Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 29, 2011

مجیب الرحمان شامی کے اعترافات

تیس بتیس سال کے اس نوجوان کو دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ ہزاروں دوسرے لڑکوں کی طرح یہ بھی چودہ یا سولہ جماعتیں پاس کرکے کہیں ملازمت کر رہا ہوگا۔لیکن ایسا نہیں، اجمل شاہ دین نے اس بالی عمر یا میں بنکاری پر دنیا کا دوسرا اور پاکستان کا پہلا روزنامہ جاری کیا ہے۔اس انگریزی اخبار کا مالک تو وہ ہے ہی، ایڈیٹر بھی خودہے۔ پاکستانی صحافت میں پہلا
Syndicate
 (سنڈی کیٹ) بھی اسی نے شروع کیا اور کالم نگاروں کو کاپی رائٹ حقوق میسر آئے۔

اپنے مرحوم سسر مظفر محمد علی کی کتاب ” پاکستانی صحافت کے رازدان صحافی“ شائع کرکے اب اس نے ایک اور کارنامہ سرانجام دیا ہے۔مظفر محمد علی، خدا اُن کے درجات بلند کرے اور ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے۔ انٹرویو لینے کا ہنر جانتے تھے اور جس کا انٹرویو لیتے تھے، اُس کے اندر سے سب کچھ نکال لیتے تھے۔اس کتاب میں اثر چوہان، سعید آسی، حامد منیر سلیم بخاری، مجیب الرحمان شامی اور حسن نثار جیسے صفِ اول کے صحافیوں کے انٹرویو ہیں لیکن انہیں انٹرویوکہنا ایک سرسری بات ہے سچ تو یہ ہے کہ راز ہائے درونِ میخانہ پر مشتمل یہ کتاب پاکستان کی تاریخ ہے اور اس میں وہ تاریخ ہے جو تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملے گی۔اس میں انکشافات بھی ہیں اور اعترافات بھی اور کچھ تو بہت ہی دلچسپ ہیں۔اس کتاب میں کچھ صحافیوں نے اپنے معروف خیالات سے رجوع بھی کیا ہے اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کیاہے۔ مجیب الرحمن شامی کا انٹرویو اس لحاظ سے بہت نمایاں ہے ہم سب جانتے ہیں کہ شامی صاحب صحافیوں کی اُس تکون کا ایک اہم ضلع تھے جو فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے ساتھ مکمل طورپر وابستہ تھی۔اس پس منظر میں جب وہ اپنی کسی رائے سے رجوع کرتے ہیں تو اس کی ایک خاص اہمیت ہے۔مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں۔ ” جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو کئی چیزیں ایسی ہیں مثلاً بھٹو صاحب کی پھانسی جو ہے میں آج اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ انہیں پھانسی نہیں ملنی چاہئے تھی اس لئے کہ اس کے کچھ اچھے اثرات مرتب نہیں ہوئے۔میں یہ نہیں کہتا کہ مقدمہ غلط تھا لیکن اس میں ان کو سزا دینے کیلئے بہت سے معاملات ایسے کیے گئے تھے جواب سامنے آرہے ہیں وہ ہمارے ہاں کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی گئی“۔2007ءسے پہلے لیے گئے اس انٹرویو میں مظفر محمد علی جب پوچھتے ہیں کہ نواز شریف اور بے نظیر میں سے کون بہتر ہے تو مجیب الرحمن شامی جواب دیتے ہیں ”آج میرے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ بینظیرکو میں ترجیح دوں یا نواز شریف کو میں ترجیح دوں“۔ مشرقی پاکستان میں جو فوجی ایکشن ہوا تھا اور جس میں بڑے بڑے دانش وروں کو قتل کردیا گیا تھا جن میں پروفیسر جی سی دیوجیسے غیر سیاسی اور پاکستان دوست عالم بھی شامل تھے۔ ایک خاص طبقہ اس ایکشن کا بڑا سرگرم اور پُرجوش حمایتی رہا۔ یہ طبقہ  وہی ہے جسے فوجی آمریت بھی راس آتی ہے۔مجیب الرحمن شامی بھی اسی طبقے کے ایک ممتاز فرد ہیں۔لیکن انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کی ہے۔” میں سمجھتا ہوں کہ جب مشرقی پاکستان پر ملٹری ایکشن ہوا تھا اور اس وقت وہاں جو تحریک چل رہی تھی صوبائی خود مختاری کی اور شیخ مجیب الرحمن کا جو نکتہ نظر تھا میں اسی کا کماحقہ ادراک نہیں کرسکا.... میں نے اس وقت جس نکتہ نظر کا اظہارکیا تھا مجھے آج خیال آتا ہے اگر آج کی طرح میرا شعور ڈی ویلپ ہوچکا ہوتا تو میں یقینا وہ رویہ نہ اپناتا۔میں آج محسوس کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے مسئلے کو ہم نے سمجھا ہی نہیں“۔

مجیب الرحمن شامی جنرل ضیاءالحق پر حیرت انگیز حد تک اثر رکھتے تھے۔بلا شبہ وہ آمریت کے اس دور میں بادشاہ گر کی حیثیت رکھتے تھے۔ان کی اپنی زبانی سنیئے۔ ”جنرل ضیاءالحق سے میری بہت دفعہ ملاقات ہوئی۔کئی چیزیں ایسی ہیں جو میری کوششوں سے ہوئیں۔بہت سے معاملات ہیں کہاں تفصیلات میں جائیں بہرحال میں مختصراً بات کرتا ہوں جاوید ہاشمی کیلئے وزارت میں میری کوشش کا سو فیصد دخل تھا۔اس کے بعد جاتے جاتے مصطفی صادق صاحب وزیر بنے اس میں بھی میر ی کوشش کا بڑا دخل تھا“۔ آگے چل کر کہتے ہیں.... ” میری کوشش تھی کہ مصطفی صادق صاحب وزیراور حسین حقانی وزیر مملکت برائے اطلاعات بن جائیں....پھر جب ضیاءالحق صاحب سے مصطفی صادق کی بات ہوئی ہم تین آدمی گئے تھے الطاف حسین قریشی صاحب مصطفی صادق صاحب اورمیں.... جونیجو کی حکومت ختم ہوچکی تھی اور انہوں نے کابینہ بنالی تھی میں نے کہا کہ آپ نے کیا وزیر بھرتی کرلیے ہیں سارے کے سارے پرانے“۔ (بے تکلفی ملاحظہ ہو!)

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجیب الرحمن شامی، مصطفی صادق صاحب کو وزیر بنانے کیلئے اتنے سرگرم کیوں تھے، کیا نظریاتی بنیادوں پر؟ حیرت ہے کہ مصطفی صادق ذوالفقار بھٹو کے بہت نزدیک تھے اس قربت کا ذکر خود مصطفی صادق ان الفاظ میں کرتے ہیں ” اُس دور میں بھٹو صاحب کے ساتھ میری کچھ ایسی بے تکلفی ہوچکی تھی کہ میں ان سے ہنسی مذاق کے انداز میں ایسی بات بھی کرلیتا تھا جو انہیں ناگوار گذر سکتی تھی“ ایک اور جگہ مصطفی صادق بھٹو صاحب کے بارے میں کہتے ہیں ” چائے کا دور چل چکا تو میں نے پھر مداخلت کی اور بصد ادب یہ گذارش کی کہ کاش آپ ناراض ہونے کے بجائے مجھ سے کوئی خدمت لیتے“ شامی صاحب قوم کو یہ بتانا بھول گئے کہ وہ مصطفی صادق صاحب کو نظریاتی بنیادوں پر وزیر بنوا رہے تھے یا ذاتی تعلقات کی وجہ سے؟

جنرل ضیاءالحق کی آمریت کا ایک بڑا شہکار غیر جماعتی انتخابات تھے۔حقیقت یہ ہے کہ ان غیر جماعتی انتخابات سے ٹوڈیوں اور موقع پرستوں کی ایک پوری فصل کاشت کی گج تک قوم کاٹ رہی ہے۔مجیب الرحمن شامی  اعتراف کرتے ہیں کہ اس گناہ میں ان کا بہت بڑا عمل دخل تھا، کہتے ہیں ” اس کے علاوہ کئی فیصلے ایسے تھے جن پر میں اثر انداز ہوا جیسے غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد میں یہ تو نہیں کہتا کہ میں نے بنیادی کردارادا کیا لیکن اس میں اہم کردارادا کیا“۔ اس کی مزیدو ضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ” اب میں یہ نہیں کہتا کہ یہ فیصلہ میں نے کرایا لیکن ابھی تک وہ (یعنی جنرل ضیا)گومگو کی کیفیت میں تھے ان کی خواہش تھی کہ غیر جماعتی انتخابات کرائے جائیں اور کوشش تھی کہ انہیں اس کی سپورٹ مل جائے۔ میرے ساتھ ان کی گفتگو نے انہیں ایک کلیریٹی دے دی اور وہ اس راستے پر چل پڑے“۔

افغان جہاد کے بارے میں بھی مجیب الرحمن شامی ایک دلچسپ نکتہ نکالتے ہیں۔ اس جہاد کے بارے میں ایک نکتہء نظریہ ہے کہ یہ امریکہ کی جنگ تھی۔شامی صاحب اس نکتہ نظر سے براہِ راست تو اتفاق نہیں کرتے لیکن بالواسطہ بتاتے ہیں کہ کس طرح یہ جہاد امریکہ کو بہت محبوب تھا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے سیاق و سباق میں وہ کہتے ہیں ”دوسرے زاویے سے آپ دیکھیں تو یہ ( ایٹمی پروگرام) جہادِ افغانستان کا پاکستان کو بہت بڑا تحفہ ہے۔اگر سوویت فوجیں وہا ں نہ آتیں اور پاکستان ان کے خلاف امریکہ کی مد د نہ کرتا تو امریکہ پاکستان سے صرفِ نظر نہیں کرسکتا تھا کہ وہ یہ کام کرے۔اب ایسی کتابیں یا ایسی چیزیں سامنے آرہی ہیں جن سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے یہ رپورٹیں دے رہے تھے لیکن انہوں نے صرفِ نظر کیا کہ پاکستان کو اگر اس وقت ڈی سٹیبلائز کیاجائے گا یا جنرل ضیاءالحق کو چھیڑا جائے گا تو افغان جنگ متاثر ہوجائے گی“۔ 

” پاکستانی سیاست کے رازدان صحافی“ میں شامل تقریباً تمام انٹرویو ہی چونکانے والے ہیں۔ کتاب کا انتساب نثار عثمانی اور مجید نظامی کے نام ہے۔(جاری ہے)












Tuesday, March 22, 2011

تم اگر خودکشی نہ کرتیں تو کیا کرتیں؟

تم ایک علامت ہو

تم صدیوں کی غلامی کی علامت ہو

تم علامت ہو اس حقیقت کی کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کے سوا کچھ  نہیں ہو سکتی

تم اگر خودکشی نہ کرتیں تو کیا کرتیں؟

تمہارے ہم وطنوں کے پاس کوئی ایسی فوج نہیں تھی جو امریکہ پر حملہ کر سکتی‘انکے پاس ایئر کرافٹ کیریر تھے‘ نہ ڈرون‘ ڈیزی کٹر بم تھے‘ نہ کیمیائی ہتھیار۔

یہ سب تو دور کی باتیں ہیں‘ تمہارے ہم وطنوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں‘ کھاد سے لے کر چینی تک‘ گندم سے لے کر دودھ تک‘ دواﺅں سے لے کر ہر قسم کی مشینری تک‘ کار سے لے کر ریفریجریٹر تک‘ جہاز سے لے کر آبدوز تک‘ ہر شے کیلئے وہ دوسروں کے دست نگر ہیں‘ جو قوم کبھی ڈالروں کیلئے جھولی پھیلاتی ہے اور کبھی یورو کیلئے‘ وہ تمہارے لئے کیا کر سکتی تھی! اچھا ہوا تم نے خودکشی کرلی۔

تم اگر خودکشی نہ کرتیں اور زندہ رہتیں تو یقین کرو تم ایسے ایسے دکھ اٹھاتیں کہ تمہارے چاہنے والے تمہیں دیکھ کر انگاروں پر لوٹتے‘ تم اس قوم کی بیٹی ہو جس کے رہنماءچھینک اور زکام کیلئے انگریزوں کے وطن میں جاتے ہیں‘ انکے کارخانے‘ انکے محلات‘ انکی اولاد‘ سب کچھ انہی گوروں کے پاس ہے‘ جن کے ظلم اور دھاندلی کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے تم نے اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لے لی۔ تم نے اچھا کیا‘ تمہارے رہنماءجن کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں‘ ان سے وہ تمہارے شوہر کے خون کا بدلہ کس طرح لیتے؟

آج جو لوگ تمہاری خون آلود قمیضکا پرچم‘ شاہراہوں پر لہرا کر ہڑتالوں اور جلوسوں میں مصروف ہیں‘ یہ وہی لوگ ہیں جو اس قوم کو ہر وعظ‘ ہر نصیحت کرتے ہیں‘ سوائے ایک بات کے کہ علوم و فنون میں ترقی کرو‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھو تاکہ تم بھی ڈرون کے مقابلے میں ڈرون اڑا سکو‘ تمہارے پاس بھی ہوائی جہازوں سے بھرے ہوئے بحری بیڑے ہوں اور تم بھی خلا میں تیرتے سیاروں سے امریکیوں کی ایک ایک نقل و حرکت کو دیکھ سکو اور ریکارڈ کر سکو۔

جہاں تم ہماری بے بسی‘ ضعف‘ پسماندگی اور شکست کی علامت ہو‘ وہاں ریمنڈ ڈیوس ایک قوم کی برتری‘ طاقت اور ترقی کی علامت ہے‘ یہ برتری‘ یہ طاقت کئی صدیوں کی محنت شاقہ کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ ریمنڈ ڈیوس اس حقیقت کی علامت ہے کہ جو قوم رات دن محنت کرے‘ اپنے ہاں انصاف کا نظام قائم کرے‘ ایسا انصاف کہ صدر کلنٹن کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دے‘ وہ قوم جو چاہتی ہے کر دکھاتی ہے۔

ریمنڈ ڈیوس ایک علامت ہے اس حقیقت کی کہ امریکیوں نے طاقت اور برتری سائنس اور ٹیکنالوجی کی وساطت سے حاصل کی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی قوم کے تھیلے میں بہت کچھ ہے۔ عینک کا بائی فوکل شیشہ (1760ئ)‘ آٹا پیسنے کی خودمختار مشین (1787ئ)‘ ریفریجریٹر (1841ئ)‘ برقی گھنٹی (1831ئ)‘ گندم کاٹنے والی مشین (1834ئ)‘ سلائی مشین (1833ئ)‘ سرکٹ بریکر (1836ئ)‘ ٹائلٹ پیپر (1857ئ)‘ متحرک برقی سیڑھی (1859ئ)‘ ڈاک میں بھیجا جانیوالا پوسٹ کارڈ (1861ئ)‘ مشین گن (1861ئ)‘ موٹر سائیکل (1867ئ)‘ کپڑے لٹکانے والا ہینگر (1969ئ)‘ برقی پنکھا (1882ئ)‘ تھرموسٹیٹ (1883ئ)‘ ٹریکٹر (1892ئ)‘ ریڈیو (1893ئ)‘ آلہ سماعت (1902ئ)‘ ایئرکنڈیشنر (1902ئ)‘ ہوائی جہاز (1903ئ)‘ کپڑے دھونے والی برقی مشین (1908ئ)‘ ٹریفک کے برقی اشارے (1912ئ)‘ ایئر ٹریفک کنٹرول (1929ئ)‘ دھوپ کا چشمہ (1929ئ)‘ چیئر لفٹ (1936ئ)‘ نائلن (1938ئ)‘ کینسر کے علاج کیلئے کیموتھراپی (1946ئ)‘ آواز سے زیادہ تیز رفتار طیارہ (1947ئ)‘ پولیو کا انجکشن (1952ئ)‘ ایٹمی آبدوز (1955ئ)‘ صنعتی روبوٹ (1956ئ)‘ ہڈی کے اندر گودے کا ٹرانسپلانٹ (1956ئ)‘ مواصلاتی سیارہ (1962ئ)‘ پھیپھڑوں کی پیوند کاری (1963ئ)‘ انسانی دل کی پیوند کاری (1964ئ)‘ لیزر پرنٹر (1969ئ)‘ ای میل (1971ئ)‘ موبائل فون (1973ئ)‘ انٹرنیٹ (1983ئ)‘ مصنوعی جگر (2001ئ)۔

یہ ان چند ایجادات میں سے ہیں‘ جو امریکیوں نے کیں اور جن سے آج دنیا بھر میں فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو ہم قاتل کہیں‘ یا جاسوس‘ وہ بہرحال ایک قوم کی برتری کی علامت ہے اور یہ برتری قرن ہا قرن کی محنت سے حاصل ہوئی۔ تمہاری ضعیف قوم سمندروں‘ فضاﺅں اور خلاﺅں سے امڈتے ہتھیاروں کا مقابلہ کس طرح کرتی؟ ریمنڈ ڈیوس کے ملک میں ہزاروں یونیورسٹیاں دن رات‘ بارہ مہینے‘ چوبیس گھنٹے تحقیق میں مصروف ہیں‘ ریسرچ اور ریسرچ اور ریسرچ.... اسی کے نتیجہ میں سینکڑوں ایجادات اور سینکڑوں دریافتیں ریمنڈ ڈیوس کی قوم کے ماتھے پر سجی ہیں۔ اس قوم کا مقابلہ وہ ملک کس طرح کرتا جس کے مریض تعویذوں اور مزاروں کی مٹی سے علاج کرتے ہیں‘ جس کے ہاریوں کی عورتیں جاگیرداروں کی ملکیت ہیں۔ جس کے طالب علم بغیر چھت کے سکولوں میں ”زیر تعلیم“ ہیں‘ جس کے بیروزگار نوجوان خودکش جیکٹیں پہن کر گھر والوں کو رقم بھیجتے ہیں اور جس کے وزیرستان‘ سوات اور بلوچستان میں یونیورسٹیاں ہیں‘نہ کارخانے‘ ہسپتال ہیں‘ نہ دواخانے‘ لائبریریاں ہیں‘ نہ عدالتیں‘ ہاں سردار اور خان ہیں‘ ملک اور قبائلی سربراہ ہیں۔

شمائلہ! ایک قوم کے ضعف کی علامت تم ہو.... اور ایک قوم کی طاقت کی علامت ریمنڈ ڈیوس ہے۔

Tuesday, March 15, 2011

غلیل اور لیپ ٹاپ

ہم  لوگ اتنے قنوطی ہو چکے ہیں کہ خدا کی پناہ  

ہر معاملے میں ناشکری، ہر بات پر شکوہ اور شکایت، ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں نہ اپنی خوش قسمتی ہمیں نظر آتی ہے۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ آدھا گلاس خالی ہے۔ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ آدھا گلاس پانی سے بھرا ہے۔ ہماری حالت اُس مایوس شخص جیسی ہے جسے اُسکے بیٹے نے خوش ہو کر بتایا کہ ہمارا کتا پانی پر چل سکتا ہے۔ اُس نے بُرا سا منہ بنا کر کہا کہ کاش! وہ تیر سکتا!لیکن میں نے یہ رویہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں اب کُڑھنے اور جلنے کے بجائے ہر بات کا روشن پہلو دیکھا کروں گا۔ اس صحت مند رویے کا آغاز میں نے آج ہی سے کر دیا ہے۔

مجھے علی الصبح خبر ملی کہ بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں راکٹ کے حملے سے پورے کا پورا خاندان موت کے گھاٹ اتر گیا۔ یہ دو دن پیشتر کا واقعہ ہے۔ کچھ محب وطن افراد نے راکٹ چلائے جن میں سے ایک فلّو خان کے گھر کی چھت پر پھٹا۔ اسکی بیوی مائی خاتون اور چاروں بیٹیاں موقع ہی پر ہلاک ہو گئیں۔ دیکھئے اس خبر میں کتنا روشن پہلو ہے۔ خدا کا شکر ہے میں بلوچستان میں نہیں ہوں اور راکٹوں کے حملے سے بچا ہوا ہوں۔

کراچی کے علاقے کھارادر میں دو افراد تاجروں سے جگا ٹیکس وصول کر رہے تھے۔ ایک دکاندار نے انکار کیا تو جگا ٹیکس وصول کرنے والوں نے اُسے گولی مار کر موقع ہی پر ہلاک کر دیا۔ عوام اکٹھے ہو گئے۔ انہوں نے اُسے پکڑ لیا اور مار مار کر ختم کر دیا۔ اُسکے زخمی ساتھی نے اعتراف کیا کہ ہاں! وہ تاجروں سے غنڈہ ٹیکس وصول کیا کرتے تھے۔
گذشتہ ایک سال کے دوران کراچی سے سو سے زیادہ تاجر تاوان کے لئے اغوا کئے گئے۔ اب دیکھئے، اس میں روشنی کی تہہ در تہہ کئی پرتیں ہیں۔ میری پہلی خوش قسمتی یہ ہے کہ میں کراچی میں نہیں رہتا۔ اور دوسری خوش قسمتی یہ ہے کہ تاجر نہیں ہوں۔
خادم پنجاب نے لاہور میں کم آمدنی والے بے گھر افراد کے  لیے بےمثال رہائشی منصوبے کا افتتاح کیا ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ لاہور میں رہتا ہوں اور میری خوش قسمتی ہے  کہ لاہور  ہی پنجاب ہے۔پنجاب کے بجٹ کا بڑا حصّہ لاہور  پر صرف ہو رہا ہے۔شاہراہیں،انڈرپاس،پارک،باغات،مکانوں کے منصوبے،ہائوسنگ سوسائٹیاں،کالج، یونیورسٹیاں سب کچھ ایک ہی شہر میں بنایا جا رہا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ میں میاںوالی، اٹک یا بہاولپورمیں نہیں رہتا جنہیں صرف پنجاب کو سب سے بڑا صوبہ ثابت کرنے کے لیے استعمال  کیا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف سندھ میں احتجاج کیا ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی نے ہائیکورٹ تک مارچ کیا۔ صوبے میں ہڑتال بھی کی گئی۔ اب اس معاملے میں بھی روشن پہلو واضح ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ پیپلز پارٹی نہیں ہوں ورنہ مجھ پر الزام لگتا کہ میں سپریم کورٹ کی توہین کر رہا ہوں۔ خوش قسمتی سے میں نون لیگ ہوں اور بہت آرام سے یہ سارا تماشا دیکھ رہی ہوں۔ کسی کو یاد ہی نہیں کہ  عدالتوں کی توہین میں نے شروع کی تھی۔ ....

ادب کا قافلہ تھا سُست گام اے سیماب

رواجِ گرم روی میرے کارواں سے چلا
خدا کا شکر ہے  یہ کوئی نہیں  کہہ رہا  کہ سپریم کورٹ پر باقاعدہ حملے کا رواج میرے زمانے میں پڑا تھا۔دیواریں پھلانگیں گئی تھیں۔ بسیں بھر بھر کر لائی گئی تھیں اور حملہ آوروں کو قیمے والے پراٹھے  کھلائے گئے تھے تاکہ اُن کی انرجی بحال رہے۔ 
میری خوش قسمتی دیکھئے کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔ ڈاکٹروں سے زیادہ مظلوم اس ملک میں شاید ہی کوئی طبقہ ہو۔ ڈاکٹر بننے کےلئے جتنی محنت کرنا پڑتی ہے اور سات سال جس طرح پاگلوں کی طرح رات دن سوتے جاگتے پڑھائی کرنا پڑتی ہے، اخباروں میں سرکاری خرچ پر ڈاکٹروں کےخلاف پورے پورے صفحے کے مضحکہ خیز اشتہارات شائع کرانےوالے ”عالم فاضل“ اتنی پڑھائی اور اتنی محنت کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ڈاکٹروں کا کیریر شروع ہی گریڈ اُنیس (19) سے ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ڈاکٹر یہ ملک چھوڑ کر ترقی یافتہ دنیا کی طرف ہجرت کرتے رہیں گے اور جو رہ جائیں گے وہ مقابلے کا امتحان دے کر ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسر لگتے رہیں گے۔ اگر ڈاکٹروں کو اُنکے حقوق نہ دئیے گئے تو اس ملک کے قصبے اور دیہات ڈاکٹروں سے محروم ہی رہیں گے اور ملنگوں، عاملوں، جعلی پیروں، ان پڑھ حکیموں اور جُز وقتی ہومیو پیتھوں کی چاندی ہوتی رہے گی۔

آپ کہاں تک گنیں گے اور میں کہاں تک گنواﺅں گا؟ میری خوش قسمتیوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کےلئے صفحوں کے صفحے درکار ہیں۔ مثلاً یہی بات لے لیجئے کہ میرے بچے مدرسے میں نہیں پڑھتے، ورنہ اس ملک کے لاکھوں بچے مدارس میں ”زیر تعلیم“ ہیں۔ انہیں جس طرح کھانا دیا جاتا ہے، جو رہائش کی جگہ مہیا کی جاتی ہے، آٹھ سال، رات دن جو ”تربیت“ دی جاتی ہے، میرے بچے اُس سے محفوظ ہیں۔ ایک اور خوش قسمتی ملاحظہ کیجئے کہ میں قبائلی علاقے سے نہیں ہوں۔ باسٹھ سال میں قبائلی علاقوں کو کوئی کالج، کوئی یونیورسٹی کوئی انڈسٹری، کوئی شاپنگ مال، کوئی لائبریری نہیں دی گئی۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے میں قبائلی علاقے میں نہیں رہتا ورنہ پجارو لے کر ووٹ ڈالنے والے اور لاکھوں روپے لے کر سینیٹر بنانے والے ملک اور خان مجھ عام قبائلی کی قسمت کے مالک ہوتے، میرے بچوں کو غلیل اور بندوق چلانا سکھائی جاتی  اور وہ جو میرے بچوں کو قبائلی ثقافت کے نام پر غلیل اور بندوق کے ساتھ پوری دنیا کو دکھاتے ہیں، اُنکے اپنے بچے کتابوں اور لیپ ٹاپ کی معیت میں او لیول اور اے لیول کر کے امریکہ اور برطانیہ جا رہے ہوتے!

آپ گواہ رہئے گا کہ میں نے اپنا رویہ تبدیل کر لیا ہے۔ میں آج سے قنوطی نہیں ہوں۔ میں ہر معاملے کا روشن پہلو تلاش کیا کروں گا۔ یہ دیکھئے، لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے برقی روشنی چلی گئی ہے۔ اس معاملے کا روشن پہلو یہ ہے کہ میں کالم کو یہیں ختم کیے دیتا ہوں۔

Tuesday, March 08, 2011

غیب سے کوئی سوار

گزشتہ ہفتے عجیب خبر پڑھنے کو ملی‘ کویت کے قومی دن کی تقریب میں مہمان خصوصی ہمارے وزیر ریلوے تھے! اس میں عجیب پہلو یہ تھا کہ کویت میں ریلوے کا وجود ہی نہیں۔

کویت میں ریلوے نہ ہونے کا سبب نہیں معلوم لیکن پڑوسی ملک افغانستان میں ریلوے نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہاں برطانیہ کی حکومت نہیں رہی‘ جس طرح سانپ اور بچھو کو قدرت نے بلا سبب نہیں پیدا کیا اور ان میں بھی کچھ فوائد رکھے ہیں‘ اسی طرح استعمار کے بھی کچھ فوائد تھے۔ انگریز آئے تو اپنے ہمراہ ادارے بھی لائے‘ سب سے بڑا ”ادارہ“ محنت کا تھا۔ محنت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کلائیو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا تھا جبکہ سراج الدولہ سمیت ہندوستانی حکمران دلہنوں کی طرح پالکیوں پر سفر کرتے تھے اور میدان جنگ میں بیگمات کی رفاقت ازبس ضروری تھی۔ بہادر شاہ ظفر کے دور ”حکومت“ میں سر مٹکاف دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ تھا‘ اس زمانے کے لکھے گئے روزنامچوں اور ڈائریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سخت گرمی میں مٹکاف اور اسکے ماتحت ساڑھے سات بجے صبح اپنی اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے تھے۔ دوپہر سے پہلے یہ لوگ اپنے کام کا ایک حصہ ختم کر چکے ہوتے تھے اور گیارہ بجے‘ دوپہر کی شدید گرمی گزارنے کیلئے گھروں کو جا رہے ہوتے تھے۔ اس وقت لال قلعہ میں شاہی خاندان کے مقدس افراد بیدار ہونا شروع ہوتے تھے۔ ہم ایک جذباتی قوم ہیں اور اسباب و علل کا تجزیہ کرنا ہمیں پسند ہی نہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ قدرت کو ہم سے دشمنی تھی نہ استعمار سے محبت‘ قدرت کا سیدھا اصول ہے ”انسان کےلئے وہی کچھ ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے“۔ یہ اصول اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کر دیا اور قیامت تک اسے بدلا نہیں جا سکتا۔ انسان مسلمان ہو یا فرنگی‘ امریکی ہو یا یہودی یا نصرانی‘ اس کو جو کچھ ملتا ہے‘ اسکی کوشش کے حساب سے ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر رہنے والے اور صبح دم کام پر حاضر ہونےوالے ناکام ہو جائیں اور پالکیوں میں سفر کرنےوالے گیارہ بجے اٹھنے والے اور بیت الخلاءکے فرائض بھی کنیزوں کے سپرد کرنیوالے کامیاب ٹھہریں۔

بات اداروں کی ہو رہی تھی‘ برصغیر تھا یا آسٹریلیا‘ یا جنوبی افریقہ‘ انگریزوں نے ہر جگہ ریلوے بچھائی‘ ٹیلی گراف کے تار سمندروں‘ پہاڑوں اور صحراﺅں میں بچھائے۔ بجلی کا نظام قائم کیا‘ نہروں کا سسٹم بنایا‘ لیکن ایک ادارہ ان سب اداروں سے قدیم تر ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں آتے ہی قائم کیا اور وہ ہے ملٹری اکاﺅنٹس یعنی عسکری حسابات کا ادارہ۔ یہ کتنا پرانا ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور میں ملٹری اکاﺅنٹس کے موجودہ دفاتر 1854ءمیں موجود تھے۔ جہاں جہاں فوجی چھاﺅنیاں بنیں اور فوج کے مستقر قائم ہوئے۔ وہاں ملٹری اکاﺅنٹس کے دفاتر بھی بنے۔ اس زمانے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مسلمان حساب اور مالیات میں کمزور ہیں۔ بنگالی ہندوﺅں کا اس شعبے میں زور تھا‘ یہی وجہ ہے کہ راولپنڈی میں ملٹری اکاﺅنٹس کے دفتر کو کلکتہ دفتر کہا جاتا تھا۔ افسر انگریز ہوا کرتے تھے اور مقابلے کا امتحان (سول سروس) پاس کرکے تعینات ہوتے تھے۔ عملہ سارا مقامی افراد پر مشتمل تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس محکمے کی روایات بنتی گئیں۔ اس میں ملازمت کرنیوالے لوگ پڑھے لکھے ہوتے تھے۔ چنانچہ لکھنے پڑھنے کا اور ادب و شاعری کا حوالہ یہاں ہمیشہ رہا۔ پورے برصغیر کی سطح پر کھیلوں کے مقابلے ہوتے تھے اور ہر سال تقریبات کا ایک سلسلہ شہر شہر رہتا تھا۔

برصغیر تقسیم ہوا تو یہ ساری روایات بھارت اور پاکستان کو منتقل ہوئیں۔ پاکستان میں ملٹری اکاﺅنٹس کے افسر محکمے سے نکل کر بڑے بڑے عہدوں تک پہنچے۔ ایوب خان کے عہد کے وزیر خزانہ محمد شعیب نے اپنا کیریئر ملٹری اکاﺅنٹس کلکتہ سے شروع کیا تھا۔ سرتاج عزیز جو اقوام متحدہ کے خوراک کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے اور عالمی خوراک اور قحط کے موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ملٹری اکاﺅنٹس ہی کے افسر تھے‘ انکی بہن نثار عزیز بٹ نے جو معروف ادیبہ ہیں‘ اپنی خود نوشت ”گئے دنوں کا سراغ“ میں سرتاج عزیز کے ملٹری اکاﺅنٹس کے ایام کا ذکر کیا ہے۔ اردو کے عہد ساز شاعر عبدالحمید عدم بھی ملٹری اکاﺅنٹس میں ملازمت کرتے تھے۔ گزشتہ ہفتے ملٹری اکاﺅنٹس لاہور نے کھیلوں کی سالانہ تقریبات کے دوران محکمے کی دو سو سالہ قدیم روایات نبھاتے ہوئے عبدالحمید عدم کی یاد میں ایک کل پاکستان مشاعرے کا انعقاد کیا۔ ملٹری اکاﺅنٹس لاہور کے سربراہ اسلم چودھری اپنے محکمے کی روایات کے امین ہیں اور انتہائی متحرک اور مستعد شخصیت کے مالک ہیں۔ کھیل اور ادب کی یہ روایات سول سروس کے کسی اور شعبے میں شاید ہی پائی جاتی ہوں۔

المیہ یہ ہے کہ آزادی کے تریسٹھ برسوں کے دوران ہم نہ صرف یہ کہ نئی روایات نہ قائم کر سکے‘ ان روایات کو بھی نہ برقرار رکھ سکے‘ جو برطانوی ہند سے ہمیں ورثے میں ملی تھیں۔ آج پاکستان ریلوے نزع کی جس کیفیت سے گزر رہی ہے‘ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی روٹ بند ہو رہے ہیں‘ وزیر صاحب کا حال یہ ہے کہ ملازمتیں ”دیتے“ ہوئے وہ اپنے حلقے سے باہر کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کرپشن گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے‘ ریلوے کی زمینوں کی طاقتور محکمے ہڑپ کئے جا رہے ہیں۔ یہی حال نہری نظام کا ہے‘ ایک ادارہ ڈپٹی کمشنر کا بھی تھا۔ انگریز ڈپٹی کمشنروں نے انتہائی مشکل حالات میں دور دراز کے سفر طے کرکے ضلعوں کو قائم کیا اور ایک ایک ضلع کی تاریخ لکھی‘ جو آج بھی گزٹ کی صورت میں موجود ہے۔ ان لوگوں نے مقامی زبانیں سیکھیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ انکی موت ان دور دراز مقامات پر واقع ہو گی‘ حیرت انگیز کارنامے دکھائے۔ یہی ادارہ جب ہم تک پہنچا تو اسکی حالت بگڑ گئی۔ اقربا پروری‘ کرپشن اور سفارش نے حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ رہی سہی کسر سیاسی تعیناتیوں نے نکال دی۔ وزیروں‘ گورنروں اور جرنیلوں نے اپنے نااہل بیٹوں کو مقابلے کے امتحان دیئے بغیر اس ادارے میں داخل کرانا شروع کر دیا۔ پھر پرویز مشرف کا زمانہ آیا اور اس نے ناظم گردی شروع کی۔ ان حضرات نے سیاسی بنیادوں پر کام کیا اور ضلع کے جس گاﺅں یا قصبے نے انہیں ووٹ نہ دیا‘ انہیں ترقیاتی کاموں سے محروم کرنا شروع کر دیا۔ فانی نے درست کہا تھا....

دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم

بستی بسنا کھیل نہیں‘ بستے بستے بستی ہے

اداروں کو توڑنا آسان ہے اور بنانا مشکل۔ آج ملک میں شاید ہی کوئی ادارہ سلامت موجود ہو‘ اداروں کی شکست و ریخت کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے کیا۔ ضیاءالحق کی گیارہ سالہ آمریت نے اس توڑ پھوڑ کو عروج پر پہنچایا۔ یہ شکست و ریخت‘ یہ توڑ پھوڑ ابھی تک جاری ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی قیادت میسر آئے‘ جس کے پاس وژن ہو اور ادارے ازسرنو زندہ ہو سکیں؟ ....

فلک کو بار بار اہل زمیں یوں دیکھتے ہیں

کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے

Tuesday, March 01, 2011

جنازہ گاہ اور لنڈن سکول آف اکنامکس

جنازہ گاہ لوگوں سے بھر چکی تھی۔ بہت سے ابھی تیز تیز قدموں سے آ رہے تھے۔ امام کے مصلے پر ایک نوجوان کھڑا تھا۔ مولوی صاحب نے شرکائے غم کو بتایا کہ یہ نوجوان مرحومہ کا پوتا ہے اور اپنی دادی کی نماز جنازہ خود پڑھائے گا۔

مرکزی حکومت کے سینئر بیوروکریٹ عبدالبصیر کا یہ سعادت مند فرزند ’نعمان‘ پیشہ ور نماز پڑھانے والا نہ تھا۔ وہ لندن سکول آف اکنامکس کا فارغ التحصیل ہے اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ اس نے نماز جنازہ پڑھا کر یہ ثابت کیا کہ اس کام کیلئے کسی مخصوص فرد کی احتیاج قطعاً ضروری نہیں۔ یہ کام تو ہر وہ شخص کر سکتا ہے جو مسلمان ہے اور اپنے فرائض سے آگاہ ہے۔ مو لوی صاحب نے اس کا تعارف کراتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ اصولی طور پر جنازے کی نماز وارث کو پڑھانی چاہئے لیکن افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے خود ’’مو لوی‘‘ پر انحصار کیا ہوا ہے اور پھر لعن طعن بھی مولوی ہی کو سننا پڑتی ہے۔ اس انحصار بلکہ محتاجی ہی کا نتیجہ ہے کہ اب ان پڑھ قسم کے ملا یہ دھمکی عام دیتے ہیں کہ آخر مولوی سے بچ کر کہاں جائو گے؟ نکاح اور جنازہ تو مولوی ہی نے پڑھانا ہے! سنجیدہ علماء کرام نے ہمیشہ عوام کو یہی تلقین کی ہے کہ اپنے بچوں کو دین کی بنیادی باتوں کا علم دو تاکہ انہیں کسی ’’پیشہ ور‘‘ پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ اس سے پہلے جسٹس رمدے نے اپنی مرحومہ اہلیہ کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی تھی۔ اسلام میں کوئی پوپ ہے نہ پنڈت۔ یہ تو دین اور دنیا کے علم کے درمیان ایک خود ساختہ لکیر ہے جس نے ہمارے ہاں بھی پوپ اور پنڈت کی طرح ’’مولوی‘‘ کا باقاعدہ ادارہ قائم کر لیا ہے ورنہ مولوی کیلئے ضروری نہیں کہ روٹی کمانے کیلئے مسجد اور مدرسے ہی کا سہارا لے۔ اور غیر مولوی کو نماز اور نکاح پڑھانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر ابوحنیفہؒ ریشم کی تجارت کرکے اور عالم اسلام میں پہلی سپر مارکیٹ بنا کر امام ابوحنیفہ بن سکتے ہیں تو آج کے علماء کرام بھی کسبِ معاش کیلئے مذہب کا استعمال ترک کر سکتے ہیں۔

یہ وہ دوراہا ہے جہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا علم صرف مذہب کا علم ہے؟ جب اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ علم سیکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے تو کیا اس سے مراد صرف مذہب کا علم ہے؟ تاریخ اسکا جواب ’’نہیں‘‘ میں دیتی ہے۔ اگر علم صرف مذہب کے مطالعہ تک محدود ہوتا تو مسلمان جیومیٹری اور الجبرا نہ ایجاد کرتے۔ طب میں ترقی نہ کرتے۔ مغرب نے مسلمانوں ہی سے سیکھا کہ علم مشاہدے اور تجربے سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ ریاضی دان اور طبیب ہونے کیلئے پادری ہونا لازمی نہیں۔ ایسا ہوتا تو عرب قطب نما نہ بناتے۔ یہ عربوں کا اصطرلاب ہی تھا جس سے عیسائی جہاز رانوں نے عرض بلد کا شمار کرنا سیکھا۔ اگر علم صرف مذہب کا علم ہوتا تو الادریسی جغرافیہ دان کس طرح بنتا اور ابوحنیفہ ریشم کے اتنے بڑے ماہر کیسے بنتے کہ کوفہ اور بغداد میں جو بھی ریشم فروخت کرنے کیلئے آتا۔ منڈی میں ایک ہی بات کہی جاتی کہ اس ریشم کے بارے میں ابوحنیفہ کی رائے کیا ہے؟

ستم ظریفی یہ ہے بلکہ سچی بات اور دھاندلی یہ ہے کہ جب بھی مدارس میں سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھانے کی بات کی جاتی ہے تو چند برخود غلط قسم کے خود ساختہ نمائندے ایک بات کی ضرور تکرار کرتے ہیں کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جدید علوم پڑھانے والوں نے کیا تیر مار لئے؟ جب کہ سنجیدہ اور متین علماء کرام جن کا مدرسوں کی سیاست اور کھڑپینچی سے کوئی تعلق نہیں اور جو وزارت مذہبی امور کی تقاریب میں شرکت کیلئے مارے مارے نہیں پھرتے۔ اس قسم کے الزامی جوابات نہیں دیتے بلکہ ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ جدید علوم مسلمانوں پر فرض ہیں اور اگر مسلمانوں پر فرض ہیں تو اہل مدرستہ ان سے مستثنیٰ کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ اللہ نے اپنی کتاب میں حکم دیا کہ ’’تیار کرو انکو لڑائی کے واسطے جو کچھ جمع کر سکو قوت سے‘‘ اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع ؒلکھتے ہیں ’’قرآن کریم نے اس جگہ اس زمانہ کے مروجہ ہتھیاروں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ قوت کا عام لفظ اختیار فرما کر اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ یہ قوت ہر زمانہ اور ہر ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے‘ اس لئے آج کے مسلمانوں کو بقدر استطاعت ایٹمی قوت ٹینک اور لڑاکا طیارے سے آبدوز کشتیاں جمع کرنا چاہیں۔‘‘

شبیر احمد عثمانی ؒ اس آیت کی تشریح اس طرح کرتے ہیں‘‘ آج بندوق توپ ہوائی جہاز آبدوز کشتیاں آہن پوش کروز وغیرہ کا تیار کرنا اور استعمال میں لانا اور فنون حربیہ کا سیکھنا سب سامان جہاد ہے‘‘ ظاہر ہے کہ یہ آلات جدید فزکس، کیمسٹری، دیگر سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی سیکھے بغیر تیار نہیں کئے جا سکتے۔ دوسرے لفظوں میں مدارس کے اصحابِ قضا و قدر، دین کا علم سیکھنے والوں کو اس علم سے دور رکھے ہوئے ہیں جس کا سیکھنا فرض قرار دیا گیا ہے! رہی یہ دلیل کہ آخر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والوں نے کون سے تیر مار لئے ہیں تو یہ ایک بودی دلیل ہے جس پر صر ف ہنسا جا سکتا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والوں نے کوئی تیر نہیں مارا تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ’’ہوائی جہاز، آب دوز کشتیوں اور آہن پوش کروزر‘‘ بنانے کے علوم سے مدارس کے طلبہ کو محروم رکھا جائے؟

کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے پڑھانے والوں کا عمل ہمارے لئے حجت نہیں۔ نہ ہی اس کا عمل حجت ہے جو مدارس میں پڑھ رہے ہیں یا مدارس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حجت اللہ اور رسول کے احکام ہیں۔ یہ احکام کسی کی جاگیر ہیں نہ وراثت۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک خاص وضع قطع رکھنے والوں کی ہر بات پر امنا و صدقنا کہا جائے یا انکی ہر بات کو رد کر دیا جائے۔ دین اور دنیا کے علوم کی تخصیص کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ دین کا علم ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے۔ اسی طرح دین کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی کو سیکھنا بھی ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

اللہ کے رسولؐ نے طوافِ کعبہ کے کچھ چکروں میں اکڑ کرچلنے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ کفار پر دھاک بیٹھے۔ یہ حکم علامت ہے اس بات کی کہ وضع قطع ہو یا علم یا معیشت یا کچھ اور شے مسلمانوں کی حالت پست نہ ہو بلکہ ایسی ہو کہ اس پر فخر کیا جا سکے۔ آج جو جتنا مسکین، مجہول، دبا ہوا اور ضعیف نظر آئے، اتنا ہی اچھا مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ یہی حال ملکوں اور قوموں کی برادری میں ہے۔ چوّن مسلمان ملکوں میں ایک مسلمان ملک بھی ایسا نہیں جہاں لوگ بلند معیارِ زندگی کیلئے ہجرت کرنا پسند کریں۔ بلند معیارِ زندگی کو اگر چھوڑ بھی دیں تو پھر بھی کوئی ایسا مسلمان ملک پیش نہیں کیا جا سکتا جہاں نظام انصاف، نظام تعلیم اور نظام معیشت مثالی ہے۔ وعظ کرنے والی مسلمان عورتیں اور شیخ الاسلام کہلانے والے بڑے بڑے واعظ مغربی ملکوں میں جا بیٹھے ہیں اور اپنے معتقدین سے ٹیلی فونوں کے ذریعے خطاب کر رہے ہیں۔ ہمارے اپنے ملک رہائش کے قابل بھی نہیں ہیں۔اس کے باوجود ہم مرنے مارنے پر تُلے ہوئے ہیں لیکن اپنی حالت سنوارنے کی فکر نہیں

دین اور دنیا کے سارے علوم قدرت نے پیدا کئے ہیں۔ اسلام نے ان میں کوئی فرق روا نہیں رکھا۔ لنڈن سکول آف اکنامکس کے پڑھے ہوئے نعمان بصیر نے نماز جنازہ پڑھا کر ثابت کیا ہے کہ مخصوص دائرے اہل غرض نے خود کھینچ رکھے ہیں!














 

powered by worldwanders.com