اہلِ قلم کے حقوق اور فرائض
''ہم بُک فیئر منعقد کر رہے ہیں‘ فلاں تاریخ کو آپ کا پروگرام رکھا ہے‘ فلاں نمبر پر بات کر کے تفصیلات لے لیجیے‘‘۔ یہ نادر شاہی حکم ایک نیم سرکاری‘ نیم علمی ادارے کی ایک اہلکار نے ٹیلی فون پر صادر کیا۔ جب کہا کہ مجھ سے پوچھے بغیر آپ نے پروگرام کیسے رکھ لیا؟ اور تاریخ بھی خود ہی طے کر لی؟ تو اہلکار‘ یعنی اہلکارن نے فون بند کر دیا۔ ادارے کے سربراہ سے اس ''آمریت‘‘ کا ذکر کیا تو موصوف نے معذرت کم کی اور اہلکارن پر کام کے بوجھ پر بات زیادہ کی۔ سوال یہ ہے کہ ادیب اور شاعر کے ساتھ Taken for granted والا سلوک کیوں کیا جانے لگا ہے؟ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ کچھ ذمہ دار اس صورتحال کے ادیب اور شاعر خود بھی ہیں۔ ہر پروگرام‘ ہر مشاعرے‘ ہر کتابی میلے میں شامل ہونے کیلئے ''جدوجہد‘‘کرنا! ہر کس وناکس کی‘ ہر ایرے غیرے کی منت سماجت کرنا‘ پروگرام لینے کیلئے مرے جانا‘ عزتِ نفس کو گروی رکھ دینا ہم میں سے کچھ ادیبوں اور شاعروں کا وتیرہ ہی بن گیا ہے۔ اس رویے کے سبب پروگرام منعقد کرنے والے عزت تو کیا ...