Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, September 29, 2017

فرض کیجئے ہمارے جسم شفاف ہوتے







شام ڈھلتی،رات کا دروازہ کھلتا تو دوستوں کی آمد شروع ہو جاتی،جام کھنکنے لگتے، ایک صراحی مے کی خالی ہوتی تو دوسری آجاتی،ہلکا ہلکا سرور،تیز نشے میں تبدیل ہوجاتا،پھر راگ رنگ کا دور آغاز ہوتا۔ موسیقی کی تانیں ابھرتیں اور سارے ماحول پر چھا جاتیں۔

 رات بھر محفلِ رقص و سرور گرم رہتی،تھرکتے پیر وں اور اونچے سُروں کی آوازیں گھر کی حدود پار کرکے ارد گرد چھا جاتیں،صاحبِ خانہ پر کیفیت طارہ ہوجاتی اور وہ بلند آواز سے گاتا۔۔

اضا عونی و ای فتی اضا عوا

لیوم کریھۃ و سداد  ثغر

مجھے ان لوگوں نے ضائع کردیا اور کیسا جوان انہوں نے ضائع کردیا،جو لڑائی کے روز اور سرحد کی حفاظت کے وقت کام آتا۔

  پڑوس میں جو صاحب رہتے تھے وہ رات بھر مطالعہ،تصنیف و تالیف،عبادت و تلاوت میں مصروف رہتے، یہی ان کا معمول تھا،اذکار و وظائف  یا پھر  تحقیق  و تصنیف، ایک دنیا ان سے مستفید ہورہی تھی، سینکڑوں ہزاروں  شاگرد،ایک اشارہ کردیتے تو راگ رنگ کیا،راگ رنگ کرنے والے ہی نظر نہ آتے،مگر پڑوس ہونے کی وجہ سے وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے، برداشت کرتے اور اپنا کام کرتے رہتے۔ 

ایک رات گانے بجانے کی آواز نہ آئی،یہ عجیب بات تھی،ایسا پہلے کبھی نہ  ہوا تھا۔ صبح  دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کوئی معاملہ تھا، پولیس  اسے کل پکڑ کر لے گئی، اور اب وہ حوالات میں بند  ہے، یہ سننا تھا،کہ الٹے پاؤں واپس گھر آئے،لباس تبدیل کیا، اور حاکم کے پاس پہنچے، اس نے استقبال کیا          "آپ نے زحمت فرمائی،حکم دیتے میں خود حاضر ہوجاتا"۔

کہا میرے ہمسائے کو تمھاری پولیس پکڑ کر لے آئی ہے اور قید کردیا ہے۔میں اس کی سفارش کو آیا ہوں،حاکم وقت نے کہا،حضور۔وہ اوباش،اور بدقماش۔۔!آپ تو یوں بھی اس سے پریشان رہتے ہوں گے، 

فرمایا وہ تو ٹھیک ہے،مگر میرا پڑوسی ہے۔ مجھ پر لازم ہے کہ اس کی مدد کروں،۔۔بزرگ اسے اپنے ہمراہ واپس لائے،رستے میں کہا،رات کو تم ایک شعر کہا کرتے ہو،وہ سناؤ ذرا، اس نے شعر پڑھ کر سنایا،انہوں نے مجھے ضائع کردیا اور کیسے نوجوان کو ضائع کیا،،بزرگ بولے یار ہم نے تو تمھیں ضائع نہیں کیا،۔۔۔یہ بزرگ امام ابو حنیفہ تھے!روایت ہے کہ وہ اوباش،بدقماش پشیمان ہوا، پھر ان کے حلقہ درس میں بیٹھنے لگا اور سکالر بن گیا۔

اس  تحریر کا مقصد قصہ نگاری نہیں بلکہ عرضگزاری ہے کہ رات دن ہم اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، مگر ہمارا برتاؤ پڑوسیوں سے  کیا ایسا ہی ہے؟۔۔ ہماری قوتِ برداشت امام جیسی نہیں تو کیا اس کے قریب بھی نہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ بظاہر جو افراد دیندار لگتے ہیں، 

خلقِ خدا ان سے شاکی ہے،اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے، بے حد غور کرنے کی ضرورت،غور کرنے سے معمہ حل ہوتا ہے،گتھی سلجھتی ہے، وہ یوں کہ معاملہ صرف ظاہری عبادات اور ظاہری شکل و صورت پر منحصر نہیں۔

چومی گویم مسلمانم بلرزم

کہ دانم مشکلات ِ لا الہ را!

مسلمان کہلانے پر کانپ اٹھتا ہوں، اس لیے کہ اس راستے کی مشکلات سے خوب واقف ہوں، 

اصل مسئلہ اخلاقِ رزیلہ سے نجات حاصل کرنے کا ہے، انہیں رزائل بھی کہتے ہیں۔ یہی مشکل ہے اور یہی مسلمان ہونے کا اصل امتحان ہے۔ان میں پہلی مصیبت زبان کی آفت ہے۔ یعنی جھوٹ اور غیبت، دوسری مصیبت بخل، تیسری بغض اور چوتھی تکبر،پانچویں  ​​حرص،چھٹی حسد،ساتویں غیض و غضب،آٹھویں  اسراف و تبذیر، نویں مرتبے کا شوق اور دسویں عُجب(عُجب سے مراد  اپنی صلاحیتوں اور کمال کو اپنا کارنامہ سمجھنا اور اس بات سے بے خوف ہوجا نا کہ یہ صلاحیتیں سلب بھی ہوسکتی ہیں)۔

اندازہ لگائیے ہاتھ میں تسبییح پکڑ کر بازار سے گزرنا کس قدر آسان ہے اور اپنے پڑوسی کو  قیدسے چھڑانے کے لیے اپنی مصروفیات ترک کرنا کتنا مشکل،ذرا سوچیے اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر گرداننا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے اور اپنے عیوب سے  بے نیاز ہونا اور دوسروں کے نقائص کو نمایاں کرکے بیان کرنا ہمارا پسندیدہ شغل ہے جس میں  گھنٹے نہیں پہر گزر جاتے ہیں۔

مگر فرض کیجئے!  مجھ میں واقعی بہت خوبیاں ہیں، اور آپ میں بہت عیب ہیں،تو اس کے باوجود مجھے کیا معلوم کہ میرا خاتمہ ان خوبیوں پر ہوگا یا نہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ خوبیوں کے باوجود میرا خاتمہ گناہ پر ہو اور خامیوں کے باوجود آ پ کا خاتمہ خیر پر ہو۔ 

ایک صاحب ِ بصیرت نے کیا خوبصورت مثال دی، فیض حاصل کرنا ہو تو اپنے آپ کو دوسروں سے نیچے سمجھو۔ 

اس لیے کہ فیض پانی کی طرح ہے اور پانی نشیب کی طرف جاتا ہے، اونچائی کی طرف نہیں جاتا، نہ ہی اس سطح کی طرف بڑھتا ہے جو برابر ہو۔ اپنے آپ کو دوسروں سے بلند تر یا برابر سمجھنے والا کسی سے کوئی فیض حاصل نہیں کرسکتا۔ اس کالم نگار نے ایک بہت بڑے سکالر کو دیکھا،یہ نہیں فرماتے تھے کہ پڑھاتا ہوں، ہمیشہ یہ کہاکہ  کچھ حضرات کے ساتھ مل کر سبق کی تکرار کرتا ہوں۔ 

مگر یہاں سامنے ایک گڑھاہے،بعض اوقات انکسار بھی تکبر کی علامت بن جاتا ہے، کچھ لوگ اپنے آپ کو کمتر بنا کر اس لیے پیش کرتے ہیں  کہ لوگ تردید کریں، اور کہیں کہ نہیں!آپ بڑے ہیں اور بہت لائق، صاحبِ علم  ہیں۔ یہ سن کر نا م نہاد منکسر المزاج  انسان اندر سے خوش ہوتاہے۔ اس کی انا گنے کا رس پی کر موٹی ہوتی ہے۔ 

کیا یہ بہت مشکل ہے کہ اپنے عیوب کو سامنے رکھا جائے ؟اپنے گناہوں کو یاد کرکے یہ گمان کیا جائے کہ جو ظلم نفس ڈھاتا رہا،دوسروں نے ایسا نہ کیا ہوگا۔؟

نہ روزنوں سے کسی نے جھانکا،نہ ہم ہی مانے

وگرنہ سرزد ہوئے تو ہوں گے گناہ سارے!


یہ کالم نگار کبھی کبھی سوچتا ہے کہ اگر قدرت ہمارے جسم شفاف یعنی See-throughبنا دیتی تو ہر شخص دوسرے کو دیکھ کر بھاگتا،کیونکہ جسم کے اندر کی انتڑیاں اور گردے پھیپھڑے  نظر آرہے ہوتے۔اگر آپ لغت دیکھیں تو  See-Throughکے معنی میں  "بھانپ جانا"اور "اصلیت جان جانا"بھی دکھائی دیں گے، اسی لیے اس باریک لباس کو جس میں جسم دکھائی دے،سی تھرو کہتے ہیں۔مگر جس طرح ہمارے جسم خلاقِ عالم نے جلد چڑھا کر اندر کی صورتحال کو دوسروں سے چھپا دیا ہے۔ اس طرح ہمارے عیوب اور گناہوں کو بھی دوسروں سے پوشیدہ رکھنے کا بندوبست کیاہے۔ ویسے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم خود بھی ان عیوب سے بے نیاز ہوجائیں،اگر کوئی انکسار سے اپنے آپ کو   "ننگِ سلف"کہے تو اس کایہ مطلب نہیں کہ دوسرے بھی اسے ننگِ سلف کہنا شروع کردیں۔ بالکل اسی طرح اگر دوسرے لائق فائق ذہین اور نیک کہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خود بھی انسان اپنے آپ کو ایسا سمجھے، رہا ماتھے پر نشان،تو کسی نے کہا خوب کہا تھا کہ وہ تو سگریٹ بجھانے سے بھی بنایا جاسکتا ہے۔

ایک بظاہر نیک شخص جس کی نیکی کا چرچا بہت تھا، ایک دعوت پر بلایا گیا۔ اس کا بیٹا بھی ساتھ تھا۔ ریاکاری زور پر تھی، دوسروں کے سامنے حضرت نے کھانا بہت کم کھایا اور کہا کہ تزکیہ نفس کے لیے بہت کم کھانا چاہیے،وہیں نمازکاوقت ہوا تو خوب خشوع خضوع سے نماز پڑھی، گھر آیا تو بیوی سے کہا،کھانا دو،وہاں تو برائے نام کھایا تھا، بیٹے نے لقمہ دیا،ابا جی نماز بھی دوبارہ پڑھ لیجئے وہاں تو آپ نے دکھاوے کو لمبی نماز پڑھی تھی۔

مشہور افسانہ نگار غلام عباس کا شہکار افسانہ "اوور کوٹ " اسی نکتے کی تشریح کرتا ہے، نوجوان کے خوبصورت اوور کوٹ اور گلے میں لپٹے مفلر کے نیچے کالر تھا نہ قمیض۔بس سوراخوں والا سویٹر تھا اور میلی کچیلی بنیان، پتلون پیٹی کی بجائے کپڑے کی بوسیدہ دھجی سے کسی گئی تھی، 

ہم میں سے ہر ایک نے  لیاقت نیکی اور شرافت کا اوور کوٹ اوڑھ رکھا ہے، یہ بھول گئے ہیں کہ اس اوور کوٹ نے ایک دن اترنا ہی اترنا ہے۔ اس لیے اوور کوٹ کے نیچے جو کچھ ہے اس کی فکرکریں۔ پیدا کرنے والا یہ بھی کرسکتا تھا کہ جب بھی کوئی جھوٹ بولے تو ایک آوازا ابھرے کہ جھوٹ کہہ رہا ہے، یا بولنے والے کے ماتھے پر سرخ نشان نمودار ہوجائے،۔

ایک صاحب نے ایک روبوٹ خریدا  اس کی یہ صفت تھی کہ جھوٹ بولنے والے کے چہرے پر تھپڑ رسید کرتا، بیٹا رات دیر سے واپس آیا،پوچھا کہاں رہے،بولا لائبریری میں پڑھائی کررہا تھا۔روبوٹ آگے بڑھا اور صاحبزادے کو ایک تھپڑ رسید کیا۔ باپ نے بیٹے کو مخاطب کرکے شیخی بگھاری کہ میں تمھاری عمر میں ساری رات پڑھتا تھا، اس پر روبوٹ نے باپ کو تھپڑ دے مارا۔ ماں کو غصہ آیا،کہنے لگی اس کے کرتوت آپ پر گئے ہیں، آخر آپ کی اولاد ہے۔اس پر روبوٹ نے ایک تھپڑ ماں کوٹکا دیا۔ 

اگر ہر جھوٹ پر ایک آواز ابھرتی،اگر ہماری اصلیت دوسروں پر واشگاف ہوتی تو یہ دنیا دارالامتحان نہ ہوتی، یہی تو امتحان ہے،یہی تو اصل ٹیسٹ ہے، غلطی کی معافی مانگنا اور کم تر سے بھی مانگنا، رنجش ہوتو آگے بڑھ کر تعلق کی تجدید کرنا،مزدور اور ریڑھی والے کو  اپنے سے کم تر نہیں بلند سمجھنا،بھکاری اور فقیر کے اصرار اور ضد پر صبر کرنا، دوسرے کی ترقی پر حسد کو قابو کرنا،یہی تو اصل اسلام ہے،بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا۔۔

 نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر،رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر 

پڑی  اپنی  برائیوں  پر جو  نظر،تو  نگاہ میں  کوئی  برا نہ رہا!

یہی تو مشکل ہے، ہاں۔ تسبیح یوں پکڑناکہ دوسروں کو دور سے اور آسانی سے دکھائی دے،یقینا! آسان نسخہ ہے!





  




Wednesday, September 27, 2017

سیاسی پارٹیوں کے کھرب پتی مالک


‎سیاستدانوں کے دوغلے پن پر غور کیجئے تو گرہ کھل جاتی ہے کہ عام شہری کیو ں کہتا ہے کہ "اس سے تو مارشل لاء ہی بہتر ہے"،دوغلا پن!منافقت!اس قدر واضح اور برہنہ کہ ہنسی آتی ہے، اور رونا بھی، کیا اخلاقی پستی کا اس سے بدتر مظاہرہ ممکن ہے؟۔۔۔
‎ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے پارٹی گائیڈ لائن نہیں ملی، دوسری طرف کہتے ہی کہ سعد رفیق نے کہا کہ آپ کی کمانڈ سے بات ہوگئی ہے، ووٹ ہمیں دینا ہے، گویا آپ بچے ہیں کہ فوراً بات مان لی، پارٹی نے گائیڈ لائن نہیں دی تو فاروق ستار،میاں عتیق کیخلاف ایکشن کیسے لے سکتے ہیں؟۔۔میاں عتیق یہ بھی کہتے ہیں کہ بڑے میں مرحوم کے ان پر احسانات تھے، ساتھ ہی وہ عدالتی فیصلے پر تنقید بھی کرتے ہیں اور دلیل وہی ہے،جو مسلم لیگ نون کی ہے،ساتھ یہ فرماتے ہیں کہ ووٹ ذاتی حیثیت میں دیا،پارٹی کیساتھ مخلص ہوں، پنجابی میں کہتے ہیں کہ صدقے جاواں تے کم نہ آواں، یعنی زبانی طور پرقربان ہو سکتا ہوں لیکن یہ توقع مت کیجئے گا کہ کام بھی آؤں گا۔
‎اب حضرتِ واعظ کی طرف آئیے، مولانا سراج الحق اپنی پارٹی کی مرکزی مجلس ِ عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں، آئینی شق باسٹھ،تریسٹھ پر پورا نہ اترنے والے کو سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بنایا جاسکتا، فرمایا یہ بل نہ صرف قانون سے متصادم ہے بلکہ انتخابی قوانین کی بھی نفی کرتا ہے،حکومت فوری طور پر ا آئینی ترمیم کو واپس لے۔ مجلس عاملہ میں سامنے بیٹھے ہوئے گھگھو گھوڑوں میں سے کوئی یہ پوچھنے کی جرات نہیں کرتا کہ حضور!پارٹی نے آپ کو سینٹ میں بھیجا تھا جہاں سے آپ مراعات لے رہے ہیں، بطور سینیٹر یہ آپ کا اخلاقی،قانونی اور شرعی فریضہ تھا کہ آپ ووٹنگ کے موقع پر وہاں حاضر رہتے، اور ترمیم کیخلاف ووٹ دیتے۔اپنا رول تو آپ نے ادا کیا نہیں، یہاں آپ ترمیم کیخلا ف تقریر کر رہے ہیں،کیوں؟۔۔۔جہاں مولانا عبدالغفور حیدری،صلاح الدین ترمذی، عطا الرحمٰن،الیاس بلور، جان کینتھ ولیم،فروغ نسیم،اور فاٹا کے طالع آزما غائب ہوئے، وہاں حضرت سراج الحق بھی غائب ہو گئے۔ یعنی وقت آنے پر صالحین اور غیر صالحین میں کوئی فرق نہیں رہتا۔غالب نے کہا تھا کہ۔۔۔
‎ہیں کواکب کچھ،نظر آتے ہیں کچھ
‎دیتے ہیں دھوکہ،یہ بازی گر کُھلا! 
‎ناصر کاظمی نے کہا تھا۔۔۔
‎ سادگی سے تم نہ سمجھے،ترکِ دنیا کا سبب
‎ورنہ یہ درویش پردے میں تھے دنیا دار بھی!
‎ہمارے دوست جناب امجد شعیب نے کہا خوب کہا ہے کہ یہ ملک چلانے کے لیے لندن میں صرف ایک نجی دفتر کی ضرورت ہے۔اس سے پہلے سندھ کا صوبائی دارالحکومت کراچی سے دبئی منتقل کرنے کا اور وہاں سے صوبے کا نظم و نسق چلانے کا کامیاب تجربہ ہوچکا ہے، سندھ اسمبلی میں جان ہوتی تو پوچھتی کہ آنے جانے اور وہاں رہنے پر حکومتی کارندوں کا اور پارٹی کے "وفاداروں "کا صوبائی خزانے سے کتنا خرچہ ہوا ہے۔؟مگر ہماری پارلیمانی سیاست میں سب کچھ ہوتا ہے،جوڑ توڑ،لیڈر پرستی، سیاسی کاروبار بھی، نہیں ہوتا تو احتساب نہیں ہوتا بس!کوئی رکن بھی ایسا سوال نہیں پوچھتا جس سے کسی دوسرے رکن یا کسی حکومتی منصب دار کو مالی "گزند" پہنچے۔
‎یہاں پارٹی پالیٹکس کا مرکزی نکتہ قوم یا ملک کی فلاح و بہبود نہیں،مرکزی نکتہ جس کے گرد پارٹی گھومتی ہے اور جس کے گرد پارٹی کے ارکان گھومتے ہیں،پارٹی کے مالک کے ساتھ وفاداری ہے۔  
‎عدالت نے اسے سنائی ہے توعدا لت غلط ہوسکتی ہے۔ "مالک "غلط نہیں ہوسکتا۔قانون توڑا ہے تو قانون بدل دیجئے اور ،یہ ہوا۔
‎عدالت نے "مالک " کو نااہل قرار دیا تو قانون میں ترمیم ہو گئی۔مگر نااہلی کی بنا پر پارٹی قیادت کسی اور کو نہیں سونپی جاسکتی، شاہ ایران کی ذرا سی غلطی کو ناجائز ٹھہرانے کے لیے پورے ملک میں وقت بدل دیا گیا تھا۔ یہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے ارکان دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا یہ جمہوریت ہے یا خاندانی بادشاہت؟رضا ربانی،کائرہ صاحب،شہلہ رضا،خواجہ آصف،اعتزازاحسن،احسن اقبال،مشاہد اللہ خان،پرویز رشید،ان سب سیاستدانوں کے بال سفید ہوگئے،بھنویں برف کی بن گئیں،عمریں ڈھل گئیں،جیلوں میں گئے،ماریں کھائیں مگر حالت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی پارٹی کی صدارت کے لائق نہیں۔ پارٹی کے مالک کی بیٹی یا بیٹا اجلاس میں پہنچے تو سب کھڑے ہوجاتے ہیں،کیا یہ جمہوریت ہے؟۔۔
‎ برطانیہ کی لیبر پارٹی نے اس عرصہ میں 1990سے لے کر اب تک نو سربراہ دیکھے۔ کنزرویٹو پارٹی کو اس عرصہ میں سات سربراہون نے چلایا،امریکی ڈیمو کریٹک پارٹی کے 1990سے اب تک تیرہ چیئرمین گزرے۔ سنگا پور میں ایک چوکیدار کی بیٹی ملک کی صدر بن چکی ہے۔حلیمہ یعقوب آٹھ سال کی تھی جب اس کا ہندوستانی نژاد باپ اس دنیا سے رخصت ہوا۔بھارت میں چائے بیچنے والا وزیر اعظم بن گیا،اس کے کارخانے ہیں نہ بیرون ملک جائیدادیں،نہ آگے پیچھے بی ایم ڈبلیو۔انجم رومانی نے کہاتھا۔۔
‎انجم غریبِ شہر تھے،اب تک اسیر ہیں 
‎سارے ضمانتوں پر رہا کردیے گئے!
‎ صرف ہم ہیں جو پانچ سو سال پہلے کے دورِ اقتدار میں سانس لے رہے ہیں۔ تغلق خاندان،خلجی خاندان،لودھی خاندان،مغل خاندان،بھٹو خاندان،زرداری خاندان،شریف خاندان،بڑے بڑے دانشور کمال سنجیدگی اور مہارت سے جب ثابت کرتے ہیں کہ مریم صفدر کو ہی جانشیں ہونا چاہیے تو اس ملک کی قسمت پر رونا آتا ہے۔ زرداری صاحب کئی بار اپنی صاحبزادی اور صاحبزادے کا ذکر پارٹی قیادت کے حوالے سے یوں کرچکے ہیں پارٹی میں باقی سب اس خاندان کے زر خرید غلام ہیں۔
‎عمران خان نے جو دیا جلایا تھا اس میں سے خود ہی تیل نکال رہا ہے، دیا بھڑکتا ہے،لو کبھی تیز ہوتی ہے کبھی مدھم۔۔ پارلیمانی سیاست میں موصوف کی سنجیدگی اور کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ سینٹ میں ترمیم پیش ہوئی تو تحریک انصاف کے ارکان غائب تھے،سب ہوتے تو ایک ووٹ سے مقتدر پارٹی کبھی نہ جیت پاتی۔ 
‎اب خلقِ خدا جو الزام لگا رہی ہے، اور جن وجوہ کے اندازے لگا رہی ہے، وہ اتنے غلط بھی نہیں، پیپلز پارٹی نے اپنے سینئر رکن اعتزاز احن کی پیش کردہ ترمیم اپنے ہاتھو ں سے قتل کی صرف اس لیے کہ پارٹی پر کسی وقت زرداری صاحب کی"ملکیت"متاثر ہی نہ ہو جائے۔یہ عجیب جمہوریت ہے جس کی بنیاد پارٹی پر مستقل قبضہ ہے، بہت سے دوست دلیل دیتے ہیں کہ فلاں ووٹ لے کر آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی پر کب سے قابض ہے۔ پارٹی کی صدارت کسی اور کو کیوں نہیں سونپی جاسکتی، سنگا پور کالی کوآن اور جنوبی افریقہ کا منڈیلا ناگزیر نہ ہوئے، جیتے جی پارتی دوسروں کو سونپ دی۔ اس کالم نگار کو یقین ہے کہ قائداعظم کو خدائے بزرگ و برتر لمبی زندگی دیتا تو ایک مرحلے پر آکر پارٹی اور اقتدار دونوں سے الگ ہوجاتے، ان کی قانون پسندی سے اور قوائد و ضوابط پر سختی سے کاربند رہنے سے تو یہی ثابت ہوتا ہے۔ 
‎اسحاق ڈار عدالت میں پیش ہوئے، رپورٹ ہے کہ گم صم رہے، مقدمہ کی کارروائی اختتام کو پہنچی تو وہیں بیٹھے رہے، جج صاحب کو کہنا پڑا کہ جائیے،یہاں اور مقدمے بھی سنے جانے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر ان کی ویڈیو چلی تو گھبرائے ہوئے،نظر آئے۔ سائیکل کی دکان سے دبئی کے ٹاور تک پہنچے،کیا فائدہ ہوا؟۔۔۔ دولت ہے یا مرض؟۔۔جو مسلسل دباؤ،اضطراب اور پریشانی میں رکھ رہا ہے۔ کیایہ عقل مندی ہے؟۔۔اگر آپ نے ہزار برس جینا ہے تو ہزار برس کا انتظام کرنا عقلمندی ہے مگر وارثوں کے لیے اس قدر ذلت،بے حرمتی،اتنی بدنامی؟۔۔۔
‎ایک صاحب علی رضا دس سال تک نیشنل بینک کے مالک و مختار رہے، اٹھارہ ارب روپے کی کرپشن کا مقدمہ بھگت رہے ہیں۔انکے وکیل کی دلیل میرا موکل دس سال نیشنل بینک کا صدر رہا۔ بینک کے آڈیٹر نے کبھی صدر کو بتایا ہی نہیں کہ کرپشن ہو رہی ہے۔ "تو آڈیٹر نے ہی بتانا تھا تو پھر صدر بھی وہی بن جاتا "۔۔۔ وکیل کی دلیل سن کر جج نے کہا،یہ ہے نیشنل بینک کا ایوارڈ یافتہ صدر؟ ادارے میں کرپشن ہو رہی تھی اور صدر کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ان صاحب کی ضمانت منسوخ ہوئی تو پانچ گھنٹے تک عدالت ہی میں چھپے رہے۔ نیب کے حکام باہر کڑکی لگا کر بیٹھے رہے، باہر نکلے تو دبوچ لیے گئے۔
‎ہماری آنکھوں کے سامنے مال و دولت پلازے، فیکٹریاں،جائیدادیں،ڈالروں کے انبار چھوڑ کر، آئے دن لوگ خالی ہاتھ رخصت ہو رہے ہیں، مگر سمیٹنے والے اور جمع کرنے والے اور مزید سمیٹنے والے اور مزید جمع کرنے والے، سب کچھ دیکھ کر بھی اپنی روش پر قائم ہیں۔ انکی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ نہیں آتا جب یہ فیصلہ کریں کہ بس!اتنی دولت بہت ہے۔ اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
‎ عبرت کا مقام ہے کہ اتنی دولت کے باوجود نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب کا قوم کے لیے کچھ کرنے کا ریکارڈصفر ہے، ان حضرات نے کتنی یونیورسٹیاں بنائیں؟کتنے مستحق طلبہ کو خرچ دے کر باہر اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا؟کتنے خیراتی ہسپتا ل بنائے؟ یہ تو اپنے بچوں کی شادیوں پر ایک جہاز تک چارٹر نہیں کراسکتے اس کے لیے بھی قومی ائیر لائن استعمال ہوتی ہے۔ کیا کریں گے دولت کا پہاڑ؟کس لیے پوری دنیا کے سامنے تماشا بنے ہوئے ہیں؟۔۔۔۔جتنے پاپڑ اس دولت کو اپنے پاس رکھنے کے لیے بیل رہے ہیں،اس سے آدھے بھی ملک کے لیے بیلے ہوتے تو یہ ملک سنگا پور بن چکا ہوتا۔ نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا۔۔
‎جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تیری رہ جاوے گی،
‎اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی،
‎یہ کھیپ جوتو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی،
‎دھی،پوت،جنوائی،بیٹا کیا،بنجارن پاس نہ آوے گی،
‎سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ!

Monday, September 25, 2017

خدا کے لیے ان فیکٹریوں کو بند کیجیے

‎جاپان کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو یہ جنوب مغرب سے شمال کی طرف بڑھتی ہوئی لمبوتری سی شکل ہے،شما ل مشرق کے آخری کنارے پر واقع جزیرے کا نام ہکیڈو ہے۔اس دور افتادہ جزیرے پر،مزید دور افتادہ ایک جگہ ہے جس کا نام کامی شراتا ہے۔یہاں ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن ہے،ریل یہاں رکتی تھی،،2012میں ریل کمپنی نے نوٹ کیا کہ مسافروں کی تعداد یہاں تقریبا" صفر ہے، یہاں تک ریل کا آنا اور پھر واپس جانا نِرا گھاٹے کا سودا ہے،کیوں نہ یہ ریلوے اسٹیشن بند کردیا جائے،ریلوے کمپنیوں کے لیے اس طرح کے فیصلے معمول کی کارروائی ہیں۔چنانچہ انتظامیہ نے متعلقہ عملے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی،رپورٹ میں بتایا گیا کہ کامی شراتا کے اسٹیشن پر صرف اور صرف ایک لڑکی آتی ہے،صبح ٹرین پر سوار ہوتی ہے،سہ پہر کو واپس اترتی ہے۔ مزید تفتیش کی تو پتا چلا کہ یہ لڑکی کانا کسی دوسرے قصبے میں ٹرین کے ذریعے سکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہے، ٹرین بند ہو گئی تو اس کا جانا ناممکن ہو جائے گا۔ کمپنی نے فیصلہ کیا کہ جب تک لڑکی اپنی پڑھائی مکمل نہیں کر لیتی،ریل سروس بند نہیں کی جائے گی -تین سال - ۔
‎جی ہاں۔۔پورے تین سال ریل اس اسٹیشن پر صرف کانا کے لیے آتی رہی، صبح سات بجے کانا ٹرین پر سوار ہوتی تھی،شام کو پانچ بجے ٹرین اسے واپس چھوڑنے آتی تھی۔برف سے اٹے اسٹیشن پر لڑکی اترتی تھی۔۔اکیلی!اور گھر کو روانہ ہو جاتی تھی۔
‎گھاٹے کا یہ کارو بار تین سال جاری رہا۔
‎مارچ 2016میں کانا نے ہائی سکول مکمل کر لیا،اور ریل نے بھی یہاں سے رختِ سفر باندھ لیا۔جن دنوں کانا کو سکول سے چھٹیا ں ہوتی تھیں ٹرین یہاں نہیں رکتی تھی۔اتوار کے دن بھی رکے بغیر گزر جاتی تھی۔
‎آپ کا کیا خیال ہے اس ریلوے کمپنی نے گھاٹے کا یہ کاروبار تین سال کیوں جاری رکھا؟۔۔۔لاکھوں روپوں کا نقصان کیوں برداشت کیا؟اس کی واحد وجہ جاپان کی خاص طور پر اس ریلوے کمپنی کی جہالت تھی،جہالت میں ڈوبی ہوئی جاپانی قوم اگر مسلمانوں سے تازہ ترین علوم حاصل کرتی تو کانا کو اتنی اہمیت بھی نہ دیتی جتنی گھاس کے سوکھے تنکے کو دی جاتی ہے اول اس لیے کہ کانا عورت ذات تھی۔دوم اس کے دماغ میں اتنی اہلیت ہی نہیں تھی کہ وہ پڑھ سکے اور علم حاصل کر سکے۔ 
‎جاپان کے جہلا کو معلوم ہونا چاہیے کہ کانا کے سر میں دماغ مرد کے دماغ کا نصف تھا، جب وہ بازار شاپنگ کے لیے جاتی تھی تو اس نصف کا نصف رہ جاتا تھا،باقی کتنا بچا؟
‎ایک چوتھائی!ایک چوتھائی دماغ کے ساتھ کانا نے کیا علم حاصل کرنا تھا،گنجی نہائے گی اور نچوڑے گی کیا؟افسوس!ریل کمپنی نے جو تین سال گھاٹے کا کاروبار کیا،اس کا کوئی علمی فائد ہ حاصل نہ ہوا۔ 
‎تفصیل اس حیران کن اجمال کی یہ ہے کہ اس مقدس مملکت میں جو ہم مسلمانوں کا روحانی دینی و شرعی مرکز ہے، ایک ممتاز عالم دین جناب مولانا سعد الجبری نے جو عیسر کے صوبے میں علما کونسل کے رکن ہیں،فتویٰ دیا ہے کہ عورتوں کا دماغ مردوں کی نسبت آدھاہے،بازار میں خریداری کے لیے نکلتی ہیں تو اس میں بھی آدھا رہ جاتا ہے،باقی ایک چوتھائی سے وہ ڈرائیونگ کیسے کریں گی؟یہ ہے وہ ٹیکنیکل وجہ جس کی بنا پر عورتوں کی ڈرائیونگ منع ہے۔
‎اس جدید ترین سائنسی ایجاد سے فائدہ اٹھانے کے بجائے صوبے کے گورنر نے حضرت کو امامت خطابت اور تبلیغ سے روک دیا ہے، غالباً اس اقدام کی وجہ یہ ہوئی کہ سوشل میڈیا میں اس سائنسی دریافت سے طوفان آگیا،فیس بک اور ٹویٹر پر لاکھوں کے حساب سے لوگوں نے یہ خبر پڑھی۔خود مقدس مملکت میں حضرت کا مذاق اڑایا گیا اور خوب اڑایا گیا۔ 
‎مسلمان شروع ہی سے سائنس کے دشمن ہیں،چنانچہ ا س روایت کے تسلسل میں حضرت سعد الحجری پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔خدا کے بندو،پابندی لگانے کے بجائے پوری دنیا کے ماہرین ِ دماغ کو چیلنج کرتے کہ عورت کے دماغ کی اس نئی دریافت کا جواب دے کر دکھاؤ۔
‎حضرت مولانا سعد الحجری نے میڈیکل سائنس کا علم کہاں حاصل کیا؟یہ تو معلوم نہیں مگر ان کے لائق فخر اساتزہ کو تمغہ دینا چاہیے کہ کیا جوہر قابل پیدا کیا ہے انہوں نے،سبحان اللہ!پوری دنیا کے ڈاکٹروں کا بوتھا حضرت نے ایک ہی ضرب سے توڑ کر رکھ دیا، بدبخت!نیورو سرجن!آج تک یہ حقیقت دنیا سے چھپائے بیٹھے تھے کہ موئی عورتوں کا دماغ آدھا ہے۔،
‎ان نابغہ روزگار اساتذہ نے صرف ایک سعد الحجری تو نہیں پیدا کیا ہوگا۔۔۔ آخر ان کے اور بھی شاگر د ہوں گے، پیدا وار صرف ایک سکالر تک تو محدود نہیں ہو سکتی،باقی موتی او رہیرے جانے کہاں کہاں سائنس کی کرامات پھیلا رہے ہوں گے۔ ان سب کو یکجا کرکے ایک " مرکزِ علوم دماغ " بنانا چاہیے، جس کے باہر پتھر نصب ہو اور اس پر یہ عبارت کندہ ہو،
‎"یہ سعد الحجری تھا جس نے 2017میں دنیا کو پہلی بار آگاہ کیا کہ عورت کا دماغ آدھا ہے اور خریداری کے بعد ایک چوتھائی رہ جاتا ہے۔"ساتھ حضرت کی تصویر لگانا ہوگی اور ان کے اساتذہ کی بھی۔ مفتیان کرام اجازت دیں تو ان کے مجسمے بھی نصب کرنے چاہئیں۔
‎ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہی حضرت نے ایک تقریر کرتے ہوئے عورتوں کی ڈرائیونگ کے بیس نقصانات گنوائے،اس سے پہلے ایک صاحب جن کا تعلق اسی مقدس اقلیم سے ہے عورتوں کی ڈرائیونگ کا ایسا میڈیکل نقصان بتایا جسے لکھنے کی قلم اجازت نہیں دیتا،کیوں کہ یہ اخبار بچے اور لڑکیاں بھی پڑھتی ہوں گی۔
‎آقائے نامداررﷺ پر یہ وحی تو آگئی تھی کہ آج کے دن ہم نے تم پر تمھارا دین مکمل کردیا ہے،مگر علما کرام کو عملاً اس سے شدید اختلاف ہے۔ ملا ایشیا میں یہ فتویٰ دیا گیا کہ غیر مسلم "اللہ "کا نام استعمال نہیں کرسکتے۔14سو سال میں کسی صحابی،کسی تابعی،کسی محدث،کسی مفسر،کسی فقیہہ نے ایسا حکم نہ دیا۔بلکہ کلام پاک میں یہ حقیقت موجود ہے کہ مشرکین "اللہ"کا لفظ باری تعالیٰ کے لیے استعمال کرتے تھے۔"اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو کس ے پیدا کیا تو کہیں گے اللہ نے" ،(سورہ زخرف)یہی حقیقت سورہ زمر،سورۃیونس،سورۃ مومنون میں بیان کی گئی ہے۔
‎بنگلہ دیش کے علما نے بیماروں،اپاہجوں اور بوڑھوں کو کرسی پر نماز پڑھنے سے منع کردیا ہے، کہ کھڑے ہوئے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ آج تک تو یہی سنتے آئے ہیں کہ نماز مجبوری میں بستر پر لیٹ کر اشارے سے بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
‎ایران میں صرف اس لیے ہنگامہ ہوا کہ وہاں کے وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب سے یا شاید امریکی صدر سے مصافحہ کرلیا تھا۔
‎مسجدوں میں کثیر تعداد میں سُترہ رکھا جانے لگا ہے، 14 سو سال میں تو اس کا رواج نہ تھا،بچہ بچہ جانتا ہے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنا منع ہے،ہر شخص اس ضمن میں مکمل اختیار برتتا ہے،مگر ایک اضافی شے کا التزام ہونے لگاہے۔
‎ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے،جس میں "کھیرا "کاٹنے کا شرعی طریقہ بتایا جارہا ہے،کیا کسی مسلک کی کسی کتاب میں ایسا مسئلہ ہے؟ہوتا تو بہت سوں کو معلوم ہوتا۔
‎اس طرح کے بہت سے مسائل کھڑے کرکے ان پڑھ سادہ لوح عوام کو،جنھیں دین کے مآخز کا کچھ پتا نہیں،بے وقوف بنایا جا رہاہے،ان کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے کے بجائے پیچیدگیاں بڑھائی جا رہی ہیں۔ساتھ ہی مذہب کو تجارت کے لیے خوب خوب استعمال کیا جارہاہے۔کلونجی،شہد اور عجوہ کے حوالے سے کروڑوں روپے کمائے جا رہے ہیں،"اسلامی شہد" کے بورڈ جگہ جگہ نظر آرہے ہیں۔ کیا کوئ شہد غیر اسلامی بھی ہے؟مگر پوچھیں گے تو پتھر پڑیں گے۔کیا عجب کافر کہہ کر مار ہی دیے جائیں۔
‎اب یہ جو فرمان ہے حضرت سعد الحجری کا روزنامہ ٹائمز آف اسرائیل سے لے کر گارڈین اور رائٹر تک سب نے مزے لے لے کر سنایا ہے،آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کی سازش ہے،مگر اس کا کیا کیجئے کہ یہ خبر عرب نیوز اور دیگر عربی اخبارات نے شائع کی ہے۔کیا اس نام نہاد عالم کے لیے یہ سزا کافی ہے َ؟۔۔۔۔۔کہ اسے تبلیغ،امامت،اور خطابت سے روک دیاا جائے؟خبرمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کی مراعات اور تنخواہ بھی روک دی گئی ہے یا وہ جاری رہے گی۔۔
‎ہونا تو یہ چاہیے کہ اس سے کہا جائے کہ اپنا بیان دلیل سے ثابت کرو،اس علم کا ریفرنس کہاں ہے؟کس سائنسدان یا ڈاکٹر نے اس کی تصدیق کی ہے،؟
‎اگر سعد الحجری کے پاس ثبوت ہے نہ گواہی نہ سائنسی شہادت تو اسے قید کی سزا دینے کے علاوہ کوڑے بھی مارے جانے چاہئیں جب کہ وہاں بات بات پر کوڑے مارنے کی سزا دی جاتی ہے۔شورش کاشمیری نے کہا تھا
‎جن کا دل خوف سے خالی ہے بہ ایں ریش دراز
‎ایسے الزام تراشوں پہ خدا کی پھٹکار!
‎ضرورت ان فیکٹریوں کو بند کرنے کی ہے،جہاں سے سعد الحجری جیسے پرزے اور آلات بن بن کر نکل رہے ہیں اور معاشرے میں پھیل رہے ہیں،یہ فیکٹریاں بند کیجئے،خدا کے لیے یہ فیکٹریاں بند کیجئے!

Sunday, September 24, 2017

بلبلے جہاں پناہ بلبلے


‎پنجاب حکومت اپیل دائر کررہی ہے کہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ اخفا ہی میں رکھی جائے۔یہ دنیا کی عجیب و غریب درخواست ہوگی،لوگ درخواستیں اس لیے دیتے ہیں کہ فلاں خفیہ اطلاع بہم پہنچائی جائے،یہ کوشش کر رہے ہیں کہ رپورٹ پوشیدہ ہی رہے۔کیوں؟ وجہ ظاہر ہے،رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے یہ خائف ہیں،کس چیز کا خوف ہے؟کیا جان کا خوف ہے؟۔۔۔جان کا ہی ہو سکتا ہے،عزت تباہ ہونے کا خوف تو بے معنی ہے،ہر خاص و عام کو پتا ہے کہ عزت کس شمار میں ہے۔
‎اصل بات یہ ہے کہ کیا رپورٹ خفیہ رکھنے سے خون معاف ہو جائے گا؟۔۔خون اس دنیا کی بے زبان چیزوں میں سے واحد چیز ہے جو ایک مقررہ وقت پر بول اٹھتی ہے،اور اتنا اونچا بولتی ہے کہ کانوں کےء پردے پھٹ جاتے ہیں،وہ جو قرآن میں "صیحہ "کا لفظ استعمال ہوا ہے،خون کی چیخ اس سے کیا کم ہوگی،شہباز شریف صاحب برسرِ اقتدار ہیں،برسرِ اقتدار رہتے ہوئے انسان ایک خواب آگیں کیفیت میں رہتا ہے،وہ صحیح دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے،ارد گرد سے بے خبر ہوتا ہے،باخبر ہوتابھی بے تو بےنیازی آڑے آجاتی ہے، اقتدار کا تخت ہوا میں اڑتا ہے،نیچے دیکھیں تو مکان ماچس کی ڈبیہ جتنے نظر آتے ہیں،شاہراہیں لکیروں کی طرح،اور انسان مدھم،بے جان نقطوں کی طرح۔ان بے جان نقطوں کی ہوا میں بیٹھا ہوا بادشاہ کیوں فکر کرے؟۔۔مٹی کے ذرے اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں،مگر بادشاہ کو یہ نہیں معلوم کہ بلبلے اس کے در پے ہیں،پانی کے بے جان بلبلے،جن کی زندگی چند ثانیے ہوتی ہے،قاتل کو پکڑوا دیتے ہیں۔
‎یہ دو دوست تھے جو قصبے سے باہر سیر کے لیے یا کسی کام سے جارہے تھے،شاید اپنے دور افتادہ کھیتوں کی طرف -گیت گاتے جا رہے تھے،قصے کہانیاں سناتے جا رہے تھے، باتیں کرتے جا رہے تھے،ایک آگے تھا،دوسرا پیچھے،باتیں کرتے،پگڈنڈیوں پر چلتے قصبے سے بہت دور نکل آئے تھے،اب مٹی کے اونچے بھر بھر ے ٹیلوں کا سلسلہ شروع ہوا،سرخ رنگ کی مٹی کے ٹیلے جن کی چوٹیوں پر کنکر آدھے ٹیلے میں دبے تھے،اور آدھے نظر آرہے تھے،پھر بڑی بڑی چٹانیں آنا شروع ہو گئیں،جو جلدی پہاڑیوں میں تبدیل ہو گئیں،دونوں دوست چلتے رہے،آگے بڑھتے رہے،ایک طرف پہاڑیاں تھیں،دوسری طرف جنگل۔کوئی دیکھنے والادور دور تک نہ تھا،پیچھے آنے والے نے آگے جانے والے کو پکارا،پکارا نہیں بلکہ للکارا،تیار ہو جاؤ،!آگے چلنے والے نے پیچھے مڑ کر دیکھا،پیچھے آنے والے دوست کے ہاتھ میں ریوالور تھا،آج تم نہیں بچ سکتے،فلاں دن کا بدلہ لیناتھا،کب سے موقع کی تلاش میں تھا۔
‎کچھ عرصہ ہوا دونوں میں کوئی معاملہ بگڑا تھا،کھیل کے دوران انا مجروح ہوئی تھی،یا کسی دوشیزہ کے حوالے سے رقابت تھی،آگے چلنے والے دوست نے بات بھلا دی تھی،مگر پیچھے آنے والے نے دل میں گرہ باندھ لی تھی،اور سنبھال کر رکھی ہوئی تھی،پہلے تو آگے چلنے والے دوست نے بات کو مذاق سمجھا،مگر غور سے دیکھا تو دوست کی آنکھوں میں خون اترا ہو ا تھا،اور چہرہ لکڑی کی طرح سخت،بے جان اور تاثرات سے خالی تھا۔
‎اتنی دیر میں سرخ ٹیلوں اور پتھریلی اونچائیوں کی اوٹ سے بادل ابھرے اور آن کی آن میں برسنے لگے،جل تھل ہو گیا،جنگل کی طرف سے ٹھنڈی دل آویز ہوا آنے لگی،اس لطیف ماحول نے ریوالور والے دوست پر چھائے ہوئے قتل کے نشے کو دوبالا کر دیا۔
‎کوئی لمبے چوڑے مذاکرات نہ ہوئے،آگے چلنے والے نے منت سماجت کی،دوستی کا واسطہ دیا،بزرگوں کے حوالے دیے،پھانسی سے ڈرایا، ریوالور والا ہنسا۔۔
‎پھانسی؟کیسی پھانسی؟۔۔یہاں کون ہے دیکھنے والا؟۔۔کوئی گواہ نہیں،یونہی تو اس میدان میں نہیں لایا؟،جہاں ایک طرف گھنا کھردرا جنگل ہے،دوسری طرف بلند ٹیلے اور پہاڑیاں۔
‎بارش برس رہی تھی،قتل ہونے والے نے دیکھا کہ بارش کا جو قطرہ بھی برستا ہے،بلبلے میں تبدیل ہوجاتا ہے،تھوڑی دیر یہ بلبلہ پانی میں تیرتا ہے اور بہاؤ کے ساتھ چلتا ہے اور پھر ٹوٹ جاتا ہے،اور پانی میں مل کر پانی ہو جاتا ہے،
‎قتل کرنے والے نے کہا کہ کون ہے یہاں دیکھنے والا؟۔قتل ہونے والے نے اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر پایا،
‎اس کے منہ سے عجیب و غریب آسمانی تاثیر رکھنے والا ایک جملہ نکلا۔۔۔یہ برستی بارش میں بننے اور ٹوٹنے والے پانی کے بلبلے تمھیں پکڑوا دیں گے۔قاتل ہنسا۔۔۔انگلی دبائی،ویرانے میں ایک ملفوف آواز گولی کی ابھری،پھر ایک چیخ -پھر ایک جسم گرا،تڑپا اورٹھنڈا ہوگیا۔
‎کسی کو معلوم نہ ہوا،مقتول کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا،دن ہفتے بنے،ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوئے،پھر سال گزر گیا،پھر دوسال،پھر کئی سال گزر گئے،قاتل نے جوانی کی دہلیز پار کی،اور ادھیڑ عمر کی ڈیوڑھی میں پاؤں رکھا،کامیاب انتقام ہمیشہ اسے طمانیت بخشتا تھا،ایک دن ادھیڑ عمر میں داخل ہونے والا قاتل اپنے چوبارے میں بیٹھا تھا،اس نے چوبارے کے سامنے کچے فرش والی ٹیرس کو دیکھا،بارش برس رہی تھی،بارش کے قطرے زمین پر گرتے،بلبلے بنتے، تھوڑی دور چلتے،پھر ٹوٹتے اور پانی میں مل کر پانی ہو جاتے،اتنے میں پیچھے سے نئے بلبلے تیرتے آجاتے،اسے مقتول کی دھمکی یاد آئی،کتنا بے خوف تھا،اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھری،اس کے ہونٹ ہلے زیر لب آواز آئ۔ بلبلے پکڑائیں گے۔۔۔بے وقوف کہیں کا!
‎یہ جو ثانیہ تھا،یا ثانیے سے بھی کم وقت کا ننھا سا ذرہ،جس میں وہ زیرِ لب مسکرایا،اور کچھ کہا،یہ ثانیہ "۔اتفاق سے اس کی بیوی نے،جو اس کے پاس بیٹھی تھی،شیئر کرلیا۔مسکراہٹ دیکھ لی،یہ عام مسکراہٹ نہ تھی،عورت کی فطرت میں قدرت نے مافوق الفطرت قوت رکھی ہے،اسے شوہر کی آنکھ سے شوہر کی عفت یا کج روی کا پتا چل جاتا ہے،اسے شوہر کے چہرے کے تاثرات سے اس کے دل کی ایکس رے جیسی فلم نظر آجاتی ہے۔شاعر نے یونہی تو نہیں کہا تھا۔۔
‎غیر عورت گھر میں لاؤ گے تو پکڑے جاؤ گے،
‎بیویاں پہچانتی ہیں بستروں کی خوشبوئیں!
‎بیوی نے پوچھا،مسکرائے کیوں ہو؟اور یہ تم نے زیرِ لب کیا کہا ہے؟ اور یہ تمہارے چہرے پر خوف ناک سا سایہ کیوں تھا؟
‎اس نے بہت ادھر ادھر کی باتیں کیں،آئیں بائیں شائیں کی،مگر عورت پہاڑ جیسی استقامت رکھتی ہے،وہ درپے رہی،پوچھتی رہی،اور پیچھے پڑی رہی،اصرار تلخی میں بدلنے لگا،تنگ آکر شوہر نے وعدہ لیا کہ کسی کو بتائے گی نہیں،اور پھر اسے اپنے راز میں شریک کر لیا،بیوی پر سکتہ طاری ہو گیا،وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ دوست کا قاتل وہ خود ہے،اس کے اندر طلاطم خیز سمندر موجیں مارنے لگا،ہیجان برپا ہوگیا،رات کو سکون ملتا نہ چین،اس کا ایک ہی طریقہ تھا کہ یہ خبر کسی قریبی سہیلی سے شیئر کرے،چنانچہ اس نے شیئر کی،پھر وہی ہوا جو ہونا تھا،بات شرگوشیوں سے چلی اور منڈیروں سے ہوتی ہوئی انگور کی بیل کی طرح کوٹھوں پر چڑھ گئی،مقتول کے خاندان نے بھی سن لی پولیس نے پکڑ لیا،تھرڈ ڈگری طریقہ تھا یا فورتھ،خون بولا اور چیخ کر بولا،قاتل پھانسی کے پھندے پر جھول گیا،بے جان،ٹوٹ جانے وا؛ے بلبلوں نے قاتل پکڑوا دیا۔۔
‎ان لطیف سچائیوں کا علم حکمرانوں کو نہیں ہوتا،آج شہباز شریف سب سے بڑے صوبے کے مطلق العنان حکمران ہیں،صوبائی اسمبلی کو وہ جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے،وہ تو وہاں جاتے ہی نہیں،کابینہ جیسے بے جان پتلیوں کا مجموعہ ہے،کوئی فرد،کوئی ادارہ انہیں چیلنج کرنے والا نہیں،عدالت نے حکم دیا ہے کہ رپورٹ عام کریں،وہ نہیں کر رہے،کہتے ہیں اپیل کریں گے،
‎اپیل کرنے سے کیا ہوگا؟۔۔۔کیا بارش نہیں برسے گی؟کیا بلبلے نہیں بنیں گے؟کیا بلبلے پانی میں تھوڑی دور تک نہیں چلیں گے؟پھر نئے بلبلے کیا ان کی جگہ نہیں لیں گے کیا؟۔۔رپورٹ نہ افشا کریں،بے شک نہ کریں،آپ مطلق العنان حکمران ہیں مگر عالی جاہ،جہاں پناہ،بارش آپ کے قبضہ قدرت سے باہر ہے،بلبلوں نے بننا ہی بننا ہے،ایک نہیں،ہزار رانا ثنا اللہ ان بلبلوں کے بننے،تیرنے اور ٹوٹنے کو نہیں روک سکتے۔
‎تاریخ نے یہ بات پتھر پر لکیر کردی ہے کہ حکمرانوں کی بھاری اکثریت گہرائی میں جا کر سوچنے سے قاصر ہے۔تزک و احتشام،جاہ و جلال،نقیبوں اور حاجیوں کی صدائیں،ہٹو بچو کی آوازیں انہیں سوچنے نہیں دیتیں،آنکھوں پر بھی پٹی باندھ دیتی ہیں،باہر نکلتے ہیں تو شہر کو سیل کردیا جاتا ہے،دیکھیں گے کیسے؟۔۔۔
‎افسوس وہ بلبلوں کو بھی نہیں دیکھ رہے،یہ اور بات کہ یہ بلبلے 14انسانی لاشوں کے امانت دار ہیں۔



Wednesday, September 20, 2017

نفیریاں بجانے والیاں


کیا بخت ہے اس علاقے کا!
پیدائش ان کی غزنی میں ہوئی،غزنوی سلطنت خود بھی ان دنوں وسیع و عریض تھی،پھر وہ اس سے باہر بھی نکلے،بغداد گئے،کچھ وقت نیشا پور بسر کیا۔جو اس زمانے میں علوم و فنون کا مرکز تھا،دمشق گئے،یہ اس وقت کی معلوم دنیا کے بڑے بڑے مراکز تھے،مگر اس علاقے کا بخت کہ آخر کار لاہور آئے،اور ان کا مزار لاہور کے اس خوش بخت علاقے میں بنا،یہ مزار جو مرجع خلائق ہے،شہر کی سب سے بڑی،سب سے محترم شناخت ہے،شناخت کیا ہے،شہر پر اس سائبان کا،اس چھتنار کا سایہ ہے-
جی ڈبلیو لائٹنر ہنگری میں پیدا ہوا،آٹھ سال کی عمر میں قسطنطنیہ آیا۔دس سال کا ہوا تو ترکی اور عربی زبانوں کا ماہر ہوچکا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں جنگ کریمیا میں انگریزوں کی طرف سے مترجم اور ترجمان مقرر ہوا۔23برس کی عمر میں کنگز کالج لندن میں عربی اور مسلم لاء کا فل پروفیسر تعینات ہو چکا تھا۔کُل پچاس کے قریب زبانوں پر اسے مہارت حاصل تھی۔
اس علاقے کی قسمت کہ لائٹنر یہاں آگیا۔شہرہ آفاق گورنمنٹ کالج کے لیے اسی علاقے کو منتخب کیا گیا۔یہی پروفیسر لائٹنر اس کالج کا پرنسپل مقرر ہوا۔ابتدا میں اس کالج کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی سے تھا۔اس علاقے کے لیے لائٹنر نے ایک اور کارنامہ بھی سرانجام دیا۔وہ پنجاب یونیورسٹی کا بھی بانی تھا۔اس سے پہلے پورے برصغیر میں صرف تین یونیورسٹیاں تھیں،مگر وہ صرف الحاقی کالجوں کا امتحان لیتی تھیں۔پنجاب یونیورسٹی پہلی ہونیورسٹی تھی جہا ں پڑھایا بھی جاتا تھا اور امتحان بھی لیا جاتا تھا۔یہ یونیورسٹی بھی اسی علاقے میں بنی۔
یہ سار ی خوش بختیاں اس علاقے کی ہیں جسے اب الیکشن کی زبان میں این اے 120کہا جاتا ہے۔داتا دربار ہو یا گورنمنٹ کالج کا ایک صد ی سے زیادہ قدیم علمی اور ثقافتی ادار ہ،یا جی ڈبلیو لائٹنر کی قائم کردہ پنجاب یونیورسٹی،اس علاقے کے مائنڈ سیٹ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔یہاں کے مکین پہلے میاں محمد نواز شریف کو منتخب کرتے رہے،اب ان کی بیگم صاحبہ کو منتخب کیا ہے۔یہ سیاسی رہنما نہ صرف اس علاقے میں رہتے نہیں بلکہ ان کا اس سے بظاہر کوئی تعلق بھی نہیں۔پہلے یہ رہنما ماڈل ٹاؤن کی پوش آبادیوں میں متمکن تھے،پھر شہر سے کوسوں دور محلات بنائے، اور رائے ونڈ ان کا مسکن ٹھہرا۔
رائے ونڈ کے مسکن کا نام انہوں نے ایسی کسی آبادی کے نام پر نہیں رکھا جہاں سے انہیں ووٹ پڑتے ہیں۔انہوں نے اس کا نام اسلام پورہ رکھا نہ انار کلی،مزنگ نہ ساندہ،موج دریا نہ چوبرجی،شام نگر نہ پریم نگر۔کیا خوبصورت نام ہیں۔کیا کوئی نام "موج دریا "سے بھی زیادہ دلکش ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔شام نگر اور پریم نگر میں تقسیم سے پہلے کا سارا حسن سمٹ آیا ہے۔اور چو برجی۔۔یہ توا س دیدہ زیب جنت نشاں باغ کا صدر دروازہ تھا جو اورنگزیب کی بیٹی کا تھا،اور جہاں وہ سیر کے لیے جایا کرتی تھی۔کوئی صاحب ِ ذوق ہوتا،کسی نے تاریخ کی ایک آدھ جھلک دیکھی ہوتی رائے ونڈ کے مسکن کا نام چو برجی رکھتا یا شام نگر یا موج دریا،مگر نام رکھا بھی تو اس بستی کا جو بھارت میں رہ گئی۔۔دل وہیں اٹکا ہے،اگرچہ پیدائش یہاں کی ہے۔شاید یہی وہ تعلق خاطر ہے جو مشرقِ وسطیٰ کے کارخانوں میں پاکستانیوں کے بجائے بھارتیوں کو رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔
سید علی ہجویری کی آمد پر غور کیجئے۔کہاں کہاں نہیں تشریف لے گئے۔بغداد،نیشا پور،دمشق،پور ی غزنوی سلطنت قدموں میں تھی،مگر آئے تو لاہور آئے۔
پروفیسر جی ڈبلیو لائٹنر کو دیکھیے،دنیا کی جس یونیورسٹی کا رخ کرتا،ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا،مگر لاہو ر آیا۔اب ستم ظریفی دیکھیے کہ اس علاقے کے مکیں جن رہنماؤں کو منتخب کرتے ہیں،وہ منتخب ہوتے ہی لندن کا رخ کرتے ہیں۔میاں صاحب کی ایک عید بھی یہاں کے لوگوں کے ساتھ نہیں گزری،چلیے بیگم صاحبہ تو اب علالت کی وجہ سے لندن میں ہیں،لیکن دختر نیک اختر نے بھی یہی کام کیا کہ ووٹ لینے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ لندن روانہ ہو گئیں۔پہلے حکمران لندن سے یہاں آتے تھے،اس لیے کہ حکومت یہاں کرتے تھے۔ اب حکومت یہاں کرتے ہیں،مگر لندن میں بیٹھ کر۔
کیا آپ کو معلوم ہے stoicکسے کہتے ہیں؟۔اردو،فارسی اور عربی میں اسے رواق کہتے ہیں۔رواقی فلسفہ یہ ہے کہ انسان خوشی اور غم سے لاتعلق ہوجاتا ہے،یہ قناعت سے بھی آگے کی چیز ہے۔اس میں ضبط و استقلال اوجِ کمال پر ہوتا ہے۔این اے 120کے مکیں بھی یوں لگتا ہے stoicہیں۔رواقی فلسفے پر یقین رکھنے والے،خوشی اور غم سے لاتعلق،نلوں میں پانی نہیں آتا،بازار اور کوچے ٹوٹے ہوئے،مکان بوسیدہ اور پرانے،خاک اڑاتی گلیاں،مگر رواقی فلسفے میں ڈوبے ہوئے یہ مکیں ووٹ کھرب پتیوں کو دیتے ہیں۔ضمنی الیکشن سے پہلے مبینہ طور پر ایک کھرب کے ترقیاتی کام ہوئے۔سوشل میڈیا پر تصویریں لاکھوں آنکھوں نے دیکھیں۔ترقیاتی کام اتنی سرعت،اتنی برق رفتاری،ا س قدر بد حواسی سے ہوئے کہ اگر گاڑی کھڑی تھی تو اس کا نیچے والا حصہ چھوڑ دیا گیا،اور بقیہ پر نئی سڑک بنا دی گئی۔
ان رواقیوں کو،اس علاقے کے بے پرواہ مکینوں کو اس سے کچھ غرض نہیں،کہ جنھیں یہ ووٹ دیتے ہیں،وہ ایک لحاظ سے بدیسی ہیں۔شہزادی جو ان سے ووٹ مانگنے آئی تھی۔ان کی گلیوں میں لگے نلکوں سے پانی پینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ ان کیساتھ چارپائی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے،اور ان کے ہمراہ دال اچار اور چٹنی کھائے۔،مگر ان صابروں نے،ان مست حالوں نے،ان رواقیوں نے،ان ملامتیوں نے ووٹ ان کھرب پتیوں کو ہی دینے ہیں۔
رہا یہ دعوی ٰ کے ان ووٹروں نے عدالتِ اعظیٰ کے فیصلے کو رد کردیا ہے،سوال یہ ہے کہ کیا یہ ووٹر اپیل بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے؟کیا دنیا کی عدالتی تاریخ میں ایک نظیر بھی ایسی ہے،کہ عدالت کافیصلہ ووٹو ں سے منسوخ یا تبدیل ہوا ہو۔۔عدالت کی اپنی دنیا ہے،وہاں تقریروں،نعروں اور طعنوں سے کام نہیں نکلتا۔دلیل اور برہان کی بنیاد پر بات ہوتی ہے۔جو جیتا دلیل سے جیتا،جو ہارا دلیل سے ہارا۔
جمہوری عمل کسی تعطل کے بغیر جاری رہا تو وہ دن بھی آئے گا جب لوگ ووٹ دیتے وقت اچھے اور برے کا سوچیں گے۔تب تعلیم کا گراف بھی اوپر جاچکا ہوگا،لوگ کرپشن سے نفرت کریں گے۔برادری کو،سماجی تعلق کو،روابط کو حق اور باطل پر ترجیح نہیں دی جائے گی۔یہ نہیں کہیں گے کہ ہم تو تین پشتوں سے فلاں پارٹی کو ووٹ د ے رہے ہیں۔یہ نہیں کہیں گے کہ ہمارا خاندان کسی اور پارٹی کو پیسے نہیں دیتا۔تب میرٹ اور کردار کی پاکیزگی ووٹ کا واحد معیار ہوگا۔وہ دن کب آئے گا،؟نہیں معلوم کب۔۔۔مگر آئے گا ضرور۔
وقت کو پیچھے نہیں کیا جا سکتا۔پتھر کا زمانہ ختم ہوگیا۔غلامی کا عہد انجام کو پہنچا۔سماج کی یہ خاندان پرستی بھی ایک دن نہیں دکھائی دے گی۔حافظ نے کہا تھا۔۔۔
رسید مژدہ کہ ایام غم نخواہد ماند
چنان نماند چنین نیز ہم نخوہد ماند!
خوشی کے دن ہمیشہ نہیں رہتے تو غم کے ایام کیسے باقی رہیں گے؟یہ بھی تو عارضی ہیں 
انتظار کے ان طویل لمحوں کے دوران ہم اپنے اپنے گاؤں سے ہو آتے ہیں۔علی اکبر ناطق کی تازہ نظم پڑھیے،زخم ہرے کیجئے اور سر دھنیے۔۔
ہمارے گاؤں آگئیں نفیریاں بجانے والیاں،
نفیریاں بجانے والیوں کے دائیں بائیں رقص میں بشارتیں،
تریل کی شراب پی کے،
سانجرے کی سرخیوں کے ملک سے،
سوار ہوکے سورجوں کی روشنی پہ آگئیں نفیریاں بجانے والیاں،
ہمارے گاؤں کے خراس والے چوک میں،
دو بیریوں کی لاگروں کے سبز سائے،
سوندھی سوندھی گاچنی سے لیپی آسنوں پہ آج پھر،
چڑھی ہیں صندلیں کنواریاں،
نفیریاں بجانے والیاں،
نفیریاں بجانے والیوں کے کان کی لویں گلابکی
گلاب کے کنارے گھومتی ہیں گول گول سی بھبھریاں،
نفیریاں بجانے والیوں کی کرتیاں ہلال کی،
غرارے نور کے،
غراروں کے حصار میں کھنکتی چار چار جھانجریں،
سفید جھانجروں کے بیچ کانچ اور پارے کی شریر پنڈلیاں،
ہمارے گاؤں کے ہیں سادہ سادہ کاسنی سے گھر،
گھروں کے زندہ آنگنوں میں آگیا نفیریوں کا میٹھا میٹھا شور،
بجا رہی ہیں گاؤں کی جوان ہالیاں نفیریوں کے سنگ تالیاں،
ہمارے گاؤں آگئیں نفیریاں بجانے والیاں!

Friday, September 15, 2017

-‎شہری شعور؟کون سا شہری شعور؟


‎بات چار روپے کی نہیں،بات یہ ہے کہ کوئی زبردستی ایک روپیہ یا ایک پیسہ بھی کیوں رکھے،کسی نے لینا ہے تو مانگ کر لے،سو روپیہ دیں گے،استطاعت ہوئی تو ہزار بھی دیں گے۔دس ہزار بھی!
‎مگر سینے پر پاؤں اور گلے پر ہاتھ رکھ کر ایک روپیہ بھی چھینے گا تو نہیں دیں گے۔
‎پانی کا بِل تھا،رقم زیادہ نہ تھی،ملازم کو دیا کہ محلے کے بینک میں جاکر جمع کروا آئے،محلہ تو نہیں کہنا چاہیے،رہائشی کالونی ہے،نظم و ضبط اور قائدے قانون والی،ملازم جمع کرا آیا،کہنے لگا کہ بنک کلرک نے پیسے واپس کیے،نہ کچھ بولا،بقیہ چار روپے مانگے تو ادائے بے نیازی بلکہ کچھ کچھ رعونت سے کہنے لگا کہ ٹوٹے نہیں ہیں میاں۔۔
‎اس نے آکر بتایا تو کالم نگار کا شہری شعور پوری طرح بیدار ہو گیا، یوں کہیے کہ بھڑک کر بیدار ہوا،گھر والی کہتی ہے کہ بیرون ملک جتنا عرصہ رہتے ہو آرام سکون سے رہتے ہو،یہاں آئے دن کسی نہ کسی سے جھک جھک کررہے ہوتے ہو،فلاں نے وعدہ پورا نہیں کیا،فلاں وقت پر نہیں پہنچا،فلاں نے کہا تھا صوفہ پرسوں مرمت ہو جائے گا،پرسوں تو کیا،تین بعد جواب ملا کہ،جی بیمار ہو گیا تھا،بھائی بیمار ہوگئے تھے تو فون کردیتے۔وہ جی میں نے کہا کہ فون کیا کرنا،اگلے ہفتے ٹھیک ہوجاؤں گا تو خود ہی آجاؤں گا ۔
‎چنانچہ بنک سے جھک جھک شروع ہوئی،منیجر کو فون کیا،کوئی نہیں اٹھا رہا تھا،ایکسچینج نمبر پر کال کی،ٹیپ کی آواز آئی،کسٹمر سروس آفیسر سے بات کرنے کے لیے پانچ دبائیں، پانچ دبایا- کوئی نہیں اٹھا رہا تھا،منیجر آپریشن سے بات کرنے کے لیے چھ دبائیں،کوئی جواب نہیں۔آپریٹر بھی وجود نہیں رکھتا تھا۔اتفاق ہی کہیے کہ انٹر نیٹ پر زونل چیف کا نمبر مل گیا۔وہ درست بھی تھا اور زونل چیف صاحب نے اٹھا بھی لیا۔ان سے سیدھا سادہ سا سوال پوچھا۔۔زونل چیف صاحب ہماری رہائشی کالونی میں تقریباً دس ہزار گھر ہیں، ہر گھر نے پانی کا بل جمع کرانا ہے بجلی کا بھی،گیس کا بھی، فون کا بھی -اگر آپ کا بینک ہر بل پر چار روپے جگا ٹیکس لگاتا ہے تو چار بلوں پر سولہ روپے بنے،اور اسے دس ہزار سے ضرب دیجئے تو ماہانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بنتے ہیں،یہ بتائیے ان ایک لاکھ ساٹھ ہزار میں آپ کا حصہ کتنا ہے۔؟
‎زونل چیف ہنس پڑا۔۔۔"سر ایسی کوئی بات نہیں "۔۔اس پر اسے مشورہ دیا کہ ایسے موقعوں پر ہنستے نہیں رونے کی اداکاری کرتے ہیں،پھر اس سے پوچھا،زونل چیف صاحب آپ کی جو فلاں برانچ ہے، کبھی فون کرکے اندازہ لگانے کی کوشش کہ وہاں فون کرنے والوں پر کیا بیتتی ہے؟ظاہر ہے اس کے پاس جواب نہ تھا۔
‎اگلا سوال پوچھا تو سن کر گنگ رہ گیا۔زونل چیف صاحب آپ کو بنک نے اتنی بڑی ذمہ داری دی ہے،اتنی ڈھیر سار ی برانچیں آپ کے چارج میں ہیں،کیا کبھی بھیس بدل کر عام کلائنٹ کے طور پر کسی برانچ میں بل جمع کرانے یا کسی اور کام کے لیے گئے ہیں؟۔۔۔
‎وہی گھسے پٹے جواب،تھوڑی دیر کے بعد بنک منیجر کا فون آیا،سر مجھے ابھی ابھی زونل چیف صاحب نے حکم دیا ہے کہ آپ سے رابطہ کروں،سر ہم آپ کی شکایت پر ایکشن لے رہے ہیں۔
‎ایکشن کیا لیں گے؟خاک ایکشن ہوگا،قصور بنک کے منیجر اور کلرک کا پچیس فیصد ہے اور پچھتر فیصد قصور پبلک کا ہے،کلائنٹس کا ہے،شہری شعور کی اس قدر کمی ہے کہ ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے، چلیں،چھوڑیں جی،مٹی پاؤ۔پٹرول پمپوں والے اکثر و بیشتر باقی رقم نہیں دیتے،کوئی مانگتا نہیں،نہ تنبیہ کرتا ہے،نہ تقاضا۔تمام بڑے بڑے سپر سٹوروں کا یہی عالم ہے، کاؤنٹر لگے ہیں،کاؤنٹر پر مشینیں نصب ہیں،مگر بقیہ رقم پوری نہیں ملتی،اس کے برعکس عام انفرادی دکاندار ایسا نہیں کرتا،وہ ایک ایک پیسہ واپس کرتا ہے،کم ہی اتفاق ہوا ہے کہ وہ بہانہ بنائے۔یہاں ایک اور تبدیلی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے،کیا آپ کو کبھی محسوس ہوا ہے کہ عام چھوٹا دکاندار منظر سے غائب ہو رہا ہے،؟
‎پہلے لوگ کہتے تھے مہینے کا سودا فلاں دکان سے لیتے ہیں،اب لوگ کہتے ہیں گروسری فلاں سوپر مارکیٹ سے،کیش اینڈ کیری سے لیتے ہیں،وہ جو محلے میں کریانے والا تھا وہ منظر سے ہٹ گیا،جہاں ہے، وہاں سے بھی ہٹتا جا رہا ہے،ایک ہی چھت کے نیچے،انڈر ون روف کا تصور چھا گیاہے۔کیش اینڈ کیری میں یا مارٹ یا سپر سٹور میں ساری اشیاء میسر ہیں،ٹوتھ پیسٹ سے لے کر کر اکری تک۔آٹے سے لے کر دودھ تک،انڈوں سے لے کر گوشت تک،نئے ٹی وی بھی پرے ہیں،کھلونے بھی وہیں ہیں،جوتے اور پتلون بھی حاضر ہیں،بھوک لگی ہے تو فوراً کھانے کے لیے پزا یا چکن پیس بھی خریدے جا سکتے ہیں،کارپوریٹ سٹائل نے سب کچھ بدل دیا ہے،بیچارہ کریانے والا اپنی جیب سے شاپنگ بیگ خرید کر گاہک کو دیتا تھا،مانگنے پر دوسرا بھی دے دیتا تھا،اب سپر سٹور والا پوچھتا ہے،شاپنگ بیگ چاہیے؟۔۔۔جواب ہاں میں ہو تو فوراً اس کی انگلیاں مشین پر ٹھک ٹھک کرتی ہیں،اور شاپنگ بیگ کی قیمت آپ کے بل میں جمع ہوجاتی یں ہ
‎رقی یافتہ ملکوں نے "بقیہ رقم" کے بکھیڑے کو ہی ختم کردیا ہے،کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کیجئے۔کاؤنٹر والا آپ کے پیسے رکھ سکتا ہے،نہ آپ کم دے سکتے ہیں۔ان ملکوں میں کوئی گاہک ،کاؤنٹر والے کو سو ڈالر کا نوٹ دے تو کاؤنٹر والا اس نوٹ کے علاوہ گاہک کو بھی غور سے دیکھتا ہے،
‎ہر کام حکومت کرسکتی ہے نہ ہر شہری کے اوپر ایک پولیس والا متعین کیا جاسکتا ہے،شہری شعور پختگی کے مراحل طے کرے تو بے شمار مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ٹریفک کا مسئلہ لیجئے۔۔شاہراہوں پر کروڑوں کی حساب سے موٹر سائیکل رواں ہیں۔سب سنپولیے لگتے ہیں،سانپ کی طرح موٹروں کے بیچ سے زِگ زیگ کرکے دائیں بائیں ہوتے،ہر ایک کو ڈاج کرتے یہ جا وہ جا۔۔۔
‎ہمارے ایک دوست ہاشمی صاحب نے جو مزاح لکھتے ہیں،ایک دلچسپ کتاب تصنیف کی ہے"آنکھوں دیکھا جھوٹ "فرانس کے حوالے سے کیا عبرت انگیز جملہ لکھا،کبھی سڑک پر ہارن کی آواز نہیں سنی،ہارن بجا تو کسی پاکستانی پر ہی بجا۔۔۔کار سے جب بھی ٹکرایا تو موٹر سائیکل والا ہی ٹکرایا،اگر موٹر سائیکل،بس،ویگن،پک اپ،سوزوکی چلانے والا،شہری شعور اپنے زیادہ نہیں،کلو ڈیڑھ کلو ہی رکھ لے تو ٹریفک کی صورت حال یکسر بدل جائے گی۔
‎سب سے زیادہ آفت ٹرکوں کی ہے،اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری شاہراہیں ٹرکوں کے ہاتھوں کیوں اور کیسے یرغمال بنیں۔۔؟یہ "احسان "بھی اس قوم پر "اسلامی"آمر (اگر اس ملک میں اسلامی شہد کی اصطلاح چل سکتی ہے تو اسلامی آمر کی کیوں نہیں)جنرل ضیا الحق نے کہا۔۔این ایل سی اس کے عہد نا مسعودمیں تشکیل پذیر ہوئی۔ بندر گاہ سے سامان اندرون ملک لانے لیجانے کے لیے فوج کے مقدس ادارے کو استعمال کیا گیا۔این ایل سی بنائی گئی۔ظلم کے اوپر دوسرا ظلم یہ ہوا کہ ضیا الحق نے اس جرنیل کو جو این ایل سی کا بِگ باس تھا،ریلوے کا بھی وزیر بنا دیا۔چنانچہ ریلوے کی کارگو سروس کمزور کی گئی۔شاہراہیں ایل این سی کے قوی ہیکل ٹرکوں سے اٹ گئیں۔آج صورتحال یہ ہے کہ اس ملک کی سڑکوں پر ٹرک دادا گیری کرتے پھر رہے ہیں۔قانون کی دھجیاں کیسے اڑائی جاتی ہیں،اس کا اندازہ آئل ٹینکر کے حالیہ واقعات سے لگائیے۔قانونی تقاضے پورے کیے بغیر سڑکوں پر رواں ہیں۔حکومت نے کوشش کی کہ ضابطے کے دائرے میں لائے تو ملک گیر ہڑتال کرکے بلیک میلنگ کی گئی۔اور کامیاب بلیک میلنگ کی گئی۔
‎شہری شعور کا ماتم کرنا ہو تو ریلوے اسٹیشن جاکر دیکھیے،ٹرین سے اترنے والے مسافر دروازے سے باہر جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے صومالیہ کے مہاجر روٹی کے ٹکڑے لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہوں،وہ غریب مظلوم جو ٹکٹ چیک کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہے سامنے والے سے ٹکٹ لیتا ہے تو دو مسافر سامنے سے اور تین بغل سے گزر جاتے ہیں،ان میں پڑھے لکھے بھی ہیں،جو پوری جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
‎ہمارے شہری شعور کا تابناک نظارہ وہ ہوتا ہے جب شادی کا کھانا کھلتا ہے اللہ اکبر!قیامت کا سماں ہوتا ہے۔تھری پیس سوٹ اور شیروانیوں والے سب ننگے ہوجاتے ہیں،آنکھیں ماتھے پر آجاتی ہیں،یہ وہ محشر ہے جس میں کوئی کسی کو نہیں پہچان رہا،زندگی کا مقصد اس نازک لمحے میں یہ ہے کہ پلیٹ بھری جائے اور اس میں گوشت ہی گوشت ہو۔
‎ا ن بھکاریوں کا سچ پوچھیے تو حق بھی بنتا ہے یہ کئی گھنٹوں سے اس کھانے کے لیے بیٹھے تھے،دعوتی کارڈز پر ساڑھے سات بجے کا وقت تھا،کھانا گیارہ بجے کھلا ہے،شہری شعور ہوتا تو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ انتظار کرتے،اور میزبان سے مل کر چلے جاتے،میزبان کو بھی احساس ہوتا،یوں آہستہ آہستہ یہ ذلت آمیز رواج ختم ہوسکتا تھا،مگر وقت ہمار ے ہاں بہتات میں ہے،کھانے کے لیے پوری رات بھی بیٹھ کر انتظار کرسکتے تھے،کھانا شروع ہونے کا وقت ہوگا تو جانوروں کو موقع ملے گاکہ کانوں کو ہاتھ لگا کر جنگل کی جانب بھاگنا شروع کریں۔
‎شہری شعور؟کون سا شہری شعور؟

Monday, September 11, 2017

صبح گیا یا شام گیا۔


غریب الوطنی اور ایسی کہ آسمان آنسو بہاتا تھا،
ایرانی شاہ طہماسپ نے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی مگر مہمان جب کسی غرض کے لیے آیا ہو تو ایک پردہ ایک حجاب درمیان میں ضرور ہوتا ہے۔ایسا ہی پردہ ایسا ہی حجاب شاہ طہماسپ اور شہنشاہ ہمایوں کے درمیان تھا،ایک مہمان تھا،دوسرا میزبان۔۔ایک کا ہاتھ لینے والا تھا،دوسرے کا ہاتھ دینے والا،روایات بتاتی ہیں کہ میزبان کی طرف سے کوشش تھی کہ مہمان مسلک بدل لے،جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو یہ کوشش ہوئی کہ کم از کم ایک مخصوص ٹوپی ہی پہن لی جائے۔
ایسا ہی ایک اضطراب بھرا دن تھا،دونوں بادشاہ شکار کے لیے نکلے،ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے کا فیصلہ ہوا،قالین بچھایا گیا،میزبان پہلے بیٹھا،ہمایوں بیٹھنے لگا تو صورتِ حال یوں تھی کہ اگر وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تو ایک زانو قالین سے ہٹ کر زمین کے ننگے فرش پر آتا۔ہمایوں کے ایک گارڈ نے بجلی کی سی تیزی دکھائی،خنجر سے ترکش پھاڑا اور اس کا کپڑا اناً فاناً یوں زمین پر بچھایا کہ زانو اس پر آیا۔
طہماسپ یہ سب دیکھ رہا تھا،بہت متاثر ہوا۔۔کہنے لگا،ایسے ایسے جاں نثار اور پھر بھی سلطنت چھن گئی۔۔۔کیوں؟
ہمایوں نے وضاحت کی کہ مغل ابھی تک گملوں میں لگے ہوئے پودے ہیں۔صرف ساتھ آنے والے تورانیوں اور افغانیوں پر انحصار ہے اور وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔میزبان نے نصیحت کی کہ اگر دوبارہ حکومت کا موقع ملے تو مقامی طاقتوں کو حکومت کا حصہ بنائیے!
ہمایوں کو حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن وقت نے ساتھ نہ دیا،طہماسپ کی اس نصیحت پر اکبر نے عمل کرکے دکھایا۔مقامی طاقتوں میں راجپوت نمایاں ترین تھے،اکبر نے ان سے شادیاں کیں،راجپوتوں کو اعلیٰ مناصب پر فائز کیا،مذہبی آزادی دی،شکست خوردہ راجپوتوں کی عزتِ نف کا خیال رکھا،فوج میں انہیں ایسے عہدوں پر 
رکھا جس سے محسوس ہوتا تھا کہ اس ے ان پر اعتماد ہے۔راجپوت ریاستوں کو اندرونی خود مختاری دی،جزیہ 
اور گاؤ کشی کے معاملوں میں نرمی برتی،راجپوتوں نے پھر وفا کی،ایسی وفا کہ ساتھ چھوڑ نہ پیٹھ دکھائی۔
میاں نواز شریف کو بھی ایک راجپوت ساتھی ملا۔کھرا،منہ پر دو ٹوک بات کرنے والا،مگر میاں صاحب تاریخی طور پر ان حکمرانوں کے گروہ میں ہیں جو صرف اپنی مرضی کی بات دوسرے سے سننا پسند کرتے ہیں،کانوں کے کچے،ادراک و فہم کی کمی،گہرائی سے محروم،اپنا اور اپنے خاندان کا پیچ کسی وقت درمیان میں سے نکلتا ہی نہیں۔
اس گنہگار کالم نگار نے پانچ سال پہلے لکھا تھا،کہ چوہدری نثار 
Odd man out 
ہیں۔میا ں صاحب کا اِنر سرکل یعنی اندرونی حلقہ ء اعتبار صرف ان لوگوں پر مشتمل ہے جو وسطی پنجاب کی پٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ڈار صاحب سے لے کر دو نوں خواجگان تک،عابد علی شیر سے لے کر احصن اقبال تک،خرم دستگیر سے لیے کر پرویز رشید تک،بس لاہور ہے اور نوحِ لاہور!
مخصوص علاقے سے تعلق رکھنے والے اس گروہ سے صر ف چوہدری نثار علی باہر سے تھے۔
مگر ایک میرِ شکستہ پاء تیرے باغ ِ تازہ میں خا ر تھا
جغرافیائی حوالے سے قطع نظر،یوں بھی راجپوت نثار علی خان سر جھکا کر ہاں میں ہاں ملانے والوں میں سے نہیں تھے،جبکہ باقی مصاحبین کا حال بقول ظفر اقبال یہ تھا،
سر اٹھایا نہیں میں نے کہ سلامت رہ جائے
عذر کیا ہے مجھے اب ہاتھ اٹھا دینے میں!
پانچ سال پہلے یہ بھی لکھا تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ حلقہ بگوشوں کا یہ دائرہ توڑ کر باہر آ جائیں گے،چنانچہ یہی ہوا،راجپوت نے کابینہ کی میٹنگ میں اس وقت کے وزیر اعظم اور آج کے نااہل سابق وزیر اعظم کی موجودگی میں صاف بات کی۔کھل کر موقف بیان کیا اور انگریزی محاورے کی رُو سے بیلچے کو بیلچا کہا۔بیلچا کسی طرح بھی کلہاڑی بن سکتا ہے نہ ڈھال،ہل نہ جال،جبھی تو چوہدری نثار نے کہا ہے کہ مریم نواز کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ میاں صاحب کی دختر ہیں،گویا۔۔
بنے کا شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے!
کہا ں مریم صفدر اور کہاں بے نظیر بھٹو۔صرف مطالعہ کی وسعت کا فرق دیکھ لیجئے۔اسی لیے نثار نے کہا کہ بچے بچے ہوتے ہیں۔لیڈر نہیں!اور یہ کہ شہزادی کو پہلے عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔
رہا چوہدری نثار علی خان کا یہ اعتراف کہ وہ بات کو دل میں رکھتے ہیں،علاقائی حوالے سے بھی ایک حقیقت ہے،بجا کہ یہ تعمیم سو فیصد افراد پر نہیں کی جاسکتی،مگر اکثریت کی بنیاد پر ایک حقیقت سامنے آتی ہے جسے تجربے نے سالہا سال کی بنیاد پر سچ ثابت کیا ہوتاہے۔
چوہدری نثار علی خان چکری سے ہیں،یہ علاقہ چند عشرے قبل تحصیل فتح جنگ کا حصہ تھا۔ فتح جنگ پنڈی گھیب تلہ گنگ ایک مخصوس پٹی ہے اس کا ایک ڈانڈا میانوالی کی طرف جا نکلتا ہے۔اس علاقے کے باسیوں کی صدیوں سے یہ خصوصیت چلی آرہی ہے کہ دشمنی بھی نبھاتے ہیں اور دوستی بھی،ہات پر کٹ مرتے ہیں،بات دل میں رکھتے ہیں،مثلاً وسطی پنجاب کے برعکس یہاں موت پر نہ آنے والے سے تعلقات زندگی بھر کے لیے ختم ہوجاتے ہیں،کسی بھی وجہ سے دشمنی پیداہوجائے تو مشکل سے ہی ختم ہوتی ہے۔سالوں تک عشروں تک مرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے،منافقت کم ہے بہت کم۔ اگر کوئی کسی کو ناپسند کرتا ہے تو اس ناپسندیدگی کو ڈھانک کر نہیں رکھے گا،ظاہر کرے گا،بعض اوقات پا س سے یوں گزرے گا جیسے جان پہچان ہی نہ ہو،ظاہر ہے چوہدری نثار علی خان کے اپنے مزاج اپنے ضمیر اور اپنی کیمسٹری کا بھی اس رویے میں حصہ ہوگا،مگر بحیثیت مجموعی پورے علاقے کا ایک انداز،ایک اسلوب، ایک سٹائل ہے جو چوہدری صاحب میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہوئی کہ باقی مصاحبین اہلِ غرض سے ہیں،خوشامد کرنے والے ہیں، اور اتنی جرات نہیں دکھا سکتے کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہیں۔مریم صفدر اب عملی طور پر مسلم لیگ ن کی سربراہ ہیں،ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ ہے نہ وہ منتخب رکن ہیں،نہ سرکاری ملازم۔پوچھنے والے پوچھے کا حق رکھتے ہیں کہ کس حیثیت سے پارٹی کو نیچے بچھا کر اوپر آلتی پالتی مارے بیٹھی ہیں؟۔۔۔اس سوال کا جواب چوہدری نثار علی خان نے دیا ہے۔کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں سوائے اس کے کہ وہ سابق وزیر اعظم کی دختر نیک اختر ہیں۔
میاں صاحب کی نا اہلی کو جمہوریت کا خاتمہ کہنے اور سمجھنے والے سوچیں کہ اگر میاں صاحب جمہوریت پر،اداروں پر اور نظم وترتیب پر یقین رکھتے تو بیماری کی وجہ سے قیام لندن کے دوران سینئر ترین وفاقی وزیرکو قائم مقام وزیراعظم بنا کر باقائدہ اعلان کرتے۔مگر ایسی اصول پسندی ان کے خمیر میں ہی نہیں،قائم مقام وزیر اعظم کوئی بھی نہ تھا،اور اصل وزیر اعظم کے اختیارات بیٹی استعمال کررہی تھی،کیا آپ نے کبھی سنا کہ کسی جمہوری ملک میں غیر ملکی سرکاری ملاقاتی،حکمران کی بیٹی یا بیٹے کے حضور آکر کورنش بجا لائیں؟پھر وزیروں،افسروں اور اہلکاروں کو بھی یہی حکم ملے،ہاں ایسا ہوتا ہے مگر صرف قبائلی طرزِ حکومت میں۔
نثار علی خان اس شاہراہ سے ہٹ کر کنارے کھڑے ہیں،جس پر مسلم لیگ ن کا قافلہ رواں ہے،اور چاپلوسی کرنے والوں کی ایک طویل قطار اس قافلے کی گر دمیں لپٹی،پیچھے پیچھے نعرے لگات آرہی ہے۔آج نہیں تو کل،کل نہیں تو پرسوں،یہ راجپوت ضرور الگ ہوجائے گا،ابھی تو اس نے صرف برملا یہ تسلیم کیا ہے کہ 2003کے بعد ان کے تعلقات وزیراعظم سے سرد ہو گئے،بہت جلد وہ مزید اعلانات بھی کریں گے۔
عشق ہمارے خیال پڑا ہے،خواب گیا آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے،صبح گیا یا شام گیا!


Sunday, September 10, 2017

یہ عذر تراشنے والے پرندے!

‎حضرت خواجہ فرید الدین عطار کے والد گرامی حضرت قطب الدین حیدر کے مرید تھے،جو مشہور مجذوب بزرگ تھے،خود خواجہ صاحب کو فقیر ی کا خرقہ حضرت مجددالدین بغدادی سے حاصل ہوا۔
‎آپ نے طویل عرصہ سیاحت میں گزارا،حجاز،شام،مصر،خراسان،"(آج کا افغانستان اور کچھ حصہ ایران کا")وسط ایشیاء،چین اور ہندوستان کی سیر کی۔آخر میں نیشا پور مقیم ہوگئے،اس زمانے کا نیشا پور ایسا ہی تھا جیسا آج کا لندن اور پیرس یا نیویارک،زمانے بھرکے علوم و فنون کا مرکز،
‎انتالیس سال تک خواجہ صاحب صوفیا اور بزرگوں کے اقوال جمع کرتے رہے،مگر کسی حکمران کا قصیدہ لکھنا گوارا نہ کیا۔کم درجے کے گھسیارے اور پھسڈی شاعر درباروں میں قصیدے پیش کرکے جاگیریں اور انعامات وصول کر رہے تھے،مگر آپ اَکلِ حلال کے راہ راست سے ایک انچ نہ ہٹے،کیمسٹ تھے،عطریات اور خوشبوئیں بھی فروخت کرتے تھے، اس زمانے میں عطریات سے منسلک شخص کو عطار کہتے تھے۔ہر عطار دوا فروش بھی ہوتا تھا، میر کا مشہور زمانہ شعر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
‎میر کیا سادہ ہیں،بیمار ہوئے جس کے سبب
‎اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں!
‎روایت ہے کہ ایک دن خواجہ صاحب دکان پر تشریف فرما تھے ایک فقیر آنکلا،ان کی دکان کی آرائش اور اشیاء کو غور سے دیکھنے لگا،خواجہ صاحب کو اچھا نہ لگا،ذرا سخت لہجے میں اسے اپنا راستہ لینے کا کہا،فقیر نے کہا میرا جانا کیا مشکل ہے،تم اپنی فکر کرو،میں تو چلا،یہ لو!
‎یہ کہا اور وہیں دکان کے سامنے چادر اوڑھ کر جان،جان آفریں کے سپرد کردی۔خواجہ صاحب کی حالت غیر ہوگئی۔اس کے بعد فقیری اختیار کرلی۔
‎ان کی وفات کا واقعہ بہت دردناک ہے،تاتاریوں کی یلغار عروج پر تھی،غارت گری نے عالم ِ اسلام پر ہلاکت کی مہیب چادر تان رکھی تھی۔مسلمانوں کے ساتھ وہی کچھ ہورہا تھا،جو آج یمن سے لے کر شام تک اور بغداد سے لے کر جلال آباد تک ہو رہا ہے۔نفسیاتی طور پر مسلمان اس قدر شکست خوردہ تھے کہ ایک ایک نہتا تاتاری پندرہ پندرہ بیس بیس مسلمانوں کو ہانکتا پھر رہا تھا،ایک تاتاری نے اسے ایک ہزار اشرفیوں کی (یادینار یا جو کچھ بھی اس زمانے میں رائج تھا)پیش کش کی کہ اس کے حوالے کردیا جائے،
‎خواجہ صاحب نے تاتاری کو منع کیا کہ یہ دام کم ہیں،میری تو قیمت اس سے زیادہ ہے،تاتاری مان گیا۔اب ایک اور تاتاری نے گھاس کے گٹھر کے عوض خواجہ صاحب کو خریدنا چاہا۔خواجہ صاحب نے کہا فوراً لے لو،میرے دام توا س سے بھی کم ہیں۔
‎خواجہ صاحب اس وقت بھی تصوف کے اسرار و موز میں الجھے ہوئے تھے،یہ وہ عالم ہوتا ہے جب جان کی پرواہ نہیں ہوتی،مطلب ان کا یہ تھا کہ انسان ہی سب سے قیمتی ہے اور انسان ہی سب سے زیادہ ارزاں ہے۔کبھی یہ احسن ِ تقویم ہے اور کبھی اسفل السافلین۔۔
‎تاتاری کو کیا علم کہ یہ کون ہیں،اور ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں،اسے غصہ آگیا،سمجھا قیدی مذاق کر رہا ہے،اور اسے بیوقوف بنا رہا ہے، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ انہیں شہید کرڈالا۔۔یہ الگ بات کہ بعد میں حقیقت ِ کا پتا چلا تو تائب ہوا،اور ان کے مزار کا مجاور بن گیا۔
‎خواجہ فریدی الدین عطار کی تصانیف بہت ہیں،تذکرۃ الاولیا نمایاں تصیف ہے،مشہور مستشرق ای جی براؤن نے گزشتہ صدی کے اوائل میں اسے چھپوایا مگر خواجہ صاحب کا تصوف میں اور ادب میں بالخصوص شاعری میں اصل کارنامہ "منطق الطیر "ہے۔قرآن پاک سے اس خوبصورت نام کو اخذ کرنا خواجہ صاحب کی ذہانت پر دال ہے۔سورہ نمل کی سولہویں آیت ہے
‎"اور وارث ہوئے سلیمان داؤد کے اور کہا اے لوگو!ہمیں منطق الطیر(پرندوں کی بولیاں)سکھائی گئی ہیں "۔
‎المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے آج تصوف سے مزین رنگا رنگ دکانیں کھول رکھی ہیں ان میں سے اکثر نے منطق الطیر کا نام سنا ہے نہ عطار کا۔
‎یہاں ہماری مراد ان صاحبان طریقت سے نہیں جو واقعی فقیر ہیں،سراپا فقر ہیں،تصوف کے اسرار سے آگاہ ہیں،مگر یاد رہے کہ ایسے حضرات اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے،چہ جائیکہ آج کل کے دکانداروں کی طرح اپنی تشہیر کراتے پھریں۔
‎منطق الطیر ساڑھے چار ہزارسے زائد اشعار پر مشتمل مثنوی ہے،یہ پینتالیس مقالات پر محیط ہے،آسمانی سفر ناموں میں منطق الطیر کا اپنا ہی مقام ہے،اس عظیم الشان علامتی کہانی میں پرندے اس خیالی طائر کو تلا ش کرتے ہیں جسے سیمرغ"(سی مرغ" ) کہا جاتا ہے،پرندے ہُد ہُد کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں،مگر جوں ہی ہُد ہُد انہیں کا م کرنے کی ہدایت دیتا ہے اور رزق تلاش کرنے کا حکم دیتا ہے تو پرندے قسم قسم کے عذر تراشنے لگتے ہیں،بلبل کا بہانہ ہے کہ وہ پھول سے جدا نہیں ہو سکتی،طوطے کو ڈر ہے کہ اسے پکڑ کر پنجرے میں قید کردیا جائے گا،مورخ اپنی مذمت کرنے لگتا ہے کہ اسے خلد سے نکلوانے میں اس کا نام بھی لیا جاتا ہے،بطخ پانی کو نہیں چھوڑ سکتی،چکور کے لیے پہاڑوں کی جدائی برداشت کرنا کارِ دارد ہے،بگلا جھیل کے پانی سے الگ نہیں ہونا چاہتاالو ویرانے سے نہیں نکل سکتا،باز بادشاہوں کے ہاتھ پر بیٹھتا ہے۔ وہ اس بلند مرتبہ عہدے کو خیر باد نہیں کہہ سکتا۔ہُما کہتا ہے کہ وہ تو لوگوں کے سروں پر بیٹھ کر انہیں بادشاہ بناتا ہے،ممولا کہتا ہے کہ وہ تو کمزور ہے اور بے بضاعت۔
‎ہُد ہُد ان سب پرندوں کو بہانوں کا ایک ایک کرکے جواب دیتا ہے،اس سفر میں پرندے سات وادیاں عبور کرتے ہیں،یہ سات وادیاں ہیں،جستجو،عشق،معرفت،بے نیازی،توحید اور فنا۔
‎ہُد ہُد کی رہنمائی میں پرندے یہ سات وادیاں عبور کرتے ہیں،اور آخر کار سیمرغ تک پہنچتے ہیں۔مگر اسے دیکھتے ہیں تو اپنے جیسا لگتا ہے،جیسے ان میں اور سیمرغ میں کوئی فرق نہیں،گویا وہ اپنی ہی تلاش میں نکلے تھے،
‎ارد گرد دیکھیے!یہ بہانہ باز پرندے آپ کو پیش منظر پر چھائے نظر آئیں گے۔ان میں سے کوئی اپنے کارخانوں کی قربانی نہیں دے سکتا،کوئی ڈرامے کرتا ہے،حبیب جالب کے شعر لہک لہک کر گاتا ہے،خونی انقلاب کی باتیں کرتا ہے مگر اپنا پروٹوکول نہیں چھوڑ سکتا،اپنے متعدد محلات کو سرکاری رہائش گاہیں قرار دیتا ہے،ظلم کی انتہا دیکھیے کہ ایک صوبائی حاکم نے صوبے کے بجٹ سے لندن کے پاکستانی سفارت خانے کو "صوفی میوزیکل عشق" کے لیے ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے کی خطیر رقم جاری کی ہے،گویا سفارتخانہ وفاق کا نہیں پنجاب کا ہے،ایسی حرکت ایم کیو ایم،پی ٹی آئی یا پی پی سے سرزد ہوتی تو حکومتی پار ٹی کے ڈھول بجانے والے آسمان سر پر اٹھا لیتے،اور طعن و تشنیع سے جسم چھلنی کردیتے،مگر خود انہیں ہر غلط،ہر غیر قانونی کام کرنے کے لیے کھلی چھٹی ہے، کیوں کہ سیاں جی کوتوال ہیں،پکڑے کون؟
‎کوئی اپنے کھیتوں پر ٹیکس نہیں دینا چاہتا کسی کو پشتینی گدی عزیز ہے،کوئی رشوت سے کنارہ کش نہیں ہوسکتا ،کسی کو اپنے پارٹمنٹ،اپنی کمپنیاں،اور بینک اکاؤنٹ اتنے پیارے ہیں کہ ان کے لیے حکومت کو بھی چھوڑ سکتا ہے۔
‎یہاں تک کہ اپنے خاندان کی خواتین کوکچہری تک لانے کو بھی تیار ہے مگر افسوس!ہُد ہُد کوئی نہیں! کوئی ایسا رہنما نہیں نظر آرہا جو ان سب جان چھرانے والے سیاستدانوں اور لیڈروں کو قائل کرکے سیدھی راہ پر ڈالے۔
‎سنا ہے کہ بابائے سفر نامہ اور معروف مصنف ناول نگار حضرت مستنصر حسین تارڑ ایک کتاب تصنیف کررہے ہیں جس کا نام وہ منطق الطیر جدید رکھیں گے،نہیں معلوم اس میں پرندوں کی بولیا ں ہیں یا انسانوں کی،اور اس کی کہانی کا پلاٹ کیا ہے،مگر اس سے ایک فائدہ ضرور ہوگا،کہ پڑھنے کاشوق رکھنے والے منطق الطیر قدیم سے بھی واقف ہوجائیں۔مستنصر حسین صاحب سے دست بستہ گزارش ہے کہ بابیو!ہم آپ کی کتاب کا انتظار کر رہے ہیں،بقول اقبال
‎بیاد بادہ کہ گردوں بکامِ ماگردید
‎مثالِ غنچہ نواہاز شا خسار دمید!
‎شراب لائیے،کہ آسمان ہماری مرضی کے مطابق گردش کررہا ہے
‎اب تو نغمے ٹہنیوں سے کلیوں کی صورت پھوٹ رہے ہیں!
‎قاآنی سے بھی سفارش کرادیتے ہیں 
‎درقم شراب نسیست،عزیزاں!خدائی را!
‎برتر نہید گامیِ وازری بیاورید
‎عزیزو! اگرقُم میں شراب میسر نہیں تو خدا کا واسطہ ہے،قدم تیز تیز رکھو اور مجھے رے سے سے شراب لادو! 


Wednesday, September 06, 2017

مسٹر بُکس والے یوسف صاحب چلے گئے!


سب سے پہلے،رات گئے فیس بک پر عقیل صاحب کی پوسٹ پر نظر پڑ ی، یقین نہ آیا کہ چند روز پہلے ہی تو بات ہوئی تھی،وہیل چیئر پر کاؤنٹر کے پاس بیٹھے تھے،گلے ملے تو حسبِ معمول چوما۔
ان کے نمبر پر فون کیا،کوئی نہیں اٹھا رہا تھا،دو تین ان کے سیلز مینوں کے نمبروں پر جو نئی کتابوں کی اطلاع دینے کے لیے ایس ایم ایس کرتے رہتے ہیں،فون کیے۔۔جواب نہ دارد!بیگم سے خبر شیئر کی تو اس نے اتنی زور سے "ہائے"کی کہ اضطراب میں اضافہ ہوگیا۔دل بار بار کہتا تھا کہ عقیل عباس جعفری کراچی میں ہیں۔ کسی نے انہیں غلط خبر دی ہوگی،پھر کچھ دیر بعد رؤف کلاسرا صاحب کی پوسٹ دیکھی، وہ ایک باخبر صحافی ہیں،اب صحیح معنوں میں خبر کا
 impact
محسوس ہوا۔دل جیسے مٹھی میں جکڑا گیا،سینے کے اندرگھٹن سی محسوس ہونے لگی، یوسف صاحب چلے گئے؟وہ کیسے ہار گئے؟وہ تو ہار ماننے والے نہیں تھے۔وہ تو دو اجزاء کا مرکب تھے،شکر اور حوصلہ، ہر تکلیف پر شکر ادا کیا اور حوصلہ اتنا بلند رکھا کہ ان سے ملنے والوں کو تعجب ہوتا تھا،کہ یہ انسان ہے یا پہاڑ۔۔۔؟
یوسف صاحب سے پہلی ملاقات کب ہوئی،ماہ و سال کی دھند میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا،اصل گپ شپ ان کے بڑے بھائی یونس مرحوم سے تھی،راولپنڈی صدر میں کتابوں کی سب سے بڑی دکان"ورائٹی بک سٹور" یونس صاحب کی تھی۔اب تو ان کے فرزندان نے کتابوں کے علاوہ گفٹ اور متفرقات بھی رکھنی شروع کردی ہیں۔ مگر اس زمانے میں صرف کتابیں تھیں،اور بہت زیادہ تھیں۔جب بھی جانا ہوتا،گھنٹو ں کتابیں دیکھنے میں گزر جاتے۔زیادہ عرصہء ملازمت راولپنڈی میں گزرا۔اس سارے اثناء میں رہائش اسلام آباد میں رہی۔ملازمت کے دوران جس ادارے یا دفتر میں اترا،لائبریری نہیں تھی،تو قائم کی،تھی تو اس میں اضافہ کیا،پہلی بار ان کے سیلز مین نے پوچھا،رسید کتنے کی بنانی ہے؟مسکرا کر جواب دیا کہ جتنے کی خریدی ہیں اتنے کی ہی بنانی ہے۔یہیں سے تعلق کا آغاز ہوا۔
یہ تعلق تین عشروں پر محیط نکلا،بعض اوقات بتاتے کہ فلاں کتاب اسلام آباد میں مسٹر بکس کے پاس ملے گی۔یوں مسٹر بکس اور مسٹر بکس کے مالک یوسف صاحب سے آشنائی ہوئی جو بہت جلددوستی میں بدل گئی۔
یوسف صاحب کاروبار میں کامیاب تھے،الحمدللہ بہت کامیاب!مگرشخصیت ایسی تھی کہ کاروبار سے دور کا بھی تعلق محسوس نہ ہوتا تھا۔عا م طور پر ایک کاروباری شخص جتنا بھی بے نیاز اور "نان کمرشل " لگے،کوئی نہ کوئی پیچ درمیان میں ضرور نظر آجاتا ہے۔ مگر یوسف صاحب بالکل الگ مزاج رکھتے تھے،غالباً 1997 کی بات ہے,مجھے اور بیگم کو ایک ایمرجنسی میں سنگا پور جانا پڑا،باتوں باتوں میں یوسف صاحب سے سرسری سا ذکر ہوا،دوسرے دن ان کا فون آیا کہ سنگا پور میں فلاں بھارتی کتاب فروش سے اچھی دوستی ہے،اسے رات ٹیکسٹ کردیاہے کہ رہائش کے لیے آپ کی مدد کرے۔ وہ آپ کو اچھی رہائش مناسب دام پر دلوائے گا،،ہم نے سنگا پور پہنچ کر اس کا پتہ کیا تو معلوم ہوا وہ تو بیرون ملک گیا ہوا ہے،مگر اس نے اپنے منیجر کو تفصیلی ہدایات دے رکھی تھیں،اس نے بہت وقت دیا اور مساعدت بھی کی۔ 
عرصہ ہوا کہ ان سے کہا کہ ایک پورا سیشن ان کے ساتھ درکار ہے،ہم اوپر دفتر میں بیٹھ گئے،فرمائش کی کہ "کتاب چوروں "کے بارے میں تجربات سننے ہیں،خوب دلچسپ واقعات سنائے،ملک کی ایک نامی گرامی شخصیت کے بارے میں بتایاکہ انہیں کتابوں اور رسالوں کی چوری کا خبط 
(klepto mania)
ہے۔ یہ بھی بتایاکہ ملازموں کو ہدایت کی ہے کہ ان سے چشم پوشی کی جائے۔ایک معروف خاتو ن کا چیک انہوں نے سنبھال کر رکھا ہو اتھا۔جنہوں نے پکڑے جانے پر چوری شدہ کتابوں کی قیمت بذریعہ چیک ادا کی تھی۔ ایک بھاری بھرکم بیوروکریٹ کا بتایا کہ ان کی بیگم کی ہدایت تھی کہ ان کے میاں کو پکڑا نہ جائے۔ عزت کا معاملہ ہے۔ جتنی چوری کریں گے،شام کو وہ اتنی رقم پہنچا دیا کریں گی۔ چنانچہ ایسے ہی ہوتا رہا۔کیا وفا شعار رفیقہء حیات تھی۔ایک صاحب کا بتایاکہ سیلز مینوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ کتابیں غائب کرتے ہیں مگر پکڑے نہیں جا رہے تھے،اس لیے کہ ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا تھا،ان کی بہت باریک بینی سے نگرانی کی گئی۔معلوم ہوا کہ پشت پر،کوٹ کے اندر ایک بڑی سی جیب لگوائی ہوئی تھی جس میں کتا ب رکھ لیتے تھے،ان واقعات پر مشتمل کالم لکھا، یہ پہلا حصہ تھا،قارئین کے تقاضے بہت ہوئے کہ دوسرا حصہ لکھیے۔جب بھی یوسف صاحب ملتے ہم طے کرتے کہ اس خصوصی مقصد کے لیے ایک نشست رکھتے ہیں،بگٹٹ بھاگتی ہوئی زندگی نے اس کا موقع ہی نہ دیا،
یوسف صاحب سے وہ ملاقات کبھی نہیں بھلائی جاسکتی۔جو ان کی ٹانگ کٹنے کے بعد ہوئی،پہلی ٹانگ کئی سال پہلے ذیابطیس کی نذر ہوگئی تھی۔پھر ایک دن ڈاکٹروں نے دوسری ٹانگ کے بارے میں بھی یہی"علاج"تجویز کیا۔جس دن ہسپتال سے گھر لوٹے،عیادت کے لیے گیا،اندازہ یہ تھا کہ ملاقاتی خاموش بیٹھے ہوئے ہوں گے،دلگرفتہ یوسف صاحب لیٹے ہوئے ہوں گے،اور ایک قسم کا ماتمی ماحول ہوگا۔مگر وہاں ایک عجیب منظر دیکھا،یوسف صاحب بیڈ پر بیٹھے مسکرا رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے علاج کے لیے وسائل عطا فرمائے ہیں، کسی شئے کی کمی نہیں کی،یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ان ٹانگوں سے فائدے بھی تو بہت اٹھائے،مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ایک انگلی کٹ جائے تو دنیا اندھیر نظر آتی ہے،مگر یہ شخص دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگیا اور مسکرا رہا ہے۔اور خدا کا شکر ادا کرکے اس کی نعمتوں کا تذکرہ کیے جا رہا ہے۔اور ایک میرے جیسے تھر ڈلے ہیں کہ تھرما میٹر پر اگر سو کا ہندسہ نظر آجائے تو بیگم اور بچوں کو پاس بٹھا کر بتانے لگ جاتے ہیں کہ فلاں کی اتنی رقم ادا کرنی ہے اور فلاں سے اتنی رقم لینی ہے۔
ان کے آپریشن کے کچھ عرصہ بعد میرے بیٹے حسا ن کی شادی کا انعقاد تھا،"شہری"ولیمہ اسلام آباد میں لیکن اصل تقریب گاؤں میں رکھی گئی،یوسف صاحب کو دعوت نامہ پہنچایا،خیال تھاکہ ابھی چند ماہ ہی تو ہوئے ہیں آپریشن کو،نہیں آسکیں گے،تقریب کا آغاز ہو ا توایک ساتھی نے آکر بتایا کہ وہ کتابوں والے صاحب آئے ہیں۔اور گاڑی سے انہیں اتارا جارہا ہے۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ یوسف صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ایک پرانا ملازم ساتھ تھا۔انہیں شاعروں ادیبوں کے گروہ میں بٹھایا،یہی ان کی برادری تھی،انہی کے ساتھ خوش رہتے تھے۔ اس تقریب کے لیے پنڈی گھیب کا ایک باکمال باورچی بلوایا تھا۔اس نے بکرے کا گوشت اور مکھڈی حلوہ دونوں زبردست پکائے،یوسف صاحب کہنے لگے مٹن بہت جگہ کھایا ہے مگر اس کا ذائقہ اور شان الگ ہی ہے۔کئی بار تعریف کی۔کچھ روز پہلے ان کے دفتر بیٹھا تھا کہ کہنے لگے،میں نے ایک صاحب سے مکھڈی حلوہ بنوایا مگر بات نہیں بنی۔مجھے افسوس ہوا کہ انہوں نے مجھے حکم نہیں دیا۔گھر آکر بیگم کو بتایا کہ یوسف بھائی کو مکھڈی حلوہ پہنچانا ہے،پھر وہی زندگی کی گاڑی اور وہی برق رفتاری۔آج کل آج کل کرتے وہ کوچ کرگئے۔
برسو ں پہلے ذیابطیس کی وجہ سے ان کی بصارت متاثر ہوچکی تھی،غالباً صرف ایک چوتھائی باقی تھا۔مگر کبھی تذکرہ نہ کرتے،کبھی انہیں شکوہ کناں نہ دیکھا۔ملتے وقت میں اپنا نام بتاتا،مگر غالباً زیادہ نزدیک سے وہ بخوبی پہچان لیتے تھے۔گلے لگاتے،بچوں کا پوچھتے،خاص طور پر ان بچوں کا جو بیرون ملک ہیں۔ان کی اپنی بیٹی لندن میں تھی۔اس لیے اس نوع کی جدائی کا غم خوب سمجھتے تھے۔ دفتر اوپر تیسری منزل پر تھا، وہا ں بیٹھتے تو مصنوعی ٹانگیں اتار کر بیٹھتے،اور نیچے کاؤنٹر پر بیٹھتے تو مصنوعی ٹانگیں لگا کر بیٹھتے،
اسلام آباد کلب کھانے پر مدعو کرتا تو ضرور آجاتے۔جب بھی ان کے پاس بیٹھا،کسی نہ کسی صاحبِ علم،کسی نہ کسی قلم کار سے ضرور ملاقات ہوئی۔نئی کتابوں کا علم ہوا، جس کتاب کی فرمائش کی،پاس نہ ہوتی تو منگوا کر دیتے۔مشترکہ دوستوں کا ذکر محبت سے کرتے۔مستنصر حسین تارڑ کا ذکر ضرور ہوتا۔پوچھتے"ملاقات کب ہوئی"؟پروفیسر ثمینہ یاسمین پرتھ سے آئیں ہوتیں تو ضرور بتاتے۔
ایک دنیا ان سے متعارف تھی،مگر شاید کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ دریا دل کتنے تھے۔تاجروں میں کم ہی اتنے فیاض ہوتے ہیں۔ایک دن گیا تو ان کا ایک ملازم بہت پرجوش انداز میں ملا،چہرہ فرطِ مسرت سے جیسے تمتما رہا تھا،وہ اپنی مسرت شیئر کرنے کے لیے بے تاب تھا،کہنے لگا،مجھے یوسف صاحب نے یہاں اسلام آبادمیں مکان خرید کر دیا ہے،تاکہ گاؤں سے بچے یہاں لاؤں اور انہیں پڑھاؤں۔اس نے رقم بھی بتائی،جو خطیر۔۔۔بہت خطیر تھی۔یہی وجہ تھی کہ ان کے ملازم ان پر جان چھڑکتے تھے۔شاید ہی کوئی چھوڑ کر گیا ہو۔
جو اصحاب کتابیں پڑھنے کا ذوق اور شوق رکھتے ہیں،ان کے لیے یوسف صاحب کی رحلت بہت بڑا صدمہ ہے۔وہ اس شہر کی تہذیب اور ثقافت کے معماروں میں سے تھے۔ وہ اس شہر کا مینار تھے۔ہم اس مینار کو دور سے دیکھتے اور کھنچے چلے آتے۔کیا ہی مقدس پیشہ ہے جس سے وہ منسلک تھے۔ اور کیا ہی فیض رساں زندگی گزاری۔ایک دنیا ہے جس کی انہوں نے کتابوں سے پیاس بجھائی۔یوسف بھائی ایک چشمہ تھے۔ہمیشہ بہنے والا،ہمیشہ آبِ شیریں مہیاکرنے والا۔ان کے ہاں جاکر عجیب طمانیت کا احساس ہوتا۔کتابیں دیکھ کر خون بڑھ جاتا۔اطمینان ہوتا کہ سریے،سیمنٹ،زیورات،ملبوسات اور گراں بہا تعیشات کے اس بے انت سمندر میں ایک جزیرہ ایسا موجود ہے جہاں ہم جیسے فقیر آکر اپنے آپ میں اور اپنی ترجیحات میں خود اعتمادی تازہ کرتے ہیں۔انہوں نے جو دنیا بسائی تھی،وہ ہماری دنیا تھی۔مجھ جیسا بے بضاعت بھی خود کو وہاں طاقتور محسوس کرتا تھا۔خدا ان کی قبر کو منور کرے۔جو جسمانی تکالیف انہوں نے اٹھائیں ان کے بدلے میں راحت عطا فرمائے۔فیض کا جو دروازہ انہوں نے کھولا تھا۔ان کے بعد بھی کھلا رہے۔ان کے لیے دعا ہے کہ۔۔
ہر طلعتِ سحرمیں شعاؤں کے پھول ہوں 
ہر شام طشتِ قبر میں جگنو جلا کریں 
شاداب شاخچوں کے دوپہر کو سائے ہوں 
راتوں کو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلا کریں 
آنو بہائیں پتیاں،گم سم ہوں تتلیاں 
بالیں پہ زرق برق پرندے بکا کریں 
بندے یہاں کچھ اس کے خدائی بھی کرگئے
کچھ نقشِ پا ء ہیں جن پہ فرشتے چلا کریں!

Friday, September 01, 2017

مغلوں کی نشات ثانیہ


‎بکھر گئے،مغل تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئے۔
‎کسے معلوم تھا کہ ان کا احیا 2017میں ہوگا۔وسطِ ایشیا میں نہیں!پاکستان میں 
‎زمانے کی چکی چلتی ہے،صدیوں سے حکومت کرتے خانوادوں کو پیس کر رکھ دیتی ہے۔ 
‎پیستی جاتی ہے اک اک کو ظہور
‎آسیائے گردشِ لیل و نہار!
‎فرغانہ سے نکلے تو پالکیاں تھیں نہ تخت و طاؤس،گھوڑوں کی پیٹھیں تھیں ننگی سخت پیٹھیں،دشمن آگے بھی،دشمن پیچھے بھی۔ مدتوں سے بابر کو چین سے کھانا نصیب ہوا نہ سونا۔
‎حالتِ جنگ میں آدابِ خورو نوش کہاں 
‎اب تو لقمہ بھی اٹھاتا ہوں میں تلوار کے ساتھ!
‎ترکی کی زبان کی سیڑھی پر پاؤں رکھ کر مغل فارس کے چبوترے پر چڑھے،ازبکستا ن والے اس ترکی کو ازبک کہتے ہیں۔واہ رے زمانے واہ!تو نے زبانوں کو بھی چھوڑا،ترکی زبان بھی سامراج نے قومیتوں میں تقسیم کردی۔ 
‎بنے گا کوئی تو تیغ ِ ستم کی یاد گاروں میں 
‎مرے لاشے کے ٹکرے دفن کرنا سومزاروں میں 
‎وہی ترکی ازبکستان میں ازبک بن گئی۔ ترکمانستان میں ترکمانی،قازقستان میں اور نام،چینی ترکستان یغور،آذر بائیجان میں آذری،رداغستان میں بھی یہی زبان ہے۔شمالی افغانستان کے ازبک بھی ترکی بولتے ہیں اور ظاہر ہے ترکی میں بھی۔ 
‎رسم الخط کا معاملہ زیادہ عبرتناک ہے۔سوویت استعمار نے وسطِ ایشیا کے ترکوں کو استنبول سے کاٹنے کے لیے،بندوق کے زور پر رسم الخط بدل کر لاطینی کردیا۔کچھ عرصہ بعد کمال اتاترک نے ترک میں سب کچھ بدل دیا۔اور وہاں بھی ترکی کو لاطینی میں لکھا جانے لگا۔اب سوویت چکرائے۔ بلآخر وسط ایشیا کے ترکوں کو روسی رسم الخط اپنانے کا حکم صادر ہوا۔اب صورتِ حال یہ ہوئی کہ ترکی میں ترکی لاطینی میں لکھی جانے لگی۔شمالی افغانستان میں وہی قدیم عربی فارسی رسم الخط!
‎روسی وسطِ ایشیا میں روسی حروفِ تہجی، اور سنکیانگ میں اور۔۔۔۔۔سب ایک دوسرے کو سمجھ لیتے ہیں۔ مگر ایک دوسرے کا لکھا ہوا پڑھ نہیں پاتے۔ یہ ریاستیں آزاد ہوئیں تو ابتدا میں پاکستان کے ساتھ سرگرم تجارتی روابط تھے۔ایک وفد آیا۔اس کالم نگار کے ازبک کے استاد جناب اسد اللہ محقق ان کے ترجمان بنے،لیکن محقق صاحب ان کے کاغذات وغیرہ پڑھ سکتے تھے۔ نہ وفد ان کی تحریر کردہ ازبک پڑھ سکتا تھا۔
‎جیسے حائل دیوار نہ ہو،پردہ ہو
‎ترکی زبان کی سیڑھی پر پاؤں رکھ کر مغل فارسی کے چبوترے پر چڑھے۔وہا ں سے اردو کے گنگ و جمن میں چھلانگ لگائی،پیراکی کے وہ جوہر دکھائے کہ ایک نئی تہذیب لے کر ابھرے،جیحوں (آمو)کا پانی جمنا کے پانی سے مل گیا۔دہلی کا شہرہ چار دانگ عالم میں ہوا،پھر لکھنؤ اور حیدر آباد دکن اس تہذیب کے مرکز بنے۔ 
‎تاریخ کی عجیب ستم ظریفی ہے اور 
paradox
‎کہ زوال کے عہد میں ثقافت خوب رنگ اچھالتی ہے شاید یہ دیے کی وہ لو ہے جو بجھنے سے پہلے ایک بار بھڑکتی ہے۔ یہ لکھنؤ اور حیدر آباد میں خوب بھڑکی۔ پھر بجھ گئی کہ جو سمندر پار سے آئے تھے عسکری اور معاشی طاقت ان کے پاس تھی اور عسکری اور معاشی طاقت جن کے پاس ہوتی ہے،کلچر اور ثقاف انہی کی غالب آتی ہے۔ عسکری اور معاشی طاقت مسلمانوں کے پاس تھی،تو ان کی زبان چھائی ہوئی تھی۔ پھر برطانویوں اور امریکیوں نے دھوم مچائی، شاید ہی دنیا کا کوئی گوشہ ہو جہاں ان کی لائبریریاں نہیں کھلیں۔
‎آج معاشی طاقت چین کے ہاتھ میں ہے۔ سی پیک ہے یا ون بیلٹ ون روڈ کا عالمی منصوبہ ،چینی ایک افق سے دوسرے افق تک اپنا پرچم لہرا رہے ہیں۔جس سی پیک کا ہار حکومت اپنے گلے میں ڈال کر دھمال ڈالتی رہی، اور ڈال رہی ہے۔ اس میں کرنے کا کام چینی کررہے ہیں۔ سی پیک کر علاوہ وہ نجی شعبے میں بھی بخت آزمائی کے لیے آرہے ہیں،گزشتہ سال ستر ہزار چینی آئے،اخبار ان کا نکلنا شروع ہوگیا ہے۔ دکانوں اور شاہراہوں پر سائن بورڈ چینی زبان میں نظر آنے لگے ہیں،ثقافتی یلغارکی ابتدا اسی طرح ہوتی ہے۔آہستہ آہستہ،نرم روی کے ساتھ، غیر محسوس طریقے سے۔ اب حکومتی ادارے سو چ رہے ہیں کہ ان کی بستی الگ بسائی جائے کہ کھانے کے اطوار مقامی اور ہیں،چینیو ں کے مختلف۔بعدالمشرقین ہے۔ لگتا ہے کہ ایک چائنہ ٹاؤن بنے ہی بنے،آئیڈیا برا نہیں، دنیا کے اکثر شہروں میں چائنہ ٹاؤن موجود ہیں۔ اس سے سماجی "غیر مناسبت"کچھ حد تک قابو میں آجائے گی۔
‎مگر تشویشناک خبر یہ ہے کہ یہ زرد اشخاص گاڑیاں لائسنسوں اور کاغذات کے بغیر چلا رہے ہیں، اور ٹریفک کے داروغے یہ کہہ کر کہ۔۔۔"آپ ہمارے دوست ہیں "۔۔چشم پوشی کررہے ہیں۔واہ رے پاکستان کی قسمت!ہر حال میں اس نے تھلے ہی لگنا ہے۔معذرت خواہانہ ہی رہنا ہے۔ شکست خوردگی ہی دکھانی ہے،پہلے یہ خبر یں عام تھیں کہ امریکی گاڑی چلاتے ہوئے کسی سے الجھ پڑا،ٹریفک کی رکاوٹ سے جا ٹکرایا،قانون توڑا،داروغوں نے انہیں بھی ہمیشہ معاف ہی کیا۔اب وہی شکست خوردہ فراغ دلی چینیوں سے دکھائی جا رہی ہے،اس طرزِ عمل کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔اور سخت ضرورت ہے!کہیں بھی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا، پاکستانی چین میں قانون شکنی کرکے دکھائیں،کیا سعودیہ عرب نے کسی پاکستانی کی غلطی یہ کہہ کر معاف کی ہے کہ اپنے دوست ہیں۔۔۔زندانوں میں شکلیں تک بدل جاتی ہیں۔سر قلم ہوجاتے ہیں،یو اے ای سے لے کر سنگا پور تک۔۔۔ہر ملک میں ترقی کا ایک ہی راز ہے،قانون کی نظرمیں سب کی برابری،یہا ں ایم این اے،شاہی خاندن اور وزیر کے لیے مختلف رویہ ہے۔۔اور گامے اور پھجے کو مختلف لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ پولیس کمزور پر چڑھ دوڑتی ہے اور زبردست کے سامنے رکوع میں چلی جاتی ہے۔
‎موضوع سے بھٹک کر ہم دور نکل گئے۔۔بات مغلوں کی ہو رہی تھی،بہادر شاہ ظفر نے ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لی،پھر مغل بکھر گئے۔تاش کے پتوں کی طرح۔کسے معلوم تھا کہ ان کی نشاطِ ثانیہ 2017کے موسم ِ گرما میں ہوگی فرغانہ کے تاکستانوں میں نہیں،پاکستان کے میدانوں میں!
‎مردم شماری کے نتائج ظاہر ہوچکے ہیں۔مغل تعداد میں سب سے زیادہ نکلے۔ جاٹ،اعون،راجپوت سب پیچھے رہ گئے۔رنگون میں آسودہ خاک مغل تاجدار نے کروٹ بدلی ہوگی، مگر یہاں مردم شماری ایک اور سیاپا لے کر آئی ہے،کراچی سے لے کرشکار پور تک سندھی،کیا نئے کیا پرانے سیخ پاء ہیں کہ جہاں دوسرے صوبوں کی آبادی بڑھی،ان کو گھٹا کے دکھائی گئی۔ویسے انصاف کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان دونوں کی شکایت بجا ہے،اس شکایت میں وزن ہے۔ کراچی اور حیدر آباد ہی کو لیجئے، دوسرے شہروں کے مقابلے یہاں اضافے کی شرح اس قدر کم ہے کہ ذہن میں سوالات ضرور اٹھتے ہیں،موازنہ کر لیجئے!
‎لاہور اضافہ۔75فیصد
‎گوجرانوالہ اضافہ۔84فیصد
‎اسلام آباد اضافہ۔88فیصد
‎کوئٹہ اضافہ۔77فیصد
‎فیصل آباد۔60فیصد
‎راوالپنڈی اضافہ۔60فیصد
‎مگر حیدر آبادکی آبادی صرف 48فیصد اور کراچی کی 57فیصد بڑھ پائی۔اس سارے عرصے میں کراچی میں بے شمار افغان آئے،کے پی سے نقل مکانی ہوئی۔قبائلی علاقے سے لوگ آئے،پنجاب،شمالی علاقہ جات اوراندرون سندھ سے خاندانوں کے خاندان آکر بسے۔خود کراچی کے رہنے والوں کی آبادی بھی بڑھی۔ذمہ داروں کو اس سوالیہ نشان پر توجہ دینا ہوگی۔
‎مگر مغلوں کے احیا سے ہماری مراد یہ نہیں کہ مردم شماری نے انہیں سرِ فہرست قرار دیا ہے۔اصل اور بڑی خبر اور ہے،مغلِ اعظم کا ظہور ہو چکا ہے، قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا،گوری رنگت،گہری سیاہ آنکھیں،پیشانی فراخ،موتیوں کی طرح چمکتے دانت،توانا چست، مجموعی جسامت حد درجہ صحت مند،لوگ سیلفیاں اور تصویریں بنوانے کے لیے ٹوٹے پڑتے ہیں،دودھ مربے اور پھل حاضر کیے جاتے ہیں۔خشک میوہ جات اس کے علاوہ ہیں۔تین سے پانچ کلو دودھ روز نوشِ جان کرتا ہے، صبح شام مالش کراتا ہے،خوشبو میں بسا رہتا ہے،سردیوں میں حلوہ اس کی غذا کا لازمی جزو ہے، ہر روز حمام کرتا ہے، عمر ساڑھے تین سال ہے۔ مغلِ اعظم کا وزن سترہ من ہے ملتان سے آئے ہوئے "مغلِ اعظم "نے دارالحکومت کی منڈٰی مویشیاں میں دھومیں مچا دی ہیں۔ 


 

powered by worldwanders.com