Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, April 28, 2022

حیراں سرِ بازار

نیامت اللہ سعید بنگش، سلامت ماشکی، رشیدہ ڈومنی، ایشور کمار، خمیسو، عثمان مسیح کی آخری سانس، موچھے کی پٹائی، ٹنڈو محمد خان، ......
یہ کسی ناول کے ابواب ہیں نہ خاکے، یہ حارث خلیق کی نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ یہ ہماری مروّجہ شاعری میں فِٹ نہیں ہوتیں! آج کل اردو شاعری پر عجیب دَورِ فتن آیا ہوا ہے۔ ایک بچی کو، جس میں شاعری کے صحت مند جراثیم واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے، بزرگانہ مشورہ دیا کہ بیٹی! ادبی جرائد میں شائع ہونا ضروری ہے! اس نے خود اعتمادی کے ٹیلے پر چڑھ کر جواب دیا کہ سر! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میری شاعری فیس بک پر بہت پڑھی جا رہی ہے۔ اس کا جواب ما شاء اللہ کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ اب شاعری وٹس ایپ اور فیس بک پر آ چکی ہے۔ اب اسے قارئین کی ضرورت نہیں، بس ناظرین درکار ہیں۔ دوسری افتاد مشاعرہ بازی کا نیا چلن ہے۔ ویسے ہر عشرے میں کچھ مقبول شاعر ابھرتے ہیں۔ پہلے ان کے بیس بیس تیس تیس مجموعے ظاہر ہوتے تھے۔ اب وہ کالجوں یونیورسٹیوں کے مشاعروں میں Entertainers کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انجام دونوں کا ایک جیسا ہوتا ہے۔ سکندر اعظم کے مانند! یعنی آندھی کی طرح آنا اور طوفان کی طرح غائب ہو جانا!
حارث خلیق کی نظمیں مروجہ شاعری میں فِٹ اس لیے نہیں ہو سکتیں کہ ان میں شبِ فراق کے ٹکڑے شبِ وصال سے جوڑنے کا ذکر ہے نہ عاشقوں کے رونے دھونے کا۔ حارث کی نظموں میں ایک اور ہی دنیا دکھائی دیتی ہے جس میں کمی کمین رہتے ہیں۔ جہاں ماشکی اپنے خون کو پانی میں بدل کر خلقت کی پیاس بجھاتے ہیں۔ جہاں نوکرانیاں بیگمات کے برتن مانجھتی ہیں، ملبوسات استری کرتی ہیں اور اپنے آپ کو بچانے میں ناکام رہتی ہیں۔ جہاں زیردست مانجھیوں کی بیٹیاں زور آور حویلیوں کے دھندلکے میں اپنی شناخت گُم کر دیتی ہیں۔ جہاں نابالغ بچے ورکشاپوں میں استاد کے پانے سے پِٹتے ہیں۔ آپ نے بہت نظمیں پڑھی ہوں گی۔ ذرا حارث خلیق کی نظم کے تیور دیکھیے:
وہ شہرِ بے نہایت سے مفصل کمّیوں کی ایک بستی تھی
جہاں سب چنگڑوں، چوہڑوں، چماروں، نال بندوں
خشت مزدوروں، جنائی دائیوں نے گھر بنائے تھے
مسیحی، بالمیکی اور مسلم ساتھ رہتے تھے
حارث کا مسئلہ ہی اور ہے۔ اس کا غم دوسرے شعرا سے مختلف ہے! یکسر مختلف! اس کے سامنے بہت بڑا کینوس ہے جس پر تاریخ، سماج، مذہبی تفریق، طبقاتی امتیاز اور نظر نہ آنے والی اخوّت اور مساوات کے نشانات ہیں۔ اس کینوس پر سب کچھ ہے سوائے شاعر کی اپنی ذات کے، سوائے شاعر کے اپنے غم کے! اگر وہ ایسی شاعری نہ کرتا تو عبدالستار ایدھی ہوتا۔ اگر عبدالستار ایدھی وہ کام نہ کرتا جو اس نے مرتے دم تک کیا تو بالکل ایسی ہی شاعری کرتا جیسی حارث خلیق نے کی ہے۔ اس کام میں، اس شاعری میں، اپنا وجود گُم کرنا پڑتا ہے۔ وہ جو فیض صاحب کا ابد تاب مصرع ہے، اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا، تو ایدھی اس مصرع کی عملی تفسیر تھے اور حارث اس مصرع کی شاعرانہ تعبیر!
سلاطین کے عنوان سے حارث کے اس مجموعے 'حیراں سرِ بازار‘ میں چھ حصوں پر مشتمل جو طویل نظم ہے، اگر واشگاف لفظوں میں اس کا ذکر کیا جائے تو اُس آمریت کی تاریخ ہے جو ہم نے گزاری ہے‘ مگر بیان کی نازک انگاری، لطافت اور سخن سازی دیکھیے۔ یوں لگتا ہے‘ ماضی کا نہیں حال کا ذکر ہے اس لیے کہ آئین شکنی کیلئے اور مقدس بننے کیلئے اب کے برہنہ آمریت نہیں، ایسی آمریت کے سائے منڈلا رہے ہیں جو جمہوریت کے غلاف میں لپٹی ہوئی ہے
وہ نائبِ ربّ بحر وبر تھا/ وہ زاہدِ خشک و خود نگر تھا/ سپہ گری اور مُلک گیری میں کون تھا جو بلند تر تھا/ خیال و افکار سب اسی کے/ درود و اذکار سب اسی کے/ خود اپنی تقدیس پر اسے تھی یقیں کی خواہش/ شب و سحر آئنے کے آگے وہ باوضو سجدہ ریز رہتا/ اور اس کا کرتا خود اپنی عظمت کے پاس سے عطر بیز رہتا۔
حارث کی ایک نظم ایسی ہے جو روح کو وجود کی گہرائیوں سے کھینچ کر باہر نکال لاتی ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے پر نظم اور نثر میں بہت کچھ لکھا گیا ہے؛ تاہم گُل شیر کے عنوان سے یہ نظم نوحہ خوانی کا نیا علاقہ دریافت کرتی دکھائی دیتی ہے۔
اسے بہنوں کو سوتے سے جگانے میں مزا آتا/ اسے دادی کی عینک کو چھپانے میں مزا آتا/ اسے امّی کو بس یونہی ستانے میں مزا آتا/ اسے ابو کے پیسے بھی چرانے میں مزا آتا/ مگر اب وہ نہ بہنوں کو جگائے گا/ نہ دادی کی کبھی عینک چھپائے گا/ کہ اب اسکول سے وہ گھر نہ آئے گا۔
حارث کی پنجابی کی نظمیں دیکھ کر حیرت ہوئی۔ اس لیے کہ خیال یہ تھا کہ اس کی جڑیں اُس زمین میں ہیں جو پانی پت کے مشرق میں واقع ہے‘ مگر امریکہ کی طرح برِ صغیر بھی Melting Pot ہے۔ یہاں ماوراالنہر کا چشم و چراغ، مرزا عبدالقادر بیدل پٹنہ میں پیدا ہوتا ہے۔ بولتا بنگالی ہے۔ فارسی شاعری کو آسمان تک لے جاتا ہے اور دفن دہلی میں ہوتا ہے۔ حارث بھی اسی گداز دان (کٹھالی) کا حصہ ہے۔ اس کے اجداد کشمیر سے ہجرت کر کے لکھنؤ آبسے۔ طب میں ان حضرات کا بڑا نام تھا۔ لکھنؤ کا معروف مدرسہ تکمیل الطب انہی نے قائم کیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ حکیم مومن خان مومن کے اجداد بھی کشمیر ہی سے ہجرت کر کے دہلی آبسے اور طبابت ہی ان کا بھی پیشہ تھا! حارث کے والد خلیق ابراہیم خلیق ڈاکو مینٹریز بنانے کے ماہر تھے۔ پاکستان بنا تو ڈیپارٹمنٹ آف فلم اینڈ پبلی کیشنز قائم کرنے میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ حارث کی والدہ محترمہ بھی معروف ادیبہ ہیں۔ حمرا خلیق کی تصنیف 'مشرق و مغرب کے افسانے‘ میں نے بھی پڑھی ہے۔ کمال کے تراجم ہیں۔ 'کہاں کہاں سے گزر گئے‘ کے عنوان سے ان کی خود نوشت بھی معروف ہے۔ پنجابی کی جاگ حارث کو ننھیال سے لگی جو امرتسر میں تھا۔ بلھے شاہ کا کلام اپنے نانا سے اس نے سبقاً سبقاً پڑھا۔ اس پس منظر کے ساتھ اگر اس نے پنجابی میں سرشار کر دینے والی نظمیں کہی ہیں تو تعجب کیسا! نانی اماں کے عنوان سے نظم دیکھیے:
میں بچیاں نوں ویکھ کے ہسدا /او نئیں ہسدے/ امی مینوں ویکھ کے ہسدی/ میں نئیں ہسدا/ بچے امی کول بیٹھن تے ہسدے رہندے/ میں نانی نوں یاد کراں تے روندا رہندا/ نسلاں دی اے گھمن گھیری سمجھ نئیں آندی/ مینوں نانی اماں دی کوئی خبر نئیں آندی۔
اور یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
سارا کچھ اوتھے ہی رکھیا
جتھے ککھ نئیں رکھیا
ستم ظریفی یہ ہے کہ شہرت حارث کی انگریزی کالم نگار کی ہے۔ وہ ایک طویل عرصہ سے انگریزی زبان کے مؤقر ترین معاصر میں باقاعدگی سے لکھ رہا ہے۔ عمر خیام کو ناز اپنی ریاضی دانی اور ستارہ شناسی پر تھا۔ آج دنیا اسے ایک شاعر کے طور پر جانتی ہے۔ رباعی گوئی میں صادقین کی ہمسری شاید ہی اردو شاعری میں کوئی کر سکے مگر کتنوں کو معلوم ہے کہ وہ شاعر تھا؟ یہ فیصلہ کاتبِ تقدیر ہی کرتا ہے کہ کس کو کس حوالے سے پہچان دینی ہے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, April 26, 2022

دو کشتیوں میں پاؤں نہ رکھو‘ ڈوب جاؤ گے

ایک معروف کالم نگار نے لکھا تھا کہ ایک جلوس امریکہ کے خلاف نکلا ہوا تھا۔ مقررین دھواں دھار تقریریں کرتے اور جلوس میں شامل عوام'' امریکہ مردہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے تھے۔ اچانک سٹیج سے اعلان ہوا کہ جو لوگ گرین کارڈ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ جلوس سے نکل کر دوسری طرف کھڑے ہو جائیں۔ سب لوگ جلوس سے نکل کر دوسری طرف کھڑے ہو گئے۔
حقیقتِ حال کی غمازی کرنے کے باوجود‘ یہ ایک لطیفہ ہی ہے ! اب اصل واقعہ بھی سن لیجیے۔ جمیل کاظمی میرے کالج کے زمانے کے دوست ہیں۔ میں اپنے قصبے سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن کالج میں داخل ہوا۔ جمیل علی گڑھ سے میٹرک کر کے آئے اور اسی کالج میں آن وارد ہوئے۔ کہاں علی گڑھ اور کہاں مغربی پنجاب کا ایک دورافتادہ قصبہ مگر دوستی ہوئی اور ایسی کہ آج اُنسٹھ سال ہو گئے ‘ زمانے کے ہزار پیچ و خم کے باوجود دوستی قائم ہے۔ جمیل اپنے صاحبزادے سے ملنے امریکہ گئے تو کچھ دن کے لیے اپنے ایک عزیز کے ہاں نیو جرسی بھی رہے جو کافی عرصہ سے وہاں مقیم ہیں اور امریکی شہری ہیں۔ یہ عزیز رات دن امریکہ کو کوستے تھے۔ جتنے دن جمیل ان کے ہاں رہے‘ یہ عزیز صبح ہوتے ہی کہانی شروع کر دیتے کہ کس طرح امریکہ نے پاکستانی وزیر اعظم کے خلاف سازش کی اور کس طرح امریکہ ایک شیطان ہے‘ ایک عفریت ہے ایک مُوذی ہے۔ ان کے بقول امریکہ ایک زہریلا اژدہا ہے جو کسی کو بھی ڈس سکتا ہے‘ ان کی رگ رگ سے امریکہ کے خلاف نفرت ابلتی تھی۔ جمیل جو دلیل بھی پیش کرتے اس کا ایک ہی جواب دیتے کہ سازش ہوئی ہے۔ اسی اثنا میں انہیں خبر ملی کہ ان کے ایک قریبی رشتہ دار کی‘ جنہیں یہ اپنے پاس امریکہ بلانا چاہتے تھے‘ گرین کارڈ کی درخواست کو نامنظور کر دیا گیا ہے یا کوئی اعتراض لگا دیا گیا ہے۔ خبر سنتے ہی سارے گھر پر ماتم کی فضا طاری ہو گئی۔ سب کے چہروں پر مردنی چھا گئی۔ ورد وظیفے شروع ہو گئے۔ منتیں مانی گئیں۔ اٹارنی سے مشورے کر کے دوبارہ درخواست داغی گئی۔اب سب کا سانس اٹکا ہوا ہے‘ اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ‘ کہ دیکھیے نئی درخواست کے ساتھ کیا بنتا ہے!
یہ ہے وہ المیہ‘ وہ Dilemmaوہ دامِ بلا جس میں ہم پاکستانی گرفتار ہیں۔ ہم ہر سازشی تھیوری پر ایمان لے آتے ہیں۔ امریکہ کو پاکستان کے تمام اندرونی اور بیرونی مسائل کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ ہجرت کرنے کی تیاری میں لگے رہتے ہیں۔ کبھی امریکی سفارت خانے کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ کبھی انٹرویو دینے ایمبیسی جا رہے ہیں۔ کبھی لمبے چوڑے فارم بھر رہے ہیں‘ سالہا سال کی محنت اور شدید جانکاہ انتظار کے بعد گوہرِ مقصود ہاتھ آتا ہے اور ہم ‘ ارضِ موعود‘ اپنی Promised Land یعنی امریکہ پہنچتے ہیں۔ پہلے گرین کارڈ ملتا ہے۔ کئی سال کے انتظار کے بعد شہریت ملتی ہے۔ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ جشن کا سماں ہوتا ہے۔ ایک اجتماعی تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں ہم اپنی مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھاتے ہیں کہ:
I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty, of whom or which I have heretofore been a subject or citizen
امریکی بہت ہشیارہیں۔ اس حلف نامے میں انہوں نے چار الفاظ ڈالے ہیں:Renounce, abjure, allegiance, fidelity۔ آپ کو بازار میں جتنی انگلش اردو ڈکشنریاں ملتی ہیں دیکھ لیجیےRenounceکا مطلب ہے: لا تعلق ہونا‘ دست بردار ہونا‘ چھوڑ دینا یا ترک کر دینا‘ رد کر دینا‘ پھینک دینا‘ نامنظور‘ مسترد کر دینا‘ طلاق دے دینا‘ انکار کرنا۔Abjureکے معنی ہیں : حلفاً دست بردار یا منکِر ہونا‘ قسم کھا کر انکار کرنا‘ حلفاً مسترد کرنا‘با ضابطہ انکار کرنا‘ تائب ہونا‘ ترک کرنا‘ دست کَش ہونا‘ توبہ کرنا۔Allegiance اور fidelity دونوں کا مطلب ہے: وابستگی‘ وفاداری‘ اخلاص‘ تابعداری۔یعنی میں جس ملک سے آیا ہوں یا جہاں کا شہری تھا اُس سے میری جو بھی وابستگی تھی‘ وفاداری تھی‘ تعلق اور اخلاص تھا اس سے مکمل طور پر‘ کْلّی اعتبار سے ‘ دستبردار ہوتا ہوں ‘ اسے رد کرتا ہوں ‘ مسترد کرتا ہوں‘ قسم کھا کر اس سے انکار کرتا ہوں اور باضابطہ دست کَش ہوتا ہوں!
اب ہم امریکی شہری بن گئے۔ ہم نے آسمانی کتاب پر ہاتھ رکھ کر پاکستان سے ہر قسم کی وفاداری اور وابستگی ترک کر دی۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنے نئے ملک کی زمین پر پاؤں جماتے‘ اپنے حلف کی پاسداری کرتے مگر اب ہم پاکستانی سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے امریکہ کی برائیاں کرتے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ ہمارے پاؤں کسی زمین پر نہیں جمتے! پاکستان سے دفاداری ترک کرنے کی قسم اُٹھا چکے۔ نئے ملک کے فوائد اٹھاتے ہیں مگر پاؤں اس کی زمین پر نہیں رکھتے۔ کیا یہ قسم جھوٹ موٹ میں اٹھائی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو نفرین ہے ہماری منافقت اور فریب کاری پر۔ اگر سچے دل سے اٹھائی ہے تو پھر کیسا پاکستان اور کون سا پاکستان!
بھائی اب جہاں رہ رہے ہیں ‘ جہاں کے فوائد سمیٹ رہے ہیں‘ وہیں کے بن کر رہیں۔ بہت سے اس کی افواج میں کام کر رہے ہیں۔ بچے‘ بیٹیاں امریکہ کی پولیس میں ہیں‘ خفیہ اداروں میں ہیں۔ یہاں کے معیارِ زندگی سے متمتع ہو رہے ہیں۔ وال مارٹ میں شاپنگ کرتے ہیں۔ سرکاری علاج اور دیگر مراعات حاصل ہیں۔ بڑھاپے میں ریاست دیکھ بھال کرتی ہے۔ امریکی پاسپورٹ پر دنیا بھر میں ویزے کے بغیر جا سکتے ہیں۔ تو پھر دل سے امریکی بنیں۔ کسی کے ساتھ تو نبھائیں۔ جس شہریت کے لیے پاکستان سے وفاداری ختم کرنے کی قسم اٹھائی ‘ اس سے تو وفا کریں۔ اور اگر امریکہ نے سازش کی ہے تو پھر لعنت بھیجیں امریکہ اور اس کی مراعات پر۔ واپس آجائیں۔ مگر ایسا ہم کبھی نہیں کریں گے۔ مزے امریکی زندگی کے اڑانے ہیں اور چسکے پاکستانی سیاست کے لینے ہیں۔ رہتے ورجینیا کے محل میں ہیں اور فکر پاکستان کی ہے!
اس کالم نگار نے بیرونِ ملک مقیم اپنے قریبی عزیزوں سے بھی یہی کہا ہے کہ جہاں گئے ہو وہاں کی زمین پر قدم جماؤ۔ وہاں کی سیاست میں حصہ لو۔ وہاں کے منتخب ایوانوں میں جا کر بیٹھو۔وہاں کی حکومت میں اعلیٰ مناصب پر پہنچو۔ حلف اٹھایا ہے تو اسے نبھاؤ۔ رہا پاکستان تو جو یہاں رہ رہے ہیں‘ یہ ان کا دردِ سر ہے۔ جو یہاں کی ٹریفک میں زندہ ہیں‘ جو یہاں کی لوڈ شیڈنگ میں جی رہے ہیں‘ جو یہاں گیس کنکشن کے لیے برسوں انتظار کرتے ہیں‘ جو یہاں کے تھانوں اور کچہریوں کو جھیل رہے ہیں ‘ وہ یہاں کے مسائل بھی حل کر لیں گے۔ جو پاکستان کی سختیوں سے نجات حاصل کر کے کسی اور ملک میں جا بسے ہیں‘ وہ اُسی ملک کے مسائل کی فکر کریں۔ وہیں کی حکومت کو ٹھیک کریں !
رہی یہ بات کہ ہم ڈالربھیجتے ہیں تو اپنے اعزہ اور اقارب کو بھیجتے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری خزانے کو نہیں بھیجتے۔ جن کے ماں باپ یا بہن بھائی نہیں ہیں‘ کیا وہ پاکستانی بیت المال کو بھیج رہے ہیں؟اب سمندر پار سے گالیوں کی جو بوچھاڑ آئے گی ‘ وہ اس کالم نگار کو پہلے سے معلوم ہے۔ اوریہ بھی معلوم ہے کہ دلیل دینے کے بجائے دشنام طرازی سہل ہے!

Monday, April 25, 2022

اگر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آئے


اگر عمران خان کے سر پر اقتدار کا ہما ایک بار پھر بیٹھتا ہے تو جن سوراخوں سے وہ پہلے ڈسے گئے‘ کیا ان سے بچنے کی کوشش کریں گے؟ یہ تو طے ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دوبارہ نہیں بھیجیں گے مگر جن غلطیوں کا ابھی انہوں نے اعتراف نہیں کیا‘ کیا ان سے بھی احتراز کریں گے؟
ان کے حامی جس الزام پر سب سے زیادہ بے بسی کا سامنا کرتے ہیں وہ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ان کا اتحاد تھا۔ اپنے مخالفین کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے کو چور کہتے تھے‘ مگر وہ خود بھی تو کہتے تھے کہ فلاں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو ہے۔ پھر اس سے اتحاد کر لیا۔ کیا دوبارہ اقتدار میں آ کر وہ ایسا ہی کریں گے؟ کیا شیخ رشید ہی کو وہ اپنا وزیر داخلہ مقرر کریں گے؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عثمان بزدار ہی کو دوبارہ وزیر اعلیٰ تعینات کریں گے؟ کیا آئی جی اور چیف سیکرٹری کو ہر چند ہفتوں بعد تبدیل کر دیا جائے گا؟ کیا عثمان بزدار سرکاری بجٹ سے بنی ہوئی کسی عمارت پر دوبارہ اپنے والد صاحب کا نام کَندہ کرائیں گے؟
سابق وزیر اعظم‘ دوبارہ وزیر اعظم بنے تو دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر آنے جانے کے لیے کیا سرکاری خرچ پر ہیلی کاپٹر کا استعمال پھر سے شروع کریں گے؟ ان کے لیے حکومت کی طرف سے سرکاری قیام گاہ موجود ہے۔ اگر وہ اس میں رہتے تو قومی خزانہ اٹھانوے کروڑ کے اخراجات سے بچ سکتا تھا! چلیں کراچی تو ایک دور افتادہ مقام ہے۔ اس کے لیے انہوں نے جہاز چارٹر کرایا جس کا کرایہ مبینہ طور پر انتیس لاکھ روپے تھا‘ مگر ان کا گھر تو ان کے دفتر سے زیادہ دور نہ تھا۔ اگر وہ گاڑی میں آتے جاتے تو کیا عجب راستے میں پڑتی آبادیوں کی قسمت بدل جاتی۔
کیا وہ دوبارہ سٹیٹ بینک کو حکومت پاکستان کے بجائے آئی ایم ایف کا دست بستہ چاکر بنا دیں گے؟ کیا دوبارہ آئی ایم ایف کے کسی تنخواہ دار ملازم کو درآمد کر کے سٹیٹ بینک کا گورنر بنائیں گے؟ اور اتنی ہی تنخواہ اور اتنی ہی مراعات پر؟ خان صاحب کی حکومت نے سٹیٹ بینک کے گورنر کے لیے جو تنخواہ اور جو مراعات منظور کی ہیں ان کی تفصیل کالم نگار کے اُس کالم میں پڑھی جا سکتی ہے جو روزنامہ دنیا میں اِسی سال چودہ فروری کو چھپا۔ اگر آپ کے اعصاب نسبتاً کمزور ہیں تو یہ تفصیل پڑھنے سے اجتناب کیجیے۔ عمران خان نے جو مشاہیر اور تجربہ کار افراد اپنی کابینہ میں رکھے تھے‘ کیا انہی کی مدد سے دوبارہ اپنی حکومت کی تشکیل کریں گے؟ کیا عمر ایوب خان‘ اعظم سواتی‘ فہمیدہ مرزا‘ خسرو بختیار‘ فردوس عاشق اعوان‘ ڈاکٹر عشرت حسین‘ زبیدہ جلال‘ حفیظ شیخ‘ اور شوکت ترین کے بغیر ان کی اُس حکومت کی کابینہ مکمل ہو جائے گی جو انہیں قدرت دوسری بار عطا کرے گی؟
عمران خان دوبارہ حکمران بنے تو کیا وہ اتنے ہی منتقم مزاج ہوں گے؟ کیا ان کا تکیہ کلام وہی ہو گا کہ چھوڑوں گا نہیں! بندوق کے نشانے پر رکھوں گا! کیا اپنے مخالفین کو وہ دوبارہ جیل یاترا کرائیں گے؟ کیا صحافیوں‘ اینکروں‘ اور میڈیا ہاؤسز کے مالکوں سے گن گن کر بدلے لیں گے؟ کیا ایف آئی اے کے سربراہ کو طلب کر کے پھر وہی احکام دیں گے کہ فلاں کو پکڑو اور فلاں کے خلاف مقدمہ کھڑا کرو۔ کیا دوسری بار وزیر اعظم بن کر ان کے تکبر کا وہی عالم رہے گا جو پہلی بار بننے کے بعد ان پر غالب رہا؟ کیا وہ اپنے مخالفین سے بات کرنے اور ہاتھ ملانے سے تب بھی انکار کریں گے؟ ان کا موقف یہ تھا کہ ہاتھ ملانے کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی چوری کو قبول کر لیا۔ عمران خان دنیا بھر میں گھومتے پھرتے رہے۔ انہوں نے کئی ہندوئوں‘ کئی یہودیوں اور کئی مسیحیوں سے ہاتھ ملایا ہو گا۔ کیا ان سے ہاتھ ملانے کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے ان کا مذہب قبول کر لیا؟ آخر چودھری پرویز الٰہی سے بھی تو ہاتھ ملاتے رہے۔ رہا معاملہ بات نہ کرنے کا تو ہمارے رسولﷺ اور ان کے اصحاب تو کفار سے بھی بات چیت کرتے رہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمانؓ کو تو مکہ بھیجا ہی اس لیے گیا تھا کہ کفار سے بات چیت کریں۔ عمران خان کے عہدِ اقتدار میں جو اپوزیشن کے ارکان تھے‘ وہ جتنے بھی گنہگار ہوں‘ مسلمان تو تھے۔ اگر مکہ کے کفار سے بات ہو سکتی تھی تو اپوزیشن ارکان سے کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟ اگر عمران خان دوسری بار حکمران بنے تو کیا دوبارہ وہ اپنے مخالفین کے برے برے نام رکھیں گے؟ اور کیا مفتی تقی عثمانی صاحب اور چودھری شجاعت حسین دوبارہ ان کی توجہ سورۃ الحجرات کی طرف مبذول کرنے کی ناکام کوشش کریں گے؟
سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ دوسری بار تخت نشین ہو کر کیا وہ اپنی تقریروں سے وہ حصے ختم کر دیں گے جنہیں سن سن کر خلقِ خدا عاجز آ گئی تھی۔ یہ کہ انہوں نے ورلڈ کپ جیتا۔ یہ کہ وہ آخری بال تک کھیلیں گے۔ یہ کہ مغرب اور ہندوستان کو جتنا وہ جانتے ہیں اتنا کوئی اور نہیں جانتا۔ یہ کہ فلاں فلاں اور فلاں چور‘ ڈاکو اور لٹیرے ہیں اور یہ کہ انہوں نے بائیس سال جدوجہد کی! اور ہاں دوسری بار سریر آرائے سلطنت ہو کر کیا وہ انہی شعلہ صفت حضرات کو اپنا ترجمان مقرر کریں گے جن کی زبان کی تلواریں ہر چہار طرف مار کرتی تھیں‘ میدان لاشوں سے پٹ جاتے تھے اور کشتوں کے پشتے لگ جاتے تھے۔ کیا دوبارہ حکومت ملنے کی صورت میں سابق وزیر اعظم پھر دوست نوازی کا مظاہرہ کریں گے؟ فنڈز اکٹھا کرنے والے پرانے خدمت گاروں کو کیا ایک بار پھر اعلیٰ مناصب پر فائز کریں گے؟
اور آخری سوال یہ کہ کیا دوبارہ برسرِ اقتدار آ کر عمران خان صاحب امورِ خارجہ کو اسی طرح نمٹائیں گے جس طرح وہ پہلے نمٹاتے آئے ہیں؟ مثلاً یورپی یونین کے بارے میں انہوں نے جو ڈسکشن کی یا جو بحث کی‘ وہ جنوبی پنجاب کے ایک عوامی جلسے میں کی۔ اس جلسے میں حاضرین کی بہت بڑی تعداد کو شاید یہ بھی نہ پتا ہو گا کہ یورپی یونین کیا چیز ہے۔ خارجہ امور کی جو حساس حیثیت ہے‘ اس کے پیش نظر دوسرے ملکوں کے سربراہانِِ حکومت اور صدور وغیرہ لکھی ہوئی تقریر پڑھتے ہیں تاکہ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہ رہے اور بعد ازاں توضیحات کی ضرورت نہ پیش آئے۔ عمران خان صاحب خارجہ امور کی نزاکت کو سامنے رکھے بغیر دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کو اس طرح ڈسکس کرتے تھے جیسے امورِ خانہ کا ذکر کر رہے ہوں۔ یہ معاملہ تو وزارتِ خارجہ کے ساتھ مل کر‘ ان کی ہدایات کی روشنی میں طے کرنا چاہیے۔ وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو کیا وہ اسی طرح خارجہ امور نمٹائیں گے؟ ہمارے خارجہ تعلقات ان کے دور میں مڈل ایسٹ کے ممالک کے ساتھ بھی اچھے نہیں رہے‘ ترکی کو بھی انہوں نے ایک دفعہ شرمندہ کیا‘ مہاتیر محمد کے ساتھ بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے۔
چونکہ تادم تحریر خان صاحب نے ان اقدامات کو غلطیوں میں شمار نہیں کیا‘ اس لیے منطق کہتی ہے کہ یہ سب کام دوبارہ ہوں گے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Thursday, April 21, 2022

ایک بزرگ کے حضور

کمرہ کیا تھا، کٹیا تھی۔
دیواریں مٹی کی تھیں۔ فرش سیمنٹ کا جیسے ہمارے بچپن میں اکثر گھروں کا ہوتا تھا۔ فرش پر چٹائیاں بچھی تھیں۔ ایک طرف پانی کا پرانا سا کولر رکھا تھا جس پر مٹی کا ایک پیالہ اوندھا پڑا تھا۔ چٹائیوں کے ایک طرف دری بچھی تھی۔ اس کے ساتھ ایک عمر رسیدہ گاؤ تکیہ رکھا تھا ۔ یہیں وہ بزرگ تشریف فرما تھے جن کی زیارت کے لیے ایک دوست زبردستی لایا تھا۔ اس دوست کا ہمیشہ سے گلہ تھا کہ تم لوگ بزرگوں کو نہیں مانتے۔ میں ہر بار وضاحت کرتا کہ ایک تو میں وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو! نہ ہی کسی فرقے سے تعلق ہے۔ دوسرا بزرگوں کی بزرگی سے انکار کون کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ بزرگ ہوں، مستقبل کی پیشگوئیاں کرنے والے نہ ہوں۔ بد قسمتی سے آج کل بزرگی اور روحانیت کا مطلب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل کا حال بتایا جائے گا۔ میں اپنے مستقبل کا حال معلوم کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر مستقبل کا حال جاننا میرے لیے مفید ہوتا تو قدرت دوسرے علوم کی طرح یہ علم بھی عطا کرتی۔ دوست نے بتایا کہ یہ بزرگ مستقبل کی پیشگوئیاں بالکل نہیں کرتے نہ انہیں دعویٰ ہے۔ وہ تو علم و حکمت بانٹتے ہیں اور دانش کے موتی بکھیرتے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں۔ وہ جواب دیتے ہیں۔
عبا تھی نہ عمامہ! عام لباس پہنے تھے۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی اور نرمی! آنکھیں روشن تھیں۔ ماتھا کُھلا تھا۔ سر کے بال سفید تھے نہ سیاہ، کھچڑی تھے۔ گویا سرد و گرمِ زمانہ چشیدہ تھے۔ ہم ایک طرف چٹائی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ ایک صاحب استفسار کر رہے تھے کہ اولاد کے کیا حقوق ہیں۔ وہ جواب دے رہے تھے، یوں گویا لفظ نہیں زبان سے ستارے نکل رہے ہوں۔ نپے تلے الفاظ! چہرے پر مسلسل مسکراہٹ! سبحان اللہ! کیا نکتہ آفرینی تھی۔ کیا اندازِ تکلم تھا! سمجھانے کا کیا اسلوب تھا! جو ہم سے پہلے بیٹھے تھے، ان سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ خیریت پوچھی۔ پوچھا: کھانا کھایا ہے؟ عرض کیا کہ کھا کر آئے ہیں۔ ایک خادم کو انہوں نے چائے لانے کا اشارہ کیا۔ میں ادب سے گویا ہوا کہ حضور! ہمارا جو قدیم، کلاسیکی ادب ہے، فارسی اور عربی کا، اس میں خاندانی لوگوں کی کچھ علامات بتائی گئی تھیں۔ یہ ادب اگر نایاب نہیں تو اب کمیاب ضرور ہے۔ ہماری دسترس میں تو بالکل نہیں! معاشرے کی قدریں الٹ پلٹ ہو گئی ہیں۔ معززین کونوں کھدروں میں روپوش، عزت بچاتے پھرتے ہیں۔ شُہدے، لُچے، فرنگی صوفوں پر براجمان، خلقِ خدا سے کورنش وصول کر رہے ہیں۔ سب کچھ خلط ملط ہو گیا۔ یہ بتائیے کہ خاندانی انسان کی کیا پہچان ہے! وہ سن کر مسکرائے۔ چائے آ چکی تھی۔ ہمارے احتجاج کے باوجود خود چینک سے ہماری پیالیوں میں انڈیلی! پھر گویا ہوئے:
پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ خاندانی نجابت سے مراد موروثی اقتدار یا امارت یا جاگیرداری نہیں۔ ایک سفید پوش بھی خاندانی ہو سکتا ہے اور ایک امیر زادہ بھی! خاندانی انسان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے برابر کے لوگوں اور رُتبے میں اپنے سے کمتر لوگوں کے دُکھ میں ضرور شامل ہوتا ہے۔ اپنے سے اونچے سٹیٹس کے لوگوں کے غم اور خوشی میں تو ہر کوئی شامل ہوتا ہے جس کی وجہ ذاتی مفادات بھی ہو سکتے ہیں۔ بڑے مرتبے پر فائز ہو کر، اپنے سے کم حیثیت والوں کے غم میں شامل ہونا اصل نجابت اور اصل شرافت ہے۔ جو خاندانی امرا ہوتے ہیں وہ اپنے کارندوں کے گھر جا کر پُرسہ دیتے ہیں بلکہ غریب کسان کی بھینس بھی مر جائے تو جا کر چٹائی پر بیٹھتے ہیں۔ بادشاہوں کے زمانے میں ہر بادشاہ اپنے جانشین کو اس امر کی نصیحت کر کے جاتا تھا۔ یہ بادشاہ اپنے غلاموں، خادموں، پیشکاروں اور چوبداروں کی ہر موقع پر دلجوئی کرتے تھے۔ کسی کی وفات پر، تعزیت میں شامل نہ ہونا اور جنازے سے احتراز کرنا، خاندانی لوگوں کی نہیں، کم ہمت اور کم ظرف لوگوں کا وتیرہ ہے اور احساس کمتری کی واضح دلیل ہے۔
دوسری نشانی مہمان نوازی ہے۔ جو شخص خاندانی ہو گا وہ اپنے مہمان کی، خواہ مہمان اس سے مرتبے میں کم ہو، ضرور خاطر مدارات کرے گا۔ ایسے لوگ، گھر میں کچھ نہ ہوتو گھر کا سامان بیچ کر مہمان کو کھانا کھلاتے ہیں۔ قیمتی سے قیمتی جانور ذبح کر دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بھوکا بھی رکھنا پڑے تو دریغ نہیں کرتے۔ عربوں، پختونوں، ازبکوں اور کئی دوسری قوموں کے نزدیک مہمان نوازی زندگی اور موت کا، اور غیرت اور بے غیرتی کا سوال ہے! جو شخص مہمان کی موجودگی میں خود کھائے اور مہمان کو نہ کھلائے وہ جو کچھ بھی ہونے کا دعویٰ کرے، خاندانی نہیں ہو سکتا۔ اس سے زیادہ پست ہمتی اور دنایت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا!
تیسری نشانی خاندانی انسان کی یہ ہے کہ وہ دست سوال نہیں دراز کرتا۔ گھر میں فاقہ ہو تب بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے گا۔ خاص طور پر مانگے تانگے کی شان و شوکت اور طمطراق کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اپنی سواری نہ ہو تو پیدل چل لے گا، کسی سے سواری مانگے گا نہیں اس لیے کہ اسے معلوم ہے سواری کا مالک کسی بھی وقت اپنی سواری واپس مانگ لے گا۔ ایسے میں جو بے عزتی ہو گی اس بے عزتی کو خاندانی انسان کبھی نہیں برداشت کرے گا۔ اگر وہ عالی شان سواری کا شائق ہے تو خود خرید کر رکھے گا۔ ورنہ دست سوال دراز کرنے سے بہتر یہ سمجھے گا کہ جو سواری اس کی اپنی ہے، جیسی بھی ہے، اسی پر قناعت کرے!
چوتھی نشانی یہ ہے کہ خاندانی انسان کی شہرت، کبھی بھی، ایک جھوٹے انسان کی نہیں ہو سکتی! جھوٹ بولنا انسانی فطرت کا خاصہ ہے مگر کچھ لوگ اس قدر تواتر اور مستقل مزاجی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کی عمومی شہرت ایک دروغ گو کی ہو جاتی ہے۔ خاندانی آدمی ایسی شہرت رکھتا ہے نہ اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔ وہ جان تو دے سکتا ہے، اپنی زبان سے نہیں پھر سکتا۔ خاندانی آدمی ایک بار وعدہ کر لے، یقین دہانی کرا دے، کمٹ منٹ کر لے تو پھر پوری دنیا اس پر اعتبار کرتی ہے۔ پھر اگر کوئی عدم اعتماد کی بات بھی کرے تو اس کی بات کوئی نہیں مانتا۔
پانچویں نشانی یہ ہے کہ خاندانی آدمی اپنے دوستوں سے فریب کاری کبھی نہیں کرتا۔ وہ ہر مصیبت میں ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے چہ جائیکہ ان کی پیٹھ میں چھرا بھونکے۔ جس کے دوست اس کا ساتھ چھوڑ دیں اور بہت زیادہ تعداد میں ساتھ چھوڑتے جائیں وہ نجیب نہیں ہو سکتا۔ یہ ہزاروں سال کا آزمودہ فارمولا ہے کہ اگر خلق خدا کہہ دے کہ فلاں کا دنیا میں کوئی دوست نہیں تو سمجھ لو کہ وہ خاندانی آدمی نہیں۔
اور آخری نشانی یہ ہے کہ خاندانی آدمی احسان فراموش نہیں ہو سکتا۔ وہ ایک کم حیثیت انسان کا بھی احسان ہمیشہ یاد رکھتا ہے بے شک وہ احسان معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ جو شخص اپنے محسنوں کو بھول جائے وہ طوطا چشم تو ہو سکتا ہے، حیلہ کار اور بے وفا تو ہو سکتا ہے، عالی نژاد نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے تو فرمایا گیا ہے -ہَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ‘ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہے۔
بزرگ موتی رول رہے تھے۔ کمرہ لوگوں سے بھر چکا تھا۔ سب ہمہ تن گوش تھے۔ ہم نے اجازت چاہی اور باہر آگئے۔ ایک نور تھا جو باطن میں موجزن تھا۔
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Tuesday, April 19, 2022

کچھ’’ سائبان تحریک ‘‘ کے بارے میں

آپ نے جنات کے بارے میں کئی ناقابلِ یقین واقعات سنے ہوں گے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی انسان‘ انسانی شکل ہی میں‘ جن کی طرح کام کرتا ہے! ناقابلِ یقین کام ! حسین مجروح ایک ایسا ہی انسان ہے۔ دیکھنے میں ہمارے جیسا! مگر جب کام کرتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ انسان ہے یا جن! اکبر الہ آبادی نے سرسید احمد خان کے بارے میں کہا تھا ؎
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سیّد کام کرتا ہے
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
ہم بھی باتیں کرتے رہے۔حسین مجروح نے ہمیشہ کچھ کر کے دکھا یا۔ ادبی دنیا پر اس کے بہت سے احسانات ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس نے یہ احسانات کبھی جتائے نہ ان کے بدلے میں کچھ چاہا۔ پیشے کے لحاظ سے بینکار اور بینکار بھی اعلیٰ مناصب والا۔ادب پر گفتگو کرنے پر آئے تو سننے والوں کو پتا چلتا ہے کہ اس کے پاس صرف فنِ گفتگونہیں‘ علم بھی ہے۔ نثر کمال کی لکھتا ہے اور شاعری ؟ شاعری تو اس کا اصل میدان ہے۔ کیسے کیسے اشعار کہے ہیں مجروح نے ؎
وہ ماشکی ہوں کہ میلے سے ایک شب پہلے
کتر دیا ہو گلہری نے جس کا مشکیزہ
وہ قحطِ مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم سے
غیبت نکال دیں تو فقط خامشی بچے
میں سینت سینت کے رکھتا ہوں اپنی گمنامی
کہ کھو گئی تو دوبارہ نہیں ملے گی مجھے
کس طرح گھر کو پلٹ جائیں سرِ شام حضور
عشق میں دفتری اوقات نہیں ہوتے ہیں
حلقہ اربابِ ذوق لاہور سے مجروح کی وابستگی پرانی ہے۔ دو بار اس کا معتمد رہا۔ دونوں بار حلقے کی سرگرمیوں کو عروج پر لے گیا۔جب حلقہ دو لخت ہوا اور کھینچا تانی انتہا کو پہنچ گئی تو مجروح نے حکمت عملی اور محنت شاقہ سے دونوں متحارب گروہوں کو پھر سے یکجا کر دیا۔ ماضی قریب میں تاریخی ادبی مجلے ''ادبِ لطیف‘‘ کا مدیراعلیٰ بنا۔ جو چند پرچے نکالے‘ کمال معیار کے تھے، مگر ہم جو اس کے دوست تھے‘ جانتے تھے کہ یہ کمپنی زیادہ دیر نہیں چلنے کی۔ معیار پر سمجھوتا اس نے نہیں کرنا تھا؛ چنانچہ یہی ہوا۔ کچھ عرصہ بعد وہ علیحدہ ہو گیا۔
گزشتہ سال کے اوائل کی بات ہے۔مجروح لاہور سے اسلام آباد تشریف لایا اور ایک بہت ہی شاندار اورAmbitious ادبی منصوبے کے خدوخال بیان کیے۔عمر ِعزیز مختلف احباب اور عزیزوں سے اس قسم کے بلند بانگ منصوبوں کا ذکر سنتے اور پھر انہیں بِن کھِلے مرجھاتے دیکھتے گزری ہے اس لیے سن کر فقط سکوت اختیار کیا کہ یہ منصوبہ بھی محض منصوبہ بندی ہی کی حد تک زندہ رہے گا۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ حضرتِ مجروح کراچی پہنچے ہوئے ہیں اور ادیبوں اور شاعروں کو اپنے منصوبے سے آگاہ کر رہے ہیں۔پھر پے در پے ایسی خبریں ملیں جن سے واضح ہو گیا کہ مجروح دھن کا پکا ہے۔ جو چاہتا ہے کر کے دکھاتا ہے۔ کئی سنگ ہائے میل اس قلیل مدت میں اس نے پار بھی کر دکھائے !
مجروح کے اس ادبی منصوبے کا نام ''سائبان تحریک‘‘ ہے۔ یہ تحریک ادیبوں اور ادبی جرائد و کتب کے مسائل اور مشکلات کی داد رسی کرے گی۔ اس کے بنیادی اوصاف مندرجہ ذیل ہیں۔
٭ کتاب اور جریدہ کلچر کے فروغ کے لیے مفت خوری کی حوصلہ شکنی اور خرید کر پڑھنے کی عادت کو راسخ کرنا۔
٭ادبی کتابوں کی اشاعت و فروخت کیلئے ایک مربوط نظام کی تشکیل۔
٭ادیبوں اور جریدوں کے استحصال کی مختلف صورتوں کی بیخ کَنی۔ اس ضمن میں عملی اقدامات کرنے کا عزم۔
٭ادبی جریدوں کو قاری تک پہنچانے کے لیے عملی تعاون۔
٭جو ناانصافیاں ادیبوں کے ساتھ ہو رہی ہیں ان کے تدارک کے لیے راست اقدام۔ ان کی جائز شکایات کا ازالہ۔
٭ ادبی معاملات پر بامعنی مکالمے کا اجرا
٭نوجوان ادیبوں کی رہنمائی‘ تربیت اور حوصلہ افزائی کے حوالے سے مساعی۔
٭خواتین ادیبوں کے مسائل کا تدارک۔ ان کی مشکلات کا حل۔ان کے احترام کیلئے فضا استوار کرنے کا اہتمام۔
٭ادبی تنظیموں اور ان تنظیموں کے کارکنان کی مدد اور حوصلہ افزائی۔
ظاہر ہے کہ تمام کتب اور جرائد کی خریداری کسی بھی تنظیم کے لیے آسان ہے نہ ممکن۔ سائبان تحریک اس حوالے سے سینئر ادیبوں کی ایک کمیٹی تشکیل دے گی جو منتخَب مطبوعات کی منظوری دے گی اور مختص کردہ بجٹ کے مطابق کتاب مقررہ تعداد میں خریدی جائے گی۔ نکاسی کیلئے ایک مارکیٹنگ پلان وضع کیا جارہا ہے جس کے مطابق ادیبوں کو رائلٹی دینے کے علاوہ قاری کیلئے بھی رعایت کا بندوبست کیا جائے گا تا کہ خرید کر پڑھنے کی حوصلہ افزائی ہو۔ ناشر حضرات کو قائل کیا جائے گا کہ کتابوں کے سستے ایڈیشن بھی شائع کریں۔ احباب پر زور دیا جائے گا کہ کتاب تحفے میں قبول کرنے کے بجائے خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔اگر مصنف‘ محبت کی وجہ سے کتاب تحفے کے طور پر پیش کرتا بھی ہے تو کم از کم اس کی آدھی قیمت اصرار کر کے ضرور پیش کی جائے۔ حکام سے عرض گزاری ہو گی کہ کتاب دوست پالیسیاں اپنائیں۔ٹیکسوں اور ڈاک ٹکٹ کے سلسلے میں رعایت کا تقاضا کیا جائے گا۔ پبلک اور کارپوریٹ سیکٹر سے کہا جائے گا کہ اشتہارات کا ایک حصہ ادبی مطبوعات کیلئے وقف کیا جائے۔ تحریک کا باقاعدہ آئین اور ضوابط ہوں گے جو تحریری شکل میں موجود ہیں۔ تحریک کو فاؤنڈیشن کے طور پر رجسٹر کرایا جا رہا ہے۔ اس کا صدر دفتر اور ذیلی دفاتر ہوں گے۔ مختلف امور کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ تجربہ کار‘ متحرک اور ہم خیال ادیبوں پر مشتمل انتظامی کونسل بنائی جارہی ہے۔
کسی بھی تحریک کیلئے آکسیجن کا کام اس کا شعبہ مالیات ہو تا ہے۔ اس سلسلے میں پہل خود مجروح نے کی ہے۔ نامساعد حالات کے باوجود اس نے اپنی گرہ سے تین لاکھ سے زیادہ کی رقم تحریک کو دی ہے۔ اس کے علاوہ‘ تحریک کو متعارف کرانے کے لیے تمام بڑے شہروں کا سفر اس نے اپنے خرچ پر کیا ہے۔ تعارفی لٹریچر بھی اس نے خود چھپوایا ہے۔ جو دوست اس ضمن میں اپنے وسائل تحریک کے ساتھ شیئر کریں گے انہیں باقاعدہ رسید دی جائے گی۔ فاؤنڈیشن کی سالانہ آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات‘ فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر ہر خاص و عام کیلئے مہیا ہوں گی۔
اس قلیل مدت میں سائبان تحریک تین ادبی کتابیں شائع بھی کر چکی ہے جن میں معروف مزاحیہ شاعر اطہر شاہ خان جیدی مرحوم کا کلام بھی شامل ہے۔ سائبان ہی کے عنوان سے ادبی جریدہ بھی نکالا جا رہاہے جس کا پہلا شمارہ منظر عام پر آنے والا ہے۔ کام کٹھن ہے مگر حسین مجروح محض گفتار کا نہیں‘ عمل کا آدمی بھی ہے۔یقینا یہ تحریک کامیاب ہو گی!
یہ جو ہم رونا روتے ہیں کہ کتابیں مہنگی ہو گئی ہیں اور استطاعت سے باہر ہیں‘ سراسر غلط ہے۔ اگر کتاب مہنگی ہے تو سستی یہاں کون سی شے ہے ؟ لباس سے لے کر خوراک تک ہر طرف گرانی کا بھوت ناچ رہا ہے۔ سکولوں کی فیسیں‘ پٹرول‘ مکانوں کے کرائے‘ موبائل ٹیلیفونوں کے کارڈ‘ سواری‘ ہر شے مہنگی ہے۔ مگر ہم یہ سب کچھ خرید رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ اشیا و خدمات ترجیحات کی فہرست میں اوپر ہیں۔ کتاب بیچاری تو اس فہرست میں موجود ہی نہیں اور اگر موجود ہے بھی تو آخر میں ! جس دن یہ معاشرہ کتاب کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے گا اس کی مہنگائی‘ دوسری اشیا کی طرح‘ قابلِ برداشت ہو جائے گی

بشکریہ روزنامہ دنیا 

Monday, April 18, 2022

نصف آبادی کب تک اپاہج رہے گی ؟

چھ دن پہلے جو واقعہ وفاقی دارالحکومت کے ایک تھانے میں پیش آیا وہ بظاہر بہت معمولی ہے۔ یہ کوئی بریکنگ نیوز تھی نہ پرنٹ میڈیا کی سرخی۔ دو تین اخباروں نے چھوٹی سی خبر شائع کی لیکن اس کے باوجود اس واقعہ میں ہمارے لیے سبق ہے اور نشانیاں۔ اس کے ساتھ ہی ماضی کے دو واقعات یاد آرہے ہیں۔ ایک کا کالم نگار خود شاہد ہے۔دوسرا سنا ہے اور راوی ثقہ ہیں۔
اب صحیح یاد نہیں یہ سفر غرناطہ سے بارسلونا تک کا تھا یا بارسلونا سے روم تک کا۔ ٹرین کے ڈبے میں آمنے سامنے دو لمبی سیٹیں تھیں۔ ایک پر کالم نگار بیٹھا تھا۔ سامنے والی سیٹ پر تین لڑکے اور ایک لڑکی براجمان تھی۔ عمر اور وضع قطع سے یہ کسی کالج یا یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ لگ رہے تھے۔ گاڑی چلی۔ یہ آپس میں ہنسی مذاق، ٹھٹھا مخول کر رہے تھے۔ ایک لڑکا لڑکی کے ایک طرف بیٹھا ہوا تھا اور دو دوسری طرف۔ لڑکی کے پاس چاکلیٹ تھی یا کھانے کی کوئی اسی قبیل کی شے۔ اس نے نکالی اور کھانا شروع کردی۔ ایک لڑکے نے کہا کہ مجھے بھی دو۔ لڑکی نے انکار کر دیا۔ اب یہ لڑکی کی چھیڑ بن گئی اور لڑکوں کی ضد۔ لڑکوں نے اس سے چاکلیٹ چھیننا چاہی مگر اس نے نہ چھیننے دی۔ وہ کھاتی بھی رہی اور ایک ہاتھ سے ایک لڑکے کو اور دوسرے ہاتھ سے دوسرے دو لڑکوں کو روکے بھی رکھا۔ یہاں تک کہ اس نے چاکلیٹ ختم کر لی! آپ کا کیا خیال ہے کیا ہماری، یعنی ایک عام پاکستانی لڑکی، تین لڑکوں کا مقابلہ کر سکے گی ؟ دوسرا واقعہ ایک سرکاری دفتر کا ہے۔ایک بڑا افسر تھا۔ ایک خاتون افسر اس کی ماتحت تھی۔ یہ خاتون بہت کم آمیز اور کم گو تھی۔ کسی مرد کے ساتھ چائے پیتی نہ ضرورت کے بغیر بات کرتی۔ بڑا افسر اس دفتر میں نیا نیا وارد ہوا تھا اور وہ جو میر کا مشہور شعر ہے کہ
دل سے شوقِ رُخِ نکو نہ گیا
تاکنا جھانکنا کبھو نہ گیا
تو رُخِ نکو کا اسے بہت شوق تھا۔ خاتون افسر فائل لیے اس کے کمرے میں آئی۔ ضروری بات کی اور اٹھنے لگی تو صاحب نے کہا کہ بیٹھیں! چائے پیتے ہیں۔ خاتون نے شکریہ ادا کر کے معذرت کی۔ صاحب نے اصرار کیا۔ خاتون نے بتایا کہ خواتین کا چائے کا الگ بندو بست ہے اور یہ کہ وہ چائے وہیں پیتی ہے۔ خاتون اُٹھ کھڑی ہوئی۔ صاحب بٹھانے، گپ مارنے اور چائے پلانے پر تُلا ہوا تھا۔ اس نے بازو سے پکڑ کر بٹھانے کی کوشش کی۔ عینی شاہدبتاتا ہے کہ اس کے بعد نہ جانے کیا ہوا۔ جو کچھ بھی ہوا ، برق رفتاری سے ہوا اور صاحب فرش پر چت پڑا ہوا تھا۔ اس لیے کہ خاتون مارشل آرٹ کی ماہر تھی۔اس نے یونیورسٹی سے کراٹے کی بلیک بیلٹ حاصل کی ہوئی تھی۔
چھ دن پہلے ایک ہوٹل کی انتظامیہ نے پولیس کو اطلاع دی کہ ان کے پاس ایک غیر ملکی خاتون قیام پذیر ہے جس کے ویزے کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ پولیس اسے پکڑ کر اُس تھانے میں لے آئی جو خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ عورت روسی تھی اور مارشل آرٹ کی ماہر۔ روزنامہ دنیا کی رپورٹ کے مطابق اس نے خاتون اے ایس آئی کی درگت بنا دی اور دوسرے اہلکاروں کو بھی مار مار کر ان کا برا حال کر دیا۔ جو کچھ بھی اس غیر ملکی خاتون نے کیا غلط تھا اور غیر قانونی‘ مگر نکتہ یہاں سمجھنے کا یہ ہے کہ ہماری تو پولیس کی اے ایس آئی بھی اس سے پِٹ گئی تو ایک عام لڑکی کسی مرد غنڈے کا کیا مقابلہ کرے گی ؟
ہماری لڑکیاں ، ہماری عورتیں، سخت غیر محفوظ ہیں۔ مرد انہیں چھیڑتے ہیں۔ آوازے کستے ہیں۔ سکول کالج سے نکلتی ہیں تو ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ راہ چلتی لڑکیوں کو روک کر انہیں موٹر سائیکل پر بیٹھنے کی پیشکش کی جاتی ہے تو کبھی کار میں سوار ہونے کے لیے کہا جاتا ہے۔ شہروں کی خوشحال آبادیوں کے سوا پورے ملک میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر پرانی وضع کے محلوں ، قصبوں اور شہروں کے قدیم، گنجان آباد حصوں میں۔ جو لڑکیاں بِن باپ کے ہیں یا جن کے سروں پر بھائی کا یا کسی مرد کا سایہ نہیں ، انہیں اکثرو بیشتر ہراساں کیا جاتا ہے۔اس مکروہ سرگرمی کے لیے باقاعدہ پلاننگ کی جاتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کی مائیں بھی بے بس ہوتی ہیں اور صبر کرنے اور صبر کی تلقین کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتیں! ایک تو بے بسی اور بے کسی،اوپر سے بدنامی کا خوف! اس بدنامی کے خوف سے قانون کی مدد لینے سے ہچکچاتی ہیں! ہراساں کی جانے والی خواتین میں سے بہت کم ، انتہائی کم، خواتین پولیس میں رپورٹ درج کراتی ہیں۔
اس صورت حال کا سبب کیا ہے اور علاج کیا ہے ؟ المیہ یہ ہے کہ ہم نے لڑکیوں کو چھوئی موئی بنا کر رکھ دیا۔ ہم نے عورت کے لیے ''صنف نازک‘‘ کی اصطلاح وضع کی اور پھر اس عورت کو بے دست و پا کر دیا۔ بازار جائے تو بھائی ساتھ ہو۔ کالج جائے تو باپ چھوڑنے جائے۔ کوئی بد معاش آوازہ کسے یا تعاقب کرے تو واحد دفاع یہ ہے کہ وہ سر جھکا لے، چلنے کی رفتار تیز کر دے، گھر میں داخل ہو کر دروازہ بند کرے، پھر بند دروازے سے پیٹھ لگا کر، دل پر ہاتھ رکھ کر، ایک لمبا سانس لے ! اور اس کے بعد جب بھی باہر نکلنا ہو، خوف سے کانپنے لگ جائے ! ڈراموں میں بھی یہی دکھایا جا رہا ہے کہ بد قماش مرد بند کمرے میں عورت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عورت خوف زدہ ہو کر، اپنے آپ کو پچھلی دیوار کی طرف گھسیٹتی ہے۔اس پر حملہ نہیں کرتی۔ پردہ، شرم و حیا، چادر، چار دیواری، حجاب، عفت و شرافت، سب بجا! سب لازم ! مگر ان میں سے کوئی چیز بھی لڑکی کو اپنا دفاع کرنے سے منع نہیں کرتی! قرنِ اول میں خواتین گھڑ سواری کرتی تھیں۔ تیر اندازی اور شمشیر زنی سیکھتی تھیں۔ضرورت پڑتی تو خیمے کی میخ سے دشمن مرد کو قتل بھی کر دیتیں۔عورت کو نزاکت اور خود ترحّمی کے اُس حصار سے نکالنا ہو گاجسے اس کے گرد قائم کر دیا گیا ہے۔ اسے اپنا دفاع کرنا سیکھنا ہو گا۔ ہر خاتون کو اس خاتون کی طرح ہونا چاہیے جس نے بزور بٹھانے والے کو چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ کوئی اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو جائے تو لڑکی کو اس کے دانت توڑ دینے چاہئیں۔ سبزی بیچنے والا بد معاشی کرے تو ایک کِک اس کے پیٹ میں پڑنی چاہیے۔ کوئی اوباش موٹر سائیکل روک کر بیٹھنے کے لیے کہے تو اسے موٹر سائیکل سمیت زمین پر گرا دینا چاہیے۔ یہاں قانون بے لاگ نہیں۔ یہاں پولیس قابل اعتبار نہیں۔ یہاں معاشرہ تماشا دیکھنے کا عادی ہے، آگے بڑھ کر ظالم کا ہاتھ نہیں روکتا۔ عورت کب تک آسرے ڈھونڈے گی؟ کب تک ذلیل ہو گی ؟ جن کے گھروں میں مرد نہیں وہ کب تک تکیوں میں سر دے کر آنسو بہائیں گی ؟
ہر سکول ، ہر کالج، ہر یونیورسٹی میں لڑکیوں کے لیے جوڈو کراٹے کی تربیت کا انتظام کرنا ہو گا۔ اسے سیلف ڈیفنس سکھانا ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس تربیت کو لازم کرے۔ ماں باپ عقل سے کام لیں اور اس تربیت کی مخالفت کرنے کے بجائے اس کا باقاعدہ مطالبہ کریں۔ سرکاری اداروں میں یہ بند و بست سرکار کرے اور نجی شعبے میں صرف اُس تعلیمی ادارے کو کام کرنے کی اجازت دی جائے جو اس تربیت کا کما حقہ انتظام کرے
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Thursday, April 14, 2022

۔میں نے عمران خان کی حمایت کیوں چھوڑی؟۔( ۲ )


آگے بڑھنے سے پہلے دو وضاحتیں۔ عمران خان پر تنقید کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ تنقید کرنے والا زرداری یا مولانا یا شریف برادران کا حامی ہے۔ یہ ایک بے تکی بات ہے۔ ارے بھائی! ہم نے ان حضرات سے جان چھڑانے کے لیے ہی تو عمران خان کا ساتھ دیا تھا۔ دوسرے یہ کہ کالم کے عنوان سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ کالم نگار اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے‘ اور اس زعم میں ہے کہ اس نے حمایت چھوڑی تو عمران خان یا اس کی پارٹی یا حکومت کو نقصان ہوا۔ نہیں! ایسا ہرگز نہیں! ہم تو ان بے بضاعت افراد میں سے ہیں جو کسی مجلس میں موجود ہوں تو ان کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اور اگر نہ ہوں تو ان کی عدم موجودگی کو کوئی نوٹ نہیں کرتا۔ ہماری حمایت سے خان صاحب کو کیا فائدہ ہونا تھا‘ اور حمایت ترک کرنے سے ان کا کیا بگڑنا تھا۔ یہ کالم اس لیے لکھنا پڑا کہ جو قارئین سالہا سال سے کالم نگار کو پڑھ رہے ہیں، وہ پوچھتے ہیں کہ مایوسی کی وجوہ کیا ہیں۔
یہ عمران خان صاحب کی مخالفت ہے نہ ان پر تنقید۔ یہ تو امیدوں اور خوابوں کا نوحہ ہے۔ کابینہ بنی تو تبدیلی کا منہ چڑا رہی تھی۔ وہی عمر ایوب، وہی فہمیدہ مرزا، وہی شیخ صاحب، وہی فردوس عاشق اعوان‘ وہی زبیدہ جلال، وہی سومرو صاحب‘ وہی سواتی صاحب‘ وہی سرور خان‘ وہی عشرت حسین‘ وہی رزاق داؤد‘ وہی حفیظ شیخ‘ وہی الیکٹ ایبلز! ڈاکٹر عشرت حسین کو سول سروس اصلاحات کا چارج دیا گیا۔ یہ صاحب جنرل مشرف کے عہد میں بھی یہی چورن بیچ چکے تھے۔ تبخیرِ معدہ کی شکایت کو تب بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا۔ خان صاحب نے پھر اسی سوراخ سے ڈسے جانے کا اعلان کیا تو میڈیا نے شور مچایا مگر شنوائی نہ ہوئی۔ اڑھائی تین سال کے بعد عشرت صاحب چلے گئے۔ آج تک معلوم نہیں ہوا کہ کون سی اصلاحات ہوئیں!
جو ان کے بقول سب سے بڑا ڈاکو تھا، اسے صوبے کے دوسرے بڑے منصب پر فائز کیا گیا تو امیدوں کا محل سارے کا سارا دھڑام سے نیچے آ رہا۔ ایک اینکر نے جب اس کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ اسے چھوڑیں آگے چلیں۔ نیب میں معاملات تو ان صاحبان کے بھی اٹکے ہوئے تھے۔ یہ وہ مکھی ہے جسے نگلنا نا ممکن تھا۔ آپ جنہیں خود چور اور ڈاکو کہتے ہیں اور کہتے رہے ہیں‘ ان میں سے ایک کو پکڑتے ہیں، دوسرے کو تخت پر بٹھا دیتے ہیں۔ کیوں؟ جواب ملتا ہے کہ حکومت تو بنانی تھی۔ مطلب یہ ہوا کہ مقصد محض حکومت کا حصول تھا۔ آج خان صاحب کہتے ہیں کہ غلطی ہوئی‘ اتحادیوں کو ساتھ ملانا پڑا۔ اُس وقت بچے بچے کو معلوم تھا کہ غلط ہو رہا ہے۔
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
جو بقول ان کے چپڑاسی بننے کے قابل نہ تھا اسے پہلے اہم پھر اہم ترین وزارت سونپی گئی! تبدیلی کے گال پر اس سے زیادہ زناٹے دار تھپڑ نہیں پڑ سکتا! بائیس سال کی جدوجہد! اس کا ثمر شیخ صاحب اور چوہدری صاحب! اللہ اللہ! شخصیت پرستی اس المیے کو ہضم کر سکتی ہے‘ مگر جو نظریات کی بنیاد پر ساتھ تھے وہ کیسے سمجھوتہ کرتے اور کیا تاویل کرتے؟
وعدہ تھا کہ کابینہ سترہ افراد پر مشتمل ہو گی۔ نیک بخت پچاس سے تجاوز کر گئی۔ دوست نوازی خوب خوب ہوئی۔ کوئی لندن سے آیا اور اسے سیاحت کا قلم دان سونپا گیا۔ کوئی عرب سے آیا اور بہت بڑی کارپوریشن اس کے حوالے کر دی گئی۔ ہر منتخب وزیر کے ساتھ ایک غیر منتخب مشیر فکس کیا گیا۔ مشیروں پر الزام لگے تو ہٹائے گئے مگر کسی کی تفتیش ہوئی نہ کسی کو سزا دی گئی۔ دوائیوں کا سکینڈل آج تک انصاف کا انتظار کر رہا ہے۔ چینی کا سکینڈل سب کے علم میں ہے۔
بیوروکریسی میں وہی کچھ ہوتا رہا جو ہوتا آیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں ایک شاندار منصب خالی ہوا۔ اسلام آباد میں ایک صاحب کو ایک سال پہلے ریٹائر کیا گیا۔ پھر اس منصب پر فائز کیا گیا۔ یہ سارا کام ایک ہی دن میں ہوا۔ سول ایوی ایشن کی سربراہی کے لیے اشتہار دیا گیا۔ چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ شارٹ لسٹ کئے گئے اٹھارہ نے انٹرویو دیا۔ تعیناتی ایک گورنر صاحب کے سیکرٹری کی ہوئی جو امیدوار تھے نہ ہی ان کا انٹرویو ہوا تھا۔ پریس میں سب کچھ چھپا۔ کیا ایکشن ہوا؟ یہ میرٹ کی صرف چند مثالیں ہیں۔
خان صاحب وزیر اعظم بننے کے بعد بھی جیسے اپوزیشن ہی میں رہے۔ شاید ہی کوئی تقریر، بیان یا انٹرویو ہو جس میں شریف برادران کا نام نہ لیا ہو۔ یہاں تک کہ لوگ سوچنے لگے کہ معاملہ ذاتی رنجش کا لگتا ہے۔ ترین صاحب سمیت بیسیوں پاکستانیوں کی برطانیہ میں جائیدادیں ہیں۔ شریف برادران سمیت ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے تھا۔ پیسہ شریف برادران سے ایک بھی نہ وصول ہوا۔ زبانی مذمت اس تواتر کے ساتھ کی گئی کہ رد عمل کے طور پر لوگوں کے دلوں میں ان کی ہمدردیاں پیدا ہونے لگیں۔ چاہیے یہ تھا کہ متعلقہ ادارے کرپٹ افراد کا تعاقب کرتے! سخت اور مسلسل تعاقب! قید کرتے! سزا دیتے! مگر وزیر اعظم خود ان کا نام ہی نہ لیتے۔ انہیں در خور اعتنا ہی نہ گردانتے۔ ان کی سطح پر نہ اترتے۔
اس عرصے میں کیا خارجہ پالیسی خود مختار تھی؟ اردوان اور مہاتیر کے ساتھ مل کر جو بلاک بننا تھا‘ اس کا انجام سب کے سامنے ہے۔ ایک طاقت کے کہنے پر ملائیشیا نہ گئے۔ پھر اس طاقت کا نام بھی بتا دیا۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے خود کشی کا دعویٰ تو چھوڑ ہی دیجیے۔ آئی ایم ایف کے سکہ بند ملازم کو سٹیٹ بینک کا گورنر بنانا کتنا بڑا ظلم ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا۔ اس گورنر کی تنخواہ اور مراعات دل دہلا دینے والی ہیں۔ امریکی انتخابات کے بعد رحمان ملک نے الزام لگایا تھا کہ پاکستانی سفارت خانہ ٹرمپ کے الیکشن آفس کے طور پر استعمال ہوا۔ یہ خبر معاصر اخبارات میں چھپی۔ اس کی تردید کی گئی نہ تفتیش۔ اس پر کارروائی ہونی چاہیے تھی تا کہ معاملہ شفاف ہو کر سامنے آتا۔
خان صاحب کی حکومت میں یقینا اچھے کام بھی ہوئے ( ان کا ذکر الگ کالم میں کیا جائے گا انشا اللہ ) تاہم جو امیدیں تبدیلی کی تھیں وہ بر نہ آئیں۔ کاش کوئی انہیں سمجھائے کہ مغرب کو اور ہندوستان کو ان سے بہتر جاننے اور سمجھنے والے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ضرور ہوں گے۔ پیغمبرِ خدا تو کفار سے بھی بات کر لیتے تھے۔ اپنے ملک کی اپوزیشن سے بات تک نہ کرنا اور ہاتھ نہ ملانا کہاں کی جہانبانی(statesmanship) ہے جب کہ عین اسی قبیل کے دوسرے لوگوں کو آپ اعلیٰ مناصب بھی دے رہے ہوں۔ کتنی بڑی ٹریجڈی ہوئی کہ جسٹس وجیہ الدین اور تسنیم نورانی جیسے متین افراد منظر سے ہٹا دیے گئے اور جو لوگ پیش منظر پر چھائے ان کے طرز تکلم پر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے رہے۔
اگر مشیتِ ایزدی خان صاحب کو دوبارہ موقع دے تو کاش مشیت انہیں تبدیل بھی کر دے۔ غصہ اور بلا کی منتقم مزاجی ان میں نہ رہے۔ استکبار ختم ہو جائے۔ ایسی ٹیم چنیں جس پر وہ بھی فخر کریں اور قوم بھی۔ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ پر عمل کریں۔ کاش ان میں تھوڑا سا انکسار بھی پیدا ہو جائے۔ اللہ اور اس کے حبیب کو عاجزی پسند ہے نہ یہ کہ منہ پر ہاتھ پھیر کر کہنا کہ چھوڑوں گا نہیں۔ (ختم)

بشکریہ روزنامہ دنیا 

Tuesday, April 12, 2022

میں نے عمران خان کی حمایت کیوں چھوڑی ؟


یہ کالم نگار عمران خان صاحب کا سخت حمایتی تھا۔ یہ حمایت 2013ء سے لے کر ان کے حکومت میں آنے کے بعد‘ چند ماہ تک‘ شد و مد سے جاری رہی۔ سالہا سال کالم ان کی حمایت میں لکھے۔2017ء میں مارچ سے لے کر نومبر تک ایک ٹیلی وژن چینل میں ایک مستقل پروگرام میں شریک رہا جو ہفتے میں پانچ دن ہوتا تھا۔ دنیا نیوز کے موجودہ اسلام آباد بیورو چیف عزیزم خاور گھمن بھی اس پروگرام میں مستقل طور پر ساتھ تھے۔تیسرے صاحب عارف نظامی مرحوم تھے۔ ایک دن میں اسی چینل میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیٹر تشریف لائے۔ ہنس کر فرمانے لگے ''آپ تو ہمیں کُند چھری سے ذبح کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ ایک اور چینل میں مسلم لیگ کے ایک معروف رہنما نے کالم نگار کے حوالے سے کہا کہ ''اسے کیوں بلا لیتے ہیں ؟ وہ تو ہمارے خلاف بہت ہارڈ لائن لیتا ہے‘‘۔
یہ کالم نگار عمران خان کا شدید حامی کیوں تھا ؟ کرکٹ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ آج تک کوئی میچ نہیں دیکھا۔ ذاتی ملاقات بھی نہیں! صرف ایک بار قریب سے انہیں دیکھا۔ یہ ان کے حکومت میں آنے سے پہلے کی بات ہے۔ اسلام آباد پریس کلب میں ایک کھانا تھا جس میں خان صاحب نے شرکت کرنا تھی۔ جناب ہارون الرشید کے حکم پر وہاں گیا اور پہلی بار خان صاحب کو دیکھا۔ کرکٹ سے واقفیت نہ ذاتی تعلق! تو پھر ان کی حمایت کیوں کی؟اس لیے کہ میں بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح پی پی پی اور (ن) لیگ کے باریاں لینے سے تنگ آچکا تھا۔میں بھی میرٹ کے قتل سے پریشان تھا۔ میں بھی چاہتا تھا کہ دوست نوازی ( کرونی ازم ) کا خاتمہ ہو ! میں بھی چاہتا تھا کہ پارٹیاں بدلنے والے موقع پرستوں سے جان چھوٹے۔ میں بھی چاہتا تھا کہ قرضے معاف کرانے والے مگرمچھوں سے قرضے واپس لیے جائیں۔ میں بھی چاہتا تھا کہ کوئی ایسا حکمران ہو جو مغربی حکمرانوں کی طرح عام لوگوں کے مانند دفتر میں آئے۔ چلو‘ سائیکل پر نہ آئے‘ بس سے نہ آئے مگر ایک عام‘ مڈل کلاس والی گاڑی میں‘ بہت ہی مختصر سکیورٹی کے ساتھ آئے اور جائے! میں بھی چاہتا تھا کہ پولیس کی تعیناتیوں میں اور پولیس کے پیشہ ورانہ کام میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہو۔میں بھی چاہتا تھا کہ تھانے اور کچہری میں رشوت کا ناسور ختم ہو جائے۔میں بھی چاہتا تھا کہ میرے ملک میں‘ مغربی ملکوں کی طرح‘ رُول آف لاء ہو۔میں بھی چاہتا تھا کہ اس بے حد جذباتی قوم کو‘ جس کی اکثریت کلام پاک تو کیا‘ پانچ وقت پڑھی جانے والی نماز کے معانی سے بھی ناواقف ہے‘ مذہب کے نام پر مزید استعمال نہ کیا جائے!میں بھی چاہتا تھا کہ برطانیہ کی طرح ہمارا وزیراعظم بھی پارلیمان میں موجود ہوا کرے اور فیصلے پارلیمان کے ذریعے ہوا کریں۔ میاں نواز شریف کے خلاف میرے اعتراضات میں سے ایک بڑا اعتراض یہ بھی تھا کہ وہ پارلیمان نہ آ کر پارلیمان کی بے توقیری کے مرتکب ہوتے تھے۔ میں بھی چاہتا تھا کہ ہمارے ملک میں بھی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ایک مختصر سی کابینہ ہو جو اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہو اور جو مفادات کے ٹکراؤ (Conflict of Interests) کا باعث نہ بنیں ! پی پی پی اور (ن) لیگ کی حکومتوں میں کابینہ پچاس سے زیادہ وزرا پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔
عمران خان نے ان سب برائیوں کا نام لے لے کر وعدہ کیا کہ انہیں دور کریں گے۔ ایک بار نہیں‘ بارہا وعدہ کیا۔ یہ تھیں اُن وجوہ میں سے چند جن کی بنا پر میں نے بھی لاکھوں لوگوں کی طرح عمران خان سے امیدیں باندھیں! جب لوگ ان کے خلاف بات کرتے تھے تو میری سب سے بڑی دلیل عمران خان کے حق میں یہ ہوتی تھی کہ سب کو آزما لیا۔ خان صاحب کو بھی آزماؤ۔ کیا عجب یہ سچے ہوں اور ہمارے ملک کی تقدیر ان کی بدولت بدل جائے۔ جب انہوں نے ایک سیاست دان کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا تو دل نے ان کی بہادری کی تعریف کی۔ جب ایک اور سیاست دان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ اسے چپڑاسی بھی نہ لگائیں تو دل میں عمران خان کی قدر و منزلت بڑھی! اسی قسم کے تو طالع آزما تھے جن سے ہم اورہمارے جیسے لوگ تنگ تھے۔ عمران خان ان گرگٹوں سے نجات دلا دیں تو اور کیا چاہیے ! چنانچہ دل و جان سے ان کی حمایت کی۔ ٹی وی پر! کالموں میں! مباحثوں میں۔ ملک کے اندر اور باہر‘ احباب اور اعزّہ و اقربا کے حلقوں میں۔چنانچہ پینتیس برسوں میں پہلی بار ووٹ ڈالنے گھر سے نکلا اور تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دیا۔
پہلا دھچکا اُس وقت لگا جب وزیر اعظم نے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ لگایا۔ آج تک تحریک انصاف کا کوئی رکن یا ہمدرد ایسا نہیں ملا جس نے اس تعیناتی کا دفاع کیا ہو۔ اس تعیناتی نے ہوش اڑا کر رکھ دیے۔ حیرت سے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ عثمان بزدار اور بارہ کروڑ کا صوبہ ! جلد ہی اوپن سیکرٹ ہو گیا کہ عمران خان بزدار کو بالکل نہیں جانتے تھے۔ تجسس ہوا کہ آخر بزدار کو کس نے متعارف کرایا؟ جلد ہی لوگوں کو معلوم ہو گیا مگر واضح ثبوت کوئی نہیں تھا۔ آج ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ پیشکش کس کی تھی۔ دوسرا جھٹکا جو پہلے سے بھی زیادہ شدید تھا اس وقت لگا جب پاکپتن پولیس کے سربراہ کو وزیراعلیٰ کے گھر ( یا دفتر) طلب کیا گیا۔وزیر اعلیٰ خاموش رہے اور پولیس افسر کی کلاس ایک اور صاحب نے لی جو وہاں موجود تھے اور جن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا۔ اس بات کا اتنا چرچا ہوا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ وزیر اعظم کو معلوم نہ ہوا ہو! مگر انہوں نے کوئی ایکشن نہ لیا۔ اس پولیس افسر کے ساتھ اس کے بعد جو سلوک ہوا وہ عمران خان صاحب کی حکومت کے '' عدل و انصاف‘‘ کی ایسی جھلک تھی جو پوری قوم نے دیکھی۔ یہ گویا فلم کا ٹریلر تھا۔ اس سے اندازِ حکمرانی واضح ہو رہا تھا۔ ایک تو بزدار جیسے شخص کی تعیناتی‘ پھر اس کی باگ بھی کسی اور کے ہاتھ میں !
تیسرا جھٹکا ناصر درانی مرحوم کے چلے جانے سے لگا۔ خان صاحب نے ایک تقریر میں پوری قوم کو یہ خوشخبری دی تھی کہ پنجاب میں ناصر درانی کو لگایا جا رہا ہے تا کہ پولیس کا روایتی کلچر بدل جائے۔ ناصر درانی آئے اور ایک ہفتہ کے بعد چارج چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے آنے کی خبر خان صاحب نے قوم کو خود دی تھی تو ان کے جانے کی اطلاع بھی دینی چاہیے تھی۔ سبب بھی بتانا چاہیے تھا۔ آج تک قوم کا یہ قرض ان کے ذمہ واجب الادا ہے۔ پنجاب میں ان کے زمانے میں بدترین سیاسی مداخلت جاری رہی۔ پنجاب پولیس کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق عہدِ بزدار میں پنجاب پولیس کے چھ سربراہ آئے اور گئے۔ موجودہ سربراہ ساتویں ہیں! خان صاحب گورننس کے حوالے سے مغرب کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ کیا مغربی ملکوں میں ایک پولیس چیف کااوسط عرصۂ تعیناتی سوا چھ ماہ ہو تا ہے ؟ لازم تھا کہ اپنے وعدے کی رُو سے وہ پولیس کے سربراہ کو اپنے دائرہ کار میں مکمل آزادی دیتے اور پھر ایک معقول عرصہ کے بعد اس کا کڑا احتساب کرتے ! وفاق میں بھی اور پنجاب میں بھی ! مگر افسوس ! صد افسوس ایسا نہ ہوا! ( جاری )

Monday, April 11, 2022

دھاندلی

ہم چار دوست تھے جن میں سے دو اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور ہم دو ‘تا دمِ تحریر‘ اپنی سفید داڑھیوں اور گنجے سروں کے ساتھ ‘ زندہ ہیں۔ ہم میں سے دو شہر میں رہتے تھے اور دو گاؤں میں۔ جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوتیں اور سکول کالج دو اڑھائی مہینوں کے لیے بند ہو جاتے تو ہم میں سے وہ دو بھی ‘ جو شہر میں رہتے تھے‘ گاؤں آجاتے۔ یہ دو اڑھائی ماہ ہمارے لیے پکنک کی طرح ہوتے۔ صبح سے لے کر شام ڈھلے تک ‘ پورا دن کھیل کود میں گزرتا۔ دو پہر کو دھوپ تیز ہوتی تو کمروں میں یا گھنے درختوں کی چھاؤں میںبیٹھ کر چار کانیاں کھیلتے۔ صبح شام ‘ دور ‘ کھیتوں‘ ڈھوکوں ‘ گوٹھوں میں نکل جاتے۔ گھڑ سواری ہوتی۔مویشیوں کو پانی پلانے لے جاتے۔ تالابوں میں تیرتے۔مگر اصل مزا گلی ڈنڈا کھیلنے میں تھا۔گاؤں کے جنوب میں‘ کھیتوں کے پار‘ ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر ایک میدان تھا۔ کبھی ہم وہاں میچ کھیلتے۔ اس سے آگے پہاڑ تھا۔ پہاڑ کے اوپر ایک اور میدان تھا جو پہلے میدان سے وسیع تر تھا۔ کبھی وہاں کا رُخ کرتے۔ پہاڑ کے اوپر واقع میدان میں کھیل کر ہمیں زیادہ خوشی حاصل ہوتی۔ ایک تو اونچائی کی وجہ سے وہاں ہر وقت ہوا چلتی رہتی۔دوسرے‘ پہاڑ کے ایک طرف دیکھتے تو نیچے نشیب میں ہمارا اپنا گاؤں نظر آتا۔ دوسری طرف دیکھتے تو دوسرے گاؤں دکھائی دیتے۔ یہ نظارے ہمیں بہت محبوب تھے۔ اس وقت موبائل تھا نہ موبائل کے کیمرے۔ عام کیمرہ بھی ہم میں سے کسی کے پاس نہ تھا۔ورنہ آج اُن ہوشربا مناظر کی تصویریں ہمارے پاس ہو تیں اور ہم یہ تصویریں اپنے بچوں اور پوتوں کو دکھاتے۔ دونوں میدان وسیع تھے۔ گْلّی کو جتنے زور سے مارا جاتا‘ میدان کی فراخی اسے خوشدلی سے قبول کرتی۔کھیلتے کھیلتے شام ہو جاتی۔ سورج غروب ہونے کے بعد‘ شفق کی لالی کے سائے میں ہم پہاڑ سے اترتے اور گاؤں واپس آتے۔ یہی وقت تھا جب چرواہے بھی واپس آرہے ہوتے۔ جانوروں کے گلوں میں لٹکتی گھنٹیوں کی آوازیں شفق کو اور بھی دلکش کرتیں۔ ہر ریوڑ کے ساتھ ایک کتاہو تا۔ چرواہوں کے سروں پر ایندھن کے گٹھے ہوتے یا بیری کی درختوں سے کٹی ہوئی ٹہنیاں جو بکریوں کا مرغوب کھانا تھا۔ اسے لاہنگی کہا جاتا۔
یہ دن‘ جس کی بات کی جا رہی ہے‘عام دنوں سے تھوڑا سا مختلف تھا۔ اس دن صبح سے بادل چھائے ہوئے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بوندا باندی ہو رہی تھی۔ ہماری خوش قسمتی کہ یہ بوندا باندی بارش میں تبدیل نہیں ہو رہی تھی۔ گلی ڈنڈا کھیلنے کے لیے یہ ایک مثالی دن تھا۔جیسے ہی سہ پہر ہوئی ‘ ہم نے میدان کی راہ لی۔ ہم میں سے ایک کے پاس تازہ ترشی ہوئی گلّیاں بھی تھیں۔ڈنڈے بھی ایک نہیں دو تھے۔ جاتے ہی کھیل شروع ہو گیا۔ ہم میں سے دو ایک طرف تھے اور دو دوسری طرف۔ ہوا چل رہی تھی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ‘ جس ٹیم کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا‘ اس نے گْلّی پر ضربیں لگانا تھیں۔ دوسری ٹیم نے گْلّی کو کیچ کرنا تھا یا جہاں گلی جا کر گرے وہاں سے نشانہ باندھ کر گْلّی کو اس طرح پھینکنا تھا کہ وہ ڈنڈے کو مَس کرے۔ دوسری ٹیم کے لیے یہ خوشگوار دن خاصا غیر خوشگوار ثابت ہوا۔ ایسی ایسی ضربیں لگائی گئیں کہ گْلّی دو دو فرلانگ دور جا کر گرتی۔ ٹیم کے ارکان بھی صرف دو تھے۔ زیادہ ہوتے تو فیلڈنگ بہتر ہو تی اور کیچ ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے۔مگر ایسا نہ تھا۔ ٹیم کے دونوں ارکان کا بھاگ بھاگ کر بُرا حال ہو رہا تھا۔ کبھی میدان کے دائیں کنارے کبھی بائیں کنارے۔ پسینہ سروں سے ایڑیوں تک بہہ رہا تھا۔ گْلّی کیچ ہو رہی تھی نہ ڈنڈے پر لگ رہی تھی۔ پاس ہی کسانوں کا ایک ڈیرہ تھا۔ دونوں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہاں جا کر پانی پیتے اور پھر گْلّی کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے۔خدا خدا کر کے گْلّی ‘ کھد ی ہوئی ناند کے قریب گری۔ فیلڈنگ والے نے گْلّی تاک کر ماری جو ٹھَک کر کے ڈنڈے پر لگی۔ ہانپتے کھلاڑیوں کی جان میں جان آئی۔ اب باریاں بدلنی تھیں۔تاہم یہ طے ہوا کہ کسانوں کے ڈیرے پر جا کر پانی یا لسی پی جائے ‘ اور وقفے کے بعد کھیل دوبارہ شروع کیا جائے۔
عصر کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ دوسری ٹیم نے گْلّی ناند پر رکھی۔ ڈنڈا ہاتھ میں پکڑا۔مگر یہ کیا ؟ دوسری ٹیم کے دونوں ارکان جنہوں نے گْلّی کو کیچ کرنا تھا‘ سامنے کھڑے ہونے کے بجائے‘ آرام سے ‘ ایک طرف بیٹھے تھے۔ ان سے کہا گیا کہ آکر باری دیں مگر دونوں بیٹھے رہے۔ کہنے لگے: آج رہنے دیں ‘ باقی کھیل کل ہو گا۔ پہلے تو فریقِ اوّل کو یقین ہی نہ آیا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ پھر انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ دوگھنٹے انہیں بھگایا جاتا رہا۔ وہ پوری ثابت قدمی سے کھیلتے رہے۔ اور اب جب ان کا باری لینے کا وقت آیا تو دوسری ٹیم کھیلنے سے انکار کر رہی ہے! تکرار شروع ہو گئی۔ جھگڑا بڑھنے لگا۔ آوازیں اونچی ہوئیں تو ڈیرے سے کسان بھی آگئے اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے ؟ جب انہیں ساری صورت حال کا علم ہوا تو انہوں نے برملا کہا کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ کھیل جاری رہنا چاہیے۔ جن کی فیلڈنگ کی باری ہے انہیں کھیلنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ مگر نہ کھیلنے کا فیصلہ کرنے والے اپنی بات پر اڑے رہے۔ انکار کرنے والوں میں سے ایک کی چادر ساتھ ہی سبزے پر رکھی تھی۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔ دوسری ٹیم کا ایک رکن کسانوں کے ڈیرے سے ماچس لے آیا اور آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ چادر کو آگ لگا دی۔ مگر انہوں نے نہیں کھیلنا تھا‘ نہ کھیلے۔
دادا جان کے سامنے تو بات کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ متاثرہ فریق نے دادی جان کے پاس جا کر فریاد کی۔ دوسرے فریق نے نذر آتش کی گئی چادر کے بچے کھچے حصے دکھائے۔ دادی جان بھی اپنی ذات میں اعلیٰ عدلیہ کی طرح تھیں۔ انہوں نے پہلی رولنگ یہ دی کہ کھیل سے انکار کرنے والے اور اپنی باری لے کر دوسرے کی باری نہ دینے والے غلطی پر ہیں۔ ایسا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔ دوسرے دن کھیل وہیں سے شروع ہو گا جہاں اُس دن ختم ہوا تھا۔ رہا چادر کا جلانا تو اسے بھی انہوں نے زیادتی قرار دیا۔
کیا کھیل سے انکار کرنے والے دوسرے دن کھیلے ؟ کیا انہوں نے دادی جان کا فیصلہ تسلیم کیا؟ یہ بتانا ضروری نہیں ! یہ بتانا بھی لازم نہیں کہ کالم نگار کس ٹیم میں تھا؟ کھیلنے سے انکار کرنے والی ٹیم میں یا چادر کو نذر آتش کرنے والی ٹیم میں ؟ ضروری بات یہ ہے کہ ہم بچے تھے۔ بچے دھاندلی کرتے ہیں۔ کھیل میں روند مارتے ہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ! انوکھی بات اُس وقت ہوتی ہے جب بڑے دھاندلی پر اتر آئیں! جب بڑے روند مارنے پر آجائیں۔ اور جب بچے انہیں دھاندلی کرتے دیکھیں تو ہنس کر ان کا مذاق اڑائیں ! ایک آئین کھیل کا ہوتا ہے۔ اسے توڑا جائے تو کھیلنا ممکن نہیں رہتا۔ ایک آئین ملک کا ہوتا ہے۔ اسے توڑا جائے تو ملک چلانا نا ممکن ہو جاتا ہے۔بچے ہوں یا بڑے‘ آئین کو سامنے رکھ کر چلیں تو راستہ آسان ہو گا۔ کھیل ہو یا سیاست‘ کوئی ہار جائے تو اسے ہار مان لینی چاہیے! ہار نہ ماننے والے کو بالآخر میدان سے نکال دیا جاتا ہے !
بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, April 07, 2022

کاش یہ ایک کام نہ کیا ہوتا

بس ایک کام غلط ہوا‘ اور اس ایک غلط کام نے ہر کام کو غلط کر دیا۔
یہ پاکستان ہے۔ یہ جنوبی ایشیا ہے۔ یہاں آپ نے وہی کچھ کرنا تھا جو آپ کے پیش رو کرتے آئے ہیں۔ یہاں ریاستِ مدینہ کا سہارا نہیں لینا چاہیے تھا۔ یہاں صادق اور امین ہونے کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر کوئی اور آپ کو صادق اور امین کہہ رہا تھا تو آپ منع کر دیتے۔ یہ دعویٰ تو خلفائے راشدین نے بھی نہیں کیا تھا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ صادق اور امین ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد آپ کچھ بھی کرتے رہیں گے اور آسمانوں سے کچھ نہیں برسے گا؟ آپ ریاستِ مدینہ کے نام پر ہر وہ کام کریں گے جو آپ کے پیش رو کرتے رہے اور پردۂ غیب سے کچھ نہیں برآمد ہو گا؟ بس یہیں آپ مار کھا گئے۔
یہ آپ کے ساتھی، جو دس دس سال آپ کے ساتھ رہے، آج سب کچھ اگل رہے ہیں، یہ پردۂ غیب ہے جو آہستہ آہستہ اُٹھ رہا ہے۔ ابھی بہت کچھ ظاہر ہو گا۔ قدرت سب کچھ معاف کر دیتی ہے مگر اپنے محبوب رسولﷺ کے نام پر کی ہوئی دنیا داری کبھی نہیں معاف کرتی۔ آپ بھول گئے کہ ریاستِ مدینہ کا والی کئی سال تک کون رہا؟
ادب گاہیست زیر آسمان از عرش نازُک تر
نفس گُم کردہ می آید جنید و با یزید اینجا
ریاست مدینہ کے والی کے تو مٹھی میں ستارے تھے اور جسم کھردری چٹائی پر۔ بڑے بڑے صحابہ اور عظیم الشان اولیا اس بارگاہ میں سانس لینا بھی بھول جاتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے زمانے میں بہترین سواری ترکی گھوڑا تھا جیسے آج کل بہترین سواری ہیلی کاپٹر ہے۔ خود تو کیا، امیرالمومنین عمر فاروقؓ نے گورنروں کو بھی ترکی گھوڑے کے استعمال سے منع کر دیا تھا۔ آپ چار سال سے ہیلی کاپٹر پر آ جا رہے ہیں۔ ضرور آتے جاتے۔ مگر ریاست مدینہ؟ امیرالمومنین سیدنا علی مرتضیٰؓ عید کے دن جَو کی باسی روٹی تناول فرما رہے تھے۔ کن ہاتھوں سے؟ جن ہاتھوں سے خیبر کا دروازہ توڑا! اسی لیے اقبال نے قاعدہ کلّیہ پیش کر دیا:
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری
ریاست مدینہ کے والی سیدنا علی مرتضیٰؓ کا کیا رویّہ تھا؟ مشہور روایت ہے جو ہم سب نے بارہا سنی ہے۔ دشمن کو پچھاڑ دیا۔ شاید جنابؓ اس کی گردن مار دیتے۔ اُس بدبخت نے روئے مبارک پر تھوک دیا۔ آپؓ نے چھوڑ دیا۔ فرمایا: پہلے اللہ کے لیے دشمنی تھی‘ اب ذاتی ہو گئی ہے اس لیے چھوڑ دیا (مفہوم)۔ یہاں تو اتنا انتقام لیا گیا کہ منتقم مزاجی ضرب المثل بن گئی۔ اپنے ساتھیوں سے بھی تعلقات بگڑے تو انتقام لیا گیا۔
ریاستِ مدینہ کا نام لینا آسان ہے۔ اس کے تقاضے نبھانا آسان نہیں۔ اس میں خواہشوں کو کچلنا پڑتا ہے۔ نفس کو مارنا پڑتا ہے۔ ریاستِ مدینہ کے کسی حکمران نے، آقائے دو جہانﷺ سے لے کر سیدنا علیؓ اور امام حسنؓ تک، کسی نے کسی مخالف کا نام نہیں بگاڑا۔ یہاں نام اس قدر بگاڑے گئے کہ اپنے اتحادی چودھری شجاعت حسین سے لے کر مفتی تقی عثمانی تک کوئی خاموش نہ رہ سکا۔ ایک سیاست دانوں میں قابل احترام! دوسرا علما میں قابل احترام! دونوں نے سورہ حجرات کی طرف توجہ دلائی۔ (مفہوم) آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو‘ اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔ ریاستِ مدینہ کا نام لے کر آپ نے اپنے سر ایک بہت بڑی ذمہ داری لے لی۔ آپ کے مخالف بد عنوان سہی، بُرے سہی، وہ ضرور اپنا حساب دیں گے‘ مگر آپ کو اپنا حساب دینے کے علاوہ یہ بھی بتانا ہو گا کہ ریاستِ مدینہ کا نام لے کر اس کے تقاضے کیوں نہ پورے کیے؟ بلکہ ہر وہ کام کیوں کیا جو، ریاستِ مدینہ کے اعتبار سے، نہیں کرنا چاہیے تھا؟ آپ نے ریاستِ مدینہ کو کیا سمجھ رکھا تھا؟ اقبال نے اسی لیے تو سمجھایا تھا:
چو می گویم مسلمانم، بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الہ را
کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے خوف سے کانپنے لگتا ہوں کیونکہ مجھے اس راستے کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ تو کیا آپ ریاستِ مدینہ کے راستے کی مشکلات سے آگاہ نہیں تھے؟ آپ سب سے بڑے صوبے کا سربراہ جسے چاہتے لگاتے۔ آپ حکمران اعلیٰ تھے‘ با اختیار تھے‘ مگر آپ ریاستِ مدینہ کی زنجیر، جان بوجھ کر، اپنے پَیروں میں نہ ڈالتے۔ تحریکِ انصاف کا شاید ہی کوئی رکن یا کوئی ہمدرد ایسا ہو جس نے اس تعیناتی کو پسند کیا ہو یا اس کا دفاع کیا ہو۔ کاش کوئی بے غرض بندہ آپ کے ساتھ ہوتا اور بتاتا کہ ریاستِ مدینہ میں تعیناتی کا اصول کیا تھا؟ بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچاؤ۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کریں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے۔ آگے چل کر مفتی صاحب لکھتے ہیں: ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی اور تعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کیے ہوئے دے دیا‘ اس پر اللہ کی لعنت ہے‘ نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل‘ یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے۔ بعض روایات میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لیے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی۔ اور رسول کی اور سب مسلمانوں کی۔ (معارف القرآن جلد دوم۔ تاریخ طباعت اکتوبر 1983)
ٹھنڈا مزاج رکھنے والے ندیم افضل چن نے الیکٹرانک میڈیا پر کہا کہ جناب وزیر اعظم کی عموماً خواہش ہوتی تھی کہ وزیر اعلیٰ کی تعریف کی جائے۔ نہیں معلوم یہ تعیناتی کس کی خواہش تھی یا کس کا مشورہ تھا! مگر جس کا بھی تھا، کل عدالتِ خداوندی میں جواب ایک ہی شخص کو دینا پڑے گا!
ریاستِ مدینہ میں تصور بھی نہیں تھا کہ پہلے کسی کو سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا جائے یا یہ کہا جائے کہ فلاں چپڑاسی ہونے کے لائق بھی نہیں اور پھر انہیں اعلیٰ ترین مناصب پر فائز کر دیا جائے۔ ایسا کرنا، پھر ہر روز، ہر تقریر میں، ہر بیان میں، ریاستِ مدینہ کا نام لینا، اس کا حوالہ دینا، بہت بڑی جسارت تھی۔ بازی بازی، با ریشِ بابا ہم بازی! گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں! یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ دنیا کا نہیں، جناب عالی! جہاں پناہ! یہ آخرت کا معاملہ ہے!
مذہب دو دھاری تلوار ہے! کاش یہ دو دھاری تلوار آپ کے ہاتھ میں نہ ہوتی! آپ سکینڈے نیویا، کینیڈا، آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ کی فلاحی ریاستوں کو اپنا آئیڈیل قرار دے دیتے۔ آپ کچھ بھی کر لیتے، اقتدار کے لیے مذہب کو نہ استعمال کرتے! یا پھر ایسے افراد کا بورڈ بناتے جو ریاستِ مدینہ کے حوالے سے آپ کو 
Dos and don'ts 
سے آگاہ کرتے۔ شخصی فیصلے اور ریاستِ مدینہ!! خدا آپ پر رحم کرے اور اس جسارت کے انجام سے بچائے۔ ہم تو خیر خواہ ہیں۔ دعا ہی کر سکتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, April 05, 2022

امریکہ کے تو بھاگ جاگ اُٹھے !!


اٹھانوے سالہ ہنری کسنجر نے دوا کھائی۔ پانی پیا۔ بیوی کو کافی کے لیے کہا اور ایک بار پھر گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔
ہنری کسنجر ایک چٹان تھا۔ ایک پہاڑ تھا۔ امریکہ کے خارجہ امور کو وہ سالہا سال چلاتا رہا۔ خارجہ پالیسی تعمیر کرتا رہا۔ پوری دنیا کے امور پر اس کی نظر تھی۔ ان امور کو وہ امریکی عینک سے دیکھتا۔ سوچتا۔ ماہرین سے بحث کرتا۔ پھر اپنی رائے بناتا۔ اس کی رائے کو نہ صرف امریکہ میں بلکہ پوری دنیامیں اہمیت دی جاتی۔ اس پر مضامین لکھے جاتے۔ اسے تحقیقاتی مقالوں اور کتابوں کا موضوع بنایا جاتا۔ کئی کتابوں کا مصنف تھا۔ سب سے بڑا کارنامہ اس کا چین کے حوالے سے تھا۔ چین اور امریکہ کے تعلقات صفر کی سطح پر تھے۔ کسنجر نے خفیہ طور پر چین کا دورہ کیا اور چواین لائی سے ملاقات کی۔1972ء میں جو میٹنگ صدر نکسن‘ ماؤزے تنگ اور چو این لائی میں ہوئی اور جس کے بعد امریکہ اور چین کے درمیان معاشی اور ثقافتی تعلقات قائم ہوئے وہ کسنجر ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ مشرق وسطیٰ کے تمام معاملات کسنجر ہی طے کرتا تھا۔ اسرائیل‘ مصر‘ سعودی عرب‘ سب ملکوں کے سربراہوں اور وزرائے خارجہ سے کسنجر ہی مذاکرات کرتا تھا۔
بہت سی کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود اٹھانوے سالہ کسنجر مطمئن نہیں تھا۔ اس نے پورے امریکہ کو غور سے دیکھا۔ پھر یورپ پر نظر دوڑائی۔اسے کہیں کوئی جوہرِ قابل نہ دکھائی دیا۔ وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھا جو اس کے بعد امریکہ کی دانشورانہ اور عقلی قیادت سنبھالے۔ خارجہ امور کا ماہر ہو۔ تحریر و تقریر پر کمال کی دسترس رکھتا ہو۔ دنیا کے سیاسی حالات پر گہری نظر ہو۔اس کی اپنی زندگی کا چراغ ٹمٹما رہا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اپنے جیتے جی یہ اہم کام کسی کو سونپ دے اور پھر اطمینان سے زندگی کا سفر ختم کر سکے۔
سب سے پہلے اس نے اپنا جانشین یونیورسٹیوں میں ڈھونڈا۔ ضعفِ پیری کے باوجود وہ ہاورڈ یونیورسٹی پہنچا۔ کئی دن وہاں رہ کر پروفیسروں سے تبادلۂ خیالات کیا۔ ہر ایک کا جائزہ لیا۔ مگر کوئی اس کے معیار تک نہ پہنچ سکا۔ پھر جان ہاپکنز یونیورسٹی گیا۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کو چھان مارا۔ پھر اوقیانوس کو پار کیا اور آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں میں گوہرِ مقصود ڈھونڈتا رہا۔ فرانس اور جرمنی گیا مگر ہر جگہ اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی کی بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر تھی مگر تقریر کرتے ہوئے متاثر نہیں کر سکتا تھا۔ کوئی گفتار کا غازی تھا لیکن دریائے علم کے بس کناروں کو چھو پایا تھا! کوئی لاطینی امریکہ کے امور کا ماہر تھا مگر چین اور جاپان کے ضمن میں حقائق پر عبور نہ رکھتا تھا۔امریکہ کی دانشورانہ قیادت کا صرف وہ اہل تھا جو پوری دنیا کی سیاست سے واقف ہو۔ ترکی اور یونان کی باہمی مخاصمت کے پس منظر سے آگاہ ہو۔ مشرقِ بعید کے عربوں اور یہودیوں کی رگ رگ سے آگاہ ہو۔یورپ کا ماضی جانتا ہو اور مستقبل کی پیش گوئی کر سکتا ہو۔ خاص طور پر اس امر کا خیال رکھے کہ برطانیہ ایک بار پھر دنیا پر نہ چھا جائے۔ جنوبی ایشیا کے جھگڑے نمٹا سکتا ہو۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ کی بیسیوں ریاستوں کے لامتناہی مسائل کا ادراک رکھتا ہو۔
کسنجر دن بدن کمزور ہو رہا تھا۔ ہاتھوں میں رعشہ آگیا تھا۔ یادداشت مدہم پڑتی جا رہی تھی۔اسے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے۔ ہر امریکی صدر اس سے اسی موضوع پر بات کرتا اور تشویش کا اظہار کرتا کہ کسنجر کے بعد امریکہ کی رہنمائی کون کرے گا۔کانگرس کے ارکان جب بھی ملتے تو یہی بات پوچھتے۔ وہ کبھی کبھی بڑی حسرت اور فکرمندی سے اپنی بیوی ‘ نینسی‘ سے اس بات کا تذکرہ کرتا۔ وہ بھی پریشان ہو جاتی۔
کسنجر پروفیسر بھی رہا تھا۔اس کے شاگرد پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔ کچھ یونیورسٹیوں میں کام کر رہے تھے۔ کچھ مختلف ملکوں کی حکومتوں میں بڑے بڑے اونچے مناصب پر فائز تھے۔ ان سب کو معلوم تھا کہ کسنجر اپنے جانشین کی تلاش میں ہے۔وہ بھی اسی فکر میں تھے کہ ان کے محترم استاد کو اس تلاش میں کامیابی نصیب ہو۔ ایک شاگرد کسنجر کا جاپان کی اوساکا یونیورسٹی میں پروفیسر تھا اور مختلف حکومتوں کی ‘ کنسلٹنٹ کے طور پر ‘ مدد بھی کیا کرتا تھا۔ سری لنکا اور جنوبی ایشیا کے کچھ دوسرے ملکوں میں اس کا بہت آنا جانا تھا۔ پورے خطے کی صورت حال سے ہر وقت باخبر رہتا تھا۔ یہ بہار کی ایک شام تھی۔ ہوا میں مارچ کا اعتدال تھا۔ کسنجر گھر کے صحن میں نینسی کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اس کا پسندیدہ ‘ پالتو کتا اس کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ نینسی نے فون اٹھایا۔ پھر کسنجر کی طرف بڑھا دیا۔ ''کون ہے ؟ ‘‘۔ کسنجر نے پوچھا۔ ''وہی تمہارا جاپانی شاگرد! خبطی پروفیسر جو کنسلٹنٹ بھی ہے‘‘۔ کسنجر مسکرایا۔ جاپانی پروفیسر فون پر طویل گفتگو کرتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ نینسی کو زیادہ پسند نہیں تھا۔ معمول کی ہیلو ہائے کے بعد وہ کسنجر سے کہنے لگا کہ سر ! آپ کا کام ‘ یوں لگتا ہے ‘ ہونے والا ہے! کسنجر نے تفصیلات پوچھیں تو جاپانی شاگرد نے اطلاع دی کہ ایک جینئس کا پتا چلا ہے۔ اس میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جن کی آپ کو تلاش ہے۔ صحیح معنوں میں عبقری ہے۔ تمام نقلی اور عقلی علوم کا ماہر! تقریر کرے تو مخاطب کے دل میں جگہ بنا لے۔ لکھنے پر آئے تو قلم اس کا وہ جولانیاں دکھائے کہ بڑے بڑے جغادری ادیب اور ماہرینِ منطق اَش اَش کر اٹھیں۔ کسنجر کے چہرے پر امید کی دلکش رنگت پھیل گئی۔ اس نے اس جینئس سے ملنے کے لیے بیقراری کا اظہار کیا۔ جاپانی پروفیسر نے تجویز پیش کی کہ اس جینئس کو اس کے اپنے ملک میں نہ ہی ملیں تو بہتر ہے۔ اس وقت بہت سی حکومتیں اسے اپنے ہاں آنے اور کام کرنے کی دعوت دے رہی ہیں۔آپ اس کے ملک میں جا کر اس سے ملاقات کریں گے تو دنیا میں شور برپا ہو جائے گا؛ چنانچہ طے ہوا کہ اسے اوساکا بلایا جائے جہاں کسنجر اس سے ملاقات کرے۔
اٹھانوے سال کی عمر میں کسنجر کے لیے جاپان کا سفر آسان نہ تھا۔ نیویارک سے وہ لاس اینجلس آیا۔ ایک دن آرام کیا۔ پھر ہوائی پہنچا۔ سفر کے آخری حصے نے اسے اوساکا پہنچایا۔مطلوبہ صاحبِ کمال شخص بھی پہنچ چکا تھا اور ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔ کسنجر ملاقات کرنے وہیں گیا۔ یہ شخص واقعی جینئس تھا۔ کسنجر جو موضوع چھیڑتا ‘ وہ اس پر حیران کن فصاحت کے ساتھ معلومات کے دریا بہا دیتا۔ کسنجر نے پوچھا کہ امریکہ کی دنیا پر گرفت کمزور پڑ رہی ہے! اسے کیسے پھر سے مضبوط کیا جائے؟ اس نے ایک پورا منصوبہ وہیں بیٹھے بیٹھے بتا دیا‘ کسنجر بہت متاثر ہوا۔ اس نے وہیں سے امریکی صدر کو اور کانگرس کے اُن ارکان کو جو اس کے دوست تھے‘ خوشخبری دی۔ جینئس کو بہت بڑے گھر کی پیشکش ہوئی۔ تنخواہ لاکھوں ڈالروں میں تھی‘ ایک جیٹ جہاز ہر وقت اس کی دستبرد میں رکھا گیا تا کہ ''شٹل ڈپلومیسی‘‘ میں اسے دقت نہ پیش آئے۔ آخر میں بر سبیل تذکرہ کسنجر نے پوچھا کہ جناب اس سے پہلے کس منصب پر فائز تھے۔ اس نے جواب دیا کہ اس کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا اور چند ہفتے پہلے تک ایک بہت بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ تھا۔

Monday, April 04, 2022

رمضان سر آنکھوں پر!!


حمد و ثنا اور لاکھوں کروڑوں درود و سلام کے بعد، ملک کے مختلف حصوں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں رہنے والے قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ پروردگارِ عالم کا بے پناہ احسان ہے جس نے ہمیں ایک بار پھر رمضان کے مقدس مہینے کو دیکھنے اور اس کا استقبال کرنے کا موقع بخشا۔ گزشتہ رمضان میں بہت سے احباب اور اعزّہ موجود تھے جو آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ دنیا کی یہی بے ثباتی ہے جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔
میں اپنے قارئین پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ رمضان المبارک کے مقدس ایام کے ساتھ میرا سلوک نہایت ادب و احترام والا ہو گا۔ میں ہر روزے کو جھک کر اور سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کروں گا۔ رمضان کی راتیں بہت قیمتی ہیں۔ پوری کوشش ہو گی کہ یہ راتیں عبادت میں اور تلاوت میں اور تفکر میں گزاری جائیں۔ جیسا کہ حکم دیا گیا ہے، کا ئنات کے وجود پر اور رات دن کے آنے جانے پر اور چاند سورج کے طلوع و غروب پر خوب غور کرنا چاہیے۔ قارئین کو یہ یقین دلانا بھی از حد لازم ہے کہ میں عبادات کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھوں گا۔ پانچ نمازیں با جماعت ادا کرنے کا ارادہ بفضلہٖ تعالیٰ بہت پختہ ہے۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد مسجد ہی میں بیٹھ کر اشراق کا انتظار ہو گا۔ اس کے بعد چاشت کی نماز ادا کی جائے گی اور پھر گھر کو روانگی ہو گی۔ عشا کے ساتھ تراویح کی نماز نہ پڑھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہی تو رمضان کی وہ خاص نماز ہے جو دوسرے مہینوں میں میسر نہیں ہوتی۔ یہ گنہگار پوری کوشش کرے گا اور ارادہ بھی پکّا ہے کہ رات کے پچھلے پہر تہجد کی نماز ادا کرے اور اس کے بعد وطن عزیز کی سلامتی اور مسلمانانِ عالم کی فلاح کے لیے گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرے۔ ہر روز تلاوتِ کلام پاک اور چھ تسبیحات پڑھنے کا بھی پروگرام ہے۔ عزم صمیم یہ بھی ہے کہ مسجد میں جب تراویح کے حوالے سے ختم کلام پاک ہو تو مٹھائی کے لیے مسجد کمیٹی کو مبلغ پانچ ہزار روپے چندہ دوں۔ امام صاحب کو ایک اعلیٰ کوالٹی کا شلوار قمیص سوٹ پیش کرنے کا بھی پلان ہے۔ ان سب عبادات میں اور انفاق فی سبیل اللہ میں حاشا و کلّا کسی ریا کاری یا نمود و نمائش کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ ہاں دوسرے لوگوں کو ترغیب دینے کی خاطر اگر میرے پانچ ہزار روپے کے چندے کا اور امام صاحب کو سوٹ دینے کا ذکر خطیب صاحب جمعہ کے خطبے میں کر دیں تو چنداں مضائقہ نہ ہو گا۔ اگر یہ بھی کہہ دیں کہ میں نماز با جماعت اور نماز تہجد پابندی سے ادا کرتا رہا تو یقینا اس کا مثبت اثر اُن لوگوں پر ضرور پڑے گا جو عبادات سے غافل ہیں۔ اگر میری وجہ سے ان میں نماز کا شوق پیدا ہو جائے تو اس عاصی اور ننگِ اسلاف کے لیے باعث ثواب و برکت ہو گا۔
ایک سچے اور کھرے پاکستانی کی طرح بات صاف کرتا ہوں اور کسی ابہام یا شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک عبادات کا تعلق ہے، جان بھی حاضر ہے۔ اگر روزے کے دوران بھوک پیاس سے یہ جانِ ناتواں اس ناکارہ جسم کو چھوڑ بھی جائے تو غم نہیں۔ مگر معاملات کا مسئلہ ذرا پیچیدہ ہے۔ انسان بنیادی طور پر کمزور ہے۔ اس لیے معاملات کے ضمن میں مجھ سے کوئی خاص توقع نہ رکھی جائے۔ بہت سے افراد خاندان کے اور چند احباب بھی مجھ سے نالاں ہیں اور تعلقات منقطع ہیں۔ صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر اس حکم پر رمضان کے دوران عمل کیا جائے تو کیا ہی بات ہے‘ مگر میرے لیے یہ کام بہت مشکل ہے۔ میری انا اجازت نہیں دیتی کہ ان کے پاس جا کر اپنی غلطی کی معذرت کروں۔ ہاں اس کے عوض ایک سو رکعات نفل پڑھنے کے لیے تیار ہوں۔ اس لیے کہ اس میں انا کی قربانی نہیں دینا پڑتی۔ تجارت کا جو ہمارا انداز ہے اس میں بھی تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ جعلی ادویات، ملاوٹ والا آٹا، مضرِ صحت گھی اور دیگر نا خالص اشیائے خور و نوش کی فروخت تجارتی مجبوری ہے۔ پچھلے سال مکئی کا آٹا بیسن میں مکس کرنے سے منافع کثیر ہوا۔ اس سال بھی یہی کرنا ہو گا۔ ماہِ مقدس میں اگر مال میں اضافہ کر لیا جائے تو برکت کا باعث ہو گا۔ پلاؤ اور زردے کی دیگیں مدرسے میں بھیج کر اس گناہ کی تلافی کروں گا۔ یہ جو ملازم گھر پر کام کرتا ہے اس کے دونوں بچے بیمار ہیں۔ علاج کے لیے مدد مانگ رہا تھا۔ صاف کہہ دیا کہ میاں! کام کی تنخواہ لیتے ہو اب اور مدد کاہے کی! پورے بیس ہزار ہر ماہ دیتا ہوں۔ ان میں سے اگر تیس چالیس ہزار سرجری پر نہیں لگا سکتا تو اس میں میرا قصور تو نہیں۔ یوں بھی بیماری اور صحت قدرت کی طرف سے ہے۔ کتنی بار سمجھایا ہے کہ داتا صاحب جا کر دیگ کا نذرانہ پیش کرو۔ مگر گھروں میں کام کرنے والے ان ملازموں کے دماغ میں بھوسہ بھرا ہوتا ہے۔ ڈھنگ کی بات ان کے پلّے پڑتی ہی نہیں۔
بڑا بیٹا سرکاری دفتر میں ملازم ہے۔ دس بجے تک تو گھر ہی بیٹھا رہتا ہے۔ جن لوگوں کے کام کی فائلیں اس نے اوپر بڑے افسروں کو بھیجنا ہوتی ہیں وہ لوگ شام کو گھر پر آتے ہیں اور معاملات طے کرتے ہیں۔ یہ دفتری امور ہیں۔ میں ان میں دخل نہیں دیتا؛ تاہم اس بیٹے کو میں نماز روزے کی تلقین کرتا رہتا ہوں۔ اسے کچھ وظائف بھی بتائے ہیں جو وہ پابندی سے پڑھتا ہے۔ ایک شریف آدمی اپنی فائل نکلوانے کے لیے ایک بہت بڑا جدید ٹیکنالوجی والا ٹیلی ویژن سیٹ اسے دے گیا۔ سعادت مند اتنا ہے کہ اسے میرے کمرے میں رکھوا دیا۔ میں مذہبی پروگرام اب اسی نئے ٹی وی پر دیکھتا ہوں اور صاحبزادے کی ترقی کے لیے دعائیں کرتا ہوں۔
اس عید پر بیوی بچوں کو نئی گاڑی کا تحفہ دینا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے پرانی گاڑی فروخت کرنا پڑی۔ ایک لاکھ کلومیٹر سے زیادہ چل چکی تھی۔ ایک ماہر اور قابلِ اعتبار، خرانٹ، مستری نے میٹر کو پیچھے کر دیا گویا صرف پچاس ہزار کلومیٹر چلی ہے۔ گاہک ذرا بے وقوف سا تھا۔ اسے نہیں بتایا کہ گاڑی کے ساتھ حادثہ ہوا تھا جس کے بعد ٹھیک کرائی تھی۔ مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ شے بیچتے وقت نقص نہ بتانا سخت گناہ ہے۔ میں نے کہا کہ مولوی صاحب! آپ کا کام ہے نماز پڑھانا اور بچوں کو کلام پاک ناظرہ پڑھانا۔ ہمارا کام ہے کاروبار کرنا اور دنیا کے معاملات چلانا! ہم آپ کے کام میں دخل نہیں دیتے۔ بہتر ہے آپ ہمارے کام میں دخل نہ دیجیے۔ مولوی صاحب استغفراللہ کہتے ہوئے اپنے حجرے میں چلے گئے۔ بے چارے دنیا کی پیچیدگیاں کیا جانیں اور کیا سمجھیں! نئی گاڑی آئی تو ختم قرآنِ پاک کرایا اور مدرسے میں کھانا بھجوایا۔ گاڑیوں پر ٹیکس بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ کوشش کی کہ کچھ دے دلا کر ٹیکس کم کراؤں مگر بے وقوف کارندہ حلال حرام کے چکر میں پڑا ہوا تھا۔
میں نے آپ حضرات سے کوئی بات نہیں چھپائی۔ میرا ضمیر مطمئن ہے۔ سب دوستوں کی خدمت میں درخواست ہے کہ میرے لیے دعا کریں۔ اللہ کرے میری با جماعت نمازیں، میری اشراق اور چاشت، میری تہجد، میری تلاوت، میری تسبیحات، میری خیرات اس ماہِ مقدّس کے صدقے قبول ہوں! معاف کیجیے گا! اذان ہو رہی ہے۔ مجھے مسجد پہنچنا ہے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا 
 

powered by worldwanders.com