Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, August 12, 2025

ایک ماں جو اعلی ملکی اعزاز کی مستحق ہے




حادثہ خوفناک تھا اور مہلک!
23 سالہ نوجوان شدید زخمی ہوا۔ سر پر متعدد چوٹیں آئی تھیں اور سب گہری! وہ بے ہوش تھا۔ ہسپتال پہنچنے پر فوراً سرجری کی گئی تاکہ دماغ سے منجمد خون کے لوتھڑے نکالے جا سکیں۔ پھر اس' ٹیوبوں اور نلکیوں میں لپٹے ہوئے نوجوان کو آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا۔ رات کو ایک بجے ایک اور آپریشن کیا گیا۔ بہتری کے کچھ آثار نظر آئے تو نوجوان مریض کو وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ عملے نے نگہداشت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ڈیڑھ دو دن حوصلہ افزا گزرے۔ دلوں میں آس اُتری۔ مگر تیسرے دن طبیعت بگڑنے لگی۔ نوجوان کو سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ اس سارے عرصہ کے دوران اس کی ماں' اس کے چچا' تایا اور دیگر متعلقین' ایک لمحہ بھی نہ سوئے۔ سب خوفزدہ تھے۔ سب پر ہول طاری تھا اور دہشت! سب کچھ غیر متوقع تھا۔ یہ قیامت ان پر اچانک ٹوٹی تھی۔ بیٹھے بٹھائے' اندھیرا چاروں طرف سے امڈنے لگا تھا۔ اسے آئی سی یو میں واپس لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے ہر ممکن کوشش کی' مگر تقدیر میں کچھ اور لکھا تھا۔ آسمان پر ستارے اور زمین پر زائچے کچھ اور بتا رہے تھے۔ نوجوان کی آنکھیں زندگی سے دور ہوتی نظر آ رہی تھیں! پُتلیاں پھیل گئی تھیں۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ زندگی کے سٹیج پر پردہ گرنے والا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب اس کی ماں نے آئی سی یو کے باہر اپنے اعزہ واقارب کو جمع کیا۔ نوجوان کے چچا اور تایا دونوں موجود تھے۔ کئی گھنٹے بحث ہوئی۔ نوجوان کی ماں نے جو فیصلہ کیا تھا' آخر میں سب نے اس کے آگے سر جھکا دیے۔ موت کی دہلیز پر کھڑے نوجوان کو فوراً گردوں کے ہسپتال میں لے جایا گیا۔ نوجوان کے دونوں گردے نکالے گئے۔ پھر دو ایسے مریض لائے گئے جو ایک عرصہ سے گردوں کے عطیہ کے منتظر تھے مگر کہیں سے عطیوں کی امید نہیں تھی اور وہ مسلسل ڈائلیسس پر تھے۔ نوجوان کی ماں نے اپنے سامنے ' اپنے لخت جگر کے گردوں کی' ان دو مریضوں میں پیوند کاری کرائی۔ دونوں مریض' جو موت کے دہانے پر کھڑے تھے' نئی زندگی سے فیضیاب ہوئے۔
آپ کا کیا خیال ہے پتھروں کو موم کر دینے والا یہ واقعہ کہاں کا ہے؟ ہماری نفسیات کہتی ہے کہ ایسے واقعات تو مغربی ملکوں میں رونما ہوتے ہیں! ایسی مائیں ہمارے ہاں کہاں ملتی ہیں! کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک ماں' اپنے اکلوتے جگر گوشے کے گردے اپنے سامنے نکلوا کر عطیے کے طور پر پیش کر دے گی؟ وہ بھی پاکستان جیسے جذباتی ملک میں! مگر یہ ماں' یہ فرشتہ خصلت ماں' پاکستان کی شہری ہے۔ یہ ماں ڈاکٹر مہر افروز ہیں۔ وہ خود ایک بلند پایہ نیفرالوجسٹ ہیں یعنی گردوں کی ماہر فزیشن! میاں' جو ڈاکٹر تھے' مرحوم ہو چکے۔ سید سلطان ظفر ' جو حادثے کی نذر ہوا' ان کا اکلوتا بیٹا تھا اور دانتوں کی ڈاکٹری کا طالب علم تھا۔ پروفیسر ٹیپو سلطان اور پروفیسر شیر شاہ' مرحوم نوجوان کے چچا اور تایا ہیں اور دونوں ڈاکٹر ہیں۔ ( یہ جو کہا جا رہا ہے کہ یہ دونوں صاحبان' مرحوم نوجوان کے' دادا اور نانا ہیں' اس کالم نگار کی اطلاع کی رُو سے درست نہیں ہے)۔
یہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن
 (SIUT)
 تھا جہاں سلطان ظفر مرحوم کے دو گردوںکو دو مریضوں کے اجسام میں منتقل کیا گیا۔ یہ انسٹیٹیوٹ مشہورِ عالم ڈاکٹر' جناب ادیب رضوی کا کارنامہ ہے اور ایسا کارنامہ ہے جس پر پورے ملک کو فخر کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی تقسیم سے نو برس پہلے' جونپور (یو پی) کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ڈاؤ میڈیکل کالج سے ڈاکٹر بننے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے۔ ان کے حالاتِ زندگی میں مرقوم ہے کہ اس زمانے میں برطانیہ سے لوٹنے والے گاڑی لاتے تھے مگر ڈاکٹر ادیب رضوی میڈیکل آلات سے بھرا ہوا کنٹینر لائے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ خلقِ خدا کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں ان کی مثال ایدھی صاحب اور ڈاکٹر رُتھ فاؤ کے علاوہ' غالباً کوئی نہیں! 1970ء میں انہوں نے ایک مختصر سے وارڈ سے اپنے عظیم الشان کام کا آغاز کیا۔ یہ وارڈ' یورالوجی کا تھا اور صرف آٹھ بیڈ پر مشتمل تھا۔ آج یہ ایک عظیم الشان ہسپتال ہے جو گردوں کے لاکھوں مریضوں کے لیے آخری امید ہے۔ ہر ہفتے گردوںکی پیوندکاری کے کتنے ہی کیس کامیابی سے نمٹائے جاتے ہیں۔ 2012ء میں ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے گردوں کا ایسا ہی ہسپتال سکھر میں قائم کیا جس سے بلوچستان' شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب کے عوام فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے سال انسٹیٹیوٹ نے مشہور ہوٹل' ریجنٹ پلازا (سابقہ تاج محل ہوٹل) خرید لیا جو اَب انسٹیٹیوٹ کا مرکز ہے۔ شاہراہ فیصل پر واقع اس کا محل وقوع بہترین ہے۔ (میں کتنی ہی بار اس ہوٹل میں ٹھہرا)۔ اب اس کی پیشانی پر 
SIUT

 TRUST HOSPITAL 
لکھا ہے۔ 2003ء میں ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے جگر کی پہلی کامیاب پیوند کاری کی۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ڈاکٹر ادیب رضوی کو دیکھا بھی ہے اور انہیں ملا بھی ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ میں ایدھی صاحب ' ڈاکٹر رُتھ فاؤ اور ڈاکٹر ادیب رضوی کے زمانے میں سانس لے رہا ہوں۔
ہم ڈاکٹر مہر افروزکی طرف واپس آتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر ادیب رضوی کے قائم کردہ اسی عظیم الشان ہسپتال میں گردوں کی ماہر ڈاکٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہی ہیں! جو قربانی ڈاکٹر مہر افروز نے دی ہے اور جو کارنامہ سرانجام دیا ہے' اس کا بیان کرنا تو آسان ہے مگر ویسا کر کے دکھانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ آج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں' ہماری بدبختی سے انسان کم اور درندے زیادہ ہیں۔ یہ درندے خونخوار پنجے اور نوکیلے' ڈراؤنے' دانت رکھتے ہیں! معصوم اور سادہ لوح لوگوں کے گردے فریب کاری سے حاصل کر کے پیسہ بٹورا جا رہا ہے۔ دل میں نہ صرف بغیر ضرورت کے سٹنٹ ڈالے جا رہے ہیں بلکہ جعلی سٹنٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ شاید اپنے قارئین کو پہلے بھی بتایا ہے کہ راولپنڈی کے ایک مشہور ہسپتال کے ''نیک دل'' ڈاکٹر معروف اینکر ارشد شریف مرحوم کے دل میں سٹنٹ ڈالنے کے درپے تھے۔ میں ان دنوں ایک ٹی وی چینل سے منسلک تھا اور شام کو وہاں بیٹھتا بھی تھا۔ عزیزِ گرامی خاور گھمن میرے رفیق کار تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ارشد شریف کی رپورٹیں بیرون ملک سے چیک کرائیے۔ چیک کرائی گئیں تو معلوم ہوا کہ کسی سٹنٹ کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں! یہ حال اگر پنڈی اسلام آباد کا ہے تو چھوٹے شہروں اور قصبوںمیں جو مردم خوری ہو رہی ہو گی' اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا! اس معاشرے میں' جی ہاں! اس معاشرے میں ڈاکٹر مہر افروز جیسی ماں کا وجود معجزے سے کم نہیں! سوچیے! دوبارہ غور کیجیے! کتنی مائیں اتنا حوصلہ رکھتی ہوں گی؟ دس دن ڈاکٹر مہر افروز کا لخت جگر موت وحیات کے درمیان معلّق رہا اور ماں کی جان سولی پر لٹکتی رہی۔ کیسے گزرے ہوں گے یہ دس دن! مگر حوصلہ' عزم' استقلال اور جذبہ دیکھیے کہ جب اسی اکلوتے فرزند' اکلوتے جگر گوشے نے آنکھیں ہمیشہ کے لیے موند لیں تو ماں نے بیٹے کے اعضا قربان کر دیے اور دو انسانوں کو حیاتِ نو بخشی!
کیا وزیراعظم کو اس عظیم اور بے مثال قربانی کا علم ہے؟ اگر علم نہیں ہے تو اس اطلاعاتی حصار پر افسوس ہے جو ان کے ارد گرد کھنچا ہوا ہے۔ اور اگر علم ہے تو انہوں نے ابھی تک اس بہادر ماں کے لیے اعلیٰ ملکی اعزازکا اعلان کیوں نہیں کیا؟


 

powered by worldwanders.com