Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, April 29, 2021

افضل خان کی غلطی نہ دہرائیے گا!


بھارتی حکومت کی ذہنیت کو سمجھنے کے لیے شیوا جی کے مطالعہ سے بہتر کوئی سبق نہیں!
1627ء میں پیدا ہونے والا شیوا جی ان پڑھ تھا مگر بھیس بدلنے، جنگل میں چھپنے اور نشانہ بازی میں طاق تھا۔ عملی زندگی کا آغاز چوریاں کرنے اور ڈاکے ڈالنے سے کیا۔ پھر پونا کے نواح میں چھوٹے موٹے قلعوں پر قبضہ کرنے لگا۔ بیجا پور (جنوبی ہند) کی سلطنت پر اس وقت عادل شاہ حکمران تھا۔ شروع شروع میں اس نے شیوا جی کو کوئی اہمیت نہ دی‘ اس لیے بھی کہ مکار شیوا جی نے اسے لکھ بھیجا تھا کہ حضور! میں فتوحات آپ کے غلام کی حیثیت سے کر رہا ہوں اور ٹیکس بھی زیادہ وصول کر کے پیش کروں گا۔ پونا کے جنوب میں جاولی کا علاقہ تھا۔ یہاں کے مضبوط حکمران شیوا جی کے توسیعی عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ اس نے شادی کی تقریب کا ڈھونگ رچایا اور دھوکے سے انہیں قتل کرا دیا۔ اس کے بعد زندگی بھر دھوکہ اور فریب ہی اس کا سب سے بڑا ہتھیار رہا۔ اورنگ زیب عالم گیر اسے موشِ کوہستانی یعنی پہاڑی چوہا کہتا تھا۔ جب شیوا جی نے مغربی گھاٹ کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تو عادل شاہ کو خطرے کا احساس ہوا۔ اس نے اپنے نامور جرنیل افضل خان کو اس کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ افضل خان نے قلعے فتح کر لیے اور شیوا جی کے علاقوں کو تہس نہس کر دیا۔ شیوا جی بھاگا۔ افضل خان تعاقب کر رہا تھا۔ بچنے کی امید نہیں تھی۔ شیوا جی کے ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ ہتھیار ڈال دو مگر اس کے ذہن میں فریب کاری کا منصوبہ تھا۔ اس نے خان کو پیغام بھیجا۔ گڑگڑاتا مگر منافقت سے بھرا پیغام! کہ میری کیا مجال آپ کا مقابلہ کروں۔ میں ہتھیار ڈالنا چاہتا ہوں مگر مجھے از راہ کرم گارنٹی دی جائے کہ توبہ قبول کر لی جائے گی۔ افضل خان نے بات چیت کے لیے ایک برہمن گوپی ناتھ کو بھیجا۔ شیوا جی نے برہمن کو ہندو دھرم اور دیوتاؤں کا واسطہ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ ساتھ ہی تحائف دیے۔ جاگیر میں ایک گاؤں بھی عطا کیا، یوں دونوں نے مل کر پلان بنایا۔ گوپی ناتھ نے واپس جا کر افضل خان کو کہا کہ شیوا جی تو خوف کے مارے لرز رہا ہے۔ آپ اسے ملاقات کا موقع دیجیے تا کہ وہ ہتھیار ڈال سکے۔ سیدھا سادہ جرنیل راضی ہو گیا۔
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
قلعے کی پہاڑی کے نیچے شیوا جی نے ایک عالی شان خیمہ نصب کرایا۔ پھر جنگل صاف کرا کے راستہ بنایا تاکہ افضل خان اسی راستے سے آئے۔ پھر ایک دستہ خیمے کے قریب جنگل میں تعینات کیا اور فوج کی بھاری تعداد افضل خان کے کیمپ کے پاس چھپا دی۔ طویل قامت افضل خان پالکی میں آیا۔ ململ کی پوشاک میں ملبوس! ساتھ صرف ایک محافظ! دوسری طرف سے پستہ قد شیوا جی قلعے سے نکلا۔ جھُکتا، کورنش بجا لاتا۔ پگڑی کے نیچے اس نے فولادی ٹوپی پہنی ہوئی تھی اور چُغے کے نیچے زرہ۔ دائیں آستین میں خنجر چُھپا تھا رسوائے زمانہ مرہٹہ ہتھیار، ایک خاص قسم کا آہنی پنجہ مٹھی میں دبا تھا۔ افضل خان خود اعتمادی کے ساتھ بغل گیر ہوا۔ یہی لمحہ تھا جس کا شیوا جی کو انتظار تھا۔ اس نے آہنی، نوک دار پنجہ خان کے پیٹ میں گھونپا۔ افضل خان نے تلوار نکال لی اور ایک زبردست وار کیا مگر تلوار چھپی ہوئی زرہ کے اوپر پڑ کر صرف ایک جھنکار پیدا کر سکی۔ شیوا جی نے خنجر کا مہلک وار کیا۔ افضل خان گرا اور پھر کبھی نہ اُٹھ سکا۔ محافظ آگے بڑھا تو شیوا جی کے آدمیوں نے اسے بھی مار دیا۔ قلعے میں واپس جا کر شیوا جی نے بگل بجانے کا حکم دیا۔ یہ سگنل تھا۔ جنگل میں چُھپی ہوئی فوج خان کے کیمپ پر پل پڑی۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا:
سچ کہتا تھا افضل خان
تری پورہ تا راجستان
مر گیا ہندو میں انسان
ہم بھارت سے بات چیت کرنے کے مخالف نہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ جنگوں سے مسائل نہیں حل ہوتے‘ مگر یاد رکھیے بنیا ڈپلومیسی، باقی دنیا کی مہذب ڈپلومیسی سے مختلف ہے۔ کل یہی بھارت ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے لگاتا تھا۔ بھارت نے گفتگو کا آغاز خوشی سے نہیں کیا۔ اسے معلوم ہے کہ وہ دو محاذ بیک وقت نہیں سنبھال سکتا۔ شمال میں چینی افواج نے بھارت کو نکیل ڈالی ہوئی ہے۔ اسے وہاں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستانی سرحدوں سے فوج ہٹا کر شمال کو لے جانا پڑی۔ میڈیا بتا رہا ہے کہ پہلی بار ہماری مشرقی سرحد پر بھارت اور پاکستان کی افواج تناسب میں برابر ہوئی ہیں۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں بھارت نے سلسلہ جنبانی کی ہے۔ ورنہ خود سوچیے، کہاں آر ایس ایس کا خونیں جنونی فلسفہ جو ایک ایک مسلمان کو ہندو بنانا چاہتا ہے اور کہاں صلح کی بات چیت۔ غالب کی نصیحت پر کان دھریے:
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
اس لیے صلح کی بات چیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم دفاع سے غافل ہو جائیں۔ ہمیں تو یہ وارننگ دی گئی ہے کہ مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو۔ اس ضمن میں ہم، بطور خاص، دو پہلوئوں کی طرف اربابِ بست و کشاد کی توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ اول‘ کشمیر ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے مگر بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سے بھی ہم بے نیاز رہ سکتے ہیں نہ بری الذمہ! مانا کہ وہ بلند آواز سے کوئی ایسی بات نہیں کہہ سکتے جس سے پاکستان پر ان کا مان ظاہر ہو مگر سچ یہ ہے کہ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ ان کے حق میں آواز اٹھانے والا ہے بھی کون؟ یوں تو پوری امت مسلمہ ایک جسد ہے مگر اس جسد میں بھارتی مسلمان ہمارے لیے ایک خاص حیثیت کے مالک ہیں۔ وہ ہمارے جسم کا نہیں، ہمارے دل کا حصہ ہیں۔ جو کچھ آسام میں کیا جا رہا ہے، اس سے ہم کیسے غافل رہ سکتے ہیں؟ اور یہ بھارت کا اندرونی معاملہ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا طویل المیعاد منصوبہ پورے بھارت کے مسلمانوں کو شہریت سے بے دخل کر کے ویران گاہوں (Ghettos) میں دھکیلنے کا ہے۔ دوسرا پہلو تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینے کا ہے۔ بھارت کے ساتھ جو بات چیت چل رہی ہے وہ صرف حکومت وقت کا مسئلہ نہیں۔ حکومت پر لازم ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں، بالخصوص پارلیمان کو اعتماد میں لے تا کہ کل کچھ طے ہو تو اس کے دوام کی مستقبل میں بھی ضمانت ہو۔ بد قسمتی سے موجودہ حکمرانوں کا رویہ اس حوالے سے ذہنی نا پختگی کا ہے۔ اپوزیشن کو در خورِ اعتنا نہ گرداننا، ان سے بات چیت نہ کرنا اور قومی معاملات میں انہیں اعتماد میں نہ لینا سیاسی دانش مندی ہے نہ کوئی قابل فخر رویّہ! بھارت سے بات ہو سکتی ہے تو اپنی حزب اختلاف بھی اچھوت نہیں۔ بلند پایہ لیڈرشپ کی یہی نشانی ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور دلوں کو دھمکیوں سے نہیں، حسنِ اخلاق سے فتح کرتی ہے۔ سیاست میں سب سے زیادہ نقصان دہ عنصر تکبر کا ہے۔ اس سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے۔
بھارت کے ساتھ بات چیت کا ہمیں خیر مقدم کرنا چاہیے‘ جنوبی ایشیا کے عوام امن کے مستحق ہیں‘ مگر احتیاط لازم ہے۔ ہمیں وہ غلطی نہیں کرنی چاہیے جو افضل خان نے کی تھی۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, April 27, 2021

آنکھوں والا اور کنواں


سب سے پہلے تو حکومت سے یہ پوچھا جائے کہ بیرونی ممالک سے آنے والوں کی سکریننگ کیوں نہ کی گئی؟ برطانیہ میں پھوٹنے والے خاص قسم کے کورونا کی خبر آنے کے بعد بھی لاپروائی برتی گئی۔ شدید مجرمانہ لاپروائی! یہاں تک سن رہے ہیں کہ جن مسافروں نے خود پیشکش کی کہ ان کا ٹیسٹ کیا جائے‘ ان کا بھی نہ کرایا گیا۔ یہی رویہ جنوبی افریقہ سے آنے والوں کے ساتھ برتا گیا۔پھر یہ پوچھا جائے کہ ویکسین خریدنے کے لیے کتنی رقم مختص کی گئی؟ کورونا ریلیف فنڈ کہاں گیا؟ خیراتی ویکسین ہی پر کیوں انحصار کیا گیا ؟ سڑکیں اور پُل تو بن نہیں رہے تو پھر قومی خزانے کا کیا مصرف ہے ؟ سبق یہ پڑھایا گیا تھا کہ شاہراہیں اور پُل بنانے سے ترقی نہیں ہوتی بلکہ انسانی سرمایہ کاری سے اصل ترقی ہوتی ہے۔تو صحت پر پیسہ لگانے سے بڑھ کر کون سی انسانی ترقی ہو گی ؟ پچاس سے زیادہ وزرا ء اور مشیر رکھنے کے بجائے اتنے ہی رکھے جاتے جن کا بہت اونچی آواز میں وعدہ کیا گیا تھا یعنی سترہ! اور اس بھوکی ننگی ‘قلّاش‘ مفلس قوم کی خون پسینے کی کمائی جو اس فوج ظفرموج پر خرچ ہو رہی ہے‘ ویکسین خریدنے پر صرف کی جاتی۔ معاملہ صرف تنخواہوں کا نہیں‘ یہاں داڑھی سے مونچھیں بڑی ہیں۔گاڑیاں‘ جہازوں کے ٹکٹ‘ محلات کی دیکھ بھال‘ لمبا چوڑا سٹاف۔ اب پی اے اور پرائیویٹ سیکرٹری کے علاوہ '' ڈائریکٹر ٹُو منسٹر ‘‘ رکھنے کا رواج بھی چل نکلا ہے۔ یہ چورن بھی کافی بیچا گیا کہ مکمل لاک ڈاؤن نہیں کریں گے کیونکہ اس سے معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ کوئی پوچھے کہ معیشت انسانوں کے لیے ہے یا انسان معیشت کے لیے ؟ بقول شاعر ؎
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا
کون سی معیشت ؟ شرحِ نمو شرمناک ہے۔ اتنی کہ کسی کو بتا تک نہیں سکتے، اور پارلیمان کا کیا رول ہے ؟ ریڑھ کی ہڈی سے محروم اس پارلیمان نے کتنی بار کورونا پر بحث کی ؟ کتنی بار ویکسین خریدنے کے بارے میں پوچھا؟ کیا کسی نے سوال کیا کہ کورونا ریلیف فنڈ کہاں ہے ؟ کتنا ہے ؟ اور کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ کبھی سیلابوں کے نام پر فنڈ اکٹھے کیے جاتے رہے! کبھی زلزلہ زدگان کے نام پر !کبھی ڈیم کے لیے اور اب کورونا کے لیے! کوئی حساب کتاب ہے نہ آڈٹ نہ پوچھ گچھ۔ دینے والے بے بس ہیں اور کمزور حافظے کے مالک! لینے والے زور آور ہیں اور منہ زور ! وزیر اعظم پارلیمان میں آتے ہی نہیں۔ تحریک لبیک اور پولیس کے حالیہ سانحہ کے بعد جو اہم تقریر انہوں نے کی وہ بھی پارلیمان میں نہیں‘ ٹیلی وژن پر کی۔ یہی گلہ پچھلے وزیر اعظم سے بھی تھا۔ یعنی کانِ نمک میں جو آتا ہے‘ نمک ہو جاتا ہے۔ واہ رے اقتدار کے ہما! جس کے سر پر بھی بیٹھتے ہو اسے نہ صرف عوام سے‘ نہ صرف اپنے وعدوں سے‘ نہ صرف اپنے دعووں سے ‘ بلکہ پارلیمان سے بھی دور کر دیتے ہو۔ سنا تو یہ تھا کہ جمہوریت میں ‘ بالخصوص پارلیمانی طرزِ جمہوریت میں ‘ پارلیمان ہی حکومتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتی ہے۔ اپنے ہاں تو ایسی پارلیمان نہیں دیکھی۔کان مجرم ہیں ‘ مگر آنکھ گنہگار نہیں!
اصل ذمہ دار کوروناکے پھیلاؤ کے ہم عوام ہیں ! ذمہ دارنہیں بلکہ مجرم! لاپروائی اور جہالت میں شاید بہت ہی کم فرق تھا۔ہم نے وہ بھی ختم کر دیا۔ کورونا کو آئے ہوئے ایک برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اس دوران ہزاروں بار ہدایات دی گئیں کہ ماسک اور سماجی فاصلہ از حد ضروری ہیں مگر آج بھی آبادی کا ایک قلیل حصہ ہی اس پر عمل پیرا ہے۔ مصافحے اور معانقے ہو رہے ہیں۔ اور تو اور ‘ بڑے بڑے مالز میں جو فُوڈ کورٹ بنے ہیں‘ کنبوں کے کنبے دھڑلے سے وہاں جا رہے ہیں۔ایک خاصے پڑھے لکھے صاحب سے ہاتھ نہیں ملایا تو ناراض ہوئے اور باقاعدہ تمسخر اڑایا کہ تم سمجھتے ہو ہاتھ ملانے سے بیمار ہو جاؤگے۔سازشی تھیوریاں باقاعدہ گردش کر رہی ہیں کہ یہ سب کچھ صرف مسلمانوں کو عبادات سے روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے حالانکہ حقائق اس کے خلاف ہیں۔ پوری دنیا میں سیاحت کی انڈسٹری متاثر ہوئی ہے۔کاروبار تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ آسٹریلیا میں جو کاروبار برباد ہوئے‘ ان کے مالکان نے انشورنس کمپنیوں سے زرِ تلافی کا مطالبہ کیا۔ انشورنس کمپنیاں عدالت میں گئیں کہ کورونا کی وجہ سے تو ہزاروں کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں ہم کس کس کا نقصان پورا کریں گے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم اور علما کونسل کے چیئرمین نے کل ہی فتویٰ دیا ہے کہ انسانی جانوں کا تحفظ لازم ہے اور یہ کہ تمام لوگ اپنے اپنے ممالک کی طرف سے نافذ کردہ پابندیوں اور دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔ حالت یہ ہے کہ سحری کے وقت ہوٹلوں میں بے تحاشا رش ہے‘ اتوار بازاروں میں ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ چینی لینے والی قطاروں میں لگے لوگ فاصلہ نہیں رکھ رہے۔ دوسرے ملکوں میں اے ٹی ایم مشینوں کے لیے ‘ عام طور پر‘ اس طرح کے کیبن نہیں بنائے جاتے جن کا ہمارے ہاں رواج ہے۔ کھلے عام لگے ہوتے ہیں۔ مگر جو فرد کیش نکال رہا ہوتا ہے‘ دوسرا فرد اس سے کافی فاصلے پر کھڑا ہو کر انتظار کرتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں اے ٹی ایم اس طرح‘ کیبن کے بغیر‘ لگے ہوں تو پیچھے کھڑے ہوئے بھائی صاحب غور سے دیکھیں گے کہ کتنے پیسے نکلوائے جا رہے ہیں۔یہ کالم نگار ایک بار ‘ کیمسٹ کی دکان سے دوائیں خرید رہا تھا۔ کاؤنٹر والے نے بل بنا کر دیا۔ ابھی بل پر لکھی تفصیل پڑھ رہا تھا کہ محسوس کیا ساتھ والے صاحب بھی بل کو پڑھنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ چارو ناچار بل ان کی خدمت میں پیش کر دیا کہ لیجیے آپ پہلے مطالعہ فرما لیجیے۔ ایک خفیف سی ہنسی کا مظاہرہ انہوں نے کیا۔ اتنی عقل نہیں تھی کہ معذرت کرتے۔ہوتی تو یہ حرکت ہی نہ کرتے۔ آپ کو یہ تجربہ یقینا ہوا ہو گا کہ آپ کاؤنٹر پر کھڑے ہیں اور پیچھے سے ایک ہاتھ ‘ جس میں کرنسی نوٹ ہے‘ آپ کے سامنے نمودار ہوتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ کاؤنٹر والا اسے کہتا بھی نہیں کہ بھائی اپنی باری کا انتظار کیجیے۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو کھانا کھا نے والے کو مسلسل دیکھتے جائیں جیسے نوالے گِن رہے ہوں !
غنیمت ہے کہ بینکوں میں ماسک کی پابندی کرائی جا رہی ہے۔ ماسک کے بغیر کسی کو اندر نہیں جانے دے رہے اور ایک محدود تعداد سے اوپر ‘ باہر ہی انتظار کراتے ہیں مگر باہر جو انتظار کر رہے ہوتے ہیں‘ سماجی فاصلہ نہیں رکھتے۔ایک فیشن یہ بھی ہے کہ ماسک گلے پر لگا ہے۔ کچھ لوگ ناک کو بھی ماسک کی دست بُرد سے بچا کر رکھتے ہیں جو شدید خطرناک حرکت ہے۔خدا نہ کرے کہ ہمارے حالات بھارت جیسے ہو جائیں۔ شاید ہمارا ملک کُرہ ارض پر واحد ملک ہے جہاں ایس او پیز کے نفاذ کے لیے فوج کوبلانا پڑ رہا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ ایک ایک فرد پر ‘ ایک ایک شاہراہ پر‘ ایک ایک قطار پر‘ایک ایک بازار میں‘ ایک ایک ریستوران میں ‘ فوج یا پولیس کے سپاہی کس طرح تعینات کیے جا سکتے ہیں ؟ سعدی نے کہا تھا ؎
وگر بینم کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش بنشینم گناہ است
اندھے کے سامنے کنواں ہو تو اسے بتانا لازم ہے مگر تندرست آنکھوں والا کنویں میں گرنا چاہے تو کب تک کوئی روک سکتا ہے! خدائے قدّ وس رحم کرے۔ ہم تو سمجھنے سمجھانے کی حد سے باہر ہیں!

بشکریہ  روزنامہ  دنیا

Monday, April 26, 2021

بائیکاٹ


یہ1985ء تھا۔ دنیا کا مشہورترین مشروب( سافٹ ڈرنک) بنانے والی امریکی کمپنی نے مشروب بنانے کا فارمولا بدل ڈالا۔ مشروب کا ذائقہ تبدیل ہو گیا۔ لوگ پہلے والے ذائقے کے شوقین تھے۔ امریکی صارفین نے نئے مشروب کا بائیکاٹ کردیا۔ ہزاروں کے حساب سے کمپنی کو فون آنا شروع ہو گئے۔ ریستورانوں نے باقاعدہ بورڈ لگا لیے کہ '' یہاں اصلی یعنی پہلے والا مشروب پیش کیا جاتا ہے‘‘۔چند ماہ میں کمپنی کا دماغ درست ہو گیا اور اسے پہلے والا مشروب دوبارہ بازار میں لانا پڑا۔
اس سے پہلے‘1973ء میں امریکہ میں گوشت مہنگا ہو گیا۔ صارفین کی انجمنیں حرکت میں آگئیں۔ تحریک چلی کہ گوشت کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس تحریک میں عورتوں‘ بالخصوص خواتینِ خانہ نے نمایاں کردار ادا کیا کیونکہ گھر کے سودا سلف کی ذمہ داری ان کی تھی۔ ایک ہفتے میں گوشت سپلائی کرنے والوں اور فروخت کرنے والوں کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ یہ بائیکاٹ اس قدر کامیاب تھا کہ اُس وقت کے صدر ‘نکسن‘ کو مرغی اور چھوٹے بڑے گوشت کی قیمتیں فکس کرنا پڑیں۔
یہ صرف امریکہ یا یورپ کی بات نہیں‘ اپریل2018ء میں مراکش کے سوشل میڈیا پر تحریک شروع ہو گئی کہ تین بڑی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ یہ کمپنیاں سی این جی ‘ منرل واٹر اور ڈیری مصنوعات بناتی تھیں۔ اس بائیکاٹ کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو ان کمپنیوں نے قیمتوں میں ناروا اضافہ کیا تھا دوسرے ‘ یہ حکومت کے ساتھ شیر و شکر تھیں اور حکومت کو عوام پسند نہیں کرتے تھے۔ یہ بائیکاٹ کا سیاسی پہلو تھا۔ ایک فائدہ اس بائیکاٹ کا یہ تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو تو ریاستی اداروں کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر بائیکاٹ کرنے والوں کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔ مراکش کے عوام کی بھاری اکثریت نے اس بائیکاٹ میں حصہ لیا۔ نو جوان بھی کثیر تعداد میں شامل تھے۔ بائیکاٹ کئی مہینے جاری رہا۔ آخر کار کمپنیوں کو عوامی طاقت کے سامنے جھکنا پڑا۔اُسی سال ایک سعودی کمپنی نے دودھ کی قیمت میں اضافہ کیا تو سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کی مہم شروع ہوئی۔ کمپنی نے قیمتوں میں اضافے کی کچھ تکنیکی وجوہ پیش کیں مگر سعودی صارفین کی محافظ تنظیم نے اس عذر ِلنگ کے پرخچے اڑا دیے۔ اس کمپنی کی ڈیری مصنوعات پورے شرقِ اوسط اور شمالی افریقہ میں استعمال کی جاتی ہیں۔ بائیکاٹ نے کمپنی کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اس کا انڈیکس سکور 52 سے گھٹ کر 25 ہو گیا ‘ساتھ ہی وزارتِ تجارت نے بھی مداخلت کی اور کمپنی کو مجبور کیا کہ قیمتیں کم کرے۔
ان سب واقعات میں ایک قدرِ مشترک ہے۔ صارفین نے کوچہ و بازار میں جمع ہو کر احتجاج کیا نہ حکومت سے کوئی مطالبہ کیا ‘نہ ہی حکومت سے کوئی امید رکھی۔ عوام نے سوشل میڈیا کے ذریعے بائیکاٹ کی مہم چلائی اور کمپنیوں‘ صنعتکاروں اورتاجر وں کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی عوام ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ان کا سارا زور حکومت پر کیوں ہے؟ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر صبح و شام حکومت پر تنقید کی جاتی ہے۔متعلقہ وزیروں اور محکموں کو کوسا جاتا ہے۔ مافیا کا لفظ سن سن کر کان پک چکے ہیں مگر عوام خود ایک تنکا بھی توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری مثال اُس کاہل شخص کی ہے جو شاہراہ کے کنارے سبزے پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کے سینے پر ایک بیر پڑا تھا۔ ایک گھڑ سوار گزار تو اس نے اسے کہا کہ ذرا گھوڑے سے اُتر کر یہ بیر میرے منہ میں ڈالتے جاؤ۔ گھڑ سوار کو کیا پڑی تھی کہ اتنی تکلیف کرتا۔ تاہم لیٹے ہوئے شخص نے اس عدم تعاون کا بہت بُرا منایااور کمنٹ یہ دیا کہ '' کس قدر سست لوگ ہیں ‘‘۔ 2017ء میں پاکستانی سوشل میڈیا نے پھلوں کا بائیکاٹ صرف تین دن کرایا تھا اور قیمتیں چالیس سے پچاس فیصد تک کم ہو گئی تھیں حالانکہ یہ ہڑتال مکمل بھی نہ تھی۔اگر پورا ایک دن مکمل ‘ سو فیصدہڑتال کی جاتی تو نتائج مختلف ہوتے۔جب چینی پچپن سے اوپر گئی اور ایک سو بیس تک جا پہنچی تو اس کے بعد چینی خریدنے کی کیا تُک تھی؟ چلیے مان لیا کہ آٹے‘ گھی ‘ نمک‘ مرچ اور ادویات کا بائیکاٹ نہیں کیا جا سکتا مگر چینی کون سی لائف سیونگ دوائی ہے کہ اس کے بغیر زندگی خطرے میں پڑ جائے گی ؟ ابھی پچاس ساٹھ سال پہلے تک تو ہم گُڑ استعمال کرتے تھے۔ کسی کے ہاں شادی کی تقریب ہوتی تھی تو محلے والے پہلا سوال یہ پوچھتے تھے کہ '' کھانڈ پکائی ہے انہوں نے یا گُڑ ؟ ‘‘ ستّو کا مشروب شکر سے بنتا تھا‘ گھی میں شکر ڈالتے تھے اور روٹی کے ساتھ کھاتے تھے۔ کھیر کے اوپر بھی شکر بکھیری جاتی تھی۔ آج ہم کون سے شہزادے ہو گئے ہیں کہ چینی کے بغیر ہمارا نخرہ متاثر ہو گا اور گُڑ ہمارے نام نہاد سٹیٹس سے نیچے کا آئٹم ہے ؟ کیا چینی کا بائیکاٹ اور گُڑ کا استعمال اُس چیر پھاڑ سے بھی بُرا ہے جو شوگر مافیا ہماری جیب اور ہماری عزتِ نفس کے ساتھ کر رہا ہے؟ ایسا کون سا آئٹم ہے جوگُڑ سے نہیں پک سکتا؟ گُڑ والے چاول آج بھی ہم لوگوں کی مرغوب غذا ہے۔ گُڑ والی چائے میں تھوڑا سا نمک ڈال کر پییں تو مزے کا مشروب ہے۔ آدھے سے زیادہ آبادی گرمیوں میں آج بھی شکر اور تخم ملنگا کا شربت پیتی ہے۔کوئی حکومت‘ کوئی نیب‘ کوئی کمیشن‘ کوئی وعظ ‘ شوگر مافیا کو وہ سبق نہیں سکھا سکتا جو چند ہفتوں یا چند ماہ کا بائیکاٹ سکھا سکتا ہے۔لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
پٹرول کا بائیکاٹ نہیں ہو سکتا مگر استعمال میں کمی تو لائی جا سکتی ہے۔ چند ماہ کے لیے اگر ہم میں سے ہر شخص ‘ آدھا نہ سہی‘ ایک تہائی‘ یا ایک چوتھائی ہی کم پٹرول خریدے اور گاڑی یا موٹر سائیکل صرف شدید ضرورت کے تحت چلائے تو پٹرول مافیا کو بھی راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے۔ مرغی‘ بکرے اور گائے کے گوشت کا بھی یہی حال ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ مرغی کی روزانہ کی قیمت کا تعین جن خاندانوں کے ہاتھ میں ہے ان کی ہوسِ زر کی کوئی انتہا نہیں اور وہ انصاف سے کام لینے کے بجائے ناجائز منافع خوری پر تُلے ہیں مگر ہم بھی لُوٹے جانے کے لیے تیار ہیں‘ گوشت کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ہم کورونا سے مر سکتے ہیں مگر عید کی شاپنگ نہیں چھوڑ سکتے۔موت سروں پر منڈلا رہی ہے مگر ہم مُصر ہیں کہ اعزہ و اقارب اور دوست احباب شادی میں ضرور شرکت کریں اور شادی بھی وہ جس میں ساری رسمیں ادا کی جائیں۔ کسی ایک رسم کا چھوٹ جانا بھی ہمارے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ اندازہ لگائیے شادی کی تقریبات اور غیر ضروری شاپنگ کی وجہ سے کتنے ہزار لوگ کورونا میں مبتلا ہوئے ہوں گے۔
ہم عوام کا رویّہ '' مٹی پاؤ‘‘ کا ہے۔اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے جدو جہد کا وقت آئے توہم '' چھوڑیے ‘ جانے دیجیے‘‘ کہہ کر اپنی راہ لیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں پوچھتے کہ ہمیں کوڑے کیوں مارے جا رہے ہیں ؟ہاں یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ کوڑے مارنے پر ایک کے بجائے دو افراد تعینات کیے جائیں تا کہ ہم جلد '' فارغ‘‘ ہو جائیں۔آگہی اور شعور کی شدید کمی ہے۔ ورنہ آج تاجر اپنی دکانوں پر یہ نہ لکھتے کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہ ہو گا۔پوری مہذب دنیا میں ری فنڈ گاہک کابنیادی حق ہے۔پاکستان میں یہ لوگ ایک گھنٹے کے بعد شے واپس نہیں لیتے‘ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے یہ پِسی ہوئی مخلوق ہے چُوں بھی نہیں کرے گی۔ بائیکاٹ تو دور کی بات ہے‘ ہم تو اتنے '' صلح جُو‘‘ ہیں کہ خریداری کی رسید تک نہیں مانگتے

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, April 20, 2021

انوکھا مکتبِ فکر



ہم سب جانتے ہیں کہ فقہ کے بڑے اور معروف مکاتب پانچ ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق ؒکے پیروکار فقہ جعفریہ پر عمل پیرا ہیں۔ فقہ حنفی کی اتباع کرنے والے احناف کہلاتے ہیں۔ شوافع ‘ امام شافعیؒ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ فقہ کا مالکی مکتب فکر امام مالکؒ سے منسوب ہے۔ حنبلی یا حنابلہ ‘ امام احمد بن حنبلؒ کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ آئمہ ایک دوسرے سے محبت اور احترام کا رشتہ رکھتے تھے۔انہوں نے ایک دوسرے سے علم بھی حاصل کیا۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ دونوں نے حضرت امام جعفر صادقؒ سے فیض حاصل کیا؛تاہم اصل بات جو ہم بتانا چاہتے ہیں اور ہے۔

ہم اہلِ پاکستان کی اکثریت جس مکتب فکر کی عملاً پیروکار ہے اس کا ان ثقہ مکاتب سے کوئی تعلق نہیں! سچ پوچھیے اور کہنے کی اجازت دیں تو یہ ایک اور ہی مکتب فکر ہے۔ ہم حنفی ہیں یا جعفری‘ یا کچھ اور ‘ اس نئے مکتب فکر کے حوالے سے سب یکجان ہیں۔ سب ایک دوسرے سے متفق ہیں۔ سب سے پہلے رمضان کو لے لیجیے۔پانچوں آئمہ کرام اس امر پر اتفاق فرماتے ہیں کہ روزہ رکھ کر کھانا پینا حرام ہے۔ مگر ہم پاکستانی ‘ منہ سے کہیں یا نہ کہیں‘ بکرے‘ دنبے‘ گائے‘ بھینس ‘ مرغی‘تیتر‘ بٹیر اوراونٹ کا گوشت تو چھوڑ سکتے ہیں مردہ بھائی کا گوشت کھانا نہیں چھوڑ سکتے۔ یوں تو سارا سال یہ غذا ہمارا مرغوب کھاجا ہے مگر رمضان کے دوران یہ گوشت ہم ٹنوں کے حساب سے کھاتے ہیں۔رغبت اس قدر ہے کہ یہ کام گھنٹوں کے حساب سے کرتے ہیں۔ چونکہ اس گوشت کا تقاضا ہے کہ کم از کم دو افراد دسترخوان پر ضرور موجود ہوں ‘ اس لیے ہم اگر اکیلے ہوں تو کسی دوسرے کے پاس چلے جاتے ہیں یا کسی کو دعوت دے کر بلا لیتے ہیں تا کہ اس گوشت کا کھانا ممکن ہو سکے۔ یوں تو یہ گوشت ہمیشہ ہی لذیذ ہوتا ہے مگر روزہ رکھ کر مردہ بھائی کے گوشت کھانے کا مزہ کچھ اور ہی ہے۔ پرندوں کے گوشت میں بھی اتنی لذت نہیں۔
ہم پاکستانیوں کے اس خصوصی نام نہاد مکتب ِفکر کا ایک اور اہم مسئلہ رمضان میں قیمتوں کا بڑھانا ہے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ ''تشبّہ بالکفار ‘‘ یعنی کفار سے مشابہت رکھنا علما کے نزدیک جائز نہیں اس لیے ہم رمضان میں کافروں کی طرح قیمتیں کم نہیں کرتے۔ یہ غیر مسلم کرسمس کے موقع پر اشیائے ضرورت کے نرخ گھٹا دیتے ہیں بلکہ اب تو مغربی ملکوں میں یہ کفار ‘ رمضان کے دوران بھی قیمتیں کم کر دیتے ہیں مگر ہم تشبہ بالکفار سے احتراز کرتے ہوئے رمضان میں قیمتیں نہ صرف یہ کہ گھٹاتے نہیں‘ بڑھا دیتے ہیں۔ جوتے‘ کپڑے‘ پھل‘ سبزیاں‘ اناج‘ سب کی قیمتیں آسمان تک لے جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ منافع خوری کا جو لطف روزہ رکھ کر آتا ہے وہ باقی گیارہ مہینوں میں کہاں نصیب ہوتا ہے! دروغ گوئی‘ عہد شکنی اور قطع رحمی کا مزا بھی اس مہینے کے دوران کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے اس مخصوص مکتب فکر کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ رمضان میں دفتروں‘ کارخانوں اور تعلیمی اداروں میں کام کم کیا جائے‘ اوقاتِ کار چوری کئے جائیں مگر تنخواہ پوری لی جائے۔ بقول ضمیر جعفری ؎
میں نے ہر فائل کی دُمچی پر یہ مصرع لکھ دیا
کام ہو سکتا نہیں سرکار! میں روزے سے ہوں
اب ہم نماز کا بیان کرتے ہیں۔ سارے امام ‘ فقہا اور علما کہتے ہیں کہ نماز خشوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نماز میں جو کچھ ہم پڑھتے ہیں اس کے معانی معلوم ہوں۔جبھی تو نماز کے دوران ہمیں معلوم ہو سکے گا کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں۔ مگر یہ جو نیا مکتب ِ فکر ہم نے ایجاد کیا ہے ‘اس کی رُو سے نماز کے معانی اور مفاہیم سے مکمل ناواقفیت لازم ہے۔ آپ اسّی سال کے کسی بوڑھے سے پوچھ کر دیکھ لیجیے۔ ستر سال تو اسے نماز پڑھتے ہو چکے ہوں گے مگر ثنا ء سے لے کر دعائے قنوت تک اسے نماز کے کسی حصے کا مطلب نہیں معلوم۔ اس بڈھے نے اپنے بچوں کو مہنگے سکولوں میں بھیجاجو انگریزی فر فر بولتے ہیں۔ پھر یورپ اور امریکہ جا کر اس کی اولاد نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ اب لاکھوں کروڑوں میں کماتے ہیں مگر قرآن پاک کی کسی آیت کا مفہوم پوچھیے تو ہونقوں کی طرح پورا منہ یوں کھولیں گے جیسے دنیا بھر کی مکھیوں کو منہ کے اندر آنے کی دعوت دے رہے ہوں۔ ویسے عبرت کی بات یہ بھی ہے کہ یہ پیرِ فرتوت کل جب مرے گا اور اس کے بچے جب اس کی نماز جنازہ میں کھڑے ہوں گے تو شاید ہی کسی کو جنازے کی دعا یاد ہو گی اور بفرضِ محال کسی کو یاد ہوئی بھی تو اس کا مطلب معلوم نہیں ہو گا۔ اسے پتا ہی نہیں چلے گا کہ باپ کے لیے اللہ تعالی سے مانگ کیا رہا ہے؟ ہاں! مرنے سے یاد آیا کہ اس نئے مکتب ِ فکر میں ہم لوگوں کی اکثریت اپنے مرحوم والدین کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی بھی خود نہیں کرتی بلکہ فروٹ چاٹ اور جلیبی کا اہتمام کر کے دوسروں سے پڑھواتی ہے۔
رہا حج اور عمرہ تو ہمارے حج اور عمرے کا کیا ہی کہنا!جیسے ہی احرام زیب تن کرتے ہیں‘ تصویر سوشل میڈیا پر آجاتی ہے۔ پوری دنیا میں جتنے لوگ ہمارے جاننے والے ہیں اور دیدہ اور نادیدہ دوست ہیں ‘ ہمارے قصدِ عبادت سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ عبادت کی خاطر خواہ تشہیر نہ ہو تو فائدہ ہی کیا؟ پھر جدہ اُترنے کی‘ پھر حرم پاک پہنچنے کی تصاویر برابر ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ عبادت کے ایک ایک جزو کا ریکارڈ سوشل میڈیا پر چڑھایا جاتا ہے۔ یہ سب تو ہوتا ہی ہے‘ مگر جو لطف‘ دورانِ طواف ‘ سیلفی لینے کا ہے‘ اس کا کیا پوچھتے ہو! احرام باندھ کر‘ طواف کرتے ہوئے‘ دعا مانگنے اور توبہ استغفار کرنے کے بجائے سیلفی لینا ایک ایسا تجربہ ہے جس کی کوئی مثال ہی نہیں۔ حیرت ہے کہ کسی جاندار اور '' قوی ‘‘ قسم کے مفتی نے ابھی تک یہ فتویٰ نہیں دیا کہ مقام ِابراہیم پر نفل ادا کر رہے ہوں تو نفلوں کے دوران بھی سیلفی بنا سکتے ہیں ! حج کے بعد ساری زندگی کے لیے ہم اپنے نام کے ساتھ حاجی یا الحاج لکھتے ہیں۔ یہاں ایک نکتہ ‘ بہت گہرا‘ بیان کرنا ضروری ہے۔ حج ایک عبادت ہے۔ اس عبادت کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی حاجی کہلوا سکتا ہے تو پھر نماز اور روزہ بھی تو عبادات ہی ہیں۔ اس فارمولے کے مطابق نام کے ساتھ نمازی یا روزہ دار بھی لکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً '' نمازی عبد الکریم! روزہ دار فیروز خان ! نمازن نسرین بی بی! روزہ دارن تمکنت بیگم!
ہمارے اس خود ساختہ نئے مکتب ِ فکر میں ‘ چور بازاری‘ جھوٹ‘ بے ایمانی‘ رشوت‘ سفارش‘ اقربا پروری جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے روزے کی سالمیت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ روزہ اتنا کچا نہیں کہ ان سے ٹوٹ جائے۔ اس مکتبِ فکر کی رُو سے یہ بھی لازم ہے کہ ہم اپنے باس کی اور دوستوں کی افطاریاں کراتے پھریں مگر بوڑھے ماں باپ اور مستحق رشتہ داروں سے غافل رہیں۔ رمضان میں ان کی خبر گیری کریں نہ عید پر ! اپنے بچوں کے نئے ملبوسات خریدیں مگر اپنے ملازموں‘ ان کے اہلِ خانہ اور محلے کے مفلوک الحال بچوں کو ایک دھجی تک خرید کر نہ دیں۔ اور اگر غلطی سے ایسا کر بھی دیں تو فوٹو سیشن کروانا کبھی نہ بھولیں۔ ریاکاری اس خود ساختہ مکتب ِ فکر کا گویا بنیادی ستون ہے۔ ہمارے حکومتی عمائدین تو کسی کو پانچ کلو آٹا فوٹو سیشن کے بغیر نہ دیں۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, April 19, 2021

اے جو بائیڈن ! اے صدرِ ریاستہائے متحدہ امریکہ


حکومت کیسے کی جائے ؟
یہ ہے وہ سوال جس کا جواب حاصل کرنے کے لیے فلسفیوں‘ دانشوروں اور پنڈتوں نے عمریں صرف کیں۔ حکمرانوں نے فاضل اور عالم لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا تاکہ ان سے کامیاب حکومت کے گُر سیکھیں۔ یونان کے ارسطو اور ٹیکسلا کے چانکیہ کوٹلیا سے لے کر فلارنس کے میکیاولی تک ہر مفکر نے اپنی طرف سے نصیحتیں کیں اور بتایا کہ حکومت کیسے کی جائے۔ عروضی ثمرقندی نے اپنا شہرہ آفاق '' چہار مقالہ‘‘ تصنیف کیا جس میں بادشاہوں کو سکھایا کہ دربار میں دبیر‘ منجم ‘ شاعر اور طبیب کون کون سے رکھے جائیں۔ سعدی نے گلستان اور جامی نے بہارستان میں بادشاہوں کو مشورے دیے اور الگ باب باندھے۔ کیکاؤس بن سکندر نے جو خود بادشاہ تھا ‘ اپنے فرزند کے لیے قابوس نامہ تحریر کیا۔اس میں جہاں بانی کے اصول بتائے۔وزیر کیسے چُنے جائیں؟ سپہ سالار کیسا ہونا چاہیے؟ تجارت کو کیسے فروغ دیا جائے ؟ غلام خریدتے وقت کون کون سے پہلو پیشِ نظر ہونے چاہئیں ؟ ان سب سولات کے جواب قابوس نامہ میں موجود ہیں۔ پھر نظام الملک طوسی نے سیاست نامہ لکھا اور کمال کردیا۔ مخبروں کے فرائض‘ عمال کا حساب‘ لشکریوں کے اثاثے‘ عجلت پسندی سے گریز‘ سرکاری خزانے کے ضوابط‘ عدل کا قیام‘ محاسبہ ‘ میزانیہ‘ غرض حکومت کے ہر پہلو اور ہر مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
مگر افسوس!
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی
کسی حکیم‘ کسی فلسفی‘ کسی دانشور‘ کسی بزرجمہر‘ کسی پنڈت‘ کسی مفکر کی کوئی تھیوری کام نہ آئی۔ ہر بادشاہ کی قسمت میں عدم استحکام ہی آیا۔ بغاوتیں‘ شورشیں‘ بیماریاں‘ قحط‘ جنگیں‘ سب کوکاتبِ تقدیرسے یہی کچھ ملا۔یہاں تک کہ علم ِسیاسیات کا سویا ہوا مقدر جاگا اور انگریز نے ہمیں اور پوری دنیا کو حکومت کرنے کا نسخہ کیمیابتایا! 1857ء سے پہلے ‘ غور کیجیے‘ توبرطانوی ہند کے پیش منظر پر جنگیں ہی چھائی رہیں۔ کبھی پلاسی کا میدان‘ کبھی فرانسیسیوں سے مقابلہ‘ کبھی ٹیپو کے ساتھ لڑائی‘ کبھی مرہٹوں کا طوفان‘ کبھی سکھوں کے ساتھ معرکہ آرائی! کبھی اوَدھ تو کبھی روہیلے! مگر جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد جس سکون‘ ٹھہراؤ اور امن وامان کے ساتھ انگریز بہادر نے بادشاہت کی اس کا کیا ہی کہنا! کوئی بغاوت نہ فوج کشی! اس کے بعد ہی تو شیر اور بکری کے ایک گھاٹ پر پانی پینے کا محاورہ وجود میں آیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ جنگِ آزادی کے آس پاس انگریز سرکار نے ایسا کیا ایکشن لیا جس کے نتیجہ میں اسے مزے کی حکمرانی نصیب ہوئی؟ سو چئے اور دوبارہ سوچئے ! آپ ایک ہی نتیجے پر پہنچیں گے اور وہ ہے انتقام ! انتقام اور انتقام ! اس جنگ کے بعد‘ ہم جسے جنگ ِآزادی کہتے ہیں اور انگریز بغاوت‘ برطانوی سرکار نے انتقام کا ایسا ہولناک سلسلہ شروع کیا کہ باغیوں یعنی مجاہدین کی آنے والی نسلیں بھی اس انتقام کی بھینٹ چڑھ گئیں! انتقام کا یہ سلسلہ فاتح نے مفتوح بادشاہ سے آغاز کیا۔ پہلے تو شہزادوں کو قتل کیا۔ پھر ان کے سر کاٹے۔ پھر ٹرے میں رکھے۔ پھر انہیں خوبصورت کپڑے سے ڈھانکا۔ پھر یہ تحفہ بادشاہ کو پیش کیا۔ پھر بادشاہ اور اس کی عمر رسیدہ ملکہ کو رنگون جلا وطن کیا جہاں وہ ایک انگریز کیپٹن کے رحم و کرم پر رہے یہاں تک کہ موت نے انہیں اس بے یار و مدد گار زندگی سے رہائی دلوائی۔ دلی میں شاہی خاندان کے پس ماندگان کوڑی کوڑی کو محتاج کردیے گئے۔ شہزادیاں گھروں میں خادمائیں بننے پر مجبور ہو ئیں اور شہزادے چوراہوں پر بھیک مانگتے پائے گئے۔ خواجہ حسن نظامی نے اپنی تصانیف '' بیگمات کے آنسو ‘‘ اور ''غدر کے افسانے ‘‘ میں دل دہلا دینے والے واقعات نقل کئے ہیں۔ شاہی خاندان ہی پر بس نہیں کیا گیا‘ جس کا دور سے بھی مجاہدین سے کوئی تعلق ثابت ہوا‘ اسے سزا دی گئی۔ باغیوں کی حویلیوں اور جائیدادوں پر ہل چلوائے گئے۔دلی کے گرد و نواح میں کوئی درخت ایسا نہ تھا جس کی شاخوں کے ساتھ مردہ جسم نہ جھول رہے ہوں۔ ہزاروں کو کالے پانی بھیج دیا گیا۔ جنگ میں حصہ لینے والے مجاہدین کے خاندان ایک ایک نوالے کو ترسائے گئے۔دلی ماضی میں بھی کئی بار اجڑی تھی مگر اب کے ایسی اجڑی کہ بَین کرنے کے لیے بھی کوئی نہ بچا۔ہلاکو نے جو حشر بغداد کا کیا ‘ دہلی کا اس سے کم نہ کیا گیا۔ جاسوسوں کی ایک فوج ظفر موج تیار کی گئی جس نے چھپے ہوئے مجاہدین کا سراغ لگایا۔ کنیا کماری سے لے کر کشمیر تک اور تری پورہ سے لے کر جمرود تک چھپنے کی جگہ کوئی نہ رہی۔ بھائی بھائی سے اور پڑوسی پڑوسی سے خائف رہنے لگا۔ کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ مخلص کون ہے اور مخبر کون ؟
پس ثابت ہواکہ تاریخ کے اوراق پر نہ مٹنے والی روشنائی سے یہ سبق لکھ دیا گیا کہ میکیاولی سے لے کر چانکیہ تک کوئی دانشور اور قابوس نامہ سے لے کر سیاست نامۂ طوسی تک کو ئی ہدایت نامہ وہ تدبیر نہ بتا سکا جو انگریز سرکار نے دریافت کی اور آزمائی۔ اب سوال یہ ہے کہ آج کے حکمرانوں کو یہ سنہری اصول کون بتائے گا اور کون سکھائے گا؟المیہ یہ ہے کہ آج کے حکمران پرانے دانشوروں اور ان کی فرسودہ کتابوں میں گھسے ہوئے ہیں اور اس خیالِ خام میں ہیں کہ کامیاب حکومت کرنے کا راز پالیں گے۔ اگر اس کالم نگار کو یہ راز معلوم ہے تو اس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی رہنمائی کرے اور انہیں بتائے کہ کامیاب حکومت کی کلید صرف اور صرف انتقام ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ دنیا میں اس وقت کم و بیش دو سوکے لگ بھگ ملک ہیں اور اتنے ہی حکمران! اور اس کالم نگار کی ایک جان! تو کس کس کو نصیحت کی جائے۔ یک انار و صد بیمار والا معاملہ ہے۔ اس کا حل یہ سوچا ہے کہ کرۂ ارض کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ طاقتور حکمران کو یہ گُر بتایا جائے اور سکھایا جائے۔ ظاہر ہے سب سے بڑا اور سب سے زیادہ طاقتور حکمران امریکہ کے سوا کون ہو سکتا ہے ؟
پس اے جو بائیڈن ! اے صدرِ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ! سُنو اور اس فقیر کالم نگار کی یہ بات پلّے باندھ لو کہ انتقام ہی تمہاری حکومت کو دوام بخش سکتا ہے اور انتقام ہی تمہیں تاریخ میں سرخرو کر سکتا ہے ! فوراً ٹرمپ کے بینک بیلنس معلوم کراؤ پھر ایک ایک پیسے کی منی ٹریل اُگلواؤ۔ اس نے تمہارے مقابلے میں الیکشن لڑنے کی گستاخی کی تھی۔ اسے ‘ اس کے بھائیوں کو ‘ بیٹوں اور بیٹیوں کو‘ دامادوں اور بھانجوں بھتیجوں کو جیل میں ڈالو۔ ایک ضمانت پر باہر نکلے تو دوسرے کو پکڑ لو۔ یہ جو ٹرمپ کے پلازے ہیں‘ یہ جس زمین پر بنے ہیں ‘ اس زمین کے کاغذات آرکائیوز سے نکلواؤ۔ زمین کی خریداری مشکوک ہو گی۔ پھر اسی بنیاد پر اس کے پلازوں اور اس کے مکانات کو مسمار کر دینے کا حکم جاری کرو۔ اس کے ساتھیوں پر منشیات کے مقدمے قائم کرو۔ کچھ کو دہشت گردی کے جرم میں پکڑو۔ خاص طور پر ‘ ہر تقریر میں اس کے جرائم کا ذکر ضرور کرو۔ اپنے عمائدین اور وزرا کو ہدایت کرو کہ وہ بھی رات دن اس کے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف بیانات دیں۔ یاد رکھو! انتقام اور صرف انتقام ہی حکومت کرنے کا بہترین فارمولا ہے۔ معیشت کا کیا حال ہے؟ امن و امان کیسا ہے ؟ عوام کے حقیقی مسائل کیا ہیں ؟ یہ سب باتیں فضول ہیں۔ بس مخالف کا جینا محال کر دو۔ اور ہاں ! اب اپنے دفتر کی دیوار سے میکیاولی اورچانکیہ کی تصویریں اتار پھینکو اور اس کالم نگار کی رنگین فوٹو آویزاں کرو!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, April 15, 2021

اپنی درخشاں روایات کا کچھ تو خیال کرنا چاہیے



رِک پیری ریاستِ ٹیکساس کا گورنر تھا۔ اس دن وہ بہت جلدی میں تھا۔ ایک سرکاری اجلاس میں شرکت کرنا تھی اور تاخیر ہو رہی تھی۔ اس نے دو بار راستہ بدلا اور شارٹ کٹ کا سہارا لیا۔ ہائی وے پر اس کا ڈرائیور حدِ رفتار عبور کر کے گاڑی بہت زیادہ تیز چلا رہا تھا کہ ٹریفک پولیس نے گاڑی روک لی۔ ڈرائیور باہر نکلا اور خاتون انسپکٹر کو قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اتنے میں گورنر خود گاڑی سے باہر نکل آیا اور انسپکٹر کو اپنا منصب بتا کر صورت حال کی وضاحت کرنے لگا۔انسپکٹر قائل نہ ہوئی اس لیے کہ اوور سپیڈنگ، بہر حال جرم تھا۔ آخر کار گورنر نے انسپکٹر سے کہا کہ جو کچھ کرنا ہے جلد کرو کہ میں لیٹ ہو رہا ہوں۔ انسپکٹر کا جواب تھا کہ میں ہر حال میں اپنا کام مکمل کروں گی۔ مگر معاملہ یہاں ختم نہ ہوا۔ بات میڈیا تک پہنچ گئی۔ میڈیا نے گورنر پر الزام لگایا کہ اس نے انسپکٹر پر اپنے منصب کے حوالے سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ آخر کار گورنر کو میڈیا کے سامنے معذرت کرنا پڑی ۔ اس نے تسلیم کیا کہ اسے گاڑی سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا۔
دوسرا واقعہ سنیے۔ ڈیوڈ کیمرون جب برطانیہ کا وزیر اعظم تھا، ایک مریض کو دیکھنے ہسپتال گیا۔ جب وہ وارڈ میں تھا تو اوپر سے متعلقہ سرجن آ گیا۔ وزیر اعظم اور اس کی میڈیا ٹیم کو دیکھ کر سرجن ناراض ہوا۔ اس نے کہا: یہاں میں انچارج ہوں۔ وزیر اعظم کو فوراً وہاں سے جانا پڑا۔ بعد میں وزیر اعظم نے خود کہا کہ سرجن کو وزیر اعظم کے آنے کا پہلے سے علم نہیں تھا۔ مزید یہ کہ اسے ہائی جِین کے حوالے سے بھی تشویش ہو گی۔
اب تیسرا واقعہ سنیے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال کے سربراہ کے خلاف ایک تحریک استحقاق پیش کی گئی ہے۔ الزام یہ ہے کہ عزت مآب سپیکر قومی اسمبلی کے حکم پر کورونا کے ایک مریض کو ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب ہسپتال کے سربراہ کو ایک میٹنگ، جس کی صدارت عزت مآب سپیکر نے کرنا تھی، میں حاضر ہونے کے لیے کہا گیا تو وہ حاضر نہ ہوئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، ہسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر نے بتایا کہ دو اپریل کو سپیکر کے دفتر سے فون آیا‘ جس میں ہسپتال کو ہدایت کی گئی کہ ایک مریض کے لیے وی آئی پی کمرہ خالی کرایا جائے۔ ٹیلی فون کرنے والے صاحب کو بتایا گیا کہ پرائیویٹ کمروں ہی کو وی آئی پی کمروں میں تبدیل کیا جاتا ہے اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تمام کمروں کو کورونا وارڈوں میں بدلا جا چکا ہے جہاں سے کسی مریض کو نکالنا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ اس جواب سے سپیکر کا دفتر نا خوش ہوا۔ اس کے بعد ایک اور فون آیا۔ اب کے ہسپتال کے سربراہ کو سپیکر کی قیام گاہ پر بلایا گیا تھا جہاں ایک میٹنگ کا انعقاد ہونا تھا۔ چونکہ سربراہ کی فیملی میں کورونا کے دو مریض تھے اس لیے مناسب یہ سمجھا گیا کہ وہ میٹنگ میں نہ جائیں اور ان کے نائب میٹنگ اٹنڈ کریں؛ تاہم سپیکر کے دفتر کا اصرار تھا کہ سربراہ ذاتی طور پر آئیں۔ تحریک استحقاق لانے والے ایم این اے نے‘ جن کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہے، ہسپتال کے موقف کی تردید کی ہے۔ ان کے بقول اس دعوے میں، کہ وی آئی پی کمرے کا مطالبہ کیا گیا تھا، کوئی صداقت نہیں۔ بات صرف مریض کو داخل کرنے کی تھی‘ مگر ہسپتال انتظامیہ نے یہ کہہ کر کہ بیڈ دستیاب نہیں، داخل کرنے سے انکار کر دیا۔ فریقین کے موقف میں فرق ہے!بہت زیادہ فرق!بقول فراق گورکھپوری
کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
مگر فرض کیجیے ہسپتال کا یہ دعویٰ کہ مطالبہ وی آئی پی کمرے کا تھا، مبنی بر صداقت ہے تو اس میں برائی ہی کیا تھی۔ کیا اتنی اہم شخصیت کو اتنا حق بھی نہیں پہنچتا کہ اپنے کسی جاننے والے کے لیے وی آئی پی کمرہ خالی کرا سکیں۔ اگر کورونا کا ایک یا کچھ مریض کمرے سے نکال کر اپنے اپنے گھر بھیج دیے جاتے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا‘ اور اگر کوٹھی میں طلب کیا گیا تو بڑے ڈاکٹر صاحب کو وہاں بالکل حاضر ہونا چاہیے تھا۔ بڑے بڑے ہوتے ہیں اور ماتحت ماتحت!
اصل میں ہماری قوم کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ مغرب کی نقالی میں ہم اپنی روایات بھولتے جا رہے ہیں۔ طبقاتی فرق کا کچھ خیال ہی نہیں کیا جا رہا۔ کالم کے شروع میں جو دو واقعات بیان کیے ہیں، ایسے واقعات ہی سے ہمارے اخلاق پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ گورنر کی تیز رفتار سواری کو پاکستان میں، بفرض محال، روک بھی لیا جاتا تو روکنے والی انسپکٹر کو ایسا سبق سکھایا جاتا کہ اس کی آئندہ نسلیں بھی یاد رکھتیں۔ رہا وہ بد تمیز ڈاکٹر جس نے برطانوی وزیر اعظم کو وارڈ سے نکال باہر کیا، ہمارے ملک میں ہوتا تو ایسی گستاخی کا سوچ بھی نہ سکتا بلکہ وزیر اعظم کے سامنے دست بستہ کھڑا ہو جاتا۔ انگریزوں اور امریکیوں کو کیا پتا کہ ہماری روایات کس قدر درخشاں ہیں۔ ہمارے جاگیردار تو عید کے دن اونچے طرے باندھ کر، اچکنوں میں ملبوس، نماز عید ادا کرنے کے فوراً بعد انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے لان میں جمع ہو جاتے تھے اور صاحب بہادر کے نوکروں کو بتاتے تھے کہ عید مبارک کہنے حاضر ہوئے ہیں۔ کئی گھنٹے کھڑے رہتے۔ پھر ایک نوکر آ کر اعلان کرتا کہ صاحب نے مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر تمام جاگیر دار ایک دوسرے سے گلے ملتے اور اظہارِ مسرت کرتے کہ صاحب نے اندر سے توجہ اور عنایت دے بھیجی ہے۔ یہ ہیں ہماری روایات! انگریز آقائوں کے جانے کے بعد بھی ہم نے ان روایات کا چراغ روشن رکھا۔ جبھی تو مغربی پاکستان کے گورنر نے میڈیکل کالج کے ایک نافرمان پرنسپل کو تھپڑ رسید کیا تھا! اور یہ تو چودہ پندرہ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک مرحوم وزیر دفاع نے ایک سینئر پولیس افسر کو تھپڑ مارا تھا۔ بڑے لوگوں کی گاڑیوں کا چالان کرنے کی کوشش کرنے والے بد دماغ کانسٹیبلوں کو ہمیشہ معافی مانگنا پڑی! فرقِ مراتب ہی میں ہمارے لیے راہِ نجات ہے۔ ہسپتال کے سربراہ کو قرار واقعی سزا دے کر نشان عبرت بنانا چاہیے کہ دوسروں کو سبق حاصل ہو اور آئندہ کوئی سر پھرا روایات کے خلاف چلنے کا سوچ بھی نہ سکے۔ کچھ عرصہ پہلے جب ایک نوجوان کو معصوم سرکاری اہلکاروں نے گولیوں کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتاردیا تو مقتول کے باپ کو انہی روایات کے تسلسل ہی میں ہمارے سربراہ حکومت نے اپنے محل میں طلب کیا تھا تا کہ اس سے تعزیت فرمائیں۔ کسی مغربی ملک کا کافر حکمران ہوتا تو مقتول کے گھر جا پہنچتا۔ ان سفید چمڑی والوں کو کیا علم کہ مقتدر شخصیات کی شان و شوکت کیا ہوتی ہے اور طمطراق کسے کہتے ہیں۔
ہم تو یہاں تک عرض کریں گے کہ ہسپتالوں میں اہم سرکاری شخصیات کا کوٹہ مقرر کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر ہر وزیر کے پانچ مریض۔ ہر ایم این اے کے دو مریض۔ عزت مآب سپیکر اور عزت مآب چیئرمین سینیٹ کے دس دس مریض! یہ بیڈ ہمیشہ خالی رکھے جائیں۔ جیسے ہی کسی اہم سرکاری شخصیت یا ایم این اے کا کوئی جاننے والا بیمار پڑے، اس کے کوٹے کا بیڈ فوراً پیش خدمت کیا جائے۔ یہ اہم شخصیات ہی تو ہمارا سرمایہ ہیں۔ اگر عام مریض ان پر قربان ہو جائیں تو گھاٹے کا سودا نہیں۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, April 13, 2021



اس کے بازو کٹ گئے پھر بھی وہ موجود تھا۔
پھر اس کی ٹانگیں کٹ گئیں‘ پھر بھی وہ وجود رکھتا تھا۔ پھر اس نے اپنے جسم کو چھوڑا اور کہیں اور جا بسا۔معلوم ہوا جسم محض ایک فریم تھا۔یہ فریم رہے نہ رہے‘ اس کے وجود کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ ایک بچے کو دیکھتے ہیں۔ پانچ یا آٹھ دس سالہ بچے کو! سرسبز و شاداب ! سرخ رخسار‘ گھنے سیاہ بال۔پیاری پیاری موٹی آنکھیں۔پھر اس بچے کو آپ ساٹھ سال بعد دیکھتے ہیں۔ رنگت سیاہ ہو چکی ہے۔ آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک ہے جس میں سے اندر دھنسی ہوئی آنکھیں جھانکتی ہیں۔سر چٹیل میدان بنا ہے۔ سفید لمبی داڑھی ہے۔ آپ پہچان نہیں پا رہے۔تعارف ہوا تو آپ کو یقین نہیں آرہا کہ یہ وہی بچہ ہے۔حالانکہ صرف فریم تبدیل ہوا ہے۔ فریم کے اندر وہ بچہ اب بھی اپنا الگ وجود رکھتا ہے۔اس کے وجود کا اس جسم سے تعلق عارضی ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ وہ اس بوسیدہ جسم کو بھی چھوڑ دے گا اور کسی اور فریم میں فِٹ کر دیا جائے گا۔
کچھ اس سے ملتی جلتی صورتحال کتاب کی بھی ہے۔ کتابوں کو پسند کرنے والے لوگ گھبرائے ہوئے ہیں۔ ''کتاب کلچر ختم ہو رہا ہے۔کمپیوٹر کتابوں کو کھا گیا۔ اب کتابیں کون پڑھے گا۔ وغیرہ‘‘۔ خطرے کی یہ گھنٹیاں بجتی ہوئی آپ نے بھی سنی ہوں گی۔ کل ہی ایک بہت پڑھے لکھے صاحب‘ لاہور سے ‘ فون پر یہی رونا رو رہے تھے۔
یہ خوف اس وجہ سے پھیل رہا ہے کہ ہم کاغذ ‘ روشنائی اور جِلد کے مجموعے کو کتاب سمجھ رہے ہیں حالانکہ کتاب وہ ہے جو اس نام نہاد کتاب کے اندر ہے۔ہم کتاب اسے سمجھ رہے ہیں جس کی کتابت کسی انسان نے یا جس کی کمپوزنگ کسی کمپیوٹر نے کی ہو۔ پھر کاغذ خرید کر چھاپہ خانے میں اسے طبع کیا گیا ہو۔ پھر جلد ساز نے اسے جلد کیا ہو۔ پھر کتاب فروش سے اسے خریدا گیا ہو۔ مگر ایسا ہر گز نہیں! ہمیں معلوم ہے کہ چار آسمانی کتابیں اُتری ہیں۔ کیا وہ کاغذ‘ روشنائی اور جلد پر مشتمل تھیں؟ قران مجید نے اپنے آپ کو کئی مقامات پر '' کتاب‘‘ قرار دیا ہے۔ بچے بچے کو یہ الفاظ یاد ہیں:ذلک الکتاب لا ریب فیہ مگر جسے ہم کتاب کہتے ہیں وہ تو اُس وقت کہیں نہیں تھی۔ کلام پاک ہڈیوں‘ چمڑے کے ٹکڑوں‘درختوں کی چھال اور پتھر کی تختیوں پر لکھا جا رہا تھا۔قرانِ پاک کو حفظ کرنے والا اس کتاب کو اپنی یاد داشت میں محفوظ کر لیتا ہے۔اس کے حافظے میں کتاب ہے مگر کاغذ ہیں نہ چمڑے کے ٹکڑے نہ درختوں کی چھال نہ سی ڈی! کلامِ پاک میں اعمال نامے کے لیے بھی جو روزِ حشر دائیں یا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا‘ کتاب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ہمیں علم ہے نہ اندازہ کہ یہ کتاب کس شکل میں ہو گی۔جس میموری سے یہ نکالی جائے گی وہ کیسی ہو گی ؟ کون سی لغت ہو گی؟ الفاظ بھی ہوں گے یا کوئی اور ہی سلسلہ ہوگا۔
پس ثابت ہوا کہ کتاب کا انحصار کاغذ اور روشنائی پر ہے نہ جلد اور چھاپہ خانے پر‘ نہ خطاط پر! کتاب کی شکل زمانے کے ساتھ بدلتی رہی ہے اور آئندہ بھی بدلتی رہے گی۔ پتھروں ‘ ہڈیوں‘ چھال‘ اور چرم سے یہ کاغذ پر آئی۔پہلے ایک ایک کتاب ہاتھ سے لکھی جاتی تھی۔ باد شاہ اور امیر شائقینِ علم کئی کئی خطاط رکھتے تھے جو کتابوں کی نقول تیار کرتے تھے۔ پھر پریس آگیا اور ایک ہی کتاب کے کئی کئی نسخے بہت کم وقت میں تیار ہونے لگے۔ آج کتاب کا سفر ایک اور سنگ میل کے سامنے کھڑا ہے۔ کتاب کاغذ کو بھی چھوڑ کر آگے روانہ ہورہی ہے۔
تھک تھک کر اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا۔
اب وہ کمپیوٹر کے فریم میں فِٹ ہو رہی ہے۔ ای ریڈر آگیا ہے۔ آئی پیڈ پر کتابیں پڑھی جا رہی ہیں۔ بے شمار لوگ اخبارات کی ہارڈ کاپی پڑھنا چھوڑ چکے ہیں۔ اس کالم نگار کے آئی پیڈ میں محمد اسد کا کلام پاک کا انگریزی ترجمہ ( میسج آف قرآن )‘ براؤن کی لٹریری ہسٹری آف پرشیا ( چار وں حصے )‘ شبلی کی شعر العجم ( چاروں حصے ) ‘ پنجاب میں اُردو از محمود شیرانی ‘ برنئیر کا سفرنامہ‘مآثر رحیمی‘دیوانِ حافظ‘ گلستانِ سعدی‘ منطق الطیر‘ ڈاکٹر ژواگو‘ کے علاوہ‘ ابراہام ایرالی‘ پی جی وڈ ہاؤس‘ مارک ٹوئن‘ ڈلرمپل، کرسچین وولمر‘ پران ناتھ چوپڑہ‘ گارسیا مارکوئیز ‘ شفیق الرحمن اورناصر کاظمی کی متعدد تصانیف کے ساتھ ساتھ کئی اور کتابیں بھی محفوظ ہیں۔ کچھ ریفرنس کیلئے ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔ کچھ پڑھنے کے بعد ڈیلیٹ کر دی جاتی ہیں۔ ایرانیوں کی ویب سائٹ '' گنجور ‘‘ پر تمام مشہور شعرا کا کلام کسی بھی وقت میسر آ سکتا ہے۔ بے شمار لوگوں نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کتابیں لیپ ٹاپ‘ یا آئی پیڈ‘ یا موبائل فون‘ یا ای ریڈر ‘پر محفوظ کی ہوئی ہیں۔ پڑھتے ہوئے جو سطور یا پیرا گراف نشان زد (ہائی لائٹ) کرنا ہوں‘ کیے جا سکتے ہیں۔
رہا معاملہ ہمارے اپنے ملک میں کتاب کی ناقدری کا ‘ تو یہ معاملہ باقی دنیا سے الگ ہے۔ ہماری شرح خواندگی بھارت‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا سے کم ہے۔ کروڑوں بچے سکول سے باہر ہیں۔ ہماری مخصوص مقامی ثقافتیں ‘ ہماری ذہنیت‘ ہمارے دماغوں کی کجی اور مذہب کی ہماری خود ساختہ تعبیر‘ آج تک تعلیم ِ نسواں کو دل سے قبول نہیں کر سکی۔ لائبریری کلچر جو تھوڑا بہت تھا وہ بھی ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ایسے میں قصور کمپیوٹر کا نہیں‘ ہمارے مخصوص حالات کا ہے۔ آپ بین الاقوامی سفر کر کے دیکھ لیجیے۔ فضا میں اُڑتے جہاز ہو ں یا ہوائی اڈوں کے لاؤنج ‘ چینی‘ جاپانی‘ کورین‘ تھائی‘ سفید فام‘ یہاں تک کہ افریقی اور بھارتی بھی ‘ لیپ ٹاپ یا ای ریڈر یا آئی پیڈ کھولے محوِ مطالعہ ہوں گے! فارغ بیٹھے ہوں گے تو ہم پاکستانی یا ہمارے عرب بھائی‘ اِلّا ماشاء اللہ !
جس طرح ہمیں یہ وہم ہے کہ دنیا ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے یعنی ستائے جانے کا وہم(Persecution Comple ) اسی طرح ہمیں دیگر حوالوں سے بھی کئی قسم کے اوہام نے گھیر رکھا ہے۔ کبھی ہمیں مذہب خطرے میں دکھائی دیتا ہے‘ کبھی ملک! کبھی ہمیں اردو کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے کبھی پنجابی کا ! کبھی ہم رو رہے ہوتے ہیں کہ کمپیوٹر کے زمانے میں شاعری کا کیا بنے گا ‘ کبھی انگریزی سے خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو حقیقی خطرات ہمارے سر پر منڈلا رہے ہیں جیسے تیزی سے گرتی معیشت ‘ ناخواندگی‘ سیاسی عدم استحکام‘ دیہات اور قصبات میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور کئی قسم کی ناانصافیاں‘ وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتیں یا دیکھیں تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں ! کتاب کلچر کہیں نہیں جا رہا۔ خاطر جمع رکھیے۔ ہاں کتابیں ڈیجیٹل ہوں گی اور لائبریریاں بھی! اس تبدیلی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ جتنا جلدی اس تبدیلی سے سمجھوتہ کرلیں‘ ہمارے حق میں بہتر ہے۔اکبر الہ آبادی روئے تھے ؎
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پائپ ختم ہوا نہ ٹائپ کا لفظ ! اب تو یہ حال ہے کہ مختاریا ! گل ودھ گئی اے۔( بات بہت آگے نکل گئی ہے )۔ اقبال آج بھی وارننگ دے رہے ہیں ؎
آئینِ نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, April 12, 2021

ایک اور عظیم دریافت

یہ سولہویں صدی عیسوی تھی۔ جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں ایک کسان کو بخار تھا۔ تیز بخار! کسی کھیت کے کنارے‘ جنگلی‘ خود رو پودوں کے درمیان پڑا کراہ رہا تھا۔ نیم خوابیدہ! کبھی غنودگی چھا جاتی‘ کبھی آنکھیں کھول لیتا! بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ اسے قریب کے ایک پودے کے ساتھ کچھ لگا ہوا نظر آیا۔ پتا نہیں کون سا پھل تھا؟ کیا نام تھا؟ بھوک اور نیند کے سامنے انسان بے بس ہو جاتا ہے۔ تپتے‘ سلگتے بدن کو اس نے گھسیٹا اور جھاڑی سے پھل توڑ توڑ کر کھانے لگا۔ بد ذائقہ ! تلخ ! پھر غنودگی کی ایک اور لہر آئی۔ کتنے ہی پہر گزرے۔ اسے ہوش آیا تو بدن ہلکا محسوس ہوا۔ اس نے ہاتھ لگایا تو پیشانی جو پہلے تپ رہی تھی‘ اب نارمل لگ رہی تھی۔ وہ حیران ہوا اور پھر ایک خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوندا۔ ہو نہ ہو یہ اسی جنگلی پودے کے بے نام پھل کا اثر ہے! یہ تھا وہ حادثہ جس کے نتیجے میں کونین دریافت ہوئی اور سینکڑوں برس سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ملیریا کو کنٹرول کیا جانے لگا۔
اب ہم جنوبی امریکہ کو وہیں چھوڑ کر بحر اوقیانوس پار کرتے ہیں اور برطانیہ کے ساحل پر اترتے ہیں۔ 1666ء کا زمانہ تھا۔ طاعون نے برطانیہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ سرکاری عمارتیں بند کی جا رہی تھیں۔ اجلاس وغیرہ سب ملتوی کئے جا رہے تھے۔ پروفیسر نے سامان اٹھایا اور کیمبرج سے نکل کر لنکا شائر کا رخ کیا جہاں اس کا آبائی مکان تھا۔ یہ خوش گوار حادثہ وہیں پیش آیا۔ وہ اس دن اپنی والدہ کے ساتھ باغ میں بیٹھا ہوا تھا اور اُس پروجیکٹ کے بارے میں سوچ رہا تھا جس پر وہ کیمبرج یونیورسٹی میں کام کر رہا تھا۔ اس کے سامنے ایک پیڑ سے سیب گرا اور سیدھا‘ منہ کے بل‘ زمین پر آ گرا۔ اس نے سوچا یہ سیب نیچے آنے کے بجائے اوپر کیوں نہیں گیا‘ اور دائیں بائیں مڑنے کے بجائے‘ سیدھا کیوں گرا؟ یہ نیوٹن تھا اور یہ تھا وہ حادثہ جس نے کششِ ثقل کے حوالے سے نیوٹن کی سوچ کو مہمیز کیا اور اس نے اپنی شہرہ آفاق تھیوری پیش کی۔
اب ہم برطانیہ سے رخصت ہوتے ہیں اور ایک بار پھر اٹلانٹک‘ یعنی‘ بحر اوقیانوس کو پار کرتے ہیں مگر اس بار جنوبی امریکہ نہیں‘ شمالی امریکہ کا رُخ کرتے ہیں جہاں ریاست ہائے متحدہ امریکہ واقع ہے۔ یہ امریکہ کا ایک ہسپتال ہے۔ ایک معروف پاکستانی اداکارہ‘ جس کی وجہ شہرت‘ اور چیزوں کے علاوہ‘ انگریزی زبان کی ''اصلاح‘‘ بھی ہے‘ مبینہ طور پر‘ ڈاکٹر سے بحث کر رہی ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ اسے وی آئی پی درجہ دے کر شایانِ شان پروٹوکول دیا جائے۔ اس پروٹوکول کے لیے وہ دو دلیلیں پیش کرتی ہے۔ پہلی یہ کہ اس کے اپنے ملک میں وزیر اعظم صاحب خود اسے پروٹوکول دیتے ہیں۔ دوسری یہ کہ موجودہ حکومتی پارٹی نے اسے سینیٹ کی ممبر شپ کی پیشکش کی ہے۔ اداکارہ کا اصرار جب پروٹوکول کے لیے بڑھا تو ڈاکٹر نے اسے پاگل قرار دیتے ہوئے دماغی امراض کے ہسپتال میں بھیج دیا جسے عرفِ عام میں پاگل خانہ کہتے ہیں۔ یہ ایک اور عظیم طِبّی دریافت (میڈیکل ڈسکَوری) ہے‘ جو اس حادثے کے نتیجے میں ہوئی ہے اور وہ یہ کہ پروٹوکول کی خواہش رکھنے والے اور اس پر اصرار کرنے والے لوگ ذہنی مریض ہوتے ہیں۔
یہاں دو ضمنی پہلو غور طلب ہیں۔ اگر اداکارہ کے دونوں دعوے درست ہیں تو ایک تو یہ کہ پاکستانی عوام کے لیے یہ خبر بہت دلچسپ اور معنی خیز ہونی چاہیے کہ ان کی حکومت کا سربراہ اس اداکارہ کو پروٹوکول دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کم از کم سینیٹ کے حکومتی ارکان کو اپنی پارٹی سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ کیا اب سینیٹ کا لیول‘ معیار اور وقار یہ رہ گیا ہے؟ اگر اداکارہ کے یہ دونوں دعوے جھوٹے ہیں تو اس سے باقاعدہ پوچھ گچھ ہونی چاہیے کہ اس نے وزیر اعظم پر پروٹوکول دینے کی تہمت کیوں لگائی اور پاکستانی سینیٹ کی‘ ملک سے باہر کھڑے ہو کر‘ بے توقیری کیوں کی؟ مگر اس وقت‘ شرمسار کرنے والے یہ دونوں پہلو ہمارا دردِ سر نہیں! جن کا یہ مسئلہ ہے‘ ان کے جسموں میں اگر ریڑھ کی ہڈیاں موجود ہیں تو خود نمٹ لیں گے!
خدا کے بندو! غور کرو! سوچو! یہ کتنی بڑی دریافت ہے! حیرت انگیز دریافت! کہ پروٹوکول کے خواہش مند‘ فاتر العقل ہوتے ہیں۔ امریکی ڈاکٹر کو مشرقی زبانوں سے آگاہی ہوتی تو ایسے بیماروں کو مراقی کہتا یا مالیخولیا کے مریض! دوبارہ غور کرو! دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ چاند کے بعد اب دور تر سیاروں پر کمندیں پھینکنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ کمپیوٹر نے انسانی دماغ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ انٹرنیٹ نے کرۂ ارض کو مٹھی میں بند کر دیا ہے۔ طیارے آواز کا بیریئر توڑ چکے۔ مگر اس ساری‘ حیران کُن ترقی کے باوجود‘ پروٹوکول کے مرض کی تشخیص نہیں ہو رہی تھی۔ کوئی اسے دل کی بیماری بتاتا‘ کوئی سوء ہضم کا شاخسانہ قرار دیتا۔ کوئی اسے اندر کے اندھے پن کا نام دیتا۔ آفرین ہے اس امریکی ڈاکٹر پر جس نے بالآخر دریافت کر لیا کہ پروٹوکول کی خواہش کا براہ راست تعلق دماغی مرض سے ہے۔ ہمارے ملک کا نام بھی میڈیکل ہسٹری میں ہمیشہ تابندہ رہے گا کہ جس مریضہ کی بدولت یہ عظیم الشان دریافت ہوئی‘ اس کا تعلق ہمارے ملک سے تھا! یہ بھی عجیب درد ناک اتفاق ہے کہ پروٹوکول کی بیماری ہمارے جیسے ملکوں ہی میں ہے۔ سالہا سال جمہوری (اصلی جمہوری) ملکوں میں رہنے والوں نے کبھی ہٹو بچو کا غوغا یا سڑکوں پر روٹ لگتے نہیں دیکھا۔ ان ملکوں کے سربراہ‘ گورنر‘ چیف منسٹرز‘ اور دیگر اہم شخصیات تزک و احتشام‘ شان و شوکت‘ جاہ و جلال اور طمطراق سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ منسٹر اپنی گاڑیاں‘ اکثر و بیشتر‘ خود ڈرائیو کرتے ہیں۔ (ہاں سکیورٹی ایک الگ ایشو ہے۔ اس کا پروٹوکول یا رعب داب سے کوئی تعلق نہیں)۔ ٹرین میں کھڑے ہو کر سفر کرنا یا سائیکل پر سوار ہو کر دفتر پہنچنا عام ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی پیغمبر‘ کسی صحابی‘ کسی امام‘ کسی خلیفہ راشد‘ کسی ولی اللہ نے پروٹوکول چاہا نہ برداشت کیا نہ اس کی اجازت ہی دی۔
پروٹوکول کی خواہش‘ اصلاً احساسِ کمتری کا نتیجہ ہے جو ایک خطرناک نفسیاتی مرض ہے اور ضروری نہیں کہ یہ مرض صرف حکمرانوں میں ہو۔ اب تو ایسے ایسے عالم دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ خود اپنے نام کے ساتھ مولانا لکھتے ہیں جیسے یہ ان کے نام کا حصہ ہو۔ قیمتی گاڑی رکھنا کوئی برائی نہیں۔ ہر صاحبِ استطاعت کا حق ہے‘ مگر زرِ کثیر خرچ کر کے خصوصی نمبر پلیٹ لگوانا‘ خود نمائی کے سوا کیا ہے؟ اگر ایسا کام کوئی شاگرد یا عقیدت مند بھی کرے تو لازم ہے کہ اسے سختی سے منع کیا جائے اور ایسی حرکت کالعدم کرائی جائے۔ نادان دوستوں کی طرح نادان مرید بھی ضرر رساں ہوتے ہیں۔
پروٹوکول اور عقیدت کے رد عمل میں فرقہ ملامتیہ وجود میں آیا۔ یہ حضرات آؤ بھگت اور ہٹو بچو سے بیزار تھے۔ ایسی حرکتوں سے انہیں شدید کوفت ہوتی تھی۔ اس کا علاج انہوں نے یہ کیا کہ اپنی عبادات‘ کرامات اور کمالات پوشیدہ رکھے اور ظاہر میں اپنے آپ کو گنہگار بنا کر پیش کیا۔ یہ دوسری انتہا تھی مگر رد عمل ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایک صحیح الدماغ انسان‘ مرد ہو یا عورت‘ پروٹو کول لے کر‘ نظروں کا محور بننا کبھی پسند نہیں کرتا۔ لوگوں کا دست بستہ کھڑا رہنا‘ ہاتھ چومنا‘ پاؤں چھونا ‘ خوشامد کرنا اسے برا لگتا ہے۔ جسے اپنے اوپر اعتماد ہو وہ پروٹوکول کا سہارا نہیں لیتا۔ حکمران ہو یا کوئی اور!

Thursday, April 08, 2021

خوشحال گھرانوں کے بچوں پر بھی رحم کھائیے



میں نے تیرہ سالہ خوش لباس بچے کو دیکھا اور مجھے اس پر ترس آیا!
مزدوری کرنے والے، کُوڑے کے ڈھیر سے پرانے کاغذ چننے والے، بھیک مانگنے والے اور گاڑی کا شیشہ صاف کرنے والے بچوں پر تو سب کو ترس آتا ہے مگر خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کا کیا ہو گا؟ وہ بھی تو رحم کے مستحق ہیں!
اسے سامنے بٹھایا اور اس سے پوچھا: کیا آپ نے رات کو ستاروں بھرا آسمان دیکھا ہے؟ آپ کے گھر کے ارد گرد کون کون سے درخت ہیں؟ کبھی غور سے دیکھا ہے کہ بادل شکلیں کیا کیا بناتے ہیں؟ آخری بار دھنک کب دیکھی تھی؟ ہر روز پیدل کتنا چلتے ہیں؟ کبھی برستی بارش میں نہائے؟ سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا؟غروب سے پہلے شفق میں کون کون سے رنگ ہوتے ہیں؟ موٹر وے پر سفر کرتے ہیں تو کیا باہر، مالٹے کے باغوں، کھیتوں میں اُگی فصلوں، جوہڑوں میں نہاتی بھینسوں اور آسمان پر اڑتے پرندوں کو غور سے دیکھتے ہیں؟ کیا فاختہ کو پہچان لیں گے؟ سچ مچ کے زندہ، جیتے جاگتے خرگوش کو کبھی دیکھا ہے؟ شاید ہی کسی سوال کا جواب اس نے اثبات میں دیا ہو! اور یہ تو وہ سوال ہیں جو شہر میں رہنے والے بچوں کے لیے بہت زیادہ مشکل نہیں۔ میں نے اسے دوبارہ غور سے دیکھا۔ مجھے اور بھی ترس آیا! بہت سے سوال تو اس بچے سے پوچھے ہی نہیں جا سکتے۔ اس سے اگر یہ پوچھا جائے کہ گرمیوں میں رات کو کبھی چھت پر، یا صحن میں سوئے تو حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔ اور یہ پوچھنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ گندم اور جَو کے پودے میں اور جوار اور باجرے کے پودے میں کیا فرق ہے؟ گائے اور بھینس کی خوراک کیا ہے؟ کبھی بکری کے میمنے کو چوما ہے؟ صبح نو دس بجے بستی کے ہر گھر سے دھواں کیوں اٹھتا ہے؟ تنور میں ڈالے گئے ایندھن کو لکڑی کے جس ڈنڈے سے ہِلایا جاتا ہے، اسے کیا کہتے ہیں؟ سردی میں باہر نکلتے وقت کھیس یا گرم چادر کیسے اوڑھتے ہیں؟ لالٹین کیا ہوتی ہے؟ مٹی کا دیا کس شکل کا ہوتا ہے؟ مسجد میں ٹھہرے ہوئے مسافر کو، مغرب کی نماز کے بعد، کھانا پہنچانے کبھی گئے؟ گھروں میں جو بیل‘ بھینسیں‘ گھوڑے رکھے جاتے ہیں ان کے پانی پینے کا کیا بندوبست ہوتا ہے؟ اور تو اور یہی پوچھ لیجیے کہ دہی کیسے بنتا ہے، مکھن کہاں سے آتا ہے اور خالص گھی کس چیز سے بنتا ہے تو شاید ہی بتا سکیں!
کس قدر قابل رحم ہیں یہ بچے جو ڈبل روٹی کے جھاگ نما ٹکڑوں پر، پیزا کے نقصان دہ میدے پر‘ اور آدھے پکّے آدھے کچّے برگروں پر زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ انہوں نے چشموں کا پانی پیا نہ کنوئوں کا! یہ تو بوتلوں میں بھرا ہوا پانی پیتے ہیں جس کے ایک ایک گلاس، بلکہ ایک ایک گھونٹ کی قیمت، بیرون ملک، دوسروں کے خزانوں میں جمع ہو رہی ہے۔ افسوس! ان کو ماں باپ بھی فیس بک، ٹویٹر، وٹس ایپ اور انسٹا گرام زمانے کے ملے۔ والدین کے پاس وقت ہے نہ دماغ کہ صبح کے ناشتے میں انہیں پراٹھے، گھر کا مکھن اور خالص دودھ مہیا کریں۔ آج کے بچے کا موازنہ چار پانچ عشرے پہلے کے بچے سے کر کے دیکھیے۔ گاؤں یا قصبے کو تو ایک طرف رکھیے۔ شہر کی بات کر لیتے ہیں۔ بچہ صبح سکول پیدل جاتا تھا۔ نسبتاً خوش حال بچے کی اپنی بائی سائیکل ہوتی تھی۔ کچھ بچے بس پر جاتے تھے۔ مگر جس طرح بھی جاتے تھے، سکیورٹی کا کوئی ایشو دامن گیر نہیں ہوتا تھا! اُس زمانے کے سکول مکانوں اور کوٹھیوں میں نہیں ہوتے تھے۔ یہ خصوصی عمارتیں تھیں جن میں کھیلنے کے لیے بڑے بڑے گراؤنڈ ہوتے تھے۔ جسمانی فِٹ نس کے پیریڈ آج کی طرح ہفتے میں صرف دو دن نہیں، ہر روز ہوتے تھے۔ یہ بچے سکول سے آ کر، ہوم ورک کرتے تھے۔ ماں یا بہن کو محلے کی دکان سے سودا سلف بھی لا کر دیتے تھے۔ ہوم ورک کرنے کے بعد، عصر کے لگ بھگ، محلے کی نزدیک ترین گراؤنڈ میں پہنچ جاتے تھے‘ جہاں گلی ڈنڈا سے لے کر ہاکی، والی بال اور فٹ بال تک سبھی کھیل کھیلے جاتے تھے۔ اِدھر مغرب کی اذان ہوتی، اُدھر سب بچے کھیل چھوڑ کر گھر کو چل پڑتے۔ مغرب کے بعد گھر سے باہر رہنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ سالگرہ منانے کی بدعت ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ ٹیلی ویژن آ چکا تھا مگر اس کے مخصوص اوقات تھے۔ شام کو کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے کی وجہ سے یہ بچے رات کو جلد نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔ سحر خیزی آج کی طرح خال خال نہیں تھی۔ عام تھی۔ جنک فوڈ کی مصیبت نہیں آئی تھی۔ گنڈیریاں اور مالٹے غریب امیر سب کی خوراک کا حصہ تھے۔ آج کے بچے کے راستے میں سب سے بڑا اور خوفناک گڑھا جگراتا ہے۔ بہت کم والدین ایسے ہیں جو بچوں کو وقت پر سلانے میں کامیاب ہیں۔ ٹیلی ویژن تو تھا ہی، انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ کی اولاد، سوشل میڈیا، ان بچوں کو انسان سے چوہا بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ایک طرف کھیل کے میدان جُوع الارض (لینڈ ہنگر) کی نذر ہو گئے، دوسری طرف لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ اور موبائل فون نے بچوں کو ذہنی طور پر اپاہج اور جسمانی طور پر بُھربُھرا کر دیا ہے۔ جسمانی نشوونما میں کمی صاف نظر آ رہی ہے۔ دس دس گیارہ گیارہ سال کے بچے نظر کے چشمے لگائے پھر رہے ہیں۔ ہر بچہ اپنی الگ دنیا میں مقیّد ہے۔ یہ دنیا صرف ایک سکرین پر مشتمل ہے۔ اس بچے کی پڑھائی، کھیل، تفریح، آرام، سب کچھ اس سکرین کے اندر ہے۔ وہ گھنٹوں نظریں سکرین پر جمائے ایک جگہ، ساکت و ساکن بیٹھا رہتا ہے۔ اس کے قویٰ کمزور ہو رہے ہیں۔ چلنا پھرنا برائے نام ہے۔ اسے اگر کہا جائے کہ کمرے سے نکلو‘ اور تھوڑی دیر ہی کے لیے سہی، باہر لان یا صحن میں جا بیٹھو تو اس کا جواب ہو گا کہ وہاں وائی فائی نہیں آ رہا۔
نہلے پر دہلا خوراک کا ایک اور تاریک پہلو ہے۔ ایک تاریک پہلو کا ذکر تو اوپر کیا جا چکا یعنی خوراک کے اجزا کی بد حالی۔ دوسرا پہلو جو بد تر اور زیادہ مُضر ہے وہ کھانے کے بے ہنگم اوقات ہیں۔ جب گھروں میں کھانے کے ٹیبل نہیں تھے اور دستر خوان فرش پر بچھتے تھے تو گھر کے تمام افراد حاضر ہوتے تھے۔ دستر خوان تربیت گاہ کا کام بھی کرتا تھا۔ یہیں بچوں کو آداب سکھائے جاتے تھے۔ بڑے چھوٹے کی تمیز اور تقدیم و تاخیر کے اصول بتائے جاتے تھے۔ اب قیمتی ڈائننگ ٹیبل آ گئے‘ مگر ہر کوئی الگ وقت پر کھانا کھاتا ہے۔ گردشِ فلک نے یہ دن بھی دکھائے کہ ایک ہی گھر میں کچھ افراد ظہرانہ، تو کچھ افراد، عین اُسی وقت، ناشتہ کر رہے ہوتے ہیں۔ مشاغل ایسے ہو گئے کہ راتوں کو جاگا جاتا ہے۔ جب جاگتے ہیں تو بھوک لگتی ہے۔ ایسے میں فُوڈ والوں کی چاندی ہو گئی۔ خاص طور پر فاسٹ فوڈ والوں کی۔ رات رات بھر گھروں میں کھانا پہنچایا جاتا ہے۔ گھر کے بڑے سو جاتے ہیں۔ بارہ ایک بجے، بچے فون پر آرڈر دیتے ہیں اور طعامِ شبینہ حاضر کر دیا جاتا ہے۔ کون سی پابندیٔ اوقات اور کہاں کی سحر خیزی!! رہی سہی کسر آن لائن کلاسوں نے پوری کر دی۔ یہ مجبوری ہے مگر مکروہ مجبوری! اب صبح اٹھ کر نہانے دھونے، کپڑے بدلنے اور ناشتہ کرنے کی پابندی سے بھی نجات مل گئی۔ بس صرف آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ لیٹے ہوئے ہی، پیٹ پر رکھ کر لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ کھولیے۔ لیجیے پیریڈ شروع ہو گیا!
کوئی ہے جو ان بچوں پر ترس کھائے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, April 06, 2021

ایک اور مافیا



گزشتہ دو اڑھائی برسوں کے درمیان آپ نے مافیا کا لفظ بار بار سنا ہو گا۔ موجودہ حکومت‘ غالباً دنیا کی پہلی اور شاید آخری حکومت ہے جو مافیاز کا قلع قمع کرنے کے بجائے اپنے عوام کے سامنے ہر آئے دن مافیا کا ذکر بے بسی کے ساتھ کرتی ہے اور اپنی شکست خوردگی کا احساس دلاتی ہے۔اس سے وہی لطیفہ نما واقعہ یاد آگیا جو ہو سکتا ہے آپ نے پہلے بھی سنا ہو۔ مغلوں کے عہدِ زوال میں ایک شہزادے کی پرورش حرم سرا میں ہو ئی تھی۔کنیزوں‘ شہزادیوں‘ خادماؤں اور بیگمات کے سوا کسی سے سابقہ ہی نہیں پڑا تھا۔ اسی ماحول میں عنفوانِ شباب کا مرحلہ آگیا۔ایک دن حرم سرا میں کہیں سے سانپ آگیا۔ سب عورتوں نے شور مچایا کہ '' کسی مرد کو بلاؤ‘‘۔ ان میں سب سے بلند آواز اسی شہزادے کی تھی!!عوام مافیا مافیا کا شور مچاتے ہیں تو حکومت ان سے بھی زیادہ مافیا مافیا کا شور کرتی ہے۔ مگر اب تک کسی مافیا کا انسداد نہیں کر سکی۔
چینی مافیا‘ آٹا مافیا‘ پٹرول مافیا‘پانی کا ٹینکر مافیا‘ دل میں ڈالے جانے والے سٹنٹس کا مافیا۔ زمین پر ناجائز قبضہ کرنے اور کرانے والوں کا مافیا‘ گاڑیوں کی چوری کا مافیا‘ اغوا برائے تاوان کا مافیا۔ٹمبر (جنگلات کی چوری کا) مافیا۔سمگلنگ مافیا‘ ہیومن ٹریفک مافیا‘ بوٹی مافیا‘ کچہریوں میں زمین اور جائداد کے انتقال پر رشوت کھانے والوں کا مافیا‘ اور نہ جانے اور کون کون سے مافیا‘ عوام کے جسموں سے گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں اور خون چوس رہے ہیں۔ کوئی والی وارث نہیں جو بے بس پاکستانیوں کو ان مہیب آدم خوروں سے بچا سکے۔صرف اندرونی مافیا ہی نہیں‘ بیرونی کمپنیاں بھی پاکستانیوں کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹ رہی ہیں۔ اگر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو حکومت سے پوچھتی کہ موبائل کمپنیاں ہر سال‘ پاکستانیوں کی جیبوں سے کتنے ارب کتنے کھرب روپے نکال کر‘ اپنے اپنے ملکوں کو بھیجتی ہیں؟ آج کا تو نہیں پتا‘ مگر کچھ عرصہ پہلے شرق اوسط کی ایک ایئر لائن کا یہ معمول تھا کہ پشاور کیلئے چھوٹا جہاز بھیجتی‘اور آدھے مسافروں کا سامان مشرق وسطیٰ ہی میں چھوڑ آتی جو کئی روز کے بعد مسافروں کو دھکے کھا کھا کر ملتا۔ کوئی عوام کا ضامن ہوتا تو ایئر لائن ایسی سفاکی کا سوچ بھی نہ سکتی۔ مگر ایئر لائنیں ہیں یا فون کمپنیاں‘ سب کو معلوم ہے کہ پاکستانی بے یار و مددگار ہیں۔ ان کے کپڑے اتاریں‘ جیبیں کاٹیں یا گردے اور انتڑیاں نکال کر تار پر لٹکا دیں‘ کسی کان پر جوں نہیں رینگے گی‘ کسی پیشانی پر بل نہیں پڑے گا اور عزتِ نفس کے تالاب میں گرنے والا کوئی کنکر ارتعاش نہیں پیدا کرے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ عزتِ نفس کا تالاب مدتیں ہوئیں‘ سوکھ چکا ہے۔ اب تو وہ تالاب کم اور عزتِ نفس کا گورستان زیادہ ہے۔
صرف اس ایک بات پر غور فرما کر دیکھیے کہ پوری مہذب دنیا میں ڈاکٹر حضرات‘ دوائیں‘ جنرک ناموں سے تجویز کرتے ہیں۔ مریض اپنی مرضی سے کسی بھی کمپنی کی‘ کسی بھی برانڈ کی‘ دوا خرید سکتا ہے۔ مگر پاکستان میں ڈاکٹر برانڈ ناموں سے ادویات تجویز کرتے ہیں تا کہ مخصوص کمپنیوں کی بنی ہوئی ادویات فروخت ہو سکیں۔ یہ کمپنیاں ڈاکٹروں کو '' خوش‘‘ کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرتی ہیں۔ ہوائی سفر کے ٹکٹ‘ غیر ملکی دورے‘ نئی گاڑیاں اور نہ جانے کیا کیا۔ ایک مثال سے مسئلہ واضح ہو جائے گا۔ ذہنی دباؤ ( ڈپریشن ) کے لیے جو دوا تجویز کی جاتی ہے اس کا جنرک نام‘‘ ایسّائی ٹیلو پرام‘‘ ہے۔اب اس دوا کو کئی کمپنیاں بناتی ہیں۔ ہر کمپنی کی بنائی ہوئی دوا‘ اصل میں ''ایسائی ٹیلوپرام'' ہی ہو گی۔ مگر ہر کمپنی اپنی پہچان کے لیے نام الگ رکھے کی۔ یہ نام برانڈ نام کہلائے گا۔ ہر کمپنی مختلف قیمت رکھے گی۔یہ دوائی دس سے زیادہ کمپنیاں بنا رہی ہیں۔ سب مختلف نام رکھ رہی ہیں۔ فرض کیجیے کمپنیوں کے رکھے ہوئے نام ہیں۔ الف‘ بے‘ پے‘ جیم وغیرہ۔ یہ سب ایسائی ٹیلو پرام ہیں۔ دوسرے ملکوں میں ڈاکٹر مریض کو نسخے پر ایسائی ٹیلو پرام لکھ کر دے گا مگر پاکستان میں ڈاکٹر الف یا بے یا پے یا جیم لکھ کر دے گا کیونکہ اس نے کمپنی کو نوازنا ہے۔ ایک کمپنی کی گولی چھیاسٹھ روپے میں مل رہی ہے۔ ایک اور کمپنی یہی دوا بیس روپے فی گولی بیچ رہی ہے۔ ڈاکٹر مہنگی والی کمپنی کی دوا تجویز کرے گا کیونکہ کمپنی کے ساتھ مُک مُکا ہو چکا ہے۔ اگر حکومت عوام کی ہمدرد ہو تو وہ حکم جاری کر سکتی ہے کہ جنرک نام تجویز کیے جائیں تاکہ مریض اپنی مرضی کی کمپنی کی بنی ہوئی دوا لے سکے۔ مگر حکومت کو کیا پڑی ہے کہ عوام کے فائدے کے لیے یہ اقدام اُٹھائے۔ اسے تو کمپنیوں اور ڈاکٹروں کی رضا مطلوب ہے۔
موجودہ حکومت کے عہدِ ہمایونی میں‘ ایک اور مافیا‘ نئی گاڑیوں کا مافیا‘بھی عوام کے جسم سے بوٹیاں کاٹ کر‘ سیخوں میں پرو کر‘ آگ پر بھون کر تناول کر رہا ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں‘ قیمت ادا کریں اور شو روم سے گاڑی خرید لیں۔ مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ آپ رقم لے کر شو روم میں جائیں۔ آپ کو گاڑی نہیں‘ محض گاڑی کی بُکنگ ملے گی۔ آپ دس یا پندرہ لاکھ روپے جمع کرائیں۔ اس کے بعد مہینوں انتظار کیجیے۔ چار پانچ ماہ نہیں‘ آٹھ آٹھ‘ نو نو ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آپ اتنا انتظار نہیں کر سکتے تو کسی ''سرمایہ کار‘‘ سے خرید لیجیے۔ وہ اسی وقت آپ کو گاڑی دے دے گا مگر اصل قیمت سے تین یا چار لاکھ روپے زیادہ۔ اس مکروہ دھندے کو Ownکہتے ہیں۔ یہ شو روم والے کا اور کار کمپنی کا متحدہ مافیا ہے۔کوئی بیرونِ ملک سے آیا ہے۔ انتظار نہیں کر سکتا‘ کسی نے بچوں کو سکول لے جانا اور واپس لانا ہے۔ ہزار وجوہ ہو سکتی ہیں۔ گاڑی فوراً درکار ہے مگر دستیاب نہیں ! دستیاب ہے بھی تو اس شرط پر کہ تین یا چار لاکھ روپے جگا ٹیکس دیں !
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ گاہک کے جسم سے گوشت کاٹنے کے اس مکروہ عمل کے دوران‘ حکومت کیا کر رہی ہے؟ تو جناب! حکومت خشخاش یعنی پوست پی کر سو رہی ہے۔ وفاق میں ایک وزارتِ صنعت ہے۔ اس میںوزیر کے نیچے گریڈ بائیس کا وفاقی سیکرٹری تعینات ہے۔ اس کے نیچے ایڈیشنل سیکرٹریوں‘ جوائنٹ سیکرٹریوں‘ ڈپٹی سیکرٹریوں‘ سیکشن افسروں اور انواع و اقسام کے اہلکاروں کی پوری فوج ظفر موج ہے۔ گاڑیاں ہیں یا خطیر کار الاؤنس‘ سرکاری ٹیلی فون ہیں‘ دورے ہیں اور رنگ رنگ کی مراعات اور الاؤنس ہیں‘ کروڑوں اربوں کے سالانہ اخراجات ہیں جو عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کر رہے ہیں‘ مگر اس وزارتِ صنعت سے اتنا نہیں ہوتا کہ کاریں بنانے والی صنعت کو اس مافیا گیری سے روکے اور حکم دے کہ متوقع ڈیمانڈ کا کم از کم ستر اسّی فیصد حصہ شو روم میں ہر وقت حاضر رکھے تا کہ گاہک آئے‘ قیمت ادا کرے اور گاڑی اسی وقت وصول کر لے اور سرمایہ کار یعنی شوروم مافیا‘ اون کے نام پر جگاٹیکس نہ وصول کرے۔اور اگر صنعت کے نجی شعبے نے کسی کنٹرول‘ کسی ریگولیشن‘ کسی چیک اور بیلنس کے بغیر‘ مافیا سے مل کر‘ صارفین کی کمائی کے ساتھ ہولی کھیلنی ہے تو قوم کو بتایا جائے کہ وزارتِ صنعت کا کیا فائدہ ہے ؟

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, April 05, 2021

ایک سابق سفیر کی یادداشتیں



واجد شمس الحسن انگریزی زبان کے صحافی ہیں۔ بھٹو خاندان سے ان کا قریبی تعلق رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں انہیں برطانیہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا۔ حال ہی میں ان کی تصنیف ''بھٹو خاندان میری یادوں میں‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس میں سے کچھ اقتباسات قارئین سے شیئر کیے جا رہے ہیں۔
شملہ روانگی سے پہلے لاہور ایئر پورٹ سے جب جہاز انڈیا کے شہر چندی گڑھ جانے کے لیے اُڑا تو کچھ دیر بعد بھٹو صاحب جہاز میں موجود صحافیوں اور دیگر سرکاری افسران کے پاس آئے۔ انہوں نے سب کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم ہندوستان جا رہے ہیں۔ ہمارے نوّے ہزار فوجی وہاں قید ہیں۔ پاکستان ٹوٹ گیا ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ہے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ جانے والے وفد میں زیادہ تر صحافیوں اور آفیشلز کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ آپ کا تعلق زندہ دلان پنجاب سے ہے۔ آپ جہاز سے اترنے کے بعد وہاں لوگوں سے جپھیاں نہیں مارو گے‘ میں نہیں چاہتا کہ آپ کے چہروں سے یہ ظاہر ہو کہ آپ بڑے خوش ہیں یا آپ کو کوئی شرمندگی ہے۔ آپ کے ملنے کے انداز اور گفتگو سے یہ تاثر پیدا ہونا چاہیے کہ آپ ان سے ناراض ہیں۔ آپ انڈیا کے لوگوں سے ملتے وقت جوش و خروش نہیں دکھائیں گے۔ آپ کی کسی بات سے یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ آپ ان کے آگے جُھک گئے ہیں اور آپ نے شکست تسلیم کر لی ہے۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ مجھے معلوم ہے آپ میں سے اکثریت کی بیگمات نے انڈین ساڑھی کی فرمائش کی ہو گی‘ میں نہیں چاہتا کہ کوئی ایک بھی شخص وہاں سے انڈیا کی ساڑھی لے کر آئے۔ میں چاہوں گا کہ 1971 کی جنگ اور بنگلہ دیش کے حوالے سے جو بھی کتابیں ملیں وہ خرید لیں۔ کسی کو کتابیں خریدنے کے لیے پیسے چاہییں تو مجھ سے لے لیں۔ انڈیا میں اس جنگ کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ آپ کو جو بھی کتاب انڈیا اور پاکستان کی جنگ کے حوالے سے ملے یا بنگلہ دیش میں کیا ہوا اور کیوں ہوا، وہ کتابیں ضرور خریدیں۔ واپسی پر آپ اپنے ساتھ صرف کتابیں لا سکتے ہیں۔ میں نے لاہور ایئر پورٹ پر ہدایت کر دی ہے کہ جو لوگ میرے ساتھ واپس آئیں، ہر مسافر کے سامان کی تلاشی لی جائے۔ مجھے پتہ چل جائے گا کہ کون کیا چیز لایا ہے۔ آپ جہاں ٹھہریں گے، ہر کمرے میں کیمرہ ہو گا۔ ایسی کوئی بات مت کیجیے گا جس سے ملک کی بدنامی ہو۔ ایسی کوئی حرکت مت کیجیے گا جس سے آپ کی عدم سنجیدگی ظاہر ہو، اگر کوئی اہم بات کرنی ہو تو اپنے کمرے سے باہر آئیے گا اور لان میں ٹہلتے ہوئے بات کیجیے گا۔ کمرے میں ضروری بات کرنی ہو تو لکھ کر بات کیجیے گا۔
.........
میں سمجھتا ہوں حسین شہید سہروردی کے ساتھ ہم نے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔ ہم نے ان کے ساتھ زیادتی کی۔ ایوب خان نے انہیں گرفتار کر کے کراچی سنٹرل جیل میں قید کر دیا تھا۔ سہروردی صاحب نے ایوب خان کو جیل سے خط لکھا کہ تم نے مجھے گرفتار کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ مجھے گرفتار کر کے تم ملک کو نقصان پہنچا رہے ہو۔ میں آخری لیڈر ہوں جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان پُل کا کردار ادا کر سکتا ہوں۔ مشرقی پاکستان کے لوگ میری بات مانتے ہیں۔ اگر تم نے مجھے مار دیا تو پاکستان کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔ ایوب خان نے سہروردی کی بات پر کوئی توجہ نہ دی بلکہ انہیں علاج کی غرض سے زبردستی بیرون ملک بھیج دیا جہاں وہ بیروت میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے۔
.........
شیخ مجیب کے چھ نکات کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں‘ لیکن ایک اہم وجہ 1965 کی جنگ تھی۔ اس جنگ کے دوران شیخ مجیب اور دیگر بنگالی لیڈروں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ بے یارومددگار ہیں۔ ان کا کوئی دفاع کرنے والا نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان لا وارث تھا۔ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے چھ نکات وضع کیے۔ 1962 میں اس وقت کے چیف جسٹس منیر
نے مشرقی پاکستان سے واپس آنے کے بعد ایوب خان سے کہا کہ ہمارا فیڈریشن اس شکل میں نہیں چل سکتا... ‘ایوب خان نے کہا کہ آپ بنگالی لیڈروں سے بات کریں۔ انہوں نے مولانا تمیزالدین سمیت مشرقی پاکستان کے سینئر لیڈروں سے بات کی۔ بنگالی رہنماؤں نے بڑے تلخ لہجے میں چیف جسٹس منیر کو جواب دیا کہ ہم اکثریت میں ہیں۔ اگر آپ الگ ہونا چاہتے ہیں تو الگ ہو جائیں۔ یہ سارا واقعہ انہوں نے اپنی کتاب Jinnah to Zia میں لکھا ہے۔
.........
 
اس جنگ میں امریکی صدر نکسن کا بڑا منفی کردار تھا۔ اگر امریکہ چاہتا تو وہ یحییٰ خان کو مجبور کر سکتا تھا کہ وہ اقتدار مجیب الرحمن کے سپرد کر دے۔ اس وقت یحییٰ خان امریکہ کے لیے بہت اہم رول ادا کر رہے تھے۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر جب پہلی بار چین گئے تو پاکستان سے ہو کر گئے تھے۔ یہ دورہ بہت خفیہ رکھا گیا تھا۔ ان باتوں کی وجہ سے امریکہ نے یحییٰ خان کو سب کچھ کرنے کی کھلی چھٹی دی ہوئی تھی۔ جس کے نتیجہ میں ملک دولخت ہو گیا۔
.........
امریکی صدر ریگن پاکستان میں جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کی حمایت کرتے تھے اور چلی میں جنرل Pinochet کی مخالفت کرتے تھے۔ ریگن نے چلی میں مارشل لا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا:
Martial law is war against people
ہم نے اسے اخبار کی سرخی بنایا جس پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ انفارمیشن والے سمجھے کہ یہ ہم نے جنرل ضیاالحق کے لیے لکھا ہے۔ ہم نے کہا کہ ہم نے چلی کے مارشل لا کے بارے میں لکھا ہے۔ بہت بحث ہوئی۔ انفارمیشن والے سمجھ گئے تھے کہ ہم نے شرارت کی ہے۔ انہوں نے چلی کی اور جنرل پنوشے کی خبریں فرنٹ پیج پر چھاپنے پر پابندی لگا دی اور کہا کہ اندر کے صفحات پر سنگل کالم خبر لگا کرے گی۔
.........
سکاٹ لینڈ یارڈ والے قاتل کو پکڑنے، قتل کی تحقیقات کرنے کے بجائے اس بات کی تحقیق کرتے رہے کہ بے نظیر بھٹو کا قتل کس ہتھیار سے ہوا ہے۔ میں نے ایس کے وائی ٹیلیوژن پر کہا کہ میں اس انکوائری کو نہیں مانتا۔ کچھ دیر بعد رحمن ملک کا فون آیا کہ سر آپ کیا باتیں کر رہے ہیں‘ آپ یہ باتیں نہ کریں۔ آصف زرداری صاحب نے کہا ہے کہ میں آپ سے اس سلسلے میں بات کروں۔ رحمن ملک کے فون کے کچھ دیر بعد آصف زرداری کا فون آیا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے رحمن ملک کو وہی جواب دیا جو میں بہتر سمجھتا ہوں‘ کسی کے منع کرنے سے نہیں رکوں گا۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ کو میں نہیں مانتا۔ آصف زرداری نے کہا کہ مجھے بھی یہ تحقیقات قبول نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ رحمن ملک نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ سکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقات کے بارے میں کوئی تبصرہ نہ کریں۔ آصف زرداری نے کہا کہ واجد بھائی! آپ کب سے رحمن ملک کی بات سننے لگے۔ میں نے کہا: آپ بھی منع کریں گے تب بھی میں اپنی بات کروں گا۔ آصف زرداری نے کہا : میں کیوں منع کروں گا‘ میں تو چاہتا ہوں کہ محترمہ کے قاتلوں کی تہہ تک پہنچا جائے
.........
میں سمجھتا ہوں کہ ہماری طرف سے کوتاہی ہوئی ہے۔ پاکستان میں جب ہماری حکومت تھی تو محترمہ کے قتل کی فوری طور پر تحقیقات ہونی چاہیے تھی۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, April 01, 2021

شارٹ کٹ



“ میری اپنی زمین ہے، میری اپنی گاڑی ہے اور (گاڑی چلانے والا بچہ) میرا اپنا  بیٹا ہے…………… تنقید کرنے والے …………اپنے کام سےکام رکھیں 
پیپلز پارٹی یانون لیگ کا نہیں، یہ بیان ایک ایسی جماعت کی ایک اہم  شخصیت کا  ہے   جس نے اقتدار میں آنے سے پہلے وعدہ کیا تھا اور دعویٰ بھی کہ  وہ قانون کی  رِٹ قائم کرے گی۔  اس جماعت کے سربراہ  ، جو اب حکومت کے بھی سربراہ ہیں، مغربی ممالک کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ وہاں کس طرح  بڑے سے بڑا شخص قانون کے سامنے  دوسروں کے برابر ہے۔ 
{
نہیں معلوم  اس عبرت ناک بیان پر اس پارٹی کا یا  اربابِ اختیار کا کیا ردّ عمل ہو گا ؟ ہوگا بھی  یا نہیں ؟  کوئی نوٹس لے گا بھی یا نہیں ؟ مگر اصل مسئلہ حکومت یا سیاسی جماعتوں کی سطح سے اوپر کا ہے ! بہت اوپر کا ! 
کوئی لیڈر مغربی ملکوں میں رائج قانون پر عملداری کی لاکھ مثالیں دے، محض مثالیں دینے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ مسئلے کی جڑیں گہری ہیں۔ یہ جڑیں ہماری معاشرت ، ہمارے کلچر  اور ہماری ذہنیت میں پیوست ہیں۔ہم نے ظاہر میں نظر آنے والی، مادّی ،  چیزیں تو مغرب سے لے لیں  مگر جن قدروں  نے  ان کے معاشرے  کو  اس قابل بنایا کہ کروڑوں مسلمان ہجرت کر کے  آج وہاں رہ رہے ہیں اور کروڑوں وہاں مقیم  ہونے کے لیے کوشاں ہیں،اُن قدروں سے ہم نہ صرف نا آشنا ہیں بلکہ صدیوں کی مسافت پر ہیں۔ یہاں ایک اور پہلو کی وضاحت بہت ضروری ہے۔  ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ قرونِ  اُولیٰ   میں ہمارے حکمران عدالتوں کے حضور پیش ہوتے تھے، غلام اور خلیفہ باری باری سواری استعمال کرتے تھے،گورنروں کے اثاثے چیک کیے جاتے تھے،  وغیرہ۔مگر ان مثالوں سے جُڑی ہو ئی دو حقیقتیں ہم مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں ۔صرف یہی نہیں، نظر انداز کرتے وقت بالکل معصوم بھی بن جاتے ہیں جیسے ہمیں کچھ معلوم ہی نہیں۔ تجاہل عارفانہ کی یہ بدترین  قِسم ہے ! نفاق بھری قِسم ! پہلی حقیقت یہ کہ قرون اولیٰ کی یہ مثالیں آج  ، کم و بیش، تمام  مسلمان معاشروں میں عنقا ہیں ! دوسری حقیقت یہ کہ  آج کی دنیا میں اگر ان کی کوئی عملی تصویر نظر آتی ہے تو مغربی ملکوں   میں  !
“ مغربی” کا لفظ ہم لغوی معنی میں نہیں ،  اصطلاحی معنی میں استعمال کر رہے ہیں، ورنہ جاپان ، ہانگ کانگ، سنگاپور، آسٹریلیا وغیرہ، جغرافیائی حوالے سے مغرب میں نہیں، مشرق میں واقع ہیں۔مگر قانون کی  عملداری کے اعتبار سے وہ مغرب ہی کا حصہ ہیں۔  

سترہویں صدی کا پہلا ربع ہے۔ہمارے خطے کا بادشاہِ وقت اپنی پسندیدہ  بیگم  کے ساتھ، ایک خوشگوار شام منانے کے لیے “  آؤٹنگ”  کرنا چاہتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ بیگم کے علاوہ اور کوئی بھی ساتھ نہ ہو ! وہ ملکہ کو  بیل گاڑی میں  بٹھاتا ہے۔ کو چوان کی نشست پر خود بیٹھتا ہے۔ اور  سیر کے لیے نکل جاتا ہے۔برطانوی ایلچی ، سر طامس راؤ، بتاتا ہے کہ شاہی جوڑا جب اس رومانی  آؤٹنگ سے   واپس آیا تو   شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔حکم ہؤا کہ روشنیاں بجھا دی جائیں کہ ملکہ چھکڑے سے  اترے تو کسی کی نگاہ نہ پڑے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اُس وقت اس طاقتور  باشاہ  کو اگر ستر سی سی کا موٹر سائیکل ہی  مل جاتا یا چھ سو ساٹھ سی سی کی پرانی کھٹارہ ٹائپ کارہی  مل جاتی تو  وہ اسے  ہچکولے کھاتی بیل گاڑی پر ترجیح نہ دیتا؟ مصر کے فراعنہ سے لے کر ہندوستان کے شہنشاہوں تک ،  اُس زمانے کے سب حکمران“ تختِ رواں  “  کی سواری استعمال کرتے تھے۔ یہ ایک قسم کا چھوٹا سا گھر ہوتا تھا، یا ایک بہت بڑا کمرہ، جو لکڑی کے بہت بڑے تخت  پر بنا ہوتا تھا۔ اس تخت کو درجنوں یا بیسیوں کہار اٹھا کر چلتے تھے۔ ایک عام شہری تخت رواں کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مگر آج مزدور بھی شمالی علاقوں سے کراچی جانے کے لیے ، یا مشرق وسطیٰ کے سفر کے لیے، تخت رواں استعمال کرتا ہے جسے عرف عام میں ہوائی  جہاز کہتے ہیں۔ آج ایک معمولی آمدنی  والا شخص بھی بیوی کے ساتھ موٹرسائیکل یا گاڑی پر بیٹھ کر باہر جا سکتا ہے ۔ہم میں سے ہر شخص سہولیات اور مراعات کے اعتبار سے سترہویں یا اٹھارہویں صدی یا اس سے پہلے کے فرما ں رواؤں کی نسبت کئی گنا زیادہ خوش بخت ہے۔بجلی کے چراغ سے لے کر ائر کنڈیشنر تک، گاڑی سےلے کر جہاز تک، ٹی وی سے لے کر فون اور انٹر نیٹ تک ، لائف سیونگ ادیات سے لے کر سرجری کے عجائبات تک، بلڈ ٹیسٹ سے لے کر الٹرا ساؤنڈ اور  سکیننگ تک، آج ہم ہر سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ایک امریکی یا یورپین یا آسٹریلیوی اٹھا رہا ہے مگر ہم میں اور ان میں دو بنیادی فرق ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سہولتیں اہل مغرب  نے خود ایجاد  یا دریافت کیں جبکہ ہم نے ان  سے خریدیں یا ان کے  عطا کردہ نمونوں کی نقل کر کے بنائیں۔ دوسرے یہ کہ اہل مغرب  نے جس طرح گذشتہ دو اڑھائی سو سال کے دوران مادّی اور ظاہری ترقی کی، اسی تناسب سے   اس عرصہ کے دوران کچھ اخلاقی  قدروں کو بھی  پختہ  کرتے رہے اور ساتھ ساتھ قانون کی عملداری کو بھی  اپنے نظام کا جُزوِ لازم بناتے رہے۔ چنانچہ آج ان کے معاشرے میں پابندئ وقت، صفائی، معاملات میں شفافیت، ایفائے عہد، تجارتی مراحل میں پاکبازی اور  دروغ گوئی سے گریز  واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قانون  اور احتساب کی نظر میں  کمزور اور طاقتور کی برابری کو بھی انہوں نے، کم و بیش، اسی طرح رائج کر دکھایا جس طرح مسلمانوں کے ہاں  قرن اول میں موجود تھا ۔ اس فرق کا ایک ہی نتیجہ نکلنا تھا جو نکلا ۔آج ہم مادی طور پر،  ظا ہر کے لحاظ سے، ان کے نقال ہیں یا خریدار ! جب کہ  معاملات میں ہم غیر شفافیت کے لیے دنیا بھر میں  مشہور ہیں اور قوانین ہمارے ہاں طاقتور کے لیے عاجز اور کمزور کے لیے سفاک ہیں!  طاقور اگر کبھی پکڑا بھی جاتا ہے تو اس وقت جب وہ حکومتِ وقت کا مخالف ہو! رہے حکومتی ارکان تو ان کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے ! فیوڈل سیٹ اپ اس پر مستزاد ہے۔ کوئٹہ میں ٹریفک کے سپاہی  کو گاڑی نے روند ڈالا۔کراچی میں جاگیردار خاندان  کے بیٹے نے نوجوان  کو ہلاک کر دیا۔ اسلام آباد میں سرکاری اہلکاروں نے ایک بے گناہ نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پھر طاقتور طبقے  سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی گاڑی نے  چار نوخیز نوجوانوں کوکچل دیا۔ ان میں سے کسی مجرم کو تا دم تحریر سزا نہیں دی گئی۔ کوئی امکان بھی نہیں دکھائی دے رہا۔

 
تو پھر تعجب ہی کیا ہے اگر طاقتور طبقے کا ایک رکن  برملا اعلان کرتا ہے کہ اگر چھوٹا بچہ گاڑی چلا رہا ہے تو کیا ہؤا! زمینُ میری ہے! گاڑی میری ہے ! اور بچہ میرا ہے ! اور یہ کہ  تم لوگ اپنے کام سے کام رکھو! غور کیجیے۔ ہم اہل مغرب سے گاڑی بھی  مانگ لائے،بچے کی ڈرائیونگ کی وڈیو  بنانے کے لیے فون اور کیمرہ بھی وہاں سے  منگوا لیا مگر گاڑی چلانے کے ضمن میں جو قانون اہل مغرب کے ہاں رائج ہے اور جس سے کسی کو استثنا نہیں ملتا، اُس  قانون  سے ہم بے بہرہ ہیں! نقل کے لیے عقل چاہیے ! افسوس ! ہم نے نقل کی مگر عقل کو بروئے کار نہ لا سکے! ابھی ہم ان سے صدیوں پیچھے ہیں۔ ہاں ! ایک شارٹ کٹ ہے اور وہ یہ  کہ  ہجرت کر کے وہیں جا بسنا ! جن کا بس چل رہا ہے ، وہ یہ شارٹ کٹ استعمال کر رہے ہیں۔ 
………………………………………………………
بشکریہ  روزنامہ دنیا
 

powered by worldwanders.com