Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, March 31, 2014

ہاں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے

Friday, March 28, 2014

بَیل


درست وقت پر درست پالیسی… کامیابی کا یہی راز ہے۔ اور یہ راز حکومتِ وقت نے پا لیا ہے۔ 
حکومت کے ایک انتہائی معتبر اور بااختیار نمائندے نے کل جو اعلان کیا ہے وہ موجودہ حالات میں درست فیصلہ ہے اور برمحل۔ 
اندرونِ ملک نگاہ دوڑایئے۔ ہر طرف اضطراب ہے اور بدامنی۔ کراچی سے لے کر پشاور تک مسلح افراد دندناتے پھرتے ہیں۔ قاتل یوں محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں میں زبان۔ تھر میں قحط نے انسانوں کو یوں نگل لیا جیسے بحرالکاہل کے کناروں پر پڑے ہوئے مگرمچھ پورے پورے آدمی نگل جاتے ہیں۔ چولستان خطرے کی زد میں ہے۔ کوئٹہ سے ہزارہا خاندان ہجرت کر چکے ہیں۔ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق صرف ایک سال میں پانچ سو کے لگ بھگ اغوا برائے تاوان کے واقعات پیش آئے ہیں اور یہ وہ اعداد ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ پانی کی کمی تلوار کی طرح عوام کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔ 
بین الاقوامی حوالے سے بھی ہم مشکل میں ہیں۔ امریکی انخلا کے بعد جو کچھ بھی ہوگا ہمارے لیے خوشگوار نہیں ہوگا۔ خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس نے کہا ہے اور درست کہا ہے کہ افغان سرحد لمبی ہے اور کھلی ہے۔ ہزاروں لوگ آ جا رہے ہیں‘ کس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے! بھارت میں وحشی مودی منہ پھاڑے مکروہ داڑھیں دکھا رہا ہے جو پاکستان کو‘ خاکم بدہن‘ چبانے کے لیے بے تاب ہیں۔ امریکی امداد کا بہت بڑا حصہ کاٹ کر یوکرائن کو دیا جا رہا ہے۔ کراچی میں آگ اور خون کا کھیل مسلسل جاری ہے اور موت کا وحشیانہ رقص رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ 
ان حالات میں‘ ان دگرگوں حالات میں‘ حکومت نے یہ جو اعلان کیا ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازموں کی تنخواہ اور پنشن بڑھانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے تو آخر اس سے زیادہ برمحل فیصلہ کیا ہو سکتا ہے۔ اسے ہی کہتے ہیں درست وقت پر درست فیصلہ۔ حکمرانوں کی رہنمائی کے لیے دانش مندوں نے جتنی کتابیں لکھی ہیں‘ مثلاً گلستانِ سعدی‘ قابوس نامہ‘ طُوسی کا سیاست نامہ‘ اتفاق دیکھیے کہ کسی کو بھی اس تیر بہدف نسخے کا خیال نہیں آیا۔ جو صاحب بھی اس حکومت کی رہنمائی کا کام انجام دے رہے ہیں‘ جب بھی کتاب لکھیں گے‘ حکمرانی کی تاریخ میں انقلاب آ جائے گا۔ 
بدبخت سرکاری ملازم! کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ عوامی نمائندوں‘ وزیروں اور مشیروں کی مراعات پر کتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ لاجز‘ وزیروں کی رہائشی کالونیاں‘ ایوانِ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کے اخراجات۔ خادمِ اعلیٰ کے ترکی کے پے بہ پے دورے‘ سندھ حکومت کے عمائدین کا آئے دن دبئی حاضر ہونا‘ ان ساری ضروری مدّات پر پہلے ہی بہت اخراجات اُٹھ رہے ہیں۔ اگر سرکاری ملازموں کی تنخواہ اور ریٹائرڈ ملازموں کی پنشن بھی بڑھا دی جائے تو ظاہر ہے ملک سخت خطرے کی زد میں آ جائے گا۔ 
سرکاری ملازم وہ واحد طبقہ ہے جو سو فیصد پورا انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ان کی تنخواہوں سے ماہ بماہ ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ یہ چُوں بھی نہیں کر سکتے۔ قوم کی تعمیر میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے طوفان میں‘ سرکاری ملازم اپنی تنخواہیں اور پنشن نہ بڑھنے پر اس بلند مقام کا سوچیں جو ملک کی تاریخ میں انہیں نصیب ہوگا۔ آج اگر ان کے بیوی بچے فاقہ کشی کر رہے ہیں‘ علاج اور تعلیم کے لیے ترس رہے ہیں تو یہ تو سوچیں کہ آنے والی نسلیں انہیں کتنے عظیم نام سے یاد کریں گی! 
سرکاری ملازم تین قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو حرام کھاتے ہیں۔ دوسرے وہ جو حرام نہیں کھاتے لیکن کام پورا نہیں کرتے اور ہڈحرام ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو حرام نہیں کھاتی اور پوری دیانت اور محنت سے فرائض سرانجام دیتی ہے۔ اکثریت تیسری قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ملک کی گاڑی کو چلا رہے ہیں۔ اس میں نائب قاصد اور خاکروب سے لے کر اعلیٰ ترین عہدیداروں تک‘ سب شامل ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت میں انشاء اللہ کامیاب ٹھہرائے جائیں گے۔ اب اگر ان کی تنخواہ اور پنشن‘ اس خاکی دنیا میں‘ بڑھا دی جائے تو بالکل اچھا نہیں لگے گا۔ اس تیسری قسم کو چاہیے کہ حرام کھائے نہ ہی کام میں ہڈحرامی کرے۔ نہ تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کرے۔ صبر سے ا ور شکر سے کام لے اور پانچوں وقت وزیراعظم‘ صدر‘ کابینہ اور صوبائی حکام کی مالی خوشحالی کے لیے دعا کرے۔ 
بہت دن ہوئے سرکاری ملازم پر ’’بَیل‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی۔ آج یاد آ رہی ہے۔ 
چلا جا رہا ہے 
کبھی دُم ہلا کر 
کبھی جھرجھری سے 
کبھی سر جھٹک کر 
ہرے‘ کچے زخموں پہ بیٹھی ہوئی 
مکھیوں کو اڑانے کی ناکام کوشش میں ہے 
کہیں کوئی راحت نہیں ہے 
نکلتے ہوئے دن کی خنکی سے لے کر 
گئی رات کی سرد‘ بے مہر‘ پہنائی تک 
کڑی چلچلاتی ہوئی دوپہر کی اذیت سے لے کر 
لہو چوستے پِسّوئوں‘ مچھروں سے بھری شام تک 
کہیں کوئی راحت نہیں ہے 
کسی دور افتادہ راحت کے نزدیک آنے کا امکان نہیں ہے 
کوئی کھال سے جیکٹیں‘ بیگ‘ جوتوں کے تسمے بناتا ہے 
کوئی کسی کُند مقراض سے جسم کی اُون 
(ٹانگوں کے نیچے دبا کر) 
کترتا ہے‘ پھر پشت پر بیٹھ کر ہانکتا ہے 
کوئی جوت کر ہل میں کانٹوں بھری قمچیاں مارتا ہے 
چراگاہ میں بھی کبھی لے کے جائیں تو اک سنگ آتا ہے 
اور ساتھ دشنام اور گوشت کھانے کی دھمکی 
جگر اور گردے جو شاداب تھے ایک اک 
کر کے ناکارہ ہونے لگے ہیں 
جو تھوڑی بہت گھاس کھاتا ہے معدے سے اٹھتی جلن 
صبح تک مضطرب رکھتی ہے 
دل اور اس کی رگیں جانے کس حال میں ہیں 
کمر درد کرتی ہے 
ٹانگیں جو فولاد کی طرح تھیں کانپتی ہیں 
………… 
کہیں کوئی راحت نہیں ہے 
کسی دور افتادہ راحت کے نزدیک آنے کا ا مکان نہیں ہے 
بس اک آس ہے 
کسی دن 
کسی کھیت میں ہَل کے نیچے 
کسی شام سامان ڈھوتے ہوئے 
کسی رات تنہائی میں تھان پر 
سانس کا سلسلہ ختم ہو جائے 
اور گر پڑے!!

Thursday, March 27, 2014

آدمی کوئی ہمارا…

                                               
پاکستان اور اہلِ پاکستان کا ستارہ مستقل گردش میں ہے۔ ایک مصیبت ٹلتی ہے تو دوسری آ جاتی ہے۔ شاعر کی طرح اہلِ پاکستان بھی اب یہی کہتے نظر آتے ہیں   ؎ 
ٹُوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاںؔ پر 
لَو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی 
تازہ ترین افتاد یہ آن پڑی ہے کہ صدرِ مملکت کی شیروانی درست نہ نکلی۔ یومِ پاکستان کی تقریب کے لیے سلوٹوں سے بھری انتہائی خراب سلائی والی شیروانی ’’فراہم کرنے ‘‘کی تحقیقات شروع ہو بھی چکی ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ اس کے لیے چار رکنی کمیشن بٹھایا گیا ہے یا ایک ہی فرد تحقیقات کرے گا۔ خبرکا زیادہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس شیروانی کا وزیراعظم سمیت کئی شخصیات نے نوٹس لے لیا ہے۔ یہ صدر صاحب کے سائز کے مطابق نہیں تھی ، اسے استری بھی ٹھیک سے نہیں کیا گیا تھا۔ صدر نے خود بھی دورانِ تقریب سبکی محسوس کی بلکہ وہ سارا وقت انتہائی بے چین نظر آئے۔ 
اب اس وحشت اثر خبر میں کئی مقامات رُکنے پر مجبورکر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے علاوہ کون سی شخصیات نے اس حادثے کا نوٹس لیا؟ یہ کیسے معلوم ہوا کہ صدر صاحب سبکی محسوس کر رہے تھے؟ کیا وہ بار بار شیروانی کی سلوٹوں کو ہتھیلی سے ہموار کرتے پائے گئے یا سبکی محسوس کرنے کی کوئی اور علامت ظہور پذیر ہوئی؟ اگر وہ سارا وقت بے چین بلکہ انتہائی بے چین نظر آئے توکیا اس کی وجہ صرف شیروانی تھی؟ کیا خبرکوئی اور وجہ بھی ہو؟ شاعر نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ 
بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانیے کیا یاد آیا 
پیٹ میں درد اٹھا آنکھ میں آنسو آئے 
صدر صاحب کو غالباً معلوم نہیں کہ اب وہ جس طبقے کے رحم و کرم پر ہیں وہ پاکستان کا طاقت ور طبقہ تو نہیں لیکن ان طبقات میں یقیناً سرفہرست ہے جو من مانی کرتے ہیں اورکبھی پکڑائی نہیں دیتے۔ اس طبقے کو بیوروکریسی بھی کہا جاتا ہے، افسر شاہی بھی اور نوکر شاہی بھی۔ انگریزی اخبارات ’’بابو‘‘ کا لفظ بہت استعمال کرتے ہیں۔ شیروانی کی خرابی کے ساتھ دوسری خبر یہ بھی ہے کہ جس مشاعرے کی صدارت صدر ممنون نے کی اور خصوصی خطاب بھی کیا وہ اسلام آباد کلب میں منعقد کیا گیا تھا۔ صدر صاحب اگر شیروانی کی پریشانی میں مبتلا نہ ہو جاتے توکیا خبر وزارت اطلاعات کے بابوئوں سے پوچھتے کہ اسلام آباد کلب میں تو صرف وہ لوگ داخل ہو سکتے ہیں جو کلب کے رکن ہوں یا جن کے نام خصوصی طور پر کلب کے گیٹ پر لکھوائے گئے ہوں ، ایک عام پاکستانی تو اسلام آباد کلب میں جا ہی نہیں سکتا۔ نیشنل لائبریری کے آڈیٹوریم میں کئی مشاعرے برپا ہوئے ہیں ، نیشنل کونسل آف آرٹس کی عمارت میں بھی بہت مناسب اور وسیع ہال ہے اور وہاں عوام بھی جا سکتے ہیں۔ 
یہ جو کہا گیا ہے کہ شیروانی ’’فراہم کی گئی‘‘ تو لگتا ہے شیروانی ’’سرکاری‘‘ تھی اور اگر سرکاری تھی تو نوکر شاہی کاکوئی نہ کوئی رُکن ضرور ’’ملوث‘‘ ہوگا! اگر صدر صاحب خود اپنی مرضی کا کپڑا ’’خریدتے‘‘ اور اپنی مرضی کے ٹیلر سے سلواتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔ 
بیوروکریسی کے حوالے سے یاد آیا کہ جو ہاتھ حکومت طالبان سے کر رہی ہے‘ طالبان نے ساری ہشیاری اور احتیاط کے باوجود اس کا کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔۔۔ مذاکرات کرنے والی تازہ ترین کمیٹی نوکر شاہی پر مشتمل ہے۔ یوں حکومت ایک تیر سے کئی پرندے شکار کر رہی ہے۔ نوکر شاہی کی اپنی مخصوص اصطلاحات ہیں جن سے طالبان کا آج تک سابقہ نہ پڑا ہوگا ، طالبان سیدھے سادے آر یا پار پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ نوکر شاہی کی ساری تربیت ہی اس نکتے پر مرکوز ہوتی ہے کہ جان بچائو‘ ذمہ داری قبول نہ کرو اور بات ایسی کرو جس سے دو نہیں کئی مطلب نکالے جا سکیں۔ فاروق گیلانی مرحوم اپنا قصہ سنایاکرتے تھے کہ ان کے افسر نے کوئی فیصلہ کیا تو انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ غلط فیصلہ ہے۔افسر حقائق جاننا نہیں چاہتا تھا، گویا زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ ’’میں فیصلہ کر چکا ہوں، اب حقائق سے مجھے کنفیوز نہ کرو‘‘۔ طالبان کو مذاکرات کے دوران اس قبیل کے جوابات سے پالا پڑے گا: 
۔۔۔ آپ نے درست کہا ہے ، اس پر ضرور غورکیا جائے گا۔ 
۔۔۔ آپ کا موقف صحیح ہے ، بس ہمیں ذرا وزارت قانون کی رائے لینا ہوگی۔ 
۔۔۔ آپ کا مطالبہ بجا، بجٹ کا تخمینہ لگا کر وزارتِ خزانہ سے پوچھ لیتے ہیں۔ 
۔۔۔ متعلقہ حلقوں (Concerned Quorters) سے رابطہ کرکے آپ کو بتائیں گے۔ 
۔۔۔ سمری تیارکر کے وزیراعظم سیکرٹریٹ کو بھیجنا ہوگی۔ 
۔۔۔ جی ضرور! بس ذرا نظیر (Precedent) تلاش کرنی پڑے گی۔ 
بیوروکریٹ اور سیاست دان میں جوہری فرق یہ ہوتا ہے کہ سیاست دان زندہ‘ جیتے جاگتے انسانوں کو دھیان میں رکھتے ہیں جبکہ بیوروکریٹ نے قوانین کی کتاب ملحوظ رکھنی ہوتی ہے ، بیوروکریٹ میں لچک بالکل نہیں ہوتی۔ وہ اگر ڈپٹی کمشنر چار دن بھی رہا ہے تو ساری زندگی اسی خمار میں گزرتی ہے اور فیصلے بھی اُسی ذہنی فضا میں کرتا ہے (یا نہیں کرتا) ۔ سیاست دان کے سامنے ایک بڑی تصویر ہوتی ہے اور وہ ہر پہلو کو سامنے رکھتا ہے اور پھر اگر سیاست دان اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہو توکیاکہنا ! بیوروکریٹ اسے جل نہیں دے سکتا ! 
نوکر شاہی کے ارکان نے اس ملک میں کیسے کیسے پتے کھیلے ہیں اورکس کس طرح کھیلے ہیں‘ اس کی صرف ایک مثال جو حافظے سے دفعتاً باہر نکل آئی ہے‘ دیکھیے: اکتوبر 2007ء کی بات ہے ، سرکاری ادارے نیپرا (NEPRA) کا چیئرمین لگایا جانا تھا۔ حکومت نے اخبار میں اشتہار دیا، پچاس سے زیادہ امیدواروں نے درخواستیں دیں ، ان میں سے سولہ کو انٹرویو کے لیے منتخب کیا گیا۔ تین ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے انٹرویو لینے تھے۔ یہ تین ارکان کابینہ ڈویژن ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور پانی اور بجلی کے وفاقی سیکرٹری تھے۔ سولہ امیدواروں کے انٹرویو کیے گئے ، ان میں سے پانچ امیدواروں کے نام اس وقت کے نگران وزیراعظم کو ارسال کیے گئے تاکہ وہ ان میں سے ایک کو چیئرمین تعینات کردیں‘ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ نوکر شاہی کا جو کارندہ نگران وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پرکام کر رہا تھا‘ اس نے پانچ منتخب ناموں والی فائل اپنے پاس ’’روک‘‘ لی۔ اس کارندے نے اس پوسٹ کے لیے درخواست دی تھی نہ اس کا انٹرویو ہوا تھا اور نہ ہی‘ جیسا کہ پریس نے لکھا‘ وہ اس کا اہل تھا لیکن پندرہ فروری 2008ء کو جو سرکاری اعلان جاری ہوا اس کی رُو سے وہ کارندہ چیئرمین تعینات ہوگیا۔ کیسا اشتہار اورکون سا انٹرویو؟ ان صاحب نے چار سال اس چیئرمینی سے حظ اٹھایا اور اس کے بعد درخواست دی کہ دوسال مزید عنایت کیے جائیں۔ افسوس صد افسوس! یہ درخواست منظور نہ ہوئی اور قوم کو ایک جوہرِ قابل کا داغِ مفارقت سہنا پڑا۔ 
قوم کی قسمت دیکھیے‘ شیروانی اور مشاعرے سے لے کر مذاکرات تک جو کچھ بھی کرنا ہے‘ افسر شاہی نے ہی کرنا ہے! غالبؔ تو اس صورتِ حال پر نوحہ خوانی پہلے ہی کر چکے ہیں   ؎ 
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق 
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟

Tuesday, March 25, 2014

مہاتیر … ؟

پاکستان ہو یا ایران ، سعودی عرب ہو یا شام، قطر ہو یا بحرین ، یواے ای ہو یا لبنان ، ایک حقیقت کسی کی نظر سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے: ہر عمل کا ایک ردعمل ہے ، بونے کے بعد کاٹنے کا عمل ناگزیر ہے۔ بونے کے بعد لاکھ پچھتائیں، جو بیج پڑ گیا اس نے زمین کا سینہ شق کرکے ہر حال میں باہر نکلنا ہے ۔کوار گندل اور تنبہ بو کرگنے کی مٹھاس نہیں حاصل کی جاسکتی۔ اس حقیقت سے جو ملک اغماض برتتا ہے، چُور چُور اور لیروں لِیر ہوکر رہتا ہے۔ دورکیوں جائیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ آج پاکستان کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ یہ وہ بیج ہے جو اہل پاکستان نے بویا تھا !
محلے کے ایک گھر میں جو چند پھنے خان رہتے تھے، ان کا دماغ درست کرنے کے لیے میں نے کچھ بندوقچی،کچھ دادا گیر اورکچھ باڈی بلڈر ٹائپ تنومند نوجوان اپنے گھر میں ڈال لیے تھے۔ میں بظاہربالکل نارمل، شریفانہ زندگی گزارتا رہا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ منصوبے کا ہیڈکوارٹر میرا معمولی سا مکان ہے۔ رات کو یا گرمیوں کی دوپہرکو جب سب سوئے ہوئے تھے، ایک دو افراد میرے گھر سے نکلتے، پھنے خانوں کے گھر میںگھستے،کسی کو پھینٹی لگاتے، کسی کے سر پر بندوق کا بٹ مارتے اورکسی کو اٹھا ہی لاتے۔ چند مہینوں کے اندر اندر سارے پھنے خان محلہ چھوڑگئے۔ خس کم جہاں پاک ، اطمینان نصیب ہوا کہ اتنا بڑا کام میرے ذریعے سے ہوا۔ میں اپنے آپ کو محلے کا نجات دہندہ سمجھنے لگا، لیکن اب یہ مسئلہ آن پڑا کہ بندوقچیوں، دادا گیروں اور باڈی بلڈر ٹائپ نوجوانوں نے محلے کو خیرباد کہنے سے انکارکردیا اور میرے گھر میں مستقل قیام پذیر ہوگئے۔ اب گھر کے زیادہ حصے پر ان کا قبضہ ہے۔ بجلی، گیس اور پانی کا بل میں دیتا ہوں ، وہ ٹھاٹ سے رَہ رہے ہیں۔ میں اپنے ہی گھر میں یوں رہ رہا ہوں جیسے دارالامان میں بیوائیں گزارہ کرتی ہیں!
سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہم نے سوویت یونین کے خلاف اعلان جنگ نہ کیا، لیکن گھر میں مجاہدین ڈال لیے۔ تیس چالیس لاکھ مہاجر ان کے علاوہ تھے جنہیں کیمپوں میں رکھنے کے بجائے ، جیسا کہ ہمارے ہمسایہ ملک نے کیا تھا،پورے ملک میں گھومنے پھرنے ،کاروبار کرنے اور جائدادیں خریدنے کی اجازت دے دی۔ خیبرپختونخوا کی معیشت خاص کر تباہ ہوکر رہ گئی۔ مزدوری، کاروبار سب دوسروں کے ہاتھ میں چلاگیا۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ضیاء الحق کے پورے دور میں سرحد نام کی کوئی شے نہیں تھی! آج ہم فصل کاٹ رہے ہیں۔ ملک میں اس قدر اسلحہ ہے کہ کئی ملک مل کر اتنا اسلحہ نہیں اکٹھا کرسکتے۔ شہر اور بستیاں غیر ملکیوںسے اٹی پڑی ہیں۔ قبائلی علاقہ پاکستان کے ساتھ صرف
 کاغذ پر جڑا ہوا ہے۔ ملک میں ایک فوج نہیں ، کئی لشکر ہیں!
آج جو حلقے شام میں جنگجو بھیج رہے ہیں انہیں پاکستان کے حل سے عبرت پکڑنی چاہیے۔ جو ملک آج جنگجوئوں کی پُشت پر ہے ،یہ جنگجو جلد یا بدیر ضرور اس ملک کو آنکھیں دکھائیں گے۔ معاشرے کا تاروپود بکھرکر رہ جائے گا۔
وہ ویڈیو پوری دنیا نے دیکھی ہے جس میں جنگجوئوں کا سردار ایک ایسے شخص کے بارے میں تقریرکرتا ہے جس نے سینکڑوں، ہزاروں نوجوانوں کوجنگجو بنایا تھا ، پھر اس شخص پر کئی گولیاں چلتی ہیں اور وہ زمین پرگرپڑتا ہے۔ ایک اور معروف کردار بھی انہی علاقوں میں گیا اور زندہ واپس نہ آیا ، جس عمارت کو انہوں نے تعمیر کیا تھا اسی کے ملبے تلے آگئے۔
اس خطے میں کچھ ملکوں نے انقلاب کو برآمد کرنے کی کوششیں کیں۔ انقلاب تو اڑوس پڑوس میں برپا نہ ہوا ، گروہوں کے گروہ اس ’’ برآمد‘‘ کو آگ اور خون میں ڈوب کربھگت رہے ہیں! لبنان سے لے کر عراق اور یمن تک انقلاب برآمد کرنے کی کوشش کی گئیں ، ہر جگہ دو گروہ بن گئے اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہوگئے۔ کیا ردعمل نہیں ہوگا ؟ تاریخ کی گواہی کیا کہتی ہے ؟ سولہویں صدی جب صفوی ، ایران میں سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کررہے تھے، ایرانی معاشرہ ان کے منصوبوں سے زیر و زبر ہورہا تھا۔ مغرب سے سلطنت عثمانیہ نے آذر بائیجان اور تبریز میں لشکر بھیج دیا۔صفویوں نے یورپ سے مدد مانگی۔ پوپ کا زمانہ اقتدار تھا ، اس وقت کے پوپ نے کہا کہ ایرانی صفویوں اور عثمانی ترکوں کی باہمی جنگ نصرانی دنیا کے لیے خداوندکا تحفہ ہے ! ہرمز پر پُرتگال کا قبضہ تھا ۔ پرتگالیوں نے ہرمز سے ایران کو آتشیں ہتھیار فراہم کیے لیکن کچھ کام نہ آیا۔ ترکوں نے تبریز پر قبضہ کرلیا ، چالیس دن بعد خالی کیا لیکن اپنے لشکریوں کے لیے وہاں مضبوط چھائونی بنانے کے بعد ! 
یہ تو مغربی سرحد کا حال تھا ، مشرق میں عبداللہ خان ازبکوں کا سلطان بن چکا تھا۔ اس نے بکھرے ہوئے ازبکوں کو اکٹھا کیا اور ایرانی صوبے خراسان کو روندتا ہوا ہرات کا محاصرہ کرلیا جو ایران کا اہم شہر تھا۔
تاریخ ایک بار جو پگڈنڈیاں تراش لے ،ان پر کبھی گھاس نہیں اگتی۔ وہ نئے قافلوں کے لیے ہمیشہ چشم براہ رہتی ہیں۔ شام میں جنگجو بھیجنا غلط ہے ، بالکل اسی طرح انقلاب کی برآمد بھی فساد کا باعث بنی ہے۔ اب برآمدات کا یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے ۔یو اے ای ہویا بحرین یاکوئی اور ملک، اہل پاکستان کو اپنے اپنے مفاد کے لیے آپس میں دست و گریباں نہ کیجیے، خدا کے لیے نہ کیجیے۔ پاکستانیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔ پراگندہ خاطر ہونے کے لیے ان کے پاس پہلے ہی کئی اسباب ہیں!
اور کیا پورے عالم اسلام میں ایسا کوئی بطل جلیل نہیں، ایسا کوئی گروہ نہیں جو مسلمان حکومتوں کو سمجھائے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے تدبیریں بُننا بند کردیں ! امریکہ اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اس میں رمق بھر اشتباہ نہیں، لیکن دانشوروں کو چاہیے کہ امریکہ اسرائیل اور بھارت کی توپوں میں کیڑے ڈالنے کی کوشش کرنے کی بجائے مغربی ایشیا کی مسلمان طاقتوں کو ایک دوسرے کاگلا کاٹنے سے روکیں۔ کوئی ایسا گروہ ہو جو شام ، یو اے ای اور بحرین کے حکمرانوں کو ایک میز پر بٹھادے ، ان کے آگے ہاتھ جوڑے کہ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کریں اور ایک دوسرے کو پٹخنی دینے کے لیے زور نہ لگائیں۔کیا پوری مسلم دنیا میں ایسا کوئی گروہ ، ایسی کوئی شخصیت نہیں ؟ کیا مہاتیر محمد یہ کام نہیں کرسکتے ؟

Friday, March 21, 2014

گَل گِٹی

لمبی گلی بستی کے ایک سرے سے شروع ہو رہی تھی اور درمیان سے ہوتی ہوئی مشرقی کنارے تک چلی گئی تھی۔ بستی کے مشرقی سرے پر سرکاری تالاب تھا جو تقریباً اُسی زمانے میں بنا تھا جس زمانے کی یہ بات ہے۔ تالاب کے کنارے وہ بلند و بالا درخت تھا جس کی پھیلتی ٹہنیوں اور سبز گھنیرے پتوں کی چھائوں پورے تالاب کو ڈھانپ لیتی تھی۔ اسی درخت کے ایک موٹے ٹہنے پر جب بھی عید آتی‘ پینگ ڈالی جاتی تھی۔ جوان توانا لڑکیاں پینگ کو اس قدر بلندی تک جھُلاتیں کہ بچے ڈر جاتے۔ وہ پینگ کے افقی ڈنڈے پر کھڑے ہو کر‘ عمودی رسیوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتیں اور پھر پتہ نہیں کیسا میکانزم ہوتا تھا کہ چند ثانیوں کے اندر اندر پینگ آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی۔ کبھی کبھی کوئی لڑکی‘ پینگ پر کھڑی ہونے والی لڑکی کی مخالف سمت کی طرف منہ کیے‘ افقی ڈنڈے پر بیٹھ جاتی تھی۔ یوں وہ بھی بلندیوں کی سیر میں شامل ہو جاتی تھی۔ 
موسم معتدل تھا۔ صبح روپہلی تھی۔ وہ جب بھی اٹھتا‘ بغلی گلی میں سے گزرتے ڈھور ڈنگروں کی آوازیں اس کے کان میں پڑتیں۔ ان آوازوں میں اُن گھنٹیوں کی موسیقی بھی ہوتی جو مویشیوں کے گلوں سے لٹک رہی ہوتیں۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ قریب کے قصبے میں ملازمت کرتے ہیں جہاں اس کی اماں بھی رہتی ہیں۔ اس کی ساری کائنات بستی کے درمیان سے گزرتی گلی تھی۔ اس گلی کے دونوں طرف واقع اُس کی حویلیاں تھیں۔ ایک میں مہمان ٹھہرتے تھے‘ ایک صرف مویشیوں کے لیے تھی۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس کے ابّا اور اماں کہاں رہتے ہیں۔ وہ رات کو دادی کے پاس سوتا‘ صبح اٹھ کر دہی کھاتا‘ تھوڑی دیر بعد میٹھی لسّی پیتا‘ پھر اس کے دوست آ جاتے‘ اسی کی طرح چھوٹے چھوٹے‘ سارا دن گلیوں میں دھماچوکڑی مچاتے۔ بارش ہوتی اور گلی میں کاغذ اور تنکے بہتے تو وہ ان کے ساتھ دور تک چلتے جاتے۔ مسجد کے غسل خانے میں اس کے دادا مٹی کے کوزوں میں پانی بھر کر اُسے نہلاتے اور پھر دھوئے ہوئے کپڑے پہناتے جنہیں کبھی استری نہیں کیا گیا تھا۔ 
جب سے یہ کائنات بنی ہے‘ کچھ سوالوں کے جواب انسان کو آج تک نہیں ملے۔ مثلاً یہ کہ ناشاعر کو شاعر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یا کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ انسانی تعلیم و تعلم کی پوری تاریخ میں کوئی مکتب‘ کوئی مدرسہ‘ کوئی سکول ایسا نہیں بنا جو شاعری کرنا سکھائے۔ شاعر اپنی شاعری کو استاد کے قدموں میں بیٹھ کر صیقل کر سکتا ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ شاعر پہلے سے ہو۔ طالب علموں کو مضمون یا کہانی لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے‘ نظم لکھنے کے لیے نہیں۔ مثلاً یہ کہ بیٹی کو بیٹے سے کم تر سمجھنے والے دماغی اعتبار سے ناقص کیوں ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بیوی کو طعنہ دینے والے کہ اس نے بیٹی جنم دی ہے‘ وحشی چوپایوں سے کتنے بدتر ہوتے ہیں‘ دس گنا یا ہزار گنا یا لاکھ گنا؟ مثلاً یہ کہ جس کا پوتا یا نواسی نہ ہو‘ اُسے کیسے سمجھایا جائے کہ بیٹی یا بیٹے کے بچوں کے ساتھ تعلق ناقابلِ بیان ہے۔ اسے سمجھایا جا سکتا ہے نہ الفاظ میں ڈھالا جا سکتا ہے‘ فقط محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جیسے انسان خواب دیکھے تو اس کی پوری کیفیت کبھی کسی دوسرے کو ابلاغ نہیں کر سکتا۔ جیسے بڑے سے بڑا ادبی فن پارہ‘ مصوری کا عظیم سے عظیم شہکار‘ دل میں برپا خوشی یا درد کا مکمل آئینہ دار نہیں ہو سکتا‘ محض ایک کوشش ہو سکتا ہے۔ 
اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ صبح میٹھی لسّی پینے کے بعد اسے بتایا گیا کہ وہ اسے لینے آئے ہیں‘ اس کی اماں اس کے لیے بے قرار ہے اور یہ کہ یہاں تو وہ محض چند دنوں کے لیے آیا تھا‘ رہنا تو اسے اپنے ابّا اماں کے ساتھ قصبے ہی میں ہے۔ ساڑھے تین چار سال کے بچے کو یاد ہی کیا رہ جاتا ہے لیکن اسے ہمیشہ یاد رہا کہ اسے دُھلا ہوا کُرتا اور شلوار پہناتے وقت دادی چپ تھی۔ وہ کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔ پھر اسے چپل پہنائی گئی جسے وہاں کھیڑ (یا کھیڑی) کہتے تھے۔ سائیکل کے اگلے ڈنڈے پر ایک دبیز گدی رکھی ہوئی تھی یا باندھی گئی تھی۔ اس پر بٹھایا گیا‘ اس زمانے میں سائیکل بہت بڑی سواری ہوتی تھی۔ بس کے انتظار میں تو پہروں بیٹھنا پڑتا تھا۔ جس کے پاس سائیکل ہوتا تھا وہ بے فکر ہو جاتا تھا۔ اپنے والد سے ابّا نے جانے کی اجازت مانگی‘ پھر دعا مانگی گئی جو ہر سفر سے پہلے جانے والے اور رخصت کرنے والے سب مانگا کرتے۔ دادی نے دیر تک پیار کیا۔ ابھی تک وہ نارمل تھا‘ لیکن جیسے ہی ابّا نے سائیکل پر بیٹھ کر پیڈل چلائے‘ سائیکل گھر کے دروازے سے دور ہوئی اور چند گز ہی کا فاصلہ طے ہوا کہ اس نے رونا شروع کردیا۔ ’’میں نے دادی کے پاس جانا ہے‘‘۔ ابّا نے سنی ان سنی کی۔ بچے روتے ہی ہیں۔ لمبی بڑی گلی نصف طے ہونے تک رونے کی آواز چیخوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ابّا نے پہلے چمکارا‘ پھر ڈانٹا‘ مشرقی سرے پر واقع سرکاری پختہ تالاب تک پہنچتے پہنچتے جسمانی جدوجہد بھی شروع ہو چکی تھی۔ بچہ نیچے گرنے کی کوشش کرتا۔ ابّا ایک ہاتھ سے سائیکل چلا رہے تھے‘ دوسرے ہاتھ سے اُسے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ بڑے درخت کے نیچے چارپائیاں بچھی تھیں اور لوگ باگ بیٹھے تھے۔ وہ سب اٹھے اور آ کر ملنے لگے۔ اب بچے کی جدوجہد عروج پر تھی۔ وہ اس قدر زور سے چیخ رہا تھا کہ سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ ’’دادی کے پاس‘ دادی کے پاس‘‘۔ پھر اس نے پورا زور لگایا اور ڈنڈے سے نیچے گر گیا۔ اب چارپائیوں سے اٹھنے والے سب لوگ کہنے لگے، ’’اسے چھوڑ دیں جی۔ نہ لے کر جائیں‘ یہ نہیں جانا چاہتا۔ اس کی حالت نہیں دیکھ رہے آپ؟‘‘ ابّا غصّے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔ ’’اس کی ماں کئی دن سے اس کا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ پھر وہ ہار گئے اور کہا، ’’اچھا چلے جائو‘ دادی کے پاس‘‘۔ سائیکل پر سوار ہو کر وہ چلے گئے۔ گرنے کی جدوجہد میں پائوں سے کھیڑ اتر گئی تھی۔ بچے نے دونوں جوتے ہاتھ میں پکڑے اور سرپٹ بھاگنا شروع کیا۔ گلی سے گزرتے مویشیوں کے گلّوں کو پار کرتا‘ دیوار کے ساتھ ساتھ‘ دوڑتا‘ کھڑاک کے ساتھ گھر کے دونوں دروازے کھولے اور بھاگ کر دودھ رڑکتی دادی کے ساتھ لگ گیا۔ دادی نے چمٹایا اور ایک ہی جملہ کہا، ’’اچھا کیا‘ میرے بچے نے جو واپس آگیا‘‘۔ 
یہ چھ عشرے پہلے کا قصہ ہے۔ سائیکلیں غائب ہو گئیں۔ حویلیاں کچھ مقفل ہیں اور کچھ پارکنگ کے کام آ رہی ہیں۔ تالاب اَٹ چکا۔ بڑا درخت کب کا کٹ گیا۔ 
یہ دو دن پہلے کا واقعہ ہے۔ اس نے بیوی سے سیر کو چلنے کے لیے کہا۔ نکلنے لگے تو ساڑھے تین سالہ پوتے نے کہا مجھے ساتھ چلنا ہے‘ تینوں خراماں خراماں پارک میں چل رہے تھے۔ اس کے بیٹے کا فون آیا ’’ابو ہم ایک دوست کی تیمارداری کے لیے جا رہے ہیں۔ کیا ہم حمزہ کو ساتھ لے چلیں‘ ورنہ یہ آپ کو واک نہیں کرنے دے گا‘‘۔ 
گاڑی قریب آ کر رُکی۔ بچے کو کار کی عقبی نشست پر بندھی کار سیٹ میں بٹھایا گیا۔ اُس نے بیٹھتے ہی کہا، میرے ساتھ دادو بیٹھیں گی۔ ’’نہیں بیٹے‘ آپ گاڑی میں جائیں‘ دادو نے واک کرنی ہے‘‘۔ دونوں ایک طرف چلنا شروع ہو گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو گاڑی ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔ پچھلا دروازہ کھلا تھا۔ بچہ چیخ رہا تھا۔ باپ اُسے سیٹ پر بٹھا کر بیلٹ باندھنے کی کوشش کرتا تھا لیکن بچہ‘ شدید جدوجہد کرتے ہوئے‘ سیٹ سے اچھل کر باہر آ جاتا تھا۔ ساتھ وہ چھوٹے چھوٹے پھیپھڑوں کے پورے زور کے ساتھ چیخ رہا تھا۔ 
’’بیٹے‘ اسے نہ لے جائو‘ اسے واپس آنے دو‘‘۔ دادی نے کہا۔ 
بچہ جیسے ہی گاڑی سے اتارا گیا‘ اس نے ناقابلِ یقین تیز رفتاری سے دوڑ لگائی‘ اس میں بجلی بھر گئی تھی یا کوئی اور قوت۔ چھوٹے چھوٹے پیروں سے دوڑتا آیا اور دادو کے ساتھ لگ گیا۔ 
فرق صرف یہ تھا کہ اس بچے نے جاگر پہنے ہوئے تھے۔ نیکر اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ دھوپ سے بچائو کے لیے سر پر کپڑے کا ہیٹ تھا جب کہ چھ عشرے پہلے والے گم شدہ بچے کے سر پر سفید کپڑا تھا جس کے کناروں کو ٹھوڑی کے نیچے لا کر باندھ دیا گیا تھا۔ اُس علاقے میں اِسے گَل گِٹی کہتے تھے۔
گَل گِٹی
لمبی گلی بستی کے ایک سرے سے شروع ہو رہی تھی اور درمیان سے ہوتی ہوئی مشرقی کنارے تک چلی گئی تھی۔ بستی کے مشرقی سرے پر سرکاری تالاب تھا جو تقریباً اُسی زمانے میں بنا تھا جس زمانے کی یہ بات ہے۔ تالاب کے کنارے وہ بلند و بالا درخت تھا جس کی پھیلتی ٹہنیوں اور سبز گھنیرے پتوں کی چھائوں پورے تالاب کو ڈھانپ لیتی تھی۔ اسی درخت کے ایک موٹے ٹہنے پر جب بھی عید آتی‘ پینگ ڈالی جاتی تھی۔ جوان توانا لڑکیاں پینگ کو اس قدر بلندی تک جھُلاتیں کہ بچے ڈر جاتے۔ وہ پینگ کے افقی ڈنڈے پر کھڑے ہو کر‘ عمودی رسیوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتیں اور پھر پتہ نہیں کیسا میکانزم ہوتا تھا کہ چند ثانیوں کے اندر اندر پینگ آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی۔ کبھی کبھی کوئی لڑکی‘ پینگ پر کھڑی ہونے والی لڑکی کی مخالف سمت کی طرف منہ کیے‘ افقی ڈنڈے پر بیٹھ جاتی تھی۔ یوں وہ بھی بلندیوں کی سیر میں شامل ہو جاتی تھی۔ 
موسم معتدل تھا۔ صبح روپہلی تھی۔ وہ جب بھی اٹھتا‘ بغلی گلی میں سے گزرتے ڈھور ڈنگروں کی آوازیں اس کے کان میں پڑتیں۔ ان آوازوں میں اُن گھنٹیوں کی موسیقی بھی ہوتی جو مویشیوں کے گلوں سے لٹک رہی ہوتیں۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ قریب کے قصبے میں ملازمت کرتے ہیں جہاں اس کی اماں بھی رہتی ہیں۔ اس کی ساری کائنات بستی کے درمیان سے گزرتی گلی تھی۔ اس گلی کے دونوں طرف واقع اُس کی حویلیاں تھیں۔ ایک میں مہمان ٹھہرتے تھے‘ ایک صرف مویشیوں کے لیے تھی۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس کے ابّا اور اماں کہاں رہتے ہیں۔ وہ رات کو دادی کے پاس سوتا‘ صبح اٹھ کر دہی کھاتا‘ تھوڑی دیر بعد میٹھی لسّی پیتا‘ پھر اس کے دوست آ جاتے‘ اسی کی طرح چھوٹے چھوٹے‘ سارا دن گلیوں میں دھماچوکڑی مچاتے۔ بارش ہوتی اور گلی میں کاغذ اور تنکے بہتے تو وہ ان کے ساتھ دور تک چلتے جاتے۔ مسجد کے غسل خانے میں اس کے دادا مٹی کے کوزوں میں پانی بھر کر اُسے نہلاتے اور پھر دھوئے ہوئے کپڑے پہناتے جنہیں کبھی استری نہیں کیا گیا تھا۔ 
جب سے یہ کائنات بنی ہے‘ کچھ سوالوں کے جواب انسان کو آج تک نہیں ملے۔ مثلاً یہ کہ ناشاعر کو شاعر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یا کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ انسانی تعلیم و تعلم کی پوری تاریخ میں کوئی مکتب‘ کوئی مدرسہ‘ کوئی سکول ایسا نہیں بنا جو شاعری کرنا سکھائے۔ شاعر اپنی شاعری کو استاد کے قدموں میں بیٹھ کر صیقل کر سکتا ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ شاعر پہلے سے ہو۔ طالب علموں کو مضمون یا کہانی لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے‘ نظم لکھنے کے لیے نہیں۔ مثلاً یہ کہ بیٹی کو بیٹے سے کم تر سمجھنے والے دماغی اعتبار سے ناقص کیوں ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بیوی کو طعنہ دینے والے کہ اس نے بیٹی جنم دی ہے‘ وحشی چوپایوں سے کتنے بدتر ہوتے ہیں‘ دس گنا یا ہزار گنا یا لاکھ گنا؟ مثلاً یہ کہ جس کا پوتا یا نواسی نہ ہو‘ اُسے کیسے سمجھایا جائے کہ بیٹی یا بیٹے کے بچوں کے ساتھ تعلق ناقابلِ بیان ہے۔ اسے سمجھایا جا سکتا ہے نہ الفاظ میں ڈھالا جا سکتا ہے‘ فقط محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جیسے انسان خواب دیکھے تو اس کی پوری کیفیت کبھی کسی دوسرے کو ابلاغ نہیں کر سکتا۔ جیسے بڑے سے بڑا ادبی فن پارہ‘ مصوری کا عظیم سے عظیم شہکار‘ دل میں برپا خوشی یا درد کا مکمل آئینہ دار نہیں ہو سکتا‘ محض ایک کوشش ہو سکتا ہے۔ 
اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ صبح میٹھی لسّی پینے کے بعد اسے بتایا گیا کہ وہ اسے لینے آئے ہیں‘ اس کی اماں اس کے لیے بے قرار ہے اور یہ کہ یہاں تو وہ محض چند دنوں کے لیے آیا تھا‘ رہنا تو اسے اپنے ابّا اماں کے ساتھ قصبے ہی میں ہے۔ ساڑھے تین چار سال کے بچے کو یاد ہی کیا رہ جاتا ہے لیکن اسے ہمیشہ یاد رہا کہ اسے دُھلا ہوا کُرتا اور شلوار پہناتے وقت دادی چپ تھی۔ وہ کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔ پھر اسے چپل پہنائی گئی جسے وہاں کھیڑ (یا کھیڑی) کہتے تھے۔ سائیکل کے اگلے ڈنڈے پر ایک دبیز گدی رکھی ہوئی تھی یا باندھی گئی تھی۔ اس پر بٹھایا گیا‘ اس زمانے میں سائیکل بہت بڑی سواری ہوتی تھی۔ بس کے انتظار میں تو پہروں بیٹھنا پڑتا تھا۔ جس کے پاس سائیکل ہوتا تھا وہ بے فکر ہو جاتا تھا۔ اپنے والد سے ابّا نے جانے کی اجازت مانگی‘ پھر دعا مانگی گئی جو ہر سفر سے پہلے جانے والے اور رخصت کرنے والے سب مانگا کرتے۔ دادی نے دیر تک پیار کیا۔ ابھی تک وہ نارمل تھا‘ لیکن جیسے ہی ابّا نے سائیکل پر بیٹھ کر پیڈل چلائے‘ سائیکل گھر کے دروازے سے دور ہوئی اور چند گز ہی کا فاصلہ طے ہوا کہ اس نے رونا شروع کردیا۔ ’’میں نے دادی کے پاس جانا ہے‘‘۔ ابّا نے سنی ان سنی کی۔ بچے روتے ہی ہیں۔ لمبی بڑی گلی نصف طے ہونے تک رونے کی آواز چیخوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ابّا نے پہلے چمکارا‘ پھر ڈانٹا‘ مشرقی سرے پر واقع سرکاری پختہ تالاب تک پہنچتے پہنچتے جسمانی جدوجہد بھی شروع ہو چکی تھی۔ بچہ نیچے گرنے کی کوشش کرتا۔ ابّا ایک ہاتھ سے سائیکل چلا رہے تھے‘ دوسرے ہاتھ سے اُسے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ بڑے درخت کے نیچے چارپائیاں بچھی تھیں اور لوگ باگ بیٹھے تھے۔ وہ سب اٹھے اور آ کر ملنے لگے۔ اب بچے کی جدوجہد عروج پر تھی۔ وہ اس قدر زور سے چیخ رہا تھا کہ سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ ’’دادی کے پاس‘ دادی کے پاس‘‘۔ پھر اس نے پورا زور لگایا اور ڈنڈے سے نیچے گر گیا۔ اب چارپائیوں سے اٹھنے والے سب لوگ کہنے لگے، ’’اسے چھوڑ دیں جی۔ نہ لے کر جائیں‘ یہ نہیں جانا چاہتا۔ اس کی حالت نہیں دیکھ رہے آپ؟‘‘ ابّا غصّے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔ ’’اس کی ماں کئی دن سے اس کا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ پھر وہ ہار گئے اور کہا، ’’اچھا چلے جائو‘ دادی کے پاس‘‘۔ سائیکل پر سوار ہو کر وہ چلے گئے۔ گرنے کی جدوجہد میں پائوں سے کھیڑ اتر گئی تھی۔ بچے نے دونوں جوتے ہاتھ میں پکڑے اور سرپٹ بھاگنا شروع کیا۔ گلی سے گزرتے مویشیوں کے گلّوں کو پار کرتا‘ دیوار کے ساتھ ساتھ‘ دوڑتا‘ کھڑاک کے ساتھ گھر کے دونوں دروازے کھولے اور بھاگ کر دودھ رڑکتی دادی کے ساتھ لگ گیا۔ دادی نے چمٹایا اور ایک ہی جملہ کہا، ’’اچھا کیا‘ میرے بچے نے جو واپس آگیا‘‘۔ 
یہ چھ عشرے پہلے کا قصہ ہے۔ سائیکلیں غائب ہو گئیں۔ حویلیاں کچھ مقفل ہیں اور کچھ پارکنگ کے کام آ رہی ہیں۔ تالاب اَٹ چکا۔ بڑا درخت کب کا کٹ گیا۔ 
یہ دو دن پہلے کا واقعہ ہے۔ اس نے بیوی سے سیر کو چلنے کے لیے کہا۔ نکلنے لگے تو ساڑھے تین سالہ پوتے نے کہا مجھے ساتھ چلنا ہے‘ تینوں خراماں خراماں پارک میں چل رہے تھے۔ اس کے بیٹے کا فون آیا ’’ابو ہم ایک دوست کی تیمارداری کے لیے جا رہے ہیں۔ کیا ہم حمزہ کو ساتھ لے چلیں‘ ورنہ یہ آپ کو واک نہیں کرنے دے گا‘‘۔ 
گاڑی قریب آ کر رُکی۔ بچے کو کار کی عقبی نشست پر بندھی کار سیٹ میں بٹھایا گیا۔ اُس نے بیٹھتے ہی کہا، میرے ساتھ دادو بیٹھیں گی۔ ’’نہیں بیٹے‘ آپ گاڑی میں جائیں‘ دادو نے واک کرنی ہے‘‘۔ دونوں ایک طرف چلنا شروع ہو گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو گاڑی ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔ پچھلا دروازہ کھلا تھا۔ بچہ چیخ رہا تھا۔ باپ اُسے سیٹ پر بٹھا کر بیلٹ باندھنے کی کوشش کرتا تھا لیکن بچہ‘ شدید جدوجہد کرتے ہوئے‘ سیٹ سے اچھل کر باہر آ جاتا تھا۔ ساتھ وہ چھوٹے چھوٹے پھیپھڑوں کے پورے زور کے ساتھ چیخ رہا تھا۔ 
’’بیٹے‘ اسے نہ لے جائو‘ اسے واپس آنے دو‘‘۔ دادی نے کہا۔ 
بچہ جیسے ہی گاڑی سے اتارا گیا‘ اس نے ناقابلِ یقین تیز رفتاری سے دوڑ لگائی‘ اس میں بجلی بھر گئی تھی یا کوئی اور قوت۔ چھوٹے چھوٹے پیروں سے دوڑتا آیا اور دادو کے ساتھ لگ گیا۔ 
فرق صرف یہ تھا کہ اس بچے نے جاگر پہنے ہوئے تھے۔ نیکر اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ دھوپ سے بچائو کے لیے سر پر کپڑے کا ہیٹ تھا جب کہ چھ عشرے پہلے والے گم شدہ بچے کے سر پر سفید کپڑا تھا جس کے کناروں کو ٹھوڑی کے نیچے لا کر باندھ دیا گیا تھا۔ اُس علاقے میں اِسے گَل گِٹی کہتے تھے۔
گَل گِٹی
لمبی گلی بستی کے ایک سرے سے شروع ہو رہی تھی اور درمیان سے ہوتی ہوئی مشرقی کنارے تک چلی گئی تھی۔ بستی کے مشرقی سرے پر سرکاری تالاب تھا جو تقریباً اُسی زمانے میں بنا تھا جس زمانے کی یہ بات ہے۔ تالاب کے کنارے وہ بلند و بالا درخت تھا جس کی پھیلتی ٹہنیوں اور سبز گھنیرے پتوں کی چھائوں پورے تالاب کو ڈھانپ لیتی تھی۔ اسی درخت کے ایک موٹے ٹہنے پر جب بھی عید آتی‘ پینگ ڈالی جاتی تھی۔ جوان توانا لڑکیاں پینگ کو اس قدر بلندی تک جھُلاتیں کہ بچے ڈر جاتے۔ وہ پینگ کے افقی ڈنڈے پر کھڑے ہو کر‘ عمودی رسیوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتیں اور پھر پتہ نہیں کیسا میکانزم ہوتا تھا کہ چند ثانیوں کے اندر اندر پینگ آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی۔ کبھی کبھی کوئی لڑکی‘ پینگ پر کھڑی ہونے والی لڑکی کی مخالف سمت کی طرف منہ کیے‘ افقی ڈنڈے پر بیٹھ جاتی تھی۔ یوں وہ بھی بلندیوں کی سیر میں شامل ہو جاتی تھی۔ 
موسم معتدل تھا۔ صبح روپہلی تھی۔ وہ جب بھی اٹھتا‘ بغلی گلی میں سے گزرتے ڈھور ڈنگروں کی آوازیں اس کے کان میں پڑتیں۔ ان آوازوں میں اُن گھنٹیوں کی موسیقی بھی ہوتی جو مویشیوں کے گلوں سے لٹک رہی ہوتیں۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ قریب کے قصبے میں ملازمت کرتے ہیں جہاں اس کی اماں بھی رہتی ہیں۔ اس کی ساری کائنات بستی کے درمیان سے گزرتی گلی تھی۔ اس گلی کے دونوں طرف واقع اُس کی حویلیاں تھیں۔ ایک میں مہمان ٹھہرتے تھے‘ ایک صرف مویشیوں کے لیے تھی۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس کے ابّا اور اماں کہاں رہتے ہیں۔ وہ رات کو دادی کے پاس سوتا‘ صبح اٹھ کر دہی کھاتا‘ تھوڑی دیر بعد میٹھی لسّی پیتا‘ پھر اس کے دوست آ جاتے‘ اسی کی طرح چھوٹے چھوٹے‘ سارا دن گلیوں میں دھماچوکڑی مچاتے۔ بارش ہوتی اور گلی میں کاغذ اور تنکے بہتے تو وہ ان کے ساتھ دور تک چلتے جاتے۔ مسجد کے غسل خانے میں اس کے دادا مٹی کے کوزوں میں پانی بھر کر اُسے نہلاتے اور پھر دھوئے ہوئے کپڑے پہناتے جنہیں کبھی استری نہیں کیا گیا تھا۔ 
جب سے یہ کائنات بنی ہے‘ کچھ سوالوں کے جواب انسان کو آج تک نہیں ملے۔ مثلاً یہ کہ ناشاعر کو شاعر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یا کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ انسانی تعلیم و تعلم کی پوری تاریخ میں کوئی مکتب‘ کوئی مدرسہ‘ کوئی سکول ایسا نہیں بنا جو شاعری کرنا سکھائے۔ شاعر اپنی شاعری کو استاد کے قدموں میں بیٹھ کر صیقل کر سکتا ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ شاعر پہلے سے ہو۔ طالب علموں کو مضمون یا کہانی لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے‘ نظم لکھنے کے لیے نہیں۔ مثلاً یہ کہ بیٹی کو بیٹے سے کم تر سمجھنے والے دماغی اعتبار سے ناقص کیوں ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بیوی کو طعنہ دینے والے کہ اس نے بیٹی جنم دی ہے‘ وحشی چوپایوں سے کتنے بدتر ہوتے ہیں‘ دس گنا یا ہزار گنا یا لاکھ گنا؟ مثلاً یہ کہ جس کا پوتا یا نواسی نہ ہو‘ اُسے کیسے سمجھایا جائے کہ بیٹی یا بیٹے کے بچوں کے ساتھ تعلق ناقابلِ بیان ہے۔ اسے سمجھایا جا سکتا ہے نہ الفاظ میں ڈھالا جا سکتا ہے‘ فقط محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جیسے انسان خواب دیکھے تو اس کی پوری کیفیت کبھی کسی دوسرے کو ابلاغ نہیں کر سکتا۔ جیسے بڑے سے بڑا ادبی فن پارہ‘ مصوری کا عظیم سے عظیم شہکار‘ دل میں برپا خوشی یا درد کا مکمل آئینہ دار نہیں ہو سکتا‘ محض ایک کوشش ہو سکتا ہے۔ 
اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک شام پہلے ابّا کیوں آئے تھے۔ صبح میٹھی لسّی پینے کے بعد اسے بتایا گیا کہ وہ اسے لینے آئے ہیں‘ اس کی اماں اس کے لیے بے قرار ہے اور یہ کہ یہاں تو وہ محض چند دنوں کے لیے آیا تھا‘ رہنا تو اسے اپنے ابّا اماں کے ساتھ قصبے ہی میں ہے۔ ساڑھے تین چار سال کے بچے کو یاد ہی کیا رہ جاتا ہے لیکن اسے ہمیشہ یاد رہا کہ اسے دُھلا ہوا کُرتا اور شلوار پہناتے وقت دادی چپ تھی۔ وہ کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔ پھر اسے چپل پہنائی گئی جسے وہاں کھیڑ (یا کھیڑی) کہتے تھے۔ سائیکل کے اگلے ڈنڈے پر ایک دبیز گدی رکھی ہوئی تھی یا باندھی گئی تھی۔ اس پر بٹھایا گیا‘ اس زمانے میں سائیکل بہت بڑی سواری ہوتی تھی۔ بس کے انتظار میں تو پہروں بیٹھنا پڑتا تھا۔ جس کے پاس سائیکل ہوتا تھا وہ بے فکر ہو جاتا تھا۔ اپنے والد سے ابّا نے جانے کی اجازت مانگی‘ پھر دعا مانگی گئی جو ہر سفر سے پہلے جانے والے اور رخصت کرنے والے سب مانگا کرتے۔ دادی نے دیر تک پیار کیا۔ ابھی تک وہ نارمل تھا‘ لیکن جیسے ہی ابّا نے سائیکل پر بیٹھ کر پیڈل چلائے‘ سائیکل گھر کے دروازے سے دور ہوئی اور چند گز ہی کا فاصلہ طے ہوا کہ اس نے رونا شروع کردیا۔ ’’میں نے دادی کے پاس جانا ہے‘‘۔ ابّا نے سنی ان سنی کی۔ بچے روتے ہی ہیں۔ لمبی بڑی گلی نصف طے ہونے تک رونے کی آواز چیخوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ابّا نے پہلے چمکارا‘ پھر ڈانٹا‘ مشرقی سرے پر واقع سرکاری پختہ تالاب تک پہنچتے پہنچتے جسمانی جدوجہد بھی شروع ہو چکی تھی۔ بچہ نیچے گرنے کی کوشش کرتا۔ ابّا ایک ہاتھ سے سائیکل چلا رہے تھے‘ دوسرے ہاتھ سے اُسے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ بڑے درخت کے نیچے چارپائیاں بچھی تھیں اور لوگ باگ بیٹھے تھے۔ وہ سب اٹھے اور آ کر ملنے لگے۔ اب بچے کی جدوجہد عروج پر تھی۔ وہ اس قدر زور سے چیخ رہا تھا کہ سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ ’’دادی کے پاس‘ دادی کے پاس‘‘۔ پھر اس نے پورا زور لگایا اور ڈنڈے سے نیچے گر گیا۔ اب چارپائیوں سے اٹھنے والے سب لوگ کہنے لگے، ’’اسے چھوڑ دیں جی۔ نہ لے کر جائیں‘ یہ نہیں جانا چاہتا۔ اس کی حالت نہیں دیکھ رہے آپ؟‘‘ ابّا غصّے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔ ’’اس کی ماں کئی دن سے اس کا انتظار کر رہی ہے‘‘۔ پھر وہ ہار گئے اور کہا، ’’اچھا چلے جائو‘ دادی کے پاس‘‘۔ سائیکل پر سوار ہو کر وہ چلے گئے۔ گرنے کی جدوجہد میں پائوں سے کھیڑ اتر گئی تھی۔ بچے نے دونوں جوتے ہاتھ میں پکڑے اور سرپٹ بھاگنا شروع کیا۔ گلی سے گزرتے مویشیوں کے گلّوں کو پار کرتا‘ دیوار کے ساتھ ساتھ‘ دوڑتا‘ کھڑاک کے ساتھ گھر کے دونوں دروازے کھولے اور بھاگ کر دودھ رڑکتی دادی کے ساتھ لگ گیا۔ دادی نے چمٹایا اور ایک ہی جملہ کہا، ’’اچھا کیا‘ میرے بچے نے جو واپس آگیا‘‘۔ 
یہ چھ عشرے پہلے کا قصہ ہے۔ سائیکلیں غائب ہو گئیں۔ حویلیاں کچھ مقفل ہیں اور کچھ پارکنگ کے کام آ رہی ہیں۔ تالاب اَٹ چکا۔ بڑا درخت کب کا کٹ گیا۔ 
یہ دو دن پہلے کا واقعہ ہے۔ اس نے بیوی سے سیر کو چلنے کے لیے کہا۔ نکلنے لگے تو ساڑھے تین سالہ پوتے نے کہا مجھے ساتھ چلنا ہے‘ تینوں خراماں خراماں پارک میں چل رہے تھے۔ اس کے بیٹے کا فون آیا ’’ابو ہم ایک دوست کی تیمارداری کے لیے جا رہے ہیں۔ کیا ہم حمزہ کو ساتھ لے چلیں‘ ورنہ یہ آپ کو واک نہیں کرنے دے گا‘‘۔ 
گاڑی قریب آ کر رُکی۔ بچے کو کار کی عقبی نشست پر بندھی کار سیٹ میں بٹھایا گیا۔ اُس نے بیٹھتے ہی کہا، میرے ساتھ دادو بیٹھیں گی۔ ’’نہیں بیٹے‘ آپ گاڑی میں جائیں‘ دادو نے واک کرنی ہے‘‘۔ دونوں ایک طرف چلنا شروع ہو گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو گاڑی ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔ پچھلا دروازہ کھلا تھا۔ بچہ چیخ رہا تھا۔ باپ اُسے سیٹ پر بٹھا کر بیلٹ باندھنے کی کوشش کرتا تھا لیکن بچہ‘ شدید جدوجہد کرتے ہوئے‘ سیٹ سے اچھل کر باہر آ جاتا تھا۔ ساتھ وہ چھوٹے چھوٹے پھیپھڑوں کے پورے زور کے ساتھ چیخ رہا تھا۔ 
’’بیٹے‘ اسے نہ لے جائو‘ اسے واپس آنے دو‘‘۔ دادی نے کہا۔ 
بچہ جیسے ہی گاڑی سے اتارا گیا‘ اس نے ناقابلِ یقین تیز رفتاری سے دوڑ لگائی‘ اس میں بجلی بھر گئی تھی یا کوئی اور قوت۔ چھوٹے چھوٹے پیروں سے دوڑتا آیا اور دادو کے ساتھ لگ گیا۔ 
فرق صرف یہ تھا کہ اس بچے نے جاگر پہنے ہوئے تھے۔ نیکر اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ دھوپ سے بچائو کے لیے سر پر کپڑے کا ہیٹ تھا جب کہ چھ عشرے پہلے والے گم شدہ بچے کے سر پر سفید کپڑا تھا جس کے کناروں کو ٹھوڑی کے نیچے لا کر باندھ دیا گیا تھا۔ اُس علاقے میں اِسے گَل گِٹی کہتے تھے۔

Thursday, March 20, 2014

اگر جان کی امان ملے


پہلی مثال۔۔۔۔۔ قرآن پاک میں طلاق دینے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ طلاق بہ دفعات واقع ہو گی اور شوہر دو دفعہ طلاق دینے کے بعد اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے ، لیکن جب تیسری بار طلاق دے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی اور علیحدگی کا نفاذ ہو جائے گا۔ سورۃ البقرہ کی آیت 229 اور 230 میں یہی بیان کیا گیا ہے۔ عہدِ رسالتؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓکے زمانے میں اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دیتا تھا تو وہ ایک ہی طلاق سمجھی جاتی تھی ، لیکن حضرت عمرؓنے اپنے دور حکومت میں اس طریقے کوجو رسالت مآب ؐ نے اختیار کیا تھا‘ بند کر دیا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے کہ ’’عہد رسالتؐ ‘ عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال تک بیک وقت تین طلاقوں کو ایک طلاق قراردیاجاتا تھا مگر حضرت عمرؓنے کہا کہ لوگوں کو جس معاملے میں رخصت و سہولت تھی اس کا دروازہ انہوں نے اپنی عجلت پسندی سے اپنے اوپر بندکر لیا ہے، اس لیے ہمیں بیک وقت تین طلاقوں کو طلاق بائن قراردیناچاہیے‘‘۔ چنانچہ آپ نے یہ تبدیلی نافذ کردی۔ سورہ بقرہ کی آیت 229کی تفسیر میں سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں: ’’حضرت عمرؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا آپ اس کو درّے لگاتے تھے‘‘۔
ایک کام جو رسول اکرمؐ کے زمانے میں ہو رہا تھا‘حضرت عمرؓنے اسے بندکرکے دوسرا حکم نافذکر دیا۔ قرآن پاک میں کہیں بھی ذکر نہیں کہ تین طلاقیں بیک وقت دینے والے کو درے مارے جائیں،لیکن حضرت عمرؓدرے مارتے تھے، کیوں؟اس لیے کہ مسلمانوں کا حکمران مصالح عامہ کی غرض سے وہ کام کر سکتا ہے جس کا تعین کلام پاک میں نہیں کیا گیا۔
دوسری مثال۔۔۔۔۔ اللہ نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے: ’’چور خواہ عورت ہو یا مرد‘دونوں کے ہاتھ کاٹ دو‘‘۔ اس میں نبی پاکؐ کی ہدایت یہ تھی کہ ایک ڈھال کی قیمت سے کم کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے۔احناف اسے دس درہم قرار دیتے ہیں۔ پھل ، پرندے اور ترکاری کی چوری میں بھی سزا نہیں ہے ، لیکن واضح احکام کے باوجود حضرت عمرؓنے اونٹ کی چوری پر چورکو معاف کر دیا۔ حاطب نامی شخص کے غلاموں نے ایک صاحب کا اونٹ چرایا۔اقرار جرم پر فاروق اعظمؓ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا لیکن جو صاحب ہاتھ کاٹنے جا رہے تھے‘ انہیں واپس بلا لیا اورغلاموں کے مالک سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’بخدا اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ تم غلاموں سے کام لیتے ہواور پھر انہیںاس حد تک بھوکا مارتے ہوکہ خدا کی حرام کی ہوئی چیزیں ان کے لیے حلال ہو جاتی ہیں تو میں ضرور ان کے ہاتھ کٹوا دیتا‘‘۔ پھر آپؓ نے غلاموں پر حد معاف فرما دی اور غلاموں کے مالک کو حکم دیا کہ وہ اونٹ کی قیمت سے دوگنا رقم اونٹ کے مالک کو ادا کرے۔
حضرت عمرؓمسلمانوں کے حکمران کی حیثیت سے نہ صرف یہ کہ نص کے مطابق سزا نہیں دیتے بلکہ غلاموں کے مالک پر اونٹ کی قیمت کا دوگنا جرمانہ نافذکرتے ہیں۔کیا قرآن پاک میں اس کا تعین کیا گیا تھا؟کیا عہد رسالتؐ میں ایسا کیا گیا تھا؟نہیں ۔ لیکن حضرت عمرؓ نے ایسا کیا ، اس لیے کہ آپؓ احکام کی روح کو دیکھتے تھے اور مسلمانوں کے اس وقت کے حالات کو پیش نظر رکھتے تھے۔
تیسری مثال۔۔۔۔۔مال غنیمت کے سلسلے میں قرآن پاک میں واضح اصول بتا دیا گیا ہے:’’اور جان لوکہ جوکچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے‘‘۔ (سورہ انفال:41) چنانچہ مسلمان ہر جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد مال غنیمت کا خمس الگ کرکے امیرالمومنین کی خدمت میں بھیج دیتے اور باقی لشکریوں میں تقسیم کردیا جاتا ، لیکن جب عراق کی زمین فتح ہوئی اور مسلمان فوجیوں نے قرآنی حکم کے مطابق چاہا کہ زمین کا پانچواں حصہ بیت المال کو دیا جائے اور باقی زمین افواج میں تقسیم کر دی جائے تو حضرت عمرؓنے اجازت نہ دی ۔ ان کا موقف یہ تھا کہ زمینیں اورکاشت کار فاتحین میں تقسیم کئے تو یہ وراثت میں انہی خاندانوں کے پاس رہ جائیں گی ، پھران مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بعد میں آئیں گے؟ وہ چاہتے تھے کہ زمین کاشت کاروں کی ملکیت ہی میں رہے اور ان پر لگان نافذکیا جائے تاکہ حفاظتی چوکیوں اور بڑی بڑی چھائونیوں پراٹھنے والے اخراجات پورے ہو سکیں۔
فاتحین نے امیر المومنینؓ سے اختلاف کیا ، تب امیر المومنینؓنے مسلمانوں سے مشورہ کیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف فاتحین کی رائے سے اتفاق کر رہے تھے اور حضرت عثمانؓحضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ امیرالمومنینؓ کے ہم خیال تھے۔ پھر آپ نے انصارکے دس معززین کو بلا کر ان سے بات کی، یہاں تک کہ اکثریت نے آپ کی حمایت کی ،چنانچہ آپؓ نے حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ کو خط لکھا اور حکم دیا کہ زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے لیے چھوڑ دو جوان زمینوں میںکام کرتے ہیں۔
یہاں بھی حضرت عمرؓنے قرآن پاک کی واضح نص کا اطلاق مفتوح زمینوں پر نہ کیا ؛حالانکہ اس استثنا کا ذکرکہیں بھی نہ تھا۔کلام اللہ میں نہ سنت میں ، اس لیے کہ مصالح عامہ کا تقاضا اس وقت یہی تھا۔
بے شمارایسی مثالیں ہیں ۔ تاریخ کے ہر دور میں مسلمان حکمرانوں نے مسلمان عوام کے وسیع تر مفاد کی خاطر وہ پابندیاں عائد کیں جواللہ اور رسولؐ کے زمانے میں نہیں تھیں۔فقہائے کرام نے ’’قانون تحدید‘‘ (Law of Ceiling) پیش کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امیر اور غریب میں فرق بہت زیادہ ہو جائے اور مسلمانوں کی مجموعی حیثیت کو چند افراد کی بڑی بڑی ملکیتیں ضرر پہنچانے لگ پڑیں تو مسلمانوں کی ریاست ملکیت کی حد مقررکر سکتی ہے یعنی ایک فرد ایک خاص حد سے زیادہ زرعی زمین اور ایک خاص حد سے زیادہ جائداد یا دولت کی کوئی بھی اور شکل اپنی ملکیت میں نہیں رکھ سکے گا ۔ فرد اگر اپنی بے تحاشا دولت اس طرح خرچ کرتا ہے کہ مسلمانوںکواس سے نقصان پہنچ رہا ہے تواس خرچ پر بھی قدغن لگائی جا سکتی ہے۔
بالکل اسی طرح مسلمانوں کے مفاد عامہ میں مسلمانوں کی حکومت شادی کی عمرکے حوالے سے پابندی عائدکر سکتی ہے۔ اسلام نے جزئیات طے نہیں کیں اس لیے کہ یہ آفاقی مذہب ہے ، صرف ایک زمانے اور ایک حالت کے لیے نہیں۔آخر حضرت عمرؓنے وہ پابندیاں کیوں عائدکیں جن کا ذکر قرآن پاک میں ہے نہ حدیث میں؟ آپ نے تو ایک حسین و جمیل مردکو مدینہ سے جلا وطن کر دیا تھاکہ وہ عورتوں کے لیے فتنے کا باعث نہ بنے۔کیا قرآن پاک میں ایسا کرنے کی اجازت دی گئی ہے؟ نہیں ، اس لیے کہ تفصیلی معاملات مسلمانوں کے اجتماعی نظام پر چھوڑدیے گئے ہیں، شوریٰ کرے یا پارلیمینٹ یا علمائے کرام کا بورڈ۔ بہت سے فیصلے ہم عصر تقاضوں کی روشنی میں کیے جائیں گے۔
آج جس طرح کم سن بچیوں کو ونی اورسوارا کی غیر اسلامی مکروہ رسموں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے اور جس طرح جرم کرنے والے مردوں کی چھوٹی چھوٹی بہنیں ظلم کا شکار ہو رہی ہیں ، اس کے پیش نظرکم سن بچیوں کے نکاح پر پابندی مصلحت عامہ کے عین مطابق ہے۔
رہی یہ دلیل کہ نکاح کے وقت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓکی عمر مبارک نو سال کی تھی‘ تو یہ بات متنازع ہے ، اس پر ہمیشہ اختلاف رہا ہے اور یہ نظریہ بھی موجود ہے کہ ان کی عمر نو سال سے کہیں زیادہ تھی ۔ حضرت عائشہ ؓکی مثال دینے والے یہ بھول رہے ہیں کہ آقائے دو جہاں نے جب حضرت خدیجہؓ سے شادی کی تو آپؐ کی عمر 25سال اورام المومنین حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی ، پھر جب حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوئی تو وہ اس وقت 65برس کی تھیں اورنبی اکرمؐ پچاس برس کے تھے! یعنی سارا شباب مبارک جس مقدس خاتون کے ساتھ گزرا وہ پندرہ سال عمر میں بڑی تھیں!
کم سن بچیوں کی شادی کو ’’اسلامی‘‘ قرار دینے والے حضرات اس حقیقت کوکبھی اہمیت نہیں دیتے کہ شادی کرتے وقت عورت کی عمر جتنی بھی ہو‘ اس کی رضامندی کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی۔ عورت کو اپنی پسندکی شادی کا حق اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے دیا ہے۔ افسوس ! آج یہ حق اس سے چھیننے والے اسلام کا نام استعمال کر رہے ہیں!!

Wednesday, March 19, 2014

برمودا تکون


برمودا تکون کو شیطانی تکون بھی کہتے ہیں۔ اس سے مراد شمالی بحرِ اوقیانوس کا مغربی حصہ  ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے مشرق میں واقع یہ علاقہ بہت پُراسرار ہے۔ یہاں کئی ہوائی جہاز اور کئی بحری جہاز غائب ہوئے ہیں۔ اور ایسے غائب ہوئے کہ تلاشِ بسیار کے باوجود ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ 
پُراسرار اور خوفناک برمودا تکون کے بارے میں سب سے پہلے لوگوں کو تب معلوم ہوا جب 17ستمبر 1950ء کے روزنامہ میامی ہیرالڈ میں ایڈورڈ جونز کا اس موضوع پر مضمون شائع ہوا۔ دو سال بعد ایک معروف رسالے میں ایک صاحب جارج سنیڈ کا مضمون چھپا جس میں کئی ہوائی اور بحری جہازوں کی پُراسرار گمشدگی کا تفصیلی حال لکھا گیا۔ سب سے زیادہ ڈرانے والی رپورٹ امریکی تربیتی جہاز ’’فلائٹ 19‘‘ کے بارے میں تھی۔ جہاز کے پائلٹ کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’’ہم سفید پانیوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے‘ کچھ معلوم نہیں ہو رہا کہ ہم کہاں ہیں؟ اب پانی سبز ہو چکا ہے۔ سفید نہیں رہا‘‘۔ اس کے بعد پائلٹ کا پتہ چلا‘ نہ جہاز کا۔ جب تفتیشی ٹیم نے سراغ لگانے کی کوشش کی تو اس قسم کی بات سنی گئی کہ جہاز مریخ کی طرف پرواز کر گیا۔ اس کے بعد کئی اور ہوائی جہاز اور بحری جہاز اسی علاقے میں گم ہوئے۔ ان گم شدہ مسافروں کی تلاش میں جو ٹیمیں بھیجی گئیں‘ وہ بھی واپس نہ آئیں۔ کچھ لوگوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایک براعظم ایسا بھی تھا جو دنیا کے صفحہ سے مٹ گیا۔ اس براعظم کا نام اٹلانٹس تھا۔ اس براعظم پر جو ٹیکنالوجی‘ نادیدہ قوتوں نے‘ ایجاد کی تھی‘ وہ اب بھی موجود ہے اور جہازوں کو وہی تباہ کرتی ہے۔ کچھ نے ایک پُراسرار شاہراہ کا‘ جو چٹانوں سے بنی تھی‘ وجود ثابت کیا جس پر چل کر جہاز غائب ہو جاتے تھے۔ کچھ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہاں ایک فلک بوس دیوار ہے جس سے جہاز ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ ایک نظریہ‘ جو بہت مشہور ہوا اور بہت سے لوگوں نے اسے قبول کیا‘ یہ تھا کہ دوسرے سیاروں سے اڑن طشتریاں یا اسی قبیل کی پُراسرار مشینیں آتی ہیں‘ خاص کر ’’فلائٹ 19‘‘ کو ان پُراسرار اڑن کھٹولوں میں سفر کرنے والی مخلوق نے اغوا کیا۔ 28 دسمبر 1948ء کو ایک ہوائی جہاز ’’ڈگلس ڈی سی 3‘‘ برمودا تکون سے غائب ہو گیا۔ اس میں 32 مسافر سوار تھے۔ 28 اگست 1963ء کو امریکی ائیرفورس کے دو جہاز اس علاقے میں آپس میں ٹکرائے‘ گرے اور ملبہ تک نہ ملا۔ 26 ستمبر 1955ء کو ایک اور پُراسرار واقعہ رونما ہوا۔ ایک یاچ (سیرو تفریح کے لیے بنایا گیا بحری جہاز) کے مسافر غائب ہو گئے جب کہ تین سمندری طوفانوں کے باوجود یاچ غائب نہ ہوئی۔ 
لیکن جو کچھ اس کے بعد ہوا‘ اس کے ذکر ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ حیران کن واقعہ سالِ رواں کے دوسرے مہینے میں پیش آیا۔ برمودا تکون کا پورا علاقہ‘ پورا رقبہ‘ بحرِ اوقیانوس سے الگ ہو گیا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے تکون کے تینوں اضلاع چاقو سے کاٹے اور تکون کو اوپر اٹھا لیا۔ اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ شیطانی تکون مشرق کو روانہ ہوئی۔ اس نے پورا بحرِ اوقیانوس پار کیا۔ برطانیہ کے جنوب میں یہ یورپ کے اوپر ہوا میں تیرتی‘ بدستور مشرق کی طرف بڑھتی گئی۔ آسٹریا سے یہ جنوب کو مُڑی۔ لوگوں نے سمجھا اٹلی پر گرے گی لیکن اٹلی کے اوپر سے گزرتی یہ یونان میں داخل ہو گئی۔ پھر بحرِ روم سے ہوتے ہوئے اس نے ترکی کی فضائوں کو عبور کیا۔ شام اور عراق کو جنوب کی طرف چھوڑتی ہوئی یہ تکون ایران میں داخل ہوئی۔ پھر تہران اور بحیرۂ کیسپین کے درمیان سے گزرتی افغانستان میں ہرات کی طرف بڑھی۔ قندھار اور غزنی کے اوپر سے گزرتی‘ جلال آباد سے ہوتی ہوئی پاکستان میں داخل ہوئی اور اسلام آباد کی طرف بڑھنے لگی۔ 
اس کے بعد دنیا نے عجیب و غریب منظر دیکھا۔ ایسا جو دنیا کی آفرینش سے لے کر اب تک کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ برمودا تکون‘ اپنے مہیب پانیوں کو لیے ہوئے اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہوئی۔ ہر طرف گہری دھند تھی، دھواں تھا۔ لوگوں کی آنکھوں سے عجیب پراسرارپانی بہہ رہاتھا۔ فضا صاف ہوئی تو پارلیمنٹ کی پوری عمارت غائب تھی۔ اس سے بھی زیادہ پراسرار واقعہ یہ تھا کہ سینیٹ کے پورے ایک سوچار ارکان اورقومی اسمبلی کے پورے 342ارکان بھی غائب ہوگئے۔ کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان کی طرف اڑ گئے۔ برمودا تکون کا سفر پھر شروع ہوگیا۔ اب یہ لاہور میں داخل ہوئی۔ وہاں بھی ہر طرف دھند چھاگئی۔ چھٹی تو پنجاب حکومت کا نام و نشان نہ تھا۔ اس کے بعد تکون پھیلی اور ملک بھر کے اوپر چھاگئی۔ کئی دنوں بعد فضا صاف ہوئی تو پتا چلا کہ علماء کرام اور مذہبی رہنما بھی غائب ہیں۔
لوگوں نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ مقبول ترین تھیوری یہ ہے کہ برمودا تکون ایک بہت بڑا ہوائی جہاز اڑا کر لائی تھی۔ یہ ایسا لگژری جہاز تھا کہ متحدہ عرب امارات کے شیوخ نے بھی نہ دیکھا ہوگا۔ آرام دہ خواب گاہیں ، حوروں جیسی  ائیر ہوسٹسیں، مخملیں صوفے ، جہاز کے اندر سوئمنگ پول بھی تھا اور سیرگاہ بھی۔ برمودا تکون ملک کے ان وی آئی پی ارکان پارلیمنٹ ، حکومت پنجاب کے عمائدین اور واجب الاحترام علماء کرام کو اس آرام دہ جہاز میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئی۔ یہ حیرت انگیز واقعہ 26فروری کو رونما ہوا۔
اب میدان صاف تھا۔ پارلیمنٹ تھی‘ نہ صوبے کی حکومت‘ نہ علمبردارانِ مذہب۔ کسی کو ڈر رہا نہ جھجک۔ اگلے ہی دن یعنی 27فروری کو چنیوٹ کے نواحی علاقہ ماور بھٹیاں کے رہائشی ثناء اللہ نے بیس سالہ بلقیس کے ساتھ پسند کی شادی کرلی۔ بلقیس کے باپ کا نام ملا تھا۔ اس نے گھر میں پنچایت بلالی۔ پنچایت نے فیصلہ کیا کہ بلقیس کا بدلہ لینے کے لیے ’’ ملزم ‘‘ ثناء اللہ کی بہن صاحب بی بی کو بلقیس کے بھائی زاہد کے ساتھ ونی کردیاجائے۔ صاحب بی بی 
کے گھر والوں نے مدافعت کی تو چھ مسلح افراد یکم مارچ کو صاحب بی بی کو گھر سے پکڑ لائے۔ پنچایت نے اس کا نکاح زاہد سے پڑھوا دیا۔ زاہد نے اسے بیوی بناکر پانچ دن گھر میں رکھا۔ پھر طلاق دیدی۔ پنچایت پھر بیٹھی۔ اب کے فیصلہ یہ ہوا کہ صاحب بی بی کا نیا نکاح زاہد کے ماموں نور احمد سے کرایاجائے ۔ نور احمد نے صاحب بی بی کو دس دن پاس رکھا‘ اس کے بعد پندرہ مارچ کی رات نور احمد اسے ایک حویلی میں اٹھالایا۔ یہاں چار افراد اور بھی تھے یہ سارے افراد رات بھر صاحب بی بی کو بھنبھوڑتے رہے۔ اجتماعی زیادتی کے ساتھ ساتھ اس کے جسم پر شراب پھینکتے رہے اور ایک دوسرے کی طرف اچھالتے رہے۔ ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ بھی کرتے رہے۔ پھر انہوں نے اسے برہنہ کرکے حویلی کے باہر درخت کے ساتھ باندھا اور اس کے گھر والوں کو پیغام بھیجا کہ ہماری لڑکی واپس کرو‘ ورنہ بہت کچھ مزید بھی کیاجاسکتا ہے۔
اگرملک میں پارلیمنٹ ہوتی تو قانون پاس کرتی کہ اس کے بعد پنچایت میں شریک ہونے والے کو سزائے موت دی جائے گی۔ اگر صوبے میں حکومت ہوتی تو اس قسم کا واقعہ رونما ہی نہ ہوتا اور ہوتا تو پنچایت کرنے والوں کو نشان عبرت بنادیا جاتا۔ اگر ملک میں علماء کرام ہوتے تو اس ظلم پر سراپا احتجاج ہوجاتے۔ مسجدوں سے جلوس نکلتے ۔ حکومت کو ڈیڈ لائن دی جاتی کہ پنچایت سازی کے خلاف اتنے دن کے اندر اندر قانون سازی کی جائے۔ لیکن افسوس ۔ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ ہے‘ نہ پارلیمنٹ کے ارکان۔ صوبائی حکومت ہے‘ نہ علماء کرام ۔ ان سب کوتو برمودا تکون اٹھا کر لے گئی ہے۔پراسرار برمودا تکون!

Tuesday, March 18, 2014

سسٹم یہی چلے گا

                                                      پیغمبروں اور ولیوں کو جنم دینے والی عورت جب اسلام کے نام پر بننے والے ملک میںپہنچی تو جان ہارگئی۔کوئی بھی اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ جاگیردار پائوں کی جوتی سمجھتے ہیں اور اپنے جوان بیٹوں کے لیے کھلونا۔ مولوی اس کا نام آتے ہی ماتھا پکڑ لیتے ہیں۔ عورت کے حقوق کی بات آئے تو انہیں اپنی عزت دائو پر لگتی نظر آتی ہے۔اب وہ اس پر بھی متحد ہیں کہ کمسن بچی کی، جوبالغ تک نہیں، شادی کرنا کوئی مسئلہ نہیں! سیاستدان صرف بیان دے سکتے ہیں۔ حکمران صرف پیراسٹامول دیتے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کہتے ہیں۔’’ غنڈے عزتوں سے کھیلیں، پولیس انہیں تحفظ دے، ایسا سسٹم نہیں چلنے دوں گا۔‘‘دوسرے دن فرماتے ہیں۔’’ فرسودہ نظام عوام کے لیے وبال جان بن چکاہے۔ حکومت عوام کو اس گلے سڑے نظام سے نجات دلانا چاہتی ہے۔‘‘
کوئی پوچھنے کی جسارت کرے کہ محترم میاں صاحب ! آپ کو کتنا عرصہ درکار ہے اس گلے سڑے نظام کو بدلنے کے لیے ؟
’’ ایسا سسٹم نہیں چلنے دوں گا ۔‘‘ تو آپ کب نیا سسٹم لائیں گے؟ پانچ سال بڑے بھائی صوبے کے وزیراعلیٰ رہے۔ چھوٹے میاں صاحب کا یہ تیسرا صوبائی دور حکومت ہے۔ بڑے میاں صاحب تیسری بار وفاق کے حکمران اعلیٰ ہیں۔ خدا کے لیے تنہائی میں اپنے آپ سے دل پر ہاتھ رکھ کرپوچھیے کیا یہ سارا عرصہ نظام بدلنے کے لیے کافی نہیں تھا؟
نظام کیا ہے؟ جنوبی پنجاب جاگیرداروں کی شکار گاہ ہے۔ تخت لاہور کی شکایت کرنے والے اپنے ہاں کے جاگیرداروں کا کیا کریں گے؟ انسانوں کی بوٹیاں ابال کر اونٹوں کو کھلادی جاتی ہیں۔ مزارعوں کی ہزاروں عورتیں رکھیل ہیں۔ پولیس کو یہ دو قدم نہیں چلنے دیتے۔کوئی دیانت دار ، انصاف پسند ضلعی حاکم آئے تو چلتا کردیتے ہیں۔ تخت لاہور پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ان کے آگے بے بس ہیں اس لیے کہ اسمبلیوں میں ان کے محتاج ہیں۔ پولیس ہو یا انتظامیہ کے افسر ، ان کے کہنے پر تعینات ہوتے ہیں۔ آمنہ بی بی کا قتل سامنے آگیا۔ ورنہ ہزاروں لاکھوں بچیاں ذلیل ہورہی ہیں۔ قتل ہورہی ہیں۔ مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ ایک سیاستدان پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر صحافیوں سے توتو میں میں کرتا ہے کہ میرے نام کے ساتھ سردار کیوں نہیں لکھا جارہا۔
اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اسلام کے نام لیوا، عورت سے مکمل بے نیاز ہیں۔ کچھ بھی ہو جائے منبر و محراب سے ایک لفظ نہیں سنائی دیتا۔ ظالمانہ پنچایتوں نے یہاں تک احکام صادر کیے کہ ملزم کے گھر کی عورتوں کو بے آبرو کیا جائے۔ کسی عالم دین نے ، کسی مذہبی سیاسی جماعت نے ہلکا سا احتجاج تک نہیں کیا۔ چیچنیا اورعراق میں پتہ بھی کھڑکے تو یہ سراپا احتجاج ہوجاتے ہیں۔ ٹریفک روک دیتے ہیں۔مگر عورت کے ساتھ…پیغمبروں اور ولیوں کو جنم دینے والی عورت کے ساتھ… جو کچھ بھی ہوتا رہے مقدس دہانوں سے لفظ تو کیا اُف کی مبہم آواز تک نہیں نکلتی۔ ایسے میں اگر مورخ جاگیرداری اورملائیت کے اتحاد کوریکارڈ کا حصہ نہ بنائے تو کیا کرے!
تاریخ کا بدترین سرداری نظام… جس کی کوئی مثال آج کی دنیا میں نہیں پائی جاتی، بلوچستان میں کارفرما ہے۔ یہ 2014ء ہے۔ سرداروں کی بادشاہی میں عام بلوچی ،جانوروں کی سی زندگی گزار رہا ہے۔ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں پتھر کے زمانے کا راج ہے۔ نجی جیلیں، پرائیویٹ عقوبت خانے۔ محافظوں کے دستے! پرائیویٹ آرمی اورکسے کہتے ہیں؟ کتوں پر کروڑوں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ چند دن پہلے جناب ہارون الرشید نے لکھا کہ سندھی فیوڈل کے پالتو مگرمچھ نے نوکر کا ہاتھ چبادیا تو اس نے کہا ، اب یہ ڈیوٹی دوسرا نوکر سنبھال لے گا!
گلاسڑا نظام؟ معاف کیجیے۔ یہ گلاسڑا تو ہے نظام نہیں۔ کس کس کا منہ بند کیجیے گا؟ اگر آج نئی نسل کہتی ہے کہ پاکستان جاگیردارو ںکی حفاظت کے لیے بنا تھا تو ہم اسے کیا جواب دیں؟ زرعی اصلاحات تقسیم کے چار سال بعد بھارت میں نافذ کردی گئیں۔ کسی کو وہاں ہمت نہ ہوئی کہ زمین نوکروں کے نام کرکے اصلاحات پر پانی پھیرے۔ یہاں مسئلہ دُہرا ہے۔جاگیرداری ، اس پر گدی نشینی کا تڑکا… پائوں اس قدر مضبوطی سے جمے ہیں کہ قائم علی شاہ صاحب کے دو دن میں ہوش ٹھکانے آگئے۔ بھاگم بھاگ امین فہیم صاحب کے در دولت پر حاضری دی۔ غلطی یہ ہوگئی تھی کہ مخدوم صاحب کے دو صاحبزادوں کے خلاف ایکشن لے لیا تھا۔ ایک صوبائی وزیر تھے۔ دوسرے تھر کے ڈپٹی کمشنر۔
بڑے بڑے نامی گرامی حکمران ان جاگیرداروں کے ہاتھوں موم کی پتلیاں بن کر رہ گئے۔ ایوب خان نے نواب صاحب کو گورنر بنادیا۔ بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو سارا سوشلزم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اندر سے جاگیردار نکل آیا۔ وہی بادشاہی اور وہی منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون۔ ضیاء الحق صاحب جاگیرداروں کو چن چن کر شوریٰ میں لائے۔ جاگیردار ان کی دائیں آنکھ تھے اور علماو مشائخ بائیں آنکھ۔ رہے پرویز مشرف صاحب ،تو سرکاری اجلاسوں میں انہیں جمائیاں لیتے اور اونگھتے اس لکھنے والے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ! دور رس اصلاحات کا وہ سوچ تک نہیں سکتے تھے۔
نہیں! میاں صاحب نہیں ! خدا کے لیے یہ نہ کہیے کہ ایسا سسٹم نہیں چلنے دوں گا۔سسٹم یہی چلے گا۔آمنائیں! اپنے آپ کو جلاتی رہیں گی۔پولیس والے بھیڑیوں کو تحفظ دیتے رہیں گے۔ آپ پولیس والوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے رہیں گے ۔ان کے پیٹی بند بھائی انہیں وی آئی پی پروٹوکول دیتے رہیں گے۔ حوالات کے بجائے کمروں میں سلاتے رہیں گے۔ کھانے کے لیے پھل اور بھنے ہوئے مرغ پیش کرتے رہیں گے۔ ہالہ ہو یا جھنگ، مظفر گڑھ ہو یا نوشہرو فیروز یہی خاندان ہوں گے، یہی اسمبلیاں ہوں گی، یہی عوام ہوں گے، یہی تھانے ہوں گے، یہی کچہریاں ہوں گی اور یہی ڈیرے ہوں گے    ؎
 وہی دیرینہ بیماری، وہی نامحکمی دل کی 
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی
اور وہ آبِ نشاط انگیز…ساقی کے بس کی بات نہیں!

Monday, March 17, 2014

اگر وزیراعظم عمران خان کے گھر نہ جاتے

                                   پہلا منظر: 
بادشاہ گھوڑے پر سوار جا رہا تھا۔ نقیب آگے آگے تھا۔ چاروں طرف چوبدار تھے۔ شاہراہ کے دونوں طرف رعایا کھڑی تھی اور پولیس کے جوان انہیں راستے سے دور رکھنے کے لیے مستعد تھے۔ اچانک ایک بڑھیا ہجوم کو چیر کر آگے بڑھی۔ اس کا رُخ شاہی سواری کی طرف تھا۔ پہریداروں نے اُسے روک لیا۔ بادشاہ دیکھ رہا تھا۔ اس نے حکم دیا کہ بڑھیا کو آنے دو۔ بڑھیا آگے بڑھی۔ اس نے بادشاہ کی رکاب کو بوسہ دیا اور رو پڑی۔ وہ بیوہ تھی۔ اس کی زرعی زمین پر جو اس کی گزر اوقات کا واحد ذریعہ تھا‘ علاقے کے چودھری نے قبضہ کر لیا تھا۔ وہ فریاد کر رہی تھی کہ اس کی زمین واگزار کرائی جائے۔ بادشاہ کا دل پسیج گیا۔ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اُسے موت یاد آ گئی۔ مرنے کے بعد اس سے رعایا کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ اُس نے وزیر کو حکم دیا کہ دادرسی کی جائے اور یہ کام دارالحکومت میں شاہی سواری کے پہنچنے سے پہلے ہو جانا چاہیے۔ وزیر نے فوراً کوتوال کو حکم دیا۔ کوتوال نے موقع پر پہنچ کر مجرموں سے زمین کا قبضہ لے کر بڑھیا کو دیا۔ 
دوسرا منظر: 
وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ملنے اُس کی رہائش گاہ پر جاتے ہیں۔ یہ رہائش گاہ ایوانِ وزیراعظم سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ گاڑی وزیرداخلہ چلا رہے ہیں۔ عمران خان اپنی پارٹی کے سینئر ارکان کے ہمراہ وزیراعظم کا استقبال کرتے ہیں۔ 
دونوں رہنمائوں کے درمیان حالاتِ حاضرہ پر اہم بات چیت ہوتی ہے۔ وزیراعظم ملاقات کے دوران عمران خان کے گھر کی تعریف کرتے ہیں۔ گفتگو کو گھر کے موضوع پر آتا دیکھ کر عمران خان وزیراعظم کو بتاتے ہیں کہ ان کے گھر کے قریب نیشنل پارک ہے جس پر بااثر افراد نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ وزیراعظم اپنے میر منشی کو‘ جو ان کے ہمراہ ہے‘ ہدایت دیتے ہیں کہ متعلقہ محکمے کو ضروری کارروائی کا حکم دیا جائے۔ ایک دن بعد دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کا سب سے بڑا افسر عمران خان کے گھر پہنچتا ہے اور انہیں یقین دلاتا ہے کہ ناجائز قبضے کو ختم کرانا تو اس کے فرائض میں داخل ہے اور اس ضمن میں مطلوبہ کارروائی کی جا رہی ہے۔ 
کیا آپ کو اِن دونوں منظروں کے درمیان کوئی چیز مشترک نظر آ رہی ہے؟ 
انصاف پسند حکمران؟… نہیں۔ 
فرماں بردار بیوروکریسی؟… نہیں۔ 
ان دونوں واقعات میں جو شے مشترک ہے وہ سسٹم کی ناکامی ہے۔ یہ نہیں کہ سسٹم موجود نہیں۔ پہلے منظر میں یہ کام گائوں کے متعلقہ تھانے کو کرنا چاہیے تھا‘ ورنہ علاقے کے کوتوال کو۔ اس کے بعد متعلقہ وزیر کا فرض تھا کہ ایسا ظلم نہ ہونے دے۔ ہوجائے تو دادرسی کرے۔ اگر بادشاہ نے ایک ایک بیوہ کی دادرسی خود کرنی ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ سسٹم کام نہیں کر رہا۔ 
دوسرا واقعہ ہمارے اپنے زمانے کا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ عمران خان کے شہر میں ایک قوی ہیکل عظیم الجثہ ادارہ موجود ہے جسے ’’دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں افسر اور ہزاروں اہلکار بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں۔ تنخواہ کے علاوہ ہر افسر اور ہر اہلکار کو پلاٹ بھی دیا جاتا ہے۔ اس ترقیاتی ادارے میں ایک بہت بڑا محکمہ جسے ’’انفورسمنٹ‘‘ کا محکمہ کہا جاتا ہے‘ صرف اس لیے بنایا گیا کہ لوگوں کو غلط کاموں سے روکے‘ ناجائز تعمیرات گرائے‘ ناروا قبضے چھڑائے۔ پارک شہریوں کے لیے اسی طرح ہوتا ہے جیسے پھیپھڑوں کے لیے آکسیجن۔ بچے اس میں کھیلتے ہیں۔ مرد اور عورتیں یہاں سیرو تفریح کے لیے آتی ہیں۔ پارک کا سبزہ‘ درخت‘ پودے‘ پھول‘ ماحول کو تازہ اور صاف رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہیں۔ اس محکمے کے افسر اور ترقیاتی ادارے کے سربراہ کا فرض ہے کہ وہ ایک منظم طریقے سے شہر کا ہر حصہ خود دیکھے۔ روزانہ کی بنیاد پر مختلف سیکٹروں سے رپورٹ لے اور معلوم کرے کہ ظلم کہاں کہاں ہو رہا ہے اور قوانین کو کہاں کہاں توڑا جا رہا ہے۔ 
یہ ترقیاتی ادارہ ایک وزارت کے ماتحت ہے۔ اس وزارت میں گریڈ بائیس کا سیکرٹری بھاری مشاہرہ اور بھرپور سہولیات حکومت سے وصول کر رہا ہے۔ سیکرٹری کے اوپر وفاقی وزیر ہے۔ اگر عمران خان وزیراعظم تک یہ صورتِ حال پہنچانے پر مجبور ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ 
(1) ترقیاتی ادارے کا متعلقہ محکمہ اپنے فرائض نہیں سرانجام دے رہا۔ 
(2) ترقیاتی ادارے کا سربراہ اُس صورتِ حال سے غافل ہے یا لاپروا ہے جس صورتِ حال کو درست رکھنے کے لیے اُسے سربراہ بنایا گیا ہے۔ 
(3) متعلقہ وزارت کا سیکرٹری بھی اپنا کام نہیں کر رہا۔ 
(4) وزیر صاحب بھی اس مرض کے لیے کوئی دوا نہیں دے سکتے۔ 
سسٹم مکمل طور پر ناکام ہے۔ یہ ناکامی اور بھی زیادہ شرمناک ہو جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سارے متعلقہ محکمے اور ان کے سربراہ اس پارک سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں‘ نتیجہ ہولناک ہے۔ مملکت کا وزیراعظم… جس کے سر پر ہزارہا بوجھ ہیں… دہشت گردی کا عفریت ہے‘ قحط ہے‘ خارجہ تعلقات کی تنی ہوئی رسّی ہے‘ روپے کی ہر لحظہ تبدیل ہوتی قدر ہے‘ بین الاقوامی تجارت کی باریکیاں ہیں… مملکت کا وزیراعظم ان سارے کاموں سے وقت نکال کر اپنے میر منشی کو حکم دیتا ہے کہ پارک سے ناجائز قبضہ چھڑوائے۔ وزیراعظم کی مداخلت پر ترقیاتی ادارے کے سربراہ کو یاد آتا ہے کہ یہ تو اس کا فرضِ منصبی ہے۔ وہ عمران خا ن کے گھر حاضر ہوتا ہے۔ اگر سسٹم کام کر رہا ہوتا تو وزیراعظم کو مداخلت کرنا پڑتی نہ ادارے کے سربراہ کو سیاسی لیڈر کے گھر پر حاضر ہونا پڑتا۔ 
تو کیا وزیراعظم کا یہ حکم کہ ناجائز قبضے کو ختم کرایا جائے‘ سسٹم کو درست کرنے میں ممد ثابت ہوگا؟ نہیں! ہرگز نہیں! وزیراعظم جب اس کام میں پڑ ہی گئے تھے‘ اگر تتلی مارنے کے لیے توپ اٹھانی پڑ ہی گئی تھی تو ذمہ دار افراد کا تعین ضروری تھا۔ حکم یہ دیا جاتا کہ قبضہ کب ہوا؟ اُس وقت ترقیاتی ادارے کا سربراہ کون تھا؟ اس سربراہ سے پوچھا جاتا اور اُسے فرائض سے غفلت برتنے پر سزا دی جاتی۔ اس سے دوسرے محکموں کے سربراہ عبرت پکڑتے اور صورتِ حال میں بہتری آتی۔ 
گلی محلے کی زبان میں اس طریقِ کار کو ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی جب معلوم ہو جائے کہ کوئی کام غلط ہوا ہے تو اُسے درست کردیا جائے۔ اس مشقت میں پڑے بغیر کہ ذمہ دار کون ہے‘ تادیب ہے نہ عبرت… 
ہم پاکستانی ازمنۂ وسطیٰ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

Friday, March 14, 2014

واپسی؟


شام کے سائے لمبے ہو رہے تھے۔ چرواہے ڈھور ڈنگر ہانکتے واپس آ رہے تھے۔ کچھ کے سر پر ایندھن تھا اور کچھ نے گھاس کے گٹھڑ اٹھا رکھے تھے۔ وہ گھر پہنچا تو اس کی ماں صحن کے کونے میں نصب شدہ تندور پر روٹیاں لگا رہی تھی۔ باپ ابھی ابھی کھیتوں سے واپس آیا تھا اور اسے دیکھ کر خوش تھا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ باپ کے ساتھ چوپال چلا گیا۔ اس کے بچپن کے ہم جولی بھی تھے اور بزرگ بھی۔ ملک کی سیاست پر بحث ہو رہی تھی۔ پھر مونگ پھلی اور گندم کی قیمتوں پر بات چیت چل پڑی۔ اچانک ایک بزرگ نے‘ جو رشتے میں اس کے چچا تھے‘ پوچھا۔ ’’تم اب پڑھائی ختم کر کے واپس گائوں کب آ رہے ہو؟‘‘ 
’’بس چاچا چند مہینے اور ہیں‘ چودہ جماعتیں مکمل ہو جائیں گی۔ پھر واپس آ جائوں گا اور زمین سنبھالوں گا۔ میں نے سوچ رکھا ہے کہ قرضہ لے کر ٹریکٹر خریدوں گا اور اپنی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کروں گا‘‘۔ 
چودہ جماعتیں پاس کیں۔ اچھی ڈویژن آئی۔ دوستوں اور کالج کے اساتذہ نے مشورہ دیا کہ ایم اے کر لو۔ پہلے تو اُس نے مدافعت کی کہ ایم اے کا کیا فائدہ‘ جتنی بھی تعلیم ہوگی‘ سنبھالنی تو زرعی زمین ہی ہے۔ لیکن پھر نیم دلی سے اُس نے یونیورسٹی میں داخلہ لے ہی لیا۔ دو سال اور گزر گئے۔ ایم اے کا امتحان دے کر گائوں واپس چلا گیا اور رزلٹ کا انتظار کرنے لگا۔ پاس ہونے کے بعد اساتذہ اور دوستوں نے مشورہ دیا کہ گائوں تو واپس جانا ہی ہے‘ کچھ عرصہ شہر میں ملازمت کر لو۔ کچھ رقم اکٹھی ہو جائے گی۔ چنانچہ اس نے ایک کمپنی میں ملازمت کر لی۔ کارکردگی اچھی تھی۔ جلد ہی کمپنی نے تربیتی کورس پر بیرون ملک بھیج دیا۔ واپس آیا تو ترقی ہو گئی۔ اب وہ ایک شعبے کا انچارج تھا۔ مصروفیت زیادہ ہو گئی۔ رات دن کا روٹین اس طرح سیٹ ہو گیا کہ اکثر وہ گائوں واپس جانے والی بات بھول بھی جاتا تھا۔ 
پھر شادی ہو گئی۔ بیوی تھی تو گائوں کی لیکن اس کا موقف تھا کہ بچے گائوں میں اچھی تعلیم نہیں حاصل کر پائیں گے‘ اس لیے واپسی کا پروگرام سرِدست ملتوی کر دینا چاہیے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تاہم وہ جب بھی گائوں جاتا‘ سب کو یقین دلاتا کہ بس تھوڑے عرصہ کی بات ہے‘ بچوں کو ہوسٹل میں داخل کر کے میں واپس آنے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔ ٹریکٹر کی خریداری اور کھیتی باڑی کو جدید طریقے پر لانے کا ارادہ بدستور قوی تھا۔ 
دوسرے بچے نے گریجوایشن کی تو اس کا باپ انتقال کر گیا۔ اب گھر میں ماں اکیلی تھی۔ زمین سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔ اس نے بیوی سے بات کی۔ اب واپس جانا ہی ہوگا‘ لیکن بیوی نے جلدبازی سے منع کیا اور اچھی طرح غور کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ اتنا آسان مسئلہ نہیں ہے۔ اس نے کہا۔ دونوں نے سارے متبادل ایک ایک کر کے جانچے۔ ایک صورت یہ تھی کہ دونوں میاں بیوی واپس گائوں چلے جائیں اور بچوں کو ہوسٹلوں میں داخل کرا دیں۔ اس میں اخراجات کی زیادتی کے علاوہ یہ نقص تھا کہ جوان بچے ماں باپ کی نگرانی سے محروم ہو جاتے تھے اور خراب صحبت میں پڑ کر سیدھے راستے سے بھٹک جانے کا امکان تھا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ گائوں واپس چلا جائے اور بیوی اور بچے شہر میں رہیں‘ اس پر بیوی بالکل راضی نہ ہوئی۔ اس کا موقف تھا کہ میں باہر کے معاملات کیسے سنبھالوں گی۔ بالآخر یہ طے ہوا کہ جب تک بچے تعلیم سے فارغ ہو 
کر برسرِروزگار نہیں ہو جاتے‘ گائوں واپس جانے کا پروگرام ملتوی کر دیتے ہیں۔ پہلے بچے کو ملازمت ملی تو کچھ عرصہ بعد اس کی شادی کا اہتمام کرنا پڑا۔ شادی کے ایک ماہ بعد گائوں سے ٹیلی فون آیا کہ صبح پو پھٹے والدہ کو دل کا دورہ پڑا اور چل بسی۔ میاں بیوی گائوں آئے۔ ایک ماہ رہے۔ تعزیت کرنے والوں کا سلسلہ تھما تو حویلی کو تالہ لگایا اور شہر واپس ہو گئے۔ دونوں طرف کے پڑوسی رو رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے تالہ بے رونقی کا نشان ہے۔ واپس نہ جائو۔ اب یہیں رہو۔ اس نے انہیں یقین دلایا کہ بچوں کے معاملات طے کرنے کے بعد وہ جلد ہی گائوں منتقل ہو جائے گا۔ 
وقت کچھ زیادہ ہی تیزی سے گزرا۔ تینوں بچے برسرِروزگار ہو گئے۔ شادیاں ہو گئیں۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ وہ ملازمت سے ریٹائر ہو گیا۔ اس نے بچوں کو بٹھا کر آگاہ کیا کہ اب وہ اور ان کی ماں گائوں شفٹ ہونے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ بچوں نے شدید مخالفت کی۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ اس کا بلڈ پریشر ہائی رہتا ہے اور ان کی ماں ذیابیطس کی مریضہ ہے۔ کسی بھی وقت ڈاکٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ گائوں میں طبی امداد نہ ہونے کے 
برابر ہے۔ شہر میں سہولیات ہیں۔ کمپنی کی طرف سے ریٹائرڈ ملازمین کے لیے اچھے اچھے ڈاکٹر پینل پر ہیں۔ ساری زندگی محنت کر کر کے اب اس عمر میں انہیں آرام دہ زندگی کی ضرورت ہے اور وہ گائوں میں میسر نہیں ہو سکتی۔ 
حویلی کو بدستور تالہ لگا ہے۔ پڑوسی بدستور راستہ دیکھ رہے ہیں۔ موت یا شادی پر وہ باقاعدگی سے جاتا ہے۔ زمین ٹھیکے پر دے دی ہے۔ زیادہ بارشیں ہو جائیں تو کبھی کبھار جا کر مکان کی مرمت لپائی وغیرہ کرا آتا ہے۔ ایک دن اُس نے نوٹ کیا تو تعجب ہوا‘ گائوں میں مقفل مکانوں کی تعداد کچھ عرصہ سے زیادہ ہو رہی تھی۔ جس جگہ یہ کہانی سنائی جا رہی تھی‘ وہاں ایک صاحب نے رونا شروع کردیا۔ پوچھا تو کہنے لگے‘ یہ کہانی ہوبہو میری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ میں شہر میں نہیں‘ بیرونِ ملک ہوں۔ چالیس سال پہلے گیا تھا تو ارادہ یہی تھا کہ کچھ عرصہ بعد وطن واپس آ جائوں گا۔ آج تک نہیں آ سکا۔ 
کہانی وہی ایک ہے۔ لینڈ سکیپ مختلف ہیں۔ کہیں کوئی یورپ یا امریکہ بیٹھ کر وطن کو یاد کر رہا ہے اور آہیں بھر رہا ہے‘ سوتا ہے تو چھوڑی ہوئی گلیوں میں رات بھر پھرتا ہے۔ جاگتا ہے تو پھر رہٹ میں جُت جاتا ہے۔ کہیں کوئی لاہور یا کراچی بیٹھ کر گائوں کو یاد کر رہا ہے۔ ہوکے بھر رہا ہے۔ سوتا ہے تو رات بھر کھیتوں میں گھومتا ہے۔ صبح اٹھتا ہے تو پھر ٹانگے میں جُت جاتا ہے۔

Thursday, March 13, 2014

عزت نیلام کر رہے ہیں

                                                                 
اپنی اپنی قسمت ہے۔ لکھے کو کون بدل سکتا ہے۔ یہی جنوبی ایشیا ہے جہاں سیاست دان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔وزارتیں ہیں یا صوبے یا ریاستیں‘آئی ٹی کی مدد سے چلا رہے ہیں۔ہر روز صبح آٹھ بجے صوبے یا ریاست کی یا اپنی وزارت کی تازہ ترین صورت حال دیکھتے ہیں اور جانچتے ہیں۔ اور یہی جنوبی ایشیا ہے جہاں سیاست دان ٹھٹھے کرتے ہیں ، جگت بازی میں وہ مہارت ہے کہ ٹیلی ویژن چینل نوکریوں کی پیشکشیں کرتے پھرتے ہیں۔زندگی بھر کوئی کتاب نہیں پڑھی۔دو صفحے بھی مدد کے بغیر لکھنا ناممکن ہے ۔ پہلے کہا کہ ڈالر اٹھانوے پر آیا تو استعفیٰ دے دوں گا،اب کہہ رہے ہیں کہ حکومت بتائے کہ ڈالر کیسے نیچے آیا؟ان سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ نے شرط لگاتے وقت کسی قسم کی تخصیص کی تھی کہ فلاں طرح سے نیچے آئے اور فلاں طرح سے نیچے نہ آئے ؟ساتھ ہی ایک اور ٹھٹھا کہ پٹرول کی قیمت دس روپے کم ہو تو استعفیٰ جیب میں ہے۔
اپنی اپنی قسمت ہے۔لکھے کو کون بدل سکتا ہے۔کیا یہ متنانت ہے؟کیا سنجیدگی کا شائبہ بھی نظر آتا ہے؟استعفیٰ ؟خدا کی قسم یہ کبھی استعفیٰ نہیں دیں گے۔ یہاں استعفیٰ کاکلچر ہوتا تو اس وقت کا ریلوے وزیر اتنے بڑے حادثے پر یہ نہ کہتا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں؟میں کوئی ڈرائیور ہوں؟جس ملک میں وزارت کے لیے پارٹی چھوڑنا صبح و شام کا معمول ہو‘وہاں استعفیٰ کون دے گا؟کیا سندھ حکومت میں کسی نے استعفیٰ دیا ہے؟کیا ڈیرہ اسماعیل خان جیل کے شرم ناک اور عبرت ناک سانحے پر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں کوئی مستعفی ہوا؟ جس اقتدار کے لیے عزت‘تعلقات‘وفاداری‘سب کچھ قربان کیا جاتا ہے‘ اسے چھوڑنا زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے   ؎
اتنی ارزاں نہیں ہے شہرت
عزت نیلام کر رہے ہیں
سندھ حکومت میں استعفیٰ دینے والا ایک بھی رجل رشید ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ رجل رشید تو دور کی بات ہے‘اس انتہا درجے کی ’’نجی‘‘سیاسی جماعت میں جس کا نام پیپلز پارٹی ہے‘ کوئی اوسط درجے کی عزت نفس رکھنے والا سیاست دان بھی ہوتا تو پارٹی کا ہیڈ کوارٹر دبئی نہ ہوتا اور’’ماتحتوں‘‘ کو وہاں نہ طلب کیا جاتا۔ایسی سیاسی جماعتوں سے تو ایسٹ انڈیا کمپنی لاکھوں درجے بہتر تھی کہ ہیڈ کوارٹر لندن میں تھا لیکن ضابطہ اور رُول ریگولیشن بھی تھا۔ ہمایوں مرزا’’پلاسی سے پاکستان تک‘‘ میں اس کنٹرول کا ذکر کرتا ہے جو مالیات اور حسابات کے محکمے کا ایسٹ انڈیا کمپنی پر تھا۔ ایک پائی بھی متعلقہ ادارے کی اجازت کے بغیر خرچ نہیں کی جا سکتی تھی۔
سندھ حکومت کو جو ’’پارٹی‘‘چلا رہی ہے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی بدتر ہے۔ پارٹی کا ہیڈ کوارٹر دبئی میں ہے۔کیا عجب‘کچھ عرصہ بعد وزیر اعلیٰ کا دفتر بھی وہیں منتقل ہو جائے‘اس کے بعد وزراء کے دفاتر۔ ذرا دل تھام کر خبر پڑھیے…
پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو نے سابق گورنر خیبر پی کے‘ مسعود کوثر سمیت اپنے سینئر ایڈوائزروں کو ضروری مشاورت کے لیے دبئی طلب کر لیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو نے حال ہی میں تشکیل دی گئی اپنی کابینہ کے ارکان کو جن میں سابق گورنر مسعود کوثر‘سینیٹر جہانگیر بدر‘نوابزادہ غضنفر گل اور بشیر ریاض شامل ہیں‘19مارچ کو دبئی میں بلا لیا ہے‘‘۔
اس کے ساتھ دوسری خبر پڑھیے:
’’ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو پیپلز پارٹی کے لیڈر آصف علی زرداری نے دبئی طلب کیا ہے…‘‘
والد گرامی ماتحتوں کو الگ بلا رہے ہیں ، صاحبزادے الگ بلا رہے ہیں، یعنی   ؎
اسی جانب رواں ہیں قافلے عشاق کے سب
کہ اب اِک مہ لقا کا رخ بخارا کی طرف ہے
اور یہ کیا انکشاف ہے کہ بلاول بھٹو کی اپنی کابینہ الگ ہے جو حال ہی میں تشکیل دی گئی ہے۔کابینہ تو حکومتوں میں ہوتی ہے ، بلاول بھٹو کس ملک یا کس صوبے کے حکمران ہیں کہ کابینہ بنائی ہوئی ہے؟ویسے اس کابینہ نے مغل بادشاہت کی یاد تازہ کر دی ہے۔اکبر بھی لڑکا ہی تھا جب بادشاہ بنا اور بیرم خان جیسے عمر رسیدہ امراء ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑے ہوتے تھے۔ پیپلز پارٹی کا بادشاہت سے دور کا بھی تعلق نہیں‘یہ تو جمہوریت کی نقیب ہے۔ جب شہزادہ بلاول بھٹو اپنے بیرم خانوں کو طلب کرتا ہے تو جمہوریت قبر میں فرط مسرت سے کروٹیں بدلتی ہے۔کراچی نہیں‘ پشاور کے مسعود کوثر اور لاہور کے جہانگیر بدر کو یہ بیس بائیس سالہ شہزادہ دبئی طلب کر رہا ہے، سبحان اللہ !کیا مقام ہے سفید سروں والے ان معمر سیاست دانوں کا جن کا محض سیاسی تجربہ ہی 
شہزادے کی عمر سے تین گنا نہیں تو دو گنا تو ضرور ہی ہو گا۔ کیوں نہ ہو‘ جس جماعت میں اعتزاز احسن اور رضا ربانی جیسے دانشور اور سنجیدہ پارلیمنٹیرین موجود ہوں اس میں پارٹی کی قیادت وراثت ہی کی تو مرہون منت ہو گی۔
تعجب ہے کہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے بڑے بڑے ستونوں کو دبئی طلب کیا گیا ہے لیکن جناب مخدوم امین فہیم کو پوچھا تک نہیں گیا۔ سندھ پر ایک لحاظ سے انہی کا تو خاندان حکمرانی کر رہا ہے۔ ٹیکس ادا نہ کرنے کی شہرت کے مالک مخدوم امین فہیم کے ایک صاحبزادے سندھ حکومت میں ریلیف منسٹر ہیں ، دوسرے صاحبزادے تین دن پہلے تک تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر تھے ، تیسرے صاحبزادے چھ ماہ پہلے اسی خوش قسمت ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے اورتین سال سے تھے، چوتھے صاحبزادے اسی ضلع سے صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔ 
کون کہتا ہے کہ پاکستان میں زرعی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ حماقت تو بھارت نے 1951ء میں کی تھی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں ٹیکس نہ دینے والے بڑے بڑے سائیں ہیں نہ صاحبزادے۔ رہے ہم، تو ہمیں کیا ضرورت ہے زرعی اصلاحات کی ! زمیندار ہوں یا جاگیردار یا سردار‘ہماری موجودہ قابل رشک ترقی انہی حضرات کے صدقے سے تو ہے اور پھر روحانی گدیاں! وہ تو سونے پر سہاگہ ہیں۔

Wednesday, March 12, 2014

دھوکا

                                                  یہ دنیا چاہِ طلسمات ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جب تک زمین کا فرش بچھا ہے اور جب تک اُس پر آسمان کا تنبو لگا ہے۔ حیرتیں جنم لیتی رہیں گی۔ دریائوں میں آگ لگتی رہے گی۔ درختوں کی شاخیں پتے ہلا ہلا کر چھائوں کی جگہ دھوپ بُنتی رہیں گی۔ 
پاکستانی شہروں کی پڑھی لکھی مڈل کلاس ایک عرصہ الیکشن کے دن گھروں سے نکلنے سے اجتناب کرتی رہی۔ اس مڈل کلاس میں لاکھوں اعلیٰ درجہ کے سرکاری ملازمین‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ وکیل‘ تعلیم یافتہ بزنس مین اور کھاتے پیتے گھروں سے تعلق رکھنے والے طالب علم شامل تھے۔ ان کے لیے انتخابات میں کوئی چوائس نہ تھا۔ وہ کسے ووٹ دیتے؟ ایک طرف بلند پہاڑ تھا۔ دوسری طرف کھائی تھی۔ ایک طرف وہ سیاسی جماعتیں تھیں جن پر خاندانوں کی اجارہ داریاں تھیں۔ یہ جماعتیں جاگیرداروں‘ زمینداروں‘ سرداروں اور ارب پتی کارخانہ داروں کی پناہ گاہیں تھیں‘ یہاں سیاسی ورکر اپنی زندگیاں پگھلانے کے لیے اور سیاسی وڈیرے اپنی دکانیں چمکانے کے لیے تھے۔ کیا مخدوم‘ کیا گیلانی‘ کیا پیر‘ کیا چودھری‘ سب ان سیاسی جماعتوں میں بھرے تھے۔ تقسیم سے پہلے یونینسٹ پارٹی میں جتنے ٹوانے‘ نون‘ دولتانے‘ گورمانی تھے‘ وہ سب ان سیاسی جماعتوں میں تھے۔ ری پبلکن پارٹی‘ پھر کونسل مسلم لیگ‘ کنونشن لیگ‘ نون لیگ‘ قاف لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ اے این پی‘ یہ ساری جماعتیں وراثت کے شجروں سے بھرے ہوئے خاندانی ٹرنک تھیں۔ دوسری طرف وہ مذہبی جماعتیں تھیں جو سیاست کا تڑکا 
لگا کر بازارِ سیاست میں اپنے اپنے کائونٹر پر بیٹھی تھیں۔ یہ بظاہر تو اسلام کا نام لیتی تھیں لیکن اصل میں اسلام کو سیڑھی بنا کر اقتدار حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ کوئی اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کا پرچار کرتی تھی اور کوئی شریعت کے نفاذ کا نعرہ لگاتی تھی۔ ان میں سے اکثر کو خود اسلام کا پتہ نہیں تھا۔ پھر ہر فرقہ اپنی سیاسی جماعت لے کر میدان میں نکلا ہوا تھا۔ ایک کے نزدیک دوسرا کافر تھا اور دوسرے کے نزدیک تیسرا کافر تھا۔ ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہ پڑھنے والے ووٹ مانگنے کے لیے عوام سے رجوع کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اسلام کا نام لینے والا یہ طبقہ خود عملی طور پر اسلام سے کوسوں دور تھا۔ اکلِ حلال اور صدقِ مقال۔ یہ دوسروں کو بتاتے تھے۔ خود ایسی چیزوں سے پرہیز کرتے تھے۔ حاکمانِ وقت کے آگے کشکول بھی دھرتے تھے اور مذہب کا عبا بھی پہنتے تھے۔ 
تعلیم یافتہ مڈل کلاس ان دونوں سے متنفر تھی ع 
دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے 
اور یہ دونوں طبقات بھی مڈل کلاس سے نفرت کرتے تھے۔ موروثی سیاسی جماعتیں مڈل کلاس سے اس لیے نفرت کرتی تھیں کہ مڈل کلاس انہیں ورکر مہیا نہیں کرتی تھی۔ معاوضہ لے کر جلوس نکالنے اور نعرے لگانے کا کام زیریں طبقات اطمینان بخش طریقے سے کر رہے تھے۔ مڈل کلاس فیوڈلزم سے نفرت بھی کرتی تھی۔ مذہبی طبقات مڈل کلاس کو نفرت سے بابو اور منشی کہتے تھے۔ ان کے نزدیک سول سرونٹ‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ وکیل‘ ٹیکنوکریٹ‘ کھاتے پیتے گھروں کے طالب علم سب نفرت کے قابل تھے کیونکہ مدارس سے نکلے ہوئے نوجوان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ 
پھر یہ ہوا کہ مڈل کلاس کو ایک ایسے صاحب امید کی کرن دکھائی دیے جو فیوڈل تھے نہ مولانا۔ یہ نامور کھلاڑی تھے۔ سوشل سروس میں نام کما چکے تھے۔ ہسپتال بنایا تھا۔ یونیورسٹی بنائی تھی۔ ان منصوبوں میں دیانت داری کے حوالے سے معروف ہو چکے تھے۔ انہوں نے مڈل کلاس کو دعوت دی کہ انہیں کامیاب کریں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ خاندانی سیاست سے ملک کو نجات دیں گے۔ کرپشن ختم کریں گے۔ سفارش اور اقرباپروری کو جڑ سے اکھاڑیں گے۔ میرٹ کو اپنا رہنما بنائیں گے۔ ٹیکس نہ دینے والوں سے بے خوف ہو کر نمٹیں گے۔ روزگار دیتے وقت صرف اور صرف اہلیت کو دیکھیں گے۔ تعیناتیاں‘ ترقیاں انصاف کی بنیاد پر کریں گے۔ 
مڈل کلاس کو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی نظر آئی۔ وہ گروہ در گروہ حمایت کرنے لگے۔ اس حمایت میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو خاندانی سیاسی جماعتوں کے طعنے سننے پڑے۔ کسی نے انہیں برگر فیملی کے طعنے دیے اور کسی نے ممی ڈیڈی کلاس کہہ کر تضحیک کی۔ لیکن یہ مڈل کلاس‘ یہ تعلیم یافتہ نوجوان‘ یہ سول سرونٹ‘ یہ ڈاکٹر‘ یہ انجینئر‘ یہ وکیل یہ پڑھے لکھے لوگ ان طعنوں سے نہ ڈرے اور انہوں نے کھلاڑی کو الیکشن میں کامیابی دلوائی۔ ایسی کامیابی کہ موروثی سیاست کے گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ 
جب یہ سب کچھ ہو چکا تو کھلاڑی نے اپنی اصلی پوٹلی نکالی   ؎ 
پرانی وضع کے ساغر نکالے بقچیوں سے
ضیافت کے لیے سو طرح کے زہراب رکھے 
پوٹلی میں سرکنڈوں سے بُنی ہوئی چھوٹی چھوٹی ٹوکریاں تھیں۔ ان ٹوکریوں کے ڈھکنے بھی سرکنڈوں سے بُنے ہوئے تھے۔ ایک ٹوکری سے ایک مذہبی جماعت نکالی‘ دوسری ٹوکری سے ایک مدرسہ نکالا‘ تیسری ٹوکری سے ایک اور سیاسی جماعت جو مذہب کی سیڑھی سے اوپر جاتی تھی اور باربار گر جاتی تھی‘ نکالی۔ معلوم ہوا کہ یہ مذہبی جماعتیں جو عرصہ سے سیاست کر رہی تھیں اور ناکام و نامراد ہو رہی تھیں‘ کھلاڑی کی پشت پر تھیں۔ ایک صوبے میں حکومت بنانے کے لیے ایک ایسی سیاسی جماعت کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا جو سالہا سال سے الیکشن ہارتی آ رہی تھی اور سوائے مارشل لا کے‘ کبھی پھلی پھولی نہیں تھی۔ اس کے بعد جو کچھ اہلِ مدرسہ نے کہا‘ کھلاڑی نے آمناوصدقنا کہا اور الاپنا شروع کردیا۔ مذہبی جماعتوں نے تیسری قوت کا سبق پڑھایا تو وہ رٹ لیا۔ مذہبی جماعتوں نے سکھایا کہ فلاں کا نام نہیں لینا۔ اس نے نہ لیا۔ ان جماعتوں نے ہدایت کی کہ ہلاک کرنے والے‘ کھوپڑیوں سے فٹ بال کھیلنے والے‘ بچوں اور عورتوں کو مارنے والے ہمارے اپنے ہیں۔ اس نے کہا ہمارے اپنے ہیں۔ پھر اُسے یہ سکھایا گیا کہ یہ اغوا برائے تاوان‘ یہ بھتہ گیری ضروری ہے۔ اس نے بھول کر بھی اغوا برائے تاوان اور بھتہ گیری کی مذمت نہ کی‘ نہ ہی کبھی یہ کہا کہ معصوم شہریوں کو اغوا کرنے والے قوم کے دشمن ہیں۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ دارالحکومت کچہری میں لاشوں کے انبار لگ گئے۔ لیکن اُس نے کھل کر مذمت تک نہ کی۔ 
مڈل کلاس… پڑھی لکھی مڈل کلاس کو اب معلوم ہوا کہ وہ دھوکا کھا چکی ہے۔ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سب کچھ کرنے والوں کو وہ ہمیشہ مسترد کرتی آئی تھی۔ لیکن مڈل کلاس کے ساتھ عجیب و غریب کھیل کھیلا گیا۔ جس شخص کے بارے میں اس دھوکے کا وہم و گمان بھی نہ کیا جا سکتا تھا‘ وہی مذہب کا لبادہ اوڑھنے والوں کا خفیہ نمائندہ نکلا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

Monday, March 10, 2014

کیا سری لنکا صرف کرکٹ کے میدان میں جیتا ہے؟


خزاں کا قافلہ آن پہنچا ہے۔ 
موسموں کے بدلنے میں قدرت کے اسرار ہیں۔ منیر نیازی نے ایک آیت کا کیا خوبصورت ترجمہ کیا ہے  ؎ 
رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا 
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت 
یہی نشان کیا کم ہے کہ جب نصف کرۂ شمالی میں بہار اترتی ہے تو نصف کرۂ جنوبی میں خزاں کی سواری پہنچ جاتی ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا   ؎ 
ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چوندیس 
گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا 
مارچ آتا ہے تو جنوبی بحرالکاہل کے ساحلوں پر پت جھڑ آباد ہو جاتی ہے۔ چلی میں‘ نیوزی لینڈ میں‘ آسٹریلیا میں‘ جنوبی افریقہ اور ان سارے ملکوں میں جو خطِ استوا کے جنوب میں ہیں۔ 
کتنی عجیب بات ہے اور کتنی دلچسپ کہ لٹریچر کے حوالے جغرافیہ کے ہاتھوں بدل جاتے ہیں۔ انگریزی شاعری جو آئرلینڈ‘ سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ میں لکھی گئی‘ اُس بہار کے تذکروں سے بھری ہے جو مارچ میں شروع ہوتی ہے۔ آسٹریلیا‘ برطانیہ کی توسیع ہے۔ علاقائی ہونے کے ساتھ ساتھ ثقافتی بھی۔ ’’ہوم کنٹری‘‘ کا ادبِ عالیہ آسٹریلیا کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا اُن دوسرے ملکوں کے لیے جو اب بھی‘ رسماً ہی سہی‘ ملکہ کے سایۂ عاطفت میں ہیں۔ جغرافیے کی ستم ظریفی کہ مارچ اپریل کی بہار کے تذکرے پڑھتے ہوئے ادب کے شائقین اپنے ارد گرد خزاں دیکھتے ہیں! ہر طرف بکھرے ہوئے پارکوں‘ سیرگاہوں میں مخملیں سبزہ زرد ہونے لگتا ہے۔ پتے ٹوٹ ٹوٹ کر ہوا میں اڑتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی یاد آتے ہیں   ؎ 
خشک پتے مری عمروں کے رفیق 
خشک پتے مری تنہائی کے پھول 
پھر کہتے ہیں   ؎ 
خزاں دلوں میں جڑیں چھوڑنے کی دُھن میں ہے 
کہاں گیا مرا پروردگارِ موسمِ گُل 
کیسا المیہ ہے کہ احمد ندیم قاسمی کی شاعری قدرے پس منظر میں چلی گئی اور ان کی افسانہ نگاری اور فنون کی طویل تاریخی ایڈیٹری سامنے آ گئی۔ کتنے بڑے شاعر تھے قاسمی صاحب! ابھی انہیں دریافت ہونا ہے۔ وہ یقینا فیض صاحب سے بڑے شاعر تھے۔ فیض صاحب کی شاعرانہ عظمت میں کیا کلام ہے۔ خود کہتے ہیں   ؎ 
کوئی یار جاں سے گزرا کوئی ہوش سے نہ گزرا 
یہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے 
ان کی شہرت میں بڑا حصہ سیاسی حوالے کا ہے۔ پھر ان کا خاندان اور ان کے پسماندگان میڈیا پر‘ خاص کر الیکٹرانک میڈیا پر چھائے رہے۔ پست طبقات کے بارے میں شاعری کرنے والے بورژوا فیض صاحب شاعری سے زیادہ دوسرے عوامل کی بنیاد پر بلند سے بلند تر ہوئے۔ یہ سب کچھ احمد ندیم قاسمی کے پاس نہ تھا‘ نہ انہیں کوئی ٹیناثانی یا ٹینا ثالث ملی۔ نہ اقبال بانو‘ نہ ہی نور جہاں‘ نہ ہی مہدی حسن کہ لوگ فیض صاحب سے فرمائش کرتے تھے ’’فیض صاحب! وہ غزل سنایئے مہدی حسن والی!‘‘ قاسمی صاحب نے جن طبقات کے لیے شاعری کی‘ زندگی انہی کے ساتھ‘ انہی کی طرح گزاری۔ درانتی چلانے والوں کے ساتھ‘ درانتی چلانے والوں کی طرح   ؎ 
چمک رہے ہیں درانتی کے تیز دندانے 
خمیدہ ہَل کی یہ الہڑ جوان نورِ نظر 
سنہری فصل میں جس وقت غوطہ زن ہو گی 
تو ایک گیت چھڑے گا مسلسل اور دراز 
ندیمؔ ازل سے ہے تخلیق کا یہی انداز 
ستارے بوئے گئے آفتاب کاٹے گئے 
ہم آفتاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے 
تو ایک روز عظیم انقلاب کاٹیں گے 
ہم انقلاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے 
زمیں پہ خلدِ بریں کا جواب کاٹیں گے 
ظفر اقبال کی گلافتاب‘ ناصر کاظمی کی برگِ نے‘ مجید امجد کی شبِ رفتہ کے ساتھ‘ احمد ندیم قاسمی کی دشتِ وفا بھی اس لکھنے والے کو حفظ تھی۔ یاد تو عدم اور جوش کی شاعری بھی بہت سی تھی لیکن وہ وقت کا ساتھ دے سکی نہ عمر کا۔ قاسمی صاحب کی شاعری پر تفصیلی بات پھر کبھی۔ 
خزاں زدہ شہر میں اپنے وطن کا دارالحکومت یاد آتا ہے۔ مدتوں پہلے ڈھاکہ میں بیٹھ کر کہا تھا  ؎ 
یاد آتی ہے سلگتی ہوئی راتیں اظہارؔ 
اب کے پنڈی کی ہوائوں میں ٹھٹھر بھی نہ سکے 
دارالحکومت میں سرما ہے۔ سرما وہاں ہمیشہ خوبصورت ہوتا ہے اور اس کے ساتھ جُڑا ہوا بہار کا موسم بھی   ؎ 
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں 
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے 
جہاں زندگیاں پتوں کی طرح شاخوں سے ٹوٹ کر جھڑ رہی ہیں۔ جہاں ہول اور دہشت نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ جہاں کمیٹی کمیٹی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ طبقہ جو سکیورٹی کے سات پردوں میں رہتا ہے اور فصیل اندر فصیل حصار اندر حصار حفاظتی سپاہ جس کے ملازمین تک کو گھیرے میں لیے رہتی ہے‘ وہ طبقہ اُن لوگوں کی کیا حفاظت اور کیا دلجوئی کرے گا جن کی ڈھالیں اُن کے سر اور سینے ہیں۔ حافظؔ شیرازی نے کہا تھا کہ وہ جو ساحل پر کھڑے ہیں‘ انہیں کیا خبر کہ اندھیری رات میں اُن بیچاروں پر کیا گزر رہی ہے جو بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 
دارالحکومت پر اضافی اداسی بھی چھائی ہوئی ہوگی کہ ایشیا کپ سری لنکا اٹھا کر لے گیا۔ اب سیدھے سادے بھولے بھالے پاکستانیوں کو یہ کون بتائے کہ اصل کپ تو سری لنکا نے اس وقت جیتا تھا جب دہشت گردی کو ختم کیا تھا‘ اور بزورِ شمشیر ختم کیا تھا۔ پرابھا کرن جو دہشت گردوں کا سپریم کمانڈر تھا‘ سری لنکا کی فوج کے ہاتھوں مارا گیا۔ سری لنکا خوش بخت تھا کہ ساری قوم دہشت گردوں کے خلاف متحد تھی۔ دہشت گردوں کو کوئی بھی ’’اپنے بچے‘‘ کہہ کر بچانے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ ریاست کو یہ نصیحت بھی کوئی نہیں کرتا تھا کہ مذاکرات سو بار بھی ناکام ہوں تو پھر بھی مذاکرات ہی کیے جائیں۔ اور یہ تو کوئی محبِ وطن وہاں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دہشت گردوں کو ایک علاقہ دے دیا جائے یا فلاں علاقے سے فوج واپس بلا لی جائے یا سینکڑوں انسانوں کو مارنے والے قاتلوں کو رہا کردیا جائے۔ سری لنکا کو اس لیے بھی شاباش ہے کہ اس کی فوج دنیا کے بہترین عساکر میں شمار ہوتی تھی‘ نہ ہی سری لنکا ایٹمی طاقت تھا۔

Friday, March 07, 2014

آسمان کی طرف منہ کر کے


ہم بیس کروڑ افراد‘ بطور قوم‘ اس قدر ’’باغیرت‘‘ ہیں کہ اب اپنی بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ لگتا ہے اس کام کے لیے کسی دوسری قوم سے ٹھیکہ کرنا پڑے گا۔ ہماری مثال اس مغل شہزادے کی ہے جو عہدِ زوال میں پیدا ہوا اور بچپن سے لڑکپن اور پھر نوجوانی تک حرم سرا میں بیگمات ہی کی صحبت میں رہا۔ ایک دن اس کی موجودگی میں حرم سرا میں سانپ نکل آیا۔ سب عورتوں نے شور مچایا کہ کسی مرد کو بلائو تو شہزادے نے بھی شور مچایا کہ کسی مرد کو بلائو۔ 
ابھی فِضّہ ملک کی قبر پر مٹی بھی نہیں ڈلی تھی کہ پوری قوم اسے اور دوسرے شہیدوں کو بھول کر ٹیلی ویژن سکرین سے چمٹ گئی اور چھکوں اور چوکوں پر بھنگڑے ڈالنے لگ گئی۔ کیوں نہ ہو‘ روایت ہی یہی ہے۔ آخر یہی وہ قوم ہے جو سقوط ڈھاکہ کو چند ہفتوں ہی میں بھول گئی تھی۔ دنیا کا کوئی اور باضمیر ملک ہوتا تو خون کی اس ہولی کے بعد جو اسلام آباد میں کھیلی گئی‘ میچ ملتوی کرا دیتا۔ خاندان میں ایک شخص بھی مرے تو شادیاں ملتوی اور شادیانے بند ہو جاتے ہیں۔ یہاں ایک درجن افراد کے چیتھڑے اڑا دیے گئے‘ تیس موت و حیات کی کشمکش میں تھے‘ چالیس پچاس خاندان آہ و بکا کر رہے تھے اور باقی قوم ملک کی ’’عزت‘‘ کی خاطر ٹیلی ویژن سے لگی بیٹھی تھی۔ ایک شخص کو چوک میں جوتے پڑ رہے تھے۔ اس کا بیٹا بھاگ کر گھر چلا گیا اور کہنے لگا‘ ابا کو جوتے پڑ رہے ہیں‘ میں خود مشکل سے عزت بچا کر گھر آیا ہوں۔ جس قوم کے ہیرو نیم خواندہ نوجوان ہوں‘ جو آئے دن دنیا بھر کے ملکوں کی جیلوں میں جاتے ہوں اور طرح طرح کے جرم کرتے ہوں‘ اُس قوم کو فضّہ ملک جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی کی ضرورت بھی کیا ہے کہ اس کا سوگ مناتی۔ بائیس سالہ فِضّہ قانون کی اعلیٰ ڈگری برطانیہ سے لے کر لوٹی تھی‘ بھائی کے اصرار کے باوجود اس کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ جانے سے انکار کردیا تھا۔ خواب یہ تھا کہ اپنے ملک میں پریکٹس کروں گی اور نام پیدا کروں گی۔ اس نے غلط اسلوب اختیار کیا۔ جس ملک میں صرف کھلاڑیوں‘ فنکاروں‘ گلوکاروں اور اداکاروں کی قدر ہو‘ یہاں تک کہ مبلغین حضرات بھی انہی کے پیچھے پھرتے ہوں‘ وہاں فِضّہ ملک کو کون پوچھتا۔ یہ درست ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی کھلاڑیوں اور فنکاروں کی قدر ہوتی ہے لیکن تعلیم کے میدان میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے شان و شوکت میں ان سے کم نہیں ہوتے۔ نوبل پرائز ہی کو دیکھ لیجیے۔ فزکس‘ کیمسٹری‘ میڈیسن‘ لٹریچر‘ امن‘ اکنامکس سارے شعبے ہیں۔ کھیل اور فلم نہیں ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان سے ڈاکٹر‘ انجینئر‘ پروفیسر‘ وکیل‘ چارٹرڈ اکائونٹنٹ سب ہجرت کر رہے ہیں۔ صرف کھلاڑی اور فنکار ہیں جو مطمئن ہیں۔ اس لیے کہ معاشرے کو جن کی ضرورت ہے‘ وہی یہاں رہیں گے۔ جن کی قدر نہیں ہے چلے جائیں گے۔ اصلی ڈگری کے ساتھ تو یہاں کی اسمبلیوں میں بھی جانا مشکل ہے۔ کسی کو اصلی ڈگری لے کر یہاں رہنے کی کیا ضرورت ہے! کاش وہ حضرات جو اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کو خوش کرنے کے لیے نام نہاد سروے کرتے رہتے ہیں اور پھر پردۂ سیمیں پر بڑی نزاکتوں کے ساتھ ان کی تشریحات کرتے رہتے ہیں‘ کوئی سروے اس کا بھی کرتے کہ گزشتہ پندرہ یا بیس سال میں کتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اس ملک کو چھوڑ کر باہر جا بسے ہیں‘ کتنے غیر ملکی سفارت خانوں کے سامنے قطاریں باندھے کھڑے ہیں‘ کتنے امیگریشن ویزوں کا گھر بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں اور کتنے باہر جانے کے لیے عرضی ڈالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے ملک چھوڑ کر چلے جانے کا گوروں نے خوب نام رکھا ہے۔ برین ڈرین (Brain-Drain) یعنی دماغوں کا باہر چلے جانا۔ اسی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں انہی کی قدر ہے جن کے پاس دماغ کی مصیبت نہیں ہے! 
سعدی کی مشہور و معروف حکایت ہے۔ ایک حکمران کو ایسی بیماری لگی کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہو رہا تھا۔ آخر حکماء نے تجویز کیا کہ اِن اِن صفات کا مالک جو انسان ہو‘ اس کا پِتہ بادشاہ کو بطور دوا دینا پڑے گا۔ ایک لڑکا مطلوبہ صفات کا حامل مل گیا۔ شاہی خزانوں کی مدد سے اس کے ماں باپ کو راضی کر لیا گیا۔ عدالت نے رولنگ دی کہ ’’عوام کے مفاد میں‘‘ لڑکے کی جان لینا روا ہے۔ جلّاد نے تلوار کھینچی تو لڑکا آسمان کی طرف منہ کر کے ہنسا۔ بادشاہ نے جلّاد کو روک کر لڑکے سے اس عالم میں خندہ کرنے کا سبب پوچھا۔ لڑکے نے جواب دیا کہ اولاد کے ناز ماں باپ اٹھاتے ہیں‘ میرے ماں باپ تو پہلے ہی میری قیمت وصول کر چکے۔ عدالت سے انصاف مانگا جاتا ہے۔ عدالت نے بھی عوامی مفاد میں میری 
موت کو جائز قرار دے دیا ہے۔ آخری امید حکمران ہوتا ہے۔ یہاں تو خود حکمران کی جان بچانے کے لیے مجھے قربان کیا جا رہا ہے۔ ایسے عالم میں اب صرف خدا ہی ہے جس سے امید ہے۔ چنانچہ میں نے آسمان کی طرف منہ کیا اور اپنی حالت پر ہنس کر فریاد کی۔ آج وفاقی دارالحکومت‘ خیبرپختونخوا‘ سندھ اور بلوچستان کی حالت اس لڑکے جیسی ہے۔ حکمران ملک کے ایک حصے کو بچانے کے لیے باقی ملک میں دہشت گردی کو برداشت کرنے کا‘ یوں لگتا ہے‘ فیصلہ کر چکے ہیں۔ مذہبی طبقہ بھی کم و بیش ایک طرف کو جھکا ہوا محسوس ہوتا ہے اور جو لوگ کشت و خون کے ذمہ دار ہیں‘ انہیں بچانے کے لیے نادیدہ ہوائی خیالی قوتوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ رہے سیاست دان تو جس سیاست دان پر لوگوں نے تکیہ کیا تھا‘ وہی پتوں کی طرح ہوا دینے لگ گیا ہے۔ اس کا سارا زور‘ ساری کوشش اس بات پر ہے کہ اس کے آبائی علاقے میں ایکشن نہ ہو۔ کراچی یا کہیں اور ہوتا رہے۔ رہ گئیں عدالتیں‘ تو وہ خود ہٹ لسٹ پر ہیں۔ ایسے میں باقی ملک کے لیے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ آسمان کی طرف منہ کرے اور دردناک انداز میں ہنسے! 
دعویٰ یہ تھا کہ بندوق کے زور پر اسلام نافذ کرنے والوں کے خلاف خود لڑوں گا ۔ اس دعویٰ کے چوبیس گھنٹے بعد بندوق کے زور پر اسلام نافذ کرنے والوں نے اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ جج‘ وکیل‘ وہ بچی جس نے وکالت کا آغاز کیا تھا اور خواب بُنے تھے‘ شہری‘ راہ گیر… سب کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ کاٹنے والوں نے اعلان کیا کہ ’’شریعت کے نفاذ تک اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے‘‘۔ اس وقت سے لے کر اب تک دعویٰ کرنے والے غائب ہیں۔ بندوق کے زور پر اسلام نافذ کرنے والوں کے خلاف لڑنا تو دور کی بات ہے‘ کوئی خاص مذمت اور افسوس تک نظر نہیں آیا۔ 
مسلمانوں کی تاریخ میں چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ ایک قبیلے کی ’’خلافت‘‘ ختم ہوئی تو ختم کرنے والوں نے ان کی لاشوں پر قالین بچھایا اور اس پر بیٹھ کر دعوت اڑائی۔ ہمارے ہاں دعوت کی نوبت تو ابھی نہیں آئی‘ ہاں‘ ناشتوں کی روایت ضرور ہے۔ جج رفاقت اعوان‘ فِضّہ ملک اور دوسرے شہدا کا غم تازہ ہے۔ کاش ملاقاتیں ناشتوں پر نہ ہوتیں۔ ناشتے میں صرف دو ٹوسٹ اور ایک آملیٹ تو ظاہر ہے‘ نہیں ہوگا۔ قائداعظم کا حکم تھا کہ کابینہ کے ارکان گھر سے چائے پی کر آئیں۔ میٹنگ کے دوران چائے کا تعیش نہیں ہوگا۔ مارگریٹ تھیچر ٹین ڈائوننگ سٹریٹ کے کچن میں اپنا ناشتہ اپنے ہاتھوں سے بنا کر‘ کھا کر‘ سرکاری امور کا رُخ کرتی تھی۔ یہی حال دوسرے ملکوں میں ہے۔ اگر کوئی صاحب کسی جمہوری ملک سے ایسی مثال ڈھونڈ نکالیں تو ہمارے علم میں بیش بہا اضافہ ہوگا اور یہ تو ابھی ماضی قریب کی بات ہے کہ یورپ کے ایک ملک نے ہمارے ایک حکمران کو‘ جو وہاں دورے پر تھے‘ صاف بتا دیا تھا کہ قصرِ صدارت میں سرکاری دعوت پر آپ کے ساتھ صرف تین افراد کی گنجائش ہے۔ پورے وفد کو مدعو نہیں کیا جا سکتا! 
پس نوشت: جو زعما مذاکراتی ٹیم میں شامل ہونا چاہتے تھے اور رہ گئے‘ وہ مایوس نہ ہوں۔ انصارالمجاہدین‘ احرارالہند‘ جند اللہ اور مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے گروہوں سے بھی مذاکرات کرنے ہوں گے۔ امید کا دامن نہ چھوڑیں۔

Thursday, March 06, 2014

جذباتی ڈور

                                                           کسان منڈی جا رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ کہنے لگا، گدھا خریدوں گا، پھر اس پر لکڑیاں لادوں گا، شہر جا کر بیچا کروں گا، بہت سے پیسے جمع کروں گا اور یوں دولت مند ہو جائوں گا۔ دوسرے آدمی نے مشورہ دیا کہ اتنا لمبا چوڑا منصوبہ تو ٹھیک ہے لیکن ساتھ انشاء اللہ بھی کہہ دیا کرو۔کسان کو غصہ آگیا ، کہنے لگا: رقم میری جیب میں ہے‘ منڈی سامنے ہے‘ گدھا خریدنے میں اب کون سی رکاوٹ ہے کہ انشاء اللہ کہوں۔ شومئی قسمت سے منڈی پہنچا تو ہجوم میں اس کی جیب کاٹ لی گئی۔ اب وہ ناکام و نامراد منڈی سے واپس گھر کو چلا۔ راستے میں پھر کسی نے پوچھا‘ کہاں گئے تھے۔ کسان سبق سیکھ چکا تھا‘ کہنے لگا: انشاء اللہ منڈی گیا تھا، انشاء اللہ وہاں جیب کٹ گئی ، اب انشاء اللہ گھر واپس جا رہا ہوں۔ 
یہ پامال لطیفہ ہم سب نے کئی بار سنا ہوگا ، لیکن اب کے یہ نئے پیرائے میں سامنے آیا ہے۔ اسلام آباد کچہری پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد حکومتی ادارے جو اعلانات کرتے پھر رہے ہیں وہ کسان کی انشاء اللہ سے زیادہ نہیں ! خوش خبری سنائی گئی ہے کہ کچہری کے چاروں طرف بائونڈری وال بنائی جائے گی ، بہت سے راستے بند کر دیے جائیں گے ، صرف چار انٹری پوائنٹس رکھے جائیں گے ، واک تھرو گیٹ ہوا کریں گے ، سولہ سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اسی کچہری میں کچھ سال پہلے خوفناک دہشت گردی ہو چکی ہے۔ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ پہلے حملے کے بعد ہی احتیاطی اور انسدادی تدابیر کر لینی چاہیے تھیں‘ لیکن غفلت اور نااہلی کی جو تصویر میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہے‘ اس سے صرف اور صرف ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ دوسرا حملہ کرنے والے اگر تربیت یافتہ دہشت گرد نہ ہوتے اور کسی پرائمری سکول کے بچے ہوتے‘ تب بھی حملہ آوروں کو مشکل پیش آتی نہ رکاوٹ! نااہلی اور مجرمانہ غفلت کی شہادتیں اتنی زیادہ ہیں کہ شاید ساری احاطۂ تحریر ہی میں نہ آ سکیں۔ اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار کے صدر بتاتے ہیں کہ چند روز قبل ضلعی پولیس اور انتظامیہ کے حکام کی سیشن جج اسلام آباد سے میٹنگ ہونا تھی تاکہ کچہری کے سکیورٹی انتظامات کو حتمی شکل دی جا سکے ، لیکن انتظامیہ اور پولیس نے اس اجلاس کے بجائے کرکٹ میچ دیکھنے کو ترجیح دی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ میڈیا میں جب دہشت گردی کے امکان کی خبریں آئیں تو فول پروف انتظامات کا مطالبہ کیا گیا لیکن انتظامیہ نے توجہ ہی نہیں دی۔ 
کیا پولیس کو علم نہیں تھا کہ کچہری میں سکیورٹی وال کی حیثیت ایک مذاق سے زیادہ نہ تھی کیونکہ کچہری میں داخل ہونے کے بارہ سے زیادہ راستے وجود میں آ چکے تھے؟ روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے وزارتِ داخلہ کی غیر سنجیدگی کے بارے میں تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ سپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ 47 موجود پولیس اہلکاروں میں سے صرف دو نے موقع پر اسلحہ استعمال کیا۔ چیف کمشنر کو خطرے کی 42 اطلاعات تھیں! وکلا نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ جب انہوں نے پولیس کو کہا کہ حملہ آوروں پر گولی چلائو تو پولیس اہلکاروں کا جواب تھا کہ ان کے پاس جو بندوقیں ہیں وہ استعمال کے قابل نہیں! نااہلی کی ان ساری شہادتوں پر دہشت گرد اگر بھنگڑے نہ ڈالیں اور مٹھائیاں نہ کھائیں تو دہشت گردوں کی اپنی بے وقوفی ہے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے ، اس نے وفاقی دارالحکومت پلیٹ میں رکھ کر دہشت گردوں کو پیش کردیا ہے۔ عوامی نمائندوں کی تشویش کی واحد وجہ یہ ہے کہ اگر کل یہ دہشت گرد پارلیمنٹ میں گھس آئے تو کیا ہوگا۔ گویا، اگر پارلیمنٹ محفوظ ہے تو سب ٹھیک ہے۔ رہے عوام تو وہ جائیں بھاڑ میں۔ جس ملک کی قومی اسمبلی میں ایک منتخب نمائندہ ببانگِ دہل یہ اطلاع بہم پہنچائے کہ صرف ایک ماہ (جنوری 2014ء) میں وفاقی دارالحکومت میں چالیس سے زیادہ ڈکیتیاں ہوئی ہیں اور گزشتہ سال دارالحکومت سے ایک ارب روپے کی گاڑیاں چوری ہوئی ہیں‘ اُس ملک میں اگر عوام کچھ عرصہ بعد طالبان کو پھولوں کے ہار پہنائیں تو تعجب کی کون سی بات ہوگی! 
دہشت گردی کا یہ واقعہ پیش منظر پر چھایا رہا ۔ جو کچھ حاشیے پر ہوتا رہا‘ اس کی طرف کسی نے توجہ ہی نہ دی۔ کیا کیا لطیفے رونما ہو رہے ہیں۔ ہر لطیفہ ایسا ہے جو قوم کے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے۔ ایک صاحب نے فرمایا ہے کہ طالبان جنگ بندی پر کاربند رہیں گے کیونکہ ایسا نہ کرنا شریعت کے خلاف ہوگا! سبحان اللہ! یہ جو مسلمانوں کے گلے کاٹ کر ان کے سروں سے فٹ بال کھیلا جا رہا ہے اور اس کی وڈیو بنا کر پھیلائی جا رہی ہیں‘ اس میں تو شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہوئی! ایک مذہبی رہنما بیرونِ ملک سے واپس آئے تو عمران خان صاحب نے وقت ضائع کیے بغیر ایئرپورٹ ہی پر ان سے ملاقات کی۔ اقبال یاد آ رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے یورپ میں جو میل ملاپ ہو رہا تھا‘ اس پر انہوں نے کہا تھا   ؎ 
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے 
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر 
کچھ دن پہلے ایک خاتون وکیل نے عمران خان کو ایک خاص گروہ کا جاسوس قرار دیا۔ نامور کھلاڑی کے چاہنے والے اس سے بہت غمزدہ ہوئے۔ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ اس سنگین الزام پر خان صاحب عدالت میں جاتے اور الزام لگانے والی خاتون سے ثبوت طلب کرتے ، لیکن افسوس ایسا نہ ہوا۔ ان کی منطق پر ، جو وہ وقتاً فوقتاً قوم کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں ، فقط ہنسا ہی جا سکتا ہے اور بعض اوقات تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ یہ منطق عمران خان کی ہے یا یہ بیان ایک خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے کسی مدرسہ نے جاری کیا ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ آپریشن روکنے پر وہ حکومت کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ پھر وہ ان عناصر کو الگ کرنا چاہتے ہیں جو ان کے بقول امن نہیں چاہتے۔ یہ عناصر کیسے الگ ہوں گے؟ اس کا طریق کار وہ نہیں بتاتے۔ پھر کہتے ہیں مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی خواہش مند تیسری قوت کو تلاش کرنا ہوگا۔ یہ تیسری قوت جس کا 
ہر وہ شخص ذکر کرتا ہے جو دہشت گردوں کا دفاع کرنے والا ہے‘ آج تک سامنے نہیں آئی۔ عمران خان کے ایک نظریاتی بھائی نے تو اس ضمن میں چوتھی پانچویں اور چھٹی قوت کا بھی ذکر کیا ہے؟ 
کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان رشتہ داری کی وجہ سے اس معاملے میں جذباتی ہیں؟ وہ بار بار قبائلی علاقوں میں رہنے والے عوام کا ذکر کرتے ہیں۔ جس قوت نے پچاس ہزار پاکستانی عوام کو مسجدوں‘ مزاروں‘ کچہریوں‘ بازاروں‘ سکولوں اور دفتروں میں قتل کیا ہے‘ اس قوت کا عمران خان کبھی کھل کر نام نہیں لیتے۔ کیا وہ رشتہ داری نبھانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں؟ آخر وہ اتنے جذباتی کیوں ہیں؟ ان کی پارٹی کے جن افراد نے پارٹی کی ایک حالیہ میٹنگ میں انہیں مجبور کیا کہ وہ ایف سی کے نوجوانوں کے بہیمانہ قتل کے بعد مذاکرات کی رٹ لگانا چھوڑ دیں‘ اُن افراد کو چاہیے کہ اس مسئلے پر بھی غور کریں کہ آخر ان کا لیڈر ہر حال میں مذاکرات ہی کی بات کیوں کرتا ہے۔ ایف سی ٹریجڈی کے بعد تحریک انصاف کی کورکمیٹی کا اجلاس ہوا تو روزنامہ ’’دنیا‘‘ کی رپورٹ یہ تھی کہ اجلاس میں خوب گرما گرمی ہوئی اور ’’اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی نے مذاکرات کے حوالے سے پالیسی پر ممبران کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس پر تمام ممبران کو مطمئن نہ کر سکے‘‘۔ 
اگر ایف سی کے شہید نوجوانوں اور دہشت گردی کا شکار ہونے والے پچاس ہزار پاکستانیوں کا تعلق بھی اس علاقے سے ہوتا جس سے خان صاحب جذباتی ڈور سے بندھے ہیں تو ان کا طرزِ فکر ضرور مختلف ہوتا۔ غالبؔ نے درست ہی کہا تھا   ع 
وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایمان ہے

 

powered by worldwanders.com