اشاعتیں

کالم

اہلِ قلم کے حقوق اور فرائض

''ہم بُک فیئر منعقد کر رہے ہیں‘ فلاں تاریخ کو آپ کا پروگرام رکھا ہے‘ فلاں نمبر پر بات کر کے تفصیلات لے لیجیے‘‘۔ یہ نادر شاہی حکم ایک نیم سرکاری‘ نیم علمی ادارے کی ایک اہلکار نے ٹیلی فون پر صادر کیا۔ جب کہا کہ مجھ سے پوچھے بغیر آپ نے پروگرام کیسے رکھ لیا؟ اور تاریخ بھی خود ہی طے کر لی؟ تو اہلکار‘ یعنی اہلکارن نے فون بند کر دیا۔ ادارے کے سربراہ سے اس ''آمریت‘‘ کا ذکر کیا تو موصوف نے معذرت کم کی اور اہلکارن پر کام کے بوجھ پر بات زیادہ کی۔ سوال یہ ہے کہ ادیب اور شاعر کے ساتھ Taken for granted والا سلوک کیوں کیا جانے لگا ہے؟ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ کچھ ذمہ دار اس صورتحال کے ادیب اور شاعر خود بھی ہیں۔ ہر پروگرام‘ ہر مشاعرے‘ ہر کتابی میلے میں شامل ہونے کیلئے ''جدوجہد‘‘کرنا! ہر کس وناکس کی‘ ہر ایرے غیرے کی منت سماجت کرنا‘ پروگرام لینے کیلئے مرے جانا‘ عزتِ نفس کو گروی رکھ دینا ہم میں سے کچھ ادیبوں اور شاعروں کا وتیرہ ہی بن گیا ہے۔ اس رویے کے سبب پروگرام منعقد کرنے والے عزت تو کیا ...

قاتلوں کا گروہ اور مقتولین

چیخ تھی اور ایسی کہ زمین و آسمان نے ایسی چیخ نہیں سنی تھی۔ سب دوڑ رہے تھے۔ سب ایک ہی سمت جا رہے تھے۔ لاتعداد لوگ! شمار سے باہر لوگ! حیرت کی بات یہ تھی کہ ہجوم لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا تھا۔ دھوپ تیز سے تیز تر ہو رہی تھی۔ دور دور تک کوئی درخت‘ کوئی چھت‘ کوئی سائبان‘ کوئی بادل نہیں نظر آ رہا تھا۔ سب سنتے آئے تھے کہ سورج سوا نیزے پر ہو سکتا ہے۔ آج سب یہ ہوتا دیکھ رہے تھے۔ سب پسینے میں شرابور تھے۔ پیاس اتنی تھی کہ زبانوں پر دراڑیں پڑ رہی تھیں۔ کہیں کوئی دریا‘ کوئی جھیل‘ کوئی چشمہ‘ کوئی کنواں‘ کوئی تالاب‘ کوئی جوہڑ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میدان اتنا بڑا تھا کہ ایک کنارہ ایک افق سے تو دوسرا دوسرے افق سے مل رہا تھا۔ یہ میدان بالکل بنجر تھا۔ کہیں کوئی روئیدگی نہیں تھی۔ گھاس کا تنکا تک کہیں نہ تھا۔ لوگ گرتے تھے‘ اُٹھ کر پھر دوڑنے لگتے تھے۔ سینے دھونکنیوں کی طرح چل رہے تھے۔ پھر اس لاتعداد خلقت نے دیکھا کہ ایک طرف‘ افق سے‘ آسمان پر ایک سایہ سا چلا۔ یہ سایہ پھیلتے پھیلتے‘ بڑھتے بڑھتے‘ سب کے سروں پر تن گیا۔ یہ اور بات کہ د...

ثمرین حسین اور تابندہ بتول

زمین ظلم سے بھر گئی ہے۔ آسمان سے پتھر کیوں نہیں برس رہے؟ قانون کے یہ کیسے رکھوالے ہیں جو خود قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں! جن کے اپنے گھروں میں قانون کی حیثیت اُس چیتھڑے سے زیادہ نہیں جس سے جوتے صاف کیے جاتے ہیں‘ وہ خلق خدا کو کیا انصاف دیں گے۔ ایسے واقعات کی تعداد ہولناک رفتار سے بڑھ رہی ہے جن میں طاقتور افراد عام شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور قانون ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ ملک ایسی چراگاہ بن چکا ہے جہاں بھیڑوں کے رکھوالے بھیڑوں کو چیر پھاڑ رہے ہیں۔ ریاست ان کے سامنے بے بس ہے۔ قانون ان کے بوٹوں کا تسمہ ہے۔ پولیس چاہے بھی تو اس کے ہاتھ بندھے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ انصاف کی مسندوں پر براجمان ہیں۔ کچھ بھی نہیں ہو گا! کچھ بھی نہیں! پیر کی رات‘ وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر‘ اندھا دھند رفتار سے کروڑوں کی شاہانہ گاڑی چلانے والے سولہ سالہ چھوکرے نے جن دو بہنوں کو گاڑی کے نیچے دے کر ہلاک کیا ہے‘ ان دو بہنوں کو انصاف نہیں ملے گا۔ لکھ لیجیے کہ نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ آج تک یہاں کسی طاقتور کو سزا نہیں دی گئی۔ کیا مجرم کے والد محترم‘ جو خود بڑے عہدے ...

سی ڈی اے کا مزید شکریہ

اگر عزیزِ گرامی رؤف کلاسرا جیسے مشہور‘ کہنہ مشق صحافی اور نبیل گبول صاحب جیسے معروف سیاستدان کا فون بھی چیئرمین سی ڈی اے نہیں سنتے تو ہما و شما کس زعم میں ہیں! صرف چیئرمین ہی نہیں‘ پورا سی ڈی اے وہ معشوق ہے جو فریاد سنتا ہے نہ جواب دیتا ہے۔ بس اپنے حسن پر فریفتہ ہے اور خود ہی فریفتہ ہے۔ چند ہفتے پہلے سی ڈی اے کے ممبر Environments (ماحولیات) سے رابطہ کرنے کی اذیت سے گزرنا پڑا۔ ان کے سٹاف سے کہا کہ بات کرائیں۔ بتایا گیا کہ میٹنگ میں ہیں۔ اب یہ میٹنگ والا سدا بہار نسخہ ہر موقع پر استعمال ہوتا ہے۔ گھر میں بیٹھے ہیں تو جواب ہوتا ہے کہ میٹنگ کے لیے گئے ہیں‘ دفتر میں بیٹھے چائے پی رہے ہیں تو جواب ہوتا ہے کہ اندر میٹنگ چل رہی ہے۔ خیر! سٹاف سے کہا کہ میٹنگ سے واپس آجائیں تو بات کرا دیں۔ سٹاف نے پوچھا کہ ''آپ کیا ہیں؟‘‘۔ اس کا درست جواب تو یہ تھا کہ میں ایک شہری ہوں جس کے ادا کردہ ٹیکس سے ممبر صاحب کو تنخواہ اور مراعات مل رہی ہیں۔ مگر پاکستان میں ایسا کہنا نہ صرف یہ کہ کوئی وزن نہیں رکھتا بلکہ وزن کو گھٹا دیتا ہے‘ اور اتنا گھٹاتا ہے کہ وزن صفر سے بھ...

ہم اور اسلام کا اصل چہرہ

''ہم پوری دنیا کو اسلام کا اصل چہرہ دکھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھالنا ہے کہ ہم دنیا کو اسلام کا صحیح چہرہ دکھانے کیلئے خود کو اس قابل بنا سکیں کہ ہم زبان سے دعوت دینے کے بجائے انہیں اپنے کردار سے دعوت دے سکیں‘‘۔ یہ قابلِ تحسین بیان ہمارے مذہبی امور کے وفاقی وزیر صاحب کا ہے۔ ماشاء اللہ! بہت خوش آئند عزم ہے۔ ہر اچھے مسلمان کی یہی خواہش ہے۔ ہم بھر پور تائید کرتے ہیں۔ تائید سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہم اس نیک کام میں ان کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ جب دنیا کو اسلام کا اصل چہرہ دکھائیں تو رائیونڈ کے محلات ضرور دکھائیے گا اور مختلف شہروں میں بنے ہوئے زرداری ہاؤس بھی! ایک جھلک لندن کے فلیٹوں کی بھی! اور ابھی آپ نے بڑی شخصیات کو جو عدالتی استثنا دیا ہے‘ اس سے بھی ضرور دنیا کو آگاہ کیجیے گا۔ اور اگر دنیا کہے کہ خلفائے راشدین حکمران ہوتے ہوئے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے‘ تو بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں! دنیا کو کیا معلوم کہ آج کیا درست ہے اور کیا نادرست! ان بابوں کو بھی ضرور دکھائیے گا جو ملک ک...

افغانستان کے بگاڑ میں ہمارا حصہ

کہسار مارکیٹ وفاقی دارالحکومت کا ایک معروف لینڈ مارک ہے۔ (یہیں پر ایک قتل بھی ہوا تھا)۔ تین چار ہفتے پہلے کسی کام سے وہاں جانا ہوا۔ پارکنگ میں ایک مشکوک سا شخص گھوم پھر رہا تھا۔ بلاشک و شبہ وہ افغان تھا۔ پارکنگ کے گارڈ سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ وہ مسکرایا مگر خاموش رہا۔ میں نے افغان سے پوچھا کہ افغان ہو؟ کہنے لگا: نہیں! پنجابی ہوں۔ میں نے کہا کہ شناختی کارڈ تو دکھاؤ۔ اس نے فوراً جیب سے شناختی کارڈ نکالا اور میری آنکھوں کے سامنے کر دیا۔ شناختی کارڈ کے اعتبار سے وہ خوشاب ضلع کے ایک گاؤں سے تھا۔ اب میں نے اس سے خوشاب کی ٹھیٹھ پنجابی میں بات کی مگر وہ مسلسل افغان زدہ اردو میں بات کرتا رہا اور بالکل نہ مانا کہ وہ افغان ہے۔ میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑا‘ اپنا کام نبیڑا اور گھر واپس آگیا۔ دوسرے دن ایک اور واقعہ پیش آیا جو اس سے بھی زیادہ حیران کن تھا! میں اپنی ایک قریبی عزیزہ کے گھر گیا ہوا تھا۔ اس وقت اس کے ہاں اس کی ملازمہ بھی تھی۔ عزیزہ نے بتایا کہ اس پنجابی عورت کا داماد افغان ہے۔ یہ رو دھو رہی ہے کہ وہ رُوپوش ہے‘ سامنے آیا تو افغانستان بھیج دیا جائے گا۔ رو دھو اس لیے رہی ت...

ہم پاکستانی ایک ناشکرگزار قوم ہیں

اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے پاکستانی قوم سے زیادہ ناشکر گزار قوم کوئی نہیں! مارشل لاء کے نام پر جمہوریت کا پہلا پودا لگایا تو اسکندر مرزا نے تھا مگر اسے تناور درخت ایوب خان نے بنایا۔ اس قوم کو آج تک یہی بات سمجھ میں نہ آئی کہ اصل جمہوریت ایوب خانی عہد ہی میں تھی۔ سیاستدانوں کی کردار کشی اور تذلیل کر کے اس نے قوم پر احسان کیا اور قوم ہے کہ اسے آمر کے طور پر یاد کرتی ہے۔ جنرل ضیاالحق ہی کو لے لیجیے۔ اتنا عظیم الشان شخص تھا کہ اس نے ہماری تاریخ بدل ڈالی۔ افغانوں کو پاکستان میں لاکر ہماری آبادی بڑھائی۔دنیا میں اسلحہ اور منشیات کے حوالے سے ہمارا نام مشہور ہوا۔ ملک کو نئی شناخت ملی۔ آپ خود انصاف کیجیے کیا دہشت گردی کے ذکر سے دنیا والوں کے ذہن میں کسی اور ملک کا نام آتا ہے؟ ہماری اہمیت بڑھی! یہ جو آج ملک کے اطراف واکناف میں افغان بھائی پھیلے ہوئے ہیں اور حکومت کی کوششوں کے باوجود ہمیں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے اور ہمارے ہجر کا سوچ کر تڑپنے لگتے ہیں‘ یہ سب جنرل ضیاالحق ہی کی وجہ سے ہے۔ مگر ہم اتنے ناسپاس ہیں کہ کبھی اسے 'ضیاع الحق‘ کہتے ہیں اور کبھی ڈکٹیٹر! ہم ایس...

پاکستانی سیاست اور مڈل کلاس

سیاست میں داخل ہونے والی مڈل کلاس کا بھانڈا سب سے پہلے ایم کیو ایم نے پھوڑا! ہم جیسے مڈل کلاسیوں نے جب ہوش سنبھالا تو تجربہ بھی محدود تھا اور خیالات بھی ناپختہ۔ ہم جیسے لاکھوں طالب علموں نے نوٹ کیا کہ سیاست پر وہ لوگ حاوی ہیں جو امرا کے طبقے سے ہیں۔ ان امیر سیاستدانوں کی اکثریت عوام کے ساتھ مخلص نہیں! کبھی پارٹیاں بدلتے ہیں اور کبھی پارٹیاں بناتے ہیں۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مسائل کا حل ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ مڈل کلاس سیاست میں آئے۔ اس رائے یا اس آرزو کی تہہ میں یہ مفروضہ کارفرما تھا کہ مڈل کلاس سیاست میں آئے گی تو سیاست شخصیات کے بجائے نظریات کو اہمیت دے گی۔ شخصی اور ذاتی وفاداری سے سیاست پاک رہے گی اور مڈل کلاس مڈل کلاس رہ کر ہی عوام کی خدمت کرے گی! مگر یہ سب سراب تھا۔ خام خیالی تھی! خوش فہمی تھی! غلط فہمی تھی! مڈل کلاس کا پرچم سیاست میں سب سے پہلے ایم کیو ایم نے لہرایا۔ یاد رہے کہ ایم کیو ایم ردعمل میں بنی تھی۔ جب الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں نے کراچی یونیورسٹی میں All Pakistan Muhajir Students Organization (APMSO) کا ڈول ڈالا تو اس وقت یونیورسٹی میں طلبہ کی کم وبیش پندرہ طلبہ تنظی...

ساتویں صدی عیسوی کی ایک خاتون سے ملاقات

میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کے قبرستان میں تین قبریں ہیں جن کے لیے میں قبرستان جاتا ہوں۔ پہلی والد گرامی مرحوم کی۔ دوسرے میرے بیٹے محمد مظہر الحق کی‘ جو تین ماہ کی عمر میں چل بسا تھا اور جس کی یاد میں مَیں نے ایک دردناک نظم کہی تھی۔ تیسری میری بڑی بہن کی خوشدامن صاحبہ کی‘ جو رشتے میں ہماری نانی بھی ہوتی تھیں۔ میرے لڑکپن میں ان کی صحت اچھی تھی‘ حقہ پیا کرتی تھیں۔ ہمارے علاقے میں حقے کو چلم کہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی طرح‘ چلم بالکل الف کی طرح سیدھی ہوتی ہے۔ اس کے نچلے حصے میں پانی ہوتا ہے۔ میں نے ان کی چلم میں مٹی کا تیل ڈال دیا تھا۔ انہوں نے تمباکو پر جلتی ہوئی دیا سلائی رکھی تو چلم میں آگ بھڑک اٹھی۔ گاؤں کے قبرستان کے برعکس یہ ایک منظم قبرستان ہے‘ پلاٹوں کے نمبر ہیں‘ پھر ہر پلاٹ میں قبروں کے نمبر الگ ہیں‘ پلاٹ نمبر اور قبر نمبر کی مدد سے کسی بھی قبر کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس قبرستان میں میرے ساتھ عجیب و غریب واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ان واقعات کے حوالے سے وقتاً فوقتاً کالم بھی لکھتا رہا۔ یہیں ایک مردے سے ملاقات ہوئی تھی‘ جو شاہجہان کے زما...

وہم اور وسوسے برائے فروخت

خاتون نے شادی کی! کچھ عرصہ بعد میاں بیمار پڑ گئے۔ ہسپتال والوں نے خاتون سے میاں کی میڈیکل ہسٹری پوچھی۔ خاتون کو کچھ علم نہ تھا۔ خاتون کے اپنے الفاظ میں: ''وہ ہسپتال والے مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے دل میں پیس میکر پڑا ہوا ہے یا سٹنٹ؟ مجھے پتا ہی کچھ نہیں کہ ان کے دل میں پہلے کیا پڑا ہوا ہے یا کتنی سرجریز ہو چکی ہیں؟ کیو نکہ یہ ان کے دل کا تیسرا شدید دورہ تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ تو مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ پہلے دو شدید دورے پڑ چکے ہیں‘‘۔ لطیفہ کہیے یا مذاق کہ یہ خاتون‘ جنہیں اپنے رفیقِ زندگی کے دل کے متعلق‘ جن کے ساتھ زندگی گزار رہی تھیں‘ کچھ معلوم نہ تھا‘ ساری دنیا کو مستقبل کے حالات بتاتی پھرتی ہیں! اپنے مستقبل کے بارے میں تجسس خلقِ خدا کی بہت بڑی کمزوری ہے! اس کمزوری سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جنہیں خدا پر پختہ ایمان ہے یا اپنے آپ پر یقین ہے! اس کمزوری سے نجومی‘ پامسٹ اور علم الاعداد کا دعویٰ کرنے والے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ضعیف الاعتقاد لوگ ان کے پاس جاتے ہیں۔ کوئی پوچھتا ہے کارو بار میں کامیابی کب ملے گی! کوئی پوچھتا ہے شادی کب ہ...