اگر آپ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا نقشہ دیکھیں تو اس کی جنوب مشرقی ریاست فلوریڈا کا ایک سرا سمندر میں دور تک جاتا دیکھیں گے جیسے آبنائے ہو یا جزیرہ نما! اس کے جنوب اور جنوب مشرق میں جزیروں کا ایک جھنڈ ہے جسے جزائر غرب الہند کہتے ہیں یا ویسٹ انڈیز۔ انہی جزائر میں بہاماس کے جزیرے بھی ہیں جہاں دنیا کے امیر لوگ تفریح کے لیے آتے ہیں۔ انہی جزائر میں ایک ملک ہیٹی بھی ہے۔ ہیٹی کی تاریخ دلچسپ ہے۔ یہ پہلے ہسپانیہ کی اور پھر فرانس کی کالونی رہا۔ افریقہ سے لائے ہوئے غلاموں سے گنے کی وسیع شجر کاری کرائی گئی جس کی وجہ سے ہیٹی انتہائی امیر علاقوں میں شمار ہونے لگا۔ پھر انہی غلاموں نے آزادی کی تحریک چلائی اور آزادی حاصل کر لی۔ دنیا کی تاریخ میں ہیٹی واحد ملک ہے جسے غلاموں نے خود آزاد کرایا اور پھر خود حکومت کی۔ لاطینی امریکہ اور جزائر غرب الہند میں ہیٹی پہلا ملک تھا جہاں غلامی کو منسوخ کیا گیا اور جس نے آزادی حاصل کی۔
ہیٹی ایک اور سبب سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں قدیم زمانوں سے یہ تصور پایا جاتا ہے کہ جادو ٹونے کے زور سے مردے کو اٹھایا جا سکتا ہے اور ایک زندہ شخص کی طرح اس سے نقل و حرکت کرائی جا سکتی ہے۔ ایسے مردے کو زومبی (Zombie) کہا جاتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ زومبی کا تصور وہ غلام لائے تھے جو افریقہ سے پکڑ کر لائے گئے تھے۔ گنے کی شجر کاری پر جن افریقی غلاموں سے بیگار لی جاتی تھی‘ ان کی زندگی اذیت اور ناامیدی کے سوا کچھ بھی نہ تھی۔ ان میں سے کچھ خود کشی کر لیتے تھے۔ ان کے نگران بھی غلام تھے۔ خود کشی سے روکنے کے لیے یہ نگران ماتحت غلاموں کو ڈراتے تھے کہ اگر انہوں نے خود کشی کی تو مرنے کے بعد انہیں زومبی بنا کر یہی بیگار لی جائے گی۔
1930ء کے بعد زومبی کے تصور پر فلمیں بننے لگیں۔ آج کل تو ڈراؤنی (Horror) فلموں کی وجہ سے بچہ بچہ زومبی کے لفظ سے آشنا ہے۔ بہر طور‘ زومبی کا قدیم تصور‘ جو ہیٹی سے چلا‘ یہی تھا کہ جادوگر‘ جسے ووڈو( Voodoo)کہتے تھے‘ زومبی پر مکمل کنٹرول رکھتا تھا۔ زومبی اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا ذہن اس کے اپنے اختیار میں نہیں تھا۔ اس میں جو کچھ بھرنا ہوتا تھا‘ جادوگر ہی بھرتا تھا۔
اس تصور کو ہیٹی میں پیدا ہوئے صدیاں گزر گئیں۔ اب زمانہ اور ہے۔ اُس زمانے کے جادوگر سوچ بھی نہیں سکتے کہ سائنس کہاں پہنچ گئی ہے اور ٹیکنالوجی نے انسان کو کہاں پہنچا دیا ہے! مگر آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ زومبی عورتیں اور زومبی مرد آج بھی پائے جاتے ہیں اور کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ آج کے یہ زومبی‘ قدیم زمانے کے زومبیوں کی طرح کفن میں ملبوس نہیں ہوتے۔ نہ ہی فلموں میں دکھائے جانے والے زومبیوں کی طرح یہ ماڈرن زومبی چیتھڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں نہ ہی ان کے چہرے اور گلے جھریوں سے اٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دیکھنے میں یہ زومبی بالکل زندہ انسانوں کی طرح لگتے ہیں۔ دفتروں‘ کارخانوں‘ بینکوں‘ کچہریوں‘ عدالتوں اور بازاروں میں کام کرتے ہیں۔ کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ لا تعداد ان میں خوش لباس ہیں۔ سوٹ بوٹ پہنتے ہیں‘ ٹائی لگاتے ہیں۔ شلوار قمیص کے اوپر واسکٹ پہنتے ہیں۔ ان میں اکثریت پڑھے لکھوں کی ہے۔ کئی تو باہر سے یعنی مغربی ملکوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں۔ ان زومبیوں میں ہر طبقے کے لوگ ہیں۔ مڈل کلاس بھی‘ امرا بھی! نوجوان بھی جو ایم بی اے ہیں اور بوڑھے بھی جو اب کام کے ہیں نہ کاج کے! زومبی عورتوں کی تعداد تو بہت زیادہ ہے۔ یہ انگریزی بولتی ہیں۔ ماڈرن لباس پہنتی ہیں۔ کچھ زومبی امریکہ میں اور یورپی ملکوں میں مقیم ہیں۔ یہ آسودہ حال ہیں۔ وہیں کے شہری ہیں۔ ان کی جائیدادیں‘ اولاد‘ مستقبل سب کچھ بیرونِ ملک ہی ہے۔ ان کی واپسی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ یورپ اور امریکہ ان کے لیے جنت ہے اور ارضِ موعود یعنی Promised Land‘ وہاں کے مکانات‘ گاڑیاں‘ ملازمتیں‘ کاروبار‘ آزادی اور سہولیات چھوڑ کر ان کا پلٹ کر آنا تقریباً ناممکن ہے۔
مگر اس تنوع‘ رنگینی‘ گُونا گُونی اور تفاوت کے باوجود ان تمام مقامی اور بیرونی زومبیوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے ان کا زومبی ہونا! ان کے دماغ‘ ان کے ذہن‘ ان کی سوچیں مکمل طور پر جادوگر کے تصرف میں ہیں! بظاہر جیتے جاگتے‘ خوش لباس‘ کھاتے پیتے لوگ‘ اصل میں مردے ہیں اور اُسی طرح جادوگرکے قبضے میں ہیں جیسے قدیم زمانے کے زومبی جادوگر‘ یا چڑیل کے قبضے میں ہوتے تھے۔ جادوگر جو بتا دے اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ وہ کہے اُٹھو‘ تو یہ اُٹھ جاتے ہیں! وہ کہے بیٹھو‘ تو یہ بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ کہے کہ ستارے توڑ لائے گا تو یہ مان لیتے ہیں۔ وہ کہے کہ اس کا ماضی شیشے کی طرح شفاف ہے تو یہ سر جھکا کر جی ہاں کہتے ہیں۔ جادو گر حکم دے کہ فلاں پر حملہ کر کے اسے چیر پھاڑ دو تو یہ حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ وہ کہے کہ فلاں کو گالی دو تو یہ گالی دیتے ہیں۔ وہ کہے کہ فلاں ولی ہے تو اسے ولی مانتے ہیں۔ وہ کہے کہ فلاں چور ہے تو اسے چور کہتے ہیں۔ یہ زومبی ایک لحاظ سے ذہنی غلام ہیں۔ یہ کٹھ پتلیاں ہیں جنہیں جادوگر نچاتا ہے۔ ان کی سب سے اہم اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ جادوگر سے کوئی سوال نہیں کرتے۔ یہ اس سے کچھ پوچھتے نہیں! یہ اس کے حکم کی تعمیل کرتے وقت اس کا انجام نہیں سوچتے۔ یہ جادوگر کی کسی بات کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ جادوگر سے کسی دعوے کی دلیل نہیں طلب کرتے۔ وہ کسی پر الزام لگائے تو یہ زومبی ثبوت نہیں مانگتے۔ یوں سمجھیے یہ موم کے بنے ہوئے پتلے ہیں۔ جادوگر نے ان کے دماغوں کو ان کے سروں سے نکال کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا ہے۔ اب یہ چلتے تو ہیں‘ مگر سوچ نہیں سکتے۔ یہ کھاتے پیتے تو ہیں مگر غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے کی صلاحیت سے عاری ہیں! یہ عبرت کا مرقع ہیں! ان پر افسوس تو کیا جا سکتا ہے انہیں سوچنے اور سوال کرنے کی طاقت نہیں دی جا سکتی! یہاں تک کہ ان کی آنکھیں بھی ان کے اپنے اختیار میں نہیں۔ اگر جادوگر ریگستان کو کہے کہ یہ باغ ہے‘ تو یہ بھی اسے باغ کہیں گے۔ اگر جادوگر صحرا کو سمندر کہے تو انہیں صحرا میں کشتیاں دکھائی دینے لگیں گی!
اس بات کا‘ بہر طور‘ کوئی امکان نہیں کہ زومبیوں کا یہ عظیم الشان لشکر کوئی کارنامہ سرانجام دے سکے گا۔ اس لیے کہ یہ محض ڈھانچے ہیں۔ ان کے اندر دماغ نہیں۔ یہ اُس کھوپڑی کی طرح ہیں جو الٹی پڑی ہے اور اس کے اندر چوہا ہے۔ جدھر یہ چوہا چلتا ہے‘ کھوپڑی اسی طرف چلتی ہے۔ چوہا رُک جاتا ہے تو کھوپڑی بھی رُک جاتی ہے۔ انہیں بالکل نہیں معلوم کہ جادوگر کا ایجنڈا کیا ہے۔ اس سے بھی بدتر سچائی یہ ہے کہ انہیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں۔ یہ تو زومبی ہیں۔ ان کے لیے یہ بات ہی اطمینان بخش ہے کہ ان کے ذہن مکمل طور پر جادو گر کے کنٹرول میں ہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment