Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, August 30, 2022

آئیے! میرے گھر پر قبضہ کیجیے!


ایک ایڈووکیٹ صاحب نے لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کے خلاف ایک درخواست دائر کی ہے۔ مدعی کی فریاد یہ ہے کہ حکومت‘ پی آئی اے کے اکاون فیصد حصص‘ اسلام آباد ایئر پورٹ کا کنٹرول اور پی آئی اے کا نیویارک والا ہوٹل‘ قطر کے حوالے کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ وزیراعظم صاحب نے دورۂ قطر کے دوران خود ہی طے کر لیا ہے۔ مدعی نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ اس سارے سودے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور یہ کہ اس سودے کو روکا جائے۔�جہاں تک پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا تعلق ہے‘ اس کی روایت ہی کہاں ہے؟ وزیراعظم صاحب کے برادرِ بزرگ اپنے تین ادوارِ حکومت میں کتنی بار پارلیمنٹ میں تشریف لائے اور کتنے اہم معاملات میں پارلیمنٹ کو شریک کیا؟ عمران خان صاحب کے دورِ حکومت میں پارلیمنٹ کی کیا اہمیت تھی؟ سارا کاروبارِ مملکت تو غیر منتخب مشیروں کا طائفہ چلارہا تھا۔ ویسے‘ پارلیمنٹ میں کسی کی ہمت ہے کہ اس قطر والے سودے کے بارے میں سوال ہی پوچھ لے؟ چیلنج کرنا تو دور کی بات ہے!�رہی یہ بات کہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے کا کنٹرول ایک دوسرے ملک کو دیا جا رہا ہے تو اگر حکومت ہوائی اڈہ نہیں چلا سکتی تو کیا کرے؟ ایئر لائن کا حال سب کو معلوم ہے۔ فی جہاز ملازمین کی تعداد جتنی یہاں ہے‘ شاید کہیں بھی نہیں۔ یہ تو آغاز ہے۔ ہم تو کوئی کام بھی نہیں کر سکتے! کوئی پاکستانی حکومت ڈیم نہیں بنا سکی۔ جاپان میں لاکھوں ڈیم تعمیر کیے گئے ہیں جن میں تین ہزار بڑے ڈیم ہیں۔ جاپان کو کہا جائے کہ آکر ہمیں ڈیم بنا دے۔ ہم سے ریلوے نہیں چل پا رہی۔ بھارت ریلوے کے سیکٹر میں ہم سے بہت زیادہ آگے ہے۔ مگر شریکوں سے تو مدد نہیں مانگتے۔ ریلوے کینیڈا کے سپرد کر دی جائے کہ آکر چلائیں۔ ہماری کچہریوں میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس قلمکار کا چیلنج ہے کہ عمران خان‘ شہباز شریف‘ نواز شریف‘ زرداری صاحب‘ کسی کچہری میں عام آدمی کی طرح جائیں اور‘ کارندوں اور افسروں کی چونچ گیلی کیے بغیر‘ زرعی زمین یا جائداد کا انتقال کرا کے دکھائیں۔ ناروے سے کہیں کہ ہماری کچہریوں کو ''رشوت فری‘‘ کر دے۔ ہمیں سٹیل مل روسیوں نے لگا کر دی تھی۔ ہم نے زور لگا لیا مگر ہم سے نہیں چلی۔ انہی کی خدمت میں درخواست دینی ہوگی کہ آئیں اور چلائیں اور مستقل طور پر یہاں رہ کر چلائیں۔ ہم سے اپنا پاسپورٹ نہیں سنبھالا جا رہا۔ کل ہی خبر پڑھی کہ فتح جنگ میں مقامی لوگ غیر ملکی بھائیوں کی بندوق برداری سے عاجز آچکے ہیں۔ کراچی تک یہی صورت حال ہے۔ بہت عرصہ ہوا ایک عجیب و غریب خبر پڑھی تھی۔ خوست میں رہنے والے چند صاحبان نے پاکستانی پاسپورٹ پر حج کیا تھا۔ عجیب و غریب پہلو اس خبر کا یہ تھا کہ یہ صاحبان پاکستان آئے ہی نہیں تھے! ہمارے شناختی کارڈ غیر ملکیوں میں یوں بٹے ہیں جیسے بچوں میں بتاشے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ڈنمارک سے اپیل کی جائے کہ آکر یہ مسئلہ حل کر دے۔ انڈیا کے پاس دنیا کا ساتواں بہترین زیر زمین ریلوے سسٹم ہے۔ پھر وہی شریکوں والی بات! کیا فرانسیسی بھائی ہمارے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ کراچی‘ لاہور اور پنڈی‘ اسلام آباد میں انڈر گراؤنڈ ریلوے بچھا دیں اور چلا دیں؟ کراچی میں لسانی اور نسلی بنیادوں پر ہم نے اپنی بستیاں الگ الگ بسائی ہوئی ہیں۔ یہی صورت حال آہستہ آہستہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی ابھر رہی ہے۔ یہ ایک انتہائی ناقابلِ رشک صورت حال ہے! ازحد خطرناک! سنگاپور میں تین لسانی اور نسلی اکائیاں آباد ہیں۔ چینی‘ مَلے اور انڈین! کسی ایک اکائی کی بھی الگ رہائشی بستی نہیں ہے۔ فلیٹوں اور اپارٹمنٹوں کے ہر بلاک میں تینوں اکائیوں کی تعداد حکومت کی طرف سے مقرر ہے۔ تینوں اکائیاں خلط ملط ہو کر رہ رہی ہیں۔ کوئی کسی اکائی کو ٹارگٹ نہیں کر سکتا۔ ملائیشیا میں 1969ء میں چینیوں اور مَلے کے درمیان فسادات ہوئے۔ اس کے بعد حکومت نے ایسے اقدامات کیے اور ایسی مؤثر اور دور رس اصلاحات کیں کہ آج تک امن و امان ہے۔ اس سے پہلے کہ ہمارے شہروں سے لاوا پھوٹ بہے‘ ہم سنگاپور اور ملائیشیا سے کہیں کہ آکر ہمیں بھی کوئی سسٹم بنا دیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ہمیں ہر شعبہ‘ ہر سیکٹر آؤٹ سورس کرنا پڑے گا یعنی دوسرے ملکوں سے چلوانا پڑے گا۔ ٹھیکے پر بھی دے سکتے ہیں۔�کسی کو اچھی لگے یا بری‘ اصل بات یہ ہے کہ انگریز بہادر کے جانے کے بعد‘ ایک آدھ عشرہ تو ان کے دیے ہوئے سسٹم چلتے رہے۔ بڑا ٹرک رکتے رکتے بھی چند فرلانگ تو چل ہی جاتا ہے! اس کے بعد‘ ان کی انتظامی باقیات ختم ہونے لگیں تو ہم بے نقاب ہوتے گئے اور آج ہم پوری طرح برہنہ ہو چکے ہیں۔ کوئی ایک کل بھی نہیں سیدھی! آپ اندازہ لگائیے۔ ہسپتالوں پر حملے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر آئے دن ہڑتالیں کرتے ہیں۔ دل کے مریضوں کو سٹنٹ تک جعلی ڈالے جا رہے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ تھانے میں ایف آئی آر درج کرانا ہمالیہ سر کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ تاجر بد ترین اوقات کار پر مُصر ہیں یعنی ظہر کے بعد بازار کھولتے ہیں اور آدھی رات کو بند کرتے ہیں۔ سارا ملک ناجائز تجاوزات کی وجہ سے بدصورت ہے۔ دکانداروں نے آدھی آدھی سڑکیں قبضے میں لی ہوئی ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ واگزار کرائے۔ آپ ٹریفک کا حال دیکھ لیجیے۔ شاید ہی کہیں اتنی مادر پدر آزاد ٹریفک ہو! شاہراہوں پر لوگ مکھیوں مچھروں کی طرح مر تے ہیں۔ اسلام آباد ایئر پورٹ بننے میں دس سال سے زیادہ عرصہ لگ گیا۔ اور یہ ایئر پورٹ ہے کتنا بڑا؟ دبئی یا سنگاپور یا کوالالمپور یا دوحہ یا بنکاک ایئرپورٹ کے مقابلے میں گویا ایک چھوٹا سا دیہی ریلوے سٹیشن! آپ غدر دیکھیے کہ ریلوے لائنوں سے لوہا اکھاڑ لیا گیا اور لکڑی کے تختے لوٹ لیے گئے۔ ریلوے کی زمینوں پر دن کے اجالے میں ڈاکے ڈالے گئے۔ سینکڑوں ایکڑ زمین چھین لی گئی۔ جی ٹی ایس ( گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس) کا کیا انجام ہوا؟ ہر بڑے شہر میں جی ٹی ایس کی بسیں چلتی تھیں۔ طالب علمی کے زمانے میں ڈبل ڈیکر پر بیٹھ کر ہم کالج جاتے تھے۔ آج وہ بسیں کہاں ہیں؟ اسلام آباد میں بہت بڑا جی ٹی ایس ڈپو تھا‘ ایکڑوں کے حساب سے! آج کہاں ہے؟ ہڑپ کر لیا گیا! ایک پنڈی میں بھی تھا۔ کیا کسی رپورٹر کی مجال ہے کہ اس پر کچھ لکھے؟ پر جلتے ہیں جناب! ظلم کی انتہا ملاحظہ کیجیے۔ ہر شہر میں پاکستان کونسل برائے قومی یکجہتی کی لائبریری تھی۔ آج کہیں بھی نہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ لاکھوں کتابیں کہاں گئیں؟ ردی میں بک گئیں یا  گوداموں میں گل سڑ گئیں؟ تعلیمی ادارے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کمین گاہیں ہیں! یونیورسٹیوں میں فسادات ہوتے ہیں۔ طلبہ مارے جاتے ہیں۔ ان کے جنازے سیاسی جماعتوں کے قائدین پڑھاتے ہیں۔ ایک صدی کا تین چوتھائی گزر گیا۔ ہم سے سمگلنگ کا مسئلہ نہ حل ہوا۔ سینکڑوں کے حساب سے غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنیں۔ کہاں؟ کسی دور افتادہ علاقے میں نہیں! وفاقی دارالحکومت میں! اسلام آباد ایئر پورٹ کی عین بغل میں!�نیا تو کیا بنتا‘ جو انفراسٹرکچر‘ جو ادارے‘ انگریز سرکار چھوڑ کر گئی تھی‘ وہ بھی نہ سنبھالے گئے۔ جنگل تک چوری ہو گئے! ابھی تو ایک چھوٹے سے‘ ننھے منے ہوائی اڈے کا انتظام ایک دوسرے ملک کو سونپا جا رہا ہے‘ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!
بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, August 29, 2022

فرشتے بھی حیران ہوتے ہوں گے


آندھرا پردیش میں چوالیس‘بہار میں چوبیس‘ گوا میں پانچ‘ گجرات میں دس‘ہریانہ میں آٹھ‘ ہماچل پردیش میں نو‘ جموں اور کشمیر( مقبوضہ) میں آٹھ‘ کیرالہ میں بیالیس‘ مہاراشٹر میں دو سو چھہتر‘ تامل ناڈو میں انیس‘ تلنگانہ میں پچھتر۔ یہ ڈیم ہیں اور یہ صرف چند بھارتی ریاستوں کی فہرست ہے۔ ان میں سے نوّے فیصد سے زیادہ ڈیم وہ ہیں جو تقسیم کے بعد تعمیر ہوئے۔ کُل ڈیم پانچ ہزار سے زیادہ ہیں۔ اس ضمن میں چین اور امریکہ کے بعد بھارت کا دنیا میں تیسرا نمبر ہے۔ پاکستان میں کُل ڈیم ایک سو پچاس سے زیادہ نہیں!�ظاہر ہے یہ لازم نہیں کہ ایک ملک میں زیادہ ڈیم ہیں تو دوسرے ملک میں بھی اتنی ہی تعداد میں ہوں! بہت سے عوامل ہیں اور وجوہات‘ جو ڈیموں کی تعداد کا فیصلہ کرتی ہیں۔ بارشیں کتنی ہوتی ہیں؟ دریا کتنے ہیں؟ پہاڑوں سے پگھلی ہوئی برف اور گلیشیروں کا کتنا پانی نیچے اترتا ہے؟ زرعی ضرورت کتنی ہے ؟ یہ طے ہے اور اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں جتنے ڈیموں کی ضرورت تھی اور ہے‘ اتنے ڈیم بالکل نہیں تعمیر کیے گئے۔ بھارت کے ساتھ سندھ طاس کا جو معاہدہ ایوب خان کے عہد میں ہوا تھا اس کی رُو سے مشرقی دریا ( بیاس‘ ستلج راوی ) بھارت کے حصے میں آئے تھے اور مغربی دریا ( چناب‘ جہلم‘ سندھ ) پاکستان کے حصے میں۔ ایک معینہ مدت میں پاکستان کو ڈیم بنانے تھے جو نہیں بنے۔�یہ جو سیلاب کا مسئلہ ہے تو سیلاب ہر سال آتا ہے اور دہائیوں سے آرہا ہے۔ اگر اس قلمکار کا خیال غلط نہیں تو موجودہ پاکستان میں سیلاب‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد آنا شروع ہوئے۔ اسے آپ توہم پرستی سے تعبیر کیجیے یا کسی اور چیز سے‘ ہم مغربی پاکستانی‘ مشرقی حصے میں ہر سال آنے والے سیلابوں سے بے نیاز ہی رہا کرتے تھے۔ کہیں یہ اُس لا تعلقی‘ اُس بے نیازی اور اُس سخت دلی کی سزا تو نہیں ؟ بہر طور اتنے عرصے سے سیلاب آرہے ہیں۔ ان کے راستے کم و بیش متعین ہیں۔ موسم کا بھی پتا ہے۔Patternsبھی نئے نہیں۔ یہ ہماری حکومتوں کی مجرمانہ غفلت ہے کہ روک تھام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ ڈیم بنائے گئے نہ پشتے! لوگوں کو متنبہ کرنے کا نظام تک وضع نہیں کیا گیا۔وفاقی سرکار اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی اس معاملے میں کبھی بھی نہیں رہی۔ یہ ہماری عادت بن چکی ہے کہ مصیبت آئے تو شور مچاتے ہیں۔ بیرونی طاقتوں سے مدد کی بھیک مانگتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ آئندہ کے لیے کوئی منصوبہ بنائیں اور مستقبل کو محفوظ کرنے کی فکر کریں۔ ایک طرف پانی کی کمی کا رونا رو رہے ہیں‘دوسری طرف کروڑوں گیلن پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ سٹور کرنے کا بندو بست صفر ہے!�ورلڈ بینک کی رپورٹیں کچھ اور کہتی ہیں۔ ان رپورٹوں کے مطابق تقریباً چالیس ممالک ایسے ہیں جہاں پانی پاکستان سے بھی کم ہے مگر ان کی واٹر مینجمنٹ(Management )بہتر ہے۔ ان کے انتظامات کا معیار اعلیٰ ہے۔ ہمارے ہاں پانی کے ضیاع کی کوئی حد نہیں۔ نہانے میں‘ کپڑے اور گاڑیاں دھونے میں‘ وضو کرنے میں‘ کفایت شعاری سے کام نہیں لیا جاتا۔ دنیا کے کئی ملکوں میں بارش کا پانی گھروں میں جمع کیا جاتا ہے جو گاڑیاں دھونے اور باغبانی کے کام آتا ہے۔ کچھ ملکوں میں بیسن کا پانی فلش کی ٹینکیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور عامل بہت اہم ہے۔ ہم سکولوں‘ کالجوں میں بالخصوص‘ اور عوام کو بالعموم‘ ترغیب ہی نہیں دے رہے کہ پانی کفایت شعاری سے استعمال کریں۔ لوگوں کو پانی کی قدرو قیمت کا احساس ہے نہ خبر! مستقبل کے خطرات سے بھی آگاہی نہیں! ہر سال چار ارب افراد‘ یعنی دنیا کی آبادی کا دو تہائی حصہ‘کم از کم ایک ماہ‘ پانی کی شدید کمی کا سامنا کرتا ہے۔ دو ارب افراد اُن ملکوں میں رہ رہے ہیں جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔2025ء تک دنیا کی آدھی آبادی پانی کی قلت کا سامنا کرے گی۔2030ء تک ستر کروڑ افراد کو پانی کی قلت کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں سے ہجرت کرنا پڑے گی۔2040ء تک ہر چار بچوں میں سے ایک بچہ اپنے علاقے میں پانی کی شدید کمی کا سامنا کرے گا۔ ان مصائب کا علاج اس کے سوا کوئی نہیں کہ مستقبل کی ضروریات سامنے رکھ کر مضبوط منصوبہ بندی کی جائے۔ پانی سے متعلق انفرا سٹرکچر پر توجہ دی جائے۔ نئے منابع تلاش کیے جائیں اور آن لائن ذرائع کو استعمال کر کے لوگوں کو پانی ضائع نہ کرنے کی تلقین کی جائے۔�یہ سطور لکھی ہی جارہی تھیں کہ ایک افسوسناک‘ انتہائی افسوسناک‘ خبر ملی۔ یہ کہ خیموں کی قیمتیں‘ مبینہ طور پر‘ بڑھا دی گئی ہیں۔ جو ہمارا‘ بطور قوم‘ کردار ہے اُس کے پیش نظر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ہم ہمیشہ یہی کرتے آئے ہیں۔رمضان میں کفار کے ممالک میں چیزیں مسلمانوں کے لیے ارزاں کر دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں روزہ داروں کو نوچا اور بھنبھوڑا جاتا ہے۔ غیر مسلم ملک‘ اپنی عید‘ یعنی کرسمس‘ پر سیل لگاتے ہیں جوہمارے ہاں کی جعلی سیل نہیں ہوتی بلکہ اصل سیل ہوتی ہے۔ مگر یہاں عید پر جو مصنوعی مہنگائی کی جاتی ہے اس سے انسانیت شرما کر منہ چھپانے لگتی ہے۔ اس وقت جب ہولناک سیلاب نے قیامت برپا کی ہوئی ہے‘ اور بے گھر خاندانوں کو خیموں کی شدید ضرورت ہے‘ خیموں کی قیمتیں بڑھانا سنگدلی کی انتہا ہے۔ سفاکی‘ بذاتِ خود‘ اس رویے پر رو رہی ہو گی! دنیا سے ہم بھیک مانگ رہے ہیں اور خود متاثرین کی‘ جو زندہ ہیں‘ کھالیں کھینچ رہے ہیں! تُف ہے اس سوچ پر اور ہلاکت ہے اس مائنڈسیٹ پر! کوئی اور ملک ہوتا تو خیمے سستے کر دیے جاتے! کبھی کبھی ذہن میں بلبلہ اُٹھتا ہے کہ سعودی عرب میں کتنے عرصہ سے چائے کے کپ کی‘ پانی کی بوتل کی اور روٹی کی قیمت وہی ہے جو تھی۔ حرمین کے قرب و جوار میں کھانا کھائیں تو ایک فرد کا کھانا دو انسان آسانی کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔ مکہ مکر مہ میں تو‘ اکثر و بیشتر ریستورانوں میں‘ زردہ ساتھ مفت دیتے ہیں۔ لوگوں کی اتنی تعداد اگر ہمارے ملک میں آ جائے تو ہم تو ناروا منافع خوری کی دھن میں باؤلے ہی ہو جائیں۔ وہی کچھ کریں جو رمضان میں اور عید پر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ کچھ وڈیروں نے اپنی زرعی زمینیں بچانے کے لیے‘ پانی کا رُخ آبادیوں کی طرف موڑ دیا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ انسان پستی کے اس درجے تک گر سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ خبریں درست ہیں تو ایسے لوگ زندگی ہی میں اس ظلم کا نتیجہ بھگتیں گے۔ قدرت کے قوانین کسی جاگیردار کے لیے تبدیل ہوتے ہیں نہ کسی صنعتکار کے لیے نہ کسی حکمران کے لیے۔ بدی کا بدلہ بدی ہی سے ملے گا۔ نظیر اکبر آبادی یاد آگئے؎

دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی سات لے�نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے�میوہ کھلا میوہ ملے پھل پھول دے پھل پات لے�آرام دے آرام لے دکھ درد دے آفات لے
�ہم‘ شاید‘ من حیث القوم‘ تضادات اور اضداد کا مجموعہ ہیں۔ ہم میں سے کچھ‘ سیلاب زدگاں پر سب کچھ نچھاور کرنے پر تیار ہیں۔ لوگ اپنی قیمتی رضائیاں اور گراں بہا پوشاکیں ایسے مواقع پر دے دیتے ہیں۔ مگر ہم میں سے کچھ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے انسانی جسم سے گوشت تک کاٹ لینا چاہتے ہیں! آخر ہم کیسی قوم ہیں! آسمانوں پر فرشتے بھی حیران و پریشان ہوں گے!
بشکریہ روزنامہ دنیا

Saturday, August 27, 2022

اپنے اپنے تیمور

اپنے اپنے تیمور


ایئر پورٹ سے واپسی پر سب سے پہلے نظر اُس بڑے سے شاپنگ بیگ پر پڑی جس میں وہ اپنا ''سامان‘‘ ٹھونستا رہا تھا۔

اپنے خیال میں وہ اپنی پیکنگ کر رہا تھا۔ کانپتے ہاتھوں سے شاپنگ بیگ کو پکڑا۔ اندر جھانکا۔ کھلونے، ریموٹ کنٹرول۔ رنگین پنسلیں،ہائی لائٹر، خالی ڈبّے، بیٹریوں کے سیل، پرفیوم کی ایک خالی شیشی، مختلف قسم کی چابیاںیہ تھا سامان اُس چھ سالہ مسافر کاچھ سالہ تارکِ وطن کاوہ مصر تھا کہ اسے ساتھ لے کر جائے گا‘ مگر بچوں کی سنتا کون ہے؟ دادا، دادی نے سب سے پہلے اٹیچیکیس میں اس کا سامان رکھنا تھا مگر یہ تو ماں باپ تھےماں نے کڑے لہجے میں فیصلہ سنایا کہ اس کاٹھ کباڑ کی گنجائش نہیںہےکاٹھ کباڑ؟؟؟؎

محبت ہے اور اک دیوان ہے اور ایک چھاگل

یہ سامانِ سفر ہے، مرو سے رَے جا رہے ہیں

شاپنگ بیگ اٹھایا، نہ معلوم آنسو کہاں سے آ گئےاحتیاط سے، کمال احتیاط سے، کپڑوں والی الماری میں رکھا۔ جب بھی جانا ہوا، لےکر جائوں گا اور امانت اس کے مالک کے سپرد کروں گا!

ایک ماہ اس کا قیام رہا!؎

یوں گزرا وہ ایک مہینہ 

جیسے ایک ہی پَل گزرا تھا

جیسے ہر روز روزِ عید تھا، ہر شب شبِ براتناشتہ کرنے کے بعد ہم اکثر اُس تین منزلہ پارک میں چلے جاتے جو گھر کے قریب تھا اوراس کی پسندیدہ جگہوں میں سے ایکپہلے ہم نیچے پورا چکر لگاتے۔ یہاں پرندے تھے اور کچھ جانورپھر گھاس کی روشوں پر چہلقدمی کرتے۔ واک کا اسے اتنا ہی شوق ہے جتنا ایک بڑی عمر کے سنجیدہ شخص کو ہو سکتا ہےفوارے چل رہے ہوتے تو ان کا نظارہکرتےپھر وہ بھاگتے بھاگتے، آگے آگے، سیڑھیاں چڑھتا اور اوپر کی منزل پر جا پہنچتا۔ پیچھے پیچھے میںاس کی رفتار کا ساتھدینے کی کوشش کرتا ہوا۔ اوپر کی دونوں منزلوں پر مصنوعی گھاس لگی ہوئی ہے۔ اِدھر اُدھر کوئی کوڑا کرکٹ نظر آتا تو کمنٹ ضروردیتا... ''یہ کتنے گندے لوگ ہیں جو کوڑا ڈسٹ بِن میں نہیں ڈالتے‘‘۔ شام کو اکثر ڈیفنس کلب یا اسلام آباد کلب کا چکر لگتا۔ کچھ وقتوہ ان ڈور کھیلوں والے کمرے میں گزارتا۔ پھر ہم کچھ کھاتے پیتےجن دنوں اس کے کزن بھی آئے ہوئے ہوتے، خوب ہنگامہ رہتا!؎

پوتوں، نواسیوں کے چمن زارواہ واہ!

اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے

دن کا کچھ وقت وہ گھر کی اوپر کی منزل پر ضرور گزارتا۔ وہاں کوئی نہ ہوتا سوائے اُس کے، نہ معلوم کیا کرتا رہتا۔ گمان غالب یہ ہےکہ اپنا ''سامان‘‘ تھیلوں اور شاپنگ بیگوں میں پیک کرتا رہتا۔

اصل مزا رات کو آتا۔ اوّل تو سونے کو اُس کا دل نہ کرتا۔ کوشش اس کی یہی ہوتی کہ جتنا وقت کھیل کود میں، مٹر گشت میں،ترپوسیاں لگاتے گزر جائے، اتنا ہی اچھا ہےماں یا باپ دانت صاف کرنے، کپڑے بدلنے اور سونے کا کہتے تو ہر ممکن حد تک اِنکارہائے گراں کو ٹالنے کی کوشش کرتا۔ پھر میں اسے یاد دلاتا کہ سونے سے پہلے کہانی بھی سننی ہےبستر پر آ کر، پہلے ایک بارگلے لگتا، پھر کہتاکہانی سنائیںہمارے بہت سے خیالی کردار ہیںٹِکلُو، پنٹو (Pinto) پنٹو کا کزن ٹونکا، کِٹ کِٹ، کئی بار سوچا کہان سخت دلچسپ Spell binding قسم کی کہانیوں کو ضبطِ تحریر میں لا کر شائع کر دیا جائے تاکہ دوسروں کے پوتے، نواسے بھیمحظوظ ہو سکیں مگر اے بسا آرزوکہ خاک شدہکارہائے بے مصرف کا ہجومکاہلی کی آہنی گرفت اور مزاج میں شہنشاہ ہمایوںجیسا تلوّن!! زیرِ تصنیف خود نوشت بھی انہی مسائل کا شکار ہے!

اکثر و بیشتر وہ پِنٹو کی کہانیوں کی فرمائش کرتا۔ پنٹو ہمارے کرداروں میں سب سے زیادہ شریر اور ناقابلِ اعتبار ہےبہت ماہ پہلے،آسٹریلیا میں اسے کہانی سنائی جس میں پنٹو اپنی بائیسکل پر میلبورن سے پاکستان روانہ ہوتا ہے۔ آسٹریلیا سے بحری جہاز کےذریعے انڈونیشیا پہنچتا ہے، پھر ملائیشیا۔ تھائی لینڈ پہنچ کر وہ مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ سائیکل چوری ہو جاتی ہے۔ اس کےبعد کا سفر جان جوکھوں کا ہے۔ کئی ماہ کے بعد اس نے کہانی لفظ بہ لفظ سنا دی۔ حافظہ کمال کا ہے۔ جو کہانی رات کو سنتا ہے،دوسرے دن، تمام جزئیات کے ساتھ ماں کو سناتا ہےہمارے دوست جناب ہارون الرشید ناموں کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ اس کانام تیمور سنا تو کہاتیمور نے کون سے اچھے کام کیے تھےخیرکچھ اچھے بھی یقینا کیے ہوں گےکم از کم حافظ شیرازی کو توکوئی سزا نہیں دیاُس کا شعر جب سنا ؎

اگر آن ترک شیرازی بدستِ آرد دلِ ما را

بخالِ ہندواش بخشم سمرقند و بخارا را

تیمور کو شکوہ تھا اور غصّہ کہ دنیا بھر سے کاری گر، نقاش، معمار، آہن گر اور شیشہ ساز اکٹھے کر کے اس نے سمر قند اور بخاراکو بہترین شہروں کی صورت بخشی اور یہ تہی دست، بے مایہ شاعر ایک تِل کے بدلے اپنے محبوب کو دے رہا ہےمگر جب حافظؔ نےبتایا کہ اپنی غلط بخشیوں نے تو اسے اس حال تک پہنچایا ہے تو تیمور حاضر جوابی سے محظوظ ہوا!

کم از کم تیمور کا حافظہ میرے تیمور جتنا حیران کُن ضرور ہو گا۔ ہو سکتا ہے اِس سے کچھ کم ہی ہو!! ناموں کے حوالے سے اس کالمنگار کے نزدیک دو صفات ہی ضروری ہیںصوتی تاثّر خوشگوار ہو اور مشکل نہ ہو۔ سننے والا یہ نہ پوچھے کہ کیا کہا؟

میرے پاس سونے میں اور سونے سے پہلے کہانی سننے میں تعطّل اُس وقت آیا جب لاہور سے اس کی ماہ وش پھپھو آ گئی جسے اسکے بھتیجے بھتیجیاں ماش پھپھو کہتی ہیں۔ ماش پھپھو کا نقصان مجھے یہ ہوتا ہے کہ جان چھڑکنے والی پھپھو بچوں کو عجیب غیرمرئی گرفت میں لے لیتی ہےجس دن وہ پہنچی ہے، اُس دن، رات کو تیمور سے کہا کہ چلیں کہانی سُن کر سوئیں تو آنکھیں جیسےماتھے پر رکھ لیں۔ جا کر بازو، پھپھو کی گردن میں حمائل کر دیئے اور کہامیں نے آپ کے پاس سونا ہے!

روانگی سے پہلے، قیام کے آخری ایام میں اس پر بھی میری طرح ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ کبھی کہتا‘ میں یہیں رہنا چاہتاہوں۔ کبھی کہتا‘ آپ کو بہت مِس کروں گاایئر پورٹ کے ریستوران میں بیٹھے تھے کہ آیا اور کہنے لگا‘ مجھے واک کرائیں۔ ہم نے ایئرپورٹ کے برآمدوں، چائے خانوں اور لائونجوں میں واک کیجاتے وقت گلے ملا اور کہاآپ نے جلدی آنا ہےیوں جیسے چھ ساڑھے چھبرس کا نہیں، اپنی عمر سے بہت آگے ہے!!

ایک زمانہ بحری جہاز فراق کا استعارہ تھے۔ عاشق سفر پر نکلتے تو کہتے؎

سمندروں کے سفر پر نکل رہا ہے کوئی

نہ دیکھنا دمِ رخصت پُر آب آنکھوں سے

پھر کفّار نے ریل ایجاد کی۔ مدتوں ریل جدائی کی علامت رہی؎

وہ رینگنے لگی گاڑی وہ ہاتھ ہلنے لگے

وہ رنگ رنگ کے آنکھوں میں پھول کھِلنے لگے

عالمی جنگوں میں برِّصغیر کی مائوں کے بچے ٹرینوں میں بھر بھر کر دساور لڑنے کے لیے بھیجے گئے۔ مگر قیامت تو ہوائی جہاز نےبرپا کیاب عشاق نہیں، معشوق رخصت ہونے لگے؎

جہازاں تے چڑھ گئے او

مار کے باریاں

اَنّھے ہنیرے کر گئے او

یہ ایک تیمور، ایک حمزہ اور ایک اظہارالحق کی کہانی نہیںیہ ہر گھر کی کہانی ہےہر دادا کا تیمور، ہر نانا کا حمزہ سمندر پارہےکانپتے رعشہ زدہ ہاتھ، جھکی کمریں، کمزور بصارتیں، بے رحم ایئر پورٹوں پر اپنے اپنے تیمور، اپنے اپنے حمزہ، اپنی اپنی زہرا کورخصت کرتی ہیںآنسو چھلک چھلک آتے ہیں۔ بوجھل تھکے تھکے قدموں سے بابے گھروں کو پلٹتے ہیں۔ 

کوئی آنسو رخساروں پر بہاتا ہے اور کوئی اندر دل کے رخساروں پر... کہنے کو کرۂ ارض، دوسرے سیاروں کی نسبت چھوٹا ہے مگر اُنسے پوچھو جن کے پارہ ہائے جگر دُوریوں کی زد میں ہیں؎

بیٹے اِسی زمین پہ رہتے رہے مگر

حائل ہمارے بیچ سمندر بہت رہا


ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ دوسرے ملکوں سے لوگ ملازمتیں ڈھونڈنے ہمارے ہاں آیا کریں گےبلا سے دوسرے نہ آئیں، ہمارے اپنےجگر کے ٹکڑے تو واپس آ جائیں، مگر کیسے واپس آئیں۔ میرٹ اب بھی عنقا ہےسفارش اب بھی راج کر رہی ہےاقربا پروری اب بھیاہل کو ملک سے باہر جانے پر مجبور کر رہی ہے تا کہ نااہل کی چاندی ہو جائےکبھی ڈاکٹروں کو پیٹا جاتا ہے کبھی پروفیسروں کوسائنسدان کی اتنی بھی عزت نہیں جتنی پٹواری کی ہے یا ایس ایچ او کی یا سیکشن افسر کیایشین ٹائیگر نہ بنیں ایشین خرگوشیا ایشین بلّی ہی بن جاتے۔ ایسا ماحول ہوتا، ایسے حالات ہوتے کہ باہر گئے ہوئوں (Brain drain) کی واپسی ہو جاتیتب تکایئرپورٹوں سے آنسو بہاتے، واپس آتے رہیےاور آ کر اپنے اپنے تیمور کے کھلونے جمع کرکے، سنبھال کر رکھتے رہیے؎

نشاں کہیں بھی نہ تھے اُس کی انگلیوں کے مگر

میں گھر کی دیکھ کے ایک ایک چیز رویا تھا

 

powered by worldwanders.com