Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, June 28, 2018

تیرے سب خاندان پر عاشق

’امید کرتا ہوں چوہدری نثار پارٹی کا حصہ بن کر الیکشن لڑیں گے ہر چیز ممکن ہوتی ہے۔ بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں۔ یہ چیز کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے وہ پارٹی کی طرف ہی سے الیکشن لڑیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے کہ کچھ لوگ ٹکٹ حاصل نہ کر سکے لیکن انہوں نے پارٹی پلیٹ فارم ہی سے الیکشن لڑا۔ ہماری خواہش بھی ہے کہ وہ پارٹی کے پلیٹ فارم ہی سے الیکشن لڑیں۔ چودھری نثار پارٹی کے سب سے پرانے رکن ہیں۔‘‘

 یہ بیان سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ انہی کا ہو سکتا ہے۔ 

چودھری نثار ایک طرف میاں نواز شریف کی حد سے بڑھی ہوئی انانیت اور زبان حال سے ان کے اعلان’’انا و لا غیری‘‘کا شکار ہوئے اور دوسری طرف دختر نیک اختر کے اس زعم کا کہ وہ نون لیگ کی سلطنت کی تنہا وارث ہیں! کس کو معلوم نہیں کہ شہباز شریف نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ چودھری نثار کے اور نون لیگ کے درمیان ہر لحظہ بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹا جائے۔ اعلان بھی کر دیا گیا کہ نثار کے مقابلے میں پارٹی امیدوار نہیں کھڑا کرے گی پھر مبینہ طور پر لندن سے ایک وٹس ایپ آیا اور سب کچھ بدل گیا‘ امیدوار کھڑے کر دیے گئے۔ شاہد خاقان عباسی صاحب میں اتنی ہمت نہیں کہ اس معاملے میں ایک بے ضرر اور بے معنی بیان کے علاوہ کچھ کر سکیں! وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اصل قصور وار کا نام لیں اس کی طرف اشارہ ہی کر دیں۔

 شاہد خاقان عباسی میاں نواز شریف کے اندرونی سرکل(کچن کابینہ) کا حصہ کبھی نہیں رہے۔ اس کچن کابینہ میں چودھری نثار علی خان کے سوا سب ارکان وسطی پنجاب سے تھے۔ احسن اقبال‘ خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ اسحاق ڈار‘ عابد شیر علی‘ خرم دستگیر ‘ رانا ثناء اللہ‘ انوشہ رحمن سب وہیں سے ہیں چودھری نثار علی خان کے حوالے سے اس کالم نگار نے برسوں پہلے لکھا تھا کہ ع مگر ایک میر شکستہ پا ترے باغ تازہ میں خار تھا وہ ہمیشہ 
odd man out
رہے۔ صاف گوئی اور بات منہ پر کرنے کی وجہ سے! انانیت کا مسئلہ چودھری نثار علی خان میں بھی میاں نواز شریف سے کم نہیں! سیاسی اتار چڑھائو پر گہری نظر رکھنے والے جانتے تھے کہ ع دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا چودھری نثار علی خان اور میاں نواز شریف کا باہمی معاملہ ایک عرصہ سے کچھ اس طرح کا رہا کہ ؎ بامن آویزشِ اُو الفتِ موج است و کنار دمبدم بامن و ہر لحظہ گریزان ازمن کہ میرے اور اس کے درمیان معاملات کا جو الجھائو ہے کہ اسی طرح ہے جیسے ساحل اور موج کا تعلق ہے۔ موج ہر وقت ساحل کی طرف لپک کر آ رہی ہوتی ہے۔مگر دوسرے ہی لمحے ساحل کو چھو کر اس سے دور جا رہی ہوتی ہے۔ ایک عرصہ سے جاری اس الجھائو کے حوالے سے چودھری نثار علی خان یہ بھی کہہ سکتے ہیں ؎ کئی دن سلوک وداع کا مرے درپئے دل زار تھا کبھو درد تھا کبھو داغ تھا کبھو زخم تھا کبھو وار تھا چودھری نثار علی خان کے سوا کوئی اور خوش قسمت ایسا نہ تھا جو نواح لاہور سے نہ ہو اور دیوان خاص میں متمکن ہو سکتا ہو۔ حنیف عباسی ہوں یا اٹک کے شیخ آفتاب احمد! کوئی بھی اس مقام تک نہ پہنچ سکا مشاہد اللہ خان بھی سلوک کی مطلوبہ منازل طے نہ کر سکے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم کیوں مقرر کیا۔ میاں صاحب کی ذہانت ‘ مردم شناسی اور معاملہ فہمی کی داد دینا پڑتی ہے! اگرچہ وہ فائل نہیں پڑھتے۔ توجہ کے ارتکاز کے بھی قائل نہیں! مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ع دیوانہ بکارِ خویش ہُشیار ان کے حسن انتخاب کی داد دینا پڑتی ہے ۔ شاہد خاقان عباسی صاحب نے جس کمال اطاعت کا ثبوت دیا ہے کوئی اور ہوتا تو ہرگز نہ دے سکتا! انہوں نے سانس لیتے وقت بھی رائے ونڈ کا منشا معلوم کیا۔ بارہا اعلان کیا کہ میرے وزیر اعظم میاں صاحب ہیں! حکومت ختم ہونے سے چند روز پہلے کابینہ میں مضحکہ خیز توسیع سے بھی گریز نہ کیا کہ حکمِ حاکم تھا! نیب اور عدلیہ کے خلاف بھی جو ہو سکا اور جو حدود کے اندر رہ کر ممکن تھا کہتے رہے! یہی اطاعت گزاری تھی اور غیر مشروط مکمل وفاداری کہ جس کے طفیل کچن کابینہ کا حصہ نہ ہونے کے باوجود پاکستان کے وزرائے اعظم کی فہرست میں ان کا نام شامل ہو گیا۔ مسلم لیگ کے امیدوار جو چودھری نثار علی خان کے خلاف کھڑے کیے گئے‘ بالواسطہ طور پر تحریک انصاف کے امیدوار غلام سرور خان کی ڈھارس بندھا رہے ہوں گے مسلم لیگ نون کے ووٹ منقسم ہونے سے اس حلقے میں فائدہ تحریک انصاف کو ہو گا اور غلام سرور خان کے جیتنے کے امکانات پہلے سے زیادہ روشن ہو سکتے ہیں! 

رہا چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنسوں کا وقفے وقفے سے ہونے والا سلسلہ تو اب ناظرین اور سامعین کے لیے اس میں کوئی چارم‘ کوئی افسوں کوئی سحر باقی نہیں رہا۔ چودھری صاحب نے ثابت کر دیا کہ وہ کھل کر مخالفت نہیں کر سکتے اور گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو چار پیچھے ع 
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں 
غالباً میاں شہبازشریف کے ساتھ ان کے جو نسبتاً گوارا تعلقات ہیں‘ وہ راستہ روک رہے ہیں اور چودھری صاحب خم ٹھونک کر کھڑا نہیں ہو رہے ویسے بھی بس نکل چکی ہے۔ اگر آغاز میں وہ اپنا گروپ بنا لیتے تو مسلم لیگ نون کے دل شکستہ اور شاکی حضرات ان کے گروپ کو غنیمت سمجھتے ہوئے ساتھ آن کھڑے ہوتے مگر ان تلوں میں تیل نہ پا کر اب وہ زعیم قادری صاحب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ 

بڑی پارٹیوں میں جمع تفریق ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ زعیم قادری اور عبدالغفور صاحبان کی علیحدگی(یا بغاوت) پر مسلم لیگ نون کے جو مخالف بھنگڑے ڈال رہے ہیں اور تیرہ تالی کھیل رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بڑی جماعتوں سے لوگ نکلتے رہتے ہیں۔ تاہم ان کی آزادانہ حیثیت قابل ذکر نہیں رہتی۔ زعیم قادری اور عبدالغفور‘ چودھری نثار نہیں بن سکتے بلکہ چودھری نثار علی خان کی حیثیت بھی پارٹی سے نکلنے کے بعد اب بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف سے جسٹس وجیہہ الدین نکلے تو پارٹی کو کوئی ڈینٹ نہیں پڑا۔ اب اگر حامد خان یا ولید اقبال داغ مفارقت دے جائیں تو تب بھی ذرا سا گھائو لگے گا جو جلد مندمل ہو جائے گا۔ ؎ 
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
 کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
 اس لیے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوری نہیں‘ خاندانی اور شخصی ہیں! حافظ حسین احمد کئی سال برگشتہ رہے مگر جے یو آئی کا کچھ نہیں بگڑا اس لیے کہ پارٹی کا دوسرا نام مولانا فضل الرحمن ہے‘ انہیں پارٹی کی قیادت ووٹوں سے نہیں‘ اپنے والد گرامی مرحوم سے وراثت میں ملی ہے۔ یہی حال تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کا ہے۔ نون کا حرف مسلم لیگ کا نہیں‘ نواز شریف کا ہے۔ مسلم لیگ کے حروف میں تو نون آتا ہی نہیں! شریف خاندان کا تسلط ہٹا تو یہ تسبیح دانہ دانہ بکھر جائے گی۔ تحریک انصاف کا بھی یہی حال ہے‘گروپنگ عمران خان کی قیادت کے باوجود دراڑیں ڈال رہی ہے۔ وہ مسند پر نہ ہوں تو دراڑیں شگافوں میں تبدیل ہو جائیں اور دیواریں گر پڑیں۔

 یہ سب اس لیے کہ اس ملک میں سیاسی جماعتیں جمہوری بنیادوں پر کبھی کھڑی نہیں کی گئیں ان خطوط پر تربیت ہی نہیں ہوئی۔ کیا کسی رکن میں اتنی جرات ہے کہ بلاول کے مقابلے میں پارٹی کی صدارت کے لیے کھڑا ہو جائے۔ رضا ربانی ہوں یا اعتزاز احسن‘ سب بھٹو خاندان اور زرداری خاندان کی رعایا ہیں‘ شفیق الرحمن نے کیا خوب کہا ہے ؎ تیرے سب خاندان پر عاشق 
میرا سب خاندان ہے پیارے 
مسلم لیگ نون میں بھی خاندانی تسلط کے سامنے سر اٹھانے والا کامیاب نہیں ہو سکتا کیوں کہ پارٹی کے اندر آزادانہ با معنی انتخابات سرے سے مفقود ہیں۔ بعینہ تحریک انصاف میں عمران خان کے مقابلے میں کوئی دوسرا قائد نہیں ابھر سکتا۔

Tuesday, June 26, 2018

جوتھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا…۔


24
اور 25جون کی درمیانی رات بارہ بجے سعودی معاشرے میں ایک انقلاب آیا۔ بہت بڑا انقلاب۔ بہت بڑی تبدیلی، خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت عملی طور پر مل گئی۔ کچھ پرجوش خواتین نے اُسی وقت گاڑیاں نکالیں اور شاہراہوں پر نکل گئیں۔یہ خواتین جب دوسرے ملکوں میں قیام پذیر تھیں تو گاڑی چلانا سیکھ گئیں۔ پھر وہیں سے ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیے۔ اُن لائسنسوں کی بنیاد پر ان کے لائسنس سعودی عرب میں بن گئے۔ دوسری عورتوں کے لیے ڈرائیونگ سکھانے والے سکول چل پڑے ہیں۔ یہ آغاز ہے۔ کچھ عرصہ میں خواتین کی ایک بھاری تعداد اس سلسلے میں خود کفیل ہو جائے گی اور ڈرائیور، باپ، بھائی، بیٹے یا شوہر کی محتاج نہیں رہے گی۔ ہاں! جن خاندانوں میں ماحول بہت زیادہ دقیانوسی یا سخت ہے، وہاں حکومت کی طرف سے اجازت ملنے کے باوجود یہ پابندی خاندان کے مردوں کی طرف سے برقرار رہے گی۔ مجموعی طور پر یہ ایک پدرسری معاشرہ ہے۔ مرد کو فوقیت حاصل ہے۔ کئی معاملات میں عورت مرد کی محتاج ہے۔ ظاہر ہے معاشرتی تبدیلیاں ایسے سخت گیر سماج میں بہت آہستگی اور نرم رفتاری سے واقع ہوتی ہیں۔ سالہا سال لگتے ہیں۔ بعض اوقات صدیاں درکار ہوتی ہیں۔

مغربی پریس کو مسلمان ملکوں کے خلاف کچھ نہ کچھ لکھنے یا بولنے کا بہانہ چاہیے۔ پہلے جب سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی تھی، اُس وقت مغربی میڈیا شور مچاتا تھا کہ عورتوں کے بنیادی حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ عورتوں کو پتھر کے زمانے میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اب جب ولی عہد شہزادے نے یہ ایک بہت بڑا قدم اٹھایا ہے اور گاڑی چلانے کی اجازت دے دی ہے تو مغربی پریس نے ایک اور نکتہ اٹھا لیا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے ایک مضمون چھاپا ہے کہ اس اجازت سے صرف ایک مخصوص طبقہ کی عورتیں فائدہ اٹھائیں گی جو امیر خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور پہلے ہی ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتی رہتی ہیں۔ یہ اعتراض محض برائے اعتراض یوں ہے کہ تبدیلی جب بھی آتی ہے، ابتدا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس اجازت سے بالائی طبقہ کے بعد، رفتہ رفتہ، مڈل کلاس بھی استفادہ کرے گی۔ ہوتے ہوتے نیچے تک تبدیلی رونما ہو جائے گی۔

سعودی خواتین پر گاڑی چلانے کی پابندی 1957ء میں لگائی گئی۔ 2002ء میں معروف رسالے اکانومسٹ نے حساب لگایا کہ تقریباً پانچ لاکھ مرد ڈرائیور، سعودی خواتین کو گاڑی چلانے کی سروس مہیا کر رہے ہیں، ان کی کل تنخواہیں ملک کی قومی آمدنی کا ایک فیصد بن رہی تھیں۔ کچھ بے خوف اور نڈر خواتین ایسی بھی تھیں جنہوں نے پولیس اور ٹریفک حکام سے چھپ کر ڈرائیونگ سیکھ لی۔ خاص طور پر دور افتادہ قصبوں اور بستیوں میں ایسا کرنا مشکل نہ تھا۔ یہ وہ خوش قسمت عورتیں تھیں جن کے باپ یا شوہر اس معاملے میں اُن کے ہم نوا تھے۔ ایک واقعہ سعودی عرب میں کچھ سال پہلے بہت مشہور ہوا۔ ایک سعودی مرد اپنے قصبے سے شہر کی طرف جا رہا تھا۔ صحرا کی طویل سڑک تھی۔ آبادی کا دور دور تک نشان نہ تھا۔ گاڑی چلاتے ہوئے اسے دل کا دورہ پڑا اور وہ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ایک طرف کو لڑھک گیا۔ قدرت کو ابھی اس کی زندگی منظور تھی۔ خوش بختی سے اس کی بیوی کو، جو ساتھ بیٹھی ہوئی تھی، ڈرائیونگ آتی تھی جو اس نے ٹریفک پولیس کی نگاہوں سے چھپ کر سیکھی تھی۔ اس نے جوں توں کر کے بے ہوش خاوند کو پچھلی سیٹ پر لٹایا اور گاڑی خود چلانے لگی۔ کئی گھنٹوں بعد ایک پٹرول پمپ پر پہنچی۔ وہاں سے مدد کرنے والے مل گئے اور مریض کو ڈاکٹر تک پہنچا دیا گیا۔ یوں اس کی جان بچ گئی۔ انسانی زندگی میں سب سے زیادہ ایمرجنسی یہی ہوتی ہے کہ کسی کی جان بچائی جائے۔ بے شمار ایسے خاندان ہیں جہاں مرد صرف ایک ہوتا ہے۔ اگر اسے آدھی رات کو کچھ ہو جائے، اور عورت گاڑی چلا سکتی ہو تو اسے نزدیک ترین ہسپتال پہنچا سکتی ہے۔

سعودی عرب کی خواتین نے اس پابندی کے خلاف 1990ء میں عملاً تحریک شروع کی۔ 47عورتوں نے دارالحکومت ریاض کی شاہراہوں پر احتجاجاً گاڑیاں چلائیں۔ انہیں اس خلاف ورزی پر ایک دن کے لیے قید کیا گیا۔ پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے۔ کچھ کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا۔ ایک طویل عرصہ خاموشی رہی۔ 2007ء میں تحریک نے پھر انگڑائی لی۔ گیارہ سو خواتین کے دستخطوں کے ساتھ ایک درخواست بادشاہِ مملکت کی خدمت میں پیش کی گئی اور استدعا کی گئی کہ خواتین پر سے یہ پابندی ہٹائی جائے۔ اس تحریک میں ایک خاتون وجیہہ الحویدر نے مرکزی کردار ادا کیا۔ 2008ء میں وجیہہ نے گاڑی چلاتے ہوئے اپنی ویڈیو بنوائی اور اسے یوٹیوب پر لگا دیا۔ پابندی بین الاقوامی حوالے سے منظرِ عام پر آ گئی۔ وجیہہ الحویدر نے خواتین کے دیگر حقوق کے لیے بھی تحریک چلائی۔ سعودی خاتون اپنے خاندان کے مردوں کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کر سکتی۔ وجیہہ نے اس قانون کے خلاف عملی احتجاج کرتے ہوئے تین بار بارڈر کراس کر کے بحرین میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے تینوں بار اسے واپس بھیج دیا گیا۔

2011ء میں ایک اور خاتون منال الشریف سامنے آئی۔ اس نے بھی احتجاجاً شاہراہ پر گاڑی چلائی۔ کئی بار گرفتار ہوئی۔ شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی سے سائنس میں گریجوایٹ ہونے والی منال الشریف بین الاقوامی آئل کمپنی آرام کو میں ملازمت کر رہی تھی۔ 2017ء میں اس کی کتاب، سعودی خواتین پر گاڑی چلانے کی پابندی کے حوالے سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کا عربی سے انگریزی، جرمن، ڈینش اور ترکی میں ترجمہ کیا گیا۔ پھر اس نے فیس بک پر تحریک شروع کی بارہ ہزار خواتین نے اس کا ساتھ دیا۔ اُس نے گاڑی چلاتے ہوئے ویڈیو بنوائی۔ چھ لاکھ افراد نے یہ ویڈیو دیکھی، منال کو بھی کئی بار گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔

اس سارے عرصہ میں سعودی علماء نے حکومت کا پورا پورا ساتھ دیا۔ ایک مولانا سعدالحجری نے فتویٰ دیا کہ عورت کا دماغ آدھا ہوتا ہے اور جب گاڑی چلاتی ہے تو صرف ایک چوتھائی رہ جاتا ہے۔ اس لیے ٹریفک ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ کسی بھی عورت کو ڈرائیونگ لائسنس نہ جاری کرے۔ تا ہم سعودی حکومت نے اس نامعقول بیان کی وجہ سے مولانا پر پابندی لگا دی۔ انہیں تقریریں کرنے سے منع کر دیا گیا۔

2016ء میں مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ نے فتویٰ دیا کہ گاڑی چلانے سے عورتیں خطرے سے دوچار ہوں گی۔ مفتیٔ اعظم نے اس تشویش کا اظہار بھی کیا کہ عورتیں گاڑی چلانے لگیں تو خاندان کے مردوں کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ اب وہ کہاں ہے۔

2013ء میں ایک عالم شیخ صالح نے فتویٰ دیا کہ گاڑی چلانے سے عورتوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان مولانا نے جو تفصیلات بیان کیں وہ کم از کم اردو پریس میں نہیں دہرائی جا سکتیں۔

2011ء میں اعلیٰ ترین مذہبی کمیٹی ’’مجلس الافتاء الاعلیٰ‘‘ میں شامل علما نے فتویٰ دیا کہ اگر عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی تو باکرہ
(Virgin)
عورت ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ یہ علما شاہ فہد یونیورسٹی کے پروفیسر کمال صبحی کی ’’قیادت‘‘ میں ’’تحقیق‘‘ کر رہے تھے۔ اس گروہ نے ایک ’’تحقیقی رپورٹ‘‘ جاری کی۔ رپورٹ نے متنبہ کیا کہ عورتوں نے ڈرائیونگ شروع کی تو زنا کاری، پورنو گرافی اور ہم جنسی میں اضافہ ہو جائے گا۔ طلاق کی شرح بڑھ جائے گی۔

2010ء میں ایک اور عالم عبدالعزیز الفوزان نے ٹیلی ویژن پر اس خدشے کا اظہار کیا کہ عورت کو چہرے سے نقاب ہٹانا پڑے گا اور ہر طرح کے مردوں اور عورتوں سے ملتی پھرے گی۔

ولی عہد شہزادے نے آ کر منظر نامہ بدل دیا۔ مذہبی اجارہ دار خاموش ہو گئے ہیں۔ کچھ نے تو حمایتی بیان جاری کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی۔ ایک عالمِ دین نے کہا ہے کہ عبایا پہننا لازم نہیں! اس تیل سے تیل کی دھار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں! ع

جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا یہی ہے اک حرف محرمانہ


Sunday, June 24, 2018

اثاثے اور انکی قیمت


عجیب و غریب بستی تھی۔ حیرتوں کے مجھ پر پہاڑ ٹوٹ پڑے۔

پوری بستی میں ایک بھی باتھ روم نہ تھا۔ یہ تو وہ زمانہ ہے کہ باتھ روم پر بے تحاشا دولت لٹائی جاتی ہے۔ ایک سابق وزیر اعظم کے بارے میں یہ خبر تواتر سے چھپتی رہی ہے کہ سرکاری گھر میں باتھ روم پر کروڑوں روپے صرف کر دیے۔ وہ تو خیر سرکاری معاملہ تھا۔ مال مفت دل بے رحم۔ اپنی جیب سے بھی جو لوگ مکان بنواتے ہیں‘ باتھ روم پر اس قدر توجہ دیتے ہیں جیسے حجلۂ خاص یہی ہو! مہنگی ٹائلوں کا فرش! دیواریں دیدہ زیب ! ٹب‘ کموڈ‘ بیسن اعلیٰ سے اعلیٰ۔ مہنگے سے مہنگے۔ اپنے عرب بھائی تو باتھ روموں میں ٹونٹیاں سونے کی لگواتے ہیں۔ سرسید احمد خان نے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے بحری جہاز میں انگلستان کا سفر کیا تو پہلی بار نہلانے والا شاور دیکھا۔ لکھتے ہیں کہ ایک کل کھینچی تو بارش برسنے لگی۔(کچھ اسی مفہوم کا فقرہ تھا) شاور بازار میں قسم ہا قسم کے ہیں۔ خوب چوڑے کچھ گول بناوٹ والے۔ نیچے کئی قسم کی ٹونٹیاں‘ ایک کھولیں تو گرم پانی نکلے دوسری کو ہاتھ لگائیں تو ٹھنڈا‘ تیسری سے معاملہ کریں تو مکس پانی جو ٹھنڈا نہ گرم بلکہ گوارا اور آرام دہ! لاکھوں روپیہ ایک ایک باتھ روم پر لگایا جاتا ہے! کچھ میں تو پنکھے اور فون بھی لگے ہوتے ہیں ۔ پرانے زمانے میں بلکہ از منۂ وسطیٰ میں شاہی حمام ہوتے تھے۔ ساتھ ڈیوڑھیوں اور راہداریوں کا ایسا سائنسی نظام کہ ادھر شاہ یا شاہ زادی نہا کر نکلی ادھر ان ڈیوڑھیوں راہداریوں سے ہوائیں چلیں! شاعروں نے صبح کے نہانے سے ہی محبوب کا تصور وابستہ کر لیا ؎

صبح جب دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلی

ہم نے آئینہ بہ دل تیرا سراپا دیکھا

بستی کی طرف واپس چلتے ہیں عجیب و غریب بستی! پوری بستی میں ایک باتھ روم بھی نہیں! سوچنے لگا لوگ آخر کیسے رہ رہے ہیں! کس طرح گزران کر رہے ہیں! گھروں کے درمیان کچی پگڈنڈیاں تھیں۔ اس قدر تنگ کہ کار یا موٹر یا لاری گزر ہی نہ سکتی تھی! سنگ مر مر کی دیواریں تھیں نہ خالص دیار کی لکڑی کے دروازے’ کھڑکیاں نہ روشندان ! شہ نشینیں نہ محراب! ملبوسات لٹکانے کی الماریاں بھی نہ تھیں! کسی ایک گھر میں بھی ایئر کنڈیشنر لگا ہوا نہ نظر آیا اور تو اور چھت والے عام برقی پنکھے بھی نہیں تھے۔

اس عجیب و غریب بستی کی تنگ کچی پگڈنڈی نما گلیوں میں پھرتے ہوئے مجھے لوگوں کے اثاثوں کا خیال آیا۔ اپنے سردار ایاز صادق کے اثاثوں کی مالیت ساڑھے چار کروڑ روپے۔ تین بنک اکائونٹس۔ علیم خان کے لاکھوں حصص کی مالیت بارہ کروڑ ۔پاکستان میں 43اور بیرون ملک تین کمپنیاں‘ تین لینڈ کروزر اور ہونڈا سوک! کیپٹن صفدر کے چار کروڑ کے اثاثے تین ہزار کنال زرعی اراضی ‘دس لاکھ کی جیولری ۔آصف زرداری صاحب کے پاس چھ بلٹ پروف لگژری گاڑیاں‘ دبئی میں ہزاروں ایکڑ کی پراپرٹی‘ کروڑوں روپے کے گھوڑے اور مویشی‘ ڈیڑھ کروڑ کا اسلحہ‘ ڈیفنس اور کلفٹن کی جائیدادیں اس کے علاوہ! بلاول بھٹو کی لاہور کی رہائش گاہ پانچ ارب روپے سے تعمیر ہوئی جس میں بیس ڈرائنگ روم‘ تین کانفرنس ہال۔ دو ہیلی پیڈ‘ اس کے علاوہ پانی کے حوض اور ٹینس کورٹ! مریم صفدر (یا مریم نواز) پانچ ملوںمیں شیئر ہولڈر ہیں ڈیڑھ ہزار کنال اراضی بھی رکھتی ہیں۔ ملک کے اندر 84کروڑ کے اثاثے ہیں64لاکھ روپے سے زائد کے غیر ملکی دورے کیے۔

ان اثاثوں کا خیال دماغ سے جھٹک کر نکالا اور تنگ گزرگاہوں پر چھوٹے چھوٹے مکانوں کے درمیان چلتا رہا کہیں کہیں درخت لگے تھے۔ پوری بستی میں پانی کی بہم رسانی کا انتظام نہیں نظر آ رہا تھا ‘کوئی واٹر ٹینک کہیں نہ تھا۔ بجلی کا ایک کھمبا‘ ایک بلب نہ دکھائی دیا۔ مکانوں کے درمیان خالی جگہ اول تو تھی ہی کم‘ جو تھی وہ جھاڑیوں‘ جھاڑ جھنکار سے بھری ہوئی تھی۔ ایک چھوٹی سی مسجد وہ بھی بستی کی حدود سے باہر ذرا فاصلے پر یوں لگتا تھا اگر کوئی نماز کے لیے آتا بھی تھا تو گھر سے وضو کر کے۔ یہ اور بات کہ پانی کی سپلائی کا بندوبست جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے بظاہر نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔

میں حیران پریشان! آخر یہ لوگ کس طرح رہ رہے ہیں یا خدا ! مکانوں کی چھتیں اس قدر نیچی کہ چھتوں کو ہاتھ لگانے کے لیے جھکنا پڑتا تھا۔ زیادہ تر چھت کچی مٹی کے تھے کچھ پر اینٹیں لگی تھیں کچھ سیمنٹ کے تھے کچھ امرا نے چھتوں پر سنگ مر مر لگوایا تھا۔ دیوار زمین سے اٹھتی تھی‘ چند انچ کے بعد ہی چھت تک پہنچ جاتی تھی۔ کوئی گھر بھی 6X3سے زیادہ کے رقبے کا نہ تھا!

میں مکانوں کے درمیان پھرتا رہا۔ یہاں دروازوں پر نام کی تختیاں لگانے کا رواج نہ تھا دروازے ہی نہ تھے تو تختیاں کہاں لگتیں گھر ہر طرف سے بند تھے اندر جانے کا راستہ تھا نہ اندر سے باہر نکلنے کا۔ یوں لگتا تھا ان گھروں میں جو بھی داخل ہوا آج تک باہر نہیں نکلا۔ کچھ چھتوں کے ساتھ تختہ نما پتھر تھے جن پر مکان کے مالک کا نام اور مکان کے اندر داخل ہونے کی تاریخ درج تھی بہت سے مکان کچے تھے۔ ان پر کسی کا نام نہیں لکھا تھا۔ ایک عجیب بات اس بستی میں یہ دیکھی کہ ناجائز قبضے کا یہاں تصور نہ تھا! جن مکانوں پر مالک کے نام کا پتھر نصیب نہیں تھا وہ بھی بالکل محفوظ تھے ایسا کبھی نہ ہوا کہ کوئی کسی کے گھر میں داخل ہو گیا۔ امن و امان مثالی تھا۔ یہاں کوئی کسی کو تنگ نہ کرتا تھا ‘کوئی تھانہ ‘نہ پولیس چوکی‘ کچہری تھی نہ پٹوار خانہ‘ خریدو فروخت کا رواج نہ تھا پراپرٹی ڈیلر‘ مکانوں کے اندر چھپے ہوں تو ہوں باہر کوئی نہ تھا!

ایسی بستیاں پورے ملک میں ’’آباد‘‘ ہیں! ان آبادیوں میں رات دن اضافہ ہو رہا ہے بستی میں داخلے کا کلچر بہت سادہ ہے جب کسی کے لیے نیا گھر بنتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب دوست احباب اسے چھوڑنے آتے ہیں ۔اسے ایک چارپائی پر لٹایا جاتا ہے‘ کچھ لوگ اس چارپائی کو کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور بستی کی طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ چارپائی کے پیچھے پیچھے لوگ چلتے آتے ہیں۔کچھ اونچی آواز میں مقدس کلمات دہراتے ہیں‘ زیادہ تر خاموشی سے چلتے رہتے ہیں۔ مختصر سی نماز اور دعا کے بعد مکین کو اس کے نئے گھر میں جو پہلے سے تیار ہوتا ہے داخل کر دیا جاتا ہے پھر اس گھر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند اور سربمہر کر دیا جاتا ہے۔ سیل کرنے کے بعد الوداعی دعا ہوتی ہے۔ پھر سب عزیز و اقارب دوست احباب واپس چلے جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ جانے والوں کے قدموں کی آہٹ اسے سنائی دیتی ہے۔

اب وہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اثاثے دکھائے جاتے ہیں اور ان اثاثوں کی قیمت گھٹائی یا بڑھائی نہیں جا سکتی! کوئی دشمن اثاثوں کی قیمت وہاں بڑھا کر نہیں بتا سکتا کوئی خیر خواہ اثاثوں کی قدر گھٹا نہیں سکتا وہاں منی ٹریل پوچھی نہیں جاتی‘ دکھائی جاتی ہے۔ انسان حیران ہوتا ہے کہ جو منی ٹریل‘ جو اثاثے جو جائیدادیں جو زرعی اراضی‘ جو کارخانے جو فلیٹ جو محلات‘ جو بینک بیلنس جو زیورات جو اسلحہ ساری عدالتیں ساری پولیس سارا نیب‘ سارا ایف بی آر‘ ساری ایف آئی اے نہیں معلوم کر سکی اس تنگ و تاریک گھر میں داخل ہونے کے بعد اس کی ایک ایک تفصیل دکھا دی جاتی ہے ۔

ایک اور تماشا وہاں یہ لگتا ہے کہ اب یہ اثاثے تحویل میں بھی نہیں ہوتے اب یہ ملکیت سے خارج ہو کر وارثوں کو مل چکے ہوتے ہیں اب ان اثاثوں کا رمق بھر فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔اب فائدہ پس ماندگان اٹھاتے ہیں اور حساب کتاب اسے دینا پڑتا ہے‘ انسان کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ ہوش آ جاتا ہے کہ افسوس! جن اثاثوں کیلئے ساری زندگی محنت کی ‘ جائز ناجائز ہر حربہ استعمال کیا ‘ جمع کرتا رہا‘ چھپاتا رہا۔ ان میں اضافہ کرتا رہا۔ خوش ہوتا رہا۔ دل مضبوط کرتا رہا‘ آسودگی کا احساس ایک عجیب طمانیت بخشتا رہا۔ وہ یہاں آ کر بیکار نکلے۔ ع

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

کچھ بھی کام نہ آیا! الٹا حساب دینا پڑا۔ حساب بھی اتنا سخت کہ کسی ہیر پھیر کی گنجائش نہیں کوئی وکیل کوئی اکائونٹنٹ کوئی مالیات کا ماہر جادوگر کام نہ آیا۔

عقلمند لوگ اس بستی میں منتقل ہونے سے پہلے یہاں کا بندوبست کر لیتے ہیں ‘ایسے اثاثے اکٹھے کرتے ہیں جن کا حساب نہیں دینا پڑتا مگر یہاں کام آتے ہیں۔ انکی وجہ سے سہولیات میسر آتی ہیں! اوپر سے پتہ نہیں چلتا مگر اندر اس بستی کے نیچے‘ زیر زمین‘ ایک دنیا آباد ہے۔


Saturday, June 23, 2018

دھکے کھانےکے بعد ……


‎ڈیل ڈول اس کا مولوی صاحب کے مقابلے میں زیادہ تنومند تھا۔ مولوی صاحب کی عمر بھی ڈھل رہی تھی۔ یہ نوجوان تھا۔ ہٹا کٹا،مشٹنڈا، مولوی صاحب نحیف تو نہیں تھے مگر کمزور ضرور کہا جا سکتا تھا۔ اس نے جب لائوڈ سپیکر کا بٹن آف کیا تو مولوی صاحب نے نرمی سے پوچھا:

‎’’کیوں؟ بند کیوں کر دیا؟‘‘

‎’’اذان نہیں دینے دوں گا؟‘‘

‎’’کیوں؟‘‘

‎ ’’ابھی وقت نہیں ہوا‘‘

‎مولوی صاحب کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہیں!

‎’’میں ہر روز پانچ وقت اذان دیتا ہوں کیا مجھے بتائو گے کہ وقت نہیں ہوا۔ سامنے کیلنڈر لگا ہے اس میں پورے سال کی نمازوں کے اوقات کا نقشہ ہے! پھر دوسری مسجدوں سے اذان کی آوازیں آ رہی ہیں۔ تم سن سکتے ہو! اور ذرا یہ مسجد کی دیوار پر لگا کلاک بھی دیکھ لو۔‘‘

‎’’کیا فقہ کی کتابوں میں اس کیلنڈر اور اس وال کلاک کا ذکر ہے؟‘‘

‎یہ سوال مولوی صاحب کے لیے غیر متوقع تھا۔ ایک لمحے کے لیے وہ خاموش اور پریشان ہو گئے۔ پھر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھانے لگے۔

‎ ’’بھائی! ہم اس مسجد میں کوئی انوکھا کام نہیں کر رہے! پورے ملک میں، بلکہ پوری دنیا میں یہی سسٹم ہے۔ نماز کے اوقات کا تعین کیلنڈر اور گھڑیوں سے ہو رہا ہے۔‘‘

‎ اُس نے کندھے سے لٹکا ہوا بیگ اتارا۔ مولوی صاحب سے کہا کہ ایک منٹ بیٹھیے۔ خود بھی آلتی پالتی مار کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ بیگ سے ایک مدرسہ ٹائپ کتاب نکالی۔

‎’’دیکھیے!مولوی صاحب! یہ فقہ کی کتاب ہے۔ سنیے نماز کے وقت کے تعین کا شرعی طریقہ‘‘…

‎اس نے کتاب سے پڑھنا شروع کیا۔

‎’’نماز کا وقت معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کھلی اور ہموار زمین میں زوال سے پہلے ایک لکڑی گاڑ دی جائے۔ اس لکڑی کا سایہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ زوال کے وقت کم سے کم رہ جائے گا۔ اس سائے کو ماپ لیا جائے۔ جب یہ سایہ بڑھنا شروع ہو تو وہ اس بات کی علامت ہو گا کہ زوال ہو گیا۔ پھر جب یہ سایہ اس قدر بڑھ جائے کہ لکڑی کے برابر ہو جائے۔(زوال کے وقت کا سایہ اس سے وضع کرنے کے بعد) تو ایک مثل وقت ہو جائے گا۔ اور جب دوگنا ہو جائے تو دو مثل!‘

‎ پھر اس نے بیگ سے لکڑی نکالی۔ مولوی صاحب کو دی اور کہا

‎…’’حضور! اسے زمین پر گاڑیے اور اس کا سایہ ماپیے!‘‘

‎مولوی صاحب مسکرائے۔ بلا کا تحمل اور ٹھہرائو تھا ان کی طبیعت میں، سراپا شفقت، اس کا کندھا تھپتھپایا اور فرمانے لگے:

‎’’نوجوان! بات تمہاری صحیح ہے مگر سمجھنے کی کوشش کرو کہ یہ اوقات جو کیلنڈر میں دیئے گئے ہیں یہ اسی شرعی طریقے کی مناسبت سے نکالے گئے ہیں۔ اگر ہم ظہر اور عصر کے لیے لکڑی گاڑ کر وقت کا تعین کریں تو نتیجہ وہی نکلے گا جو کیلنڈر میں پہلے سے پورے سال کی نمازوں کے حوالے سے درج کیا گیا ہے!‘‘

‎ وہ خاموش ہو گیا۔ اذان ہوئی۔ اس نے نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اور گھر چلا گیا۔ دو تین مہینے گزرے تو رمضان المبارک کا مہینہ آ گیا، پہلے روزے کے دن ہی اس نے سحری جلدی جلدی کھائی اور مسجد پہنچ گیا۔ سحری کا وقت ختم ہوا تو موذن برآمد ہوا۔ لائوڈ سپیکر کا سوئچ آن کر کے مائک کو اپنے قد کے برابر لا رہا تھا کہ یہ اس کے سامنے کھڑا ہو گیا…

‎ ’’اذان نہیں ہونے دوں گا۔‘‘

‎’’کیوں‘‘

‎’’اس لیے کہ تم خلقِ خدا کے روزے خراب کر رہے ہو۔‘‘

‎نوجوان کے تیور دیکھ کر موذن چُپ کر کے مولوی صاحب کے حجرے کی طرف چلا گیا۔ اتنے میں مولوی صاحب بھی باہر آ گئے اور موذن سے پوچھنے لگے

‎…’’اذان کیوں نہیں دے رہے؟ دو منٹ اوپر ہو رہے ہیں‘‘۔
‎ مولوی صاحب کی نظر اُس پر پڑی کچھ کچھ وہ معاملے کو تاڑ گئے۔ ’’نوجوان! آج پھر تم فقہ کی کتاب لے کر آ گئے ہو‘‘؟ اس نے کہا:۔

‎ ’’فقہ کی نہیں، آج میں اللہ کی کتاب لے کر آیا ہوں! سحری ختم ہونے کی نشانی جو قرآن پاک میں بتائی گئی ہے، آپ اس پر عمل پیرا نہیں ہو رہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 187میں ارشاد فرمایا…’’کھائو اور پیو۔ یہاں تک کہ تمہارے لیے رات کے سیاہ دھاگے سے صبح کا سفید دھاگا نمایاں ہو جائے‘‘۔ پھر اس نے شدید کرخت آواز میں مولوی صاحب کو کہا… بجائے اس کے کہ آپ چھت پر چڑھ کر مشرقی افق کو دیکھتے کہ سفیدی اور سیاہی الگ الگ ہوئیں یا نہیں، آپ حجرے میں بیٹھے خلال کر رہے ہیں اور اذان دلوا رہے ہیں۔ کچھ تو خدا کا خوف کیجیے۔‘‘

‎اب مولوی صاحب کا پارہ بھی چڑھنے لگا

‎ ’’تم الزام لگا رہے ہو! میں ہمیشہ صحیح وقت پر روزہ بند کراتا ہوں! اور یہ جو تم چھت پر جا کر سفیدی اور سیاہی دیکھنے کی بات کر رہے ہو بھلے انسان! رمضان کا یہ نظام الاوقات جو سامنے دیوار پر لگا ہے، اسی سفیدی کے نمایاں ہونے کے مطابق وضع کیا گیا ہے۔ کوئی ہے جو اس زمانے میں چھت پر چڑھ کر افق کی سفیدی دیکھتا ہے اور سحری بند کرتا ہے؟‘‘ نوجوان مسکرایا، اس مسکراہٹ میں طنز دکھائی دے رہا تھا۔

‎ ’’مولانا! اگر آپ پہلے سے تیار کیا ہوا نظام الاوقات دیکھ کر افطار بھی کر سکتے ہیں اور سحری بھی بند کر سکتے ہیں، اگر آپ دھوپ میں لکڑی گاڑ کر اس کا سایہ ماپنے کے بجائے اپنے ٹھنڈے حجرے میں بیٹھے بیٹھے پہلے سے بنایا ہوا نقشہ دیکھ کر نمازیں پڑھا رہے ہیں تو یہ نظام الاوقات، یہ کیلنڈر، عید کے دن کا تعین کرنے کے لیے کیوں نہیں بروئے کار لاتے؟ کمال ہے آپ نماز کا وقت معلوم کرنے کے لیے زمین میں لکڑی نہیں گاڑتے، آپ سحری بند کرنے کے لیے چھت پر چڑھ کر افق کو نہیں دیکھتے لیکن آپ عید کا چاند دیکھنے کے لیے چھت پر چڑھ جاتے ہیں۔ پھر لوگوں سے گواہیاں مانگتے ہیں۔ خلقِ خدا کو آپ نے کنفیوژ کر رکھا ہے۔ دس علما کہتے ہیں آج عید ہے۔ دس فتویٰ دیتے ہیں آج روزہ ہے! آپ اس امت کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور کب سے کر رہے ہیں؟ چھ سو سال پہلے جب ایک جرمن شہری خلیفہ کے دربار میں پرنٹنگ پریس لایا تو آپ نے اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا۔ آج آپ اسی پریس سے کلام پاک کے لاکھوں کروڑوں نسخے چھپوا رہے ہیں اور ساری مذہبی کتابیں بھی! یہ سامنے دیوار پر لٹکا ہوا نمازوں کے اوقات کا نقشہ بھی پریس ہی میں چھپا ہے۔ تین سو سال پہلے گھڑیاں اور کلاک آئے تو آپ نے ان کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا۔ ڈیڑھ سو سال پہلے آپ نے فتویٰ دیا کہ قرآن پاک کا ترجمہ نہیں ہو سکتا۔ سو سال پہلے آپ نے فرمایا کہ نمازوں کا نظام الاوقات پیشگی نہیں بن سکتا۔ ستر سال پہلے آپ نے لائوڈ سپیکر کو ناجائز قرار دیا۔ پچاس برس پہلے آپ نے ٹیلی ویژن گھر میں رکھنے کو فعلِ حرام کے برابر کہا۔ پھر آپ نے کہا کہ تصویر حرام ہے یہاں تک کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے بھی۔ آج یہ سب چیزیں حلال ہیں۔ آپ دوسروں سے بڑھ چڑھ کر استعمال کر رہے ہیں۔ سعودی بادشاہ نے ٹیلی فون کا ریسیور پہلی بار مولانا کے کان سے لگایا تو انہوں نے اسے پھینک دیا کہ ھٰذا صوت الشیطان! یہ تو شیطان کی آواز ہے۔ پھر اس نے ٹیلی فون پر تلاوت سنوائی تو آپ ٹھنڈے ہوئے۔ آج کی نسل کو تو یہ معلوم ہی نہیں کہ آپ نے کس ایجاد پر حرام ہونے کا فتویٰ کب دیا۔ اب آپ کہتے ہیں کہ چاند دیکھنا اور گواہیاں لینا ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بے شمار مسلمان کیلنڈر دیکھ کر عید کر رہے ہیں۔ دس بیس سال بعد جب کوئی مجھ جیسا پاگل پوچھے گا کہ چھت پر چڑھ کر چاند دیکھے بغیر آپ نے عید کا اعلان کیسے کر دیا تو آپ اسے احمق قرار دیں گے اور اس کے علم میں اضافہ کریں گے کہ عید کی تاریخ کا یہ پیشگی تعین اسلامی اصولوں کے مطابق ہی کیا گیا ہے۔ ؎ آنچہ دانا کند، کند نادان لیک بعد از خرابیٔ بسیار ’’نادان بھی وہی کچھ کرتا ہے جو دانا کرتا ہے مگر دھکے کھانے کے بعد!!‘‘

Thursday, June 21, 2018

ہم ہم ہیں، ہمارا جواب نہیں

یہ دیکھیے،یہ کون ہے؟ اس نے شلوار قمیض پر واسکٹ پہنی ہوئی ہے۔ سرپر سفید، گول، ٹوپی ہے۔ پائوں میں پشاوری چپل ہے! یہ ایک مسلمان ہے۔ یہ پاکستانی بھی ہے۔ قصور اس کا صرف یہ ہے کہ اس کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے! 

یہ پاکستان کے لیے ہمیشہ جان لڑاتا رہا ہے! افواجِ پاکستان میں اس نے ہمیشہ اگلے محاذوں پر دادِشجاعت دی ہے۔ سینے پرگولیاں کھائی ہیں۔ مشرقی بارڈر ہو یا افغان سرحد، کارگل ہو یا وزیرستان! اس نے باقی پاکستانیوں کے ساتھ مل کر مادرِ وطن کا ہمیشہ دفاع کیا۔ اس نے ہمیشہ سینے پر وار سہا، اس نے کبھی پشت پر زخم نہیں لگنے دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں اسی نے دیں۔ جتنے دھماکے خیبرپختونخوا میں ہوئے، شاید ہی کہیں اور ہوئے ہوں۔ سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا۔ بازاروں، مسجدوں، مزاروں، گرجائوں کو تاخت و تاراج کیا گیا۔ خیبرپختونخوا کا یہ مسلمان، یہ پاکستانی، زخم سہتا رہا، خون بہاتا رہا، گولیاں کھاتا رہا، اُف تک نہ کی! صلہ مانگا نہ ستائش، نمائش کی، نہ سازش!

 کراچی کو کراچی کس نے بنایا؟ اس نے وہ کام کیا جو بابو لوگ، صاحب لوگ، سائیں لوگ، کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس نے وحشت ناک گرمی میں بنیادیں کھودیں، بجری ڈھوئی، سیمنٹ کی بوریاں سر پر لادیں۔ سریا ہاتھوں سے سیدھا کیا، عمارتیں بنائیں، ٹرانسپورٹ کا کام سنبھالا، سڑکیں بنائیں۔ بندرگاہ کو وسعت دی، راتوں کو جاگ کر چوکیداری کی، سر پر ٹوکریاں اٹھائیں، روکھی سوکھی کھائی، پھر سیٹھ، بابے، وڈیرے، نام نہاد منتخب نمائندے، سائیں، پیر، وزیر، امیر، کبیر، مخدوم زادے، سید بادشاہ، ایئرکنڈیشنڈ دفتروں، کوٹھیوں، محلات اور اسمبلیوں میں بیٹھے اور حکمرانیاں کیں۔ 


یہ پختون ہی تھا جس نے پانچ سال کے عرصۂ حکمرانی میں برصغیر کے طول و عرض میں شاہراہوں کا جال بچھا دیا، سنارگائوں سے دریائے سندھ تک، ملتان سے دہلی تک، آگرہ سے جودھپور تک، جونپور سے اجمیر تک، پھر درخت لگوائے، پھر کنوئیں کھدوائے، پھر سرائے بنوائیں، پھر حکم دیا کہ ہر سرائے کے ایک دروازے پر مسلمانوں کے لیے اور دوسرے دروازے پر ہندوئوں کے لیے کھانا ہروقت تیار ہو، پھر گائوں گائوں انصاف پہنچایا۔ 

یہ پختون ہی تھا جس نے اٹھارہ، جی ہاں! اٹھارہ گھوڑ سواروں کے ساتھ ڈھاکہ فتح کیا جہاں آج بھی مسلمان رہتے ہیں اور مسلمان ہی جہاں حکومت کرتے ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں استعمار کو لوہے کے چنے چبوانے والا بخت خان پختون ہی تھا۔ وہ تو دفن بھی بنیر میں ہوا۔ خیبرپختون خوا کی حدود سے باہر، ریاست رام پور کی بنیاد دو پختون بھائیوں ہی نے رکھی۔ بریلی اس ریاست کا دارالحکومت تھا۔ حافظ رحمت خان اس ریاست کا بہادر حکمران ہو گزرا ہے، اودھ کے حکمران اور دہلی کے مغل اس کے محتاج رہے۔ 

اور وہ کون تھا جس نے برصغیر کی عظیم الشان درس گاہ جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی؟ ڈاکٹر ذاکر حسین، آفریدی پختون، جرمنی سے پی ایچ ڈی کی۔ پھر بائیس برس جامعہ ملیہ کی وائس چانسلری کی۔ بہار کا گورنر رہا، پھر بھارت کا نائب صدر، بھارت کا پہلا مسلمان صدر یہی پختون تھا۔ اردو شاعری کا تاجدار شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی بھی تو آفریدی پختون ہی تھا۔ ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے اور ایک ہزار سے زیادہ رباعیاں، ہمیشہ زندہ رہنے والی شاعری۔ بھارت کی ایٹمی یلغار کے مقابلے میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں مرکزی کردار ادا کرے تب بھی پختون ہمیں قابلِ قبول ہے، بھوپال کا یوسف زئی پختون، بھوپال پختونوں کا مرکز رہا۔ وہیں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان آیا۔ پھر جو کام کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ رام پور کے نواب خاندان کا چشم و چراغ صاحبزادہ یعقوب خان، جس نے سفارت کاری کے میدان میں معرکے سرانجام دیئے، یوسف زئی پختون ہی تو تھا۔ مشرقی پاکستان میں تعیناتی کے دوران اس پختون نے سرتوڑ کوشش کی کہ آرمی ایکشن نہ لیا جائے۔ اس نے برملا الزام لگایا کہ مرکزی حکومت مشرقی پاکستان کے شہریوں کی آواز سننے میں ناکام ثابت ہوئی۔ پھر جب آرمی ایکشن کا حکم آیا تو اس نے انکار کر دیا اور استعفیٰ پیش کر دیا۔ 

پختون یہ سب کچھ کرتا رہے تو ہمارے لیے قابل قبول ہے۔ اس کا ہر رول ہمیں منظور ہے۔ وارے میں پڑتا ہے۔ مزدوری سے لے کر چوکیداری تک۔ بجری ڈھونے سے لے کر سریا سیدھا کرنے تک۔ سفارت کاری سے لے کر ایٹم بم بنانے تک۔ شاعری سے لے کر کرکٹ تک، ہمارے لیے جنگ کے محاذ پر جان دیتا رہے، خون بہاتا رہے تب بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ آرمی پبلک سکول کے دلدوز سانحہ میں اس کے پرخچے اڑا دیئے جائیں تو ہم ٹسوے بھی بہا لیں گے۔ مگر پختون کی ایک بات ہمیں منظور نہیں، کسی صورت قبول نہیں۔ عید کا چاند دیکھنے کی گواہی دے تو یہ گواہی ہمیں منظور نہیں۔ یہ ہمیں وارا نہیں کھاتی، بے شک پورے برصغیر کے مدارس میں قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر، عربی ادب و گرامر پڑھانے والے چوٹی کے علماء اکثر و بیشتر پختون ہیں مگر پختونوں کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ عید کا چاند دیکھنے کی گواہیاں دیں۔ دیں گے تو ہم تسلیم ہی نہیں کریں گے۔ ہمارا حال تو اُس میراثی کا ہے جس نے قمار بازی میں زر اور زمین ہار کر زن کو دائو پر لگا دیا تھا۔ بیوی نے غیرت دلائی کہ تم ہار گئے تو وہ مجھے لے جائیں گے۔ میراثی سینہ تان کر بولا کہ کیسے لے جائیں گے؟ میں مانوں گا ہی نہیں کہ ہار گیا ہوں۔ تو وہ چاند دیکھتے رہیں، گواہیاں دیتے رہیں۔ ہم نے تسلیم ہی نہیں کرنا۔ یہ شبقدر کے لوگ…یہ چار سدہ کے رہنے والے، یہ بنوں اور کوہاٹ کے مسلمان، ان کی ہمت کہ ہمارے معاملات میں ٹانگ اڑائیں؟ یہ فیصلہ کرنا صرف اور صرف ہمارا کام ہے کہ کس تاریخ کا چاند منظور کرنا ہے اور کس تاریخ کا رد کر دینا ہے۔ کس کی گواہی قبول کرنی ہے، کس کی نا منظور کرنی ہے۔ کس کا فون سننا ہے کس کا نہیں سننا۔ پھر یہ بھی ہے کہ دوربین بھی تو ہمی نے ایجاد کی تھی، اس کی ایجاد میں پختونوں کا کوئی کردار، کوئی رول نہیں۔ دوربین ہماری ہے تو ہمیں سے میائوں کیوں کرے گی؟ جو ہم چاہیں گے وہی دکھائے گی۔ اگر کوئی ہم سے کہے کہ کوئی ایک شرعی، قانونی، اخلاقی، سماجی وجہ پختونوں کی گواہی رد کرنے کی ہم بتا سکیں تو بے شک کہتا رہے۔ ہم پر لازم نہیں کہ پختونوں کی گواہی رد کرنے کی شرعی، قانونی یا اخلاقی وجہ بتائیں۔ ہم کیوں بتائیں؟ جب ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ کسی پختون کی، خیبرپختون خوا میں رہنے والے کسی شخص کی گواہی ہم نے منظور نہیں کرنی، تو بات ختم ہو گئی۔ ہم اتھارٹی ہیں، ہمارے پاس طاقت ہے، ریاست کی مرضی ہے، گواہی منظور کرے یا رد کرے، یا ایک پوری کمیونٹی کی، پورے صوبے کی، تضحیک کر کے، لطیفے گھڑے اور مذاق اڑائے۔ پاکستان کے مشرق میں بھی چاند نظر آ جائے، مغرب میں بھی چاند نظر آ جائے، اس سے ہم اہل پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک عاقل بالغ، عادل مسلمان کی گواہی شرعاً منظور کرنا ہی پڑتی ہے۔ ہم پختون خوا کے مسلمانوں کو عادل کیوں سمجھیں؟ کیا ہمیں اتنا بھی حق نہیں؟ ہم ہم ہیں، ہمارا جواب نہیں، ہماری پشت پر ریاست ہے، شریعت کیا کہتی ہے، یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں!!

Tuesday, June 19, 2018

سمندر سے ایک موتی


سمندر میں کیکڑے ہیں اور مگرمچھ! دریائوں میں بہتی ہوئی ساری آلودگی ‘ جو انسان پھیلا رہے ہیں سمندر میں آ ملتی ہے۔ سمندر میں کیچڑ ہے اور نہ جانے کیا کیا گندگی اور غلاظتیں‘ تو پھر کیا ہم سمندر کی طرف توجہ نہ دیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! اسی سمندر میں سیپیاں ہیں جن کے اندر موتی ہیں! مرجان اور لولو ہیں۔ جواہرات ہیں! مخلوقات کے لیے خوراک ‘ قسم قسم کی خوراک‘ اسی سمندر میں موجود ہے۔ یہی سمندر ہے جو ہماری کشتیوں اور جہازوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتا ہے اور ہزاروں میل کے فاصلے طے کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سمندر میں خوبصورت جزیرے ہیں جن میں درخت ہیں اور باغات اور پھل اور پھول! یہی حال سوشل میڈیا کا ہے!
 سوشل میڈیا بھی سمندر ہے! کیچڑ اور آلودگی سے بھرا ہوا!اس میں کیکڑے ہیں اور مگرمچھ ! وہیل اور شارک مچھلیاں خوفناک دہانے کھولے شکار کی تلاش میں پھر رہی ہیں۔ انسانوں کو بھی نگل جاتی ہیں! مگر اسی سمندر میں اسی سوشل میڈیا میں موتی بھی ہیں‘ مرجان اور مونگے بھی! خوراک بھی! باغوں والے خوبصورت جزیرے بھی ! کیسے کیسے عقل و دانش والے سوشل میڈیا پر موتی بکھیرتے نظر آتے ہیں ! ایک سے ایک جوہر قابل موجود! متوازن اور معقول تجزیے سیاسی حرکیات پر روشنی ڈالتے ہوئے!کیسی دلکش شاعری پڑھنے کو ملتی ہے سوشل میڈیا پر! چُھپے ہوئے ہیرے اور جواہر!! ایسی ہی ایک تحریر عامر اشفاق کی پڑھنے کو ملی۔ کیا کوزے میں دریا کو بند کیا ہے۔ قارئین سے شیئر کی جا رہی ہے۔ 

جی ہاں! مجھے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ کہتے ہیں عورت کی عزت کرنی چاہیے۔!مگر جس کا شوہر ملک کا کرتا دھرتا ہو! سارا زور ملک لوٹ کر اپنے اثاثہ جات بنانے پر ہو! اور اس کی بیوی اس کا ہاتھ نہ روک سکے!! 

مجھے کوئی ہمدردی کا بھاشن نہ دے! مجھے وہ وقت یاد آ رہا ہے جب حاملہ عورت کے پیٹ میں گولیاں ماری گئیں! وہاں کیوں ہمدردی مر جاتی ہے؟ کیا اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے پاکستان کو لوٹا نہیں تھا؟ ہمدردی کروں مگر کیسے کروں؟ ریگستان میں تین معصوم بچیاں بھٹک جاتی ہیں تین دن بعد لاشیں ملتی ہیں! سوچیے! بھوک پیاس سے بلکتی‘ ریت کے طوفانوں میں کس طرح جان نکلی ہوگی؟ ان کو تو وینٹی لیٹر بھی نہ مل سکا! کیا وہ معصوم لاشیں ہمدردی کی مستحق نہیں؟ جن لوگوں کے لیے مری میں ناشتہ ہیلی کاپٹروں پر پہنچایا جاتا تھا ان لوگوں نے غریبوں کے لیے ایک بھی ایسا ہیلی کاپٹر نہیں دیا‘ جو ہنگامی بنیادوں پر کسی سرچ آپریشن کا حصہ بن سکتا! لوگ اپنی مدد آپ کے تحت تلاش کرتے رہے! حکومتی سطح پر کوئی اقدام ہوتا تو تین جانیں بچ جاتیں! لیکن یہ غریب تھے! کسی امیر کی اولاد ہوتے تو بے نظیر جیسی کوریج ملتی! 
فیصل آباد میں ایک بس ہوسٹس کو گولی مار دی گئی پوچھنے والا کوئی نہیں! ٹھیک ہے اس میں حکمرانوں کا کوئی قصور نہیں مگر پیرس جیسے شہر لاہور میں عورتیں رکشوں میں روڈ پر بچے پیدا کر دیتی ہیں اس میں بھی کیا حکمرانوں کا کوئی قصور نہیں؟ کیا عورتوں کا قصور ہے کہ وہ حمل کے ساتھ کیوں ہیں؟ 
اسی ملک کی تاریخ اٹھائوں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں ہمدردیاں ہی اتنی ہیں کہ لوگ وزیر اعظم اور صدر بن جاتے ہیں! بھٹو کے بعد بے نظیر کو وزیر اعظم بنایا گیا جسے ایک جمہوری صدر نے کرپشن کی وجہ سے ہٹایا تھا‘ ہنگامہ اس لیے نہیں کیا جاتا کہ وہ ایک جمہوری صدر تھا! کوئی آمر ہٹاتا تو کتابیں بھر دی جاتیں! باپ کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے بیٹی وزیر اعظم بنی۔ پھر بیٹی قتل ہوئی تو شوہر کی سیٹ پکی ہو گئی! ہمدردیاں ملک کو ڈبو رہی ہیں! آج پھر ہمدردی میں لوگ بلاول کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں! ایک ہمدردی نے ملک کو دو ٹکڑے کر دیا دوسری ہمدردی نے ملک کو نچوڑ لیا تیسری ہمدردی نے ملک میں پیوند لگا دیے۔ اب پھر ہمدردیاں جگائی جا رہی ہیں! ماں مر گئی تو وزیر اعظم بنا دیا جائے! ماں بیمار ہے تو ووٹ دیے جائیں! پاکستان میں لاکھوں یتیم پھر رہے ہیں! انہیں وزیر اعظم کیوں نہیں بنایا جاتا؟ بلاول 
تو پاکستان میں بات کرنے کے لیے بھی مترجم رکھتا ہے! مرنے والوں کے بارے میں ہماری عجیب منافقت ہے۔ بی بی آج بھی زندہ ہے! مگر سندھ مر رہا ہے! تھر میں
لوگ بھوک سے موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں غریب سندھی عوام رُل گئی ہے۔ مر رہی ہے! مگر بھٹو پھر بھی زندہ ہے! زندہ سب ہیں! شرمندہ کوئی نہیں! بے نظیر کے بچے مخملوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ پیدا ہوتے ہی صدر ‘ وزیر اعظم کی مہریں لگ جاتی ہیں۔ چلتے ہیں تو ریشمی قالینوں پر سفر کرتے ہیں تو ہیلی کاپٹروں پر۔ معلوم ہی نہیں بھوک کیا ہے؟ ہاں!انہیں وزیر اعظم بنا دیں کہ ان کے ساتھ ہمدردی ہے! خاتون بیمار ہے تو ہمدردی کا ووٹ شوہر کو اور بیٹی کو ملے!

 اس ملک میں دو آمریتیں رہیں! ایک فوجی دوسری جمہوری! پیپلز پارٹی کے مالک خاندان کی چوتھی نسل ہم پر حاکم بننے کے لیے تیار ہے۔ نون لیگ اپنے مالکوں کی تیسری نسل تخت نشین کرنا چاہتی ہے ! تعلیم لندن میں رہائش لندن میں اثاثے لندن میں علاج لندن میں عید۔ہر عید۔ لندن میں مگر حکومت پاکستان پر! 
غریبوں کے بچے اینٹوں کے بھٹوں پر مٹی میں مٹی ہو جاتے ہیں اور ان خاندانوں کی اولادیں پیدا ہوتے ہی کھرب پتی ہو جاتی ہیں۔ واہ! کیا قانون ہے! غریب بس میں لٹک کر دو گنا کرایہ دے کر عید منانے گھر پہنچتا ہے۔ یہ لوگ جہازوں میں بیٹھ کر عید منانے لندن پہنچتے ہیں کہ لندن ہی ان کا گھر ہے! بھکاری کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے مگر اسے دھتکار دیتے ہیں کہ جھوٹ بول رہا ہو گامگر چور‘ ڈاکو لینڈ کروزروں اور جہازوں میں بیٹھ کر آتے ہیں اور آپ سر پر بٹھاتے ہیں۔ کیا یہ منافقت نہیں؟ 
ان ہمدردیوں سے آپ کو کیا ملا؟ ان کی تو نسلیں سنور گئیں! میں ہمدردی کروں گا شرط یہ ہے کہ میرے ملک کے لوگوں کا علاج بھی مریم کی ماں کی طرح لندن کے ہسپتالوں میں ہو! یا پھر مریم کی ماں کا علاج انہی ہسپتالوں میں ہو جہاں غریب وینٹی لیٹر نہ ہونے سے سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں! ایسا نہیں ہوتا تو ہمدردی کس برتے پر مانگی جاتی ہے؟ اب میری جاہل قوم پھر ہمدردی میں انہیں سروں کو مسلط کر لے گی! ؎ 
رہیں گے جسموں پہ سر بہت دیر تک سلامت
 سروں پہ اک بادشہ بہت دیر تک رہے گا 
ہاں! میں جذباتی ہو رہا ہوں ہاں! میں غصے میں ہوں بلاول جیسا غیر ملکی اس لیے وزیر اعظم بن سکتا ہے کہ اس کا باپ صدر رہ چکا ہے!ماں اور نانا وزیر اعظم رہ چکے ہیں! مریم اس لیے اقتدار میں آنا اپنا حق سمجھتی ہے کہ اس کا والد وزیر اعظم رہ چکا ہے! یہ جاگیریں ہیں! فضل الرحمن اور اسفند یار ولی اس لیے پارٹیوں کے صدر ہیں کہ یہ صدارتیں وراثت میں ملی ہیں! ان کے والد بھی پارٹیوں کے صدر تھے! شریف خاندان۔ بھٹو زرداری خاندان‘ فضل الرحمن خاندان ولی خان خاندان یہ پارٹیوں کے مالک ہیں۔ ان کے بعد ان کی اولادیں مالک بنیں گی! لعنت ہے ایسی جمہوریت پر نہیں چاہیے ایسی جمہوریت! مجھے صرف پاکستانیت چاہیے! مجھے کسی چور ڈاکو لٹیرے منی لانڈرر کسی مفت خورے سے کوئی ہمدردی نہیں! مجھے عوام سے بھی کوئی ہمدردی نہیں جو ان خاندانوں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔‘‘ 

عامر اشفاق صاحب سے رابطہ نہ ہو سکا! ان کی یہ تحریر تشکر کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے!

Saturday, June 16, 2018

خانہ بدوش ‘ کھوتا اور کتا

کھوتا پنجابی کا لفظ ہے۔ اگر آپ کو اس کا معنی نہیں  معلوم تو ،جیسا کہ ابن انشا نے تجویز کیا تھا ، کسی پنجابی سے پوچھ لیجیے 
…………………

پانی پت کی پہلی لڑائی جب ہوئی ہے تو میں ابراہیم لودھی کے ساتھ تھا۔ 

میں پیدائشی خانہ بدوش!!میرا کل سرمایہ ایک کھوتا جس پر چیتھڑوں سے بنا ہوا خیمہ لادتا تھا اور ایک کتا جو ہمیشہ میرے اور میرے کھوتے کے پیچھے پیچھے چلتا تھا! 

یہ 1526ء تھا۔ ابراہیم لودھی کے ساتھ میرا عہد یہ تھا کہ حضور!یہ جان جسم سے نکل جائے گی مگر وفا کے دامن پر داغ نہیں لگے گا!تاہم جیسے ہی میں نے محسوس کیا کہ مغل حملہ آوروں کی توپوں کے سامنے لودھی کے ہاتھیوں کا کھڑا ہونا مشکل ہے‘ میں نے خیمہ اکھاڑا‘ کھوتے پر لادا اور لودھی کی لشکر گاہ سے نکلنے کی ٹھانی۔ اب یہاں یہ مصیبت آن پڑی کہ کھوتا اور کتا دونوں اَڑ گئے۔ کہنے لگے مالک! ہمارا مشورہ یہ ہے کہ پیمانِ وفا نبھائو اور لودھی سے دغا نہ کرو! دونوں کو میں نے سمجھایا کہ زمینی حقائق کو دیکھنا پڑتا ہے مرتے کیا نہ کرتے‘ دونوں ساتھ چل پڑے ۔ بہر طور کھوتے کو میں نے کتے سے یہ کہتے سنا کہ بھائی کتے! یہ انسان بھی کیا چیز ہے! دغا بازی اس کی سرشت میں ہے! ہمیشہ مفتوح کی پیٹھ میں خنجر بھونکتا ہے اور فاتح کے قدموں میں جا گرتا ہے! 

ہمایوں تخت نشین ہوا تو وراثت میں سلطنت کے ساتھ میں بھی اسے ورثے میں ملا۔ پھر شیر شاہ سوری کا سورج بلند ہونے لگا۔ جس دن دونوں میں فیصلہ کن جنگ ہونی تھی اس سے ایک دن پہلے رات کے اندھیرے میں شیر شاہ سوری کے کیمپ میں گیا اور شیر شاہ سے ملاقات کی! دوسرے دن جیسے یہ لڑائی کا پانسا پلٹا میں نے کھوتے پر خیمہ لادا‘ کتے کو لیا اور شیر شاہ سوری کے پاس آ گیا۔ شیر شاہ سوری کے وارث کمزور ہونے لگے اتنے میں خبر پھیلی کہ ہمایوں نے ایران سے واپس آ کر کابل پر قبضہ کر لیا ہے۔ میں نے فوراً کتے کے ہاتھ وفاداری کا پیغام بھیجا۔کتے نے کافی چوں چرا کی اور پھر ایک لیکچر وفاداری کے فوائد پر دیا مگر میں نے اسے ڈانٹ کر کابل روانہ کر دیا۔ ہمایوں جیسے ہی دریائے سندھ عبور کر کے پنجاب میں داخل ہوا میں سامنے استقبال کے لیے کھڑا تھا۔ 

پھر بیرم خان اکبر کا سرپرست بنا۔ پانی پت ہی کے میدان میں دوسری جنگ ہوئی۔ ہیمو بقال کو میں نے احتیاطاً ایک خفیہ پیغام بھیج رکھا تھا مگر نوبت نہ آئی۔ اس کے بعد اکبر کا سورج روشن ہی رہا۔ میں اس سے وابستہ رہا۔ شاہ جہان کے بیٹوں میں دارا شکوہ کی تخت نشینی کے آثار نمایاں تھے۔ بادشاہ کا جھکائو بھی اسی کی طرف تھا میں نے اپنی دوربین نگاہوں سے دیکھ لیا تھا کہ دارا بادشاہ بنے گا یا اورنگ زیب! یہی سیاست دان کا وصف ہے کہ وہ چڑھتے سورج کو چڑھنے سے پہلے پہچان لیتا ہے۔ اسی لیے میں نے مراد اور شجاع کو کبھی اہمیت نہ دی۔ اور دارا سے وابستہ رہا۔ پھر جب دیکھا کہ اورنگ زیب کا پلہ بھاری ہو رہا ہے تو ایک بار پھر خیمہ اکھاڑا‘ کھوتے پر لادا‘ کتے کو ساتھ لیا اور اورنگزیب کے حضور حاضر ہو گیا۔ گزشتہ غلطیوں کی معافی مانگی اور تاحیات وفاداری کا حلف اٹھایا۔ میں نے نوٹ کیا کہ کھوتا اور کتا مسلسل سرگوشیوں میں گفتگو کر رہے تھے! رنجیت سنگھ کا بول بالا ہوا تو میں تخت لاہور سے وابستہ ہوگیا۔ مگر میرے وژن نے خبردار کر دیا تھا کہ رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب انگریزوں کے قبضے میں ہو گا۔ چنانچہ اس کی زندگی ہی میں میں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ خفیہ روابط کی ابتدا کر دی تھی! خود رنجیت سنگھ نے پیش گوئی کی تھی کہ انگریز بہادر پورے برصغیر پر چھا جائے گا۔

1857ء کی جنگ آزادی چھڑی تو میں نے ہر جگہ انگریزوں کی مدد کی ان کی میموں اور بچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ انگریز غالب آ گئے۔ مجاہدین کو پھانسیاں ہوئیں۔ مجھے جاگیر ملی۔ شمار طبقہ اشرافیہ میں ہونے لگا۔ عید کے دن میں بھی شملے والی پگ پہن کر‘ اچکن زیب تن کر کے انگریز ڈی سی کی کوٹھی کے لان میں دوسرے اشراف کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔ جیسے ہی چپڑاسی اندر سے آ کر اعلان کرتا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے تو ہم سب اشراف ایک دوسرے سے گلے ملتے! کھوتا اور کتا ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہے۔ سچی بات یہ ہے کہ انگریزی دور میں استحکام نصیب ہوا۔ خانہ بدوشی کو آرام رہا۔ یونینسٹ پارٹی انگریزوں کی وفادار تھی میں بھی اس میں شامل ہوگیا۔ 

پھر زمانے نے پلٹا کھایا۔ انگریزوں کے چل چلائو کے آثار ظاہر ہونے لگے!میں نے یونینسٹوں کو خدا حافظ کہا اور جناح صاحب کی مسلم لیگ میں شامل ہو گیا۔ پنجاب میں ممدوٹ اور دولتانہ کے کیمپ الگ الگ ہوئے تو میں نے دونوں سے راہ و رسم رکھی! ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تومیں ہی تھا جس نے سیاست دانوں کے خلاف ایک طویل چارج شیٹ تیار کی اور ایوب خان کے حوالے کی! یہ تجویز بھی میں ہی نے دی تھی کہ اسے امیر المومنین کہا جائے! مگر تجویز اپنی موت آپ مر گئی۔ تاہم ایوب خان مجھ پر اعتماد کرتا تھا! 

پھر پاکستان کے افق پر ذوالفقار علی بھٹو نمودار ہوا۔ میں نے اس کا گہرا مطالعہ شروع کیا۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد پڑی تو میں اس میں شامل ہو گیا۔ ایک خفیف سا امکان تھوڑی دیر کے لیے پیدا ہوا کہ مجیب الرحمن وزیر اعظم بنے گا۔ میں نے اُسے تحائف بھیجے۔ تاہم ملک دو لخت ہوگیا۔ میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر بن گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے تختہ الٹا تو میں اسی رات ایک جاننے والے کی سفارش لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور پیپلز پارٹی کے ’’خطرناک‘‘ ارکان کی فہرست اسے دی! شوریٰ کا تصور بھی بنیادی طور پر میرا ہی تھا۔ پھر آموں والا جہاز کریش ہوا۔ بینظیر بھٹو حکمران بن گئیں۔ میں نے خیمہ اکھاڑا۔ کھوتے پر لادا کتا ساتھ لیا اور پیپلز پارٹی کی طرف چل پڑا۔ کھوتے اور کتے نے پھر بکواس شروع کر دی ۔ میں نے ڈانٹ پلائی اور کھوتے کے پتر اور کتے کے بچے کو سمجھایا کہ زمینی حقائق تبدیل ہو گئے ہیں! انسان کی نگاہ دور رس جہاں دیکھ سکتی ہے وہاں صابر کھوتا اور وفادار کتا نہیں دیکھ سکتے۔ یہ الگ بات کہ کھوتا اور کتا ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتے کہ انہیں انسان نہیں بنایا! 

1988ء اور 1999ء کے درمیان کبھی پیپلز پارٹی کی حکومت آئی کبھی مسلم لیگ نون کی! ان گیارہ سالوں میں میں نے چار بار پارٹیاں بدلیں۔ چار بار خیمہ اکھاڑا اور کھوتے پر لادا۔ کتا تنگ آ گیا مگر وفادار تھا۔مسلسل خانہ بدوشی کے باوجود ساتھ نہ چھوڑا۔ میاں صاحب نے فضا میں جنرل پرویز مشرف کا تختہ الٹا تو فوج نے زمین پر میاں صاحب کا بستر لپیٹ دیا۔ میں اس وقت مسلم لیگ نون کا رکن تھا۔ فوراً پرویز مشرف سے رابطہ ڈھونڈا۔ کامیاب ہوا۔ پیپلز پارٹی کے ’’پیٹریاٹ‘‘ کا تصور اسے میں نے ہی دیا۔ نیب کا آئیڈیا بھی میرا تھا۔ میں نے ہی سمجھایا کہ سیاست دانوں کی فائلیں تیار کرائو دکھائو اور اپنے ساتھ ملائو! 2008ء میں پیپلز پارٹی نے وفاق میں اور نون لیگ نے پنجاب میں حکومت سنبھالی۔ میں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ مگر راتوں کو لاہور جاتا اور نون کی قیادت سے ملتا۔ انہیں پیپلز پارٹی کے راز پہنچاتا۔ واپس وفاقی دارالحکومت میں آتا تو زرداری صاحب کو نون لیگ کے عزائم سے خبردار کرتا! ابن الوقتی میں ایسا کمال حاصل کیا کہ سلمان فاروقی جیسے اس میدان کے شاطر بھی رشک کرنے لگے! 

2013
ء 
میں مسلم لیگ نون جیت گئی میں نے خیمہ اکھاڑا۔ کھوتے پر لادا اورجاتی امرا حاضر ہو گیا۔ میاں صاحب ناراض تھے۔ مگر میں نے مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا۔ محل کے دروازے پر خیمہ نصب کیا صدقے کے بکرے ذبح کیے۔ سری پائے حلیم اور ہریسہ کی دیگوں کے انبار لگا دیے۔ میاں صاحب انسان تھے‘ خوشامدکی کب تک مدافعت کرتے۔ نون لیگ میں شامل کر لیا۔ 

چند ماہ پہلے مجھے احساس ہوا کہ نون لیگ تو کرپٹ ہے۔ میاں صاحب کی جائیداد ملک سے باہر ہے! پارٹی پر خاندانی تسلط ہے۔ ملک کا مستقبل مجھے عمران خان کے ہاتھوں میں محفوظ دکھائی دیا۔ خیمہ اکھا ڑہا تھا کہ کھوتا اورکتا دونوں آ گئے۔ کھوتا کہنے لگا‘ مالک! میاں صاحب کی بیرون ملک جائیداد اور پارٹی پر ان کا خاندانی تسلط آپ کو گزشتہ پانچ سال کیوں نہ دکھائی دیا! یہ سب کچھ آپ کو اس وقت کیوں نظر آنے لگا جب عمران خان کا کیمپ طاقت پکڑ رہا ہے! کتا بھونکا اور کہنے لگا! یہ وقت میاں صاحب کا ساتھ دینے کا ہے! آپ نے ان کے عہد اقتدار میں فوائد سمیٹے۔ اب ان پر بُرا وقت آن پڑا ہے تو بے وفائی کا ارتکاب مت کیجیے۔ ورنہ تاریخ آپ کا نام دانیال عزیز‘ ماروی میمن‘ مشاہد حسین اور زاہد حامد قسم کے مرغانِ بادنما کے ساتھ لے گی۔ میں نے کھوتے اور کتے دونوں کو چمکارا اور زمینی حقائق کا نیا رُخ دکھایا۔ دونوں سر جھکا کرکھڑے ہو گئے۔ میں نے خیمہ کھوتے پر لادا ۔ کتے کو ساتھ لیا اور اب تحریک انصاف کی طرف گامزن ہوں۔ 

سنا ہے عمران خان نے خانہ بدوشوں کے لیے دروازے کھول دیے ہیں! اگر انتخابات کے بعد اسے حکومت مل جاتی ہے تو میری پانچوں گھی میں ہیں! نہ ملی تو کوئی غم نہیں! خیمہ ہی تو اکھاڑنا پڑے گا اور بے وقوف کھوتے اور ضدی کتے کو نئے زمینی حقائق پر ایک لیکچر ہی تو دینا ہو گا۔

Thursday, June 14, 2018

نہیں مائی لارڈ نہیں ہر گز نہیں


‎یہ روایات زبان زدِ خاص و عام ہیں! کون مسلمان ان سے واقف نہیں؟

‎حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران حضرت عمر فاروقؓ نے ’’ابوالحسن‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ یہ ان کی کنیت تھی اور نام کے بجائے کنیت سے مخاطب کرنا احترام و عزت کی علامت تھا مگر حیدرِ کرارؓ نے اسے پسند نہیں کیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ انہیں عزت و احترام کے ساتھ مخاطب کر کے فریق ثانی کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے!

‎اور اس روایت سے بھی کون آگاہ نہیں کہ جب خلیفہ وقت قاضی کی عدالت میں داخل ہوئے تو قاضی احتراماً کھڑا ہو گیا۔ فرمایا یہ پہلی ناانصافی ہے جو تم نے روا رکھی!

‎عدالتوں پر ایسے اعتراضات کرنے سے کسی پر توہین عدالت کا الزام نہیں لگا۔ کوئی آسمان نہیں گرا!ریاست کا کوئی ستون منہدم نہیں ہوا۔ عدلیہ کے وقار میں رمق بھر کمی اس سے نہیں آئی!

‎حمزہ شہباز اور عائشہ احد ملک کو قاضی القضاۃ نے اپنے چیمبر میں بلا کر ان دونوں کے درمیان معاہدہ کرایا!

‎کیوں؟

‎کیا حمزہ شہباز اور عائشہ احد ملک ان ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں سے برتر ہیں جن کے ازدواجی معاملات پر مشتمل مقدمے سالہا سال سے عدالتوں میں پڑے ہیں؟ آخر ان میں ایسی خاص بات کیا تھی کہ ایک مصروف ‘ انتہائی مصروف‘ قاضی القضاۃ نے پورا ایک گھنٹہ ان کے معاملات کو ’’سلجھانے‘‘ میں صرف کیا! ایک طرف قاضی القضاۃ کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ وہ اتوار کو بھی مقدمے سنتے ہیں وہ بارہ بارہ گھنٹے مسلسل مسند عدالت میں بیٹھتے ہیں دوسری طرف کروڑوں پاکستانیوں میں سے وہ ایک صاحب اور صاحبہ کو چنتے ہیں اور اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ عدالت عام میں مقدمہ سننے اور فیصلہ کرنے کے بجائے انہیں اپنے حجلہ خاص میں بلا کر‘ ذاتی مداخلت سے صلح کراتے ہیں!

‎وہ حمزہ شہباز کو عدالت میں تجویز پیش کرتے ہیں کہ اگر تم نے شادی کی تھی تو طلاق دینے کا حق استعمال کرو! حمزہ کہتے ہیں کہ شادی ہوئی ہی نہیں! اس پر قاضی القضاۃ کہتے ہیں کہ اگر ثابت ہو گیا کہ بغیر شادی کے اکٹھے رہتے رہے تو یہ ایک بڑی خجالت ہو گی! اتنی فکر!! اتنی دلگیری!!

‎قاضی القضاۃ صرف ایک مرد یا صرف ایک عورت کے قاضی نہیں! وہ پوری قوم کی عدلیہ کے سربراہ ہیں۔ ان کے نزدیک ہر پاکستانی مرد اور ہر پاکستانی عورت اتنی ہی اہم اور خاص ہونی چاہیے جتنی عائشہ احد ملک اور حمزہ شہباز ہیں! کیا قوم کے ہر بیٹے اور ہر بیٹی کے باہمی ازدواجی معاملات اپنے چیمبر میں انہیں بلا کر اور بٹھا کر حل کرائیں گے؟ کیا وہ ہر پاکستانی کو خجالت 
(Major Embarrassment)
‎سے بچانے کے لیے اتنی ہی تشویش کا اظہار فرمائیں گے؟ اتنا وقت نکالیں گے؟

‎یہ ایک سیدھا سادا مقدمہ تھا اس قبیل کے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں مقدمے عدالتوں میں پڑے ہیں۔ دونوں میں سے ایک ضرور مجرم تھا! اگر نکاح نہیں ہوا اور عائشہ احد منکوحہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اور کر رہی ہیں تو وہ ایک مجرم ہیں! انہیں اس دروغ گوئی کی سزا ملنی چاہیے! انہوں نے ایک شریف شخص پر شادی کر کے مکرنے کا الزام لگایا! یہ کوئی معمولی جرم نہیں! یہ کسی کی زندگی خراب کرنے اور اسے خاندان میں‘ اپنے بیوی بچوں کی نگاہ میں رسوا کرنے والی بات ہے۔ سوسائٹی میں اس کی شہرت کو داغدار کرنے والا معاملہ ہے! اگر عورت مجرم ہے اور نکاح نہیں ہوا تو قاضی القضاۃ اس واشگاف جرم پر سزا کیوں نہیں سناتے؟ چیمبر میں بلا کر سزا سے بچا کیوں رہے ہیں؟ اور اگر فی الواقع نکاح ہوا تھا اور خاتون کے پاس‘ جیسا کہ وہ دعویٰ کرتی ہیں گواہ موجود ہیں ‘ تو پھر حمزہ مجرم ہیں وہ ایک شرعی نکاح سے انکار کر رہے ہیں اور ایک خاتون کو معاشرے میں ناگفتنی مسائل سے دوچار کر رہے ہیں! خاتون کا دعویٰ ہے کہ اس پر تشدد کیا گیا۔ اسے تھانوں میں بلایا گیا‘ اس پر مقدمے دائر کیے گئے اگر یہ سب سچ ہے تو چیمبر میں بلانے سے یہ سارے جرائم کس طرح دھل کر کالعدم ہو گئے؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر آپ کا تعلق ایک طاقت ور‘ زبردست خانوادے سے ہے تو آپ نکاح کر کے مکر جائیے منکوحہ کو ڈرائیے دھمکائیے اس پر تشدد کیجیے کرائیے‘ پھر جب وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے تو آپ سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہو‘ عدالت عظمیٰ آپ کو عدالت سے الگ ‘ اپنے چیمبر میں بلا کر کلین چٹ دے دے اور معاہدہ کرا دے! کسی جرم کی سزا نہ ملے! کیا اس سے ایک مثال ایک نظیر نہ قائم ہو گی کہ ایسا کر کے بچا سکتا ہے؟

‎پاکستانی عدالت عظمیٰ کے سربراہ ایک طرف پانی جیسے مسئلے کو حل کرانے میں رات دن ایک کر رہے ہیں۔ ایڑیاں رگڑتے مریضوں کی دلجوئی کے لیے قیمتی وقت نکال کر ہسپتالوں کے معائنے کر رہے ہیں دوسری طرف وہ ایک میاں بیوی یا مبینہ میاں بیوی کو اتنا وقت دے رہے ہیں اس قدر اہمیت دے رہے ہیں کہ معاہدے کی خوش خبری قوم کو بنفس نفیس دے رہے ہیں! خود اعلان کرتے ہیں!! دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے بجائے قاضی القضاۃ فیصلہ سناتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف کوئی بیان نہیں دیں گے اور یہ کہ معاہدے کی تفصیلات اور شرائط کو پبلک نہیں کریں گے؟ کیا قوم کو اس معاہدے کی تفصیلات جاننے کا کوئی حق نہیں؟ آخر اس معاہدے میں ایسی کون سی خفیہ شقیں ہیں کہ ان کے ظاہر ہونے سے قوم کو یا ملک کو یا دفاع کو خطرہ پیش آئے گا؟

‎اُس بچی کا باپ آخر کون ہے جس کے بارے میں عائشہ احد ملک کا دعویٰ ہے کہ وہ حمزہ شہباز کی بیٹی ہے؟ اس خفیہ معاہدے کا اثر اس بچی پر کیا پڑے گا؟ یہ سوال بھی ابھی تک موجود ہے کہ کیا نکاح ہوا تھا؟ یا عائشہ ملک کا دعویٰ جھوٹ اور بلیک میلنگ پر مبنی ہے؟ کیا کوڑے کرکٹ کو قالین کے نیچے چھپانے سے صفائی ہو جائے گی؟ اور معاملات کو جس طرح چھپا کر مسئلے کو وقتی طور پر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیا اس سے اصل حقیقت پر ہمیشہ کے لیے پردہ پڑا رہے گا؟اور کیا بچی کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے سے سارا معاملہ واضح نہیں ہو جائے گا۔؟

‎کب تک اس ملک میں انصاف کے پیمانے بڑوں کے لیے الگ اور عامیوں کے لیے الگ ہوں گے؟ کب تک ہر پاکستانی کو حمزہ شہباز اور عائشہ احد جتنی اہمیت نہیں دی جائے گی؟ ان سینکڑوں ہزاروں جوڑوں کی قاضی القضاۃ کے چیمبر میں حاضر ہونے کی باری کب آئے گی جن کے ازدواجی معاملات اسی نوعیت کے ہیں؟ اگر عائشہ احد سچی ہیں تو حمزہ شہباز کی صداقت اور امانت کتنے پانی میں ہے؟وہ الیکشن لڑنے لگے ہیں ! کل وہ صوبے کے حکمران اعلیٰ بن سکتے ہیں یا وفاق کا کوئی اعلیٰ عہدہ سنبھالیں گے ایک شخص جو اپنی مبینہ بیوی اور مبینہ بیٹی کے ساتھ معاملات درست طور پر طے نہیں کر سکتا‘ وہ حکمرانی کے فرائض انصاف سے کیسے سرانجام دے گا؟ اور اگر عائشہ احد جھوٹی اور بلیک میلر ہے تو پھر کیا یہ ایک نظیر قائم نہیں ہو جائے گی کہ آپ خاتون ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی بااثر اور امیر کبیر کی بیوی ہونے کا اعلان کر دیں!

‎سابق چیف جسٹس عمران خان کی ایک مبینہ بیٹی کا معاملہ لے کر آنے والے ہیں۔ کیا عمران خان بھی اس نظیر سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟ کیا انہیں اور سابق چیف جسٹس کو بھی چیمبر میں بلا کر قاضی القضاۃ یہ طے کرائیں گے کہ پبلک میں معاملے پر کوئی رائے زنی نہ کی جائے؟ اور یہ کہ معاہدہ خفیہ رہے گا؟ کیا خصوصی چیمبروں کے دروازے صرف حمزہ شہبازوں عائشہ احدوں اور عمران خانوں ہی کے لیے کھلتے رہیں گے؟ عام پاکستانیوں کے لیے نہیں؟


Tuesday, June 12, 2018

کیا صارف تاجر کا غلام ہے ؟


‎یہ ایک جانا پہچانا برانڈ ہے۔ مشہور و معروف نام۔ پاکستان کے ہر شہر میں ہر بڑے بازار میں اس کی شاخیں ہیں۔ متوسط طبقہ ٹوٹا پڑتا ہے۔ اکثر و بیشتر طبقہ بالا کے افراد بھی یہیں کا رخ کرتے ہیں۔

‎شب لباسی کے لیے کھلے گلے کی ٹی شرٹ پہننے کی عادت ہے۔ جو تھیں وہ بہت بوڑھی ہو چکی تھیں۔ بازار جانا کم کم ہوتا ہے۔ عسکری رہائشی کالونی کا شکریہ کہ پنڈی اسلام آباد کے سنگم پر ایک بڑا مال بنوایا ہے۔ سارے معروف ملکی برانڈ وہاں موجود ہیں۔ کیا برآمدے، اور کیا خود کار سیڑھیاں، گاہکوں سے چھلک رہی ہوتی ہیں۔

‎تین ٹی شرٹیں خریدیں۔ کھلے گلے کی، جسے لارڈ کلائیو کی امت ’’رائونڈ نیک‘‘ کہتی ہے۔ گھر آ کر ایک پہنی تو محسوس ہوا گلے سے تنگ ہے اور سوتے میں بے چین کرے گی۔ دوسرے دن واپس گیا۔ کہنے لگے اس کے بدلے میں کوئی اور شے دیکھ لیجئے۔ دیکھا۔ کوئی پسند نہ آئی۔ عرض کیا یہ واپس لے لیجیے۔ دو تو پیکٹ سے نکالی ہی نہیں۔ ایک پہنی، چند ثانیوں بعد اتار دی۔ ٹیگ اس کے ساتھ لگے ہیں۔ رسید یہ ہے۔ میری رقم واپس دے دیجئے۔ منیجر نے ایک ادائے بے نیازی سے ایک اذیت رساں مسکراہٹ بکھیری کہ سر! ری فنڈ (رقم کی واپسی) ہماری کمپنی کی پالیسی میں نہیں ہے۔ بحث کا فائدہ نہیں تھا۔ منیجر کمپنی کا ملازم تھا۔ مالک نہیں تھا۔ یوں بھی یہ طبقہ قابل رحم ہے۔ بارہ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی اور تنخواہ بالکل غیر اطمینان بخش۔

‎ٹی شرٹیں لے کر گھر آ گیا۔ برانڈ کی ویب سائٹ پر گیا۔ خریدا ہوا مال تبدیل کرنے کا ذکر موجود تھا۔ واپسی کا کہیں کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ رابطے کے لیے ایک فون نمبر دیا ہوا تھا۔ اس پر بات کی۔ عرض کیا مالک سے بات کرا دیجئے۔ جواب ملا ان سے بات نہیں ہو سکتی۔ جو کہنا ہے میل کردیجئے۔ یاد آ گیا کہ دوسرے ملکوں میں بڑی سے بڑی کمپنی، بڑے سے بڑے برانڈ کے سربراہ سے چند منٹوں میں براہ راست بات ہو سکتی ہے۔ خیر! مرتا کیا نہ کرتا! ایک میل لکھی۔ لکھا کہ پوری دنیا میں چھوٹے سے لے کر بڑے برانڈ تک سب کی ری فنڈ پالیسی ہوتی ہے۔ تین ڈالر کا یا تین لیرے کا رومال خریدیں یا بچوں کے لیے ایک ڈالر کا کیلکولیٹر، دو صفحے کی ری فنڈ پالیسی رسید کے ساتھ دی جاتی ہے۔ یہ بھی لکھا کہ پاکستان میں آپ لوگ گاہکوں کا جس طرح استحصال کر رہے ہیں اس کی مثال کسی مہذب ملک میں نہیں پائی جاتی۔ سوشل میڈیا کی طاقت کا آپ حضرات کو خوب اندازہ ہے۔ مہم چلی تو آپ کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ دوسرے دن ایک خاتون کی جو ای میل موصول ہوئی کہ فون نمبر درکار ہے۔ دو دن اور گزر گئے۔ پھر فون پر بتایا گیا کہ آپ کا مقدمہ ’’اوپر‘‘ بھیج دیا گیا ہے۔ ’’فیصلہ‘‘ آنے پر اطلاع دے دی جائے گی۔ تین چار دن بعد اطلاع دی گئی کہ ’’سپیشل کیس‘‘ کے طور پر آپ کو ری فنڈ کی اجازت دی جا رہی ہے۔ آئوٹ لیٹ پر جائیے اور اشیا واپس کر کے رقم لے لیجئے۔

‎مقدمہ ختم ہوا تو ایک اور تجسس ہوا۔ کہ دوسرے معروف برانڈز کی اس ضمن میں کیا پالیسی ہے؟ ویب سائٹوں پر گیا۔ کچھ کو فون کر کے معلوم کیا۔ معلوم ہوا ری فنڈ کی سہولت کہیں بھی نہیں ہے۔ دوسرے ملکوں کے تجربے یاد آئے۔ لندن سے خریدا ہوا کوٹ ایک چھوٹے سے قصبے میں اسی برانڈ کی دکان پرایک سال بعد واپس کیا۔ اشیائے خورونوش سے لے کر ملبوسات تک اور صابن سے لے کر دوا تک ہر شے، رسید دکھا کر، واپس کر سکتے ہیں۔ مدت کا تعین بھی دیا ہوا ہوتا ہے۔ کہیں دس دن، کہیں دو ہفتے، کہیں ایک ماہ کے اندراندر۔ کتابوں کی بین الاقوامی کمپنی ’’بارڈرز‘‘ خریدی ہوئی کتاب ایک ماہ کے بعد بھی واپس لے لیتی ہے۔ ہاں! کامن سینس کی بات ہے کہ واپس کی جانے والی شے استعمال نہ ہوئی ہو، ٹیگ موجود ہو اور رسید بھی دکھائی جائے۔

‎پاکستان میں عوام کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم کرنے والا طبقہ تاجر برادری کا ہے۔ اس کالم نگار کو اس بات سے شدید اختلاف ہے کہ سیاست دان سب سے زیادہ استحصال کرتے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ، جس کے لیے سابق وزیراعظم نے خلائی مخلوق کی اصطلاح وضع کی ہے یا پولیس زیادہ ظلم کرتی ہے یا سرکاری ادارے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کا ہر روز واسطہ کس سے پڑتا ہے؟ صبح سے لے کرشام تک کئی بار بازار جانا پڑتا ہے۔ ڈبل روٹی سے لے کر بلب تک، پھلوں سے لے کر ادویات تک، ملبوسات سے لے کرشادی کے زیورات اور لہنگوں تک، مکان کی تعمیر کے لیے ٹائلوں سے لے کر غسل خانے کی ٹونٹی تک، ہر شے کے لیے تاجر کے حضور حاضر ہونا ہوتا ہے اور تاجر کہتا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔ اب تبدیل تو ہونے لگا ہے، واپس نہیں ہوتا۔ یہ دستور پوری دنیا میں نرالا اور انوکھا ہے۔

‎تاجر برادری کے کچھ اور کارنامے بھی ہیں۔ پورے ملک میں ناروا تجاوزات، ٹیکس کی نادہندگی، اشیائے خورونوش میں مجرمانہ ملاوٹ، جعلی ادویات یہاں تک کہ معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ، فروخت کرتے وقت شے کا نقص چھپانا۔ دروغ گوئی! بات بات پر کہنا کہ یہ مال لے جائیے، اس کی کوئی شکایت نہیں آئی۔ پھر مذہبی طبقے سے گٹھ جوڑ، ایک اور دھاندلی یہ کہ بازار کھلنے اور بند ہونے کے اوقات میں سینہ زوری، حکومت نے کئی بار کوشش کی کہ کاروبار جلد شروع ہو اور سر شام بند ہو تاکہ توانائی کم سے کم خرچ ہو۔ اکثر ملکوں میں بازار صبح نو بجے کھلتے ہیں اور غروب آفتاب سے پہلے بند ہو جاتے ہیں۔ سوائے ریستورانوں کے اور ادویات کی دکانوں کے۔ پاکستان میں دکانیں دن کے بارہ بجے اور کئی اس کے بعد کھلتی ہیں۔ آدھی آدھی رات تک بازار کھلے رہتے ہیں۔ اوقات کی تبدیلی سے توانائی ٹنوں کے حساب سے بچائی جا سکتی ہے۔

‎یہ جملہ مسائل تاہم ضمنی ہیں۔ اصل معاملہ جو گاہک کے پیٹ پر ضرب لگا رہا ہے، ری فنڈ پالیسی کا نہ ہونا ہے۔ اس ضمن میں صارفین کو گہری نیند سے بیدار ہونا ہوگا، پاکستانی صارفین، تاجروں کے زرخرید غلام ہیں نہ ماتحت۔ یہ صارفین ہی ہیں جن کی بدولت یہ تاجر، یہ معروف برانڈ، یہ سیٹھ، یہ کمپنیاں کروڑوں اربوں کھربوں کما رہے ہیں۔ حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے، تو خدا کے بندو۔ گاہک کے ساتھ تو انصاف کا معاملہ کرو۔

‎ایک تو صارفین کو یہ کرنا ہو گا کہ کوئی شے خریدیں تو پوچھیں کہ ری فنڈ پالیسی کیا ہے؟ جواب یہی ملے گا، نہیں ہے۔ اس پر ویب سائٹ کا مطالعہ کیجئے۔ ای میل ایڈریس مل جائے گا۔ احتجاجی ای میل ارسال کیجئے کہ پوری دنیا میں خریدا ہوا مال واپس کرلیا جاتا ہے۔ آپ کیوں نہیں کرتے؟ اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیے۔ ورنہ ہم آپ کے برانڈ کا بائی کاٹ کریں گے۔ ان ای میلوں سے تاجروں کو احساس ہو گا کہ وقت بدل رہا ہے۔ پاکستان دنیا کا حصہ ہے۔ ایک الگ جزیرہ نہیں ہے۔ گاہک کو اس کے حقوق دینے ہوں گے۔

‎دوسری بڑی طاقت سوشل میڈیا کی ہے۔ اس کی پہنچ لاکھوں کروڑوں افراد تک ہے، بڑے بڑے کارنامے عوام نے سوشل میڈیا کے ذریعے سرانجام دیئے ہیں۔ ماضی قریب میں پھلوں کی مہنگائی کا توڑ، بائی کاٹ کے ذریعے کامیابی سے کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں بھی سوشل میڈیا پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ صارفین پر زور دیا جائے کہ شے خریدتے وقت ری فنڈ پالیسی کا پوچھیں۔ کمپنی سے رابطہ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں اور آخری حربے کے طور پر بائی کاٹ کریں۔

‎اس کالم نگار کو معلوم نہیں کہ ’’صارفین کی عدالتیں‘‘ 
"Consumer Courts" 
‎اس ضمن میں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں؟ کیا یہ پہلو ان کے دائرہ کار میں آتا ہے یا نہیں؟ اگر آتا ہے تو اس دروازے پر بھی دستک دینا ہوگی۔ یہاں یہ ذکر نامناسب نہ ہوگا کہ بسا اوقات چھوٹے دکاندار کا رویہ بڑے برانڈ یا بڑی کمپنی کی نسبت بہتر ہوتا ہے۔ چھوٹے دکاندار کو محلہ داری کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اس میں وہ نخوت اور تکبر بھی نہیں ہوتا جو بڑے برانڈ کو اپنی طاقت کی بنا پر لاحق ہو جاتا ہے۔ بڑے برانڈ، بڑی کمپنیاں اصل میں بے چہرہ 
(Face less)
 حکومتیں ہیں۔ سربراہ سات پردوں میں چھپا ہے۔ گاہک کی اس تک رسائی کو ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ سیلز پرسن یا منیجر بے اختیار بھی ہے اور بے نیاز بھی۔ اس کا ایک لگا بندھا ردعمل ہے۔ ’’یہ کمپنی کی پالیسی ہے۔‘‘

‎کمپنی کی پالیسی کو اب بدلنا ہوگا۔ خریدا ہوا مال واپس کرنا صارف کا بنیادی حق ہے۔

Sunday, June 10, 2018

رمضان- تب — اور —اب


نام تو بابے کا فضل تھا مگر سب بابا پھجا کہتے تھے۔ وسط ایشیائی سٹائل کی داڑھی تھی۔ سائڈوں سے کم اور لمبائی میں نسبتاً زیادہ۔ افطار کے وقت سے کافی دیر پہلے ہی ہم سب بچے مسجد کے اردگرد جمع ہونا شروع ہو جاتے تھے‘ کچھ سامنے گلی میں کچھ مسجد کے صحن میں کچھ ساتھ والے مکانوں کی چھتوں پر۔ پھر لمحہ لمحہ اشتیاق بڑھنے لگتا۔ نظریں بابے پر ہوتیں اور اس ڈرم پر جو مسجد کے صحن کے کونے میں تھا۔ مسجد کے ساتھ والی گلی مسجد کا صحن اور اردگرد کی چھتیں بچوں سے بھر جاتیں۔ بابا دونوں ہاتھوں میں لکڑی کے دو ڈنڈا نما ٹکڑے لیے کھڑا ہوتا پھر نہ جانے اسے کہاں سے اشارہ ملتا یا کون بتاتا کہ وقت ہو گیا ہے وہ لکڑی کے دونوں ٹکڑوں سے ڈرم کو بجانا شروع کر دیتا یہی وہ لمحہ ہوتا جب ہم بچوں پر عالم بے خودی طاری ہو جاتا۔ ایک جا دو ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ ہم پلکیں جھپکنا اور شاید سانس لینابھی بھول جاتے۔ ڈرم بجنے کا موسیقی سے دور دور کا کوئی تعلق واسطہ نہ تھا مگر ہم مسحور ہو جاتے۔ یہ ایک بہت بڑی انٹرٹینمنٹ تھی۔ ڈرم کافی دیر بجتا رہتا۔ ہم ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے۔ پھر بابا یہ تماشا بند کر دیتا وہ خود ہمیشہ ڈرم بجانے کے بعد روزہ کھولتا۔

ان دنوں ہمارے قصبے میں گھروں میں افطار دعوتوں کا رواج کم تھا‘ نہ ہونے کے برابر۔ مگر اس کی ایک اور صورت تھی ہر گھر سے دوسرے گھر میں افطار کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور بھیجا جاتا۔ پکوڑے یا پلائو‘ قورمہ یا زردہ‘ پھل یا شربت‘ گلیوں میں آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ سرپوشوں سے ڈھکے ٹرے گھروں کے درمیان گھومتے رہتے۔

ریفریجریٹر تھے نہ ایئر کنڈیشنر‘ برف خرید کر لانا ایک الگ سرگرمی ہوتی۔ برف والا برف کی چٹانوں کو پٹ سن کی بوریوں میں لپیٹ کر محفوظ رکھتا اس کے پاس ایک خوفناک سوا ہوتا جسے وہ برف کے بڑے ٹکڑے کے کلیجے میں مارتا اور بڑا ٹکڑا چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتا اس کے اردگرد گاہکوں کا ہجوم ہوتا قطار بندی کا اس وقت بھی رواج نہ تھا خوش قسمت گاہکوں کو دھکم پیل میں آگے جانے کا موقع ملتا‘ ہم بچے اندر اندر ہی سے آگے بڑھ کر اس کے پاس جا پہنچتے اور جب تک ہمیں برف نہ دیتا ہم مسلسل کہتے رہتے کہ اتنے کی برف چاہیے!

یہ عجیب بات ہے کہ پلٹ کر دیکھیں تو سردیوں کے روزے یاد نہیں آتے۔ گرمیوں کے سخت شدید گرمیوں کے روزے یاد آتے ہیں۔ دوپہر کو گلیوں میں ہو کا عالم ہوتا‘ جیسے قصبہ نہیں کھنڈر ہے‘ ظہر کی نماز کے لیے قیلولہ سے اٹھے ہوئے نمازی سر اور گردنیں ڈھانپ کر مسجد کا رخ کرتے پھر عصر کے بعد چہل پہل شروع ہوتی!

بہت سے رمضان موسم گرما کی تعطیلات میں آئے۔ یہ تعطیلات ہم اپنے گائوں میں گزارتے‘ وہی ہمارا ہل سٹیشن تھا۔ قصبے میں جہاں والد صاحب ملازمت کرتے تھے‘ بجلی کی سہولت میسر تھی مگر گائوں میں وہ بھی نہ تھی۔ دن بھر لوگ مسجد میں کوزے بھر بھر کر نہاتے اور بچوں کو پانی ضائع کرنے پر ڈانٹتے۔ مسجد کی ٹینکی میں پانی والا چمڑے کی مشک سے پانی ڈالتا‘ پانی والے کو ’’خادم‘‘ کہا جاتا تھا۔ ایک وقت میں وہ کنوئیں سے دو مشکیں اپنے گدھے پر لاد کر لاتا۔ کنواں گائوں سے کچھ فاصلے پر تھا۔شام کے بعد وہ ٹوکرا اٹھائے گھر گھر دروازے دروازے روٹی مانگتا کچھ مخیر گھرانے اسے ساتھ سالن بھی دیتے۔ کئی دفعہ وہ پانی ٹینکی میں ڈالتا تو ہم بچے اسے غور سے دیکھتے - چمڑے کی ڈوری سے مشک کا منہ کس کر بندھا ہوتا۔ اس ڈوری کو وہ کھولتا۔ بہت سے بل نکالتا پھر مشک کا منہ ٹینکی کے دہانے میں ڈال کر مشک کو پیچھے سے اوپر کرتا پانی ٹینکی میں منتقل ہو جاتا۔ پھر وہ اگلے پھیرے کے لیے کنوئیں کا رخ کرتا۔ اب جب مشکیں خالی ہوتیں تو اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر وہ خود گدھے پر سوار ہو جاتا یوں کہ دونوں پائوں ایک طرف ہوتے۔ کچھ مخصوص گھروں میں بھی وہ پانی ڈالتا۔ یہ وہ گھر ہوتے جن کی عورتیں کنوئیں سے گھڑے بھر کر خود نہ لاتیں ان میں ہمارا گھر بھی شامل تھا۔ دادی جان پردہ تو نہیں کرتی تھیں مگر گھڑے سر پر رکھ کر پانی کبھی نہ لائیں۔ ہاں کپڑے دھونے کے لیے گائوں سے باہر واقع تالابوں میں جنہیں وہاں ’’بنھ‘‘ کہا جاتا تھا خود جاتیں۔ ان کے سر پر میلے کپڑوں کا گٹھٹر ہوتا ایک ملازمہ ٹائپ لڑکی کڑاہی‘ ایلومینیم کی پرات اور صابن اٹھائے ساتھ ہوتی ہم بچوں کے لیے یہ پکنک کا موقع ہوتا جتنی دیر خواتین کپڑے دھوتیں ہم کھیلتے۔ محبوب ترین کھیل گیلی ریت سے مکان بنانا ہوتا پائوں کے اوپر گیلی ریت جماتے۔ پھر آہستہ سے پائوں پیچھے کھینچ لیتے۔ لیجیے مکان تیار ہو جاتا۔ پھر ہمیں مائیں دادیاں آوازیں دیتیں۔ نہلائے جاتے جھاڑیوں پر ٹنگے کپڑے اتنی دیر میں سوکھ چکے ہوتے وہ پہنائے جاتے۔ واپسی کا منظر سخت اداس کرنے والا ہوتا۔ جن چولہوں پر کپڑے دھونے کے لیے پانی گرم کیا گیا تھا ان کی راکھ ٹھنڈی ہو کر رو رہی ہوتی۔ گیلی ریت کے گھروندے ہمیں بلا رہے ہوتے کہ ٹھہر جائو ابھی اور بھی کھیلو‘ مگر ہم واپس گائوں کا رخ کرتے!

سخت گرمیوں کے روزوں میں گائوں میں پتلی نمکین لسی افطار کا بہترین مشروب ہوتا یہ کثیر مقدار میں پی جاتی۔ بعض دفعہ لسی میں بکری کے دودھ کی تازہ دھار ڈالی جاتی۔ ہمارے علاقے میں اسے ’’تریڑ‘‘کہتے تھے۔ نہ جانے وسطی پنجاب میں کیا کہتے تھے۔ مگر یہ وہاں بھی ضرور پی جاتی ہو گی! افطار کے بعد مرد مسجد کا رخ کرتے۔ نماز پڑھ کر آتے تو کھانا کھاتے۔ مرد چارپائیوں پر بیٹھ کر اور خواتین پیڑھیوں پر بیٹھ کر کھانا کھاتیں۔ کئی بار دیکھا کہ مسجد میں افطار کا وقت ہوا تو بابوں نے اپنی اپنی جیب سے نمک کے ٹکڑے نکالے۔ انہیں چاٹ کر افطار کیا پھر نماز پڑھی اور گھر آ کر کھایا پیا۔ کیا لوگ تھے۔لوہے کی طرح مضبوط ۔ چٹانوں کی طرح سخت! گرمی کی شکایت نہ پیاس کا واویلا۔ روزہ رکھ کر کڑکتی چلچلاتی دھوپ میں ہل چلاتے۔ گندم کاٹتے‘ مویشیوں کو پانی پلانے کے لیے تالابوں جوہڑوں کنوئوں کو لے جاتے۔ سروں پر ایندھن کے پہاڑ جتنے گٹھڑ اٹھا کر واپس گائوں لاتے۔ یہی نہیں ایک دوسرے کے کام بھی آتے۔ مزدور اور لیبر نام کی مخلوق ان دنوں ابھی وجود میں نہیں آئی تھی۔ مکان کی تعمیر ہوتی یا کھلیان میں ’’گاہ‘‘ کا موقع ہوتا‘ شادی کا سماں ہوتا یا کسی کے ہاں موت واقع ہو جاتی سب وہاں کام کرتے جس کا کام ہوتا وہ صرف کھانے کی میزبانی کرتا۔ موت والے گھر میں قبر کی کھدائی سے لے کر تدفین تک‘ باہر سے آنے والے سوگواروں کی مہمانی سے لے کر انہیں رخصت کرنے تک سارا کام گائوں والے کرتے۔صاحب واقعہ کو اس موقع پر کسی تردد میں نہ ڈالا جاتا۔ بعد میں وہ اخراجات پر اٹھی رقم ادا کر دیتا۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا کہ اخراجات بتاتے وقت ایک پیسے کی کیا‘ ایک دھیلے کی بھی غلط بیانی ہوتی۔

آج اس گئے گزرے افراتفری اور نفسا نفسی کے زمانے میں بھی میرے گائوں میں یہ رواج پتھر کی لکیر کی طرح ہے کہ جہاں موت کی خبر ملی وہاں اسی لمحے کام روک دیا جاتا ہے۔ ٹریکٹر بند کر دیا جاتا ہے‘ مکان کی تعمیر رک جاتی ہے۔تھریشر خاموش ہو جاتا ہے۔ تدفین تک کوئی کام نہیں ہوتا۔ موت والا گھر شیعہ ہے یا سنیّ‘ سب وہاں جمع ہوتے ہیں سب کام کرتے ہیں عمر رسیدہ حضرات کام تقسیم کرتے ہیں‘ جوان سر جھکا کر احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ جنازے پر شیعہ سنی سب حاضر ہوتے ہیں۔باہر سے آنے والے سوگواروں کو کھانا کھلائے بغیر جانے نہیں دیا جاتا۔ گائوں والے دیوار بن کر واپسی کا راستہ مسدود کر دیتے ہیں۔ اب تو دنیا ہی اور ہے۔ ایک اصطلاح نکلی ہے’’افطار ڈنر‘‘ اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ درجنوں آئٹم آپ افطار میں تناول فرمائیں پھر مشروبات نوش جان کریں۔ چائے بھی پئیں اور دس منٹ بعد پھر ڈنر کریں!! فارسی کا شعر ہے ؎

گرچہ خدا گفت کلوا واشربو ا

لیک نہ گفتست کُلوا تا گُلو

کہ مانا اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ کھائو پیو مگر یہ کہاں فرمایا کہ گلے تک اپنے آپ کو بھر لو!!


Saturday, June 09, 2018

کتاب جو ابھی شائع نہیں ہوئ



‎پہلی شادی عمران خان نے غیر ملکی عورت سے کی اور وہی غلطی کی جو غیر ملکی عورتوں سے شادی کرنے والے پاکستانی کرتے ہیں۔

‎ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ غیر ملکی بیوی پاکستان آ کر ہنسی خوشی آباد ہوئی ہو جو مثالیں ملتی ہیں وہ اس قدر کم ہیں کہ ان سے قاعدہ کلیہ نہیں بنتا۔ اس لیے کہ محاورہ ہے ؟؟الشاذ کالمعدوم‘‘ جو کبھی کبھار ہوتا ہے وہ نہ ہونے جیسا ہوتا ہے۔

‎غیر ملکی عورتوں سے جن پاکستانیوں کی شادیاں کامیاب ہوئی ہیں ان میں سے بھاری تعداد وہ ہے جن میں مرد بیوی کے ملک ہی میں رہتا ہے۔ اسی کا رنگ اوڑھ لیتا ہے، اس کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے یا بچوں کے مستقبل کی خاطر، بچوں کو ماں اور باپ کے درمیان تقسیم ہونے سے بچانے کی خاطر قربانی دیتا ہے۔

‎مصطفی زیدی نے یورپی خاتون سے شادی کی تھی۔ پھر ایک نظم کہی

‎ ہم پر ہنسنے والے بچو آئو تمہیں سمجھائیں

‎جس کے لیے اس حال کو پہنچے اس کا نام بتائیں

‎ اس نظم میں آگے چل کر کہا

‎ع اٹھارہ گھنٹوں کا دن اور چھ گھنٹوں کی رات

‎جو پاکستانی غیر ملکی عورتوں سے شادی کرتے وقت یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان آ کر رہ لے گی، انہیں ان لاکھوں پاکستانی عورتوں کو دیکھنا چاہیے جو ایک دفعہ یورپ یا امریکہ جا کر چند دن رہ کر واپس پاکستان آنے کا نام نہیں لیتیں۔ جمائما جتنا عرصہ پاکستان رہیں ان کی ہمت تھی اور ایک نجیب خاندانی پس منظر۔ زمین اور آسمان اور ہوائیں چاندنی بادل دھوپ چھائوں پانی سب کچھ مختلف۔ خاندانی نظام کی دنیا یکسر مختلف۔ پھر خوش قسمتی یا بدقسمتی سے عمران خان میدان سیاست کے شہسوار تھے۔ جس معاشرے میں سیاست دان اتنے ’’تعلیم یافتہ‘‘ اور ’’خوش نیت‘‘ ہوں کہ انہیں لندن کے محلے مڈل سیکس میں جنس نظر آ رہی ہو اور فتویٰ دیں کہ اس محلے کا نام لینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہو، اس معاشرے میں ایک یورپی عورت کا رہنا معجزے سے کم نہیں اور معجزوں کے زمانے لد چکے۔

‎عمران خان کے بچے یورپ میں ماں کے پاس ہیں۔ اخبار بینوں کو یاد ہو گا حال ہی میں چیف جسٹس اپنے داماد پر ناراض ہوئے تھے کہ کسی کی سفارش کی تھی۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر کا معاملہ تھا۔ غیر ملکی عورت سے شادی کی۔ بچے پاکستان لے آیا۔ بچوں کی ماں تعاقب میں آئی، اسے واپس نہ جانے دیا۔ اگر عمران خان اصرار یا ضد کرتے کہ بچے پاکستان میں رہیں گے تو صورت حال زیادہ مختلف نہ ہوتی۔ غیر ملکی عورتوں سے شادی کرتے وقت پاکستانی مرد اس قدر کوتاہ بیں ہو جاتا ہے کہ دس پندرہ بیس سال بعد کے منظر کا تصور

(Visualise) 
‎نہیں کرتا۔

‎عمران خان کی دوسری شادی جو ریحام خان سے ہوئی، انتہائی مضحکہ خیز پیش منظر کے ساتھ ہوئی۔ نہ جانے یہ روایت جو عام ہے کس حد تک درست ہے کہ جنرل حمید گل مرحوم نے عمران خان کو منع کیا تھا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ لڑکا جب بیرون ملک سے اعلیٰ ترین ڈگریاں لے کرواپس آتا ہے تو اس کے بظاہر ان پڑھ و الد مامے چاچے شادی کے ضمن میں جو مشورے دیتے ہیں وہ صائب ہوتے ہیں اس لیے کہ ان معاملات میں ڈگریاں نہیں، زندگی کے تجربے کام آتے ہیں۔ نہیں معلوم ریحام خان سے ازدواج کا فیصلہ کرتے وقت عمران خان نے خاندان کے بڑوں سے مشورہ کیا یا نہیں۔ بہر طور اس شادی کی اس قدر تشہیر ہوئی کہ سنجیدہ لوگوں کو گھن آنے لگی۔ پہلے تو عقد کی تاریخ چھپائی گئی۔ یہاں تک کہ ٹوہ لگانے والے معروف صحافیوں کو واہ واہ کرانے کا موقع مل گیا۔ پھر اندرون خانہ کی کون سی بات تھی جو میڈیا پر نہ آئی اور اچھالی نہ گئی۔ خواب گاہ کے معاملات، پالتو کتوں کے جھگڑے، ریحام خان کا پارٹی معاملات میں عمل دخل۔ ریحام خان ایک جاہ طلب خاتون تھی۔ پھر وہی ہوا جو ان معاملات میں ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان کا ریحام خان سے شادی کرنے کا فیصلہ ایک وقتی ابال کا نتیجہ تھا۔ اس معاملے میں اس نے گہرائی او رگیرائی سے سوچ بچار نہ کی اورایک ٹین ایجر کی طرح جھٹ منگنی پٹ بیاہ۔ جذبات کی رو میں بہہ کر، یا ظاہر کی کشش اور خوبصورتی سے گھائل ہو کر اپنے آپ کو ایک ایسی جگہ لا پھینکا جہاں سبز، پھولوں والی ٹہنیاں پڑی تھیں مگر جن کے نیچے کنواں تھا جو سبز، پھولوں والی ٹہنیوں سے ڈھکا ہوا ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آ رہا تھا۔

‎پھر عمران خان نے تیسری شادی کی۔ یہ کہنا تو مناسب نہ ہوگا کہ اس شادی کے ضمن میں اس نے تین صریح غلطیاں کیں مگر یہ ضرور کہنا چاہیے کہ اس نے تین اہم ترین پہلوئوں کو یا عوامل کو یا 
Factors 
‎کو مدنظر نہیں رکھا۔ یہ تین پہلو یا عوامل کیا تھے۔ ان کا بیان مناسب نہیں ہے، اس لیے کہ ان سطور کا لکھنے والا کسی بدشگونی یا کال جیبا (سیاہ زبان والا) ہونے کا الزام سر پر نہیں لینا چاہتا۔ دعا ہے کہ اس تیسری شادی کا انجام پہلی دو کی طرح افسوس ناک نہ ہو۔ خدائے بزرگ و برتر اسے کامیابی سے ہم کنار کرے اور خان صاحب کے لیے راحت کا باعث بننے کے علاوہ ’’ہن لباس لکم و انتم لباس لہن ‘‘کا سامان ثابت ہو۔

‎ حمزہ عباسی ایک نوجوان ہے۔ جذبات سے بھرا ہوا۔ عمران خان کی محبت کا سمندر اس کے دل میں ٹھاٹیں مار رہا ہے مگر کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ نادانستہ نادان دوست کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ابھی اس نے زندگی کے گرم اور سرد نہیں چکھے۔ تجربوں سے اس کا دامن خالی ہے۔ میڈیا کی چکا چوند نے بہت سے ناپختہ نوجوانوں کو اتنی شہرت دے دی ہے کہ وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگے ہیں۔ ریحام خان کی مبینہ کتاب کو، جو ابھی منظر عام پر نہیں آئی حمزہ عباسی نے اور پھر پی ٹی آئی کے مختلف بزرجمہروں نے اس قدر تشہیر دی ہے کہ ریحام خان لاکھوں ڈالر بھی خرچ کرتی تو اتنی تشہیر حاصل نہ کرپاتی۔

‎رہا میڈیا تو کون نہیں جانتا کہ میڈیا دکانداری ہے اور وہ بھی چوبیس گھنٹوں کی۔ صوابی یا سانگلہ ہل کے کسی دور افتادہ گائوں میں کنویں سے پانی بھرتے وقت کسی دوشیزہ کا گھڑا ٹوٹ جائے تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے

‎؎ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق

‎نوحہ غم ہی سہی، نغمہ شادی نہ سہی

‎ سنجیدہ ترین اینکر حضرات بھی اس رن میں کود پڑے ہیں۔ عمران خان کی حالت قابل رحم ہے اگرچہ اس نے خود اس معاملے میں کوئی بات نہیں کی مگر ظاہر ہے سب کچھ سن اور دیکھ رہا ہو گا۔ حریف سیاسی جماعتیں اس بہتی گنگا میں کیوں نہ ہاتھ دھوئیں۔ ایک مخصوص سیاسی جماعت اس ضمن میں سیاہ ترین ماضی رکھتی ہے۔ بینظیر اور نصرت بھٹو کے ساتھ بدترین اخلاقی پستی اور سفلہ پن کا مظاہرہ کیا گیا۔ تصویریں اور کہانیاں اور کارٹون اور نام اور آوازے۔ ایک معروف سیاست دان نے جو، اب عمران خان کی ناک کا بال ہے، بینظیر کو کیا نہیں کہا۔ اسے دہرانے سے شرم آتی ہے۔ پھر ریحام خان کا حسین حقانی سے ملاقات کرنا بے سبب نہیں ہوسکتا۔ عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے اس ملاقات میں نشانیاں ہیں۔

‎کتاب شائع ہوئی ہے یا نہیں؟ کب شائع ہوئی ہے؟ کہاں سے شائع ہوئی ہے؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کالم نگار کا اندازہ یہ ہے کہ پہلے برطانیہ میں چھپے گی نہ پاکستان میں۔ بلکہ پہلے بھارت میں چھپے گی اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ انگریزی اور ہندی ایڈیشن دونوں بیک وقت بھارت سے شائع ہوں۔ اس لیے کہ ہمارے ہاں ایک سیاست دان ایسا بھی ہے جس کے لیے بھارت دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔ اگر اس کتاب کی بھارت میں اشاعت سے عمران خان کو اور اس کی سیاست کو دھچکہ لگتا ہے تو بھارت کی طرف سے اپنے پسندیدہ سیاست دان کے لیے یہ ایک قابل قدر تحفہ ہوگا۔

Thursday, June 07, 2018

آخری عشرے کی دعا


‎اے وہ جس نے جگنو میں روشنی کا دیا نصب کیا۔

‎جس نے اندھیری رات کے اوپر قندیلوں سے بھرے لاکھوں کروڑوں جھاڑ فانوس لٹکائے۔

‎جس نے درختوں کے چھوٹے چھوٹے پتوں کو شعور دیا کہ چھائوں بنیں، جس طرح کیڑے ریشم بنتے ہیں۔

‎اے وہ جس نے بے بضاعت مکھیوں کو شہد بنانے کا کام سکھایا۔ وہ شہد جس میں اینٹی بیاٹک ہیں جس میں شفا ہے اور جسے تو نے دنیا میں ہر شخص کو، اس کے مذہب سے قطع نظر مہیا کیا ہے۔

‎اے وہ جس نے چیونٹیوں کو قطار میں چلنا سکھایا اور خراب موسم کے لیے راشن سٹور کرنے کی منصوبہ بندی بتائی۔

‎اے قدرتوں اور طاقتوں کے مالک، ہماری مشکل بھی آسان کردے۔

‎اے وہ جس کی حمد و ثنا میں عظیم المرتبت فرشتے رات دن رطب اللسان ہیں، ہمارے حال پر رحم کر۔

‎اے خلاق عالم! تونے ہمیں کھانے کے لیے پیٹ بھر کردیا، ہمارے شکم بھرے ہوئے ہیں، ہمارے ریستوران گاہکوں سے چھلک رہے ہیں۔ ہماری افطار پارٹیوں کی میزیں مرلوں کے حساب سے لمبی چوڑی ہیں۔ ہمارے مخیر صاحبان دل نے ناداروں کے لیے شہر شہر قریہ قریہ کوچہ کوچہ دسترخوان بچھا رکھے ہیں جہاں مزدوروں سے لے کر سفید پوشوں تک سب بیٹھ کربھوک مٹاتے ہیں۔

‎اے کائنات کے مالک! مغفرت کے اس عشرے کے دوران ہم پر رحم فرما اور ہماری وہ بیماری دور کر جس میں ہم مبتلا ہیں اور خطرناک ترین پہلو اس مرض کا یہ ہے کہ ہم اس مرض سے بالکل بے نیاز ہیں۔ ہماری حالت اس شخص کی ہے جس کے جسم میں سرطان آخری سٹیج پر ہے اور وہ مرغن غذائیں اڑا رہا ہے، مستقبل کے منصوبے تعمیر کر رہا ہے، زمینیں خرید کر نقشے بنوارہا ہے جبکہ اجل کا لٹھ مار اس کے سر پر کاری ضرب لگانے والا ہے۔

‎ اے بن باپ کے عیسیٰ کو پیدا کرنے والے، اے موسیٰ کو اس کی ماں سے دودھ پلوانے کا انتظام کرنے والے، ہماری یہ بیماری منافقت کہلاتی ہے۔ اس کی ساری علامات ہم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ اس کی مکروہ ترین علامت جھوٹ ہے جس میں ہمارے بچے، ہمارے بڑے، ہماری عورتیں، ہمارے مرد، ہمارے بوڑھے، ہمارے رہنما سب مبتلا ہیں، ہم بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ہمارا مزدور، ہمارا ٹھیکیدار، ہمارا کروڑ پتی، ہمارا سیاستدان، ہمارا استاد سب صبح سے شام تک جھوٹ بولتے ہیں۔

‎ہمارا تاجر اس حوالے سے سرفہرست ہے۔ وہ کاشتکار سے جھوٹ بولتا ہے، خام مال بہم پہنچانے والے سے جھوٹ بولتا ہے، بجلی کے محکمے سے جھوٹ بولتا ہے، مزدور سے جھوٹ بولتا ہے، ٹیکس لینے والے سے جھوٹ بولتا ہے اور آخر میں گاہک سے جھوٹ بولتا ہے۔ اے دنیا کے صادق ترین اور امین ترین حضرت محمد مصطفی ؐ کے پروردگار! ہمارے تاجر کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ وہ مذہب کو اپنی فروخت بڑھانے کے لیے خوب استعمال کرتا ہے۔ دکان کا یا صنعت کا یا کاروبار کا نام کبھی حرمین رکھتا ہے کبھی مدینہ، کبھی مکہ کبھی باہر درود پاک لکھواتا ہے کبھی اوپر ماشاء اللہ کا بورڈ لگواتا ہے جبکہ تولتا کم ہے، ماپتا کم ہے، مال نقص والا بیچتا ہے، خریدا ہوا مال واپس کرتا ہے نہ تبدیل۔ جھوٹ بول کر گاہک کو نچاتا ہے۔

‎اے قوموں کے نجات دہندہ خدائے برتر و قدوس! ہمیں ان گندم نما جو فروشوں سے نجات دلا جن کا ظاہر متشرع ہے اور باطن کراہیت سے لبریز۔ جو ان تاجروں سے بھی بدتر ہیں جو دین کو مال بیچنے اور نفع بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اس لیے کہ یہ منافقین مذہب کوسیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا طرز زندگی پجارو اور ہیلی کاپٹر والا ہے۔ ان کے جلو میں گاڑیوں کے کارواں ہیں مگر ان کے مواعظ میں سادگی اور صبر کی تلقین ہے۔ ان کی پارٹیوں کے وزیر تنخواہ پوری لیتے ہیں اور خلق خدا کی دستگیری کے لیے ہفتے میں ایک بار مشکل سے دفتر میں آتے ہیں۔ زرد رنگ کے رومالوں کو کاندھوں پر لٹکانے والے ان منافقین سے اگر کوئی سائل، کوئی شہری، کوئی زخم خوردہ، ان کے ظالم وزیر کی شکایت کرے تو نوکیلے دانت نکال کر مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ وزیر صاحب کی کہیں کوئی ڈیل ہو گئی ہو گی۔ 
‎اے بہشت کو مقدس خوشبوئوں سے بھر دینے والے خدا! ہمیں ان عبائوں، قبائوں اور پگڑیوں سے نجات دلا کہ ان کے اندر سے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے ہیں۔ ہمارا دماغ پھٹنے کو ہے، ہمیں ان کھلتی ہوئی باچھوں سے بچا جنہیں دیکھ کر عفریت یاد آتے ہیں۔

‎ہمیں ان مذہب فروشوں سے رہائی دلا جو عطیات تو مذہبی تعلیم پھیلانے کے حوالے سے لیتے ہیں مگر ان عطیات کو اپنے اور اپنے خانوادوں کے شاہانہ معیار زندگی پر کسی حساب کسی کتاب کسی آڈٹ کسی ڈر کے بغیر باپ کے چھوڑے ہوئے ترکے کی طرح استعمال کرتے ہیں۔

‎اے شگوفے اور کلی سے تتلی کو رزق فراہم کرنے والے حی و قیوم! ہمیں ان منافقین سے نجات دلا جو عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے جذبات کی آگ سے کھیلتے ہیں۔ جھوٹے حوالے گھڑتے ہیں۔ اپنے پاس سے عبارتیں بنا کر دوسروں کے نام لگاتے ہیں۔ جن کی ذاتی زندگی تعفن کی سڑانڈ سے گل سڑ رہی ہے جو نوشگفتہ کونپلوں کو خواہش اولاد پر پہلو میں بٹھاتے ہیں، جو اپنی بیٹیوں کی ہم عمر لڑکیوں کو شادی کے جھانسے دیتے ہیں، جن میں فحش گوئی سے لے کر شاہد بازی تک ہر برائی موجود ہے مگر چہروں پر نقاب اور ہیں۔ عبائوں کے رنگ دودھ کی 
طرح سفید ہیں۔ عماموں کے شملے آسمانوں سے آنکھ ملاتے ہیں۔

‎ہم پر رحم کر اے خدا! ہمیں ان ظالموں سے نجات دے۔ ہمیں ایسے مذہبی رہنما عطا فرما جو روکھی سوکھی کھا کر ہمیں درس ہدایت دیں تاکہ اس درس ہدایت میں تاثیر ہو۔ تاثیر صرف تو پیدا کرتا ہے اے دلوں کے مالک! اے دل پھیرنے والے خدا! یا مقلب القلوب! ہمارے رہنمائوں کے دل پھیر دے ورنہ زمین کے اس بوجھ کو زمین کے اندر لے جا۔

‎اے قہار و جبار! تیرے پیغمبر کا فرمان ہے: ’’منافق کی تین علامات ہیں بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرتا ہے، امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرتا ہے۔‘‘ ہم سب، بلا استثنا منافق ہیں۔ سمندر پار وہ جو تیرے اور تیرے نبیؐ کے نام لیوا نہیں، وہ جھوٹ بولتے ہیں نہ وعدہ خلافی کرتے ہیں نہ امانت میں خیانت کرتے ہیں۔ وہ نادانستہ تیرے پیغمبرؐ کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں اور کامران و ظفریاب ہیں۔ جبکہ ہم پوری دنیا میں جھوٹے، وعدہ خلاف اور دغا باز مشہور ہیں۔ یہ اور بات کہ منافقین کا اصرار ہے کہ ہم نیک ہیں اور یہ کہ کرۂ ارض پر ہم سے زیادہ پوتر کوئی نہیں۔

‎اے باغوں میں صبا کے خوشگوار جھکورے چلانے و الے رب ذوالجلال! تیرا فیصلہ ہے کہ جیسے عوام ہیں، ویسے ہی حکمران ہوں گے۔ ہماری منافقت کا یہ حال ہے کہ ہم ہر حکمران، ہر سیاست دان ہر سیاسی جماعت پر تنقید کرتے ہیں مگر ہم عوام اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ ہم اپنی گلی گندی رکھتے ہیں۔ مکان بناتے وقت دوسرے کی زمین ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غریب رشتہ داروں سے تکبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ امیر رشتہ داروں کی خوشامد کرتے ہیں۔ دفتروں سے غیر حاضر رہ کر تنخواہیں پوری وصول کرتے ہیں، قرض لے کر مقررہ تاریخ پر ادا نہیں کرتے۔ برتنے کی عام شے پڑوسیوں سے مانگ کر واپس نہیں کرتے، یہاں تک پڑوسی کو یاد دلانا پڑتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو جھوٹ، دغا بازی، جعلی رسید سازی، فریب دہی، بجلی چوری سکھاتے ہیں۔ ہم اتنے پست ہیں کہ اپنے گھر کا کوڑا رات کو دوسرے کے دروازے کے سامنے ڈال دیتے ہیں۔

‎اے اللہ! ہم پر رحم کر، ہمیں منافقت سے نجات دلا، ہمیں اس سرطان سے شفا دے۔ منافق کو دیدار نصیب ہوگا نہ سایہ نہ شفاعت۔ ہم چوبیس گھنٹے اس رسولؐ کی نافرمانی کر رہے ہیں جس کا نام چوبیس گھنٹے لیتے ہیں۔ رحم! اے خدا رحم! رحم!

 

powered by worldwanders.com