Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, December 30, 2021

چراغ کا بندوبست کر لیجیے!


ظریفانہ شاعری کا ایک بڑا نام، سرفراز شاہد، رخصت ہو گئے۔ وفاقی دارالحکومت کی تہذیبی اور ادبی زندگی کا لازمی جزو تھے۔ ہمیشہ مسکراتے ہوئے! خود نمائی اور خود توصیفی سے نا آشنا! صلاح الدین چلے گئے۔ پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کے ممتاز رکن! چوہدری محمد علی اور سرتاج عزیز کی روایت کے امین! صوبہ خیبر پختونخوا کے اکاؤنٹنٹ جنرل رہے۔ مسلح افواج اور دفاع کے تمام شعبوں کے حسابات اور آڈٹ کے سربراہ رہے۔ انکسار کے پیکر! وسیع دستر خوان کے مالک! کوئی ڈرائیور، کوئی خاکروب، کوئی خدمت گار ان کے گھر سے کھانا کھائے بغیر نہیں جا سکتا تھا۔

زندگی اپنی پوری بے بسی کے ساتھ سر بزانو بیٹھی ہے۔ سامنے جو انگیٹھی پڑی ہے اس کے انگارے راکھ بن چکے ہیں۔ زندگی کی مجلس سے داستان گو ایک ایک کر کے اٹھ رہے ہیں! موت کے سامنے زندگی کی کوئی ادا، کوئی غمزہ کوئی عشوہ کوئی رنگینی نہیں ٹھہر سکتی! بیٹھے ہوتے ہیں کہ کسی دوست کی مرگ کی خبر ملتی ہے۔ چل رہے ہوتے ہیں کہ کسی اور کے کوچ کا نقارہ سنائی دیتا ہے۔ سونے لگتے ہیں تو فون آتا ہے کہ فلاں کی حرکتِ قلب بند ہو گئی۔ سو کر اٹھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں کا کینسر تشخیص ہوا ہے جو آخری مرحلے میں ہے۔ کھانا کھا رہے ہوتے ہیں کہ حادثے میں کسی کے گزر جانے کا سنتے ہیں۔ پانی پی رہے ہوتے ہیں کہ پتہ چلتا ہے فلاں ڈائلیسز پر چلا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ ایک ہی خبر ہے جو ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔

یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر ہم میں سے ہر ایک، اپنے رویّوں کے اعتبار سے، اس زعم میں ہے کہ میری باری نہیں آنی! جنازے پڑھتے ہیں، تعزیتیں کرتے ہیں، مغفرت کی دعائیں مانگتے ہیں مگر اپنی ٹھوڑی کو گلے کے طرف نیچے نہیں کرتے کہ کہیں گریبان میں نہ جھانکنا پڑے۔ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں۔ چمکتے دمکتے عالی شان محلات کے مالک ہمارے سامنے ایدھی کی ایمبولینسوں پر لے جائے گئے اس حال میں کہ ان کے خاکی جسد پر میلی چادر پڑی ہوئی تھی۔ وہ بھی کسی کی! وسیع و عریض بزنس ایمپائروں کے مالک، جن کے ڈنڈے مار جتھے بے بس لوگوں کو گھروں سے نکال کر بے گھر کر دیتے تھے، ڈائپر کے محتاج ہو کر عبرت کی مثال بن گئے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے گردن بلند، بستر پر، برسوں کے لیے، یوں پڑ رہتے ہیں کہ آنکھوں کی پُتلیوں کے سوا جسم کا کوئی عضو حرکت نہیں کرتا۔ رفع حاجت کے لیے درمیان سے چارپائی کو کاٹنا پڑتا ہے۔ ہم یہ سب دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ایک نیک دل صحافی خاتون نے ایک چھوٹے سے مکان میں اولڈ ہوم بنایا ہے۔ اس میں پڑے ہوئے لاوارث بوڑھوں اور بوڑھیوں کو دیکھ کر زندگی کی بے اعتباری مجسّم نظر آتی ہے۔ زندگی بھر جس گھر کے لیے جائز ناجائز اکٹھا کیا، بہو نے اس سے بیک بینی دو گوش نکال باہر کر دیا۔ بیٹا دیکھتا رہ گیا۔ ایسے افراد بھی ہیں جو چالیس چالیس سال بیرون ملک رہے۔ اعلیٰ ترین معیار زندگی سے فیض یاب ہوئے۔ اکڑ اور ایسی اکڑ کہ ٹوٹ جائے مگر لچک نہ دکھائے۔ اور پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ کپڑوں کے صرف ایک جوڑے کے ساتھ، جو تن پر تھا، اولڈ ہوم میں پناہ لینا پڑی! ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک، پانی کے گلاس سے لے کر چائے کی پیالی تک، دوا سے لے کر خون کے ٹیسٹ تک، لباس سے لے کر جوتوں تک، صابن کے ٹکڑے سے لے کر تولیے تک، ہر شے کے لیے دست نگر! ہر چیز کے لیے محتاج! اور یہ تو وہ خوش بخت ہیں جو اولڈ ہوم تک پہنچ گئے۔ کتنے ہی ہیں جو غنی تھے مگر اب بے گھر ہیں۔ ایک خاتون سڑک کے کنارے بے ہوش پڑی تھی جسے اولڈ ہوم چلانے والی صحافی خاتون اٹھا کر لے آئی۔

موت کی بالا دستی اور زندگی کی پسپائی کا یہ مطلب نہیں کہ انسان ہاتھ پاؤں توڑ کر مرنے کے انتظار میں بیٹھ جائے مگر ایک شے جو ہمیشہ پاس نہیں رہنی، اس کے لیے جھوٹ بولنا اور فریب دینا بھی تو پرلے درجے کی حماقت ہے۔ پھر مال و دولت، منصب و طاقت پر اترانا، دوسروں کو ہیچ سمجھنا، رعونت سے پیش آنا، کسی کو کچھ دیتے وقت گردن بلند کرنا، مونچھوں کو تاؤ دینا اور اپنے آپ کو مالک و مختار سمجھنا، یہ سب کُند ذہنی، حماقت اور پست فہمی کی نشانیاں ہیں! دانا وہ ہے جو مستقبل میں جھانک سکے۔ یہ جاننے کی اہلیت رکھتا ہو کہ یہ زمین، یہ محل، یہ روپیہ، کسی کا تھا اور آج میرے پاس ہے! بالکل اسی طرح کل اس نے مجھے بھی چھوڑ جانا ہے! آج جن اعزّہ و اقارب کو ہم کمتر سمجھتے ہیں اور ان سے پرے پرے رہتے ہیں کل وہی ہماری چارپائی کو کندھا دیں گے! لحد میں اتاریں گے اور اوپر مٹی ڈالیں گے! 

کوئی نہیں کہتا کہ آپ دنیا کو ترک کر کے رہبانیت اختیار کر لیجیے اور سادھو بن جائیے۔ دنیا کے سارے کام کیجیے۔ ضرور کیجیے۔ وزارت ہے یا افسری، بزنس ایمپائر ہے یا جاگیر، اس سے ضرور لطف اندوز ہوں، صرف یہ زحمت فرمائیے کہ اپنے سے نیچے والوں کی تحقیر نہ کیجیے، ان کے حقوق ادا کیجیے، غریب رشتہ داروں سے کج ادائی روا نہ رکھیے۔ اپنے ملازموں کی ضروریات کا خیال رکھیے۔ وہ بیمار پڑ جائیں تو ان کے علاج کے اخراجات اٹھائیے۔ اپنے لا تعداد ملبوسات میں سے کچھ ضرورت مندوں میں بانٹ دیجیے۔ آپ کے پاس ایسے ایسے کوٹ اور سویٹر ہیں کہ پورے سیزن میں انہیں پہننے کی باری نہیں آئی تو اس کا مطلب واضح ہے کہ ضرورت سے زائد ہیں۔ انہیں اٹھائیے اور کسی مستحق کو دے دیجیے۔ آپ کی موت کے بعد بھی یہ کسی مستحق ہی کو دیے جائیں گے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنی زندگی ہی میں، اپنے ہاتھ سے، کسی کو پیش کر دیں۔ پھل خرید رہے ہیں تو اپنے گھر کام کرنے والی غریب خاتون کے لیے بھی تھوڑے سے لے لیجیے۔ مہینے بھر کا سودا خرید رہے ہیں تو گھی کا ایک ڈبہ، دو کلو چینی، چاول یا دال کے دو پیکٹ اپنے ملازم کے لیے یا مفلوک الحال پڑوسی کے لیے بھی لے لیجیے۔ جوتوں کے کئی جوڑے پڑے ہیں، سردی میں کوئی چپل پہن کر پھر رہا ہے تو ایک جوڑا اسے دے دیجیے۔ ایک اکاؤنٹ الگ کھول لیجیے۔ اپنی آمدنی کا چوتھا نہیں تو آٹھواں یا دسواں یا بیسواں حصہ ہی سہی، اس میں ڈالتے رہیے۔ اس اکاؤنٹ کو اپنا نہ سمجھیے۔ اسے مستحقین کے لیے وقف کر دیجیے۔ اپنے بچوں کو مسلسل ترغیب دیتے رہیے کہ اپنی پاکٹ منی میں سے یا عیدیوں میں سے ایک حصہ نادار بچوں کے لیے الگ کریں یہاں تک کہ بچوں کو اس کام کی عادت پڑ جائے۔ کل آپ نے زیر زمین چلے جانا ہے، آپ کے بعد آپ کے بچے آپ کی دی ہوئی تربیت کی وجہ سے سخاوت کو بروئے کار لائیں گے تو یہ سخاوت زمین کے نیچے آپ کے لیے اندھیرے میں چراغ کا کام کرے گی۔ ہم منت مانتے ہیں کہ فلاں کام ہو گیا تو اتنے نفل پڑھیں گے۔ اچھی بات ہے۔ مگر یہ منت کیوں نہیں مانتے کہ کام ہو گیا تو اتنے روپوں کی خیرات کریں گے یا اتنی گرم چادریں یا اتنی جیکٹیں یا اتنے سویٹر مزدوروں میں تقسیم کریں گے۔ صدقہ کرنے کے لیے کسی بیماری یا مصیبت کا انتظار کرنا ضروری نہیں۔ اس نیت سے بھی صدقہ کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والی بلائیں ٹل جائیں!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, December 28, 2021

خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں



چوبیس نومبر2021ء کو جو کچھ ہوا‘ وہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ایک مدت سے ایسا ہو رہا ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ تھم نہیں پائے گا۔ ایسا ہوتا رہے گا۔ ہماری زندگیوں میں! شاید ہمارے بعد بھی! کب تک ہوتا رہے گا ؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا!

یہ نومبر کا چوبیسواں دن تھا۔ کشتی فرانس کے ساحل سے چلی۔ اس نے رودبار انگلستان کو‘ جسے انگلش چینل بھی کہا جاتا ہے‘ پار کر کے برطانیہ کے ساحل تک پہنچنا تھا۔ کشتی کمزور تھی۔ڈوب گئی۔ پچاس میں سے سو مسافر ہلاک ہو گئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ تھے؟ برطانیہ کیوں جانا چاہتے تھے؟ کھلونا قسم کی کمزور جعلی کشتی ہی میں کیوں بیٹھے؟ یہ ستائیس ڈوبنے والے مہاجر‘ اور اس سے پہلے ہزاروں ڈوبنے والے بے گھر افراد‘ ملت اسلامیہ کے رخسار پر ایک طمانچہ ہیں! ایسا طمانچہ کہ انگلیوں کے نشان واضح ہیں۔ یہ عراقی تھے جو بھوک سے‘ افلاس سے‘ مذہبی اور مسلکی تفریق کی اذیت سے‘ موت سے ‘ بھاگ کر یورپ میں پناہ لینا چاہتے تھے۔ ان میں لڑکے تھے۔ جوان لڑکیاں بھی ‘ معمر افراد بھی۔فرانسیسی اور برطانوی حکومتوں کے متعلقہ محکموں نے ان کی لاشیں سمندر کی گہرائیوں سے نکالیں۔ ان پر کفن لپیٹے اور عراق واپس ان کے پسماندگان کو بھجوائیں! یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ شام سے‘ عراق سے‘ لبنان سے‘ صومالیہ سے‘ افغانستان سے مہاجر جب بھی نکلے‘ انہوں نے یورپ کا رخ کیا‘ اوقیانوس کے پار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف گئے یا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جا سر چھپایا۔

راچسٹر امریکی ریاست منی سوٹا کا ایک قصبہ ہے۔ اس کالم نگار کو وہاں چند ماہ رہنے کا اتفاق ہوا۔ چھوٹے سے قصبے میں ہزار ہا گھرانے صومالی مسلمانوں کے تھے۔ ان کی مسجدیں تھیں۔ ملازمتیں ملی ہوئی تھیں۔ گاڑیوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ ذاتی مکان تھے۔ کاروبار کے مالک تھے۔ آسٹریلوی شہروں میں صومالی‘ بوسنیائی اور لبنانی ‘ پناہ (Asylum)لے کر آئے۔ آج وہاں آباد اور خوشحال ہیں۔ مسجدیں ہیں۔ کروڑوں کے بزنس ہیں۔بازاروں میں شاپنگ کرتے پھرتے ہیں۔ اور تو اور ‘ ووٹ ڈالنے کے حقدار ہیں۔ انتخابات میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ آسٹریلیا میں لاکھوں ہزارہ آکر ماضی قریب میں آباد ہوئے ہیں جو کوئٹہ سے جان بچا کر آئے۔ ماضی قریب ہی میں جرمن حکمران‘ انگیلا میرکل ‘ نے اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا کر شامی مہاجرین کو پناہ دی اور پھر اپنی اس پالیسی کا مسلسل دفاع کیا۔

اس سوال کا جواب کون دے گاکہ یہ مسلمان مہاجر پچپن مسلمان ملکوں کا رُخ کیوں نہیں کرتے ؟اتنے بڑے بڑے اسلامی ممالک! جرمنی اور برطانیہ تو ان ملکوں کے ایک ڈویژن اور ایک ضلع کے برابر ہوں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے برطانیہ کا رقبہ کتنا ہے ؟ جرمنی کا کتنا ہے ؟ تو سنیے! برطانیہ کا رقبہ مشکل سے اڑھائی لاکھ مربع کلو میٹر ہے اور جرمنی کا ساڑھے تین لاکھ مربع کلو میٹر! ان کے مقابلے میں مسلمان ممالک دیو لگتے ہیں۔ مصر کا رقبہ دس لاکھ مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ ترکی کا پونے آٹھ لاکھ! پاکستان کا نو لاکھ سے ذرا ہی کم! سعودی عرب کا اکیس لاکھ سے بھی زیادہ! ایران کا سولہ لاکھ سے زیادہ! قازقستان کا ستائیس لاکھ! لیبیا کا سترہ لاکھ سے زیادہ! دولت کا یہ حال ہے کہ مراکش کے ساحلوں پر میلوں چلتے جائیے‘ مسلمان حکمرانوں کے محلات ‘ قطار اندر قطار‘ کھڑے ہیں جہاں صرف تعطیل منانے یہ حضرات تشریف لاتے ہیں۔ ایک ہزار مصاحب ہمراہ ہوتے ہیں۔ مرسڈیز کے بیڑے! جہازوں کی ڈاریں! سونے سے بنی ہوئی سیڑھیاں! جزیروں کے مالک یہ ‘ ایک ایک ارب ڈالر کا ان کا ایک ایک بجرا( یاچ)۔ صرف پاکستانی امرا کی دولت دیکھ لیجیے۔ آدھا لندن لگتا ہے ان کا ہے! شریفوں اور زرداریوں کے نام تو سامنے آگئے ‘ کتنے ہی پاکستانی کھرب پتی ہیں جن کے اثاثے اور جائدادیں یورپ اور امریکہ میں ہیں۔ مگر ملت اسلامیہ کے یہ قارون مسلمان مہاجرین کی مدد کرتے وقت دردِ قولنج میں مبتلا ہو جا تے ہیں۔ ان بے گھروں کو اپنے ملکوں میں پناہ دیتے ہیں نہ مالی مدد کرتے ہیں!

دوسری طرف شیخیاں ان کی بس سنتے جائیے ‘ حیران ہوتے جائیے اور شرم سے زمین میں گڑتے جائیے! اپنے آپ کو ساری دنیا سے افضل سمجھتے ہیں! جمہوریت کے خلاف خوب تقریریں کرتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ تو پھر ان عراقی‘ شامی‘ لبنانی‘ افغان اور صومالی مہاجرین کو روکتے کیوں نہیں کہ فرانس‘ جرمنی‘ آسٹریلیا ‘ امریکہ اور دوسرے ملکوں کی طرف نہ جاؤ کہ وہاں جمہوریت کا کافرانہ نظام ہے! افغانستان میں تین دن پہلے الیکشن کمیشن ختم کر دیا گیا ہے تا کہ جمہوریت کا قصہ ہی تمام ہو جائے‘ تو پھر مہاجرین کو اب رودبارِ انگلستان میں ڈوبنے کی ضرورت نہیں۔ افغانستان میں آکر پناہ لیں!

اس ذلت اور نکبت کے باوجود ‘ احساسِ زیاں مکمل طور پر مفقود ہے۔ پسماندگی اور غربت کا ذمہ دار بھی انہی ملکوں کو ٹھہرایا جاتا ہے جن ملکوں میں لاکھوں کروڑوں مہاجرین آباد ہوئے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ ان استعماری ملکوں نے لوٹ کھسوٹ مچائی اور قلاش کر کے چھوڑ گئے۔ تو آپ ان کا مقابلہ کرتے اور لوٹ کھسوٹ نہ کرنے دیتے۔ آپ کو کس نے منع کیا تھا ؟ اُس مائنڈ سیٹ کو کبھی الزام نہیں دیں گے جس کی وجہ سے مقابلے میں شکست کھائی۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں جب فرانسیسیوں نے پانڈی چری پر قبضہ کیا تو ان کے پاس جدید ترین بندوقیں اور توپیں تھیں جن کا ہندوستان میں تصور بھی نہ تھا۔ حالت یہ تھی کہ فرانسیسی لشکریوں کو مقامی نواب کرائے پر منگواتے تھے تا کہ مقامی حریفوں کو شکست دی جائے!اس لیے نہیں کہ فرانسیسی فوجی سولہ سولہ فٹ کے تھے۔ اس لیے کہ ان کے پاس وہ ہتھیار تھے جو مقامی حکمرانوں کے پاس نہیں تھے۔ بابر کو پانی پت کے میدان میں اس لیے فتح نہیں حاصل ہوئی تھی کہ وہ نیک تھا اور اس کے مقابلے میں ابراہیم لودھی گنہگار تھا۔ یہ فتح اس لیے ہوئی کہ مغلوں کے پاس توپخانہ تھا جو ہندوستانی فوج کے پاس نہیں تھا۔ہم نے پریس سے لے کر لاؤڈ سپیکر تک ہر نئی ٹیکنیک کو رد کیا اور جب قبول کیا تو تاخیر ہو چکی تھی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ جن ملکوں کا رقبہ اڑھائی لاکھ اور تین لاکھ مربع کلومیٹر ہے وہ تو مسلمان مہاجرین کو پناہ دے رہے ہیں مگر ان سے کئی گنا بڑے مسلمان ممالک میں جانے کا یہ مہاجرین سوچ بھی نہیں سکتے۔

شام سے تعلق رکھنے والے بے مثل خطاط‘ عثمان طہٰ کو سعودی عرب میں رہتے ہوئے33سال ہو گئے ہیں۔ بارہ بار وہ مکمل قرآن پاک ہاتھ سے لکھ چکا ہے۔ اس کی خطاطی انوکھی ہے۔ اس وقت دنیا میں شاید وہ اس میدان میں ٹاپ پر ہے۔ اب جا کر اسے ایک بڑے عرب‘ مقدس‘ ملک نے شہریت عطا کی ہے اور یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ تہلکہ برپا ہو گیا ہے اور ہیڈ لائن بنی ہے۔ اس کے مقابلے میں کافر ‘ جمہوری ممالک‘ کروڑوں مسلمانوں کو شہریت دے چکے ہیں اور مسلسل دیے جا رہے ہیں۔ لاکھوں تو خیراتی مکانوں میں رہ رہے ہیں اور نان و نفقہ کے لیے ہر ماہ یہ کافر ریاستیں ان فرزندانِ اسلام کو قومی خزانوں سے ڈالر‘ پاؤنڈ اور یورو بھی دے رہی ہیں!

مگر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں! آئیے آنکھیں بند کر کے اُن آنے والے زمانوں کا سو چیں جب یورپ ‘ امریکہ ‘ جاپان اور مشرقِ بعید کے لوگ مسلمان ملکوں میں بسنے اور شہریت حاصل کرنے کے لیے کمزور ‘ جعلی‘ کشتیوں میں سفر کریں گے۔خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, December 23, 2021

عجز صدیوں کا


ممتا بینر جی بنگالی برہمن ہیں۔ کلکتہ یونیورسٹی سے تاریخِ اسلام میں ایم اے کیا۔ پھر ایجوکیشن میں ڈگری لی۔ وکالت کا امتحان پاس کیا۔ مرکز میں وزیر رہیں۔ دس سال سے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ہیں۔ جب سے وزیر اعلیٰ بنی ہیں، تنخواہ نہیں لی۔ اپنی پینٹنگز بیچ کر اور اپنی تصانیف اور میوزک کی رائلٹی پر گزارہ کر رہی ہیں۔ سرکاری گاڑی نہیں استعمال کرتیں۔ آبائی گھر میں رہتی ہیں جو چھوٹا ہے، پرانا ہے اور گنجان آبادی میں واقع ہے۔ مرمت کے دوران بھی اسی گھر میں رہتی ہیں۔ بارش کے دوران اینٹوں پر پاؤں رکھ کر گھر میں داخل ہوتی ہیں۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی کابینہ میں ممتا بینر جی ریلوے کی وزیر تھیں۔ واجپائی ان کے گھر گئے تو گھر کی حالت دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے۔ سلیپر پہنتی ہیں۔گاؤں گاؤں پیدل دورہ کرتی ہیں۔ مگر مجھے ممتا بینرجی بالکل پسند نہیں۔
مشرقی جرمنی میں پیدا ہونے والی اینجلا مرکل سولہ سال جرمنی کی حکمران رہیں۔ ان کی نجی زندگی ان کی سرکاری زندگی سے بالکل الگ رہی۔ کبھی کوئی خبر ان کی نجی یا ازدواجی زندگی کے بارے میں باہر نہ آئی۔ ایک ہی رنگ اور ایک ہی سٹائل کا سادہ لباس پہنتی رہیں۔ کسی نے ان کے لباس کی سادگی پر کمنٹ کیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ لیڈر ہیں، ماڈل نہیں! ان کا میاں ان کے ساتھ سرکاری جہاز میں نہیں، الگ، اپنے بجٹ کے مطابق سفر کرتا تھا۔ مگر مجھے اینجلا مرکل بالکل پسند نہیں۔
مسلم لیگ نون کی نائب صدر ایک معروف سیاسی خاندان کی چشم و چراغ ہیں۔ مستقبل میں ان کے حکمران بننے کے امکانات ہیں۔ حال ہی میں ان کے صاحبزادے کی شادی خانہ آبادی ہوئی ہے۔ کئی دنوں اور کئی راتوں پر مشتمل اس شادی کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر خوب تشہیر ہوئی۔ بیٹے کی مہندی پر میڈم نے بھارتی ڈیزائنر ابھی نائو مشرا کے بنے ہوئے شیشے کے کام والے نیلے رنگ کا لہنگا چولی زیب تن کیا۔ مشہور ڈیزائنر بنتو کاظمی کے تیار کردہ ملبوسات نے مہندی کو چار چاند لگائے۔ دلہن نے آٹھ کلیوں والی قمیص اور کمخواب کا غرارہ پہنا اور ساتھ ٹشو کا دوپٹہ اوڑھا۔ قوالی والی رات دلہن نے لمبی پشواز اور لہنگا پہنا۔ ایچ ایس وائی بھی ٹاپ کلاس ڈیزائنروں میں شمار ہوتا ہے۔ دلہا نے انہی کی سلی ہوئی سفید رنگ کی شیروانی پہنی۔ اس کے بٹن پیتل کے تھے۔ ولیمے کی رات دلہا نے جس ڈیزائنر کا لباس پہنا وہ بھی کوئی عام ملبوس ساز نہ تھا۔ یہ فراز منان تھا۔ شیروانی کے بٹن سنہری تھے۔ ہر بٹن پر شیر کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ مناہل اینڈ مہرین بھی ایک ہائی کلاس ڈیزائنر ہے۔ دلہن نے ولیمے کی تقریب میں ان کا ملبوس پہن کر گویا انہیں اعزاز بخشا۔ یہ بڑے گھیر والا، دہلی سٹائل، کمخواب کا فرشی غرارہ تھا۔ دلہن کے لباس پر چاندی کی زردوزی تھی جس میں سنہری جھلکیاں تھیں۔ دھاگے کا کام گلابی رنگ کا تھا۔ سوزن کاری کے لیے اطالوی کپڑا چنا گیا تھا۔ غور سے دیکھنے پر سوزن کاری کے جوہر کُھلتے تھے۔ سارس، مور، انار اور دیگر طیور اور پھل کاڑھے گئے تھے۔ دوپٹے پر بھی بہت کام کیا گیا تھا۔ اس پر ہاتھ سے بنا ہوا کامدانی جال تھا۔ دوپٹے کے کناروں پر زردوزی کا کام کیا گیا تھا۔ ایلان بھی مہنگا ڈیزائنر ہے جس کا عام پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتا۔ مایُوں پر محترمہ نے ان کے تیار کردہ لباس کو اعزاز بخشا۔ کچھ ملبوسات سائرہ شاکرہ سے بنوائے گئے تھے۔ محترمہ کا انگرکھا ندا ازور نے بنایا تھا۔ ندا ازور بھی بہت بڑی اور خاص ڈیزائنر ہے۔ بیٹے کی برات پر محترمہ نے مخمل کا جو لہنگا چولی پہنا وہ مشہور ڈیزائنر نومی انصاری کا تیار کردہ تھا۔ اس پر سارا کام ہاتھ کا کیا ہوا تھا۔ یہ کام زردوزی، مکیش، نقشی، دبکہ اور موتی ستاروں پر مشتمل تھا اور سنہری شیڈ میں تھا۔ دوپٹے کے بارڈر پر گلاب کے چھوٹے چھوٹے پھول پرنٹ کیے گئے تھے۔ زیورات اور کھانوں کی تفصیل لکھی جائے تو اس سے بھی زیادہ طویل ہو گی۔ مسلم لیگ کی نائب صدر کا یہ شاہانہ معیار اور پھر میڈیا پر اس کی بھر پور کوریج مجھے بہت پسند آئی۔
ہم پاکستانی، مزاجاً، بادشاہوں کو پسند کرتے ہیں
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
ہم ہر اُس انداز پر فریفتہ ہیں جس سے بادشاہت کی یاد تازہ ہو۔ آپ اسلام آباد میں بنا ہوا وزیر اعظم کا دفتر ملاحظہ کر لیجیے۔ طرز تعمیر مغل دور کی یاد دلاتا ہے۔ ہم میں سے بہت لوگ بھٹو صاحب کے اس لیے شیدا تھے کہ وہ نفیس سوٹ پہنتے تھے اور انگریزی خوب بولتے تھے۔ جب وہ دلائی کیمپ بنانے لگ گئے تو ہم نے کندھے اچک کر کہا کہ بادشاہ ایسا کیا ہی کرتے ہیں۔ ضیا صاحب اور پرویز مشرف صاحب کے ادوار میں عوام اور خواص دونوں کی بھاری تعداد نے، ردِ عمل تو دور کی بات ہے، کسی ناپسندیدگی تک کا اظہار نہیں کیا۔ ضیا صاحب کے دور کی شوریٰ پر نظر دوڑائیے اور پرویز مشرف صاحب کے دائیں بائیں چلنے والے شہسواروں کو یاد کیجیے، جیالے اور متوالے سب دکھائی دیں گے۔ ہمیں بادشاہت کا کتنا ناسٹلجیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جنرل ایوب خان کو امیرالمومنین بنانے کی تجویز ایک سیاستدان سے منسوب ہے اور وردی میں دس بار منتخب کرانے کی بات تو ماضی قریب کی ہے۔ اگر جہاز کریش نہ ہوتا تو کون جانتا ہے ضیا صاحب کب تک حکمرانی کرتے رہتے۔ پرویز مشرف صاحب کو بھی مزید دس سال کے لیے پیٹریاٹس اور کوئی قاف لیگ ضرور مل جاتی۔ یہ تو ان کی اپنی غلطیاں تھیں جو ان کے اقتدار کے درپے ہوئیں۔ عوامی لہر تو کوئی نہ اٹھی۔ رہیں سیاسی جماعتیں تو وہ خاندانی جماعتیں ہیں۔ نوجوان اکبر اعظم کے سامنے جو حیثیت عمر رسیدہ عمائدین کی تھی، بالکل وہی حیثیت بلاول، مریم، حمزہ شہباز، مونس الٰہی اور مولانا اسعد محمود کے سامنے پارٹیوں کے معمر رہنماؤں کی ہے۔
عمران خان صاحب کے آنے پر ہم پریشان تھے کہ کہیں سچ مچ کا جمہوری کلچر نہ آ جائے۔ جو وعدے انہوں نے کیے تھے وہ بہت خطرناک تھے۔ یہ تو ان کا بھلا ہو کہ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر ہیلی کاپٹر پر آ جا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کو میاں نواز شریف ہی کی طرح اپنی حاضری سے محروم رکھا ہوا ہے۔ سب سے بڑے صوبے کی حکمرانی ایک غیر مستحق کو اسی طرح بخشی جیسے بادشاہ صرف اور صرف اپنی مرضی سے بخشا کرتے تھے۔ ہم ان سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ان کا طرزِ زندگی، طرزِ رہائش اور طرز حکومت شاہانہ ہے۔
شہزادوں اور شہزادیوں کی شادیوں پر پندرہ پندرہ دن سلطنت بھر میں جشن برپا کیے جاتے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے رہنماؤں کے بچوں کی شادیوں پر اسی طرح ملک گیر جشن منائے جائیں۔ عام تعطیل ہو۔ رعایا پر سکے پھینکے جائیں۔ قیدیوں کو آزاد کیا جائے۔ ڈاک کے خصوصی ٹکٹ جاری کیے جائیں۔ شہروں کے نام بدل کر دلہا اور دلہن کے ناموں پر رکھے جائیں۔ مسلم لیگ کی رہنما کے صاحبزادے کی شادی کی جو تفصیلات سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں، ان سے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک عوام میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہمارے رہنماؤں کو غریبوں سے محبت ہے۔ ان لیڈروں نے پوری پوری زندگیاں غریب عوام کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔ تو عوام کیوں نہ ان کی تقاریب پر خوش ہوں!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, December 21, 2021

بنگلہ دیش کیوں ہم سے آگے نکل گیا ؟



ہم پانی بلو رہے ہیں!
جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے ہم پانی میں مدھانی ڈالتے ہیں اور بلونا شروع کر دیتے ہیں۔ مکھن تو خیر کیا نکلنا ہے‘ کثافت کا ایک گولہ پانی کے اوپر تیرنے لگتا ہے۔کس کا قصور تھا؟ ہمارا نہیں تھا‘ اُن کا تھا۔ اُن کا نہیں‘ ہمارا تھا۔ نہیں‘ دونوں کا تھا۔ آدھا اُن کا‘ آدھاہمارا! ہم نے سبق کچھ نہیں سیکھا! ہم نے سبق سیکھا ہے! ہم نے سبق سیکھا ہے مگر پورا نہیں سیکھا۔ ایک گروہ کہتا ہے: ہم نے سبق سیکھا اور ایٹمی طاقت بن گئے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے: اگراُس وقت آپ ایٹمی طاقت ہوتے بھی تو کیا کر لیتے؟ مقامی آبادی مخالف ہو تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایک گروہ کہتا ہے :ہم نے سبق سیکھا اور اس کے بعد آئین کی حفاظت کی! دوسرا گروہ کہتا ہے: اگر ہم سبق سیکھتے تو مشرقی پاکستان کھونے کے بعد مارشل لا نہ لگنے دیتے! یہ کیسا سبق ہے کہ جس مارشل لا کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا‘ وہی مارشل لا بعد میں بھی لگتا رہا۔ اگر پہلے تئیس سالوں میں تیرہ سال مارشل لا رہا تو بعد کے پچاس برسوں کے دوران بھی بیس بائیس سال آمریت میں گزار دیے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اردو پورے بر صغیر میں سمجھی جاتی تھی اور بنگالی علاقائی زبان تھی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ باریسال‘ راجشاہی‘ نواکھلی‘ کھُلنا‘ بوگرہ‘ سلہٹ‘ کمیلا اور میمن سنگھ جا کر دیکھ لیجیے کہ اردو کہاں سمجھی جاتی ہے ؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر صاحب کی کتاب لاکھوں میں چھپی ہے اور انہوں نے بڑے بڑے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لیکچر دیے ہیں۔ دوسرا گروہ پوچھتا ہے کہ اگر یہ کتاب غیر جانبدار ہے تو بنگلہ دیش میں بھی بکی ہے یا نہیں اور کیا لیکچر ڈھاکہ اور چٹا گانگ کی یونیورسٹیوں میں بھی دیے جائیں گے یا نہیں ؟
یہ سب پانی بلونے والی بحث ہے۔ حاصل صرف یہ ہے کہ منہ کا ذائقہ خراب ہوتا ہے۔ یہ ویسی ہی بحث ہے جس کے بارے میں اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ؎
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
پچاس سال سے یہ بحث ہو رہی ہے مگر کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔ لاہور کی ایک کمیونٹی کی خواتین سارا دن جھگڑتی ہیں۔ رات کو سیز فائر ہو جاتا ہے۔ صبح ناشتے کے بعد ایک دوسرے کو بلاتی ہیں کہ آ ؤ بہنو! جھگڑا کریں! ہمارا بھی یہی حال ہے۔
اصل مسئلے کی طرف ہم آتے نہیں! جو ہوا سو ہوا! اب حال اور مستقبل کو دیکھنا چاہیے! کاش ہمارا حال ایسا ہو تا کہ بنگلہ دیش ہماری ترقی دیکھ کر ہاتھ مل رہا ہوتا کہ کیوں الگ ہوا؟ آج بنگلہ دیش کے معاشی اشاریے ہمارے اشاریوں کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ علیحدگی کے وقت ان کی آبادی زیادہ تھی‘ ہماری کم۔ آج صورت حال اُلٹ ہے۔ کپاس ہم پیدا کرتے ہیں‘ ملبوسات ان کے بنے ہوئے دنیا بھر میں فروخت ہو رہے ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ آخر اس طرح کیوں ہوا؟ بنگلہ دیش‘ بچے کھچے پاکستان سے کیوں آگے نکل گیا ؟ تجزیہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل اسباب دکھائی دیتے ہیں :
اوّل: بنگلہ دیش لسانی اور نسلی اعتبار سے ایک وحدت ہے۔ بہت سے مسائل‘ اس حوالے سے‘ جو ہمیں درپیش رہے ہیں اور آج بھی درپیش ہیں‘ بنگلہ دیش ان سے بچا ہوا ہے۔ معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے یہ ایک بہت بڑا عامل ہے۔ دوم:ہم نے دو طویل مارشل لا بھگتے۔ مارشل لا کے اصل نقصانات‘ مارشل لا کے دوران نہیں‘ مارشل لا کے بعد نظر آتے ہیں۔ دس گیارہ سال جنرل ضیا الحق اور دس گیارہ سال جنرل پرویز مشرف کا اقتدار رہا۔ پاکستانی طویل عرصے کے لیے جمہویت سے محروم رہے۔ مائنڈ سیٹ متاثر ہوئے۔ جمہوری پراسیس جاری رہے تو عوام اپنے مسائل اور ضروریات کے بارے میں حساس رہتے ہیں۔ مگر مارشل لا انہیں تھپکی دے کر سلا دیتا ہے یا دھونس سے چُپ کرا دیتا ہے۔ سیاست دانوں کوساتھ ملا لیا جاتا ہے یا رسوا کیا جاتا ہے۔ اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہتا۔ آمر کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار تخت سے اترا تو تختہ تو مل سکتا ہے‘ دوبارہ تخت پر بیٹھنا نصیب نہیں ہو گا‘ اس لیے وہ ہر قیمت پر اپنے اقتدار کو طول دیتا ہے۔ اقتصادی ترقی اس کے نزدیک ضروری نہیں ہوتی! یوں ملک کئی اعتبار سے رجعت ِقہقہری کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہی کچھ‘ دونوں دفعہ‘ ہمارے ساتھ ہوا۔ سوم: بنگلہ دیش کی قسمت اچھی ہے کہ اس کا بارڈر کسی افغانستان کے ساتھ نہیں ملتا۔ پاکستان چار دہائیوں سے اس دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور تاحدِ نظر اس دلدل کے خاتمے کے آثار نہیں دکھائی دے رہے۔ پاکستان کی یہ بد قسمتی 1979ء میں شروع ہوئی۔ اُس وقت ملک میں آمریت تھی۔ فردِ واحد نے اپنی مرضی سے فیصلے کیے۔افغانوں کی مدد کرنا ایک اور بات تھی مگر آمرِ وقت نے پاکستانی سرحدوں کو عملاً کالعدم قرار دے دیا۔ لاکھوں مہاجرین آموجود ہوئے۔ ان پر کسی قانون یا کسی پابندی کا اطلاق نہ ہوا۔ انہوں نے معیشت پر ایک لحاظ سے دھاوا بول دیا۔پھر دنیا بھر کے جنگجوؤں کو پاکستان میں لا بسایا گیا‘ دہشت گردی نے ہماری معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایسی صورتحال بنگلہ دیش کے ساتھ پیش آتی تو اس کا حال شاید پاکستان سے زیادہ بُراہوتا! ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بڑوں کو پاکستان سے زیادہ افغانستان کی فکر ہے۔ چہارم: بھارت کے ساتھ جس قسم کا معاندانہ سلسلہ چل رہا ہے اور کشمیر کا ایشو جس طرح ہمارے لیے اہم ہے اس کے پیش نظر دفاعی ضروریات‘ اقتصادی تقاضوں پر فوقیت رکھتی ہیں۔یہ ایک بہت بڑا عامل ہے جس سے بنگلہ دیش کو پالا نہیں پڑا۔پنجم: ایک طویل عرصہ سے ہم نے دو بیانیوں پر زور رکھا ہوا ہے۔ ایک یہ کہ اسلام خطرے میں ہے۔دوسرا یہ کہ پاکستان خطرے میں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کچھ ہو جائے تو ہم ایک عجیب‘ خود اذیتی سے بھر پور‘ رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنی املاک تباہ کرتے ہیں۔ اپنے راستے بند کرتے ہیں۔ ایسے ایسے مطالبات کر تے ہیں جو باقی چوّن مسلمان ملکوں میں سے کوئی بھی نہیں کرتا۔ ہم اپنی معیشت کو خود نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہم یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں کہ دوسروں سے بہتر مسلمان ہیں۔ کسی بھی ملک کے مسلمان ایسا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ یہ مائنڈ سیٹ ہماری معاشی ترقی کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
ششم:تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اقتصادی احتیاج کا ایک بڑا سبب ہے۔ بنگلہ دیش نے آبادی میں اضافے کی شرح کو کامیابی سے کنٹرول کیا ہے۔ ہماری آبادی سرکاری اعداد و شمار کے حساب سے بائیس کروڑ ہے مگر اصل میں اس سے زیادہ ہے۔ ایسے علاقے بہت سے ہیں جن کا مخصوص سماجی ماحول درست مردم شماری کے راستے میں حائل ہے۔ ہفتم: بنگلہ دیش جاگیرداری اور سرداری نظام سے پاک ہے۔ یہ ایک بڑا سبب تھا دونوں ملکوں کی عدم موافقت کا! جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے لاکھوں کروڑوں ہاری غربت کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں۔ کوئی گرامین بینک ان کا سیاہ بخت روشن نہیں کر سکتا۔ حالت یہ ہے کہ اچھے بھلے تعلیم یافتہ افراد سرداری نظام کو روایت اور کلچر کہہ کر اس کا دفاع کرتے دیکھے گئے ہیں۔ مائکرو فنانس سسٹم اور گارمنٹ انڈسٹری نے بنگلہ دیش کے عام شہری کے وارے نیارے کر دیے جبکہ ہمارا عام آدمی ابھی تک کوئلوں پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کر رہا ہے۔
کچھ اسباب نا گفتنی بھی ہیں۔ ان کا اندازہ آپ خود لگا ئیے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, December 20, 2021

ایک قیمتی تحفہ



یہ وہ زمانہ تھا جب تاتاریوں نے مسلمان ملکوں میں قتل و غارت پھیلا رکھی تھی۔ ان کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک تاتاری دس دس پندرہ پندرہ مسلمانوں کو ہانکتا لے جا رہا ہوتا تھا۔ ایسے ہی دن تھے جب ایک عمر رسیدہ شریف آدمی کو ایک تاتاری نے پکڑ لیا اور غلام کے طور پر فروخت کرنے کے لیے منڈی میں لے گیا۔ ایک گاہک نے دس ہزار اشرفیوں کی پیشکش کی۔ قیدی نے تاتاری کو متنبہ کیا کہ اتنا سستا نہ بیچو‘ میری قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تاتاری خوش ہوا کہ اس سے بھی زیادہ دولت ہاتھ آئے گی۔ اتنے میں ایک اور گاہک نے قیدی کو بھوسے کی بوری کے بدلے میں خریدنا چاہا۔ قیدی نے کہا: بھوسے کی بوری لے لو‘ میری حیثیت تو اس سے بھی کم ہے۔ اس پر تاتاری بھنّا اٹھا اور قیدی کو تہ تیغ کر دیا۔ (بعض روایتوں میں بھوسے کی بوری کے بجائے گھاس کے گٹھے کا ذکر ہے)
یہ شہر نیشا پور تھا جو آج کل ایران کے شمال مشرق میں، مشہد سے پچھتر کلومیٹر دور واقع ہے۔ معمر قیدی فریدالدین عطار تھے جو شاعروں کے شاعر اور صوفیوں کے صوفی تھے۔ سال 1221 تھا‘ یعنی دہلی میں قطب الدین ایبک کے تخت نشین ہونے اور سلاطین کا دور شروع ہونے کے تیرہ سال بعد۔ عطار کے قتل کی یہ روایت، بہر طور، متنازعہ ہے تاہم بزرگوں کے جو محیرالعقو ل اور ناقابل یقین واقعات مشہور ہیں ان کے مقابلے میں یہ روایت کم از کم مافوق الفطرت نہیں۔ یہاں تو عجیب و غریب واقعات سننے اور پڑھنے میں آتے ہیں۔ کبھی کتابیں پانی میں بھیگتی نہیں! کبھی پہاڑ سے گرتی ہوئی چٹان ہاتھ سے روک لی جاتی ہے۔ کبھی انسان ہوا میں اُڑ رہا ہے۔ جبھی تو شاعر کو کہنا پڑا:
خود پیر تو نہ اُڑ سکا، پر لے اڑے مرید
بیٹھے بٹھائے پیر کو طائر بنا دیا
یوں بھی غور کرنے کا مقام ہے۔ ہم اپنے بزرگوں کو داستانوں اور روایتوں میں ہوا میں اڑاتے رہے۔ اس کے مقابلے میں اہل مغرب نے ہوائی جہاز بنایا اور سچ مچ اُڑنے لگے۔
منطق الطیر حضرت خواجہ فرید الدین عطار کی متعدد تصانیف میں سے مشہور ترین تصنیف ہے جو مثنوی کی صورت میں ہے۔ ویسے عطار کی ذہانت کے کیا ہی کہنے! قرآن پاک سے کیا ہی زبردست عنوان لیا ہے۔ یہ سورۃ النمل کی سولہویں آیت ہے: اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے، اور کہا‘ اے لوگو ہمیں منطق الطیر سکھائی گئی! یعنی پرندوں کی بولی سکھائی گئی! عطار کیمیا دان تھے اور طبیب۔ تصوف کی طرف کیسے مائل ہوئے؟ اس ضمن میں بھی ایک روایت مشہور ہے۔ عطار اپنی دکان پر کاروبار میں مصروف تھے۔ ایک فقیر آیا اور صدا لگائی۔ عطار مصروف تھے۔ کوئی توجہ نہ دی۔ فقیر نے پوچھا: کیسے مرو گے؟ آپ نے تنک کر جواب دیا: جیسے تم مرو گے۔ فقیر نے پوچھا: کیا میری طرح مرنا چاہو گے؟ یہ کہہ کر فقیر نے لکڑی کا پیالہ، جو اس کی کُل متاع تھا، سرہانے رکھا، زمین پر دراز ہوا، کلمہ پڑھا اور دنیا سے رخصت ہو گیا۔ عطار نے یہ منظر دیکھا تو دل کی دنیا درہم برہم ہو گئی۔ دنیا اور اس کے علائق کو ترک کیا اور اُس راہ پر نکل گئے جس کی وجہ سے آج تک ان کا نام اور کام زندہ ہے ورنہ کیمیا دان اور طبیب تو لاکھوں کروڑوں ہوئے۔ خواجہ فرید الدین عطار کا مقام تصوف اور ادب دونوں لحاظ سے بہت بلند ہے۔ عطار اس مقام تک پہنچے کہ رومی نے بھی کہا:
ہفت شہرِ عشق را عطار گشت
ما ہنوز اندر خمِ یک کوچہ ایم
کہ عطار عشق کے سات شہروں کو سر کر چکے اور ہم ابھی گلی کے موڑ پر ہیں۔
عطار کی یہ مثنوی علم و حکمت کے جواہرات کا ذخیرہ ہے۔ مشرق و مغرب میں اس کی دھوم ہے۔ دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے۔ ادب میں علامت کا استعمال ہمیشہ رہا ہے مگر جس طرح عطار نے ہُد ہُد کو اور اساطیری پرندے سیمرغ کو اور باقی پرندوں کو علامتوں کے طور پر استعمال کیا ہے اس کی مثال ہے نہ جواب! پرندے ہُد ہُد کی قیادت میں اپنے ان دیکھے بادشاہ سیمرغ کی جستجو میں سفر کرتے ہیں۔ ان میں توتا ہے اور چکور، تیتر ہے اور بلبل، مور ہے اور بٹیر، فاختہ ہے اور قمری، باز ہے اور مرغِ زریں‘ اور سارے جہان کے پرندے! یہ جان جوکھوں کا سفر ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے سات دشوار گزار وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلی وادی طلب کی ہے۔ دوسری وادی عشق کی ہے۔ تیسری وادی معرفت کی ہے۔ چوتھی وادی استغنا کی ہے۔ پانچویں وادی توحید کی ہے۔ چھٹی وادی حیرت کی اور ساتویں وادی فقر و غنا کی ہے۔ ان وادیوں اور گھاٹیوں کی صعوبتوں سے بہت سے پرندے جان سے گئے۔ کچھ دریاؤں میں ڈوب گئے۔ کچھ پیاسے مر گئے۔ بعض کو درندوں نے مار دیا۔ کچھ لا پتہ ہو گئے۔ کچھ تھکاوٹ کے مارے پیچھے رہ گئے۔ آخر میں صرف تیس پرندے منزل پر پہنچے۔ مگر منزل پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ تیس پرندے خود ہی سیمرغ تھے۔ (سیمرغ کا لغوی معنی بھی تیس پرندے ہی ہے) یعنی انسان جب ذات و صفات میں گم ہو جاتا ہے تو اپنے آپ کو پا لیتا ہے۔ عطار کے الفاظ میں
''جب تم تیس پرندے ہماری درگاہ میں حاضر ہوئے تو اس آئینے میں تم نے تیس پرندے دیکھے۔ تم بہت زیادہ مسافت طے کر کے آئے ہو لیکن یہاں آ کر تم نے اپنی ہی ہستی دیکھی ہے۔ تم نے گویا اپنے آپ ہی کو تلاش کیا ہے۔ آخر کار وہ پرندے ہمیشہ کے لیے اُس کی ذات میں غائب ہو گئے یعنی سایہ دھوپ میں گم ہو گیا اور بس‘‘
چار ہزار سے زیادہ اشعار کی یہ طویل نظم دنیا کے کلاسکس میں سے ہے۔ کوئی ترجمہ یا تلخیص اصل کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
عطار کا ذکر یوں چھڑ گیا کہ بُک کارنر جہلم سے عزیزم گگن شاہد نے منطق الطیر کا ضخیم مگر دیدہ زیب، نیا چھپا ہوا، خوبصورت تحفہ بھیجا ہے۔ یہ ایک قیمتی تحفہ ہے۔ قیمتی اُس قیمت کے اعتبار سے نہیں جو کتاب کی پشت پر درج ہے بلکہ اُس خزانے کے اعتبار سے جو کتاب کے 723 صفحات میں چھپا ہے۔ فارسی سے نابلد شائقینِ ادب کے لیے یہ ایک خوانِ یغما ہے۔ یہ ترجمہ محبوب کاشمیری صاحب نے کیا ہے اور محنت اور جانکاہی سے کیا ہے؛ تاہم، جیسا کہ کلامِ پاک میں فرمایا گیا ہے، فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْـمٌ۔ ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے۔ اگر پروفیسر معین نظامی یا پروفیسر شعیب احمد جیسے زعما، جو فارسی زبان و ادب پر غیر متنازعہ اتھارٹی ہیں، یہ کتاب ایک نظر دیکھ لیتے تو بہتر ہوتا۔ صرف ایک مثال دینا واضح کردے گا کہ یہ تجویز کیوں دی جا رہی ہے۔ دیباچے میں قوّت اور قُوت ہم معنی برتے گئے ہیں۔ مگر قوّت اور قُوت جو بظاہر ایک ہی لفظ لگتے ہیں، دو الگ الگ الفاظ ہیں۔ قوت میں واؤ پر تشدید ہے۔ اس کا معنی طاقت ہے مگر قوت، حور، نور اور دور کے وزن پر ہے یعنی Qoot اس کا مطلب خوراک ہے۔ اسی سے قوتِ لا یموت بنا ہے۔ یعنی اتنی سی غذا جو بس موت سے بچائے رکھے۔ بہر طور مترجم اور ناشر دونوں تبریک کے مستحق ہیں۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, December 16, 2021

ایک اور سولہ دسمبر


مادھو نے یہ کینٹین ‘ ٹھیک ایک سو سال پہلے‘1921ء میں شروع کی۔یہ وہی سال ہے جب ڈھاکہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ 1905ء کی تقسیمِ بنگال ‘ قیامِ پاکستان کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔ مشرقی بنگال اور آسام کو‘ جہاں مسلم اکثریت تھی‘ الگ صوبہ قرار دیا گیا۔ ڈھاکہ اس صوبے کا صدر مقام تھا۔ یہ تقسیم مسلمانوں کے مفاد میں تھی۔ انہیں ترقی کے مواقع ملنے تھے۔ مگر کانگرس اور دیگر ہندو لیڈروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ انہوں نے تقسیم کے خلاف ایک منظم مہم چلائی اور بالآخر 1911ء میں انگریز سرکار نے یہ تقسیم منسوخ کر دی؛ تاہم مسلمانوں کی علیحدگی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ نواب سر سلیم اللہ کی قیادت میں مسلمانوں کے وفد نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کیا۔یہ وہی نواب سلیم اللہ ہیں جنہوں نے1906ء میں مسلم لیگ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔نواب صاحب نے اپنی جائداد سے چھ سو ایکڑ ڈھاکہ یونیورسٹی کے لیے وقف کیے۔ مغربی بنگال کے ہندو طنز سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکہ یونیورسٹی کہتے تھے۔
مادھو نے یونیورسٹی حکام کی اجازت سے یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے کھانے پینے کا بندو بست شروع کیا اور پھر مادھو کی کینٹین‘ یونیورسٹی کی ضرورت بن گئی۔ سیاست ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے ہمیشہ آکسیجن کی طرح رہی ہے۔ لامحالہ طلبہ تنظیموں کے نمائندے بھی کینٹین میں آکر بیٹھتے تھے۔ یوں کینٹین ہمیشہ سے سیاسی سر گرمیوں کا مرکز رہی۔ اس کالم نگار نے بھی یونیورسٹی میں قیام کے دوران اس کینٹین سے اڑھائی برس تک ‘ دوستوں کی معیت میں‘ چائے پی اور سموسے کھائے۔ مادھو کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اگر طلبہ کینٹین میں بیٹھ کر سیاسی بحثیں کرتے تھے تو وہ کیا کر سکتا تھا۔مگر طاقت نے کبھی منطق دیکھی نہ انصاف کیا۔ 25 مارچ 1971ء کو ایکشن شروع ہوا۔ اگلے دن مادھو کی بیوی‘ بیٹا اور بہو موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔پھر مادھو بھی مار دیا گیا۔ مگر طاقت سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ مادھو کی کینٹین آج بھی چل رہی ہے۔ بنگلہ دیش ہر شعبے میں پاکستان سے آگے  ہے۔اس کا شمار تائیوان‘ جنوبی کوریا اور سنگاپور جیسے ایشین ٹائیگرز کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ حیران کن حقیت  یہ ہے  کہ جس مشرقی پاکستان کی آبادی ، مغربی پاکستان سے  کہیں زیادہ تھی ، آج ساڑھے سولہ کروڑ  ہے اور موجودہ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے!

کالم نگار کو وہ شام کبھی نہیں بھولتی جب وہ ڈھاکہ یونیورسٹی لائبریری میں اپنے بنگالی کلاس فیلو کے ساتھ بیٹھا تھا۔ باہر شام کے سائے لمبے ہورہے تھے۔ لیچی اور املی کے درختوں کے پتے سینہ کوبی کر رہے تھے۔ اندر پنکھے تیزی سے چل رہے تھے۔ ملک کی حکمرانی جنرل ایوب خان سے جنرل یحییٰ خان کو منتقل ہو چکی تھی۔ کلاس فیلو کا ایک ہی سوال تھا : ''گیارہ برس ایک جرنیل کی حکومت رہی۔ اب دوسرا آگیا ہے۔ ہماری باری کبھی آسکتی ہے؟ ‘‘۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد سولہ دسمبر آج پچاسویں بار آیا ہے۔ نصف صدی بیت چکی ہے مگر ہم پاکستانیوں کی اکثریت آج بھی حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پچاس برس سے بھاری اکثریت کابیانیہ وہی چلا آرہا ہے کہ بنگالیوں پر ہندوؤں کا اثر تھا۔ یہ کہ وہ کم تہذیب یافتہ تھے۔ یہ کہ یہ غلط ہے کہ ان کا استحصال ہوا۔ یہ کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک سازش تھی۔ یہ کہ اس میں غیر ملکی ہاتھ ملوث تھا۔ حقائق سے عدم واقفیت‘ یا تعصب‘ یا ذہنی انجماد تاریخ میں قابلِ دست اندازیٔ پولیس کبھی نہیں رہے۔ مولوی صاحب لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ گاؤں کے باہر جو گندا جوہڑ ہے اس کے پانی سے وضو نہیں ہوتا۔ ایک کسان اٹھا۔ کہنے لگا: مولانا! میں تو ہر روز اسی کے پانی سے وضو کرتا ہوں! میرا تو ہو جاتا ہے۔ ہمارے بیانیے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ بہت سے لکھاری سابق مشرقی پاکستان کی سیاسی حرکیات کی الف بے بھی نہیں جانتے نہ انہیں وہاں کی سماجی بُنت کا علم ہے۔انہیں کون بتائے کہ جب وہاں دکاندار سے کسی شے کا بھاؤ پوچھا جاتا تو فرض کیجیے وہ آٹھ آنے بتاتا تو پوچھنے والا اسے تھپڑ رسید کرتا اور چار آنے دے کر شے لے جاتا۔ انہیں کون بتائے کہ اُس وقت کے معتبر (سرکاری) اخبار پاکستان ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ مشرقی پاکستان کے وسائل مغربی پاکستان پر خرچ ہوئے۔ سوال یہ نہیں کہ آرمی نے کیا کیا اور مکتی باہنی نے کیا کیا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے چوبیس سال کیا ہوتا رہا ؟ کیوں ہوتا رہا؟مشرقی پاکستان کی عددی برتری کو جھٹلانے کے لیے ون یونٹ کیوں بنایا گیا؟ کوئٹہ‘ کراچی پشاور گلگت جیسے دورافتادہ مقامات کے لوگوں کو اپنے کاموں کے لیے لاہور آنے پر کیوں مجبور کیا جاتا رہا؟ صرف اس لیے کہ مشرقی پاکستان کے نمائندوں کی تعداد کو مصنوعی طور پر کم کیا جائے ؟ اکثریت کی زبان کو‘ جو دوسری زبانوں کی نسبت زیادہ پرانی‘ زیادہ ترقی یافتہ تھی‘ کیوں نظر انداز کیا گیا؟ ملک کا بے تحاشا نقصان ہونے کے بعد زبان کے معاملے میں جو اقدام بعد میں کیا گیا‘ پہلے کیوں نہ کیا گیا؟ حیرت ہے کہ آج بھی کہا جا تا ہے کہ عوامی لیگ کے چھ نکات سے ملک عملاً ٹوٹ جاتا! تو چھ نکات نہ مان کر کیا آپ نے ملک کو بچا لیا؟ اللہ کے بندو! کنفیڈریشن کے علاوہ اکٹھا رہنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ مجیب الرحمان شامی صاحب نے ایک انٹرویو میں اس مسئلے پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ ہاں! میں نہ مانوں کا علاج بقراط کے پاس بھی نہیں۔ شامی صاحب کہتے ہیں ''آج میں پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ جب مشرقی پاکستان پر ملٹری ایکشن ہوا تھا اور اس وقت وہاں جو تحریک چل رہی تھی صوبائی خود مختاری کی اور شیخ مجیب کا جو نقطہ نظر تھا میں اس کا کماحقہ ادراک نہیں کر سکا... زمینی حقائق کا تقاضا یہ تھا کہ دونوں کے درمیان ایک کنفیڈریشن ہو اور دونوں حصوں کو یکساں حقوق دیے جاتے حتیٰ کہ اگر علیحدہ علیحدہ ملک بننے کی بھی صورت ہوتی تو دونوں حصے پُر امن مذاکرات کے ذریعے الگ الگ ہو جاتے تو یہ باہمی فساد کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتا‘‘۔
ایک موقف یہ ہے کہ غلطیاں دونوں طرف سے ہوئیں ! یہ بھی عجیب ہی موقف ہے!  وفاق آپ کے پاس تھا۔ عساکر آپ کے پاس تھے۔ فیصلہ کرنے کا اختیار آپ کے  پاس تھا۔  پالیسی ساز آپ تھے۔وہاں تو  بیورو کریسی بھی یہاں سے  بھیجی جاتی تھی۔ وہ تو  زیر دست تھے۔تو دونوں کی غلطیاں برابر کیسے ہو گئیں ؟ یہ ماننے میں کیا حرج ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں جو حق انہیں ملنا چاہیے تھا وہ انہیں نہیں دیا گیا۔ ستم در ستم یہ کہ باقی ماندہ پاکستان میں پھر وہی غلطیاں دہرائی جا رہی ہیں۔ دور افتادہ مقامات کو لاہور ‘ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی کے ساتھ باندھ کر رکھا جا رہا ہے۔ ملک کی بقا ارتکاز میں نہیں ‘ تنوّع میں ہے۔ نئے صوبے بنائیے یا ضلعی حکومتوں کو اختیارات دیجیے ! انتظامی اختیارات اور اس سے بھی زیادہ ضروری مالی اختیارات ! دنیا کہاں پہنچ گئی ہے اور آپ کہاں ہیں !
کلیاں نوکِ سناں سے چٹکیں‘ غنچے کٹ کے شگفتہ ہوئے
کاش یہ فصلِ خونِ بہاراں اور نہ کھینچے طول یہاں

Tuesday, December 14, 2021

خشک پتے ‘ مری غیرت کے اصول



سرما آتا ہے تو دل کا ہر تار گٹار بن جاتا ہے۔اسلام آباد میں یوں بھی خزاں ہمیشہ دلکش رہی ہے۔ بہت سے درختوں کے پتے سرخ ہو جاتے ہیں۔ بالکل لہو کی طرح۔ نظریں ان سے ہٹانے کو دل نہیں کرتا۔ جھڑی لگی ہو تو اس کا اپنا مزا ہے۔لڑکپن میں جب شادی اور نوکری‘ دونوں سے آزاد تھے تو رضائی اوڑھ کر‘ آگ تاپتے ہوئے کتابیں پڑھنے میں کتنا مزا آتا تھا۔ ڈاکٹر ژواگو اور'' گان وِد دی وِنڈ‘‘ جیسے ناول ایسی ہی سردیوں میں پڑھے۔تب گلوبل وارمنگ کا فتنہ برپا نہیں ہوا تھا۔دار الحکومت کی شاہراہوں پر صبح سویرے منجمد پانی کے صاف شفاف ٹکڑے عام نظر آتے تھے۔ بارش میں سٹریٹ لائٹس لرزتی دکھائی دیتی تھیں۔ ہم ان لوگوں میں سے تھے جنہیں سرما میں جاں بخش مشروب اور گراں قدر خشک میوے میسر نہیں تھے مگر ہم سرما سے امرا کی نسبت کہیں زیادہ لطف اندوز ہوتے تھے۔ہم تو یہ حسرت بھی کرتے تھے کہ کاش اس شہر پر برف گرتی اور ہم اُس انگریزی اور روسی ادب کا زیادہ مزا لیتے جس میں برفباریوں کے تذکرے تھے۔
سرما کے تین رنگ ہیں اور تینوں دلکش ! تیز دھوپ ہو تو چارپائی پر دراز ہو کر غنودگی کے دریا میں غوطے کھانے کا کیا ہی لطف ہے۔ اس سے پہلے اگر گھنی لسی کے بھی ایک دو گلاس چڑھا لیے جائیں تو نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ شاید اسی حالت کو جون ایلیا حالتِ حال کہتے تھے! دنیا وما فیہا سے بے خبری‘ لاتعلقی اور بے نیازی ! بیٹی نے بطخیں پال رکھی ہیں۔ ان کی‘ سماعت کو چیر دینے والی‘ تیز‘ قَیں قَیں بھی اس غسلِ آفتابی میں خلل نہیں ڈال سکتی! دوسرا رنگ وہ ہے جب سورج بادلوں کے پیچھے چھپا ہو۔ بارش ہو یا محض گھٹا‘ دونوں صورتوں میں گرم کمرہ اور رضائی بہترین پناہ گاہ ہیں بشرطیکہ کھڑکی کے شیشوں سے گھٹا‘ یا بارش‘ نظر آرہی ہو! بقول منیر نیازی:
مینہ‘ ہوا‘ طوفان‘ رقصِ صاعقات
آسماں پر بادلوں کے قافلے بڑھتے ہوئے
اور مری کھڑکی کے نیچے کانپتے پیڑوں کے ہات!
تیسرا رنگ وہ ہے جب دھوپ ہو مگر بہت ضعیف! ہم اٹک والے ایسی نحیف دھوپ کو چِٹکا کہتے ہیں! اس دھوپ کو بھی چھوڑا نہیں جا سکتا بشرطیکہ گرم چادر اوڑھی ہوئی ہو! گرم چادر ! سبحان اللہ ! سرما میں گرم چادر کیا ہی قیمتی نعمت ہے ! آج کل کے فیشنی لوگوں کو کیا معلوم کہ کسی بھی کوٹ یا جیکٹ کی نسبت گرم چادر سردی سے زیادہ بچاتی ہے۔ ہماری نسل نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب نانیاں دادیاں سوتی چادریں تیار کرتی تھیں جنہیں کھیس کہا جاتا تھا۔ کپاس گھر کی ہوتی تھی یعنی اپنے کھیتوں سے۔ چرخے پر اس روئی کو کات کر دھاگہ بنایا جاتا تھا۔ پھر وہ جولاہے کو دیا جاتا تھا جو کھڈی پر کھیس بنتا تھا۔ بڑے بوڑھے یہ کھیس اوڑھ کر بیٹھتے تو کھیس کے کناروں پر لٹکتے ہوئے دھاگوں کو بل دے دے کر بٹتے رہتے۔ یوں کھیس دونوں طرف سے پائدار ہو جاتا۔ ایک ماہیا بھی اس حوالے سے مشہور ہے
دھاگے کھیساں دے
کھنب پئے چھنڈ دِن پَکھی بیگانیاں دیساں دے
اس کالم نگار کو اس کی دادی جان نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا کھیس دیا تھاجو ان کی وفات کے بعد بہت زیادہ عزیز تھا۔ ایک دن دفتر سے آیا تو اہلیہ پریشان دکھائی دیں۔ لباس تبدیل کر کے آرام سے بیٹھ چکا تو انہوں نے تمہید باندھی کہ بعض اوقات ایسے حادثے پیش آتے ہیں کہ ہمیں عزیز از جان چیزوں سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔ یوں ذہنی طور پرتیار کر کے بتایا کہ بڑی بیٹی نے کپڑے استری کرتے وقت اس کھیس کو میز پر بچھایا کہ وہی نزدیک پڑا تھا۔ پھر جانے کیا ہوا اور کیسے ہوا کہ کھیس استری سے جل گیا اور درمیان میں اچھا خاصا سوراخ ہو گیا۔صدمہ تو گہرا تھا مگر کیا ہو سکتا تھا۔یوں بھی بچوں کو‘ خاص طور پر بیٹیوں کو‘ کسی مادّی یامالی نقصان پر عمر بھر کبھی نہیں ڈانٹا۔ دادی جان بار بار تصور میں چرخا کاتتے نظر آتیں۔ چند دن کے بعد دفتر میں اچانک خیال آیاکہ شاید رفوگر کے پاس اس فٹ بال جتنے بہت بڑے سوراخ کا کوئی علاج ہو۔ اُن دنوں ایک شاہ جی دن کے وقت گھر آکر کام وام کر دیا کرتے تھے۔ انہیں فون کیا کہ کھیس دفتر لے آئیں۔ شاہ جی آئے تو انہوں نے جو خبر دی وہ اہلیہ کے اس قول پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہی تھی کہ انسان کو عزیز ترین اشیا سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔ شاہ جی نے کھیس سائیکل کے پچھلے کیرئیر پر رکھا تھا۔ کیرئیر کی گرفت ڈھیلی تھی۔ کھیس راستے میں کہیں گر گیا۔ یوں رفو گر کے پاس جانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ اب رفو گری کا ذکر ہوا ہے تو دو شعر اس مضمون کے یاد آرہے ہیں۔ ایک تو مصحفی کا شہرہ آفاق شعر ہے اور کیا غضب کا شعر ہے ؎
مصحفی! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
دوسرا شعر معین نظامی کا ہے ؎
ہماری خوب گزرتی تھی موسمِ گْل میں
رفو گروں کے محلے میں گھر ہمارا تھا
گئے وقتوں میں کاریگروں کے اپنے اپنے محلے ہوتے تھے۔ کہیں زین سازوں کا محلہ تھا تو کہیں آہن گروں کا! کہیں قالین بافوں کا کوچہ تھا تو کہیں ظروف سازوں کا۔ رفو گروں کا بھی الگ محلہ ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی دارالحکومت میں بتیس پیشوں والے رہا کرتے تھے تا کہ شہر کے مکینوں کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں!
سرما کا ایک مزا یہ بھی ہے کہ اس موسم میں سیر خوب ہو سکتی ہے اور طویل بھی۔ گر می میں سیر کرنا گناہِ بے لذت سے کم نہیں ! ہاں سرما میں سیر کے دوران‘ پارکوں اور باغوں میں پاؤں کے نیچے آتے‘ ہوا میں اُڑتے‘ خشک پتے دل میں درد کا شدید احساس پیدا کرتے ہیں۔یہ پتے اپنی اپنی شاخوں سے ٹوٹتے ہیں۔ اس کے بعد زمانہ انہیں چین نہیں لینے دیتا۔ کبھی ہوا ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پھینکتی ہے۔ کبھی چلنے والوں کے پیروں تلے آ کر چٹختے ہیں اور زبانِ حال سے اپنی در بدری کا رونا روتے ہیں۔ ہم جیسے سر پھرے کم ہی ہوں گے جو اِن خشک‘ بے گھر پتوں کا دکھ سمجھتے ہیں اور ان کے بارے میں سوچتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کی ایک نظم ہے جس کا عنوان ہی '' خشک پتے‘‘ ہے!
جب ذرا تیز ہوا آتی ہے/ خشک پتوں کی صدا آتی ہے / خشک پتّے مرے عمروں کے رفیق / خشک پتے مری تنہائی کے پھول / خشک پتے مری غیرت کے اصول !!
ان پتوں سے قصور کیا ہوا؟ یہی کہ اپنی ٹہنی سے ٹوٹے۔ اپنے گھر کو چھوڑا۔ جو اپنی اصل کو چھوڑ دے‘ اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔ مسلسل ہجرتیں! نقل مکانیاں! کوئی اور سرزمین اپناتی نہیں! پاسپورٹ مل جاتا ہے مگر پوچھنے والے پوچھ کر اور جان کر رہتے ہیں کہ اصلاً کہاں سے ہو؟ ''نژاد‘‘ کا لفظ نسلوں کی جان نہیں چھوڑتا!
اب تو صحن نہیں رہے۔ وہ منظر کتنا دل دوز ہوتا تھا جب آدھی رات کو کمرے سے باہر نکلتے تھے اور صحن چاندنی میں نہا رہا ہوتا تھا۔شکیب جلالی نے کسی ایسی ہی رات کو یہ شعر کہا ہو گا ؎
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, December 13, 2021

ہمارے عزائم اور ہماری حالت



خارجہ محاذ پر کامیابیاں جاری ہیں۔ وفاقی وزیر دفاع نے سانحۂ سیالکوٹ پر جو پُر مغز اور حکمت بھرا بیان دیا ہے، سری لنکا کے وزیر برائے پبلک سکیورٹی، جناب سارتھ ویرا سیکارا، نے اس پر ہمارے وزیر صاحب سے معذرت کا مطالبہ کیا ہے!
داخلی محاذ پر کامیابیاں اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کس کی تعریف کی جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے۔ سرکار کے تحت جو پرائمری اور ہائی سکول چل رہے ہیں، ان کا ذکر تو رہنے ہی دیجیے کہ دیواریں ہیں تو چھتیں نہیں اور چھتیں ہیں تو پڑھانے والے نہیں! اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے عین وسط میں واقع بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے امور پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ کسی فرد یا کسی نجی ادارے یا کسی نیم سرکاری تنظیم کی طرف سے ہوتی تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا مگر یہ رپورٹ پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی ہے۔ اس رپورٹ کی رو سے (1) اس بات کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ ڈین اور صدر شعبہ کی کئی اسامیوں پر تعیناتیاں متعلقہ قوانین کو پامال کر کے کی گئی ہیں۔ (2) کئی تعیناتیاں تا حکم ثانی کی گئی ہیں حالانکہ مدت کا تعین لازمی ہوتا ہے۔ تا حکم ثانی کا مطلب ہے کہ جس کی تقرری کی جا رہی ہے اسے تقرری کرنے والے کا باجگزار ہو کر رہنا ہو گا ورنہ حکم ثانی کسی وقت بھی جاری کر کے تقرری ختم کی جا سکتی ہے۔ ایسے زنجیر نما احکامات سے جو تعلیمی اور علمی آزادی حاصل ہوتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ (3) یونیورسٹی کے نائب صدور کی تعیناتیاں مکمل غیر شفاف انداز میں، من مانے طریقے سے کی گئی ہیں۔ اس ضمن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکام کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ (4) کثیر تعداد میں ملازمتیں وقتی اور کنٹریکٹ کی بنیاد پر، بغیر کسی مقابلے کے، کی گئی ہیں۔ (5) اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ یونیورسٹی کے ریکٹر کو امام محمد بن سعود یونیورسٹی، ریاض، سے بھاری ادائیگیاں ہوتی رہی ہیں جن کا کوئی جواز پیش نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ادائیگیاں کنسلٹی فیس بھی قرار نہیں دی جا سکتیں کیونکہ موصول ہونے والی رقوم کا تواتر اور مقدار دونوں بتا رہی ہیں کہ یہ تنخواہ ہے۔ ڈبل تنخواہ وصول کرنا مالی بد معاملگی (مِس کنڈکٹ) میں شمار ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ ایف بی آر اور ایف آئی اے دونوں اس معاملے کو دیکھیں تاکہ تفتیش بھی ہو اور سزا بھی دی جائے۔ (6) ریکٹر کی دوسری ٹرم کے لیے جو تنخواہ فکس کی گئی ہے وہ بورڈ آف گورنرز نے مجاز اتھارٹی (چانسلر) کی منظوری کے بغیر کی ہے۔ (7) ریکٹر پر غیر قانونی ہاؤس رینٹ وصول کرنے کا بھی الزام ہے۔ (8) یونیورسٹی کے ایک نائب صدر پر الزام ہے کہ وہ نامناسب وڈیوز بنانے میں ملوث ہے۔ اس الزام کی صحیح انکوائری نہیں کرائی گئی۔ جس طرح تفتیش نچلی سطح پر اسی نائب صدر کے ماتحتوں سے کرائی گئی اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کی تفتیش کے لیے اعلیٰ سطح پر کمیٹی بنائی جائے جس میں ایف آئی اے، آئی بی، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت تعلیم کے نمائندے شامل ہوں۔ مزید یہ کہ نائب صدر کو انتظامی عہدے سے ہٹایا جائے۔ (9) کلیدی نکتہ رپورٹ کا یہ ہے کہ یونیورسٹی شدید مالی اور انتظامی بدنظمی کا شکار ہے۔ ریکٹر اور یونیورسٹی کے صدر کے درمیان مسلسل کشمکش ہے۔ یونیورسٹی کے ضابطوں کو دیگر وفاقی یونیورسٹیوں کے برابر لانے کی ضرورت ہے۔
اسی قائمہ کمیٹی کے ایک رکن نے اسی یونیورسٹی کے حوالے سے بتایا کہ طالبات کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ پیش آیا جبکہ یونیورسٹی اس سانحہ کو دبانے کی کو شش کر رہی ہے۔ کمیٹی کے ایک اور رکن نے بہاولپور یونیورسٹی کے بارے میں بتایا کہ سات ارب کی بے ضابطگیوں کا معاملہ ہے۔ دس ہزار طلبہ کی گنجائش تھی مگر ساٹھ ہزار کو داخل کیا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے بارے میں بھی سن لیجیے۔ یہ تین دسمبر کا واقعہ ہے۔ طلبہ نے وائس چانسلر کے دفتر کا گھیراؤ کر لیا۔ پھر دفتر کے اندر گھس گئے۔ دفتر کے دروازے اور شیشے توڑ دیے۔ مختلف گروہوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی اور پتھراؤ بھی!
اگرچہ یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبہ کی جانب سے رد عمل ظاہر کیا گیا ہے ‘ لیکن رپورٹ بہت کچھ بتا رہی ہے۔ یہ دور افتادہ قصبوں کے پرائمری سکولوں کا حال نہیں، یہ لاہور اور اسلام آباد کے شہروں میں واقع ملک کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں کا حال ہے۔ جب ریکٹر اور اساتذہ کی سطح پر اخلاق اور قانون کی دھجیاں اڑائی جائیں گی تو طلبہ اور طالبات کیا سیکھیں گے اور مستقبل میں دوسروں کو کیا سکھائیں گے۔ یہ کیسی درس گاہیں ہیں جن میں دفتروں کا گھیراؤ کیا جاتا ہے، شیشے اور دروازے توڑے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے پر پتھر پھینکے جاتے ہیں۔ ہاتھا پائی ہوتی ہے۔ مگر اس میں تعجب بھی کیسا! یہی ہمارا وتیرہ ہے! یہی ہمارا شعار ہے! اسمبلیوں کے اجلاس ہوں یا ٹاک شو، بازار ہوں یا شاہراہیں، گلی محلے ہوں یا بسوں کے اڈے یا ریلوے سٹیشن، یہی مناظر نظر آتے ہیں۔ یہ ہماری شناخت بن چکی ہے۔
کسی ملک کا تہذیبی گراف ماپنے کے لیے زیادہ افلاطون بننے کی ضرورت نہیں۔ صرف دو پہلو جانچ لیجیے۔ نمبر ایک ٹریفک۔ اگر یہ کہا جائے کہ جس ہڑبونگ اور لاقانونیت کا مظاہرہ ہماری ٹریفک کر رہی ہے اس کی مثال کسی مہذب ملک میں شاید ہی ملے تو غلط نہ ہو گا۔ کروڑوں موٹر سائیکل کسی بھی قسم کے ضابطے اور ترتیب سے ماورا ہیں۔ ڈمپر اور ٹریکٹر ٹرالیاں ہزاروں شہریوں کو کچل چکی ہیں۔ پہلے موٹر وے کی ٹریفک کی مثال دی جاتی تھی۔ اب وہاں بھی قانون کی پاسداری پہلے جیسی نہیں رہی۔ ریلوے کا گلا ایک سازش کے تحت اس لیے گھونٹا گیا تھا کہ ٹرکوں کی بادشاہت ہو۔ اس سازش میں ایک حکمران اور اس کے حواری شریک تھے۔ اب پورے ملک کی ٹریفک ان ٹرکوں کے بے مہار لشکروں کو بھگت رہی ہے اور ریلوے کا شعبہ اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ ٹریفک پولیس پر ہر سال اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ بس یوں سمجھیے یہ اربوں روپے سو فیصد ضائع ہو رہے ہیں۔ نمبر دو‘ باتھ روم یعنی بیت الخلا۔ ہمارے گھر ہیں یا مسجدیں یا ریستوران، بیت الخلا اور واش روم چیخ چیخ کر ہمارے جنگلی پن کی گواہی دے رہے ہیں۔ کئی مسجدوں کے وضو خانوں میں مسواک رکھے ہیں جنہیں کوئی بھی استعمال کر کے واپس اسی جگہ رکھ دیتا ہے۔ سوائے فائیو سٹار ہوٹلوں اور غیر ملکی فاسٹ فوڈ کے ریستورانوں کے، کہیں بھی صاف بیت الخلا دیکھنے میں نہیں آتے۔ موٹر وے پر کچھ عرصہ سے الگ انتظام کیا گیا ہے۔ پچاس روپے دیجیے اور صفائی سے لطف اندوز ہوں۔ سب سے زیادہ اذیت جی ٹی روڈ پر سفر کے دوران پیش آتی ہے۔ تقریباً ہر پٹرول پمپ پر بیت الخلا موجود ہے مگر وہ گندگی کا بد ترین نمونہ ہوتا ہے۔ فلش کرنے والی ٹنکی کام نہیں کر رہی ہوتی۔ فرش، سیمنٹ کا ہونے کے باوجود کیچڑ سے لتھڑا ہوتا ہے۔ دروازے کی کنڈی کبھی لگتی ہے کبھی نہیں! یہ بیت الخلا ہمارے تہذیبی گراف کی ٹھیک ٹھیک نمائندگی کرتے ہیں۔
انفرادی اور اجتماعی، خاندانی اور قومی، ہر سطح پر ہم زبوں حالی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ رہے ہمارے عزائم تو وہ خاصے بلند ہیں۔ وائٹ ہاؤس پر سبز پرچم لہرانا ہے۔ دنیا کی امامت کرنی ہے! ہماری کیا بات ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, December 09, 2021

کچھ تذکرے الگ نوعیت کے—4-


''جناح ایونیو (ڈھاکہ) میں ہماری خاص پسندیدہ جگہ بے بی آئس کریم تھی۔ جب کبھی ہوسٹل وارڈن کی رضا مندی اور اپنی قسمت کے ستارے مل جاتے تو ہم وہاں جانے کا پروگرام ضرور بنا لیتے تھے۔ بے بی آئس کریم میں ہماری نظر ہر دفعہ ایک نوجوان پر ضرور پڑتی تھی جو ہمیشہ دور کونے میں خاموشی سے بیٹھا ہوا پایا جاتا تھا۔ وہ شخص کافی خوش شکل تھا۔ آنکھیں بھوری تھیں۔ دبلا پتلا اور خوش لباس تھا۔ عجیب بات ہے کہ وہ شخص آئس کریم کھانے کے بجائے بس چپ چاپ بیٹھا رہتا تھا۔ شاید وہ وہاں کا منیجر تھا‘ یا شاید نہیں کیونکہ ہم نے کبھی اسے انتظامات کرتے یا گاہکوں سے بات کرتے ہوئے نہ دیکھا تھا۔ نرگس نے کہا: یہ کوئی پراسرار آدمی ہے۔ میں نے جواب دیا: ممکن ہے بے چارہ بولنے سے قاصر ہو۔ انہی دنوں پاکستان میں ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تھا اور پاکستان کے چند شہروں میں تجرباتی سٹیشن بنائے گئے تھے۔ پاکستان ٹیلی وژن ڈھاکہ کے پائلٹ پروگراموں کا نشریاتی سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ مختصر دورانیہ کی ان نشریات میں اردو، بنگالی اور انگریزی کی خبریں پیش کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ بنگالی اور کبھی کبھار اردو نغمے بھی نشر کیے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ رات کے وقت کھانے کے بعد نرگس، شاہینہ اور میں خلاف معمول ٹی وی دیکھنے بیٹھ گئیں۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ٹی وی سکرین پر وہ خاموش طبع پراسرار شخص گانا گاتا ہوا نظر آیا۔ نرگس نے چلا کر کہا: وہ دیکھو بے بی آئس کریم والا بندہ‘ میں یہ دیکھ کر حیران تھی کہ یہ شخص نہ صرف بول سکتا ہے بلکہ بہت اچھا گانا بھی گا رہا ہے۔ کمال ہے۔ قریب بیٹھی ہوئی ایک بنگالی لڑکی نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا: بھئی! یہ تو مشہور گلوکار نذیر بیگ ہے! بعد میں یہی گلوکار نذیر بیگ اداکار ندیم بنا اور جلد ہی پاکستانی فلم انڈسٹری پر چھا گیا‘‘۔
یہ اقتباس سلمیٰ علی خان کی نئی تصنیف 'دوپٹہ ڈھاکے کی ململ کا سے‘ ہے۔ سلمیٰ آپا ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہم سے سینئر تھیں۔ ہم جب1967 میں گئے تو سلمیٰ اس سے ایک سال پہلے تعلیم مکمل کر کے واپس آ چکی تھیں۔ ڈھاکہ میں بسنے والے اڑیسہ کے ایک خاندان میں ان کی شادی ہوئی۔ اگر آپ بر صغیر کے نقشے پر اڑیسہ دیکھیں اور پھر سلمیٰ کا گاؤں چونڈہ (سیالکوٹ)، تو آپ کو اس کہاوت پر یقین آ جائے گا کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ سلمیٰ اس سے پہلے اپنے والد کی سوانح 'پدرم حکیم بود‘ کے عنوان سے لکھ کر داد وصول کر چکی ہیں۔ اس کے بعد ان کی یہ تصنیف پڑھ کر سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اپنی خود نوشت لکھیں تو کیا ہی دل پذیر کتاب ہو گی۔ اس میں اڑیسہ سے لے کر ڈھاکہ تک، چونڈہ سے لے کر ملتان تک، لاہور سے لے کر پشاور تک، اور اس کے ساتھ ساتھ، دنیا کے کئی ملکوں کے تذکرے ہوں گے۔ سلمیٰ کا اسلوب اتنا دلچسپ ہے کہ کتاب شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر چین نہیں آتا۔ آغازِ شباب کی نرم ہلکورے لیتی یادیں، سہیلیوں کے ساتھ گزارے گئے وقت کے قیمتی ٹکڑے، اجنبی دیاروں کی جھلکیاں، دوران تعلیم پیش آنے والے واقعات‘ جو اُس وقت کے مشرقی پاکستان کے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں، پھر طرز تحریر کی بے ساختگی، یہ سارے عوامل مل کر کتاب کو بے حد دلچسپ اور Readable بنا رہے ہیں۔ نئی نسل صرف اس پاکستان سے واقف ہے جو کبھی مغربی پاکستان تھا۔ ہم لوگ جنہوں نے اصل پاکستان کو دیکھا ہے، جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان ثقافت، لینڈ سکیپ اور تاریخ کے حوالے سے کتنا بڑا خزانہ تھا۔ سلمیٰ آپا کی یہ کتاب ہمارے لیے نوسٹیلجیا اور نئی نسل کے لیے معلومات کا قیمتی خزانہ ہے۔ خاص طور پر چٹا گانگ، کاکسس بازار، سلہٹ، کُھلنا، میمن سنگھ کے تذکرے! کیا کہنے! پھر کتاب کا عنوان 'دوپٹہ ڈھاکے کی ململ کا‘ جس میں ایک طرف صنف نازک کی دلبری ہے تو دوسری طرف وہ لہو ہے جو ململ بنانے والے کاریگروں کے انگوٹھے کاٹ کر بہایا گیا تھا۔
ایک اور نئی کتاب فرخ یار کی 'دو راہے‘ ہے جو مقامات، بھاشا، اساطیر اور عقائد پر مشتمل ہے۔ فرخ یار جدید نظم کا ایک اہم نام ہے۔ فرخ فیوڈل اور بینکار ہونے کے باوجود، اصلاً دانشور ہیں اور علمِ بشریات کے ماہر! کتاب کا دیباچہ انہوں نے خود لکھا ہے۔ سترہ صفحات کا یہ دیباچہ، بر صغیر کی تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تشکیل کا بہترین تجزیہ ہے اور کئی کتابوں پر بھاری! تاریخ اور ثقافت کے طالب علم کے لیے یہ مضمون ایک ریفرنس بُک سے کم نہیں!
فرخ بہت سی اصطلاحات اور عوامی بولیوں (سلینگ) کی اصل بتاتے آگے گزرتے جاتے ہیں۔ بونگا، ہندی لفظ بھونگا کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کا معنی بے وقوف کے ہیں۔ پُٹھار، پُٹھ سے نکلا ہے جس کا معنی سرین ہے۔ ابھری ہوئی جگہ۔ اونچا اٹھا ہوا زمین کا رقبہ! اسی سے پوٹھوہار بنا۔ نیلام، انناس، پادری، پیپا، سنگترہ، تولیہ اور بیرل کے الفاظ پرتگالی سے اردو میں آئے ہیں۔ پھٹیچر پھٹ اور چیر کا مرکب ہے۔ خستہ حال، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس شخص۔ تلنگا، جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ کا شہری، وہ شخص جو تلگو زبان بولتا ہو۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں مرہٹے شمالی ہند پر چڑھ دوڑے اور پنجاب میں بھی اودھم مچا دیا۔ ان میں بہت سے لوگ تلنگانہ سے تھے؛ چنانچہ پنجاب میں تلنگا کی اصطلاح آوارہ اور منہ زور شخص کے طور پر رواج پا گئی۔ سکول ماسٹر کا پس منظر یوں ہے کہ یورپ میں بورڈنگ سکول ایک نجی کاروبار تھا۔ اس کے مالک سکول ماسٹر کہلاتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ لفظ ٹیچر کے لیے استعمال ہونے لگا۔ باجرا آج کی شہری نسل نے دیکھا تک نہیں۔ سو سال پہلے یہ جنوبی ایشیا کا مقبول کھاجا تھا۔ جہانگیر نے اپنی تزک میں باجرے کی کھچڑی کا ذکر کیا ہے۔ اورنگ زیب عالم گیر کی خوراک ہی یہی تھی۔ اب تو گیت ہی رہ گیا۔ باجرے دا سٹہ اسی تلی تے مروڑیا۔ بائی کا لفظ سنسکرت میں معزز عورت کے لیے تھا‘ جیسے جودھا بائی‘ لکشمی بائی۔ مغلوں کے عہد زوال میں یہ لفظ اعلیٰ درجے کی طوائفوں نے بھی اپنا لیا۔ پنجاب میں یہی لفظ مائی ہو گیا۔ جاگیردار خواتین اور سیدانیوں کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ ڈاک کا لفظ ڈک سے نکلا ہے۔ پراکرت میں ڈک کا مطلب ہے روکنا۔ پہلے سرکاری خطوط کو فوراً پہنچانے کے لیے معینہ مقامات پر تازہ دم گھوڑوں والی چوکیاں بنائی جاتی تھیں۔ ہرکارہ پچھلی چوکی سے پہنچتا تو اسے روک کر تھیلا دوسرے ہرکارے کو دے دیا جاتا۔ آہستہ آہستہ خطوط پہنچانے کے اس عمل کو ڈاک کہا جانے لگا۔ ٹنچ بھاٹہ راولپنڈی کا گنجان علاقہ ہے۔ انگریزی دور شروع ہوا تو یہاں اینٹوں کے بھٹے لگائے گئے۔ اینٹوں کے لیے مٹی کی ضرورت تھی؛ چنانچہ نالیاں اور خندقیں کھودی گئیں۔ کھائی یا خندق کے لیے انگریزی میں ٹرینچ (Trench) کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ٹرینچ بھاٹہ سے ٹینچ بھاٹہ ہو گیا۔ مقامی لوگ صرف ٹنچ بھی کہتے ہیں۔ الغرض فرخ کی یہ کتاب بہت سے عقدے کھولتی ہے۔
برادرم خالد مسعود خان کی تین کتابیں بیک وقت نازل ہوئی ہیں۔ سفر کے زائچے، زمستاں کی بارش اور سفر دریچے۔ تینوں تصانیف کمال کی ہیں۔ جتنی صحت مند اندر سے ہیں اتنی ہی باہر سے سمارٹ! بس ایک ذرا کمزور ہے۔ اس کمزوری کی واحد وجہ یہ کہ اس کا دیباچہ اِس بے بضاعت نے لکھا ہے۔ تینوں میں سے یہ کون سی ہے؟ یہ آپ خود ڈھونڈ لیجیے!

Tuesday, December 07, 2021

ہمارا زرعی فارم



بہت خواہش تھی کہ ہمارا بھی ایک زرعی فارم ہو۔
جب دیکھتے تھے کہ ہمی جیسے کئی افراد بڑے بڑے فارموں کے مالک ہیں‘ پھل اور اناج اگاتے ہیں‘ پھر فروخت کر کے روپیہ کماتے ہیں‘ جانور پالتے ہیں‘ پرندے رکھتے ہیں‘اور فارم کے اندر ہی بڑی بڑی رہائشگاہیں بنا کر مزے سے رہتے ہیں تو سچی بات ہے‘ رشک آتا تھا؛ چنانچہ ہم نے ایک بڑا سا قطعۂ زمین حاصل کیا۔یہ بنجر تھا۔ اس میں ہل چلایا۔ پتھر اور چٹانیں ہٹائیں۔ زمین کے نیچے سے پانی نکالا۔ نہریں کھودیں۔ پودے اور گھاس لگائی۔ ثمر دار درخت لگائے۔ اناج کی فصل اگائی۔ مویشی لا کر رکھے۔ ان مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے۔ پھر خوبصورت پرندے اور دلکش جانور منگوائے۔مور‘ تیتر‘ آسٹریلین طوطے‘ ہرن اور نہ جانے کیا کیا! دور و نزدیک سے بچے آتے۔ پرندوں اور جانوروں کو دیکھ کر خوش ہوتے۔ ہم نے ملازموں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ بچوں سے پیار کیا جائے اور ان کے خور و نوش کا بندو بست کیا جائے۔ چند ہی برسوں میں ہمارے فارم نے خوب ترقی کی۔ گندم کی پیداوار ہر سال بڑھنے لگی۔ کھا کر اور احباب کو پیش کرنے کے بعد بھی منڈی میں فروخت کرنے کے لیے پھل وافر بچتے۔
اڑوس پڑوس کے زرعی فارموں کے مالکان سے ہمارے بہت اچھے روابط تھے۔ سوشل لائف خوب تھی۔ ہم لوگ ایک دوسرے کی دعوتیں کرتے۔ ایک دوسرے کی تقاریب میں شرکت کرتے۔ ایک دوسرے کے کام آتے۔ تمام خاندان باہم محبت سے رہ رہے تھے۔ یہ ایک پُر امن کمیونٹی تھی۔ اس میں کسی قسم کی تلخی یا بدمزگی کا گزر نہ تھا۔ اعتماد کی فضا تھی۔ امن و امان تھا۔ چوری ڈاکے کا نام و نشان نہ تھا۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ کسی فارم کی پیداوار بہت زیادہ ہوئی تو کسی نے حسد کیا ہو۔ حسد تو دور کی بات ہے یہا ں تو پیداوار بڑھانے کی ترکیبیں اور نسخے آپس میں شیئر کیے جاتے۔ افسوس کا موقع ہو یا مسرت کا‘ سب اکٹھے ہوتے۔ دُکھ بھی سانجھے تھے اور سکھ بھی۔
ایک دن ایک صاحب تشریف لائے۔ ہمارے ایک دوست نے ان کے بارے میں فون کر کے بتایا کہ بہت اچھے انسان ہیں۔ جہاندیدہ اور تجربہ کار! ہمارا فارم دیکھنا چاہتے تھے۔ دوست کی فرمائش تھی کہ انہیں اپنے فارم کی سیر کرا دیجیے۔ چونکہ ہمارے دوست کا حوالہ تھا‘ ہم نے صاحب کی پذیرائی کی۔ چائے پلائی‘کھانا کھلایا۔ سادہ سے انسان لگتے تھے۔ سوتی تہمد۔ کھدر کا کرتا‘ سر پر صافہ‘ پاؤں میں پرانی وضع کی دیسی جوتی! ایک ہاتھ میں عصا‘ دوسرے میں تسبیح۔ بات چیت ہوئی تو واقعی جہاندیدہ اور گرم و سرد چشیدہ نکلے۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا تھا۔ دلچسپ گفتگو کرتے۔ایسے ایسے واقعات سناتے کہ سننے والا ہمہ تن گوش رہتا۔ رخصت ہونے لگے تو ہم نے ایک بوری گندم اور کچھ پھل پیش کیے مگر انہوں نے شکریہ ادا کرنے کے بعد قبول کرنے سے معذرت کر لی۔ کہنے لگے: بیٹا کچھ نہیں چاہیے‘ بس تم برا نہ مانو تو کبھی کبھی چکر لگا لیا کروں! ہم نے کہا: جناب ضرور! جب بھی تشریف لائیں گے ہمیں خوشی ہو گی۔ صاحب مہینے میں ایک دوبار آتے۔ خوب مجلس آرائی ہوتی۔ ہمارے گھر والے بھی ان کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے۔ منیجر اور ملازمین بھی ان سے کافی مانوس ہو گئے تھے۔ بچوں سے بھی بے تکلفی ہو چکی تھی۔
ایک دن تشریف لائے تو خلاف معمول زیادہ دیر ٹھہرے۔ عام طور پر دواڑھائی گھنٹے فارم میں رہتے مگر جس دن کی ہم بات کر رہے ہیں اُس دن صبح سے شام تک رہے۔ہماری ایک عرصہ سے عادت ہے کہ دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کرتے ہیں۔پھر اُٹھ کر چائے پیتے ہیں۔ ہم پسند کرتے ہیں کہ چائے کا یہ کپ اکیلے میں نوش کریں مگر اس دن صاحب کو بھی شریک کرنا پڑا کیونکہ ابھی تک وہ گئے نہیں تھے۔ یہی وقت تھا جب ہمارے اور ان کے علاوہ کوئی اور موجود نہ تھا۔ کہنے لگے : ایک بات کرنی ہے آپ سے! ہم نے کہا: فرمائیے! کہنے لگے کہ آپ کے فارم کے عقب میں کن صاحب کا فارم ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہمارے دوست ہیں خانزادہ صاحب ! بہت اچھے انسان ہیں۔ ان کی بیگم کا ہمارے گھر والوں سے بہت ملنا جلنا ہے! سن کر صاحب خاموش رہے مگر بدن بولی بتا رہی تھی کہ ان کی بات ختم نہیں ہوئی۔ہم نے پوچھا کہ آپ نے یہ استفسار کس سبب سے کیا ؟ قدرے تامّل سے گویا ہوئے کہ خان زادہ صاحب کے فارم میں مرغیوں کے ڈربے پیلے زعفرانی رنگ کے ہیں۔ یہ رنگ بہت خطرناک ہے۔ جہاں اس رنگ کی کوئی عمارت یا ڈربہ یا کوئی اور چیز ہو وہ ارد گر د کے ماحول کے لیے سخت مضر ہوتی ہے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے۔ صاحب سے اب اتنا گہرا تعلق تھا کہ ان کی بات پر شک کرنے کا کوئی امکان ہی نہ تھا۔ اُسی وقت یاد آیا کہ کچھ دن پہلے خانزادہ صاحب ہمیں بہت عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہمیں یقین ہو چکا تھا کہ خانزادہ اچھا آدمی نہیں۔ اس کا یہاں رہنا سب کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم نے صاحب سے اس مسئلے کا حل پوچھا۔ کہنے لگے: براہِ راست بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس تم اپنے فارم میں کچھ سانپ پال لو۔انہیں خوب دودھ وغیرہ پلاؤ۔ جب موٹے تازے ہو جائیں تو رات کی تاریکی میں ان کے فارم میں چھوڑ دو۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ سانپوں نے خانزادہ کے فارم پر خوب تباہی مچائی۔ بچے بھی دیے۔ کچھ ہی عرصہ میں خانزادہ صاحب فارم چھوڑ کر چلے گئے۔ پتا نہیں کہاں گئے۔ فارم سانپوں کی وجہ سے بدنام ہو چکا تھا۔ وہاں جنگل بن گیا۔ پھر صاحب نے ہمیں دائیں طرف والے فارم کے بارے میں بتایا کہ ان لوگوں کے مویشیوں والے بڑے کمرے کا دروازہ مشرق کے رخ کھلتا ہے اور یہ بات سخت بے برکتی اور متعدد خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کو بھگانے کے لیے صاحب نے مشورہ دیا کہ بھیڑیے کے بچے پالے جائیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ جب بچے بڑے ہو کر باقاعد خونخوار بن چکے تو ایک رات دائیں طرف والے فارم میں پہنچا دیے۔ صبح تک بھیڑیے ان کی مرغیوں اور بکریوں کو ہڑپ کر چکے تھے۔ چونکہ سانپوں اور بھیڑیوں کی پرورش ہمارے فارم میں ہوئی تھی اس لیے یہ اسے اپنا گھر سمجھتے تھے۔ اور آکر کئی کئی دن یہیں رہتے تھے۔
آہستہ آہستہ تمام فارموں والے فارم چھوڑ کر چلے گئے۔ ارد گرد کی جگہ ایک بے آباد خرابے میں تبدیل ہو گئی۔ ایک دن ملازم نے بتایا کہ بھیڑیے ر ات کو ہمارے ہی بچھڑے کھا گئے۔ کچھ دن بعد رپورٹ ملی کہ سانپوں نے ہمارے ہی دو ملازموں کو ڈس لیا ہے۔ دونوں جانبر نہ ہو سکے۔ یہ بیچارے وہی تھے جو ہمارے حکم سے ان سانپوں کو دودھ پلاتے رہے تھے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ فارم پر سانپوں اور بھیڑیوں کا قبضہ ہے۔ اس اثنا میں ناگنوں نے بیشمار انڈے دیے ہیں جن سے بچے نکلے ہیں۔ بھیڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ ہمارا فارم مکمل طور پر ان کی ملکیت میں آچکا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی جانور غائب ہوتا ہے۔ ہرن اور مور ہڑپ کیے جا چکے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ خوبصورت رنگین پرندے ہجرت کر گئے ہیں‘ کاش! ہم دوسروں کے لیے یہ سانپ اور بھیڑیے نہ پالتے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, December 06, 2021

آدم بو، آدم بو


مسئلہ یہ نہیں کہ ہجوم گردی یہاں انسانوں کو ہلاک کر رہی ہے اور ایک عرصہ سے ہلاک کر رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں طاقت ور کو سزا نہیں ملتی خواہ وہ قتل ہی کیوں نہ کر دے۔ اور ہجوم یہاں طاقت ور ہے۔

ہجوم ہو یا ریاست، جاگیردار ہو یا پولیس، پلوٹوکریسی (دولت شاہی، دھَن راج) کا رکن ہو یا قانونی ماہرین یا کسی سامراجی قوت کا نمائندہ، یہ سب اس ملک میں قتل کا ارتکاب کرنے کے بعد سزا سے بچ جاتے ہیں! بچ نہیں جاتے، بچائے جاتے ہیں۔ ان طاقت ور عناصر کو، کوشش کر کے، جدوجہد کر کے، قانون کی گرفت سے بچایا جاتا ہے۔ کوئی ایک مثال بھی شاید نہ ملے جس میں کسی طاقت ور عنصر کو سزا ملی ہو۔ ماضی قریب ہی کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ کوئٹہ میں ایک سردار نے ٹریفک پولیس کے سپاہی کو جان بوجھ کر، دن کی روشنی میں، مار دیا! کچھ بھی نہیں ہوا۔ کراچی میں جاگیردار کے بیٹے نے نوجوان کو گولی مار دی۔ سزائے موت تو دور کی بات ہے، طاقت ور عناصر جیل میں بھی جائیں تو ان کے کمرے فائیو سٹار ہو جاتے ہیں۔ لاہور میں ایک فیوڈل کے صاحبزادے نے سولہ سالہ یتیم بچے کو ہلاک کر دیا۔ کوئی سزا نہیں ملی۔ وفاقی دارالحکومت میں طاقت ور پولیس نے اسامہ ستی کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ انہیں بدلے میں سزائے موت دی گئی؟ پلوٹوکریسی کی ممتاز رکن، ایک خاتون، کی گاڑی نے چار معصوم نوجوانوں کو کچل دیا۔ کیا ہوا؟ ناظم جوکھیو کے قتل کو تو ڈیڑھ مہینہ بھی نہیں ہوا۔ اس نے ان پرندوں کے شکار کی وڈیو اپ لوڈ کی تھی جو طاقت ور غیر ملکی، طاقت ور میزبان کی مدد سے کھیل رہے تھے۔ ہمارے نظامِ انصاف کا کرشمہ دیکھیے کہ مقتول کے ورثا ہی پیچھے ہٹ گئے۔ قانون دان ایک اور طاقت ور گروہ ہیں۔ انہوں نے ہسپتال ہی پر ہلہ بول دیا۔ کتنے ہی مار دھاڑ، اور گھیراؤ کے واقعات ان حضرات کے نامۂ اعمال میں ہیں‘ مگر کسی کی جرأت نہیں کہ ذمہ داروں کو ہاتھ بھی لگائے۔ جناب علی احمد کرد کی جرأت اور حق گوئی کے کیا کہنے! مگر اپنی برادری کی قانون شکنی پر انہیں کبھی کچھ کہتے نہیں سنا۔ اوپر ہم نے سامراجی طاقتوں کے نمائندوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ بھی پاکستان آئیں تو چوٹی کے طاقت ور عناصر میں شمار ہوتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس اس کی روشن، چمکتی ہوئی مثال ہے۔ طاقت کی انتہا ملاحظہ ہو کہ عدالتی کارروائی کی لمحہ بہ لمحہ روداد، کمرۂ عدالت ہی سے، امریکہ کی ایک طاقت ور شخصیت کو بھیجی جاتی رہی۔ حال ہی میں ایک طاقت ور خاندان کے چہیتے چشم و چراغ نے ایک لڑکی کا سر اس کے جسم سے کاٹ کر الگ کر دیا مگر تاحال پیشی پیشی ہی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اب تو ماشااللہ یہ نکتہ بھی سامنے لایا جا چکا ہے کہ قاتل کے ذہنی معائنہ کے لیے میڈیکل بورڈ قائم کیا جائے۔ ہجوم گردی کے بے شمار واقعات رونما ہوئے ہیں۔ کتنے ہی افراد کو ہجوم مختلف شہروں، قصبوں اور بستیوں میں ہلاک کر چکا ہے، زندہ جلا چکا ہے، گھسیٹ گھسیٹ کر مار چکا ہے‘ مگر شاید ہی کسی کو سزا ملی ہو۔

ایسے ہر واقعہ کے بعد جو کچھ ہوتا ہے اس کا علم ہم سب کو ہے بلکہ مرحلہ وار، جو بیانات دیے جاتے ہیں، وہ حفظ ہو چکے ہیں۔ شرمناک واقعہ‘ صدر مملکت۔ ملزمان کو کڑی سزا دیں گے‘ وزیر اعظم۔ کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا‘ سپہ سالار۔ انتہائی دُکھ ہوا، وزیر اعلیٰ۔ دلخراش واقعہ ہے‘ ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے‘ وزیر داخلہ۔ انصاف ہوتا نظر آئے گا‘ ترجمان حکومت پنجاب۔ واقعہ نے پورے ملک کا سر شرم سے جھکا دیا ہے‘ وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے مذہبی امور۔ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے اور سیرت کے بھی خلاف ہے‘ علما و مشائخ کونسل۔ اپوزیشن کے زعما بھی مذمت کرتے ہیں۔ پھر دوسرے دن پریس کانفرنسوں میں وزرا کے ساتھ پولیس کے سینئر افسران نظر آتے ہیں۔ ہر سطح کے پولیس افسر واردات والے شہر یا قصبے کا دورہ کرتے ہیں۔ پھر چھاپے مارے جاتے ہیں۔ کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے ملزموں کو پکڑا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اس کے بعد کچھ نہیں ہوتا۔ انصاف کے حصول کی کبھی نہ ختم ہونے والی کارروائیاں چلتی ہیں اور چلتی ہی رہتی ہیں۔ آج تک کسی طاقت ور فرد، گروہ یا ہجوم کے حوالے سے جان کے بدلے میں جان کے قرآنی قانون کو عمل میں ڈھلتے نہیں دیکھا گیا۔ کیا کسی کو وہ دو نوجوان بھائی یاد ہیں جو سیالکوٹ ہی میں ہجوم گردی کے ہاتھوں مارے گئے تھے؟ سات افراد کو سزائے موت سنائی گئی مگر مروّجہ نظام عدل آڑے آ گیا۔ 

آپ کا کیا خیال ہے اس کیس میں مجرموں کو سزائے موت ملے گی؟ جہاں تک ماضی کے نظائر کا تعلق ہے، امکان کم نظر آتا ہے۔ ہاں! چونکہ اس بار معاملے میں ایک دوسرا ملک شامل ہے جس کے حکمران نے انصاف کی توقع ظاہر کی ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ شرمو شرمی یعنی Face saving کی خاطر اب کے قتل کی سزا قتل نظر آ ہی جائے !
تحریک انصاف نے جو خواب دکھائے تھے ان میں ایک خواب یہ بھی تھا کہ بجائے اس کے کہ پاکستانی دوسرے ملکوں میں جا کر روزگار تلاش کریں، دوسرے ملکوں کے شہری ملازمتیں کرنے پاکستان آئیں گے۔ اس وعدے یا اس خواب کا تو کیا ذکر، جو غیر ملکی، موجودہ حکومت سے پہلے کے آئے ہوئے ہیں، ان کا بھی مزید یہاں رکنا دشوار ہو جائے گا۔ جان کے مقابلے میں کوئی شے زیادہ پیاری نہیں۔ جتنے بھی غیر ملکی یہاں ملازمتیں کر رہے ہیں اس واقعہ نے انہیں یقینا جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہو گا۔ ان کے بیوی بچے، ہاتھ جوڑ رہے ہوں گے کہ خدا کے لیے یہاں سے نکلنے کی کرو۔ جو صنعتی یا دیگر ادارے مناسب افرادی قوت کے لیے بین الاقوامی سطح پر اشتہار دیں گے، ان کے ساتھ کیا ہو گا؟ بھارت کا میڈیا جس طرح اس واقعہ کو نمایاں کر کے پیش کر رہا ہے، اس کا اثر بھی ساری دنیا پر پڑے گا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سری لنکا میں مسلمانوں کی زندگی پہلے ہی کافی ناخوشگوار ہے۔ ایک انتہا پسند بُدھ تنظیم ان کے خلاف کامیابی سے اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے۔ سری لنکا کے مسلمانوں کو کن مسائل کا سامنا ہے، یہ تفصیل ایک الگ کالم میں بتائی جائے گی۔ سر دست اتنا کہنا کافی ہے کہ خدا نہ کرے اس ہجوم گردی کی قیمت وہاں کے مسلمانوں کو ادا کرنا پڑے۔

یہ خطۂ زمین حاصل تو اس لیے کیا گیا تھا کہ اسے باغ بنائیں‘ مگر یہ ایسا جنگل بن چکا ہے کہ انسانی جان ہر وقت خطرے میں ہے۔ کریہہ المنظر مخلوقات 'آدم بو آدم بو‘ کہتی دندناتی پھرتی ہیں۔ سنگدلی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایسے سفاک لوگوں کو سزا نہ ملنے کا پورا یقین ہے۔ سزا کا ایک فائدہ عبرت دلانا بھی ہوتا ہے۔ سزا ہی نہ ہو تو عبرت کون حاصل کرے گا؟ یہ سوال بھی شدومد سے اٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے ہولناک واقعات دوسرے مسلمان ملکوں میں کیوں نہیں رونما ہوتے؟ کیا وہاں کے لوگ زیادہ قانون پسند ہیں؟ کیا ان کا مائنڈ سیٹ مختلف ہے؟ یا طاقتور عناصر وہاں قانون کے پنجے سے بچ نہیں سکتے؟

یوں لگتا ہے ایک اندھی اندھیری چادر ہم پر تن چکی ہے! کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, December 02, 2021

معاشی خود مختاری رُول آف لا کی سگی بہن ہے۔


“ بھائی میں اس ملک کو چھوڑ کر جارہا ہوں اور کوشش کروں گا کہ فیملی کے لیے مجھے نہ آنا پڑے۔میں اپنی فیملی کو کسی کے ساتھ بلوالوں گا۔اس ملک میں رہنا میرے حساب سے اپنے آپ کو سزا دینے کے برابر ہے۔کیونکہ جس ملک میں انسان کی سلامتی نہیں،جس ملک میں انسان کے پیسے کی سلامتی نہیں، جس ملک میں انسانیت کی سلامتی نہیں اس ملک میں رہنا بیکار ہے۔ اوورسیز پاکستانیز !  ( ہاتھ جوڑتے ہوئے) خان صاحب کے کہنے پر پلیز مت آئیے گا۔ہمارے پی ایم صاحب کہہ تو دیتے ہیں کہ 
We are welcoming  Overseas Pakistanis but you are not welcome in Pakistan. Stay where you are. Please never think to come back to Pakistan and invest your money in Pakistan. Thank you very much.

“ آپ اوور سیز پاکستانیوں کو کیوں منع کر رہے ہو بھائی ؟”
“ میں خود اوورسیزپاکستانی ہوں۔میں چار سال پہلے یہاں آیا تھا۔اپنے ملک میں رہنے کے لیے۔ غلطی ہو گئی سر! ( کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے) بہت بڑی غلطی ہو گئی جس کا خمیازہ بھی بھگت لیا۔

یہ گفتگو ایک صاحب کی ہےجو کراچی کی متنازعہ عمارت کے متاثرین میں سے ہیں۔ وڈیو وائرل ہو رہی ہے۔  تا دم تحریر اس  وڈیو کو چار لاکھ اکتیس ہزار افراد دیکھ چکے ہیں۔  ستائیس ہزار بار یہ وڈیو شئیر ہو چکی ہے۔سترہ سو کمنٹس آچکے ہیں جن میں سے ننانوے فی صد کمنٹس میں ان بھائی صاحب کے ساتھ اتفاق کیا گیا ہے۔ 

ہم اس وڈیو کے مندرجات  سے  اتفاق یا اختلاف نہیں کر رہے۔ ہم تو صرف صورت حال کی ایک جھلک دکھانا چاہتے ہیں۔  یہ صورت حال ایک  کلّیت یعنی تمامیت 

( Totality ) 

پر مشتمل ہے۔ جو کچھ یہ صاحب اس وڈیو پر کہہ ر ہے ہیں وہ اس کلّیت کا صرف ایک حصہ ہے۔ہم ، بطور ملک، ہر پہلو سے اور ہر لحاظ سے  پراگندگی کا شکار ہیں۔  ہر طرف ابتری  دکھائی دے رہی ہے۔ صورت حال کا دوسرا پہلو  وہ شرائط ہیں جو، قرض لیتے  ہوئے، سعودی عرب کے ساتھ  طے ہو ئی ہیں یا مجبورا” ہمیں طے کرنا پڑی ہیں ۔ جس معاشی دلدل میں اس وقت پاکستان دھنسا ہؤا ہے اس کے پیش نظر سعودی قرض   غنیمت ہے۔ مگر شرائط  پریشان کُن ہیں۔ اول۔ کوئی وجہ بتائے بغیر یہ قرض   بہتر گھنٹوں کے اندر اندر  واپس مانگا جا سکے گا۔ دوم۔ اگر دونوں ملکوں کے درمیان ، اس قرض کے حوالے سے ،  کوئی  تنازعہ  کھڑا ہو گیا  تو یہ سعودی قانون ہے  جس کا اطلاق ہو گا۔ماضی قریب  میں جس طرح مالی اور سیاسی حوالے سے پاکستان  کو سبکی اٹھانا پڑی، اس سبکی کو ذہن میں  رکھا جائے  تو یہ شرائط کسی بھی وقت مزید  سبکی کا باعث بن سکتی ہیں۔  مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس چوائس کیا ہے؟ ہاتھ میں کاسہ ہو تو  چوائس ہو بھی کیا سکتا ہے ! 

اس ملک کو جن خطوط پر چلایا جا رہا ہے وہ ہمیں دریوزہ گر بنانے کے علاوہ کچھ اور بنا بھی نہیں سکتے۔جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے ملک ایک کلّیت کا نام ہوتا ہے۔ یہ ایک 

Totality 

ہوتی ہے جس کے تمام حصے ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہوتے ہیں۔   معاشی فیصلے سیاسی استحکام  پر منحصر ہوتے ہیں۔ سیاسی استحکام کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ملک میں قانون کی حکومت ہے یا نہیں ؟  اگر مختلف  طبقات  کے لیے قانون  مختلف ہے  تو ملک سیاسی استحکام اور معاشی  خودمختاری دونوں سے محروم ہوتاہے۔ رُول آف لا  نہ ہو تو سب سے بڑا نقصان ملک کو یہ پہنچتا ہے کہ پڑھی لکھی مڈل کلاس ملک چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ پیچھے صرف دو طبقے رہ جاتے ہیں ۔ اعلیٰ ترین  طبقہ اور پست ترین طبقہ۔ یہی مثال دیکھ لیجیے۔ بیرون ملک سے آیا ہؤا شخص جس واقعہ کا زخم خوردہ  ہے  وہ واقعہ رول آف لا سے ہی متعلق ہے۔ شمال کے شہر اور جنوب کے شہر میں  ایک جیسی باضابطگی  سرزد ہوتی ہے مگر دونوں یکساں بے ضابطگیوں سے  مختلف اندازمیں  نمٹا جاتا ہے۔ ایسے موقع پر “ بنانا  ری پبلک” کی اصطلاح کا ذکر  ضرور  کرنا پڑتا ہے۔ مشہور امریکی کہانی کار” او ہنری “ نے یہ اصطلاح 

1904 

میں تراشی تھی۔ بنانا ری پبلک کی متعدد خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت پلوٹو کریسی ہے یعنی امرا کی حکومت۔ ارسطو نے پلوٹو کریسی کے لیے “ اولی گارکی”

Oligarchy 

کا لفظ استعمال کیا اگرچہ آج کل اولی گارکی اس حکومت کو کہتے ہیں جو چند لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ غور کریں تو پلوٹو کریسی اور اولی گارکی اصل میں دونوں ایک ہیں۔ ایک مختصر گروہ کی حکومت  جو امرا  پر مشتمل ہو۔  ہمارے معاشرے میں اعلی بیورو کریسی بھی  وہی مراعات رکھتی ہے جو امرا رکھتے ہیں ۔ چونکہ حکومت ان کی ہوتی ہے اس لیے ان پر قانون کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے۔  گذشتہ ہفتے منڈی بہاؤالدین میں جو کچھ ہؤا  وہ اس حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ ہمارا ملک(۱) پلوٹو کریسی کے نرغے میں ہےاور (۲)  شدید لاقانونیت  کی دلدل میں گلے تک دھنسا ہؤا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نے عدالت  کے ساتھ گستاخانہ رویہ روا رکھا۔  روزنامہ دنیا کے رپورٹر کے مطابق، ان دونوں کو  سیکرٹری پنجاب اسمبلی نے سپیکر پنجاب اسمبلی سے سفارش کرا کر تعینات کرایا تھا۔ ہمارے رپورٹر کے مطابق یہ افسران عوام کے ساتھ بھی بد تمیزی سے پیش آتے تھے۔  یہ شدید توہین عدالت کے مرتکب ہوئے تو عدالت نے انہیں تین تین ماہ قید کی سزا سنائی۔پولیس نے مجرموں کو جیل لے جانے کے بجائے ڈی سی ہاؤس منتقل کردیا تھا جس کے بعد دونوں افسران اپنی  اپنی   گاڑیوں میں سوار ہو کر لاہور چلے گئے۔مگر اصل کھلواڑ قانون کے ساتھ یہ ہؤا کہ صوبے کے چیف سیکرٹری  نے مداخلت کی۔ ہمارا نمائندہ بتاتا ہے کہ جب یہ خبر لاہور پہنچی تو چیف سیکرٹری  پنجاب فوری طور پر ایک اجلاس سے اٹھ کر   مال روڈ پر موجود ایک اہم شخصیت سے ملے  اور ڈی سی اور اے سی کی گرفتاری پر  “ تحفظات” کا اظہار کیا۔ چیف سیکرٹری ہی کی مداخلت پر  دونوں مجرموں کو ہتھکڑی نہ لگنے دی گئی۔ سزا بھی معطل کرا دی گئی۔ ہنسی آتی ہے جب ریاست مدینہ کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ریاست مدینہ میں تو فریادی  ،مصر کے گورنر کے  بیٹے کو کوڑے مارتا ہے۔ خود خلیفۂ دوم کے صاحبزادے کو کوڑے مارے گئے۔مگر یہاں   سترہ اٹھارہ اور انیس گریڈ کے افسروں  پر بھی  قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ عدالت انہیں ہتھکڑی نہیں لگوا سکتی۔ جیل میں بھیجے جانے کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ 

 امید ہے یہ نکتہ واضح ہو گیا ہو گا  کہ کسی ریاست کی کامیابی تمام شعبوں کی کامیابی سے عبارت ہے اور ہر شعبہ دوسرے شعبے سے جُڑا ہؤا ہے۔ کراچی کے شہری کا رونا پیٹنا ہو یا   بیرونی قرضوں کی ایسی شرائط ہوں جو ہماری خود مختاری پر زد لگا رہی ہوں یا طاقتور افراد   قانون  کو جوتوں کے نیچے روند رہے ہوں، سب ایک ہی تصویر کے مختلف رُخ ہیں۔ جن مغربی  ملکوں نے اقتصادی ترقی کی ہے ان میں سے کوئی ایسا نہیں  جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ امریکہ یا برطانیہ میں ، یا جرمنی یا جاپان میں ایک  اسسٹنٹ  کمشنر  کو قانون کی گرفت  سے بچانے کے لیے صوبے کا   چیف سیکرٹری مداخلت کرے گا؟ 

مریض کی حالت دگرگوں ہے۔ دل، گُردے، پھیپھڑے،جگر، معدہ،  سب  جواب دے رہے ہیں۔ سب کی کارکردگی  ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ معاشی خود مختاری رول آف لا کی سگی بہن ہے۔ 

……………………………………………………
 

powered by worldwanders.com