Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, May 15, 2025

بھارتی معاشرہ کرچی کرچی ہو رہا ہے


سراج کَورڈ

 (Covered) 

مارکیٹ اسلام آباد شہر کا بہت بڑا لینڈ مارک تھا۔ جس عمارت میں آج کل نادرا کا ہیڈ آفس ہے‘ وہاں پہلے وزیراعظم کا دفتر ہوتا تھا۔ مشہورِ زمانہ میلوڈی مارکیٹ سے اس دفتر کی طرف جائیں تو کَورڈ مارکٹ راستے میں پڑتی تھی۔ اس سڑک کو اب سرفراز اقبال روڈ کہا جاتا ہے۔ کَورڈ مارکیٹ کے بالکل سامنے بیگم سرفراز اقبال کا گھر تھا جہاں شاعروں ادیبوں کی بیٹھک جمتی تھی۔ فیض صاحب بھی وہاں آتے تھے۔ میں بھی کئی بار مشہور ڈرامہ نگار اور افسانہ نویس احمد داؤد مرحوم کی معیت میں بیگم صاحبہ کے گھر گیا۔ اب اسی گھر میں ان کے شوہر ملک اقبال صاحب رہتے ہیں۔ ماشاء اللہ نوے سے اوپر کے ہیں مگر تندرست حالت میں ہیں۔
سراج کَورڈ مارکیٹ بہت بڑا بازار نہیں تھا مگر شہر کی جان تھا۔ اسلام آباد میں رہنے والے تمام غیر ملکی‘ گوشت سبزی اور دیگر سودا سلف یہیں سے خریدتے تھے۔ شہر کا بہترین گوشت‘ پھل اور سبزی یہیں ہوتی تھی۔ اس مارکیٹ کی ایک اور وجۂ شہرت یہ تھی کہ شہر کے مشہور ترین اور بہترین ٹیلر شیخ امین کی دکان بھی یہیں تھی۔ اسلام آباد میں مقیم اکثر سفیر‘ ڈپلومیٹ‘ سیاستدان اور بیورو کریٹ اس کے گاہک تھے۔ شیخ امین مشہور ٹیلر نہیں‘ یوں کہیے کہ آرٹسٹ تھا۔ ادنیٰ قسم کے کپڑے میں بھی جان ڈال دیتا تھا۔ والد گرامی مرحوم کی شیروانیاں اور واسکٹیں میں اسی سے سلواتا تھا۔ زندگی کا پہلا ہیرس ٹویڈ (سکاٹ لینڈ میں ہاتھوں سے بُنا جانے والا اون) کا کوٹ جس کا کپڑا پشاور کی ایک خاص دکان سے لیا تھا‘ اسی سے سلوایا تھا۔ یہ کوٹ 33برس پہنا۔ اب جب توند کے مسائل بڑھ گئے تو گزشتہ برس‘ بادل نخواستہ‘ روتے دل کے ساتھ‘ ایک عزیز کو سونپ دیا۔ یہاں ایک اور دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے۔ لاہور‘ مستنصر حسین تارڑ صاحب کے دولت کدے پر حاضر تھا۔ ایک بری عادت ہے کہ دونوں بازو صوفے کی بَیک پر پھیلا کر بیٹھتا ہوں۔ تارڑ صاحب کہنے لگے: معلوم ہے تم نے ہیرس پہنا ہوا ہے‘ چوڑے ہو کر نہ بیٹھو۔ تارڑ صاحب ہر بات کو جس طرح ایک لٹریری ٹچ‘ ایک افسانوی رنگ دیتے ہیں‘ وہ انہی کا حصہ ہے۔ ایک بار حاضر ہوا‘ ہاتھ میں کچھ پھل تھے‘ کہنے لگے: لگتا ہے بزرگ سیدھا کیمبل پور سے آ رہے ہیں۔ جب میں نے چترال پر قسطوں میں متعدد کالم لکھے تو ایک جگہ یہ بھی لکھا کہ چترال سے گُجروں کا قافلہ چلتا ہے‘ راستے میں کوئی بکری مر جائے تو وہیں سوگ منانے بیٹھ جاتے ہیں اور تین دن تک سفر موقوف رہتا ہے۔ تارڑ صاحب دیر تک اس فقرے سے لطف اندوز ہو ئے اور تعریف کر کے اس طالب علم کی حوصلہ افزائی کی۔
شیخ امین کی بات ہو رہی تھی۔ اللہ اسے مغفرت اور رحمت سے نوازے۔ دوست تھا مگر پکا شیخ بھی تھا۔ گھنٹوں اس کی دکان پر بیٹھک ہوتی تھی۔ تاہم اس دوران چائے کا جھنجھٹ نہیں پالتا تھا۔ سلائی میں رعایت بھی نہیں کرتا تھا مگر جو ڈیزائننگ اور سلائی کا معیار تھا‘ اس میں کون کافر رعایت مانگتا۔ پھر کَورڈ مارکیٹ منہدم کر دی گئی۔ کوئی جھگڑا تھا ملکیت کے دعویداروں کے درمیان۔ شیخ امین بھی پروردگار کے حضور حاضر ہو گیا۔ یہ سارا قصہ اس لیے سنایا کہ اس کی دکان کا نام ''جالندھر ٹیلر‘‘ تھا۔ جالندھر کے نام سے پاکستان میں یہی ایک دکان نہیں تھی‘ کراچی سے پشاور اور گلگت تک گھوم آئیے‘ سینکڑوں دکانیں جالندھر کے نام سے ہیں۔ دہلی کے نام سے ہیں۔ حیدر آباد (سندھ) کی بمبے بیکری پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کیا کسی نے کبھی ان دکانوں پر حملہ کیا؟ بابری مسجد گرائی گئی‘ بھارت نے پاکستان پر حملے کیے‘ کبھی جالندھر‘ دہلی‘ بمبے‘ لکھنؤ‘ امرتسر یا دوسرے بھارتی شہروں کے ناموں والی کسی دکان‘ کسی دفتر پر حملہ نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ الحمدللہ پاکستانیوں کی ذہنیت آر ایس ایس اور بی جے پی کے علمبرداروں کی ذہنیت سے یکسر مختلف ہے۔ پرسوں کی خبر ہے اور باتصویر خبر ہے کہ بھارت کے شہر حیدر آباد میں ایک دکان ''کراچی بیکرز‘‘ پر بھارتی شہریوں نے حملہ کیا اور دکان کے سائن بورڈ پر کراچی کا جو لفظ تھا اس پر ڈنڈے برسائے۔ کراچی سے ہجرت کر کے جانے والے ظاہر ہے مسلمان تو نہیں ہوں گے‘ مالکان کے نام راجیش رام نانی اور ہریش رام نانی ہیں۔ اپنی جنم بھومی اور اپنا چھوڑا ہوا وطن سب کو یاد آتا ہے۔ اسی حوالے سے انہوں نے بیکری کا نام کراچی بیکرز رکھا۔ ہمارے شریف برادران نے اپنے محلات والے نئے شہر کا نام جاتی امرا رکھا حالانکہ ان کی تو پیدائش بھی وہاں کی نہیں ہے۔ کسی پاکستانی نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ بے شمار پاکستانیوں کے ناموں کے ساتھ دہلوی‘ لکھنوی‘ بلند شہری‘ بدایونی‘ الہ آبادی‘ اکبر آبادی‘ لدھیانوی اور ہوشیار پوری لگا ہوا ہے۔ کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ یہ نام ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔ ہمیں ان شہروں پر اور ان کے ساتھ تعلق پر آج بھی فخر ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمیں گیلانی‘ بخاری‘ اصفہانی‘ شیرازی‘ تبریزی‘ غوری‘ بدخشانی اور دیگر ناموں پر فخر ہے۔
ایک عام بھارتی شہری کی آر ایس ایس اور بی جے پی نے جس طرح برین واشنگ کی ہے اس کا نتیجہ آج پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ایک کٹر ہندو کی دکان پر اس لیے حملے ہو رہے ہیں کہ دکان کے نام میں کراچی کا لفظ آتا ہے۔ افسوس ہے اس ذہنیت پر اور اس مائنڈ سیٹ پر! کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچ یہ ہے کہ مودی نے اپنے دورِ حکومت میں بھارتیوں کے دماغ سکیڑ کر رکھ دیے ہیں۔ انہیں شاہ دولہ کے چوہے بنا دیا ہے۔ وہ ساری دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ دنیا کہاں جا پہنچی ہے اور بھارتی گائے بیچنے والوں کو کچل رہے ہیں۔ مسجدوں پر دھاوے بول رہے ہیں۔ اورنگزیب عالمگیر کی قبر کے درپے ہو رہے ہیں۔ ایک نہیں‘ بی جے پی نے سینکڑوں جنرل بخشی اور ارنب گو سوامی پیدا کیے ہیں۔ ان کے دہانوں سے شعلے نکل رہے ہیں۔ ان کے گلوں کی رگیں اتنی سرخ ہو رہی ہیں کہ بس پھٹنے والی ہیں۔ غیظ و غضب سے ان کی اپنی جانیں خطرے میں ہیں۔ کلام پاک میں ہے: مُوتُو بِغَیظِکُم‘ اپنے غصے میں خود ہی مر رہے ہیں۔
بی جے پی کے اقتدار سے پہلے بھی بھارت میں غیر ہندوؤں کیلئے مسائل تھے مگر یہ اندھیر نہیں تھا۔ بھارت ایک گلدستہ تھا۔ اس میں قسم قسم کے پھول تھے۔ مختلف ثقافتوں‘ مختلف زبانوں اور مختلف رنگوں کے پھول! بی جے پی نے اس گلدستے کی پتی پتی تاراج کر دی۔ پھولوں کی خوشبو کی جگہ لاشوں کی سڑاند نے لے لی ہے۔ کشمیری اور آسامی مسلمانوں کی لاشیں! منی پور کے مسیحیوں کی لاشیں! پنجاب کے سکھوں کی لا شیں! بہت جلد جین مت کے ماننے والوں کی باری بھی آ جائے گی۔ سب جانتے ہیں کہ بی جے پی کے لیے بابا گورو نانک کا نام بھی تیر سے کم نہیں! کرتارپور راہداری کھلنے سے آر ایس ایس کے جنونیوں کو گہرا زخم لگا تھا۔ جو مائنڈ سیٹ بی جے پی کے طویل عرصہ اقتدار نے بھارت میں عام کیا ہے‘ اس کے سبب بھارتیوں پر رحم آتا ہے۔ سمندر کو ایک جوئے کم آب میں بدل دیا ہے۔ باغ کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ نفرت کا زہر ہر طرف پھیلا دیا ہے! معاشرے کو کرچی کرچی کر دیا ہے۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ جنوبی ریاستوں (تامل ناڈو‘ کرناٹک‘ تلنگانہ‘ آندھرا پردیش اور کیرالہ) پر شمال کی زبان‘ ہندی مسلط کرے‘ اس سے بھارت کے اندر افتراق اور انتشار کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ خدا بھارت کے عوام پر رحم کرے اور انہیں کسی ایسے رہنما سے نوازے جو تمام مذہبی‘ ثقافتی‘ نسلی گروہوں کو یکجا کر کے رکھے۔ دلوں میں محبت پیدا کرے۔ اور جنوبی ایشیا میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے بجائے خطے میں ترقی کا سوچے تا کہ غربت اور جہالت کا خاتمہ ہو۔

 

powered by worldwanders.com