل کالج تھا۔ ہم ایک بے کنار مسرت کے ساتھ روانہ ہوئے جیسے بچے عید کے دن نئے ملبوس میں خوش ہو کر گلی میں نکلتے ہیں۔ ہم میں اُس دن اتنی توانائی تھی کہ ہم پہاڑوں کو روک سکتے تھے۔ دریاؤں کا رُخ موڑ سکتے تھے۔ بادلوں کو ہاتھ لگا سکتے تھے۔ ہمارے سامنے ایک نیا ملک تھا۔ ایک روشن مستقبل! اب ہمارے ملک نے بھی سنگا پور بننا تھا، جنوبی کوریا کی طرح ترقی کرنا تھی۔ ملائیشیا کی طرح جاپانی کمپنیوں کا دوسرا گھر ہونا تھا۔ ہم نے قطار میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالے۔ اگر ہمیں کئی دن بھی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا تو ہم خوشی سے کھڑے رہتے!
مگر آہ! آج میں اس کالج کو دیکھتا ہوں تو شکست خوردگی میرے دل کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیتی ہے۔ ہم ہار گئے۔ 'سٹیٹس کو‘ جیت گیا۔ خواب سراب نکلے۔ امیدوں کے محل مسمار ہوئے۔ ہم آس کی چوٹی سے لڑھکے اور سیدھے کھائی میں گرے۔ ہمارے حکمران آج بھی وہی ہیں جو ستر سال سے ہم پر حکمرانی کرتے آئے ہیں۔ وہی شیخ رشید صاحب۔ وہی حفیظ شیخ صاحب۔ وہی عمر ایوب صاحب۔ وہی خسرو صاحب۔ وہی فہمیدہ مرزا صاحبہ۔ وہی زبیدہ جلال صاحبہ۔ وہی فروغ نسیم صاحب۔ وہی سومرو صاحب۔ وہی رند صاحب۔ وہی عشرت حسین صاحب۔ بائیس کروڑ میں سے مشیر صحت ملا تو وہ جو اپنے ہسپتال میں ملازم تھا۔ انکوائری کے لیے سربراہ ملا تو وہ جو انہی کے ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کا رکن ہے۔ طاقت کے منابع ہیں تو ان کے ہاتھوں میں جو حکمرانوں کے ذاتی دوست ہیں۔ ہسپتال اب بھی چیف منسٹر کے والد کے نام پر بنا ہے۔ ترقیاتی فنڈز اب بھی بٹ رہے ہیں۔ میں ماڈل کالج کو دیکھتا رہا۔ ایک آہ بھری اور اختر ہوشیار پوری کو یاد کیا:
دامن خالی، ہاتھ بھی خالی، دستِ طلب میں گردِ طلب
عمرِ گریزاں! عمرِ گریزاں ! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو

بشکریہ  روزنامہ دنیا

Tuesday, February 09, 2021

سازش ظاہر ہو کر رہتی ہے


فرید کی قسمت ہی ایسی تھی۔ گھر میں سوتیلی ماں اور باہر ٹھوکریں ! کبھی جونپور   میں قسمت آزماتا کبھی بہار میں !
{
کشاکش کے اسی  پُر آشوب دور میں زمانے کی گردش نے اسے بابر کے دربار میں  پہنچا دیا! ایک دن دسترخوان بچھا تھا۔ جیسا کہ اس عہد میں بادشاہوں کے ہاں دستور تھا،  دسترخوان  پر بہت لوگ  ہوتے، درجنوں، بیسیوں اور بعض اوقات سینکڑوں !! مہمان بھی، عمائدین و امرا بھی اور عام درباری بھی۔  قاب میں گوشت تھا۔ کچھ مؤرخ کہتے ہیں مچھلی تھی ، کچھ کی روایت ہے کہ گوسفند یا گائے کا گوشت تھا جو سخت تھا۔فرید نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر خنجر نکالا اور گوشت کے اس بڑے ٹکڑے کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تبدیل کردیا۔              بابر، ظاہر ہے اونچی مسند پر تشریف فرما تھا۔ نظریں اس کی عقابی تھیں اور فکر، دوررس!اس نے یہ غیر معمولی منظر دیکھا، پھر فرید کی شخصیت کا جائزہ لیا ، پھر ایک نتیجے پر پہنچا اور اپنے  وزیر  کو  سرگوشی میں حکم دیا کہ اس افغان کی نگرانی کی جائے کہ  یہ خطرناک ہے! یہی وہ لمحہ  تھا جب فرید  نے بھی بابر کو دیکھا اور دو جمع دو چار کی طرح جان گیا کہ یہ سرگوشی اُسی کے  بارے میں ہے۔موقع پاتے ہی فرید وہاں سے کھِسکااور  بھاگ کھڑا ہؤا۔ بابر کو جب اس کی عدم موجودگی کا احساس ہؤا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔بابر  کا  فرید کو خطرناک قرار دینا سو فی صد درست  ثابت ہؤا۔ یہ فرید ہی تھا جو بعد میں شیر شاہ سوری کے نام سے معروف ہؤا اور  جس  نے مغلوں کے اقتدار کا خاتمہ کیا 

{
آپ کا کیا خیال ہے بابر سے غلطی کہاں ہوئی ؟ ایسی غلطی جو اس کے بہت ہی پیارے بیٹے کو پورے پندرہ سال دھول چٹاتی رہی! غلطی یہ ہوئی کہ  بابر نے دو بنیادی حقیقتوں کو نظر انداز کر دیا۔    اول یہ کہ کوئی سرگوشی چھپی نہیں رہتی، دوم یہ کہ ہم دوسروں کی صلاحیتوں کو
Under  estimate 
کرتے ہیں۔ بابر نے جب فرید کو خنجر سے گوشت کاٹتے دیکھا ، تو عین اُسی وقت  وزیر سے بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ ۔ اس نے سمجھا  کہ  فرید کو کیا معلوم ، میں کیا حکم دے رہا ہوں ؟ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں جو ہماری سمجھ میں نہ آسکے۔ خود آپ  کو کئی بار محسوس ہؤا ہو گا کہ جب دو افراد بات کر رہے تھے تو صاف معلوم ہو رہا تھا کہ  موضوعِ گفتگو آپ تھے۔ انسان کو خدا نے بے پناہ صلاحیتیں  عطا کی ہیں اور یہ صلاحیتیں دیتے وقت خدا نے خاندان دیکھا نہ مرتبہ ، رنگ دیکھا نہ  نسل نہ  دولت !  جس حقیر  ملازم کو اس کا باس  کیڑا مکوڑا سمجھتا ہے، وہ ڈرائیور جو اس کے سامنے بات ہی نہیں کر سکتا، وہ خادم جو اس کے لیے  گاڑی کا دروازہ کھولتا ہے،  طاقت ور مالک کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔                                    اسے بھی قدرت نے  دماغ دیا ہے۔ یہ اور بات کہ سسٹم نے یا قسمت نے اسے  نوکر بنا دیا۔ اسے معلوم ہے کہ اس کا مالک فراخ دل ہے یا کنجوس، نجیب ہے یا بد جنس ؟  دیانت دار ہے یا خائن ۔اسے اس کے  خاندانی پس منظر کا بھی پتہ ہے، اس کی ذہانت کا بھی اندازہ ہے اور اس کی کارکردگی سے بھی واقف ہے۔ یہ اور بات کہ وہ  پاس ِ ادب سے یا ڈر کے مارے بولتا نہیں ۔اسے بیگم صاحبہ کے خاندانی پس منظر کا  بھی اندازہ  ہے۔ فردوسی نے عہد شکن بادشاہ کے بارے میں کہا تھا؎

اگر شاه را شاه بودی پدر = به سر برنهادی مرا تاج زر
اگر مادر شاه بانو بُدی    = مرا سیم و زر تا به زانو بُدی

بادشاہ اگر   بادشاہ کی اولاد ہوتا تو مجھے سونے کا تاج پہناتا۔ بادشاہ کی ماں خاندانی عورت ہوتی تو میں  گھُٹنوں تک سونے چاندی میں ہوتا۔
{
 آپ نے وہ حکایت  سنی ہو گی  ۔ ایک زیرک ملاز م کو بادشاہ نے اپنے پسندیدہ گھوڑے  کی دیکھ بھال پر مقرر کیا۔ کچھ دن بعد گھوڑے کے بارے میں رائے لی تو اس نے کہا کہ حضور گھوڑا نسلی نہیں ہے۔  بادشاہ نے پوچھا کیسے معلوم ہؤا ، اس نے جواب دیا کہ گھوڑے سر اٹھا کر  گھاس چباتے ہیں مگر یہ سر جھکا کر۔ بادشاہ نے پتہ کرایا تو معلوم ہؤا گھوڑا  گائے   کا دودھ پی کر بڑا ہؤا تھا۔بادشاہ نے  ملازم کو ترقی دے کر  ملکہ کا سٹاف  افسر مقرر کر دیا۔کچھ دن بعد ملکہ کے بارے میں رائے لی تو اس نے بتایا کہ ملکہ   شہزادی نہیں ہے۔ پوچھا کیسے معلوم ہؤا؟ اس نے جواب دیا کہ کسی سے خوش ہو تو  انعام میں پرانے ملبوسات عطا کرتی ہے۔ شہزادیاں  ایسا نہیں کرتیں۔بادشاہ نے اپنی ساس  سے پوچھا تو اس نے اعتراف کیا کہ ہم بادشاہ کو زبان دے چکے تھے۔ مگر ہماری بیٹی مر گئی ۔ ہم نے رشتے کی لالچ میں ایک  آیا کی بیٹی گود میں لے لی۔ وہی اب ملکہ ہے۔ بادشاہ مزید خوش ہؤا اور اسے اپنا خادمِ خاص مقرر کر دیا۔  کچھ دن بعد اپنے بارے میں بھی رائے مانگی۔  خادمِ خاص نے  کہا کہ حضور ! آپ بھی شہزادے نہیں ہیں ۔پوچھا کیسے ؟ اس نے جواب دیا کہ  خاندانی  بادشاہ خوش ہوتے ہیں تو  ہیرے جواہرات انعام میں دیتے ہیں ۔ آپ جس سے خوش ہوتے ہیں اس کے گھر بھیڑ بکریاں بھیجتے ہیں۔ بادشاہ نے اپنی ماں سے پوچھا تو اس نے راز کھولا کہ ہم بے اولاد تھے ۔ ولی عہد کی ضرورت تھی۔  مجبورا” ایک بچے کو گود لینا پڑا۔ وہ بچہ چرواہے کا بچہ تھا۔ ضروری نہیں کہ ایسی حکایات حرف بحرف صحیح  ہوں مگر ان میں دانش کے اشارے مخفی ہوتے ہیں مثلا” یہ کہ  جنہیں ہم زیر دست سمجھتے ہیں وہ ہماری اصلیت اور ہماری فطرت سے آگاہ ہوتےہیں، 
{
ماں باپ کو اپنے تجربے کی بنیاد پر  معلوم ہوتا ہے کہ بیٹا یا بیٹی جھوٹ بول رہی ہے ۔ مگر کسی مصلحت کی بنا پر خاموش رہتے ہیں۔ بسا اوقات مالک ملازم کی غلطیوں سے چشم پوشی کرتا ہے مگر ملازم  اسے بےخبر یا بے وقوف سمجھتا ہے اور پھر آخر میں نقصان اٹھاتا ہے۔ کہتے تو یہ ہیں کہ دشمن کو حقیر نہ سمجھو مگر عقلمندی اس میں ہے کہ کسی کو بھی حقیر نہ سمجھا جائے۔ 
{

اقتصادیات پڑھاتے وقت اساتذہ بتاتے تھے کہ جس  طرح حمل نہیں چھُپ سکتا اسی طرح افراطِ زر بھی چھُپا نہیں رہ سکتا ۔ تاہم یہ ادھورا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ   عشق چھُپتا ہے نہ مُشک! ناجائز دولت اور   ناجائز تعلقات بھی   ظاہر ہو کر رہتے ہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ  سازش جو نیّتِ بد سے کی جائے ، فاش ہو کر رہتی ہے—— “ جو کوئی سرگوشی  تین آدمیوں میں ہوتی ہے تو وہ چوتھا ہوتا ہے اور جو پانچ میں ہوتی ہے تو وہ چھٹا ہوتا ہے اور خواہ اس سے کم کی سرگوشی ہو یا زیادہ کی مگر وہ ہر جگہ ان کے ساتھ ہوتا ہے “ ——- ایک نظر نہ آنے والا نظام ہے جو ہمارے ارد گرد کارفرما ہے۔سازش، بد نیتی ، منفی جوڑ توڑ، کسی کو نقصان پہچانے کے لیے گٹھ جوڑ، یہ سب کچھ ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ یہ صرف کہانیوں میں نہیں ہوتا کہ خزانہ لُوٹنے والے آخر میں ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کے راز اگلنے لگتے ہیں، حقیقی زندگی میں بھی  یہی ہوتا ہے۔ سیاست دانوں سے عبرت  پکڑنی چاہیے  کہ کس طرح ایک دوسرے کو برہنہ  کرتے ہیں۔ایک دوسرے کے پول  سربازار کھولتے ہیں۔ کل کے ساتھی آج ایک دوسرے کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔  یہ سلطانی گواہ نہیں ، آسمانی گواہ ہوتے ہیں  جنہیں  قدرت ایک دوسرے کے خلاف لا کھڑا کرتی ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے مل کر سازش کی تھی !
بشکریہ روزنامہ دنیا 
…………………………………………………………………

Monday, February 08, 2021

سنتا جا شرماتا جا


یہ جو قانون  ہے   “  بڑی مچھلیاں  چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں “   اس کا  درست ترین نفاذ اگر دیکھنا ہے تو پاکستان میں  دیکھیے ۔

کوئٹہ میں ایک بڑی مچھلی ،  فُل سپیڈ  پر پجارو   چلاتی ہوئی آئی۔ آگے بڑا چوک تھا۔ چوک کے درمیان ٹریفک کا سپاہی  کھڑا، ڈیوٹی دے رہا تھا۔  پجارو تیر کی طرح آئی اور اس چھوٹی مچھلی کو  روندتی ہوئی گذر گئی۔ اب یہ معاملہ ایسا تھا کہ اس میں  مدعی  ریاست  تھی۔ کیونکہ  چھوٹی مچھلی  ریاست کی طرف سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔  گویا ریاست کی نمائیندہ تھی۔ مگر مسئلہ سائز کا تھایعنی  حجم کا۔ جب قانون یہ ہے کہ بڑی مچھلی نے چھوٹی مچھلی کو کھانا ہے تو  کون سی ریاست ؟ کہاں کی ریاست ؟  بڑی مچھلی  کو کچھ دن کے لیے  محبوس رکھا گیا ۔ اس کے بعد پھر وہی کچھ ہؤا جو ہوتا آیا ہے!

اس کے بعد وہی مچھلی جو  کوئٹہ میں چھوٹی تھی، وفاقی دارالحکومت میں بڑی مچھلی بن کر ظاہر ہوئی۔  پولیس کے چار  اہلکاروں نے ایک چھوٹی مچھلی کو  درجنوں گولیوں سے بھون دیا۔ کچھ د ن میڈیا میں اس  قتلِ عمد کا چرچا رہا۔  اب سناٹا ہے۔   زیادہ امکان یہ ہے کہ سناٹا ہی رہے گا۔ چھوٹی مچھلی کا ذکر تک غائب ہو جائے گا۔ کسی نے اقوام متحدہ کے حوالے سے زبردست فارمولا  ایجاد کیا ہے۔  اگر  معاملہ یعنی ایشو  دو چھوٹے ملکوں کے درمیان ہو تو ایشو غائب ہو جاتا ہے۔ اگر جھگڑادو    بڑے ملکوں کے درمیان ہو تو اقوام متحدہ خود  غائب   ہو جاتی ہے۔ اور  اگر جھگڑا بڑے ملک اور چھوٹے ملک کے درمیان ہو تو  چھوٹا ملک غائب ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح یہاں چھوٹی مچھلی ، جو بھی ہو، خواہ ریاست ہی کیوں نہ ہو، غائب ہو جاتی ہے۔  ہاں! دارالحکومت والے واقعہ میں ایک نئی بات یہ ہوئی کہ جناب وزیر اعظم نے غائب ہونے والی  چھوٹی مچھلی کے والد کو  اپنے حضور طلب کیا۔سامنے بٹھایا اور تعزیت کی۔ نہ جانے شاعر کون ہے مگر شعر خوب کہہ گیا ہے ؎

وہ شہریار بہت نرم دل تھا میرے لیے 
چبھو  کے  نیزہ   زمیں  سے  اٹھا  لیا   مجھ کو 

پھر ایک اور بڑی مچھلی کی پروٹوکول  گاڑیوں کے قافلے نے چار چھوٹی مچھلیوں کو کھا لیا۔ یہ  چاروں چھوٹی مچھلیاں  ایبٹ آباد سے نوکری کے لیے انٹرویو دینے آئی تھیں ۔ چونکہ مچھلی بڑی تھی اس لیے  دھول اتنی اڑائی گئی کہ  کسی کو صاف معلوم نہ ہو سکے  گاڑی ڈرائیور چلارہا تھا یا صاحبزادہ  یا کوئی اور۔ ضمانت قبل از گرفتاری البتہ فورا” ہو گئی۔  شہ زیب خان ، نقیب اللہ سب چھوٹی مچھلیاں تھیں۔ کون کہتا ہے کہ یہاں قانون کی حکومت نہیں ۔ خدا کے بندو ! قانون ہی کی تو حکومت ہے۔ قانون یہ ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھائے گی۔ اس پر پوری طرح  عمل ہو رہا ہے۔ 
{
تعداد طرفین میں سے کسی کی بھی کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔چار بڑی مچھلیاں   ایک چھوٹی مچھلی کو ، یا ایک بڑی مچھلی چار چھوٹی مچھلیوں کو کھا سکتی ہے۔ مگر حال ہی میں ایک بڑی مچھلی چھ سو چھوٹی مچھلیوں کو چٹ کر گئی۔  یہ دلچسپ  شکار سول ایوی ایشن اتھارٹی میں  ، جو ائر لائنوں  اور ہوائی جہازوں کو کنٹرول کرتی ہے ، ہؤا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ  کی اسامی پُر کرنے کے لیے اشتہار دیا گیا۔ چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ ان میں سے آٹھ بہترین اور کوالی فائیڈ امیدواروں کے انٹر ویو ہوئے۔پھر ایک بڑی مچھلی نے انگڑائی لی  اور ان  چھ سو درخواست دہندگان  کو ہڑپ کر کے خود سربراہ بن گئی۔ بڑی مچھلی نے درخواست دی تھی نہ انٹرویو دیا۔ یہ امیدواروں میں شامل ہی نہیں تھی۔کچھ عرصہ پہلے بڑی مچھلیوں نے ایک ہسپتال پر دھاوا بول دیا۔  اور تین چھوٹی مچھلیوں کو، جو دل کی مریض تھیں اور ہسپتال میں زیر علاج تھیں ۔ کھا گئیں ! یہ ان کا حق تھا۔ اسی لیے کوئی بڑی مچھلی  اس  واقعہ میں پکڑی نہ گئی۔ سزا یا قصاص کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ جس طرح پاسپورٹ کی رینکنگ ہے، جس طرح سروے کر کے بتاتے ہیں کہ کون سے شہر دنیا میں بہترین ہیں اور کون سے غلیظ ترین، یا  کون سا ملک اہل صحافت کے لیے خطرناک ترین ہے اور کون کون سے ملک محفوظ ہیں ، بالکل اسی طرح یہ سروے بھی کیے جاتے  ہیں کہ انصاف کی فراہمی کس کس  ملک میں اول درجے کی ہے اور کون کون سے ممالک  اس ضمن میں شرمناک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ کو اس سروے کے  نتائج اور انکشافات سے آگاہ کیا جائے ، مندرجہ ذیل حقائق ذہن میں ضرور رکھیے ۔  اوّل۔ ہمارا ملک  ہمارے مسلمان ہونے کی بنیاد پر وجود میں آیا ۔اور ہمارے ہادی و رہنما صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ان کی صاحبزادی چوری کرتیں تو ان کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا ۔اور یہ بھی فرمایا کہ پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ کمزور کو سزا دیتیں اور طاقتور کو چھوڑ دیتیں۔دوم  ۔ ہمارے ملک میں دینی مدارس کی تعداد  کسی بھی دوسرے  مسلمان ملک سے  زیادہ ہے۔ان میں سے بعض مدارس ، معیار کے اعتبار سے ، اعلی ترین  درجے کے ہیں  یہاں تک کہ عرب دنیا میں بھی ان کی ٹکر کا کوئی مدرسہ نہیں۔ سوم۔دنیا بھر میں تبلیغ کا کام کرنے والی جماعت کا مرکز اسی ملک میں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تبلیغی جماعت  کا آغاز شمالی ہند سے ہؤا مگر تقسیم کے بعد، بالخصوص  لمحۂ موجود میں، اس کا اصل سنٹر یہیں ہے۔چہارم ۔اس وقت پاکستان میں جو جماعت حکومت کر رہی ہے اس کا نام ہی تحریک انصاف ہے ! 

یہ سروے  “ ورلڈ   جسٹس   پروجیکٹ “  نامی  نجی ادارہ کرتا ہے ۔ اس کی تازہ ترین رپورٹ  حالیہ نومبر میں شائع ہوئی ہے۔ اس کی رُو سے انصاف کی فراہمی میں ٹاپ کے  پندرہ ملکوں میں  ڈنمارک، ناروے، فن لینڈ، سویڈن، نیدرلینڈز،جرمنی، نیوزی لینڈ، آسٹریا، کینیڈا، ایسٹونیا، آسٹریلیا، سنگاپور برطانیہ، بلجیم اور جاپان ہیں۔  سروے کی بنیاد چار عوامل پر ہے۔ اول کسی ملک میں حکومت کی طاقت کو لگام دی جا رہی ہے یا نہیں؟ یعنی مقننہ، عدلیہ اور آڈٹ ،  حکومت کا محاسبہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں یا نہیں؟  سرکاری ملازموں کو سزائیں دی جاتی ہیں یا نہیں؟اور انتقالِ اقتدار ،قانون کے مطابق  ہوتا ہے یا نہیں ؟ دوم۔کرپشن! یعنی  انتظامیہ، عدلیہ ۔ مقننہ ، عساکر اور پولیس میں کام کرنے والے افراد، اپنی سرکاری  حیثیت کو ذاتی مفادات کے لیے تو استعمال نہیں کر رہے ؟ سوم۔ حکومت کے بارے میں اطلاعات اور اعداد و شمار  میسر آتے ہیں یا نہیں؟ شکایات سننے اور  مداوا کرنے کا طریقِ کار کیا ہے؟ چہارم۔ بنیادی حقوق کے حوالے سے کیا صورت حال ہے؟  اس کی تفصیلات ادارے کی ویب سائیٹ پر   دیکھی جا سکتی ہیں۔  آپ کو پاکستان کی پوزیشن جاننے  کی بیتابی ہو گی۔ پاکستان کی پوزیشن ایک سو اٹھائیس ملکوں میں ایک سو بیس ہے۔ گذشتہ سال ایک سو سترہ تھی۔ اس سال بدتر ہو گئی ہے۔ جنوبی ایشیا میں ہم صرف افغانستان سے بہتر ہیں۔  بنگلہ دیش نیپال انڈیا سری لنکا ہم سے اوپر ہیں ؎
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا 
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا 


ہو سکتا ہے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ   پاکستان مسلمان ملک ہےاس لیے اس کی پوزیشن عمدا”  نیچے رکھی جاتی ہے۔ ایسی بات بالکل نہیں ۔  یو اے ای کی پوزیشن تیس ہے۔ ملاایشیا کی 47,،  اردن کی  پچاس ، ٹیونس کی چھپن  اور انڈونیشیا کی  اُنسٹھ ہے۔  ہم چونکہ اکثر حالتِ انکار میں رہنا پسند کرتے ہیں  اس لیے اگر ہم اس سروے کو بھی رد کردیں  تو اچنبھے کی کوئی بات نہ ہو گی! پھر یہ بھی ہے کہ دنیا، سارے کی ساری،  ہمارے خلاف سازشوں میں لگی رہتی ہے۔  اصل میں مغربی طاقتیں ہماری سائنسی اور اقتصادی ترقی سے خائف ہیں۔  وہ ہم سے حسد کرتی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

……………………………………………………………

Thursday, February 04, 2021

اگر آسمان سے پتھر برسنے لگ جائیں

 

پاسپورٹ کی رینکنگ سے لے کر بد عنوانی کی فہرست میں ایک سو چوبیسواں نمبر حاصل کرنے تک، پاکستان اس وقت تنزّل کی جس دلدل میں گردن تک دھنسا ہوا ہے، آپ کے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ کرپشن؟ بُری گورننس؟ ناخواندگی؟ کم فی کس آمدنی؟ شرحِ نمو میں کمی؟ ٹیکس چوری؟ گھٹتی برآمدات؟ یا کچھ اور؟آخری تجزیے میں کوئی ایک یا دو وجوہ نہیں، بہت سی وجوہ کو تسلیم کرنا پڑتا ہے‘ لیکن اگر آپ کو ایک ہی وجہ بتانے کے لیے کہا جائے تو آپ کیا کہیں گے؟ میں نے تو جواب سوچ لیا ہے! اور وہ ہے لیڈرشپ کا آسمان سے اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ تک کا سفر! یہ سفر قائد اعظم سے شروع ہوتا ہے جو دیانت میں آسمان پر تھے۔ پھر نواب لیاقت علی خان کو دیکھیے۔ یہ حضرات اقتدار میں آنے سے پہلے بر صغیر کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے‘ مگر حکومت میں آنے کے بعد ان کی امارت کا گراف نیچے گر گیا۔ جس محمد علی جناح نے 1916ء میں ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا محل خریدا تھا اور پھر اپنی محنت کی حلال کمائی سے، ایک شہری کی حیثیت سے، ایسی کئی جائیدادیں خریدیں، وہ پاکستان کا حکمران بنا تو مہنگی جُرابیں دکان دار کو واپس کرا دیں۔ کرنال کے جاگیردار، لیاقت علی خان شہید ہوئے تو ایک گز زمین ان کے نام تھی نہ ہی تین مرلے کا مکان! پھر ہم اس مقام تک پہنچے جب ہمارے لیڈر اقتدار میں آنے سے پہلے بھوکے ننگے تھے اور حکمران بننے کے بعد کروڑ پتی پھر ارب پتی اور پھر کھرب پتی ہو گئے! پاتال کا یہ سفر صرف مالی اعتبار سے نہیں، فکری حوالے سے بھی تباہ کُن رہا۔ جن قائد اعظم پر بدترین دشمن بھی دروغ گوئی، عہد شکنی اور دوست نوازی کا الزام نہ لگا سکے، بعد میں اُنہی کے جانشین اِن الزامات کی بارش میں سر سے لے کر پاؤں تک بھیگ گئے۔ یوں کہ دامن نچوڑیں تو جانور بھی اس پانی سے دور بھاگیں! ڈاکٹر سعد خان کی حالیہ تصنیف ''محمد علی جناح-دولت، جائیداد، وصیت‘‘ پڑھ کر لیڈر شپ کے تنزل پر حیرت ہوتی ہے اور افسوس!ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر واپس آنے کے بعد ہم لوگوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن تشکیل دی۔ سلطان سکندر خان اس ایسوسی ایشن کے سینئر رکن ہیں اور ہمارے پرانے دوست! وہ سائنس دان ہیں۔ پاکستان کے حساس اداروں میں اعلیٰ مناصب پر رہ کر خدمات سرانجام دیتے رہے۔
یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ اس چشم کُشا تصنیف کے مصنف ڈاکٹر سعد، انہی سلطان سکندر کے فرزند ہیں! یہ کتاب گہری اور سنجیدہ تحقیق کا نتیجہ ہے۔ سعد، جو سول سروس کے رکن ہیں، اس سے پہلے ایک کتاب ''قائدِ اعظم کی نجی زندگی‘‘کے عنوان سے لکھ چکے ہیں؛ تاہم ان کی نئی تصنیف زیادہ وقیع ہے۔ بمبئی، دہلی، کراچی اور لاہور میں قائد کی ذاتی رہائش گاہوں کی پوری تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ان کی زرعی اور کمرشل جائیداد، بینک اکاؤنٹس، نقدی، صنعتی سرمایہ کاری، حصص میں سرمایہ کاری، ٹیکس اور آڈٹ کے حقائق، جائیداد سے پیدا ہونے والے سفارتی تنازعے، خاندانی مقدمات اور قائد کی وصیت، ان تمام پہلوئوں پر مصنف نے قابلِ قدر اور دلچسپ تفصیلات بیان کی ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ قائد اعظم کو قسّام ازل نے جو دماغ عطا کیا تھا، وہ صرف سیاست، وکالت اور قوتِ تقریر و تحریر ہی میں قابل رشک کمالات نہیں دکھاتا تھا بلکہ سرمایہ کاری اور مالی امور میں بھی بہترین فیصلے کرتا تھا۔ قائد کی فنانشل مینجمنٹ (Financial Management) انتہائی بلند درجے کی تھی۔ انہوں نے ثابت کر دکھایا کہ اگر قابلیت موجود ہو تو سو فی صد دیانت داری اور کمال شفافیت کے ساتھ بھی ثروت مند ہوا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں کی جو کلاس بعد میں اس ملک پر مسلط ہوئی، کاش وہ بھی اس حقیقت کو سمجھ پاتی!
بمبئی والا مکان، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، قائد نے شادی پر اپنی اہلیہ کو تحفے میں دیا۔ بیگم صاحبہ اس کی تعمیرِ نو چاہتی تھیں۔ اس اثنا میں ان کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں قائد نے اسے منہدم کرا کر نئے نقشے کے ساتھ بنوایا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ تعمیراتی کام اور تزئین و آرائش پر سوا دو لاکھ روپے لگے۔ یہ 1940ء کی بات ہے۔ یہاں ملازمین کی تعداد بائیس تھی۔ یاد رہے کہ ان ملازمین کی تنخواہ کسی پنجاب گورنمنٹ، کسی سندھ گورنمنٹ یا کسی وفاقی حکومت کے خزانے سے نہیں آتی تھی۔ سرکاری منصب تو تھا ہی نہیں۔ تقسیم سے پہلے، جناح نہرو مذاکرات اسی بنگلے میں ہوئے۔ دہلی والا مکان قائد نے 1938ء میں خریدا۔ دہلی دارالحکومت تھا۔ یہاں انہیں اکثر آنا پڑتا تھا اور ہوٹل میں ٹھہرنا پڑتا تھا۔ اسی لیے انہیں ذاتی رہائش گاہ خریدنے کا خیال آیا۔ تقسیم سے پہلے قائد نے یہ مکان اپنے قریبی دوست راما کرشنا ڈالمیا کو فروخت کر دیا۔ دوستی کے دعوے کے باوجود ڈالمیا نے اس مکان کو گنگا کے پانی سے دھویا کیونکہ پچھلے مکین، قائد اعظم اور ان کی بہن، مسلمان تھے۔ مسلم لیگ کا پرچم تو ڈالمیا نے اتارنا ہی تھا سو اتار دیا‘ مگر نیا پرچم جو لگایا وہ ''گائے بچاؤ تحریک‘‘کا تھا۔ یہ مکان گاؤ ماتا تحریک کا مرکز قرار پایا! تقسیم کے چار سال بعد اس مکان کو ولندیزی حکومت نےخرید لیا۔ اب یہ ولندیزی سفیر کی قیام گاہ ہے۔ کراچی والا مکان قائد نے 1943ء میں خریدا۔ اُس وقت اس کی قیمت ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے تھی۔
اب یہاں جناح عجائب گھر ہے جہاں قائد کی اشیا کو محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ عوام کے لیے کھلا رہتا ہے۔ جس سال قائد نے کراچی میں گھر خریدا اسی سال لاہور میں بھی ایکوسیع و عریض مکان حاصل کیا۔ قیمتِ خرید ایک لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو روپے تھی۔ بعد میں یہ مکان پاکستان آرمی نے خرید لیا۔ اب یہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ ہے۔
ڈاکٹر سعد نے اس مفروضے کو شد و مد سے رد کیا ہے کہ بطور گورنر جنرل پاکستان، قائد ایک روپے ماہوار محض علامتی تنخواہ لیتے تھے۔ آخری وائسرائے کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار نو سو روپے تھی۔ پاکستان کے گورنر جنرل کی تنخواہ، اس سے بہت کم، دس ہزار چار سو سولہ روپے دس آنے مقرر ہوئی۔ اُس وقت کے قانون کی رُو سے چھ ہزار ایک سو بارہ روپے ٹیکس کٹ جاتا تھا۔ یوں صرف چار ہزار تین سو چار روپے وصول ہوتے تھے۔ اپنی تمام جائیدادوں، اثاثہ جات اور آمدنی پر قائد نے ہمیشہ باقاعدگی سے قوانین کے عین مطابق ٹیکس ادا کیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بہن بھی ایسا ہی کرتی رہیں۔ کسی قسم کی بے قاعدگی یا مالی معاملات میں غیر شفافیت قائد اعظم کے مزاج سے مناسبت ہی نہیں رکھتی تھی۔ بد ترین دشمن بھی اس ضمن میں کوئی الزام نہ لگا سکے۔ جہاں تک ان کی وصیت کا تعلق ہے، انہوں نے انجمن اسلام سکول بمبئی اور عریبک کالج نئی دہلی کے لیے پچیس پچیس ہزار روپے اور یونیورسٹی آف بمبئی کے لیے پچاس ہزار روپے چھوڑے۔ ان تین اداروں اور اپنے رشتہ داروں کو ان کے حصے دینے کے بعد جو جائیداد اور دولت بچتی تھی وہ مندرجہ ذیل تعلیمی اداروں کے نام کر دی۔ سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی، اسلامیہ کالج پشاور اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ! یہ ادائیگیاں کیسے ہوئیں اور کتنی، اس کی تفصیل کتاب میں موجود ہے!
یہ ایک آئینہ ہے جس میں ماضی اور حال دونوں نظر آرہے ہیں! کیا کچھ کہنے کی ضرورت باقی ہے؟ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچے ہیں! کہاں دیانت ہی دیانت اور سچ ہی سچ ! اور کہاں خیانت ہی خیانت اور جھوٹ ہی جھوٹ! تو پھر تعجب ہی کیا ہے اگر آسمان سے پتھر برسنے لگ جائیں

Tuesday, February 02, 2021

قائد اعظم سے لے کر اینجلا مارکل تک



گفتگوکے لحاظ سے لوگوں کی تین اقسام ہیں۔

 پہلی قسم وہ ہے جن سے بات چیت  کرنے کے لیے کچوکے دینے پڑتے ہیں۔ مشکل سے کسی بات کا جواب دیتے ہیں جو اکثر و بیشتر نامکمل ہوتا ہے۔ اگر پوچھیں کہ ملازمت کہاں کر رہے ہیں تو جواب دیں گے دفتر میں !  علاج کس سے کرا رہے ہیں ؟ ڈاکٹر سے ! بیٹے کی شادی کہاں کی ہے ؟ لڑکی والوں کے ہاں ! کئی ضمنی سوال کرنے پڑتے ہیں تب جا کر مطلوبہ  انفارمیشن ہاتھ آتی ہے۔  ایسی کفایت شعار گفتگو کا عارضہ بعض نامعقول بچوں کو بھی ہوتا ہے! آج سکول میں کیسا دن گذرا ! ٹھیک گذرا! تمہارے دوست کی برتھ ڈے پارٹی کیسی رہی ؟ اچھی رہی ! کبھی نہیں بتائیں گے کہ کتنے دوست نہیں آسکے ! کھانے میں کیا کیا تھا۔ کس نے گیت گایا یاکیا کیا کھیل تماشا ہؤا۔ ماں باپ منہ کی کھا کر چُپ ہو رہتے ہیں! اور دوسرے بچے سے بات چیت شروع کر دیتے ہیں جو ایک ایک بات تفصیل سے بتاتا ہے یا بتاتی ہے !

دوسری قسم اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے ! بلکہ اذیت رساں! یہ وہ حضرات ہیں جو اپنی آواز سننے کے  شائق   ہوتے ہیں! بہت زیادہ شائق! یہ مونو لاگ کرتے ہیں یعنی خود کلامی ! ان سے بات شروع کرنا اوکھلی میں سر دینے کے برابر ہوتا ہے۔ مسلسل بولتے جاتے ہیں! موضوع سے موضوع نکلتا  جاتا ہے ! انہیں  کچھ بتانا   یا کوئی ضروری اطلاع دینا آسان نہیں ۔بات کاٹنا تقریبا” ناممکن !  یک طرفہ گفتگو کے دوران اتنا وقفہ بھی نہیں دیتے  کہ آپ درمیان   میں  کود پڑیں ! ایک بات خاص طور پر نوٹ کیجیے۔ مونو لاگ کرنے والے ایسے افراد اپنا ذکر، اپنی تعریف ، بہت کرتے ہیں !   سبب یہ ہے کہ ان کی معلومات حد درجہ کم ہوتی ہیں۔ بہت سی چیزوں کا، بہت سے حالات و واقعات کا انہیں علم ہی نہیں ہوتا۔ دوسرے کی بات سنیں گے تو کچھ جانیں گے !سب   سے زیادہ علم ایسے لوگ  اپنی ذات  کے بارے میں رکھتے ہیں اسی لیے اپنی ذات ہی کوموضوع بناتے ہیں۔ موت ہو یا شادی، ایسے حضرات سامعین کو مالِ غنیمت گردانتے ہیں اور ان پر پل پڑتے ہیں۔انہیں اس سے کوئی غرض نہیں  کہ  لوگوں کو  ان کی ذات میں  کوئی دلچسپی   ہے نہ ہوسکتی ہے ! چند دن  پہلے ہی ایک غم زدہ  گھر میں بیٹھے تھے۔ مرحومہ کے بارے میں باتیں ہو رہی تھیں۔سوءِ اتفاق سے  ایک صاحب  جو  خود کلامی کے مریض تھے۔ ، وہاں  موجود تھے۔ آغاز اپنے مونو لاگ کا انہوں نے  مرحومہ کے ذکر سے کیا مگر  چند جملوں کے بعد  اصل  موضوع  پر آگئے۔ اپنی ذہانت،اپنی امارت،  اپنی فتوحات ! اپنی جرآت، اپنی اولاد!  بے بس سامعین کے ناقص علم میں انہوں نے خاطر خواہ اضافہ کیا مثلا”  یہ کہ وہ  رات کو تہجد کے لیے اُٹھتے ہیں ۔ یہ کہ ان کے  زرعی فارم کا رقبہ اتنا ہے اور یہ کہ ان کے شہر والے  مکان میں  اتنی خواب گاہیں ہیں۔ان کے جانے کے بعد  سامعین  میں سے جو حضرات ان کے ماضی سے آگاہ تھے،  انہوں نے ان کی خاندانی “ امارت” سے خوب خوب پردے اٹھائے! اگر وہ اپنی ذات کے بارے میں طویل لیکچر نہ دیتے تو یوں بے نقاب نہ ہوتے!   ایک المیہ ایسے حضرات کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ  لوگ باگ ان سے کتراتے ہیں!پوری کوشش ہوتی ہے کہ سابقہ پڑے نہ سامنا ہو! پھنس گئے تو آدھ گھنٹے کی سمع خراشی  تو کہیں نہیں گئی۔ کچھ اپنی ذات کو تو موضوع نہیں بناتے مگر کسی واقعے کی جُزئیات اس قدر تفصیل سے سناتے ہیں کہ  سننے والوں کا صبر چھلکنے لگتا ہے۔  بہت عرصہ گذرا ہم کچھ رفقائے کار ایک سینیر کولیگ کے والد کی وفات پر تعزیت کے لیے گئے۔ انہوں نے رحلت کے سفر کا حال اتنی باریک تفصیلات کے ساتھ سنایا کہ پورا  ایک گھنٹہ گذر گیا یہاں تک کہ  واضح طور پر سب کو خجالت محسوس ہونے لگی۔
اب منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خود کلامی کی یا طولِ کلام  کی وجہ کیا ہے؟   میر ؔ  صاحب  اپنے بارے میں تو  بتا گئے ؎
 عیبِ   طولِ   کلام    مت       کریو 
کیا کروں میں سخن سے خوگر تھا! 

مگر مسئلہ تو اُن حضرات کا ہے جو سخن سے خوگر بھی نہیں اور طولِ کلام کا عیب بھی رکھتے ہیں ! ایک وجہ تو نرگسیت ہے! یعنی خودپسندی، اپنے آپ سے محبت ! اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر گرداننا ! اپنے آپ کو غیر معمولی سمجھنا ! دو نمایاں  خصوصیات اس نفسیاتی مرض کی یہ ہیں کہ ایک تو  نرگسیت میں مبتلا انسان  تپاک سے خالی ہوتا ہے ! دو طرفہ تعلقات میں ہمیشہ سردمہر !  دوسرے، وہ خود غرض بھی ہوتا ہے۔  نرگسیت کا انانیت سے کیا تعلق ہے ؟ اس پر ماہرین نفسیات نے کافی چاندماری کی ہے اور سر مارا ہے۔  نرگسیت پر کتابوں کی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں ۔  اصل مشکل یہ ہے کہ ایسے افراد اپنی اس بیماری سے ناآشنا ہوتے ہیں اور علاج کے لیے ماہر نفسیات کے پاس نہیں جاتے! کوئی توجہ دلانے کا خطرہ مول لے تب بھی قائل ہو جانا معجزہ ہی ہوتا ہے۔ 
{
مگر بہت زیادہ بولنے والے ، جو نرگسیت کا شکار نہیں، ان کا کیا علاج ہے ؟ مثلا”  انہی صاحب کی مثال لے لیجیے جو اپنے والد کی رحلت کا حال ایک گھنٹہ بتاتے رہے! یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کے  جذبات سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ انہیں مطلق پرواہ نہیں کہ  دوسرا بیزار ہو رہا ہے یا  ممکن ہے اس نے کسی کام سے جانا ہو۔ انہیں ایک ہی دھُن ہے کہ وہ گفتگو کرتے رہیں۔ اپنی آواز انہیں سنائی دیتی رہے ! اب ایسا فرد نارمل تو نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے بھی نفسیات میں کوئی علاج ضرور ہونا چاہیے!

سو سوالوں کا ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی لیڈر ہی نرگسیت کا شکار ہو تو کیا وہ قوم یا ملک کی کشتی کنارے لگا سکتا ہے ؟ پھر اگر لیڈر ایسا ہو جو طولِ کلام کا بھی عادی ہو اور نرگسیت کا بھی مریض ہو تو  اس دو آتشہ کا انجام کیا ہو گا ؟ اس کا اپنا انجام کیا ہو گا ؟ اور اُس ملک کا انجام کیا ہو گا  جس کی وہ قیادت کر رہا ہے ؟ اگر وہ لمبی لمبی تقریریں کرتا رہے اور اپنے ہی کارنامے سناتا رہے تو کیا  اُس کے پاس تعمیری منصوبہ بندی کا دماغ ہو گا ؟ قائد اعظم کی مثال لے لیجیے۔ جس جدو جہد سے انہوں نے پاکستان کا مطالبہ منوایا اور جن شدید مشکلات کا سامنا کیا، ان سے کون انکار کر سکتا تھا؟ مگر  چودہ اگست 1947 ء سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک ایک بار بھی انہوں نے  یہ نہیں کہا کہ میں نے اتنی عظیم  کامیابی حاصل کی  اور یہ کہ مجھے بہت زیادہ جدو جہد کرنا پڑی ! عصر حاضر کی کامیاب ترین حکمران، اینجلا مارکل ، جو سولہ سال  جرمنی   کی سربراہ رہی، بہت کم بولتی تھی۔۔ وہ دوسروں کی بات زیادہ سنتی۔ یہ کالم نگار ہارورڈ گزٹ کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اینجلا مارکل کے متعلق لکھا ہؤا ایک  فقرہ  جیسے ذہن پر  کَندہ ہو گیا۔
She does everything possible not to talk about herself

وہ ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ  اپنے بارے میں کوئی بات نہ کرے ! 
ماہرین نفسیات یہ بھی کہتے ہیں کہ نرگسیت زدہ لیڈر کو  اُس  وقت  قیادت سنبھالنے کا موقعہ ملتا ہے  جب لیڈرشپ کا فقدان ہو۔

اور ہاں !  تیسری قسم ایسے افراد پر مشتمل ہے جن سے گفتگو کر کے آپ کو مسرت حاصل ہوتی ہے ۔ جو صرف سناتے نہیں ، سُنتے بھی ہیں ! ؏۔
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں ! 

……………………………………………………………بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, February 01, 2021

چانکیہ اور میکیاولی


چانکیہ کوتلیہ  ٹیکسلا میں پیدا ہؤا۔  یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تین  ساڑھے تین سو سال پہلے کی بات ہے ۔ اُس زمانے میں ٹیکسلا کی یونیورسٹی  کرۂ ارض کی چند بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک تھی۔بڑے بڑے فاضل اساتذہ اور اپنے عہد کے مانے ہوئے سکالر یہاں پڑھاتے تھے۔ چانکیہ نے بھی یہاں پڑھایا۔ پھر وہ اُس زمانے کے عظیم بادشاہ چندر گپت موریہ  کا  مشیر اور وزیر اعظم رہا۔  کہا جاتا ہے کہ موریہ سلطنت کے قیام اور عظمت کی پُشت پر چانکیہ ہی کی دانش و فراست تھی۔ 
{
چانکیہ کی شہرت کی اصل وجہ اُس کی شُہرۂ  آفاق  تصنیف “ ارتھ شاستر “  ہے ۔ یہ کتاب کیا ہے ایک انسائکلو پیڈیا ہے۔ قانون۔ سیاست، فنِ حکمرانی ،  سفارت کاری، سب کچھ اس میں موجود ہے۔ چانکیہ کی بدقسمتی کہ اس کی مجموعی شہرت ایک چالاک اور زمانہ ساز دانشور کی ہے۔ اس کا نام آتے ہی ذہن  فریب کاری  ، عیاری اور حیلہ گری   کی طرف چلا جاتا ہے۔ مثلا” خارجہ امور کے حوالے سے اس کا نظریہ یہ ہے کہ پڑوسی ملکوں کو دشمن سمجھو۔ اور پڑوسی ملکوں  کے پڑوسیوں کو  دوست جانو یعنی دشمن کا دشمن تمہارا   ساتھی  ہونا چاہیے۔
{
 چانکیہ کو وہیں چھوڑ کر  ہم زمانی جست بھرتے ہیں اور پندرھویں صدی عیسوی  کے بہت بڑے دانشور  میکیاولی سے آملتے ہیں۔  میکیاولی اٹلی کا تھا۔ اس کا زمانہ  1469 ء  سے 1527ء تک کا ہے۔ اُس زمانے کا اٹلی   مختلف شہری ریاستوں
 ( (city   states

 میں  بٹا ہؤا تھا۔ان میں  فلارنس کی ریاست ممتاز ترین تھی ۔ تحریک احیائے علوم کا آغاز وہیں سے ہؤا۔ یوں فلارنس یورپ کا تہذیبی مرکز بن گیا۔میکیاولی نے  فلارنس کے لیے کئی سفارتی اور عسکری خدمات سرانجام دیں۔ وہ بہت بڑا عُہدیدار تھا۔ تاہم اس کی شہرت کی اصل وجہ یہ نہیں۔ بنیادی طور پر وہ ادیب اور مصنف تھا۔ یہ  اس کی عہدساز تصنیف “ دی پرنس”    ہے جس نے اسے آج تک زندہ رکھا ہؤا ہے۔ اقتدار کو دوام بخشنے کی تراکیب سے لے کر عوام اور  دشمن کو کنٹرول  کرنے تک ، ہر حکمت عملی اس میں موجود ہے۔  وہ کہتا ہے کہ ذاتی اور پبلک اخلاقیات میں فرق ہونا چاہیے۔حکمران سے عوام محبت کریں یا نہ کریں ، ڈریں ضرور! اقتدار قائم رکھنے کے لیے  ہر ممکن اقدام اٹھانا چاہیے۔ مثلا” طاقت کا بے مہار استعمال! فریب کاری! خاندانوں کے خاندان  بھی اجاڑنے پڑیں تو اجاڑ دینے چاہییں! سیاسی حریفوں کو ہر حال میں ختم کر دینا چاہیے۔عوام مدافعت کریں تو ان کو بھی تہس نہس کرنا ہو گا ۔ ہر اس شخص کو ختم کرنا لازم ہے جو حکومت کو چیلنج کر سکتا ہے۔ دروغ گوئی، مکاری، چالاکی، دغابازی، منافقت، جہاں بھی ضرورت پڑے، جب بھی پڑے، بلا جھجک استعمال کردینی چاہیے۔بڑے بڑے بادشاہ، صدر، وزرائے اعظم ، اس کتاب کو اپنے تکیوں  کے نیچے رکھتے رہے ہیں اور  اس سے “ رہنمائی” لیتے رہے ہیں۔
{
حافظ شیرازی نے کہا تھا ؎
غمِ غریبی و غربت   چو  بر نمی  تابم
به شهر ِخود   روَم   و   شهریارِ  خود   باشم

بے وطنی اور مسافرت سے  تنگ آجاؤں تو اپنے شہر کا رخ کرتا ہوں اور اپنا مالک خود بنتا ہوں ۔
   میرا بھی دل گھبراتا ہے تو ٹیکسلا کے کھنڈرات کا رُخ کرتا ہوں ۔ کیسی کیسی بستیاں تھیں اور شہر ! کیسے کیسے لوگ تھے، ذہین، فطین، خوبصورت، خلّاق!نقاشی، سنگتراشی، شاعری، فلسفہ اور سیاسیات  کے میدانوں میں انمٹ نقوش چھوڑنے والے۔   کھنڈر کھنڈر ٹیکسلا میں پھرتا تھا اور یہی  سوچتا تھا!  اُس دن اتفاق ایسا تھا کہ کوئی اور سیاح وہاں نہیں تھا۔ ایک سٹوپا کے پاس سے گذرا تو کہ  یوں لگا جیسے کسی نے سسکی بھری ہو!  دوسری بار یہ سسکی واضح طور پر سنائی دی ۔ آواز سٹوپا کی پچھلی طرف سے آرہی تھی ۔ تجسس درپے ہؤا۔ پچھلی طرف گیا تو مٹی کا ایک بڑا ٹیلہ تھا جیسے کہ اس لینڈ سکیپ میں ہوتے ہیں۔ ٹیلے کے دامن میں ، دو بڑے پتھر پڑے تھے، ہموار سلوں جیسے ! انہیں ہموار سلوں پر ، دو افراد ، ایک دوسرے سے بغل گیر، روتے تھے ، بلکتے تھے اور سسکیاں لیتے تھے۔  حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات سے میرے پاؤں جہاں تھے ، وہیں جم گئے۔  کوئی پانچ منٹ اسی عالم میں گذرے ہوں گے ، پھر یوں لگا جیسے ان دو، ایک دوسرے سے  بغل گیر، آدمیوں کو احساس ہؤا  کہ یہاں کوئی تیسرا بھی ہے، تو وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے ۔ ان میں سے ایک کا سر مُنڈا ہؤا تھا اور بالوں  کی لمبی لٹ گردن سے ہوتی ،  بازو اور سینے کے درمیان لٹک رہی تھی۔ گیروے رنگ کا لمبا سا کرتا اس نے پہنا ہؤا تھا۔ پاؤں میں لکڑی کی کھڑاؤں تھی۔  ایک بجلی سی میرے ذہن میں کوندی اور ایک ثانیے میں اُسے میں نے پہچان لیا۔ یا وحشت !  یہ چانکیہ تھا ! چانکیہ کوتلیہ! ارتھ شاستر  کا مصنف ! 
{
میں نے ادب اور عقیدت سے اس کے گھُٹنے چھوئے اور پوچھا کہ اے عظیم فلاسفر! اے چالاکیوں اور حیلہ سازیوں کے ماہر! مانا کہ یہ ٹیکسلا تمہاری جنم بھومی ہے اور یہیں تم نے پڑھایا مگر یہ آہ و بُکا کیسی !  ؏ ۔ یہ دو جہاں میں کون سا غم کھا گیا تمہیں ؟ اور یہ تمہارے ساتھ ، صدیوں قدیم اسلوب کا فرنگی لباس پہنے کون ہے جو تمہاری ہی طرح  نالہ و زاری کر رہا ہے۔  چانکیہ نے بتایا کہ یہ اس کا پرانا ہم نفس اور ہم سخن میکیاولی ہے! میں اس کے بھی گھٹنوں کو چھو کر   ملا۔ پھر میں نے ان دونوں عبقریوں کی خدمت میں ادب سے کہا کہ ساتھ ہی، ان ٹیلوں سے نیچے اتر کر،  چائے کا ایک چھپر ریستوران ہے۔ وہاں  نہ بیٹھ جائیں ؟ چانکیہ نے میکیاولی کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور ہم تینوں اس ڈھابے پر جا بیٹھے۔ چائے کے ساتھ میں نے کیک رس منگائے۔مگر چانکیہ نے کہا کہ برخوردار ! تم نے ہماری سسکیاں تو سُنی ہی ہیں ، ہم نے کیا کھانا ہے! بھوک ختم ہو چکی ہے! نیند کو ترس گئے ہیں ! ناکامی اور ذلت کا احساس ہر وقت کچوکے دیتا ہے۔  پھر وہ دونوں چائے کے گھونٹ بھرنے لگے اور دور افق کی جانب خلا میں دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد  میکیاولی مجھ سے مخاطب ہؤا! “ میرے بچے ! صدیوں سے چالاکی، حیلہ گری، فریب کاری اور دروغ گوئی پر ہماری اجارہ داری تھی۔  ہر حکمران ان مقاصد کے لیے ہماری  شاگردی اختیار کرتا تھا، مگر اِس زمانے میں ایک ایسا بادشاہ  تخت نشین ہؤا ہے  کہ ہماری عیاری اس کے مقابلے میں ہیچ ہے ! اس نے ایسا دامِ تزویر بچھایا ہے کہ مردوزن اس میں پھنس کر رہ  گئے ہیں ! کوئی وعدہ پورا نہیں کرتا مگر دعویٰ مسلسل یہی کرتا ہے کہ سب کچھ کر رہا ہے !جھوٹ  صدقِ دل سے بولتا ہے ۔  یوٹرن  رات دن لیتا ہے۔عوام تڑپ رہے ہیں ، گرانی انہیں ہڑپ کرنے کو ہے ! مگر بادشاہ صرف دربار لگاتا ہے اور اپنے حاشیہ نشینوں اور کاسہ لیسوں  سے لچھے دار خطاب کرتا ہے! ہر ناکامی کو دوسروں کے سر ڈالنے میں ایسا یدِ طُولیٰ رکھتا ہے کہ ہم دونوں سر پیٹتے رہ جاتے ہیں! دشمن کی مذمت اس تواتر سے  کرتا ہے کہ اور کچھ اسے سوجھتا ہی نہیں! جس فن پر صدیوں سے ہماری اجارہ داری تھی، اس میں ہم طفلانِ مکتب ہو کر رہ گئے ہیں!   اب تو ایک ہی کسر باقی ہے کہ  وہ ایک کتاب بھی تصنیف کر ڈالے جس کے سامنے ہماری ارتھ شاستر اور”  دی پرنس” الف بے پے والے قاعدے سے بھی کمتر لگیں “ ۔ 
{
میکیاولی نے  یہ کہہ کر چائے کا خالی کوپ لکڑی کی کھردری میز پر رکھا اور کھنڈرات کی طرف چل پڑا۔ چانکیہ نے اس کی پیروی کی!میں بوجھل قدموں سے ڈھابے والے کی طرف بڑھا کہ چائے کے دام ادا کروں ! چانکیہ اور میکیاولی یقینا” ٹرمپ کا ذکر  کر رہے تھے۔ انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ وہ اب بادشاہ نہیں رہا! 

بشکریہ  روزنامہ دنیا 

………………………………………………………
 

powered by worldwanders.com