Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, March 12, 2014

دھوکا

                                                  یہ دنیا چاہِ طلسمات ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جب تک زمین کا فرش بچھا ہے اور جب تک اُس پر آسمان کا تنبو لگا ہے۔ حیرتیں جنم لیتی رہیں گی۔ دریائوں میں آگ لگتی رہے گی۔ درختوں کی شاخیں پتے ہلا ہلا کر چھائوں کی جگہ دھوپ بُنتی رہیں گی۔ 
پاکستانی شہروں کی پڑھی لکھی مڈل کلاس ایک عرصہ الیکشن کے دن گھروں سے نکلنے سے اجتناب کرتی رہی۔ اس مڈل کلاس میں لاکھوں اعلیٰ درجہ کے سرکاری ملازمین‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ وکیل‘ تعلیم یافتہ بزنس مین اور کھاتے پیتے گھروں سے تعلق رکھنے والے طالب علم شامل تھے۔ ان کے لیے انتخابات میں کوئی چوائس نہ تھا۔ وہ کسے ووٹ دیتے؟ ایک طرف بلند پہاڑ تھا۔ دوسری طرف کھائی تھی۔ ایک طرف وہ سیاسی جماعتیں تھیں جن پر خاندانوں کی اجارہ داریاں تھیں۔ یہ جماعتیں جاگیرداروں‘ زمینداروں‘ سرداروں اور ارب پتی کارخانہ داروں کی پناہ گاہیں تھیں‘ یہاں سیاسی ورکر اپنی زندگیاں پگھلانے کے لیے اور سیاسی وڈیرے اپنی دکانیں چمکانے کے لیے تھے۔ کیا مخدوم‘ کیا گیلانی‘ کیا پیر‘ کیا چودھری‘ سب ان سیاسی جماعتوں میں بھرے تھے۔ تقسیم سے پہلے یونینسٹ پارٹی میں جتنے ٹوانے‘ نون‘ دولتانے‘ گورمانی تھے‘ وہ سب ان سیاسی جماعتوں میں تھے۔ ری پبلکن پارٹی‘ پھر کونسل مسلم لیگ‘ کنونشن لیگ‘ نون لیگ‘ قاف لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ اے این پی‘ یہ ساری جماعتیں وراثت کے شجروں سے بھرے ہوئے خاندانی ٹرنک تھیں۔ دوسری طرف وہ مذہبی جماعتیں تھیں جو سیاست کا تڑکا 
لگا کر بازارِ سیاست میں اپنے اپنے کائونٹر پر بیٹھی تھیں۔ یہ بظاہر تو اسلام کا نام لیتی تھیں لیکن اصل میں اسلام کو سیڑھی بنا کر اقتدار حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ کوئی اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کا پرچار کرتی تھی اور کوئی شریعت کے نفاذ کا نعرہ لگاتی تھی۔ ان میں سے اکثر کو خود اسلام کا پتہ نہیں تھا۔ پھر ہر فرقہ اپنی سیاسی جماعت لے کر میدان میں نکلا ہوا تھا۔ ایک کے نزدیک دوسرا کافر تھا اور دوسرے کے نزدیک تیسرا کافر تھا۔ ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہ پڑھنے والے ووٹ مانگنے کے لیے عوام سے رجوع کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اسلام کا نام لینے والا یہ طبقہ خود عملی طور پر اسلام سے کوسوں دور تھا۔ اکلِ حلال اور صدقِ مقال۔ یہ دوسروں کو بتاتے تھے۔ خود ایسی چیزوں سے پرہیز کرتے تھے۔ حاکمانِ وقت کے آگے کشکول بھی دھرتے تھے اور مذہب کا عبا بھی پہنتے تھے۔ 
تعلیم یافتہ مڈل کلاس ان دونوں سے متنفر تھی ع 
دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے 
اور یہ دونوں طبقات بھی مڈل کلاس سے نفرت کرتے تھے۔ موروثی سیاسی جماعتیں مڈل کلاس سے اس لیے نفرت کرتی تھیں کہ مڈل کلاس انہیں ورکر مہیا نہیں کرتی تھی۔ معاوضہ لے کر جلوس نکالنے اور نعرے لگانے کا کام زیریں طبقات اطمینان بخش طریقے سے کر رہے تھے۔ مڈل کلاس فیوڈلزم سے نفرت بھی کرتی تھی۔ مذہبی طبقات مڈل کلاس کو نفرت سے بابو اور منشی کہتے تھے۔ ان کے نزدیک سول سرونٹ‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ وکیل‘ ٹیکنوکریٹ‘ کھاتے پیتے گھروں کے طالب علم سب نفرت کے قابل تھے کیونکہ مدارس سے نکلے ہوئے نوجوان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ 
پھر یہ ہوا کہ مڈل کلاس کو ایک ایسے صاحب امید کی کرن دکھائی دیے جو فیوڈل تھے نہ مولانا۔ یہ نامور کھلاڑی تھے۔ سوشل سروس میں نام کما چکے تھے۔ ہسپتال بنایا تھا۔ یونیورسٹی بنائی تھی۔ ان منصوبوں میں دیانت داری کے حوالے سے معروف ہو چکے تھے۔ انہوں نے مڈل کلاس کو دعوت دی کہ انہیں کامیاب کریں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ خاندانی سیاست سے ملک کو نجات دیں گے۔ کرپشن ختم کریں گے۔ سفارش اور اقرباپروری کو جڑ سے اکھاڑیں گے۔ میرٹ کو اپنا رہنما بنائیں گے۔ ٹیکس نہ دینے والوں سے بے خوف ہو کر نمٹیں گے۔ روزگار دیتے وقت صرف اور صرف اہلیت کو دیکھیں گے۔ تعیناتیاں‘ ترقیاں انصاف کی بنیاد پر کریں گے۔ 
مڈل کلاس کو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی نظر آئی۔ وہ گروہ در گروہ حمایت کرنے لگے۔ اس حمایت میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو خاندانی سیاسی جماعتوں کے طعنے سننے پڑے۔ کسی نے انہیں برگر فیملی کے طعنے دیے اور کسی نے ممی ڈیڈی کلاس کہہ کر تضحیک کی۔ لیکن یہ مڈل کلاس‘ یہ تعلیم یافتہ نوجوان‘ یہ سول سرونٹ‘ یہ ڈاکٹر‘ یہ انجینئر‘ یہ وکیل یہ پڑھے لکھے لوگ ان طعنوں سے نہ ڈرے اور انہوں نے کھلاڑی کو الیکشن میں کامیابی دلوائی۔ ایسی کامیابی کہ موروثی سیاست کے گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ 
جب یہ سب کچھ ہو چکا تو کھلاڑی نے اپنی اصلی پوٹلی نکالی   ؎ 
پرانی وضع کے ساغر نکالے بقچیوں سے
ضیافت کے لیے سو طرح کے زہراب رکھے 
پوٹلی میں سرکنڈوں سے بُنی ہوئی چھوٹی چھوٹی ٹوکریاں تھیں۔ ان ٹوکریوں کے ڈھکنے بھی سرکنڈوں سے بُنے ہوئے تھے۔ ایک ٹوکری سے ایک مذہبی جماعت نکالی‘ دوسری ٹوکری سے ایک مدرسہ نکالا‘ تیسری ٹوکری سے ایک اور سیاسی جماعت جو مذہب کی سیڑھی سے اوپر جاتی تھی اور باربار گر جاتی تھی‘ نکالی۔ معلوم ہوا کہ یہ مذہبی جماعتیں جو عرصہ سے سیاست کر رہی تھیں اور ناکام و نامراد ہو رہی تھیں‘ کھلاڑی کی پشت پر تھیں۔ ایک صوبے میں حکومت بنانے کے لیے ایک ایسی سیاسی جماعت کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا جو سالہا سال سے الیکشن ہارتی آ رہی تھی اور سوائے مارشل لا کے‘ کبھی پھلی پھولی نہیں تھی۔ اس کے بعد جو کچھ اہلِ مدرسہ نے کہا‘ کھلاڑی نے آمناوصدقنا کہا اور الاپنا شروع کردیا۔ مذہبی جماعتوں نے تیسری قوت کا سبق پڑھایا تو وہ رٹ لیا۔ مذہبی جماعتوں نے سکھایا کہ فلاں کا نام نہیں لینا۔ اس نے نہ لیا۔ ان جماعتوں نے ہدایت کی کہ ہلاک کرنے والے‘ کھوپڑیوں سے فٹ بال کھیلنے والے‘ بچوں اور عورتوں کو مارنے والے ہمارے اپنے ہیں۔ اس نے کہا ہمارے اپنے ہیں۔ پھر اُسے یہ سکھایا گیا کہ یہ اغوا برائے تاوان‘ یہ بھتہ گیری ضروری ہے۔ اس نے بھول کر بھی اغوا برائے تاوان اور بھتہ گیری کی مذمت نہ کی‘ نہ ہی کبھی یہ کہا کہ معصوم شہریوں کو اغوا کرنے والے قوم کے دشمن ہیں۔ پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ دارالحکومت کچہری میں لاشوں کے انبار لگ گئے۔ لیکن اُس نے کھل کر مذمت تک نہ کی۔ 
مڈل کلاس… پڑھی لکھی مڈل کلاس کو اب معلوم ہوا کہ وہ دھوکا کھا چکی ہے۔ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سب کچھ کرنے والوں کو وہ ہمیشہ مسترد کرتی آئی تھی۔ لیکن مڈل کلاس کے ساتھ عجیب و غریب کھیل کھیلا گیا۔ جس شخص کے بارے میں اس دھوکے کا وہم و گمان بھی نہ کیا جا سکتا تھا‘ وہی مذہب کا لبادہ اوڑھنے والوں کا خفیہ نمائندہ نکلا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com