غریب الوطنی اور ایسی کہ آسمان آنسو بہاتا تھا،
ایرانی شاہ طہماسپ نے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی مگر مہمان جب کسی غرض کے لیے آیا ہو تو ایک پردہ ایک حجاب درمیان میں ضرور ہوتا ہے۔ایسا ہی پردہ ایسا ہی حجاب شاہ طہماسپ اور شہنشاہ ہمایوں کے درمیان تھا،ایک مہمان تھا،دوسرا میزبان۔۔ایک کا ہاتھ لینے والا تھا،دوسرے کا ہاتھ دینے والا،روایات بتاتی ہیں کہ میزبان کی طرف سے کوشش تھی کہ مہمان مسلک بدل لے،جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو یہ کوشش ہوئی کہ کم از کم ایک مخصوص ٹوپی ہی پہن لی جائے۔
ایسا ہی ایک اضطراب بھرا دن تھا،دونوں بادشاہ شکار کے لیے نکلے،ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے کا فیصلہ ہوا،قالین بچھایا گیا،میزبان پہلے بیٹھا،ہمایوں بیٹھنے لگا تو صورتِ حال یوں تھی کہ اگر وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تو ایک زانو قالین سے ہٹ کر زمین کے ننگے فرش پر آتا۔ہمایوں کے ایک گارڈ نے بجلی کی سی تیزی دکھائی،خنجر سے ترکش پھاڑا اور اس کا کپڑا اناً فاناً یوں زمین پر بچھایا کہ زانو اس پر آیا۔
طہماسپ یہ سب دیکھ رہا تھا،بہت متاثر ہوا۔۔کہنے لگا،ایسے ایسے جاں نثار اور پھر بھی سلطنت چھن گئی۔۔۔کیوں؟
ہمایوں نے وضاحت کی کہ مغل ابھی تک گملوں میں لگے ہوئے پودے ہیں۔صرف ساتھ آنے والے تورانیوں اور افغانیوں پر انحصار ہے اور وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔میزبان نے نصیحت کی کہ اگر دوبارہ حکومت کا موقع ملے تو مقامی طاقتوں کو حکومت کا حصہ بنائیے!
ہمایوں کو حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن وقت نے ساتھ نہ دیا،طہماسپ کی اس نصیحت پر اکبر نے عمل کرکے دکھایا۔مقامی طاقتوں میں راجپوت نمایاں ترین تھے،اکبر نے ان سے شادیاں کیں،راجپوتوں کو اعلیٰ مناصب پر فائز کیا،مذہبی آزادی دی،شکست خوردہ راجپوتوں کی عزتِ نف کا خیال رکھا،فوج میں انہیں ایسے عہدوں پر
رکھا جس سے محسوس ہوتا تھا کہ اس ے ان پر اعتماد ہے۔راجپوت ریاستوں کو اندرونی خود مختاری دی،جزیہ
اور گاؤ کشی کے معاملوں میں نرمی برتی،راجپوتوں نے پھر وفا کی،ایسی وفا کہ ساتھ چھوڑ نہ پیٹھ دکھائی۔
میاں نواز شریف کو بھی ایک راجپوت ساتھی ملا۔کھرا،منہ پر دو ٹوک بات کرنے والا،مگر میاں صاحب تاریخی طور پر ان حکمرانوں کے گروہ میں ہیں جو صرف اپنی مرضی کی بات دوسرے سے سننا پسند کرتے ہیں،کانوں کے کچے،ادراک و فہم کی کمی،گہرائی سے محروم،اپنا اور اپنے خاندان کا پیچ کسی وقت درمیان میں سے نکلتا ہی نہیں۔
اس گنہگار کالم نگار نے پانچ سال پہلے لکھا تھا،کہ چوہدری نثار
Odd man out
ہیں۔میا ں صاحب کا اِنر سرکل یعنی اندرونی حلقہ ء اعتبار صرف ان لوگوں پر مشتمل ہے جو وسطی پنجاب کی پٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ڈار صاحب سے لے کر دو نوں خواجگان تک،عابد علی شیر سے لے کر احصن اقبال تک،خرم دستگیر سے لیے کر پرویز رشید تک،بس لاہور ہے اور نوحِ لاہور!
مخصوص علاقے سے تعلق رکھنے والے اس گروہ سے صر ف چوہدری نثار علی باہر سے تھے۔
مگر ایک میرِ شکستہ پاء تیرے باغ ِ تازہ میں خا ر تھا
جغرافیائی حوالے سے قطع نظر،یوں بھی راجپوت نثار علی خان سر جھکا کر ہاں میں ہاں ملانے والوں میں سے نہیں تھے،جبکہ باقی مصاحبین کا حال بقول ظفر اقبال یہ تھا،
سر اٹھایا نہیں میں نے کہ سلامت رہ جائے
عذر کیا ہے مجھے اب ہاتھ اٹھا دینے میں!
پانچ سال پہلے یہ بھی لکھا تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ حلقہ بگوشوں کا یہ دائرہ توڑ کر باہر آ جائیں گے،چنانچہ یہی ہوا،راجپوت نے کابینہ کی میٹنگ میں اس وقت کے وزیر اعظم اور آج کے نااہل سابق وزیر اعظم کی موجودگی میں صاف بات کی۔کھل کر موقف بیان کیا اور انگریزی محاورے کی رُو سے بیلچے کو بیلچا کہا۔بیلچا کسی طرح بھی کلہاڑی بن سکتا ہے نہ ڈھال،ہل نہ جال،جبھی تو چوہدری نثار نے کہا ہے کہ مریم نواز کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ میاں صاحب کی دختر ہیں،گویا۔۔
بنے کا شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے!
کہا ں مریم صفدر اور کہاں بے نظیر بھٹو۔صرف مطالعہ کی وسعت کا فرق دیکھ لیجئے۔اسی لیے نثار نے کہا کہ بچے بچے ہوتے ہیں۔لیڈر نہیں!اور یہ کہ شہزادی کو پہلے عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔
رہا چوہدری نثار علی خان کا یہ اعتراف کہ وہ بات کو دل میں رکھتے ہیں،علاقائی حوالے سے بھی ایک حقیقت ہے،بجا کہ یہ تعمیم سو فیصد افراد پر نہیں کی جاسکتی،مگر اکثریت کی بنیاد پر ایک حقیقت سامنے آتی ہے جسے تجربے نے سالہا سال کی بنیاد پر سچ ثابت کیا ہوتاہے۔
چوہدری نثار علی خان چکری سے ہیں،یہ علاقہ چند عشرے قبل تحصیل فتح جنگ کا حصہ تھا۔ فتح جنگ پنڈی گھیب تلہ گنگ ایک مخصوس پٹی ہے اس کا ایک ڈانڈا میانوالی کی طرف جا نکلتا ہے۔اس علاقے کے باسیوں کی صدیوں سے یہ خصوصیت چلی آرہی ہے کہ دشمنی بھی نبھاتے ہیں اور دوستی بھی،ہات پر کٹ مرتے ہیں،بات دل میں رکھتے ہیں،مثلاً وسطی پنجاب کے برعکس یہاں موت پر نہ آنے والے سے تعلقات زندگی بھر کے لیے ختم ہوجاتے ہیں،کسی بھی وجہ سے دشمنی پیداہوجائے تو مشکل سے ہی ختم ہوتی ہے۔سالوں تک عشروں تک مرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے،منافقت کم ہے بہت کم۔ اگر کوئی کسی کو ناپسند کرتا ہے تو اس ناپسندیدگی کو ڈھانک کر نہیں رکھے گا،ظاہر کرے گا،بعض اوقات پا س سے یوں گزرے گا جیسے جان پہچان ہی نہ ہو،ظاہر ہے چوہدری نثار علی خان کے اپنے مزاج اپنے ضمیر اور اپنی کیمسٹری کا بھی اس رویے میں حصہ ہوگا،مگر بحیثیت مجموعی پورے علاقے کا ایک انداز،ایک اسلوب، ایک سٹائل ہے جو چوہدری صاحب میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہوئی کہ باقی مصاحبین اہلِ غرض سے ہیں،خوشامد کرنے والے ہیں، اور اتنی جرات نہیں دکھا سکتے کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہیں۔مریم صفدر اب عملی طور پر مسلم لیگ ن کی سربراہ ہیں،ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ ہے نہ وہ منتخب رکن ہیں،نہ سرکاری ملازم۔پوچھنے والے پوچھے کا حق رکھتے ہیں کہ کس حیثیت سے پارٹی کو نیچے بچھا کر اوپر آلتی پالتی مارے بیٹھی ہیں؟۔۔۔اس سوال کا جواب چوہدری نثار علی خان نے دیا ہے۔کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں سوائے اس کے کہ وہ سابق وزیر اعظم کی دختر نیک اختر ہیں۔
میاں صاحب کی نا اہلی کو جمہوریت کا خاتمہ کہنے اور سمجھنے والے سوچیں کہ اگر میاں صاحب جمہوریت پر،اداروں پر اور نظم وترتیب پر یقین رکھتے تو بیماری کی وجہ سے قیام لندن کے دوران سینئر ترین وفاقی وزیرکو قائم مقام وزیراعظم بنا کر باقائدہ اعلان کرتے۔مگر ایسی اصول پسندی ان کے خمیر میں ہی نہیں،قائم مقام وزیر اعظم کوئی بھی نہ تھا،اور اصل وزیر اعظم کے اختیارات بیٹی استعمال کررہی تھی،کیا آپ نے کبھی سنا کہ کسی جمہوری ملک میں غیر ملکی سرکاری ملاقاتی،حکمران کی بیٹی یا بیٹے کے حضور آکر کورنش بجا لائیں؟پھر وزیروں،افسروں اور اہلکاروں کو بھی یہی حکم ملے،ہاں ایسا ہوتا ہے مگر صرف قبائلی طرزِ حکومت میں۔
نثار علی خان اس شاہراہ سے ہٹ کر کنارے کھڑے ہیں،جس پر مسلم لیگ ن کا قافلہ رواں ہے،اور چاپلوسی کرنے والوں کی ایک طویل قطار اس قافلے کی گر دمیں لپٹی،پیچھے پیچھے نعرے لگات آرہی ہے۔آج نہیں تو کل،کل نہیں تو پرسوں،یہ راجپوت ضرور الگ ہوجائے گا،ابھی تو اس نے صرف برملا یہ تسلیم کیا ہے کہ 2003کے بعد ان کے تعلقات وزیراعظم سے سرد ہو گئے،بہت جلد وہ مزید اعلانات بھی کریں گے۔
عشق ہمارے خیال پڑا ہے،خواب گیا آرام گیا
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے،صبح گیا یا شام گیا!
No comments:
Post a Comment