Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 31, 2009

اوقات

پہلا منظر: … کون کہتا ہے کہ بچوں کی شادیاں کرنے کے بعد فراغت ہو جاتی ہے۔ میرا حال تو یہ ہے کہ کئی مہینوں سے بھمبھیری کی طرح چکر پہ چکر کھا رہی ہوں۔ پہلے دو ماہ ٹورنٹو رہی' رضیہ کے ہاں بچے کی ولادت تھی۔ آئی تو کراچی جانا پڑا۔ بیٹے اور اسکے بچوں کو ملے بہت دن ہو گئے تھے۔ اگرچہ یہ پیچھے بیمار تھے لیکن میں نے یہی کہا کہ نوکر آپکو سنبھال لے گا۔ اب بچوں ہی کیلئے ہے آخر ہماری زندگی جو تھوڑی بہت بچ گئی ہے۔ کراچی سے واپس آئی تو شاہدہ اور اسکے بچوں کو بلایا' کئی مہینوں سے بچے ننھیال نہیں آئے تھے۔ اگرچہ شاہدہ کے میاں کی سخت مصروفیت کے دن تھے اور اس کا کہنا تھا کہ ذہنی تنائو کے ان ایام میں بیوی کا اُسکے پاس ہونا ضروری ہے لیکن میں نے داماد کو سمجھایا کہ شاہدہ کو آنے دے۔ پندرہ دن ہی کی تو بات ہے۔ شاہدہ کے ابو کی تو اپنی مصروفیات ہیں۔ صبح گھر سے نکل جاتے ہیں۔ کبھی اس دوست کے پاس' کبھی اُس دوست کے پاس۔ شام کو آتے ہیں۔ ویسے اگر دن کو گھر رہیں بھی تو میں تو بچوں میں الجھی ہوئی ہوتی ہوں۔ میں شاہدہ کے ابو کو وقت بھی کہاں دے سکتی ہوں۔ بچوں کو نہلانا' سلانا' ہزار دھندے ہیں۔ اُدھر احمد بلا رہا ہے کہ جدہ آؤں اور کچھ دن رہ آؤں۔ ہو سکتا ہے میں نہ جا سکوں اور اسکے ابو چلے جائیں۔
دوسرا منظر:… رچرڈ سولہ سال کا ہوا تو گھر سے نکلا دو سال تک تو ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ وہ کہاں ہے۔ ایک دن وہ آیا اور اس نے بتایا کہ الاسکا میں ہے اور وہ اور اس کی پسندیدہ لڑکی دونوں آئل کمپنی کے دفتر میں ایک اوسط درجے کی ملازمت کر رہے ہیں۔ اب تو اسکے دو بچے بھی ہیں۔ کرسمس پر رچرڈ ہمیں باقاعدگی سے ملنے آتا ہے۔ اگرچہ پچھلے تین سال سے ملاقات نہیں ہوئی دو بار تو کرسمس پر میں اور اسکے ڈیڈی یہاں نہیں تھے ہم سیر کیلئے ایک سال تو جاپان چلے گئے دوسرے کرسمس پر ہم یورپ میں تھے۔ اس سال ہم نے کرسمس یہیں منایا لیکن اب کے رچرڈ اور اس کی بیوی برازیل میں تھے۔
یہ دو منظر دو انتہائیں ہیں۔ ایک انتہا پر ہمارا معاشرہ ہے اور دوسری انتہا پر مغرب کا سماج ہے لیکن یہاں بھی اہلِ مغرب انتہا پسندی کی غلطی کرنے کے باوجود ہم سے زیادہ عقل مند نکلے۔ ہم تو بچوں پوتوں نواسوں بیٹیوں کی خدمت اور پذیرائی میں اتنی دور نکل گئے کہ بنیادی اکائی … میاں بیوی کی باہمی وابستگی … ہی کمزور کر دی بلکہ عملاً ختم کر دی۔ مغرب میں شادی کو جوں جوں زیادہ عرصہ گزرتا ہے' باہمی وابستگی زیادہ گہری ہوتی جاتی ہے اور احساسِ رفاقت گھنا ہوتا جاتا ہے۔ یہاں اس کا الٹ ہے۔ ماں ایک بیٹے کے پاس ہے تو باپ دوسری بیٹی کے ہاں گیا ہوا ہے۔ مہینوں ملاقات ہی نہیں ہوتی۔ دادی پوتوں پوتیوں میں الجھی ہوئی ہے۔ اپنا ہوش ہے نہ بوڑھے میاں کا' بوڑھا میاں دن بھر دوستوں کے پاس وقت نہ گزارے تو کیا کرے۔ وہی بوڑھا … جو کبھی بیوی کا منظورِ نظر ہوتا تھا اور وی آئی پی ہوتا تھا آج ترجیحات میں آخری نمبر پر آ گیا ہے۔ بیٹے بہو پوتے پوتی کے بعد اسکی باری آتی ہے۔ شادی شدہ بیٹے اور بیٹی کی زندگی الگ اجیرن کر دی جاتی ہے۔ کبھی داماد پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ بیوی کو میکے بھیجے' کبھی بہو کے ہاں جا کر اتنا طویل قیام ہو رہا ہے کہ بہو آزمائش ہی میں پڑ گئی ہے۔ حماقت کی انتہا یہ ہے کہ وہ اولاد جو کبھی آئی نہ آئیگی۔ اس کیلئے سو سال کی رہائش کا انتظام ہو رہا ہے۔
میں ایک ایسے بدقسمت بوڑھے کو جانتا ہوں جس نے بارہ بیڈ روم کا گھر … کھڑے ہو کر … بنوایا۔ اس مشقت سے دھواں اُسکے سر اور پائوں کے تلووں … دونوں جگہ سے مرغولے بنا بنا کر نکلنے لگا۔ گراں ترین محلِ وقوع میں جب کروڑوں کا محل تیار ہو چکا تو ایک بیٹے نے امریکہ سے واپس آنے سے انکار کر دیا اور دوسرے نے کراچی ہی میں رہنے پر اصرار کیا۔ بڑے میاں کو پہلے دل کا عارضہ ہوا اور پھر روح کا اٹیک ہوا۔ ہاں … جانے سے پہلے وہ گھر کو اتنی بددلی سے بیچ چکے تھے جیسے آسیب زدہ مکان کو اونے پونے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ وہی مکان جو یہاں ڈیڑھ سال میں بنتا ہے امریکہ اور کینیڈا میں چار ماہ میں بن جاتا ہے۔ اس لئے کہ وہاں اگلی نسلوں کیلئے نہیں بلکہ رواں لمحے کیلئے بنوانا ہوتا ہے اور یہ حماقت دیکھئے کہ عسرت اور تنگدستی سے عمر کا آخری حصہ گزاریں گے اور دھات … کرنسی … چیک بک اور سریے اور سیمنٹ کے مقبرے … سب وارثوں کیلئے چھوڑ جائینگے اور وارث جائیداد میں اتنے منہمک ہونگے کہ رفتگاں کیلئے انکے پاس دعا کا وقت بھی نہیں ہوگا۔ ایک بزرگ کہہ رہے تھے کہ اُنکی اولاد ان پر توجہ نہیں دے رہی۔ انہیں ایک عقل مند نے مشورہ دیا کہ آپ اور آپکی بیگم ابھی تندرست ہیں اور اللہ نے دیا بھی بہت کچھ ہے' اس بہت کچھ کو اپنے اوپر خرچ کریں اور جائیں' دو تین ملکوں کی سیر کر کے آئیں۔ اللہ کی زمین وسیع ہے اولاد کا پیچھا کچھ دن چھوڑیں گے تو انہیں خود ہی احساس ہو جائیگا کہ ہم سے کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔ لیکن جس معاشرے میں بیوی کا مقام منکوحہ سے زیادہ نہ ہو' وہاں احساسِ رفاقت کیسے جنم لے گا؟ مغرب کے طرزِ زندگی میں ہزار کیڑے نکالیں' یہ تو ماننا پڑیگا کہ وہاں میاں بیوی ' میاں بیوی کیساتھ ساتھ دوست ' ہمسفر اور پارٹنر بھی ہوتے ہیں۔ وہاں بھی دادیاں نانیاں پوتوں اور نواسیوں سے پیار کرتی ہیں' انہیں اپنے گھر میں لاتی ہیں اور انہیں ملنے جاتی ہیں لیکن خاندان کی بنیادی اکائی میاں بیوی کی باہمی وابستگی قائم و دائم رہتی ہے۔ میاں پہلے بیوی کا ہے اور بعد میں اولاد اور اولاد کی اولاد کا۔ اسی طرح بیوی کی پہلی ترجیح اس کا شوہر ہے باقی سب کچھ بعد میں … اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اُن کا جذباتی انحصار اولاد پر نہیں بلکہ ایک دوسرے پر ہوتا ہے !
بچے اپنے اپنے گھروں کے ہو جائیں تو ہر قسم کی احتیاج سے بچنا چاہئے۔ احتیاج تین قسم کی ہوتی ہے۔ مالی احتیاج ' جسمانی احتیاج اور جذباتی احتیاج ۔ احتیاج کی تینوں اقسام سے خدا کی پناہ مانگتے رہنا چاہئے۔ ان میں بدترین احتیاج جذباتی ہے۔ اگر بڑھاپے میں بنیادی اکائی … قائم ہے تو اولاد کا تغافل اور عدم توجہ برداشت ہو سکتا ہے لیکن جہاں اولاد بھی غافل اور بے نیاز ہو' اور میاں بیوی کی بُوتھیاں بھی مخالف سمتوں میں ہوں' وہاں جذباتی احتجاج بہت جلد اپاہج بنا دیتی ہے اور جسمانی احتیاج کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسے میں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ بڑے میاں نے خود اپنے والدین سے کیا برتائو کیا تھا۔ اس لئے کہ زمین پھر رہی ہے اور پھر کھا کر وہیں آتی ہے جہاں سے گزری تھی !
مغرب میں خاندان کا ادارہ کمزور ہوا اور بوڑھوں کی دیکھ بھال میں کمی آئی تو اہلِ مغرب نے اولڈ ہوم کی صورت میں ایک نعم البدل تلاش کر لیا۔
نافرمان اولاد کی دہلیز پر گرنے کے بجائے ایک باعزت ٹھکانہ مل جاتا ہے ہم اولڈ ہوم کے تصور پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں لیکن بوڑھوں کیساتھ دن بدن حسُنِ سلوک میں کمی واقع ہو رہی ہے جو اولاد خود اپنی خوشی سے ماں باپ پر توجہ نہ دے اور جنہوں نے پوتوں اور نواسیوں کیلئے بھی بہت کچھ کیا ہو جب اُن کیلئے کچھ کرنے کا وقت آئے اور کوئی نہ کرے تو انہیں کچھ کہنے احساس دلانے یا اپنے منہ سے مانگنے کے بجائے اولڈ ہوم جیسی پنا گاہیں' ان کیلئے دس گنا بہتر ہوتی ہیں اس لئے کہ بقول ظفراقبال…
؎

جس آب رود کی اوقات چند قطرے ہو
تو اُس میں تیرنا کیا اُس میں پائوں دھرنا کیا

Thursday, March 26, 2009

نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم

میری اس سے کوئی دشمنی نہیں ہے
میرا آخر اس سے کیا جھگڑا ہے؟
میں ایک عام کالم نگار جس کے پاس جاہ و حشم ہے نہ کروفر تو دور کی بات ہے۔ دو وقت کی روٹی پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور کل کیلئے توکل کرتا ہوں۔
اور… وہ … ایوان میں دیوان پر متمکن بادشاہوں کیساتھ کندھا ملا کر چلنے والا اقتدار کی راہداریوں میں چہل قدمی کرنیوالا کم خواب اور حریر و اطلس جس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ جہازی سائز کی لیموزین جس کیلئے چوبیس گھنٹے وسیع و عریض پورچ میں کھڑی ہیں خدام جس کے اشارے پر جیسے ہوا میں تیرتے ہوئے آتے ہیں۔
میرا اور اس کا کیا مقابلہ؟
میری بات گلی کا چوکیداربھی توجہ سے نہیں سنتا اور اس کے ایک اشارے پر ہلچل مچ جائے وہ کسی وزیر کسی وفاقی سیکرٹری' کسی صوبائی میر منشی' کسی سیٹھ' کسی جاگیردار' کسی صنعت کار کو ابرو کا اشارہ بھی کر دے تو کچے دھاگے سے بندھا چلا آئے۔
میرا اور اس کا کیا مقابلہ
میرا اور اس سے کیا جھگڑا
نہ ہماری جائیداد مشترکہ نہ ہمارے گھروں کی دیواریں سانجھی نہ ہماری رشتہ داری' نہ ایک دوسرے کے شریک' میں نے تو اسے دیکھا بھی نہیں' جن راہداریوں پر وہ حریر و اطلس اوڑھے چہل قدمی کرتا ہے میں نے تو وہ طلسمی راہداریاں خواب میں بھی نہیں دیکھیں۔
لیکن قدرت کے کام بھی عجیب ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود میں اس سے شدید نفرت کرتا ہوں اور میں حیران ہوں کہ میری اس سے آخر کیا دشمنی ہے؟
حد یہ ہے کہ میں جتنی نفرت بنگال کے میر جعفر اور میسور کے میر صادق سے کرتا ہوں اس شخص سے اس سے بھی زیادہ کرتا ہوں۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ میر جعفر اور میر صادق ایک گلے سڑے موروثی نظام کا ردعمل تھے۔ ایسا موروثی نظام جس میں نواب اور شہزادے رعایا کو زرخرید غلام سمجھتے تھے۔ لیکن یہ شخص جس سے میں شدید نفرت کرتا ہوں کسی نواب کی رعایا بھی نہیں تھا اور نظام بھی۔ اگرچہ تازہ ہوا کا جھونکا نہیں تھا لیکن دو سو سال پہلے والے نظام کی نسبت بدرجہا بہتر تھا! اس شخص کیلئے تو میدان ہموار تھا۔ اگر وہ اتنا ہی کہہ دیتا کہ نہیں! میں کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتا تو لوگ اسے بھی آنکھوں پر بٹھاتے اس کیلئے بھی پہروں سڑکوں پر کھڑے رہتے اس کیلئے بھی ریاستی اداروں کا تشدد برداشت کرتے اور حکومت کے ایوانوں کے بام اور اس کے نام سے بھی کانپتے۔
لیکن افسوس! اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے گھاٹے کا سودا کیا۔ اس نے سترہ کروڑ عوام کی گردنوں پر پائوں رکھا اور اس مسند پر بیٹھ گیا جو مقدس تھی۔ افسوس! اس نے اس مسند کی تقدیس خاک میں ملا دی۔ زار روس نے انیسویں صدی کے نصف آخر میں وسط ایشیا پر قبضہ کیا تو روسی جرنیلوں نے ظلم کی انتہا کر دی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نمنگان (فرغانہ) کی ایک مسجد میں یہ اہتمام کیا گیا کہ جب نماز کے دوران نمازی سجدے میں ہوں تو روسی جرنیل انکے اوپر سے گزرے چنانچہ حکم ہوا کہ سجدے سے کوئی نہ سر اٹھائے جرنیل (جس کا نام بھول رہا ہوں) صف کے ایک سرے سے سجدہ ریز گردنوں پر پائوں رکھتا ہوا صف کی دوسری طرف پہنچ گیا۔ یہ شخص بھی اگرچہ جرنیل نہیں تھا لیکن روسی جرنیل بن گیا سترہ کروڑ عوام کی گردنوں پر پائوں رکھتا یہ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچا۔ آ گے مسند تھی اس پر بیٹھ گیا۔ چوبدار کھڑے ہوگئے سنگینیں اسکی حفاظت کیلئے دیوار بن گئیں لیکن افسوس! موصوف نے یہ نہ دیکھا کہ مسند کا کمرہ جس صحن میں کھل رہا تھا وہاں الائو جل رہے تھے۔ ہر طرف آگ تھی۔ دھواں تھا اور اب یہ صاحب آگ اور دھوئیں میں کھڑے ہیں۔ ہر مسند جس پر غاصبانہ قبضہ کیا جائے آگ کی طرف لے جاتی ہے۔ کالے دھوئیں میں سانس لینا محال ہو جاتا ہے آگ کی تلخی گلے میں رچ بس جاتی ہے اور فرشتے کہتے ہیں! …''چکھ۔ تو بڑا ہی عزت دار تھا''
ایک سال چار ماہ اس سے کچھ زیادہ یا اس سے کم یہی مدت تھی نا اقتدار کی! آقائوں کی کفش سرداری کی! چوبداروں کی اور پہریداروں کی! سنہری پیٹی اور شملے والے دربان کی! اور اسکے بدلے میں تاریخ کی کبھی نہ ختم ہونیوالی مذمت گھاٹے کا کاروبار کیا اس شخص نے … صفر ہوگیا۔ آنکھوں پر زرتار پردہ پڑ گیا۔ دل پر چھوٹا سفید نقطہ پھیلتے پھیلتے دائرہ بن گیا۔ فاعتبرو! یا اولی الابصار! عبرت حاصل کرو اے آنکھوں والو! عبرت پکڑو!
اس شخص نے ہمارا سفر لمبا کیا۔ ہمارا راستہ کھوٹا کیا۔ یہ اپنی بھی تاریخ بنا سکتا تھا اور ہماری بھی! لیکن
مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی اور تو اور اس نے اپنی دختر نیک اختر کو بھی تنازعوں کے عین درمیان میں کھڑا کر دیا مسند کا تقاضا تھا کہ بیٹی کو واشگاف الفاظ میں کہتا کہ میڈیکل کالج میں داخلہ ملے یا نہ ملے' میں اپنے منصب کا ناجائز استعمال نہیں کروں گا لیکن اس نے منصب کو دھاندلی کے لئے استعمال کیا۔
ظلم کی حد کر دی اور بیٹی کو سائے میں بٹھانے کے بجائے دھوپ میں کھڑا کر دیا۔
لیکن میر جعفر اور میر صادق ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ جب امام مالک نے عباسی خلیفہ کی بات نہیں مانی ا ور اس کی مرضی کا فتویٰ دینے سے انکار کیا تو تذلیل کرتے ہوئے انہیں شہر میں پھرایا گیا اور وہ بلند آواز سے کہتے جاتے تھے کہ جو جانتا ہے وہ تو جانتا ہے۔ جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں مالک ابن انس ہوں اور میں نے یہ فتویٰ دیا ہے جب کہ خلیفہ کچھ اور چاہتا ہے تو کیا اس وقت بکنے والے قاضی نہیں ملے ہوں گے؟ بے شمار مل گئے ہونگے لیکن آج ان کا نام کوئی نہیں جانتا اور مالک ابن انس کا تذکرہ پورے عالم اسلام میں ایک دن میں کتنی بار ہوتا ہے؟ شمار مشکل ہے۔
جب ابو حنیفہ نے چیف جسٹس بننے سے انکار کیا تھا اور زدان میں گئے تھے اور بازو کندھوں سے اکھڑ گئے تھے اور زہر سے شہادت واقع ہوگئی تھی تو کیا چیف جسٹس کی مسند خالی رہ گئی تھی؟ نہیں! لیکن جو بھی بنا تھا' تاریخ کی دھول اسکے نام کو دفن کر چکی ہے اور امام جعفر صادق کے ہونہار شاگرد اور سادات کی تحریک کی چھپ کر مالی معاونت کرنیوالے امام ابو حنیفہ کا نام ہر روز ہر گھر میں لیا جاتا ہے! لوگ فخر سے اپنے بچوں کے نام ٹیپو رکھتے ہیں لیکن دکن کے جس نظام نے ٹیپو سے جنگ کرنے والے انگریزوں کی مدد کیلئے فوجی دستہ بھیجا تھا اس نظام کا نام بھی کوئی نہیں جانتا! تاریخ کو ہر دور میں کٹھ پتلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ ان کٹھ پتلیوں کے ساتھ بعد میں جو سلوک کرتی ہے' خدا زہر سے بھرے ہوئے سانپ کو بھی اس سلوک سے بچائے' مشرق کے شاعر نے بات ہی ختم کر دی۔
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ ملت' ننگ دیں' ننگ وطن
اور ساقی فاروقی نے نہلے پر دہلا لگایا ہے۔
ان موزیوں پہ قہر الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم

Tuesday, March 24, 2009

اے اہل ِ وطن !

یہ ایک تصویر تھی جو میں نے دیکھی اور میں دل گیر ہوا۔
میں دل گیر ہوا کہ کیا ہماری تقدیر یہی ہے؟
یہ تصویر کیا ہے، ہماری ساٹھ سالہ تاریخ کا نچوڑ ہے۔ ہماری نفسیات، ہماری معاشرت، ہماری ذہنی سطح، ہماری ذہنیت کا اس سے بہتر اور جامع تر ذکر ناممکن ہے۔
اس تصویر میں کوئی خاص بات بھی نہیں۔ یہ عبدالرحمان چغتائی کے موقلم کا شہکار ہے نہ مغل منی ایچر کا نمونہ ہے۔ اس میں عام رنگ ہیں نہ آئل کلر ہیں اگر دیکھو تو ایک عام تصویر ہے جو پاکستان کے ہر گلی کوچے کی ہر وقت کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر سمجھو تو یہ تصویر پاکستان کا سب کچھ ہے۔ پاکستان کی تاریخ بھی جغرافیہ بھی قسمت بھی، ماضی بھی حال بھی اور جانِ استقبال بھی!کیا ہے اس تصویر میں؟ ایک عام پاکستانی ہے۔ اس کے چہرے پر کرب اور الم نظر آ رہا ہے۔ درد کی شدت سے دانت نظر آ رہے ہیں۔ آنکھیں بند ہیں۔ گال کنپٹیوں تک کھینچے ہوئے ہیں۔ کندھے جْھکے ہوئے ہیں اس پر قیامت گزر رہی ہے افسوس! کہ قیامت آ نہیں رہی۔ وہ تین آدمیوں کے نرغے میں ہے۔ تینوں نے اسے قابو میں کر رکھا ہے۔ تین میں سے ایک پولیس کی وردی میں ہے دو ''سفید'' کپڑوں میں ہیں۔ ان دو سفید کپڑوں والوں میں سے ایک نے اسے پکڑا ہوا ہے۔ دوسرا سفید کپڑوں والا اس کے سر کے بال پوری طاقت سے کھینچ رہا ہے۔ اتنی طاقت سے کہ سفید کپڑوں والے کا چہرہ بتا رہا ہے کہ اپنے جسم کا پورا زور لگا رہا ہے۔ وردی والا بھی بال کھینچ رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سفید کپڑوں والے نے بال سر کے اوپر سے پکڑ رکھے ہیں اور وردی والے نے سر کے پچھلے حصے سے بال پکڑ رکھے ہیں۔ دونوں کھینچ رہے ہیں اور جس کے بال کھینچے جا رہے ہیں وہ اذیت سے بلبلا رہا ہے۔ لیکن تصویر کا شہکار حصہ یہ نہیں۔ شہکار یہ ہے کہ ساتھ تین وکیل کھڑے ہیں، ان کے چہروں پر زمانوں اور جہانوں کا کرب ہے۔ قیامت کی بے بسی ہے، ہائے۔ ایسی بے کسی ہے کہ فنونِ لطیفہ کی پوری تاریخ میں غم کی ایسی تصویر کشی کسی نے نہیں کی۔ کیا لیونارڈو ڈا ونسی کیا مانی اور کیا بہزاد۔ ایسا شہکار کسی نے نہیں بنایا!۔
ان تین بے بس وکیلوں کے پیچھے پاکستان کے عام شہری کھڑے ہیں۔ حیرت سے انکے منہ کھلے ہیں۔ دہشت سے انکی آنکھیں پھٹ رہی ہیں۔ قوت و جبروت کے سامنے سب بے بس ہیں۔ اور یہ بے بس جو تصویر میں نظر آ رہے ہیں، تصویر واضح کر رہی ہے کہ ان کے علاوہ اور بھی بے بس وہاں کھڑے ہیں لیکن وہ سارے تصویر میں نہیں آئے۔بس… یہ ہے پاکستان کی تاریخ، معاشرت اور پاکستان کا مستقبل… اس سے ایک ذرہ زیادہ نہ اس سے ایک نقطہ کم…
کراچی میں بارہ مارچ 2009ء کو یہ شخص جس کے بال کھینچے جا رہے ہیں، جو نرغے میں ہے اور جو چھ بازوؤں اور چھ ہاتھوں میں جکڑا ہوا ہے، یہ شخص پاکستان ہے، جس کے باسٹھ سالوں سے بال کھینچے جا رہے ہیں، اذیتیں دی جا رہی ہیں اور جو مسلسل نرغے میں ہے۔ یہ شخص پاکستان کا عوام ہے۔ یہ ہاری ہے، کسان ہے، مزدور ہے، طالب علم ہے، مڈل کلاس ہے پڑھا لکھا ہے، مڈل کلاس کی اور پڑھے لکھوں کی یہی وہ حالت ہے جس سے تنگ آ کر لاکھوں مڈل کلاسیے، لاکھوں پڑھے لکھے دوسرے ملکوں کو ہجرت کر گئے ہیں۔ وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ان کی ذہانت، علم اور ہنر سے دوسرے ملک بہرہ ور ہوتے رہیں گے اور بال کھینچنے والے اس ذہانت علم اور ہنر سے ملک کو محروم رکھیں گے۔
لیکن یہ تین کون ہیں؟ یہ ہے اصل سوال۔ یہ تین … انہوں نے وردی پہن رکھی ہے یا ''سفید'' لباس میں ہیں… اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو مہرے ، یہ تو ملازم ہیں، جنہوں نے ان تینوں کو اسی کام پر مامور کیا ہے، انہیں شناخت کرنے کی ضرورت ہے اور ان کی شناخت ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ تین وہ ہیں جنہوں نے پہلے دن سے ملک پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ یہ تین کبھی یونینسٹ پارٹی تھے، پھر ری پبلکن پارٹی بنے، پھر کونسل مسلم لیگ بنے اور پھر یہ تین ہی تو ہیں جو قاف لیگ تھے! یہی تین تو ہیں جنہوں نے جرنیلوں کو دس دس بار ''منتخب'' کروانے کی خوشخبری دی تھی۔ یہی وہ ہیں جو کابینہ میں تھے اور چینی کا بحران جنم دے رہے تھے۔ پھر ان تین کے مالکوں ہی نے آٹا غائب کیا اور اب بجلی سے عوام کو محروم کر رہے ہیں اور خود جولائی میں رضائیاں اوڑھ کر سوتے ہیں۔
یہ تین شخص… جو ہمارے بال کھینچ رہے ہیں، وہ جرنیل جو ریٹائرمنٹ کے بعد کروڑوں میں کھیل رہے ہیں، وعظ کرتے ہیں مضامین لکھتے ہیں، ٹی وی پر تقریریں کرتے ہیں لیکن ان کے اثاثوں کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ تین شخص وہ ڈکٹیٹر ہیں جو اس ملک کے ماتھے پر کلنک کا نشان ہیں۔ یہ تین ان ڈکٹیٹروں کی اولاد ہیں جو پیرانِ تسمہ پا کی طرح ہماری گردنوں پر سوار ہیں۔ ہمارے مالک ہیں سراپا تکبر ہیں۔ ''میں'' ان کا تکیۂ کلام ہے۔ دولت ان کی لامحدود ہے اور ذریعہ معاش ان کا نامعلوم ہے!
یہ تین شخص… بال کھینچنے والے… اذیت پہنچانے والے۔ جن کے چہروں پر سفاّکی ہے… وہ پیر ہیں جن کے گھر روشن ہیں اور جن کے مریدوں کو مٹی کا دیا بھی میسر نہیں۔ جن کے اخراجات مہینہ وار ان کے خلیفے چلاتے ہیں اور جو لوگوں کو باور کراتے ہیں کے اندھا انہیں دیکھے تو دیکھنے لگ جائے اور گناہگار دیکھے تو بخشا جائے۔ یہ تین وہ مولوی ہیں جن کی زندگی کا پہلا اور آخری مقصد وزارت لینا ہے اور مراعات کا حصول ہے اور جن کی عزت نفس اتنی بھی نہیں جتنی کسی چوپائے کی ہوتی ہے اور جنہیں معلوم ہے کہ لوگ ان سے شدید نفرت کرتے ہیں اوران کی ہنسی اڑاتے ہیں۔ یہ تین مدرسوں کے وہ ''مالکان'' ہیں جن کی آمدنی اور خرچ لامحدود ہے، جو مدرسوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو قلیل ترین تنخواہیں دیتے ہیں۔ وہ اساتذہ… جو تنگ و تاریک مکانوں میں رہتے ہیں اور رات دن قال اللہ اور قال الرسول پڑھاتے ہیں اور غربت میں زندگی گزارتے ہیں لیکن مالکوں کے ''صاحبزادگان'' شہزادوں کی طرح رہتے ہیں!۔
اور یہ تین بے بس بے کس وکیل… یہ قانون ہے۔ جو پامال ہوتا ہے۔ جو ہمارے عوامی نمائندوں ہمارے جرنیلوں ہمارے جاگیرداروں اور ہمارے حکمرانوں کے گھر کی لونڈی ہے۔ ہاتھ کی چھڑی ہے اور جیب کی گھڑی ہے ان کی ''حفاظت'' کے لئے شاہراہیں گھنٹوں بلکہ پہروں بند کر دی جاتی ہیں، ہسپتالوں کو جانے والے مریض مر جاتے ہیں۔ عورتوں کے بچے سوزوکی ڈبوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ زچے بچے شہید ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی ابھی تک نہیں بھولے کہ پنجاب کے قائم مقام گورنر کے لئے ٹریفک بند کردی گئی تھی اور سیالکوٹ اور وزیر آباد کے قریب ایک نوجوان… جو بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس آنے کی غلطی کر بیٹھا تھا۔ ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے وفات پا گیا تھا اور اس کا کسی نے ماتم تک نہیں کیا تھا۔ جنرل مشرف جب بھی کراچی گئے، کئی مریض سڑکوں پر مر گئے لیکن مڈل کلاس لیڈر شپ کا دعویٰ کرنے والوں نے احتجاج تک نہ کیا۔ عوامی نمائندوں کا ٹریفک چالان کرنے والے پولیس کے سپاہی سزا پاتے ہیں اور یہ مسلسل ہو رہا ہے۔ کسی کان کی لو سرخ ہوتی ہے نہ کوئی آنکھ جھپکی جاتی ہے۔ یہ بے بس وکیل… وہ قانون ہے جو اس ملک میں صرف کمزوروں کیلئے ہے۔ چیف جسٹس کی بیٹی اس سے مستثنیٰ ہے اور بہت سے دوسرے مستثنیٰ ہیں۔
اور اے اہل وطن! جو لوگ مسلسل تمہارے بال کھینچ کر تمہاری تذلیل کر رہے ہیں، تمہیں اذیت دے رہے ہیں۔ انہیں پکڑو… خدا کے لئے انہیں پکڑو… ورنہ کل تمہارے بچوں اور تمہاری بیٹیوں کے سروں کے بال بھی ان کے ہاتھوں میں ہوں گے!

Thursday, March 19, 2009

مائی لارڈ

مائی لارڈ! عالی مرتبت چیف جسٹس جناب افتخار چودھری! میں نہایت احترام کے ساتھ' سینے پر ہاتھ باندھ کر… ادب سے گردن خم کر کے عرض گزار ہوں اور پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ کیا ڈیڑھ سالہ ہاشم کا مستقبل اب اِس ملک میں محفوظ ہے؟
مائی لارڈ…! ڈیڑھ سالہ ہاشم جس کا ماموں وطن چھوڑ کر دُور کے ایک ایسے دیس میں جا بسا ہے جہاں انصاف کا دور دورہ ہے۔ وہ ماحول کے ایک شعبے میں طِب کا ماہر ہے یعنی SPECIALIST فزیشن ہے جس کا پاکستان میں وجود تو کیا ہو گا' تصور ہی نہیں ہے۔ ELDERLY MEDICINE یعنی بوڑھوں کا ڈاکٹر۔ اس بہت بڑے نوجوان ڈاکٹر نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ بے بس ہو کر کیا تھا جب اُس نے دیکھا کہ اُس کے بوڑھے باپ کے ساتھ جس نے دیانتداری کے ساتھ حکومتِ پاکستان کی ملازمت کی تھی' ریٹائرمنٹ پر کیا سلوک ہوا تھا۔ جب اُس نے دیکھا کہ ریٹائر ہونے والے کروڑ پتی اور شراب میں نہانے والے فرعون صفت افسروں کو دو دو لاکھ مہینے کی ملازمتیں دی گئیں اور اس کے باپ کو۔ جس کی شہرت ان سب سے بہتر تھی' اور جس نے ریاست کے لئے اربوں کھربوں روپے بچائے تھے' ٹھوکروں پر رکھا گیا۔ اُس نوجوان ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ آج اُس کا باپ کسی عدالت میں نہیں جا سکتا۔ تو میں کل کیا کر سکوں گا؟ اُس نے ملک چھوڑ دیا اور پاکستان ایک ایسے ماہر ڈاکٹر سے محروم ہو گیا جو سسکتے بلکتے مریضوں کے لئے معجزے برپا کر سکتا تھا!
مائی لارڈ! جناب چیف جسٹس افتخار چودھری! کیا ڈیڑھ سالہ ہاشم کے بڑے ہونے تک اس ملک کے نوجوان… اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کر سکیں گے؟
عالی مرتبت! اس قوم کے ساتھ پہلا ظالمانہ مذاق اُس وقت کیا گیا تھا جب یونینسٹ پارٹی کو اٹھا کر پورے کا پورا مسلم لیگ میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس ملک کے ساتھ دوسرا ظالمانہ مذاق اُس وقت کیا گیا تھا جب وزیراعظم جناب لیاقت علی خان کو لاہور میں دو فہرستیں پیش کی گئی تھیں۔
حکومت نواب ممدوٹ کی تھی۔ ایک فہرست میاں ممتاز دولتانہ نے پیش کی تھی کہ پنجاب اسمبلی میں یہ میرے حامی ہیں۔ دوسری فہرست وزیراعلیٰ نواب ممدوٹ نے پیش کی تھی کہ یہ میرے حامی ہیں۔ دونوں فہرستوں میں سات نام مشترک تھے۔ کاش اُس وقت اُن سات منافقوں کو برہنہ کر کے عوام کے سامنے لایا جاتا اُنہیں عبرتناک سزا دی جاتی اور یہ قوم وفاداریاں بدلنے والے سانپوں بھیڑیوں اور بچھوئوں سے محفوظ رہتی لیکن افسوس! ایسا نہ ہوا۔ اس ملک کے ساتھ تیسرا ظالمانہ مذاق اُس وقت کیا گیا جب بھارت میں زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں' ریاستوں' جاگیروں اور زمینداریوں کی ارتھی جلائی گئی لیکن پاکستان میں جاگیردار اور سردار دن دوگنی رات چگنی ترقی کرتے گئے' یہاں تک کہ کہنے والوں نے یہ تک کہنا شروع کر دیا کہ جاگیردار کانگریس کے پاس گئے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد زرعی اصلاحات نہ کرو۔ کانگریس نے انکار کر دیا' مسلم لیگ نے زرعی اصلاحات نہ کرنے کا یقین دلایا اور وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ آج فوجی افسر بھی زمیندار ہو گئے ہیں اور شہری سیاستدان بھی فیوڈل بن رہے ہیں!
مائی لارڈ! یہ قوم باسٹھ سال سے انتظار کر رہی ہے کہ کوئی آئے اور انہیں چوہدریوں' خانوں' میروں' پیروں' لغاریوں' مزاریوں' جتوئیوں' سرداروں اور اربابوں سے نجات دلائے۔ کوئی آئے اور وہ کرسیاں جن پر دادا کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا بیٹھتا ہے' وہ کرسیاں توڑ ڈالے۔ مائی لارڈ! اس قوم کے بیٹوں نے آپ کی بحالی کیلئے اپنے سروں پر پتھر اور لاٹھیاں کھائی ہیں اور بندوقوں کے بٹ اور سنگینوں کی نوکیں برداشت کی ہیں' اس لئے نہیں کہ آپ انکے رشتہ دار ہیں اس لئے کہ آپ اندھیرے میں امید کا چراغ ہیں۔ مائی لارڈ! عوام چاہتے ہیں کہ مجرم کٹہرے میں کھڑے ہوں اور اُن سے وصولیاں کی جائیں۔ وصولیاں مائی لارڈ! وصولیاں۔ مائی لارڈ RECOVERIES۔ جرنیلوں کی اولاد جو کھربوں کی مالک ہے اور سیاست کے افق پر اندھیرے بادل کی طرح چھائی ہوئی ہے۔ ریٹائرڈ جرنیل جو لاطینی امریکہ کے ڈکٹیٹروں کے معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ خالی خزانہ اُن سے وصولیاں مانگتا ہے۔ مائی لارڈ! جو فوجی ڈکٹیٹروں کو دس بار ''منتخب'' کروانا چاہتے تھے انہیں کٹہرے میں لایا جائے۔ جنہوں نے وزیراعظم بن کر فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے بھرتی کے اختیار واپس لئے اور اب بھرتی کی فہرستیں محکموں کے ''اوپر'' سے دی جاتی ہیں' انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ جنہوں نے پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کو جعلی حلقۂ انتخاب دیکر اس بدبخت قوم کے اُوپر نشانِ ذلت بنا کر مسلط کیا تھا' اُن سے حساب لیا جائے۔
مائی لارڈ! کیا غریب ترین صوبے بلوچستان کے مسائل کا حل یہ ہے کہ تحصیلداروں' حساس اداروں کے جونیئر ریٹائرڈ افسروں اور وزیراعلیٰ اور گورنر کے رشتہ داروں کو بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا ممبر بنا کر پورے صوبے کی ملازمتیں نااہلوں کے قدموں میں ڈال دی جائیں؟ انصاف! مائی لارڈ! انصاف' وصولیاں! مائی لارڈ! وصولیاں! مہران بنک سے لے کر بنک آف پنجاب تک… اوجڑی کیمپ سے لے کر عمرے کے بھرے ہوئے جہازوں تک… کولڈ ڈرنک کی فیکٹریوں سے لے کر محلات کی قطاروں تک… وصولیاں مائی لارڈ… وصولیاں!
مائی لارڈ! ہمارے ڈاکٹر' ہمارے انجینئر' ہمارے پی ایچ ڈی' ہمارے سائنس دان' ہمارے پروفیسر' ہمارے نوجوان' ہمارے ہیرے' ہمارے جواہرات' مایوس ہو کر ملک چھوڑ گئے ہیں اور جا رہے ہیں۔ مائی لارڈ! ہجرت واجب ہو چکی ہے اس لئے کہ منتخب اداروں میں بیٹھے ہوئے امرا اور وزراء اور عمائدین… میرٹ کو قتل کر رہے ہیں۔ تعلیم اور اہلیت کو پائوں تلے کُچلا جا رہا ہے' رشتہ داروں کو اور پارٹیوں کے وفاداروں کو اہل لوگوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ بغیر کسی جھجک کے وزیر اپنے بیٹے کی بیرون ملک تعیناتی کی توسیع چاہتا ہے اور جو اس کی جگہ پر جانا چاہتا ہے اُس کے ساتھ بھی ایک وزیر کا نام آتا ہے۔
مائی لارڈ! اس ملک میں اگر بیرونِ ملک تعیناتیوں کا پچھلے پچاس سالوں کا حساب لیا جائے اور مرکزی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں ممبروں کی تعیناتیوں کے پسِ پردہ نام ننگے کئے جائیں تو جو کچھ سامنے آئے گا' مائی لارڈ! اقربا پروری سے اس ملک کے دریا اٹ جائیں گے۔ قومی ائر لائن… او جی ڈی سی۔ سٹیل مل' پیمرا' نیپرا' شہروں کے ترقیاتی ادارے' سکول' کالج' ہسپتال' حکومتیں اور کارپوریشنیں۔ ہر جگہ اقربا پروری ہے یا سفارش یا رشوت۔ جو بھی وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری لگتا ہے' اس کی لاٹری نکل آتی ہے۔ وہ بیرونِ ملک تعینات ہوتا ہے یا پانچ سال کے لئے کہیں اور مسلط کیا جاتا ہے۔ کیوں؟ کیا کوئی قانون اس ملک میں کبھی نہیں پنپ سکتا؟ کیا وزیراعظم کے صوابدیدی اختیارات کو کوئی شے ضابطۂ ترتیب میں نہیں لا سکتی؟ خدا کا خوف نہ عدالتیں؟ کیا یہ ملک ہر حاکمِ وقت کی زرخرید لونڈی ہوتا ہے؟
اگر فوج اپنے ہی ریٹائرڈ جرنیل کو… ترتیب کے ساتھ… سینیارٹی کے ساتھ… دو دو سال کی مصروفیت پیش کر سکتی ہے اور انصاف کرتی ہے اور کر سکتی ہے تو سول ملازمین کو اپنی پسند اور تعلقات کا شکار کیوں بنایا جاتا ہے؟ مائی لارڈ…! یہ سرزمین کسی جیالے کی ہے نہ متوالے کی… نہ کسی کے نورِ نظر کی نہ کسی کے لختِ جگر کی… مائی لارڈ! یہ سرزمین جن کی ہے وہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ مائی لارڈ!

Sunday, March 08, 2009

کالی بھیڑ

کالی سیاہ رات تھی' ہَوا شائیں شائیں کر رہی تھی۔ گلیاں ٹھٹھری ہوئی تھیں۔ سب لوگ گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔ بھیڑیا آیا اس نے چرواہے کو گردن سے پکڑا' انگوٹھا گلے پر رکھا' دبایا اور پنجرے میں ڈال دیا۔
صبح جب بھیڑیں اٹھیں تو چرواہے کی چوکی پر بھیڑیا بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے مختصر سی تقریر کی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ:
'' چرواہا تمہارا دشمن ہے۔ تمہارے مفاد میں' میں نے یہ قدم مجبوراً اٹھایا ہے۔ میں تمہارے لئے وہ وہ کام کروں گا کہ تم چرواہے کو بھول جاؤ گی۔ تمہارے لئے نئی چراگاہیں دریافت کروں گا' تمہارے تھان جو گارے کے بنے ہوئے ہیں سیمنٹ اور رنگین ٹائلوں سے پکے کراؤں گا' تمہارے کھونٹوں کی لکڑی میں خالص سونے کی آمیزش ہو گی۔ تمہارے چارے کی کوالٹی میں زبردست قسم کی تبدیلیاں لائی جائیں گی' ان میں حیاتین' لمحیات اور کاربو ہائیڈریٹ کا تناسب اس طرح کیا جائے گا کہ تمہاری باں باں کم ہو جائے گی بلکہ ختم ہی ہو جائے گی لیکن تمہاری خوبصورتی میں اضافہ ہو جائے گا' تمہاری پشم ریشم کا مقابلہ کرے گی اور تمہارے دودھ کے سامنے آسٹریلیا کی گائے کا دودھ بھی شرمائے گا۔ ''
کچھ بھیڑوں نے پوچھنا چاہا کہ بھیڑیا تو بھیڑوں کو اٹھا کر لے جاتا رہا ہے لیکن ریوڑ میں کچھ بھیڑیں ایسی تھیں جنہوں نے آنکھوں آنکھوں میں سوال کرنے والی بھیڑوں کو منع کیا۔
بھیڑوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک کالی بھیڑ نے اپنے آپ کو بھیڑوں کی ترجمان ظاہر کرتے ہوئے بھیڑیے کی تعریف کی۔
صرف تعریف تک بات ہوتی تو اتنی بُری نہ لگتی لیکن کالی بھیڑ نے تو چرواہے کی مذمت شروع کر دی۔ اسکے ز مانے کو تاریک اور بھیڑیے کے شب خون نما انقلاب کو روشنی کا نقیب قرار دیا۔
بھیڑیا گلے کا حکمران تو ہو گیا تھا لیکن اس کے لاشعور میں خوف تھا کہ چرواہا واپس نہ آ جائے۔ اس نے اپنے اندر خوف کو مارنے کیلئے چرواہے کو ایک رات پنجرے سے نکالا اور دور کے ایک گاؤں میں بھیج دیا۔ اس نے دور کے اس گاؤں کے نمبردار سے معاملات طے کیے۔ چرواہا گاؤں کے اندر آزاد ہو گا لیکن اپنے گاؤں واپس نہیں آ سکے گا۔
بس چند ہی بھیڑیں تھیں جو چرواہے کی وفادار رہیں۔ بھیڑیے کی خوشامد کرنے والی کالی بھیڑ نے بھیڑوں کی کثیر تعداد کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
بھیڑوں کو طرح طرح کے لالچ دئیے گئے' کچھ کو دھمکیاں دی گئیں' جن بھیڑوں کیخلاف چرواہے کے رجسٹر میں الزامات درج تھے ان پر تحقیق کی گئی' جو پَر پُرزے نکالنے والی بھیڑیں تھیں' ان پر مقدمات قائم کئے گئے پھر انہیں متنبہ کیا گیا کہ اگر انہوں نے کالی بھیڑ کے گروہ میں شمولیت اختیار نہ کی تو انہیں باڑے کے پچھلے حصے میں بند کر دیا جائے گا۔ مرتیں کیا نہ کرتیں' یہ بھیڑیں بھی کالی بھیڑ کے گروہ میں شامل ہو کر بھیڑیے کی شان میں قصیدہ خوانی کرنے لگ گئیں۔
کالی بھیڑ کے گروہ نے نو سال تک بھیڑیے کے بل بوتے پر خوب عیاشی کی۔ یہ بھیڑیے کی حکومت میں برابر کا شریک ہو گیا۔ بھیڑیا جو کچھ کرتا' کالی بھیڑ کا گروہ اس کی تعریف کرتا' اس کا دفاع کرتا اور چرواہے کی مذمت کرتا۔
بھیڑیے نے ریوڑ اور باڑہ بیچنا شروع کر دیا۔ دوسرے بھیڑیے دور دراز سے آتے اور بھیڑوں کو پکڑ کر لے جاتے لیکن بھیڑیے کے کان پر جوں نہ رینگتی۔
پھر ایک دن وہ آیا کہ بھیڑیے نے بھیڑیں خود پکڑ پکڑ کر دوسروں کے حوالے کرنا شروع کر دین۔ باڑے میں بدامنی پھیلتی گئی۔ باڑے کے کئی حصوں میں مقامی بھیڑوں اور حملہ آور بھیڑیوں کے درمیان شدید جنگ ہوتے لگی لیکن کالی بھیڑ کا گروہ بدستور بھیڑیے کے گن گاتا رہا۔ یہاں تک کہ اس گروہ نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ ہم بھیڑیے کو دس بار حکمران بنائیں گے۔
اس عرصہ میں اہم ترین واقعہ یہ ہوا کہ چرواہے نے جو دوسرے گاؤں میں مقیم تھا اور واس اپنی بھیڑوں کے پاس نہیں آ سکتا تھا برملا کہا اور ایک سے زیادہ بار کہا کہ:
میں کالی بھیڑوں کو کبھی نزدیک نہیں آنے دوں گا۔ میرا ان سے کوئی تعلق کسی صورت نہیں ہو سکتا۔ میں انہیں گلے میں واپس آنے کی کبھی اجازت نہیں۔
حالات نے کروٹ لی۔ بھیڑیا کمزور ہو گیا' چرواہا واپس آ گیا۔ لیکن اب ایک اور تماشا ہوا۔ بھیڑیے کے بعد جو رکھوالا آیا' اس نے چرواہے کے لئے صورت حال مشکل بنا دی۔
اس مشکل صورت حال میں چرواہے کی وفادار بھیڑوں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ چرواہا کالی بھیڑ کے گروہ کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے۔
کچھ بھیڑوں کا خیال تو یہ بھی ہے کہ چرواہا کالی بھیڑ کے گروہ کے ساتھ در پردہ نامہ و پیام کا سلسلہ رکھے ہوئے ہے۔
وفادار بھیڑوں کا نکتہ نظر یہ ہے کہ چرواہے نے یہ سارا عرصہ جو قربانیاں دی ہیں اور استقامت دکھائی دی ہے کہیں اس پر پانی نہ پھر جائے! کالی بھیڑ کے گروہ کو ساتھ ملا کر ہو سکتا ہے کہ وقتی طور چرواہے کو فائدہ ہو جائے اور رکھوالے کے مقابلے میں اس کی واہ واہ ہو جائے لیکن وفادار بھیڑوں کے دل ٹوٹ جائیں گے اور وہ مستقبل میں چرواہے پر کبھی اعتماد نہ کریں گی۔
وفادار بھیڑوں کا یہ بھی کہنا کہ کالی بھیڑ کے گروہ نے نو سال تک جن جرائم کا ارتکاب کیا ہے وہ ناقابل معافی ہیں اور ناقابل تلافی بھی۔ انہیں ریوڑ میں دوبارہ قبول کرنے سے یا ان کے ساتھ اتحاد کرنے سے چرواہے کا اپنا مستقبل مخدوش ہو جائے گا۔
دیکھئے! چرواہا کالی بھیڑ کے گروہ کی طرف قدم بڑھاتا ہے یا استقامت دکھاتا ہے۔

Tuesday, March 03, 2009

گر‘ یہ نہیں تو بابا

ایک طویل کوشش کے بعد ' جو کئی صدیوں پر محیط تھی' روس نے وسط ایشیا کو اپنے بنچوں میں جکڑ لیا۔ ترکستان اور ماسکو کے درمیان کئی دریا اور کئی برف زار پڑتے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ روسی فوجیں برف کے طوفانوں میں تباہ و برباد ہو گئیں لیکن سفید ریچھ نے ہمت نہ ہاری۔ اس پر مستزاد یہ کہ نئی ٹیکنالوجی روس کو طاقتور سے مزید طاقتور کرتی رہی اور وسط ایشیائی مسلمان … باقی دنیا کے مسلمانوں کی طرح … لکیر کے فقیر رہے۔ ہر نئی ایجاد سے انہیں خوف آتا تھا۔ رہی سہی کسر مذہبی طبقوں نے پوری کر دی۔ برصغیر کی تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جہانگیر کے دربار میں گوا ۔ سے آنے والا پرتگالی پادری پریس لایا تھا لیکن اُسے نامنظور کر دیا گیا جس کی ایک وجہ یہ تلاش کی گئی کہ ہمارے خطاط بے روزگار ہو جائیں گے۔ استنبول میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جرمنی سے آنے والے ایک شخص نے عثمانی خلیقہ کی خدمت میں ماڈرن چھاپہ خانہ پیش کیا لیکن مفتیٔ اعظم نے اس کے عدم جواز کا فتویٰ دے دیا۔ یہی کچھ وسط ایشیا میں ہوا۔ ماسکو ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا اور جنیوا' سمر قند' بخارا اور تاشقند میں وقت اپنی جگہ پر ساکت رہا۔ گھڑیاں رکی رہیں۔ ثمرقند اور بخارا کے خواتین کا زیادہ زور تاریک قید خانے ''آباد'' کرنے پر تھا۔ سفید ریچھ جنوب کی طرف بڑھتا رہا اور آخر کار 1860ء میں اُس نے تاشقند کو اپنے بالوں سے بھرے ہوئے ہیبت ناک سینے سے لگا لیا ! زارِ روس ترکستان کا بھی شہنشاہ ٹھہرا۔ حجاز کے بعد … جو سرزمین اسلامی علوم کے حوالے سے مشہور ترین تھی اور مقدس ترین بھی تھی روسی صلیب کے نیچے آ گئی اور امام ترمذی کا ترمذ ۔ حضرت بہاؤالدین نقشبندی کا بخارا اور امام بخاری کی آخری آرام گاہ ثمرقند' سب کچھ عالم اسلام سے چھن گیا۔
پھر یوں ہوا کہ روش میں مارکس کے پیروکاروں نے لینن کی قیادت میں انقلاب کا بیڑہ اٹھایا یہ بالشویک کہلائے۔ انہوں نے ترکستان کے مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ اگر تم زار کے مقابلے میں ہمارے انقلاب کا ساتھ دو تو ہم اقتدار میں آ کر تمہیں آزاد کر دیں گے۔ وسط ایشیائی مسلمانوں نے ساتھ دیا لیکن کیسا وعدہ اور کون سی آزادی؟ کمیونسٹوں نے 1917ء میں انقلاب کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے بعد وسط ایشیا پر گرفت اتنی مضبوط کی کہ ہڈیاں چٹخنے لگیں اور پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو گئیں۔ انور محمود پاشا لڑتے لڑتے شہید ہو گیا۔ زار نے مذہب اور ثقافت کو نہیں چھیڑا تھا۔ لینن اور سٹالن نے جھاڑو پھیر دیا۔ یہاں تک کہ مغربی لباس لازم قرار دیا گیا۔ رسم الخط عربی فارسی ترکی سے بدل کر لاطینی مسلط کر دیا گیا تاکہ عالم اسلام سے ثقافتی روابط منقطع ہو جائیں۔ پھر جب اتاترک نے ترکی میں لاطینی رسم الخط نافذ کیا تو سوویٹ یونین نے وسط ایشیا میں رسم الخط دوسری بار تبدیل کر دیا اور لاطینی کے بجائے روسی رسم الخط کا حکم دیا۔ یہ اس لئے کہا گیا کہ ترکی سے تعلق نہ قائم ہو۔ آج ترکی زبان (غالباً) دنیا کی واحد زبان ہے جس کے چار رسم الخط ہیں۔ ترکی میں لاطینی' وسط ایشیائی ریاستوں میں روسی' شمالی' افغانستان میں فارسی اور چینی ترکستان میں ایغور' اگر کاشغر' تاشقند' استنبول اور مزارشریف کے ترک ایک جگہ اکٹھے ہوں تو وہ ایک دوسرے سے گفتگو کر سکیں گے لیکن ایک دوسرے کی تحریر نہیں پڑھ سکیں گے۔
سفید ریچھ کی مکروہ گرفت میں پھنسے ہوئے بے بس وسط ایشیائی مسلمان اگر بالشویک روس کے وعدے پر یقین نہ کرتے تو اور کر بھی کیا سکتے تھے؟ آج یہی حال پاکستان کے مسلمانوں کا ہے لیکن خارجی استعمار کے حوالے سے نہیں بلکہ داخلی حرکیات Dynamics کے حوالے سے یہ مسلمان جنہیں تحریک پاکستان کے دنوں میں یہ بتایا گیا تھا کہ مسلم لیگ کا ساتھ دو' تم ہندوئوں کی اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کر لو گے۔
تحریک پاکستان کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے خون کا نذرانہ دیا۔ پاکستان بن گیا لیکن خواب پورا نہ ہوا۔ مسلم لیگ نے تقسیم سے عین پہلے یونینسٹ پارٹی سے اشتراک کر کے نومولود وطن کو جاگیرداروں کے قدموں میں ڈال دیا۔ 1958ء میں زمین نے کروٹ لی۔ بھاری بوٹوں والے آ گئے۔ انہوں نے نئے وعدے کئے پھر تو اللہ دے اور بندہ لے۔ ایک کے بعد دوسرا طالع آزما آتا گیا۔ وعدے ہوتے رہے۔ بے بس مایوس لوگ ساتھ دیتے رہے لیکن غربت اور جہالت کی کالی رات ہے کہ طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ آج مختلف سیاسی پارٹیوں کی باہمی کشمکش عروج پر ہے۔ محلاتی سازشیں مغلول اور عثمانیوں کے عہدِ زوال کو پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔ پاکستان کے عوام کی وہی حالت ہے جو زار اور 1917ء کے انقلابیوں کے درمیان گھرے ہوئے وسط ایشیائی مسلمانوں کی تھی۔ سیاسی پارٹیاں خاندانوں کی مٹھیوں میں بند ہیں۔ کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ خاندان Dynasties اقتدار کے ایک افق سے دوسرے افق تک چھائے ہوئے ہیں۔ پشاور سے شروع کر لیں باچا خان' ولی خان' بیگم نسیم ولی خان' اسفندیار' ڈیرہ اسماعیل خان کا رخ کریں۔ مفتی محمود' مولانا فضل الرحمان' مولانا عطاء الرحمان' لاڑکانہ چلیں' ذوالفقار علی بھٹو' بینظیر بھٹو' آصف علی زرداری ' بلاول بھٹو۔ پنجاب کی طرف چلیں۔ چودھری ظہورالٰہی' چودھری شجاعت حسین' پرویز الٰہی' مونس الٰہی' مسلم لیگ (ن) کے مالکان کی اگلی نسل تیار بیٹھی ہے۔ رہا کراچی' تو کس کی مجال ہے کہ مقابلے میں اٹھے۔ کسی ایک پارٹی کے اندر بھی انتخابات نہیں ہوئے۔ پیش منظر پر دور دور تک اس کا امکان بھی نہیں۔
لوگوں کو عمران خان سے امیدیں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چار سو کنال والے ''گھر'' میں رہنے والا کس قسم کے ذہنی رجحانات Mind-Set رکھتا ہوگا؟ درست ہے کہ اسے ذاتی ملکیت کے حوالے سے حق ہے کہ اس سے بھی بڑاا گھر بنائے لیکن جب آپ سیاست میں قدم رکھتے ہیں تو آپ عوام کی پراپرٹی بن جاتے ہیں۔ آپکو ہر لحاظ سے جانچا جاتا ہے۔ اگر لوگ آپکو پسند کرتے ہیں اور اگر آپ اُن کی شکستہ امیدوں کی کشتی کا پتوار بننا چاہتے ہیں تو پھر آپکو وہ راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے جو لوگ پسند کریں۔ ساتھ والے گھر میں احمدی نژاد بیٹھا ہوا ہے۔ وہ چند مرلوں کے چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے کئی سال پُرانی کار چلاتا ہے۔ کھانا گھر سے ساتھ لاتا ہے۔ اہلِ پاکستان اُسے رشک سے دیکھتے ہی۔ کیا ہمارے نصیب میں کوئی ایسا لیڈر نہیں جو ہمارے ساتھ ہماری گندی گلیوں میں رہے۔ ہمارے ساتھ بسوں اور ویگنوں میں سفر کرے۔ اسکی بیگم من موہن سنگھ کی بیگم کی طرح عام بازار سے گھر کا سودا سلف خریدے اور اسکے بچے عوام کے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں۔
عمران خان ہے یا کوئی اور ' اُسے یہ بھی بتانا ہوگا کہ جاگیرداری کے خاتمے کیلئے اُس کے عزائم کیا ہیں اور پروگرام کیا ہے؟ کیا پاکستان میں وہ اصلاحات کبھی نہیں ہوں گی جو بھارت میں اٹھاون سال پہلے ہو گئی تھیں ! اسے ابھی سے یہ بھی بتاا دینا چاہئے کہ تعلیم کے میدان میں مکروہ طبقاتی تقسیم ختم کرنے کیلئے اُس کے عزم کی خورجین میں کیا ہے …ع
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں

 

powered by worldwanders.com