Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, September 20, 2017

نفیریاں بجانے والیاں


کیا بخت ہے اس علاقے کا!
پیدائش ان کی غزنی میں ہوئی،غزنوی سلطنت خود بھی ان دنوں وسیع و عریض تھی،پھر وہ اس سے باہر بھی نکلے،بغداد گئے،کچھ وقت نیشا پور بسر کیا۔جو اس زمانے میں علوم و فنون کا مرکز تھا،دمشق گئے،یہ اس وقت کی معلوم دنیا کے بڑے بڑے مراکز تھے،مگر اس علاقے کا بخت کہ آخر کار لاہور آئے،اور ان کا مزار لاہور کے اس خوش بخت علاقے میں بنا،یہ مزار جو مرجع خلائق ہے،شہر کی سب سے بڑی،سب سے محترم شناخت ہے،شناخت کیا ہے،شہر پر اس سائبان کا،اس چھتنار کا سایہ ہے-
جی ڈبلیو لائٹنر ہنگری میں پیدا ہوا،آٹھ سال کی عمر میں قسطنطنیہ آیا۔دس سال کا ہوا تو ترکی اور عربی زبانوں کا ماہر ہوچکا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں جنگ کریمیا میں انگریزوں کی طرف سے مترجم اور ترجمان مقرر ہوا۔23برس کی عمر میں کنگز کالج لندن میں عربی اور مسلم لاء کا فل پروفیسر تعینات ہو چکا تھا۔کُل پچاس کے قریب زبانوں پر اسے مہارت حاصل تھی۔
اس علاقے کی قسمت کہ لائٹنر یہاں آگیا۔شہرہ آفاق گورنمنٹ کالج کے لیے اسی علاقے کو منتخب کیا گیا۔یہی پروفیسر لائٹنر اس کالج کا پرنسپل مقرر ہوا۔ابتدا میں اس کالج کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی سے تھا۔اس علاقے کے لیے لائٹنر نے ایک اور کارنامہ بھی سرانجام دیا۔وہ پنجاب یونیورسٹی کا بھی بانی تھا۔اس سے پہلے پورے برصغیر میں صرف تین یونیورسٹیاں تھیں،مگر وہ صرف الحاقی کالجوں کا امتحان لیتی تھیں۔پنجاب یونیورسٹی پہلی ہونیورسٹی تھی جہا ں پڑھایا بھی جاتا تھا اور امتحان بھی لیا جاتا تھا۔یہ یونیورسٹی بھی اسی علاقے میں بنی۔
یہ سار ی خوش بختیاں اس علاقے کی ہیں جسے اب الیکشن کی زبان میں این اے 120کہا جاتا ہے۔داتا دربار ہو یا گورنمنٹ کالج کا ایک صد ی سے زیادہ قدیم علمی اور ثقافتی ادار ہ،یا جی ڈبلیو لائٹنر کی قائم کردہ پنجاب یونیورسٹی،اس علاقے کے مائنڈ سیٹ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔یہاں کے مکین پہلے میاں محمد نواز شریف کو منتخب کرتے رہے،اب ان کی بیگم صاحبہ کو منتخب کیا ہے۔یہ سیاسی رہنما نہ صرف اس علاقے میں رہتے نہیں بلکہ ان کا اس سے بظاہر کوئی تعلق بھی نہیں۔پہلے یہ رہنما ماڈل ٹاؤن کی پوش آبادیوں میں متمکن تھے،پھر شہر سے کوسوں دور محلات بنائے، اور رائے ونڈ ان کا مسکن ٹھہرا۔
رائے ونڈ کے مسکن کا نام انہوں نے ایسی کسی آبادی کے نام پر نہیں رکھا جہاں سے انہیں ووٹ پڑتے ہیں۔انہوں نے اس کا نام اسلام پورہ رکھا نہ انار کلی،مزنگ نہ ساندہ،موج دریا نہ چوبرجی،شام نگر نہ پریم نگر۔کیا خوبصورت نام ہیں۔کیا کوئی نام "موج دریا "سے بھی زیادہ دلکش ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔شام نگر اور پریم نگر میں تقسیم سے پہلے کا سارا حسن سمٹ آیا ہے۔اور چو برجی۔۔یہ توا س دیدہ زیب جنت نشاں باغ کا صدر دروازہ تھا جو اورنگزیب کی بیٹی کا تھا،اور جہاں وہ سیر کے لیے جایا کرتی تھی۔کوئی صاحب ِ ذوق ہوتا،کسی نے تاریخ کی ایک آدھ جھلک دیکھی ہوتی رائے ونڈ کے مسکن کا نام چو برجی رکھتا یا شام نگر یا موج دریا،مگر نام رکھا بھی تو اس بستی کا جو بھارت میں رہ گئی۔۔دل وہیں اٹکا ہے،اگرچہ پیدائش یہاں کی ہے۔شاید یہی وہ تعلق خاطر ہے جو مشرقِ وسطیٰ کے کارخانوں میں پاکستانیوں کے بجائے بھارتیوں کو رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔
سید علی ہجویری کی آمد پر غور کیجئے۔کہاں کہاں نہیں تشریف لے گئے۔بغداد،نیشا پور،دمشق،پور ی غزنوی سلطنت قدموں میں تھی،مگر آئے تو لاہور آئے۔
پروفیسر جی ڈبلیو لائٹنر کو دیکھیے،دنیا کی جس یونیورسٹی کا رخ کرتا،ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا،مگر لاہو ر آیا۔اب ستم ظریفی دیکھیے کہ اس علاقے کے مکیں جن رہنماؤں کو منتخب کرتے ہیں،وہ منتخب ہوتے ہی لندن کا رخ کرتے ہیں۔میاں صاحب کی ایک عید بھی یہاں کے لوگوں کے ساتھ نہیں گزری،چلیے بیگم صاحبہ تو اب علالت کی وجہ سے لندن میں ہیں،لیکن دختر نیک اختر نے بھی یہی کام کیا کہ ووٹ لینے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ لندن روانہ ہو گئیں۔پہلے حکمران لندن سے یہاں آتے تھے،اس لیے کہ حکومت یہاں کرتے تھے۔ اب حکومت یہاں کرتے ہیں،مگر لندن میں بیٹھ کر۔
کیا آپ کو معلوم ہے stoicکسے کہتے ہیں؟۔اردو،فارسی اور عربی میں اسے رواق کہتے ہیں۔رواقی فلسفہ یہ ہے کہ انسان خوشی اور غم سے لاتعلق ہوجاتا ہے،یہ قناعت سے بھی آگے کی چیز ہے۔اس میں ضبط و استقلال اوجِ کمال پر ہوتا ہے۔این اے 120کے مکیں بھی یوں لگتا ہے stoicہیں۔رواقی فلسفے پر یقین رکھنے والے،خوشی اور غم سے لاتعلق،نلوں میں پانی نہیں آتا،بازار اور کوچے ٹوٹے ہوئے،مکان بوسیدہ اور پرانے،خاک اڑاتی گلیاں،مگر رواقی فلسفے میں ڈوبے ہوئے یہ مکیں ووٹ کھرب پتیوں کو دیتے ہیں۔ضمنی الیکشن سے پہلے مبینہ طور پر ایک کھرب کے ترقیاتی کام ہوئے۔سوشل میڈیا پر تصویریں لاکھوں آنکھوں نے دیکھیں۔ترقیاتی کام اتنی سرعت،اتنی برق رفتاری،ا س قدر بد حواسی سے ہوئے کہ اگر گاڑی کھڑی تھی تو اس کا نیچے والا حصہ چھوڑ دیا گیا،اور بقیہ پر نئی سڑک بنا دی گئی۔
ان رواقیوں کو،اس علاقے کے بے پرواہ مکینوں کو اس سے کچھ غرض نہیں،کہ جنھیں یہ ووٹ دیتے ہیں،وہ ایک لحاظ سے بدیسی ہیں۔شہزادی جو ان سے ووٹ مانگنے آئی تھی۔ان کی گلیوں میں لگے نلکوں سے پانی پینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ ان کیساتھ چارپائی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے،اور ان کے ہمراہ دال اچار اور چٹنی کھائے۔،مگر ان صابروں نے،ان مست حالوں نے،ان رواقیوں نے،ان ملامتیوں نے ووٹ ان کھرب پتیوں کو ہی دینے ہیں۔
رہا یہ دعوی ٰ کے ان ووٹروں نے عدالتِ اعظیٰ کے فیصلے کو رد کردیا ہے،سوال یہ ہے کہ کیا یہ ووٹر اپیل بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے؟کیا دنیا کی عدالتی تاریخ میں ایک نظیر بھی ایسی ہے،کہ عدالت کافیصلہ ووٹو ں سے منسوخ یا تبدیل ہوا ہو۔۔عدالت کی اپنی دنیا ہے،وہاں تقریروں،نعروں اور طعنوں سے کام نہیں نکلتا۔دلیل اور برہان کی بنیاد پر بات ہوتی ہے۔جو جیتا دلیل سے جیتا،جو ہارا دلیل سے ہارا۔
جمہوری عمل کسی تعطل کے بغیر جاری رہا تو وہ دن بھی آئے گا جب لوگ ووٹ دیتے وقت اچھے اور برے کا سوچیں گے۔تب تعلیم کا گراف بھی اوپر جاچکا ہوگا،لوگ کرپشن سے نفرت کریں گے۔برادری کو،سماجی تعلق کو،روابط کو حق اور باطل پر ترجیح نہیں دی جائے گی۔یہ نہیں کہیں گے کہ ہم تو تین پشتوں سے فلاں پارٹی کو ووٹ د ے رہے ہیں۔یہ نہیں کہیں گے کہ ہمارا خاندان کسی اور پارٹی کو پیسے نہیں دیتا۔تب میرٹ اور کردار کی پاکیزگی ووٹ کا واحد معیار ہوگا۔وہ دن کب آئے گا،؟نہیں معلوم کب۔۔۔مگر آئے گا ضرور۔
وقت کو پیچھے نہیں کیا جا سکتا۔پتھر کا زمانہ ختم ہوگیا۔غلامی کا عہد انجام کو پہنچا۔سماج کی یہ خاندان پرستی بھی ایک دن نہیں دکھائی دے گی۔حافظ نے کہا تھا۔۔۔
رسید مژدہ کہ ایام غم نخواہد ماند
چنان نماند چنین نیز ہم نخوہد ماند!
خوشی کے دن ہمیشہ نہیں رہتے تو غم کے ایام کیسے باقی رہیں گے؟یہ بھی تو عارضی ہیں 
انتظار کے ان طویل لمحوں کے دوران ہم اپنے اپنے گاؤں سے ہو آتے ہیں۔علی اکبر ناطق کی تازہ نظم پڑھیے،زخم ہرے کیجئے اور سر دھنیے۔۔
ہمارے گاؤں آگئیں نفیریاں بجانے والیاں،
نفیریاں بجانے والیوں کے دائیں بائیں رقص میں بشارتیں،
تریل کی شراب پی کے،
سانجرے کی سرخیوں کے ملک سے،
سوار ہوکے سورجوں کی روشنی پہ آگئیں نفیریاں بجانے والیاں،
ہمارے گاؤں کے خراس والے چوک میں،
دو بیریوں کی لاگروں کے سبز سائے،
سوندھی سوندھی گاچنی سے لیپی آسنوں پہ آج پھر،
چڑھی ہیں صندلیں کنواریاں،
نفیریاں بجانے والیاں،
نفیریاں بجانے والیوں کے کان کی لویں گلابکی
گلاب کے کنارے گھومتی ہیں گول گول سی بھبھریاں،
نفیریاں بجانے والیوں کی کرتیاں ہلال کی،
غرارے نور کے،
غراروں کے حصار میں کھنکتی چار چار جھانجریں،
سفید جھانجروں کے بیچ کانچ اور پارے کی شریر پنڈلیاں،
ہمارے گاؤں کے ہیں سادہ سادہ کاسنی سے گھر،
گھروں کے زندہ آنگنوں میں آگیا نفیریوں کا میٹھا میٹھا شور،
بجا رہی ہیں گاؤں کی جوان ہالیاں نفیریوں کے سنگ تالیاں،
ہمارے گاؤں آگئیں نفیریاں بجانے والیاں!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com