Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, January 25, 2011

کفن چور

دارالحکومت کے قریب فائیو سٹار ہوٹل میں ان دنوں غیب کی خبریں بتانے والے ایک منجم فروکش ہیں‘  عوامی نمائندے‘ سیاست دان‘ صحافی اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے کیا ناخواندہ اور کیا اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات انکے کمالات سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ان میں سیاست دان سرفہرست ہیں۔ خاص کر ایک ایسی سیاسی جماعت سے وابستہ افراد‘ جو ایک نوخیز جماعت ہے۔ سچ پوچھئے تو اس خبر سے دل کو اطمینان نصیب ہوا ہے۔ یہ ’’اسلامی‘‘ شغل مردِ مومن ضیاء الحق کے زمانے میں بھی کافی مقبول تھا۔ آپ قوم پر کوئی بھی احسان کرنے سے پہلے نجومیوں اور پامسٹوں سے ضرور آشیرباد لیتے تھے‘ لگتا ہے کہ نوے دن کو گیارہ سالوں پر پھیلانے کی وعدہ وفائی بھی کسی نجومی ہی کا مشورہ ہو گی۔

سیاست دانوں ہی پر کیا موقوف ہے‘ اطمینان بخش امر یہ ہے کہ تقریباً پورا ملک ہی نجوم‘ پامسٹری‘ فن پیشگوئی‘ تعویز فروشی‘ کالے جادو‘ قبر پرستی اور پیروں فقیروں کی ’’روحانیت‘‘ میں مگن ہے۔ ماشاء اللہ‘ یہ ہماری تاریخ اور روایات کے عین مطابق ہے۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کرنے سے پہلے نجومی سے زائچہ بنوایا تھا اور ہاتھ کی لکیریں بھی دکھائی تھیں۔ طارق بن زیاد نے کشتیاں جلانے سے پہلے فائیو سٹار ہوٹل میں حاضری دی تھی اور ستاروں کا علم رکھنے والے بزرگوں کی اجازت سے حملے کا دن مقرر کیا تھا۔ شیرشاہ سوری نے گرانڈ ٹرنک روڈ بنوانے سے پہلے‘ شاہ ولی اللہ نے مرہٹوں کے مقابلے میں احمد شاہ ابدالی کو بلانے سے پہلے‘ سرسید احمد خان نے علیگڑھ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے سے پہلے‘ علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کرنے سے پہلے اور قائداعظم نے تحریک پاکستان کا رہنماء بننے سے پہلے نجومیوں کے درو درازوں پر حاضری دی تھی‘ یہ جو کچھ منکر قسم کے لوگ علامہ اقبال کا شعر پیش کرتے ہیں کہ…؎

ستارہ  کیا  تری  تقدیر  کی  خبر  دے       گا

وہ خود فراخی ٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں

تو انہیں اس شعر کا حقیقی مفہوم معلوم ہی نہیں!

نجوم اور پامسٹری کا ذکر ہم شکرانِ نعمت کے طور پر کرنے پر بیٹھ گئے‘ کالم کا موضوع کچھ اور ہے ۔ ملک میں ایک سراسیمگی اور یاس کا ماحول ہے۔ ایسے میں کوئی مثبت پیش رفت نظر آئے تو جی چاہتا ہے کہ قارئین کے گوش گزار کی جائے تاکہ بے اطمینانی کی فضا کم ہو اور عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ اہل وطن کو معلوم ہونا چاہیے کہ حال ہی میں منظر عام پر آنیوالے حقائق کی رو سے گزشتہ برس قبائلی علاقوں (فاٹا) کے سینیٹروں نے قومی اسمبلی کے ارکان سے ساٹھ کروڑ روپے میں ووٹ خریدے۔ اس میں کابینہ کے دو ارکان بھی شامل ہیں۔ یہ معاملہ کبھی سامنے نہ آتا‘ لیکن ووٹ خریدنے والوں اور ووٹ فروخت کرنے والوں نے باہمی معاہدے پر عمل نہ کیا اور حسب وعدہ ادائیگیاں نہ کی گئیں‘ یہ بات ناقابل برداشت تھی۔ ہم پاکستانی سب کچھ معاف کر سکتے ہیں لیکن جہاں روپوں کا مسئلہ ہو‘ وہاں حساب کتاب سخت ہوتا ہے۔ ایک وفاقی وزیر اور ایک سینیٹر کے درمیان معاملات خراب ہو گئے۔ سینیٹر صاحب نے جتنی رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ نہ ادا کر سکے‘ معاملہ جرگے تک پہنچا۔ جرگہ کے ارکان کو فریقین نے چھ لاکھ روپے انکی خدمات کے معاوضے کے طور پر ادا کئے‘ جرگہ کے چھ اجلاس منعقد ہو چکے ہیں‘ لیکن تاحال کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے جو دونوں طرف یکساں طور پر قبول ہو۔ ووٹوں کی خرید و فروخت کے علاوہ جرگہ کے سامنے ایک اور مسئلہ بھی پیش کیا گیا‘ وہ یہ کہ ووٹ خریدنے کے ضمن میں وزیر صاحب کے بھائی کو یہ ’’اختیار‘‘ بھی دیا گیا تھا کہ وہ ترقیاتی فنڈ خرچ کرلیں۔ اخبار کی خبر کے مطابق وزیر صاحب کے بھائی نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔

آپکا کیا خیال ہے کہ روشنی کی یہ کرن موجود گھٹن میں ایک نعمت کی طرح ہے یا نہیں؟ ہمارے جرگہ نظام کو خدا قیامت تک سرسبز و شاداب رکھے۔ ووٹ خریدنے میں کوئی برائی نہیں‘ سینیٹ کا امیدوار کروڑوں روپے رشوت دیتا ہے اور ایم این اے اسے ووٹ دیتا ہے تو اس پر جرگے کو اعتراض نہیں لیکن جرگہ اس بددیانتی کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا کہ رشوت جس قدر طے کی گئی تھی‘ اس سے کم دی جائے۔ ہم کور چشموں کو پاکستان میں برائیاں تو نظر آتی ہیں‘ روشن پہلو نہیں دکھائی دیتے۔ اب بہاولپور ہی کی خبر لے لیجئے‘ وہاں اپنی پسند کی شادی کرنیوالی بائیس سالہ لڑکی کو پنچائت کے حکم پر بجلی کا کرنٹ لگا کر قتل کیا گیا ہے۔ پاکستان کو پتھر کے زمانے کا ملک کہنے والے عقل کے اندھے یہ نہیں دیکھتے کہ کس جدید طریقے سے سزا دی گئی ہے۔ اندازہ لگایئے پہلے تو پنچایت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ عورت کو قتل کیا جائے‘ پھر وہ کسی دقیانوسی طریقے پر عمل پیرا نہیں رہتی‘ تلوار سے یا پھانسی سے‘ یا آگ میں جلا کر‘ قتل کرنے کے سارے طریقے فرسودہ ہیں‘ پنچایت نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں سائنس کی ایک ایجاد کو قتل کیلئے استعمال کیا۔ صوبے کی حکومت کو چاہیے کہ پنچایت کے روشن خیال ارکان کو انعام و اکرام اور اعزاز سے نوازے۔ ہم یہاں یہ بھی تجویز کرینگے کہ عدالتوں اور ججوں پر زرِکثیر صرف کرنے کے بجائے پنچایت اور جرگے کا نظام پورے ملک میں پھیلا دیا جائے۔ سابق ججوں اور سابق جرنیلوں کو گھیر گھار کر اپنی نومولود پارٹی میں جمع کرنیوالے عمران خان بھی جرگہ سسٹم کے ازحد دلدادہ ہیں۔
کالم کے آخر میں ہم ان کوتاہ نظروں کی مذمت کرنا چاہتے ہیں جو وزیر اعلی ا   پنجاب کے  "" دانش "" سکولوں والے عالی شان منصوبے سے حسد کر رہے ہیں۔ ان ناقدین کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کے زیر انتظام لاکھوں سرکاری سکولوں میں  اساتذہ ہیں نہ چھتیں ، پینے کا پانی ہے  نہ بیٹھنے کے لیے ٹاٹ۔ چند طلبہ کے لیے دانش سکولوں کے نام پر گیارہ ارب روپے  خرچ کرنے والے وزیر اعلی ا   کو سسکتے ، بلکتے، بدحال، ویران اور دہائی دیتے لاکھوں سکول کیوں نظر نہیں آتے؟ ہم  چیف منسٹر کے حوصلے کی داد دیتے ہیں کہ ایسے حاسدوں کی باتوں پر وہ کوئی توجّہ دیے بغیر اپنے راستے پر چلے جا رہے ہیں۔  رہے بغیر چھتوں اور بغیر اساتذہ کے سرکاری سکول تو ان کی اہمیت ہی کیا ہے؟ ہمارے وزیروں افسروں سیاست دانوں اور عمائدین کے بچے تو ان سکولوں میں پڑھتے ہی نہیں ۔ یہ سرکاری سکول یوں بھی سرکاری خزانے پر ناروا بوجھ ہیں۔ انہیں بند ہی کر دیا جائے تو بہتر ہے۔ عام لوگوں کے بچّوں  نے پڑھ کر کرنا بھی کیا ہے۔ ملازمتیں تو یوں بھی سیاسی اور ذاتی بنیادوں پر بانٹی جا رہی ہیں۔ علامہ اقبال کے اس شعر کا ہمارے آج کے موضوع سے کوئی تعلق نہیں مگر یاد آگیا ہے‘ تو سن ہی لیجئے…؎

من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدان چند

بہرِ تقسیم  قبور انجمنی    ساختہ    اند

(مجھے تو اتنا ہی معلوم ہے کہ کچھ کفن چوروں نے قبریں آپس میں تقسیم کرنے کیلئے ایک انجمن بنائی ہوئی ہے)


















Tuesday, January 18, 2011

دفتر ِ اعمال

تلواریں سونت لی گئی ہیں۔ گردنوں پر نشان لگا دئیے گئے ہیں۔ قبریں کھودی جا رہی ہیں ؎

سنبھال لو اب درانتیاں خچروں کو ہانکو

کہ فصل پک کر سروں کی تیار ہو چکی ہے

لوگوں کو گروہوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ جو یہ زبان بولتے ہیں وہ اس طرف کھڑے ہو جائیں۔ جو وہ زبان بولتے ہیں وہ فلاں قطار میں چلے جائیں۔ قبیلوں کے نام پیشانیوں پر کھود دئیے ہیں۔ لوگوں کو زبانوں اور قبیلوں کی بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہے۔ جو بچ گئے ہیں انہیں ٹھکانے لگانے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ چلتی بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ جانچے جا رہے ہیں۔ گولیوں کی آواز آتی ہے۔ جسم دھم سے گرتے ہیں۔ سر دھڑوں سے الگ ہوتے ہیں۔
 محلے الگ الگ ہو گئے ہیں۔ آبادیاں مخصوص ہو چکی ہیں۔ یہ فلاں قبیلے کا محلہ ہے، یہ فلاں زبان بولنے والوں کی آبادی ہے۔

تلواریں سونت لی گئی ہیں۔ گردنوں پر نشان لگا دئیے گئے ہیں۔ عقیدوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے عقیدے لکھ دئیے ہیں۔ اپنی گاڑیوں کے پچھلے حصوں پر، اپنی دکانوں کے ماتھوں پر، اپنی مسجدوں کی دیواروں پر، اپنے گھروں کے دروازوں پر، عقیدہ جو بندے اور خالق کے درمیان تعلق کی بنیاد تھا، عقیدہ جو ساجد اور مسجود کے درمیان رازداری کا اثاثہ تھا، کھُل کر سرِعام آ چکا ہے۔ اس کا اظہار پوشاکوں کے سٹائل میں اور دستاروں کے رنگوں میں ہو چکا ہے۔ گردنیں مارنے کا کام سہل ہو چکا ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ مسجد کی دیوار پر کیا لکھا ہے، دکان کے ماتھے پر کیا تحریر ہے۔ دستار کا رنگ کیا ہے اور لباس کا ڈیزائن اور سٹائل کیا ہے۔ پھر گولی چلا دینی ہے۔

باسٹھ سال پہلے بھی یہی ہوا تھا۔ عقیدے کو دیکھ کر قتل ہوتا تھا لیکن اُس وقت نیام سے تلوار نہیں، کرپان نکلتی تھی۔ مسجد کے مقابلے میں مسجد نہیں تھی، گوردوارہ اور مندر تھا، مسئلہ یہ نہیں تھا کہ سندھی بلوچی مہاجر پنجابی بریلوی دیوبندی شیعہ کون ہے، اُس وقت مسئلہ یہ تھا کہ ہندو کون ہے اور سکھ کون ہے اور مسلمان کون ہے۔ باسٹھ سال ہو چکے ہیں۔ گوردوارے اور مندر ویران ہو چکے ہیں۔ سکھ اور ہندو رخصت ہو گئے ہیں، انکی ضرورت نہیں رہی، جو کام وہ کرتے تھے، اب ہم خود کر سکتے ہیں۔ کر رہے ہیں۔ کشتوں کے پشتے لگا دئیے ہیں۔ اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ غارت گری آسمان کو چھُو رہی ہے۔ تاخت و تاراج کرنا، نیست و نابود کرنا، میدان لاشوں سے بھر دینا۔ لغت میں اس قسم کے جتنے محاورے ہیں، ہم نے انہیں جیتی جاگتی شکلوں میں پیش کیا ہے ؎

ز سمِ ستوراں دراں پہن دشت

زمیں شش شُد و آسماں گشت ہشت

نظامی نے سکندرِ اعظم کی لڑائی کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، ہم نے اِس زمانے میں اُسے زندہ کر دیا۔ گھوڑوں کے سُموں سے اور گرتی ہوئی لاشوں سے اتنا گرد و غبار اُٹھا ہے کہ سات زمینوں میں سے اُوپر کی زمین دُھول میں تبدیل ہو کر آسمان سے جا لگی ہے۔ اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زمینیں سات کے بجائے چھ رہ گئی ہیں اور آسمان سات کے بجائے آٹھ ہو گئے ہیں۔

زمین دُھول میں تبدیل ہو کر گم ہو گئی ہے۔ پیروں تلے سے نکل رہی ہے۔ سات کے بجائے ملکیت میں چھ رہ گئی ہیں۔ چار پانچ ہزار روپے کے روزینے کی خاطر ہمارے نمائندے جعلی حاضریاں لگا رہے ہیں۔ ایک دو نہیں، پانچ سات نہیں، پورے ستائیس! یہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن چونکہ یہ سب بڑے لوگ ہیں، اقتدار سے وابستہ ہیں، اس لئے انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سیاسی پارٹیوں کے قائدین ان کے ساتھی ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک روپے حاصل کرنے کیلئے جو کچھ کیا جائے، جائز ہوتا ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ زمینیں پہلے ہی چھ رہ گئی ہیں۔ یہ ایک اور زمین کو گرد و غبار میں بدلنے کے درپے ہیں، بددیانتی، اخلاقی انحطاط اور جعل سازی تیزی سے ایک اور زمین کو پیروں کے نیچے سے سرکا ر ہی ہے۔
زمین کے وہ حصّے جو خشکی پر مشتمل ہیں اور وہ جو پانی کے نیچے ہیں فساد سے بھر گئے ہیں۔جب وفاقی وزیر یہ کہنے لگ جائیں کہ۔۔۔۔۔۔" اگر کچھ ارکانِ اسمبلی ، سینیٹرز اور افسران کے رشتہ داریا ووٹر بھرتی ہو گئے ہیں تو اس سے کوئی قیامت نہیں آگئی۔یہ سب لوگ پاکستانی ہیں۔ہم نے انڈین تو نہیں بھرتی کیے جو کسی کو اعتراض ہو--" تو ایک اور زمین پائوں کے نیچے سے سرک جاتی ہے۔ تو کیا وہ جنہوں نےدرخواستیں دی تھیںاور جو اہل تھے لیکن ان کی بغل میں سفارش نہیں تھی اس لیے بھرتی نہیں کیے گئے کہ وہ انڈین ہیں ؟؟ تاریخ کسی کی رشتہ دار نہیں۔ نہ قدرت اپنے اصول تبدیل کرتی ہے‘ جس ملک کے عوامی نمائندے چند ہزار روپوں کی دیہاڑی کیلئے تحریری جھوٹ بولیں، جعل سازی کریں اور پھر اُس پر شرم کرنا بھی مناسب نہ سمجھیں اور جس ملک میں دیانتداری سے کام کرنے کا حلف اٹھانے والے وزیر اقربا پروری، سفارش اور میرٹ کے قتل کو جائز قرار دیں اُس ملک کے لوگ پائوں زمین پر نہیں بلکہ گرد و غبار پر رکھتے ہیں، اُس ملک کی باگ ڈور غیر ملکی سفیروں کے ہاتھ میں آ جاتی ہے، اُس ملک کے رہنے والے دوسرے ملکوں میں جائیں تو ہوائی اڈوں پر انہیں برہنہ کیا جاتا ہے اور اُس ملک کا ہر شہری ملک سے بھاگنا چاہتا ہے۔



 تلواریں سونت لی گئی ہیں۔ تلواریں سونتنے والوں میں قلمکار بھی شامل ہیں۔ وہ اپنی اپنی پارٹیوں کیلئے مختص ہو چکے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کہاں ہے۔ سیاہ کون سا ہے اور سفید کون سا ہے۔ انہیں تو اس سے غرض ہے کہ جو کچھ میری پارٹی نے کہا ہے اور کیا ہے اور کر رہی ہے، میری ساری قدرتِ کلام اور سارا زورِ قلم اُسکی مدح میں صرف ہو اور میرے ریکارڈ میں کوئی تحریر ایسی نہ ہو جس میں میری پارٹی کے قائدین پر تنقید کی گئی ہو۔ الفاظ کی بھرمار، لفاظی کے امڈتے بادل، محاوروں کا زور، تحریر کی چاشنی جس سے ہونٹ جُڑنے لگیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہا جائے۔ سچ وہ ہے جو میری پارٹی کا لیڈر کہتا ہے۔
 قبیلے، زبانیں، عقیدے، پارٹیاں‘
 زمینیں پیروں کے نیچے سے سرکتی ہوئیں، دن بدن کم ہوتی ہوئیں!

چلو کہ دفترِ اعمال کھلنے والا ہے

اُٹھو کہ صبحِ مکافات ہونے والی ہے























Tuesday, January 11, 2011

عبا پوش

ائرپورٹ کی پارکنگ میں جیسے ہی داخل ہوئے دو آدمیوں نے روک لیا۔میرے دوستوں کا خیال تھا کہ انہوں نے بندوقیں تانی ہوئی ہیں جب کہ میرا خیال یہ تھا کہ انہوں نے کلہاڑیاں اٹھا رکھی ہیں۔

’’جہاز پر کتنے افراد سوار ہوں گے‘‘

’’دو‘‘ ہم نے جواب دیا۔

’’تو یہ باقی تین افراد رخصت کرنے آئے ہیں؟‘‘

’’جی ہاں‘‘ …’’بس ساٹھ روپے ادا کریں‘‘

ہم میں سے ایک نے مطلوبہ رقم کی ادائیگی کر دی۔ اس ’’شریفانہ‘‘ ٹکیس کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ حکومت کو فنڈ درکار ہیں۔ میں نے ترس کھاتے ہوئے کپڑے بھی اتار ٹیکس دئیے۔ بنیان اور جانگیہ رہ گئے چلنے لگے تو کلہاڑی بردار اہلکار نے پیچھے سے آواز دی۔ ’’بنیان بھی دیتے جاؤ۔ ایک اہم شخصیت کے بیرون ملک دوروں کیلئے تیس لاکھ روپے روزانہ کی ضرورت ہے۔‘‘

کپڑے اتار کر دینے والی بات مبالغہ سہی، تیس لاکھ روپے روزانہ والی بات حقیقت ہے۔ اب وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ پیدل چلنے والوں کو بھی رکاوٹیں پار کرنے کیلئے سڑکوں پر، کچے راستوں پر، تنگ پگڈنڈیوں پر اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانے پر ٹیکس ادا کرنا ہو گا خواہ سفر اپنے گدھے پر بیٹھ کر کیا جا رہا ہو۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی کنوؤں میں بند ہیں ہمیں کوئی اندازہ ہی نہیں کہ کنوئوں کی منڈیر سے باہر ایک دنیا ہے اور وہ دنیا ہمارے کنوئوں کی کائنات سے مختلف ہے۔ پاکستان سے باہر تین قسم کی دنیائیں ہیں۔ ایک عالم اسلام ہے۔ دوسری دنیا غیر مسلم ممالک کی ہے۔ تیسری دنیا پاکستانی تارکین وطن ہیں جو ترقی یافتہ ملکوں میں جا کر بس گئے ہیں۔

عالم اسلام سے ہماری ’’واقفیت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ہمارا اسلام، دوسرے مسلمان ملکوں کے اسلام سے یکسر مختلف ہے، ہم نے ان چیزوں کو اسلام کی اساس بنایا ہوا ہے جودوسرے مسلمان ملکوں میں نظر ہی نہیں آتیں ہمارے سوا کوئی اسلامی ملک ایسا نہیں جہاں ازبکستان، چیچنیا، بوسنیا، عراق، افغانستان، سوڈان، الجزائر، مصر اور سعودی عرب کے ’’مجاہدین‘‘ آکر اسی ملک کی حکومت سے برسرِپیکار ہوں۔ ہمارے علاوہ کوئی ایک اسلامی ملک ایسا نہیں جہاں ڈنمارک کے گستاخانہ خاکوں کے خلاف جلوس نکلا ہو اور اپنی ہی املاک تباہ کی گئی ہوں۔ جو اسلامی ملک عقل مند تھے انہوں نے ڈنمارک کی مصنوعات کا بائی کاٹ کیا ۔ ہمارے اسلام کی رُو سے دنیا بھر کے مسلمان گردن زدنی ہیں جسے یقین نہ آئے اس واقعے کی تصدیق کرا لے کہ یہ دارالحکومت میں پیش آیا کسی ایک مقتدی نے آمین بلند آواز سے کہی۔ سلام پھیرنے کے بعد امامت کرنے والے بزرگ نے پیچھے پلٹ کر دیکھا اور جو تبصرہ فرمایا وہ احاطئہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا اور یہ تو چند دن پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک بزرگ نے، جو حافظ قرآن ہیں اور دین کا علم رکھتے ہیں جوتے پہن کر نماز جنازہ پڑھی ان کا ناک میں دم کر دیا گیا ان سے ’’سند‘‘ پوچھی گئی۔ یہ ایک حقیقت ہے اگرچہ تلخ ہے کہ پاکستان اور اسکے ہمسایہ ملک افغانستان میں جو اسلام رائج ہے وہ پچاس سے زائد اسلامی ملکوں میںکہیں نظر نہیں آتا! رہیں غیر مسلم ممالک اور تارکین وطن کی دنیائیں تو ہمیں انکے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں۔ ان عجیب و غریب دنیاؤں میں شہریوں کے حقوق ہیں عزت نفس ہے، انکی جانیں مال اور عزتیں محفوظ ہیں۔ وہاں کے سرکاری اہلکار اور پولیس کے ارکان عوام کے سامنے سراپا عجز ہوتے ہیں۔ ان دنیاؤں میں شاہراہیں سلامت ہیں سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جاتیں۔ سی این جی ہر روز ہر وقت میسر ہے وزیروں اور ارکان اسمبلی کا معیار زندگی وہی ہے جو عام لوگوں کا ہے۔ کوئی قانون سے ماورا نہیں کسی کو عقیدے کی بنیاد پر پتھر نہیں مارے جاتے، کوئی ملک دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ نصرانیت کا یا یہودیت کا قلعہ ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے علاوہ کسی اور اسلامی ملک نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اسلام کا قلعہ ہے۔ اسلام کا قلعہ ہونا اس بات پر منحصر نہیں کہ دعویٰ کتنا بلند بانگ ہے یہ تو عمل کا مسئلہ ہے۔ اسلام کا قلعہ وہ ہو گا جہاں ملاوٹ ہوگی نہ ذخیرہ اندوزی، صفائی کو عملاً نصف ایمان ثابت کیا جائیگا۔ چینی سیمنٹ، آٹے، گیس اور بجلی کی قلت پیدا کرنیوالوں کو سرعام سزائیں دی جائیں گی۔ کوئی کاظمی ہو یا گیلانی یا قریشی عظیم الجثہ مذہبی ’’رہنما‘‘ ہو یا بڑے سے بڑا مسٹر، جرم کرنے کے بعد بچ نہیں سکے گا اگر یہ سب کچھ نہیں ہے تو شاہراہوں پر ٹریفک روک کر ایک ہزار سال تک نعرے لگانے سے بھی ملک اسلام کا قلعہ نہیں بن سکتا۔
جو گروہ برملا اعلان کرتے ہیں کہ وہ مذہبی بنیادوں پر کام نہیں کر رہے، ان کا معاملہ دوسرا ہے جب وہ برائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو ایک عام شہری صدمے سے دوچار نہیں ہوتا انکے بارے میں کوئی خوش فہمی ہے نہ ان سے امیدیں وابستہ ہیں لیکن وہ جو عبا اوڑھ کر قبا زیب تن کر کے، عمامہ باندھ کر، عصا دردست، چہروں پر سنت رسولؐ آراستہ کر کے چھینا جھپٹی کرتے ہیں تو عوام کے دلوں کو زخم زخم کر دیتے ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھئے اس ملک میں ہر صاحب اقتدار نے اپنے نورِنظر کو فوج سے نکالا اور سول سروس میں ’’داخل‘‘ کیا۔ ایسا کرتے ہوئے کوئی قاعدہ قانون کوئی کلیہ کوئی ضابطہ ملحوظ نہ رکھا گیا حالانکہ ضابطہ یہ کہتا ہے کہ سول سروس میں دس فیصد افرادی قوت مسلح افواج سے آئیگی تو اس کا ایک طریق کار ہو گا۔ یہ طریق کار کبھی نہ اپنایا گیا۔ اس بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے‘ کاش ایک ہی مثال قائم ہو جاتی احتیاط کا اور پاکیزگی کا ایک ریکارڈ قائم ہو جاتا لیکن افسوس ایسا نہ ہوا۔ فیکٹری میں لاؤڈ سپیکر پر بلند آواز سے تلاوت لگانے کے بجائے یہ احتیاط، تقویٰ کا یہ مظاہرہ بدرجہا بلند مرتبہ ہوتا …؎

یہ لا اِلہٰ خوانیاں جائے نماز پر

سُولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے!

نصیحت کی وادی بڑی پرفضا ہے اس وادی میں سیر کرنا آسان ہے اور لطف اندوز بھی۔ آزمائش اس وقت درپیش ہوتی ہے جب ایک طرف اپنا بیٹا ہوتا ہے اور دوسری طرف دوسروں کے نورِ نظر جن کی سفارش ہوتی ہے نہ آگا پیچھا، جب اسمبلی کیلئے خاتون رکن نامزد کرنا ہوتی ہے اور سامنے اپنی بیٹی کا نام آتا ہے جب اپنی زندگی میں اپنا جانشین چننا ہوتا ہے اور سامنے لختِ جگر ہوتا ہے۔ افسوس! صد افسوس! جب ایسے مواقع آتے ہیں تو بے دین عناصر، سیکولر جماعتیں، مذہبی پارٹیاں، دیندار حضرات سب ایک حمام میں نظر آتے ہیں یہ ہے نفاق کی وہ فصل جو مسلسل بوئی جا رہی ہے اور جو عوام کاٹ رہے ہیں اور یہ ہے وہ پس منظر جس کی وجہ سے ووٹر، الیکشن کے دن اہل مذہب سے منحرف ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر عمل دونوں کا یکساں ہے تو پھر میں اپنا ووٹ ان لوگوں کو کیوں نہ دوں جو باہر سے بھی اتنے ہی خراب ہیں جتنے اندر سے۔ کاش ہمارے عبا پوشوں نے فراق گور کھپوری ہی کو پڑھا ہوتا …؎

تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے؟

زمانے سے لڑائی مول لے، تم سے بُرا بھی ہو!

Tuesday, January 04, 2011

گردنیں اور پائوں

دہشت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک نہتا تاتاری پندرہ پندرہ بیس بیس مسلمانوں کو ہانکتا تھا اور چُوں بھی کوئی نہیں کرتا تھا۔ آمو سے لیکر فرات تک بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ تھا جسے تاتاری ہانکتے تھے اور جدھر چاہتے تھے لے جاتے تھے۔

سات صدیاں اور پچاس برس اُوپر ہوگئے ہیں اور آج اٹھارہ کروڑ بھیڑ بکریاں پھر ہانکی جارہی ہیں۔اب کے ہانکا لگانے والے تاتاری نہیں، بھارتی نہیں، امریکی بھی نہیں، ان بھیڑ بکریوں کے اپنے ملازم ہیں۔ یہ بھیڑ بکریاں ان ملازموں کو تنخواہیں دیتی ہیں۔تعیشات سے جگمگاتے محلات عطا کرتی ہیں۔پوشاکیں بخشتی ہیں۔ ان ملازموں کے خانوادوں کو مزے مزے کے راتب مہیا کرتی ہیں۔ پھر یہ ملازم ان بھیڑ بکریوں کو ہانکتے ہیں ان کی پیٹھوں پر کوڑے برساتے ہیں۔ انہیں پتھر مارتے ہیں ۔ان پر کتے چھوڑتے ہیں ، انہیں یوں مخاطب کرتے ہیں
…’’
 اوئے چتکبری، اوئے کالی کھال، اوئے سفید رنگ، تیرا گوشت کھائوں، تیری ہڈیاں ٹوکے سے ٹکڑے ٹکڑے کروں، تیری کھال کے جوتے بنائوں، تیری اُون سے کمبل بُنوں، اوئے چتکبری، اوئے کالی، اوئے تو شام سے پہلے مرے‘‘۔

دُور کیوں جاتے ہیں۔ دارالحکومت ہی کو دیکھ لیجئے۔ آپ راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوتے ہیں چند گز کے بعد گاڑیوں کی طویل قطار کے پیچھے آپ کی گاڑی بھی رُک جاتی ہے۔ پانچ منٹ، پندرہ منٹ، آدھا گھنٹہ! جس رفتار سے بھی گاڑیاں حرکت کر رہی ہیں، چیونٹی اُس رفتار پر قہقہہ لگا دے۔ ان رُکی ہوئی گاڑیوں میں دل کے مریض بھی ہیں، ایمبولینسیں بھی ہیں، حاملہ عورتیں بھی ہیں جوموت اور زندگی کی کشمکش میں ہیں اور ہسپتال پہنچنا چاہتی ہیں۔ ایسے طالب علم ہیں جنہوں نے کمرۂ امتحان میں وقت پر حاضر ہونا ہے۔ شاہراہ بند کردی گئی ہے۔ رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ صرف اتنی جگہ خالی ہے جس میں سے ایک گاڑی مشکل سے گذر سکتی ہے۔ پولیس کا سپاہی کھڑا ہے اور صرف یہ دیکھ رہا ہے کہ گاڑیاں رینگ رینگ کر چلیں اگر رات کا وقت ہے تو وہ گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے چہروں پر ٹارچ کی روشنی پھینکتا ہے۔ ان میں خواتین بھی ہیں۔ مرد دیکھ رہے ہیں کہ انکی عورتوں کے چہروں پر روشنی پھینکی جارہی ہے لیکن یہ کیسے مرد ہیں؟ خاموش،راضی برضا، زنخے!…نہیں، زنخے تو اب اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرنے لگے ہیں، الماس بوبی اپنے گروہ کی نمائندگی بھرپور انداز میں کرتی ہے یا کرتا ہے۔ یہ لوگ جو گاڑیوں میں بیٹھے بے کسی اور بے بسی کی مجسم تصویریں بنی ہوئی ہیں یہ تو بھیڑ بکریاں ہیں۔

گاڑیاں رکاوٹوں سے نکلتی ہیں۔ زیرو پوائنٹ کراس کرتی ہیں، آگے پھر رکاوٹیں ہیں، پھر گاڑیاں رُک جاتی ہیں، دارالحکومت کے ہر موڑ پر، ہر شاہراہ پر، ہر حصے میں رکاوٹیں ہیں، کئی رکاوٹوں پر پولیس کے سپاہی موجود ہی نہیں، لیکن بھیڑ بکریاں پھر بھی رکی ہوئی ہیں،
 گاڑیاں روکی جاتی ہیں،
 گاڑیاں رینگتی ہیں،
گاڑیاں ہانکی جاتی ہیں،
 آج تک ایسا نہیں ہوا کہ رکاوٹوں کی وجہ سے کوئی دہشت گرد پکڑا گیا ہو، بم بلاسٹ ہورہے ہیں، خود کش دھماکے بھی جاری ہیں لیکن دارالحکومت کی بھیڑ بکریوں کو قدم قدم پر ،جگہ جگہ، ہر موڑ پر، ہر شاہراہ پر روکنا ضروری ہے۔ ہاں ایک کسر باقی ہے کہ پیشانیوں پر مُہریں نہیں لگائی جارہیں۔

بھیڑ بکریوں کے اس شہر میں جسے دارالحکومت کہا جاتا ہے اور جہاں رہائشی زمین کا نرخ تین کروڑ روپے فی کنال یا اس سے بھی زیادہ ہے ہاں! بھیڑ بکریوں کے اس قیمتی شہر میں ہر گلی میں پانی بہہ رہا ہے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب قرطبہ اور غرناطہ کی گلیاں صاف ستھری تھیں، لندن اور پیرس کی گلیوں میں ٹخنوں تک پانی کھڑا رہتا تھا، آج لندن اور پیرس کی گلیاں صاف ستھری ہیں اور وہ ملک جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا،اُس ملک کا دارالحکومت گندگی کا ڈھیر ہے۔’’ صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ لیکن دارالحکومت میںنہیں، کروڑوں اربوں روپے ہڑپ کرنے والے ترقیاتی ادارے میں بیٹھے جُہلا کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ہر گھر کے پورچ میں ایک گاڑی کھڑی ہے۔اس گاڑی کو ہر روز دھویا جاتا ہے۔ ہزاروں گاڑیوں کو دھونے کیلئے لاکھوں گیلن پانی ہر روز بہایا جاتا ہے اور اس پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہیں، یہ لاکھوں گیلن پانی پورچوں سے نکلتا ہے اور گلیوں اور سڑکوں میں بہنے لگتا ہے، پیدل چلنے والے پائنچے اُوپر چڑھا لیتے ہیں۔ گاڑیاں چھینٹے اُڑاتی ہیں، چھوٹے بچے گرتے ہیں گندے پانی میںلت پت ہوجاتے ہیں، لیکن بھیڑ بکریاں اُف تک نہیں کرتیں، ترقیاتی ادارے کو ٹیکس دئیے جارہی ہیں، صعوبتیں برداشت کر رہی ہیں۔
گندی گلیاں!
رکاوٹوں سے بھرپور شاہراہیں!
دفتروں میں بیٹھے ہوئے فرعون صفت اہلکار!
 رشوت لینے والے اژدہے! ۔…؎

ان موذیوں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں

نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم

موروثی سیاست دانوں کو مژدہ ہو کہ ان بھیڑ بکریوں میں سکت ہے نہ ہمت، چوہدری ہیں یا شریف ، اے این پی پر حکومت کرنے والا خاندان ہے یا ڈیرے کے مولوی، بھٹو خاندان ہے یا بگتی اور مری سردار، کھوسے ہیں یا لغاری، گیلانی ہیں یا قریشی، پیر ہیں یا مخدوم، سب کو مژدہ ہو کہ بھیڑ بکریوں پر مشتمل اٹھارہ کروڑ کا یہ ریوڑ سر جھکا کر چلتا رہے گا، خانوادے سلامت رہیں گے،
 بلاول آئے گا پھر اُس کا نورِ نظر،
 مونس الٰہی حکومت کرے گا پھر اُس کا خلف الرشید،
 حمزہ شہباز تخت پر جلوہ افروز ہوگا پھر اُس کا لختِ جگر، طلال بگتی کے بعد شاہ زین ، پھر اُس کا وارث،
ایک احسن اقبال پر کیا گلہ اور ایک مشاہد حسین سے کیا شکوہ! کیا کوئی ایک بھی ہے جو اٹھ کہ کہہ دے کہ آخر ہم بھیڑ بکریوں کے بھی کچھ حقوق ہیں۔
کوئی احتجاج نہیں ۔کوئی شکایت نہیں۔احساس تک نہیں۔ یہ تو بجلی ،گیس اور پٹرول کا معاملہ ہے۔خدا کی قسم  آکسیجن بھی بند کر دیں تو بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ میں کوئی اضطراب نہیں پیدا ہو گا۔ اسی لیے تو پولیس کے ہزاروں ملازم اپنی کئی رہائش گاہوں پر مامور کرنے والا وزیر اعلی ا   خونی انقلاب کا مژدہ سناتا ہے اس لیے کہ مذاق کرنا وزیر اعلی ا   کا بھی حق ہے۔ کیسا خونی انقلاب  ؟  یہاں خون ہے نہ انقلاب۔ دس رائے ونڈ اور بنا دیں۔ ایک ""جاتی  عمرہ "" نہیں  بھارت سے بیس نام درآمد کر لیں ۔ افرادی قوّت تک وہاں سے لے آئیں، ہلکا سا ارتعاش بھی نہیں پیدا ہو گا۔  
فرغانہ کی مسجد میں نمازی سر بسجود تھے۔ روسی جرنیل نے ایک طرف سے گردنوں پر پائوں رکھ کر چلنا شروع کیا اور گردنوں پر پائوں رکھتا، صف کے آخر تک پہنچ گیا، آج اٹھارہ کروڑ افراد کی گردنوں پر ایک درجن (یا کم و بیش) خانوادوں کے پائوں ہیں اور اُف تک کی آواز نہیں آرہی۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں گردنیں اس بوجھ سے آزاد ہوجائیں گی تو وہ اپنی بصارت اور بصیرت د ونوں کا علاج کرائے۔
 

powered by worldwanders.com