تیرہویں جماعت کا طالب علم تھا جب پہلی بار لاہور دیکھا۔
ایک مشاعرہ بورے والا میں تھا اور دوسرا لاہور میں! ہم دو شاعر طالب علموں کو ہماری درسگاہ‘ گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی نے اس سفر پر روانہ کیا۔ پہلے بورے والا میں انعام جیتا۔ لاہور اسلامیہ کالج میں ''شمعِ تاثیر‘‘ کا مشاعرہ تھا۔ شنید یہ تھی کہ لاہور سے باہر والا انعام نہیں جیت سکتا۔ مگر تیسری پوزیشن ہم لے اُڑے۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ پہلا انعام سرمد صہبائی کو ملا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے لیے انٹرویو بھی لاہور میں ہوا۔ پھر عرصۂ ملازمت میں تو لاہور آنا جانا معمول ہو گیا۔ کئی اداروں کی سربراہی ایسی تھی کہ کیمپ آفس لاہور میں تھا۔ کبھی کبھی تو ہر ماہ ایک ہفتہ لاہور کے دفتر میں بیٹھنا ہوتا۔
پھر بیٹی کی شادی لاہور میں ہو گئی۔ یوں لاہور سے جذباتی وابستگی کا دور شروع ہو گیا۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ: یہ جو لاہور سے محبت ہے؍ یہ کسی اور سے محبت ہے۔ لاہور سے بیٹی اور اس کے میاں سمندر پار چلے گئے۔ وہاں آسمان سے پنگھوڑا اترا جس میں زینب لیٹی ہوئی انگوٹھا چوس رہی تھی۔ چار ماہ کی تھی کہ زینب اپنے بابا اور اماں کے ساتھ لاہور واپس آئی۔ یہاں سے اُس عشق کی کہانی شروع ہوتی ہے جو لاہور سے ہوا اور ایسا ہوا کہ لاہور‘ اتنا بڑا شہر ہونے کے باوجود‘ سمٹ کر دل میں بیٹھ گیا۔ زینب سترہ برس لاہور میں رہی۔ یہ سترہ برس لاہور آتے جاتے گزرے۔ زینب لاہور بن گئی اور لاہور زینب بن گیا۔ وہ بلاتی کہ نانا ابو آ جائیے۔ نانا ابو چل پڑتے۔ کئی کئی دن لاہور میں قیام رہتا۔ جہاں بھی جانا ہوتا‘ زینب ساتھ ہوتی۔ باغوں میں‘ پارکوں میں‘ پھر سکول جانا شروع کیا۔ صبح سکول جاتے ہوئے کہہ کر جاتی کہ چھٹی کے وقت نانو اور نانا ابو لینے آئیں۔ اور بڑی ہو گئی۔ اب ہم نے کتابوں کی دکانوں میں جانا شروع کر دیا۔ اس کے دونوں چھوٹے بھائی‘ ہاشم خان‘ قاسم خان بھی ساتھ ہوتے۔ لاہور کی سب سے بڑی بُک شاپ میں کیفے بھی تھا۔ یہ بچے کتابیں دیکھتے‘ اپنی پسند کی چنتے اور ساتھ ہی کیفے سے جوس اور چپس بھی کھاتے۔ پھر اس سب سے بڑی بُک شاپ کی ایک برانچ‘ ڈیفنس میں زینب کے گھر کے قریب کھل گئی۔ اس چار منزلہ عمارت میں اوپر کی منزل پر ریستوران تھا۔ نانا‘ نواسی اور نواسوں کی عیاشیوں کو چار چاند لگ گئے۔ گھنٹوں ہم سب کتابیں چھانتے‘ کتابیں پڑھتے اور آخر میں ریستوران میں کھاتے پیتے۔ سترہ برس آنکھ جھپکتے گزر گئے۔ زینب یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا سوچ رہی تھی کہ اس کے بابا اور اماں نے پھر بستر باندھا‘ گٹھڑی سر پر رکھی اور تینوں بچوں کی انگلیاں پکڑے‘ واپس اُس نئی دنیا میں چلے گئے جو کولمبس نے دریافت کی تھی۔ اب میں اسلام آباد میں بیٹھا ہوں۔ ایک طرف زینب یاد آ رہی ہے‘ دوسری طرف لاہور! لاہور جاؤں تو کیسے؟ جا کر کروں گا بھی کیا کہ بقول منیر نیازی ع وہ سنگدل تو یہاں سے کہیں چلا بھی گیا۔ زینب کا ہجر اور لاہور کا ہجر‘ دونوں ہجر گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ زینب جاتے جاتے اپنا ہجر بھی دے گئی اور لاہور کا بھی! سترہ برس کم نہیں ہوتے۔ دل میں تھا بھی کیا! ایک ڈیوڑھی اور ایک دالان! ڈیوڑھی میں زینب براجمان ہے۔ دالان پر لاہور نے قبضہ کر لیا۔
لاہور بھی کیا شہر ہے! شہروں میں ایک شہر ہے اور شہروں کا شہر ہے! کوئی اسے باغوں کا شہر کہتا ہے کوئی کالجوں کا! مگر یہ دلداریوں کا شہر ہے۔ اس کے درخت طلسمی ہیں۔ ان پر بیٹھنے والے پرندے کوہ قاف سے آتے ہیں۔ اس کی شاہراہیں دلفریب ہیں۔ اس کے بازاروں کے سامنے قاہرہ‘ دمشق اور حلب کے بازار ماند پڑ جاتے ہیں۔ لندن‘ نیویارک‘ واشنگٹن‘ پیرس‘ ٹورنٹو سب دیکھے‘ مگر لاہور کے مقابلے میں یوں لگے جیسے شہزادیوں کے سامنے خادمائیں! کیا گرفت ہے لاہور کی کہ جسے پکڑے‘ چھوڑتی نہیں! لاہور کی ہوائیں عطر بیز ہیں۔ اس کے جھونکوں میں شہد کا ذائقہ ہے۔ اس کے مکین نرم دل‘ خوش گفتار اور کرم فرما ہیں۔ ہمارے سارے شہروں کی پنجابی میٹھی ہے مگر جو لذت لاہور کی پنجابی میں ہے‘ اس کا سلسلہ ہی الگ ہے۔ لاہور کے لوگ بات کریں تو روشنیاں بکھیرتے ہیں۔ خاموش رہیں تو یوں لگتا ہے یہ خاموشی پہنچے ہوئے لوگوں کی خاموشی ہے جو گفتگو پر بھاری ہے۔ یہاں کے رہنے والوں کی پیشانیاں کشادہ اور آنکھیں روشن ہیں۔ مسکراہٹ ان کا طرزِ زندگی ہے۔ اس شہر کے ہجر میں مبتلا ہوں اور یہ شہر ہے کہ معشوق کی طرح وصال کو وعدۂ فردا پر ٹالے جا رہا ہے۔
پس نوشت۔ میری سینئر‘ آپا کشور ناہید ناراض ہیں۔ زہر میں بجھے ہوئے طنزیہ تیر چلا رہی ہیں پھر بھی قابلِ احترام ہیں کہ سال خوردگی میں
Senility
آ ہی جاتی ہے۔ غلطی اس سیاہ کار سے یہ ہوئی کہ حالیہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد‘ پاکستان پر اور پاکستانیت پر لکھا‘ خوب لکھا اور ڈٹ کر لکھا۔ اقبال اور قائداعظم کے احسانات کا ذکر کیا۔ کیا کریں! پاکستان ہم جیسوں کی ریڈ لائن ہے اور قائداعظم ہمارے اور ہماری نسلوں کے محسن! اگر کسی کو یہ ذکر ناگوار گزرے تو ہم اظہارِ ہمدردی ہی کر سکتے ہیں! یہ جو میں نے لکھا کہ ''وہ کیا چیز ہے جو ڈھاکہ کے بنگالی کو کولکتہ کے بنگالی سے الگ کر رہی ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو لدھیانہ اور جالندھر کے پنجابی کو لاہور اور سیالکوٹ کے پنجابی سے الگ کر رہی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو پاکستانی جاٹ‘ پاکستانی راجپوت اور پاکستانی گُجر کو بھارتی جاٹ‘ بھارتی راجپوت اور بھارتی گجر سے الگ کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! صرف نیت کی سچائی درکار ہے! پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاؤں دھو دھو کر بھی پئیں تو ان کا احسان نہیں اُتار سکتے! ذرا سوچئے‘ عمران خان نے جو زبردست تقریر اقوام متحدہ میں کی تھی‘ اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا کوئی برصغیر کا مسلمان ایسی تقریر کر سکتا تھا‘‘۔ اب کچھ لوگ اس قسم کی تحریر سے برافروختہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے دل ودماغ پر یہ باتیں ٹھاہ لگتی ہیں! ان کی اپنی مجبوری ہے‘ ہماری اپنی مجبوری! یوں بھی اگر بچپن میں کسی کو برقع زبردستی پہنایا جائے تو عمر بھر اس کا ردِعمل کار فرما رہتا ہے اور انسان مذہب کا نام سننا بھی برداشت نہیں کرتا۔
کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کلب میں ایک ادبی تقریب تھی۔ شاید میرے ہی نئے شعری مجموعے کی رونمائی۔ نوجوان شاعر اور بیورو کریٹ شکیل جاذب میزبان تھے۔ معروف شاعر اور ذاکر‘ ہمارے دوست‘ شکیل اختر تقریر کر رہے تھے۔ گفتگو میں مذہب کا نام آ گیا یا ذکر ہو گیا۔ آپا بھڑک اٹھیں اور ناگواری کا اظہار فرمایا۔ آپا نے اپنے تازہ کالم میں ڈھکے چھپے الفاظ میں تجویز فرمایا ہے کہ اظہار الحق کو امام مسجد لگا دیجیے۔ زہے نصیب! مجھے امام مسجد بننے میں کوئی اعتراض نہیں بلکہ فخر سے بنوں گا۔ یہ اور بات کہ میں اس قابل نہیں‘ اگرچہ کبھی ضرورت پڑے تو کوٹ پتلون پہنے‘ نماز پڑھا بھی دیتا ہوں! اللہ کا شکر ہے کسی قسم کا احساسِ کمتری نہیں‘ نہ ہی سرحد پار کے حوالے سے مرعوبیت کا عارضہ لاحق ہے۔
یہ سب کچھ لکھتے ہوئے افسوس بھی ہو رہا ہے۔ ان کا احترام لازم ہے۔ اب مجبوری یہ ہے کہ ہم جیسے لوگ Slums میں تو پروان چڑھے نہیں۔ گاؤں کی کھلی بے خوف فضا میں پلے بڑھے ہیں۔ کوئی تیر چلائے تو ہمارے ترکش سے پھول نہیں نکلیں گے۔ بہت کچھ ہے کہنے کو۔ اللہ نہ کرے کہ کہنا پڑے۔ ظفر اقبال کے الفاظ میں یہی عرض کر سکتے ہیں کہ:
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اُڑا اور بہت