یہ معروف ومشہور صحافی نیوزی لینڈ کا شہری ہے۔ آباؤ اجداد کا تعلق برصغیر سے تھا۔ اس نے پاکستان کے بہت سے دانشوروں‘ صحافیوں اور سکالروں کے انٹرویو کیے ہیں جو پاکستان اور بھارت‘ دونوں ملکوں میں بے شمار لوگوں نے دیکھے اور سنے۔ چند روز پہلے لاہور میں فیض میلہ منعقد ہوا‘ اس میں ایک سیشن لاہور کے بارے میں بھی تھا۔ یہ صحافی لاہور کی محبت میں نیوزی لینڈ سے‘ جو دنیا کا آخری کنارہ ہے‘ چلا اور لاہور آ پہنچا! سیشن اٹینڈ کیا۔ سٹیج پر بڑے بڑے لوگ براجمان تھے۔ وہ سفید مُو خاتون دانشور بھی جو ادبی میلوں (لٹریری فیسٹیولز) پر چھائے ہوئے مافیا کی مستقل ممبر ہیں! وہ حضرات بھی جو پرانے لاہور کو نیا کرنے پر مامور ہیں۔ یہ اور بات کہ معاملہ دہلی گیٹ سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ افسوس کہ لاہور کے بارے میں جو بات چیت بھی ہوئی‘ لاہور کے کھانوں کے بارے میں ہی ہوئی۔ جب نظر آ گیا کہ کھانوں سے باہر نکلنے کے کوئی آثار نہیں‘ تو نیوزی لینڈ سے آیا ہوا لاہور کا شیدائی اٹھا اور سٹیج پر متمکن ماہرین سے کہنے لگا کہ کیا لاہور کھانوں کے علاوہ کوئی صفت‘ کوئی امتیاز‘ کوئی خوبی‘ کوئی تاریخ‘ کوئی روایت‘ کوئی داستان نہیں رکھتا؟ صرف کھانے ہی کھانے ہیں لاہور میں؟ اور کچھ نہیں؟ سنا ہے کہ سفید مُو لٹریری فیسٹیول فیم خاتون نے تو اپنی لاعلمی کی بہت بڑی دلیل یہ دی کہ ان کی تو پیدائش ہی تقسیم کے بعد کی ہے اس لیے انہیں تقسیم سے پہلے کے لاہور کا زیادہ پتا نہیں! ویسے یہ دلیل بہت کارآمد ہے۔ امتحان میں بابر یا سوری یا خلجی یا لارڈ کلائیو کے بارے میں سوال آجائے تو جواب میں لکھنا چاہیے کہ میں تو اُس وقت دنیا میں تھا ہی نہیں! ارے بھائی! آپ لاہور کی تاریخ پر بات کرتے! مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں کا لاہور کے حوالے سے کیا کردار رہا؟ پرانے لاہور کے کتنے دروازے تھے؟ کتنے اب موجود ہیں؟ عمارتیں کون کون سی مشہور ہیں؟ گلیاں‘ کوچے‘ چوک کون کون سے ہیں! گورنمنٹ کالج کی ابتدائی کلاسیں کس عمارت میں منعقد ہوتی رہیں؟ اس کالج کے قیام میں ولیم لائٹنر کا کیا کردار تھا۔ مولانا محمد حسین آزاد گھوڑے پر سوار کس طرح گورنمنٹ کالج آتے تھے جبکہ شاگرد دائیں بائیں ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوئے استفادہ کرتے آتے تھے۔ آزاد کس امام بارگاہ میں نماز کے لیے آتے تھے؟ پرانے لاہور کے ضمن میں علامہ اقبال‘ حکیم احمد شجاع‘ ایم اسلم اور دیگر مشاہیر کا ذکر تو مجھ جیسا عامی بھی کر سکتا ہے۔ جاوید منزل اب اقبال میوزیم ہے۔ اس کا تعارف کرایا جاتا۔ لاہور کا ریلوے سٹیشن کب بنا؟
سکھوں کی عملداری کے دوران شاہی مسجد پر کیا گزری! پرانی حویلیوں کا تفصیلی ذکر ہونا چاہیے تھا۔ سر گنگا رام کی لاہور کے لیے بے پناہ خدمات ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی عمارتوں کا ذکر کیا جانا چاہیے تھا۔ عجائب گھر اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کی تاریخ کا اہم حصہ ہیں! پنجاب پبلک لائبریری بہت بڑا موضوع ہے۔ لاہور نے وہ دور بھی دیکھا جب کرشن چندر‘ منٹو‘ کنہیا لال کپور‘ پطرس‘ فیض‘ تاثیر‘ حفیظ جالندھری‘ احمد ندیم قاسمی‘ قیوم نظر اور دوسرے دانشور لاہور کے آسمان پر کہکشاں کی طرح جگمگاتے تھے۔ وائی ایم سی اے اور پاک ٹی ہاؤس کی اہمیت پر گفتگو ہونی چاہیے تھی! سید علی ہجویری کب تشریف لائے؟ یہ حضرات جو تقریب میں مسند نشیں تھے‘ کچھ پڑھ کر آتے۔ تیاری کر کے آتے۔
کھانے ہم پاکستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ ہماری سوچ کھانوں سے شروع ہوتی ہے اور کھانوں پر ختم ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا کراچی کی ایک فیملی کی پوسٹ دیکھی۔ ماشاء اللہ کراچی سے روانہ ہوتے وقت جو فہرست لاہور کے مشہور ''مقامات‘‘ کی انہوں نے تیار کی تھی اس میں صرف ریستوران اور ڈھابے تھے! لاہور سے کراچی جانے والوں کا بھی یہی حال ہوگا۔ چند دن ہوئے ریلوے کے ایک صاحب سے گرین لائن ٹرین کی بات ہو رہی تھی۔ میں نے پوچھا کیا: دراز ہونے کے لیے برتھ بھی موجود ہیں؟ ان کا جواب زبردست تھا۔ کہنے لگے: پاکستانیوں کی اوّلین ترجیح کھانا ہوتا ہے۔ ہم کھانا اچھا مہیا کر رہے ہیں۔ باقی سہولتوں کی کسی کو پروا ہے‘ نہ کوئی پوچھتا ہے! یہ ہم پاکستانیوں کے ذوق اور ترجیحات پر بہترین اور مختصر ترین تبصرہ ہے۔ اور کیا ہی سچا تبصرہ ہے۔ ہمارے گھروں میں سب سے زیادہ بحث اس بات پر ہوتی ہے کہ آج کیا پکے گا؟ مجھے نہیں معلوم اس واقعے میں کتنی صداقت ہے مگر سنا ہے کہ بھٹو صاحب نے ہنری کسنجر کے لیے ایک عظیم الشان ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس کے لیے پاکستان سے خصوصی طور پر پرندے منگوائے گئے تھے۔ مگر ہنری کسنجر آیا تو اس نے جو میز پہلے پڑا تھا اسی سے کچھ لے لیا۔ دھیان اس کا گفتگو پر ہی رہا۔ بارِ دگر عرض ہے کہ یہ بات سنی سنائی ہے‘ تاہم سچائی سے اتنی بعید بھی نہیں۔ اس لکھنے والے نے امریکہ میں کئی سرکاری لنچ اور ڈنر اٹینڈ کیے ہیں۔ سادہ ترین ہوتے ہیں۔ پہلے سلاد۔ پھر
Main
ڈش۔ آخر میں چاکلیٹ یا پنیر کا کیک! سیلاب کے دنوں میں انجلینا جولی پاکستان آئی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم نے انہیں کھانے پر بلایا۔ غالباً وزیراعظم کی فیملی بھی تھی۔ انجلینا نے بعد میں افسوس کا اظہار کیا کہ ادھر سیلاب زدگان پر مصیبت آئی ہوئی ہے اور ادھر میز کھانوں سے اٹا پڑا تھا۔ ہم اس معاملے میں‘ معاف کیجیے گا‘ بہت شُہدے اور گھٹیا ہیں۔ ہم سب! من حیث القوم! کسی کے ہاں جائیں تو واپس آکر کھانے میں کیڑے نکالیں گے۔ کوئی نہ کوئی نقص ضرور تلاش کر لیں گے! ہمارے لیے اہم ترین پہلو کھانے کی مقدار ہے۔ جیسا بھی ہو‘ بس کثیر مقدار میں ہو۔ یہ کھانا ہی تو ہے جس کے لیے ہم شادیوں کی تقاریب میں گھنٹوں نہیں بلکہ پہروں انتظار کرتے ہیں۔ ہمارا کسی نے اصل روپ دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھے جب کھانا کھلنے کا اعلان ہوتا ہے۔ اُس وقت ہم انسان نہیں‘ کوئی اور مخلوق بن جاتے ہیں۔ ایک حالتِ جنگ ہے جو ہم پر طاری ہو جاتی ہے۔ ہم جون بدل لیتے ہیں۔ شائستگی‘ تمیز‘ لحاظ‘ شرافت سب کچھ بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ ہمارا ہر کھانا ہماری زندگی کا آخری کھانا ہوتا ہے۔ ہمیں نارمل نہیں کہا جا سکتا۔
مغل جب تک جنگوں میں مصروف رہے‘ کھانوں میں سادگی تھی۔ جوں جوں زوال آتا گیا‘ اصل میدان جنگ کی جگہ دستر خوان میدانِ وغا بنتا گیا۔ اورنگزیب باجرے کی کھچڑی کھاتا تھا۔ پھر جب انتظام وانصرام انگریز بادشاہ نے سنبھال لیا تو بادشاہوں اور نوابوں کے پاس ایک ہی قلمدان رہ گیا اور وہ دستر خوان کا تھا۔ اس میں پھر طرح طرح کے مقابلے ہوئے۔ کبھی نظام کی کوشش ہوتی کہ اودھ کے نواب کے باورچی کو ''فتح‘‘ کر لے۔ کبھی اودھ کا نواب دہلی سے کسی باورچی کو توڑ کر لے آتا تھا۔ ماش کی دال کا باورچی الگ تھا۔ شامی کبابوں کا الگ‘ لکھنؤ کے کھانوں پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی۔ بہت سے آئٹم ایجاد ہی وہیں ہوئے‘ جیسے شیرمال! اور شاید شامی کباب بھی!! اس میں نئے نئے تجربے ہوئے۔ فنکاریاں دکھائی گئیں۔ ایک دعوت میں مہمان جس ڈش سے بھی کھانا لیتے وہ مٹھائی ہوتی‘ کیا چاول‘ کیا روٹی اور کیا سالن! پھر اس کے جواب میں بھی اسی طرح کی کارروائیاں ہوئیں۔ ایک ہمارے سابق حکمران جب ''جلاوطن‘‘ ہوئے تو سنا ہے باقر خانیاں بنانے والا الگ باورچی ساتھ لے کر گئے۔ اور بھی بہت داستانیں ہیں ان کے بارے میں!! اپنا اپنا ذوق اور اپنی اپنی ترجیحات! اصل بات وہی ہے جو اقبال کہہ گئے:
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری
نانِ شعیر جَو کی روٹی کو کہتے ہیں!