پنجاب حکومت اپیل دائر کررہی ہے کہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ اخفا ہی میں رکھی جائے۔یہ دنیا کی عجیب و غریب درخواست ہوگی،لوگ درخواستیں اس لیے دیتے ہیں کہ فلاں خفیہ اطلاع بہم پہنچائی جائے،یہ کوشش کر رہے ہیں کہ رپورٹ پوشیدہ ہی رہے۔کیوں؟ وجہ ظاہر ہے،رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے یہ خائف ہیں،کس چیز کا خوف ہے؟کیا جان کا خوف ہے؟۔۔۔جان کا ہی ہو سکتا ہے،عزت تباہ ہونے کا خوف تو بے معنی ہے،ہر خاص و عام کو پتا ہے کہ عزت کس شمار میں ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ کیا رپورٹ خفیہ رکھنے سے خون معاف ہو جائے گا؟۔۔خون اس دنیا کی بے زبان چیزوں میں سے واحد چیز ہے جو ایک مقررہ وقت پر بول اٹھتی ہے،اور اتنا اونچا بولتی ہے کہ کانوں کےء پردے پھٹ جاتے ہیں،وہ جو قرآن میں "صیحہ "کا لفظ استعمال ہوا ہے،خون کی چیخ اس سے کیا کم ہوگی،شہباز شریف صاحب برسرِ اقتدار ہیں،برسرِ اقتدار رہتے ہوئے انسان ایک خواب آگیں کیفیت میں رہتا ہے،وہ صحیح دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے،ارد گرد سے بے خبر ہوتا ہے،باخبر ہوتابھی بے تو بےنیازی آڑے آجاتی ہے، اقتدار کا تخت ہوا میں اڑتا ہے،نیچے دیکھیں تو مکان ماچس کی ڈبیہ جتنے نظر آتے ہیں،شاہراہیں لکیروں کی طرح،اور انسان مدھم،بے جان نقطوں کی طرح۔ان بے جان نقطوں کی ہوا میں بیٹھا ہوا بادشاہ کیوں فکر کرے؟۔۔مٹی کے ذرے اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں،مگر بادشاہ کو یہ نہیں معلوم کہ بلبلے اس کے در پے ہیں،پانی کے بے جان بلبلے،جن کی زندگی چند ثانیے ہوتی ہے،قاتل کو پکڑوا دیتے ہیں۔
یہ دو دوست تھے جو قصبے سے باہر سیر کے لیے یا کسی کام سے جارہے تھے،شاید اپنے دور افتادہ کھیتوں کی طرف -گیت گاتے جا رہے تھے،قصے کہانیاں سناتے جا رہے تھے، باتیں کرتے جا رہے تھے،ایک آگے تھا،دوسرا پیچھے،باتیں کرتے،پگڈنڈیوں پر چلتے قصبے سے بہت دور نکل آئے تھے،اب مٹی کے اونچے بھر بھر ے ٹیلوں کا سلسلہ شروع ہوا،سرخ رنگ کی مٹی کے ٹیلے جن کی چوٹیوں پر کنکر آدھے ٹیلے میں دبے تھے،اور آدھے نظر آرہے تھے،پھر بڑی بڑی چٹانیں آنا شروع ہو گئیں،جو جلدی پہاڑیوں میں تبدیل ہو گئیں،دونوں دوست چلتے رہے،آگے بڑھتے رہے،ایک طرف پہاڑیاں تھیں،دوسری طرف جنگل۔کوئی دیکھنے والادور دور تک نہ تھا،پیچھے آنے والے نے آگے جانے والے کو پکارا،پکارا نہیں بلکہ للکارا،تیار ہو جاؤ،!آگے چلنے والے نے پیچھے مڑ کر دیکھا،پیچھے آنے والے دوست کے ہاتھ میں ریوالور تھا،آج تم نہیں بچ سکتے،فلاں دن کا بدلہ لیناتھا،کب سے موقع کی تلاش میں تھا۔
کچھ عرصہ ہوا دونوں میں کوئی معاملہ بگڑا تھا،کھیل کے دوران انا مجروح ہوئی تھی،یا کسی دوشیزہ کے حوالے سے رقابت تھی،آگے چلنے والے دوست نے بات بھلا دی تھی،مگر پیچھے آنے والے نے دل میں گرہ باندھ لی تھی،اور سنبھال کر رکھی ہوئی تھی،پہلے تو آگے چلنے والے دوست نے بات کو مذاق سمجھا،مگر غور سے دیکھا تو دوست کی آنکھوں میں خون اترا ہو ا تھا،اور چہرہ لکڑی کی طرح سخت،بے جان اور تاثرات سے خالی تھا۔
اتنی دیر میں سرخ ٹیلوں اور پتھریلی اونچائیوں کی اوٹ سے بادل ابھرے اور آن کی آن میں برسنے لگے،جل تھل ہو گیا،جنگل کی طرف سے ٹھنڈی دل آویز ہوا آنے لگی،اس لطیف ماحول نے ریوالور والے دوست پر چھائے ہوئے قتل کے نشے کو دوبالا کر دیا۔
کوئی لمبے چوڑے مذاکرات نہ ہوئے،آگے چلنے والے نے منت سماجت کی،دوستی کا واسطہ دیا،بزرگوں کے حوالے دیے،پھانسی سے ڈرایا، ریوالور والا ہنسا۔۔
پھانسی؟کیسی پھانسی؟۔۔یہاں کون ہے دیکھنے والا؟۔۔کوئی گواہ نہیں،یونہی تو اس میدان میں نہیں لایا؟،جہاں ایک طرف گھنا کھردرا جنگل ہے،دوسری طرف بلند ٹیلے اور پہاڑیاں۔
بارش برس رہی تھی،قتل ہونے والے نے دیکھا کہ بارش کا جو قطرہ بھی برستا ہے،بلبلے میں تبدیل ہوجاتا ہے،تھوڑی دیر یہ بلبلہ پانی میں تیرتا ہے اور بہاؤ کے ساتھ چلتا ہے اور پھر ٹوٹ جاتا ہے،اور پانی میں مل کر پانی ہو جاتا ہے،
قتل کرنے والے نے کہا کہ کون ہے یہاں دیکھنے والا؟۔قتل ہونے والے نے اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر پایا،
اس کے منہ سے عجیب و غریب آسمانی تاثیر رکھنے والا ایک جملہ نکلا۔۔۔یہ برستی بارش میں بننے اور ٹوٹنے والے پانی کے بلبلے تمھیں پکڑوا دیں گے۔قاتل ہنسا۔۔۔انگلی دبائی،ویرانے میں ایک ملفوف آواز گولی کی ابھری،پھر ایک چیخ -پھر ایک جسم گرا،تڑپا اورٹھنڈا ہوگیا۔
کسی کو معلوم نہ ہوا،مقتول کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا،دن ہفتے بنے،ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوئے،پھر سال گزر گیا،پھر دوسال،پھر کئی سال گزر گئے،قاتل نے جوانی کی دہلیز پار کی،اور ادھیڑ عمر کی ڈیوڑھی میں پاؤں رکھا،کامیاب انتقام ہمیشہ اسے طمانیت بخشتا تھا،ایک دن ادھیڑ عمر میں داخل ہونے والا قاتل اپنے چوبارے میں بیٹھا تھا،اس نے چوبارے کے سامنے کچے فرش والی ٹیرس کو دیکھا،بارش برس رہی تھی،بارش کے قطرے زمین پر گرتے،بلبلے بنتے، تھوڑی دور چلتے،پھر ٹوٹتے اور پانی میں مل کر پانی ہو جاتے،اتنے میں پیچھے سے نئے بلبلے تیرتے آجاتے،اسے مقتول کی دھمکی یاد آئی،کتنا بے خوف تھا،اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھری،اس کے ہونٹ ہلے زیر لب آواز آئ۔ بلبلے پکڑائیں گے۔۔۔بے وقوف کہیں کا!
یہ جو ثانیہ تھا،یا ثانیے سے بھی کم وقت کا ننھا سا ذرہ،جس میں وہ زیرِ لب مسکرایا،اور کچھ کہا،یہ ثانیہ "۔اتفاق سے اس کی بیوی نے،جو اس کے پاس بیٹھی تھی،شیئر کرلیا۔مسکراہٹ دیکھ لی،یہ عام مسکراہٹ نہ تھی،عورت کی فطرت میں قدرت نے مافوق الفطرت قوت رکھی ہے،اسے شوہر کی آنکھ سے شوہر کی عفت یا کج روی کا پتا چل جاتا ہے،اسے شوہر کے چہرے کے تاثرات سے اس کے دل کی ایکس رے جیسی فلم نظر آجاتی ہے۔شاعر نے یونہی تو نہیں کہا تھا۔۔
غیر عورت گھر میں لاؤ گے تو پکڑے جاؤ گے،
بیویاں پہچانتی ہیں بستروں کی خوشبوئیں!
بیوی نے پوچھا،مسکرائے کیوں ہو؟اور یہ تم نے زیرِ لب کیا کہا ہے؟ اور یہ تمہارے چہرے پر خوف ناک سا سایہ کیوں تھا؟
اس نے بہت ادھر ادھر کی باتیں کیں،آئیں بائیں شائیں کی،مگر عورت پہاڑ جیسی استقامت رکھتی ہے،وہ درپے رہی،پوچھتی رہی،اور پیچھے پڑی رہی،اصرار تلخی میں بدلنے لگا،تنگ آکر شوہر نے وعدہ لیا کہ کسی کو بتائے گی نہیں،اور پھر اسے اپنے راز میں شریک کر لیا،بیوی پر سکتہ طاری ہو گیا،وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ دوست کا قاتل وہ خود ہے،اس کے اندر طلاطم خیز سمندر موجیں مارنے لگا،ہیجان برپا ہوگیا،رات کو سکون ملتا نہ چین،اس کا ایک ہی طریقہ تھا کہ یہ خبر کسی قریبی سہیلی سے شیئر کرے،چنانچہ اس نے شیئر کی،پھر وہی ہوا جو ہونا تھا،بات شرگوشیوں سے چلی اور منڈیروں سے ہوتی ہوئی انگور کی بیل کی طرح کوٹھوں پر چڑھ گئی،مقتول کے خاندان نے بھی سن لی پولیس نے پکڑ لیا،تھرڈ ڈگری طریقہ تھا یا فورتھ،خون بولا اور چیخ کر بولا،قاتل پھانسی کے پھندے پر جھول گیا،بے جان،ٹوٹ جانے وا؛ے بلبلوں نے قاتل پکڑوا دیا۔۔
ان لطیف سچائیوں کا علم حکمرانوں کو نہیں ہوتا،آج شہباز شریف سب سے بڑے صوبے کے مطلق العنان حکمران ہیں،صوبائی اسمبلی کو وہ جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے،وہ تو وہاں جاتے ہی نہیں،کابینہ جیسے بے جان پتلیوں کا مجموعہ ہے،کوئی فرد،کوئی ادارہ انہیں چیلنج کرنے والا نہیں،عدالت نے حکم دیا ہے کہ رپورٹ عام کریں،وہ نہیں کر رہے،کہتے ہیں اپیل کریں گے،
اپیل کرنے سے کیا ہوگا؟۔۔۔کیا بارش نہیں برسے گی؟کیا بلبلے نہیں بنیں گے؟کیا بلبلے پانی میں تھوڑی دور تک نہیں چلیں گے؟پھر نئے بلبلے کیا ان کی جگہ نہیں لیں گے کیا؟۔۔رپورٹ نہ افشا کریں،بے شک نہ کریں،آپ مطلق العنان حکمران ہیں مگر عالی جاہ،جہاں پناہ،بارش آپ کے قبضہ قدرت سے باہر ہے،بلبلوں نے بننا ہی بننا ہے،ایک نہیں،ہزار رانا ثنا اللہ ان بلبلوں کے بننے،تیرنے اور ٹوٹنے کو نہیں روک سکتے۔
تاریخ نے یہ بات پتھر پر لکیر کردی ہے کہ حکمرانوں کی بھاری اکثریت گہرائی میں جا کر سوچنے سے قاصر ہے۔تزک و احتشام،جاہ و جلال،نقیبوں اور حاجیوں کی صدائیں،ہٹو بچو کی آوازیں انہیں سوچنے نہیں دیتیں،آنکھوں پر بھی پٹی باندھ دیتی ہیں،باہر نکلتے ہیں تو شہر کو سیل کردیا جاتا ہے،دیکھیں گے کیسے؟۔۔۔
افسوس وہ بلبلوں کو بھی نہیں دیکھ رہے،یہ اور بات کہ یہ بلبلے 14انسانی لاشوں کے امانت دار ہیں۔
No comments:
Post a Comment